201
سنت تھ جسے ک ب وبت خ ن میں آخر امجد میں اسے حضرت
)انس ن میں دیکھ (
خواج درد ک موقف ہے ک خدا کے س ج وے حضرت انس ن
:میں ملاحظ کئے ج سکتے ہیں
ج وہ توہر اک طرح ک ہرش ن میں دیکھ جوکچھ ک سن تجھ میں
)سو انس ن میں دیکھ (
ایک دوسری جگ پر انس ن کے خ کرنے ک مقصددردمندی
:بت تے ہیں
درددلی کے واسطے پیدا کی انس ن کو ورن ط عت کے لئے کچھ
)ک ن تھے کروبی ں (
میر جگنو ارزاں کے مط ب انس ن کے وجود خ کی میں ایک
:ک ئن ت پنہ ں ہے ت غوروفکر کی ضرورت ہے
زمین وآسم ں اور مہر وم س تجھ میں ہیں انس ں
)نظر بھر دیکھ مشت خ ک میں کی کی جھمکت ہے (۷
مصط ے ع ی خ ن یکرنگ ک کہن ہے ک اس حسین پیکر والے
کو محض انس ن ہی ن سمجھ ،ی اپنی ذات میں کی ہے ،کھوج
:کرنے کی ضرورت ہے
اس پری پیکر کو مت انس ن بوجھ شک میں کیوں پڑت ہے اے
202
)دلی ج ن بوجھ (
ح فظ عبدالواہ سچل کے نزدیک انس ن ک ئن ت ک دلداد بننے
کے لئے وجود میں آی ہے۔ انس ن حضرت ب ری ک گوی تمث لی
:اظہ ر ہے
برائے خواہش ال ت ہوا اظہ ر وہ بے چوں اسی دنی میں وہ دلدار
)بن انس ن آی ہے(
غ ل انس ن کو کوئی فو ال طرت وجود نہیں سمجھتے ۔ ان کے
نزدیک ی مخت ف ح لتوں اور کی یتوں سے دوچ ر ہوت ہے۔اس پر
:گھبراہٹ بھی ط ری ہوتی ہے
کیوں گردش مدا سے گھبران ج ئے دلی انس ن ہوں پی ل
وس غر نہیں ہوں میں
انس ن کوئی شے نہیں ب ک محسوس کرنے والی مخ و ہے۔
ح لات کی گرمی سردی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ت ہ پہ ایک
بھی ہوج ت ہے اور پھر ) (Adjuestسے ح لات سے خوگر
ح لات کے طلاط کو م مول سمجھ کر زندگی گزار دیت ہے۔ غ ل
کے نزدیک آدمی سے انس ن بننے تک ،آدمی کو نہ یت کھٹن
:گزار مراحل سے گزرن پڑت ہے
بسک دشوار ہے ہر ک ک آس ں ہون
آدمی کو بھی میسر نہیں انس ں ہون
203
انس ن بنن دشوار سہی ،امک ن سے ب ہر نہیں ۔ اردو غزل کے
ش ر ا نے انس ن سے مت جو نقش پیش کی ہے وہ بڑا دلکش
اور پرکشش ہے۔ آدمی کے اندر انس ن بننے کی خواہش ابھرتی
ہے لیکن ج ی شدت اختی ر کرتی ہے تو اعتب ر میں اض ف
ہوت چلا ج ت ہے۔ اعتب ر ج م تبر ہوج ت ہے تو انس ن اپنے خ ل
سے ج م ت ہے ۔ گوی اعتب ر ،انس ن کو آدمیوں میں محتر
ٹھہرات ہے۔
:اک شخص
ل ظ ’’شخص‘‘ کے حوال سے کوئی روی س منے نہیں آت ۔’’
اک‘‘ ک س بق اسے عمومی سے خصوصی ک درج عط
کرت ہے۔ وہ شخص کو ن ہے ،ظ ہر نہیں ہوت لیکن اس کی
ک رگزاری اسے محتر اور من ر د کر دیتی ہے۔’’ اک ‘‘ سے
مت سی وسب اس کے کر دار کو واضح کرتے ہیں ۔غ ل
ک ’’اک شخص ‘‘ کردار ی حوال سے بڑا اہ ہے۔ اس کے ن
ہونے سے زندگی غیر متحرک ہوج تی ہے۔ وہ تھ تو خی لات میں
:جولانی تھی رعن ئی تھی
تھی وہ ’’ اک شخص ‘‘ کے تصور سے
ا وہ رعن ئی خی ل کہ ں
اردو ش عری میں شخص کی تخصیص کے لئے مخت ف نوح کے
س بقے لاحقے است م ل میں آئے ہیں۔ ان س بقوں اور لاحقوں
204
:کے حوال سے ان کے کردار کی نوعیت س منے آتی ہے
س حل تم اشک ندامت سے اٹ گی
دری سے ’’کوئی شخص‘‘ تو پی س پ ٹ گی ( ) شکی
ی ’’کوئی شخص ‘‘ دری پر آکر بھی پی س رہ ۔ دری سے کچھ
میسر ن آن یقین ادری کی توہین ہے۔ دری دوہرے کر ک شک ر
:ہے
الف ۔ کوئی اس کے پ س آکر م یوس رہ
! ۔ پی س ہی رہے گ ؟
اس طرح دری کے ہونے ک جواز ہی ب قی نہیں رہ ۔ اس ک ہون
ن ہون ایک ہی ب ت ہے۔دونوں حوالوں سے دری کے وجود پر
گہری چوٹ پڑتی ہے۔
آخر کو’’وہی شخص‘‘ بن دشمن ج ں
وہ شخص جو سرم ی ء ج ن تھ پہ ے( ) قمر س حری
وہ شخص ‘‘اس امر کو واضح کر ت ہے ک ح لات ایک سے ’’
نہیں رہتے ۔ دوستی دشمنی میں اور دشمنی دوستی میں تبدیل
ہوسکتی ہے اور ی کسی وقت بھی ہوسکت ہے ۔ اس کے لئے
کسی بڑی اور م قول وج ک ہون ضروری نہیں۔ گہری دوستی
کسی فری کے حوال سے استوار ہوئی۔ ی دوستی پھ ی ،پھولی
205
،م د پور ا ہونے کے ب د د توڑ گئی ۔ ایسے میں فری ث نی ک
غص ،ملال ی پھر شدید رد عمل لای نی اور غیر فطری ن ہوگ ۔
:ب م نی ،بے م نی ہو کر رہ گی
جو ح ل ہے بستی ک تمہ رے ہ تھوں
ہر شخص کے چہرے پ نظر آوے ہے( ) قمر س حری
ہر شخص ،کسی کی درندگی اور ظ و استبداد ک گواہ ہے
کیونک وہ خودظ و درندگی ک شک ر ہے ۔ اسے اپنے ب رے
کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے چہرے پر کسی فرعون کی
فرعونیت ج ی حروف میں رق ہے۔
:ب غب ن
ارد وغزل میں ’’ب غب ن‘‘ ک کردار ،علامتی اور غیر علامتی
حوالوں سے م روف چلا آت ہے ۔ تزئین وآرائش ،ح ظت و
نگہ نی اور آب د ک ری کے حوال سے ،اس کردار پر توج رہتی
ہے۔ اس کردار کی دانست ی ن دانست غ ت ش ری سے ن ق بل
تلافی نقص ن ک احتم ل ہوت ہے ۔ اس کردار کی محت ط روی ،
توج ،محنت و ک وش اور اپنے منص سے لگن کے سب ب نح
پھل پھول سکت ہے۔ اس ل ظ کے حوال سے ایک بڑاہی ذم دار
کر دار ذہن کے کینوس پر ابھر ت ہے ۔ اس کی ہر حرکت توج ک
مرکز رہتی ہے کیونک ا س کی ک رگزاری کے س تھ فن وبق ک
م م جڑا ہوت ہے ۔ اردو غزل سے چند مث لیں ملاحظ ہوں
206
ارے ب بل کسے پر ب ندھتی ہے آشی ں اپن
)ن گل اپن ،ن ب اپن ،ن لطف ب غب ں اپن (
می ں محمد سرفراز عب سی
ھ) ک ی ش ر عج می ں محمد سرفراز عب سی(متوفی
مخمصے ک سب بنت ہے ۔ب غب ن کی عن یت ہر ج نبداری سے ب لا
ہوتی ہے لیکن ش ر میں کہ گی ہے ک ب غب ن ک لطف میسر ہی
نہیں ۔ اس میں مت سے انحراف آگی ہے ۔ ج ب غب ن توج
کھینچ لے توخیر کی توقع حم قت کے سوا کچھ نہیں ۔ دوسری
طر ف ی م م بھی س منے آت ہے ک دنی کے نمبر دار غیر
ہوگئے ہیں اور اپنوں ہی سے من پھیر ے بیٹھے ہیں ۔ اس لئے
اپنے ہی دیس میں غربت سے دوچ ر ہوں توٹھک ن بن نے ک
سوال لای نی ٹھہرت ہے۔ب غب ن تواپنے ب کی پتی پتی ،بوٹے
بوٹے سے پی ر کرت ہے۔ ب غب ن سراپ لطف وعن یت ہو کر بھی
ب نٹ میں ڈنڈی م رت ہے ۔ب ض کو یکسر نظر انداز کرت ہے اور
کچھ کو جو ب کے لئے ب م نی ہیں جڑسے نک ل ب ہرکرت ہے۔
مرزا مظہر ج ن ج ن ں کے ہ ں بھی کچھ اسی قس ک مضمون
:م ت ہے
ی حسرت رہ گئی کی کی مزے سے زندگی کرتے اگر ہوت چمن
اپن ،گل اپن ب ب ں اپن ( )مظہر
207
اپن
کوک ی ج نبداری کے م نوں میں بھی لی ج سکت ہے ۔ ک ی
کی ) (Demeirtج نبداری کے سب غیر مستح ج نبداری
توقع ہوتی ہے ت ہ اس کے ی م نی بھی نہیں بنتے ک وہ ج نت
ہی نہیں ۔ انس ن کی خواہش ہوتی ہے ک ب نٹ بلاشراکت غیر ے
اسی کے حص میں آئے ۔ وہ چ ہت ہے آق ک لطف اسی سے
مخصوص رہے ۔ آتش کو بھی شکوہ ہے ک ب غب ن کی
نوازشیں متوازن نہیں ہیں۔ وہ انص ف پرور نہیں ۔
ب غب ن انص ف پر ب بل سے آی چ ہیے پہنچی اس کو زرگل کی
پہنچ ی چ ہیے ( )آتش
غ ل کے ہ ں ب غب ن بطور تشبی است م ل میں آی ہے ۔ ب غب ن
کے دامن میں کی کچھ نہیں ہوت لیکن وہ مخصوص موق وں پر
دامن کھولت ہے ۔ موقع گزر ج نے کے ب د اس ک دامن عن یت بند
ہوج ت ہے ۔ گوی ب غب ن ہم وقت ک دی لو نہیں ہے ۔ ان حق ئ
کی روشنی میں ب غب ن سے وابست توق ت ب طل ٹھہرتی ہیں ۔
لہذا اس سے توق ت وابست کرن ف ل لاح صل سے زی دہ نہیں ۔
وہ ن صر ف بخیل سے ب ک ج نبد ار اور گرہ ک پک ہے۔
ی ش کو دیکھتے تھے ک ہر گوش ء بس ط دام ن ب غب ن وکف
گل فروش ہے
ب غب ن اپنے پھولوں کی بولی چڑھ رہ ہے اس سے زی دہ اندھیر
208
کی ہوگ ۔
:بت
انس نی م شرتوں میں بت پرستی ع اور عروج پر رہی ہے ۔
بتوں سے بہت س ری شکتی ں منسو رہی ہیں ۔انس ن دوستوں
کی انس ن دوستی سے مت ثر ہو کر ان کے بت بن کر پوج کی
ج تی رہی ہے۔ انہیں ط قت ک سرچشم سمجھ گی ہے ۔
کھدائیوں میں مخت ف اقوا کے بن ئے گئے بت م ے ہیں ۔جس
سے بتوں کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ شکتی کے ب عث ’’بت‘‘
م شروں کے حقیقی اقتدار اع ٰی سمجھے گئے ہیں۔ بت ،موحد
کے لئے کراہت جبک بت پرستوں کے دلوں میں احترا کے
احس س پیدا کرتے ہیں۔
اردوغزل میں ل ظ’’بت‘‘ ک زی دہ تر محبو کے م نوں میں
است م ل ہواہے۔ انش نے بت کو ایس خوبصور ت محبو جو
دلی میں دوئی بن کر براجم ن ہوج ئے ،کے حوال سے نظ کی
:ہے
ج دو ہے نگ چھ ہے غض قہر ہے مکھڑا اور قدہے قی مت
غ رت گردیں ہے وہ بت ک فر ہے سراپ اللہ کی قدرت ( )انش
بت کے س تھ ’’ک فر‘‘ پیوند کرکے اس کی ک رگزاری
(غ رتگردیں) واضح کر دی گئی ہے۔
209
محمد ش کر ن جی کے ہ ں ،وہ جو اپنے وصف کے سب اچھ
لگے ،اس کے مت ب تیں سنن خوش آت ہوگوی دلی ودم
میں گھر کرے اور ی د مس سل بن ج ئے ،کے م نوں میں
است م ل کی گی ہے۔
اے صب کہ بہ ر کی ب تیں اس بت گ ذار کی ب تیں () ۷ن جی
جرات نے بت کو ف رٹ کرنے والا’’چ لو‘‘ اورعی ر کے طور پر
:است م ل کی ہے
کی ب ت کوئی اس بت عی ر کی سمجھے بولے ہے جو ہ سے تو
اش رت کہیں اور( ) جرات
غ ل نے ایس محبو جس سے پوج کی حدتک محبت کی
:ج ئے ،کے م نوں میں لی ہے
چھوڑوں گ میں ن اس بت ک فر ک پوجن چھوڑے ن خ گو
مجھے ک فر کہے بغیر
ایک دوسری جگ ،اس کی محبت کو ،ایم ن ک درج دے رہے
:ہیں
کیونکر اس ب ت سے رکھوں ج ن عزیز کی نہیں ہے مجھے
ایم ن عزیز
:ایک ش ر میں طنزک نش ن بن تے ہیں
210
ت بت ہو پھر تمہیں پندار خدائی کیوں ہے ت خداوند ہی کہلاؤ
خدااور سہی
:درج ب لا مث لوں میں بت کے س تھ ل ظ تخصیص بھی نظ ہواہے
بت ک فر انش ،غ ل
بت گ ذار ن جی
بت عی ر جرات
اس بت غ ل
ت بت غ ل
ان س بقوں اور لاحقوں کی مدد سے بت پہچ ن سے ب ہر نہیں
رہت ۔ایسے ہی جیسے لات و من ت ،شیو ،وشنوی برہم ،شتی کی
مورتی ں ۔ ی بت سونے چ ندی اور پھولوں سے لدھے رہتے ہیں
۔ محبو بھی بن ؤ سنگ ر سے غ فل نہیں ہوتے۔
:برہمن
برہمن کو بتکدے (مندر) کی حرمت اور احترا ک امین سمجھ
ج ت رہ ہے ۔ اس کی وج سے ہندودانش کے تم حوالے
ہندوسم ج میں پھ ے پھولے ہیں۔ اسے ہند ودھر ک رکھوالا اور
پرچ رک سمجھ ج ت رہ ہے۔ ہندوگی ن دھی ن سے مت اس نے
دوسروں سے زی دہ ع اور ویدان ح صل کی ہوت ہے۔ دوسراوہ
211
اونچی ذات سے مت ہوت ہے اس لئے ہند و سم ج میں محتر
رہ ہے ۔ اسے ’’برہمن دیوت ‘‘ بھی کہ ج ت رہ ہے ۔ برہمن اپنے
موقف میں ضدی ،اڑیل اور ہٹھیل سمجھ ج ت ہے ۔ ل ظ برہمن
ج ذہن کے پردوں سے ٹکرات ہے تو ہندو دھر سے مت
لوگوں کے رو رو میں پرن کے چشمے اب نے لگتے ہیں ۔
ل ظ برہمن اردو ش عری میں مخت ف حوالوں سے نمودار ہوا
:ہے
مومن نے فدا ہوج نے والا ،اڑ ج نے والا ،تل ج نے والا ،
دیوان وغیرہ کے م نوں میں است م ل کی ہے۔
بن ترے اے ش روآتشکدہ تن ہوگی
شمع قدپر میرے پروان برہمن ہوگی ( )مومن
یقین ن ک می پر سٹپٹ نے والا کے م نوں میں است م ل کرتے
ہیں۔
برہمن سر کو پیٹت تھ دیر کے آگے
خداج نے تری صورت سے بتخ نے پر کی گزرا ( )یقین
محمد عظی الدین عظی فن ہوکر وصل ک ط ل ،جس ک جذ و
خ وص اور استقلال مت ثرکرے ،وہ جسے ہرکوئی دلی دے
بیٹھے ،ایس محبو جو بہت سوؤں ک عش اپنے سینے میں
مخ ی رکھنے والاوغیرہ م نوں میں است م ل کی ہے
212
برہمن جس کے دلی میں آرزو ہے مرکے درسن کی
)مجھے ہے آرزو ہر وقت درسن اس برہمن کی (
عظی اس حسن عش آمیز نے مجھ دلی کوں گھیراہے
)برہمن ہر ک عش ہے ،میں ع ش ہوں برہمن ک (
غ ل نے ست روں ک حس کرکے مستقبل کی پیش گوئی کرنے
ولا اور دھر سے وف دار ی کرنے والا کے م نوں میں نظ
:کی ہے
دیکھئیے پ تے ہیں عش بتوں سے کی فیض اک برہمن نے
کہ ی س ل اچھ ہے
وف داری بشرط استواری اصل ایم ں ہے مرے بت خ نے میں
توک بے میں گ ڑو برہمن کو
:بسمل
بسمل ج ن قرب ن کرنے کے حوال سے اپن جوا نہیں رکھت ۔
وف داری او ر استواری اس کردار ک خصوصی وصف سمجھ
ج ت ہے۔ میدان میں اترنے والے کے ہ ں زندہ رہنے کی امید
ہوتی ہے لیکن بسمل کو تڑپ تڑپ کر کشت ہونے ک یقین
ہوت ہے۔ وہ اس کو ہی اپنی ک می او رمنزل سمجھت ہے۔ اسی
حوال سے وہ ’’بسمل‘‘ کے لق سے م قو ہوت ہے۔ ج تے
ہوئے تڑپن م شو کو تسکین دیت ہے ۔ اسے اس کے ع ش
213
ص د ہونے ک یقین ہوج ت ہے ت ہ دوسری طرف اذیت پسندی
کے الزا سے بھی بری نہیں ہو پ ت ۔ اذیت پسندی پیم نے
متوازن نہیں رہنے دیتی ۔ بسمل کے حوال سے تین طرح کے
:رویے ابھرتے ہیں
الف ۔ حیرت انگیز وف داری اور استواری
۔ وف داری کے یقین کے لئے اتنی کھٹن آزم ئش ک ع ش ج ن
سے ج ئے
ج۔ عش کی یقین دہ نی کے لئے ج ن پر کھیل ج ن سراسر
حم قت اور ن دانی ہے
جوبھی سہی ’’بسمل ‘‘ کو ج ن دینے اورم شو کو آزم نے میں
آسودگی ح صل ہوتی ہے
اردو ش عری میں ی کردار پوری آ وت سے زندہ نظر آت ہے
۔کر دادخ ں درد ک کہن ہے ۔ محبو کے آست نے ک احترا
م حوظ خ طر رکھتے ہوئے بسمل کے لئے لاز ہے ک وہ تڑپے
لیکن محبو کے آست نے کی خ ک پر ب ل وپر ن لگنے
پ ئیں۔محبو ،ع ش ص د کی تڑپت ک نظ رہ کرے۔ س تھ میں
اس کے آست نے کی خ ک کسی کے خون سے آلودہ ن ہو ی نی
اس خ ک پر خون ہونے ک الزا بھی ن آنے پ ئے ۔
اد ضرورہے اس خ ک آست نے ک تڑپھ تو اس طرح بسمل ک
214
ب ل وپر ن لگے( )درد
خواج درد ک موقف ہے کشتے ک کچ رہ ج ن اور کشت ک ر
ک اس سے غ فل ہوج ن درست نہیں کشت ۔ میں خ می ن رہن ہی
کشت ک رک کم ل ہے۔
نی بسمل کوئی کسوکو چھوڑ اس طرح بیٹھت ہے غ فل
ہو( )درد
م لق ب ئی چندا نے نکت نک لا ہے۔
قدموں پ سر تھ کوئی روبروئے تیغ ابھی تڑپ سے رہ بسم وں
ک جی ( ) چندا
غ ل کے نزدیک بسمل کو اذیت لطف دیتی ہے لہذا جس قدر
ممکن ہے اذیت (مش ن ز) دو ۔ متقولین ک خون میں اپنی گردن
:پر لیت ہوں
اسد بسمل ہے کس انداز ک ق تل سے کہت ہے ک مش ن ز کر
خون دوع ل میری گردن پر
ی کردار وف ش ری ،استق مت ،استواری اور م م ے سے
کمٹ منٹ ک لاجوا نمون پیش کرت ہے۔
:بشر
بندہ بشر‘‘ ع بولا ج نے والامح ورہ ہے۔ اس مح ورے میں ’’
215
لغزش آد ک واضح طور پر اش رہ موجود ہے۔ گوی بشر سے
غ طی کوت ہی ن ممکن ت میں نہیں۔ وہ انس نیت کے کسی بھی
درجے پر ف ئز ہوج ئے اس سے چوک ہوہی ج تی ہے ۔ ل ظ بشر
ایسے کردار کو س منے لات ہے جو ضدین ک مجموع ہے۔ اس
کی کسی لغزش ی کسی ک رن مے پرحیرت نہیں ہونی چ ہیے ۔
اچھ ئی ،برائی دونوں عن صر اس کی فطرت ک حص ہیں۔
محت ط اور بڑے لوگوں کی ’’بشری کوت ہیوں ‘‘ ک ریک رڈ ت ریخ
اور آسم نی کت بوں میں موجودہے ۔ اردو غزل میں ل ظ
’’بشر‘‘مخت ف حوالوں سے پینٹ ہواہے۔
ح فظ عبدالوہ سچل ک کہن ہے بشر کے ظ ہر کو دیکھ کر کوئی
اندازہ لگ لین من س نہیں ۔ بشر کے ب طن میں جھ نک کر
دیکھن چ ہیے ک وہ اپنے ب طن میں کی کم ل کے خزینے
چھپ ئے بیٹھ ہے
صور ت بشر کی ہے مری ،ظ ہر گد اگر ہوں بن
ب طن کی پہچ نے مرے ،
)س ط ن ہوں ،س ط ن ہوں (
علام ح لی کے نزدیک بشر اگر کوئی ک رن م سر انج نہیں
دیت تو اس کی حیثیت ص ر زی دہ نہیں ۔
بشر سے کچھ ہوسکے ن ایسے جینے سے کی ف ئدہ ہمیش
216
بیک ر تجھ کو پ ی ،کبھی ن سرگر ک ردیکھ () ۷ح لی
غ ل بشر سے ’’بندہ بشر‘‘ ہی مراد لے رہے ہیں ۔
دی ہے دلی اگر اس کو ،بشر ہے،کی کہیے
ہو ا رقی توہو ،ن م برہے ،کی کہیے
بشر کوئی فو ال طر ت مخ و نہیں جواس سے صرف خیر کی
توقع رکھی ج ئے ۔ اس سے خی نت اور بددی نتی ،کوئی حیرت
کی ب ت نہیں۔
ب بل ایران ک خوش گ و پرندہ ہے ۔ف رسی اور اردو ش را نے
:ب بل
اس ل ظ کو مخت ف م ہی میں است م ل کی ہے ۔ علامتی اور
است راتی است م ل بھی پڑھنے کو م ت ہے ۔ اس ل ظ کے
است م لات کی نوعیت کے مط ب ،مخت ف قس کے سم جی ،
م شرتی اور سی سی حوالے ذہن میں ابھرآتے ہیں۔ت ہ خوش
الح نی اس کردار ک بنی دی وصف رہ ہے ۔ درد سوز وگداز اور
نوح گری کی مخت ف صورتیں بھی س منے آتی ہیں ۔ ارد وغزل
مینی کردار مخت ف حوالوں سے بڑا متحرک رہ ہے۔مثلاا
مظہر ج ن ج ن ں کے ہ ں عش میں محبو کے ہ تھوں س
کچھ لٹ دینے والا کے طور پر نمودار ہواہے
217
گئی آخر جلا کر گل کے ہ تھوں آشی ں اپن
ن چھوڑا ہ ئے ب بل نے چمن میں کچھ نش ں اپن ( )مظہر
بہ در مرزاخرد کے مط ب محبو ج آزادی چھین لینے کی تمن
کرت ہے توی اس کی تمن کی تکمیل کے لئے از خود پ ب زنجیر
ہوج ت ہے
دلی اڑا کے پہنچ ،ج ہو ااس گل کوشو صید ب بل کو پر
لگ دئیے شو شک رنے ( )خرد
خواج برہ ن الدین آثمی نے ب بل کے ذری ے اپنے عہدے کے
پرگھٹن ح لات اور شخص کی بے اختی ری کو واضح کی ہے۔ بے
اختی ر اور آزادی سے محرو چہرے پر مسکراہٹ حرا ہوج تی
ہے لیکن وہ روبھی نہیں سکت ۔ اس کی حیثیت کسی کل پرزے
سے زی دہ نہیں ہوتی
میں وہ ب بل ہوں ک صی د کے گھر بیچ پیدا ہوا جہ ں میں آنکھ
جو کھولی ق س میں آشی ں دیکھ ( )آثمی
میر ب قر حزیں کے مط ب خوبصور ت ح لات میسر ہوں تو نقل
مک نی کی کو ن سوچت ہے ت ہ غ ص کے جبر کے زیر اثر
س کچھ چھوڑن پڑت ہے ۔ حزیں نے ’’ب بل ‘‘ کے حوال سے
ح لات کی ن خوشگواری واضح کی ہے۔
ی کہ کے ب سے رخصت ہوئی ب بل ک ی قسمت
218
لکھ تھ یوں ک فصل گل میں چھوڑیں آشی ں اپن ( )حردیں
غ ل کے ہ ں ی کردار بطور نوح گر است م ل ہواہے ۔ انس نی
فطرت ،مخت ف ح لات میں مخت ف رویے اختی ر کرتی ہے۔ دکھ
ی ڈپریشن کی صور ت میں ح لات اور م حول کی تبدی ی اسے
ری یف مہی کرتی ہے۔ج نوح گر س تھ میں ہوگ تووہ
ن خوشگواری کوکیونکر بھولنے دے گ ۔ہم وقت ک رون دھون
ن صر ف زندگی ک لطف چھین لیت ہے ب ک کچھ کر گزرنے کی
حس کو بھی ن ق بل تلافی نقص ن پہنچت ہے۔ دیکھئیے غ ل اس
ب میں کی کہتے ہیں
مجھ کو ارزانی رہے تجھ کو مب رک ہوجیو ن ل ء ب بل ک درد اور
خندہ گل ک نمک
ب بل گوی ایس کردار ہے جو مس سل م یوسی اور پریش نی پھیلات
ہے ۔ اس کے ن لے شخص کے درد کو ت زہ رکھتے ہیں۔
ب بل ک متراد ف عندلی اردو غزل میں است م ل ہوت آی ہے ۔ یکر
نگ اس کردار کے حوال سے نکت نک لتے ہیں ک عندلی کی
ش یست اور کومل آواز اور اس کی آہ وفغ ں چ ر سو پھیل کر
توج ح صل کر لیتی ہے۔ توج پھر ج نے کے سب افسردگی ک
ع ل ط ری ہوج ت ہے
ک نہیں کچھ بوئے گل سیتی فغ ن عندلی
219
برگ گل سے ھیگی ن زک ترزب ن عندلی ( )یکرنگ
غ ل کے ہ ں اس کردار کی ک ر فرم ئی اور ہی رنگ کی ح مل
ہے ۔ ش دی میں نوح گری کی موجودگی بھلا کس کو خوش آتی
ہے
اے عندلی یک کف خس بہر آشی ں طوف ن آمدآمد فصل بہ رہے
آمد فصل بہ ر میں نوح گر کو ’’آشی ں ‘‘ چھوڑنے ک مشورہ
دین ہی ص ئ لگت ہے ک خواہ مخواہ رنگ میں بھنگ ڈالے گ ۔
:بیم ر
ی تے (طے) سی ب ت ہے ک بیم ر کے ش و روز ن گواری ،
پریش نی اور وسوسوں ک شک ررہتے ہیں ۔یہی نہیں بیم ری اس
کے اعص چٹ کر ج تی ہے اور اس کے سوچ کو من ی
حوالوں کے س تھ جوڑے رکھتی ہے۔ بیم ر ،تک یف ،کمزوری
اور سوچ کے من ی زوایوں کے سب زندگی کے کسی میدان میں
کوئی کردار اداکرنے سے ق صر رہت ہے۔ ’’ل ظ بیم ر‘‘ سنتے ہی
ایک ایسے شخص ک تصور س منے آج ت ہے۔ جوہمدردی ک
مستح ہوت ہے لیکن اس کی ہر وقت کی م یوسی اور ہ ئے
وائے دم پر بوجھ س بن ج تی ہے۔ اردو غزل میں ی کردار
نظر انداز نہیں ہوا۔ بیم ر عش کے علاوہ بیم روں ک ذکر بھی
م ت ہے۔
220
مرزاسودا ک کہن ہے ع رضے میں مبتلا شخص ک عج ح ل ہو
ج ت ہے ۔ ہجر ک ع رض سوچ کو ج مد کرکے رکھ دیت ہے۔ ہجر
کی بیم ری انس ن کو اندر سے کھ ئے چ ی ج تی ہے
تیری دوری سے عج ح ل ہے ا سودا ک میں تو دیکھ نہیں
ایس کوئی بیم ر ہنور ( )سودا
می ں محمدی م ئل ک خی ل ہے ک بیم ری کی ’’ہوس‘‘ بڑھ ج تی
ہے۔ اگرچ ہوس بھی ذہنی ع رض ہے ۔
کی کہوں میں تجھ سے دلی زار کی ہوس مشہور ہے جہ ں میں
بیم رکی ہوس ( ) م ئل
لال نول رائے وف کے نزدیک بیم ر کی بیم ری سے اندازہ
ہوج ت ہے ک وہ زی دہ دیر ک نہیں
کہنے لگ وہ من کے مرا ن ل وفغ ں ی ر جی کرئے گ ی
بیم ر ک ت ک ( ) وف
میر محمدی قرب ن کے نزدیک ’’نگ ک بیم ر‘‘ مسیح کی
دسترس سے ب ہر ہوت ہے۔ کوئی م لج (سمجھ ن بجھ ن ) اس پر
ک رگر ث بت نہیں ہوت ب ک نیتج الٹ ہی نک ت ہے ۔ نگ ہ ال ت ک
نگ ہ قہر ک ڈس لاعلاج ہوت ہے
کسی کی برگشت ک ہوں میں بیم ر ی ں مسیح کی ہوئی ج تی ہے
تدیبر الٹی ( )قرب ن
221
جہ ں دار ک بھی یہی نظری ہے
تیرے بیم ر ا کے تےءں جو دیکھ مسیح کی نہیں کرتی دوا
خو ( ) ۷جہ ں دار
محبت خ ں محبت کے خی ل میں بیم ر عش ک جین مرن برابر
ہوت ہے ۔وہ عمرانی حوال سے بیک ر محض ہوت ہے۔
جس کو تیری آنکھوں سے سر وک ر رہے گ ب ل رض جی بھی
تو وہ بیم ر رہے گ ( )محبت
غ ل نے ع ش کے س تھ ’’بیم ر‘‘ک پیوند کرکے عش کو
بیم ری قرار دی ہے۔ان کے نزدیک ی بیم ری ج ن لے کر د
لیتی ہے
مندگئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے خو وقت آئے ت
اس ع ش بیم ر کے پ س
بیم ر ک مترادف ل ظ’’ مریض‘‘ بھی اردو غزل میں اپنی الگ
سے پہچ ن رکھت ہے۔ یہ ں بھی ع ش ہی مریض سے م قو
نظر آت ہے میر ص ح کے نزدیک مرض عش ج ن لے کر
چھوڑت ہے۔ عش گوی ایک ن سی تی ع رض ہے جس کی شدت
سے ج ن بھی ج سکتی ہے۔
مت کر عج جو میر ترے غ میں مرگی جینے ک اس مریض
کے کوئی بھی ڈھنگ تھ ؟ ( ) میر
222
ق ئ کے خی ل میں مریض عش ک مرج ن ہی اچھ ہے ۔ اس ک
ہرد وب ل ہوت ہے۔ وب ل(اذیت) ک جین بھی کی جین ہے۔ اس سے
مرج ن ہی بہتر ہوت ہے
چھوٹ ترا مریض اگر مرگی ک شوخ جو د تھ زندگی ک سو اس
پر وب ل تھ ( ) ق ئ
می ں جگنو کے نزدیک ،مریض عش ،ع رض عش میں رہے
تو اچھ ہے ۔ اس ک بہتر ہون دوسروں کو بیم ر کر دیت ہے۔ وہ
قص ء عش سن سن کر اوروں کو ہ ک ن کردے گ ۔
ایسے مریض عش کو آزار ہی بھلا اچھ کبھی ن ہووے ی
)بیم ر ہی بھلا (
غ ل کہتے ہیں مریض عش کی ح لت دیکھنے والا ،مریض
کی مرض سے زی دہ واقف ہوت ہے۔ اگر کوئی م لج ،تیم دار کے
کو نظر انداز کرکے دعو ٰی ب ندھے ک ی اچھ Coments
ہوج ئے گ اور اگر وہ اچھ ن ہوتو مسیح کو سزا(جرم ن ) دی
ج ئے ۔ ایک دوسرا پہ و ی بھی ہے ک ج تک مرض عش کو
ہوا دینے والے ب قی رہیں گے کسی کی مسیح ئی ک ن آسکے
گی
لوہ مریض عش کے تیم دار ہیں اچھ اگرن ہوتو مسیح ک کی
علاج
223
پروان :اس ل ظ ک علامتی اور است رتی است م ل ہوت آی ہے ۔
پروان ،ایث ر ،قرب نی اور مت کی علامت ہے۔ اسے ہر ح ل میں
قرب ن ہون ہوت ہے۔ اردو غزل میں ی کردار بڑا م تبر ،متحرک
اور ج ندار چلا آت ہے۔ ی ع ش ،دھرتی اور مذہ پر قرب ن
ہونے والا کے طور پر پڑھنے کو م ت ہے۔ است د ذو کے نزدیک
وہ جو منزل مقصود سے دور اور منزل تک رس ئی کے وس ئل
ن رکھت ہو
ب بل ہوں صحن ب سے دور اور شکست پر پروان ہوں چرا
سے دور اور شکست پر ( ) ذو
پروان کے لئے ل ظ پتنگ بھی است م ل ہواہے ۔ خسرو نے اس
سے مراد عش کی آگ میں جل مرنے والا لی ہے۔
میرا جو بن ت نے لی ت نے اٹھ غ کو دی ت نے مجھے ایس
)کی جیس پنتگ آگ پر (
غ ل کے ہ ں بطور حسن شن س ،محبو کے مت کسی قس
کی شک یت پر وک لت کرنے والا کے م نوں میں لی گی ہے۔
ج ں در ہوائے یک نگ گر ہے اسد پروان ہے وکیل ترے
داد خواہ ک
:جلاد
ل ظ ’’جلاد‘‘ خوف اور ن رت پیداکرت ہے۔ ظ ل ،ج برا ور اذیت
224
پسند کے لئے بولاج ت ہے۔ ی سرک ری ملاز ہوت ہے۔ اپنی
مرضی سے کسی کو کوڑے نہیں لگ ت اور ن ہی کسی کی ج ن
لیت ہے۔ ح ک کے حک سے جی ر ی کسی دوسرے عہدیدار کی
موجودگی میں ،ح ک کے حک کی ت میل کرت ہے اوراس ضمن
میں کسی رورع یت سے ک نہیں لیت ۔ ترس ی رح کی صورت
میں ح ک کے حک کی ت میل نہیں ہو پ تی ۔سنگدلی اور بے
حسی کے حوال سے کن یت جلاد ک ل ظ است م ل میں آت ہے۔
ان اللہ یقین نے زندگی کی کھٹورت کو س منے رکھتے ہوئے
جلاد کے کردار کوواضح کی ہے ک وہ زندگی کے مص ئ وآلا
سے نج ت دلات ہے۔ اس لئے خون بہ اسی کو پہنچن چ ہیے
چھٹے ہ زندگی کی قید سے اور داد کو پہنچے وصیت ہے ہم را
خوں بہ جلاد کو پہنچے ( )یقین
ولی دکنی ف ک کو جلاد ک ن دے رہے ہیں ۔ ت ہ انس ن ک
’’غمزہ ء خون ریز‘‘ کی ت وہ بھی نہیں لا سکت
زخمی ہے جلاد ف ک تجھ غمزہء خوں ریز ک ہے شور دری میں
سدا تجھ زلف عنبربیزر ک ( )ولی
سید عبدالولی عزلت ک کہن ہے ج زندگی سے نج ت کی خواہش
ہوتی ہے جلاد زندگی سے نج ت نہیں دلات ب ک اذیت میں مبتلا
کودیکھت رہت ے۔
225
نی بسمل ہوا میں تیغ نگ ت رکھ لی کس بھ ے وقت بر ا ہوگی
جلاد ک بس ( ) عزلت
شہید کے نزدیک جلا دبے اعتب ر ا ہے۔ آرزو ک قتل کرت ہے۔
م رنے سے زی دہ دیکھ میں دکھ کر آسودگی محسوس کرت ہے
شہید آخر مقدر تھ ہمیں حسرت میں جی دیت ہم رے سر پر آکر
پھر گی جلاد ی قسمت () ۷شہید
غ ل جلاد کے حوال سے محبو کی اذیت پسندی اج گر کرتے
ہیں۔ جلاد بڑی بے دردی سے م ررہ ہے۔ وہ توسنگدل ہے ہی،
محبو کہے ج رہ ہے ’’اور م رو ،اور م رو‘‘۔ محبو کو اذیت
نواز سے واسط ہے ۔ کہتے ہیں جلاد کی بے رحمی کے سب
ج ن ہی کیوں ن چ ی ج ئے لیکن محبو کی آواز ’’اور م رو‘‘
ک ن میں پڑتی رہنی چ ہیے۔محبو رح سے کوسوں دور ہے
جبک مضرو کو محبو کی عد تسکین لطف دے رہی ہے
مرت ہوں اس آواز پ ہر چند سراڑ ج ئے جلاد کو لیکن وہ کہے
ج ئیں ک ہ ں اور
:حسن
اللہ ت ل ٰی نے انس ن کی سرشت میں ذو جم ل رکھ دی ہے ۔ اس
لئے حسن شن سی کی ت ریخ انس ن کے س تھ چ تی ہے ۔ جس ک
226
ثبوت ہ بیل ک قتل ہے۔ ’’حسن‘‘ اپن الگ سے وجود ن رکھتے
ہوئے انس نی زندگی میں بڑے م تبر اور متحرک کردار ک ح مل
ہے۔ حسن نے بلا امتح ن کسی کو اپن نہیں بن ی ۔ اردو غزل میں
حسن کے کردار کو مخت ف حوالوں اور زوایوں سے اج گر کی گی
ہے۔
ش ہ ولی ا للہ ولی ک کہن ہے حسن ایک م جزہ ہے ۔ شکتی دیت
ہے ،روشنی پھیلات
خوبی اعج ز حسن ی ر گر انش کروں بے تک ف ص ح ء ک غذید
بیض کروں ( ) ولی
محمد عظی الدین عظی کے مط ب حسن آگ ہے جواس کے
قری ہوت ہے جل کر کب ہوج ت ہے۔
گ شن میں ج وہ گل رومست شرا ہوئے اس حسن آتشیں پر
ب بل کب ہوئے ( ) عظی
انس ن نیکی ،خوبصورتی اورہ آہنگی کی ج ن فطری میلان
رکھت ہے( )۷اس لئے ل ظ ’’حسن ‘‘ اس کے تم حواس بیدا ر
کردیت ہے اور اپنے ارد گرد اس کو تلاشنے لگت ہے۔ اشی ء کے
مثبت پہ وؤں پر غور کرت ہے۔ اشی ء میں خوبی ں تلاش کر ت ہے
پھر اسے بدبو دار کوڑا بھی برا نہیں لگت اور کراہت کی حیثیت
لای نی ہوکر رہ ج تی ہے ۔ حسن درحقیقت تحریک ک دوسران
ہے۔ ’’حسن‘‘ ظ ہر میں کچھ ہے اور ب ض اوق ت اپنی کریہ
227
ہےئت کے سب وج ء امتح ن ٹھہرت ہے ۔جونہی ظ ہری لب دہ
چ ک ہوت ہے اف دے ک دروازہ کھل ج ت ہے ۔ی بھی ممکن ہے
ظ ہر ج ذ نظر ہو جبک ب طن کریہ اور ق بل ن رت بھی ن ہو۔
حسن اپنی سرشت میں مقن طیست رکھت ہے اس لئے وہ مت ثرہ
کرت ہے ت ہ ہرکسی پر اس کے فیوض کے خزانے نہیں کھ تے ۔
:بقول غلا رسول مہر
خود کوس دہ اور بے خبر ظ ہرکرت ہے لیکن اپنی اصل میں بڑا ’’
ہوشی ر اور پر ک ر ہوت ہے۔ لوگوں کے حوص ے ہمت اور صبر
)واستقلا ل ک امتح ن لیت ہے‘‘۔( ۷
غ ل کی زب نی سنےئے ۔
س دگی و پرک ری وبے خودی وہشی ری حسن کو تغ فل میں جرات
آزم پ ی
:دشمن
ن رت اور محبت انس نی زندگی ک حص رہے ہیں ۔ جہ ں انس ن ،
انس ن کے دکھوں ک مداوا کرت چلاآرہ ہے وہ ں انس ن دشمنی بھی
عروج پر رہی ہے۔ چونک تض د انس ن کی فطرت ک جزو ہے اس
لئے دوستی کے س تھ دشمنی ایسی کوئی نئی اور انوکھی
چیزنہیں ہے۔ ی ل ظ برصغیر کی مخت ف زب نوں میں ا سی طرح
ی تھوڑی بہت تبدی ی کے س تھ رائج چلا آت ہے۔ ی ل ظ ڈر خوف
اور ن رت کے س تھ س تھ تح ظ ذات ک احس س بھی پیداکرت ہے۔
228
ش ہ نصیر کے نزدیک کسی سب کے ب عث دشمنی جن لیتی ہے
مجنوں سے ہے جو ن ق ء لی ٰی کو دوستی دشمن ہے اس لئے
وہ بی ب ں میں خ ر ک ( )۷ش ہ نصیر
مرزا مظہر ج ن ج ن ں ایسے دوست جس ک کردار بدترین دشمن
ک س ہو ،کے لئے دشمن ک ل ظ است م ل کرتے ہیں۔
جو تونے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرت ہے غ ط تھ
تجھ کو جوہ ج نتے تھے مہر ب ں اپن ( )۷ج ن ں
رقی کے لئے بھی ’’دشمن ‘‘ ہی ل ظ است م ل میں لاتے ہیں۔
وہی کیوں نہیں اٹھتی قی مت م جراکی ہے ہم رے س منے پہ و میں
)وہ دشمن کے بیٹھے ہیں( ۷
غ ل ’’دشمن ‘‘ کے ایک دوسرے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں
عش میں بیدادرشک غیر نے م را مجھے کشت ء دشمن ہوں
آخر گرچ تھ بیم ر دوست
بلاشب رقی سے بڑ ادشمن کون ہوگ ۔ رق بت قطرہ قطرہ نچوڑتی
ہے۔
:دوست
229
ل ظ دوست تہذیبی اور ثق فتی ت ریخ میں بڑا مضبوط اور توان
حوال رکھت ہے ۔ انس نوں نے انس نوں کو اور قوموں نے قوموں
کو م ملات حی ت کے ضمن میں ،وقت پڑنے پر ی پھر من ک
بوجھ ہ ک کرنے کے لئے دوست بن ی ہے۔ ان پر اعتم د کی ہے
ان سے م شی لین دین رکھ ہے۔ ان سے خونی رشتے استوار
کئے ہیں۔ان کے لئے خون بہ ی ہے۔ ت ہ اعتم د جیت کر برب د
کرنے والے بھی دوست ہی رہے ہیں ۔ اس من ی حقیقت کے
ب وجود ل ظ ’’دوست ‘‘ اپنے دامن میں وس ت ،توان ئی ،خ وص
و محبت اور پ کیزگی رکھت ہے ۔ انس ن ک اعتم دبح ل کرت ہے۔
حوص ے اور تس ی ک سب بنت ہے۔ ی ل ظ یقین ابڑاخوبصور ت
اور اعص پر مثبت اثرات مرت کرنے اور ن سی تی تسکین
فراہ کرنے والا ہے۔دوست ک کردار ہمیش سے متحرک رہ ہے۔
خدااور م شو کے لئے بھی ی است م ل میں آت رہ ہے۔ اردو
:غزل سے چند مث لیں ملاحظ ہوں
میر حیدر الدین ک مل ک کہن ہے ک دوست ،دوست کی خط ؤں
سے درگذرکرت ہے اور اسے م ف کردیت ہے۔ دوست ک ی کردار
سچی اور سچی دوستی کی نش ندہی کرت ہے۔
دوست بخشے گ دوست س کے س گرچ ع صی ہوں اس ک
آسی ہوں ( )۷ک مل
دوستی ک ی پیم ن اللہ ت ل ٰی کی ذات گرامی پر فٹ آت ہے ۔ت ہ