The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by پنجاب اکھر, 2017-06-28 06:55:13

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

‫‪197‬‬

‫)کر بھی خریدار ہوگی (‬

‫آنکھوں کو ی شرف ح صل ہے ک وہ محبو کی راہ دیکھتی‬
‫ہیں ۔ محبو کی آمد سے ‪ ،‬جس کے ہر اعض سے پہ ے آگ ہی‬

‫پ تی ہیں ۔ہجر کی صور ت میں پورے جس کی نم ئندگی کرتی‬
‫‪:‬ہیں ۔ میر محمود ص بر کی زب نی ملاحظ فرم ئیں‬

‫رہیں کل رات کی ا تک جو تجھ رہ میں کھ ی اکھی ں انجھوں‬
‫)کے جوش سوں گنگ ہو جمن بہ چ ی اکھی ں(‪۷‬‬

‫جہ ں ی فرارکی راہ اختی ر کرتی ہیں وہ ں غ ط اور گنہگ ر ہونے‬
‫‪ :‬ک ثبوت بھی بن ج تی ہیں ۔حمیدہ ب ئی نق کہتی ہیں‬

‫وہ کی من دکھ ئیں گے محشر میں مجھ کو جو آنکھیں ابھی‬
‫)سے چرائے ہوئے ہیں(‬

‫کسی م م ے ی واقع ک اثر س سے پہ ے آنکھوں پر ہوت ہے۔‬
‫‪:‬اس ضمن میں غ ل ک کہن ہے‬

‫بج ی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کی ب ت کرتے ک میں‬
‫ل تشن ء تقریر بھی تھ‬

‫‪:‬زندگی کے خ تمے ک اعلان ‪ ،‬آنکھیں کرتی ہیں۔ کہتے ہیں‬

‫مندگئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غ ل‬

‫!ی ر لائے مری ب لیں پ اسے‪ ،‬پر کسی وقت؟‬

‫‪198‬‬

‫جوبھی سہی ’’آنکھیں ‘‘ اپنی ضرورت اور اہمیت کے حوال‬
‫سے مخت ف انداز میں توج ک ب عث بنتی ہیں۔‬

‫‪ :‬اسیر‬

‫ل ظ اسیر گھٹن ‪ ،‬پ بندی ‪ ،‬بے چینی اور بے بسی کے دروازے‬
‫کھولت ہے ۔ اس کے ہر است م ل میں پ بندی اور گھٹن کے‬
‫عن صر یکس ں طور پرم تے ہیں ۔ اردو غزل میں بھی یہی‬

‫حوالے س منے آئے ہیں ۔ میر ص ح ’’جہ ن‘‘ کو تنگ قیدخ ن‬
‫اور انس ن کواس قید خ نے ک اسیر قرار دیتے ہیں ۔ اس حوال‬
‫سے انہوں نے زندگی کی گھٹن ‪ ،‬بے چینی ‪ ،‬پ بندی اور لاچ ری‬
‫‪:‬کو واضح کی ہے اور انس ن جیتے جی ایک ہیج ن میں مبتلاہے‬

‫) مرگی جو اسیر قیدحی ت تنگ ن ئے جہ ن سے نکلا(‬

‫ق ئ چ ندپوری کے نزدیک عشرت ک نتیج اس م حول کی‬
‫‪:‬اسیری کے سوا کچھ نہیں‬

‫ی رنگ ط ئربو‪ ،‬ہ اسیر ‪ ،‬اے صی د وہ ہیں ک جن ک گ وں‬
‫)بیچ آشی ن تھ (‬

‫اسیری زلف گرہ گیری ہی کی کیوں ن ہو آدمی دوسرے مش غل‬
‫سے کٹ ج ت ہے ۔ زلف کی اسیری کچھ اور سوچنے نہیں دیتی‬

‫‪:‬۔اس ضمن میں غلا ع ی حیدر ی ک کہن ہے‬

‫ی دلی اسیر زلف گرہ گیرہی رہ مجنوں ہم را بست زنجیر ہی‬

‫‪199‬‬

‫)رہ (‬

‫مرز الطیف ع ی بیگ سپند غ کی گرفت میں آنے والے کو بھی‬
‫’’اسیر ‘‘ ہی ک ن دیتے ہیں۔ اسیری سے چ ر عن صر وابست‬
‫ہیں ۔‬

‫۔ پ بندی‬

‫۔ دیگر فی ڈز کے دروازے بندہوج تے ہیں‬

‫۔ ایک م م ے کے سوا کچھ نہیں سوجھت‬

‫۔ بے چینی اور اضطرار کی کی یت ط ری ہوج تی ہے‬

‫غ پر ی چ ر وں عن صر پورے اترتے ہیں۔ گوی غ بھی اسیری‬
‫‪:‬کے مترادف چیز ہے۔ سپند ک ش ر ملاحظ ہو‬

‫ہے اسیر غ کہ ں اور کوچ ء ق تل کہ ں ی م و نہیں دلی‬
‫)ج کر ہوا گھ ئل کہ ں (‬

‫اسیری بلاشب بڑی خوفن ک بلا ہے۔ ی ن صرف محدود کرتی‬
‫ہے ب ک غلامی مس ط کر دیتی ہے۔ شخصیت کے لئے گھن بن‬
‫ج تی ہے۔ شخصیت ک تنزل ی جمود ‪ ،‬فکری حوالوں کو کمزور‬
‫کر دیت ہے۔ فکری م ذوری ترقی اور انس نی اقدار کی موت بن‬

‫ج تی ہے۔ اسیری ‪،‬راہزن کے ’’ پ نوء دابنے ‘‘ پر مجبور کر‬
‫‪:‬دیتی ہے۔ غ ل ک کہن ہے‬

‫‪200‬‬

‫بھ گے تھے ہ بہت سواسی کی سزا ہے ی ہوکر اسیر دابتے ہیں‬
‫راہزن کے پ نوء‬

‫‪:‬انس ن‬

‫آد کی نسل سے مت ہر آدمی کوانس ن کہ ج ت ہے ۔انس ن اور‬
‫آدمی میں بنی دی فر ی ک آدمی ک شریف الن س ہون ‪ ،‬مرتب ء‬

‫کم ل انس نیت پر پہنچ ت ہے اور اسی حوال سے وہ ’’انس ن‬
‫‘‘کہلانے ک مستح ٹھہرت ہے ۔ انس ن ‪ ،‬نسی ن ی انس سے‬
‫مشت ہے جبک ی دونوں م دے اس کے خمیر میں پ ئے ج تے‬
‫ہیں۔ ج وہ انس ک نمون بن کرس منے آت ہے توا سے انس ن کے‬
‫ن سے پک ر اج ت ہے۔ بصور ت دیگر اسے آدمی کہن ہی من س‬
‫ہوت ہے۔ انس ن کے مرتبے پر ف ئز ہون بلا شب بڑاکٹھن گزار‬
‫ہوت ہے۔ اردو غزل کے ش را کے ہ ں ل ظ ’’انس ن ‘‘ بکثرت اور‬

‫‪:‬بہت سے حوالوں کے س تھ است م ل میں آی ہے‬

‫می ں محمدی م ئل نے ’’انس ن‘‘ کے ف نی ہونے کے حوال سے‬
‫کہ ہے ک انس ن کی زندگی کی م ی دہی کہ ہے ۔ د آی آی ن آی ن‬

‫‪:‬آی‬

‫کچھ ت ج نہیں گر مرگی م ئل تیر ا ب ر کی لگت ہے انس ن کے‬
‫)مرج نے کو (‬

‫‪:‬امجد کے نزدیک خدا کی ذات انس ن میں م تی ہے‬


Click to View FlipBook Version