The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-02-02 02:55:56

c2

c2

‫کاکھیل وغیرہ کے لئے بو لا جاتا ہے۔ مثلاا‬

‫تماشاہونا‪:‬‬
‫ہنسی مذاق ‪ ،‬کرتب ‪،‬کھیل‬

‫جمع کرتے ہوکیوں رقیبوں کو اک تماشاہ ہوا گلانہ ہوا‬

‫تما شاہوجانا‪:‬‬

‫ہنسی ٹھٹھا مذاق بن جانا ‪ ،‬معاملہ الٹا ہونا‬
‫آئے تھے اس مجمع میں قصد کرے دور سے ہم تماشے کے لئے آپ‬

‫ہی تماشا ہوگئے (‪ )٢۵‬درد‬
‫تماشا کردن کا ترجمہ تماشا کربمعنی دیکھ ‪ ،‬ملاحظہ کربھی پڑھنے کو‬

‫ملتا ہے‬

‫لب خندان گل کا شبنم آسا تماشا کر بہ چش ِم ترچلے ہم جہاں داد‬
‫تماشا دیکھئے بمعنی ملاحظہ کیجئے‬

‫کیا آہ کے تیشے میں لگا تا ہوں جگر پر آؤ دیکھئے تما شا مرا‪ ،‬فرہاد‬
‫کہاں حاتم‬

‫سیر کھنچنا ‪:‬‬

‫دیکھنا‬

‫کسی کو گلگشت چمن کا ہے دماغ اے باغبان کھینچ کر سیر اگربیان‬
‫یاں لے آتی ہے بہارسودا‬

‫گویا کر دن کے لئے کئی اردومصادر تجویز ہوئے ہیں جبکہ تماشا‬

‫کودیکھنے کے علاوہ کھیل ‪،‬کرتب ‪ ،‬ہنسی مذاق وغیرہ کے معنوں میں‬
‫بھی لیا جاتا ہے۔ غالب کے ہاں ’’تماشا کیجئے ‘‘ کاایک اور استعمال‬

‫ملاحظہ فرمائیں‬

‫خانہ ء ویراں ساز ِی حیرت تماشا کیجئے صورت نق ِش قدم ہوں رفتہء‬
‫رفتا ِر دوست‬

‫جاگرم کرنا‪:‬‬

‫جاگرم کردن ‪ ،‬ایک جگہ پر دیر تک بیٹھے رہنا ‪ ،‬مراقبہ ۔بیٹھنا ‪،‬‬
‫ٹھکانہ کرنا ‪ ،‬پڑاؤ ڈالنا ‪ ،‬قیام کرنا ‪ ،‬اقامت اختیار کرنا ‪ ،‬مستقل طور پر‬
‫کسی جگہ بیٹھنا وغیرہ مفاہیم میں یہ محاورہ رواج نہیں رکھتا‪ ،‬غالب‬

‫نے کردن کو کرنا میں بدل دیاہے۔ جا‪ ،‬جگہ اور کئی دوسروں معنوں‬
‫میں مستعمل ہے۔ گرم بھی اردو کے لئے نیا لفظ نہیں تاہم فارسی‬

‫مفاہیم میں استعمال نہیں ہوتا۔غالب کے ہاں اس محاورے کا استعمال‬
‫دیکھئے‬

‫کی اس نے گرم سینہء اہ ِل ہوس میں جا آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا‬
‫مکان ہے‬

‫غالب نے دل میں سمانا ‪ ،‬محبت ہونا ‪ ،‬قلبی وابستگی ‪ ،‬عشق ‪ ،‬محبت‬
‫وغیرہ مفاہیم میں استعمال کیاہے۔‬

‫جبیں گ ِھسنا‪:‬‬

‫ماتھا رگڑنا ‪ ،‬کم مائیگی کا احساس‬

‫غالب نے دل میں سمانا‪ ،‬محبت ہونا ‪ ،‬قلبی وابستگی ‪ ،‬عشق ‪ ،‬محبت‬
‫وغیرہ مفاہیم میں استعمال کیاہے۔‬

‫اردو میں ماتھا رگڑنا بمعنی پیشانی گ ِھسنا ‪ ،‬عاجزی سے سجد ہ کرنا ‪،‬‬
‫جبہ سائی کرنا ‪ ،‬خوش آمد کرنا ‪ ،‬نہایت عاجزی کرنا (‪ )٢۶‬استعمال‬

‫میں آتا ہے۔ خاک پر جبین گ ِھسنا اردو بو ل چال کے مطابق نہیں ہے۔‬
‫یہ ترجمہ برا نہیں چونکہ اسلوب اردو سے میل نہیں رکھتا اسی لئے‬

‫عوامیت کے درجے پر فائز نہیں ہوسکا۔‬

‫ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے گ ِھستا ہے جبیں خا ک پہ‬
‫دریا مرے آگے‬

‫حدیث کرنا‪:‬‬

‫حدیث کردن ‪ ،‬بیان کرنا‬

‫کردن ‘‘ کے لئے اردو مصدر ’’ کرنا‘‘ استعمال میں لایا گیا ہے۔ ’’‬
‫حدیث کرنا ‪ ،‬عر ِف عام سے معذو ررہا ہے۔ عام طور پر بیان کرنا‬
‫استعمال میں آتا ہے ۔ فارسی استعمال کا اپنا ہی حسن ہے‬

‫صہبا زروی تو باہر گل حدیثے کروا رقیب چوں رہ غماز دار در حرمت‬
‫حافظ‬

‫صبا نے تیرے رخ سے ساتھ ہر ایک پھول کے بات کی‬

‫)رقیب نے جب چغل خور کوراہ دی بیچ تیر ے مکان کے (‪٢٧‬‬

‫غالب کے ہاں اس محاورے کا ترجمہ ملاحظہ ہو‬

‫جبکہ میں کرتا ہوں اپنا شکوہء ضع ِف دماغ‬

‫سرکرے ہے وہ حدی ِث زل ِف عنبر با ِر دوست‬

‫سرکرنا ‪،‬‬

‫زلف سر کرنا ‪ ،‬اردو محاورے نہیں ہیں ۔ حدیث سرکرنا بھی اردو بو‬
‫ل چال سے دور ہے۔ اردو محاورے میں سرانجام کرنا ‪ /‬ہونا مستعمل‬

‫ہے۔ غالب نے اردو کو تین محاوروں سے نواز اہے۔‬

‫خوش آنا‪:‬‬

‫خوش آمدن ‪ ،‬اچھالگنا ‪ ،‬اچھا محسوس ہونا‬

‫خوش اطوار ( اچھی عادات کا حامل ) خوش الحان ( اچھی آواز والا)‬
‫خوشامد ( چاپلوسی ) خوشبودار ( عمدہ خوشبوو الی چیز) ‪ ،‬خوش‬
‫بخت ( اچھے نصیب والا) وغیرہ فارسی مرکبات اردو زبان کے لئے‬

‫نئے اور اجنبی نہیں ہیں ۔ خوش کے ساتھ مصدر ’’ آنا ‘‘ کی بڑھوتی‬
‫رواج عام سے محروم ہے۔ تاہم یہ محاورپڑھنے کو مل جاتا ہے اور‬
‫فصیح بھی ہے۔ لیکن عوامیت کے درجے پر فائز نہیں ۔ استعمال کی‬

‫صرف دومثالیں ملاحظہ ہوں‬

‫دل نہیں کھینچتا ہے ب ِن مجنوں بیاباں کی طرف‬

‫خوش نہیں آتا نظر کرنا غزالاں کی طرف(‪ )٢۸‬یقین‬

‫بس ہجوم گل سے اپنے کیا خوش آئی ہے بسنت‬

‫باغ میں گلرو کے آگے رنگ لائی ہے بسنت ( ‪)٢۹‬چندا‬

‫اب غالب کے ہاں اس محاورے کا استعمال دیکھئیے‬

‫ہر غنچے کا گل ہونا گلشن کو تری صحبت ازبسکہ خوش آئی ہے‬
‫آغوش کشائی ہے غالب‬

‫خوش آمدن ‘‘ کے تراجم پڑھنے کو ملتے ’’خوش آنا کے سوا بھی‬

‫ہیں۔ مثلاا‬

‫اب چھیڑیہ رکھی ہے کہ عاشق ہے توکہیں‬

‫)القصہ خوش گزرتی ہے اس بدگمان سے (‪ )۳٠‬میر (خوش گزرنا‬

‫تجھ سے کچھ دیکھا نہ ہم جز جفا پر وہ کیا کچھ ہے کہ جی بھا‬
‫)گیا(‪)۳١‬درد (بھاجانا‬

‫کشاکش کو ہمارا عقدہ ء بہ فیض بیدلی نو مید ِی جاوید آساں ہے‬
‫)مشکل پسند آیا غالب ( پسند آنا‬

‫خوش آنا ‪،‬‬

‫اردو لغت میں بمعنی اچھالگنا ‪ ،‬پسند آنا ‪ ،‬مرغوب ہونا (‪ )۳۴‬داخل‬
‫ہے جبکہ خوش گزرنا ‪ ،‬بھا جانا ‪ ،‬پسند آنا اردو بول چال سے خارج‬
‫نہیں ہیں ۔ خوش آنا ‪ ،‬راس آنا کے معنوں میں بھی بولا جاتاہے۔ یہ‬

‫ترجمہ فصیح خیال کیا جاتا ہے اور اہل زبان کو خوش آتارہاہے۔‬

‫خجالب کھینچنا‪:‬‬

‫خجالت کشیدن ‪ /‬بردن ۔ یہ محاور ہ فارسی میں شرمسار ہونا ‪،‬‬
‫شرمندہ ہونا (‪ )۳۳‬کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں خجالت‬

‫ہونا ‪ ،‬خجالت اٹھانا استعمال میں آتا ہے۔ غالب کے ہاں یہ ترجمہ‬
‫‪:‬شرمندگی کے معنوں میں استعمال ہواہے‬

‫ڈالانہ بے کسی نے کسی سے معاملہ اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی‬
‫کیوں نہ ہو‬

‫الہ وردی خاں جلیس بردار سعادت یار خاں رنگین کے ہاں بھی یہ‬

‫محاورہ( خجالت کشیدن ) برتاگیا ہے‬

‫تیرے دھن سے ازبسکہ کھینچے ہے اک خجالت‬

‫غنچہ وہ کون سا ہے جو سرفرو نہ آیا‪۳۴‬جلیس‬

‫خط کھینچنا‪:‬‬

‫خط کشیدن فارسی میں چھوڑدینا ‪ ،‬ترک کردینا کے معنوں میں استعمال‬
‫ہوتاہے۔ خط کھینچنا ‪ ،‬خط کشیدن ہی کا اردو ترجمہ ہے اور یہ ترجمہ‬
‫اردو کے لئے اجنبی نہیں ۔یہ اردو کے محاوراتی ذخیر ہ میں اپنی جگہ‬

‫رکھتا ہے۔ لکیر کھینچنا ‪ ،‬قلمزد کرنا ‪،‬نشان کرنے کے لئے لکیر‬
‫کھینچنا (‪ )۳۵‬لغوی معنی لئے ہوئے ہے۔ غالب کے ہاں اس ترجمے کا‬

‫استعمال ملاحظہ ہو‬

‫بے مے کسے ہے طاق ِت آشوب آگہی کھینچا ہے عج ِز حوصلہ نے خط‬
‫ایاغ کا‬

‫غالب نے مفہوم میں اردو کی پیروی نہیں کی ۔ مفہوم فارسی ہی رہنے‬
‫دیا ہے۔‬

‫خط کھینچنا ‪:‬‬

‫محو کرنا ‪ ،‬مٹا دینا ‪ ،‬چھوڑ دینا ‪( ،‬کا ) پابند نہ رہنا ‪( ،‬کے) مطابق‬
‫پابند ی نہ کرنا‬

‫قلم کھینچنا بھی اس محاورے کاترجمہ سامنے آتاہے مثلاا‬

‫بخط ہند ہے قائم گویا مرا دیواں زبس کہ لکھ کے میں ہر بیت پر قلم‬
‫کھینچنا (‪ )۳۶‬قائم‬

‫خمیازہ کھینچنا‪:‬‬

‫خمیازہ کشیدن کا اردو ترجمہ ہے خمیازہ کشیدن فارسی میں جمائی لینا‬
‫‪ ،‬رنج اٹھانا ‪ ،‬پشمان ہونا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ غالب نے‬

‫اس ترجمے کو انگڑائی لینا کے معنوں میں استعمال کیاہے۔‬

‫اردو میں خمیازہ بھگتنا ‪ ،‬خمیازہ اٹھانا استعمال مینآتا ہے خمیازہ‬
‫کھنچنا ‪ ،‬اردو میں جمائی لینا کے معنوں میں مستعمل نہیں ۔ غالب‬
‫کایہ ترجمہ ایسا نیا نہیں۔ میر صاحب کے ہاں اس کا استعمال دیکھئے‬

‫اس میکدے میں ہم بھی مدت سے ہیں ولیکن‬

‫خمیازہ کھینچتے ہیں ‪ ،‬ہر دم جماہتے ہیں (‪ )۳۸‬میر‬

‫ایک دوسری جگہ’’‪ ،‬خمیازہ کش‘‘بطور مرکب (فاعل) نظم کرتے ہیں‬

‫بند ِہ قباکوخوباں جس وقت واکریں گے خمیازہ کش جوہوں گے ملنے‬
‫)کے ‪ ،‬کیا کریں گے (‪۳۹‬‬

‫دامن کھینچنا‪:‬‬

‫دامن کشیدن ‪ ،‬یہ محار ہ فارسی میں کنی کترانا کے معنوں میں‬
‫استعمال ہوتا ہے جبکہ دامن نہاون ‪ ،‬دامن بچھانا کے لئے استعمال میں‬

‫آتا ہے۔ اردو میں کشیدن کے لئے کھینچنا ‪ ،‬نہادن کے لئے بچھانا‬
‫معاون افعال استعمال میں آتے ہیں ۔ غالب نے دامان چھٹنا بمعنی بس‬

‫میں نہ رہنا ‪ ،‬بردارشت کی حد ختم ہونا ‪ ،‬صبر کا یارانہ رہنا ‪ ،‬مزید‬
‫سہہ پانے کی ہمت نہ ہونا‪ ،‬مقدورسے باہر ہوناوغیرہ کے مفاہیم میں‬
‫استعمال کیاہے۔ ِا س محاورے کی روح میں نہ کر سکنا ‪ ،‬ہاتھ کھنیچ‬

‫لینا ( بہ امر مجبوری سہی) موجود ہے۔‬

‫کہ داما ِن خیا ِل یار سنبھلنے دے مجھ اے ناامیدی کیا قیامت ہے‬
‫چھوٹا جائے ہے مجھ سے‬

‫مرزا سودا نے دامن کھینچنا کو پکڑ لینا کے معنوں میں استعمال‬
‫کیاہے‬

‫پیچھے سے تودامن کے تئیں خار نے کھینچنا‬ ‫اور سرد ہوکے لگا‬
‫)روکنے آتا ( سودا‬

‫قائم چاندپوری کے ہاں دامان کھینچنا نظم ہواہے‬

‫مقتل کی جاہے داما ِن جاں جو کھینچے ہے گرد اس زمیں کی یوں‬
‫آہ یہ کس خاکسارکی (‪ )۴٠‬قائم‬

‫میر صاحب کے ہا ں مرکب ’’ دامن کشاں‘‘ پڑھنے کو ملتا ہے‬

‫کیا ہوا دامن کشاں آتے ہے غبا ِر میر اس کی رہ گزر میں اک طرف‬
‫بھی یاں تک یار کو (‪ )۴١‬میر‬

‫دامن کشیدن ‪ /‬نہادن کی مختلف اشکال اورتراجم اردو زبان کے ذخیر‬
‫ے کا حصہ رہے ہیں ۔‬

‫دل دینا‪:‬‬

‫دل دادن کا غالب نے دل دینا ترجمہ کیا ہے‬

‫؂ دل دیا جان کے کیوں ا س کووفادار اسد غلطی کی کہ جوکافر کو‬
‫مسلماں سمجھا‬

‫غالب نے عاشق ہونا ‪ ،‬فریفتہ ہونا کے معنوں میں ’’ دل دینا ‘‘ کا‬
‫استعمال کیا ہے۔ فارسی میں ان ہی معنوں میں ’’دل باختن ‘‘ مستعمل‬

‫ہے۔ دل گرفتہ ‪ ،‬حواس باختہ ایسے مرکبات عام پڑھنے سننے کو‬
‫ملتے ہیں ۔ غالب کے ترجمہ میں دل باختہ کی روح کا ر فرما نظر آتی‬

‫ہے تاہم دادن کے لئے دینا مصدر استعمال میں آتاہے۔ اگر دل گرفتہ‬
‫مانوس نہیں تو دل باختہ میں کیا کمی ہے ۔ بہر طور غالب کے ہاں‬

‫ایک اور مثال ملاحظہ ہو‬

‫دینا نہ اگردل تمہیں لیتا کوئی دم چین اور کرتا جونہ مرتا کوئی دن آہ‬
‫وفغاں اور‬

‫دل دینے کے سبب بے چینی ملی ۔بے چینی ‪ ،‬فریفتگی کے باعث‬
‫ممکن ہے۔ گویاجانا ‪ ،‬اڑنا کی بجائے ’’ دینا‘‘ مصد ر استعمال میں لایا‬
‫گیا ہے۔ ان ہی مفاہیم میں ’’ دل دینا ‘‘ کاقائم کے ہاں استعمال دیکھئے‬

‫ہم نے یہ سوچ پیش تر نہ کیا (‪ )۴٢‬دل نہ دینا ہی خوب تھا پر حیف !‬
‫قائم‬

‫ایک دوسری جگہ ’’ دل گنوانا ‘‘ نظم کرتے ہیں ۔دال گنوانا کے مفاہیم‬
‫بھی تقریباا وہی مفاہیم ہیں‬

‫دل گنوانا تھا اس طرح قائم؟ کیا کیا تونے ہائے خانہ خراب (‪ )۴۳‬قائم‬

‫آفتاب کے ہاں ’’ دل جانا ‘‘ برتاگیا ہے‬

‫گھر غیر کے جو یار مر ارات سے گیا جی سینے سے نکل گیا ‪ ،‬دل‬
‫سے گیا (‪ )۴۴‬آفتاب‬

‫دل جھکنا ‘‘استعمال میں لائے ہیں ’’خواجہ درد‬

‫جھکتا نہیں ہمارا دل تو کسی طرف یاں جی میں بھر ا ہواہے از بس‬
‫غرور تیر ا (‪ )۴۵‬درد‬

‫ان محاور وں میں عشق میں مبتلا ہونا ‪ ،‬فریفتگی وغیرہ ایسے عناصر‬
‫پائے جاتے ہیں ۔ یہ دل دادن ‪ /‬باختن سے جڑے ہوئے ہیں ۔‬

‫دل کردن کا ترجمہ ہے ۔ کسی چیز کی تمنایا خواہش ہونا دل کرنا‪:‬‬

‫دل باندھنا‪:‬‬

‫دل باندھنا ‪ ،‬دل بستن کا اردو ترجمہ ہے۔ غالب کے ہاں اس ترجمے کا‬
‫استعمال ملاحظہ فرمائیں‬

‫ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال برن ِگ کا غ ِذآتش زدہ نیر ن ِگ بے تابی‬
‫یک تپیدن پر‬

‫دل باندھنا ‘‘ ترجمہ کرچکے ہیں ۔ ’’غالب سے پہلے قائم چاندپوری‬
‫فرق اتنا ہے کہ غالب کے شعر میں باندھنا استعمال میں آیا ہے اور پر‬
‫کے سوا تما م الفاظ فارسی کے ہیں ۔معنی ہمت اور کاہش وکاوش لئے‬

‫گئے ہیں ۔ قائم نے برداشت ‪ ،‬صبر کے معنوں میں یہ ترجمہ نظم‬
‫کیاہے۔‬

‫دل کو کیا باندھے ہے گلزا ِر جہاں سے بلبل حسن ِاس باغ کا اک روز‬
‫خزاں ہووے گا( ‪)۴۶‬قائم‬

‫دل باندھنا ‪ ،‬قائم کے شعرمیں دل لگانا‪ ،‬محبت میں گرفتار ہونا ‪ ،‬فریفتہ‬
‫ہونا ‪ ،‬تعلق استوار ہونا ‪ /‬کرنا معنی لئے ہوئے ہے۔ یہ محاورہ اردو‬
‫جی ’’لغت کا‪،‬بطور محاورہ بمعنی دل کو مائل کر لینا (‪ )۴٧‬حصہ ہے۔‬
‫چاہنا‘‘ بھی ان مفاہیم میں استعمال کرتے ہیں۔‬

‫طبیعت آنا‘‘ بمعنی توجہ ‪ ،‬مائل ہونا ‪ ،‬رجوع کرنا بھی اسی قماش کا ’’‬
‫محاورہ موجود ہے‬

‫جانتا ہوں ثوا ِب طاعت و زہد پر طبیعت اِدھر نہیں آتی‬
‫اِس محاورے کے لئے رجوع کردن ‪ ،‬رجعت کردن محاورے موجود ہیں‬
‫لیکن یہ محاورہ مفہومی او ر استعمالی حوالہ سے دل باندھنا کے زیادہ‬

‫قریب لگتاہے۔‬

‫رنج کھینچنا‪:‬‬

‫یہ محاورہ ’’ رنج کشیدن ‘‘ سے ہے مشقت ‪ ،‬مصیبت ‪ ،‬دکھ ‪ ،‬آزار ‪،‬‬
‫غم کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ اردو میں ’’ رنج اٹھانا ‘‘ کے‬
‫مترادف خیال کیا جاتا ہے۔ غالب کے ہاں اس محاورے کا استعمال‬
‫ملاحظہ ہوں‬

‫رنجِ رہ کیوں کھینچے واما ندگ ِی کوعشق ہے اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو‬
‫قدم منزل میں ہے‬

‫اس فارسی محاورے کے اور تراجم بھی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔مثلاا‬

‫لاتے ہووق ِت نزع تشریف کا ہے کو‬

‫اتنی بھی اب کھینچے تکلیف کا ہے کو(‪ )۴۸‬بیاں‬

‫تکلیف کھینچنا‪:‬‬

‫زحمت اٹھانا‪/‬کرنا ‪ ،‬دکھ اٹھانا ‪ ،‬طنز اا تکلف کرنا ‪ ،‬کیا ضرورت زحمت‬
‫کرنے کی‬

‫کہاں ہے مرگ کہ جو ں شمع دے مجھے تسکیں‬

‫بہت میں دا ِغ محبت سے یاں الم کھینچا (‪ )۴۹‬قائم‬
‫الم کھینچنا‪:‬‬

‫صعوبت اٹھانا ‪ ،‬دکھ برداشت کرنا‬

‫پورن سنگھ پورن خجل ہونا ‪ ،‬بمعنی خراب ہونا ‪ ،‬پریشان ہونا‬
‫باندھتے ہیں۔‬

‫پیچ وخم کاکل میں مت جائیوں دل شب کو اس راہ میں تو چل کر ہوئے‬
‫نہ خجل شب کو (‪ )۵٠‬پورن کاتیہ‬

‫میر حسین تسکین نے آزار کھینچنا نظم کیاہے ٍ‬

‫برسوں گذر گئے مجھے آزاد تی ِغ نگا ِہ یار اچٹتی لگی تھی پر‬
‫کھینچے (‪ )۵١‬تسکین‬

‫غالب سے پہلے میر صاحب ’’ رنج کھینچنا ‘‘ نظم کر چکے ہیں‬

‫رنج کھینچے تھے ‪ ،‬داغ کھائے تھے دل نے صد مے بڑے اٹھائے‬
‫تھے (‪ )۵٢‬میر‬

‫چندا کے ہاں اذیت کھینچنا استعمال میں آیا ہے‬

‫کوئی کھینچے لئے جاتا ہے تن سے روح کیا کیجئے اذیت کھینچے ہیں‬
‫یار کیا کیا تیری یاری میں (‪ )۵۳‬چندا‬

‫مجموعی طور پر تکلیف کھینچنا ‪ ،‬الم کھینچنا ‪ ،‬خجل ہونا ‪ ،‬آزار‬
‫کھینچنا ‪ ،‬اذیت کھینچناوغیرہ ’’رنج کھینچنا‘‘ کے کھاتے میں جاتے‬

‫ہیں ۔‬

‫روا رکھنا‪:‬‬

‫روا بودن بمعنی جائز ہونا ‪ ،‬شایستہ ہونا ‪ ،‬رواداشتن بمعنی حلا ل یا‬
‫جائز سمجھنا ‪ ،‬دونوں محاورے فارسی میں رواج عام رکھتے ہیں ۔‬

‫اردو میں داشتن کے لئے رکھنا مصدر استعمال کیا جاتاہے۔ یہ محاورہ‬
‫( روا رکھنا ) استعمال میں آتا رہتاہے۔ روادار ‪ ،‬رواداری ایسے مرکبات‬

‫بھی عام بولے جاتے ہیں ۔ غالب کے ہاں اس محاورے کااستعمال‬
‫دیکھئے‬

‫روا رکھونہ رکھو تھا لفظ تکیہ کلام اب اس کو کہتے ہیں اہل سخن‬
‫سخن تکیہ‬

‫روا رکھنا‪:‬‬

‫جائز سمجھنا ‪ ،‬مناسب خیال کرنا ‪ ،‬ضروری سمجھنا ‪ ،‬اہمیت سمجھنا‬

‫میر صاحب اور قائم چاند پوری نے بھی یہ محاورہ استعمال کیا ہے‬
‫گویا غالب کے ہاں پہلی بار ترجمہ سامنے نہیں آیا‬

‫جیتے ہیں جب تلک ہم آنکھیں بھی لڑتیاں ہیں‬

‫دیکھیں تو جور خوباں کب تک روا رکھیں گے (‪ )۵۴‬میر‬

‫جائز سمجھتے ہیں ‪( ،‬یہ وتیرہ کب تک ) اختیار کئے رکھتے ہیں‬

‫روا رکھوں نہ کہ ہووے ملک بھی پاس ترے‬

‫کیا ہے بس کہ محبت نے بدگماں مجھ کو ( ‪ )۵۵‬قائم‬

‫خاطر میں لانا ‪ ،‬حیثیت اور وقعت سمجھنا ‪ ،‬اہمیت ‪ ،‬قدرو قیمت ہونا‬

‫رخصت دینا‪:‬‬

‫فارسی محاورہ ’’ رخصت داشتن ‘‘ کا اردوترجمہ ہے۔ غالب نے‬
‫رخصت دینا کو فارسی مفہوم کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔ اردو میں‬

‫رخصت دینا ‪ ،‬اجازت دینا ‪ ،‬چھٹی دینا (‪ )۵۶‬کے معنوں میں برتا‬
‫جاتاہے۔ غالب کے ہاں ’’ رخصت دینا‘‘ کا استعمال ملاحظہ ہو‬

‫رخص ِت نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم تیرے چہرے سے ہو ظاہر غم‬
‫پنہاں میر ا‬

‫قائم چاند پوری کے ہاں بھی یہ ترجمہ استعمال میں آیا ہے‬

‫کیا گلہ شومئی طالع سے کہ بلبل کے تئیں جن نے دی رخص ِت گلگشت‬
‫ہمیں دام دیا(‪ )۵٧‬قائم‬

‫اب رفعت ‪ ،‬شاگرد حضرت صبہائی کے ہا ں اس محاورے کا استعمال‬
‫دیکھئے‬

‫بہ ذو ِق ناز کودے رخص ِت جفا کہ یہاں‬
‫ہمیں بھی عزم ہے طاقت کے آزمانے کا (‪ )۵۸‬رفعت‬

‫زندگی گذرنا‪:‬‬

‫زندگانی ‪/‬زندگی کردن بمعنی زندگی بسرکرنا فارسی میں عام استعمال‬
‫کا محاورہ ہے۔ اردو میں زندگی کاٹنا ‪ ،‬زندگی بسرکرنا ‪ ،‬زندگانی‬

‫‪/‬زندگی کردن کے معنوں میں بولے جاتے ہیں اور فصیح سمجھے‬
‫جاتے ہیں ۔ زندگی ہونا ‪ ،‬زندگی مکمل ہونے کے لئے پڑھنے سننے‬
‫میں آتا ہے۔عوامی حلقوں میں زندگی بسر کرنا کے لئے بو لاجاتا ہے۔‬
‫یہ محاورہ اردو میں فارسی کے حوالہ سے ترکیب و تشکیل پائے ہیں۔‬

‫غالب کے ہاں اس کا استعمال کچھ یوں ہواہے‬

‫یوں زندگی بھی گذرہی جاتی کیوں تراراہ گزر یا د آیا‬

‫کرنا اور کٹنا مصادر کے ساتھ اِ س محاورے کا غالب سے پہلے‬
‫ترجمہ نظر آتاہے‬

‫کر زندگی ِا س طور سے اے درد جہاں میں خاطر پہ کسو شخص کے‬
‫تو بار نہ ہووے (‪ )۵۹‬درد‬

‫زندگی کرنا بمعنی زندگی بسرکرنا‬

‫جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی زندگی آپ ہی آپ کٹتی ہے (‪ )۶٠‬درد‬

‫زندگی کٹنا بمعنی زندگی بسر ہونا‬

‫خواجہ صاحب نے ایک جگہ زیست کرنا استعمال کیا ہے لیکن تفہیم ’’‬
‫ہوچکا ‘‘ لی ہے۔ گئے کی جگہ ’’ ہیں ‘‘ نظم کرتے تو بات ماضی سے‬

‫حال میں آجاتی ہے عامل کاحذف کلاسیکی دور میں روا رہاہے‬

‫تھاعال ِم جبر کیا بتائیں کس طور سے زیست کرگئے ہم (‪ )۶١‬درد‬

‫میر حسین تسکین شاگرد امام بخش صہبائی ‪ ،‬شاہ نصیراور مومن ‪،‬‬
‫زندگی ہوونا کوزندگی بسر ہونا کے معنوں میں استعمال کیاہے‬

‫زندگی ہووے گی کس طور سے یار ب اپنی دم میں سو بار اگر یوں وہ‬
‫خفا ہووے گا(‪ )۶٢‬تسکین‬

‫قائم چاندپوری کے ہاں عمر گذرنا ‪ ،‬زندگی کردن کے ترجمہ کی‬
‫صورت میں محاورہ استعمال میں آیا ہے‬

‫گذاری اک عمر گرچہ قفس میں ہمیں ‪،‬پہ ہے جی میں وہی ہوائے گل و‬
‫گلستان ھنوز (‪ )۶۳‬قائم‬

‫میر صاحب نے عمر جانا کو زندگی کردن کے مترادف کے طور پر‬

‫نظم کیا ہے‬

‫تما م عمر گئی ا س پہ ہاتھ رکھتے ہمیں وہ درد ناک علی ال ّر غم بے‬
‫قرار رہا (‪ )۶۴‬میر‬

‫غالب کے ہاں عمر کٹنا محاورہ بھی پڑھنے کوملتاہے‬

‫بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں طاق ِت بقد ِر لذت آزار بھی‬
‫نہیں‬

‫قائم چاند پوری نے ( بمعنی گذرنا ) عمر کٹنا کا استعمال کیاہے‬

‫سرت ِہ بال کٹی عمر مری ‪ ،‬بلبل کو قاب ِل سیر مگریہ گل وگلزار نہ تھا‬
‫(‪ )۶۵‬قائم‬

‫شاہ مبارک آبرو نے زندگانی کاٹنا بمعنی زندگی کردن ‪ ،‬برتاہے‬

‫زندگانی تو ہر طرح کاٹی مرکے پھر جیونا قیامت ہے(‪ )۶۶‬آبرو‬

‫زخم کھانا‪:‬‬

‫زخم خوردن فارسی میں زخمی ہونا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔‬
‫اردو میں یہ محاورہ زخمی ہونا ‪ ،‬مجروع ہونا ‪ ،‬صدمہ اٹھانا (‪ )۶٧‬کے‬
‫معنوں میں استعمال ہوتا چلا آتا ہے۔ یہ محاور ہ فارسی سے اردو میں‬

‫وارد ہواہے۔ خوردن کا اردو مترادف مصدر ’’کھانا ‘‘ہے۔ غالب کے‬
‫ہاں اِ س محاورے کا استعمال ملاحظہ ہو‬

‫عشر ِت پارہ ء دل زخم تمنا کھانا عیدنظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا‬

‫خواجہ حیدر علی آتش نے صدمہ کھینچنا بمعنی زخم خوردن برتا ہے‬

‫صدمہ کھینچے نہ ر ِگ کیااثر ہومری آہوں سے بتوں کے دل میں‬
‫سنگ کبھی نشتر کا (‪ )۶۸‬آتش‬

‫میر صاحب کے ہاں زخم جھیلنا اور داغ کھانا بھی استعمال میں آئے‬
‫ہیں‬

‫زخموں پہ زخم جھیلے داغوں پہ داغ کھائے یک قطرہ خون د ِل نے کیا‬
‫کیا ستم اٹھائے (‪ )۶۹‬میر‬

‫ساغر کھینچنا‪:‬‬

‫ساغر کشیدن ‪ ،‬شراب کے پیالے کو دور کردینا ‪ ،‬شراب پینا‬
‫۔ساغرکھینچ ‪ ،‬ساغر کشیدن کا اردو ترجمہ ہے ۔ شراب یعنی مقصد ‪،‬‬

‫بقول غلام رسول مہر‬

‫مقصود کے می ّسر ہونے پر کامل یقین رکھنا ‪ ،‬دام ِن آرزو کبھی نہیں ’’‬
‫)‪‘‘ (٧٠‬چھوڑنا چاہیے‬

‫غالب نے ساغر کشیدن کا ترجمہ ساغر کھینچ کیاہے‬

‫نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظا ِر ساغر‬
‫کھینچ‬

‫سفرہ کھینچ‪:‬‬

‫سفرہ کشیدن کا ترجمہ ’’سفرہ کھینچ‘‘ کیا گیا ہے۔ دسترخوان پر کباب‬
‫کھینچنا یا کباب رکھنا فصیح نہیں ہے۔ کباب رکھنا یا فلاں ڈش رکھنا‬
‫پڑھنے سننے میں آتا ہے تاہم کھینچ یا رکھنا کی بجائے ’’ چننا ‘‘‬

‫امداد ی فعل زیادہ جاندار اور فصیح ہے۔ غالب کا یہ ترجمہ متاثر نہیں‬
‫کرتا۔ شاید اس لئے رواج نہیں پاسکا‬

‫مرے قدح میں ہے صہبائے آتش پنہاں بروئے سفرہ کباب د ِل سمند ر‬
‫کھینچ‬

‫سرگرم کرنا‪:‬‬

‫سرگرم کردن کی اردو شکل غالب کے ہاں ’’سرگرم کرنا‘‘ ہے۔اردو میں‬
‫سرگرمی معروف ہے۔ غالب کے ہاں اکسانے کے معنوں میں سرگرم‬
‫کرنا استعمال میں آیا ہے۔ غلام رسول مہر آمادہ کرنا کے معنوں میں‬
‫لے رہے ہیں ۔ (‪ )٧١‬سر گرم کرنا ‪ ،‬اردو میں رواج نہیں رکھتا ۔‬
‫تیارکرنا‪ ،‬آمادہ کرنا ‪ ،‬جوش دلانا ‪ ،‬قائل کرنا وغیرہ ایسے محاورے ‪،‬‬
‫ضرورت کے مطابق استعمال میں آتے رہتے ہیں‬

‫غالب کے ہاں سرگرم کرنا کا استعمال ملاحظہ ہو‬

‫د ِل نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالب نہ کر سرگرم ا س کافر‬
‫کو الفت آزمانے میں‬

‫شام کا صبح کرنا‪:‬‬

‫شام راسحر کردن کا ترجمہ ہے یعنی انتظا رکرنا ‪ ،‬وقت گذار نا ‪ ،‬وقت‬
‫کا ٹنا ‪ ،‬رات گزارنا ‪ ،‬غالب کایہ ترجمہ برا نہیں لیکن عوامیت کی سند‬

‫حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ غالب کے ہاں ِا س کا استعمال‬
‫دیکھئے‬

‫کاوکا ِو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کالانا ہے‬
‫جوئے شیر کا‬

‫خواجہ درد کا یہ شعر دیکھیں ’’ شام راسحر کردن‘‘ کی بازگشت سنائی‬
‫دیتی ہے‬
































































Click to View FlipBook Version