دور دراز کے علاقوں میں پیغام پہنچانے کے لئے تیسرے شخص ٢۔
کی خدمات حاصل کی جائیں
اردو غزل میں اس فریضے کو سرانجام دینے والے کو نامہ بر کہا
گیاہے۔ لفظ نامہ بر سنتے ہی کسی اچھی یا بری خبر کے لئے ذہنی
طور پر تیار ہونا پڑتا ہے۔ وزیر نے پیغام لانے والے کو نامہ بر کا نام
دیاہے
بوے ان مرغوں کا ڈربا کھل خط پہ خط لائے جومرغ نامہ بر
گیا( )١۵۳وزیر
غالب نے نامہ بر کو مختلف زوایوں سے ملاحظہ کیاہے
کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کایہ حال
نامہ بر لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
وہ جو پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جائے لیکن پیغام
کوپڑھ کر بددیانتی کا ارتکاب کرے
ہولئے کیو ں نامہ بر کے ساتھ ساتھ یارب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا
پیغام لے کر جانے والے پرراز داری کا بھروسہ نہیں
وعظ:
انسانی سماج کا بڑا مضبوط اوراہم کردار رہاہے ۔ لوگوں کو
نیکی پر لگانے اور بدی سے ہٹانے کے لئے اپنی سی کوشش
کرتارہاہے ۔ ایسی بھی باتیں کرتارہاہے جن کا عملی زندگی میں کوئی
حوالہ موجو د نہیں رہاہوتا۔ فرداکے حسین سپنے دکھاتاآیاہے ۔ لفظ
واعظ ایک ایسے شخص کا تصور سامنے لاتاہے جوخوف وہراس
پھیلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اسے نیکی کی اشاعت کانام دیتا
ہے۔ وہ اپنی پسند کی نیکی ()۱۵۴پھیلانے کی ٹھانے ہوتاہے ۔ دھواں
دھار تقریریں کرتاہے ۔ ایسی باتیں بھی کہہ جاتاہے جن پر وہ خود
عمل نہیں کر رہاہوتا یا ان پر انجام دہی کے حوالہ سے معذور ہوتاہے۔
یہ لفظ خشک ،سٹریل ،بدمزاج او رضدی قسم کا شخص سامنے لا
کھڑا کرتاہے ۔ اس کردار سے ملنے کا شوق پید انہیں ہوتا بلکہ اس
کی بے عمل ،خشک اور خلائی گفتگو سے بچ کر نکلنے کی سوجھتی
ہے۔ اس کردار سے متعلق اردو شاعر ی میں بہت سے زاویے اور
حوالے موجو دہیں۔مثلاا
ہمیں واعظ ڈراتا کیوں ہے دوزخ کے عذابوں سے
معاصی گوہمارے بیش ہوں کچھ مغفرت کم ہے( )١۵۵بہار
ڈر ،خوف اور ہرا س پھیلانے والا
جب اصل مذاہب کو واعظ سیتی ہم پوچھا
تب ہم سے کہنے لگا قصہ وحکا یاتیں ()١۵۶میر محمد حسن کلیم
غلط سلط اور غیر متعلق باتیں کرنے والا ۔ دوسرے لفظوں میں علم و
دانش سے پیدل۔ الٹے سیدھے قصے سنا کر لوگوں کومخمصے میں
ڈالنے والا اور پنے بہترین نالج کاسکہ بٹھانے کی کو شش کرنے والا
واعظو ،آت ِش دوزخ سے جہاں کو تم نے
یہ ڈرایا کہ خود بن گئے ڈر کی صور ت ()١۵٧الطاف حسین حالی
لوگوں میں آخرت کے عذاب کے حوالہ سے اس قدر خوف ہراس پیدا
کرنے والا کہ لوگ اس سے ملنے سے بھی خوف کھانے لگیں ۔
ویسے تومیری راہوں میں پڑتے تھے میکدے
واعظ تری نگاہوں سے ڈرنا پڑا مجھے ()١۵۸آشا پر بھات
غالب کا اپنا ڈھنگ ہے۔ واعظ کے کہے پر حیران نہیں ہوتے بلکہ بڑا
عام لیتے ہیں
خلد بھی باغ ہے خیر آب وہوا کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے واعظ
اورسہی
یار:
یار بڑا عام سا لفظ ہے اور ہمارے ہاں بہت سے معنوں میں استعمال
ہوتاہے مثلاا گہر ادوست ،لنگوٹیا ،مددگار،تعاون کرنے والا ،برے وقت
میں کام آنے والا ،دوستوں کا دوست ،نبھا کرنے والا ،بازاری معنوں
میں کسی عورت کا عاشق وغیرہ ۔ یہ لفظ تسکین کا سبب بنتا ہے۔
ہمت بند ھ جاتی ہے اور امداد ملنے کا احساس جاگ اٹھتا ہے ۔
اعصابی تناؤ کم ہو جاتا ہے۔
غالب کے ہاں یار ،ہمددر کے معنوں میں استعمال ہواہے
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب یا ر لائے مری بالیں پہ
اسے ،پر کس وقت
ہمددر اور جگر ی دوست جو یار کو خوش رکھنے کو بگڑے ،ناراض ،
ضدی اوراڑیل کو بھی مناکر دوست کے در پر لے آئیں ۔
مولاناعبدی نے حضور ﷺ کے لئے یار کا لفظ استعمال کیاہے
جن دیا یا رصد ق سوں سوے اللہ مولا پاک ہے جو جگ سرجن ہار
اترے پار()١۵۹مولانا عبدی
قزلباش خاں امید ؔ نے گھر کے محبوب ترین فرد کے لئے اس لفظ کا
انتخاب کیا ہے
یار بن گھر میں عجب صحبت ہے درودیوار سے اب صحبت ہے ()١۶٠
امید
شاہ مبارک آبرو نے محبوب کے لئے استعمال کیا ہے جو پیار ،محبت
اور شوق کو فراموش کر دیتاہے۔ اس طرح انہوں نے محبوب پیشہ
لوگوں کا وتیر ا اورعمومی رویہ اورچلن کھول کر رکھ دیا ہے
وہ شوق وہ محبت افسو س ہے کی مجھ کو وہ یا ربھول جائے
وہ پیار بھول جائے( )١۶١شاہ مبارک آبرو
عبدالحی تاباں کے نزدیک جس کے بنا دلی بے چین وبے کل رہے
نہ یار آیا نہ صبر آیا بہت چاہا کہ آوے یار یا اس دلی کو صبر آوے
دیا جی میں نداں اپنا ( )١۶٢تاباں
میر علی اوسط رشک کے نزدیک ایسا دوست جس کی محبت ،چاؤ اور
گرمجوشی سے تہی ہو
یار کو ہم سے لگاؤ نہیں وہ محبت نہیں وہ چاؤنہیں ( )١۶۳رشک
قدیم اردو شاعری میں یہ لفظ زیادہ تر محبوب /معشوق کے لئے
استعمال ہواہے۔
لوگ:
لوگ ،عام استعمال کالفظ ہے ۔فردواحد کے لئے نہیں بولا جاتا ۔ اس
لفظ کے ساتھ کوئی کردار مخصوص نہیں ۔ کوئی ساکر دار اس لفظ کے
ساتھ منسلک ہوسکتاہے۔ اس لفظ کے حوالہ سے سر زد ہونے والے
افعال سابقوں اور لاحقوں سے وابسطہ ہوتے ہیں ۔ غالب ؔ کے ہاں
اس کر دار کی کار فرمائی ملاحظہ ہو
جومے و نغمہ کو اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
اندوہ ربا کہتے ہیں
سید ھے سادھے ،بھولے ،بیووقوف جن کانالج در ست نہیں
لفظ لوگ پہلے ہی جمع کے لئے استعمال ہوتاہے۔غالب ا س کی جمع
بھی استعمال میں لائے ہیں
ہر روز دکھاتاہوں میں اک لوگوں کو ہے خورشی ِد جہاں تاب کا دھوکہ
داغ نہاں اور
ناظرین جوغلط فہمی یا دھوکے میں ہوں ۔ کسی کا م یا تماشے کے
لئے ناظر ین کلیدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ ورنہ کارکر دگی کے
متعلق منفی یا مثبت رائے کون دے گا۔
شیخ جنید آخر کو واپس پھرنے والا ،اس لفظ کا کردار متعین کرتے
ہیں
نہ کس مونس بوددیگر نہ بھائی باپ مہتاری تراگھر گوربسیار ند پھر
کر لوگ گھر آوے ( )١۶۴شیخ جنید
میر ؔ صاحب کے ہاں بطور جمع استعمال ہواہے
آگے جواب سے ان لوگوں کے بارے معافی اپنی ہوئی
ہم بھی فقیر ہوئے تھے لیکن ہم نے تر ِک سوال کیا ( )١۶۵میر ؔ
کے سابقے کی بڑھوتی سے کچھ جمع کردار ‘‘اہل ’’غالب ؔ کے ہاں
تشکیل پائے ہیں ۔ان کرداروں کے حوالہ سے کچھ نہ کچھ ضرور
وقوع میں آتاہے ۔ نمونہ کے تین کردار ملاحظہ ہوں۔
اہل بینش :
دانشور حضرات کا زوایہء نظر دوسروں سے ہمیشہ مختلف رہاہے اور
یہ طبقہ معاشروں کے وجود کے لئے دلیل وحجت رہاہے ۔ غالب کے
ہاں اس طبقے کا کردار بڑی عمدگی سے واضح کیا گیاہے۔ یہ طبقہ
حوادث سے سبق سیکھتا ہے اور ان حوادث کے حوالہ سے تنگ
حالات میں بھی راہیں تلاشتا رہتاہے
اہل بینش کو ہے طوفان حوادث مکتب لطمہء موج کم ازسیلی استاد
نہیں
کسی بھی قسم کی تمنا کرنے /رکھنے والا طبقہ ،ہمیشہ اہل تمنا:
سے انسانی معاشروں میں موجود رہاہے ۔ غالب نے اس طبقے کے
کردار کو کمال عمدگی سے پینٹ کیاہے ۔ محبوب کا جلو ہ جو اہل تمنا
کو فنا کردے۔ یہ اہل تمنا کی انتہائی درجے کی عیاشی میں شمار
ہوتاہے
عشر ِت قتل گ ِہ اہل تمنامت پوچھ عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
اہل ہمت :
اہل ہمت کا ہونا کسی معاشرے کے ہونے کی گرانٹی ہے ۔غالب بڑے
پائے کی بات کہہ رہے ہیں۔کائنات کی ان گنت چیزیں آزاد ہیں اور
انسانی تصرف میں نہیں ہیں۔ اگر اہل ہمت موجو د ہوتے تو یہ آزادنہ
ہوتیں۔انسان انہیں کھا پی گیا ہوتا۔ اہل ہمت کے ظرف کا بھلاکون
اندازاہ کر سکتا ہے۔ مثال یہ دیتے ہیں مے خانے میں شراب باقی ہے
تویہ اس امر کی دلیل ہے کہ میخوا ر موجود نہیں ہیں۔ شعر دیکھئے
رہا آبادعالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے بھر ے ہیں جس قدر جام و
سیو میخانہ خالی ہے
اہل ‘‘ سے ترکیب پانے والے الفاظ /کردار اپنی ذات میں حد درجہ ’’
جامعیت رکھتے ہیں ۔انسانی فکر کو حرکت اوربالیدگی سے سرفراز
کرتے ہیں۔
غالب نے کچھ مرکب الفاظ سے کردار تخلیق کئے ہیں ۔ مثلاا پری وش
،پری پیکر ،بہشت شمائل وغیرہ ۔ یہ کردار محبوب سے متعلق ہیں ۔
یہ محبوب کی شوخی ،نازو نخرا ،حسن وجمال اداؤں وغیرہ کو اجاگر
کرتے ہیں۔ یہ کردار غالب کے ذو ِق جمال کا بڑاعمدہ نمونہ ہیں ۔مثلاا
نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے
کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
ضمائر:
میں ،مجھ ،مجھے ،میرا ،میری ،میرے ایسی ضمائر ہیں
جو شخص کی اپنی ذات سے متعلق ہوتی ہیں ۔ یہ بھی کہنے والے
کے ماضی الضمیر سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کی نقل وحرکت اور
کارگزاری انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہے۔جب کوئی شخص اپنی
کہنے لگتاہے توان ضمائر کا استعمال کرتاہے۔ اس ضمن میں دوتین
:مثالیں بطو رنمونہ ملاحظہ ہوں
میں نے روکا رات غالب ؔ کو وگرنہ دیکھتے اس کے سی ِل گریہ میں
گردوں کف سیلاب تھا
میں ‘‘ کا کردار بڑا توانا ہے اس کے حوالہ سے خطرناک صورتحال ’’
کا خطرہ ٹل جاتا ہے
نہ سمجھوں اس کی باتیں گونہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے کہ
مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
مجھے کیا بر کہوں کس سے میں کہ کیا ہے ش ِب غم بری بلا ہے
اتھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
تو ،تجھ ،تم ،تیرا ،تیرے اس ،آپ ،وہ وغیرہ کے حوالے سے بعض
افعال کی وقوع پذیری سامنے لاتے ہیں۔مثلاا
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے لے آئیں گے بازار سے
جاکر دلی وجاں اور
وہ آرہا مرے ہمسایہ میں تو سائے سے ہوئے فدا درودیوار پر
دردیوار
حواشی
البقر٢ ۳۶:۔ البقر١ ۳۴:۔
دیوان ۴۔ دیوان درد ،مرتب خلیل الرحمن داؤ دی ،ص۳ ٢١۸۔
درد،ص ١٧۵
کلیات قائم،مرتب اقتدار حسن ،ص ۵ ۸١۔ دیوان درد ،ص ۶۔
٢٠٧
سندھ ۸۔ کلیات سودا ج ا ،مرزا محمد رفیع سودا ،ص٧ ٢٠۸۔
میں ارد وشاعری ،مولف ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ ،ص١٠۸
دیوان درد ،ص١٠ ١۵١۔ دیوان درد،ص ۹ ٢٠۶۔
١٢۔ کلیات میر ج ا ،مرتب کلب علی خاں فائق ص١١ ١٠١۔
نفسیات ،حمیر اہاشمی وغیرہ ،ص ١۴۹
تذکرہ ١۴۔ کلیات ولی ،نو ر الحسن ہاشمی،ص١۳ ١٢۵۔
مخزن نکات ،قائم چاند پوری ،ص ٢١
شاہ عالم ثانی آفتا ب احوال و ادبی خدمات ،ڈاکٹر محمد خاور ١۵۔
جمیل ،ص ٢٠۶
سندھ میں ارد وشاعری١٧ ،۔ کلیات میرج ا ،ص ١۶ ١٢٧۔
ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ ،ص ۳۵
کلیات ١۹۔ تذکرہ بہار ستان ناز ،کلیم فصیح الدین ،ص ١۸ ۴۔
میرج ا،ص ١٢۸
کلیات قائم ج ا ،ص ٢٠ ٢٠۔
تذکرہ حیدری ،مولف حیدر بخش حیدری ،مرتبہ ڈاکٹر عبادت ٢١۔
بریلوی ،ص ٧٢
٢۳۔ تذکرہ خو ش معرکہ زبیا ج ا ،سعادت ناصر خاں ،ص ٢٢ ۴۴٢۔
تذکرہ مخز ِن نکات ،قائم چاند پوری ،مرتب ڈاکٹر اقتدار حسن
،ص ١۸١
دیوان درد ،ص ٢۵ ١۴٢۔ تذکرہ حیدری ،ص ٢۴ ۴۶۔
تذکرہ حیدری ،ص ٢٧ ۴٧۔ دیوان درد ،ص ٢۶ ١٧٧۔
٢۹۔ تذکرہ حیدری ،ص ٢۸ ١٢۳۔ سندھ میں ارد وشاعری،
ص ۸۵
موح رواں ۳١۔ روشنی اے روشنی ،شکیب جلالی ،ص ۳٠ ۴۸۔
،قمرساحری ،ص ١۶۹
۳۳۔ موج رواں ،ص ۳٢ ١٧١۔ سند ھ میں ارد وشاعری ،ص
۸۹
دلی ۳۵۔ دلی کا دبستان شاعری ،نور الحسن ہاشمی ،ص ۳۴ ١۶۵۔
کا دبستان شاعری ،ص ۳۸١
دلی کا دبستان شاعری ،ص ۳۶ ۳۵۹۔ دلی کا دبستان ۳٧۔
شاعری ،ص ١۴۳
دلی کا دبستان شاعری ،ص ۳۸ ٢۴۴۔ دلی کا دبستان ۳۹۔
شاعری ،ص ١٠۵
دلی کا دبستان شاعری ،ص ۴٠ ١۹۴۔ سند ھ میں اردو ۴١۔
شاعری ،ص ۶۹
سند ھ میں اردو شاعری ،ص ۴٢ ٧٠۔ تذکرہ مخز ِن ۴۳۔
نکات ،ص ١١٧
۴۵۔ دیوان درد ،ص ۴۴ ١۸۹۔ دیوان مہ لقا بائی چندا ،مرتب
شفقت رضوی ،ص ١٢٧
دیوان حالی۴٧ ،۔ سندھ میں ار دو شاعری ،ص ۴۶ ٧۹۔
خواجہ الطاف حسین حالی ،ص ۳۶
تذکرہ خو ش ۴۹۔ دلی کا دبستان شاعری ،ص ۴۸ ١۶۵۔
معرکہ زیباج ،٢ص ۳۴٢
تذکرہ حیدری ،ص ۵١ ۵١۔ تذکرہ حیدری ،ص ۵٠ ۶٧۔
دلی کا دبستان شاعری ،ص ۵٢ ١۶۴۔ کلیات سودا ج ا۵۳ ،۔
ص ٧٠
تذکرہ حیدری ،ص۵۵ ١١۸۔ تذکرہ حیدری ،ص ۵۴ ١٠۹۔
دیوان جہاں دار۵٧ ،۔ تذکرہ خو ش معرکہ زیباج ا ،ص ۵۶ ١۹۸۔
مرتب ڈاکٹر وحید قریشی ،ص ۸٧
۵۹۔ تذکرہ خوش معرکہ زیباج ،١ص۵۸ ٢۸۶۔ کلیا ِت میر ج
ا،ص ١٢٠
تذکرہ حیدری ،ص ۶١ ۶۸۔ کلیا ت قائم جلد ،١ص۶٠ ٢۸۔
پنجاب میں ۶۳۔ دلی کا دبستان شاعری ،ص ۶٢ ۳۵۳۔
اردو ،حافظ محمود شیرانی ،ص ١۳۹
۶۵۔ تذکرہ مخز ِن نکات ،ص ۶۴ ١۳۹۔ کلیات ولی ،ولی
دکنی ،ص ۵٧
تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ۶٧۔ تذکرہ حیدری ،ص ۶۶ ۹۵۔
جلد ،١ص ٢١
۶۹۔ تذکرہ مخز ِن نکات ،ص ۶۸ ۶٢۔ سند ھ میں اردو شاعری،
ص ٧٠
٧١۔ نفسیات ،ص ٧٠ ۵۵١۔ نوائے سروش ،غلام رسول مہر
،ص ٢٧
دلی کا دبستان شاعری ،ص ٧٢ ١٠۴۔ دلی کا دبستان ٧۳۔
شاعری ،ص ١۶۵
دلی کا دبستان شاعری ،ص ٧۴ ٢۹٧۔ سندھ میں اردو ٧۵۔
شاعری ،ص ١۸
دلی کا دبستان شاعری ،ص ٧۶ ٢۹۸۔ دلی کا دبستان ٧٧۔
شاعری ،ص ١۶۵
دیوان درد ،ص ٧۸ ١۶۹۔
روح المطالب فی شرح دیوا ِن غالب ،شاداں بلگرامی ،ص ٧۹۔
سندھ میں ۸١۔ دلی کا دبستان شاعری ،ص ١۸٧۸٠ ١۵٢۔
اردو شاعری ،ص ۹٢
دیوان مہ لقابائی چندا،ص ۸۳ ١۳٢۔ دیوان درد ،ص ۸٢ ١۳٢۔
اردو ئے قدیم ،ص ۸۵ ١٢۹۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ۸۴ ۴۵۔
۸٧۔ اردوئے قدیم ،ص ۸۶ ٢٧۹۔ سندھ میں اردو شاعری،
ص ۳٢
دلی کا دبستان شاعری ،ص ۸۸ ١٠١۔ دلی کا دبستان ۸۹۔
شاعری ،ص ١۹۳
دلی کا دبستان ۹١۔ دلی کادبستان شاعری ،ص ۹٠ ١۵١۔
شاعری ،ص ١۹۳
دلی کا دبستان شاعری ،ص ۹٢ ١۹۳۔ سند ھ میں ارد ۹۳۔
وشاعری ،ص ۸١
دلی کا دبستان شاعری ،ص ۹۴ ١۴٧۔ کلیات سودا ج ا۹۵ ،۔
ص١٧۹
سندھ میں ارد ۹٧۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ۹۶ ١۹۔
وشاعری ،ص ٢۵
۹۹۔ تذکرہ بہار ستان ناز،ص ۹۸ ١۹٢۔ دیوا ِن حالی ،ص
١٠۳
پوشیدگی ،راز ،مخفی معاملات ١٠٠۔
روح المطالب فی شرح دایو ِن غالب ،شاداں بلگرامی ،ص ١٠١۔
١۸٢
سند ھ میں اردو ١٠۳۔ اردوئے قدیم ،ص ١٠٢ ۳۴۶۔
شاعری ،ص ۴۸
دلی کا ١٠۵۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ١٠۴ ١٢۳۔
دبستان شاعری ،ص ١۵٢
اردوئے ١٠٧۔ دلی کا دبستان شاعری ،ص ١٠۶ ١٢۳۔
قدیم ،ڈاکٹر محمد باقر،ص ١۵۳
پنجاب میں ١٠۹۔ بیان غالب ،آغا باقر ،ص ١٠۸ ١۶۵۔
اردو ،حافظ محمو د شیرانی ،ص ٢١٠
دلی کا دبستان ١١١۔ اردوئے قدیم ،ص ١١٠ ۳۳٧۔
شاعری ،ص ١٢۸
کلیات ١١۳۔ دلی کا دبستان شاعری ،ص ١١٢ ١۴۵۔
سودا ج ا ،ص ١١۹
تذکرہ مخز ِن ١١۵۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ١١۴ ۸١۔
نکات ،ص ١۶
اردوئے قدیم ،ص ١١٧۔ تذکرہ مخز ِن نکات ،ص ١١۶ ٢۴۔
١٢۸
١١۹۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب ،ص ١١۸ ١٠۵۔
دیوان درد،ص ٢٠١
دلی کا دبستان شاعری ،ص ١٢٠ ١۴١۔ کلیا ِت قائم ١٢١۔
ج ،١ص ٢۳٠
سندھ میں اردو ١٢۳۔ تذکرہ حیدری ،ص ١٢٢ ١٠١۔
شاعری ،ص ۹۵
تذکرہ حیدری ،ص ١٢۵۔ پنجاب میں اردو ،ص ١٢۴ ٢۳۸۔
۸۸
دلی کا دبستان ١٢٧۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ١٢۶ ۳۴۔
شاعری ،ص ٢٠۸
دیوان درد ،ص ١٢۹۔ دیوان مہ لقابائی چندا ،ص١٢۸ ١٢٢۔
٢٠۵
اردوئے قدیم ،ص ١۳١۔ پنجاب میں اردو ،ص ١۳٠ ٢٠٠۔
١۶۵
دلی کا دبستان شاعری ،ص ١۳٢ ١۵١۔ دیوان ١۳۳۔
حالی ،ص ۸۴
تذکرہ مخزن نکا ت ،ص ١۳۴ ۸۴۔ دلی کا دبستان ١۳۵۔
شاعری ،ص ۳۸۸
پنجاب میں اردو ١۳٧۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ١۳۶ ۸۶۔
،ص ۳١۵
اردوئے قدیم١۳۹ ،۔ اردوئے قدیم ج ،٢ص ١۳۸ ١۳۹۔
ص ۳٠۶
دلی کا ١۴١۔ دلی کا دبستان شاعری ،ص ١۴٠ ١۵۴۔
دبستان شاعری ،ص ۳۳٧
دلی کا دبستان ١۴۳۔ پنجاب میں اردو ،ص ١۴٢ ١۶۴۔
شاعری ،ص ١۴۶
سندھ میں اردو ١۴۵۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ١۴۴ ۶۸۔
شاعری ،ص ١۵۹
دیوان مہ لقابائی چندا ،ص ١۴۶ ۹٧۔
١۴۸۔ ١۴٧۔
١۵٠۔ ١۴۹۔
١۵٢۔ ١۵١۔
١۵۴۔ ١۵۳۔
١۵۶۔ ١۵۵۔
١۵۸۔ ١۵٧۔
١۶٠۔ ١۵۹۔
١۶٢۔ ١۶١۔
١۶۴۔ ١۶۳۔
١۶۶۔ ١۶۵۔
١۶۸۔ ١۶٧۔
١٧٠۔ ١۶۹۔
-باب نمبر3
تلمیحات غالب کی شعری تفہیم
تلمیح کے لغوی معنی رمز اوراشارہ کے ہیں لیکن شعری اصطلاح میں
کسی تاریخی واقعہ ،مذہبی حکم ،لوک داستانی کردار وغیرہ کو اس
انداز سے نظم کیاجائے کہ شعر کا مضمون پرلطف اورزوردار ہوجائے۔
اس میں دو ایک الفاظ کو استعمال میں لایا جاتاہے۔ ان کو پڑھتے ہی
پورا واقعہ ،قصہ ،معاملہ یاحکم وغیرہ قاری کے ذہنی گوشوں میں
متحرک ہوکر قاری کے سوچ کو شعر میں موجود مضمون میں گم
کردیتا ہے ۔ تلمیح کو حس ِن شعر کادرجہ حاصل ہے۔ شعر میں تلمیح
سے متعلقہ لفظ یا الفاظ کو جونئے اور مخصوص مفاہیم ملتے ہیں اس
سے ہی انہیں اصطلاح کا درجہ حاصل ہوتاہے۔
عربی ،فارسی اور برصغیر کی زبانوں میں تلمیح کا استعمال بڑا عام
ہے اور اسے شعری زبان کا جز سمجھا جاتا ہے۔ اردو غزل نے تلمیح
کی شعری افادیت سے کبھی منہ نہیں موڑا ۔ اردو کے چھوٹے بڑے
شاعر کے ہاں ا س کے استعمال کا رواج ملتا ہے۔غالب سیاسی و
سماجی زوال اور فکری جدّت کے کناروں کے بیچ زندگی بسرکررہے
تھے۔ انہوں نے اپنی فکری پرواز کے اظہار کے لئے تلمیح کی شعری
افادیت سے بڑھ چڑھ کر فائدہ اٹھایا ۔ ان کے ہاں اس کے استعمال کی
متعدد صورتیں ملتی ہیں
روایت سے ہٹ کر مفاہیم میں استعمال کرتے ہیں *
عام بات ،واقعے یا معاملے کوخاص کا درجہ حاصل ہوجاتاہے *
تقابلی صورت پیدا کرکے قاری کے سوچ میں ہلچل مچانے کے *
لئے بطور ہتھیار کام میں لاتے ہیں
تشبیہاا استعمال کرتے ہیں *
جس پر حیرت کی جاتی رہی تھی ،کو عام اورمعمولی قراردے کر *
اس سے بڑھ کر کسی طرف راغب کرتے ہیں
بطورطنز استعمال کرتے ہیں *
تلمیح کے حوالہ سے استحقاق کا مسئلہ اٹھاتے ہیں *
مسترد کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کرتے ہیں *
کمز ورکو اس کی بعض خصوصیات کے تناظر میں برتر ثابت *
کرنے کے لئے تلمیح کا استعمال کرتے ہیں
پیروی کے روائتی پیمانے اور چال کو تلمیح کے تیشے سے *
کاٹتے ہیں
اظہار برتری کے لئے تلمیح کو کام میں لاتے ہیں *
کسی سماجی معاملے کی وضاحت کے ضمن میں استعمال کرتے *
ہیں
کسی کردار کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کے باب میں تلمیح ان *
کے کام آتی ہے
اگلے صفحات میں غالب کی غزل میں استعمال ہونے والی بعض
تلمیحات کی شعری تفہیم کی گئی ہے۔ جن میں درج بالا عناصر کی
کسی نہ کسی حوالہ سے (تلمیح کی) بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ان
معروضات کے حوالہ سے غالب کے قاری پر نہ صرف غالب کی فکر
کے نئے گوشے وا ہوں گے بلکہ معلومات کی فراہمی کے باعث
مطالعہء غالب کا پہلے سے زیادہ حظ اٹھایا جاسکے گا۔ اس ضمن میں
اساتذۂ شعر کے کلام سے متعلقہ شعری اسناد بھی درج کر دی گئی ہیں
آب بقا *
ایسا پانی جس کے پینے سے دائمی زندگی می ّسر آتی ہو۔ فارسی
روایات کے مطابق ظلمات میں ایک چشمہ بہتا ہے جس کے پانی میں
یہ تاثیر ہے جو اسے پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرتا ہے ۔
مشہور ہے اس کا پانی حضرت خضر نے پی رکھا ہے اور عمر جاوداں
رکھتے ہیں۔ وہ تمام دریاؤں اور چشموں کے نگران ہیں۔ بھولے
بھٹکے مسافروں کی راہنمائی بھی کرتے ہیں( )١ہندوروایات کے
مطابق دیوتاؤں اور رکھشسوں نے مل کر سمندر کی تہوں میں سے آب
حیات حاصل کیا ۔ دیوتاؤں نے چھل سے یہ پانی پی لیا جبکہ رکھشس
محروم رہے ۔یہی وجہ ہے کہ دیوتا حیات جاوداں رکھتے ہیں ۔ اسے
آ ِب حیات اور آ ِب حیواں کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ اردو غزل کے شعراء
نے اس تلمیح کو مختلف انداز اور حوالوں سے نظم کیا ہے ۔ مثلاا
ذوق اس کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور آ ِب بقاسے متعلق
روائتوں کومحض قصہ کہانیاں قراردیتے ہیں
کہانیاں ہیں حکایا ِت خضر وآب بقا بقاکاذکر ہی کیا اس جہان فانی
میں( )٢ذوق
ذوق کا دعوی قرآن کی اس آیت قل من علیھا فان ( )۳سے استوار ہے۔
ایک دوسرے شعر میں ان کاانداز بڑاجارحانہ اور تضحیک آمیز ہوگیا
ہے
جولذت آشنائے مرگ ہوتا خضر تو وہ بھی نہ پیتا آب حیواں ،ڈوب
جاتا مرتا آب حیواں میں ( )۴ذوق
ظفر چشمہ خضر کو محض خوش بیانی کا نام دیتے ہیں
اے سکندر نہ ڈھونڈ آ ِب حیات چشمہء خضر خوش بیانی ہے ()۵
ظفر
میر صاحب ’’آ ِب حیوان‘‘ کو ایک دوسرے زاویہ سے دیکھ رہے ہیں۔
آب انسان ( )۶اپنی حیثیت میں بڑی اعلی اورکام کی چیز ہے ۔ نس ِل
آدمی کا اسی پرانحصار ہے ۔ اگر یہ ختم ہوگیا یا اس میں کسی قسم کی
کمزوری یاکجی پیدا ہوگئی تو آدمی باقی نہ رہے گا ۔ اپنی حقیقت میں
آ ِب حیات‘‘ہے اسی کے سبب انسان زمانے میں باقی ہے۔ شعر ’’یہی
کہیں نسل آدمی کی اٹھ نہ جاوے اس زمانے میں ملاحظہ فرمائیے
کہ موتی آب حیواں جانتے ہیں اب انساں کو ( )٧میر
غالب کے ہاں اس تلمیح کا استعمال بالکل الگ سے انداز کاحامل ہے
مجھ کو وہ دوکہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اورسہی آ ِب بقا اور سہی
ہمیشگی تو موت کے بعد کی زندگی کو حاصل ہے ۔ محبوب کے لئے یا
محبوب کے ہاتھوں مرنا لایعنی اور معمولی عمل نہیں۔اس حوالہ سے
مرنے والے کب مرتے ہیں۔ اس طرح محبوب کادیا ہوازہر ’’ آب بقا‘‘ کا
درجہ رکھا ہے۔ دوسراتِل ِتل مرنے سے ایک بار مرنا کہیں بہتر ہے
۔اس زاویہ نظر سے زہر’’ آ ِب بقا‘‘ ٹھہرتا ہے ۔
آدم کا خلد سے نکلنا *
تخلیق آدم کے بعد جنت کو حضرت آدم اور ان کی زوجہ حضرت حوا
کا ٹھکانہ قراردیا گیا ساتھ میں یہ کہہ دیا گیا کہ ’’شج ِرممنوعہ‘‘ کے
قریب تک نہ جانا ورنہ ظالموں میں ٹھہروگے ۔ حضرت آدم کی بیوی
حوا نے شیطان کے بہکاوے میں آکر شجر ممنوعہ کا پھل کھالیا اور
آدم صفی اللہ علیہ السلام کو بھی کھلا دیا۔ اس بشری بھول کے نتیجہ
میں انہیں جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا گیا ( )۸قرآن کے علاوہ
اس معاملے کا بائیبل کے عہد نامہ جدید کے پہلے صحیفے’’ پیدائش‘‘
)میں ذکر ملتا ہے (۹
چھوٹوں کی غلطیوں پر عموماا بڑوں کو شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے ۔
چھوٹے بھی اس کیفیت سے گزرتے ہیں ۔ ولی ؔ لغز ِش آدم کولغز ِش
بنی نوع انسان پر محمول کر رہے ہیں اور اس پرنادم ہیں
ہم کووو شفی ِع محشر دیں پناہ بس ہے شرمندگی ہماری عذ ِر گناہ بس
ہے ( )١٠ولی
خوجہ درد کے نزدیک عباد ت ریاضت ’’گنا ِہ آدم‘‘ کا ثمرہ ہے ۔ اس’’
گناہ ‘‘ کو دھونے کے لئے آدمی متواتر عبادت کی راہ اختیار کئے
ہوئے ہے
سب طفی ِل گنا ِہ آدم ہے ( )١١درد مت عبادت پہ پھولیو زاہد
غالب کے نزدیک کوچہء محبوب سے بے آبرو ہو کر نکلنا ،آدم کے
خلد سے نکلنے سے مماثل ہے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن بہت بے آبروہوکر ترے
کوچے سے ہم نکلے
ابن مریم *
حضرت عیسی ؔ کو اللہ تعالی نے بن باپ کے پیدا فرمایا ۔ انہیں ،ان
کی والدہ کے حوالہ سے ابن مریم کہا ہے۔ جب لوگوں نے حضرت
مریم کی گود میں بچہ دیکھا تو کہا کہ تمہارے باپ توایسے نہ تھے،
تم نے یہ کیا کیا۔ اس وقت حضرت عیسی ؔ نے اپنی ماں کی بے گناہی
کی گواہی دی اوراپنے صاحب کتاب نبی ہونے کا اعلان فرمایا()١٢
حضرت عیسی ؔ کو اللہ تعالی نے بیماروں کو ٹھیک کرنے کی طاقت
عطا فرمائی ۔ اسی حوالہ سے ڈاکٹر کو ’’مسیحا‘‘ کانام دیا جاتا ہے ۔
غالب نے بھی اپنے اس شعر میں اسی بات کو حوالہ بنایاہے
ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے درد کی دوا کرے کوئی
اعجاز مسیحا *
حضرت عیسی ؔ کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ معجزہ بھی می ّسر تھا
کہ آپ قم باذن اللہ کہتے تومردے زندہ ہوجاتے ( )١۳مٹی کے پرندے
بنا کر پھونک مارتے تو وہ اللہ کے حکم سے فضا میں اڑنے لگتے
( )١۴قائم چاند پوری کے ہاں اس تلمیح کا استعمال ملاحظہ ہو
کرے گوکہ اعجاز عیسی ؔ کے شیخ میں پہنچانتا ہوں اسے ،خر ہے
وہ ( )١۵قائم
اعجاز مسیحا‘‘ کومحض ایک بات قرار دیتے ہیں’’غالب
اک بات ہے اعجاز مسیحا اک کھیل ہے اور ن ِگ سلیمان مرے نزدیک
مرے آگے
د ِم عیسی بھی اس تناظر میں استعمال میں لائے ہیں
مرگیا صدمہء یک جنب ِش لب سے غالب ناتوانی سے حری ِف دم
عیسی ؔ نہ ہوا
جنب ِش لب زندگی سے ہمکنار کرتی ہو ۔ بلاشبہ بہت بڑا کمال ہے ۔
جنب ِش لب موت سے ہمکنار کرتی ہو اوروہاں دم عیسی ؔ لایعنی اور
بیکار ٹھہرے تویہ اس سے بڑا کمال ٹھہرتا ہے ۔ یہ تلمیح اردو غزل
میں استعمال ہوتی آئی ہے ۔ مثلاا
بے فائدہ انفاس کو ضائع نہ کر اے درد ہردم ،د ِم عیسی ہے تجھے
پاس نہیں ہے ( )١۶درد
رشتہ تا ِر د ِم مسیحا ہو ہومبارک تجھے یہ فرخ فال ( )١٧چندا
بیماروں کی صحت کے حوالہ سے دوایک مثالیں ملاحظہ ہوں
ترے بیمار لب کے تئیں جودیکھا مسیحا کی نہیں کرتی دواخوب ()١۸
جہاں دار
بیمار یہ ایسا نہیں کہ آوے بھی مسیحا مرے بالیں پہ تو کیا ہو
محشر جس کو شفا ہو ()١۹
قائم چاند پوری ایسی زندگی پر حیف کرتے ہیں جوعیسی ؔ کی منت
وائے اس زیست پر کہ جس کے لئے ہوجئے منت پذیر پذیر ہو
عیسی ؔ کا ( )٢٠قائم
اورنگ سلیمان *
حضرت سلیمان بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ اللہ نے انہیں سلطنت اور
حکومت عطا کی ۔ ان کے پاس مال و منال ،جاہ وجلال ،محلات یہاں
تک کہ ان کے پینے کے برتن بھی خالص سونے کے تھے ()٢١
جانور اورعسکری سامان بھی موجودرہتا تھا۔ ان کے پاس ایک تخت
تھا جو ہوا میں اڑتا تھا ۔ ہوا ان کے تخت کو لے کر اڑتی اور ایک دن
میں دوماہ کا سفر طے کرتی ( )٢٢حضرت سلیمان کے تخت کا مختلف
قائم چاند پوری نے تخت حوالوں سے اردو شاعری میں ذکر آتا ہے
سلیمان کے حوالہ سے قل من علیھا فان کے فلسفے کو اجاگر کیا ہے
وہ تخت جو چلتا تھا پوچھیں گے سلیمان سے کہ کیدھر کیا برباد
بہ توقیر ہو اپر ( )٢۳قائم
ولی ؔ دکنی نے عشق میں بوریا نشینوں کے بوریا کو تخ ِت سلیمان
کاسا قراردیا ہے
کنج میں تجھ عشق کے جن نے کیا ہے مقام
اس کوں ٹوٹا بوریاتخت سلیماں ہوا ( )٢۴ولی ؔ
غالب اورنگ سلیمان کو محض کھیل تماشا قراردیتے ہیں۔ انسانی
فراست کی سربلندی کے حوالہ سے دیکھا جائے تو ان کا کہا غلط نہیں
لگتا ۔ آج روشنی سے تیز رفتار طیارے ایجاد ہوگئے ہیں ۔اورنگ
سلیمان عنای ِت خداوندی تھی۔ حضرت سلیمان نے یہ تخت خود ایجاد
نہیں کیا تھا جبکہ روشنی سے تیز رفتا ر طیارے اللہ کی عطا کی ہوئی
فراست کا زندہ جاوید ثبوت ہیں
اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک اک بات ہے اعجاز مسیحا
مرے آگے
ارم *
حضرت نوح کی ۵ویں پشت سے ایک شخص کا نام عاد تھا ۔ شدید
اورشداد اس کے دوبیٹے تھے اوردونوں بادشاہ تھے۔ جب شدید مرگیا
تو سب ملکوں کا بادشاہ شداد قرار پایا ۔ اس نے اتنی ترقی کی کہ دنیا
کا بادشاہ بن گیا ۔ وہ خدائی کا دعوی کرتا تھا۔ اس وقت کے پیغمبر جب
اس کی ہدایت کو آئے اورجنت کی بشارت دی۔ اس نے بہشت کی
تفصیلات ان سے پوچھیں ۔ پیغمبر خدا نے بتادیں۔ اس نے ایک معتدل
جگہ منتخب کی اوربہشت بنوانا شروع کردیا ۔ اس کام پر ایک لاکھ
مزدور کام کرتے تھے ۔ جب یہ بہشت تیار ہوا تو اس نے اس کا نام
اپنے دادا کے نام پر باغِ ارم رکھا۔ قرآن مجید میں عا ِد ارم کا ذکر
موجود ہے ۔ معاویہ بن ابوسفیان کے زمانے میں عبداللہ بن ثلاثہ اپنے
اونٹ کی تلاش کرتا ہوا اس باغ میں پہنچ گیا چنانچہ واپس آکر جو
کیفیت بیان کی اس کی تصدیق کعب احبار نے کی ( )٢۵باغِ ارم
تعمیراتی ذوق اور حسن و جمال کی علامت ہے ۔ اردو غزل میں یہ