The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-02-02 02:55:56

c2

c2

‫دور دراز کے علاقوں میں پیغام پہنچانے کے لئے تیسرے شخص ‪٢‬۔‬
‫کی خدمات حاصل کی جائیں‬

‫اردو غزل میں اس فریضے کو سرانجام دینے والے کو نامہ بر کہا‬
‫گیاہے۔ لفظ نامہ بر سنتے ہی کسی اچھی یا بری خبر کے لئے ذہنی‬
‫طور پر تیار ہونا پڑتا ہے۔ وزیر نے پیغام لانے والے کو نامہ بر کا نام‬

‫دیاہے ؂‬

‫بوے ان مرغوں کا ڈربا کھل خط پہ خط لائے جومرغ نامہ بر‬
‫گیا(‪ )١۵۳‬وزیر‬

‫غالب نے نامہ بر کو مختلف زوایوں سے ملاحظہ کیاہے ؂‬

‫کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کایہ حال‬

‫نامہ بر لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا‬

‫وہ جو پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جائے لیکن پیغام‬
‫کوپڑھ کر بددیانتی کا ارتکاب کرے ؂‬

‫ہولئے کیو ں نامہ بر کے ساتھ ساتھ یارب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا‬

‫پیغام لے کر جانے والے پرراز داری کا بھروسہ نہیں‬

‫وعظ‪:‬‬

‫انسانی سماج کا بڑا مضبوط اوراہم کردار رہاہے ۔ لوگوں کو‬
‫نیکی پر لگانے اور بدی سے ہٹانے کے لئے اپنی سی کوشش‬
‫کرتارہاہے ۔ ایسی بھی باتیں کرتارہاہے جن کا عملی زندگی میں کوئی‬
‫حوالہ موجو د نہیں رہاہوتا۔ فرداکے حسین سپنے دکھاتاآیاہے ۔ لفظ‬

‫واعظ ایک ایسے شخص کا تصور سامنے لاتاہے جوخوف وہراس‬
‫پھیلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اسے نیکی کی اشاعت کانام دیتا‬
‫ہے۔ وہ اپنی پسند کی نیکی (‪)۱۵۴‬پھیلانے کی ٹھانے ہوتاہے ۔ دھواں‬

‫دھار تقریریں کرتاہے ۔ ایسی باتیں بھی کہہ جاتاہے جن پر وہ خود‬
‫عمل نہیں کر رہاہوتا یا ان پر انجام دہی کے حوالہ سے معذور ہوتاہے۔‬

‫یہ لفظ خشک ‪ ،‬سٹریل ‪ ،‬بدمزاج او رضدی قسم کا شخص سامنے لا‬
‫کھڑا کرتاہے ۔ اس کردار سے ملنے کا شوق پید انہیں ہوتا بلکہ اس‬
‫کی بے عمل ‪ ،‬خشک اور خلائی گفتگو سے بچ کر نکلنے کی سوجھتی‬
‫ہے۔ اس کردار سے متعلق اردو شاعر ی میں بہت سے زاویے اور‬

‫حوالے موجو دہیں۔مثلاا‬

‫؂ ہمیں واعظ ڈراتا کیوں ہے دوزخ کے عذابوں سے‬

‫معاصی گوہمارے بیش ہوں کچھ مغفرت کم ہے(‪ )١۵۵‬بہار‬

‫ڈر ‪،‬خوف اور ہرا س پھیلانے والا‬

‫؂ جب اصل مذاہب کو واعظ سیتی ہم پوچھا‬

‫تب ہم سے کہنے لگا قصہ وحکا یاتیں (‪)١۵۶‬میر محمد حسن کلیم‬

‫غلط سلط اور غیر متعلق باتیں کرنے والا ۔ دوسرے لفظوں میں علم و‬
‫دانش سے پیدل۔ الٹے سیدھے قصے سنا کر لوگوں کومخمصے میں‬

‫ڈالنے والا اور پنے بہترین نالج کاسکہ بٹھانے کی کو شش کرنے والا‬

‫؂ واعظو‪ ،‬آت ِش دوزخ سے جہاں کو تم نے‬

‫یہ ڈرایا کہ خود بن گئے ڈر کی صور ت (‪)١۵٧‬الطاف حسین حالی‬

‫لوگوں میں آخرت کے عذاب کے حوالہ سے اس قدر خوف ہراس پیدا‬
‫کرنے والا کہ لوگ اس سے ملنے سے بھی خوف کھانے لگیں ۔‬

‫؂ ویسے تومیری راہوں میں پڑتے تھے میکدے‬

‫واعظ تری نگاہوں سے ڈرنا پڑا مجھے (‪)١۵۸‬آشا پر بھات‬

‫غالب کا اپنا ڈھنگ ہے۔ واعظ کے کہے پر حیران نہیں ہوتے بلکہ بڑا‬
‫عام لیتے ہیں ؂‬

‫خلد بھی باغ ہے خیر آب وہوا کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے واعظ‬
‫اورسہی‬

‫یار‪:‬‬

‫یار بڑا عام سا لفظ ہے اور ہمارے ہاں بہت سے معنوں میں استعمال‬
‫ہوتاہے مثلاا گہر ادوست ‪،‬لنگوٹیا‪ ،‬مددگار‪،‬تعاون کرنے والا‪ ،‬برے وقت‬
‫میں کام آنے والا ‪ ،‬دوستوں کا دوست ‪ ،‬نبھا کرنے والا ‪ ،‬بازاری معنوں‬

‫میں کسی عورت کا عاشق وغیرہ ۔ یہ لفظ تسکین کا سبب بنتا ہے۔‬
‫ہمت بند ھ جاتی ہے اور امداد ملنے کا احساس جاگ اٹھتا ہے ۔‬
‫اعصابی تناؤ کم ہو جاتا ہے۔‬

‫غالب کے ہاں یار ‪ ،‬ہمددر کے معنوں میں استعمال ہواہے ؂‬

‫مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب یا ر لائے مری بالیں پہ‬
‫اسے ‪ ،‬پر کس وقت‬

‫ہمددر اور جگر ی دوست جو یار کو خوش رکھنے کو بگڑے ‪،‬ناراض ‪،‬‬
‫ضدی اوراڑیل کو بھی مناکر دوست کے در پر لے آئیں ۔‬

‫مولاناعبدی نے حضور ﷺ کے لئے یار کا لفظ استعمال کیاہے ؂‬

‫جن دیا یا رصد ق سوں سوے اللہ مولا پاک ہے جو جگ سرجن ہار‬
‫اترے پار(‪)١۵۹‬مولانا عبدی‬

‫قزلباش خاں امید ؔ نے گھر کے محبوب ترین فرد کے لئے اس لفظ کا‬
‫انتخاب کیا ہے ؂‬

‫یار بن گھر میں عجب صحبت ہے درودیوار سے اب صحبت ہے (‪)١۶٠‬‬
‫امید‬

‫شاہ مبارک آبرو نے محبوب کے لئے استعمال کیا ہے جو پیار‪ ،‬محبت‬
‫اور شوق کو فراموش کر دیتاہے۔ اس طرح انہوں نے محبوب پیشہ‬
‫لوگوں کا وتیر ا اورعمومی رویہ اورچلن کھول کر رکھ دیا ہے ؂‬

‫وہ شوق وہ محبت افسو س ہے کی مجھ کو وہ یا ربھول جائے‬
‫وہ پیار بھول جائے(‪ )١۶١‬شاہ مبارک آبرو‬

‫عبدالحی تاباں کے نزدیک جس کے بنا دلی بے چین وبے کل رہے‬

‫نہ یار آیا نہ صبر آیا بہت چاہا کہ آوے یار یا اس دلی کو صبر آوے‬
‫دیا جی میں نداں اپنا (‪ )١۶٢‬تاباں‬

‫میر علی اوسط رشک کے نزدیک ایسا دوست جس کی محبت ‪ ،‬چاؤ اور‬
‫گرمجوشی سے تہی ہو ؂‬

‫یار کو ہم سے لگاؤ نہیں وہ محبت نہیں وہ چاؤنہیں (‪ )١۶۳‬رشک‬

‫قدیم اردو شاعری میں یہ لفظ زیادہ تر محبوب ‪ /‬معشوق کے لئے‬
‫استعمال ہواہے۔‬

‫لوگ‪:‬‬

‫لوگ ‪،‬عام استعمال کالفظ ہے ۔فردواحد کے لئے نہیں بولا جاتا ۔ اس‬
‫لفظ کے ساتھ کوئی کردار مخصوص نہیں ۔ کوئی ساکر دار اس لفظ کے‬

‫ساتھ منسلک ہوسکتاہے۔ اس لفظ کے حوالہ سے سر زد ہونے والے‬
‫افعال سابقوں اور لاحقوں سے وابسطہ ہوتے ہیں ۔ غالب ؔ کے ہاں‬

‫اس کر دار کی کار فرمائی ملاحظہ ہو‬

‫جومے و نغمہ کو ؂ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو‬
‫اندوہ ربا کہتے ہیں‬

‫سید ھے سادھے ‪ ،‬بھولے ‪ ،‬بیووقوف جن کانالج در ست نہیں‬

‫لفظ لوگ پہلے ہی جمع کے لئے استعمال ہوتاہے۔غالب ا س کی جمع‬
‫بھی استعمال میں لائے ہیں ؂‬

‫ہر روز دکھاتاہوں میں اک لوگوں کو ہے خورشی ِد جہاں تاب کا دھوکہ‬
‫داغ نہاں اور‬

‫ناظرین جوغلط فہمی یا دھوکے میں ہوں ۔ کسی کا م یا تماشے کے‬
‫لئے ناظر ین کلیدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ ورنہ کارکر دگی کے‬

‫متعلق منفی یا مثبت رائے کون دے گا۔‬

‫شیخ جنید آخر کو واپس پھرنے والا ‪ ،‬اس لفظ کا کردار متعین کرتے‬
‫ہیں ؂‬

‫نہ کس مونس بوددیگر نہ بھائی باپ مہتاری تراگھر گوربسیار ند پھر‬
‫کر لوگ گھر آوے (‪ )١۶۴‬شیخ جنید‬

‫میر ؔ صاحب کے ہاں بطور جمع استعمال ہواہے ؂‬

‫آگے جواب سے ان لوگوں کے بارے معافی اپنی ہوئی‬

‫ہم بھی فقیر ہوئے تھے لیکن ہم نے تر ِک سوال کیا (‪ )١۶۵‬میر ؔ‬

‫کے سابقے کی بڑھوتی سے کچھ جمع کردار ‘‘اہل ’’غالب ؔ کے ہاں‬
‫تشکیل پائے ہیں ۔ان کرداروں کے حوالہ سے کچھ نہ کچھ ضرور‬
‫وقوع میں آتاہے ۔ نمونہ کے تین کردار ملاحظہ ہوں۔‬

‫اہل بینش ‪:‬‬

‫دانشور حضرات کا زوایہء نظر دوسروں سے ہمیشہ مختلف رہاہے اور‬
‫یہ طبقہ معاشروں کے وجود کے لئے دلیل وحجت رہاہے ۔ غالب کے‬
‫ہاں اس طبقے کا کردار بڑی عمدگی سے واضح کیا گیاہے۔ یہ طبقہ‬

‫حوادث سے سبق سیکھتا ہے اور ان حوادث کے حوالہ سے تنگ‬
‫حالات میں بھی راہیں تلاشتا رہتاہے ؂‬

‫اہل بینش کو ہے طوفان حوادث مکتب لطمہء موج کم ازسیلی استاد‬
‫نہیں‬

‫کسی بھی قسم کی تمنا کرنے ‪ /‬رکھنے والا طبقہ ‪ ،‬ہمیشہ اہل تمنا‪:‬‬
‫سے انسانی معاشروں میں موجود رہاہے ۔ غالب نے اس طبقے کے‬
‫کردار کو کمال عمدگی سے پینٹ کیاہے ۔ محبوب کا جلو ہ جو اہل تمنا‬
‫کو فنا کردے۔ یہ اہل تمنا کی انتہائی درجے کی عیاشی میں شمار‬
‫ہوتاہے ؂‬

‫عشر ِت قتل گ ِہ اہل تمنامت پوچھ عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا‬

‫اہل ہمت ‪:‬‬

‫اہل ہمت کا ہونا کسی معاشرے کے ہونے کی گرانٹی ہے ۔غالب بڑے‬

‫پائے کی بات کہہ رہے ہیں۔کائنات کی ان گنت چیزیں آزاد ہیں اور‬
‫انسانی تصرف میں نہیں ہیں۔ اگر اہل ہمت موجو د ہوتے تو یہ آزادنہ‬

‫ہوتیں۔انسان انہیں کھا پی گیا ہوتا۔ اہل ہمت کے ظرف کا بھلاکون‬
‫اندازاہ کر سکتا ہے۔ مثال یہ دیتے ہیں مے خانے میں شراب باقی ہے‬

‫تویہ اس امر کی دلیل ہے کہ میخوا ر موجود نہیں ہیں۔ شعر دیکھئے‬

‫؂ رہا آبادعالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے بھر ے ہیں جس قدر جام و‬
‫سیو میخانہ خالی ہے‬

‫اہل ‘‘ سے ترکیب پانے والے الفاظ ‪ /‬کردار اپنی ذات میں حد درجہ ’’‬
‫جامعیت رکھتے ہیں ۔انسانی فکر کو حرکت اوربالیدگی سے سرفراز‬
‫کرتے ہیں۔‬

‫غالب نے کچھ مرکب الفاظ سے کردار تخلیق کئے ہیں ۔ مثلاا پری وش‬
‫‪ ،‬پری پیکر ‪ ،‬بہشت شمائل وغیرہ ۔ یہ کردار محبوب سے متعلق ہیں ۔‬
‫یہ محبوب کی شوخی ‪ ،‬نازو نخرا‪ ،‬حسن وجمال اداؤں وغیرہ کو اجاگر‬

‫کرتے ہیں۔ یہ کردار غالب کے ذو ِق جمال کا بڑاعمدہ نمونہ ہیں ۔مثلاا‬

‫؂ نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے‬
‫کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا‬

‫ضمائر‪:‬‬

‫میں ‪ ،‬مجھ ‪ ،‬مجھے ‪ ،‬میرا ‪ ،‬میری ‪ ،‬میرے ایسی ضمائر ہیں‬
‫جو شخص کی اپنی ذات سے متعلق ہوتی ہیں ۔ یہ بھی کہنے والے‬
‫کے ماضی الضمیر سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کی نقل وحرکت اور‬
‫کارگزاری انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہے۔جب کوئی شخص اپنی‬
‫کہنے لگتاہے توان ضمائر کا استعمال کرتاہے۔ اس ضمن میں دوتین‬

‫‪:‬مثالیں بطو رنمونہ ملاحظہ ہوں‬

‫میں نے روکا رات غالب ؔ کو وگرنہ دیکھتے اس کے سی ِل گریہ میں‬
‫گردوں کف سیلاب تھا‬

‫میں ‘‘ کا کردار بڑا توانا ہے اس کے حوالہ سے خطرناک صورتحال ’’‬
‫کا خطرہ ٹل جاتا ہے ؂‬

‫نہ سمجھوں اس کی باتیں گونہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے کہ‬
‫مجھ سے وہ پری پیکر کھلا‬

‫مجھے کیا بر کہوں کس سے میں کہ کیا ہے ش ِب غم بری بلا ہے‬
‫اتھا مرنا اگر ایک بار ہوتا‬

‫تو‪ ،‬تجھ ‪،‬تم ‪ ،‬تیرا‪ ،‬تیرے اس ‪ ،‬آپ ‪ ،‬وہ وغیرہ کے حوالے سے بعض‬
‫افعال کی وقوع پذیری سامنے لاتے ہیں۔مثلاا‬

‫؂ تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے لے آئیں گے بازار سے‬
‫جاکر دلی وجاں اور‬

‫؂ وہ آرہا مرے ہمسایہ میں تو سائے سے ہوئے فدا درودیوار پر‬
‫دردیوار‬

‫حواشی‬

‫البقر‪٢ ۳۶:‬۔ البقر‪١ ۳۴:‬۔‬

‫دیوان ‪۴‬۔ دیوان درد‪ ،‬مرتب خلیل الرحمن داؤ دی ‪،‬ص‪۳ ٢١۸‬۔‬
‫درد‪،‬ص ‪١٧۵‬‬

‫کلیات قائم‪،‬مرتب اقتدار حسن ‪ ،‬ص ‪۵ ۸١‬۔‬ ‫دیوان درد‪ ،‬ص ‪۶‬۔‬
‫‪٢٠٧‬‬

‫سندھ ‪۸‬۔ کلیات سودا ج ا ‪ ،‬مرزا محمد رفیع سودا ‪ ،‬ص‪٧ ٢٠۸‬۔‬
‫میں ارد وشاعری‪ ،‬مولف ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ‪ ،‬ص‪١٠۸‬‬

‫دیوان درد ‪،‬ص‪١٠ ١۵١‬۔ دیوان درد‪،‬ص ‪۹ ٢٠۶‬۔‬

‫‪١٢‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬مرتب کلب علی خاں فائق ص‪١١ ١٠١‬۔‬
‫نفسیات ‪،‬حمیر اہاشمی وغیرہ ‪،‬ص ‪١۴۹‬‬

‫تذکرہ ‪١۴‬۔ کلیات ولی ‪ ،‬نو ر الحسن ہاشمی‪،‬ص‪١۳ ١٢۵‬۔‬
‫مخزن نکات ‪ ،‬قائم چاند پوری ‪ ،‬ص ‪٢١‬‬

‫شاہ عالم ثانی آفتا ب احوال و ادبی خدمات‪ ،‬ڈاکٹر محمد خاور ‪١۵‬۔‬

‫جمیل ‪ ،‬ص ‪٢٠۶‬‬

‫سندھ میں ارد وشاعری‪١٧ ،‬۔ کلیات میرج ا‪ ،‬ص ‪١۶ ١٢٧‬۔‬
‫ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ‪ ،‬ص ‪۳۵‬‬

‫کلیات ‪١۹‬۔ تذکرہ بہار ستان ناز ‪ ،‬کلیم فصیح الدین ‪،‬ص ‪١۸ ۴‬۔‬
‫میرج ا‪،‬ص ‪١٢۸‬‬

‫کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪٢٠ ٢٠‬۔‬

‫تذکرہ حیدری‪ ،‬مولف حیدر بخش حیدری ‪ ،‬مرتبہ ڈاکٹر عبادت ‪٢١‬۔‬
‫بریلوی ‪ ،‬ص ‪٧٢‬‬

‫‪٢۳‬۔ تذکرہ خو ش معرکہ زبیا ج ا‪ ،‬سعادت ناصر خاں‪ ،‬ص ‪٢٢ ۴۴٢‬۔‬

‫تذکرہ مخز ِن نکات‪ ،‬قائم چاند پوری ‪ ،‬مرتب ڈاکٹر اقتدار حسن‬
‫‪،‬ص ‪١۸١‬‬

‫دیوان درد ‪،‬ص ‪٢۵ ١۴٢‬۔ تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪٢۴ ۴۶‬۔‬

‫تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪٢٧ ۴٧‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪٢۶ ١٧٧‬۔‬

‫‪٢۹‬۔ تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪٢۸ ١٢۳‬۔‬ ‫سندھ میں ارد وشاعری‪،‬‬
‫ص ‪۸۵‬‬

‫موح رواں ‪۳١‬۔ روشنی اے روشنی‪ ،‬شکیب جلالی‪ ،‬ص ‪۳٠ ۴۸‬۔‬
‫‪ ،‬قمرساحری‪ ،‬ص ‪١۶۹‬‬

‫‪۳۳‬۔ موج رواں‪ ،‬ص ‪۳٢ ١٧١‬۔‬ ‫سند ھ میں ارد وشاعری‪ ،‬ص‬
‫‪۸۹‬‬

‫دلی ‪۳۵‬۔ دلی کا دبستان شاعری‪ ،‬نور الحسن ہاشمی ‪ ،‬ص ‪۳۴ ١۶۵‬۔‬

‫کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۳۸١‬‬

‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۳۶ ۳۵۹‬۔‬ ‫دلی کا دبستان ‪۳٧‬۔‬
‫شاعری‪ ،‬ص ‪١۴۳‬‬

‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۳۸ ٢۴۴‬۔‬ ‫دلی کا دبستان ‪۳۹‬۔‬
‫شاعری ‪،‬ص ‪١٠۵‬‬

‫دلی کا دبستان شاعری‪ ،‬ص ‪۴٠ ١۹۴‬۔‬ ‫سند ھ میں اردو ‪۴١‬۔‬
‫شاعری‪ ،‬ص ‪۶۹‬‬

‫سند ھ میں اردو شاعری‪ ،‬ص ‪۴٢ ٧٠‬۔‬ ‫تذکرہ مخز ِن ‪۴۳‬۔‬
‫نکات‪ ،‬ص ‪١١٧‬‬

‫‪۴۵‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪۴۴ ١۸۹‬۔‬ ‫دیوان مہ لقا بائی چندا ‪ ،‬مرتب‬
‫شفقت رضوی ‪،‬ص ‪١٢٧‬‬

‫دیوان حالی‪۴٧ ،‬۔ سندھ میں ار دو شاعری ‪،‬ص ‪۴۶ ٧۹‬۔‬
‫خواجہ الطاف حسین حالی ‪،‬ص ‪۳۶‬‬

‫تذکرہ خو ش ‪۴۹‬۔ دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۴۸ ١۶۵‬۔‬
‫معرکہ زیباج ‪،٢‬ص ‪۳۴٢‬‬

‫تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪۵١ ۵١‬۔ تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪۵٠ ۶٧‬۔‬

‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۵٢ ١۶۴‬۔‬ ‫کلیات سودا ج ا‪۵۳ ،‬۔‬
‫ص ‪٧٠‬‬

‫تذکرہ حیدری‪ ،‬ص‪۵۵ ١١۸‬۔ تذکرہ حیدری ‪،‬ص ‪۵۴ ١٠۹‬۔‬

‫دیوان جہاں دار‪۵٧ ،‬۔ تذکرہ خو ش معرکہ زیباج ا‪ ،‬ص ‪۵۶ ١۹۸‬۔‬

‫مرتب ڈاکٹر وحید قریشی ‪،‬ص ‪۸٧‬‬

‫‪۵۹‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیباج ‪،١‬ص‪۵۸ ٢۸۶‬۔‬ ‫کلیا ِت میر ج‬
‫ا‪،‬ص ‪١٢٠‬‬

‫تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪۶١ ۶۸‬۔ کلیا ت قائم جلد ‪،١‬ص‪۶٠ ٢۸‬۔‬

‫پنجاب میں ‪۶۳‬۔ دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۶٢ ۳۵۳‬۔‬
‫اردو‪ ،‬حافظ محمود شیرانی ‪ ،‬ص ‪١۳۹‬‬

‫‪۶۵‬۔ تذکرہ مخز ِن نکات‪ ،‬ص ‪۶۴ ١۳۹‬۔‬ ‫کلیات ولی ‪ ،‬ولی‬
‫دکنی‪ ،‬ص ‪۵٧‬‬

‫تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ‪۶٧‬۔ تذکرہ حیدری ‪،‬ص ‪۶۶ ۹۵‬۔‬
‫جلد ‪،١‬ص ‪٢١‬‬

‫‪۶۹‬۔ تذکرہ مخز ِن نکات‪ ،‬ص ‪۶۸ ۶٢‬۔‬ ‫سند ھ میں اردو شاعری‪،‬‬
‫ص ‪٧٠‬‬

‫‪٧١‬۔ نفسیات‪ ،‬ص ‪٧٠ ۵۵١‬۔‬ ‫نوائے سروش ‪ ،‬غلام رسول مہر‬
‫‪،‬ص ‪٢٧‬‬

‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪٧٢ ١٠۴‬۔‬ ‫دلی کا دبستان ‪٧۳‬۔‬
‫شاعری ‪،‬ص ‪١۶۵‬‬

‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪٧۴ ٢۹٧‬۔‬ ‫سندھ میں اردو ‪٧۵‬۔‬
‫شاعری‪ ،‬ص ‪١۸‬‬

‫دلی کا دبستان شاعری‪ ،‬ص ‪٧۶ ٢۹۸‬۔‬ ‫دلی کا دبستان ‪٧٧‬۔‬
‫شاعری ‪،‬ص ‪١۶۵‬‬

‫دیوان درد‪ ،‬ص ‪٧۸ ١۶۹‬۔‬

‫روح المطالب فی شرح دیوا ِن غالب‪ ،‬شاداں بلگرامی ‪ ،‬ص ‪٧۹‬۔‬
‫سندھ میں ‪۸١‬۔ دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪١۸٧۸٠ ١۵٢‬۔‬

‫اردو شاعری‪ ،‬ص ‪۹٢‬‬

‫دیوان مہ لقابائی چندا‪،‬ص ‪۸۳ ١۳٢‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪۸٢ ١۳٢‬۔‬

‫اردو ئے قدیم‪ ،‬ص ‪۸۵ ١٢۹‬۔ تذکرہ مخزن نکات ‪،‬ص ‪۸۴ ۴۵‬۔‬

‫‪۸٧‬۔ اردوئے قدیم ‪،‬ص ‪۸۶ ٢٧۹‬۔‬ ‫سندھ میں اردو شاعری‪،‬‬
‫ص ‪۳٢‬‬

‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۸۸ ١٠١‬۔‬ ‫دلی کا دبستان ‪۸۹‬۔‬
‫شاعری ‪،‬ص ‪١۹۳‬‬

‫دلی کا دبستان ‪۹١‬۔ دلی کادبستان شاعری ‪،‬ص ‪۹٠ ١۵١‬۔‬
‫شاعری‪ ،‬ص ‪١۹۳‬‬

‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۹٢ ١۹۳‬۔‬ ‫سند ھ میں ارد ‪۹۳‬۔‬
‫وشاعری‪ ،‬ص ‪۸١‬‬

‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۹۴ ١۴٧‬۔‬ ‫کلیات سودا ج ا‪۹۵ ،‬۔‬
‫ص‪١٧۹‬‬

‫سندھ میں ارد ‪۹٧‬۔ سندھ میں اردو شاعری‪ ،‬ص ‪۹۶ ١۹‬۔‬
‫وشاعری‪ ،‬ص ‪٢۵‬‬

‫‪۹۹‬۔ تذکرہ بہار ستان ناز‪،‬ص ‪۹۸ ١۹٢‬۔‬ ‫دیوا ِن حالی ‪،‬ص‬
‫‪١٠۳‬‬

‫پوشیدگی ‪ ،‬راز‪ ،‬مخفی معاملات ‪١٠٠‬۔‬

‫روح المطالب فی شرح دایو ِن غالب‪ ،‬شاداں بلگرامی‪ ،‬ص ‪١٠١‬۔‬
‫‪١۸٢‬‬

‫سند ھ میں اردو ‪١٠۳‬۔ اردوئے قدیم‪ ،‬ص ‪١٠٢ ۳۴۶‬۔‬
‫شاعری‪ ،‬ص ‪۴۸‬‬

‫دلی کا ‪١٠۵‬۔ سندھ میں اردو شاعری ‪،‬ص ‪١٠۴ ١٢۳‬۔‬
‫دبستان شاعری‪ ،‬ص ‪١۵٢‬‬

‫اردوئے ‪١٠٧‬۔ دلی کا دبستان شاعری‪ ،‬ص ‪١٠۶ ١٢۳‬۔‬
‫قدیم‪ ،‬ڈاکٹر محمد باقر‪،‬ص ‪١۵۳‬‬

‫پنجاب میں ‪١٠۹‬۔ بیان غالب ‪ ،‬آغا باقر ‪،‬ص ‪١٠۸ ١۶۵‬۔‬
‫اردو‪ ،‬حافظ محمو د شیرانی ‪،‬ص ‪٢١٠‬‬

‫دلی کا دبستان ‪١١١‬۔ اردوئے قدیم ‪،‬ص ‪١١٠ ۳۳٧‬۔‬
‫شاعری‪ ،‬ص ‪١٢۸‬‬

‫کلیات ‪١١۳‬۔ دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪١١٢ ١۴۵‬۔‬
‫سودا ج ا‪ ،‬ص ‪١١۹‬‬

‫تذکرہ مخز ِن ‪١١۵‬۔ سندھ میں اردو شاعری‪ ،‬ص ‪١١۴ ۸١‬۔‬
‫نکات‪ ،‬ص ‪١۶‬‬

‫اردوئے قدیم‪ ،‬ص ‪١١٧‬۔ تذکرہ مخز ِن نکات‪ ،‬ص ‪١١۶ ٢۴‬۔‬
‫‪١٢۸‬‬

‫‪١١۹‬۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب‪ ،‬ص ‪١١۸ ١٠۵‬۔‬

‫دیوان درد‪،‬ص ‪٢٠١‬‬

‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪١٢٠ ١۴١‬۔‬ ‫کلیا ِت قائم ‪١٢١‬۔‬
‫ج ‪ ،١‬ص ‪٢۳٠‬‬

‫سندھ میں اردو ‪١٢۳‬۔ تذکرہ حیدری ‪،‬ص ‪١٢٢ ١٠١‬۔‬
‫شاعری‪ ،‬ص ‪۹۵‬‬

‫تذکرہ حیدری ‪،‬ص ‪١٢۵‬۔ پنجاب میں اردو ‪،‬ص ‪١٢۴ ٢۳۸‬۔‬
‫‪۸۸‬‬

‫دلی کا دبستان ‪١٢٧‬۔ سندھ میں اردو شاعری ‪،‬ص ‪١٢۶ ۳۴‬۔‬
‫شاعری‪ ،‬ص ‪٢٠۸‬‬

‫دیوان درد‪ ،‬ص ‪١٢۹‬۔ دیوان مہ لقابائی چندا ‪،‬ص‪١٢۸ ١٢٢‬۔‬
‫‪٢٠۵‬‬

‫اردوئے قدیم‪ ،‬ص ‪١۳١‬۔ پنجاب میں اردو ‪،‬ص ‪١۳٠ ٢٠٠‬۔‬
‫‪١۶۵‬‬

‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪١۳٢ ١۵١‬۔‬ ‫دیوان ‪١۳۳‬۔‬
‫حالی‪ ،‬ص ‪۸۴‬‬

‫تذکرہ مخزن نکا ت‪ ،‬ص ‪١۳۴ ۸۴‬۔‬ ‫دلی کا دبستان ‪١۳۵‬۔‬
‫شاعری ‪،‬ص ‪۳۸۸‬‬

‫پنجاب میں اردو ‪١۳٧‬۔ سندھ میں اردو شاعری‪ ،‬ص ‪١۳۶ ۸۶‬۔‬
‫‪،‬ص ‪۳١۵‬‬

‫اردوئے قدیم‪١۳۹ ،‬۔ اردوئے قدیم ج ‪،٢‬ص ‪١۳۸ ١۳۹‬۔‬

‫ص ‪۳٠۶‬‬
‫دلی کا ‪١۴١‬۔ دلی کا دبستان شاعری‪ ،‬ص ‪١۴٠ ١۵۴‬۔‬

‫دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۳۳٧‬‬
‫دلی کا دبستان ‪١۴۳‬۔ پنجاب میں اردو‪ ،‬ص ‪١۴٢ ١۶۴‬۔‬

‫شاعری ‪،‬ص ‪١۴۶‬‬
‫سندھ میں اردو ‪١۴۵‬۔ سندھ میں اردو شاعری ‪،‬ص ‪١۴۴ ۶۸‬۔‬

‫شاعری ‪،‬ص ‪١۵۹‬‬
‫دیوان مہ لقابائی چندا‪ ،‬ص ‪١۴۶ ۹٧‬۔‬

‫‪١۴۸‬۔ ‪١۴٧‬۔‬
‫‪١۵٠‬۔ ‪١۴۹‬۔‬
‫‪١۵٢‬۔ ‪١۵١‬۔‬
‫‪١۵۴‬۔ ‪١۵۳‬۔‬
‫‪١۵۶‬۔ ‪١۵۵‬۔‬
‫‪١۵۸‬۔ ‪١۵٧‬۔‬
‫‪١۶٠‬۔ ‪١۵۹‬۔‬
‫‪١۶٢‬۔ ‪١۶١‬۔‬
‫‪١۶۴‬۔ ‪١۶۳‬۔‬
‫‪١۶۶‬۔ ‪١۶۵‬۔‬

‫‪١۶۸‬۔ ‪١۶٧‬۔‬
‫‪١٧٠‬۔ ‪١۶۹‬۔‬

‫‪-‬باب نمبر‪3‬‬

‫تلمیحات غالب کی شعری تفہیم‬

‫تلمیح کے لغوی معنی رمز اوراشارہ کے ہیں لیکن شعری اصطلاح میں‬
‫کسی تاریخی واقعہ‪ ،‬مذہبی حکم‪ ،‬لوک داستانی کردار وغیرہ کو اس‬

‫انداز سے نظم کیاجائے کہ شعر کا مضمون پرلطف اورزوردار ہوجائے۔‬
‫اس میں دو ایک الفاظ کو استعمال میں لایا جاتاہے۔ ان کو پڑھتے ہی‬
‫پورا واقعہ ‪،‬قصہ ‪ ،‬معاملہ یاحکم وغیرہ قاری کے ذہنی گوشوں میں‬
‫متحرک ہوکر قاری کے سوچ کو شعر میں موجود مضمون میں گم‬
‫کردیتا ہے ۔ تلمیح کو حس ِن شعر کادرجہ حاصل ہے۔ شعر میں تلمیح‬

‫سے متعلقہ لفظ یا الفاظ کو جونئے اور مخصوص مفاہیم ملتے ہیں اس‬
‫سے ہی انہیں اصطلاح کا درجہ حاصل ہوتاہے۔‬

‫عربی‪ ،‬فارسی اور برصغیر کی زبانوں میں تلمیح کا استعمال بڑا عام‬
‫ہے اور اسے شعری زبان کا جز سمجھا جاتا ہے۔ اردو غزل نے تلمیح‬

‫کی شعری افادیت سے کبھی منہ نہیں موڑا ۔ اردو کے چھوٹے بڑے‬
‫شاعر کے ہاں ا س کے استعمال کا رواج ملتا ہے۔غالب سیاسی و‬

‫سماجی زوال اور فکری جدّت کے کناروں کے بیچ زندگی بسرکررہے‬
‫تھے۔ انہوں نے اپنی فکری پرواز کے اظہار کے لئے تلمیح کی شعری‬
‫افادیت سے بڑھ چڑھ کر فائدہ اٹھایا ۔ ان کے ہاں اس کے استعمال کی‬

‫متعدد صورتیں ملتی ہیں‬

‫روایت سے ہٹ کر مفاہیم میں استعمال کرتے ہیں *‬

‫عام بات‪ ،‬واقعے یا معاملے کوخاص کا درجہ حاصل ہوجاتاہے *‬

‫تقابلی صورت پیدا کرکے قاری کے سوچ میں ہلچل مچانے کے *‬
‫لئے بطور ہتھیار کام میں لاتے ہیں‬

‫تشبیہاا استعمال کرتے ہیں *‬

‫جس پر حیرت کی جاتی رہی تھی ‪ ،‬کو عام اورمعمولی قراردے کر *‬
‫اس سے بڑھ کر کسی طرف راغب کرتے ہیں‬

‫بطورطنز استعمال کرتے ہیں *‬

‫تلمیح کے حوالہ سے استحقاق کا مسئلہ اٹھاتے ہیں *‬

‫مسترد کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کرتے ہیں *‬

‫کمز ورکو اس کی بعض خصوصیات کے تناظر میں برتر ثابت *‬
‫کرنے کے لئے تلمیح کا استعمال کرتے ہیں‬

‫پیروی کے روائتی پیمانے اور چال کو تلمیح کے تیشے سے *‬
‫کاٹتے ہیں‬

‫اظہار برتری کے لئے تلمیح کو کام میں لاتے ہیں *‬

‫کسی سماجی معاملے کی وضاحت کے ضمن میں استعمال کرتے *‬
‫ہیں‬

‫کسی کردار کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کے باب میں تلمیح ان *‬
‫کے کام آتی ہے‬

‫اگلے صفحات میں غالب کی غزل میں استعمال ہونے والی بعض‬
‫تلمیحات کی شعری تفہیم کی گئی ہے۔ جن میں درج بالا عناصر کی‬
‫کسی نہ کسی حوالہ سے (تلمیح کی) بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ان‬
‫معروضات کے حوالہ سے غالب کے قاری پر نہ صرف غالب کی فکر‬

‫کے نئے گوشے وا ہوں گے بلکہ معلومات کی فراہمی کے باعث‬
‫مطالعہء غالب کا پہلے سے زیادہ حظ اٹھایا جاسکے گا۔ اس ضمن میں‬
‫اساتذۂ شعر کے کلام سے متعلقہ شعری اسناد بھی درج کر دی گئی ہیں‬

‫آب بقا *‬

‫ایسا پانی جس کے پینے سے دائمی زندگی می ّسر آتی ہو۔ فارسی‬
‫روایات کے مطابق ظلمات میں ایک چشمہ بہتا ہے جس کے پانی میں‬

‫یہ تاثیر ہے جو اسے پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرتا ہے ۔‬
‫مشہور ہے اس کا پانی حضرت خضر نے پی رکھا ہے اور عمر جاوداں‬

‫رکھتے ہیں۔ وہ تمام دریاؤں اور چشموں کے نگران ہیں۔ بھولے‬
‫بھٹکے مسافروں کی راہنمائی بھی کرتے ہیں(‪ )١‬ہندوروایات کے‬
‫مطابق دیوتاؤں اور رکھشسوں نے مل کر سمندر کی تہوں میں سے آب‬
‫حیات حاصل کیا ۔ دیوتاؤں نے چھل سے یہ پانی پی لیا جبکہ رکھشس‬
‫محروم رہے ۔یہی وجہ ہے کہ دیوتا حیات جاوداں رکھتے ہیں ۔ اسے‬

‫آ ِب حیات اور آ ِب حیواں کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ اردو غزل کے شعراء‬
‫نے اس تلمیح کو مختلف انداز اور حوالوں سے نظم کیا ہے ۔ مثلاا‬

‫ذوق اس کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور آ ِب بقاسے متعلق‬
‫روائتوں کومحض قصہ کہانیاں قراردیتے ہیں‬

‫کہانیاں ہیں حکایا ِت خضر وآب بقا‬ ‫بقاکاذکر ہی کیا اس جہان فانی‬
‫میں(‪ )٢‬ذوق‬

‫ذوق کا دعوی قرآن کی اس آیت قل من علیھا فان (‪ )۳‬سے استوار ہے۔‬
‫ایک دوسرے شعر میں ان کاانداز بڑاجارحانہ اور تضحیک آمیز ہوگیا‬
‫ہے‬

‫جولذت آشنائے مرگ ہوتا خضر تو وہ بھی نہ پیتا آب حیواں ‪ ،‬ڈوب‬
‫جاتا مرتا آب حیواں میں (‪ )۴‬ذوق‬

‫ظفر چشمہ خضر کو محض خوش بیانی کا نام دیتے ہیں‬

‫اے سکندر نہ ڈھونڈ آ ِب حیات‬ ‫چشمہء خضر خوش بیانی ہے (‪)۵‬‬
‫ظفر‬

‫میر صاحب ’’آ ِب حیوان‘‘ کو ایک دوسرے زاویہ سے دیکھ رہے ہیں۔‬
‫آب انسان (‪ )۶‬اپنی حیثیت میں بڑی اعلی اورکام کی چیز ہے ۔ نس ِل‬

‫آدمی کا اسی پرانحصار ہے ۔ اگر یہ ختم ہوگیا یا اس میں کسی قسم کی‬

‫کمزوری یاکجی پیدا ہوگئی تو آدمی باقی نہ رہے گا ۔ اپنی حقیقت میں‬

‫آ ِب حیات‘‘ہے اسی کے سبب انسان زمانے میں باقی ہے۔ شعر ’’یہی‬
‫کہیں نسل آدمی کی اٹھ نہ جاوے اس زمانے میں ملاحظہ فرمائیے‬

‫کہ موتی آب حیواں جانتے ہیں اب انساں کو (‪ )٧‬میر‬

‫غالب کے ہاں اس تلمیح کا استعمال بالکل الگ سے انداز کاحامل ہے‬
‫مجھ کو وہ دوکہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں‬

‫زہر کچھ اورسہی آ ِب بقا اور سہی‬

‫ہمیشگی تو موت کے بعد کی زندگی کو حاصل ہے ۔ محبوب کے لئے یا‬
‫محبوب کے ہاتھوں مرنا لایعنی اور معمولی عمل نہیں۔اس حوالہ سے‬

‫مرنے والے کب مرتے ہیں۔ اس طرح محبوب کادیا ہوازہر ’’ آب بقا‘‘ کا‬
‫درجہ رکھا ہے۔ دوسراتِل ِتل مرنے سے ایک بار مرنا کہیں بہتر ہے‬
‫۔اس زاویہ نظر سے زہر’’ آ ِب بقا‘‘ ٹھہرتا ہے ۔‬

‫آدم کا خلد سے نکلنا *‬

‫تخلیق آدم کے بعد جنت کو حضرت آدم اور ان کی زوجہ حضرت حوا‬
‫کا ٹھکانہ قراردیا گیا ساتھ میں یہ کہہ دیا گیا کہ ’’شج ِرممنوعہ‘‘ کے‬
‫قریب تک نہ جانا ورنہ ظالموں میں ٹھہروگے ۔ حضرت آدم کی بیوی‬
‫حوا نے شیطان کے بہکاوے میں آکر شجر ممنوعہ کا پھل کھالیا اور‬
‫آدم صفی اللہ علیہ السلام کو بھی کھلا دیا۔ اس بشری بھول کے نتیجہ‬
‫میں انہیں جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا گیا (‪ )۸‬قرآن کے علاوہ‬
‫اس معاملے کا بائیبل کے عہد نامہ جدید کے پہلے صحیفے’’ پیدائش‘‘‬

‫)میں ذکر ملتا ہے (‪۹‬‬

‫چھوٹوں کی غلطیوں پر عموماا بڑوں کو شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے ۔‬
‫چھوٹے بھی اس کیفیت سے گزرتے ہیں ۔ ولی ؔ لغز ِش آدم کولغز ِش‬

‫بنی نوع انسان پر محمول کر رہے ہیں اور اس پرنادم ہیں‬

‫ہم کووو شفی ِع محشر دیں پناہ بس ہے شرمندگی ہماری عذ ِر گناہ بس‬
‫ہے (‪ )١٠‬ولی‬

‫خوجہ درد کے نزدیک عباد ت ریاضت ’’گنا ِہ آدم‘‘ کا ثمرہ ہے ۔ اس’’‬
‫گناہ ‘‘ کو دھونے کے لئے آدمی متواتر عبادت کی راہ اختیار کئے‬
‫ہوئے ہے‬

‫سب طفی ِل گنا ِہ آدم ہے (‪ )١١‬درد مت عبادت پہ پھولیو زاہد‬

‫غالب کے نزدیک کوچہء محبوب سے بے آبرو ہو کر نکلنا‪ ،‬آدم کے‬
‫خلد سے نکلنے سے مماثل ہے‬

‫نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن بہت بے آبروہوکر ترے‬
‫کوچے سے ہم نکلے‬

‫ابن مریم *‬

‫حضرت عیسی ؔ کو اللہ تعالی نے بن باپ کے پیدا فرمایا ۔ انہیں ‪ ،‬ان‬
‫کی والدہ کے حوالہ سے ابن مریم کہا ہے۔ جب لوگوں نے حضرت‬

‫مریم کی گود میں بچہ دیکھا تو کہا کہ تمہارے باپ توایسے نہ تھے‪،‬‬
‫تم نے یہ کیا کیا۔ اس وقت حضرت عیسی ؔ نے اپنی ماں کی بے گناہی‬

‫کی گواہی دی اوراپنے صاحب کتاب نبی ہونے کا اعلان فرمایا(‪)١٢‬‬
‫حضرت عیسی ؔ کو اللہ تعالی نے بیماروں کو ٹھیک کرنے کی طاقت‬
‫عطا فرمائی ۔ اسی حوالہ سے ڈاکٹر کو ’’مسیحا‘‘ کانام دیا جاتا ہے ۔‬

‫غالب نے بھی اپنے اس شعر میں اسی بات کو حوالہ بنایاہے‬

‫ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے درد کی دوا کرے کوئی‬

‫اعجاز مسیحا *‬

‫حضرت عیسی ؔ کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ معجزہ بھی می ّسر تھا‬
‫کہ آپ قم باذن اللہ کہتے تومردے زندہ ہوجاتے (‪ )١۳‬مٹی کے پرندے‬

‫بنا کر پھونک مارتے تو وہ اللہ کے حکم سے فضا میں اڑنے لگتے‬
‫(‪ )١۴‬قائم چاند پوری کے ہاں اس تلمیح کا استعمال ملاحظہ ہو‬

‫کرے گوکہ اعجاز عیسی ؔ کے شیخ میں پہنچانتا ہوں اسے‪ ،‬خر ہے‬
‫وہ (‪ )١۵‬قائم‬

‫اعجاز مسیحا‘‘ کومحض ایک بات قرار دیتے ہیں’’غالب‬

‫اک بات ہے اعجاز مسیحا اک کھیل ہے اور ن ِگ سلیمان مرے نزدیک‬
‫مرے آگے‬

‫د ِم عیسی بھی اس تناظر میں استعمال میں لائے ہیں‬

‫مرگیا صدمہء یک جنب ِش لب سے غالب ناتوانی سے حری ِف دم‬
‫عیسی ؔ نہ ہوا‬

‫جنب ِش لب زندگی سے ہمکنار کرتی ہو ۔ بلاشبہ بہت بڑا کمال ہے ۔‬
‫جنب ِش لب موت سے ہمکنار کرتی ہو اوروہاں دم عیسی ؔ لایعنی اور‬
‫بیکار ٹھہرے تویہ اس سے بڑا کمال ٹھہرتا ہے ۔ یہ تلمیح اردو غزل‬

‫میں استعمال ہوتی آئی ہے ۔ مثلاا‬

‫بے فائدہ انفاس کو ضائع نہ کر اے درد ہردم ‪ ،‬د ِم عیسی ہے تجھے‬
‫پاس نہیں ہے (‪ )١۶‬درد‬

‫رشتہ تا ِر د ِم مسیحا ہو ہومبارک تجھے یہ فرخ فال (‪ )١٧‬چندا‬

‫بیماروں کی صحت کے حوالہ سے دوایک مثالیں ملاحظہ ہوں‬

‫ترے بیمار لب کے تئیں جودیکھا مسیحا کی نہیں کرتی دواخوب (‪)١۸‬‬
‫جہاں دار‬

‫بیمار یہ ایسا نہیں کہ آوے بھی مسیحا مرے بالیں پہ تو کیا ہو‬
‫محشر جس کو شفا ہو (‪)١۹‬‬

‫قائم چاند پوری ایسی زندگی پر حیف کرتے ہیں جوعیسی ؔ کی منت‬
‫وائے اس زیست پر کہ جس کے لئے ہوجئے منت پذیر پذیر ہو‬
‫عیسی ؔ کا (‪ )٢٠‬قائم‬

‫اورنگ سلیمان *‬

‫حضرت سلیمان بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ اللہ نے انہیں سلطنت اور‬
‫حکومت عطا کی ۔ ان کے پاس مال و منال ‪ ،‬جاہ وجلال ‪،‬محلات یہاں‬

‫تک کہ ان کے پینے کے برتن بھی خالص سونے کے تھے (‪)٢١‬‬
‫جانور اورعسکری سامان بھی موجودرہتا تھا۔ ان کے پاس ایک تخت‬
‫تھا جو ہوا میں اڑتا تھا ۔ ہوا ان کے تخت کو لے کر اڑتی اور ایک دن‬
‫میں دوماہ کا سفر طے کرتی (‪ )٢٢‬حضرت سلیمان کے تخت کا مختلف‬
‫قائم چاند پوری نے تخت حوالوں سے اردو شاعری میں ذکر آتا ہے‬
‫سلیمان کے حوالہ سے قل من علیھا فان کے فلسفے کو اجاگر کیا ہے‬

‫وہ تخت جو چلتا تھا پوچھیں گے سلیمان سے کہ کیدھر کیا برباد‬
‫بہ توقیر ہو اپر (‪ )٢۳‬قائم‬

‫ولی ؔ دکنی نے عشق میں بوریا نشینوں کے بوریا کو تخ ِت سلیمان‬
‫کاسا قراردیا ہے‬

‫کنج میں تجھ عشق کے جن نے کیا ہے مقام‬

‫اس کوں ٹوٹا بوریاتخت سلیماں ہوا (‪ )٢۴‬ولی ؔ‬

‫غالب اورنگ سلیمان کو محض کھیل تماشا قراردیتے ہیں۔ انسانی‬
‫فراست کی سربلندی کے حوالہ سے دیکھا جائے تو ان کا کہا غلط نہیں‬

‫لگتا ۔ آج روشنی سے تیز رفتار طیارے ایجاد ہوگئے ہیں ۔اورنگ‬
‫سلیمان عنای ِت خداوندی تھی۔ حضرت سلیمان نے یہ تخت خود ایجاد‬
‫نہیں کیا تھا جبکہ روشنی سے تیز رفتا ر طیارے اللہ کی عطا کی ہوئی‬

‫فراست کا زندہ جاوید ثبوت ہیں‬

‫اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک اک بات ہے اعجاز مسیحا‬
‫مرے آگے‬

‫ارم *‬

‫حضرت نوح کی ‪ ۵‬ویں پشت سے ایک شخص کا نام عاد تھا ۔ شدید‬
‫اورشداد اس کے دوبیٹے تھے اوردونوں بادشاہ تھے۔ جب شدید مرگیا‬
‫تو سب ملکوں کا بادشاہ شداد قرار پایا ۔ اس نے اتنی ترقی کی کہ دنیا‬
‫کا بادشاہ بن گیا ۔ وہ خدائی کا دعوی کرتا تھا۔ اس وقت کے پیغمبر جب‬

‫اس کی ہدایت کو آئے اورجنت کی بشارت دی۔ اس نے بہشت کی‬
‫تفصیلات ان سے پوچھیں ۔ پیغمبر خدا نے بتادیں۔ اس نے ایک معتدل‬

‫جگہ منتخب کی اوربہشت بنوانا شروع کردیا ۔ اس کام پر ایک لاکھ‬
‫مزدور کام کرتے تھے ۔ جب یہ بہشت تیار ہوا تو اس نے اس کا نام‬

‫اپنے دادا کے نام پر باغِ ارم رکھا۔ قرآن مجید میں عا ِد ارم کا ذکر‬
‫موجود ہے ۔ معاویہ بن ابوسفیان کے زمانے میں عبداللہ بن ثلاثہ اپنے‬

‫اونٹ کی تلاش کرتا ہوا اس باغ میں پہنچ گیا چنانچہ واپس آکر جو‬
‫کیفیت بیان کی اس کی تصدیق کعب احبار نے کی (‪ )٢۵‬باغِ ارم‬

‫تعمیراتی ذوق اور حسن و جمال کی علامت ہے ۔ اردو غزل میں یہ‬


























Click to View FlipBook Version