The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by پنجاب اکھر, 2017-06-28 06:55:13

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

‫‪101‬‬

‫)ب دبہ ری کے اظہ ر ک وسی (‬

‫ہے جوش گل بہ ر میں ی ں تک ک ہر طرف اڑتے ہوئے الجھتے‬
‫ہیں مر چمن کے پ نوء غ ل‬

‫چمن ‪ ،‬جہ ں بہت س رے درخت ہوں اوران کی بہت سی ش خیں‬
‫ادھرادھربکھری ہوئی ہوں ک ب بل کو پرواز میں دشواری‬

‫محسوس ہوتی ہو۔ بے ترتیبی حرکت میں خ ل ک سب بنتی ہے۔‬
‫بہت ت ن مت سہی لیکن اس ک ترتی میں لان اور ضروری قطر‬

‫برید حرکت میں دشواری ک موج نہیں بنتی ۔ پنج بی مثل‬
‫م روف ہے ’’پ ن س کو آت ہے لیکن ’’ٹمک ن ‘‘ کوئی کوئی‬
‫ج نت ہے۔ چمن کی خوبی تو ہر کوئی چ ہت ہے لیکن پودوں کی‬
‫دیکھ بھ ل ‪ ،‬توازن ‪ ،‬سیمٹری ق ئ کرکے حظ فراہ کرن کوئی‬
‫کوئی ج نت ہے ۔میسر کی بہت ت ‪ ،‬س یقے کی محت ج ہے جبک‬

‫س یق ‪ ،‬توازن اور سٹمری ک ض من ہوت ہے ۔‬

‫‪:‬بت خ ن‬

‫ف رسی اس مذکر۔ بت رکھنے کی جگ ‪ ،‬مندر ‪ ،‬شوال ‪،‬‬
‫شیودوارہ ( ) بتکدہ ‪ ،‬صن کدہ ‪ ،‬مورتی پوج کی جگ‬
‫( )انس ن نے اپنے مح فظ ‪ ،‬م ون ‪ ،‬نج ت دہندہ ‪ ،‬پوجیور کو‬
‫مجس اور چش بخود دیکھنے کی خواہش ہمیش کی ہے۔ دکھ ‪،‬‬
‫تک یف اور مصیبت میں ان سے مدد چ ہی ہے ۔ دیوی دیوت ؤں‬
‫کے س تھ بھ ے اور انس ن دوستوں کے بت بن کر انہیں احترا‬

‫‪102‬‬

‫دی گی ہے ۔ ان کی ی د میں بت گھر بن ئے گئے ہیں ۔ یہ ں تک ک‬
‫ک ب کو بھی بت گھر بن دی گی ۔ یہی وج ہے ک بت اوربت‬

‫خ نے انس نی تہذیبوں ک محورو مرکز رہے ہیں ۔ مذہبی اشخ ص‬
‫کی تص ویر اورمجسموں ک احترا عیس ئیوں اور مس م نوں کے‬

‫)ہ ں بھی پ ی ج ت ہے ۔(‬

‫جبرواستبدادسے مت قوتیں‪ ،‬انس ن اور انس نیت سے برسر‬
‫پیک ر رہی ہیں۔کچھ لوگ ان قوتوں کے س منے ہمیش جھکے‬
‫اور انہیں اپنی قسمت ک م لک ووارث سمجھتے چ ے آئے ہیں‬
‫جبک کچھ لوگ ان قوتوں سے نبردآزم رہے ہیں۔ اس جنگ کے‬
‫ف تحین کوبھی عزت و احترا دی گی ہے ۔ گوی دونوں ‪ ،‬من ی‬
‫اور مثبت قوتیں ط قت کی علامت ٹھہر کر پوجیور کے درجے پر‬

‫ف ئز رہی ہیں۔ م ہرین بشری ت ک کہن ہے ک فرد کی شخصیت‬
‫پیدائشی قوتوں کے زیر اثر نہیں ب ک م شرتی ح لات کے‬

‫نتیجے میں تشکیل پ تی ہے۔ ( )یہی وج ہے ک ’’بت‘‘ ( )‬
‫بہت بڑا م شرتی حوال رہے ہیں۔ ب ض کو ان کے عمدہ‬

‫کردار( ) اور ب ض کوجبری( ) عزت دینے پر انس ن مجبور‬
‫ہ ہے ۔‬

‫طوائف گ ہ اورب زار حسن کو بھی غ ل ’’بتکدہ ‘‘ک ن دیتے‬
‫‪:‬ہیں‬

‫ش ہوئی پھر انجمن رخشندہ ک منظر کھلا اس تک ف سے گوی‬

‫‪103‬‬

‫بتکدے ک درکھلا‬
‫اردوش عری میں ’’بت خ ن ‘‘ ع است م ل ک ل ظ رہ ہے ۔مثلاا‬

‫کہیں عش حقیقی ہے کہیں عش مج زی ہے‬
‫کوئی مسجد بن ت ہے کہیں بنت ہے بت خ ن ( ) شریں‬

‫‪ :‬بت خ نے ‘‘ ک است م ل بطور پوج گ ہ ہو اہے ’’‬
‫چش اہل قب میں آج اس نے کی جوں سرم ج‬

‫حیف ایس شخص جوخ ک دربت خ ن تھ (‪ ) ۷‬سودا‬
‫مج زی اور غیرحقیقی پوج گ ہ‬

‫مسجد میں بتکدے میں ک یس میں دیر میں‬
‫پھرتے تری تلاش میں ہ چ ر سو رہے ( ) شیدا‬
‫بت کدہ ‪ ،‬بیت الصن ‪ ،‬صن خ ن ‪’’ ،‬بت خ ن ‘‘ کے مترادف ال ظ‬

‫‪:‬ہیں‬
‫اللہ رے کی عش بت ں میں ہے رس ئی‬
‫ی ک ب ء دل اپن صن خ ن ہوا ہے ( ) ذک‬
‫کسی شخص ک ب طن جودنیوی حوالوں سے لبریز رہ ہو۔‬
‫ک فر ہم رے دل کی ن پوچھ اپنے عش میں بیت الحرا تھ سو‬

‫)وہ بیت الض ہوا (‬

‫‪104‬‬

‫‪:‬شیخ ت ضل حسین عزیز ’’آست ن صن ‘‘ ک ن دے رہے ہیں‬

‫دیر وحر سے ک بھلا اس کو کی رہے جس ک ک آست ن صن‬
‫سجدہ گ ہ ہو ( ) عزیز‬

‫محبو ک آست ن عش کی سجدہ گ ہ رہ ہے‬

‫‪:‬غ ل کے ہ ں ل ظ بت خ نے ک است م ل ملاحظ ہو‬

‫وف داری بشرط استواری اصل ایم ں ہے مرے بت خ نے میں تو‬
‫ک بے میں گ ڑو برہمن کو‬

‫یقین استواری ک ن ہے ۔ کبھی ادھر کبھی ادھر ایسوں کو عہد‬
‫جدید ’’ لوٹے‘‘ ک ن دیت ہے بت خ ن بتوں کے رکھنے کی جگ‬

‫کوکہ ج ت رہ ہے ۔ ی ل ظ مندر‪ ،‬شوال ‪ ،‬دیر‪ ،‬شیودوارہ کے‬
‫لئے بولا ج ت ہے ۔بت خ ن سے وابست روای ت تہذیبی حوالوں‬
‫سے جڑی رہی ہیں اور ان کے اثرات ن دانست بت شکنوں کے‬

‫ہ ں بھی منتقل ہوئے ہیں۔‬

‫‪:‬بی ب ں‬

‫ف رسی اس مذکر‪ ،‬ریگست ن ‪ ،‬جنگل ‪ ،‬ویران ‪ ،‬اج ڑ ‪ ،‬جہ ں‬
‫)کوسوں تک پ نی اور درخت ن ہوں(‬

‫‪ :‬عش اوربی ب ں لاز و م زو حیثیت کے ح مل ہیں۔وہ اس لئے‬

‫ا۔ عش میں ج بھی وحشت لاح ہوگی تو وحشی (ع ش )‬

‫‪105‬‬

‫ویرانے کی طرح دوڑے گ ۔‬

‫۔ عش ویرانی چ ہت ہے ت ک ع ش اور م شو بلا خوف مل‬
‫سکیں اورب تیں کرسکیں۔‬

‫‪:‬غ ل کے ہ ں ل ظ’’بی ب ں‘‘ ک است م ل ملاحظ ہو‬

‫گھر ہم را ‪ ،‬جون روتے بھی تو ویراں ہوت بحر گر بحر ن ہوت‬
‫توبی ب ں ہوت‬

‫جہ ں پ نی دستی ن ہو‪ ،‬ویران *‬

‫میر ص ح جنوں کو بی ب ن ک ن دے رہے ہیں ۔بی ب ں ہولن ک‬
‫وس ت ویرانی ک ح مل ہوت ہے ۔ خوف اس سے وابست ہوت ہے‬

‫جنون کی حد پیم نوں سے ب لا ہوتی ہے ۔ بقدر ضرورت‬
‫ح لات(ویرانی) اور وس ت میسر ن آنے ک خوف اور خدش رہت‬
‫ہے۔ ان امور کے پیش نظر میر ص ح نے ’’بی ب ں جیون ‘‘کی‬

‫‪ :‬ترکی جم ئی ہے‬

‫میں صیدر میدہ ہوں بی ب ن جنون ک رہت ہے مراموج وحشت ‪،‬‬
‫مراس ی ( ) میر‬

‫شکی جلالی ی س کے س تھ بی ب ن ک رشت جوڑتے ہیں ی س‬
‫بی ب ن سے مم ثل ہوتی ہے ۔ ی س کی ح لت میں امید کے‬

‫دروازے بند ہوج تے ہیں کسی حوال سے ب ت بنتی نظر نہیں آتی‬

‫ت زہ کوئی ردائے ش ابر میں ن تھ بیٹھ تھ میں اداس بی ب ن‬

‫‪106‬‬

‫ی س میں ( ) شکی‬

‫کسی بھی نوعیت ک جنون سوچ کے دروازے بند کردیت ہے ۔ ی‬
‫س اداس کردیتی ہے ۔ ہر دوصورتیں م شرتی جمود ک سب بنتی‬

‫ہیں ۔ م شرتی جمود تخ ی و تحقی کے لئے س ق تل سے ک‬
‫نہیں ہوت ۔ جنوں ہوک ی س مثل بی ب ن ( بے آب د‪ ،‬ویران بنجر‪،‬‬

‫تخ ی وتحقی سے م ذور) ہوتے ہیں۔‬

‫دشت‪ :‬ف رسی اس مذکر‪ :‬بی ب ن ‪ ،‬صحرا ‪ ،‬جنگل ‪،‬میدان ( )‬
‫ویران ‪ ،‬شی تگی ک ٹھک ن ‪ ،‬اردو ش عری میں ی ل ظ مخت ف‬
‫م ہی کے س تھ نظ ہوا ہے ۔ ح ت اور ق ت نے اسے ویران‬

‫‪ :‬اور بی ب ن کے م نوں میں ب ندھ ہے‬

‫ہ دوانوں کو‪ ،‬بس ہے پوشش سے دامن دشت وچ درمہت‬
‫( )قئ‬

‫ہوامجنوں کے ح میں دشت گ زار کی ہے عش کے ٹیسونے‬
‫بن سرخ (‪ ) ۷‬ح ت‬

‫ا غ ل کے ہ ں اس ل ظ کے است م ل ملاحظ ہو‬

‫یک قد و حشت سے درس دفتر امک ں کھلا ج ہ ‪ ،‬اجزائے‬
‫دوع ل دشت ک شیراز تھ‬

‫وحشت اور دشت ایک دوسرے کے لئے لازم کی حیثیت رکھتے‬
‫ہیں ۔ وحشت کی صورت میں دشت کی ضرورت ہوگی۔ جنون‬

‫‪107‬‬

‫ووحشت امک ن کے دروازے کھولتے ہیں۔ آب دی میں رہتے‬
‫ہوئے سوچ کو یکسوئی میسر نہیں آسکے گی ۔ ی دشت میں ہی‬

‫ممکن ہے ۔‬

‫‪:‬صحرا‬

‫عربی اس مذکر۔ جنگل ‪ ،‬بی ب ن( ) میدان ‪ ،‬جہ ں درخت وغیرہ‬
‫کچھ ن ہوں‪ ،‬ویران ‪ ،‬ریگست ن ( ) تنگ جگ جہ ں گھٹن ہو۔‬

‫غ ل نے مجنوں کے حوال سے صحرا سے بی ب ن م نی مراد‬
‫‪:‬لئے ہیں‬

‫جز قیس اور کوئی ن آی بروئے ک ر صحرا مگر ب تنگی چش‬
‫حسود تھ‬

‫صحرا وسیع و کش دہ ویران ہوت ہے ۔ بقول غ ل اسے کوئی‬
‫سر نہیں کرسکت ۔ ی اعزاز صرف مجنوں کو ح صل ہوا ہے ۔ ’’‬

‫ع روای ت کے مط ب اس کی س ری عمر بی ب ن کی خ ک‬
‫چھ ننے میں بسر ہوئی ۔( ‪)۷‬۔ صحرا گردی عش ک لازم رہ‬

‫ہے ۔‬

‫‪ :‬شی ت صحرا سے پر آشو ویران مق مراد لیتے ہیں‬

‫گ ؤں بھی ہ کو غنیمت ہے ک آب دی تو ہے آئے ہیں ہ پر‬
‫آشو صحرا دیکھ کر ( ‪ )۷‬شی ت‬

‫بیدل حیدری ویرانی ‪ ،‬خشکی ‪ ،‬پشیم نی ‪ ،‬بدح لی وغیرہ کے‬

‫‪108‬‬

‫‪:‬م نوں میں نظ کرتے ہیں‬
‫ب د ل ی آنکھ کے صحرا کو کی ہوا کیوں ڈالتے نہیں ہیں بگولے‬

‫دھم ل ‪ ،‬سوچ ( ‪ )۷‬بیدل‬
‫ح ت نے صحرا سے سبزہ گ ہ ‪ ،‬جہ ں ہر ی لی ہو م نی مراد لئے‬

‫‪:‬ہیں‬
‫می ں چل سیر کر ابر و ہوا ہے ہو اہے کوہ و صحرا ج بج‬

‫سبز( ‪ )۷‬ح ت‬
‫جنگل‪ :‬ف رسی اس مذکر۔ بی ب ن ‪ ،‬جھ ڑی ‪،‬بن‪ ،‬نخ ست ن‪ ،‬صحرا‪،‬‬

‫میدان ‪ ،‬ریگست ن ‪ ،‬بنجر ‪ ،‬افت دہ زمین ‪ ،‬ویران جگ ‪،‬‬
‫)چراگ ہ‪ ،‬ب دش ہی شک ر گ ہ صید گ ہ( ‪۷‬‬

‫ح ت نے بے آب د جگ جبک چندا نے چوپ یوں کی چراگ ہ ‪،‬م نی‬
‫‪:‬مراد لئے ہیں‬

‫وے پری روی ں جنھیں ڈھونڈے تھے ہ جنگل کے بیچ‬
‫ب د مدت کے یک یک آج پ ئیں ب میں ( ‪ )۷‬ح ت‬

‫رہیں کیونک بستی میں اس عش کے ہ جو آہو کوجنگل سے‬
‫ؔ)ر دیکھتے ہیں ( ‪ ( )۷‬چندا‬

‫غ ل نے جنگل کوبی ب ن ‪ ،‬دشت اور صحرا کے م نوں میں‬
‫‪ :‬است م ل کی ہے‬

‫‪109‬‬

‫ہر اک مک ن کو ہے مکین سے شرف اسد مجنوں جو مرگی ہے‬
‫تو جنگل اداس ہے‬

‫بی ب ن ‪ ،‬دشت ‪ ،‬صحرا‪،‬جنگل اورویران وحشت پیدا کرنے والے‬
‫ال ظ ہیں ۔ قدرتی ی پھر انس ن کی اپنی تی ر کردہ آف ت انس نی‬

‫تب ہی ک موج رہی ہیں۔ ط قتور طبقے ‪ ،‬بیم ری ں ی پھر سم وی‬
‫آف ت‪ ،‬آب دیوں کو ویرانوں میں بدلتی رہتی ہیں۔بہر طور ی ال ظ‬

‫سم عت پر ن گوار گزرتے ہیں۔ سم عت ان سے جڑی ت خی‬
‫برداشت نہیں کرتی۔ ان حق ئ کے ب وجود عش ‪ ،‬زاہد حضرات‬
‫اور تدبر وفکر سے مت لوگوں کو ی جگہیں خوش آتی رہی‬
‫ہیں ۔ ان مق م ت پر موجود آث ر‪ ،‬مخت ف حوالوں سے مت امور‬
‫کی گھتی ں کھولتے ہیں ۔ عبرت ی پھر دلیل جہد بن ج تے ہیں۔‬

‫جنت‬

‫جنت‪ :‬ل ظ جنت‪ ،‬درحقیت ب د از مرگ ایک مستقل ٹھک نے ‪ /‬گھر‬
‫کے لئے مست مل ہے۔ اس کے حسن اور آسودگی ک سن کر‬
‫آدمی اپنے زمینی گھر کو جنت نظیر بن نے کی س ی کرت ہے۔‬

‫ل ظ جنت ایک پرسکون ‪ ،‬پرراحت اور پرآس ئش گھر ک تصور‬
‫دیت ہے۔ انس ن اس کے حصول کے لئے زی دہ سے زی دہ نیکی ں‬

‫کم نے کی کوشش کرت ہے۔ سخ وت اور عب دت و ری ضت سے‬
‫بھی ک لیت ہے۔‬

‫قرآن مجید اور دیگر مذہبی کت میں بھی ب د از مرگ اچھے‬

‫‪110‬‬

‫کرموں کے ص میں عط ء ہونے والے اس بے مثل گھر ک نقش‬
‫‪ :‬م ت ہے‬

‫)جنت وہ ب غ ت(‪ )۷۷‬ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ( ‪* ۷‬‬
‫)اس ب کی وس ت س ت آسم ن اور زمین کے برابر ہے ( ‪* ۷‬‬

‫)ی امن اور چین ک گھر ہے ( *‬
‫)ی گھر مستقل ہوگ ( *‬
‫)وہ ں آزادی ہوگی( *‬
‫)آس ئش ہوگی( *‬

‫)میوے سدا بہ رہوں گے ۔ چھ ؤں بھی میسر ہوگی( *‬
‫)ی نہ ل کردینے والا گھر ہوگ ( *‬

‫ی گھر بڑا عمدہ اور اس میں کسی قس کی تک یف اوررنج ن *‬
‫)ہوگ (‬

‫یہ ں جھروکے ہوں گے ‪ ،‬ضی فتوں ک اہتم ہوگ ۔ پھل ‪،‬عزت *‬
‫)اور (ہر) ن مت میسر ہوگی(‪۷‬‬

‫)اونچے محل اورب لا خ نے میسر ہوں گے( *‬
‫گوی جنت ہر حوال سے مث لی ہوگ ۔ وہ ں کسی قس ک رنج اور‬
‫دکھ ن ہوگ ب ک ہر نوع کی سہولت میسر ہوگی۔ جنت میں انس ن‬

‫‪111‬‬

‫کو کسی دوسرے پر انحص ر نہیں کرن پڑے گ جبک زمین پر‬
‫‪:‬بقول روجرز‬

‫ضروری ت کی تسکین کے لئے انس ن کودوسروں پر انحص ر ’’‬
‫کرن پڑت ہے اوراسے م شرتی رس ورواج اور اقدار‬
‫)کی پ بندی کرن پڑتی ہے ‘‘۔(‬

‫غ ل نے جنت ک مخت ف حوالوں سے ذکر کی ہے ۔ ہر ب رنئی‬
‫‪ :‬م نویت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے‬

‫ہ کو م و ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو‬
‫غ ل ی خی ل اچھ ہے‬

‫)آغ ب قر‪ ’’ :‬ن فہموں کے لئے ایک سبز ب ‘‘ (‬
‫)ش داں ب گرامی ‪ ’’ :‬ن دانوں ک گھر‘‘(‬

‫)غلا رسول مہر‪ ’’ :‬دل خوش رکھنے ک ذری ‘‘ (‬
‫‪ :‬مترادف ت جنت ک تذکرہ بھی کلا غ ل میں م ت ہے‬

‫‪:‬بہشت‬
‫ف رسی اس مونث ‪ ،‬جنت‪ ،‬فردوس ‪ ،‬ب ‪ ،‬عیش آرا ک مق‬

‫)(‬
‫سنتے ہیں جو بہشت کی ت ریف س درست لیکن خدا کرے وہ‬

‫ترا ج و ہ گ ہ ہو‬

‫‪112‬‬

‫)آغ ب قر‪ ’’ :‬جہ ں محبو ک ج وہ نصی ہوگ ‘‘ (‬
‫غلا رسول مہر ’’ وہ مق جہ ں محبو ک دیدار میسر‬

‫)آئے(‬
‫)خ د‪ :‬عربی اس مونث‪ ،‬جنت‪ ،‬بہشت ‪ ،‬فردوس (‬
‫کی ہی رضوان سے لڑائی ہو گی گھر ترا خ د میں گری د آی‬

‫)آغ ب قر‪’’ :‬ب ‘‘ (‪۷‬‬
‫)غلا رسول مہر‪ ’’ :‬دریچ ب ‘‘ (‬
‫ش داں ب گرامی ‪ ’’ :‬آٹھ طبق ت بہشت میں سے ایک طبق ک‬

‫)ن ‘‘(‬
‫تصور محبو ‪ ،‬پرآس ئش مق ‪ ،‬خوبصورت جگ ‪ ،‬محبو کے‬
‫گھر سے ک تر اورجہ ں محبو کی عد موجودگی کے ب عث‬

‫بے چینی اور بیقراری ہوگی۔‬
‫فردوس ‪:‬عربی اس مذکر ۔ ب ‪ ،‬گ شن ‪ ،‬بہشت ‪ ،‬جنت‪ ،‬بینکٹھ ‪،‬‬

‫)بہشت ک اع ٰی طبق (‬
‫لطف خرا س قی وذو صدائے چنگ ی جنت نگ ہ وہ فردوس‬

‫گوش ہے‬
‫میٹھی ‪ ،‬پرکیف ‪ ،‬پرسرور‬

‫‪:‬ب رضوان‬

‫‪113‬‬

‫وہ بہشتی ب جس ک درب ن نگران رضواں ہے‬
‫ست ئش گرہے زاہد اس قدر جس ب رضواں ک وہ اک گ دست‬

‫ہے ہ بے خودوں کے ط نیس ں ک غ ل‬
‫ب رضوان جنت کے کسی ایک حصے ک ن ہے ۔جنت کے‬
‫دوسرے حصوں ک ذکر بھی غ ل کے ہ ں م ت ہے مثلاا حوض‬

‫کوثر جس کے س قی جن امیر ہوں گے۔‬
‫کل کے لئے کر آج ن خست شرا میں ی سوئے ظن ہے س قی‬

‫کوثر کے ب میں‬
‫کوثر ن ایک نہر بہشت میں اس ک پ نی دودھ سے س ید اور‬

‫)شہد سے میٹھ (‬
‫)حوض کوثر ‪،‬خیر کثیر (‬

‫)بے شم ر خوبی ں (‬
‫)اس پ نی کو جو ایک مرتب پیئے گ پی س نہیں لگے گی (‬

‫)ن حوض ست ک در آخرت خواہد بود (‬
‫‪:‬غ ل نے بھی کوثر سے مراد حوض ہی لی ہے‬
‫‪ :‬غ ل کے ایک ش ر میں ب ار ک ذکر آت ہے‬
‫جہ ں تیر ا نقش قد دیکھتے ہیں خی ب ں خی ب ں ار دیکھتے ہیں‬

‫‪114‬‬

‫ار ‪ :‬عربی اس مذکر ۔بہشت ‪،‬جنت ‪،‬شداد کی بن ئی ہوئی بہشت ک‬
‫ن ( ) ایک شہر ک ن جو شداد سے منسو تھ اور وہی‬
‫اس ک شہرۂ آف ب بت ی ج ت تھ ۔ا ی ل ظ مط بہشت کے‬
‫لئے مست مل ہے۔ (‪ ) ۷‬ب جنت ( ) محبو ک ہر نقش‬

‫)قد ( ا) یوں جیسے پھولوں کی کی ری ہو (‬

‫اردو ش عری میں اس خوبصورت مق ک مخت ف حوالوں سے‬
‫‪:‬ذکر م ت ہے‬

‫تیرا ن ہر د کوئی لیوت ٹھک ن جنت بیچ اوس دیوت ( )‬
‫اسم عیل امروہوی‬

‫خوبصورت ٹھک ن ‪ /‬گھر ‪،‬ص ء عب دت ‪،‬اجر ‪،‬ان‬

‫ب بہشت آنکھوں سے ا گر گی مرے دل میں بس وہ سبزخط‬
‫روئے ی ر ہے ( ) چندا‬

‫ہرا بھرا سبز ب ‪ ،‬نہ یت خوبصورت ب ‪،‬بہشت ک سبزہ مگر خط‬
‫روئے ی ر سے ک تر‬

‫اوسی وقت بھیج خدا پ ک نے بہشت ں تے حوراں ایح ل منے‬
‫( ) اسم عیل امروہوی‬

‫بہشت ں ‪،‬جمع بہشت ۔وہ جگ جہ ں خوبصورت عورتیں اق مت‬
‫رکھتی ہیں ۔‬

‫کی ڈھونڈتی ہے قو ‪،‬آنکھوں میں قو کی خ د بریں ہے طبق‬

‫‪115‬‬

‫اس ل جحی ک ( ) شی ت‬

‫خد‪،‬‬

‫حسین سپن ‪،‬خوش فہمی ‪،‬مٹی سے بنے انس ن ک سپن‬

‫ہ ں ط گ ر جن ں آؤ درحضرت پر ی مک ں وہ ہے جسے خ د‬
‫بن کہتے ہیں ( ) مجروح‬

‫‪ :‬در حضور ‪،‬کن یت اسلا‬

‫س کن کو کو ترے ک ہے تم شے ک دم نح آئے فردوس بھی چل‬
‫کر ن ادھرکو جھ نک ( ) میر‬

‫محبو کے کوچے کو ’’فردوس ‘ ‘پر تر جیح دی ج رہی ہے ک‬
‫ی ج زبیت ‪،‬حسن و جم ل ‪،‬ت وغیرہ کے حوال سے بر تر‬
‫ہے۔فردوس کے مت پڑھنے سننے میں آت ہے جبک محبو‬

‫ک کوچ دیکھنے میں آرہ ہے ۔لوگ اس کوچے کے مت اظہ ر‬
‫خی ل کرتے ہیں ۔اس کی ج زبیت اور خوبصورتی پر کہتے ہیں‬
‫۔فردوس سننے کی چیز ہے جبک ی دیکھنے اور سننے سے‬
‫علاق رکھتی ہے۔‬

‫ٍ تمہ رے روض جنت نش ں کے جو ک درب ں ہیں‬

‫رکھے ہیں حک رضواں ‪،‬حضرت خواج م ین الدیں (‪) ۷‬آفت‬

‫رضوان جو جنت کے ایک ب ک درب ں ہے اس پر زمین ب سی‬

‫‪116‬‬

‫‪،‬اللہ کے ولی ک حک چ ت ہے اور اس ک روض جنت نش ں ہے ۔‬
‫روضے کو جنت نش ں قرار دے کر رضوان (موکل )کی درب نی ک‬

‫جواز آفت نے بڑی خوبی سے نک لا ہے ۔‬

‫ہے جو چش تر بہر ابن ع ی ب از چشم آ کوثر ہے وہ‬
‫( ) ق ئ چ ند پوری‬

‫ق ئ چ ند پوری نے حسین کے غ میں بہتی آنکھ کو چشم آ‬
‫کوثر قرار دی ہے۔یقین وہ آنکھ جوئے کوثر کو بہت پیچھے‬
‫چھوڑ ج تی ہے۔‬

‫گل گشت دو ع ل سے ہو کیوں کر وہ تس ی زائر ہو جو کوئی‬
‫ترے کوچے کے ار ک ( ) ق ئ چ ند پوری‬

‫ق ئ رس لت ﷺکے کوچ کو ار ک ن دیتے ہیں ۔رس لت م‬
‫ﷺ کے کوچے ک زائر گل گشت دو ع ل میں اطمین ن‬

‫محسوس نہیں کرت ۔ ق بی تس ی ک جو ذائق وہ ں ہے یہ ں ک‬
‫میسر آت ہے ۔‬

‫جنت ک حسن اور آس یش مت ثر کر ت ہے ۔شداد اس مت ثر ہوا ۔‬
‫اس نے ب بنوای ۔انس ن اپنے زمینی گھر کے لئے ایسی ہی‬
‫صورتوں ک متمنی رہ ہے ۔کبھی گھر کے اند ر اور گھر کے‬
‫ب ہر سبزے سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کر ت ہے ۔شہروں‬
‫کو ب غ ت سے آراست کرت ہے۔ حسن و آرائش انس ن کی ن سی تی‬

‫‪117‬‬

‫کمزوری ہے۔ وہ سنی سن ئی جنت کے لوازم ت جمع کرنے کی‬
‫س ی و جہد کرت چلا آی ہے۔حسن و آرائش موڈ پر اثر انداز‬

‫ہوتے ہیں ۔موڈ پر رویے اور رویوں پر تہذیبی روای ت اٹھتی ہیں‬
‫۔جنت کے حوال سے ان عن صر کو تہذیبوں کی رگوں میں رواں‬
‫دیکھ ج سکت ہے ۔حسن اور آرائش و آسودگی جنت ہی ک تو پر‬

‫ہیں ۔‬

‫‪:‬خ نق ہ‬

‫عربی اس مونث ۔خ نق بھی لکھنے میں آت ہے۔درویشو ں اور‬
‫مش ئخ کے رہنے کی جگ صوم کسی درویش ی پیر ک مقبرہ‬

‫( ) خ ن بم نی ش ہ‪ ،‬ق ہ تب دل گ ہ بم نی ج ئے ش ہ بوج‬
‫عظمت مزار فقرا کے م نی ہیں ( ) خ نق ہیں ہمیش سے ق بل‬
‫‪ :‬احترا رہی ہیں مخصوص مس لک سے مت لوگ یہ ں سے‬

‫۔روح نی آسودگی پ نے کی توقع رکھتے ہیں)‬

‫۔ ب طنی تربیت کی امید رکھتے ہیں)‬

‫۔ح ج ت روی ک منبع خی ل کرتے ہیں)‬

‫خ نق ہوں ک اسلامی م شروں میں سی سی کردار بھی رہ ہے‬
‫۔خ نق ہی نظری ت م شروں میں کبھی ب لواسط اور کبھی‬

‫بلاواسط پھ ے پھولے ہیں اور ان ک انس نی کر دار پر اثر مرت‬
‫ہوا ہے ۔مخصوص پہن وے دیکھنے کو م تے ہیں ۔ایسی صورت‬

‫‪118‬‬

‫خ نق ہی رسوم ت کی علامت رہی ہیں ۔خ نق ہیں ص ح و آتشی ک‬
‫سرچشم رہی ہیں ۔اتح د و یکجہتی کی علامت بھی قرار پ تی ہیں‬

‫۔مسجد ک چر سے ان ک تص د اور بیر رہ ہے ۔مولوی کے لئے‬
‫خ نق ہوں سے مت لوگ کبھی گوارا نہیں رہے۔ مولوی کی‬
‫کوشش کے ب وجود خ نق ہی ک چر کو فرو ح صل ہوا ہے۔‬

‫غ ل نے میکدے کو مسجد ‪،‬مدرس اور خ نق ہ کے برابر لا‬
‫کھڑا کی ہے۔ میکدہ بطور کن ی است م ل میں آی ہے ۔ش ر‬
‫‪:‬ملاحظ ہو‬

‫ج میکدہ چھٹ ‪،‬تو پھر ا کی جگ کی قید مسجد ہو ‪،‬مدرس‬
‫ہو‪ ،‬کوئی خ نق ہ ہو‬

‫ی ل ظ اردو اور ف رسی ش عری میں است م ل ہوت آی ہے ۔مثلاا‬

‫دیر میں ک بے گی میں خ نق سے ا کی ب ر راہ سے میخ نے‬
‫کی اس راہ میں کچھ پھیر تھ ( ) میر‬

‫خ نق خ لی شدو صوفی بم ند گرداز رخت آں مس فری فش ند‬
‫( ) مولان رو‬

‫من ک گوش ء میخ ن خ نق ہ منست دع ئے پیر مغ ن( )ورد‬
‫صبح گ ہ منست( )ح فظ شرازی‬

‫‪ :‬حجرہ‬

‫حجرہ ‪،‬عب دت ‪،‬ت ی و تر بیت کے علاوہ مولوی ص ح کی نشت‬

‫‪119‬‬

‫گ ہ کے م نوں میں است م ل ہوت ہے ۔ی عربی زب ن ک ل ظ ہے۔‬
‫اس کے لغوی م نی کوٹھری ‪،‬مسجد کی کوٹھری ‪،‬وہ خ وت خ ن‬
‫جس میں بیٹھ کر عب دت کریں ۔( )غرف ( ) وغیرہ ہیں‬
‫۔گوی ی ل ظ اسلامی تہذی میں بھرپور م نویت ک ح مل رہ ہے۔‬

‫اس کے مت دد حوالے رہے ہیں ۔مثلاا‬

‫ا) مش ئخ و ع رف حضرات کے کمرۂ ری ضت کے لئے است م ل‬
‫ہوت رہ ہے‬

‫) حجرے میں بیٹھ کر ع م ء سے ط ب ء ت ی ح صل کرتے‬
‫رہے ہیں‬

‫ج) ع م ء تنہ ئی میں یہ ں مط ل کرتے ہیں‬

‫د) دنی بیزار حضرات اور عش ک تنگ و ت ریک کمرہ حجرہ‬
‫کہلای ہے‬

‫ھ) مولوی ص حب ن اسے استراحت کے لئے است م ل میں لاتے‬
‫ہیں‬

‫و) بد ف ی کے لح ظ سے حجرہ بد ن بھی ہے‬

‫بہر طور ی مق تقدس م ہے۔ مولان رو کے ہ ں اسے کمرہ‬
‫‪:‬کے م نوں میں است م ل کی گی ہے‬

‫رخت از حجرہ بروں آور داو ت بجزبندندآں ہمراہ جو ( )‬
‫مولان رو‬

‫‪120‬‬

‫اس نے حجرے سے س م ن ب ہر نک لات ک وہ س تھیوں کو تلاش (‬
‫)کرنے والے (صوفی) گدھے پر لادیں‬

‫غ ل کے ہ ں اس ل ظ ک است م ل دیکھئے ۔‬

‫ہنوز ‪،‬اک پر تو نقش خی ل ی ر ب قی ہے دل افسردہ ‪ ،‬گوی حجرہ‬
‫ہے یوسف کے زنداں ک‬

‫غ ل نے ’’حجرہ ‘‘ بطور مشب ب نظ کی ہے ۔یوسف ک پیوند‬
‫ت میح ٹھہرات ہے‬

‫)ش داں ب گرامی‪ :‬چھوٹ کمرہ کوٹھری (‬

‫)آغ ب قر ‪ :‬تنگ و ت ریک کوٹھری (‪۷‬‬

‫)غلا رسول مہر‪ :‬قید خ نے ک حجرہ (‬

‫غ ل کے ہ ں چھوٹے بڑے کمرے پر زور نہیں ت ہ ک من سنس‬
‫کی ب ت ہے ک حجرہ چھوٹ کمرہ ہوسکت ہے۔اصل زور اس کے‬

‫م حول (افسردگی )پر ہے ۔ انس ن کے موڈک ت م حول اور‬
‫سچویشن سے ہے ۔بہت بڑی حوی ی ی ع لیش ن محل م کیت میں‬

‫‪ :‬ہو وہ ت ہی خوش آئے گ ج وہ ں‬

‫۔ چہل پہل ہوگی ۔اس رون میں کوئی پوچھنے والا ہوگ ۔ جس )‬
‫سے کہ سن ج سکے گ‬

‫۔ خوف ک پہرہ نہیں ہوگ )‬

‫‪121‬‬

‫۔ کسی قس کی پ بندی نہیں ہوگی)‬
‫ہرس ش رح حجرہ سے کمرہ ‪/‬کوٹھری مراد لے رہے ہیں ۔اس‬
‫حوال تخصیص کے لئے کسی س بقے کی ضروت محسوس ہوتی‬
‫ہے ۔ مثلااع ش ک حجرہ ‪ ،‬خ نق ہ ک حجرہ ‪،‬جیل ک حجرہ وغیرہ‬
‫س بق پیوست ن کرنے کی صورت میں اسے مسجد والا حجرہ‬

‫سمجھن پڑھے گ ۔‬
‫‪ :‬دبست ن‬

‫مکت ( )سکول ۔مدرس ( ) غلا رسول مہر ‪ :‬ادبست ن‬
‫)ک مخ ف ‪،‬مکت ‪،‬ت ی پ نے کی جگ (‬

‫دبست ن ‪ ،‬مدرس ‪ ،‬مکت ’’درس گ ہ ‘‘ کے تین ن ہیں ۔تینوں‬
‫ل ظ غ ل نے بڑی خوبی اور نئی م نویت کے س تھ ب ندھے ہیں‬

‫فن ت ی درس بے خودی ہوں ‪،‬اس زم نے سے‬
‫ک مجنوں لا ۔الف لکھت تھ دیوار دبست ں پر‬

‫‪:‬دبست ن کی دیوار پر ’’ لا ‘‘لکھن‬
‫ا)۔ یہ ں سے کچھ ح صل ہونے ک نہیں‬

‫)۔یہ ں کے پڑھے کو زوال ہے‬
‫ج)۔ کچھ ب قی رہنے والا نہیں ‪،‬درسگ ہ بھی نہیں‬
‫د)۔ اصل ت ی ’’ کل من ع یہ ف ن ‘‘ ہے جو یہ ں کے نص میں‬

‫‪122‬‬

‫نہیں لہذا دبست ن کی ت ی ادھوری ہے‬

‫دوسرے ش ر ء میں بھی ’’فن ‘‘ کو واضح کی گی ہے۔ اس ش ر‬
‫‪:‬میں ل ظ مکت است م ل ہواہے‬

‫لیت ہوں مکت دل میں سب ہنوز لیکن یہی ک رفت گی اور بود‬
‫تھ‬

‫دنی ٹھہرنے کی جگ نہیں ‪ ،‬چل چلاؤ ک مق ہے۔‬

‫ایک تیسرے ش ر میں ’’مدرس ‘‘ نظ ہواہے ۔اس ش ر میں‬
‫میکدے کو مسجد ‪ ،‬مدرسے اور خ نق ہ کے برابر لاکھڑا کرتے‬

‫‪ :‬ہیں‬

‫ج میکدہ چھٹ تو پھر ا کی جگ کی قید مسجد ہو‪،‬مدرس ہو‪،‬‬
‫کوئی خ نق ہ ہو‬

‫دبست ن ‪ ،‬مکت ‪،‬مدرس کو ہر م شرے میں ک یدی حیثیت ح صل‬
‫ہے۔قوموں کی ترقی ‪ ،‬مثبت روای ت کے تشکیل پ نے اور ان کے‬

‫پنپنے ک انحص راسی ادارے پر ہے ۔جہ ں ی ادارہ اور اس کے‬
‫مت ق ت صحت مند اور ب وق ر ہوں گے وہ ں م شرہ ص ف‬

‫ستھرا ترکی پ ئے گ ۔ اس م شرے کے رویے اور اطوار توازن‬
‫تہی نہیں ہوں گے ۔انس ن نے تحصیل ع و فن میں عمریں‬
‫بت دیں ۔اس م م میں اپنے بچوں کے لئے حس س رہ ہے۔‬

‫ل ظ مکت ‪،‬دبست ن ‪ ،‬مدرس چھوٹے چھوٹے بچوں کو دوڑت‬

‫‪123‬‬

‫‪،‬بھ گت شرارتیں کرتے اور روتے بسورتے آنکھوں کے س منے‬
‫لے آت ہے آزاد م حول سے پ بند م حول کی طرف مراج ت انہیں‬
‫پریش ن کر دیتی ہے۔اس ل ظ کے حوال سے ایک اور نقش بھی‬
‫ذہن میں ابھرت ہے ک ایک ع ل ف ضل شخص ع کے خزانوں‬

‫کے دروازے کھولے بیٹھ ہے ۔اس کے س منے بیٹھے ط ب ء ی‬
‫مرواریدی خزانے جمع کر رہے ہیں ۔ی ادارہ ش ور‪ ،‬ادراک اور‬

‫‪ :‬آگہی سے مت ہے۔ اسی لئے انس ن‬

‫ا) کت کی طرف رخ کرت ہے‬

‫) ع و فن سے مت شخص ‪ /‬اشخ ص کی طرف رجوع کرت‬
‫ہے‬

‫م لی تنگی سختی میں بھی کت دوستی سے من نہیں َ)ج‬
‫موڑتی‬

‫‪ :‬دامگ ہ‬

‫شک رگ ہ ( ) وہ مق جہ ں شک ر کے لئے ج ل بچھ ہوا ہو‬
‫)(‬

‫دامگ ہ‪،‬شک ر گ ہ کے مترادف مرک ہے ت ہ اسے ج ل کے س تھ‬
‫شک ر کرنے تک محدود کر دی گی ہے ۔شک ر کی ضرورت اور‬
‫شو انس ن کے ہمیش سے س تھی رہے ہیں ۔چڑیوں سے شیر‬

‫تک اس کے ح ق شک ر میں رہے ہیں ۔اپنی شک ری فطرت سے‬

‫‪124‬‬

‫مجبور ہوکر انس نوں اور م شی غلاموں ک شک رکرت آی ہے۔‬
‫ن قص ‪،‬ن ک رہ اور بیک ر م ل کی فروخت کے لئے دا لگ ت رہت‬
‫ہے۔ ترقی ی فت مم لک پہ ے سے بہتر اور ک ر گزاری میں بڑھ‬

‫کر م ل تی ر کر لینے کے ب د پہ ے کی فروخت کے لئے دا‬
‫بچھ تے رہتے ہیں ۔عورتوں سے پیش کروانے والے ی پیش‬
‫سے مت عورتیں دا لگ تی رہتی ہیں ۔ت جر ‪،‬دلال ‪،‬پراپرٹی‬
‫ڈی ر زوغیرہ اپنے اپنے دا کے س تھ م شروں میں موجود ہے‬
‫ہیں ۔ان امرج کودامگ ہ کہ ج ئے گ ۔ب دش ہی محلات ش زشوں‬

‫کے حوال سے دامگ ہ رہے ہیں ۔غ ل کے ہ ں اس ل ظ ک‬
‫‪:‬است م ل ملاحظ ہو‬

‫بز قدح سے عیش تمن ن رکھ ک رنگ صیدزدا جست ہے اس‬
‫دا گ ہ ک‬

‫دا گ ہ کی حقیقت ‪،‬اص یت اور اس کے اندر کی اذیت وہی بت‬
‫سکت ہے جو اس میں رہ کر کسی وج ی سب سے بچ نکلا ہو‬
‫ی ڈنک کھ کر واپس آی ہو ۔ورن اتنی بڑی حقیقت ‪،‬بز قدح سے‬
‫عیش تمن ن رکھ ۔۔۔ اتنے وثو اور اعتم د کے س تھ کہن ممکن‬

‫نہیں ہوتی۔‬

‫‪:‬در‬

‫ف رسی اس مذکر ہے۔جس کے م نی دروازہ ‪ ،‬دوارا ‪ ،‬چوکھٹ ‪،‬‬
‫درمی ن ‪ ،‬اندر ‪ ،‬بیچ ‪ ،‬بھیتر ہیں ۔تحسین کلا کے لئے بھی آج ت‬

‫‪125‬‬

‫ہے ۔( ) کسی دوسرے ل ظ کے س تھ جڑ کر م نویت اج گر‬
‫کر ت ہے۔ دوسرا ل ظ ن صرف اسے خصوص کے مرتبے پر ف ئز‬
‫کرت ہے۔ ب ک اس کی تخصیص ک ذری بن ج ت ہے ۔ ’’پیوند ‘‘‬

‫سے واضح ہوت ک کون س اور کس ک ’در‘ ۔غ ل کے ہ ں اس‬
‫‪ :‬کی ک رفرم ئی دیکھئے‬

‫بز شہنش ہ میں اش ر ک دفتر کھلا رکھیو ی ر ! ی درگنجین ء‬
‫گو ہر کھلا‬

‫)غلا رسول مہر ‪ ’’:‬گوہروں کے خزانے ک دروازہ‘‘ (‬

‫ش داں ب گرامی‪ ’’ :‬ب رہ گ ہ ش ہی درہ ئے مض مین گنجین ی‬
‫)بوج فیض و عط جواہر ک ن ہے ‘‘ (‬

‫ب دش ہ کے حضور ع ودانش سے مت لوگ جمع رہتے ہیں ۔‬
‫اسی حوال سے ب دش ہ کوع و دانش ک منبع قراردی ج ت ہے ۔‬

‫ب دش ہ کی نظر عن یت کسی بھی م شی حوال سے ک ی ہی پ ٹ‬
‫سکتی ہے۔ ب دش ہ کے انص ف پر مبنی فیص ے م شرے پر‬

‫انتہ ئی مثبت اثرات مرت کرتے ہیں۔ درش ہی پرہنر وکم ل کی‬
‫پذیرائی ہوتی ہے اوری روایت تہذی انس نی ک حص رہی ہے۔‬

‫در گنجین گوہر ک کھلا رہن اس امر کی طرف اش رہ ہے ک‬
‫قدرومنزلت حضرت انس ن کو ن سی تی سطح پر اکس تی رہتی ہے‬

‫۔ گنجین گوہر ‪ ،‬درکو واضح کررہ ہے ۔ غ ل ک ایک ش ر‬
‫‪:‬دیکھئے‬

‫‪126‬‬

‫ب د یک عمر و ر ع ب ر تودیت ب رے ک ش رضواں ہی دری ر ک‬
‫درب ں ہوت‬

‫)آغ ب قر‪ ’’ :‬محبو ک گھر‘‘ (‪۷‬‬

‫)ش داں ب گرامی‪ ’’ :‬درب رحبی ‘‘ (‬

‫محبو کی چوکھٹ‬

‫ی ر حقیقی ہوک مج زی ‪ ،‬انس ن کے لئے م تبر اور محتر رہ ہے‬
‫اس تک رس ئی کے لئے ہر طرح جتن کرت رہ ہے ۔ یہ ں تک ک‬
‫ج ن تک کی ب زی لگ دیت ہے۔ انس ن نے جہ ں دوسروں کو ت بع‬

‫کرنے کی کوشش کی ہے وہ ں مطیع ہونے میں بھی اپنی مثل آپ‬
‫رہ ہے ۔ اس حوال سے اس ک سم جی و تیرہ دری فت کرنے‬
‫میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔‬

‫اردو ش عری کے لئے ی ل ظ نی نہیں۔ مخت ف م ہی اور کئی‬
‫سم جی حوالوں سے اس ک است م ل ہوت چلا آت ہے ۔ مثلاا‬

‫ذکر ہر در سے ہ کی لیکن کچھ ن بولا وہ دل کے ب میں رات‬
‫( ) ق ئ چ ندپوری‬

‫مخت ف انداز ‪ ،‬جداجداحوالوں کے س تھ‬

‫ج وے درق س سے ی بے ب ل و پرکہ ں صی د ذبح کیجوپر اس‬
‫کو ن چھوڑیو ( ) درد‬

‫‪127‬‬

‫ذری و وسی ن رکھنے والا جبر و استحص ل ک شک ر ہوت ہے‬
‫۔ زندگی کے دوسرے حوالوں سے دور ہت ہے ۔ اس کی حیثیت‬
‫کنویں کے مینڈک سے زی دہ نہیں ہوتی۔‬

‫‪:‬دی ر‬

‫عربی اس مذکر ۔ دارکی جمع اور اس کے م نی ‪ ،‬گھر ‪ ،‬خ ن ‪،‬‬
‫)م ک اور بلاد کے ہیں (‬

‫دی ر کے س تھ کسی دوسرے ل ظ کی جڑت سے اس کے م نی‬
‫‪ Status‬واضح ہوتے ہیں اور اسی حوال سے اس ک سم جی‬

‫‪ :‬س منے آت ہے ۔ مثلاا غ ل ک ی ش ر ملاحظ ہو‬

‫مجھ کودی ر غیر میں م را‪ ،‬وطن سے دور رکھ لی مرے خدانے‬
‫‪،‬مری بے کسی کی شر‬

‫‪:‬دی ر غیر‬

‫پردیس ۔ اجنبی جگ ‪ ،‬ایسی جگ جہ ں کوئی اپن شن س ن ہو۔‬

‫دیس سے محبت ‪ ،‬فطری جذب ہے۔ دی ر غیر میں اس کی حیثیت‬
‫مشین سے زی دہ نہیں ہوتی۔ وہ ں کے دکھ سکھ سے لاپرواہ‬

‫ہوگ ۔ ن ع نقص ن سے ق بی ت ن ہوگ ۔ اس کے برعکس اپنے‬
‫دیس کی ہر چیز کو ی د کرکے آنسو بہ ت ہے۔’’ غیر‘‘دی ر کی ن‬
‫صرف م نوی حیثیت واضح کررہ ہے ب ک اس کے م شرتی‬

‫کو بھی اج گر کررہ ہے ۔ ‪Status‬‬

‫‪128‬‬

‫‪:‬کوچ‬

‫ف رسی اس مذکر اور کو کی تصغیر ہے ۔ اس کے م نی گ ی ‪،‬‬
‫سکڑ راست ‪ ،‬مح ‪ ،‬ٹول ہیں ( ) کوچ ع است م ل ک ل ظ‬

‫ہے ۔ ج تک کوئی دوسرا ل ظ اس سے پیوند نہیں ہوت اپنی‬
‫پوزیشن اور شن خت سے م ذور رہت ہے ۔کسی س بقے لاحقے‬
‫کے جڑنے کے ب د اس کی م شرتی حیثیت ک ت ین ممکن ہوت‬

‫‪ :‬ہے۔ مثلاا اٍ غ ل ی ک ش ر دیکھئے‬

‫علاوہ عید کے م تی ہے اوردن بھی شرا گدائے کوچ میخ ن‬
‫ن مراد نہیں‬

‫جس مح ے میں میخ ن ہے وہ ں اور بھی گھر ہوں گے اور‬
‫گھروں کے سب ی کوچ کہلای ۔ جبک میخ نے ک وج سے ی‬

‫کوچ م روف ہوا ۔ اور گھروں کی پہچ ن ‪،‬میخ ن ہے ۔ اور‬
‫گھروں کی وج سے ی کوچ کہلای ۔ اس کوچے میں دیگر‬
‫امرج سے مت میخوار آتے ہیں۔ لامح ل اپنے علاقوں کی‬
‫روای ت اور زب نیں لے کرآتے ہیں۔ میخ نے کی اپنی روای ت ہوتی‬
‫ہیں۔ ان تینوں امور کے حوال سے میخ نے سے مت کوچے‬
‫کی روای ت ‪ ،‬رویے‪ ،‬اطوار‪ ،‬رس ورواج ‪ ،‬لس نی سیٹ اپ اپن‬
‫ہوت ہے ۔ مج زاا ’’ کوچ میخ ن ‘‘ کوپیر خ ن ‪ ،‬ع ل دین ی کسی‬
‫مجتہد ک ٹھک ن بھی کہ سکتے ہیں۔ ان تینوں امورکے حوال‬

‫سے اطوار اور لس نی س یقے مخت ف ترکی پ ئیں گے۔‬

‫‪129‬‬

‫کوچ اردو غزل میں ع است م ل ک ل ظ ہے ۔ چندا نے ع‬
‫مح ے ک ذکر کی ہے لیکن اس مح ے کو ی اعزاز ح صل ہے ک‬

‫‪ :‬وہ ں سے ’’م ہ‘ ‘ ک گزر ہوا ہے‬

‫اے ی ر بے خبر تجھے ا تک خبر نہیں ک ک گزار ہوگی‬
‫کوچے میں م ہ ک ( ) چندا‬

‫غلا حسین بیدل نے کوچ کے س تھ ’’ج ن ں‘‘ لاحق جوڑ کر‬
‫‪ :‬توج ک مرکز ٹھہرای ہے‬

‫پ ؤں رکت ہے کوئی کوچ ج ن ں سے مرا دل کے ہ تھوں ن گی‬
‫آج تو کل ج ؤں گ ( ) بیدل‬

‫‪:‬گ ی‬

‫مح ے کوچے کی کوئی گزر گ ہ جس کے دونوں طر ف مک ن ت‬
‫ت میر ہیں ی ک از ک ایک طرف مک ن موجود ہیں۔ مح وں‬

‫کوچوں میں سینکڑوں گ ی ں ہوتی ہیں ۔ ان گ یوں کی وج سے‬
‫مح ‪ ،‬مح کہلات ہے۔ گ ی وہی م روف ہوگی جس کے س تھ‬

‫کوئی حوال منسو ہوگ ۔ ی حوال اس گ ی کی وج شن خت ہوگ ۔‬
‫غ ل کے ہ ں است م ل میں آنے والی گ ی ایسے شخص کی وج‬
‫سے م روف ہے جو ’’ خداپرست ‘‘ نہیں‬

‫ہ ں وہ نہیں خدا پرست ‪ ،‬ج ؤ وہ بے وف سہی جس کو ہو دین و‬
‫دل عزیز ‪ ،‬اس کی گ ی میں ج ئے کیوں‬

‫‪130‬‬

‫جہ ں خدااور وف سے لات رہت ہو لیکن ہوپٹ خ ‪ ،‬وہ ں ن ج نے‬
‫کے لئے سمجھ ن ے ک ر اوربے م نی ٹھہرت ہے۔ ش ر میں گ ی‬
‫کو’’ اس کی ‘‘ نے وج ء شہرت اور وج ء تخصیص بن دی ہے‬

‫ورن ل ظ گ ی اپنے اندر کوئی ج زبیت نہیں رکھت اور ن ہی‬
‫م وم ت میں اض فے ک سب بنت ہے ۔ مح وں میں بے شم ر‬
‫گ ی ں ہوتی ہیں۔ کسی ک پت دری فت کرنے کے لئے بت ن پڑت ہے‬
‫ک کون سے گ ی۔ مثلاکوٹ اسلا پورہ‪ ،‬گ ی سیداں ‪ ،‬قصور ی نی‬

‫شہر قصور کے مح اسلا پورہ کی گ ی سیداں والی‘‘۔‬

‫اردوغزل میں مخت ف حوالوں سے ’’گ ی‘‘ ک است م ل ہوت آی‬
‫ہے ۔ مثلاا‬

‫جنت میں مجھ کو اس کی گ ی میں سے لے گئے کی ج نیے ک‬
‫مجھ سے ہوا آہ کی گن ہ ( ) احس ن‬

‫جنت میں ی کسی جنت نظیر گ ی میں بھی کوئی دل آزار اور‬
‫ن پسندیدہ شخصیت ک قی ہے جو اس گ ی سے گزرن‬

‫ن گوارگزرت ہے ۔ زندگی ک چ ن دیکھئے خوبی کے س تھ خرابی‬
‫ہمرک رہتی ہے۔‬

‫‪ :‬اسی قم ش ک ایک اور ش ر ملاحظ کیجئے‬

‫اس کی گ ی میں آن کے کی کی اٹھ نے رنج خ ک ش م ی تو میں‬
‫بیم ر ہوگی ( ) ص بر‬








































Click to View FlipBook Version