The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-02-02 02:55:56

c2

c2

‫‪،‬ہے یہ گل کے خار پہلو میں (‪)١٢٢‬جہاں دار‬

‫دونوں اشعار میں طنز کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔‬

‫مثرہ وہ تیز کہ خنجر کو دھار نگہ وہ شوخ کہ طعنے کٹار پر مارے‬
‫پر مارے(‪)١٢۳‬عارف اللہ شاہ ملول‬

‫تقابلی طنز۔ دھارپر مارنا‬

‫غالب کے ہاں یہ لفظ طنزاور منا کے معنوں میں استعمال ہو ا ہے۔‬

‫ضعف میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے بات کچھ سر تو نہیں ہوں کہ‬
‫اٹھا بھی نہ سکوں‬

‫درج بالا معروضات کے حوالے سے اس لفاظ کو مہاجر قرار نہیں دیا‬
‫جا سکتا ۔‬

‫طرح‪:‬‬

‫یہ لفظ عر بی میں بنیاد کے معنوں میں آتا ہے جبکہ اردو میں‬
‫طور ‪،‬انداز ‪،‬مانند ڈھب‪ ،‬ڈھنگ‪ ،‬اسلوب ‪،‬وضع وغیرہ کے معنوں میں‬

‫استعمال ہوتاہے۔مثلاا‬

‫کیا بدن ہو گا جس کے کھولتے جامے کا بند بر ِگ گل کی طرح ہر ناخن‬
‫معطر ہوگیا(‪)١٢۴‬یقین‬

‫مانند‪ ،‬جیسا ‪،‬کاسا‬

‫گو سو طرح کی مجھ سے تو بے دماغ عبث اے میاں ہے تیں‬
‫حسرتیں اس دل کے بیچ ہیں (‪ )١٢۵‬راقم‬

‫طریقے ‪،‬طور‪ ،‬انداز‬

‫بہے ہیں دیدۂ گریباں سے اس طرح آنسو رواں ہو چشمے سے جس‬
‫طرح آب درتہ آب(‪)١٢۶‬لالہ موجی رام موجی‬

‫ایسے جیسے اس طور ‪،‬اس طرح‪ ،‬انداز‬

‫‪:‬غالب نے بھی اس لفظ کو دیسی معنوں میں استعمال کیا ہے‬

‫مانند حباب آنکھ تو اے درد کھلی تھی کھینچا نہ پر اس بحر میں‬
‫عرصہ کوئی دم کا(‪)١٢۹‬درد‬

‫مرے آگے نہ شاعر نام پاویں‬ ‫قیامت کو ‪،‬مگر عرصے میں‬
‫)آویں(‪( )١۳٠‬میر‬

‫در پہ رہنے کو کہا اورکہہ کے کیسا پھر گیا جتنے عرصے میں مرا‬
‫بستر لپٹا ہوا کھلا غالب‬

‫درج بالا چاروں اشعار میں ’’عرصہ‘‘ زمانہ کے حوالے سے استعمال‬
‫ہوا ۔‬

‫عرصہ کی (زمانی حوالہ سے )حقیقی شکل ارسا ہے۔ عربی کے زیر‬
‫اثر ص اور ع کی آوازیں داخل ہو گئی ہیں۔ اس طرح اس کی اصل املا‬

‫’’ارسا‘‘ باقی نہیں رہی۔‬

‫عید‪:‬‬

‫عید مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے۔یہ سال میں دو مرتبہ منایا جا تا‬
‫ہے۔عید الفطر رمضان کے اختتام پر جبکہ عید الاضحی حضرت ابراہیم‬
‫کی فرمانبرداری کی یاد میں منائی جا تی ہے۔جب انہوں نے اپنی اولاد‬

‫حضرت اسماعیل کو چھری کے نیچے رکھ دیا ۔چھری اللہ کے حکم‬
‫سے نہ چلی اور جنت سے دنبہ آگیا جو انھوں نے اللہ کی راہ میں‬

‫قربان کردیا اہل تشیع جناب امیر کی ولادت پر خوشی مناتے ہیں اور‬
‫اسے عید کا نام دیتے ہیں ۔‪٢۵‬دسمبر کو عیسائی برادری کرسمس‬

‫منانتے ہیں برصغیر میں اسے عید کا نام دیاجاتا ہے۔بہر طور یہ لفظ‬
‫اردو اور برصغیر کی کئی دوسری زبانوں میں اسلامی تہذیب کے حوالہ‬
‫‪:‬سے داخل ہو اہے‪ ،‬میر صاحب کا یہ شعر بطور نمونہ ملا خط فرمائیں‬

‫دیکھا نہ اسے دورسے بھی منتظر وں نے وہ رش ِک م ِہ عید ل ِب بام نہ‬
‫آیا (‪)١۳١‬میر‬

‫‪:‬اب غالب کے ہاں لفظ عید کا استعمال ملا خط فرمائیں‬

‫عشر ِت قت ِل گ ِہ اہل تمنامت پوچھ عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا‬

‫عیدنظارہ ‪ ،‬عید کی خوشی کو ظاہر کررہاہے جبکہ میر صاحب نے‬
‫عید کے چاند کو محبوب سے تشبیہ دے کر عید کی خوبصورتی کو‬

‫واضح کیا ہے۔‬

‫طواف ‪:‬‬

‫لفظ طواف اسلامی تہذیب کا نمائندہ ہے حج یا عمرہ میں کعبہ کے‬
‫گرد چکر لگانے کے عمل کو " طواف"کا نام دیا جا تا ہے۔اس کے بغیر‬

‫حج یا عمرہ نہیں ہوتا ۔چکر کاٹنے‪ ،‬گرد پھرنے‪ ،‬گردش کرنے وغیرہ‬
‫کو طواف کا نام دیا گیا ہے۔ اردو میں اسلامی تہذیب کے توسط سے‬

‫وارد ہوا ہے۔ہاں معنوی تبدیلی ضرورہوئی ہے۔مثلاا غالب یہ شعر‬
‫‪ :‬پڑھیں‪،‬حج اور عمرے والے طواف سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا‬

‫دل پھرطوا ِف کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا ضم کدہ ویراں کئے‬
‫ہوئے‬

‫عرصہ‪:‬‬

‫عرصہ اردو میں عام بولا جانے والا لفظ ہے۔خیال کیا جا تا کہ یہ‬
‫عربی سے اردو میں داخل ہوا ہے۔عربی میں مکانیت کے حوالے سے‬

‫استعمال ہوتا ہے۔جیسے عرصہ اکدار(صحن خانہ کھلی ہوا‪،‬‬
‫جگہ)عرصہ کی جمع عرائص ہے۔اردو میں بھی مکانیت کے حوالے‬

‫سے استعمال ہوا ہے۔‬

‫جیسے عرصۂ جنگ‪ ،‬عرصہ حشر وغیرہ لیکن جب زمانی حوالہ سے‬
‫استعمال ہوتا ہے تو اس لفظ کو عربی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔مثلاا‬

‫ظالم نپٹ ‪ ،‬قلیل ساقی بھڑا دے خم ہی مرے منہ سے تو آہ !‬
‫عرصہ بہار کا (‪ )١٢۸‬قائم پوری‬

‫غریب‪:‬‬

‫کلمہ غریب عربی میں اجنبی مسافر پردیسی کے لئے مخصوص ہے‬
‫لیکن اردو میں اس کے معنی مفلس بے زار بادار حاجت مند کنگال‬
‫وغیرہ کے ہیں یہ معنی کا اختلاف ہے نہ کہ غریب کو یہ معنی دے‬
‫دیئے گئے ہیں۔یہ اپنی میں اصل گریب ہے جس کے معنی گرا پڑا کے‬
‫ہیں۔برصغیر کے معاشرت میں جو شخص مالی لحاظ سے کمزور ہو‬
‫استطاعت نہ رکھتا ہو کے لئے یہ لفظ بولتے ہیں جہان مسافرت کے‬

‫معنی دیتا ہے وہاں اسے عربی کلمہ تصور کرنا چاہئے۔اس کے‬
‫برعکس معنوں میں گریب کی بگڑی ہو ئی شکل تصور کرنا چاہئے۔گ‬

‫کی متبادل آواز غ ہے یہ مکتوبی تبدیلی عربی کے زیر اثر واقع‬

‫ہو ئی۔مکتوبی تبدیلی عربی کے اثر واقع ہو ئی ہے۔اردو غزل سے چند‬
‫مثالیں ملا خط فرمائیں۔‬

‫مجھ معقعد کا منظور اب اعتقاد ہو تم پیر پیراں میں ہوں غریب خادم‬
‫کیجئے آفتاب‬

‫ناتواں کمزور مفلس‬

‫حسرت پر اس غریب کی آوے اجل کو رحم بالیں پہ جس کے یارودم‬
‫واپس نہ ہو بیان‬

‫اردو میں مسافر عربی میں غریب کے لئے عام استعمال میں ہے غریب‬
‫‪:‬کی دیسی طریقہ سے جمع بھی بنا لی گئی ہے‬

‫فکر جمعیت آپس دل میں کئے ہیں زہاد زلف کوں کھوں غریباں کو‬
‫پریشاں نہ کرو ولی‬

‫‪:‬غالب کے ہاں یہ مہاجر نما لفظ دیسی معنوں میں نظم ہوا ہے‬

‫مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا میں غریب اور تو غریب نواز‬

‫غصہ‪:‬‬

‫اہل لغت اسے عربی لفظ قرار دیتے ہیں ۔عربی میں اس کے معنی‬
‫ایسا رنج جس سے گلہ گھٹ جائے ۔اردو میں اپنی اصل میں’’ گھسا‬
‫‘‘ہے جو گھس آنا سے تشکیل پایا ہے۔ جس طرح سایہ بھوت پریت‬
‫کے گھس آنے سے حالت بدل جاتی ہے۔ ناراضگی یا خفگی کے گھس‬
‫آنے سے مزاج اور موڈ بدل جاتا ہے۔ یہ معنوی فرق ہے نہ کہ معنوی‬
‫تبدیلی ۔عربی کے زیر اثر گھسا کی مکتوبی صورت بدل گئی ہے۔ غصہ‬
‫کو’’ گھسا‘‘ کے معنوں میں استعمال کیا جانے لگاچند مثالیں ملا خط‬
‫فرمائیں۔جس سے معنوی فرق نظر آجائے گا بعض مقامات پر محاورہ‬

‫‪:‬بن گیا ہے اور عام سننے کو ملتا ہے‬

‫ڈرتا نہیں ‪،‬ایک کی سو بے رحم نہ ہو‪ ،‬غصہ نہ کر ‪،‬بات مری سن‬
‫بات سنا جا (‪ )١۳۵‬ولی‬

‫کوئی بات بری لگنا غصہ کرنا ‪:‬‬

‫عرض غصے میں یہ اک اہل وفا کی نہ سنے ہٹ پہ آ جائے وہ کافر تو‬
‫خدا کی نہ سنے(‪)١۳۶‬منعم‬

‫طیش غصہ‪:‬‬

‫تو تو مجھ پر ایک دم غصہ ہو پھر سو تارہا شمع کی مانند میں ساری‬
‫رات روتا رہا (‪ )١۳٧‬مائل‬

‫ناراضگی خفگی کلام نہ کرنا‪ ،‬گفتگو موقو ف کر دینا غصہ ہونا ‪:‬‬

‫لفظ فتنہ عربی میں آزمائش کے معنوں میں استعمال ہو فتنہ‪:‬‬
‫اہے۔جیسے انما اموالکم واولاد کم فتنہ (‪ )١۳۸‬تمہارے مال اور تمہاری‬
‫اولاد بس آزمائش ہے۔اردو میں یہ لفظ شرارتی ‪،‬سازشی رکاوٹ ڈالنے‬

‫والا‪ ،‬خرابی پیدا کرنے والا‪،‬لڑائی ڈلوانے والا ‪،‬لڑائی جھگڑا‬
‫وغیرہ۔اردو میں نہ صرف معنوی تبدیلی ہو ئی ہے بلکہ قواعد کے‬

‫حوالے سے اختلاف واضح ہے۔‬

‫پنجابی میں بھی یہ مستعمل ہے لیکن"چواتی"لفظ بھی رائج ہے اور یہ‬
‫پنجابی کے ذخیرے میں موجود ہے۔ چواتی ‪،‬شرارت ‪ ،‬سازش ‪،‬لڑائی‬
‫جھگڑے کی وجہ وغیرہ ۔‬

‫‪:‬میر صاحب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملا خط فرمائیں‬

‫آنکھوں سے تری ہم کو ہے چشم کہ اب ہو وے جو فتنہ کہ دنیا میں‬
‫برپانہ ہوا ہو گا(‪ )١۳۹‬میر‬

‫فتنہ برپا ہونا مترادف قیامت برپا ہونا‬

‫بیٹھے ہیں آکے طال ِب فتنہ اٹھے گا ورنہ نکل گھر سے توشتاب‬
‫دیدار بے طرح (‪ )١۴٠‬میر‬

‫جھگڑے فساد کی راہ نکلنا‪ ،‬خرابی پیدا ہونا‪ ،‬آزمائش معنی فتنہ اٹھنا‪:‬‬
‫بھی لئے جاسکتے ہیں‬

‫غالب نے شور شرابا‪ ،‬آپادھاپی‪ ،‬پریشانی‪ ،‬تکلیف دہ صورتحال‬
‫‪:‬افراتفری‪ ،‬بے چینی‪ ،‬بے سکونی کے معنوں میں نظم کیاہے‬

‫جلوہ زا ِر آت ِش دوزخ ہمارا دل سہی‬ ‫فتنہ ء شو ِر قیامت کس کے آب‬
‫و گل میں ہے‬

‫اردو میں معنوی تبدیلی کے سبب"فتنہ"مہاجر ہو کر نہیں رہا۔‬

‫فقیر‪ ،‬فقر کا اسم ہے اور درویش کے معنوں میں استعمال ہوتا فقیر‪:‬‬
‫‪:‬ہے۔ عربی میں اس کے استعمال کے چار حوالے ہیں‬

‫زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہ ہوں ا ّول‪:‬‬

‫ضروریات کا پورا نہ ہونا دوئم‪:‬‬

‫مال و منال کی ہوس سوئم‪:‬‬

‫اللہ کی طرف احتیاج چہارم‪:‬‬

‫درویش دنیاوی مال و منال سے بے نیاز ہوتا ہے۔ بظاہر خستہ حال‬
‫ہوتاہے لیکن اس کا من بھرا ہوا ہوتاہے۔ خستہ حالی کے لیے‬

‫لفظ"پھک"موجود ہے۔ایر کے لاحقے سے "پھکیر"بن جاتا ہے۔ یہ لفظ‬
‫بھیک مانگے ‪ ،‬دست سوال دراز کرنے والے‪ ،‬نادار‪ ،‬گریب‪ ،‬بے نوا‬

‫وغیرہ کے لیے استعمال ہوتاہے۔ معنوی فرق کی وجہ سے یہ لفظ فقیر‬
‫سے مختلف ہے۔ فقیر چونکہ پھکیر کے لیے رواج پاگیا ہے اس لیے‬
‫درست سمجھا جاتا ہے۔ تاہم "پھکیر"بھی سننے کو ملتا ہے۔ اردو غزل‬
‫میں بھی یہی حالت ہے‪ ،‬لکھا فقیر جاتا ہے معنی پھکیر کے لیے جاتے‬

‫‪:‬ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں‬

‫لبریز ہو فقیر کا کاسہ سائل ہوں اے فلک یہ ترے انقلاب سے‬
‫شراب سے۔ (‪ )١۴١‬میر وارث علی جوش‬

‫سائل‪ ،‬مانگنے والے کے معنوں میں استعمال ہواہے میر صاحب کے‬
‫‪:‬ہاں درویش کے معنوں میں استعمال ہوا ہے‬

‫ہے معتقد فقیر نمد کی کلاہ اے تاجِ شہ نہ سر کو فرولاؤں تیرے پاس‬
‫کا(‪ )١۴٢‬میر‬

‫‪:‬فقیر کی جمع دیسی طریقہ سے بنائی جاتی ہے‬

‫اپنا جیسے زلفوں نے تری رہتا ہے فقیروں کی طرح نت وہ پریشاں‬
‫جال دیاہے (‪ )١۴۳‬مصحفی‬

‫‪:‬غالب کے ہاں بطور جمع استعمال ہو ا ہے‬

‫بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں‬

‫فقرا کی بجائے فقیروں۔ ایک دوسری جگہ درویش کے معنوں میں‬
‫‪:‬استعمال کرتے ہیں‬

‫فقیر غالب مسکیں ہے کہن ہم اور تم فل ِک پیر جس کو کہتے ہیں‬

‫تکیہ‬

‫بے بس‪ ،‬مجبور‪ ،‬لاچار‪ ،‬بے نوا وغیرہ کے معنوں میں بھی لیا جا‬
‫سکتاہے۔‬

‫قیامت‪ :‬لفظ قیامت اسلامی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔ الہامی کتاب میں‬
‫‪:‬اس لفظ کے مفاہیم ملاحظہ ہوں‬

‫فیصلے کا دن (‪ )١۴۴‬اعمال کے حساب کتاب کا دن (‪ )١۴۵‬یوم‬
‫)اجتماع۔ (‪ )١۴۶‬اعضا کی گواہی کا دن(‪١۴٧‬‬

‫قیامت کا قرآن میں بار بار ذکرآتا ہے۔ یہ بڑا دل ہلا دینے والا دن ہو گا۔‬
‫خوف و ہراس ہو گا۔ کوئی کسی کے کام نہیں آسکے گا۔ ہر کسی کو‬
‫اس کے کئے کا بدلہ مل جائے گا۔‬

‫اردو میں اردو کے لسانی کلچر کے تحت استعمال ہوتا چلا آرہا ہے۔‬
‫دیسی مصادر کے پیوند سے بہت سارے محاورے پڑھنے سننے کو‬
‫ملتے ہیں۔ میر صاحب کے ہاں تشبیہا تنگی سختی اور پشیمانی کے‬

‫‪:‬حوالہ سے استعمال میں ہوا ہے‬

‫عرصۂ محشر(‪ )١۴۸‬نمونہ شیخ مت کر ذکر ہر ساعت قیامت کا کہ ہے‬
‫اس کی بازی گاہ کا (‪ )١۴۹‬میر‬

‫‪:‬ایک دوسری جگہ دہائی کے معنوں میں اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں‬

‫ظلم ہے‪ ،‬قہر ہے‪ ،‬قیامت ہے‬ ‫غصے میں اس کے زیر لب کی بات‬
‫(‪ )١۵٠‬میر‬

‫‪:‬غالب وق ِت ودع کو قیامت کا نام دیتے ہیں‬

‫پھر ترا وقت سفر یاد آیا دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز‬

‫موت ‪ ،‬مرگ‬

‫جاتے ہوئے کہتے ہوئے قیامت کو ملیں گے کیا خوب کہ گویا ہے‬
‫قیامت کا دن اور‬

‫کلچر کی تبدیلی کے سبب معنوں میں بھی تبدیلی آجاتی ہے اور دکھ‪،‬‬
‫کرب پریشانی کا عنصر نئے مفاہیم میں بھی ملتاہے۔‬

‫کافر‪:‬‬

‫تکفیر کرنے والا‪ ،‬مسلماں عام طور پر غیر مسلم پر اس لفظ کا‬
‫اطلاق کرتے ہیں۔ یہ لفظ مسلمانوں کے حوالہ سے اردو میں داخل ہوا‬
‫ہے۔ شاعری کا چونکہ اپنا الگ سے مزاج ہوتا ہے اس لیے لفظوں کا‬
‫خیام کے ہاں اس لفظ مجازی معنوں میں استعمال عام سی بات ہے۔‬

‫‪:‬کا استعمال ملاحظہ ہو‬

‫آن کا فر مست را امامت ہوس زابروئے تو محراب نشیں ش ِدچشمت‬
‫است (‪ )١۵١‬خیام‬

‫تمہاری آنکھیں محرا ِب ابروہیں اس لیے آن بیٹھیں کہ وہ کافر مست (‬
‫)امامت کی خواہاں ہیں‬

‫اب اردو غزل میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔‬

‫‪:‬میر صاحب نے ضدی اور ہٹ کا پکا کے معنوں میں استعمال کیا ہے‬

‫سخت کا فر تھا جس نے پہلے میر مذہب عشق اختیار کیا (‪ )١۵٢‬میر‬

‫مصحفی نے ایسے محبوب کے لیے استعمال کیا ہے جو ہر پل ناز وادا‬
‫‪:‬اور موڈ کے حوالے سے بدلتا ہے‬

‫ہرآن میں کافر کی اک آن کیا بیٹھنا ‪ ،‬کیا اٹھنا‪ ،‬کیا بولنا ‪ ،‬کیا ہنسا‬
‫نکلتی ہے (‪ )١۵۳‬مصحفی‬

‫حافظ عبدالوہاب ‪ ،‬جوا یمان نہ رکھتا ہو‪ ،‬کے لیے اس لفظ کا استعمال‬
‫‪:‬کرتے ہیں‬

‫میں ملحدو کافر نہ قاضی نہیں‪ ،‬مفتی نہیں‪ ،‬ملاّنہ ہوں میں محتسب‬
‫ہوں‪ ،‬نے صاح ِب ایمان ہوں (‪ )١۵۴‬سچل‬

‫ولی اللہ محب کے نزدیک غارت گر ایمان چھین لیتا ہے ۔ ایمان سے‬
‫‪:‬تہی کافر ہے‬

‫کیونکہ غارت گر دیں ہے تجھ سا ہم ہوئے چھوڑ کے ایماں کافر‬
‫ولی اللہ محب‬

‫‪:‬غالب نے جس پر کوئی اثر نہ ہو‪ ،‬پتھر ایسا معنی مراد لیے ہیں‬

‫خدا کے واسطے پردہ نہ کعبے کا اٹھا واعظ‬ ‫کہیں ایسا نہ ہویاں‬

‫بھی وہی کافر صنم نکلے‬

‫یہ لفظ اپنی اصل میں عربی ہے۔ مفہومی تبدیلی کے سبب اس پر مہاجر‬
‫ہونے کا گماں تک نہیں گزرتا۔ دوسرا برصغیر میں غیر مسلم برادری‬
‫اکثریت سے آباد ہے۔ اس لیے اس کو اصل معنوں میں استعمال کرنا‬

‫فساد پھیلانے کے مترادف ہے۔ تیسرا مہاجر کو موجود وسیب کا فکری‬
‫و سماجی بھیس اختیار کرنا پڑتا ہے۔ چوتھا موجود زبان کے لسانی‬
‫سیٹ اپ اختیار کئے بغیر پیر جما نہیں سکتا۔ لفظ کافر کے ساتھ بھی‬

‫یہی معاملہ درپیش ہے ۔ غالب نے قبل از اسلام کے حوالے کو م ِد نظر‬
‫رکھتے ہوئے اتنی بڑی بات کہہ دی ہے۔‬

‫یہ لفظ اسامی کلچر کا نمائندہ ہے۔ مسلمان ہر سال حج یا عمرے کعبہ‪:‬‬
‫کے لئے کعبہ کو جاتے ہیں۔ اسے قبلہ‪ ،‬خانہ ء خدا بھی کہتے ہیں۔‬
‫اردو میں اصل معنوں کے سوا معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ دل‬
‫‪:‬کو کعبے کا نام دیا جاتا ہے‬

‫دل خانہء کعبہ ہے‪ ،‬کلسیا نہ اقبال نہ ہر وقت کرو دھیان بتوں کا‬
‫کرو تم (‪ )١۵۵‬اقبال الدولہ اقبال‬

‫میر صاحب کے ہاں دیر کے متضاد محبوبوں (بتوں) کو تیاگنا معنی‬
‫‪:‬بھی مراد لیے جا سکتے ہیں‬

‫لغزش بڑی ہوئی تھی و مستی میں چھوڑ دیر کو کعبے چلا تھا میں‬
‫لیکن سنبھل گیا (‪ )١۵۶‬میر‬

‫غالب کے ہاں مفہومی رنگ الک سے ہے۔ اصل اور کوئی سے مجازی‬
‫‪:‬معنی مرادلیے جا سکتے ہیں‬

‫خدا کے واسطے پردہ نہ کعبے کا اٹھا واعظ‬ ‫کہیں ایسا نہ ہو یاں‬

‫بھی وہی کافر صنم نکلے‬

‫مہاجرت نے اصل کے سوا بہت سے مفاہیم دے دیے ہیں۔ فعل مضارع‬
‫بھی دیسی طریقہ سے بناتے چلے آتے ہیں۔‬

‫کفر‪:‬‬

‫کفر کا تعلق تکفیر سے ہے یعنی‪ ،‬انکار‪ ،‬نہ ماننا ‪ ،‬تسلیم نہ کرنا‬
‫وغیرہ۔ اسلامی اصطلاح میں اسلام سے انکار‪ ،‬اسلام کے کسی بنیادی‬

‫رکن کو تسلیم نہ کرنا کفر کے زمرے میں آتا ہے۔ جو شخص اسلام‬
‫کے برعکس زندگی بسر کر رہا ہو‪ ،‬اسے بھی کافر کہا جاتا ہے۔یہ‬
‫اصطلاح اسلام کے حوالہ سے اردو میں داخل ہوئی ہے۔ اپنی اصل میں‬

‫یہ لفظ عربی ہے۔ اردو غزل میں معنوی تبدیلی کے ساتھ بکثرت‬
‫‪:‬استعمال میں آتا ہے‬

‫‪:‬شاہی کے نزدیک اصل ر ّب کو چھوڑ کر کوئی اور ر ّب بنا لینا کفر ہے‬

‫نپایا رب ج ِب کھسا پایا بڑائی جب دیکھا یا توں گگن نے سر نوایا‬
‫کفر کا تب (‪ )١۵٧‬شاہی‬

‫‪:‬قائم اصل معنوں میں استعمال کرتے ہیں‬

‫حر ِف کفر و دیں پہ ہی کیا منحصر‬ ‫ہاں دلا’’ خذ ماصفادع ماکدر‘‘‬
‫(‪ )١۵۸‬قائم‬

‫‪:‬چندا اسلام کے برعکس راستے کو کفر کا نام دیتی ہیں‬

‫صاحب سجہ بھی ہے‪ ،‬کفر و اسلام میں ثابت رہے دل کس پر بھلا‬
‫مال ِک زنار بھی ہے (‪ )١۵۹‬چندا‬

‫‪:‬غیر مسلم شعراابھی یہ لفظ نظم کرتے آئے ہیں اور اصل معنوں میں‬

‫دیکھے زنار کو تسبیحِ کفرو دیں کی نہیں یک رنگی کا جویاں قایل‬
‫سلیمانی میں (‪ )١۶٠‬لالہ چینی لال حریف‬

‫‪:‬غالب کے ہاں اپنے اصلی معنوں میں استعمال ہوا ہے‬

‫کعبہ مرے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر‬
‫پیچھے ہے کلیسا مرے آگے‬

‫کلیسا‪:‬‬

‫کلیسا عیسائیوں کی عبادت گاہ کو کہتے ہیں۔ یہ کلس سے ہے۔‬
‫گرجوں کی تعمیر کے ساتھ ہی اردو غزل کے کلچر کا جز ٹھہرا۔ کلس‬
‫کے حوالہ سے اسے مہاجر نما کہا جا سکتا ہے۔ اردو غزل میں زیادہ‬

‫تراصل مفاہیم کے ساتھ نظم ہوتا آیا ہے۔ مثلاا‬

‫پھرتے تری تلاش میں ہم مسجد میں بتکدے میں کلیسا میں دیر میں‬
‫چار سورہے (‪ )١۶١‬والا جاشیدا‬

‫اقبال نہ ہر وقت کرو دھیان بتوں کا‬ ‫دل خانہ کعبہ ہے‪ ،‬کلیسا نہ کرو‬
‫اقبال الدولہ اقبال )‪ (١۶٢‬تم‬

‫‪:‬غالب کے ہاں بھی عیسائی مذہب کی نمائندگی کر رہا ہے‬

‫کعبہ مرے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر‬
‫پیچھے ہے کلیسا مرا آگے‬

‫غالب نے کعبہ کے ساتھ ایمان جبکہ کفر کے ساتھ کلیسا نتھی کر کے‬
‫عیسائیت کی نہ صرف پوری آئیڈیالوجی واضح کر دی ہے بلکہ اپنے‬

‫نظریات و عقائد پر روشنی ڈالی ہے۔‬

‫یہ لفظ غیر مذہبی اور غیر اخلاقی قول و فعل سے تعلق رکھتا گناہ‪:‬‬
‫ہے۔ بنیادی طور پر مہاجر لفظ ہے۔ معنوی تبدیلی اور دیسی طریقہ سے‬

‫جمع بنانے کے حوالہ سے اسے مہاجر نہیں کہا جا سکتا ہے۔ میر‬
‫‪:‬صاحب کے ہاں اس کی دیسی جمع ملاحظہ فرمائیں‬

‫لگے ہو خون بہت کرتے بے رہے خیال تنک ہم بھی روسیاہوں کا‬
‫گناہوں کا (‪ )١۶۳‬میر‬

‫‪:‬غالب نے برائی اور خرابی کے معنوں میں استعمال کیا ہے‬

‫مجھ کو بھی پوچھتے تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو‬
‫رہو تو کیا گناہ ہو‬

‫مجلس‪:‬‬

‫عربی میں نشت‪ ،‬نشت گاہ‪ ،‬بیٹھنے کی جگہ‪ ،‬عدالت‪ ،‬کورٹ‬
‫کچہری‪ ،‬سیٹ‪ ،‬ٹربیونل وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔اہل‬
‫تشیع کے ہاں الگ سے معنوں کا حامل ہے۔ بنیادی مفہوم جمع ہونا‪،‬‬
‫اکٹھا ہونا‪ ،‬اکٹھ‪ ،‬بزم‪ ،‬انجمن وغیرہ ہی رہتے ہیں۔ یہ معنوی تبدیلی ہے‬
‫‪ ،‬معنوی اختلاف نہیں ۔اردو غزل میں اردو معنوں کے ساتھ استعمال‬

‫‪:‬ملاحظہ ہو‬

‫ولی دکنی نے میخواروں کا مل بیٹھ کر میخواری کرنے کو مجلس کہا‬
‫‪:‬ہے‬

‫شیشۂ خالی نمن بے نشا ہے جس کے دل میں نیں محبت کی شراب‬
‫مجلس سوں نروالا ہے (‪ )١۶۴‬ولی‬

‫‪:‬حاتم محفل کے معنوں میں اس لفظ کو برتتے ہیں‬

‫دے نہیں کچھ ہم کو بھاگیں دیکھ کر انبو ِہ خلق ہم کو بھی جا بیٹھنا‬
‫مجلس میں جا ہو یا نہ ہو (‪ )١۶۵‬مصحفی‬

‫‪:‬درد رندوں کی بیٹھک کو مجلس کا نام دیتے ہیں‬

‫ہم سے کچھ خوب اٹھ چلے شیخ جی تم مجل ِس رنداں سے شتاب‬
‫مدارت نہ ہونے پائی (‪ )١۶۶‬درد‬

‫‪:‬غالب کے ہاں بھی دیسی معنوں میں استعمال ہوا ہے‬

‫رشتہ ء ہر شمع شب کہ وہ مجلس فرو ِز خلع ِت ناموس تھا‬
‫خارکسو ِت ناموس تھا‬

‫مجموعی طور پر "اکٹھ"مجلس کے مفاہیم میں کار فرما رہتا ہے۔‬

‫مدعا‪:‬‬

‫یہ لفظ عربی میں دعوی کیا گیا کے معنی رکھتا ہے۔ اردو میں‬
‫عربی معنوں سے قطعی ہٹ کر استعمال میں آتا ہے۔ اس ضمن میں چند‬

‫‪:‬مثالیں ملاحظہ ہوں‬

‫زا ِد رہ دل کا مدعا بس ہے (‪ )١۶٧‬حاتم سفر عاشقی میں عاشق کو‬

‫خواہش‪ ،‬آرزو‬

‫مطلول کے معانی یو خط کا حاشیہ گرچہ ولی ہے مختصر لیکن‬
‫کاتمامی مدعا دستا (‪ )١۶۸‬ولی‬

‫مدعا دسنا‪ :‬مفہوم لب لباب بتانا‬

‫میرے نامے کو وہ نہیں پڑھتا جس جگہ مدعا کی باتیں ہیں (‪)١۶۹‬‬
‫مصحفی‬

‫مقصد ‪ ،‬ضرورت‪ ،‬حاجت‬

‫زباں پر آکے مری‪ ،‬عجب نہیں جو تری خو کے ڈر سے اے ظالم!‬
‫حرف مدعا پھر جائے (‪ )١٧٠‬مصحفی‬

‫مدعا پھرنا ‪ ،‬جو کہنا مقصود ہے‬

‫یاں آکے ہم اپنے مدعا کو بھولے مل مل غیروں سے آشنا کو بھولے‬
‫(‪ )١٧١‬سنتوکھ رائے بیتاب‬

‫مدعا بھولنا‪ :‬جو کرنا تھا ‪ ،‬کوئی کام ‪ ،‬مقصد یاد نہ رہنا‬

‫مدعا ہم سے منہ چھپانا تھا (‪ )١٧٢‬نظام کھولنا زلف اک بہانہ تھا‬

‫مقصد ‪ ،‬اصل بات‪ ،‬وجہ‬

‫درج بالا مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ معنوی تبدیلی نہیں‪ ،‬معنوی‬
‫فرق ہے۔ یہ لفظ عربی"مدعا"سے بالکل الگ ہے۔ اس کا رشتہ ہندی‪/‬‬

‫پنجابی لفظ "مدا"سے جڑا نظر آتا ہے۔ دونوں کے معنوی شیڈز اس‬
‫لفظ میں نظر آتے ہیں۔ عربی کے زیر اثر" ع "کی آواز داخل ہو گئی‬
‫ہے۔ لیکن معنی برقرار رہے ہیں۔ غالب کے ہاں خواہش ‪ ،‬حاجت‪ ،‬دل‬

‫‪:‬کی بات‪ ،‬جو کہنا چاہتے ہوں کے معنوں میں استعمال ہوا ہے‬

‫کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں‬

‫ان مباحث کے تناظر میں اس لفظ کو مہاجر نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ‬
‫لفظ مہاجر نما ضرور کہلا سکتا ہے۔ ہاں کورٹ کچہری کی زبان میں‬
‫عربی مفہوم ضرور ملتا ہے۔ املا بھی اصلی رہتی ہے۔ مثلاا اصل مدعے‬

‫پر بحث جار ی رکھی جائے۔ مدعی اور مدعاعلیہ اصطلاحیں وہاں‬
‫پڑھنے سننے کو عام ملتی ہیں۔‬

‫ہمارے ہاں مرگ ‪،‬مرگا(ککڑ) کے لئے بولا جا تا ہے مونث کے مرغ‪:‬‬
‫لئے مرگی(ککڑی)لفظ مستعمل ہے گ کی تبادل آواز غ ہے۔عربی والوں‬
‫کے حوالہ سے یہ تبدیلی وقوع میں آئی ہے۔فارسی میں اس کے معنی‬
‫"پرندہ "ہیں۔ہمارے ہاں عموماا کہا جا تا ہے مرغ صبح سویرے اذانیں‬

‫دیتے ہیں۔مجازاا اسے ’’بانگاں ویلا ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔جب اسے مرغِ‬
‫صبح بولا جائے تو اس سے مراد مرگا (ککڑ)ہی ہوتا ہے۔اسی طرح‬
‫"مرغ گرفتار"مرغ بے بال وپرکے معنی پرندہ ہوں گے۔فانی کے ہاں‬
‫"مرغِ فانی "بمعنی رو ح ‪ ،‬جبکہ ولی دکنی نے درمرغ دل کی ترکیب‬
‫بھی استعمال ہوئی ہے(‪ )١٧۳‬ولی ۔ان میں کسی کو مر غ کے معنوں‬

‫میں نہیں لیا جا سکتا۔حاتم کے ہاں مرغ کی مونث مرغی(مرگی)پڑھنے‬
‫‪ :‬کو ملتی ہے ورنہ مرغی(مرگی)بہت کم نظم ہوئی ہیں‬

‫دشمن عاشق سے کڑ کڑ واے ہے کڑک مرغی کہاں و باز کہاں‬
‫(‪)١٧۴‬حاتم‬

‫جب مرغ سے مراد پرندہ ہو گا تو یہ لفظ مہاجر ہو گا تا ہم اردو کے‬
‫لسانی سیٹ اپ کو اختیار کر کے ہی اپنا و جود بر قرار رکھ سکتا‬

‫ہے۔مرغ سے مراد اگر مرگ(ککڑ) ہو گا تو اسے مہاجرنما کہا جائے گا‬
‫‪:‬۔اس ضمن میں دو مثالیں ملا خط ہوں‬

‫شب ہجراں کی سحر ہی نہیں ہوتی کیا آہ آج ازاں بھی تو نہیں مرغ‬
‫سحر دیتا (‪ ) ١٧۵‬نوازش خاں نوازش‬

‫نالۂ مرغِ سحر تی ِغ دودم ہے ہم رش ِک ہم طرحی و در ِد اثر بانگ حزیں‬
‫کو غالب‬

‫یہ لفظ اسلامی تہذیب کی نمائندگی کر تا ہے۔یہ مسلمانوں کی مسجد‪:‬‬
‫عبادت گاہ کے علاوہ اسمبلی کا فریضہ سر انجام دیتی رہی ہے۔اسے‬
‫متعلقہ علاقے میں مسلمانوں کا نقطہ اجتماع کہا جا سکتا ہے۔اگلے‬

‫وقتوں میں مسافر یہاں رات کو قیام کرتے تھے۔ اسلامی تعلیم و تربیت‬
‫کا کام پہلے بھی یہاں ہو تا تھا آج بھی ہو تا ہے۔ بعض علاقوں میں‬

‫صفائی کی قسم لینے دینے کے کام آتی ہے۔ اردو میں زیادہ تر اپنے‬
‫اصلی معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوتاہے۔ یہ لفظ عربی سے اردو میں‬

‫داخل ہواہے ۔ مثلاا‬

‫خراب رہتے تھے مسجد کے آگے میخانہ نگاہ مست نے ساقی کی‬
‫انتقام لیا( ‪ )١٧۶‬میر‬

‫مسجد میں بتکد ے میں کلسیا میں دیر میں پھرتے تری تلاش میں ہم‬
‫‪،‬چار سور ہے(‪)١٧٧‬والا جاشید‬

‫‪ :‬غالب نے بھی اسے اس کے اصل معنوں میں استعمال کیا ہے‬

‫مسجد کے زی ِر سایہ خرابات چاہئے‬ ‫بھوں پاس آنکھ قبلہء حاجات‬
‫چاہئے‬

‫مست‪:‬‬

‫فارسی میں نشہ میں چور معنوں میں استعمال ہو تا ہے اور اس‬
‫سے میخانے کا کلچر سامنے آتا ہے ساقی کا پلا نا ‪،‬پی کر میخواروں‬

‫کا بہکنا ‪،‬الٹی سیدھی حرکتیں کرنا وغیرہ قسم کے خیا لات سامنے‬
‫آتے ہیں ۔اردو میں درویش‪ ،‬اللہ لوگ ‪،‬مست ملنگ کے معنوں میں‬
‫استعمال ہو تا ہے۔ اس طبقے کے اس لفظ کے حوالے سے نظریات‬
‫اور سر گرمیاں سامنے آتی ہیں۔ ان کی معاشرتی حیثیت و قعت کابھی‬
‫اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔یہ معنوی اختلاف ہے۔ان معنوں میں اس لفظ‬

‫کو مہاجر نہیں کہا جاسکتا ہے۔‬

‫ولی دکنی لفظ مست کو عشق سے وابستہ کرتے ہیں عشق کے متعلق‬
‫شخص معاشرے کے لئے غیر مفید ہو جا تا ہے ۔ولی عشق میں غرق‬

‫‪:‬کے لئے مست کا لفظ استعمال کرتے ہیں‬

‫نا کسی ہے نا کسی ہے نا مست ہونا عشق میں تیرے صنم‬
‫کسی(‪ )١٧۸‬ولی‬

‫نیم خواب آنکھوں کی مستی لوگوں کو بے خود اور مفتوں بنا دیتی‬
‫‪:‬ہے۔ ولی کے ہاں اس حوالہ سے بھی اس لفظ کا استعمال ہوا ہے‬

‫ہر ہرنگہہ سوں اپنی بے خود کرے ولی کوں ووچش ِم مست پر خوش‬
‫جب نیم خواب ہووے(‪ )١٧۹‬ولی‬

‫حافظ عبدا لوہاب سچل نے زندگی کی حرکت اور سر گرمی کے ماند پڑ‬
‫‪:‬جانے کے حوالہ سے اس لفظ کا استعمال کیا ہے‬

‫نبض کو دیکھ کر مایوس فلاطوں بھی ہوا کہہ دیا صاف یہ مست تو ‪،‬‬
‫شیار نہیں(‪ )١۸٠‬سچل‬

‫آفتاب رائے رسوا خوشی راحت اور بے خودی کی حالت کے لئے اس‬
‫‪ :‬لفظ کو نظم کرتے ہیں‬

‫ابر رحمت برستا ہے ہر گلی میں گرے پڑے ہیں مست ہو درو دیوار‬
‫یا برستی ہے شراب(‪ )١۸١‬رسوا‬

‫حاتم نے بطور مشبہ بہ استعمال کیا ہے "جذب کی حالت میں" معنی‬
‫‪:‬دریافت کئے ہیں‬

‫لب میگوں سے تیرے نگہ کرتے گرا بے ہوش ہو جوں مست گرتا ہے‬
‫پان کھاتے پیک کا چونا ( ‪ )١۸٢‬حاتم‬

‫ایک دوسری جگہ دنیا و جہاں سے بے خبر کے لئے لفظ مست برتتے‬

‫‪:‬ہیں‬

‫شکر للہ شیشہ و ساغر بکف اس ابر میں مست آتا ہے لئے عشرت کا‬
‫ساماں دست میں(‪ )١۸۳‬حاتم‬

‫غالب اللہ لوگ درویش دنیا سے دور لوگوں کے لئے اس لفظ کو‬
‫‪:‬موزوں خیال کرتے ہیں‬

‫مست کب بند قبا باندھتے ہیں نشہ ء رنگ سے ہے واشد گل‬

‫اردو میں اگر مخمور معنی مراد لیں گے تو یہ مستک کا اختصار سے‬
‫جبکہ دیگر مفاہیم میں مست کا بگڑا روپ ہے۔ ت‪ ،‬ٹ کی متبادل آواز‬
‫ہے۔ یہ بھی کہ فارسی مشٹ کو شٹ کے معنوں میں استعمال کیا جانے‬

‫لگا ہے ۔‬

‫عربی میں منت ‪،‬کرم ‪،‬مہربانی‪،‬احسان(کرنا) اور حسن سلوک کے منت‪:‬‬
‫معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن اردو میں اس کا مزاج اور معنوی‬
‫چلوں الگ سے رہا ہے ۔مثلاا‬

‫بس کئی دن جوز یست ہے‪ ،‬اس پر کس کی منت عبث اٹھائے گا (‪١۸۴‬‬
‫)قائم چاند پوری‬

‫احسان اٹھانا‬

‫وہ جس دم ہاتھ اپنا قبضۂ خنجر پہ رکھتا ہے تکلف بر طرف‪ ،‬منت‬
‫ہمارے سر پہ رکھتا ہے (‪ )١۸۵‬مصحفی‬

‫کسی کے ) سر پہ منت رکھنا ‪،‬منت رکھنا۔(‬
‫منت م ّْن یا پھر امتحان سے ترکیب پایا ہے جبکہ اردو کا لفظ منتی ‪،‬‬

‫ہندی لفظ بنتی (وینتی )بمعنی عرض ‪،‬التجا ‪،‬التماس ‪ ،‬عاجزی‪،‬‬
‫خوشامد‪ ،‬معذرت‪ ،‬لجاحت‪ ،‬درخواست (‪)١۸۶‬سے تعلق جوڑرہا ہے۔‬
‫ہندی والوں کے ہاں بنتی یا و نتی برقرار رہا لیکن عربی کے زیر اثر‬
‫بنتی اور منتی کو ترک کرکے منت‪ ،‬بنتی کے معنوں میں اختیار کر لیا‬
‫گیا ہے یہ لفظ عربی ہندی تعلقات کو واضح کر رہا ہے۔ غالب کے ہاں‬

‫‪:‬بھی اس کا رشتہ بنتی سے استوار ہے‬

‫میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا درد‪،‬من ِت کش دوانہ ہوا‬

‫(منت کش ہونا‬

‫ایک دوسری جگہ سماجت اور خوشامد کے معنوں میں استعمال ہوتا‬
‫‪ :‬ہے‬

‫پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں سر زیر بار من ِت درباں‬
‫کئے ہو ئے‬

‫عربی اسم مذکر ہے۔ عربی میں نقش و نگار کرنا‪ ،‬مزیں کرنا کے نقشا‪:‬‬
‫معنوں میں استعمال ہو تا ہے۔اردو میں بالکل الگ معنوں میں استعمال‬
‫ہو تا ہے یہ اپنی اصل میں "نکسا " ہے برصغیر کی تہذیب میں کسی‬
‫کام کے نہ ہونے کے سبب "ناک نہیں رہتا"بولتے ہیں۔ اس کوناک رہنا‬
‫سے سج دھج‪ ،‬بناوٹ‪ ،‬تضع‪ ،‬کسی کی نقل ‪،‬نمایاں حیثیت ‪،‬عزت‪ ،‬آبرو‬

‫‪:‬وغیرہ مراد لیتے ہیں۔ اردو میں نقشا کا استعمال ملاحظ ہو‬

‫شب دیکھ مہ تا باں تھا مصحفی تو حیراں کیا اس میں بھی کچھ نقشہ‬
‫اس سیم بدن کا (‪ )١۸٧‬مصفحی‬

‫تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے پھر کیوں نہ رہا گھر کا نقشا‬

‫کو ئی دن اور(بمعنی حالت) غالب‬

‫حواشی‬
‫‪٢‬۔ کلیات ولی‪ ،‬مرتبہ ‪١‬۔شرح دیوان حافظ‪ ،‬مترجم عبداللہ عسکری مرزا‬

‫نور الحسن ‪ ،‬ص ‪٧۸‬‬
‫‪۴‬۔ سندھ میں اردو شاعری‪،‬مرتبہ ‪۳‬۔ کلیات مصحفی ‪ ،‬ص ‪۵۵۶‬‬

‫ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ ‪ ،‬ص ‪۶۴‬‬
‫‪۶‬۔ دیوان درد ‪۵ ،‬۔ کلیات قائم ج‪،١‬مرتبہ اقتدارحسن ‪ ،‬ص ‪٢٢‬‬

‫مرتبہ خلیل الرحمن داودی ‪،‬ص‪١۵۹‬‬
‫‪۸‬۔ شاہکار انسا ئیکلو پیڈیا ‪،‬ص ‪٧ ۳۸‬۔ پیدائش ‪٢٢ : ١٠‬‬
‫‪١٠‬۔ فرہنگ ‪۹‬۔ سخند ا ِن فارس ‪،‬از محمد حسین آزاد ‪ ،‬ص ‪١١۳‬‬

‫فارسی ‪ ،‬مولف ڈاکٹر عبدالطیف ‪ ،‬ص‪٧‬‬
‫‪١١‬۔ کلیات میر ج ا‪،‬مرتبہ کلب علی خاں فائق ‪ ،‬ص‪١٢ ١٠١‬۔ دیوان‬

‫زادہ ‪ ،‬مرتبہ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار‪ ،‬ص ‪۸‬‬

‫‪١۴‬۔ سخندان فارس‪ ،‬ص ‪١۳ ۹۹‬۔ کلیات قائم ج‪ ،‬ص ‪۳۸‬‬

‫‪١۵‬۔ المنجد ‪،‬ص ‪۶٢٧‬‬ ‫‪١۶‬۔ پنجابی اردو لغت‪ ،‬مولف تنویر بخاری‬
‫‪ ،‬ص ‪١١١۵‬‬

‫‪١٧‬۔ ہندی اردو لغت ‪،‬ص ‪١۸ ۳۴۹‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪١۴۶‬‬

‫‪١۹‬۔ کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ا ‪٢٠ ٧‬۔ کلیات مصحفی دیوان ا ّول‪ ،‬ص ‪١۶‬‬

‫‪٢١‬۔ لسا نیات غالب‪ ،‬مقصود حسنی ‪ ،‬ص ‪٢٢ ١٢‬۔ کلیات ولی‪ ،‬ص ‪۸۹‬‬

‫‪٢۴‬۔ تذکرہ ‪٢۳‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ڈاکٹر اقتدارحسن ‪ ،‬ص ‪۴۳‬‬
‫حیدری‪ ،‬حید ربخش حیدری ‪ ،‬ص ‪١١۴‬‬

‫‪٢۶‬۔ کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪٢۵ ٢۳‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪١۶۳‬‬

‫‪٢۸‬۔فرہنگ عامرہ ‪ ،‬عبداللہ خویشگی ‪٢٧‬۔ کلیات میر ج ا ‪ ،‬ص ‪١۹٢‬‬
‫‪ ،‬ص ‪٢٧١‬‬

‫‪٢۹‬۔ نوائے سروش ‪ ،‬ص ‪۳٠‬۔‬

‫‪۳١‬۔جناب ابو حنیفہ ‪ ،‬جناب مالک ‪ ،‬جناب شافعی ‪ ،‬جناب احمد بن حنبل‬
‫‪،‬‬

‫‪۳٢‬۔ پیش امام‬

‫‪۳۳‬۔ جناب علی ابن ابی طالب ‪،‬جناب حسن ابن علی‪ ،‬جناب حسین ابن‬
‫علی‪ ،‬جناب زین العابدین بن حسین ‪ ،‬جناب امام باقر ‪ ،‬جناب جعفر‬
‫صادق ‪ ،‬جناب موسی کاظم ‪ ،‬جناب علی رضا ‪ ،‬جناب محمد تقی ‪،‬‬
‫جناب علی نقی ‪ ،‬جناب حسن عسکری ‪ ،‬جناب محمد مہدی‬

‫‪۳۵‬۔ دیوان زادہ‪ ،‬ص ‪۳۴ ١٧۴‬۔ کلیات میرج ا‪ ،‬ص ‪۹۹‬‬

‫‪۳٧‬۔ ‪۳۶‬۔ سندھ میں اردو شاعری ‪ ،‬ڈاکٹر بنی بخش بلوچ ‪،‬ص ‪١۶۴‬‬
‫دیوان زادہ‪ ،‬شیخ ظہور الدین حاتم ‪ ،‬ص ‪١۵۴‬‬

‫‪۳۹‬۔ کلیات مصحفی ج ا ‪ ،‬ص ‪۳۸ ٢۶٧‬۔ تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪۵۵‬‬

‫‪۴١‬۔ کلیات میرج ا‪ ،‬ص ‪۴٠‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۶۸‬‬
‫‪٢۸٠‬‬

‫‪۴٢‬۔کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪١٢٧‬‬ ‫‪۴۳‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪،‬‬
‫ص ‪۴۴١‬‬

‫‪۴۵‬۔ دیوان مح ِب ‪ ،‬ولی ‪۴۴‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص‪۳۴۶‬‬
‫اللہ محب‪ ،‬ص ‪۵٠١‬‬

‫‪۴٧‬۔ کلیات میرج ا‪ ،‬ص ‪۴۶ ١١۵‬۔کلیات مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪۵٧۵‬‬

‫‪۴۹‬۔ لغات نظامی ‪،‬ص ‪۴۸‬۔ سندھ میں اردو میں شاعری ‪،‬ص ‪۸٠‬‬
‫‪١٠١‬‬

‫‪۵١‬۔ البیان‪ ،‬ص ‪١۵‬۔‪۵٠ ١۶‬۔ جامع اللغات ج ا ‪،‬ص ‪۴۶۶‬‬

‫‪۵۳‬۔ دیوان مہ لقا بائی چند ا‪ ،‬ص ‪۵٢ ١١۴‬۔ اظہر اللغات‪ ،‬ص ‪١۶۵‬‬

‫‪۵۵‬۔ کلیا ِت مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪۵۴ ۴۸۸‬۔ کلیات مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪۳۴‬‬

‫‪۵٧‬۔ تذکرہ خوش معرکہ ‪۵۶‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ص ‪١۳۴‬‬
‫زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۴۸۸‬‬

‫‪۵۹‬۔ معنویت ‪ ،‬ڈاکٹر ‪۵۸‬۔ روشنی اے روشنی ‪،‬شکیب جلالی ‪ ،‬ص ‪۸۸‬‬
‫سہیل بخاری ‪،‬ص ‪١٢۶‬‬

‫‪۶٠‬۔ کلیات ولی ‪،‬ص‪٧۹‬‬ ‫‪۶١‬۔ احوال واثار شاہ عالم ثانی آفتاب‬
‫‪،‬ڈاکٹر محمد جمیل خاور‪ ،‬ص ‪١۹۴‬‬

‫‪۶۳‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ص ‪۶٢ ١٢٧‬۔ سخندان فارس‪ ،‬ص ‪۴۸‬‬

‫‪۶۵‬۔ اردو کی دو قدیم ‪۶۴‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۴٠٠‬‬
‫مثنویاں ‪،‬ص ‪١٢۹‬‬

‫‪۶٧‬۔ رحمن‪۶۶ ٧۶:‬۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا‪ ،‬ص ‪۴۸١‬‬

‫‪۶۹‬۔ ‪۶۸‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪۹۸‬‬

‫‪٧١‬۔ ہندی ارو لغت‪ ،‬ص ‪٧٠‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۳۵۹‬‬
‫‪۴۵۸‬‬

‫‪٧٢‬۔سنسکرت اردو لغت ‪،‬ص ‪٧۳ ٧ ۳‬۔کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪۳٢٠‬‬

‫‪٧۴‬۔ شرح دیوا ِن حافظ ج ا‪ ،‬ص‪٧۵ ۹‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص‬
‫‪۵۳٧‬‬

‫‪٧٧‬۔ دیوان جہاں دار‪ ،‬ص ‪٧۶ ١۳۵‬۔ تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ا ‪٢‬‬

‫‪٧۹‬۔ کلیا ِت مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪٧۸ ۵۵٠‬۔ کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪۴۳‬‬

‫‪۸١‬۔ فرہنگ فارسی‪ ،‬ص ‪۸٠ ۳٢۵‬۔تذکرہ گلستان سخن ج ا‪ ،‬ص ‪۳۶۹‬‬

‫‪۸۳‬۔ دیوان زادہ ‪،‬ص ‪۸٢ ١١۶‬۔ احوال و رباعیا ِت خیام ‪،‬ص ‪٢٧۵‬‬

‫‪۸۴‬۔ کلیا ِت مصحفی ج ا‪،‬ص ‪۵٧۳‬‬ ‫‪۸۵‬۔ سندھ میں اردو شاعری ‪،‬‬
‫ص‪۳۸‬‬

‫‪۸٧‬۔کلیات سو دا ج ا‪ ،‬ص‪۸۶ ١۵‬۔ کلیا ِت مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪١٢۵‬‬

‫‪۸۹‬۔ فرہنگ فارسی ‪،‬ص ‪۸۸ ۴١۵‬۔ دیوان زادہ‪،‬ص ‪١٢۸‬‬

‫‪۹١‬۔ تذکرہ مخزن نکات ‪،‬ص ‪۹٠ ۶‬۔ دیوا ِن زادہ‪ ،‬ص ‪١٢٠‬‬
‫‪۹۳‬۔ نقوش بیاض غالب نمبر‪،‬ص ‪۹٢ ۶۹‬۔ کلیا ِت میر ج ا‪ ،‬ص ‪١۳۸‬‬

‫‪۹۵‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ص ‪۹۴ ١۸۵‬۔ دیوان زادہ‪ ،‬ص ‪٧‬‬

‫‪۹٧‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪۹۶‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪،‬ص ‪١١٢‬‬
‫‪۹۹‬‬

‫‪۹۹‬۔ تذکرہ مخز ِن نکات ‪،‬ص ‪۹۸ ١٢٠‬۔ باغ و بہار ‪،‬ص ‪١۴۸‬‬
‫‪١٠١‬۔ کلیا ِت میر ج ا‪ ،‬ص ‪١٠٠ ١۳۶‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ص ‪١١۵‬‬

‫‪١٠۳‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪١٠٢ ١٢۳‬۔ کلیا ِت میر ج ا‪ ،‬ص ‪۹۸‬‬

‫‪١٠۵‬۔ القاموس الفرید ‪،‬ص ‪١٠۴ ۳۵۹‬۔ کلیا ِت میر ج ا‪ ،‬ص ‪٢۸٠‬‬

‫‪١٠٧‬۔ ‪١٠۶‬۔ تقویت الایمان ‪ ،‬شاہ اسماعیل شہید دہلوی ‪،‬ص ‪۹۹‬‬
‫کلیات شاہی‪ ،‬ص ‪٧‬‬

‫‪١٠۹‬۔ آئینہ اردولغت ‪١٠۸‬۔ مراۃ العروس‪ ،‬ڈپٹی نذیر احمد ‪ ،‬ص ‪۳۵‬‬
‫‪ ،‬علی حسن چوہان وغیرہ ‪،‬ص‪١٠۹۹‬‬

‫‪١١١‬۔ دیوا ِن درد‪ ،‬ص ‪١١٠ ١١۶‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪١١۸‬‬
‫‪١١۳‬۔ تذکرہ خوش ‪١١٢‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪١١٠‬‬

‫معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۳۶١‬‬

‫‪١١۵‬۔ ‪١١۴‬۔ القاموس الفرید‪ ،‬وحید الزمان کیرانو ی‪ ،‬ص ‪۳۸١‬‬
‫تذکرہ مخز ِن نکات ‪،‬ص ‪١۳۵‬‬

‫‪١١٧‬۔ کلیا ِت میر ج ا‪ ،‬ص ‪١١۶ ١۹٧‬۔ تذکرہ مخزن نکات ج‪ ،‬ص ‪١٧۹‬‬

‫‪١١۹‬۔ کلام بابا بلھے شاہ‪ ،‬ص ‪١١۸ ۸‬۔ القاموس الفرید ‪،‬ص ‪۳۹۵‬‬

‫‪١٢١‬۔ اردو کی دو قدیم مثنویاں‪ ،‬ص ‪١٢٠‬۔ کلام شاہ حسین ‪،‬ص ‪۳١‬‬
‫‪١١۴‬‬

‫‪١٢۳‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪١٢٢ ،‬۔ دیوان جہاں دار‪ ،‬ص ‪١٢٠‬‬
‫ص ‪٢٠۳‬‬

‫‪١٢۵‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ص ‪١٢۴‬۔ تذکرہ مخزن نکات ‪،‬ص ‪١۳۴‬‬
‫‪١۵۳‬‬

‫‪١٢۶‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۵١۴‬‬ ‫‪١٢٧‬۔ کلیات میر ج‬
‫ا‪ ،‬ص‪١٢۵‬‬

‫‪١٢۹‬۔ دیوان دد ‪ ،‬ص‪١٢۸ ١١۵‬۔کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪١۳۴‬‬

‫‪١۳١‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪١۳٠ ١٠۴‬۔ کلیات میر ج ا‪،‬ص ‪١٠۴‬‬

‫‪١۳۳‬۔ ‪١۳٢‬۔شاہ عالم ثانی آفتاب احوال و ادبی خدمات‪ ،‬ص ‪٢٠۸‬‬
‫تذکرہ مخزن نکات ‪ ،‬ص ‪١٢۸‬‬

‫‪١۳۵‬۔ کلیات ولی‪ ،‬ص ‪١۳۴ ٧۸‬۔ کلیات ولی‪ ،‬ص ‪٢١۵‬‬

‫‪۳۶‬ا۔ تذکرہ مخزن نکات ‪،‬ص ‪۴۶‬‬ ‫‪۳٧‬ا۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ص‬
‫‪١٧۹‬‬

‫‪١۳۹‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪١۳۸‬۔ ‪١۵ :٢۸‬‬

‫‪١۴١‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ‪١۴٠ ،٢‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪٢٢۵‬‬
‫ص ‪٢۶۹‬‬

‫‪١۴۳‬۔ کلیات مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪١۴٢ ۵٢۸‬۔ کلیات میرج ا‪ ،‬ص ‪١۳١‬‬

‫‪١۴۵‬۔ ال عمران ‪١۴۴ ٢۵‬۔ بقرہ ‪١١۳‬‬

‫‪١۴۶‬۔مائدہ ‪ ،١٠۹ :‬نور ‪ ،٢۴:‬سجدہ ‪١۴٧ ،۹،١۹ :‬۔ مائدہ‪١٠۹ :‬‬

‫‪١۴۸‬۔مکانی استعمال ‪١۴۹‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪١٢۵‬‬

‫‪١۵١‬۔ ترجمہ میر مرتضی حسین ‪١۵٠‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪٢١۹‬‬
‫فاضل لکھنوی‬

‫‪١۵۳‬۔ کلیات مصحفی ج ا‪ ،‬ص‪١۵٢ ۵۳۹‬۔ کلیات میر ج ا ‪،‬ص ‪١۴٢‬‬

‫‪١۵۴‬۔ سندھ میں اردو شاعری‪ ،‬ص ‪۶۸‬‬ ‫‪١۵۵‬۔ تذکرہ خوش معرکہ‬
‫زیبا ج ‪ ،‬ص ‪۴۶١‬‬

‫‪١۵٧‬۔کلیات شاہی ‪ ،‬ص ‪١۵۶ ١٠۶‬۔کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪١٢۸‬‬

‫‪١۵۹‬۔ دیوان لقا چند ا ‪،‬ص ‪١۵۸ ١۴۶‬۔ کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪٧١۹‬‬

‫‪١۶١‬۔ تذکرہ خوش ‪١۶٠‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیباج ا ‪،‬ص ‪۴۳۹‬‬
‫معرکہ زیبا ج ا ص ‪۳۴۸‬‬

‫‪١۶۳‬۔کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪١۶٢ ١۳۴‬۔ تذکرہ خوش زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۴۶١‬‬

‫‪١۶۵‬۔ کلیا ِت مصحفی ج ا‪ ،‬ص‪١۶۴ ۳۵٠‬۔ کلیات ولی‪ ،‬ص ‪٢۵۶‬‬

‫‪١۶٧‬۔ دیوان زادہ ‪ ،‬ص ‪١۶۶ ١۳‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪٢٠۸‬‬

‫‪١۶۹‬۔ کلیا ِت مصحفی ج ا‪ ،‬ص‪١۶۸ ۳٢۵‬۔ کلیات ولی‪،‬ص ‪٧۶‬‬

‫‪١٧١‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪،‬ص ‪١٧٠‬۔ کلیات مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪۵٧۵‬‬
‫‪١۹٧‬‬
































Click to View FlipBook Version