وہائٹ ہاؤس ۵۳۔ نفسیات ،حمیر ہاشمی،ص۵٢ ۵٢٧۔
زمینی فرعون روحانی پیشواؤں کی درگاہیں ۵۵۔ ۵۴۔
تذکرہ بہارستان ناز ،ص۵۶ ١۶٠۔ ۵٧۔ کلیات سودا ،ج ا ،ص
۳۴
تذکرہ خوش ۵۹۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص۵۸ ۳۴۸۔
معرکہ زیبا ج ا،ص٢۳۸
تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ۶١۔ کلیات میرج ،١ص۶٠ ١۴۵۔
ا ،ص۵۵۴
کلیات میر ج ا،ص۶۳ ١۸١۔ فیروز اللغات ،ص۶٢ ٢۵٠۔
روشنی اے روشنی ،ص۶۴ ۳١۔ نوراللغات ج ا ۶۵ ،۔
نوالحسن ہاشمی ،ص۳۹
دیوان زادہ ،شیخ ظہور ۶٧۔ کلیات قائم ج ا ،ص۶۶ ۵٧۔
الدین حاتم ،ص١۵
فیروزاللغات ،ص۶۹ ۸۶٠۔ نوراللغات ج ا ،ص۶۸ ۴۸١۔
دیوان شیفتہ ،ص٧١ ۴۴۔ نوائے سروش ،ص٧٠ ٢٠۔
دیوان زادہ ،ص۷۳ ٧۔ پشت پہ گھربیدل حیدری ،ص٧٢ ۶۹۔
دیوان زادہ ،ص٧۵ ١٧۔ نوراللغات ج ا ،ص٧۴ ١٠۹٢۔
باغات سے مراد ایسا ٧٧۔ دیوان مہ لقا بائی چندا ،ص٧۶ ١۳۶۔
٧۹ ۴:۔ ٢:۲۵خطہ جس میں پھولدار درخت ہوں ٧۸۔
١۳۳
۸١ ١٠:۲۱۔ ۸٠ ۸:١٢٧۔
۸۳ ١١:۱۰۔ ۸٢ ۸:۴۶۱۔
۸۵ ١٧:۵۹۔ ۸۴ ١۳:۳۵۔
۸٧ ٢١:۵۸،٢١:۱۹،٢۳:۴۲۔ ۸۶ ١۴:۳۱۔
نفسیات ،ص ۸۹ ۵۴٧۔ ۸۸ ٢۳:۲۰۔
۹١۔ بیان غالب ،ص۹٠ ۳۳۵۔ روح المطالب فی شرح دیوان
غالب ،ص۳۹۴
فیروزاللغات ،ص۹۳ ٢٢٧۔ نوائے سروش،ص۹٢ ۵٧۸۔
نوائے سروش ،ص۹۵ ۴۳١۔ بیان غالب ،ص۹۴ ٢۵۶۔
بیان غالب ،ص۹٧ ۶٢۔ فرہنگ آصفیہ ج ا ،ص۹۶ ٢٠٢۔
روح المطالب فی شرح ۹۹۔ نوائے سروش ،ص۹۸ ۵۹۔
دیوان غالب ،ص١٢۹
لغات نظامی ،ص١٠٠ ۵۴٢۔
قرآن مجید ،شارح عبدالقادر محدث دہلوی ،تاج کمپنی لاہور ١٠١۔
قرآن مجید ،شارح مولانا سید فرمان ١٠٢۔ ،س ن ،ص١٠١٠
علی ،شیخ علی اینڈ سنز ،کراچی، ١۹۸۳ص۸۳۳
قرآن مجید ،شارح احمد رضا خاں بریلوی ،تاج کمپنی لمیٹڈ ١٠۳۔
،١۹۸۹ص۹۶٢
قرآن مجید ،شارح عبدالعزیز ،ملک دین محمد اینڈ سنز ١٠۴ ،۔
لاہور ،١۹۵٢ ،ص۵۶٠
قرآن مجید ،شاہ ولی اللہ دہلوی ،مکہ ١۴١۶ ،ھ ،ص١٠۵ ١۶۴۔
نوائے سروش ،ص ١٠٧ ۳١٢۔ فیروز اللغات ،ص١٠۶ ۸۳۔
بیان غالب ،ص١٠۸ ١۹۹۔
جوتے کی پشت پر بنے نقوش چلتے میں زمیں پر ثبت ہو ١٠۹۔
جاتے ہیں ۔ غالب نے ان نقوش کو خیابان ارم کا نام دیا ہے ۔
١١٠۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب ،ص۱۱۱ ٢۶٧۔ اردو کی دو
قدیم مثنویاں مولف اسماعیل امرہوی ،ص١۶٠
اردو کی دو قدیم ١١۳۔ دیوان مہ لقا بائی چندا ،ص١١٢ ١۴۳۔
مثنویاں ،ص١٠۹
دیوان میر مہدی مجروح ١١۵۔ ١١۴۔ دیوان شیفتہ ،ص٢
،ص١۶۶
کلیات میرج،مرتبہ کلب علی خاں فائق ج،١ص١١۶ ١۶۳۔
شاہ عالم ثانی آفتاب ،احوال و ادبی خدمات ،ص١١٧ ١۹۹۔
فیروزاللغات ،ص١١۹ ۵۸۳۔ کلیات قائم ج ا ،ص١١۸ٍ ١۸٢۔
کلیات میر ج ا١٢١ ،۔ نوائے سروش ،ص١٢٠ ۴۳٠،۴۳١۔
ص١٠٠
مثنوی مولانا روم ج ، ٢ص ١٢٢ ۶۳۔
آتش کا پیر ،کنایہ مرشد کامل عبداللہ عسکری ،شرح دیوان ١٢۳۔
حافظ ج ا ،ص١١١
مثنوی مولانا ١٢۵۔ شرح دیوان حافظ ج ا ،ص١٢۴ ١١١۔
روم دفتر دوم ،مترجم قاضی سجاد حسین
روح المطالب فی ١٢٧۔ مثنوی مولانا روم ج ،٢ص١٢۶ ۶۳۔
شرح دیوان غالب،ص١٢٢
نوائے سروش،ص١٢۹ ۴۹۔ بیان غالب ،ص١٢۸ ۵۴۔
فیروز اللغات١۳١ ،۔ فرہنگ عامرہ ،ص١۳٠ ٢١۹۔
ص۳٢۹
بیان غالب ،ص١۳۳ ١١٢۔ نوائے سروش ،ص١۳٢ ٢١۸۔
لغات نظامی ،ص١۳۴ ۳۴٢۔ نوائے سروش،ص١۳۳ ١۶٧۔
روح المطالب فی شرح ١۳۶۔ نوائے سروش،ص١۳۵ ۵۳۔
دیوان غالب،ص١٢۸
روح المطالب فی شرح ١۳۸۔ بیان غالب،ص١۳٧ ١٠١۔
دیوان غالب،ص١۶۵
دیوان درد ،ص١۴٠ ١۸۸۔ کلیات قائم،ج ا ص١۳۹ ۵۹۔
لغات نظامی ،ص١۴٢ ۶١۶۔ لغات نظامی،ص١۴١ ۳٧١۔
تذکرہ گلستان ١۴۴۔ دیوان ماہ لقا بائی چندا ،ص١۴۳ ۹۵۔
سخن ج ا ،ص ۳١۳
تذکرہ ١۴۶۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ،١ص ١۴۵ ١۳۶۔
گلستان سخن ج ا ،ص١١١
فرہنگ آصفیہ ج ا ،ص١۴٧ ٢۸۴۔ بیان غالب١۴۸ ،۔
ص۳٠۹
بیان غالب ،ص١۵٠ ۳٠۳۔ نوائے سروش،ص١۴۹ ۵٢۸۔
روح المطالب فی ١۵٢۔ نوائے سروش،ص١۵١ ۵١۸۔
شرح دیوان غالب ،ص۳۶٢
تذکرہ ١۵۴۔ تذکرہ مخزن نکات ،قائم چاندپوری ،ص١۵۳ ۶۴۔
مخزن نکات،ص١۴۸
فیروزاللغات،ص١۵۶ ٧۵٢۔ کلیات میر ج ا ،ص١۵۵ ١۸۸۔
دکھ اور رنج میں چہرا اتر جاتا ہے‘‘ نفسیات ،ص١۵٧ ’’۴۵۶۔
غصے اور رنج کی حالت میں انسان بطور رد عمل مختلف ’’ ١۵۸۔
قسم کی حرکتیں کرتا ہے اور اس کی یہ حرکات باہم مربوط نہیں ہوئیں
نفسیات ،ص١۵١
نفسیات،ص١۶٠ ۴۵۴۔ نفسیات ،ص١۵۹ ١۵١۔
بیان غالب ،ص ، ۴٧روح المطالب فی شرح دیوان غالب١۶١ ،۔
ص١٢٢
دیوان ماہ لقا بائی ١۶۳۔ نوائے سروش،ص١۶٢ ١۴۹۔
چندا،ص١۴۵
روشنی ١۶۵۔ دیوان میر مہدی مجروح ،ص١۶۴ ١۳٢۔
اے روشنی ،ص۸۸
مثنوی مولانا روم دفتر ١۶٧۔ فیروزاللغات ،ص١۶۶ ۹۶٠۔
دوم،ص١٠٢
انتخاب ذوق ١۶۹۔ دیوان مہ لقا بائی چندا ،ص١۶۸ ١۴۶۔
ابراہیم ،ص۴۶
لغات ١٧١۔ دیوان میر مہدی مجروح ،ص١٧٠ ١٢١۔
نظامی،ص٧٢۳
کلام شاہ حسین ،شاہ حسین ،ص١٧٢ ۸۴۔
مترادفات القران مولوی عبدالرحمن ،ص ،٧١١المنجد کے ١٧۳۔
مطابق سمندر کے کنارے کو ساحل بولا جاتا ہے۔
روح المطالب کی ١٧۵۔ نوائے سروش ،ص١٧۴ ۳۶۔
شرح دیوان غالب ،ص١١۳
افکار غالب ،ص١٧٧ ١٠۶۔ روح غالب ص١٧۶ ۹۵۔
کلیات قائم ج ١٧۹ ،١۔ ص ١١٧تذکرہ مخزن نکات ١٧۸۔
ص١٧۸
آئینہ ١۸١۔ روشنی اے روشنی ،ص ١۸٠ ۹۳۔
اردولغت،ص١۶٧
١۸۳۔ بیان غالب ،ص ١٠۶نوائے سروش ،ص١۸٢ ١۳۳۔
١۸۵۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب ،ص١۸۴ ١٧١۔
آئینہ اردو لغت ،ص١٠۶۶
١۸٧۔ روح المطالب فی شرح نوائے سروش ،ص١۸۶ ١١٧۔
دیوان غالب ،ص ١٢٠
فیروز اللغات ،ص١۸۹ ۴۵۵۔ بیان غالب ،ص ١۸۸ ۵۳۔
١۹١۔ فرہنگ عامرہ ،ص١۹٠ ۳١۹۔ آئینہ اردو لغت،
ص١٠۹٠
تذکرہ مخزن نکات،ص١۹۳ ۴۹۔ روح غالب ،ص١۹٢ ١١٢۔
١۹۵۔ فیروزاللغات ،ص ۸۸۵کلیات میر ج ،١ص ١۹۴ ١۴۹۔
فیروز اللغات ،ص١۹۶ ۸۸۵۔ ١۹٧۔ روح المطالب فی شرح
دیوان غالب،ص۳۸۴
نفسیات،ص١۹۹ ۴۶۵۔ ١۹۸۔ فیروز اللغات ،ص١٢۹
دیوان غالب(کامل ) مرتبہ کالی داس گپتا رضا،ص ٢٠٠ ٢٧٢۔
٢٠٢۔ فرہنگ عامرہ ،ص ۳۵٠نوائے سروش ،ص٢٠١ ۵۵۸۔
مصباح اللغات ٢٠۴آئینہ اردو لغت ،ص٢٠۳ ١١۴۹۔
،ص ،۶۴۳المنجد ،ص۶۴٢
٢٠۶۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب،ص٢٠۵ ١١۸۶۔
فیروز اللغات ،ص۵٠٠
بن سنورکر ٢٠۸۔ نوائے سروش ،ص٢٠٧ ٧٠٧۔
فیروزاللغات ،ص ٢١٠۔ نوائے سروش ،ص٢٠۹ ۳۳۔
دیوان درد ،ص٢١٢ ١۹۵۔ المنجد ،ص٢١١ ۸۸٢۔
الحاج ٢١۴۔ دیوان مہ لقا بائی چندا ،ص٢١۳ ١١۸۔
پروفیسر سید محمد اشرف ،سید اکادمی ،لاہور ،١۹۸۶ص٢
روح المطالب فی شرح دیوان غالب ،ص٢١۵ ۴۶٧۔
نور اللغات ج، ٢ص ٢١٧۔ روشنی اے روشنی،ص٢١۶ ۹۵۔
۳۸٢
روح المطالب فی شرح ٢١۹۔ ٢١۸۔ نوائے سروش،ص۴٠۴
دیوان غالب ،ص۳٠۵
حقیقی ہو کہ عشق مجازی ٢٢١۔ دیوان درد ،ص٢٢٠ ١٢٠۔
نوائے سروش ،ص٢٢۳ ۳۹٧۔ ٢٢٢۔ نور اللغات ج ،٢ص ١۳٠
فیروزاللغات ،ص٢٢۵ ۶۳۳۔ دیوان درد ،ص٢٢۴ ١١۶۔
کلیات میر ٢٢٧۔ ٢٢۶۔ فرہنگ عامرہ ،عبداللہ خویشگی،ص۴٧۸
ج ، ١ص١٠٢
فیروز اللغات ،ص٢٢۹ ١١٢٢۔ کلیات قائم ج ،٢ص٢٢۸ ۴۔
نوائے سروش ،ص٢۳١ ٢٢۸۔ بیان غالب،ص٢۳٠ ١۸٧۔
سنگاسن پچسی ٢۳۳۔ ٢۳٢۔ اردو کی دو قدیم مثنویاں،ص١۳٧
،فقیر دکنی ،ص۴
٢۳۵۔ انتخاب ابراہیم ذوق،محمدابراہیم ذوق ،ص٢۳۴ ۵۵۔
آئینہ اردو لغت ،ص١۶٧۳
پشتو اردو بول چال ،پروفیسر محمد اشرف ،ص ٢۳۶ ١۵٢۔
اقبال ایک صوفی شاعر ،ڈاکٹر سہیل بخاری ،ص ٢۳٧۔
۳٧١
تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،سعادت خاں ناصر ،ص ٢۳۸ ١١۶۔
تذکرہ ٢۴٠۔ شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ،ص ٢۳۹ ١۳۶۸۔
گلستان سخن ج ، ٢ص ٧٧
کلیا ِت میر ٢۴٢۔ تذکرہ خوش معرکہ زبیاج ا ،ص ٢۴١ ۸٠۔
ج ا ،ص ١۴۳
٢۴۴۔ اردو جامع انسائیکلو پیڈیا ج ٢۴۳ ١۵۳٠ ،١۵٧٢ ،٢۔
کلیات میر ج ا ،ص ٢٢٢
کلیات قائم ج ا ،قائم چاندپوری ،ص ٢۴۵۔
باب دوئم
غالب کے کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ
ہر کردار کا اپنا ذاتی طور طریقہ ،سلیقہ ،چلن اور سبھاؤ ہوتاہے ۔ وہ
ان ہی کے حوالہ سے کوئی کام سرانجام دیتاہے یا اس سے کچھ وقوع
میں آتا ہے۔ جس طرح کوئی قصہ کہانی ،واقعہ یا معاملہ بلا کردار
وجود میں نہیں آتا اس طرح غزل کا ہر شعر کسی کردار کا مرہو ِن
احسان ہوتاہے ۔ ضروری نہیں کردار کوئی شخص ہی ہو۔ جذبہ،
احساس ،اصطلاح ،استعارہ ،علامت یا اس کے سوا کوئی اور چیز
غزل کا کردار ہوسکتی ہے ۔ کچھ وقوع میں آنے سے پہلے کردار کا
اس میں ،اس معاملہ کی حیثیت ،نوعیت اور اہمیت مادی مفادات
اوراخلاقی میلانات و رجحانات کے مطابق ایک نفسیاتی رویہ ترکیب
پاتاہے ۔ اس رویے کی پختگی اور توانائی (فورس) کے نتیجہ میں کچھ
رونما ہوتاہے ۔ گویا وہ وقوعہ اس کے نفسیاتی عمل یا رد عمل کا
عملی اظہار ہوتاہے۔
غزل ،اردو شعر کی مقبول ترین صنف شعر رہی ہے ۔ اردو غزل نے
ان گنت کردار تخلیق کئے ہیں ۔ ان کرداروں کے حوالہ سے بہت سے
واقعات اور فکری عجوبے سامنے آئے ہیں۔ ان فکری عجوبوں کے
اکثر شیڈز ،زندگی کے نہایت حسا س گوشوں سے پیوست ہوتے ہیں ۔
انہیں کہیں نہ کہیں کسی اکائی میں تلاشا جاسکتاہے ۔ یہ بھی کہ ان
شیڈز اور زاویوں کے تحت اس عہد کی جزوی یا کلی نفسیات کا
کھوج کرنامشکل نہیں رہتا ۔ بات یہاں تک محدود نہیں ،ان شیڈز اور
زاویوں کی تاثیر حال پر اثر انداز ہوکر مختلف نوع کے رویو ں کی
خالق بنتی ہے۔ پہلے سے موجود رویوں میں تغیرات کا سبب ٹھہرتی
ہے۔
رویوں کی پیمائش کا کام ۱۹۲۰ -۳٠کے درمیانی عرصہ میں شروع
ہوا۔ رویے تین طرح کے ہوسکتے ہیں
الف۔ وہ رویے جنھیں عرصہ دراز تک استحقام رہتاہے تاوقتکہ کوئی
بہت بڑ احادثہ وقوع میں نہیں آجاتا یاکوئی ہنگامی
صورتحال پیدانہیں ہوجاتی ۔
وہ رویے جوحالات ،وقت اور ضرورتوں کے تحت تبدیل ہوتے ب۔
رہتے ہیں۔
وہ رویے جو جلد اور فوراا تبدیل ہوجاتے ہیں انہیں سیمابی ج۔
ر ّویے بھی کہا جاسکتاہے۔
کسی قوم کے اجتماعی رویے کی پیمائش ناممکن نہیں تو مشکل کام
ضرورہے کیونکہ قومیں لاتعداد اکائیوں کا مجموعہ ہوتی ہیں ۔ ہر اکائی
تک اپروچ کٹھن گزار کام ہے ۔ سطحی جائزے دریافت کے عمل میں
حقیقی کردار ادا نہیں کرتے ۔ اس موڑ پر اکائیوں کے لڑیچر کے
کرداروں کامطالعہ کسی حدتک سودمند رہتاہے ۔اس کے توسط سے
کرداروں کے کام ،طرز عمل ،مزاج ،چلن ،سلوک خاطر ،سلیقہ ،
باہمی سبھاؤ ،اوروں سے تعلق ،طور ،انداز وغیرہ کے حوالہ سے
اس اکائی کا کردار متعین کیا جاسکتاہے ۔ اسی حوالہ سے انہیں اچھے
یا برے نام دئیے جاتے ہیں ۔ شیطان کا اصل نام عزازئیل ہے۔ اس کی
کارگزاری ،سبھاؤ ،چلن وغیرہ کے تحت شیطان یا رکھشش کہا جاتا
ہے ۔
موثرکردار وہی کہلاتا ہے جو ویسا ہی کرے جیسا وہ کرتا ہے یا جیسا
کرنے کی توقع وابستہ ہوتی ہے ۔ تاہم دریا میں بہتے تختے پر شیر
خوار بچے کی ماں کی اور شداد کی ارم میں داخل ہوتے سمے جان
قبض کرنے پر عزرائیل کو رحم آسکتاہے ۔ کردار ویساہی کرتاہے جیسا
وہ بن گیا ہوتا ہے یا جیسا اس نے خود کو بنایا ہوتاہے۔
غزل کے ہر شعر کو ایک فن پارے کا درجہ حاصل ہوتاہے ۔ اس کی
تشریح وتفہیم اس کے اپنے حوالہ سے کرنا ہوتی ہے ۔ اس شعر کا
کردار کارگزاری (پرفورمنس ) کے حوالہ سے جتنا جاندار ،حقیقی ،
متحرک اور سیمابی خصائل کا حامل ہوگا ،شعر بھی اتنا اور اسی
تناسب سے متاثر کرے گا۔ شعر کے اچھا برا ہونے کا انحصار شعر
سے جڑے کردار پر ہے۔
اگلے صفحات میں غالب کی اردو غزل کے چند کرداروں کانفسیاتی
مطالعہ پیش کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ اس سے اشعار غالب کو
سمجھنے اور تشریح وتعبیر میں مدد مل سکے گی اور مطالعہ اشعا ِر
غالب کا حظ بڑھ جائے گا۔
آدمی :
لفظ آدمی سننے کے بعد ذہن میں یہ تصور ابھرتا ہے کہ نسل
آدم میں سے کسی کی بات ہورہی تاہم اس لفظ کے حوالہ سے کسی
قسم کا ر ّویہ سامنے نہیں آتا۔ آدمی چونکہ خیر وشر کا مجموعہ ہے
اس سے دونوں طرح کے افعال کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ کسی اچھے
فعل کے سرزد ہونے کی صورت میں آدم کو فرشتوں کے سجدہ کرنے
والا واقعہ یا د آجاتاہے۔ ( )۱اور اس طر ح آدمی کی عظمت کا تسلسل
برقرار رہتاہے کسی برائی کی صورت میں شیطان سے بہکائے جاننے
والا کے طور پر سامنے آتاہے۔( )۲گویا کسی فعل کے سرزد ہونے کے
بعد ہی اس کے متعلق منفی یا مثبت رویہ ترکیب پاتاہے۔
اردو غزل میں مختلف حوالوں سے اس لفظ کاا ستعمال ہوتاآیا ہے۔
منفی اور مثبت دونوں طرح کے معاملات اور واقعات اس سے منسوب
رہے ہیں ۔ کہیں عظمتوں اور رفعتوں کا مینار اور کہیں حیوان ،درندہ
،وحشی ،رکھشش اور شیطان سے بھی بد تر نظر آتا ہے۔ اردوغزل
میں اس کی شخصیت کے دونوں پہلونظر آتے ہیں ۔ خواجہ درد نے
آدمی کی شخصیت کے دوپہلو نمایاں کئے ہیں
ہم نے کہا بہت اسے پرنہ ہوایہ آدمی زاہ ِد خشک بھی کوئی سخت ہی
)خردماغ ہے(۳
آدمی زہد اختیار کرنے کے بعد حددرجے کا ضدی ہوجاتاہے۔آدمی ،
آدمی نہیں رہتا بلکہ فرشتوں کی صف میں کھڑا ہونے کی سع ِی لا یعنی
کرتاہے۔ بشریت کا تقاضا ہے کہ آدمی سے کوتاہی ہو ،کوئی غلطی
کرے تاکہ دوسرے آدمی کو اس سے اجنبیت کا احساس نہ ہو۔ زاہد
سے ملاقات کے بعد خوف سا طاری ہوجاتا ہے کہ ملاقاتی کے لباس
اور طرز تکلم کو کس زوایہ سے لے ۔ نتیجہ کار مسئلے کے حل کی
بجائے کوئی لیکچر نہ سننا پڑے یا مسئلہ مسترد ہی نہ ہوجائے ۔ آدمی
کا یہ روپ خوف اور ضدی پنے کو سامنے لاتاہے۔
گھر تودونوں پاس لیکن ملاقاتیں کہاں آمدورفت آدمی کی ہے پہ وہ
)باتیں کہاں (۴
خواجہ درد کا یہ شعر آدمی سے متعلق چار چیزوں کی وضاحت
کررہاہے
مل بیٹھنے کو جگہ موجود ہونے کے باوجود آدمی ،آدمی سے الف ۔
دورہے
ب۔ اس کا آناجانا تو رہتاہے لیکن دکھ سکھ کی سانجھ ختم ہوگئی ہے
ج۔
آدمی ،آدمی کے قریب تو نظر آتاہے لیکن منافقت ،محبتیں چٹ
کرگئی ہے
د۔ ایک دوسرے کے کام آنے کا جذبہ دم توڑ گیاہے
کے جوخصائص بیان ہوئے ہیں ان کے ‘‘خواجہ درد کے ہاں ’’آدمی
حوالہ سے آدمی کے متعلق مثبت رویہ نہیں بنتا ۔ آدمی معاشرتی
حیوان ہے تنہا زندگی کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ۔ تنہائی سو طرح
کے عوارض کا سبب بنتی ہے۔
غالب نے آدمی کو تین حوالوں سے موضع کلام بنایا ہے
گستاخ ِی فرشتہ ہماری ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
جناب میں
کی ‘‘آدمی گزرے کل میں معزز اورمحترم تھا۔ عزازئیل نے ’’آدمی
شان میں گستاخی کی ۔ اسے اس کے اس جرم کی پاداش میں قیامت
تک کے لئے لعنتی قرار دے دیا گیا اور درگاہ سے نکال باہر کیاگیا ۔
ذلت کی پستیوں میں دھکیل دیا گیاہے۔ اس طرح سے ‘‘آدمی’’آج وہی
آدمی کے لئے دوہرا معیار سامنے آتاہے۔
کوئی ہمارا دم ‘‘پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق ’’آدمی
)!تحریر بھی تھا(؟
شعر کو چار زوایوں سے دیکھا جاسکتاہے
الف ۔ کل تک سجدہ کرنے والے (فرشتے) غیر آدمی ،آدمی کے قول
وفعل کو نوٹ کرنے کے لئے مقرر کر دئیے گئے ہیں
کے حق میں یاخلاف شہادت دینے کا ‘‘کسی معاملے میں ’’آدمی ب۔
کے ‘‘کی شہادت ’’،آدمی ‘‘غیر آدمی’’ہی رکھتا ہے ۔ کسی ‘‘حق ’’آدمی
لئے کیونکر معتبر یا اصول شہادت کے مطابق قرار دی جاسکتی ہے
کی حیثیت کیسی بھی رہی ہو ،کہے یا لکھے پر ‘‘غیر آدمی’’ ج۔
مواخذہ یکطرفہ ڈگر ی کے مترادف ہوگی
د۔ کیا بعید کہ وہ رو ِزاول کا بدلہ لینے پر اتر آئے
کی حیثیت معتبر رہتی ہے۔ اس شعر ‘‘شہادت کے حوالہ سے ’’آدمی
میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ملتاہے کہ آدمی کی خلوت بھی ،
خلوت نہیں رہی ۔ اس کی خلوت (پرائیویسی) پر بھی پہرے بیٹھا دئیے
گئے ہیں۔ اس کی آزادی محض رسمی اور دکھاوے کی ہے۔ وہ کھل
کرخواہش اور استعداد کے مطابق اچھائی یا برائی کرنے پرقادر نہیں
کیونکہ اس سے کمتر مخلوق اس پر کیمرے فٹ کئے ہوئے ہے۔
نگرانی ،صحت مند کو بھی نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ آزادی سلب
ہونے کا احساس اورمواخذے کاخوف ،ادھورے پن کاشکار رکھے گا۔
کی زمین پر حیثیت کایہ حوالہ پیش کرکے آدمی کے ‘‘غالب نے ’’آدمی
معتبر اور خود مختار ہونے کے فلسفے کو ردّ کر دیاہے۔ قیدی /پابند
کے قول وفعل پر انگشت رکھنا کسی طرح واجب نہیں ۔ا گر پہر ے اٹھا
کے قول وفعل کی وسعتوں کا اندازہ لگایا ‘‘آدمی’’لئے جائیں تو ہی
جاسکتاہے۔ بصور ت دیگر ثواب وگناہ کے پیمانے اپنی حدود پر شر
مندہ رہیں گے۔
کے معتبر ہونے کا پیمانہ ‘‘ایک تیسر ے شعر میں غالب نے ’’آدمی
بھی پیش کیا ہے
بسکہ دشوار ہے ہرکام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میّسر نہیں انساں ہونا
انسان ،نسیان یا انس سے مشتق ہے۔ یہ دونوں ماد ے اس میں
موجود ہوتے ہیں گویا انسان کا شریف النفس ہونا ،مرتبہ ء کمال
انسانیت پر فائز ہوناہے اور اسی حوالہ سے وہ انسان کہلانے کا
مستحق ٹھہرتا ہے ۔ اس شعر کے حوالہ سے انسان اور آدمی میں فرق
ہے۔ گویا
١۔ آدمی سے انسان تک کا سفر بڑا مشکل اور دشوار گزار ہے
٢۔سز ا وجزا کے لئے آدمی کے لئے آدمی کی شہادت امر لازم کا درجہ
رکھتی ہے
۳۔گواہی ،اس آدمی کی قبول کی جائے جوآدمی کے درجے پر فائز ہو
۴۔آدمی کے لئے غیر آدمی کی شہادت ،اصو ِل شہادت کے منافی ہے
بصورت دیگر شہادتی (گواہ) پر انگلی اٹھے گی
۵۔غیر معتبر (غیر آدمی) کی گواہی فسخ ہوجائے گی
۶۔ غیر آدمی کی گواہی پر فیصلہ (معاذاللہ) منصف کے انصاف پر دھبہ
ہوگا
آسمان:
یہ لفظ کائنات کی تخلیق کی طرح بہت پرانا ہے یہ لفظ سنتے
:ہی پانچ طرح کے خیالات ذہن کے پردوں پر تھرانے لگتے ہیں
ان حدوسعتیں اول ۔
دوم۔ ہلکے نیلے رنگ کی چھت
سوم ۔ حیرت انگیز توازن کامظہر
بادل چہارم ۔
پنجم ۔ کہاجاتاہے ،آسمان پر موجود ستاروں کی گردش کے باعث
خوشی یا پریشانی لاحق ہوتی ہے ۔ سماوی آفتیں بھی
اہل زمین کا مقدر رہی ہے
آسمان کی وسعتوں میں جانے کتنے سورج ،چاند اور ستارے سمائے
ہوئے ہیں۔ سورج نہ صرف دن لاتاہے بلکہ دھرتی باسیوں کو حدت
بھی فراہم کرتاہے۔ چاند ستارے حسن اور ترتیب کا مظہر ہیں ۔ سورج
چاند اور ستاروں سے متعلق بھی اردوغزل میں کافی مواد ملتاہے۔
آسمان بطور چھت ،ہر قسم کی تمیز وامتیاز سے بالا رہاہے۔ بادلی
جہاں بھی آئے ہیں گرج چمک کے ساتھ آئے ہیں اور بارش لائے ہیں ۔
گرج چمک سے خوف پھیلتا ہے جبکہ بارش فضا کو نکھارنے
اورزمین کو سیراب کرکے ہر یالی کا ذریعہ بنی ہے۔ آسمان کے جملہ
حوالے (توازن ،ترتیب و تنظیم ،وسعتیں ،سیرابی ،حسن ،تمیز و
امتیاز ،خوف وغیرہ ) انسانی ذہن پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ آسمان کا
کردار انسانی ذہن میں ہلچل مچانے کے ساتھ ساتھ اسے وسیع ،فراخ
اور متوازن کرتاہے۔ اردو غزل نے آسمان کے کردار کو ہمیشہ بائیں
آنکھ پر رکھاہے۔
قائم چاند پوری کا زیر آسمان جی گھبراتا ہے۔ آسمان کا کیا بھروسہ
:کب ٹھکانہ ہی چھین لے
کیوں نہ جی گھبرائے زیر آسماں گھر تو ہے مطبوع پر بس
)مختصر(۵
:خواجہ درد آسمان کو کمینہ اورکینہ پرور قرار دیتے ہیں
نہ ہاتھ اٹھائے فلک گوہمارے کینے سے کسے دماغ کہ ہو دوبدکمینے
)سے (۶
مرزاسودا کے نزدیک آسمان ،درد دینے والا اور کنج قفس کو سونپ
:دینے والا ہے
سو مجہ کو آسمان نے کنج قفس کو سونپا اب چہچے چمن میں کیجے
)فراغتوں سے (٧
:میاں محمدی مائل آسمان کو دکھ کے موسم کا ساتھی سمجھتے ہیں
)ہے جہاں پرخروش اس غم سوں آسمان سبز پوش اس غم سوں(۸
خواجہ درد آسمان سے متعلق دواور حوالوں کا ذکر کر تے ہیں
آسماں کے زیر سایہ حرص کا بندہ خرم نہیں رہ سکتا کیونکہ اول۔
آسمان حرص کے حوالہ سے میّسر خوشی کے دنوں کو پھیر
دیتا ہے
)حرص ہو جس دلی میں وہ خرم رہے( ۹ہے محا ِل عقل ،زی ِرآسماں
آسمان خود گردش میں ہے جانے کیا تلا ش رہاہے دوم ۔
لیتانہیں کبود کی اپنے عناں ہنوز پھر تا ہے کس تلاش میں یہ
)آسماں ہنوز(١٠
آسماں کا درج بالا کردار انسانی ذہن پر مثبت اثرات مرتب نہیں کرتا ۔
دوسری طرف یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جوخود ’’چکروں‘‘
میں ہے اور وں کو کیونکر پر سکون رہنے دے گا ۔
غالب آسمان کو قاب ِل پیمائش و فہمائش سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک
آسمان ،انسان سے کہیں کمتر ہے
کرتے ہومجھ کو منع قد مبوس کس لئے کیا آسمان کے بھی برابر
)!نہیں ہوں میں (؟
فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موج رنگ کا یا ں زمیں سے
آسماں تک سوختن کا باب تھا
غالب کو پڑھ کر تسکین ہوتی ہے کہ آسماں لامحدود نہیں۔ دوسرا وہ
انسان کے بالمقابل کمتر ،ادنی اور حقیرہے ۔ غالب کا یہ مصرع آسمان
کی عظمتوں ،وسعتوں ،بلندیوں اور رفعتوں کا بھانڈ اپھوڑ دیتاہے
!کیاآسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں ؟
غالب نے ایک نظر یہ یہ بھی دیا ہے کہ آسمان دن ر ات گردش میں
ہے۔ اس کی گردش زمین باسیوں کومتاثرکرتی ہے ۔ اس کی گردش کے
حوالہ سے ’’کچھ نہ کچھ‘‘ وقوع پذیر ہوتا ہی رہے گااور یہ مسلسل
جبر کا عمل ہے۔ اس پر انسان کی دسترس ہی نہیں۔ جب کچھ نہ کچھ
:ہونا طے ہے تو گھبرانا محض نادانی ہے
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں
کیا
ہو رہے گا‘‘ جبر مشیت کو واضح کر رہاہے ۔ جب کسی کام میں ’’