The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-02-02 02:55:56

c2

c2

‫لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ‬

‫مقصود حسنی‬
‫ابوزر برقی کتب خانہ‬

‫جنوری ‪٢٠١٧‬‬

‫لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ‬

‫مقالہ برائے پی۔ایچ۔ڈی اردو‬
‫علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی‪،‬اسلام آباد‪ -‬پاکستان‬

‫مح ْقق‪ :‬مقصود صفدر علی شاہ‬
‫مقصود حسنی‬

‫ایم اے اردو‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ تاریخ‬
‫ایم فل اردو مقالہ بابا مجبور‪ -‬شخصیت اور ادبی خدمات‬

‫ڈاکٹر آف آرٹس‪،‬لسانیات‘ مقالہ‬

‫‪phenalogy of varios languages‬‬

‫‘پی ایچ ڈی جاپانی زبان کا لسانیاتی اور آوازوں کا نظام‪s‬‬
‫پوسٹ پی ایچ ڈی لفظیات غالب کا ساختیاتی مطالعہ‬
‫ڈی آیم پی ایس ‘ڈی ٹی آئی ‘ڈی بی آئی‬
‫شیر ربانی کالونی‪،‬قصور‬
‫پاکستان‬
‫نگران‬
‫ڈاکٹر سید معین الرحمن‬
‫پروفیسر ڈاکٹر نثا ر احمد قریشی‬

‫ترتیب‬

‫‪١‬۔ حر ِف آغاز‬
‫‪٢‬۔ غالب کے امرجہ سے متعلق الفاظ کی تہذیبی حیثیت‬

‫‪۳‬۔ غالب کے کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ‬
‫‪۴‬۔ غالب کے اردو تراجم کا لسانی جائزہ‬

‫‪۵‬۔ تلمیحا ِت غالب کی شعری تفہیم‬
‫‪۶‬۔ اصطلاحا ِت غالب کے اصطلاحی مفاہیم‬
‫‪٧‬۔ غالب کے ہاں مہاجر اور مہاجر نما الفاظ کے استعمال کا سلیقہ‬

‫‪۸‬۔ لفظیا ِت غالب کا ساختیاتیاتی مطالعہ‬
‫‪۹‬۔ خلاصہ‬

‫‪١٠‬۔ کتابیات‬

‫حر ِف آغاز‬

‫غالب جد ِت فکر کے حوالہ سے مجھے ہمیشہ متاثر کرتا رہاہے ۔ میں‬
‫نے بسات بھر اس کی غزل کا مطالعہ کیا۔ اسے جتنی بارپڑھا نیا ذائقہ‬

‫نیا سواد اور نئے مضامین ہاتھ لگے ۔ یہ سب اس کے لفظوں کے‬
‫باطن میں پوشیدہ مفاہیم کا کمال ہے۔ لگے بند ھے مخصوص اور‬

‫بعض مستعمل مفاہیم کی مدد سے مطالعہ ء غالب میں کا م نہیں‬
‫چلتا۔غالب کے لئے الگ سے لغت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔‬
‫مطالعہ ء غالب کے لئے عموم سے پرے ہٹ کر فک ِر غالب تک رسائی‬
‫کے امکان روشن ہوسکتے ہیں ۔ اس انکشاف کے بعد میں نے غالب‬

‫کے لفظوں کو مطالعہ کی بساط پر رکھنے کا ارادہ کرلیا۔‬

‫‘‘لفظیا ِت غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ’’‬

‫درحقیقت فک ِر غالب تک کسی حدتک رسائی کی ناچیز سی کوشش ہے۔‬
‫اردو لفظیا ِت غالب سے متعلق معلومات کی فراہمی زیادہ سے زیادہ‬
‫موجود‪ ،‬مستعمل اور امکانی مفاہیم تلاشنے کی کوشش کی ہے۔اس‬
‫سے غالب کے سوچ کے بہت سے نامعلوم ک ّر وں تک رسائی ممکن‬
‫ہوسکے گی ۔‬

‫جناب ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے ہمیشہ کی طرح میرے مطالعہ ء غالب‬
‫کے شوق کو پذیرائی بخشی اور موضو ع کی منظوری کے باب میں‬
‫تگ ودو فرمائی ۔ان کا کمال یہ ہے کہ ہر مشکل موقع پر میدان میں‬
‫اترتے ہیں ۔ ڈاکٹر سید معین الرحمن کی موت کے بعد مقالے کی‬

‫نگرانی کا مسئلہ بن گیا ایسے مشکل گزار لمحات میں انہوں نے میرے‬
‫پائے استقلال میں لرزش نہ آنے دی ۔سمجھ نہیں پارہا کہ ان کی‬
‫محبتوں کا کن الفاظ میں شکریہ اداکروں ۔‬

‫جناب ڈاکٹر سید معین الرحمن ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں ۔ وہ بعض‬
‫معاملات میں اوروں سے قطعی مختلف تھے ۔مثلاا‬

‫محبت اور شفقت کا سلیقہ انہیں آتا تھا ‪١‬۔‬

‫چیزوں کو بڑا’’ سانبھ سانبھ ‘‘ کررکھتے تھے ‪٢‬۔‬

‫‪۳‬۔ کام اور کام کرتے چلے جاتے تھے‬

‫مقالے کی نگرانی کا کام تو کل پرسوں کی بات ہے انہوں نے تو ہمیشہ‬
‫مجھے کام کرنے کا حوصلہ بخشا الف۔‬

‫تحقیقی کاموں میں رہنمائی فرمائی ب۔‬

‫کمال مہربانی سے کتب عنایت کیں ج۔‬

‫اپنی تحقیقی کاوشوں میں یاد رکھا د۔‬

‫میں ان کی عنایتوں اور محبتوں کا کیا شکر یہ ادا کروں ۔ موت نے‬
‫انہیں کسی کا نہ رہنے دیا۔ کاش کچھ اور جی لئے ہوتے ۔ ہاں دعا ہے‬
‫اللہ تعالی انہیں اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے اور خل ِد خاص میں‬

‫جگہ دے ۔‬

‫ڈاکٹر نجیب جمال ‪ ،‬ڈاکٹر صابر آفاقی ‪،‬ڈاکٹر محمد امین ‪ ،‬ڈاکٹر غلام‬
‫شبیر رانا ‪ ،‬پروفیسر امجد علی شاکر ‪،‬ڈاکٹر محمد عبداللہ قاضی ‪ ،‬ڈاکٹر‬

‫گوہر نو شاہی غالب پرکاوش وفکر کے حوالہ سے میری ہمیشہ‬
‫پذیرائی فرماتے رہے ہیں۔ ان احباب کا پیار میرے لئے بڑا معتبر اور‬

‫محترم ہے۔‬

‫یونس حسن ایسا شاگرداور دوست اللہ ہر کسی کو عنایت فرمائے ٍ‬

‫۔وہ لائیربری کے کام میں ہمیشہ میر ے ساتھ رہے ہیں۔ اس ذیل میں‬
‫انہوں نے کبھی وقت اور مصروفیات کی پرواہ نہیں کی۔ ان کی بیگم‬
‫محترمہ کوثر یونس حسن خصوصی شکریے کی مستحق ہیں کہ انہوں‬
‫نے یہ سب تحمل اور بردباری سے برداشت کیا۔ پروفیسر نیامت علی‬
‫بڑی محبت سے پروف ریڈنگ کے معاملہ میں تعاون فرماتے رہے ہیں۔‬
‫ڈاکٹر عبدالعزیز سحر کے مسلسل رابطے کو بھلا کیسے اور کیونکر‬

‫بھولا جاسکتا ہے میں ان عزیزوں کا شکر گزار ہوں ۔‬

‫سید کنور عباس بڑا اچھا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تعلیمی‬
‫مصروفیات کے باوجود مجھے کبھی نظر انداز نہیں کیا اور بڑی دیانت‬

‫داری سے میری معاونت کی ہے‬

‫محترمہ رضیہ مقصود حسنی کی بات ہی کیا ہے۔ مقالہ کی تیاری کے‬
‫دوران نہ صرف میری ضروریات کا خیال رکھا بلکہ بعض حوالوں کی‬

‫تلاش میں بھی تعاون کیا ہے۔‬

‫ارحا مقصود‪ ،‬میری جان کے ہاتھ میری کامیابیوں کے لئے ہمیشہ‬
‫اٹھے رہے ہیں۔ میں ان صاحبان کا دلی وجان سے شکر گزار ہوں۔ اللہ‬

‫میرے ان اپنوں کو سدا آباد اور سداسلامت رکھے۔‬

‫اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اپنے اس ناچیز اور نہایت عاجز‬
‫بندے کو اس تحقیقی کام کرنے کی ہمت سے نوازاور ہرقسم کی خرابی‬

‫اور پریشانی سے بچائے رکھا۔‬

‫مقصود صفدر علی شاہ‬

‫شیر ربانی کالونی قصور‬

‫باب نمبر‪1‬‬

‫غالب کے امرجہ سے متعلق الفاظ کی تہذیبی حیثیت‬

‫افعال کے ہونے یا کرنے میں جگہوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔‬
‫بعض جگہیں کسی مخصوص کام کے لئے وقف ہوتی ہیں لیکن بہت‬
‫سی جگہیں کسی کام کے لئے مخصوص نہیں ہوتیں اور وہاں مختلف‬
‫نوعیت کے کام ہوتے ہیں۔ مخصوص کاموں سے متعلق جگہوں پر‬

‫دوسری نوعیت کے کاموں کے ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا‬
‫جاسکتا ۔بعض حالات میں وہاں ایسے کام وقو ع میں آجاتے ہیں کہ جن‬

‫کا وہاں وقوع میں آنے سے متعلق قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ گھر‬
‫رہنے کے لئے ہوتے ہیں۔ گھر سیاسی ڈیرہ بن جاتا ہے‪ ،‬فحاشی کا اڈہ‬
‫بنا لیا جاتا ہے ‪ ،‬چھوٹے اور محدود نوعیت کے تجارتی کام بھی ہوتے‬

‫ہیں ۔خانقاہیں اور مساجد کے حجرے منفی استعمال میں بھی آنے‬
‫لگتے ہیں۔‬

‫کرداروں کی جملہ کارگزاری میں امرجہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ ان‬
‫کے حوالے سے کرداروں سے سرانجام ہونے والے کاموں کی حیثیت‬
‫‪ ،‬نوعیت اور اہمیت واضح ہوتی ہے۔ نفسیاتی سطح پر جگہیں ‪ ،‬کسی‬
‫سامنے لاتی ہیں ۔ جگہوں کے حوالہ سے )‪ (Signified‬نشان کا مدلول‬
‫کرداروں سے متعلق شخصی رویہ ترکیب پاتا ہے۔ مسجد میں بوٹوں‬
‫سمیت گھس آنے والے کے خلاف مسلمانوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔‬
‫اصطبل میں کوئی جوتے اتار کر نہیں جاتا‪ ،‬ایسا کرنے والا ہنسی کا‬
‫نشانہ بن جاتا ہے ۔میدا ِن جنگ میں سینے پر گولی کھاتا سپاہی باوقار‬

‫اور محترم ٹھہرتا ہے جبکہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جانے والا نفرت کی‬
‫علامت بن جاتا ہے کہ اسے خون پسینے کی کمائی سے کھلایا پلایا گیا‬

‫ہوتا ہے۔‬

‫جگہوں کے حوالہ سے نہ صرف افعال کے سرانجام ہونے کے مختلف‬
‫حوالے سامنے آتے ہیں بلکہ انسانی رویے بھی کھلتے ہیں۔ غالب نے‬

‫اپنی اردو غزل میں بہت سی جگہوں کا استعمال کیا ہے۔ یہ جگہیں‬
‫کرداروں کے قول وفعل کو واضح کرتی ہیں ۔ان جگہوں کا‬

‫بھی ہیں کے مخصوص مدلول سے ہٹ کر ‪ ،‬اور )‪(Signifier‬جودال‬
‫مدلول بھی سامنے آتے ہیں۔ امرجہ سے کلی واقفیت ‪ ،‬تشریح و تعبیر‬
‫اور تفہیم میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ اگلے صفحات میں غالب کے‬
‫ہاں استعمال ہونے والی جگہوں سے متعلق اہم معلومات فراہم کرنے‬

‫کی سعی کی گئی ہے تاکہ قاری کا ان کے کرداروں کے متعلق ایک‬
‫مخصوص رویہ بن سکے۔ یہ بھی کہ کرداروں کے افعال کی تشریح کا‬

‫عمل ہر بار نئے حوالوں سے متحرک رہے۔ جگہوں سے متعلق‬
‫معلومات کے حوالے سے بہت سے نئے مدلول دریافت ہوسکیں گے‬

‫اور تشریح کے نئے امکان روشن ہوجائیں گے۔‬

‫آتش کدہ‪:‬‬

‫وہ مکان جہاں آتش پرست آگ کی پوچا کرتے ہیں اور وہاں کی آگ‬
‫کبھی بجھنے نہیں دیتے ۔ اسے آگ کا گھر بھی کہہ سکتے ہیں۔ مجاز اا‬

‫مولف’’ نو اللغات ‘‘نے بھی یہی معنی درج کئے )بہت گرم مکان(‪١‬‬
‫ہیں جبکہ مولف ’’فرہنگ آصفیہ ‘‘نے سند میں اسیر کا یہ شعر درج‬

‫کیا ہے‬

‫بسکہ آتش شرم روئے یار سے آب آب صاف ہر آتشکدہ میں اب ہے‬
‫عالم آپ کا‬

‫فیروز اللغات کے مطابق آتش خانہ اور آتش کانہ ہم معنی ہیں اور یہ‬
‫فرہنگ ’’)آتش پرستوں کے معبد کے لئے استعمال ہوتے ہیں(‪١‬‬

‫آصفیہ‘‘ میں آتش خانہ کے دو مفاہیم سے آگ کی جگہ وہ طاق یا آلہ‬
‫جومکان کے اندر جھاڑوں میں آگ جلانے کے لئے مکان گرم رکھنے‬
‫کے لئے بناتے ہیں اور‪ )٢(:‬آگ پرستوں کے ہاں آگ رکھنے کی جگہ‬

‫آئینہ اردو‘‘ لغت میں آتش خانہ کو وہ مکان ’’)مفاہیم درج ہیں۔ (‪۳‬‬
‫جہاں پارسی لوگ آگ پوجتے ہیں جبکہ آتش کدہ وہ جگہ جہاں‬

‫سردیوں میں تاپنے کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ (‪ )۴‬معنی درج کئے گئے‬
‫۔۔۔۔۔۔ وہ جگہ جہاں مقدس ’’ ہیں ۔ اردو جامع انسائیکلو پیڈیاکے مطابق‬

‫آگ رکھی جاتی ہے۔ عموماا ہر آتشکدہ ہشت پہلو بنایا جاتا ہے ۔ جس‬
‫کے وسط میں آتش دان ہوتا ہے۔ (‪ )۵‬آتشکدے ‪ /‬آتش خانے کو ہمیشہ‬

‫سے تہذیبی اہمیت حاصل رہی ہے۔ سردیوں میں اکثر جگہوں پر الاؤ‬
‫روشن کرکے اس کے ارد گرد لوگ بیٹھ جاتے ہیں اور مختلف‬

‫موضوعات پر گپ شپ کرتے ہیں۔ متوسط گھروں میں انگیٹھی جلا کر‬
‫ایک کمرے کو گرم رکھا جاتا ہے ۔ وہاں گھر کے جملہ افراد بیٹھ کر‬

‫آگ تاپتے ہیں ‪ ،‬ساتھ میں گفتگو کا سلسلہ بھی چلتا رہتاہے ۔ گویاآتش‬
‫خانہ اپنے تہذیبی حوالے رکھتا ہے ساتھ میں مل بیٹھنے کی علامت‬
‫بھی رہا ہے ۔‬

‫مذہب زرتشت میں آگ کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اس کی پوجا کی‬
‫جاتی ہے اور آتشکدہ ان کی عبادت گاہ ہے۔ ہندومذہب میں بھی آتش‬
‫نمایاں مقام کی حامل ہے۔ غالب نے لفظ آتشکدہ بڑی عمدگی اور بالکل‬

‫نئے معنوں میں استعمال کیا ہے‬

‫جاری تھی اسد داغ جگر سے مرے تحصیل‬

‫آتشکدہ ‪ ،‬جاگیر سمندر (‪)۶‬نہ ہوا تھا‬

‫ایک دوسرے شعر میں بھی آتشکدہ سے مراد آگ جلنے کی جگہ لی‬
‫گئی ہے۔ عبادت سے متعلق کوئی حوالہ موجود نہیں‬

‫آتشکدہ ہے سینہ مرارا ِزنہاں سے‬

‫اے وائے ! معر ِض اظہار میں آوے‬

‫سینے کا مث ِل آتشکدہ ہونا جہاں کبھی آگ ٹھنڈی نہ ہوتی ہو‪ ،‬کی علت’’‬
‫راز نہاں ‘‘ موجو د ہے ۔ آدمی اپنے سینے میں بات چھپا نہیں سکتا‬
‫وہ چاہتا ہے اپنی بات کسی نہ کسی سے کہہ دے۔‬

‫اردو شاعری میں آتشکدہ بطور عبادت گاہ کبھی نظم نہیں ہوا ۔ اس کے‬
‫ایسے بہت سے حوالے سامنے آئے ہیں جوشخصی کرب کے ساتھ‬
‫ساتھ وسیب کی اقدارو روایات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس ضمن میں‬
‫چند مثالیں ملاحظہ ہوں‬

‫سخ ِن عشق نہ گو ِش د ِل بے تاب میں ڈال *‬

‫سودا مت یہ آتشکدہ اس قطرہ سیماب میں ڈال(‪)٧‬‬

‫آگ جلنے کی جگہ ‪ ،‬کنایہ عشق کی متواتر جلنے والی آگ ۔ دل کو‬
‫قطرہ سیماب کا نام دیا ہے۔ سیماب کو کبھی قرار نہیں اوپر سے اسے‬
‫آتشکدہ بنا دیا جائے ۔ ایسے میں جو صورتحال سامنے آئے گی اس کا‬

‫تصور بھی لرزہ براندام کردیتا ہے۔‬

‫نواب حسن علی خاں عبرت حضرت ابراہیم کے حوالہ سے بات کرتے‬
‫ہیں ۔ نار نمرود‪ ،‬گل و گلزار ہوگئی تھی۔ دل آتشکدہ تھا جونہی وصل‬
‫میسر آیا گلستان کی شکل اختیار کرگیا۔ عبرت نے دلیل کے ساتھ بات‬
‫کی ہے کہ آتشکدے کا گلستان میں تبدیل ہونا کوئی اچھنبے کی بات‬
‫نہیں کیونکہ پہلے ایسا ہوچکا ہے‬

‫رشک خلیل وہ گ ِل خنداں نظر پڑا‬

‫آتش کدے میں دل کے گلستاں نظر‬

‫پڑا(‪)۸‬عبرت‬

‫آستان‪:‬‬

‫فارسی اسم مذکر ہے چوکھٹ(‪ )۹‬ڈیوڑھی‪،‬دروازہ‪ ،‬بزرگوں کے مزار کا‬
‫دروازہ(‪ )١٠‬درگاہ بادشاہ کی بارگاہ ‪ ،‬بزرگ کا مقبرہ(‪ )١١‬وغیرہ کے‬
‫معنوں میں استعمال کرتے ہیں ۔ یہ لفظ روحانی ‪ ،‬رومانی اور غلامانہ‬

‫احساسات اجاگر کرتاہے ۔ ہمارے ہاں زیادہ تر شیوخ اور محبوب کی‬
‫آستانہ‘‘اسی کاروپ ہے اور ’’جائے رہائش کے لئے استعمال ہوتاہے۔‬

‫یہ لفط شیوخ کی بارگاہ کے لئے صدیوں سے مستعمل چلا آتا ہے۔‬
‫آستان شیخ کا ہوکہ محبوب کا ‪ ،‬اپنے مخصوص تہذیبی حوالے رکھتا‬
‫ہے۔ ہر دو کے لئے محبت اور احترام کے جذبے کارفرما رہتے ہیں۔‬

‫شیوخ کے آستانوں پر مختلف امرجہ سے متعلق لوگ حاضر ہوکر‬
‫نذرانہء عقیدت پیش کرتے ہیں۔ تمیز و امتیاز کے سارے دروازے بند‬
‫ہوجاتے ہیں۔ باہمی محبت کے بہت سے روپ اور تعاون و امداد کے‬

‫باہمی حوالے نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں ’’ وڈیرا‘‘ کا درجہ حاصل‬
‫کرنے والوں کو آستانے کے باہر خاص و عام کے جوتے سیدھے‬

‫کرتے دیکھا جاسکتا ہے‪ ،‬بغیر کسی مجبوری اور جبر کے ۔ وہ اسے‬
‫اپنے لئے اعزاز خیال کرتے ہیں۔‬

‫آستان محبوب کی پوزیشن قطعی مختلف رہی ہے ۔ وہاں کسی دوسرے‬
‫کا وجود کیا اس کے متلعق کوئی بات‪ ،‬سایہ ‪ ،‬واہمہ یا احساس بھی‬
‫گراں گزرتا ہے ۔ محبت اس آستان سے بھی وابستہ نظر آتی ہے ۔‬

‫اردو غزل میں یہ لفظ مختلف حوالوں سے نظم ہوتا چلا آتا ہے۔ غالب‬
‫کے ہاں سن ِگ آستان بدلنے کے حوالہ سے محبوب سے وابستہ ایک‬

‫‪ :‬ر ّو یے کی نشاندہی کی گئی ہے‬

‫نن ِگ سجدہ سے میرے‪ ،‬گھستے گھستے مٹ جاتا‪ ،‬آپ نے عبث بدلا‬
‫سن ِگ آستاں اپنا‬

‫انعام اللہ یقین کے ہاں دو آستانوں کا تقابلی حوالہ پیش کیا گیا ہے۔‬
‫محبو ب کا آستان کس قدر محبوب اورمعتبر ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ یقین‬

‫‪:‬کے اس شعر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے‬

‫مجھے ظ ِل ہما سے سایہ ء سریر سلطنت سے آستا ِن یار بہتر تھا‬
‫دیوار بہتر تھا(‪ )١٢‬یقین‬

‫میر صاحب کے ہاں آستان سے محبت ‪ ،‬عقیدت اور احترام وابستہ نظر‬
‫‪ :‬آتا ہے‬

‫سجدہ اس آستاں کا نہیں یوں ہوا نصیب رگڑا ہے سرمیانہ ء محراب‬
‫روز وشب (‪)١۳‬میر‬

‫بازار‪:‬‬

‫فارسی اسم مذکر‪ ،‬کاروبار ‪ ،‬تجارت کی جگہ ‪ ،‬نفع ‪ ،‬میلہ ‪ ،‬رونق ‪،‬‬

‫رواج ‪ ،‬معاملہ (‪)١۴‬دوکانوں کا سلسلہ ‪ ،‬منڈی ‪ ،‬نرخ (بھاؤ)ساکھ ‪،‬‬
‫بکری ‪ ،‬خریدوفروخت (‪ )١۵‬برس ِر عام ‪ ،‬جہاں بات پھیل جائے وغیرہ ۔‬

‫کاروباری حوالہ سے ’’بازار‘‘ شروع سے انسان کی معتبر ضرورت‬
‫رہا ہے ۔ بازار دراصل دام لگنے کی جگہ ہے ۔ جہاں کوئی بھی سودا‬

‫ہوگا وہ بازار کے زمرے میں آئے گا۔ مختلف امرجہ کے لوگ یہاں‬
‫ملتے ہیں۔ سودابازی کے ساتھ ساتھ زبانوں کے الفاظ‪ ،‬رویے‪ ،‬رواج‪،‬‬
‫روایات وغیرہ ‪ ،‬ایک دوسرے کے ہاں منتقل ہوتے ہیں۔ سماجی اقدار ‪،‬‬

‫روایات اور معاشرتی نظریات کا تصادم بھی سامنے آتا ہے۔‬

‫لفظ’’بازار ‘‘ سنتے ہی آنکھوں کے سامنے مختلف نسلوں‪ ،‬قبیلوں اور‬
‫جدازبانیں بولنے والے آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ مختلف‬
‫قسم کی اشیاء کی دوکانوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے ابھرنے لگتا‬

‫ہے ۔ یہاں ہر شے مہنگے سستے داموں مل جاتی ہے‪ ،‬بک جاتی ہے‬
‫۔ اشیا کی قدر و وقعت ان کے استعمال کی جگہوں پر ہوتی ہے۔ سستے‬

‫پن اور بے وقعتی کا احساس یہاں پر ابھرتا ہے۔ بعض رویوں سے‬
‫متعلق تحسین و آفرین اور بعض کے متعلق حقارت جنم لیتی ہے ۔‬
‫دھوکہ دہی ‪ ،‬بددیانتی ‪ ،‬ہیر اپھیری اور کمینگی کے بہت سے پہلو‬

‫سامنے آتے ہیں۔ (‪ )١۶‬بازار میں نظریں لڑتی ہیں ‪ ،‬برسوں کے‬
‫بچھڑے مل جاتے ہیں۔ لہجوں کا تبادلہ ہوتا ہے ‪،‬بہت کچھ بک جاتا ہے‬

‫چند مثالیں ملاحظہ ہوں‬

‫تا گرم ہے بازار تری بیع سلم سے جرم ناکردہ کی مرے عفو خریدار‬
‫کا (‪ )١٧‬قائم‬

‫جن ِس دل کے وہ خریدار ہوئے تھے کس دن یہ یوں ہی کوچہ و بازار‬
‫کی افواہیں ہیں (‪ )١۸‬شیفتہ‬

‫چندے یونہی ہے عشق زلیخا کی گرکشش یوسف کو آج کل س ِر بازار‬
‫دیکھنا (‪ )١۹‬مجروع‬

‫تینوں شعر بازار کے کسی نہ کسی تہذیبی حوالے ‪ ،‬اصول اور ر ّویے‬
‫کو واضح کررہے ہیں ۔اب غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال دیکھئے‬

‫ساغر جم سے مراجام سفال اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا‬
‫اچھا ہے‬

‫جہاں بہت ساری دوکانیں ہیں ان میں ایک برتنوں کی دوکان ‪،‬جہاں‬
‫خریداری کی جاتی ہے‪ ،‬جہاں اشیاء دستیاب رہتی ہیں۔‬

‫کیوں شاہد گل باغ سے بازار غار تگ ِر ناموس نہ ہو گر ہوس زر!‬
‫میں آوے‬

‫زرکی ہوس ’’ناموس‘‘ تک کو بازار میں لے آتی ہے ۔ بازار ایسی جگہ‬
‫ہے جہاں بولی لگتی ہے ۔ زیادہ بولی دینے والا خریدار ٹھہرتا ہے ۔‬

‫باغ ‪:‬‬

‫فارسی اسم مذکر‪ ،‬گلزار ‪،‬چمن پھلواڑی(‪)٢٠‬عمومی سنس میں اس‬
‫سے وہ قطعہ اراضی مرادلیا جاتا ہے جہاں پھولوں کے پودے لگائے‬
‫جاتے ہیں ۔ پھل دار درختوں کے ذخیرے کو بھی باغ کا نام دیا جاتا ہے‬

‫۔ اس سے آل اولاد ‪ ،‬بال بچے ‪ ،‬دنیا ‪ ،‬خوب آباد‪ ،‬بارونق ‪ ،‬معمور ‪،‬‬
‫)پرفزامعنی بھی لئے جاتے ہیں (‪٢١‬‬

‫باغ کے لئے گلستان ‪ ،‬گلزار ‪ ،‬گلشن ‪ ،‬چمن وغیرہ ایسے دوسرے الفاظ‬
‫‪:‬بھی بولے جاتے ہیں ۔بہر طور باغ‬

‫آبادی کالازمہ اور لوازمہ رہے ہیں ا۔‬

‫نفسیاتی تسکین کاذریعہ رہتے ہیں ب۔‬

‫ذو ِق جمال کا مظہر ہوتے ہیں ج۔‬
‫ماحول کی بقا کے ضامن ہوتے ہیں د۔‬

‫تہذیبی ضرورت رہے ہیں ھ۔‬

‫غالب کے ہاں باغ اور اس کے مترادفات کا استعمال پرلطف معنویت کا‬
‫‪:‬حامل ہے‬

‫باغ میں مجھ کو نہ لے جاؤورنہ مرے حال پر ہر ایک گل ترایک چشم‬
‫خوں فشاں ہوجائے گا‬

‫ہوتے ہیں۔ )‪ (Sensitive‬باغ سے متعلقات نہایت حساس *‬

‫کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں واعظ خلد بھی باغ ہے خیر آب وہوا ور‬
‫سہی‬

‫باغ تازہ آب وہوا کے لئے اپنا جواب نہیں رکھتے۔ باغ دنیا میں جنت‬
‫سے کم نہیں ہوتے۔‬

‫سایہء شاخِ گل افعی نظر آتا باغ‪ ،‬پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے‬
‫ہے‬

‫غلام رسول مہر ‪ ،‬ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کے حوالہ سے لکھتے‬
‫‪:‬ہیں‬

‫مغلیہ عہد کے باغ ویران پڑے ہیں ۔شام کے وقت شاخوں کا عکس ’’‬
‫سبزے پر بعینہ سانپ کی طرح نظر‬

‫آتا ہے ۔ یہ بھی کہ نباتات نے دست انسانی کی قطع برید سے آزادی‬
‫)‪ ‘ ‘(٢٢‬پاکر ایک عجیب آوارگی اختیار کرلی ہے‬

‫اردو شاعری میں باغ مختلف تہذیبی ضرورتوں کے حوالہ سے‬
‫‪:‬استعمال میں آیا ہے‬

‫تو ہو اور باغ ہو اور زمزمہ کرنا بلبل تیری آواز سے جیتاہوں ‪ ،‬نہ‬
‫مرنا بلبل(‪ )٢۳‬تقی‬

‫پھلواڑی ‪ ،‬جہاں پھولوں کے پودے ہوں‬

‫کچھ دل ہی باغ میں نہیں تنہا شکستہ دل ہر غنچہ دیکھتاہوں تو ہے گا‬
‫شکستہ دل (‪ )٢۴‬درد‬

‫دنیا معمورہ‬

‫دل کو کیا باندھے ہے گلزا ِر جہاں سے بلبل حسن اس باغ کا اک روز‬
‫خزاں ہووے گا (‪ )٢۵‬قائم‬

‫دنیا ‪،‬جہاں ‪،‬‬

‫ہر سہ شعر ا کے ہاں ’’باغ‘‘ مختلف حوالوں سے وارد ہوا ہے ۔ درد‬
‫اور قائم نے بطور استعارہ نظم کیا ہے ۔ درد نے دنیا کے رویوں کو‬
‫واضح کیا ہے ۔یہاں دکھ دینے والوں کی کمی نہیں جبکہ قائم نے فنا کا‬

‫فلسفہ اجاگر کیا ہے ۔‬

‫گلستان‪:‬‬

‫یہ لفظ ’’گل‘‘ کے ساتھ ’’ستان‘‘ کا لاحقہ بڑھانے سے تشکیل پایا ہے‪،‬‬
‫یعنی پھولوں کی جگہ۔ گویا یہ لفظ ایسے باغ کے لئے مخصوص ہے‬

‫جہاں پھولدار پودے ہوں۔ اسم ظرف مکان ‪ ،‬باغ جہاں پھول کھلتے‬
‫پھولوں سے بھرپور اور پھولدار مقامات انسانی مزاج پر ہیں۔(‪)٢۶‬‬

‫خوشگوار اثر ات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ صحت کی بہتری اور‬
‫بحالی کے لئے نمایاں حیثیت واہمیت کے حامل رہے ہیں۔ یہی نہیں‬
‫غمی وخوشی کے حوالہ سے ان کی ہر چند ضرورت رہی ہے۔ اردو‬

‫غزل میں اس کا مختلف حوالوں سے استعمال رہاہے‬

‫حالات ‪ ،‬موسموں‪ ،‬سماوی آفات وغیرہ رنگ میں بھنگ ڈالتے رہتے‬
‫ہیں‬

‫گلستان جہاں کی دید کیجو چشم عبرت سے کہ ہر اک سروقد ہے اس‬
‫ؔ)چمن میں نخل ماتم کا(‪( )٢٧‬درد‬

‫میرزا علاؤالدین آرزو کے نزدیک پھولوں کو ہاتھ بھی لگانا ‪ ،‬گلستان‬
‫‪:‬کی بربادی کے مترادف ہے‬

‫کہ آج لوٹے ہے گل چیں یہ لگائیں ہاتھ بھی جھوٹوں تو یوں کہے بلبل‬
‫گلستاں کیسا (‪ )٢۸‬آرزو‬

‫غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو‬

‫لے گئے خاک میں ہم دا ِغ تمنائے نشاط‬ ‫تو ہو اور آپ بصد گلستاں‬
‫ہونا‬

‫)باغ باغ ہوکر ‪ ،‬شادوخرم رہو(‪۳٠‬پھولو پھلو(‪)٢۹‬‬

‫مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا کہ فرقت میں تری آتش‬
‫برستی تھی گلستاں پر‬

‫موسم اور ماحول انسانی موڈکی پیروی کرتے ہیں ۔ غلام رسول مہر کا‬

‫کہنا ہے‬

‫مناظر کی دلآویزی بجائے خود کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ‪،‬بلکہ ’’‬
‫سب کچھ انسان کی دل کی کیفیت پر موقوف ہے۔‬

‫اگر وہ خوش ہے تو غیر دلچسپ مناظر سے بھی شادمانی کے اسباب‬
‫پیدا کرے گا۔ اگر وہ ناخوش ‪ ،‬رنجیدہ اور مصیبت‬

‫زدہ ہے تو بہتر سے بہتر منظر بھی اس کے لئے سوزش اور جلن‬
‫)(‪‘‘۳١‬کاباعث ہوگا۔‬

‫غالب کے بعد کروچے نے بھی تو یہی تھیوری پیش کی ہے‬

‫چہرہ فرو ِغ مے سے ‪ ،‬گلستاں اک نو بہا ِر ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ‬
‫کئے ہوئے‬

‫سرخی ‪ ،‬رنگینی (‪)۳٢‬سرخ رنگین (‪ )۳۳‬خوبصورتی ‪ ،‬حسن ‪ ،‬رنگا‬
‫رنگی ‪ ،‬حسن انسان کے اندر ہے جب بھی غیر فطری رکھ رکھاؤ سے‬

‫باہر آتا ہے ‪ ،‬یہ ازخود واضح ہوجاتاہے ۔‬

‫گلشن‪:‬‬

‫گل‘‘ کے ساتھ ’’شن‘‘ کالاحقہ بڑھانے سے ترکیب پایا ’’یہ لفظ بھی‬
‫ہے ۔ اسم ظرف مکان ‪ ،‬باغ(‪ )۳۴‬معنی مراد ہیں۔ لیکن گلزار کی طرح‬

‫یہ بھی پھولوں والی جگہ کے لئے مخصوص ہے۔ لغت سے ہٹ کر‬
‫کنای اۃکوئی سے معنوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ میر صاحب کے‬

‫ہاں پھولوں والی جگہ کے معنوں میں نظم ہوا ہے ۔‬

‫گل شرم سے بہہ جائے گا گلشن میں ہوکر آب سا‬

‫برقع سے گرنکلا کہیں چہرا ترا مہتاب سا(‪ )۳۵‬میر‬

‫میر صاحب کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی حسن (ونزاکت ) کے‬
‫گلشن ‘‘ کے ساتھ ’’سامنے کوئی حسن (ونزاکت ) ٹھہر نہیں سکتا ۔‬
‫حسن وابستہ کردیا گیا ہے ۔ گلشن حسن کا منبع ہے لیکن انسانی حسن‬

‫کے سامنے صفر (پاتال) ہوجاتا ہے۔‬

‫بہا ِر داغ تھی جب دل پہ‪ ،‬قائم عجب سرسبز تھا گلشن ہمار ا(‪ )۳۶‬قائم‬

‫قائم نے گلشن سے سبزہ اور ہریالی منسلک کی ہے ۔ یہ انسانی‬
‫صحت ومزاج کے لئے نمایا ں حیثیت کی حامل رہی ہیں۔‬

‫آفتاب کے خیال میں گلشن حسن اور رنگا رنگی (کسی کی) کی آماجگاہ‬
‫ہے ۔ لیکن انسانی حسن پر حسد کرنا یا ششدر رہ جانا غیر فطری بات‬

‫نہیں‬

‫مت اس اداو ناز سے گلشن میں کرگزر ڈرتا ہوں میں ‪ ،‬مبادا‪ ،‬کسی کی‬
‫نظر لگے (‪ )۳٧‬آفتاب‬

‫غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ فرمائیں‬

‫گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج‬

‫قمری کا طوق حلقہء بیرون در ہے آج‬

‫گلشن بمعنی گلستان (‪ )۳۸‬محفل (‪ )۳۹‬برتا گیا ہے‬

‫گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے ہر غنچے کاگل ہونا‬
‫آغوش کشائی ہے غالب‬

‫گلستان ‪ ،‬باغ (‪ )۴٠‬انجمن ‪ ،‬بزم محفل‬

‫اشخاص کی صحبت قوموں کے مزاج ر ّویے اور روایات بدل کررکھ‬
‫دیتی ہے۔تابع اذہان بلوغت اختیار کرلیتے ہیں‬

‫گلزار‪:‬‬

‫یہ لفظ بھی گل ‪ +‬زار کا مجموعہ ہے ۔ زار اسم ظرف مکان کی علامت‬
‫ہے ۔ گل زار جہاں پھول ہی پھول ہوں ۔(‪ )۴١‬پھلیرے کی دوکان پر بہت‬
‫سی قسموں کے پھول ہوتے ہیں لیکن اسے گلزار کا نام نہیں دیا جائے‬
‫گا۔ وہ دوکان ہی کہلائے گی۔ گلزار سے مراد ایسی جگہ ‪ /‬خطہ اراضی‬

‫جہاں پھولوں کے پودے اگائے گئے ہوں۔ پھول ہمیشہ سے سماجی‬
‫ضرورت رہے ہیں۔ گلستان ‪ ،‬گلشن اور گلزار در حقیقت ایک ہی قماش‬

‫کے لفظ ہیں ۔ اردو غزل میں گلزار کا استعمال مختلف سماجی اور‬
‫انسانی رویوں سے پیوست نظر آتاہے ۔ مثلاا‬

‫ہوا زیبا بدن گلرو تمہارا خلق جس دن سے‬

‫نہ دیکھا وہ زمانے میں کسی گلزار میں صورت (‪ )۴٢‬چندا‬

‫انسانی خلق رنگا رنگ پھولوں کے حسن اور خوشبو سے کہیں بہتر‬
‫ہوتا ہے ۔ پھول اپنے حسن اور خوشبو کے حوالہ سے متاثر کرتے‬
‫ہیں۔ لوگوں کو قریب آنے کی دعوت دیتے ہیں ۔بعینہ ہی انسانی حسن‬
‫اور خلق کی صورت ہوتی ہے۔ انسان میں ان دونوں عناصر کاہونا‬

‫گلزار کی مانند ہوتا ہے ۔‬

‫گلزار‪:‬‬

‫پھلنا پھولنا ‪،‬پنپنا‪ ،‬سکہ رہنا‬

‫اس قدر افسردہ دل کیوں ان دنوں ہے آفتاب‬

‫دیکھ کر ہوتا ہے تجھ کو تنگ ‪ ،‬دل گلزار کا (‪ )۴۳‬آفتاب‬

‫محفل ‪ ،‬انجمن ‪ ،‬دنیا ‪ ،‬احباب ‪ ،‬قدردان‬

‫زمانے کا عمومی چلن ہے کہ وہ سکھ میں ساتھ دیتا ہے۔ دکھ اور‬
‫افسردگی میں دل تنگ کرتا ہے ۔پھول اور پھولدار پودے خوشگوار موڈ‬

‫پسند کرتے ہیں ۔ اسی میں ان کے پھلنے پھولنے کا راز مخفی ہوتا‬
‫ہے۔‬

‫‪:‬غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو‬

‫تواس قد دلکش سے جو سائے کی طرح ساتھ پھر یں سرو و صنوبر‬
‫گلزار میں آوے‬

‫سرو وصنوبر سے واضح ہورہا ہے کہ گلزار سے پھولوں کاخطہء‬
‫اراضی مراد ہے۔گلزار میں (شخصی )بلند قامتی معتبر و معزز ٹھہراتی‬

‫‪:‬ہے۔ غلام رسول مہر لکھتے ہیں‬

‫محض بلندی قامت کوئی خوبی نہیں ‪ ،‬قداتنا ہی بلند ہونا چاہئے جتنا ’’‬
‫کہ موازنیت کے باعث دل کو لبھائے ‪،‬‬

‫)نری بلند قامتی بعض اوقات نازیبا بن جاتی ہے ۔ (‪۴۴‬‬

‫چمن‪:‬‬

‫باغ‘‘ گروپ سے متعلق ہے۔ اردو شاعری میں ’’یہ لفظ بھی‬
‫اس لفظ کا بڑا عام استعمال ملتاہے‬

‫اس نازنین دہن سے حرف اس ادا سے نکلا گویا کہ غنچہء گل صحن‬
‫چمن میں چٹکا‬

‫خوبصورت ادائیگی صح ِن چمن میں غنچہء گل کے چٹکنے سے کسی‬
‫طرح کم نہیں ۔ لہجہ اعتماد بحال کرتاہے ۔غلط لہجہ جھگڑے کا سبب‬

‫بن سکتا ہے ۔ بے مزگی کی صورت نکل سکتی ہے ۔ کرخت اور‬

‫کھردرا انداز تکلم بے وقار کرکے رکھ دیتا ہے ۔ غنچے کا چٹکنا اپنے‬

‫دامن میں بے پناہ حسن رکھتا ہے ۔‬

‫آنگن ‘‘ میں جوانی ‪ ،‬زندگی کے ذائقے ہی بدل کر رکھ دیتی ’’کسی‬
‫ہے‬

‫مرغان چمن کے چہچہے ہیں اور کبک دری کے قہقہے ہیں (‪)۴۵‬‬
‫مجروح‬

‫مرغان چمن کے چہچہوں کا جواز۔‪١‬۔ہریالی ۔‪٢‬۔ پھول ۔‪۳‬۔ پھل ہیں ۔‬
‫مجروح نے چمن کو باغ کے معنوں میں اندراج کیا ہے۔‬

‫اب غالب کے ہاں اس لفظ کی کارفرمائی ملاحظہ ہو‬

‫لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کرنہیں سکتی‬ ‫چمن زنگار آئینہ باد‬
‫بہاری کا‬

‫چمن‪:‬‬

‫گلبن و اشجار و برگ و بار(‪ )۴۶‬اظہار لطافت(‪ )۴٧‬با ِدبہاری کے اظہار‬
‫)کا وسیلہ (‪۴۸‬‬

‫اڑتے ہوئے الجھتے ہیں ہے جو ِش گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف‬
‫مرغِ چمن کے پانوء غالب‬

‫چمن ‪ ،‬جہاں بہت سارے درخت ہوں اوران کی بہت سی شاخیں‬
‫ِادھرادھربکھری ہوئی ہوں کہ بلبل کو پرواز میں دشواری محسوس‬

‫ہوتی ہو۔ بے ترتیبی حرکت میں خلل کا سبب بنتی ہے۔ بہتات نعمت سہی‬
‫لیکن اس کا ترتیب میں لانا اور ضروری قطر برید حرکت میں دشواری‬
‫کا موجب نہیں بنتی ۔ پنجابی مثل معروف ہے ’’پانا سب کو آتا ہے لیکن‬

‫’’ٹمکانا‘‘ کوئی کوئی جانتا ہے۔ چمن کی خوبی تو ہر کوئی چاہتا ہے‬
‫لیکن پودوں کی دیکھ بھال ‪ ،‬توازن ‪ ،‬سیمٹری قائم کرکے حظ فراہم‬
‫کرنا کوئی کوئی جانتا ہے ۔می ّسر کی بہتات ‪ ،‬سلیقے کی محتاج ہے‬
‫جبکہ سلیقہ ‪ ،‬توازن اور سٹمری کاضامن ہوتا ہے ۔‬

‫بت خانہ‪:‬‬

‫فارسی اسم مذکر۔ بت رکھنے کی جگہ ‪ ،‬مندر ‪ ،‬شوالہ ‪ ،‬شیودوارہ‬
‫(‪ )۴۹‬بتکدہ ‪ ،‬صنم کدہ ‪ ،‬مورتی پوجا کی جگہ (‪)۵٠‬انسان نے اپنے‬

‫محافظ ‪ ،‬معاون ‪ ،‬نجات دہندہ ‪ ،‬پوجیور کو مجسم اور چشم بخود‬
‫دیکھنے کی خواہش ہمیشہ کی ہے۔ دکھ ‪ ،‬تکلیف اور مصیبت میں ان‬
‫سے مدد چاہی ہے ۔ دیوی دیوتاؤں کے ساتھ بھلے اور انسان دوستوں‬
‫کے بت بنا کر انہیں احترام دیا گیا ہے ۔ ان کی یاد میں بت گھر بنائے‬
‫گئے ہیں ۔ یہاں تک کہ کعبہ کو بھی بت گھر بنا دیا گیا ۔ یہی وجہ ہے‬
‫کہ بت اوربت خانے انسانی تہذیبوں کا محورو مرکز رہے ہیں ۔ مذہبی‬
‫اشخاص کی تصاویر اورمجسموں کااحترام عیسائیوں اور مسلمانوں‬

‫)کے ہاں بھی پایا جاتا ہے ۔(‪۵١‬‬

‫جبرواستبدادسے متعلق قوتیں‪ ،‬انسان اور انسانیت سے برسر پیکار‬
‫رہی ہیں۔کچھ لوگ ان قوتوں کے سامنے ہمیشہ جھکے اور انہیں اپنی‬

‫قسمت کامالک ووارث سمجھتے چلے آئے ہیں جبکہ کچھ لوگ ان‬
‫قوتوں سے نبردآزما رہے ہیں۔ اس جنگ کے فاتحین کوبھی عزت و‬

‫احترام دیا گیا ہے ۔ گویا دونوں ‪ ،‬منفی اور مثبت قوتیں طاقت کی‬

‫علامت ٹھہر کر پوجیور کے درجے پر فائز رہی ہیں۔ ماہرین بشریات کا‬
‫کہناہے کہ فرد کی شخصیت پیدائشی قوتوں کے زیر اثر نہیں بلکہ‬

‫معاشرتی حالات کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہے۔ (‪)۵٢‬یہی وجہ ہے کہ‬
‫‪ )۵۳‬بہت بڑا معاشرتی حوالہ رہے ہیں۔ بعض کو ان کے عمدہ ( ‘‘’’بت‬
‫کردار(‪ )۵۴‬اور بعض کوجبری(‪ )۵۵‬عزت دینے پر انسان مجبور ہا ہے‬

‫بتکدہ ‘‘کانام دیتے ہیں’’طوائف گاہ اوربازار حسن کو بھی غالب‬

‫شب ہوئی پھر انجمن رخشندہ کا منظر کھلا اس تکلف سے گویا بتکدے‬
‫کا درکھلا‬

‫اردوشاعری میں ’’بت خانہ‘‘ عام استعمال کا لفظ رہا ہے ۔مثلاا‬

‫کہیں عش ِق حقیقی ہے کہیں عش ِق مجازی ہے‬
‫کوئی مسجد بناتا ہے کہیں بنتا ہے بت خانہ(‪ )۵۶‬شریں‬

‫بت خانے ‘‘ کا استعمال بطور پوجا گاہ ہو اہے ’’‬

‫چشم اہل قبلہ میں آج اس نے کی جوں سرمہ جا‬

‫حیف ایسا شخص جوخا ِک دربت خانہ تھا (‪ )۵٧‬سودا‬

‫مجازی اور غیرحقیقی پوجاگاہ‬

‫مسجد میں بتکدے میں کلیسا میں دیر میں‬

‫پھرتے تری تلاش میں ہم چار سو رہے (‪ )۵۸‬شیدا‬

‫بت کدہ‬

‫‪ ،‬بیت الصنم ‪ ،‬صنم خانہ ‪’’ ،‬بت خانہ ‘‘ کے مترادف الفاظ ہیں‬

‫اللہ رے کیا عشق بتاں میں ہے رسائی‬

‫یہ کعبہ ء دل اپنا صنم خانہ ہوا ہے (‪ )۵۹‬ذکا‬

‫کسی شخص کا باطن جودنیوی حوالوں سے لبریز رہا ہو۔‬

‫بیت الحرام تھا سو وہ کافر ہمارے دل کی نہ پوچھ اپنے عشق میں‬
‫)بیت الضم ہوا (‪۶٠‬‬

‫شیخ تفضل حسین عزیز ’’آستا ِن صنم‘‘ کانام دے رہے ہیں‬
‫دیر وحرم سے کام بھلا اس کو کیا رہے جس کاکہ آستا ِن صنم سجدہ‬

‫گاہ ہو (‪ )۶١‬عزیز‬

‫محبوب کا آستانہ عشاق کی سجدہ گاہ رہا ہے‬

‫غالب کے ہاں لفظ بت خانے کا استعمال ملاحظہ ہو‬

‫وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں تو کعبے‬
‫میں گاڑو برہمن کو‬

‫یقین استواری کانام ہے ۔ کبھی اِدھر کبھی ادھر ایسوں کو عہد جدید ’’‬
‫لوٹے‘‘ کانام دیتا ہے بت خانہ بتوں کے رکھنے کی جگہ کوکہا جاتا رہا‬

‫ہے ۔ یہ لفظ مندر‪ ،‬شوالہ ‪ ،‬دیر‪ ،‬شیودوارہ کے لئے بولا جاتاہے ۔بت‬
‫خانہ سے وابستہ روایات تہذیبی حوالوں سے جڑی رہی ہیں اور ان‬
‫کے اثرات نادانستہ بت شکنوں کے ہاں بھی منتقل ہوئے ہیں۔‬

‫بیاباں‪:‬‬

‫فارسی اسم مذکر‪ ،‬ریگستان ‪ ،‬جنگل ‪ ،‬ویرانہ ‪ ،‬اجاڑ ‪ ،‬جہاں کوسوں تک‬
‫)پانی اور درخت نہ ہوں(‪۶٢‬‬

‫عشق اوربیاباں لازم و ملزوم حیثیت کے حامل ہیں۔وہ اس لئے‬

‫عشق میں جب بھی وحشت لاحق ہوگی تو وحشی (عاشق ) ا۔‬
‫ویرانے کی طرح دوڑے گا۔‬

‫عشق ویرانی چاہتا ہے تاکہ عاشق اور معشوق بلا خوف مل ب۔‬
‫سکیں اورباتیں کرسکیں۔‬

‫غالب کے ہاں لفظ’’بیاباں‘‘ کا استعمال ملاحظہ ہو‬

‫بحر گر بحر نہ ہوتا گھر ہمارا ‪ ،‬جونہ روتے بھی تو ویراں ہوتا‬
‫توبیاباں ہوتا‬

‫جہاں پانی دستیاب نہ ہو‪ ،‬ویرانہ *‬

‫میر صاحب جنوں کو بیابان کا نام دے رہے ہیں ۔بیاباں ہولناک وسعت‬
‫ویرانی کاحامل ہوتا ہے ۔ خوف اس سے وابستہ ہوتا ہے جنون کی حد‬
‫پیمانوں سے بالا ہوتی ہے ۔ بقدر ضرورت حالات(ویرانی) اور وسعت‬
‫میسر نہ آنے کا خوف اور خدشہ رہتا ہے۔ ان امور کے پیش نظر میر‬

‫صاحب نے ’’بیاباں جیون ‘‘کی ترکیب جمائی ہے‬

‫میں صی ِدر میدہ ہوں بیابا ِن جنون کا رہتا ہے مراموجب وحشت ‪،‬‬
‫مراسایا (‪ )۶۳‬میر‬

‫شکیب جلالی یاس کے ساتھ بیابان کارشتہ جوڑتے ہیں یاس بیابان‬
‫سے مما ثل ہوتی ہے ۔ یاس کی حالت میں امید کے دروازے بند‬
‫ہوجاتے ہیں کسی حوالہ سے بات بنتی نظر نہیں آتی‬

‫بیٹھا تھا میں اداس بیابان یاس تازہ کوئی ردائے شب ابر میں نہ تھا‬
‫میں (‪ )۶۴‬شکیب‬

‫کسی بھی نوعیت کا جنون سوچ کے دروازے بند کردیتا ہے ۔ یا س‬

‫اداس کردیتی ہے ۔ ہر دوصورتیں معاشرتی جمود کاسبب بنتی ہیں ۔‬

‫معاشرتی جمود تخلیق و تحقیق کے لئے سم قاتل سے کم نہیں ہوتا۔‬

‫جنوں ہوکہ یاس مث ِل بیابان ( بے آباد‪ ،‬ویران بنجر‪ ،‬تخلیق وتحقیق سے‬
‫معذور) ہوتے ہیں۔‬

‫فارسی اسم مذکر‪ :‬بیابان ‪ ،‬صحرا ‪ ،‬جنگل ‪،‬میدان (‪ )۶۵‬دشت‪:‬‬
‫ویرانہ ‪ ،‬شیفتگی کاٹھکانہ ‪ ،‬اردو شاعری میں یہ لفظ مختلف مفاہیم‬
‫کے ساتھ نظم ہوا ہے ۔ حاتم اور قاتم نے اسے ویرانہ اور بیابان کے‬

‫معنوں میں باندھا ہے‬

‫ہم دوانوں کو‪ ،‬بس ہے پوشش سے دام ِن دشت وچادرمہتاب (‪ )۶۶‬قائم‬

‫ہوامجنوں کے حق میں دشت گلزار‬ ‫کیا ہے عشق کے ٹیسونے بن‬
‫حاتم سرخ (‪)۶٧‬‬

‫اب غالب کے ہاں اس لفظ کے استعمال ملاحظہ ہو‬

‫یک قدم و حشت سے در ِس دفتر امکاں کھلا جاہ ‪ ،‬اجزائے دوعالم‬
‫دشت کا شیراز تھا‬

‫وحشت اور دشت ایک دوسرے کے لئے لازمہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔‬
‫وحشت کی صورت میں دشت کی ضرورت ہوگی۔ جنون ووحشت امکان‬

‫کے دروازے کھولتے ہیں۔ آبادی میں رہتے ہوئے سوچ کو یکسوئی‬
‫میسر نہیں آسکے گی ۔ یہ دشت میں ہی ممکن ہے ۔‬

‫صحرا‪:‬‬

‫عربی اسم مذکر۔ جنگل ‪ ،‬بیابان(‪ )۶۸‬میدان ‪ ،‬جہاں درخت وغیرہ کچھ‬

‫نہ ہوں‪ ،‬ویرانہ ‪ ،‬ریگستان (‪ )۶۹‬تنگ جگہ جہاں گھٹن ہو۔‬

‫غالب نے مجنوں کے حوالہ سے صحرا سے بیابان معنی مراد لئے ہیں‬

‫صحرا مگر بہ تنگی چشم جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار‬
‫حسود تھا‬

‫صحرا وسیع و کشادہ ویرانہ ہوتا ہے ۔ بقول غالب اسے کوئی سر نہیں‬
‫عام روایات ’’کرسکتا ۔ یہ اعزاز صرف مجنوں کو حاصل ہوا ہے ۔‬
‫کے مطابق اس کی ساری عمر بیابان کی خاک چھاننے میں بسر ہوئی‬
‫۔(‪)٧٠‬۔ صحرا گردی عشق کا لازمہ رہا ہے ۔‬

‫شیفتہ صحرا سے پر آشوب ویران مقام مراد لیتے ہیں‬

‫گاؤں بھی ہم کو غنیمت ہے کہ آبادی تو ہے آئے ہیں ہم پر آشوب‬
‫صحرا دیکھ کر (‪ )٧١‬شیفتہ‬

‫بیدل حیدری ویرانی ‪ ،‬خشکی ‪ ،‬پشیمانی ‪ ،‬بدحالی وغیرہ کے معنوں‬
‫‪:‬میں نظم کرتے ہیں‬

‫باد ل یہ آنکھ کے صحرا کو کیا ہوا کیوں ڈالتے نہیں ہیں بگولے دھمال‬
‫‪ ،‬سوچ (‪ )٧٢‬بیدل‬

‫حاتم نے صحرا سے سبزہ گاہ ‪ ،‬جہاں ہر یالی ہو معنی مراد لئے ہیں‬

‫میاں چل سیر کر ابر و ہوا ہے ہو اہے کوہ و صحرا جابجا سبز(‪)٧۳‬‬
‫حاتم‬

‫جنگل‪:‬‬

‫فارسی اسم مذکر۔ بیابان ‪ ،‬جھاڑی ‪،‬بن‪ ،‬نخلستان‪ ،‬صحرا‪ ،‬میدان ‪،‬‬

‫ریگستان ‪ ،‬بنجر ‪ ،‬افتادہ زمین ‪ ،‬ویران جگہ‪،‬‬

‫)چراگاہ‪ ،‬بادشاہی شکار گاہ صید گاہ(‪٧۴‬‬

‫حاتم نے بے آباد جگہ جبکہ چندا نے چوپایوں کی چراگاہ ‪،‬معنی مراد‬
‫‪:‬لئے ہیں‬

‫وے پری رویاں جنھیں ڈھونڈے تھے ہم جنگل کے بیچ‬

‫بعد مدت کے یکا یک آج پائیں باغ میں (‪ )٧۵‬حاتم‬

‫رہیں کیونکہ بستی میں اس عشق کے ہم جو آہو کوجنگل سے رم‬
‫ؔ)دیکھتے ہیں (‪ ( )٧۶‬چندا‬

‫غالب نے جنگل کوبیابان ‪ ،‬دشت اور صحرا کے معنوں میں استعمال‬
‫کیا ہے‬

‫ہر اک مکان کو ہے مکین سے شرف اسد مجنوں جو مرگیا ہے تو‬
‫جنگل اداس ہے‬

‫بیابان ‪ ،‬دشت ‪ ،‬صحرا‪،‬جنگل اورویرانہ وحشت پیدا کرنے والے الفاظ‬
‫ہیں ۔ قدرتی یا پھر انسان کی اپنی تیار کردہ آفات انسانی تباہی کا‬

‫موجب رہی ہیں۔ طاقتور طبقے ‪ ،‬بیماریاں یا پھر سماوی آفات‪ ،‬آبادیوں‬
‫کو ویرانوں میں بدلتی رہتی ہیں۔بہر طور یہ الفاظ سماعت پر ناگوار‬

‫گزرتے ہیں۔ سماعت ان سے جڑی تلخی برداشت نہیں کرتی۔ ان حقائق‬
‫کے باوجود عشاق‪ ،‬زاہد حضرات اور تدبر وفکر سے متعلق لوگوں کو‬

‫یہ جگہیں خوش آتی رہی ہیں ۔ ان مقامات پر موجود آثار‪ ،‬مختلف‬
‫حوالوں سے متعلق امور کی گھتیاں کھولتے ہیں ۔ عبرت یا پھر دلی ِل‬

‫جہد بن جاتے ہیں۔‬










































Click to View FlipBook Version