لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جنوری ٢٠١٧
لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ
مقالہ برائے پی۔ایچ۔ڈی اردو
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد -پاکستان
مح ْقق :مقصود صفدر علی شاہ
مقصود حسنی
ایم اے اردو‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ تاریخ
ایم فل اردو مقالہ بابا مجبور -شخصیت اور ادبی خدمات
ڈاکٹر آف آرٹس،لسانیات‘ مقالہ
phenalogy of varios languages
‘پی ایچ ڈی جاپانی زبان کا لسانیاتی اور آوازوں کا نظامs
پوسٹ پی ایچ ڈی لفظیات غالب کا ساختیاتی مطالعہ
ڈی آیم پی ایس ‘ڈی ٹی آئی ‘ڈی بی آئی
شیر ربانی کالونی،قصور
پاکستان
نگران
ڈاکٹر سید معین الرحمن
پروفیسر ڈاکٹر نثا ر احمد قریشی
ترتیب
١۔ حر ِف آغاز
٢۔ غالب کے امرجہ سے متعلق الفاظ کی تہذیبی حیثیت
۳۔ غالب کے کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ
۴۔ غالب کے اردو تراجم کا لسانی جائزہ
۵۔ تلمیحا ِت غالب کی شعری تفہیم
۶۔ اصطلاحا ِت غالب کے اصطلاحی مفاہیم
٧۔ غالب کے ہاں مہاجر اور مہاجر نما الفاظ کے استعمال کا سلیقہ
۸۔ لفظیا ِت غالب کا ساختیاتیاتی مطالعہ
۹۔ خلاصہ
١٠۔ کتابیات
حر ِف آغاز
غالب جد ِت فکر کے حوالہ سے مجھے ہمیشہ متاثر کرتا رہاہے ۔ میں
نے بسات بھر اس کی غزل کا مطالعہ کیا۔ اسے جتنی بارپڑھا نیا ذائقہ
نیا سواد اور نئے مضامین ہاتھ لگے ۔ یہ سب اس کے لفظوں کے
باطن میں پوشیدہ مفاہیم کا کمال ہے۔ لگے بند ھے مخصوص اور
بعض مستعمل مفاہیم کی مدد سے مطالعہ ء غالب میں کا م نہیں
چلتا۔غالب کے لئے الگ سے لغت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
مطالعہ ء غالب کے لئے عموم سے پرے ہٹ کر فک ِر غالب تک رسائی
کے امکان روشن ہوسکتے ہیں ۔ اس انکشاف کے بعد میں نے غالب
کے لفظوں کو مطالعہ کی بساط پر رکھنے کا ارادہ کرلیا۔
‘‘لفظیا ِت غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ’’
درحقیقت فک ِر غالب تک کسی حدتک رسائی کی ناچیز سی کوشش ہے۔
اردو لفظیا ِت غالب سے متعلق معلومات کی فراہمی زیادہ سے زیادہ
موجود ،مستعمل اور امکانی مفاہیم تلاشنے کی کوشش کی ہے۔اس
سے غالب کے سوچ کے بہت سے نامعلوم ک ّر وں تک رسائی ممکن
ہوسکے گی ۔
جناب ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے ہمیشہ کی طرح میرے مطالعہ ء غالب
کے شوق کو پذیرائی بخشی اور موضو ع کی منظوری کے باب میں
تگ ودو فرمائی ۔ان کا کمال یہ ہے کہ ہر مشکل موقع پر میدان میں
اترتے ہیں ۔ ڈاکٹر سید معین الرحمن کی موت کے بعد مقالے کی
نگرانی کا مسئلہ بن گیا ایسے مشکل گزار لمحات میں انہوں نے میرے
پائے استقلال میں لرزش نہ آنے دی ۔سمجھ نہیں پارہا کہ ان کی
محبتوں کا کن الفاظ میں شکریہ اداکروں ۔
جناب ڈاکٹر سید معین الرحمن ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں ۔ وہ بعض
معاملات میں اوروں سے قطعی مختلف تھے ۔مثلاا
محبت اور شفقت کا سلیقہ انہیں آتا تھا ١۔
چیزوں کو بڑا’’ سانبھ سانبھ ‘‘ کررکھتے تھے ٢۔
۳۔ کام اور کام کرتے چلے جاتے تھے
مقالے کی نگرانی کا کام تو کل پرسوں کی بات ہے انہوں نے تو ہمیشہ
مجھے کام کرنے کا حوصلہ بخشا الف۔
تحقیقی کاموں میں رہنمائی فرمائی ب۔
کمال مہربانی سے کتب عنایت کیں ج۔
اپنی تحقیقی کاوشوں میں یاد رکھا د۔
میں ان کی عنایتوں اور محبتوں کا کیا شکر یہ ادا کروں ۔ موت نے
انہیں کسی کا نہ رہنے دیا۔ کاش کچھ اور جی لئے ہوتے ۔ ہاں دعا ہے
اللہ تعالی انہیں اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے اور خل ِد خاص میں
جگہ دے ۔
ڈاکٹر نجیب جمال ،ڈاکٹر صابر آفاقی ،ڈاکٹر محمد امین ،ڈاکٹر غلام
شبیر رانا ،پروفیسر امجد علی شاکر ،ڈاکٹر محمد عبداللہ قاضی ،ڈاکٹر
گوہر نو شاہی غالب پرکاوش وفکر کے حوالہ سے میری ہمیشہ
پذیرائی فرماتے رہے ہیں۔ ان احباب کا پیار میرے لئے بڑا معتبر اور
محترم ہے۔
یونس حسن ایسا شاگرداور دوست اللہ ہر کسی کو عنایت فرمائے ٍ
۔وہ لائیربری کے کام میں ہمیشہ میر ے ساتھ رہے ہیں۔ اس ذیل میں
انہوں نے کبھی وقت اور مصروفیات کی پرواہ نہیں کی۔ ان کی بیگم
محترمہ کوثر یونس حسن خصوصی شکریے کی مستحق ہیں کہ انہوں
نے یہ سب تحمل اور بردباری سے برداشت کیا۔ پروفیسر نیامت علی
بڑی محبت سے پروف ریڈنگ کے معاملہ میں تعاون فرماتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالعزیز سحر کے مسلسل رابطے کو بھلا کیسے اور کیونکر
بھولا جاسکتا ہے میں ان عزیزوں کا شکر گزار ہوں ۔
سید کنور عباس بڑا اچھا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تعلیمی
مصروفیات کے باوجود مجھے کبھی نظر انداز نہیں کیا اور بڑی دیانت
داری سے میری معاونت کی ہے
محترمہ رضیہ مقصود حسنی کی بات ہی کیا ہے۔ مقالہ کی تیاری کے
دوران نہ صرف میری ضروریات کا خیال رکھا بلکہ بعض حوالوں کی
تلاش میں بھی تعاون کیا ہے۔
ارحا مقصود ،میری جان کے ہاتھ میری کامیابیوں کے لئے ہمیشہ
اٹھے رہے ہیں۔ میں ان صاحبان کا دلی وجان سے شکر گزار ہوں۔ اللہ
میرے ان اپنوں کو سدا آباد اور سداسلامت رکھے۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اپنے اس ناچیز اور نہایت عاجز
بندے کو اس تحقیقی کام کرنے کی ہمت سے نوازاور ہرقسم کی خرابی
اور پریشانی سے بچائے رکھا۔
مقصود صفدر علی شاہ
شیر ربانی کالونی قصور
باب نمبر1
غالب کے امرجہ سے متعلق الفاظ کی تہذیبی حیثیت
افعال کے ہونے یا کرنے میں جگہوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
بعض جگہیں کسی مخصوص کام کے لئے وقف ہوتی ہیں لیکن بہت
سی جگہیں کسی کام کے لئے مخصوص نہیں ہوتیں اور وہاں مختلف
نوعیت کے کام ہوتے ہیں۔ مخصوص کاموں سے متعلق جگہوں پر
دوسری نوعیت کے کاموں کے ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا
جاسکتا ۔بعض حالات میں وہاں ایسے کام وقو ع میں آجاتے ہیں کہ جن
کا وہاں وقوع میں آنے سے متعلق قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ گھر
رہنے کے لئے ہوتے ہیں۔ گھر سیاسی ڈیرہ بن جاتا ہے ،فحاشی کا اڈہ
بنا لیا جاتا ہے ،چھوٹے اور محدود نوعیت کے تجارتی کام بھی ہوتے
ہیں ۔خانقاہیں اور مساجد کے حجرے منفی استعمال میں بھی آنے
لگتے ہیں۔
کرداروں کی جملہ کارگزاری میں امرجہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ ان
کے حوالے سے کرداروں سے سرانجام ہونے والے کاموں کی حیثیت
،نوعیت اور اہمیت واضح ہوتی ہے۔ نفسیاتی سطح پر جگہیں ،کسی
سامنے لاتی ہیں ۔ جگہوں کے حوالہ سے ) (Signifiedنشان کا مدلول
کرداروں سے متعلق شخصی رویہ ترکیب پاتا ہے۔ مسجد میں بوٹوں
سمیت گھس آنے والے کے خلاف مسلمانوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔
اصطبل میں کوئی جوتے اتار کر نہیں جاتا ،ایسا کرنے والا ہنسی کا
نشانہ بن جاتا ہے ۔میدا ِن جنگ میں سینے پر گولی کھاتا سپاہی باوقار
اور محترم ٹھہرتا ہے جبکہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جانے والا نفرت کی
علامت بن جاتا ہے کہ اسے خون پسینے کی کمائی سے کھلایا پلایا گیا
ہوتا ہے۔
جگہوں کے حوالہ سے نہ صرف افعال کے سرانجام ہونے کے مختلف
حوالے سامنے آتے ہیں بلکہ انسانی رویے بھی کھلتے ہیں۔ غالب نے
اپنی اردو غزل میں بہت سی جگہوں کا استعمال کیا ہے۔ یہ جگہیں
کرداروں کے قول وفعل کو واضح کرتی ہیں ۔ان جگہوں کا
بھی ہیں کے مخصوص مدلول سے ہٹ کر ،اور )(Signifierجودال
مدلول بھی سامنے آتے ہیں۔ امرجہ سے کلی واقفیت ،تشریح و تعبیر
اور تفہیم میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ اگلے صفحات میں غالب کے
ہاں استعمال ہونے والی جگہوں سے متعلق اہم معلومات فراہم کرنے
کی سعی کی گئی ہے تاکہ قاری کا ان کے کرداروں کے متعلق ایک
مخصوص رویہ بن سکے۔ یہ بھی کہ کرداروں کے افعال کی تشریح کا
عمل ہر بار نئے حوالوں سے متحرک رہے۔ جگہوں سے متعلق
معلومات کے حوالے سے بہت سے نئے مدلول دریافت ہوسکیں گے
اور تشریح کے نئے امکان روشن ہوجائیں گے۔
آتش کدہ:
وہ مکان جہاں آتش پرست آگ کی پوچا کرتے ہیں اور وہاں کی آگ
کبھی بجھنے نہیں دیتے ۔ اسے آگ کا گھر بھی کہہ سکتے ہیں۔ مجاز اا
مولف’’ نو اللغات ‘‘نے بھی یہی معنی درج کئے )بہت گرم مکان(١
ہیں جبکہ مولف ’’فرہنگ آصفیہ ‘‘نے سند میں اسیر کا یہ شعر درج
کیا ہے
بسکہ آتش شرم روئے یار سے آب آب صاف ہر آتشکدہ میں اب ہے
عالم آپ کا
فیروز اللغات کے مطابق آتش خانہ اور آتش کانہ ہم معنی ہیں اور یہ
فرہنگ ’’)آتش پرستوں کے معبد کے لئے استعمال ہوتے ہیں(١
آصفیہ‘‘ میں آتش خانہ کے دو مفاہیم سے آگ کی جگہ وہ طاق یا آلہ
جومکان کے اندر جھاڑوں میں آگ جلانے کے لئے مکان گرم رکھنے
کے لئے بناتے ہیں اور )٢(:آگ پرستوں کے ہاں آگ رکھنے کی جگہ
آئینہ اردو‘‘ لغت میں آتش خانہ کو وہ مکان ’’)مفاہیم درج ہیں۔ (۳
جہاں پارسی لوگ آگ پوجتے ہیں جبکہ آتش کدہ وہ جگہ جہاں
سردیوں میں تاپنے کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ ( )۴معنی درج کئے گئے
۔۔۔۔۔۔ وہ جگہ جہاں مقدس ’’ ہیں ۔ اردو جامع انسائیکلو پیڈیاکے مطابق
آگ رکھی جاتی ہے۔ عموماا ہر آتشکدہ ہشت پہلو بنایا جاتا ہے ۔ جس
کے وسط میں آتش دان ہوتا ہے۔ ( )۵آتشکدے /آتش خانے کو ہمیشہ
سے تہذیبی اہمیت حاصل رہی ہے۔ سردیوں میں اکثر جگہوں پر الاؤ
روشن کرکے اس کے ارد گرد لوگ بیٹھ جاتے ہیں اور مختلف
موضوعات پر گپ شپ کرتے ہیں۔ متوسط گھروں میں انگیٹھی جلا کر
ایک کمرے کو گرم رکھا جاتا ہے ۔ وہاں گھر کے جملہ افراد بیٹھ کر
آگ تاپتے ہیں ،ساتھ میں گفتگو کا سلسلہ بھی چلتا رہتاہے ۔ گویاآتش
خانہ اپنے تہذیبی حوالے رکھتا ہے ساتھ میں مل بیٹھنے کی علامت
بھی رہا ہے ۔
مذہب زرتشت میں آگ کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اس کی پوجا کی
جاتی ہے اور آتشکدہ ان کی عبادت گاہ ہے۔ ہندومذہب میں بھی آتش
نمایاں مقام کی حامل ہے۔ غالب نے لفظ آتشکدہ بڑی عمدگی اور بالکل
نئے معنوں میں استعمال کیا ہے
جاری تھی اسد داغ جگر سے مرے تحصیل
آتشکدہ ،جاگیر سمندر ()۶نہ ہوا تھا
ایک دوسرے شعر میں بھی آتشکدہ سے مراد آگ جلنے کی جگہ لی
گئی ہے۔ عبادت سے متعلق کوئی حوالہ موجود نہیں
آتشکدہ ہے سینہ مرارا ِزنہاں سے
اے وائے ! معر ِض اظہار میں آوے
سینے کا مث ِل آتشکدہ ہونا جہاں کبھی آگ ٹھنڈی نہ ہوتی ہو ،کی علت’’
راز نہاں ‘‘ موجو د ہے ۔ آدمی اپنے سینے میں بات چھپا نہیں سکتا
وہ چاہتا ہے اپنی بات کسی نہ کسی سے کہہ دے۔
اردو شاعری میں آتشکدہ بطور عبادت گاہ کبھی نظم نہیں ہوا ۔ اس کے
ایسے بہت سے حوالے سامنے آئے ہیں جوشخصی کرب کے ساتھ
ساتھ وسیب کی اقدارو روایات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس ضمن میں
چند مثالیں ملاحظہ ہوں
سخ ِن عشق نہ گو ِش د ِل بے تاب میں ڈال *
سودا مت یہ آتشکدہ اس قطرہ سیماب میں ڈال()٧
آگ جلنے کی جگہ ،کنایہ عشق کی متواتر جلنے والی آگ ۔ دل کو
قطرہ سیماب کا نام دیا ہے۔ سیماب کو کبھی قرار نہیں اوپر سے اسے
آتشکدہ بنا دیا جائے ۔ ایسے میں جو صورتحال سامنے آئے گی اس کا
تصور بھی لرزہ براندام کردیتا ہے۔
نواب حسن علی خاں عبرت حضرت ابراہیم کے حوالہ سے بات کرتے
ہیں ۔ نار نمرود ،گل و گلزار ہوگئی تھی۔ دل آتشکدہ تھا جونہی وصل
میسر آیا گلستان کی شکل اختیار کرگیا۔ عبرت نے دلیل کے ساتھ بات
کی ہے کہ آتشکدے کا گلستان میں تبدیل ہونا کوئی اچھنبے کی بات
نہیں کیونکہ پہلے ایسا ہوچکا ہے
رشک خلیل وہ گ ِل خنداں نظر پڑا
آتش کدے میں دل کے گلستاں نظر
پڑا()۸عبرت
آستان:
فارسی اسم مذکر ہے چوکھٹ( )۹ڈیوڑھی،دروازہ ،بزرگوں کے مزار کا
دروازہ( )١٠درگاہ بادشاہ کی بارگاہ ،بزرگ کا مقبرہ( )١١وغیرہ کے
معنوں میں استعمال کرتے ہیں ۔ یہ لفظ روحانی ،رومانی اور غلامانہ
احساسات اجاگر کرتاہے ۔ ہمارے ہاں زیادہ تر شیوخ اور محبوب کی
آستانہ‘‘اسی کاروپ ہے اور ’’جائے رہائش کے لئے استعمال ہوتاہے۔
یہ لفط شیوخ کی بارگاہ کے لئے صدیوں سے مستعمل چلا آتا ہے۔
آستان شیخ کا ہوکہ محبوب کا ،اپنے مخصوص تہذیبی حوالے رکھتا
ہے۔ ہر دو کے لئے محبت اور احترام کے جذبے کارفرما رہتے ہیں۔
شیوخ کے آستانوں پر مختلف امرجہ سے متعلق لوگ حاضر ہوکر
نذرانہء عقیدت پیش کرتے ہیں۔ تمیز و امتیاز کے سارے دروازے بند
ہوجاتے ہیں۔ باہمی محبت کے بہت سے روپ اور تعاون و امداد کے
باہمی حوالے نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں ’’ وڈیرا‘‘ کا درجہ حاصل
کرنے والوں کو آستانے کے باہر خاص و عام کے جوتے سیدھے
کرتے دیکھا جاسکتا ہے ،بغیر کسی مجبوری اور جبر کے ۔ وہ اسے
اپنے لئے اعزاز خیال کرتے ہیں۔
آستان محبوب کی پوزیشن قطعی مختلف رہی ہے ۔ وہاں کسی دوسرے
کا وجود کیا اس کے متلعق کوئی بات ،سایہ ،واہمہ یا احساس بھی
گراں گزرتا ہے ۔ محبت اس آستان سے بھی وابستہ نظر آتی ہے ۔
اردو غزل میں یہ لفظ مختلف حوالوں سے نظم ہوتا چلا آتا ہے۔ غالب
کے ہاں سن ِگ آستان بدلنے کے حوالہ سے محبوب سے وابستہ ایک
:ر ّو یے کی نشاندہی کی گئی ہے
نن ِگ سجدہ سے میرے ،گھستے گھستے مٹ جاتا ،آپ نے عبث بدلا
سن ِگ آستاں اپنا
انعام اللہ یقین کے ہاں دو آستانوں کا تقابلی حوالہ پیش کیا گیا ہے۔
محبو ب کا آستان کس قدر محبوب اورمعتبر ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ یقین
:کے اس شعر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے
مجھے ظ ِل ہما سے سایہ ء سریر سلطنت سے آستا ِن یار بہتر تھا
دیوار بہتر تھا( )١٢یقین
میر صاحب کے ہاں آستان سے محبت ،عقیدت اور احترام وابستہ نظر
:آتا ہے
سجدہ اس آستاں کا نہیں یوں ہوا نصیب رگڑا ہے سرمیانہ ء محراب
روز وشب ()١۳میر
بازار:
فارسی اسم مذکر ،کاروبار ،تجارت کی جگہ ،نفع ،میلہ ،رونق ،
رواج ،معاملہ ()١۴دوکانوں کا سلسلہ ،منڈی ،نرخ (بھاؤ)ساکھ ،
بکری ،خریدوفروخت ( )١۵برس ِر عام ،جہاں بات پھیل جائے وغیرہ ۔
کاروباری حوالہ سے ’’بازار‘‘ شروع سے انسان کی معتبر ضرورت
رہا ہے ۔ بازار دراصل دام لگنے کی جگہ ہے ۔ جہاں کوئی بھی سودا
ہوگا وہ بازار کے زمرے میں آئے گا۔ مختلف امرجہ کے لوگ یہاں
ملتے ہیں۔ سودابازی کے ساتھ ساتھ زبانوں کے الفاظ ،رویے ،رواج،
روایات وغیرہ ،ایک دوسرے کے ہاں منتقل ہوتے ہیں۔ سماجی اقدار ،
روایات اور معاشرتی نظریات کا تصادم بھی سامنے آتا ہے۔
لفظ’’بازار ‘‘ سنتے ہی آنکھوں کے سامنے مختلف نسلوں ،قبیلوں اور
جدازبانیں بولنے والے آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ مختلف
قسم کی اشیاء کی دوکانوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے ابھرنے لگتا
ہے ۔ یہاں ہر شے مہنگے سستے داموں مل جاتی ہے ،بک جاتی ہے
۔ اشیا کی قدر و وقعت ان کے استعمال کی جگہوں پر ہوتی ہے۔ سستے
پن اور بے وقعتی کا احساس یہاں پر ابھرتا ہے۔ بعض رویوں سے
متعلق تحسین و آفرین اور بعض کے متعلق حقارت جنم لیتی ہے ۔
دھوکہ دہی ،بددیانتی ،ہیر اپھیری اور کمینگی کے بہت سے پہلو
سامنے آتے ہیں۔ ( )١۶بازار میں نظریں لڑتی ہیں ،برسوں کے
بچھڑے مل جاتے ہیں۔ لہجوں کا تبادلہ ہوتا ہے ،بہت کچھ بک جاتا ہے
چند مثالیں ملاحظہ ہوں
تا گرم ہے بازار تری بیع سلم سے جرم ناکردہ کی مرے عفو خریدار
کا ( )١٧قائم
جن ِس دل کے وہ خریدار ہوئے تھے کس دن یہ یوں ہی کوچہ و بازار
کی افواہیں ہیں ( )١۸شیفتہ
چندے یونہی ہے عشق زلیخا کی گرکشش یوسف کو آج کل س ِر بازار
دیکھنا ( )١۹مجروع
تینوں شعر بازار کے کسی نہ کسی تہذیبی حوالے ،اصول اور ر ّویے
کو واضح کررہے ہیں ۔اب غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال دیکھئے
ساغر جم سے مراجام سفال اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
اچھا ہے
جہاں بہت ساری دوکانیں ہیں ان میں ایک برتنوں کی دوکان ،جہاں
خریداری کی جاتی ہے ،جہاں اشیاء دستیاب رہتی ہیں۔
کیوں شاہد گل باغ سے بازار غار تگ ِر ناموس نہ ہو گر ہوس زر!
میں آوے
زرکی ہوس ’’ناموس‘‘ تک کو بازار میں لے آتی ہے ۔ بازار ایسی جگہ
ہے جہاں بولی لگتی ہے ۔ زیادہ بولی دینے والا خریدار ٹھہرتا ہے ۔
باغ :
فارسی اسم مذکر ،گلزار ،چمن پھلواڑی()٢٠عمومی سنس میں اس
سے وہ قطعہ اراضی مرادلیا جاتا ہے جہاں پھولوں کے پودے لگائے
جاتے ہیں ۔ پھل دار درختوں کے ذخیرے کو بھی باغ کا نام دیا جاتا ہے
۔ اس سے آل اولاد ،بال بچے ،دنیا ،خوب آباد ،بارونق ،معمور ،
)پرفزامعنی بھی لئے جاتے ہیں (٢١
باغ کے لئے گلستان ،گلزار ،گلشن ،چمن وغیرہ ایسے دوسرے الفاظ
:بھی بولے جاتے ہیں ۔بہر طور باغ
آبادی کالازمہ اور لوازمہ رہے ہیں ا۔
نفسیاتی تسکین کاذریعہ رہتے ہیں ب۔
ذو ِق جمال کا مظہر ہوتے ہیں ج۔
ماحول کی بقا کے ضامن ہوتے ہیں د۔
تہذیبی ضرورت رہے ہیں ھ۔
غالب کے ہاں باغ اور اس کے مترادفات کا استعمال پرلطف معنویت کا
:حامل ہے
باغ میں مجھ کو نہ لے جاؤورنہ مرے حال پر ہر ایک گل ترایک چشم
خوں فشاں ہوجائے گا
ہوتے ہیں۔ ) (Sensitiveباغ سے متعلقات نہایت حساس *
کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں واعظ خلد بھی باغ ہے خیر آب وہوا ور
سہی
باغ تازہ آب وہوا کے لئے اپنا جواب نہیں رکھتے۔ باغ دنیا میں جنت
سے کم نہیں ہوتے۔
سایہء شاخِ گل افعی نظر آتا باغ ،پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
ہے
غلام رسول مہر ،ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کے حوالہ سے لکھتے
:ہیں
مغلیہ عہد کے باغ ویران پڑے ہیں ۔شام کے وقت شاخوں کا عکس ’’
سبزے پر بعینہ سانپ کی طرح نظر
آتا ہے ۔ یہ بھی کہ نباتات نے دست انسانی کی قطع برید سے آزادی
) ‘ ‘(٢٢پاکر ایک عجیب آوارگی اختیار کرلی ہے
اردو شاعری میں باغ مختلف تہذیبی ضرورتوں کے حوالہ سے
:استعمال میں آیا ہے
تو ہو اور باغ ہو اور زمزمہ کرنا بلبل تیری آواز سے جیتاہوں ،نہ
مرنا بلبل( )٢۳تقی
پھلواڑی ،جہاں پھولوں کے پودے ہوں
کچھ دل ہی باغ میں نہیں تنہا شکستہ دل ہر غنچہ دیکھتاہوں تو ہے گا
شکستہ دل ( )٢۴درد
دنیا معمورہ
دل کو کیا باندھے ہے گلزا ِر جہاں سے بلبل حسن اس باغ کا اک روز
خزاں ہووے گا ( )٢۵قائم
دنیا ،جہاں ،
ہر سہ شعر ا کے ہاں ’’باغ‘‘ مختلف حوالوں سے وارد ہوا ہے ۔ درد
اور قائم نے بطور استعارہ نظم کیا ہے ۔ درد نے دنیا کے رویوں کو
واضح کیا ہے ۔یہاں دکھ دینے والوں کی کمی نہیں جبکہ قائم نے فنا کا
فلسفہ اجاگر کیا ہے ۔
گلستان:
یہ لفظ ’’گل‘‘ کے ساتھ ’’ستان‘‘ کا لاحقہ بڑھانے سے تشکیل پایا ہے،
یعنی پھولوں کی جگہ۔ گویا یہ لفظ ایسے باغ کے لئے مخصوص ہے
جہاں پھولدار پودے ہوں۔ اسم ظرف مکان ،باغ جہاں پھول کھلتے
پھولوں سے بھرپور اور پھولدار مقامات انسانی مزاج پر ہیں۔()٢۶
خوشگوار اثر ات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ صحت کی بہتری اور
بحالی کے لئے نمایاں حیثیت واہمیت کے حامل رہے ہیں۔ یہی نہیں
غمی وخوشی کے حوالہ سے ان کی ہر چند ضرورت رہی ہے۔ اردو
غزل میں اس کا مختلف حوالوں سے استعمال رہاہے
حالات ،موسموں ،سماوی آفات وغیرہ رنگ میں بھنگ ڈالتے رہتے
ہیں
گلستان جہاں کی دید کیجو چشم عبرت سے کہ ہر اک سروقد ہے اس
ؔ)چمن میں نخل ماتم کا(( )٢٧درد
میرزا علاؤالدین آرزو کے نزدیک پھولوں کو ہاتھ بھی لگانا ،گلستان
:کی بربادی کے مترادف ہے
کہ آج لوٹے ہے گل چیں یہ لگائیں ہاتھ بھی جھوٹوں تو یوں کہے بلبل
گلستاں کیسا ( )٢۸آرزو
غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو
لے گئے خاک میں ہم دا ِغ تمنائے نشاط تو ہو اور آپ بصد گلستاں
ہونا
)باغ باغ ہوکر ،شادوخرم رہو(۳٠پھولو پھلو()٢۹
مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا کہ فرقت میں تری آتش
برستی تھی گلستاں پر
موسم اور ماحول انسانی موڈکی پیروی کرتے ہیں ۔ غلام رسول مہر کا
کہنا ہے
مناظر کی دلآویزی بجائے خود کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ،بلکہ ’’
سب کچھ انسان کی دل کی کیفیت پر موقوف ہے۔
اگر وہ خوش ہے تو غیر دلچسپ مناظر سے بھی شادمانی کے اسباب
پیدا کرے گا۔ اگر وہ ناخوش ،رنجیدہ اور مصیبت
زدہ ہے تو بہتر سے بہتر منظر بھی اس کے لئے سوزش اور جلن
)(‘‘۳١کاباعث ہوگا۔
غالب کے بعد کروچے نے بھی تو یہی تھیوری پیش کی ہے
چہرہ فرو ِغ مے سے ،گلستاں اک نو بہا ِر ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
کئے ہوئے
سرخی ،رنگینی ()۳٢سرخ رنگین ( )۳۳خوبصورتی ،حسن ،رنگا
رنگی ،حسن انسان کے اندر ہے جب بھی غیر فطری رکھ رکھاؤ سے
باہر آتا ہے ،یہ ازخود واضح ہوجاتاہے ۔
گلشن:
گل‘‘ کے ساتھ ’’شن‘‘ کالاحقہ بڑھانے سے ترکیب پایا ’’یہ لفظ بھی
ہے ۔ اسم ظرف مکان ،باغ( )۳۴معنی مراد ہیں۔ لیکن گلزار کی طرح
یہ بھی پھولوں والی جگہ کے لئے مخصوص ہے۔ لغت سے ہٹ کر
کنای اۃکوئی سے معنوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ میر صاحب کے
ہاں پھولوں والی جگہ کے معنوں میں نظم ہوا ہے ۔
گل شرم سے بہہ جائے گا گلشن میں ہوکر آب سا
برقع سے گرنکلا کہیں چہرا ترا مہتاب سا( )۳۵میر
میر صاحب کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی حسن (ونزاکت ) کے
گلشن ‘‘ کے ساتھ ’’سامنے کوئی حسن (ونزاکت ) ٹھہر نہیں سکتا ۔
حسن وابستہ کردیا گیا ہے ۔ گلشن حسن کا منبع ہے لیکن انسانی حسن
کے سامنے صفر (پاتال) ہوجاتا ہے۔
بہا ِر داغ تھی جب دل پہ ،قائم عجب سرسبز تھا گلشن ہمار ا( )۳۶قائم
قائم نے گلشن سے سبزہ اور ہریالی منسلک کی ہے ۔ یہ انسانی
صحت ومزاج کے لئے نمایا ں حیثیت کی حامل رہی ہیں۔
آفتاب کے خیال میں گلشن حسن اور رنگا رنگی (کسی کی) کی آماجگاہ
ہے ۔ لیکن انسانی حسن پر حسد کرنا یا ششدر رہ جانا غیر فطری بات
نہیں
مت اس اداو ناز سے گلشن میں کرگزر ڈرتا ہوں میں ،مبادا ،کسی کی
نظر لگے ( )۳٧آفتاب
غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ فرمائیں
گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج
قمری کا طوق حلقہء بیرون در ہے آج
گلشن بمعنی گلستان ( )۳۸محفل ( )۳۹برتا گیا ہے
گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے ہر غنچے کاگل ہونا
آغوش کشائی ہے غالب
گلستان ،باغ ( )۴٠انجمن ،بزم محفل
اشخاص کی صحبت قوموں کے مزاج ر ّویے اور روایات بدل کررکھ
دیتی ہے۔تابع اذہان بلوغت اختیار کرلیتے ہیں
گلزار:
یہ لفظ بھی گل +زار کا مجموعہ ہے ۔ زار اسم ظرف مکان کی علامت
ہے ۔ گل زار جہاں پھول ہی پھول ہوں ۔( )۴١پھلیرے کی دوکان پر بہت
سی قسموں کے پھول ہوتے ہیں لیکن اسے گلزار کا نام نہیں دیا جائے
گا۔ وہ دوکان ہی کہلائے گی۔ گلزار سے مراد ایسی جگہ /خطہ اراضی
جہاں پھولوں کے پودے اگائے گئے ہوں۔ پھول ہمیشہ سے سماجی
ضرورت رہے ہیں۔ گلستان ،گلشن اور گلزار در حقیقت ایک ہی قماش
کے لفظ ہیں ۔ اردو غزل میں گلزار کا استعمال مختلف سماجی اور
انسانی رویوں سے پیوست نظر آتاہے ۔ مثلاا
ہوا زیبا بدن گلرو تمہارا خلق جس دن سے
نہ دیکھا وہ زمانے میں کسی گلزار میں صورت ( )۴٢چندا
انسانی خلق رنگا رنگ پھولوں کے حسن اور خوشبو سے کہیں بہتر
ہوتا ہے ۔ پھول اپنے حسن اور خوشبو کے حوالہ سے متاثر کرتے
ہیں۔ لوگوں کو قریب آنے کی دعوت دیتے ہیں ۔بعینہ ہی انسانی حسن
اور خلق کی صورت ہوتی ہے۔ انسان میں ان دونوں عناصر کاہونا
گلزار کی مانند ہوتا ہے ۔
گلزار:
پھلنا پھولنا ،پنپنا ،سکہ رہنا
اس قدر افسردہ دل کیوں ان دنوں ہے آفتاب
دیکھ کر ہوتا ہے تجھ کو تنگ ،دل گلزار کا ( )۴۳آفتاب
محفل ،انجمن ،دنیا ،احباب ،قدردان
زمانے کا عمومی چلن ہے کہ وہ سکھ میں ساتھ دیتا ہے۔ دکھ اور
افسردگی میں دل تنگ کرتا ہے ۔پھول اور پھولدار پودے خوشگوار موڈ
پسند کرتے ہیں ۔ اسی میں ان کے پھلنے پھولنے کا راز مخفی ہوتا
ہے۔
:غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو
تواس قد دلکش سے جو سائے کی طرح ساتھ پھر یں سرو و صنوبر
گلزار میں آوے
سرو وصنوبر سے واضح ہورہا ہے کہ گلزار سے پھولوں کاخطہء
اراضی مراد ہے۔گلزار میں (شخصی )بلند قامتی معتبر و معزز ٹھہراتی
:ہے۔ غلام رسول مہر لکھتے ہیں
محض بلندی قامت کوئی خوبی نہیں ،قداتنا ہی بلند ہونا چاہئے جتنا ’’
کہ موازنیت کے باعث دل کو لبھائے ،
)نری بلند قامتی بعض اوقات نازیبا بن جاتی ہے ۔ (۴۴
چمن:
باغ‘‘ گروپ سے متعلق ہے۔ اردو شاعری میں ’’یہ لفظ بھی
اس لفظ کا بڑا عام استعمال ملتاہے
اس نازنین دہن سے حرف اس ادا سے نکلا گویا کہ غنچہء گل صحن
چمن میں چٹکا
خوبصورت ادائیگی صح ِن چمن میں غنچہء گل کے چٹکنے سے کسی
طرح کم نہیں ۔ لہجہ اعتماد بحال کرتاہے ۔غلط لہجہ جھگڑے کا سبب
بن سکتا ہے ۔ بے مزگی کی صورت نکل سکتی ہے ۔ کرخت اور
کھردرا انداز تکلم بے وقار کرکے رکھ دیتا ہے ۔ غنچے کا چٹکنا اپنے
دامن میں بے پناہ حسن رکھتا ہے ۔
آنگن ‘‘ میں جوانی ،زندگی کے ذائقے ہی بدل کر رکھ دیتی ’’کسی
ہے
مرغان چمن کے چہچہے ہیں اور کبک دری کے قہقہے ہیں ()۴۵
مجروح
مرغان چمن کے چہچہوں کا جواز۔١۔ہریالی ۔٢۔ پھول ۔۳۔ پھل ہیں ۔
مجروح نے چمن کو باغ کے معنوں میں اندراج کیا ہے۔
اب غالب کے ہاں اس لفظ کی کارفرمائی ملاحظہ ہو
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کرنہیں سکتی چمن زنگار آئینہ باد
بہاری کا
چمن:
گلبن و اشجار و برگ و بار( )۴۶اظہار لطافت( )۴٧با ِدبہاری کے اظہار
)کا وسیلہ (۴۸
اڑتے ہوئے الجھتے ہیں ہے جو ِش گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف
مرغِ چمن کے پانوء غالب
چمن ،جہاں بہت سارے درخت ہوں اوران کی بہت سی شاخیں
ِادھرادھربکھری ہوئی ہوں کہ بلبل کو پرواز میں دشواری محسوس
ہوتی ہو۔ بے ترتیبی حرکت میں خلل کا سبب بنتی ہے۔ بہتات نعمت سہی
لیکن اس کا ترتیب میں لانا اور ضروری قطر برید حرکت میں دشواری
کا موجب نہیں بنتی ۔ پنجابی مثل معروف ہے ’’پانا سب کو آتا ہے لیکن
’’ٹمکانا‘‘ کوئی کوئی جانتا ہے۔ چمن کی خوبی تو ہر کوئی چاہتا ہے
لیکن پودوں کی دیکھ بھال ،توازن ،سیمٹری قائم کرکے حظ فراہم
کرنا کوئی کوئی جانتا ہے ۔می ّسر کی بہتات ،سلیقے کی محتاج ہے
جبکہ سلیقہ ،توازن اور سٹمری کاضامن ہوتا ہے ۔
بت خانہ:
فارسی اسم مذکر۔ بت رکھنے کی جگہ ،مندر ،شوالہ ،شیودوارہ
( )۴۹بتکدہ ،صنم کدہ ،مورتی پوجا کی جگہ ()۵٠انسان نے اپنے
محافظ ،معاون ،نجات دہندہ ،پوجیور کو مجسم اور چشم بخود
دیکھنے کی خواہش ہمیشہ کی ہے۔ دکھ ،تکلیف اور مصیبت میں ان
سے مدد چاہی ہے ۔ دیوی دیوتاؤں کے ساتھ بھلے اور انسان دوستوں
کے بت بنا کر انہیں احترام دیا گیا ہے ۔ ان کی یاد میں بت گھر بنائے
گئے ہیں ۔ یہاں تک کہ کعبہ کو بھی بت گھر بنا دیا گیا ۔ یہی وجہ ہے
کہ بت اوربت خانے انسانی تہذیبوں کا محورو مرکز رہے ہیں ۔ مذہبی
اشخاص کی تصاویر اورمجسموں کااحترام عیسائیوں اور مسلمانوں
)کے ہاں بھی پایا جاتا ہے ۔(۵١
جبرواستبدادسے متعلق قوتیں ،انسان اور انسانیت سے برسر پیکار
رہی ہیں۔کچھ لوگ ان قوتوں کے سامنے ہمیشہ جھکے اور انہیں اپنی
قسمت کامالک ووارث سمجھتے چلے آئے ہیں جبکہ کچھ لوگ ان
قوتوں سے نبردآزما رہے ہیں۔ اس جنگ کے فاتحین کوبھی عزت و
احترام دیا گیا ہے ۔ گویا دونوں ،منفی اور مثبت قوتیں طاقت کی
علامت ٹھہر کر پوجیور کے درجے پر فائز رہی ہیں۔ ماہرین بشریات کا
کہناہے کہ فرد کی شخصیت پیدائشی قوتوں کے زیر اثر نہیں بلکہ
معاشرتی حالات کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہے۔ ()۵٢یہی وجہ ہے کہ
)۵۳بہت بڑا معاشرتی حوالہ رہے ہیں۔ بعض کو ان کے عمدہ ( ‘‘’’بت
کردار( )۵۴اور بعض کوجبری( )۵۵عزت دینے پر انسان مجبور ہا ہے
بتکدہ ‘‘کانام دیتے ہیں’’طوائف گاہ اوربازار حسن کو بھی غالب
شب ہوئی پھر انجمن رخشندہ کا منظر کھلا اس تکلف سے گویا بتکدے
کا درکھلا
اردوشاعری میں ’’بت خانہ‘‘ عام استعمال کا لفظ رہا ہے ۔مثلاا
کہیں عش ِق حقیقی ہے کہیں عش ِق مجازی ہے
کوئی مسجد بناتا ہے کہیں بنتا ہے بت خانہ( )۵۶شریں
بت خانے ‘‘ کا استعمال بطور پوجا گاہ ہو اہے ’’
چشم اہل قبلہ میں آج اس نے کی جوں سرمہ جا
حیف ایسا شخص جوخا ِک دربت خانہ تھا ( )۵٧سودا
مجازی اور غیرحقیقی پوجاگاہ
مسجد میں بتکدے میں کلیسا میں دیر میں
پھرتے تری تلاش میں ہم چار سو رہے ( )۵۸شیدا
بت کدہ
،بیت الصنم ،صنم خانہ ’’ ،بت خانہ ‘‘ کے مترادف الفاظ ہیں
اللہ رے کیا عشق بتاں میں ہے رسائی
یہ کعبہ ء دل اپنا صنم خانہ ہوا ہے ( )۵۹ذکا
کسی شخص کا باطن جودنیوی حوالوں سے لبریز رہا ہو۔
بیت الحرام تھا سو وہ کافر ہمارے دل کی نہ پوچھ اپنے عشق میں
)بیت الضم ہوا (۶٠
شیخ تفضل حسین عزیز ’’آستا ِن صنم‘‘ کانام دے رہے ہیں
دیر وحرم سے کام بھلا اس کو کیا رہے جس کاکہ آستا ِن صنم سجدہ
گاہ ہو ( )۶١عزیز
محبوب کا آستانہ عشاق کی سجدہ گاہ رہا ہے
غالب کے ہاں لفظ بت خانے کا استعمال ملاحظہ ہو
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں تو کعبے
میں گاڑو برہمن کو
یقین استواری کانام ہے ۔ کبھی اِدھر کبھی ادھر ایسوں کو عہد جدید ’’
لوٹے‘‘ کانام دیتا ہے بت خانہ بتوں کے رکھنے کی جگہ کوکہا جاتا رہا
ہے ۔ یہ لفظ مندر ،شوالہ ،دیر ،شیودوارہ کے لئے بولا جاتاہے ۔بت
خانہ سے وابستہ روایات تہذیبی حوالوں سے جڑی رہی ہیں اور ان
کے اثرات نادانستہ بت شکنوں کے ہاں بھی منتقل ہوئے ہیں۔
بیاباں:
فارسی اسم مذکر ،ریگستان ،جنگل ،ویرانہ ،اجاڑ ،جہاں کوسوں تک
)پانی اور درخت نہ ہوں(۶٢
عشق اوربیاباں لازم و ملزوم حیثیت کے حامل ہیں۔وہ اس لئے
عشق میں جب بھی وحشت لاحق ہوگی تو وحشی (عاشق ) ا۔
ویرانے کی طرح دوڑے گا۔
عشق ویرانی چاہتا ہے تاکہ عاشق اور معشوق بلا خوف مل ب۔
سکیں اورباتیں کرسکیں۔
غالب کے ہاں لفظ’’بیاباں‘‘ کا استعمال ملاحظہ ہو
بحر گر بحر نہ ہوتا گھر ہمارا ،جونہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
توبیاباں ہوتا
جہاں پانی دستیاب نہ ہو ،ویرانہ *
میر صاحب جنوں کو بیابان کا نام دے رہے ہیں ۔بیاباں ہولناک وسعت
ویرانی کاحامل ہوتا ہے ۔ خوف اس سے وابستہ ہوتا ہے جنون کی حد
پیمانوں سے بالا ہوتی ہے ۔ بقدر ضرورت حالات(ویرانی) اور وسعت
میسر نہ آنے کا خوف اور خدشہ رہتا ہے۔ ان امور کے پیش نظر میر
صاحب نے ’’بیاباں جیون ‘‘کی ترکیب جمائی ہے
میں صی ِدر میدہ ہوں بیابا ِن جنون کا رہتا ہے مراموجب وحشت ،
مراسایا ( )۶۳میر
شکیب جلالی یاس کے ساتھ بیابان کارشتہ جوڑتے ہیں یاس بیابان
سے مما ثل ہوتی ہے ۔ یاس کی حالت میں امید کے دروازے بند
ہوجاتے ہیں کسی حوالہ سے بات بنتی نظر نہیں آتی
بیٹھا تھا میں اداس بیابان یاس تازہ کوئی ردائے شب ابر میں نہ تھا
میں ( )۶۴شکیب
کسی بھی نوعیت کا جنون سوچ کے دروازے بند کردیتا ہے ۔ یا س
اداس کردیتی ہے ۔ ہر دوصورتیں معاشرتی جمود کاسبب بنتی ہیں ۔
معاشرتی جمود تخلیق و تحقیق کے لئے سم قاتل سے کم نہیں ہوتا۔
جنوں ہوکہ یاس مث ِل بیابان ( بے آباد ،ویران بنجر ،تخلیق وتحقیق سے
معذور) ہوتے ہیں۔
فارسی اسم مذکر :بیابان ،صحرا ،جنگل ،میدان ( )۶۵دشت:
ویرانہ ،شیفتگی کاٹھکانہ ،اردو شاعری میں یہ لفظ مختلف مفاہیم
کے ساتھ نظم ہوا ہے ۔ حاتم اور قاتم نے اسے ویرانہ اور بیابان کے
معنوں میں باندھا ہے
ہم دوانوں کو ،بس ہے پوشش سے دام ِن دشت وچادرمہتاب ( )۶۶قائم
ہوامجنوں کے حق میں دشت گلزار کیا ہے عشق کے ٹیسونے بن
حاتم سرخ ()۶٧
اب غالب کے ہاں اس لفظ کے استعمال ملاحظہ ہو
یک قدم و حشت سے در ِس دفتر امکاں کھلا جاہ ،اجزائے دوعالم
دشت کا شیراز تھا
وحشت اور دشت ایک دوسرے کے لئے لازمہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
وحشت کی صورت میں دشت کی ضرورت ہوگی۔ جنون ووحشت امکان
کے دروازے کھولتے ہیں۔ آبادی میں رہتے ہوئے سوچ کو یکسوئی
میسر نہیں آسکے گی ۔ یہ دشت میں ہی ممکن ہے ۔
صحرا:
عربی اسم مذکر۔ جنگل ،بیابان( )۶۸میدان ،جہاں درخت وغیرہ کچھ
نہ ہوں ،ویرانہ ،ریگستان ( )۶۹تنگ جگہ جہاں گھٹن ہو۔
غالب نے مجنوں کے حوالہ سے صحرا سے بیابان معنی مراد لئے ہیں
صحرا مگر بہ تنگی چشم جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
حسود تھا
صحرا وسیع و کشادہ ویرانہ ہوتا ہے ۔ بقول غالب اسے کوئی سر نہیں
عام روایات ’’کرسکتا ۔ یہ اعزاز صرف مجنوں کو حاصل ہوا ہے ۔
کے مطابق اس کی ساری عمر بیابان کی خاک چھاننے میں بسر ہوئی
۔()٧٠۔ صحرا گردی عشق کا لازمہ رہا ہے ۔
شیفتہ صحرا سے پر آشوب ویران مقام مراد لیتے ہیں
گاؤں بھی ہم کو غنیمت ہے کہ آبادی تو ہے آئے ہیں ہم پر آشوب
صحرا دیکھ کر ( )٧١شیفتہ
بیدل حیدری ویرانی ،خشکی ،پشیمانی ،بدحالی وغیرہ کے معنوں
:میں نظم کرتے ہیں
باد ل یہ آنکھ کے صحرا کو کیا ہوا کیوں ڈالتے نہیں ہیں بگولے دھمال
،سوچ ( )٧٢بیدل
حاتم نے صحرا سے سبزہ گاہ ،جہاں ہر یالی ہو معنی مراد لئے ہیں
میاں چل سیر کر ابر و ہوا ہے ہو اہے کوہ و صحرا جابجا سبز()٧۳
حاتم
جنگل:
فارسی اسم مذکر۔ بیابان ،جھاڑی ،بن ،نخلستان ،صحرا ،میدان ،
ریگستان ،بنجر ،افتادہ زمین ،ویران جگہ،
)چراگاہ ،بادشاہی شکار گاہ صید گاہ(٧۴
حاتم نے بے آباد جگہ جبکہ چندا نے چوپایوں کی چراگاہ ،معنی مراد
:لئے ہیں
وے پری رویاں جنھیں ڈھونڈے تھے ہم جنگل کے بیچ
بعد مدت کے یکا یک آج پائیں باغ میں ( )٧۵حاتم
رہیں کیونکہ بستی میں اس عشق کے ہم جو آہو کوجنگل سے رم
ؔ)دیکھتے ہیں ( ( )٧۶چندا
غالب نے جنگل کوبیابان ،دشت اور صحرا کے معنوں میں استعمال
کیا ہے
ہر اک مکان کو ہے مکین سے شرف اسد مجنوں جو مرگیا ہے تو
جنگل اداس ہے
بیابان ،دشت ،صحرا،جنگل اورویرانہ وحشت پیدا کرنے والے الفاظ
ہیں ۔ قدرتی یا پھر انسان کی اپنی تیار کردہ آفات انسانی تباہی کا
موجب رہی ہیں۔ طاقتور طبقے ،بیماریاں یا پھر سماوی آفات ،آبادیوں
کو ویرانوں میں بدلتی رہتی ہیں۔بہر طور یہ الفاظ سماعت پر ناگوار
گزرتے ہیں۔ سماعت ان سے جڑی تلخی برداشت نہیں کرتی۔ ان حقائق
کے باوجود عشاق ،زاہد حضرات اور تدبر وفکر سے متعلق لوگوں کو
یہ جگہیں خوش آتی رہی ہیں ۔ ان مقامات پر موجود آثار ،مختلف
حوالوں سے متعلق امور کی گھتیاں کھولتے ہیں ۔ عبرت یا پھر دلی ِل
جہد بن جاتے ہیں۔