کاکھیل وغیرہ کے لئے بو لا جاتا ہے۔ مثلاا
تماشاہونا:
ہنسی مذاق ،کرتب ،کھیل
جمع کرتے ہوکیوں رقیبوں کو اک تماشاہ ہوا گلانہ ہوا
تما شاہوجانا:
ہنسی ٹھٹھا مذاق بن جانا ،معاملہ الٹا ہونا
آئے تھے اس مجمع میں قصد کرے دور سے ہم تماشے کے لئے آپ
ہی تماشا ہوگئے ( )٢۵درد
تماشا کردن کا ترجمہ تماشا کربمعنی دیکھ ،ملاحظہ کربھی پڑھنے کو
ملتا ہے
لب خندان گل کا شبنم آسا تماشا کر بہ چش ِم ترچلے ہم جہاں داد
تماشا دیکھئے بمعنی ملاحظہ کیجئے
کیا آہ کے تیشے میں لگا تا ہوں جگر پر آؤ دیکھئے تما شا مرا ،فرہاد
کہاں حاتم
سیر کھنچنا :
دیکھنا
کسی کو گلگشت چمن کا ہے دماغ اے باغبان کھینچ کر سیر اگربیان
یاں لے آتی ہے بہارسودا
گویا کر دن کے لئے کئی اردومصادر تجویز ہوئے ہیں جبکہ تماشا
کودیکھنے کے علاوہ کھیل ،کرتب ،ہنسی مذاق وغیرہ کے معنوں میں
بھی لیا جاتا ہے۔ غالب کے ہاں ’’تماشا کیجئے ‘‘ کاایک اور استعمال
ملاحظہ فرمائیں
خانہ ء ویراں ساز ِی حیرت تماشا کیجئے صورت نق ِش قدم ہوں رفتہء
رفتا ِر دوست
جاگرم کرنا:
جاگرم کردن ،ایک جگہ پر دیر تک بیٹھے رہنا ،مراقبہ ۔بیٹھنا ،
ٹھکانہ کرنا ،پڑاؤ ڈالنا ،قیام کرنا ،اقامت اختیار کرنا ،مستقل طور پر
کسی جگہ بیٹھنا وغیرہ مفاہیم میں یہ محاورہ رواج نہیں رکھتا ،غالب
نے کردن کو کرنا میں بدل دیاہے۔ جا ،جگہ اور کئی دوسروں معنوں
میں مستعمل ہے۔ گرم بھی اردو کے لئے نیا لفظ نہیں تاہم فارسی
مفاہیم میں استعمال نہیں ہوتا۔غالب کے ہاں اس محاورے کا استعمال
دیکھئے
کی اس نے گرم سینہء اہ ِل ہوس میں جا آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا
مکان ہے
غالب نے دل میں سمانا ،محبت ہونا ،قلبی وابستگی ،عشق ،محبت
وغیرہ مفاہیم میں استعمال کیاہے۔
جبیں گ ِھسنا:
ماتھا رگڑنا ،کم مائیگی کا احساس
غالب نے دل میں سمانا ،محبت ہونا ،قلبی وابستگی ،عشق ،محبت
وغیرہ مفاہیم میں استعمال کیاہے۔
اردو میں ماتھا رگڑنا بمعنی پیشانی گ ِھسنا ،عاجزی سے سجد ہ کرنا ،
جبہ سائی کرنا ،خوش آمد کرنا ،نہایت عاجزی کرنا ( )٢۶استعمال
میں آتا ہے۔ خاک پر جبین گ ِھسنا اردو بو ل چال کے مطابق نہیں ہے۔
یہ ترجمہ برا نہیں چونکہ اسلوب اردو سے میل نہیں رکھتا اسی لئے
عوامیت کے درجے پر فائز نہیں ہوسکا۔
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے گ ِھستا ہے جبیں خا ک پہ
دریا مرے آگے
حدیث کرنا:
حدیث کردن ،بیان کرنا
کردن ‘‘ کے لئے اردو مصدر ’’ کرنا‘‘ استعمال میں لایا گیا ہے۔ ’’
حدیث کرنا ،عر ِف عام سے معذو ررہا ہے۔ عام طور پر بیان کرنا
استعمال میں آتا ہے ۔ فارسی استعمال کا اپنا ہی حسن ہے
صہبا زروی تو باہر گل حدیثے کروا رقیب چوں رہ غماز دار در حرمت
حافظ
صبا نے تیرے رخ سے ساتھ ہر ایک پھول کے بات کی
)رقیب نے جب چغل خور کوراہ دی بیچ تیر ے مکان کے (٢٧
غالب کے ہاں اس محاورے کا ترجمہ ملاحظہ ہو
جبکہ میں کرتا ہوں اپنا شکوہء ضع ِف دماغ
سرکرے ہے وہ حدی ِث زل ِف عنبر با ِر دوست
سرکرنا ،
زلف سر کرنا ،اردو محاورے نہیں ہیں ۔ حدیث سرکرنا بھی اردو بو
ل چال سے دور ہے۔ اردو محاورے میں سرانجام کرنا /ہونا مستعمل
ہے۔ غالب نے اردو کو تین محاوروں سے نواز اہے۔
خوش آنا:
خوش آمدن ،اچھالگنا ،اچھا محسوس ہونا
خوش اطوار ( اچھی عادات کا حامل ) خوش الحان ( اچھی آواز والا)
خوشامد ( چاپلوسی ) خوشبودار ( عمدہ خوشبوو الی چیز) ،خوش
بخت ( اچھے نصیب والا) وغیرہ فارسی مرکبات اردو زبان کے لئے
نئے اور اجنبی نہیں ہیں ۔ خوش کے ساتھ مصدر ’’ آنا ‘‘ کی بڑھوتی
رواج عام سے محروم ہے۔ تاہم یہ محاورپڑھنے کو مل جاتا ہے اور
فصیح بھی ہے۔ لیکن عوامیت کے درجے پر فائز نہیں ۔ استعمال کی
صرف دومثالیں ملاحظہ ہوں
دل نہیں کھینچتا ہے ب ِن مجنوں بیاباں کی طرف
خوش نہیں آتا نظر کرنا غزالاں کی طرف( )٢۸یقین
بس ہجوم گل سے اپنے کیا خوش آئی ہے بسنت
باغ میں گلرو کے آگے رنگ لائی ہے بسنت ( )٢۹چندا
اب غالب کے ہاں اس محاورے کا استعمال دیکھئیے
ہر غنچے کا گل ہونا گلشن کو تری صحبت ازبسکہ خوش آئی ہے
آغوش کشائی ہے غالب
خوش آمدن ‘‘ کے تراجم پڑھنے کو ملتے ’’خوش آنا کے سوا بھی
ہیں۔ مثلاا
اب چھیڑیہ رکھی ہے کہ عاشق ہے توکہیں
)القصہ خوش گزرتی ہے اس بدگمان سے ( )۳٠میر (خوش گزرنا
تجھ سے کچھ دیکھا نہ ہم جز جفا پر وہ کیا کچھ ہے کہ جی بھا
)گیا()۳١درد (بھاجانا
کشاکش کو ہمارا عقدہ ء بہ فیض بیدلی نو مید ِی جاوید آساں ہے
)مشکل پسند آیا غالب ( پسند آنا
خوش آنا ،
اردو لغت میں بمعنی اچھالگنا ،پسند آنا ،مرغوب ہونا ( )۳۴داخل
ہے جبکہ خوش گزرنا ،بھا جانا ،پسند آنا اردو بول چال سے خارج
نہیں ہیں ۔ خوش آنا ،راس آنا کے معنوں میں بھی بولا جاتاہے۔ یہ
ترجمہ فصیح خیال کیا جاتا ہے اور اہل زبان کو خوش آتارہاہے۔
خجالب کھینچنا:
خجالت کشیدن /بردن ۔ یہ محاور ہ فارسی میں شرمسار ہونا ،
شرمندہ ہونا ( )۳۳کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں خجالت
ہونا ،خجالت اٹھانا استعمال میں آتا ہے۔ غالب کے ہاں یہ ترجمہ
:شرمندگی کے معنوں میں استعمال ہواہے
ڈالانہ بے کسی نے کسی سے معاملہ اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی
کیوں نہ ہو
الہ وردی خاں جلیس بردار سعادت یار خاں رنگین کے ہاں بھی یہ
محاورہ( خجالت کشیدن ) برتاگیا ہے
تیرے دھن سے ازبسکہ کھینچے ہے اک خجالت
غنچہ وہ کون سا ہے جو سرفرو نہ آیا۳۴جلیس
خط کھینچنا:
خط کشیدن فارسی میں چھوڑدینا ،ترک کردینا کے معنوں میں استعمال
ہوتاہے۔ خط کھینچنا ،خط کشیدن ہی کا اردو ترجمہ ہے اور یہ ترجمہ
اردو کے لئے اجنبی نہیں ۔یہ اردو کے محاوراتی ذخیر ہ میں اپنی جگہ
رکھتا ہے۔ لکیر کھینچنا ،قلمزد کرنا ،نشان کرنے کے لئے لکیر
کھینچنا ( )۳۵لغوی معنی لئے ہوئے ہے۔ غالب کے ہاں اس ترجمے کا
استعمال ملاحظہ ہو
بے مے کسے ہے طاق ِت آشوب آگہی کھینچا ہے عج ِز حوصلہ نے خط
ایاغ کا
غالب نے مفہوم میں اردو کی پیروی نہیں کی ۔ مفہوم فارسی ہی رہنے
دیا ہے۔
خط کھینچنا :
محو کرنا ،مٹا دینا ،چھوڑ دینا ( ،کا ) پابند نہ رہنا ( ،کے) مطابق
پابند ی نہ کرنا
قلم کھینچنا بھی اس محاورے کاترجمہ سامنے آتاہے مثلاا
بخط ہند ہے قائم گویا مرا دیواں زبس کہ لکھ کے میں ہر بیت پر قلم
کھینچنا ( )۳۶قائم
خمیازہ کھینچنا:
خمیازہ کشیدن کا اردو ترجمہ ہے خمیازہ کشیدن فارسی میں جمائی لینا
،رنج اٹھانا ،پشمان ہونا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ غالب نے
اس ترجمے کو انگڑائی لینا کے معنوں میں استعمال کیاہے۔
اردو میں خمیازہ بھگتنا ،خمیازہ اٹھانا استعمال مینآتا ہے خمیازہ
کھنچنا ،اردو میں جمائی لینا کے معنوں میں مستعمل نہیں ۔ غالب
کایہ ترجمہ ایسا نیا نہیں۔ میر صاحب کے ہاں اس کا استعمال دیکھئے
اس میکدے میں ہم بھی مدت سے ہیں ولیکن
خمیازہ کھینچتے ہیں ،ہر دم جماہتے ہیں ( )۳۸میر
ایک دوسری جگہ’’ ،خمیازہ کش‘‘بطور مرکب (فاعل) نظم کرتے ہیں
بند ِہ قباکوخوباں جس وقت واکریں گے خمیازہ کش جوہوں گے ملنے
)کے ،کیا کریں گے (۳۹
دامن کھینچنا:
دامن کشیدن ،یہ محار ہ فارسی میں کنی کترانا کے معنوں میں
استعمال ہوتا ہے جبکہ دامن نہاون ،دامن بچھانا کے لئے استعمال میں
آتا ہے۔ اردو میں کشیدن کے لئے کھینچنا ،نہادن کے لئے بچھانا
معاون افعال استعمال میں آتے ہیں ۔ غالب نے دامان چھٹنا بمعنی بس
میں نہ رہنا ،بردارشت کی حد ختم ہونا ،صبر کا یارانہ رہنا ،مزید
سہہ پانے کی ہمت نہ ہونا ،مقدورسے باہر ہوناوغیرہ کے مفاہیم میں
استعمال کیاہے۔ ِا س محاورے کی روح میں نہ کر سکنا ،ہاتھ کھنیچ
لینا ( بہ امر مجبوری سہی) موجود ہے۔
کہ داما ِن خیا ِل یار سنبھلنے دے مجھ اے ناامیدی کیا قیامت ہے
چھوٹا جائے ہے مجھ سے
مرزا سودا نے دامن کھینچنا کو پکڑ لینا کے معنوں میں استعمال
کیاہے
پیچھے سے تودامن کے تئیں خار نے کھینچنا اور سرد ہوکے لگا
)روکنے آتا ( سودا
قائم چاندپوری کے ہاں دامان کھینچنا نظم ہواہے
مقتل کی جاہے داما ِن جاں جو کھینچے ہے گرد اس زمیں کی یوں
آہ یہ کس خاکسارکی ( )۴٠قائم
میر صاحب کے ہا ں مرکب ’’ دامن کشاں‘‘ پڑھنے کو ملتا ہے
کیا ہوا دامن کشاں آتے ہے غبا ِر میر اس کی رہ گزر میں اک طرف
بھی یاں تک یار کو ( )۴١میر
دامن کشیدن /نہادن کی مختلف اشکال اورتراجم اردو زبان کے ذخیر
ے کا حصہ رہے ہیں ۔
دل دینا:
دل دادن کا غالب نے دل دینا ترجمہ کیا ہے
دل دیا جان کے کیوں ا س کووفادار اسد غلطی کی کہ جوکافر کو
مسلماں سمجھا
غالب نے عاشق ہونا ،فریفتہ ہونا کے معنوں میں ’’ دل دینا ‘‘ کا
استعمال کیا ہے۔ فارسی میں ان ہی معنوں میں ’’دل باختن ‘‘ مستعمل
ہے۔ دل گرفتہ ،حواس باختہ ایسے مرکبات عام پڑھنے سننے کو
ملتے ہیں ۔ غالب کے ترجمہ میں دل باختہ کی روح کا ر فرما نظر آتی
ہے تاہم دادن کے لئے دینا مصدر استعمال میں آتاہے۔ اگر دل گرفتہ
مانوس نہیں تو دل باختہ میں کیا کمی ہے ۔ بہر طور غالب کے ہاں
ایک اور مثال ملاحظہ ہو
دینا نہ اگردل تمہیں لیتا کوئی دم چین اور کرتا جونہ مرتا کوئی دن آہ
وفغاں اور
دل دینے کے سبب بے چینی ملی ۔بے چینی ،فریفتگی کے باعث
ممکن ہے۔ گویاجانا ،اڑنا کی بجائے ’’ دینا‘‘ مصد ر استعمال میں لایا
گیا ہے۔ ان ہی مفاہیم میں ’’ دل دینا ‘‘ کاقائم کے ہاں استعمال دیکھئے
ہم نے یہ سوچ پیش تر نہ کیا ( )۴٢دل نہ دینا ہی خوب تھا پر حیف !
قائم
ایک دوسری جگہ ’’ دل گنوانا ‘‘ نظم کرتے ہیں ۔دال گنوانا کے مفاہیم
بھی تقریباا وہی مفاہیم ہیں
دل گنوانا تھا اس طرح قائم؟ کیا کیا تونے ہائے خانہ خراب ( )۴۳قائم
آفتاب کے ہاں ’’ دل جانا ‘‘ برتاگیا ہے
گھر غیر کے جو یار مر ارات سے گیا جی سینے سے نکل گیا ،دل
سے گیا ( )۴۴آفتاب
دل جھکنا ‘‘استعمال میں لائے ہیں ’’خواجہ درد
جھکتا نہیں ہمارا دل تو کسی طرف یاں جی میں بھر ا ہواہے از بس
غرور تیر ا ( )۴۵درد
ان محاور وں میں عشق میں مبتلا ہونا ،فریفتگی وغیرہ ایسے عناصر
پائے جاتے ہیں ۔ یہ دل دادن /باختن سے جڑے ہوئے ہیں ۔
دل کردن کا ترجمہ ہے ۔ کسی چیز کی تمنایا خواہش ہونا دل کرنا:
دل باندھنا:
دل باندھنا ،دل بستن کا اردو ترجمہ ہے۔ غالب کے ہاں اس ترجمے کا
استعمال ملاحظہ فرمائیں
ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال برن ِگ کا غ ِذآتش زدہ نیر ن ِگ بے تابی
یک تپیدن پر
دل باندھنا ‘‘ ترجمہ کرچکے ہیں ۔ ’’غالب سے پہلے قائم چاندپوری
فرق اتنا ہے کہ غالب کے شعر میں باندھنا استعمال میں آیا ہے اور پر
کے سوا تما م الفاظ فارسی کے ہیں ۔معنی ہمت اور کاہش وکاوش لئے
گئے ہیں ۔ قائم نے برداشت ،صبر کے معنوں میں یہ ترجمہ نظم
کیاہے۔
دل کو کیا باندھے ہے گلزا ِر جہاں سے بلبل حسن ِاس باغ کا اک روز
خزاں ہووے گا( )۴۶قائم
دل باندھنا ،قائم کے شعرمیں دل لگانا ،محبت میں گرفتار ہونا ،فریفتہ
ہونا ،تعلق استوار ہونا /کرنا معنی لئے ہوئے ہے۔ یہ محاورہ اردو
جی ’’لغت کا،بطور محاورہ بمعنی دل کو مائل کر لینا ( )۴٧حصہ ہے۔
چاہنا‘‘ بھی ان مفاہیم میں استعمال کرتے ہیں۔
طبیعت آنا‘‘ بمعنی توجہ ،مائل ہونا ،رجوع کرنا بھی اسی قماش کا ’’
محاورہ موجود ہے
جانتا ہوں ثوا ِب طاعت و زہد پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
اِس محاورے کے لئے رجوع کردن ،رجعت کردن محاورے موجود ہیں
لیکن یہ محاورہ مفہومی او ر استعمالی حوالہ سے دل باندھنا کے زیادہ
قریب لگتاہے۔
رنج کھینچنا:
یہ محاورہ ’’ رنج کشیدن ‘‘ سے ہے مشقت ،مصیبت ،دکھ ،آزار ،
غم کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ اردو میں ’’ رنج اٹھانا ‘‘ کے
مترادف خیال کیا جاتا ہے۔ غالب کے ہاں اس محاورے کا استعمال
ملاحظہ ہوں
رنجِ رہ کیوں کھینچے واما ندگ ِی کوعشق ہے اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو
قدم منزل میں ہے
اس فارسی محاورے کے اور تراجم بھی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔مثلاا
لاتے ہووق ِت نزع تشریف کا ہے کو
اتنی بھی اب کھینچے تکلیف کا ہے کو( )۴۸بیاں
تکلیف کھینچنا:
زحمت اٹھانا/کرنا ،دکھ اٹھانا ،طنز اا تکلف کرنا ،کیا ضرورت زحمت
کرنے کی
کہاں ہے مرگ کہ جو ں شمع دے مجھے تسکیں
بہت میں دا ِغ محبت سے یاں الم کھینچا ( )۴۹قائم
الم کھینچنا:
صعوبت اٹھانا ،دکھ برداشت کرنا
پورن سنگھ پورن خجل ہونا ،بمعنی خراب ہونا ،پریشان ہونا
باندھتے ہیں۔
پیچ وخم کاکل میں مت جائیوں دل شب کو اس راہ میں تو چل کر ہوئے
نہ خجل شب کو ( )۵٠پورن کاتیہ
میر حسین تسکین نے آزار کھینچنا نظم کیاہے ٍ
برسوں گذر گئے مجھے آزاد تی ِغ نگا ِہ یار اچٹتی لگی تھی پر
کھینچے ( )۵١تسکین
غالب سے پہلے میر صاحب ’’ رنج کھینچنا ‘‘ نظم کر چکے ہیں
رنج کھینچے تھے ،داغ کھائے تھے دل نے صد مے بڑے اٹھائے
تھے ( )۵٢میر
چندا کے ہاں اذیت کھینچنا استعمال میں آیا ہے
کوئی کھینچے لئے جاتا ہے تن سے روح کیا کیجئے اذیت کھینچے ہیں
یار کیا کیا تیری یاری میں ( )۵۳چندا
مجموعی طور پر تکلیف کھینچنا ،الم کھینچنا ،خجل ہونا ،آزار
کھینچنا ،اذیت کھینچناوغیرہ ’’رنج کھینچنا‘‘ کے کھاتے میں جاتے
ہیں ۔
روا رکھنا:
روا بودن بمعنی جائز ہونا ،شایستہ ہونا ،رواداشتن بمعنی حلا ل یا
جائز سمجھنا ،دونوں محاورے فارسی میں رواج عام رکھتے ہیں ۔
اردو میں داشتن کے لئے رکھنا مصدر استعمال کیا جاتاہے۔ یہ محاورہ
( روا رکھنا ) استعمال میں آتا رہتاہے۔ روادار ،رواداری ایسے مرکبات
بھی عام بولے جاتے ہیں ۔ غالب کے ہاں اس محاورے کااستعمال
دیکھئے
روا رکھونہ رکھو تھا لفظ تکیہ کلام اب اس کو کہتے ہیں اہل سخن
سخن تکیہ
روا رکھنا:
جائز سمجھنا ،مناسب خیال کرنا ،ضروری سمجھنا ،اہمیت سمجھنا
میر صاحب اور قائم چاند پوری نے بھی یہ محاورہ استعمال کیا ہے
گویا غالب کے ہاں پہلی بار ترجمہ سامنے نہیں آیا
جیتے ہیں جب تلک ہم آنکھیں بھی لڑتیاں ہیں
دیکھیں تو جور خوباں کب تک روا رکھیں گے ( )۵۴میر
جائز سمجھتے ہیں ( ،یہ وتیرہ کب تک ) اختیار کئے رکھتے ہیں
روا رکھوں نہ کہ ہووے ملک بھی پاس ترے
کیا ہے بس کہ محبت نے بدگماں مجھ کو ( )۵۵قائم
خاطر میں لانا ،حیثیت اور وقعت سمجھنا ،اہمیت ،قدرو قیمت ہونا
رخصت دینا:
فارسی محاورہ ’’ رخصت داشتن ‘‘ کا اردوترجمہ ہے۔ غالب نے
رخصت دینا کو فارسی مفہوم کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔ اردو میں
رخصت دینا ،اجازت دینا ،چھٹی دینا ( )۵۶کے معنوں میں برتا
جاتاہے۔ غالب کے ہاں ’’ رخصت دینا‘‘ کا استعمال ملاحظہ ہو
رخص ِت نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم تیرے چہرے سے ہو ظاہر غم
پنہاں میر ا
قائم چاند پوری کے ہاں بھی یہ ترجمہ استعمال میں آیا ہے
کیا گلہ شومئی طالع سے کہ بلبل کے تئیں جن نے دی رخص ِت گلگشت
ہمیں دام دیا( )۵٧قائم
اب رفعت ،شاگرد حضرت صبہائی کے ہا ں اس محاورے کا استعمال
دیکھئے
بہ ذو ِق ناز کودے رخص ِت جفا کہ یہاں
ہمیں بھی عزم ہے طاقت کے آزمانے کا ( )۵۸رفعت
زندگی گذرنا:
زندگانی /زندگی کردن بمعنی زندگی بسرکرنا فارسی میں عام استعمال
کا محاورہ ہے۔ اردو میں زندگی کاٹنا ،زندگی بسرکرنا ،زندگانی
/زندگی کردن کے معنوں میں بولے جاتے ہیں اور فصیح سمجھے
جاتے ہیں ۔ زندگی ہونا ،زندگی مکمل ہونے کے لئے پڑھنے سننے
میں آتا ہے۔عوامی حلقوں میں زندگی بسر کرنا کے لئے بو لاجاتا ہے۔
یہ محاورہ اردو میں فارسی کے حوالہ سے ترکیب و تشکیل پائے ہیں۔
غالب کے ہاں اس کا استعمال کچھ یوں ہواہے
یوں زندگی بھی گذرہی جاتی کیوں تراراہ گزر یا د آیا
کرنا اور کٹنا مصادر کے ساتھ اِ س محاورے کا غالب سے پہلے
ترجمہ نظر آتاہے
کر زندگی ِا س طور سے اے درد جہاں میں خاطر پہ کسو شخص کے
تو بار نہ ہووے ( )۵۹درد
زندگی کرنا بمعنی زندگی بسرکرنا
جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی زندگی آپ ہی آپ کٹتی ہے ( )۶٠درد
زندگی کٹنا بمعنی زندگی بسر ہونا
خواجہ صاحب نے ایک جگہ زیست کرنا استعمال کیا ہے لیکن تفہیم ’’
ہوچکا ‘‘ لی ہے۔ گئے کی جگہ ’’ ہیں ‘‘ نظم کرتے تو بات ماضی سے
حال میں آجاتی ہے عامل کاحذف کلاسیکی دور میں روا رہاہے
تھاعال ِم جبر کیا بتائیں کس طور سے زیست کرگئے ہم ( )۶١درد
میر حسین تسکین شاگرد امام بخش صہبائی ،شاہ نصیراور مومن ،
زندگی ہوونا کوزندگی بسر ہونا کے معنوں میں استعمال کیاہے
زندگی ہووے گی کس طور سے یار ب اپنی دم میں سو بار اگر یوں وہ
خفا ہووے گا( )۶٢تسکین
قائم چاندپوری کے ہاں عمر گذرنا ،زندگی کردن کے ترجمہ کی
صورت میں محاورہ استعمال میں آیا ہے
گذاری اک عمر گرچہ قفس میں ہمیں ،پہ ہے جی میں وہی ہوائے گل و
گلستان ھنوز ( )۶۳قائم
میر صاحب نے عمر جانا کو زندگی کردن کے مترادف کے طور پر
نظم کیا ہے
تما م عمر گئی ا س پہ ہاتھ رکھتے ہمیں وہ درد ناک علی ال ّر غم بے
قرار رہا ( )۶۴میر
غالب کے ہاں عمر کٹنا محاورہ بھی پڑھنے کوملتاہے
بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں طاق ِت بقد ِر لذت آزار بھی
نہیں
قائم چاند پوری نے ( بمعنی گذرنا ) عمر کٹنا کا استعمال کیاہے
سرت ِہ بال کٹی عمر مری ،بلبل کو قاب ِل سیر مگریہ گل وگلزار نہ تھا
( )۶۵قائم
شاہ مبارک آبرو نے زندگانی کاٹنا بمعنی زندگی کردن ،برتاہے
زندگانی تو ہر طرح کاٹی مرکے پھر جیونا قیامت ہے( )۶۶آبرو
زخم کھانا:
زخم خوردن فارسی میں زخمی ہونا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔
اردو میں یہ محاورہ زخمی ہونا ،مجروع ہونا ،صدمہ اٹھانا ( )۶٧کے
معنوں میں استعمال ہوتا چلا آتا ہے۔ یہ محاور ہ فارسی سے اردو میں
وارد ہواہے۔ خوردن کا اردو مترادف مصدر ’’کھانا ‘‘ہے۔ غالب کے
ہاں اِ س محاورے کا استعمال ملاحظہ ہو
عشر ِت پارہ ء دل زخم تمنا کھانا عیدنظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
خواجہ حیدر علی آتش نے صدمہ کھینچنا بمعنی زخم خوردن برتا ہے
صدمہ کھینچے نہ ر ِگ کیااثر ہومری آہوں سے بتوں کے دل میں
سنگ کبھی نشتر کا ( )۶۸آتش
میر صاحب کے ہاں زخم جھیلنا اور داغ کھانا بھی استعمال میں آئے
ہیں
زخموں پہ زخم جھیلے داغوں پہ داغ کھائے یک قطرہ خون د ِل نے کیا
کیا ستم اٹھائے ( )۶۹میر
ساغر کھینچنا:
ساغر کشیدن ،شراب کے پیالے کو دور کردینا ،شراب پینا
۔ساغرکھینچ ،ساغر کشیدن کا اردو ترجمہ ہے ۔ شراب یعنی مقصد ،
بقول غلام رسول مہر
مقصود کے می ّسر ہونے پر کامل یقین رکھنا ،دام ِن آرزو کبھی نہیں ’’
)‘‘ (٧٠چھوڑنا چاہیے
غالب نے ساغر کشیدن کا ترجمہ ساغر کھینچ کیاہے
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظا ِر ساغر
کھینچ
سفرہ کھینچ:
سفرہ کشیدن کا ترجمہ ’’سفرہ کھینچ‘‘ کیا گیا ہے۔ دسترخوان پر کباب
کھینچنا یا کباب رکھنا فصیح نہیں ہے۔ کباب رکھنا یا فلاں ڈش رکھنا
پڑھنے سننے میں آتا ہے تاہم کھینچ یا رکھنا کی بجائے ’’ چننا ‘‘
امداد ی فعل زیادہ جاندار اور فصیح ہے۔ غالب کا یہ ترجمہ متاثر نہیں
کرتا۔ شاید اس لئے رواج نہیں پاسکا
مرے قدح میں ہے صہبائے آتش پنہاں بروئے سفرہ کباب د ِل سمند ر
کھینچ
سرگرم کرنا:
سرگرم کردن کی اردو شکل غالب کے ہاں ’’سرگرم کرنا‘‘ ہے۔اردو میں
سرگرمی معروف ہے۔ غالب کے ہاں اکسانے کے معنوں میں سرگرم
کرنا استعمال میں آیا ہے۔ غلام رسول مہر آمادہ کرنا کے معنوں میں
لے رہے ہیں ۔ ( )٧١سر گرم کرنا ،اردو میں رواج نہیں رکھتا ۔
تیارکرنا ،آمادہ کرنا ،جوش دلانا ،قائل کرنا وغیرہ ایسے محاورے ،
ضرورت کے مطابق استعمال میں آتے رہتے ہیں
غالب کے ہاں سرگرم کرنا کا استعمال ملاحظہ ہو
د ِل نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالب نہ کر سرگرم ا س کافر
کو الفت آزمانے میں
شام کا صبح کرنا:
شام راسحر کردن کا ترجمہ ہے یعنی انتظا رکرنا ،وقت گذار نا ،وقت
کا ٹنا ،رات گزارنا ،غالب کایہ ترجمہ برا نہیں لیکن عوامیت کی سند
حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ غالب کے ہاں ِا س کا استعمال
دیکھئے
کاوکا ِو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کالانا ہے
جوئے شیر کا
خواجہ درد کا یہ شعر دیکھیں ’’ شام راسحر کردن‘‘ کی بازگشت سنائی
دیتی ہے