انسانی مرضی کا عمل دخل ہی نہیں تواس پر اپنی صلاحیتوں کا
استعمال ،نادانی نہیں ؟ حوادث کاڈٹ کر کیوں مقابلہ کیا جائے۔ اس
حوالہ سے ،حساب کتاب اور جوابدہی کا عمل لا یعنی ٹھہرتاہے۔ میر
صاحب تو مختاری کی خبر کو ’’ناحق تہمت ‘‘ کا نام دیتے ہیں
چاہتے ہیں سو آپ ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختار ی کی
)کریں ،ہم کو عبث بدنام کیا(١١
آنکھیں :
آدمی اشیا ء کو آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔ دیکھنے کے حوالہ سے
اس کی رائے اور رویہ بنتاہے۔ ہر قسم کا عمل اور ردعمل دیکھنے
سے تعلق رکھتاہے۔ آنکھوں کو بہت بڑی نعمت کا درجہ دیا جاتاہے۔
دیکھنا ،روشنی کے تابع ہے ۔ روشنی ،اشیاء کو واضح اور نمایا ں
کرتی ہے ۔ انسان کے دماغ میں اعصابی سلسلے آنکھوں کے لئے
زیادہ کام کرتے ہیں اور دماغ کے اعلی ترین دماغی رابطے اسے زیادہ
ذہین بناتے ہیں۔ ()۱۲آنکھ کی معمولی کجی دماغ کے اعلی ترین
رابطوں کی راہ کا پتھر بن جاتی ہے۔ جو عضو بدن اتنا اہم اورحساس
ہو اس کی اہمیت وضرورت سے کیونکر انکار کیا جاسکتاہے۔
انسان اشیاء کو مکمل صاف اور واضح دیکھنے کا ہمیشہ سے متمنی
رہا ہے اور یہ سب اس کے دماغ کی بنیادی ضرورت ہے۔ بصری کار
گزاری کی بہتری کے لئے اس نے خوردبین اور دوربین ایجادکیں۔
فیصلوں میں چشم دید شہادت کو لازمہ اورلوازمہ کی حیثیت حاصل رہی
ہے جسم کے کسی عضو کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ وہ آسودگی
اور حظ کے تمنائی رہتے ہیں لیکن ہر عضو دوسرے عضو پر انحصار
کرتاہے۔ آسودگی اور حظ کے ضمن میں جسم کے تمام عضو’’آنکھوں
‘‘پر انحصار کرتے ہیں ۔ ان کے بغیر وہ اپنی کارگزاری میں (بڑی
حدتک ) معذور رہتے ہیں۔ آنکھوں کی سیرابی ،آسودگی ،حظ اور
استفادہ کسی دوسرے عضو پر منحصر نہیں ہوتا ۔ دوسرے اعضاء
مفلوج ہوجائیں تو بھی ح ِس تمنا زوال کا شکار نہیں ہوتی
رہنے دو ابھی ساغر گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تودم ہے
)و مینا مرے آگے (غالب
غالب کے اس شعر سے انداز ہ ہوتاہے کہ اشیاء کاتصرف ہی حظ فراہم
نہیں کرتا بلکہ انہیں دیکھنے سے بھی تسکین اور آسودگی میسر آتی
ہے۔
اردو غزل میں آنکھوں کا کردار نظر انداز نہیں ہوا کیونکہ یہ ہرہونے
کا بنیادی محرک ہوتی ہیں ۔ ولی وکنی نے آنکھ کے لئے ’’نین ‘‘ کا
لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ اس کاکہنا ہے آنکھ کا حسن ،کائنات کے
حسن کو متاثر کر تاہے
تیری نین کوں دیکھ کے گلشن میں گل بدن نرگس ہو اہے شو ق
)سوں بیمار الغیاث (١۳
ہاتف کے نزدیک آنکھوں کا حسن ،بناوٹ کے حوالہ سے گرویدہ بنا
لیتا ہے
انکھیاں تری اور زلف سے کافر ہوا ساراجہاں اسلام اور تقوی کہاں
) ،زہد اور مسلمانی کدھر(١۴
آفتاب کے نزدیک آنکھیں ،غصے یا پھر مہر نظر کے حوالہ سے تن
من جلا کر رکھ دیتی ہیں
اس شمع روصنم سے ہے میری لگن لگائی تن من مرا جلایا ،ان
)آنکھوں کا بر ا ہو(١۵
میر صاحب کے نزد یک آنکھوں کی پسند پر جسم کا کوئی
عضواعتراض نہیں کرتا بلکہ آنکھوں کی پسند ،سر آنکھوں پر بیٹھاتا
ہے
تو وہ متاع ہے کہ پڑی جس کی تجھ پہ آنکھ وہ جی کو بیچ کر بھی
)خریدار ہوگیا(١۶
آنکھوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ محبوب کی راہ دیکھتی ہیں ۔
محبوب کی آمد سے ،جسم کے ہر اعضا سے پہلے آگاہی پاتی ہیں
۔ہجر کی صور ت میں پورے جسم کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ میر محمود
صابر کی زبانی ملاحظہ فرمائیں
رہیں کل رات کی اب تک جو تجھ رہ میں کھلی اکھیاں انجھوں کے
)جوش سوں گنگا ہو جمنا بہہ چلی اکھیاں(١٧
جہاں یہ فرارکی راہ اختیار کرتی ہیں وہاں غلط اور گنہگار ہونے کا
ثبوت بھی بن جاتی ہیں ۔حمیدہ بائی نقاب کہتی ہیں
وہ کیا منہ دکھائیں گے محشر میں مجھ کو جو آنکھیں ابھی سے
)چرائے ہوئے ہیں(١۸
کسی معاملے یا واقع کا اثر سب سے پہلے آنکھوں پر ہوتاہے۔ اس
ضمن میں غالب کا کہناہے
بات کرتے کہ میں بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا
لب تشنہء تقریر بھی تھا
زندگی کے خاتمے کا اعلان ،آنکھیں کرتی ہیں۔ کہتے ہیں
مندگئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب
!یار لائے مری بالیں پہ اسے ،پر کسی وقت؟
آنکھیں ‘‘ اپنی ضرورت اور اہمیت کے حوالہ سے ’’جوبھی سہی
مختلف انداز میں توجہ کا باعث بنتی ہیں۔
اسیر :
لفظ اسیر گھٹن ،پابندی ،بے چینی اور بے بسی کے دروازے
کھولتا ہے ۔ اس کے ہر استعمال میں پابندی اور گھٹن کے عناصر
یکساں طور پرملتے ہیں ۔ اردو غزل میں بھی یہی حوالے سامنے
آئے ہیں ۔ میر صاحب ’’جہان‘‘ کو تنگ قیدخانہ اور انسان کواس قید
خانے کا اسیر قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالہ سے انہوں نے زندگی کی
گھٹن ،بے چینی ،پابندی اور لاچاری کو واضح کیاہے اور انسان
جیتے جی ایک ہیجان میں مبتلاہے
) مرگیا جو اسی ِر قی ِدحیات تنگ نائے جہان سے نکلا(١۹
قائم چاندپوری کے نزدیک عشرت کا نتیجہ اس ماحول کی اسیری کے
:سوا کچھ نہیں
یہ رن ِگ طائربو ،ہم اسیر ،اے صیاد وہ ہیں کہ جن کاگلوں بیچ
)آشیانا تھا(٢٠
اسیری زلف گرہ گیری ہی کی کیوں نہ ہو آدمی دوسرے مشاغل سے
کٹ جاتاہے ۔ زلف کی اسیری کچھ اور سوچنے نہیں دیتی ۔اس ضمن
:میں غلام علی حیدر ی کا کہناہے
یہ دلی اسیر زلف گرہ گیرہی رہا مجنوں ہمارا بستہ زنجیر ہی
)رہا(٢١
اسیر ’’مرز الطیف علی بیگ سپند غم کی گرفت میں آنے والے کو بھی
‘‘ ہی کا نام دیتے ہیں۔ اسیری سے چار عناصر وابستہ ہیں ۔
١۔ پابندی
دیگر فیلڈز کے دروازے بندہوجاتے ہیں ٢۔
ایک معاملے کے سوا کچھ نہیں سوجھتا ۳۔
بے چینی اور اضطرار کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۴۔
غم پر یہ چار وں عناصر پورے اترتے ہیں۔ گویاغم بھی اسیری کے
:مترادف چیز ہے۔ سپند کاشعر ملاحظہ ہو
ہے اسیر غم کہاں اور کوچہ ء قاتل کہاں یہ معلوم نہیں دلی جاکر ہوا
)گھائل کہاں (٢٢
اسیری بلاشبہ بڑی خوفناک بلا ہے۔ یہ نہ صرف محدود کرتی ہے بلکہ
غلامی مسلط کر دیتی ہے۔ شخصیت کے لئے گھن بن جاتی ہے۔
شخصیت کاتنزل یا جمود ،فکری حوالوں کو کمزور کر دیتاہے۔ فکری
معذوری ترقی اور انسانی اقدار کی موت بن جاتی ہے۔ اسیری ،راہزن
:کے ’’ پانوء دابنے ‘‘ پر مجبور کر دیتی ہے۔ غالب کا کہنا ہے
بھاگے تھے ہم بہت سواسی کی سزا ہے یہ ہوکر اسیر دابتے ہیں
راہزن کے پانوء
انسان:
آدم کی نسل سے متعلق ہر آدمی کوانسان کہاجاتاہے ۔انسان اور آدمی
میں بنیادی فرق یہ کہ آدمی کا شریف النفس ہونا ،مرتبہء کما ِل انسانیت
پر پہنچاتاہے اور ِاسی حوالہ سے وہ ’’انسان ‘‘کہلانے کا مستحق
ٹھہرتاہے ۔ انسان ،نسیان یا انس سے مشتق ہے جبکہ یہ دونوں
مادے اس کے خمیر میں پائے جاتے ہیں۔ جب وہ انس کانمونہ بن
کرسامنے آتاہے توا سے انسان کے نام سے پکار اجاتاہے۔ بصور ت
دیگر اسے آدمی کہنا ہی مناسب ہوتاہے۔ انسا ن کے مرتبے پر فائز
ہونا بلا شبہ بڑاکٹھن گزار ہوتاہے۔ اردو غزل کے شعرا کے ہاں لفظ
’’:انسان ‘‘ بکثرت اور بہت سے حوالوں کے ساتھ استعمال میں آیاہے
میاں محمدی مائل نے ’’انسان‘‘ کے فانی ہونے کے حوالہ سے کہاہے
:کہ انسان کی زندگی کی معیادہی کہاہے ۔ دم آیا آیا نہ آیا نہ آیا
بار کیالگتا ہے انسان کے کچھ تعجب نہیں گر مرگیا مائل تیر ا
)مرجانے کو (٢۳
:امجد کے نزدیک خدا کی ذات انسان میں ملتی ہے
سنتاتھا جسے کعبہ وبت خانہ میں آخر امجد میں اسے حضر ِت انسان
)میں دیکھا(٢۴
خواجہ درد کا موقف ہے کہ خدا کے سب جلوے حضرت انسان میں
:ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں
جلوہ توہر اک طرح کاہرشان میں دیکھا جوکچھ کہ سنا تجھ میں سو
)انسان میں دیکھا(٢۵
ایک دوسری جگہ پر انسان کے خلق کرنے کا مقصددردمندی بتاتے
ہیں
در ِددلی کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ
)تھے ک ّروبیاں (٢۶
میر جگنو ارزاں کے مطابق انسان کے وجود خاکی میں ایک کائنات
پنہاں ہے تام غوروفکر کی ضرورت ہے
زمین وآسماں اور مہر ومہ سب تجھ میں ہیں انساں
)نظر بھر دیکھ مش ِت خاک میں کیاکیا جھمکتا ہے (٢٧
مصطفے علی خان یکرنگ کا کہنا ہے کہ اس حسین پیکر والے کو
محض انسان ہی نہ سمجھ ،یہ اپنی ذات میں کیا ہے ،کھوج کرنے کی
ضرورت ہے
اس پری پیکر کو مت انسان بوجھ شک میں کیوں پڑتا ہے اے دلی
)جان بوجھ (٢۸
حافظ عبدالواہاب سچل کے نزدیک انسان کائنات کا دلداد بننے کے لئے
وجود میں آیا ہے۔ انسان حضرت باری کا گویا تمثالی اظہار ہے
برائے خواہ ِش الفت ہوا اظہار وہ بے چوں اسی دنیا میں وہ دلدار بن
)انسان آیاہے(٢۹
غالب انسان کو کوئی فوق الفطرت وجود نہیں سمجھتے ۔ ان کے
نزدیک یہ مختلف حالتوں اور کیفیتوں سے دوچار ہوتاہے۔اس پر
گھبراہٹ بھی طاری ہوتی ہے
کیوں گرد ِش مدام سے گھبرانہ جائے دلی انسان ہوں پیالہ وساغر
نہیں ہوں میں
انسان کوئی شے نہیں بلکہ محسوس کرنے والی مخلوق ہے۔ حالات کی
گرمی سردی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ تاہم پہم ایک سے حالات سے
بھی ہوجاتاہے اور پھر حالات کے طلاطم کو معمول ) (Adjuestخوگر
سمجھ کر زندگی گزار دیتاہے۔ غالب کے نزدیک آدمی سے انسان بننے
تک ،آدمی کو نہایت کھٹن گزار مراحل سے گزرنا پڑتاہے
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
انسان بننا دشوار سہی ،امکان سے باہر نہیں ۔ اردو غزل کے شعر ا
نے انسان سے متعلق جو نقشہ پیش کیا ہے وہ بڑا دلکش اور پرکشش
ہے۔ آدمی کے اندر انسان بننے کی خواہش ابھرتی ہے لیکن جب یہ
شدت اختیار کرتی ہے تو اعتبار میں اضافہ ہوتاچلا جاتاہے۔ اعتبار جب
معتبر ہوجاتاہے تو انسان اپنے خالق سے جاملتاہے ۔ گویا اعتبار،
انسان کو آدمیوں میں محترم ٹھہراتاہے۔
اک شخص:
اک‘‘ کا ’’لفظ ’’شخص‘‘ کے حوالہ سے کوئی رویہ سامنے نہیں آتا ۔
سابقہ اسے عمومی سے خصوصی کا درجہ عطا کرتاہے۔ وہ شخص کو
ن ہے ،ظاہر نہیں ہوتا لیکن اس کی کارگزاری اسے محترم اور منفر د
اک ‘‘ سے متعلق سیا ق وسباق اس کے کر دار کو ’’کر دیتی ہے۔
واضح کرتے ہیں ۔غالب کا ’’اک شخص ‘‘ کردار ی حوالہ سے بڑا اہم
ہے۔ اس کے نہ ہونے سے زندگی غیر متحرک ہوجاتی ہے۔ وہ تھاتو
خیالات میں جولانی تھی رعنائی تھی