،ہے یہ گل کے خار پہلو میں ()١٢٢جہاں دار
دونوں اشعار میں طنز کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
مثرہ وہ تیز کہ خنجر کو دھار نگہ وہ شوخ کہ طعنے کٹار پر مارے
پر مارے()١٢۳عارف اللہ شاہ ملول
تقابلی طنز۔ دھارپر مارنا
غالب کے ہاں یہ لفظ طنزاور منا کے معنوں میں استعمال ہو ا ہے۔
ضعف میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے بات کچھ سر تو نہیں ہوں کہ
اٹھا بھی نہ سکوں
درج بالا معروضات کے حوالے سے اس لفاظ کو مہاجر قرار نہیں دیا
جا سکتا ۔
طرح:
یہ لفظ عر بی میں بنیاد کے معنوں میں آتا ہے جبکہ اردو میں
طور ،انداز ،مانند ڈھب ،ڈھنگ ،اسلوب ،وضع وغیرہ کے معنوں میں
استعمال ہوتاہے۔مثلاا
کیا بدن ہو گا جس کے کھولتے جامے کا بند بر ِگ گل کی طرح ہر ناخن
معطر ہوگیا()١٢۴یقین
مانند ،جیسا ،کاسا
گو سو طرح کی مجھ سے تو بے دماغ عبث اے میاں ہے تیں
حسرتیں اس دل کے بیچ ہیں ( )١٢۵راقم
طریقے ،طور ،انداز
بہے ہیں دیدۂ گریباں سے اس طرح آنسو رواں ہو چشمے سے جس
طرح آب درتہ آب()١٢۶لالہ موجی رام موجی
ایسے جیسے اس طور ،اس طرح ،انداز
:غالب نے بھی اس لفظ کو دیسی معنوں میں استعمال کیا ہے
مانند حباب آنکھ تو اے درد کھلی تھی کھینچا نہ پر اس بحر میں
عرصہ کوئی دم کا()١٢۹درد
مرے آگے نہ شاعر نام پاویں قیامت کو ،مگر عرصے میں
)آویں(( )١۳٠میر
در پہ رہنے کو کہا اورکہہ کے کیسا پھر گیا جتنے عرصے میں مرا
بستر لپٹا ہوا کھلا غالب
درج بالا چاروں اشعار میں ’’عرصہ‘‘ زمانہ کے حوالے سے استعمال
ہوا ۔
عرصہ کی (زمانی حوالہ سے )حقیقی شکل ارسا ہے۔ عربی کے زیر
اثر ص اور ع کی آوازیں داخل ہو گئی ہیں۔ اس طرح اس کی اصل املا
’’ارسا‘‘ باقی نہیں رہی۔
عید:
عید مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے۔یہ سال میں دو مرتبہ منایا جا تا
ہے۔عید الفطر رمضان کے اختتام پر جبکہ عید الاضحی حضرت ابراہیم
کی فرمانبرداری کی یاد میں منائی جا تی ہے۔جب انہوں نے اپنی اولاد
حضرت اسماعیل کو چھری کے نیچے رکھ دیا ۔چھری اللہ کے حکم
سے نہ چلی اور جنت سے دنبہ آگیا جو انھوں نے اللہ کی راہ میں
قربان کردیا اہل تشیع جناب امیر کی ولادت پر خوشی مناتے ہیں اور
اسے عید کا نام دیتے ہیں ۔٢۵دسمبر کو عیسائی برادری کرسمس
منانتے ہیں برصغیر میں اسے عید کا نام دیاجاتا ہے۔بہر طور یہ لفظ
اردو اور برصغیر کی کئی دوسری زبانوں میں اسلامی تہذیب کے حوالہ
:سے داخل ہو اہے ،میر صاحب کا یہ شعر بطور نمونہ ملا خط فرمائیں
دیکھا نہ اسے دورسے بھی منتظر وں نے وہ رش ِک م ِہ عید ل ِب بام نہ
آیا ()١۳١میر
:اب غالب کے ہاں لفظ عید کا استعمال ملا خط فرمائیں
عشر ِت قت ِل گ ِہ اہل تمنامت پوچھ عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
عیدنظارہ ،عید کی خوشی کو ظاہر کررہاہے جبکہ میر صاحب نے
عید کے چاند کو محبوب سے تشبیہ دے کر عید کی خوبصورتی کو
واضح کیا ہے۔
طواف :
لفظ طواف اسلامی تہذیب کا نمائندہ ہے حج یا عمرہ میں کعبہ کے
گرد چکر لگانے کے عمل کو " طواف"کا نام دیا جا تا ہے۔اس کے بغیر
حج یا عمرہ نہیں ہوتا ۔چکر کاٹنے ،گرد پھرنے ،گردش کرنے وغیرہ
کو طواف کا نام دیا گیا ہے۔ اردو میں اسلامی تہذیب کے توسط سے
وارد ہوا ہے۔ہاں معنوی تبدیلی ضرورہوئی ہے۔مثلاا غالب یہ شعر
:پڑھیں،حج اور عمرے والے طواف سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا
دل پھرطوا ِف کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا ضم کدہ ویراں کئے
ہوئے
عرصہ:
عرصہ اردو میں عام بولا جانے والا لفظ ہے۔خیال کیا جا تا کہ یہ
عربی سے اردو میں داخل ہوا ہے۔عربی میں مکانیت کے حوالے سے
استعمال ہوتا ہے۔جیسے عرصہ اکدار(صحن خانہ کھلی ہوا،
جگہ)عرصہ کی جمع عرائص ہے۔اردو میں بھی مکانیت کے حوالے
سے استعمال ہوا ہے۔
جیسے عرصۂ جنگ ،عرصہ حشر وغیرہ لیکن جب زمانی حوالہ سے
استعمال ہوتا ہے تو اس لفظ کو عربی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔مثلاا
ظالم نپٹ ،قلیل ساقی بھڑا دے خم ہی مرے منہ سے تو آہ !
عرصہ بہار کا ( )١٢۸قائم پوری
غریب:
کلمہ غریب عربی میں اجنبی مسافر پردیسی کے لئے مخصوص ہے
لیکن اردو میں اس کے معنی مفلس بے زار بادار حاجت مند کنگال
وغیرہ کے ہیں یہ معنی کا اختلاف ہے نہ کہ غریب کو یہ معنی دے
دیئے گئے ہیں۔یہ اپنی میں اصل گریب ہے جس کے معنی گرا پڑا کے
ہیں۔برصغیر کے معاشرت میں جو شخص مالی لحاظ سے کمزور ہو
استطاعت نہ رکھتا ہو کے لئے یہ لفظ بولتے ہیں جہان مسافرت کے
معنی دیتا ہے وہاں اسے عربی کلمہ تصور کرنا چاہئے۔اس کے
برعکس معنوں میں گریب کی بگڑی ہو ئی شکل تصور کرنا چاہئے۔گ
کی متبادل آواز غ ہے یہ مکتوبی تبدیلی عربی کے زیر اثر واقع
ہو ئی۔مکتوبی تبدیلی عربی کے اثر واقع ہو ئی ہے۔اردو غزل سے چند
مثالیں ملا خط فرمائیں۔
مجھ معقعد کا منظور اب اعتقاد ہو تم پیر پیراں میں ہوں غریب خادم
کیجئے آفتاب
ناتواں کمزور مفلس
حسرت پر اس غریب کی آوے اجل کو رحم بالیں پہ جس کے یارودم
واپس نہ ہو بیان
اردو میں مسافر عربی میں غریب کے لئے عام استعمال میں ہے غریب
:کی دیسی طریقہ سے جمع بھی بنا لی گئی ہے
فکر جمعیت آپس دل میں کئے ہیں زہاد زلف کوں کھوں غریباں کو
پریشاں نہ کرو ولی
:غالب کے ہاں یہ مہاجر نما لفظ دیسی معنوں میں نظم ہوا ہے
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا میں غریب اور تو غریب نواز
غصہ:
اہل لغت اسے عربی لفظ قرار دیتے ہیں ۔عربی میں اس کے معنی
ایسا رنج جس سے گلہ گھٹ جائے ۔اردو میں اپنی اصل میں’’ گھسا
‘‘ہے جو گھس آنا سے تشکیل پایا ہے۔ جس طرح سایہ بھوت پریت
کے گھس آنے سے حالت بدل جاتی ہے۔ ناراضگی یا خفگی کے گھس
آنے سے مزاج اور موڈ بدل جاتا ہے۔ یہ معنوی فرق ہے نہ کہ معنوی
تبدیلی ۔عربی کے زیر اثر گھسا کی مکتوبی صورت بدل گئی ہے۔ غصہ
کو’’ گھسا‘‘ کے معنوں میں استعمال کیا جانے لگاچند مثالیں ملا خط
فرمائیں۔جس سے معنوی فرق نظر آجائے گا بعض مقامات پر محاورہ
:بن گیا ہے اور عام سننے کو ملتا ہے
ڈرتا نہیں ،ایک کی سو بے رحم نہ ہو ،غصہ نہ کر ،بات مری سن
بات سنا جا ( )١۳۵ولی
کوئی بات بری لگنا غصہ کرنا :
عرض غصے میں یہ اک اہل وفا کی نہ سنے ہٹ پہ آ جائے وہ کافر تو
خدا کی نہ سنے()١۳۶منعم
طیش غصہ:
تو تو مجھ پر ایک دم غصہ ہو پھر سو تارہا شمع کی مانند میں ساری
رات روتا رہا ( )١۳٧مائل
ناراضگی خفگی کلام نہ کرنا ،گفتگو موقو ف کر دینا غصہ ہونا :
لفظ فتنہ عربی میں آزمائش کے معنوں میں استعمال ہو فتنہ:
اہے۔جیسے انما اموالکم واولاد کم فتنہ ( )١۳۸تمہارے مال اور تمہاری
اولاد بس آزمائش ہے۔اردو میں یہ لفظ شرارتی ،سازشی رکاوٹ ڈالنے
والا ،خرابی پیدا کرنے والا،لڑائی ڈلوانے والا ،لڑائی جھگڑا
وغیرہ۔اردو میں نہ صرف معنوی تبدیلی ہو ئی ہے بلکہ قواعد کے
حوالے سے اختلاف واضح ہے۔
پنجابی میں بھی یہ مستعمل ہے لیکن"چواتی"لفظ بھی رائج ہے اور یہ
پنجابی کے ذخیرے میں موجود ہے۔ چواتی ،شرارت ،سازش ،لڑائی
جھگڑے کی وجہ وغیرہ ۔
:میر صاحب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملا خط فرمائیں
آنکھوں سے تری ہم کو ہے چشم کہ اب ہو وے جو فتنہ کہ دنیا میں
برپانہ ہوا ہو گا( )١۳۹میر
فتنہ برپا ہونا مترادف قیامت برپا ہونا
بیٹھے ہیں آکے طال ِب فتنہ اٹھے گا ورنہ نکل گھر سے توشتاب
دیدار بے طرح ( )١۴٠میر
جھگڑے فساد کی راہ نکلنا ،خرابی پیدا ہونا ،آزمائش معنی فتنہ اٹھنا:
بھی لئے جاسکتے ہیں
غالب نے شور شرابا ،آپادھاپی ،پریشانی ،تکلیف دہ صورتحال
:افراتفری ،بے چینی ،بے سکونی کے معنوں میں نظم کیاہے
جلوہ زا ِر آت ِش دوزخ ہمارا دل سہی فتنہ ء شو ِر قیامت کس کے آب
و گل میں ہے
اردو میں معنوی تبدیلی کے سبب"فتنہ"مہاجر ہو کر نہیں رہا۔
فقیر ،فقر کا اسم ہے اور درویش کے معنوں میں استعمال ہوتا فقیر:
:ہے۔ عربی میں اس کے استعمال کے چار حوالے ہیں
زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہ ہوں ا ّول:
ضروریات کا پورا نہ ہونا دوئم:
مال و منال کی ہوس سوئم:
اللہ کی طرف احتیاج چہارم:
درویش دنیاوی مال و منال سے بے نیاز ہوتا ہے۔ بظاہر خستہ حال
ہوتاہے لیکن اس کا من بھرا ہوا ہوتاہے۔ خستہ حالی کے لیے
لفظ"پھک"موجود ہے۔ایر کے لاحقے سے "پھکیر"بن جاتا ہے۔ یہ لفظ
بھیک مانگے ،دست سوال دراز کرنے والے ،نادار ،گریب ،بے نوا
وغیرہ کے لیے استعمال ہوتاہے۔ معنوی فرق کی وجہ سے یہ لفظ فقیر
سے مختلف ہے۔ فقیر چونکہ پھکیر کے لیے رواج پاگیا ہے اس لیے
درست سمجھا جاتا ہے۔ تاہم "پھکیر"بھی سننے کو ملتا ہے۔ اردو غزل
میں بھی یہی حالت ہے ،لکھا فقیر جاتا ہے معنی پھکیر کے لیے جاتے
:ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں
لبریز ہو فقیر کا کاسہ سائل ہوں اے فلک یہ ترے انقلاب سے
شراب سے۔ ( )١۴١میر وارث علی جوش
سائل ،مانگنے والے کے معنوں میں استعمال ہواہے میر صاحب کے
:ہاں درویش کے معنوں میں استعمال ہوا ہے
ہے معتقد فقیر نمد کی کلاہ اے تاجِ شہ نہ سر کو فرولاؤں تیرے پاس
کا( )١۴٢میر
:فقیر کی جمع دیسی طریقہ سے بنائی جاتی ہے
اپنا جیسے زلفوں نے تری رہتا ہے فقیروں کی طرح نت وہ پریشاں
جال دیاہے ( )١۴۳مصحفی
:غالب کے ہاں بطور جمع استعمال ہو ا ہے
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
فقرا کی بجائے فقیروں۔ ایک دوسری جگہ درویش کے معنوں میں
:استعمال کرتے ہیں
فقیر غالب مسکیں ہے کہن ہم اور تم فل ِک پیر جس کو کہتے ہیں
تکیہ
بے بس ،مجبور ،لاچار ،بے نوا وغیرہ کے معنوں میں بھی لیا جا
سکتاہے۔
قیامت :لفظ قیامت اسلامی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔ الہامی کتاب میں
:اس لفظ کے مفاہیم ملاحظہ ہوں
فیصلے کا دن ( )١۴۴اعمال کے حساب کتاب کا دن ( )١۴۵یوم
)اجتماع۔ ( )١۴۶اعضا کی گواہی کا دن(١۴٧
قیامت کا قرآن میں بار بار ذکرآتا ہے۔ یہ بڑا دل ہلا دینے والا دن ہو گا۔
خوف و ہراس ہو گا۔ کوئی کسی کے کام نہیں آسکے گا۔ ہر کسی کو
اس کے کئے کا بدلہ مل جائے گا۔
اردو میں اردو کے لسانی کلچر کے تحت استعمال ہوتا چلا آرہا ہے۔
دیسی مصادر کے پیوند سے بہت سارے محاورے پڑھنے سننے کو
ملتے ہیں۔ میر صاحب کے ہاں تشبیہا تنگی سختی اور پشیمانی کے
:حوالہ سے استعمال میں ہوا ہے
عرصۂ محشر( )١۴۸نمونہ شیخ مت کر ذکر ہر ساعت قیامت کا کہ ہے
اس کی بازی گاہ کا ( )١۴۹میر
:ایک دوسری جگہ دہائی کے معنوں میں اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں
ظلم ہے ،قہر ہے ،قیامت ہے غصے میں اس کے زیر لب کی بات
( )١۵٠میر
:غالب وق ِت ودع کو قیامت کا نام دیتے ہیں
پھر ترا وقت سفر یاد آیا دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
موت ،مرگ
جاتے ہوئے کہتے ہوئے قیامت کو ملیں گے کیا خوب کہ گویا ہے
قیامت کا دن اور
کلچر کی تبدیلی کے سبب معنوں میں بھی تبدیلی آجاتی ہے اور دکھ،
کرب پریشانی کا عنصر نئے مفاہیم میں بھی ملتاہے۔
کافر:
تکفیر کرنے والا ،مسلماں عام طور پر غیر مسلم پر اس لفظ کا
اطلاق کرتے ہیں۔ یہ لفظ مسلمانوں کے حوالہ سے اردو میں داخل ہوا
ہے۔ شاعری کا چونکہ اپنا الگ سے مزاج ہوتا ہے اس لیے لفظوں کا
خیام کے ہاں اس لفظ مجازی معنوں میں استعمال عام سی بات ہے۔
:کا استعمال ملاحظہ ہو
آن کا فر مست را امامت ہوس زابروئے تو محراب نشیں ش ِدچشمت
است ( )١۵١خیام
تمہاری آنکھیں محرا ِب ابروہیں اس لیے آن بیٹھیں کہ وہ کافر مست (
)امامت کی خواہاں ہیں
اب اردو غزل میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
:میر صاحب نے ضدی اور ہٹ کا پکا کے معنوں میں استعمال کیا ہے
سخت کا فر تھا جس نے پہلے میر مذہب عشق اختیار کیا ( )١۵٢میر
مصحفی نے ایسے محبوب کے لیے استعمال کیا ہے جو ہر پل ناز وادا
:اور موڈ کے حوالے سے بدلتا ہے
ہرآن میں کافر کی اک آن کیا بیٹھنا ،کیا اٹھنا ،کیا بولنا ،کیا ہنسا
نکلتی ہے ( )١۵۳مصحفی
حافظ عبدالوہاب ،جوا یمان نہ رکھتا ہو ،کے لیے اس لفظ کا استعمال
:کرتے ہیں
میں ملحدو کافر نہ قاضی نہیں ،مفتی نہیں ،ملاّنہ ہوں میں محتسب
ہوں ،نے صاح ِب ایمان ہوں ( )١۵۴سچل
ولی اللہ محب کے نزدیک غارت گر ایمان چھین لیتا ہے ۔ ایمان سے
:تہی کافر ہے
کیونکہ غارت گر دیں ہے تجھ سا ہم ہوئے چھوڑ کے ایماں کافر
ولی اللہ محب
:غالب نے جس پر کوئی اثر نہ ہو ،پتھر ایسا معنی مراد لیے ہیں
خدا کے واسطے پردہ نہ کعبے کا اٹھا واعظ کہیں ایسا نہ ہویاں
بھی وہی کافر صنم نکلے
یہ لفظ اپنی اصل میں عربی ہے۔ مفہومی تبدیلی کے سبب اس پر مہاجر
ہونے کا گماں تک نہیں گزرتا۔ دوسرا برصغیر میں غیر مسلم برادری
اکثریت سے آباد ہے۔ اس لیے اس کو اصل معنوں میں استعمال کرنا
فساد پھیلانے کے مترادف ہے۔ تیسرا مہاجر کو موجود وسیب کا فکری
و سماجی بھیس اختیار کرنا پڑتا ہے۔ چوتھا موجود زبان کے لسانی
سیٹ اپ اختیار کئے بغیر پیر جما نہیں سکتا۔ لفظ کافر کے ساتھ بھی
یہی معاملہ درپیش ہے ۔ غالب نے قبل از اسلام کے حوالے کو م ِد نظر
رکھتے ہوئے اتنی بڑی بات کہہ دی ہے۔
یہ لفظ اسامی کلچر کا نمائندہ ہے۔ مسلمان ہر سال حج یا عمرے کعبہ:
کے لئے کعبہ کو جاتے ہیں۔ اسے قبلہ ،خانہ ء خدا بھی کہتے ہیں۔
اردو میں اصل معنوں کے سوا معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ دل
:کو کعبے کا نام دیا جاتا ہے
دل خانہء کعبہ ہے ،کلسیا نہ اقبال نہ ہر وقت کرو دھیان بتوں کا
کرو تم ( )١۵۵اقبال الدولہ اقبال
میر صاحب کے ہاں دیر کے متضاد محبوبوں (بتوں) کو تیاگنا معنی
:بھی مراد لیے جا سکتے ہیں
لغزش بڑی ہوئی تھی و مستی میں چھوڑ دیر کو کعبے چلا تھا میں
لیکن سنبھل گیا ( )١۵۶میر
غالب کے ہاں مفہومی رنگ الک سے ہے۔ اصل اور کوئی سے مجازی
:معنی مرادلیے جا سکتے ہیں
خدا کے واسطے پردہ نہ کعبے کا اٹھا واعظ کہیں ایسا نہ ہو یاں
بھی وہی کافر صنم نکلے
مہاجرت نے اصل کے سوا بہت سے مفاہیم دے دیے ہیں۔ فعل مضارع
بھی دیسی طریقہ سے بناتے چلے آتے ہیں۔
کفر:
کفر کا تعلق تکفیر سے ہے یعنی ،انکار ،نہ ماننا ،تسلیم نہ کرنا
وغیرہ۔ اسلامی اصطلاح میں اسلام سے انکار ،اسلام کے کسی بنیادی
رکن کو تسلیم نہ کرنا کفر کے زمرے میں آتا ہے۔ جو شخص اسلام
کے برعکس زندگی بسر کر رہا ہو ،اسے بھی کافر کہا جاتا ہے۔یہ
اصطلاح اسلام کے حوالہ سے اردو میں داخل ہوئی ہے۔ اپنی اصل میں
یہ لفظ عربی ہے۔ اردو غزل میں معنوی تبدیلی کے ساتھ بکثرت
:استعمال میں آتا ہے
:شاہی کے نزدیک اصل ر ّب کو چھوڑ کر کوئی اور ر ّب بنا لینا کفر ہے
نپایا رب ج ِب کھسا پایا بڑائی جب دیکھا یا توں گگن نے سر نوایا
کفر کا تب ( )١۵٧شاہی
:قائم اصل معنوں میں استعمال کرتے ہیں
حر ِف کفر و دیں پہ ہی کیا منحصر ہاں دلا’’ خذ ماصفادع ماکدر‘‘
( )١۵۸قائم
:چندا اسلام کے برعکس راستے کو کفر کا نام دیتی ہیں
صاحب سجہ بھی ہے ،کفر و اسلام میں ثابت رہے دل کس پر بھلا
مال ِک زنار بھی ہے ( )١۵۹چندا
:غیر مسلم شعراابھی یہ لفظ نظم کرتے آئے ہیں اور اصل معنوں میں
دیکھے زنار کو تسبیحِ کفرو دیں کی نہیں یک رنگی کا جویاں قایل
سلیمانی میں ( )١۶٠لالہ چینی لال حریف
:غالب کے ہاں اپنے اصلی معنوں میں استعمال ہوا ہے
کعبہ مرے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
کلیسا:
کلیسا عیسائیوں کی عبادت گاہ کو کہتے ہیں۔ یہ کلس سے ہے۔
گرجوں کی تعمیر کے ساتھ ہی اردو غزل کے کلچر کا جز ٹھہرا۔ کلس
کے حوالہ سے اسے مہاجر نما کہا جا سکتا ہے۔ اردو غزل میں زیادہ
تراصل مفاہیم کے ساتھ نظم ہوتا آیا ہے۔ مثلاا
پھرتے تری تلاش میں ہم مسجد میں بتکدے میں کلیسا میں دیر میں
چار سورہے ( )١۶١والا جاشیدا
اقبال نہ ہر وقت کرو دھیان بتوں کا دل خانہ کعبہ ہے ،کلیسا نہ کرو
اقبال الدولہ اقبال ) (١۶٢تم
:غالب کے ہاں بھی عیسائی مذہب کی نمائندگی کر رہا ہے
کعبہ مرے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
پیچھے ہے کلیسا مرا آگے
غالب نے کعبہ کے ساتھ ایمان جبکہ کفر کے ساتھ کلیسا نتھی کر کے
عیسائیت کی نہ صرف پوری آئیڈیالوجی واضح کر دی ہے بلکہ اپنے
نظریات و عقائد پر روشنی ڈالی ہے۔
یہ لفظ غیر مذہبی اور غیر اخلاقی قول و فعل سے تعلق رکھتا گناہ:
ہے۔ بنیادی طور پر مہاجر لفظ ہے۔ معنوی تبدیلی اور دیسی طریقہ سے
جمع بنانے کے حوالہ سے اسے مہاجر نہیں کہا جا سکتا ہے۔ میر
:صاحب کے ہاں اس کی دیسی جمع ملاحظہ فرمائیں
لگے ہو خون بہت کرتے بے رہے خیال تنک ہم بھی روسیاہوں کا
گناہوں کا ( )١۶۳میر
:غالب نے برائی اور خرابی کے معنوں میں استعمال کیا ہے
مجھ کو بھی پوچھتے تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
رہو تو کیا گناہ ہو
مجلس:
عربی میں نشت ،نشت گاہ ،بیٹھنے کی جگہ ،عدالت ،کورٹ
کچہری ،سیٹ ،ٹربیونل وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔اہل
تشیع کے ہاں الگ سے معنوں کا حامل ہے۔ بنیادی مفہوم جمع ہونا،
اکٹھا ہونا ،اکٹھ ،بزم ،انجمن وغیرہ ہی رہتے ہیں۔ یہ معنوی تبدیلی ہے
،معنوی اختلاف نہیں ۔اردو غزل میں اردو معنوں کے ساتھ استعمال
:ملاحظہ ہو
ولی دکنی نے میخواروں کا مل بیٹھ کر میخواری کرنے کو مجلس کہا
:ہے
شیشۂ خالی نمن بے نشا ہے جس کے دل میں نیں محبت کی شراب
مجلس سوں نروالا ہے ( )١۶۴ولی
:حاتم محفل کے معنوں میں اس لفظ کو برتتے ہیں
دے نہیں کچھ ہم کو بھاگیں دیکھ کر انبو ِہ خلق ہم کو بھی جا بیٹھنا
مجلس میں جا ہو یا نہ ہو ( )١۶۵مصحفی
:درد رندوں کی بیٹھک کو مجلس کا نام دیتے ہیں
ہم سے کچھ خوب اٹھ چلے شیخ جی تم مجل ِس رنداں سے شتاب
مدارت نہ ہونے پائی ( )١۶۶درد
:غالب کے ہاں بھی دیسی معنوں میں استعمال ہوا ہے
رشتہ ء ہر شمع شب کہ وہ مجلس فرو ِز خلع ِت ناموس تھا
خارکسو ِت ناموس تھا
مجموعی طور پر "اکٹھ"مجلس کے مفاہیم میں کار فرما رہتا ہے۔
مدعا:
یہ لفظ عربی میں دعوی کیا گیا کے معنی رکھتا ہے۔ اردو میں
عربی معنوں سے قطعی ہٹ کر استعمال میں آتا ہے۔ اس ضمن میں چند
:مثالیں ملاحظہ ہوں
زا ِد رہ دل کا مدعا بس ہے ( )١۶٧حاتم سفر عاشقی میں عاشق کو
خواہش ،آرزو
مطلول کے معانی یو خط کا حاشیہ گرچہ ولی ہے مختصر لیکن
کاتمامی مدعا دستا ( )١۶۸ولی
مدعا دسنا :مفہوم لب لباب بتانا
میرے نامے کو وہ نہیں پڑھتا جس جگہ مدعا کی باتیں ہیں ()١۶۹
مصحفی
مقصد ،ضرورت ،حاجت
زباں پر آکے مری ،عجب نہیں جو تری خو کے ڈر سے اے ظالم!
حرف مدعا پھر جائے ( )١٧٠مصحفی
مدعا پھرنا ،جو کہنا مقصود ہے
یاں آکے ہم اپنے مدعا کو بھولے مل مل غیروں سے آشنا کو بھولے
( )١٧١سنتوکھ رائے بیتاب
مدعا بھولنا :جو کرنا تھا ،کوئی کام ،مقصد یاد نہ رہنا
مدعا ہم سے منہ چھپانا تھا ( )١٧٢نظام کھولنا زلف اک بہانہ تھا
مقصد ،اصل بات ،وجہ
درج بالا مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ معنوی تبدیلی نہیں ،معنوی
فرق ہے۔ یہ لفظ عربی"مدعا"سے بالکل الگ ہے۔ اس کا رشتہ ہندی/
پنجابی لفظ "مدا"سے جڑا نظر آتا ہے۔ دونوں کے معنوی شیڈز اس
لفظ میں نظر آتے ہیں۔ عربی کے زیر اثر" ع "کی آواز داخل ہو گئی
ہے۔ لیکن معنی برقرار رہے ہیں۔ غالب کے ہاں خواہش ،حاجت ،دل
:کی بات ،جو کہنا چاہتے ہوں کے معنوں میں استعمال ہوا ہے
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
ان مباحث کے تناظر میں اس لفظ کو مہاجر نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ
لفظ مہاجر نما ضرور کہلا سکتا ہے۔ ہاں کورٹ کچہری کی زبان میں
عربی مفہوم ضرور ملتا ہے۔ املا بھی اصلی رہتی ہے۔ مثلاا اصل مدعے
پر بحث جار ی رکھی جائے۔ مدعی اور مدعاعلیہ اصطلاحیں وہاں
پڑھنے سننے کو عام ملتی ہیں۔
ہمارے ہاں مرگ ،مرگا(ککڑ) کے لئے بولا جا تا ہے مونث کے مرغ:
لئے مرگی(ککڑی)لفظ مستعمل ہے گ کی تبادل آواز غ ہے۔عربی والوں
کے حوالہ سے یہ تبدیلی وقوع میں آئی ہے۔فارسی میں اس کے معنی
"پرندہ "ہیں۔ہمارے ہاں عموماا کہا جا تا ہے مرغ صبح سویرے اذانیں
دیتے ہیں۔مجازاا اسے ’’بانگاں ویلا ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔جب اسے مرغِ
صبح بولا جائے تو اس سے مراد مرگا (ککڑ)ہی ہوتا ہے۔اسی طرح
"مرغ گرفتار"مرغ بے بال وپرکے معنی پرندہ ہوں گے۔فانی کے ہاں
"مرغِ فانی "بمعنی رو ح ،جبکہ ولی دکنی نے درمرغ دل کی ترکیب
بھی استعمال ہوئی ہے( )١٧۳ولی ۔ان میں کسی کو مر غ کے معنوں
میں نہیں لیا جا سکتا۔حاتم کے ہاں مرغ کی مونث مرغی(مرگی)پڑھنے
:کو ملتی ہے ورنہ مرغی(مرگی)بہت کم نظم ہوئی ہیں
دشمن عاشق سے کڑ کڑ واے ہے کڑک مرغی کہاں و باز کہاں
()١٧۴حاتم
جب مرغ سے مراد پرندہ ہو گا تو یہ لفظ مہاجر ہو گا تا ہم اردو کے
لسانی سیٹ اپ کو اختیار کر کے ہی اپنا و جود بر قرار رکھ سکتا
ہے۔مرغ سے مراد اگر مرگ(ککڑ) ہو گا تو اسے مہاجرنما کہا جائے گا
:۔اس ضمن میں دو مثالیں ملا خط ہوں
شب ہجراں کی سحر ہی نہیں ہوتی کیا آہ آج ازاں بھی تو نہیں مرغ
سحر دیتا ( ) ١٧۵نوازش خاں نوازش
نالۂ مرغِ سحر تی ِغ دودم ہے ہم رش ِک ہم طرحی و در ِد اثر بانگ حزیں
کو غالب
یہ لفظ اسلامی تہذیب کی نمائندگی کر تا ہے۔یہ مسلمانوں کی مسجد:
عبادت گاہ کے علاوہ اسمبلی کا فریضہ سر انجام دیتی رہی ہے۔اسے
متعلقہ علاقے میں مسلمانوں کا نقطہ اجتماع کہا جا سکتا ہے۔اگلے
وقتوں میں مسافر یہاں رات کو قیام کرتے تھے۔ اسلامی تعلیم و تربیت
کا کام پہلے بھی یہاں ہو تا تھا آج بھی ہو تا ہے۔ بعض علاقوں میں
صفائی کی قسم لینے دینے کے کام آتی ہے۔ اردو میں زیادہ تر اپنے
اصلی معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوتاہے۔ یہ لفظ عربی سے اردو میں
داخل ہواہے ۔ مثلاا
خراب رہتے تھے مسجد کے آگے میخانہ نگاہ مست نے ساقی کی
انتقام لیا( )١٧۶میر
مسجد میں بتکد ے میں کلسیا میں دیر میں پھرتے تری تلاش میں ہم
،چار سور ہے()١٧٧والا جاشید
:غالب نے بھی اسے اس کے اصل معنوں میں استعمال کیا ہے
مسجد کے زی ِر سایہ خرابات چاہئے بھوں پاس آنکھ قبلہء حاجات
چاہئے
مست:
فارسی میں نشہ میں چور معنوں میں استعمال ہو تا ہے اور اس
سے میخانے کا کلچر سامنے آتا ہے ساقی کا پلا نا ،پی کر میخواروں
کا بہکنا ،الٹی سیدھی حرکتیں کرنا وغیرہ قسم کے خیا لات سامنے
آتے ہیں ۔اردو میں درویش ،اللہ لوگ ،مست ملنگ کے معنوں میں
استعمال ہو تا ہے۔ اس طبقے کے اس لفظ کے حوالے سے نظریات
اور سر گرمیاں سامنے آتی ہیں۔ ان کی معاشرتی حیثیت و قعت کابھی
اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔یہ معنوی اختلاف ہے۔ان معنوں میں اس لفظ
کو مہاجر نہیں کہا جاسکتا ہے۔
ولی دکنی لفظ مست کو عشق سے وابستہ کرتے ہیں عشق کے متعلق
شخص معاشرے کے لئے غیر مفید ہو جا تا ہے ۔ولی عشق میں غرق
:کے لئے مست کا لفظ استعمال کرتے ہیں
نا کسی ہے نا کسی ہے نا مست ہونا عشق میں تیرے صنم
کسی( )١٧۸ولی
نیم خواب آنکھوں کی مستی لوگوں کو بے خود اور مفتوں بنا دیتی
:ہے۔ ولی کے ہاں اس حوالہ سے بھی اس لفظ کا استعمال ہوا ہے
ہر ہرنگہہ سوں اپنی بے خود کرے ولی کوں ووچش ِم مست پر خوش
جب نیم خواب ہووے( )١٧۹ولی
حافظ عبدا لوہاب سچل نے زندگی کی حرکت اور سر گرمی کے ماند پڑ
:جانے کے حوالہ سے اس لفظ کا استعمال کیا ہے
نبض کو دیکھ کر مایوس فلاطوں بھی ہوا کہہ دیا صاف یہ مست تو ،
شیار نہیں( )١۸٠سچل
آفتاب رائے رسوا خوشی راحت اور بے خودی کی حالت کے لئے اس
:لفظ کو نظم کرتے ہیں
ابر رحمت برستا ہے ہر گلی میں گرے پڑے ہیں مست ہو درو دیوار
یا برستی ہے شراب( )١۸١رسوا
حاتم نے بطور مشبہ بہ استعمال کیا ہے "جذب کی حالت میں" معنی
:دریافت کئے ہیں
لب میگوں سے تیرے نگہ کرتے گرا بے ہوش ہو جوں مست گرتا ہے
پان کھاتے پیک کا چونا ( )١۸٢حاتم
ایک دوسری جگہ دنیا و جہاں سے بے خبر کے لئے لفظ مست برتتے
:ہیں
شکر للہ شیشہ و ساغر بکف اس ابر میں مست آتا ہے لئے عشرت کا
ساماں دست میں( )١۸۳حاتم
غالب اللہ لوگ درویش دنیا سے دور لوگوں کے لئے اس لفظ کو
:موزوں خیال کرتے ہیں
مست کب بند قبا باندھتے ہیں نشہ ء رنگ سے ہے واشد گل
اردو میں اگر مخمور معنی مراد لیں گے تو یہ مستک کا اختصار سے
جبکہ دیگر مفاہیم میں مست کا بگڑا روپ ہے۔ ت ،ٹ کی متبادل آواز
ہے۔ یہ بھی کہ فارسی مشٹ کو شٹ کے معنوں میں استعمال کیا جانے
لگا ہے ۔
عربی میں منت ،کرم ،مہربانی،احسان(کرنا) اور حسن سلوک کے منت:
معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن اردو میں اس کا مزاج اور معنوی
چلوں الگ سے رہا ہے ۔مثلاا
بس کئی دن جوز یست ہے ،اس پر کس کی منت عبث اٹھائے گا (١۸۴
)قائم چاند پوری
احسان اٹھانا
وہ جس دم ہاتھ اپنا قبضۂ خنجر پہ رکھتا ہے تکلف بر طرف ،منت
ہمارے سر پہ رکھتا ہے ( )١۸۵مصحفی
کسی کے ) سر پہ منت رکھنا ،منت رکھنا۔(
منت م ّْن یا پھر امتحان سے ترکیب پایا ہے جبکہ اردو کا لفظ منتی ،
ہندی لفظ بنتی (وینتی )بمعنی عرض ،التجا ،التماس ،عاجزی،
خوشامد ،معذرت ،لجاحت ،درخواست ()١۸۶سے تعلق جوڑرہا ہے۔
ہندی والوں کے ہاں بنتی یا و نتی برقرار رہا لیکن عربی کے زیر اثر
بنتی اور منتی کو ترک کرکے منت ،بنتی کے معنوں میں اختیار کر لیا
گیا ہے یہ لفظ عربی ہندی تعلقات کو واضح کر رہا ہے۔ غالب کے ہاں
:بھی اس کا رشتہ بنتی سے استوار ہے
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا درد،من ِت کش دوانہ ہوا
(منت کش ہونا
ایک دوسری جگہ سماجت اور خوشامد کے معنوں میں استعمال ہوتا
:ہے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں سر زیر بار من ِت درباں
کئے ہو ئے
عربی اسم مذکر ہے۔ عربی میں نقش و نگار کرنا ،مزیں کرنا کے نقشا:
معنوں میں استعمال ہو تا ہے۔اردو میں بالکل الگ معنوں میں استعمال
ہو تا ہے یہ اپنی اصل میں "نکسا " ہے برصغیر کی تہذیب میں کسی
کام کے نہ ہونے کے سبب "ناک نہیں رہتا"بولتے ہیں۔ اس کوناک رہنا
سے سج دھج ،بناوٹ ،تضع ،کسی کی نقل ،نمایاں حیثیت ،عزت ،آبرو
:وغیرہ مراد لیتے ہیں۔ اردو میں نقشا کا استعمال ملاحظ ہو
شب دیکھ مہ تا باں تھا مصحفی تو حیراں کیا اس میں بھی کچھ نقشہ
اس سیم بدن کا ( )١۸٧مصفحی
تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے پھر کیوں نہ رہا گھر کا نقشا
کو ئی دن اور(بمعنی حالت) غالب
حواشی
٢۔ کلیات ولی ،مرتبہ ١۔شرح دیوان حافظ ،مترجم عبداللہ عسکری مرزا
نور الحسن ،ص ٧۸
۴۔ سندھ میں اردو شاعری،مرتبہ ۳۔ کلیات مصحفی ،ص ۵۵۶
ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ ،ص ۶۴
۶۔ دیوان درد ۵ ،۔ کلیات قائم ج،١مرتبہ اقتدارحسن ،ص ٢٢
مرتبہ خلیل الرحمن داودی ،ص١۵۹
۸۔ شاہکار انسا ئیکلو پیڈیا ،ص ٧ ۳۸۔ پیدائش ٢٢ : ١٠
١٠۔ فرہنگ ۹۔ سخند ا ِن فارس ،از محمد حسین آزاد ،ص ١١۳
فارسی ،مولف ڈاکٹر عبدالطیف ،ص٧
١١۔ کلیات میر ج ا،مرتبہ کلب علی خاں فائق ،ص١٢ ١٠١۔ دیوان
زادہ ،مرتبہ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ،ص ۸
١۴۔ سخندان فارس ،ص ١۳ ۹۹۔ کلیات قائم ج ،ص ۳۸
١۵۔ المنجد ،ص ۶٢٧ ١۶۔ پنجابی اردو لغت ،مولف تنویر بخاری
،ص ١١١۵
١٧۔ ہندی اردو لغت ،ص ١۸ ۳۴۹۔ دیوان درد ،ص ١۴۶
١۹۔ کلیات قائم ج ا ،ص ا ٢٠ ٧۔ کلیات مصحفی دیوان ا ّول ،ص ١۶
٢١۔ لسا نیات غالب ،مقصود حسنی ،ص ٢٢ ١٢۔ کلیات ولی ،ص ۸۹
٢۴۔ تذکرہ ٢۳۔ تذکرہ مخزن نکات ،ڈاکٹر اقتدارحسن ،ص ۴۳
حیدری ،حید ربخش حیدری ،ص ١١۴
٢۶۔ کلیات قائم ج ا ،ص ٢۵ ٢۳۔ دیوان درد ،ص ١۶۳
٢۸۔فرہنگ عامرہ ،عبداللہ خویشگی ٢٧۔ کلیات میر ج ا ،ص ١۹٢
،ص ٢٧١
٢۹۔ نوائے سروش ،ص ۳٠۔
۳١۔جناب ابو حنیفہ ،جناب مالک ،جناب شافعی ،جناب احمد بن حنبل
،
۳٢۔ پیش امام
۳۳۔ جناب علی ابن ابی طالب ،جناب حسن ابن علی ،جناب حسین ابن
علی ،جناب زین العابدین بن حسین ،جناب امام باقر ،جناب جعفر
صادق ،جناب موسی کاظم ،جناب علی رضا ،جناب محمد تقی ،
جناب علی نقی ،جناب حسن عسکری ،جناب محمد مہدی
۳۵۔ دیوان زادہ ،ص ۳۴ ١٧۴۔ کلیات میرج ا ،ص ۹۹
۳٧۔ ۳۶۔ سندھ میں اردو شاعری ،ڈاکٹر بنی بخش بلوچ ،ص ١۶۴
دیوان زادہ ،شیخ ظہور الدین حاتم ،ص ١۵۴
۳۹۔ کلیات مصحفی ج ا ،ص ۳۸ ٢۶٧۔ تذکرہ حیدری ،ص ۵۵
۴١۔ کلیات میرج ا ،ص ۴٠۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص ۶۸
٢۸٠
۴٢۔کلیات قائم ج ا ،ص ١٢٧ ۴۳۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا،
ص ۴۴١
۴۵۔ دیوان مح ِب ،ولی ۴۴۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص۳۴۶
اللہ محب ،ص ۵٠١
۴٧۔ کلیات میرج ا ،ص ۴۶ ١١۵۔کلیات مصحفی ج ا ،ص ۵٧۵
۴۹۔ لغات نظامی ،ص ۴۸۔ سندھ میں اردو میں شاعری ،ص ۸٠
١٠١
۵١۔ البیان ،ص ١۵۔۵٠ ١۶۔ جامع اللغات ج ا ،ص ۴۶۶
۵۳۔ دیوان مہ لقا بائی چند ا ،ص ۵٢ ١١۴۔ اظہر اللغات ،ص ١۶۵
۵۵۔ کلیا ِت مصحفی ج ا ،ص ۵۴ ۴۸۸۔ کلیات مصحفی ج ا ،ص ۳۴
۵٧۔ تذکرہ خوش معرکہ ۵۶۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ص ١۳۴
زیبا ج ا ،ص ۴۸۸
۵۹۔ معنویت ،ڈاکٹر ۵۸۔ روشنی اے روشنی ،شکیب جلالی ،ص ۸۸
سہیل بخاری ،ص ١٢۶
۶٠۔ کلیات ولی ،ص٧۹ ۶١۔ احوال واثار شاہ عالم ثانی آفتاب
،ڈاکٹر محمد جمیل خاور ،ص ١۹۴
۶۳۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ۶٢ ١٢٧۔ سخندان فارس ،ص ۴۸
۶۵۔ اردو کی دو قدیم ۶۴۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص ۴٠٠
مثنویاں ،ص ١٢۹
۶٧۔ رحمن۶۶ ٧۶:۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا ،ص ۴۸١
۶۹۔ ۶۸۔ کلیات میر ج ا ،ص ۹۸
٧١۔ ہندی ارو لغت ،ص ٧٠۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص ۳۵۹
۴۵۸
٧٢۔سنسکرت اردو لغت ،ص ٧۳ ٧ ۳۔کلیات میر ج ا ،ص ۳٢٠
٧۴۔ شرح دیوا ِن حافظ ج ا ،ص٧۵ ۹۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص
۵۳٧
٧٧۔ دیوان جہاں دار ،ص ٧۶ ١۳۵۔ تذکرہ حیدری ،ص ا ٢
٧۹۔ کلیا ِت مصحفی ج ا ،ص ٧۸ ۵۵٠۔ کلیات قائم ج ا ،ص ۴۳
۸١۔ فرہنگ فارسی ،ص ۸٠ ۳٢۵۔تذکرہ گلستان سخن ج ا ،ص ۳۶۹
۸۳۔ دیوان زادہ ،ص ۸٢ ١١۶۔ احوال و رباعیا ِت خیام ،ص ٢٧۵
۸۴۔ کلیا ِت مصحفی ج ا،ص ۵٧۳ ۸۵۔ سندھ میں اردو شاعری ،
ص۳۸
۸٧۔کلیات سو دا ج ا ،ص۸۶ ١۵۔ کلیا ِت مصحفی ج ا ،ص ١٢۵
۸۹۔ فرہنگ فارسی ،ص ۸۸ ۴١۵۔ دیوان زادہ،ص ١٢۸
۹١۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ۹٠ ۶۔ دیوا ِن زادہ ،ص ١٢٠
۹۳۔ نقوش بیاض غالب نمبر،ص ۹٢ ۶۹۔ کلیا ِت میر ج ا ،ص ١۳۸
۹۵۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ۹۴ ١۸۵۔ دیوان زادہ ،ص ٧
۹٧۔ کلیات میر ج ا ،ص ۹۶۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا،ص ١١٢
۹۹
۹۹۔ تذکرہ مخز ِن نکات ،ص ۹۸ ١٢٠۔ باغ و بہار ،ص ١۴۸
١٠١۔ کلیا ِت میر ج ا ،ص ١٠٠ ١۳۶۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ١١۵
١٠۳۔ دیوان درد ،ص ١٠٢ ١٢۳۔ کلیا ِت میر ج ا ،ص ۹۸
١٠۵۔ القاموس الفرید ،ص ١٠۴ ۳۵۹۔ کلیا ِت میر ج ا ،ص ٢۸٠
١٠٧۔ ١٠۶۔ تقویت الایمان ،شاہ اسماعیل شہید دہلوی ،ص ۹۹
کلیات شاہی ،ص ٧
١٠۹۔ آئینہ اردولغت ١٠۸۔ مراۃ العروس ،ڈپٹی نذیر احمد ،ص ۳۵
،علی حسن چوہان وغیرہ ،ص١٠۹۹
١١١۔ دیوا ِن درد ،ص ١١٠ ١١۶۔ کلیات میر ج ا ،ص ١١۸
١١۳۔ تذکرہ خوش ١١٢۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص ١١٠
معرکہ زیبا ج ا ،ص ۳۶١
١١۵۔ ١١۴۔ القاموس الفرید ،وحید الزمان کیرانو ی ،ص ۳۸١
تذکرہ مخز ِن نکات ،ص ١۳۵
١١٧۔ کلیا ِت میر ج ا ،ص ١١۶ ١۹٧۔ تذکرہ مخزن نکات ج ،ص ١٧۹
١١۹۔ کلام بابا بلھے شاہ ،ص ١١۸ ۸۔ القاموس الفرید ،ص ۳۹۵
١٢١۔ اردو کی دو قدیم مثنویاں ،ص ١٢٠۔ کلام شاہ حسین ،ص ۳١
١١۴
١٢۳۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا١٢٢ ،۔ دیوان جہاں دار ،ص ١٢٠
ص ٢٠۳
١٢۵۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ١٢۴۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ١۳۴
١۵۳
١٢۶۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص ۵١۴ ١٢٧۔ کلیات میر ج
ا ،ص١٢۵
١٢۹۔ دیوان دد ،ص١٢۸ ١١۵۔کلیات قائم ج ا ،ص ١۳۴
١۳١۔ کلیات میر ج ا ،ص ١۳٠ ١٠۴۔ کلیات میر ج ا،ص ١٠۴
١۳۳۔ ١۳٢۔شاہ عالم ثانی آفتاب احوال و ادبی خدمات ،ص ٢٠۸
تذکرہ مخزن نکات ،ص ١٢۸
١۳۵۔ کلیات ولی ،ص ١۳۴ ٧۸۔ کلیات ولی ،ص ٢١۵
۳۶ا۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ۴۶ ۳٧ا۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص
١٧۹
١۳۹۔ کلیات میر ج ا ،ص ١۳۸۔ ١۵ :٢۸
١۴١۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ١۴٠ ،٢۔ کلیات میر ج ا ،ص ٢٢۵
ص ٢۶۹
١۴۳۔ کلیات مصحفی ج ا ،ص ١۴٢ ۵٢۸۔ کلیات میرج ا ،ص ١۳١
١۴۵۔ ال عمران ١۴۴ ٢۵۔ بقرہ ١١۳
١۴۶۔مائدہ ،١٠۹ :نور ،٢۴:سجدہ ١۴٧ ،۹،١۹ :۔ مائدہ١٠۹ :
١۴۸۔مکانی استعمال ١۴۹۔ کلیات میر ج ا ،ص ١٢۵
١۵١۔ ترجمہ میر مرتضی حسین ١۵٠۔ کلیات میر ج ا ،ص ٢١۹
فاضل لکھنوی
١۵۳۔ کلیات مصحفی ج ا ،ص١۵٢ ۵۳۹۔ کلیات میر ج ا ،ص ١۴٢
١۵۴۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ۶۸ ١۵۵۔ تذکرہ خوش معرکہ
زیبا ج ،ص ۴۶١
١۵٧۔کلیات شاہی ،ص ١۵۶ ١٠۶۔کلیات میر ج ا ،ص ١٢۸
١۵۹۔ دیوان لقا چند ا ،ص ١۵۸ ١۴۶۔ کلیات قائم ج ا ،ص ٧١۹
١۶١۔ تذکرہ خوش ١۶٠۔ تذکرہ خوش معرکہ زیباج ا ،ص ۴۳۹
معرکہ زیبا ج ا ص ۳۴۸
١۶۳۔کلیات میر ج ا ،ص ١۶٢ ١۳۴۔ تذکرہ خوش زیبا ج ا ،ص ۴۶١
١۶۵۔ کلیا ِت مصحفی ج ا ،ص١۶۴ ۳۵٠۔ کلیات ولی ،ص ٢۵۶
١۶٧۔ دیوان زادہ ،ص ١۶۶ ١۳۔ دیوان درد ،ص ٢٠۸
١۶۹۔ کلیا ِت مصحفی ج ا ،ص١۶۸ ۳٢۵۔ کلیات ولی،ص ٧۶
١٧١۔ تذکرہ مخزن نکات،ص ١٧٠۔ کلیات مصحفی ج ا ،ص ۵٧۵
١۹٧