The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by پنجاب اکھر, 2017-06-28 06:55:13

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

‫‪201‬‬

‫سنت تھ جسے ک ب وبت خ ن میں آخر امجد میں اسے حضرت‬
‫)انس ن میں دیکھ (‬

‫خواج درد ک موقف ہے ک خدا کے س ج وے حضرت انس ن‬
‫‪:‬میں ملاحظ کئے ج سکتے ہیں‬

‫ج وہ توہر اک طرح ک ہرش ن میں دیکھ جوکچھ ک سن تجھ میں‬
‫)سو انس ن میں دیکھ (‬

‫ایک دوسری جگ پر انس ن کے خ کرنے ک مقصددردمندی‬
‫‪:‬بت تے ہیں‬

‫درددلی کے واسطے پیدا کی انس ن کو ورن ط عت کے لئے کچھ‬
‫)ک ن تھے کروبی ں (‬

‫میر جگنو ارزاں کے مط ب انس ن کے وجود خ کی میں ایک‬
‫‪:‬ک ئن ت پنہ ں ہے ت غوروفکر کی ضرورت ہے‬

‫زمین وآسم ں اور مہر وم س تجھ میں ہیں انس ں‬

‫)نظر بھر دیکھ مشت خ ک میں کی کی جھمکت ہے (‪۷‬‬

‫مصط ے ع ی خ ن یکرنگ ک کہن ہے ک اس حسین پیکر والے‬
‫کو محض انس ن ہی ن سمجھ ‪ ،‬ی اپنی ذات میں کی ہے ‪ ،‬کھوج‬

‫‪:‬کرنے کی ضرورت ہے‬

‫اس پری پیکر کو مت انس ن بوجھ شک میں کیوں پڑت ہے اے‬

‫‪202‬‬

‫)دلی ج ن بوجھ (‬

‫ح فظ عبدالواہ سچل کے نزدیک انس ن ک ئن ت ک دلداد بننے‬
‫کے لئے وجود میں آی ہے۔ انس ن حضرت ب ری ک گوی تمث لی‬

‫‪:‬اظہ ر ہے‬

‫برائے خواہش ال ت ہوا اظہ ر وہ بے چوں اسی دنی میں وہ دلدار‬
‫)بن انس ن آی ہے(‬

‫غ ل انس ن کو کوئی فو ال طرت وجود نہیں سمجھتے ۔ ان کے‬
‫نزدیک ی مخت ف ح لتوں اور کی یتوں سے دوچ ر ہوت ہے۔اس پر‬

‫‪:‬گھبراہٹ بھی ط ری ہوتی ہے‬

‫کیوں گردش مدا سے گھبران ج ئے دلی انس ن ہوں پی ل‬
‫وس غر نہیں ہوں میں‬

‫انس ن کوئی شے نہیں ب ک محسوس کرنے والی مخ و ہے۔‬
‫ح لات کی گرمی سردی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ت ہ پہ ایک‬
‫بھی ہوج ت ہے اور پھر )‪ (Adjuest‬سے ح لات سے خوگر‬
‫ح لات کے طلاط کو م مول سمجھ کر زندگی گزار دیت ہے۔ غ ل‬

‫کے نزدیک آدمی سے انس ن بننے تک‪ ،‬آدمی کو نہ یت کھٹن‬
‫‪:‬گزار مراحل سے گزرن پڑت ہے‬

‫بسک دشوار ہے ہر ک ک آس ں ہون‬

‫آدمی کو بھی میسر نہیں انس ں ہون‬

‫‪203‬‬

‫انس ن بنن دشوار سہی ‪ ،‬امک ن سے ب ہر نہیں ۔ اردو غزل کے‬
‫ش ر ا نے انس ن سے مت جو نقش پیش کی ہے وہ بڑا دلکش‬
‫اور پرکشش ہے۔ آدمی کے اندر انس ن بننے کی خواہش ابھرتی‬

‫ہے لیکن ج ی شدت اختی ر کرتی ہے تو اعتب ر میں اض ف‬
‫ہوت چلا ج ت ہے۔ اعتب ر ج م تبر ہوج ت ہے تو انس ن اپنے خ ل‬

‫سے ج م ت ہے ۔ گوی اعتب ر‪ ،‬انس ن کو آدمیوں میں محتر‬
‫ٹھہرات ہے۔‬

‫‪:‬اک شخص‬

‫ل ظ ’’شخص‘‘ کے حوال سے کوئی روی س منے نہیں آت ۔’’‬
‫اک‘‘ ک س بق اسے عمومی سے خصوصی ک درج عط‬

‫کرت ہے۔ وہ شخص کو ن ہے ‪ ،‬ظ ہر نہیں ہوت لیکن اس کی‬
‫ک رگزاری اسے محتر اور من ر د کر دیتی ہے۔’’ اک ‘‘ سے‬
‫مت سی وسب اس کے کر دار کو واضح کرتے ہیں ۔غ ل‬
‫ک ’’اک شخص ‘‘ کردار ی حوال سے بڑا اہ ہے۔ اس کے ن‬
‫ہونے سے زندگی غیر متحرک ہوج تی ہے۔ وہ تھ تو خی لات میں‬

‫‪:‬جولانی تھی رعن ئی تھی‬

‫تھی وہ ’’ اک شخص ‘‘ کے تصور سے‬

‫ا وہ رعن ئی خی ل کہ ں‬

‫اردو ش عری میں شخص کی تخصیص کے لئے مخت ف نوح کے‬
‫س بقے لاحقے است م ل میں آئے ہیں۔ ان س بقوں اور لاحقوں‬

‫‪204‬‬

‫‪:‬کے حوال سے ان کے کردار کی نوعیت س منے آتی ہے‬

‫س حل تم اشک ندامت سے اٹ گی‬

‫دری سے ’’کوئی شخص‘‘ تو پی س پ ٹ گی ( ) شکی‬

‫ی ’’کوئی شخص ‘‘ دری پر آکر بھی پی س رہ ۔ دری سے کچھ‬
‫میسر ن آن یقین ادری کی توہین ہے۔ دری دوہرے کر ک شک ر‬

‫‪:‬ہے‬

‫الف ۔ کوئی اس کے پ س آکر م یوس رہ‬

‫! ۔ پی س ہی رہے گ ؟‬

‫اس طرح دری کے ہونے ک جواز ہی ب قی نہیں رہ ۔ اس ک ہون‬
‫ن ہون ایک ہی ب ت ہے۔دونوں حوالوں سے دری کے وجود پر‬

‫گہری چوٹ پڑتی ہے۔‬

‫آخر کو’’وہی شخص‘‘ بن دشمن ج ں‬

‫وہ شخص جو سرم ی ء ج ن تھ پہ ے( ) قمر س حری‬

‫وہ شخص ‘‘اس امر کو واضح کر ت ہے ک ح لات ایک سے ’’‬
‫نہیں رہتے ۔ دوستی دشمنی میں اور دشمنی دوستی میں تبدیل‬
‫ہوسکتی ہے اور ی کسی وقت بھی ہوسکت ہے ۔ اس کے لئے‬
‫کسی بڑی اور م قول وج ک ہون ضروری نہیں۔ گہری دوستی‬
‫کسی فری کے حوال سے استوار ہوئی۔ ی دوستی پھ ی ‪ ،‬پھولی‬

‫‪205‬‬

‫‪ ،‬م د پور ا ہونے کے ب د د توڑ گئی ۔ ایسے میں فری ث نی ک‬
‫غص ‪ ،‬ملال ی پھر شدید رد عمل لای نی اور غیر فطری ن ہوگ ۔‬

‫‪:‬ب م نی ‪ ،‬بے م نی ہو کر رہ گی‬

‫جو ح ل ہے بستی ک تمہ رے ہ تھوں‬

‫ہر شخص کے چہرے پ نظر آوے ہے( ) قمر س حری‬

‫ہر شخص ‪ ،‬کسی کی درندگی اور ظ و استبداد ک گواہ ہے‬
‫کیونک وہ خودظ و درندگی ک شک ر ہے ۔ اسے اپنے ب رے‬
‫کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے چہرے پر کسی فرعون کی‬

‫فرعونیت ج ی حروف میں رق ہے۔‬

‫‪:‬ب غب ن‬

‫ارد وغزل میں ’’ب غب ن‘‘ ک کردار ‪،‬علامتی اور غیر علامتی‬
‫حوالوں سے م روف چلا آت ہے ۔ تزئین وآرائش ‪ ،‬ح ظت و‬
‫نگہ نی اور آب د ک ری کے حوال سے ‪ ،‬اس کردار پر توج رہتی‬
‫ہے۔ اس کردار کی دانست ی ن دانست غ ت ش ری سے ن ق بل‬
‫تلافی نقص ن ک احتم ل ہوت ہے ۔ اس کردار کی محت ط روی ‪،‬‬
‫توج ‪ ،‬محنت و ک وش اور اپنے منص سے لگن کے سب ب نح‬
‫پھل پھول سکت ہے۔ اس ل ظ کے حوال سے ایک بڑاہی ذم دار‬
‫کر دار ذہن کے کینوس پر ابھر ت ہے ۔ اس کی ہر حرکت توج ک‬
‫مرکز رہتی ہے کیونک ا س کی ک رگزاری کے س تھ فن وبق ک‬
‫م م جڑا ہوت ہے ۔ اردو غزل سے چند مث لیں ملاحظ ہوں‬

‫‪206‬‬

‫ارے ب بل کسے پر ب ندھتی ہے آشی ں اپن‬

‫)ن گل اپن ‪ ،‬ن ب اپن ‪ ،‬ن لطف ب غب ں اپن (‬

‫می ں محمد سرفراز عب سی‬

‫ھ) ک ی ش ر عج‬ ‫می ں محمد سرفراز عب سی(متوفی‬

‫مخمصے ک سب بنت ہے ۔ب غب ن کی عن یت ہر ج نبداری سے ب لا‬

‫ہوتی ہے لیکن ش ر میں کہ گی ہے ک ب غب ن ک لطف میسر ہی‬

‫نہیں ۔ اس میں مت سے انحراف آگی ہے ۔ ج ب غب ن توج‬

‫کھینچ لے توخیر کی توقع حم قت کے سوا کچھ نہیں ۔ دوسری‬

‫طر ف ی م م بھی س منے آت ہے ک دنی کے نمبر دار غیر‬

‫ہوگئے ہیں اور اپنوں ہی سے من پھیر ے بیٹھے ہیں ۔ اس لئے‬

‫اپنے ہی دیس میں غربت سے دوچ ر ہوں توٹھک ن بن نے ک‬

‫سوال لای نی ٹھہرت ہے۔ب غب ن تواپنے ب کی پتی پتی ‪ ،‬بوٹے‬

‫بوٹے سے پی ر کرت ہے۔ ب غب ن سراپ لطف وعن یت ہو کر بھی‬

‫ب نٹ میں ڈنڈی م رت ہے ۔ب ض کو یکسر نظر انداز کرت ہے اور‬

‫کچھ کو جو ب کے لئے ب م نی ہیں جڑسے نک ل ب ہرکرت ہے۔‬

‫مرزا مظہر ج ن ج ن ں کے ہ ں بھی کچھ اسی قس ک مضمون‬
‫‪:‬م ت ہے‬

‫ی حسرت رہ گئی کی کی مزے سے زندگی کرتے اگر ہوت چمن‬
‫اپن ‪ ،‬گل اپن ب ب ں اپن ( )مظہر‬

‫‪207‬‬

‫اپن‬

‫کوک ی ج نبداری کے م نوں میں بھی لی ج سکت ہے ۔ ک ی‬
‫کی )‪ (Demeirt‬ج نبداری کے سب غیر مستح ج نبداری‬
‫توقع ہوتی ہے ت ہ اس کے ی م نی بھی نہیں بنتے ک وہ ج نت‬
‫ہی نہیں ۔ انس ن کی خواہش ہوتی ہے ک ب نٹ بلاشراکت غیر ے‬
‫اسی کے حص میں آئے ۔ وہ چ ہت ہے آق ک لطف اسی سے‬

‫مخصوص رہے ۔ آتش کو بھی شکوہ ہے ک ب غب ن کی‬
‫نوازشیں متوازن نہیں ہیں۔ وہ انص ف پرور نہیں ۔‬

‫ب غب ن انص ف پر ب بل سے آی چ ہیے پہنچی اس کو زرگل کی‬
‫پہنچ ی چ ہیے ( )آتش‬

‫غ ل کے ہ ں ب غب ن بطور تشبی است م ل میں آی ہے ۔ ب غب ن‬
‫کے دامن میں کی کچھ نہیں ہوت لیکن وہ مخصوص موق وں پر‬
‫دامن کھولت ہے ۔ موقع گزر ج نے کے ب د اس ک دامن عن یت بند‬

‫ہوج ت ہے ۔ گوی ب غب ن ہم وقت ک دی لو نہیں ہے ۔ ان حق ئ‬
‫کی روشنی میں ب غب ن سے وابست توق ت ب طل ٹھہرتی ہیں ۔‬
‫لہذا اس سے توق ت وابست کرن ف ل لاح صل سے زی دہ نہیں ۔‬

‫وہ ن صر ف بخیل سے ب ک ج نبد ار اور گرہ ک پک ہے۔‬

‫ی ش کو دیکھتے تھے ک ہر گوش ء بس ط دام ن ب غب ن وکف‬
‫گل فروش ہے‬

‫ب غب ن اپنے پھولوں کی بولی چڑھ رہ ہے اس سے زی دہ اندھیر‬

‫‪208‬‬

‫کی ہوگ ۔‬

‫‪:‬بت‬

‫انس نی م شرتوں میں بت پرستی ع اور عروج پر رہی ہے ۔‬
‫بتوں سے بہت س ری شکتی ں منسو رہی ہیں ۔انس ن دوستوں‬

‫کی انس ن دوستی سے مت ثر ہو کر ان کے بت بن کر پوج کی‬
‫ج تی رہی ہے۔ انہیں ط قت ک سرچشم سمجھ گی ہے ۔‬

‫کھدائیوں میں مخت ف اقوا کے بن ئے گئے بت م ے ہیں ۔جس‬
‫سے بتوں کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ شکتی کے ب عث ’’بت‘‘‬
‫م شروں کے حقیقی اقتدار اع ٰی سمجھے گئے ہیں۔ بت‪ ،‬موحد‬

‫کے لئے کراہت جبک بت پرستوں کے دلوں میں احترا کے‬
‫احس س پیدا کرتے ہیں۔‬

‫اردوغزل میں ل ظ’’بت‘‘ ک زی دہ تر محبو کے م نوں میں‬
‫است م ل ہواہے۔ انش نے بت کو ایس خوبصور ت محبو جو‬
‫دلی میں دوئی بن کر براجم ن ہوج ئے ‪ ،‬کے حوال سے نظ کی‬

‫‪:‬ہے‬

‫ج دو ہے نگ چھ ہے غض قہر ہے مکھڑا اور قدہے قی مت‬

‫غ رت گردیں ہے وہ بت ک فر ہے سراپ اللہ کی قدرت ( )انش‬

‫بت کے س تھ ’’ک فر‘‘ پیوند کرکے اس کی ک رگزاری‬
‫(غ رتگردیں) واضح کر دی گئی ہے۔‬

‫‪209‬‬

‫محمد ش کر ن جی کے ہ ں ‪ ،‬وہ جو اپنے وصف کے سب اچھ‬
‫لگے ‪ ،‬اس کے مت ب تیں سنن خوش آت ہوگوی دلی ودم‬
‫میں گھر کرے اور ی د مس سل بن ج ئے ‪ ،‬کے م نوں میں‬
‫است م ل کی گی ہے۔‬

‫اے صب کہ بہ ر کی ب تیں اس بت گ ذار کی ب تیں (‪) ۷‬ن جی‬

‫جرات نے بت کو ف رٹ کرنے والا’’چ لو‘‘ اورعی ر کے طور پر‬
‫‪:‬است م ل کی ہے‬

‫کی ب ت کوئی اس بت عی ر کی سمجھے بولے ہے جو ہ سے تو‬
‫اش رت کہیں اور( ) جرات‬

‫غ ل نے ایس محبو جس سے پوج کی حدتک محبت کی‬
‫‪:‬ج ئے ‪ ،‬کے م نوں میں لی ہے‬

‫چھوڑوں گ میں ن اس بت ک فر ک پوجن چھوڑے ن خ گو‬
‫مجھے ک فر کہے بغیر‬

‫ایک دوسری جگ ‪ ،‬اس کی محبت کو ‪ ،‬ایم ن ک درج دے رہے‬
‫‪:‬ہیں‬

‫کیونکر اس ب ت سے رکھوں ج ن عزیز کی نہیں ہے مجھے‬
‫ایم ن عزیز‬

‫‪:‬ایک ش ر میں طنزک نش ن بن تے ہیں‬

‫‪210‬‬

‫ت بت ہو پھر تمہیں پندار خدائی کیوں ہے ت خداوند ہی کہلاؤ‬
‫خدااور سہی‬

‫‪:‬درج ب لا مث لوں میں بت کے س تھ ل ظ تخصیص بھی نظ ہواہے‬

‫بت ک فر انش ‪ ،‬غ ل‬

‫بت گ ذار ن جی‬

‫بت عی ر جرات‬

‫اس بت غ ل‬

‫ت بت غ ل‬

‫ان س بقوں اور لاحقوں کی مدد سے بت پہچ ن سے ب ہر نہیں‬
‫رہت ۔ایسے ہی جیسے لات و من ت‪ ،‬شیو‪ ،‬وشنوی برہم ‪ ،‬شتی کی‬
‫مورتی ں ۔ ی بت سونے چ ندی اور پھولوں سے لدھے رہتے ہیں‬

‫۔ محبو بھی بن ؤ سنگ ر سے غ فل نہیں ہوتے۔‬

‫‪ :‬برہمن‬

‫برہمن کو بتکدے (مندر) کی حرمت اور احترا ک امین سمجھ‬
‫ج ت رہ ہے ۔ اس کی وج سے ہندودانش کے تم حوالے‬

‫ہندوسم ج میں پھ ے پھولے ہیں۔ اسے ہند ودھر ک رکھوالا اور‬
‫پرچ رک سمجھ ج ت رہ ہے۔ ہندوگی ن دھی ن سے مت اس نے‬

‫دوسروں سے زی دہ ع اور ویدان ح صل کی ہوت ہے۔ دوسراوہ‬

‫‪211‬‬

‫اونچی ذات سے مت ہوت ہے اس لئے ہند و سم ج میں محتر‬
‫رہ ہے ۔ اسے ’’برہمن دیوت ‘‘ بھی کہ ج ت رہ ہے ۔ برہمن اپنے‬
‫موقف میں ضدی‪ ،‬اڑیل اور ہٹھیل سمجھ ج ت ہے ۔ ل ظ برہمن‬

‫ج ذہن کے پردوں سے ٹکرات ہے تو ہندو دھر سے مت‬
‫لوگوں کے رو رو میں پرن کے چشمے اب نے لگتے ہیں ۔‬
‫ل ظ برہمن اردو ش عری میں مخت ف حوالوں سے نمودار ہوا‬

‫‪:‬ہے‬

‫مومن نے فدا ہوج نے والا‪ ،‬اڑ ج نے والا ‪ ،‬تل ج نے والا ‪،‬‬
‫دیوان وغیرہ کے م نوں میں است م ل کی ہے۔‬

‫بن ترے اے ش روآتشکدہ تن ہوگی‬

‫شمع قدپر میرے پروان برہمن ہوگی ( )مومن‬

‫یقین ن ک می پر سٹپٹ نے والا کے م نوں میں است م ل کرتے‬
‫ہیں۔‬

‫برہمن سر کو پیٹت تھ دیر کے آگے‬

‫خداج نے تری صورت سے بتخ نے پر کی گزرا ( )یقین‬

‫محمد عظی الدین عظی فن ہوکر وصل ک ط ل ‪ ،‬جس ک جذ و‬
‫خ وص اور استقلال مت ثرکرے‪ ،‬وہ جسے ہرکوئی دلی دے‬

‫بیٹھے ‪ ،‬ایس محبو جو بہت سوؤں ک عش اپنے سینے میں‬
‫مخ ی رکھنے والاوغیرہ م نوں میں است م ل کی ہے‬

‫‪212‬‬

‫برہمن جس کے دلی میں آرزو ہے مرکے درسن کی‬

‫)مجھے ہے آرزو ہر وقت درسن اس برہمن کی (‬

‫عظی اس حسن عش آمیز نے مجھ دلی کوں گھیراہے‬

‫)برہمن ہر ک عش ہے ‪،‬میں ع ش ہوں برہمن ک (‬

‫غ ل نے ست روں ک حس کرکے مستقبل کی پیش گوئی کرنے‬
‫ولا اور دھر سے وف دار ی کرنے والا کے م نوں میں نظ‬
‫‪:‬کی ہے‬

‫دیکھئیے پ تے ہیں عش بتوں سے کی فیض اک برہمن نے‬
‫کہ ی س ل اچھ ہے‬

‫وف داری بشرط استواری اصل ایم ں ہے مرے بت خ نے میں‬
‫توک بے میں گ ڑو برہمن کو‬

‫‪:‬بسمل‬

‫بسمل ج ن قرب ن کرنے کے حوال سے اپن جوا نہیں رکھت ۔‬
‫وف داری او ر استواری اس کردار ک خصوصی وصف سمجھ‬
‫ج ت ہے۔ میدان میں اترنے والے کے ہ ں زندہ رہنے کی امید‬
‫ہوتی ہے لیکن بسمل کو تڑپ تڑپ کر کشت ہونے ک یقین‬

‫ہوت ہے۔ وہ اس کو ہی اپنی ک می او رمنزل سمجھت ہے۔ اسی‬
‫حوال سے وہ ’’بسمل‘‘ کے لق سے م قو ہوت ہے۔ ج تے‬
‫ہوئے تڑپن م شو کو تسکین دیت ہے ۔ اسے اس کے ع ش‬

‫‪213‬‬

‫ص د ہونے ک یقین ہوج ت ہے ت ہ دوسری طرف اذیت پسندی‬
‫کے الزا سے بھی بری نہیں ہو پ ت ۔ اذیت پسندی پیم نے‬

‫متوازن نہیں رہنے دیتی ۔ بسمل کے حوال سے تین طرح کے‬
‫‪:‬رویے ابھرتے ہیں‬

‫الف ۔ حیرت انگیز وف داری اور استواری‬

‫۔ وف داری کے یقین کے لئے اتنی کھٹن آزم ئش ک ع ش ج ن‬
‫سے ج ئے‬

‫ج۔ عش کی یقین دہ نی کے لئے ج ن پر کھیل ج ن سراسر‬
‫حم قت اور ن دانی ہے‬

‫جوبھی سہی ’’بسمل ‘‘ کو ج ن دینے اورم شو کو آزم نے میں‬
‫آسودگی ح صل ہوتی ہے‬

‫اردو ش عری میں ی کردار پوری آ وت سے زندہ نظر آت ہے‬
‫۔کر دادخ ں درد ک کہن ہے ۔ محبو کے آست نے ک احترا‬

‫م حوظ خ طر رکھتے ہوئے بسمل کے لئے لاز ہے ک وہ تڑپے‬
‫لیکن محبو کے آست نے کی خ ک پر ب ل وپر ن لگنے‬

‫پ ئیں۔محبو ‪ ،‬ع ش ص د کی تڑپت ک نظ رہ کرے۔ س تھ میں‬
‫اس کے آست نے کی خ ک کسی کے خون سے آلودہ ن ہو ی نی‬

‫اس خ ک پر خون ہونے ک الزا بھی ن آنے پ ئے ۔‬

‫اد ضرورہے اس خ ک آست نے ک تڑپھ تو اس طرح بسمل ک‬

‫‪214‬‬

‫ب ل وپر ن لگے( )درد‬

‫خواج درد ک موقف ہے کشتے ک کچ رہ ج ن اور کشت ک ر‬
‫ک اس سے غ فل ہوج ن درست نہیں کشت ۔ میں خ می ن رہن ہی‬

‫کشت ک رک کم ل ہے۔‬

‫نی بسمل کوئی کسوکو چھوڑ اس طرح بیٹھت ہے غ فل‬
‫ہو( )درد‬

‫م لق ب ئی چندا نے نکت نک لا ہے۔‬

‫قدموں پ سر تھ کوئی روبروئے تیغ ابھی تڑپ سے رہ بسم وں‬
‫ک جی ( ) چندا‬

‫غ ل کے نزدیک بسمل کو اذیت لطف دیتی ہے لہذا جس قدر‬
‫ممکن ہے اذیت (مش ن ز) دو ۔ متقولین ک خون میں اپنی گردن‬

‫‪:‬پر لیت ہوں‬

‫اسد بسمل ہے کس انداز ک ق تل سے کہت ہے ک مش ن ز کر‬
‫خون دوع ل میری گردن پر‬

‫ی کردار وف ش ری ‪ ،‬استق مت ‪ ،‬استواری اور م م ے سے‬
‫کمٹ منٹ ک لاجوا نمون پیش کرت ہے۔‬

‫‪:‬بشر‬

‫بندہ بشر‘‘ ع بولا ج نے والامح ورہ ہے۔ اس مح ورے میں ’’‬

‫‪215‬‬

‫لغزش آد ک واضح طور پر اش رہ موجود ہے۔ گوی بشر سے‬
‫غ طی کوت ہی ن ممکن ت میں نہیں۔ وہ انس نیت کے کسی بھی‬
‫درجے پر ف ئز ہوج ئے اس سے چوک ہوہی ج تی ہے ۔ ل ظ بشر‬
‫ایسے کردار کو س منے لات ہے جو ضدین ک مجموع ہے۔ اس‬
‫کی کسی لغزش ی کسی ک رن مے پرحیرت نہیں ہونی چ ہیے ۔‬

‫اچھ ئی ‪ ،‬برائی دونوں عن صر اس کی فطرت ک حص ہیں۔‬

‫محت ط اور بڑے لوگوں کی ’’بشری کوت ہیوں ‘‘ ک ریک رڈ ت ریخ‬
‫اور آسم نی کت بوں میں موجودہے ۔ اردو غزل میں ل ظ‬
‫’’بشر‘‘مخت ف حوالوں سے پینٹ ہواہے۔‬

‫ح فظ عبدالوہ سچل ک کہن ہے بشر کے ظ ہر کو دیکھ کر کوئی‬
‫اندازہ لگ لین من س نہیں ۔ بشر کے ب طن میں جھ نک کر‬
‫دیکھن چ ہیے ک وہ اپنے ب طن میں کی کم ل کے خزینے‬
‫چھپ ئے بیٹھ ہے‬

‫صور ت بشر کی ہے مری‪ ،‬ظ ہر گد اگر ہوں بن‬

‫ب طن کی پہچ نے مرے ‪،‬‬

‫)س ط ن ہوں‪ ،‬س ط ن ہوں (‬

‫علام ح لی کے نزدیک بشر اگر کوئی ک رن م سر انج نہیں‬
‫دیت تو اس کی حیثیت ص ر زی دہ نہیں ۔‬

‫بشر سے کچھ ہوسکے ن ایسے جینے سے کی ف ئدہ ہمیش‬

‫‪216‬‬

‫بیک ر تجھ کو پ ی ‪ ،‬کبھی ن سرگر ک ردیکھ (‪) ۷‬ح لی‬

‫غ ل بشر سے ’’بندہ بشر‘‘ ہی مراد لے رہے ہیں ۔‬

‫دی ہے دلی اگر اس کو‪ ،‬بشر ہے‪،‬کی کہیے‬

‫ہو ا رقی توہو‪ ،‬ن م برہے‪ ،‬کی کہیے‬

‫بشر کوئی فو ال طر ت مخ و نہیں جواس سے صرف خیر کی‬
‫توقع رکھی ج ئے ۔ اس سے خی نت اور بددی نتی ‪ ،‬کوئی حیرت‬
‫کی ب ت نہیں۔‬

‫ب بل ایران ک خوش گ و پرندہ ہے ۔ف رسی اور اردو ش را نے‬

‫‪:‬ب بل‬

‫اس ل ظ کو مخت ف م ہی میں است م ل کی ہے ۔ علامتی اور‬
‫است راتی است م ل بھی پڑھنے کو م ت ہے ۔ اس ل ظ کے‬

‫است م لات کی نوعیت کے مط ب ‪ ،‬مخت ف قس کے سم جی ‪،‬‬
‫م شرتی اور سی سی حوالے ذہن میں ابھرآتے ہیں۔ت ہ خوش‬
‫الح نی اس کردار ک بنی دی وصف رہ ہے ۔ درد سوز وگداز اور‬
‫نوح گری کی مخت ف صورتیں بھی س منے آتی ہیں ۔ ارد وغزل‬

‫مینی کردار مخت ف حوالوں سے بڑا متحرک رہ ہے۔مثلاا‬

‫مظہر ج ن ج ن ں کے ہ ں عش میں محبو کے ہ تھوں س‬
‫کچھ لٹ دینے والا کے طور پر نمودار ہواہے‬

‫‪217‬‬

‫گئی آخر جلا کر گل کے ہ تھوں آشی ں اپن‬

‫ن چھوڑا ہ ئے ب بل نے چمن میں کچھ نش ں اپن ( )مظہر‬

‫بہ در مرزاخرد کے مط ب محبو ج آزادی چھین لینے کی تمن‬
‫کرت ہے توی اس کی تمن کی تکمیل کے لئے از خود پ ب زنجیر‬
‫ہوج ت ہے‬

‫دلی اڑا کے پہنچ ‪ ،‬ج ہو ااس گل کوشو صید ب بل کو پر‬
‫لگ دئیے شو شک رنے ( )خرد‬

‫خواج برہ ن الدین آثمی نے ب بل کے ذری ے اپنے عہدے کے‬
‫پرگھٹن ح لات اور شخص کی بے اختی ری کو واضح کی ہے۔ بے‬
‫اختی ر اور آزادی سے محرو چہرے پر مسکراہٹ حرا ہوج تی‬
‫ہے لیکن وہ روبھی نہیں سکت ۔ اس کی حیثیت کسی کل پرزے‬

‫سے زی دہ نہیں ہوتی‬

‫میں وہ ب بل ہوں ک صی د کے گھر بیچ پیدا ہوا جہ ں میں آنکھ‬
‫جو کھولی ق س میں آشی ں دیکھ ( )آثمی‬

‫میر ب قر حزیں کے مط ب خوبصور ت ح لات میسر ہوں تو نقل‬
‫مک نی کی کو ن سوچت ہے ت ہ غ ص کے جبر کے زیر اثر‬

‫س کچھ چھوڑن پڑت ہے ۔ حزیں نے ’’ب بل ‘‘ کے حوال سے‬
‫ح لات کی ن خوشگواری واضح کی ہے۔‬

‫ی کہ کے ب سے رخصت ہوئی ب بل ک ی قسمت‬

‫‪218‬‬

‫لکھ تھ یوں ک فصل گل میں چھوڑیں آشی ں اپن ( )حردیں‬

‫غ ل کے ہ ں ی کردار بطور نوح گر است م ل ہواہے ۔ انس نی‬
‫فطرت ‪ ،‬مخت ف ح لات میں مخت ف رویے اختی ر کرتی ہے۔ دکھ‬
‫ی ڈپریشن کی صور ت میں ح لات اور م حول کی تبدی ی اسے‬

‫ری یف مہی کرتی ہے۔ج نوح گر س تھ میں ہوگ تووہ‬
‫ن خوشگواری کوکیونکر بھولنے دے گ ۔ہم وقت ک رون دھون‬
‫ن صر ف زندگی ک لطف چھین لیت ہے ب ک کچھ کر گزرنے کی‬
‫حس کو بھی ن ق بل تلافی نقص ن پہنچت ہے۔ دیکھئیے غ ل اس‬

‫ب میں کی کہتے ہیں‬

‫مجھ کو ارزانی رہے تجھ کو مب رک ہوجیو ن ل ء ب بل ک درد اور‬
‫خندہ گل ک نمک‬

‫ب بل گوی ایس کردار ہے جو مس سل م یوسی اور پریش نی پھیلات‬
‫ہے ۔ اس کے ن لے شخص کے درد کو ت زہ رکھتے ہیں۔‬

‫ب بل ک متراد ف عندلی اردو غزل میں است م ل ہوت آی ہے ۔ یکر‬
‫نگ اس کردار کے حوال سے نکت نک لتے ہیں ک عندلی کی‬

‫ش یست اور کومل آواز اور اس کی آہ وفغ ں چ ر سو پھیل کر‬
‫توج ح صل کر لیتی ہے۔ توج پھر ج نے کے سب افسردگی ک‬

‫ع ل ط ری ہوج ت ہے‬

‫ک نہیں کچھ بوئے گل سیتی فغ ن عندلی‬

‫‪219‬‬

‫برگ گل سے ھیگی ن زک ترزب ن عندلی ( )یکرنگ‬

‫غ ل کے ہ ں اس کردار کی ک ر فرم ئی اور ہی رنگ کی ح مل‬
‫ہے ۔ ش دی میں نوح گری کی موجودگی بھلا کس کو خوش آتی‬

‫ہے‬

‫اے عندلی یک کف خس بہر آشی ں طوف ن آمدآمد فصل بہ رہے‬

‫آمد فصل بہ ر میں نوح گر کو ’’آشی ں ‘‘ چھوڑنے ک مشورہ‬
‫دین ہی ص ئ لگت ہے ک خواہ مخواہ رنگ میں بھنگ ڈالے گ ۔‬

‫‪:‬بیم ر‬

‫ی تے (طے) سی ب ت ہے ک بیم ر کے ش و روز ن گواری ‪،‬‬
‫پریش نی اور وسوسوں ک شک ررہتے ہیں ۔یہی نہیں بیم ری اس‬

‫کے اعص چٹ کر ج تی ہے اور اس کے سوچ کو من ی‬
‫حوالوں کے س تھ جوڑے رکھتی ہے۔ بیم ر‪ ،‬تک یف ‪ ،‬کمزوری‬
‫اور سوچ کے من ی زوایوں کے سب زندگی کے کسی میدان میں‬
‫کوئی کردار اداکرنے سے ق صر رہت ہے۔ ’’ل ظ بیم ر‘‘ سنتے ہی‬

‫ایک ایسے شخص ک تصور س منے آج ت ہے۔ جوہمدردی ک‬
‫مستح ہوت ہے لیکن اس کی ہر وقت کی م یوسی اور ہ ئے‬
‫وائے دم پر بوجھ س بن ج تی ہے۔ اردو غزل میں ی کردار‬
‫نظر انداز نہیں ہوا۔ بیم ر عش کے علاوہ بیم روں ک ذکر بھی‬

‫م ت ہے۔‬

‫‪220‬‬

‫مرزاسودا ک کہن ہے ع رضے میں مبتلا شخص ک عج ح ل ہو‬
‫ج ت ہے ۔ ہجر ک ع رض سوچ کو ج مد کرکے رکھ دیت ہے۔ ہجر‬

‫کی بیم ری انس ن کو اندر سے کھ ئے چ ی ج تی ہے‬

‫تیری دوری سے عج ح ل ہے ا سودا ک میں تو دیکھ نہیں‬
‫ایس کوئی بیم ر ہنور ( )سودا‬

‫می ں محمدی م ئل ک خی ل ہے ک بیم ری کی ’’ہوس‘‘ بڑھ ج تی‬
‫ہے۔ اگرچ ہوس بھی ذہنی ع رض ہے ۔‬

‫کی کہوں میں تجھ سے دلی زار کی ہوس مشہور ہے جہ ں میں‬
‫بیم رکی ہوس ( ) م ئل‬

‫لال نول رائے وف کے نزدیک بیم ر کی بیم ری سے اندازہ‬
‫ہوج ت ہے ک وہ زی دہ دیر ک نہیں‬

‫کہنے لگ وہ من کے مرا ن ل وفغ ں ی ر جی کرئے گ ی‬
‫بیم ر ک ت ک ( ) وف‬

‫میر محمدی قرب ن کے نزدیک ’’نگ ک بیم ر‘‘ مسیح کی‬
‫دسترس سے ب ہر ہوت ہے۔ کوئی م لج (سمجھ ن بجھ ن ) اس پر‬

‫ک رگر ث بت نہیں ہوت ب ک نیتج الٹ ہی نک ت ہے ۔ نگ ہ ال ت ک‬
‫نگ ہ قہر ک ڈس لاعلاج ہوت ہے‬

‫کسی کی برگشت ک ہوں میں بیم ر ی ں مسیح کی ہوئی ج تی ہے‬
‫تدیبر الٹی ( )قرب ن‬

‫‪221‬‬

‫جہ ں دار ک بھی یہی نظری ہے‬

‫تیرے بیم ر ا کے تےءں جو دیکھ مسیح کی نہیں کرتی دوا‬
‫خو (‪ ) ۷‬جہ ں دار‬

‫محبت خ ں محبت کے خی ل میں بیم ر عش ک جین مرن برابر‬
‫ہوت ہے ۔وہ عمرانی حوال سے بیک ر محض ہوت ہے۔‬

‫جس کو تیری آنکھوں سے سر وک ر رہے گ ب ل رض جی بھی‬
‫تو وہ بیم ر رہے گ ( )محبت‬

‫غ ل نے ع ش کے س تھ ’’بیم ر‘‘ک پیوند کرکے عش کو‬
‫بیم ری قرار دی ہے۔ان کے نزدیک ی بیم ری ج ن لے کر د‬

‫لیتی ہے‬

‫مندگئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے خو وقت آئے ت‬
‫اس ع ش بیم ر کے پ س‬

‫بیم ر ک مترادف ل ظ’’ مریض‘‘ بھی اردو غزل میں اپنی الگ‬
‫سے پہچ ن رکھت ہے۔ یہ ں بھی ع ش ہی مریض سے م قو‬
‫نظر آت ہے میر ص ح کے نزدیک مرض عش ج ن لے کر‬
‫چھوڑت ہے۔ عش گوی ایک ن سی تی ع رض ہے جس کی شدت‬

‫سے ج ن بھی ج سکتی ہے۔‬

‫مت کر عج جو میر ترے غ میں مرگی جینے ک اس مریض‬
‫کے کوئی بھی ڈھنگ تھ ؟ ( ) میر‬

‫‪222‬‬

‫ق ئ کے خی ل میں مریض عش ک مرج ن ہی اچھ ہے ۔ اس ک‬
‫ہرد وب ل ہوت ہے۔ وب ل(اذیت) ک جین بھی کی جین ہے۔ اس سے‬

‫مرج ن ہی بہتر ہوت ہے‬

‫چھوٹ ترا مریض اگر مرگی ک شوخ جو د تھ زندگی ک سو اس‬
‫پر وب ل تھ ( ) ق ئ‬

‫می ں جگنو کے نزدیک ‪ ،‬مریض عش ‪ ،‬ع رض عش میں رہے‬
‫تو اچھ ہے ۔ اس ک بہتر ہون دوسروں کو بیم ر کر دیت ہے۔ وہ‬

‫قص ء عش سن سن کر اوروں کو ہ ک ن کردے گ ۔‬

‫ایسے مریض عش کو آزار ہی بھلا اچھ کبھی ن ہووے ی‬
‫)بیم ر ہی بھلا (‬

‫غ ل کہتے ہیں مریض عش کی ح لت دیکھنے والا ‪ ،‬مریض‬
‫کی مرض سے زی دہ واقف ہوت ہے۔ اگر کوئی م لج‪ ،‬تیم دار کے‬

‫کو نظر انداز کرکے دعو ٰی ب ندھے ک ی اچھ ‪Coments‬‬
‫ہوج ئے گ اور اگر وہ اچھ ن ہوتو مسیح کو سزا(جرم ن ) دی‬
‫ج ئے ۔ ایک دوسرا پہ و ی بھی ہے ک ج تک مرض عش کو‬
‫ہوا دینے والے ب قی رہیں گے کسی کی مسیح ئی ک ن آسکے‬

‫گی‬

‫لوہ مریض عش کے تیم دار ہیں اچھ اگرن ہوتو مسیح ک کی‬
‫علاج‬

‫‪223‬‬

‫پروان ‪ :‬اس ل ظ ک علامتی اور است رتی است م ل ہوت آی ہے ۔‬
‫پروان ‪ ،‬ایث ر‪ ،‬قرب نی اور مت کی علامت ہے۔ اسے ہر ح ل میں‬
‫قرب ن ہون ہوت ہے۔ اردو غزل میں ی کردار بڑا م تبر ‪ ،‬متحرک‬

‫اور ج ندار چلا آت ہے۔ ی ع ش ‪ ،‬دھرتی اور مذہ پر قرب ن‬
‫ہونے والا کے طور پر پڑھنے کو م ت ہے۔ است د ذو کے نزدیک‬

‫وہ جو منزل مقصود سے دور اور منزل تک رس ئی کے وس ئل‬
‫ن رکھت ہو‬

‫ب بل ہوں صحن ب سے دور اور شکست پر پروان ہوں چرا‬
‫سے دور اور شکست پر ( ) ذو‬

‫پروان کے لئے ل ظ پتنگ بھی است م ل ہواہے ۔ خسرو نے اس‬
‫سے مراد عش کی آگ میں جل مرنے والا لی ہے۔‬

‫میرا جو بن ت نے لی ت نے اٹھ غ کو دی ت نے مجھے ایس‬
‫)کی جیس پنتگ آگ پر (‬

‫غ ل کے ہ ں بطور حسن شن س ‪ ،‬محبو کے مت کسی قس‬
‫کی شک یت پر وک لت کرنے والا کے م نوں میں لی گی ہے۔‬

‫ج ں در ہوائے یک نگ گر ہے اسد پروان ہے وکیل ترے‬
‫داد خواہ ک‬

‫‪:‬جلاد‬

‫ل ظ ’’جلاد‘‘ خوف اور ن رت پیداکرت ہے۔ ظ ل ‪ ،‬ج برا ور اذیت‬

‫‪224‬‬

‫پسند کے لئے بولاج ت ہے۔ ی سرک ری ملاز ہوت ہے۔ اپنی‬
‫مرضی سے کسی کو کوڑے نہیں لگ ت اور ن ہی کسی کی ج ن‬
‫لیت ہے۔ ح ک کے حک سے جی ر ی کسی دوسرے عہدیدار کی‬
‫موجودگی میں‪ ،‬ح ک کے حک کی ت میل کرت ہے اوراس ضمن‬
‫میں کسی رورع یت سے ک نہیں لیت ۔ ترس ی رح کی صورت‬

‫میں ح ک کے حک کی ت میل نہیں ہو پ تی ۔سنگدلی اور بے‬
‫حسی کے حوال سے کن یت جلاد ک ل ظ است م ل میں آت ہے۔‬

‫ان اللہ یقین نے زندگی کی کھٹورت کو س منے رکھتے ہوئے‬
‫جلاد کے کردار کوواضح کی ہے ک وہ زندگی کے مص ئ وآلا‬

‫سے نج ت دلات ہے۔ اس لئے خون بہ اسی کو پہنچن چ ہیے‬

‫چھٹے ہ زندگی کی قید سے اور داد کو پہنچے وصیت ہے ہم را‬
‫خوں بہ جلاد کو پہنچے ( )یقین‬

‫ولی دکنی ف ک کو جلاد ک ن دے رہے ہیں ۔ ت ہ انس ن ک‬
‫’’غمزہ ء خون ریز‘‘ کی ت وہ بھی نہیں لا سکت‬

‫زخمی ہے جلاد ف ک تجھ غمزہء خوں ریز ک ہے شور دری میں‬
‫سدا تجھ زلف عنبربیزر ک ( )ولی‬

‫سید عبدالولی عزلت ک کہن ہے ج زندگی سے نج ت کی خواہش‬
‫ہوتی ہے جلاد زندگی سے نج ت نہیں دلات ب ک اذیت میں مبتلا‬
‫کودیکھت رہت ے۔‬

‫‪225‬‬

‫نی بسمل ہوا میں تیغ نگ ت رکھ لی کس بھ ے وقت بر ا ہوگی‬
‫جلاد ک بس ( ) عزلت‬

‫شہید کے نزدیک جلا دبے اعتب ر ا ہے۔ آرزو ک قتل کرت ہے۔‬
‫م رنے سے زی دہ دیکھ میں دکھ کر آسودگی محسوس کرت ہے‬

‫شہید آخر مقدر تھ ہمیں حسرت میں جی دیت ہم رے سر پر آکر‬
‫پھر گی جلاد ی قسمت (‪) ۷‬شہید‬

‫غ ل جلاد کے حوال سے محبو کی اذیت پسندی اج گر کرتے‬
‫ہیں۔ جلاد بڑی بے دردی سے م ررہ ہے۔ وہ توسنگدل ہے ہی‪،‬‬
‫محبو کہے ج رہ ہے ’’اور م رو‪ ،‬اور م رو‘‘۔ محبو کو اذیت‬

‫نواز سے واسط ہے ۔ کہتے ہیں جلاد کی بے رحمی کے سب‬
‫ج ن ہی کیوں ن چ ی ج ئے لیکن محبو کی آواز ’’اور م رو‘‘‬
‫ک ن میں پڑتی رہنی چ ہیے۔محبو رح سے کوسوں دور ہے‬

‫جبک مضرو کو محبو کی عد تسکین لطف دے رہی ہے‬

‫مرت ہوں اس آواز پ ہر چند سراڑ ج ئے جلاد کو لیکن وہ کہے‬
‫ج ئیں ک ہ ں اور‬

‫‪ :‬حسن‬
‫اللہ ت ل ٰی نے انس ن کی سرشت میں ذو جم ل رکھ دی ہے ۔ اس‬

‫لئے حسن شن سی کی ت ریخ انس ن کے س تھ چ تی ہے ۔ جس ک‬

‫‪226‬‬

‫ثبوت ہ بیل ک قتل ہے۔ ’’حسن‘‘ اپن الگ سے وجود ن رکھتے‬
‫ہوئے انس نی زندگی میں بڑے م تبر اور متحرک کردار ک ح مل‬
‫ہے۔ حسن نے بلا امتح ن کسی کو اپن نہیں بن ی ۔ اردو غزل میں‬
‫حسن کے کردار کو مخت ف حوالوں اور زوایوں سے اج گر کی گی‬

‫ہے۔‬

‫ش ہ ولی ا للہ ولی ک کہن ہے حسن ایک م جزہ ہے ۔ شکتی دیت‬
‫ہے ‪ ،‬روشنی پھیلات‬

‫خوبی اعج ز حسن ی ر گر انش کروں بے تک ف ص ح ء ک غذید‬
‫بیض کروں ( ) ولی‬

‫محمد عظی الدین عظی کے مط ب حسن آگ ہے جواس کے‬
‫قری ہوت ہے جل کر کب ہوج ت ہے۔‬

‫گ شن میں ج وہ گل رومست شرا ہوئے اس حسن آتشیں پر‬
‫ب بل کب ہوئے ( ) عظی‬

‫انس ن نیکی ‪ ،‬خوبصورتی اورہ آہنگی کی ج ن فطری میلان‬
‫رکھت ہے( ‪)۷‬اس لئے ل ظ ’’حسن ‘‘ اس کے تم حواس بیدا ر‬
‫کردیت ہے اور اپنے ارد گرد اس کو تلاشنے لگت ہے۔ اشی ء کے‬
‫مثبت پہ وؤں پر غور کرت ہے۔ اشی ء میں خوبی ں تلاش کر ت ہے‬
‫پھر اسے بدبو دار کوڑا بھی برا نہیں لگت اور کراہت کی حیثیت‬

‫لای نی ہوکر رہ ج تی ہے ۔ حسن درحقیقت تحریک ک دوسران‬
‫ہے۔ ’’حسن‘‘ ظ ہر میں کچھ ہے اور ب ض اوق ت اپنی کریہ‬

‫‪227‬‬

‫ہےئت کے سب وج ء امتح ن ٹھہرت ہے ۔جونہی ظ ہری لب دہ‬
‫چ ک ہوت ہے اف دے ک دروازہ کھل ج ت ہے ۔ی بھی ممکن ہے‬
‫ظ ہر ج ذ نظر ہو جبک ب طن کریہ اور ق بل ن رت بھی ن ہو۔‬
‫حسن اپنی سرشت میں مقن طیست رکھت ہے اس لئے وہ مت ثرہ‬
‫کرت ہے ت ہ ہرکسی پر اس کے فیوض کے خزانے نہیں کھ تے ۔‬

‫‪:‬بقول غلا رسول مہر‬

‫خود کوس دہ اور بے خبر ظ ہرکرت ہے لیکن اپنی اصل میں بڑا ’’‬
‫ہوشی ر اور پر ک ر ہوت ہے۔ لوگوں کے حوص ے ہمت اور صبر‬
‫)واستقلا ل ک امتح ن لیت ہے‘‘۔( ‪۷‬‬

‫غ ل کی زب نی سنےئے ۔‬

‫س دگی و پرک ری وبے خودی وہشی ری حسن کو تغ فل میں جرات‬
‫آزم پ ی‬

‫‪ :‬دشمن‬

‫ن رت اور محبت انس نی زندگی ک حص رہے ہیں ۔ جہ ں انس ن ‪،‬‬
‫انس ن کے دکھوں ک مداوا کرت چلاآرہ ہے وہ ں انس ن دشمنی بھی‬
‫عروج پر رہی ہے۔ چونک تض د انس ن کی فطرت ک جزو ہے اس‬

‫لئے دوستی کے س تھ دشمنی ایسی کوئی نئی اور انوکھی‬
‫چیزنہیں ہے۔ ی ل ظ برصغیر کی مخت ف زب نوں میں ا سی طرح‬
‫ی تھوڑی بہت تبدی ی کے س تھ رائج چلا آت ہے۔ ی ل ظ ڈر خوف‬
‫اور ن رت کے س تھ س تھ تح ظ ذات ک احس س بھی پیداکرت ہے۔‬

‫‪228‬‬

‫ش ہ نصیر کے نزدیک کسی سب کے ب عث دشمنی جن لیتی ہے‬

‫مجنوں سے ہے جو ن ق ء لی ٰی کو دوستی دشمن ہے اس لئے‬
‫وہ بی ب ں میں خ ر ک ( ‪ )۷‬ش ہ نصیر‬

‫مرزا مظہر ج ن ج ن ں ایسے دوست جس ک کردار بدترین دشمن‬
‫ک س ہو ‪ ،‬کے لئے دشمن ک ل ظ است م ل کرتے ہیں۔‬

‫جو تونے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرت ہے غ ط تھ‬
‫تجھ کو جوہ ج نتے تھے مہر ب ں اپن ( ‪)۷‬ج ن ں‬

‫رقی کے لئے بھی ’’دشمن ‘‘ ہی ل ظ است م ل میں لاتے ہیں۔‬
‫وہی کیوں نہیں اٹھتی قی مت م جراکی ہے ہم رے س منے پہ و میں‬

‫)وہ دشمن کے بیٹھے ہیں( ‪۷‬‬
‫غ ل ’’دشمن ‘‘ کے ایک دوسرے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں‬

‫عش میں بیدادرشک غیر نے م را مجھے کشت ء دشمن ہوں‬
‫آخر گرچ تھ بیم ر دوست‬

‫بلاشب رقی سے بڑ ادشمن کون ہوگ ۔ رق بت قطرہ قطرہ نچوڑتی‬
‫ہے۔‬

‫‪ :‬دوست‬

‫‪229‬‬

‫ل ظ دوست تہذیبی اور ثق فتی ت ریخ میں بڑا مضبوط اور توان‬
‫حوال رکھت ہے ۔ انس نوں نے انس نوں کو اور قوموں نے قوموں‬

‫کو م ملات حی ت کے ضمن میں ‪ ،‬وقت پڑنے پر ی پھر من ک‬
‫بوجھ ہ ک کرنے کے لئے دوست بن ی ہے۔ ان پر اعتم د کی ہے‬
‫ان سے م شی لین دین رکھ ہے۔ ان سے خونی رشتے استوار‬
‫کئے ہیں۔ان کے لئے خون بہ ی ہے۔ ت ہ اعتم د جیت کر برب د‬

‫کرنے والے بھی دوست ہی رہے ہیں ۔ اس من ی حقیقت کے‬
‫ب وجود ل ظ ’’دوست ‘‘ اپنے دامن میں وس ت‪ ،‬توان ئی ‪ ،‬خ وص‬

‫و محبت اور پ کیزگی رکھت ہے ۔ انس ن ک اعتم دبح ل کرت ہے۔‬
‫حوص ے اور تس ی ک سب بنت ہے۔ ی ل ظ یقین ابڑاخوبصور ت‬
‫اور اعص پر مثبت اثرات مرت کرنے اور ن سی تی تسکین‬
‫فراہ کرنے والا ہے۔دوست ک کردار ہمیش سے متحرک رہ ہے۔‬
‫خدااور م شو کے لئے بھی ی است م ل میں آت رہ ہے۔ اردو‬

‫‪:‬غزل سے چند مث لیں ملاحظ ہوں‬

‫میر حیدر الدین ک مل ک کہن ہے ک دوست ‪ ،‬دوست کی خط ؤں‬
‫سے درگذرکرت ہے اور اسے م ف کردیت ہے۔ دوست ک ی کردار‬

‫سچی اور سچی دوستی کی نش ندہی کرت ہے۔‬

‫دوست بخشے گ دوست س کے س گرچ ع صی ہوں اس ک‬
‫آسی ہوں ( ‪)۷‬ک مل‬

‫دوستی ک ی پیم ن اللہ ت ل ٰی کی ذات گرامی پر فٹ آت ہے ۔ت ہ‬










































Click to View FlipBook Version