The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-02-02 02:55:56

c2

c2

‫رہی سہی بھی گئی عمر تیر ے پیچھے یار یہ کہہ کہ آہ تراکب تک‬
‫انتظار کریں (‪)۹‬میر‬

‫خواجہ درد نے’’ انتظار گذرنا ‘‘ باندھاہے‬

‫وہ زمانے سے باہر اور مجھے رات دن انتظار گذرے ہے(‪ )١٠‬درد‬

‫حاتم نے انتظار بیٹھنا استعمال کیا ہے‬

‫زندگی ہوچکی میاں حاتم وقت کے انتظار بیٹھے ہیں (‪)١١‬حاتم‬

‫درج بالا تراجم کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ’’ انتظار کشیدن‬
‫‘‘داشتن کا ’’انتظار کھینچنا‘‘ غالب کے ہاں ایسا نہیں ہے‬

‫نفس نہ انجم ِن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظا ِر ساغر‬
‫کھینچے‬

‫اس ترجمے اور اس کے استعمال میں ایک نئی بات ضرور سامنے آتی‬
‫ہے۔ اس استعمال کے ساتھ امید کا پہلو وابستہ ہے۔ امیدنفسیاتی سطح‬

‫پر تسکین کا ذریعہ بنی رہتی ہے۔ امید نہ ہونے کی صورت میں‬
‫مایوسی کا عنصر غالب رہتا ہے۔ باور رہے اشکالی تبدیلی تبدیلیاں یا‬
‫تراجم ‪ ،‬بعض نامانوس کو دلچسپ بنا دیتی ہیں ۔ غالب انتظار کھینچ‬

‫سے انتظار کی کیفیت مراد لے رہے ہیں ۔ جس میں استقلال کو‬
‫استحکام می ّسر آتا ہو جبکہ انتظار کشیدن ‪ /‬داشتن کے ساتھ یہ پہلو‬
‫وابستہ نہیں ہے۔ اس حوالہ سے غالب کا استعمال دوسروں سے ہٹ کر‬

‫اور منفر د ہے۔‬

‫انگشت رکھنا‪:‬‬

‫انگشت برحرف نہادن ‪ ،‬فارسی میں یہ محاورہ کسی تحریر پر‬

‫اعتراض کرنا کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ اردو میں ’’ انگشت‬
‫رکھنا ‘‘ نہیں بولا جاتا ’’ انگلی رکھنا ‘‘ بولتے ہیں ۔‬

‫فارسی میں اہل دانش کی تحریروں پر اعتراض کے لئے انگشت‬
‫برحرف نہادن بولتے ہیں جبکہ ’’ انگلی رکھنا ‘‘ ہر چیز پر اعتراض‬
‫کرنے کے لئے بولا جاتاہے۔ غالب نے فارسی کی پیروی میں ’’ انگشت‬

‫رکھنا‘‘ کو تحریرہی سے مخصوص رکھا ہے‬

‫لکھتا ہوں اسد سوز ِش دل سے سخن گرم تانہ رکھ سکے میرے حرف‬
‫پرانگشت‬

‫بازار گرم ہونا‪:‬‬

‫بازار گرم بودن ‪ ،‬خوب بِکری ہونا‪ ،‬مانگ ہونا‪/‬بڑھنا ‪ ،‬مال کی ڈیمانڈ‬
‫بڑھ جانے کے حوالہ سے بولا جانے والا محاورہ ہے ۔ اردو میں بھی‬
‫قریباا ان ہی معنوں میں استعمال میں آتا ہے۔(‪ )١٢‬غالب نے محاورے‬

‫کو اور ہی رنگ دے دیاہے وسیب میں صورتحال کچھ یوں ملتی ہے‬

‫عدالتوں میں مقدمے بازی کے حوالہ سے سائلوں اور اہل کاروں الف۔‬
‫کے درمیان ایسی ہی صورت دیکھنے کوملتی ہے۔‬

‫‪١‬۔بازا ِر حسن میں کلالوں اور گاہکوں کے درمیان سودے بازی کا ب۔‬
‫منظر مختلف نہیں ہوتا۔‬

‫حسن میں اجارہ رکھنے والے حسین کے حصول کے لئے اہ ِل ‪٢‬۔ ٍ‬
‫ذوق اپنی حیثیت سے بڑھ کر ادا کرنے یا شرائط‬

‫ماننے کے لئے تیار ہوتے ہیں ۔‬

‫غالب نے محاورے کے نئے مفاہیم میں استعمال کی راہ کھول دی ہے‬

‫پھر کھلا ہے د ِر عدال ِت ناز گرم بازا ِر فوجداری ہے‬

‫غلام رسول مہر تشریح میں لکھتے ہیں‬

‫پھر ناز کی عدالت کا دروازہ کھل گیا اور فوجداری کے مقدمے بہ ’’‬
‫)۔(‪‘‘١۳‬کثرت ہونے لگے‬

‫محبو ب کے حوالہ سے لڑنے بھڑنے اور ایک دوسرے کے خلاف زہر‬
‫اگلنے کا وتیرہ نیا نہیں ۔ غالب نے اس حقیقت کو بڑی عمدگی سے‬
‫پیش کیا ہے۔‬

‫بباد دینا ‪:‬‬

‫بیاددادن ‪ ،‬فارسی کا بڑا معروف محاورہ ہے جوتباہ کرنا ‪ ،‬منتشر کر‬
‫دینا ‪ ،‬بکھیر دینا وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔‬

‫بباد ہندی اسم مذکربھی ہے اور اس سے بباد اٹھنا محاورہ بمعنی‬
‫فساداٹھنا ‪ ،‬فساد کرنا موجود ہے ۔ تاہم یہ بباددادن سے قطعی الگ‬

‫چیز ہے ۔ اس میں بغاوت شرار ت اور شرینتر کے عناصر موجود‬
‫رہتے ہیں ۔ بباد دادن توڑ پھوڑ اور لخت لخت کردینے کے حوالوں‬

‫سے منسلک رہتاہے۔‬

‫بیاد ’’بباد دینا ‘‘ فصیح ترجمہ ہے اس کے باوجود رواج نہیں پا سکا۔‬
‫اٹھنا ‘‘ بھی اردو میں رواج نہیں رکھتا ۔‬

‫قائم چاندی پوری کے ہاں ’’ بیا دجانا‘‘ نظم ہواہے‬

‫گئے بباد نہ اب کے تو بخت میں اپنے کوئی دن اور بھی دنیا کی باؤ‬
‫کھانا تھا (‪)١۴‬قائم‬

‫بباد جانا ‪ ،‬بباد دادن کا ترجمہ ہے۔ غالب نے دادن کے لئے اردو‬
‫معاون فعل ’’ دینا ‘‘ برتاہے‬

‫نالہ ء دل نے دئیے اور اق لخ ِت دل بباد یاد گا ِر نالہ ایک دیوا ِن بے‬
‫شیرازہ تھا‬

‫غالب نے ’’ بیاد دینا ‘‘ کو منتشر کر دینا کے معنوں میں برتا ہے۔ غلام‬
‫رسول مہر نے اڑنا ہواکے حوالے کردینا ‪ ،‬پریشان و برباد کردینا ‪،‬‬
‫)معنی مراد لئے ہیں (‪١۵‬‬

‫بروئے کارآنا‪:‬‬

‫بروئے کار آمدن ‪ ،‬شاداں بلگرامی کے نزدیک بروئے کار آمدن ’’ ظاہر‬
‫شدن ‘‘ سے کنا یہ ہے (‪ )١۶‬بروئے کار آنا ‪ ،‬قدم رکھنا ‪ ،‬کی طرف آنا‬

‫‪ ،‬وارد ہونا‪ ،‬برس ِرکار آنا ‪ ،‬کام آنا تفہیم رکھتا ہے۔ غالب نے جن‬
‫معنوں میں استعمال کیاہے ار دو بول چال سے مطابقت نہیں رکھتے ۔‬
‫آمدن کا ’’ آنا ‘‘ ترجمہ کرنے کے باوجود محارے کے اسلوب و معنی‬

‫فارسی ہیں ۔‬

‫صحر ا مگر بہ تنگ ِی چشم جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار‬
‫حسود تھا‬

‫پروازدینا‪:‬‬

‫پرواز دادن داشتن کا اردوترجمہ پرواز دینا کیا گیا ہے ۔ ایک دوسر‬
‫امحاورہ ’’ پر وبال داشتن ‘‘ بمعنی طاقت و قوت کا ہونا فارسی میں‬
‫عام استعمال کا محاورہ ہے۔ پرواز دینا ‪ ،‬قوت فراہم کرنا ‪ ،‬مزید بہتری‬
‫پیدا کرنا‪ ،‬صلاحیت میں اضافہ کرنا ‪ ،‬شکتی بڑھانا وغیرہ معنوں میں‬

‫استعمال نہیں ہوتا۔ شعر میں مطلب یہ بنتا ہے جب تک جلو ے کے‬
‫تماشا(دیکھنے ) کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی ‪ ،‬انتظار کی اذیت سے‬

‫گذرنا ہوگا۔ غلا م رسول مہر کے مطابق‬

‫ہماری طبعیت کب برداشت کرسکتی ہے کہ انتظار کے آئینے کو ’’‬
‫)‪ ‘‘ (١٧‬صیقل اور جلا دیتے رہیں‬

‫مہر صاحب کے حوالہ سے انتظار کی اذیت واضح ہوتی ہے کہ کب تک‬
‫آخر انتظار کیا جائے ۔ اس طرح عجلت پسندی سامنے آتی ہے ۔عجلت‬
‫بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ غالب یقیناااس فلسفے سے آگاہ تھے ۔ دیر آید‬

‫درست آید مقولہ ان سے پوشید ہ نہیں رہا ہوگا۔‬

‫پروازدینا ‪ ،‬صلاحیت بڑھانا ‪ ،‬صیقل کرنا ‪ ،‬جلا دینا وغیرہ ایسے معنوں‬
‫میں استعمال ہواہے ۔محاورہ فصیح سہی مانوس نہیں ‪ ،‬اس لئے چل‬
‫نہیں سکا۔‬

‫وصال جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں کہ دیجے آئینہ انتظار کو پرواز‬

‫مطلب صر ف اتنا ہے جلوے کے لئے انتظار کی اذیت سے گذرنا پڑتا‬
‫ہے مگر انتظار کی اذیت سے گذرے کون؟‬

‫پرورش دینا‪:‬‬

‫پرورش داشتن کاترجمہ ہے ۔نشوونما پرورش ‪ ،‬پالن پوسن ‪،‬تعلیم و‬
‫تربیت ‪ ،‬مہربانی‪ ،‬عنایت کرنا کے معنوں میں استعمال ہوتاہے(‪)١۸‬‬
‫پرورش کے ساتھ کرنا اور ہونا مصادر کا استعمال ہوتا ہے۔ دینا اردو‬

‫مصدر سہی لیکن اس سے فارسی اسلوب ترکیب پاگیا ہے ۔ اردو‬
‫اسلوب کچھ یوں بنتا‬

‫غم آغو ِش بلا میں پرورش کر تاہے عاشق کی‬
‫اب غالب کا مصرع ملاحظہ ہو‬

‫غم آغو ِش بلا میں پرورش دیتاہے عاشق کو‬
‫مصرع اول الذکر اردو اسلو ب کا نمائندہ سہی لیکن منفرد ‪ ،‬خوبصورت‬

‫اور فصیح نہیں جبکہ مصرع ثانی الذکر فارسی اسلوب کا حامل ہے‬
‫لیکن ہر سہ عناصر اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اب غالب کا‬
‫پور ا شعر پڑھیں شعر کے لسانی سیٹ اپ میں مصدر دینا ہی مناسب‬

‫اور خوبصور ت لگتاہے‬
‫چراغِ روشن اپنا قلزم غم آغو ِش بلا میں پرورش دیتاہے عاشق کو‬

‫صرصر کا مرجاں ہے‬

‫تشنہ آنا‪:‬‬
‫تشنہ آمدن ‪ ،‬تشنہ ہونا‬
‫مشتاق ہونا ‪ ،‬طالب ہونا‪ ،‬آرزو مند ہونا‪ ،‬خواہش مندہونا‬
‫لفظ تشنہ اردو کے لئے نیا نہیں ۔ اس کا مختلف حوالوں سے استعمال‬
‫ہوتا آیا ہے۔ مختلف نوع کے مرکبات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ مثلاا‬
‫تشنہ کا می ‪ /‬تشنہ کام‬
‫تس پر بھی تشنہ کا ِم دیدار تیرا ہی حسن جگ میں ہر چند موج زن ہے‬
‫ہیں تو ہم ہیں (‪ )١۹‬درد‬

‫تشنہء خوں‬

‫دشم ِن جاں ہے تشنہ ء خوں ہے شوخ بانکہ ہے ‪،‬نکبت بھوں ہے‬
‫(‪ )٢٠‬آبرو‬

‫تشنہ لب‬

‫جوکہ مائل ہے تیغ ابرو کا تشنہ لب ہے وہ اپنے لوہو کا (‪ )٢١‬راقم‬

‫مختلف نوعیت کے محاورات بھی اردو زبان کے ذخیر ے میں داخل‬
‫ہیں ۔ مثلاا‬

‫کچھ مدارات بھی اے خو ِن جگر پیکاں کی تشنہ مرتا ہے کئی دن سے‬
‫)یہ مہماں تیرا (‪ )٢٢‬فغاں ( تشنہ مرنا‬

‫بہت مخمور ہوں ساقی شراب ارغوانی دے‬

‫نہ رکھ تشنہ مجھے ‪ ،‬ساغر براہ مہربانی دے (‪ )٢۳‬چندا (تشنہ رکھنا‬
‫تشنگی اور بھی بھڑکتی گئی جوں جوں میں اپنے آنسوؤں کوپیا (‪)٢۴‬‬

‫)درد ( تشنگی بھڑکنا‬

‫تشنہ آنا بمعنی مشتا ق ہونا ‪ ،‬اردو میں مستعمل نہیں رہا ‪،‬۔ ترجمہ کی‬
‫صورت میں غالب نے ایک نیا محاورہ اردو زبان کو دیا ہے لیکن یہ‬

‫محاور رواج نہیں پاسکا‬

‫پھر مجھے دیدہ ء تریاد آیا دل جگر تشنہ ء فریاد آیا‬

‫تماشا کیجئے ‪ :‬تماشا کردن کا ترجمہ ہے بمعنی شوق وحیرت سے‬
‫دیکھنا ‪ ،‬سیر کرنا ‪ ،‬نمائش ا ور کھیلوں کو دیکھنا ‪ ،‬سبزہ پھلواری کو‬

‫دیکھنا وغیرہ کے لئے فارسی میں بولا جاتا ہے۔‬

‫تماشا کا بنیادی تعلق دیکھنے سے ہے جبکہ اردو میں کرتب ‪ ،‬مداری‬


Click to View FlipBook Version