مقصود حسنی کی ادبی خدمات
ایک مختصر جائزہ
مرتبہ:
پروفیسر نیامت علی مرتضائی
مقصود حسنی
بوزر برقی کتب خانہ
فروری ٢٠١٧
فہرست
بلھے شاہ کا مور۔۔۔۔۔۔۔ ایک ادبی تعارف ١-
میرے استاد میرے دوست میرے بزرگ ٢-
حسنی اور برصغیر کا مضافاتی اور مغربی ادب ٣-
مقصود حسنی کے تنقیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی مطالعہ ٤-
ایک اجمالی جائزہ ‘مقصود حسنی کی مزاح نگاری ٥-
مقصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ ٦-
اردو انجمن اور مقصود حسنی کی افسانہ نگاری ٧-
حضرت بلھے شاہ قصوری کی اردو شاعری ٨-
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ماہر لسانیات ٩-
مقصود حسنی اور اردو زبان ١٠-
مقصود حسنی اور اقبال فہمی ١١-
مقصود حسنی اور سائنسی ادب ١٢-
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ایک اسلامی مفکر اور اسکالر ١٣-
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم ١٤-
فرہنگ غالب ایک نادر مخطوطہ ١٥-
بلھے شاہ کا مور۔۔۔۔۔۔۔ تعلیمی و ادبی کوائف
مرتبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبوب عالم
پروفیسر مقصود حسنی اردو ادب کا وہ دمکتا آفتاب ہے جس کی
ضیا پاشیاں حدود میں نہیں آ سکتیں۔ ان کی ادبی کرنوں کی
تحسین نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ ہر صنف ادب کا یہ سیاح اپنے
سفر نامے کی ہر چھوٹی بڑی کہانی لکھتا چلا آ رہا ہے۔ یہ ان
کی بلاجواز مداح سرائی نہیں بلکہ روز روشن کی طرح عیاں
حقیقت بیان کرنے کی ادنی سی کوشش ہے۔ ادب کا شاید ہی
کوئی گوشہ ہو گا جہاں انھوں نے طبع آزمائی نہ کی ہو گی۔
انہوں نے تو کینسر اور ڈینگی جیسے امراض پر بھی تحقیقی
کام کیا ہے۔ اس سلسلے میں اردو نیٹ جاپان اور سکربڈ ڈاٹ کام
پر ان کا مواد موجود ہے۔ وہ ایسے آل راؤنڈر کی حیثیت اختیار
کر گیے ہیں جو کسی بھی صنف کے ماتھے کا جھومر ہو
سکتے ہیں۔ ان کی زندگی کے سالوں کو دنوں میں تبدیل کر دیا
جائے تو کوئی دن بلا ادبی خدمت نہیں نکلے گا۔ گویا وہ ہمہ
وقت اور ہمہ جہت ادبی شخصیت ہیں۔
پروفیسر مقصود حسنی کی ادبی خدمات پر ملکی و غیر ملکی
مداحوں نے انہیں متعدد ادبی خطابات سے نوازا ہے۔ اس تحریر
کا عنوان بھی بین الااقومی شہرت کے مالک پروفیسر ڈاکٹر تبسم
کاشمیری کے عطا کیے گیے خطاب سے لیا گیا ہے۔ پیش نظر
سطور میں ان کا مختصر مختصر ادبی تعارف پیش کیا گیا ہے۔
احباب کو میری ادنی سی کوشش ضرور پسند آئے گی۔
بنیادی کوائف
نام :مقصود صفدر علی
معروف :مقصود حسنی
ولدیت :سید غلام حضور
گھر کا پتا:
شیر ربانی کالونی
قصور‘ پاکستان
:ای پوسٹ
[email protected]
تعلیم
ایم اے :ارو‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ تاریخ
ایم فل‘ اردو
ڈاکٹریٹ‘ لسانیات
پوسٹ ڈاکٹریٹ‘ لسانیات
تجربہ
تدریس اردو ادب ٣٠سال
تخلیق ادب ٤٥ :سال
تحقیق ادب ٣٤ :سال
انتظامی ٠٥ :سال
خدمات
برانچ سپرنٹنڈنٹ ایم آئی ٹی برانچ‘ زون اے‘ پنجاب
ممبر بورڑ آف سٹیڈی پنجاب یونیورسٹی لاہور
پنجاب یونیورسٹی ‘تجزیہ نگار خاکہ پی ایچ ڈی
وائس پرنسپل
ریٹائرڈ :ایسوسی ایٹ پروفیسراردو زبان و ادب
ادارہ فراغت ملازمت :گورنمنٹ اسلامیہ کالج‘ قصور
ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ‘ حکومت پنجاب‘ پاکستان
ادبی خدمات
مطبوعہ کتب
سپنے اگلے پہر کے ہائیکو ١-
نظمیں ٢- اوٹ سے
سورج کو روک لو نظمیں ٣-
کاجل ابھی پھیلا نہیں نظمیں ٤-
مزاح ٥- بیگمی تجربہ
آنچل جلتا رہے گا افسانے ٦-
افسانے ٧- زرد کاجل
افسانے ٨- وہ اکیلی تھی
جس ہاتھ میں لاٹھی افسانے ٩-
شعریات شرق و غرب تحقیق تنقید ١٠-
تحریکات اردو تحقیق ١١-
اصول اورجائزے اصول تحقیق ١٢-
اردو شعر فکری و لسانی جائزے تحقیق ١٣-
شعریات خیام تحقیق تنقید ترجمہ ١٤-
ستارے بنتی آنکھیں ترک نظموں کے تراجم ١٥-
تحقیق ١٦- لسانیات غالب
لفظیات غالب کا لسانی وساختیاتی جائزہ تحقیق ١٧-
تحقیق ١٨- عہد غالب
خوشبو کے امین خطوط ١٩-
منیر کے افسانے تنقدی جائزہ تنید ٢٠-
جرمن شاعری کے فکری جائزے تنید ٢١-
تنید ٢٢- اردو میں نئی نظم
تنید ٢٣- تخلیقیو تنقیدی زاویے
سیکڑوں مضامین مختلف ادبی رسائل و جرائد میں شائع
ہوئے۔
سیکڑوں مضامین اور کئی کتب انٹرنیٹ پر موجود ہیں‘
جنھیں کسی بھی ریسرج انجن کے حوالہ سے
ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
ایوارڈز
ستارہ صد سالہ جشن ولادت قائد اعظم‘ حکومت پاکتان
بیدل حیدری ایوارڑ‘ کاروان ادب ملتان
مسٹر اردو‘ فورم پاکستان
بابائے گوشہءمصنفین‘ فرینڈز کارنر
میدان جن میں کام دستیاب ہوتا ہے
اردو ادب
لسانیات
تحقیق
تنقید
افسانہ
مزاح
شاعری
سماجیات
غالبیات
اقبالیات
ترجمہ
تاریخ
تعلیم
صحافت
میڈیکل
سائنسز
معاشیات
تخلیق و تخلیق پر ہونے والے تحقیقی کام کی تفصیل
انگریزی شاعری پر ایم فل سطع کا ‘پرفیسر نیامت علی
تحقیقی کام کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر ارشد شاہد‘ پنجابی شاعری پر‘ ایم فل سطع کا تحقیقی
کام کر چکے ہیں
اسلم طاہر‘ ‘مقصود حسنی -شخصیت اور ادبی خدمات‘ کے
عنوان سے‘ ایم فل سطع کا تحقیق مقالہ تحریر کرکے‘
ملتان سے ڈگری حاصل کر ‘بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی
چکے ہیں۔
پروفیسر محمد لطیف‘ ‘مقصود حسنی کی غالب شناسی-
تحقیقی و تنقیدی و مطالعہ‘ موضوع پر ایم فل سطع کا
اسلام آباد سےتحقیقی کام کر ‘علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی
رہے ہیں۔
رانا جنید‘ ایف سی کالج سے‘ ان کے افسانوں پر‘ بی اے
آنرز سطع کا‘ تحقیقی کام کرنے میں مصروف ہیں۔
ڈاکٹر ریاض شاہد نے‘ اپنے پی ایچ ڈی سطع کے تحقیقی
مقالے میں‘ کتاب ‘ اردو شعر -فکری و لسانی زاویے‘ کو
بطور بنیادی ماخذ استعمال کیا۔
پر ہونے والے ایم فل سطع کے کام ‘علامہ بیدل حیدری
میں‘ بنیادی حوالہ سے تذکرہ کیا گیا ہے۔
محبوب عام‘ زیب النسا اور زبیدہ بیگم کے ایم فل سطع کے
مقالہ جات میں‘ غالب حصہ موجود ہے۔
پی ایچ ڈی اور ایم فل سطح کی اسائنمنٹس بھی ہوتی رہی
ہیں۔
مختلف سطع کی ڈگری کے تحقیقی کام میں‘ تحقیق کاروں
کے کام میں تعاون کر چکے ہیں‘ جس کا اظہار‘ وہ اپنے
تحیقیقی مقالوں میں کر چکے ہیں۔ دستیاب تفصیل کچھ یوں
ہے۔
سید اختر عباس
مقالہ ایم ایڈ میں تعاون کیا
ڈاکٹر ارشد شاہد
مقالہ پی ایچ ڈی میں تعاون کیا
پروفیسر شرافت علی
مقالہ ایم فل میں تعاون کیا
پروفیسر طلعت رشید
مقالہ ایم فل میں تعاون کیا
ڈاکٹر عطاءالرحمن
مقالہ ایم فل میں تعاون کیا
پروفیسر یونس حسن
مقالہ ایم فل میں تعاون کیا
١٩٩٣میں‘ ‘مقصود حسنی کی ‘ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے
شاعری کا تنقیدی جائزہ‘ کے عنوان سے‘ کتاب تحریر کی۔
ڈاکٹر ریاض انجم نے‘ ‘مسٹر اردو -اسرا زیست اور ادبی
خدمات‘ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا‘ جو روزنامہ
معاشرت‘ لاہور میں‘ پچاس قسطوں میں شائع ہوا۔
عالمی رنگ ادب نے‘ پورے مجموعے سپنے اگلے پہر
کے‘ کو ٢٠١٣میں شائع کیا۔
٣٠سے زیادہ تحقیقی مقالے ‘پروفیسر یونس حسن نے
تحریر کئے‘ جو مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے
ہیں۔
پروفیسر محمد رفیق ساگر نے‘ تیس کے قریب مضامین
تحریر کئے‘ جو ابھی غیر مطبوعہ ہیں۔
پی ایچ ڈی اور ایم فل سطح کی اسائنمنٹس بھی ہوتی رہی
ہیں۔
درج ذیل اہل قلم نے مضامین لکھے یا اپنی آراء دیں۔
ڈاکٹر ابو سعید نور الدین‘ ڈاکٹر اختر شمار‘ ڈاکٹر اسلم ثاقب‘
ڈاکٹر انور سدید ڈاکٹر انعام الحق جاوید‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر اسعد گیلانی
ڈاکٹر اختر سندھو‘ ‘انعام الحق کوثر‘ ڈاکٹر اختر علی میرٹھی
پروفیسر امجد علی شاکر‘ پروفیسر ‘پروفیسر اکرام ہوشیارپوری
اقبال سحر ‘اطہر ناسک‘ پروفیسر انور جمال‘ اکبر حمیدی
یاد‘ اعظم ‘اکبر کاظمی ‘ادیب سہیل‘ انیس شاہ جیلانی ‘انبالوی
بہرام طارق‘ ڈا ‘اسماعیل اعجاز‘ اشرف پال‘ ڈاکٹر بیدل حیدری
‘ثناءالحق حقی ‘تنویر بخاری ‘تاج پیامی ‘کٹر تبسم کاشمیری
جمشید مسرور‘پروفیسر حسین سحر‘ حسن ‘ڈاکٹر جمیل جالبی
ڈاکٹر خواجہ حمید ‘پروفیسر حفیظ صدیقی ‘عسکری کاظمی
ڈاکٹر ذوالفقار دانش‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی ‘یزدانی
ذوالفقار علی رانا‘ پروفیسر رب نواز مائل‘ رانا سلطان محمود‘
ڈاکٹر سعادت سعید‘ سرور عالم راز‘ میاں سعید بدر‘ سید اختر
ڈاکٹر صادق جنجوعہ‘ ‘ڈاکٹر صابر آفاقی ‘شاہد حنائی ‘علی
ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر ظہور احمد چوہدری
عطاالرحمن‘ ڈاکٹر عبدالعزیز سحر‘ عباس تابش‘ عبدالقوی
علی دیپک قزلباس‘ علی اکبر ‘پروفیسر عقیل حیدری ‘دسنوی
فہیم ‘ڈاکٹر غلام شبیر رانا‘ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ‘گیلانی
پروفیسر کلیم ضیا‘ ‘قیصر تمکین‘ ڈاکٹر قاسم دہلوی ‘اعظمی
ڈاکٹر مظفرعباس‘ ڈاکٹر ‘کوکب مظہر خاں‘ ڈاکٹر گوہر نوشاہی
ڈاکٹر سید معین الرحمن‘ ڈاکثر ‘محمد امین‘ ڈاکٹر مبارک علی
منیر الدین احمد‘ ڈاکٹر محمد ریاض انجم‘ پروفیسر محمد رضا
محمود ‘مسرور احمد زائی ‘مشفق خواجہ‘ مشیر کاظمی ‘مدنی
ڈاکٹر نجیب ‘مسعود اعجاز بخاری ‘مہر کاچیلوی ‘احمد مودی
ناصر ‘ڈاکٹر نوریہ بلیک‘ نیر زیدی ‘جمال‘ ڈاکٹر نثار قریشی
‘ڈاکٹر وقار احمد رضوی ‘ندیم شعیب‘ ڈاکٹر وفا راشدی ‘زیدی
پروفیسر یونس حسن‘ ‘ولایت حسین حیدری ‘وصی مظہر ندوی
وغیرہ وغیرہ
سے کلام دستیاب ہوتا ہے۔ شاعری پر بہت سے لوگوں نے
اظہار خیال کیا۔ جند ایک کے نام درج ہیں۔ ١٩٦٥
ڈااکٹر آغا سہیل
آفتاب احمد
ڈاکٹر ابو سعید نور الدین
احمد ریاض نسیم
ڈاکٹر اسلم ثاقب
اسلم طاہر
ڈاکٹر احمد رفیع ندیم
احمد ندیم قاسمی
ڈاکٹر اختر شمار
ڈاکٹر اسعد گیلانی
اسماعیل اعجاز
اشرف پال
اطہر ناسک
اکبر کاظمی
پروفیسر اکرام ہوشیار پوری
ایاز قیصر
ڈاکٹر بیدل حیدری
پروفیسر تاج پیامی
تنویر عباسی
جمشید مسرور
ڈاکٹر ریاض انجم
سرور عالم راز
خواجہ غضنفر ندیم
ڈاکٹر فرمان فتح پوری
ڈاکٹر صابر آفاقی
ڈاکٹر صادق جنجوعہ
صفدر حسین برق
ضیغم رضوی
طفیل ابن گل
ڈاکٹر ظہور احمد چودھری
عباس تابش
ڈاکٹر عبدالله قاضی
علی اکبر گیلانی
پروفیسر علی حسن چوہان
ڈاکٹر عطالرحمن
فیصل فارانی
ڈاکٹر گوہر نوشاہی
ڈاکٹر مبارک احمد
محبوب عالم
مشیر کاظمی
ڈاکٹر محمد امین
پرفیسر محمد رضا مدنی
مہر افروز کاٹھیاواڑی
مہر کاچیلوی
ڈاکٹر منیرالدین احمد
پروفیسر نیامت علی
ندیم شعیب
ڈاکٹر وزیر آغا
ڈاکٹر وفا راشدی
ڈاکٹر وقار احمد رضوی
وی بی جی
یوسف عالمگیرین
پروفیسر یونس حسن
اردو شاعری سے تراجم کرنے والے محترم حضرات
انگریزی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلدیو مرزا
پنجابی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروفیسر امجد علی شاکر‘ نصرالله صابر
گرمکھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اسلم ثاقب
پشتو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علی دیپک قزلباش
سندھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہر کاچیلوی
شاعری ڈازائین کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمنہ رانی
رباعیات خیام کے سہ مصرعی ترجمے کو بڑی پذیرائی حاصل
ہوئی نامور اہل قلم نے اپنی رائے کا اظہار کیا-
مثلا
ڈاکٹر عبدالقوی ضیا کینیڈا
ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی
ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘ ڈھاکہ‘ بنگلہ دیش
ڈاکٹراسلم ثاقب‘ مالیر کوٹلہ‘ بھارت
ڈاکٹر اختر علی
ڈاکٹر وفا راشدی
ڈاکٹر صابر آفاقی
ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمنی
انڈیا ‘پروفیسر کلیم ضیا‘ بمبئی
پرفیسر رب نواز مائل
پروفیسراکرام ہوشیار پوری
پروفیسرامجد علی شاکر
پروفیسر حسین سحر
ڈاکٹر عطاالرحمن
ڈاکٹر رشید امجد
ڈاکٹر محمد امین
علی دیپک قزلباش
سید نذیر حسین فاضل
حرفی خطابات
آل عمران
بہت زبردست آدمی
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری
اہل نظر
ڈاکٹر اختر شمار
ممتاز لکھاری
اسماعیل اعجاز
علم و ادب کا بہتا دریا
ڈاکٹر انور سدید
اردو کے مایہءناز ادیب
انیس شاہ جیلانی
کمال بزرگ
ڈاکٹر ایلن جان
ہائی لی موٹی وئیٹڈ
ایم ارشد خالد
بڑے کام کا آدمی
پرفیسر اکرام ہوشیارپوری
بیدار مغز ادیب وشاعر
میاں بدر انجم
بڑا لکھاری
ثقلین احمد
عطر فروش
ڈاکٹر تبسم کاشمیری
گودڑی کا لعل‘ بلھے کا مور
جی کے تاج
نرم دل انسان
ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
تحقیق پسند 'ہمہ جہت ادیب
ڈاکٹر ذوالفقار دانش
ہمہ جہت شخصیت
رانا سلطان محمود
عظیم قومی سرمایہ
پروفیسر رمضانہ برکت
چلتا پھرتا انسکلوپیڈیا
ریسا کیسٹل
مین وڈ ویزڈم
رینجنا ڈس
سویث پرسن
سرور عالم راز
بڑے نثر نگار ،عظیم نقاد ،اچھے شاعر ،باکمال انشائیہ
نویس
بہت بڑے انسان
ڈاکٹر سعادت سعید
استادالاساتذہ
اردو کی ترویج و ترقی میں ڈاکٹر سید عبدالله کے بعد کا
شخص
شاہ سوار علی ناصر
گامو سوچیار
سوی عباس
گریٹ مین
ڈاکٹر صفدر حسین برق
شعر کی دنیا میں
ایک شخص
پیغمبر نکلا
ڈاکٹر صابر آفاقی
معروف محققوں میں‘ سرفہرست
ضیغم رضوی
روایت شکن
ڈاکٹر عبداالقوی ضیا علیگ
شخصیت میں مقصدیت اور معروضیت
ڈاکٹر عطاالرحن
نامور محقق
پروفیسر علی حسن چوہان
اپنی ذات میں ایک انجمن
ڈاکٹر غلام شبر رانا
عظیم داشور‘ ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹی
ڈاکٹر کرنل غلام فرید بھٹی
باصلاحیت ساتھی
غلام مصطفے بسمل
بلند پایہ حقائق نگار
کالمنگ میلوڈی
فراخ طبیعت اور مزاج‘ فراخ دل
کرشنا دیو
ہمیشہ الگ سے سوچنے والا
ڈاکٹر گوہر نوشاہی
باشعور تخلیق کار
ڈاکٹر محمد امین
خلاق ذہن‘ فعال شخصیت‘ جدت پسند
پروفیسر محمد رضا مدنی
بگ گن
مشیر شمی
شگفتہ قلم
ڈاکٹر مظفر عباس
ہمہ جہت شخصیت‘ ہمہ جہت تخلیق کار
مثل سر سید
معراج جامی سید
فعال اور متحرک شخصیت
ڈاکٹر معین الرحمن‘ سید
معنی یاب اور محنتی متن شناس
ڈاکٹر مقصود الہی شیخ
بڑے ملاپڑے
نابغہءروزگارشخصیت
پروفیسر منور غنی
درویش صفت
ناصر زیدی
قابل ذکر شخصیت‘ ہمہ جہت اہل قلم
ڈاکٹر نجیب جمال
آزمودہ کار محقق و نقاد ' نایاب شخص
ڈاکٹر نوریہ بلیک
شفیق اور مہربان انسان
پروفیسر نیامت علی
لوجک اور ریسرچ سے روایت شکنی کرنے والا
واہیو سورنو
ویری گڈ لیڈر
ڈاکٹر وقار احمد رضوی
ادیب شہیر
ڈاکٹر وفا راشدی
محنتی حرف کار‘ دائروں سے باہر کا شخص
پروفیسر یاسمین تبسم
عدیم المثال شخصیت
میرے استاد میرے دوست میرے بزرگ
مقصود حسنی
مجھ سے پوچھا گیا‘ کہ آپ نے زندگی میں‘ کن کن اساتذہ سے
علمی استفادہ کیا ہے۔
وقت‘ حالات‘ حاجات اور حضرت بےغم صاحب سے بڑھ کر‘
آدمی کس سے سیکھ سکتا ہے۔
اس سے تشفی نہ ہوئی۔ شاید ہر چہار کی ‘سوال کرنے والے کی
استادی کو‘ وہ ناقص سمجھتے ہوں گے۔ حضرت بےغم صاحب
تو میری زندگی میں ١٩٧٢میں آئیں‘ اور پھر مسلسل اور
متواتر آتی ہی چلی گیئں۔ ان کے مزید آنے کے امکان کو رد نہ
کیا جائے۔ ان سے پہلے بھی تو لکھتا پڑھتا تھا۔ اپنی رائے کا
اظہار کرتا تھا۔ اس لیے لامحالہ ١٩٧٢سے پہلے بھی تو میری
زندگی میں استاد آئے ہوں گے۔
والد صاحب مرحوم جو میرے پیر ‘یہ کوئی ١٩٥٨کی بات ہو گی
و مرشد بھی تھے‘ سکول چلے آئے اور ماسٹر صاحب سے
میری تعلیمی حالت پوچھی۔
دراز قامت کے ماسٹر صاحب نے‘ بلامروت جواب میں ارشاد
فرمایا :خلیفہ ہے۔
کہنے کو تو وہ یہ کہہ گیے‘ لیکن میری حالت مت پوچھیے۔ قبلہ
گاہ تو چپ چاپ چلے گیے۔ جواب میں کیا کہتے۔ میرا خیال تھا‘
کہ آج خیر نہیں۔ خوب مرمت کریں گے۔ شام کو‘ جب وہ گھر
تشریف لائے‘ میرا خون خشک ہو گیا۔ معاملے کا نتیجہ میرے
اندازے سے قطعی برعکس نکلا۔ مجھے پاس بٹھایا‘ پیار کیا۔
جیب سے ٹانگر نکال کر‘ کھانے کو دیے۔ صبح کی بات‘ مجھے
جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس دن کے بعد‘ میرے ساتھ ‘نہ جتائی
خصوصی شفقت فرمانے لگے۔ مجھے اپنے ساتھ ساتھ رکھتے۔
بیٹھک میں کوئی آ جاتا‘ تو پاس بٹھا لیتے۔ باتیں کرتے‘ گلستان
یا ‘سے کہاوتیں سناتے۔ میں ان کے ساتھ سونے لگا۔ پڑھنے
کتابیں لے کر آنے کو‘ کبھی نہ کہا۔ بڑوں کی محفل میں بیٹھنا‘
مجھے اچھا لگتا۔ پہلے سنتا تھا۔ پھر میرے قبلہ گاہ نے‘ سوال
کرنے کی عادت ڈالی۔ جہاں الجھتا‘ سوال کرتا۔ میں اپنے قبلہ گاہ
کے ساتھ رہتے ہوئے‘ بڑوں کی صحبت سے لطف اندوز ہوتا۔
بڑے مجھ سے سوال بھی کرتے‘ میں ان کے سوال کا اعتماد
سے جواب دیتا۔ جواب غلط ہوتا یا صحیح‘ کچھ یاد نہیں۔ انہوں
نے منع کیا تھا‘ کہ کسی بھی آنے والے سے‘ اس کے اصرار
کے باوجود‘ کچھ لینا نہیں۔ ہاں مجھ سے مانگنے میں‘ تکلف نہ
کرنا۔ مزے کی بات‘ وہ میری ہر ضرورت کو بھانپ لیتے‘ اور
مجھے مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
گھر کے حالات بہتر نہ تھے‘ میٹرک کا امتحان دینے کے فورا
بعد‘ انہوں نے مجھے لائل پور موجودہ فیصل آباد میں‘ اپنے
ایک دوست کے توسط سے‘ اقبال ٹرانسپورٹ میں ملازمت دلوا
دی۔ وہاں محمد حسن بخاری بھی ملازم تھے۔ موصوف‘ ساٹھ
سال کی عمر سے زیادہ تھے۔ بڑے شفیق اور مہربان تھے۔
مجھے لکھنے‘ پڑھنے اور دریافت کرنے کی عادت تھی۔ وہ
میری حوصلہ افزائی فرماتے۔ انہوں نے میری تحریروں پر لکھا
جو آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ کتابت شدہ مسودہ بھی ‘بھی
کہیں ناکہیں پڑا ہو گا۔ پرچم نام کا ایک مقامی رسالہ شائع ہوتا
تھا۔ میں اس رسالے کا نمائندہ بن گیا۔ بعد ازاں‘ اقبال ٹرانسپورٹ
سے ملازمت چھوز کر‘ چناب ٹرانسپورٹ میں آ گیا۔ یہاں بھی
میرا پالا ساٹھ سال کی عمر سے زائد شخص کے ساتھ پڑا۔ ان
کے ساتھ کچھ زیادہ وقت نہ رہا‘ تاہم جتنا عرصہ رہا‘ سہراب
صاحب سے بہت کچھ سیکھا۔ سہراب صاحب بڑے سخت اور
اصول پرست آدمی تھے۔ غلطی پر درگزر کرنے کی بجائے‘ ڈانٹ
پلاتے۔ اس وقت تو برا لگتا تھا‘ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی ڈانٹ
بڑے کام کی چیز تھی۔
میٹرک کے رزلٹ کی اطلاع‘ میرے قبلہ گاہ نے دی۔ میڑک میں
اور ‘کامیابی حاصل کر لینا‘ میرے لیے بڑی معنویت کی بات تھی
یقین ہو گیا‘ کہ اب میں خلیفہ نہیں رہا۔ قبلہ گاہ نے‘ مجھے
بزگوں کی محفل میں بیٹھنے کی عادت ڈال دی تھی۔ مجھے اپنی
عمر کے لڑکوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا‘ خوش نہیں آتا تھا۔ شاید
میں نویں جماعت میں تھا‘ میرے قبلہ گاہ نے یہ بات میرے دل و
کہ اگر زندگی میں کچھ کرنا ہے‘ تو ‘دماغ میں باندھ دی تھی
کسی لڑکی سے عشق نہیں کرنا۔ اگر عشق کرنا ہے‘ تو الله سے
کرو‘ الله باقی رہنے والا ہے‘ تم بھی باقی رہو گے۔ میں ناچیز الله
سے عشق کے کب قابل تھا‘ ہاں کسی خاتون کے عشق کے منہ
نہ لگا۔ ہو سکتا ہے‘ میں کسی خاتون کی پسند کے قابل نہ تھا۔
کسی خاتون کو پسند کرنے کے لیے‘ میرے پاس وقت ہی نہ تھا۔
ہاں خواتین سے نفرت بھی نہ تھی۔ حضرت والدہ ماجدہ سے
عشق کرتا تھا۔ چھوٹی بہن نصرت شگفتہ‘ میری پسندیدہ سہیلی
تھی۔ ہم دونوں آپس میں خوب موج مستی کرتے‘ تاہم ہمارے
باہمی شور شرابے اور کھیل کود سے‘ گھر کے دوسرے لوگ
ڈسٹرب نہ ہوتے تھے۔ ہم اپنے منہ کا لقمہ‘ ایک دوسرے کو کھلا
کر‘ خوشی محسوس کرتے۔
میرے قبلہ گاہ کے‘ فوج میں کوئی صاحب واقف تھے۔ میں اے
ایم سی میں‘ باطور نرسنگ اسسٹنٹ بھرتی ہو گیا۔ ٹرینگ کے
بعد‘ سی ایم ایچ کھاریاں آ گیا۔ وہاں سے‘ کچھ عرصہ بعد‘ سی
ایم ایچ حیدرآباد تبادلہ ہو گیا۔ سی ایم ایچ حیدرآباد میں‘ شگفتہ
لاہوتی باطور پینٹر ملازم تھے۔ ان کے پاس‘ شہر کے شاعر ادیب
آتے رہتے تھے۔ بزرگ وضع دار اور خوش گو تھے یہ ہی وجہ
ہے‘ کہ سب ان کی عزت کرتے تھے۔آنے والے انہیں استاد
مانتے تھے۔ میں ان کے ہاں تقریبا روزانہ جاتا۔ جب جاتا‘ کوئی
ناکوئی آیا ہوتا اور اپنا کلام سنا رہا ہوتا۔ اس طرح میں بھی آنے
والے کے کلام سے لطفف اندواز ہوتا۔ مجھے ان کے اصلاح کے
اطوار سے بھی آگاہی ہوتی۔ دو تین بار مجھے اکیلے میں ملنے
کا اتفاق ہوا۔ بڑی شفقت سے‘ کلام کی اصلاح کی اور اصلاح شدہ
کلام دو تین بار مجھ سے سنا۔ کسی اگلی نشت میں‘ جب پانچ
سات لوگ آئے ہوتے مجھ سے کلام سنانے کی فرمائش کرتے۔
میں وہ ہی اصلاح شدہ کلام‘ سنا دیتا۔ دل کھول کر داد دیتے۔ اس
طرح محفل میں سنانے کی عادت پڑ گئی۔ رائی بھر جھجھک
حیدرآباد کے معروف صحافی افسانہ ‘محسوس نہ ہوتی۔ یہاں ہی
جو برسوں چلی۔ ‘نگار احمد ریاض نسیم سے ملاقات ہوئی
حیدرآباد سے میرا تبادلہ‘ سی ایم اییچ بہاول پور ہو گیا۔ یہاں
مجھے ایک جاروب کش سے ملاقات کا موقع ملا‘ اور میں نے
ان سے زندگی کا حقیقی چلن سیکھا۔ ان سے ملنے کے لیے‘
مجھے تھوڑا اوپر سے آنا پڑتا تھا تاہم‘ میں ان سے ملے بغیر‘
ڈیوٹی پر نہ جاتا تھا۔ ہماری ملاقات فقط ایک لمحے کی ہوتی۔ میں
چلتے چلتے ان سے پوچھتا :کیا حال ہے سائیں بادشاہ
جواب میں‘ وہ جھاڑو زمین پر رکھ دیتے‘ اور ہاتھ جوڑ کر
میں نئیں الله بادشاہ ‘فرماتے :نئیں باباجی
یہ سن کر میں آگے بڑھ جاتا۔ اس کلمے سے مجھے قلبی سکون
میسر آتا۔
١٩٧٢
میں‘ میری شادی زیب النسا سے کر دی گئی۔ وہ مر گئی ہے‘ اور
میں نے مرنا ہے‘ سچی بات تو یہ ہے کہ مرحومہ بڑی صابر‘
لیکن عادت کے ‘قناعت پسند اور شفیق عورت تھی۔ ان پڑھ تھی
حوالہ سے‘ پڑھے لکھوں سے‘ کہیں بڑھ کر تھی۔ عمر زیادہ
ہونے کے باعث‘ ابتدا میں میرا رویہ بہتر نہ رہا لیکن وہ سب
بڑے حوصلے سے‘ برداشت کر جاتی۔ ایک دن میں نے سوچا‘
اس میں اس بےچاری کا کیا قصور ہے۔ میں نے خود کو یکسر
ہمیں چاند سا بیٹا‘ سید کنور ‘بدل دیا۔ الله نے عنایت فرمائی
عباس عطا کیا۔ پھر تو سب کچھ ہی بدل گیا۔ اس کے بعد‘ زیب
النسا مجھے دنیا کی سب سے پیاری عورت محسوس ہونے لگی۔
میں یہ تسلیم کرنے میں قطعی شرمندگی محسوس نہیں کرتا‘
عجز انکسار اور برداشت کا مادہ‘ زیب النسا سے ملا۔ الله اسے‘
قبر میں کروٹ کروٹ سکون عطا فرمائے۔
شاید ہی کوئی دن ہو گا‘ جس دن میں نے کچھ پڑھا یا لکھا نہ ہو
یہ شغل خیر جاری رکھتا۔ دوستوں ‘گا۔ بیماری کی حالت میں بھی
تو بھی کوئی ناکوئی معاملہ گفتگو میں رہتا۔ ‘سے ملاقات رہتی
رسائل میں چھپنے کے باعث‘ بہت سے اہل قلم سے میرا رابطہ
اعظم ‘ہو گیا۔ احمد ریاض نسیم سے میرا قلمی رابطہ تو تھا ہی
یاد جو ١٩٥٩سے لکھ رہے تھے‘ خط و کتابت رہی۔ اس دور
‘میں بڑا مانا ہوا نام تھا۔ ملک شاہ سوار ناصر‘ ایم اے علی
کوکب مظہر خاں وغیرہ خط و کتابت میں آ گیے۔
میرے قبلہ گاہ کا اصرار تھا‘ کہ میں مزید پڑھوں۔ ان کی ہدایت
اور نصیحت پر‘ میں نے پڑھنا شروع کیا۔ کالج کا پروفیسر ہونا‘
١٩٨٥کو ‘ان کا خواب تھا‘ اور یہ خواب ان کی زندگی ہی میں
شرمندہءتعبیر ہوا۔ انہوں نے ١٩٨٨میں پردہ فرمایا‘ اور خلد
نشین ہوئے۔
گورنمنٹ کالج نارنگ منڈی ہوئی۔ وہاں ‘میری پہلی تقرری
پروفیسر مشتاق راحت‘ ڈاکٹر قیس اسلم‘ ‘پروفیسر امانت علی
پروفیسر انور خاں اور پروفیسر رفیق مغل جیسے‘ لوگوں سے
ہیلو ہائے ہوئی۔
١٩٨٧
میں‘ گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور میں آ گیا۔ پروفیسر ارشاد
صحافتی دورے پر رہتے تھے۔ مجھے بی اے کی ‘احمد حقانی
تاریخ کا پریڈ دے دیا گیا۔
ڈاکٹر صادق جنجوعہ کا تبادلہ لاہور ہو گیا‘ تو ایک عرصہ تک
مجھے سال اول سے سال چہارم تک پنجابی پڑھانے کا موقع ملا۔
گویا پنجابی اور تاریخ کے طلبا سے‘ میں نے بہت کچھ سیکھا۔
پروفیسر علامہ عبدالغفور ظفر‘ ‘پروفیسر اکرام ہوشیارپوری
پروفیسر ڈاکٹر عطاارحمن اور پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد
میرے دوستوں میں تھے۔ بعد ازاں پروفیسر امجد علی ‘چودھری
شاکر تشریف لے آئے تو ان سے بھی پیار اور دوستی کا رشتہ
استوار ہوا۔
مختلف رسائل میں چھپنے کے سبب‘ اہل قلم سے رابطہ بڑھتا
ڈاکٹر محمد امین ‘چلا گیا۔ ان میں ڈاکٹر بیدل حیدری
ڈاکٹر نجیب جمال‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر اختر شمار ڈاکٹر وفا راشدی ‘
پروفیسر حفیظ ‘ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی ‘وقار احمد رضوی
‘تاج پیامی ‘ڈاکٹر تبسم کاشمیری ‘ڈاکٹر گوہر نوشاہی ‘صدیقی
پروفیسر کلیم ضیا‘ ڈاکٹر مظفر عباس‘ ڈاکٹر منیر الدین احمد‘
‘ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘ ڈاکٹر آغا سہیل‘ ڈاکٹر سید اسعد گیلانی
‘مولانا نعیم صدیقی ‘ڈاکٹر قاسم دہلوی ‘ڈاکٹر فرمان فتح پوری
مولانا وصی مظہر ندوی وغیرہم سے قلمی رابطہ رہا۔
ڈاکٹر سعادت سعید‘ ڈاکٹر انیس ناگی اور مبارک احمد‘ کی
سرگرمیاں میری توجہ کا مرکز رہیں۔
لاہور فٹ پاتھ پر سے کتابیں خریدنے جاتا تو ڈاکثر سہیل احمد
خاں اور ڈاکٹر سید معین الرحمن سے ضرور ملتا۔ ڈاکٹر تحسین
فراقی سے خط و کتابت اور ملاقات بھی رہی۔
ڈاکٹر نور العالم‘ مستقل نمائندہ یو این او صوفی ہیں۔ ان سے میرا
محبت اور خلوص کا رشتہ رہا۔ ان کی محبت کا ثمرہ ہے‘ جو میں
نے تصوف کے حوالہ سے‘ مضامین لکھے‘ جو
www.scribd.com
پر موجود ہیں۔
ایمان داری کی بات یہ ہی ہے‘ کہ جہاں حالات اور وقت نے
سکھایا‘ وہاں میں نے ان لوگوں سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ یہ
سب میرے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ میں نے جو بھی ناچیز
سا کام کیا ہے‘ سب ان کی محبتوں اور عطاوں کا پھل ہے۔
مجھے بہت کچھ ‘سچ پوچھیے‘ تو انار کلی فٹ پاتھ نے بھی
سکھایا ہے۔
مقصود حسنی اور برصغیر کا مضافاتی اور مغربی ادب
محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔ قصور
پروفیسر مقصود حسنی اردو کے جدید وقدیم شعری و نثری ادب
کے مطالعہ تک محدود نہیں ہیں۔ انہوں نے برصغیر سے باہر
بھی دیکھا ہے۔ ان کے ہاں اس ذیل کے مختلف ذائقے نظر آتے
ہیں۔ وہ ان تمام عوامل کا بھی جائزہ لیتے ہیں جو اس کے
بنیادی فکر اور زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس مطالعے کی
پانچ صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں
انفرادی ١-
مجموعی ٢-
تقابلی ٣-
رجحانی ٣-
تشریحی اور وضاحتی ٥-
اردو ادب سے متعلق ان کی خدمات نمایاں اور مختلف گوشوں پر
پھیلی ہوئی ہیں جنھیں اردوادب کے نامورمحقق سند پذیرائی
عطا کر چکے ہیں۔
برصغیر سے باہر کے ادب کے مطلعہ کی دو صورتیں ہیں
ایشیائی شعر وادب
مغربی شعر وادب
ڈیوڈ کوگلٹی نوف نمائندہ روسی شاعر ہے۔ اس کی شاعری کے
مطلعہ کا باباجی مقصود حسنی کے ہاں حاصل مطلعہ کچھ یہ ہے
ڈیوڈ شر کے مقابل خیر کی حمایت کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک
خیر کی حمایت ہی
حقیقی زندگی ہے۔ خیر کی حمایت کرنے والے بظاہر لمبی عمر
نہیں پاتے۔ دار ورسن ان کا مقدر ہوتا ہے لیکن خیر کی حمایت
میں گزرے لحمے ہی تو ابدیت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔
شعریات شرق وغرب ص٢٢٧
روس میں ترقی پسندی کے نام سے اٹھنے والی تحریک کو بھی
نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس ذیل میں ایک بھرپور مقالہ۔۔۔۔۔۔ترقی
پسند تحریک۔۔۔۔۔۔ ان کی کتاب تحریکات اردو ادب میں شامل ہے۔
فینگ سیو فینگ چینی زبان کا خوش فکر شاعر ہے۔ باباجی
مقصود حسنی نے ناصرف اس کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ
پیش کیا ہے بلکہ اس کی کچھ نظموں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔
فینگ سیو فینگ کی شاعری کے متعلق ان کا کہنا ہے
فینگ سیو فینگ کی شاعری کرب ناک لمحوں کی عکاس ہے۔
اس کے کلام میں جہاں لہو لہو سسکیاں ہیں تو وہاں امید کے
بےشمار دیپ بھی جلتے نظرآتے ہیں۔
روزنامہ نوائے وقت لاہور -٧اپریل ١٩٨٨
بطور نمونہ ایک نظم کا ترجمہ ملاحظہ ہو
شاعر :فینگ سیو فینگ
مترجم :مقصود حسنی
میں بد قسمتی پہ اک نظم لکھنے کو تھا
مری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے
کاغذ بھر گیا
اور میں نے قلم نیچے رکھ دیا
کیا اشکوں سے تر کاغذ
لوگوں کو دکھا سکتا تھا؟
وہ سمجھ پاتے
یہی تو بد قسمتی ہے
زائی زی لیو چینی مصور تھا۔ باباجی مقصود حسنی کواس کی
مصوری نے متاثر کیا۔ انہوں نے اس کےتصویری ورک کو قدر
کی نظر سے دیکھا اوراسے خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا اس
کی مصوری سے متعلق مضمون رزنامہ مشرق لاہور میں شائع
ہوا۔
چین سے باباجی کی فکری قربت کااندازہ ان کے مضمون۔۔۔۔۔چین
دوستی علاقہ میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔۔۔۔۔ سے لگایا جا
سکتا ہے۔
یہ مضمون روزنامہ مشرق لاہور ٩اپریل ١٩٨٨کی اشاعت میں
شامل ہے۔
صادق ہدایت فارسی کا ناول نگار تھا۔ اس کے ناول۔۔۔۔ بوف
کور۔۔۔۔۔ کا مطالعہ پیش کیا۔ ان کا یہ مضمون ماہنامہ تفاخر لاہور
کے مارچ ١٩٩١کے شمارے مینشائع ہوا۔
فارسی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔۔ تین اقساط میں اردو نیٹ
جاپان پر شائع ہوا۔
عمر خیام فارسی کے شعری ادب میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
باباجی نے اس پر بھرپور قسم کا کام کیا ہے۔ یہ کام چھے
حصوں پر مشتمل ہے
عمر خیام سوانح و شخصیت اوراس کا عہد ١-
رباعیات خیام کا تنقیدی و تشریحی مطالعہ ٢-
رباعیات خیام کے شعری محاسن ٣-
عمر خیام کے نظریات واعتقادات ٤-
عمر خیام کا فلسفہءوجود ٥-
سہ مصرعی اردو ترجمہ رباعیات خیام ٦-
ان کے اس ترجمے کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی نامور اہل قلم
نے اپنی رائے کا اظہار کیا -مثلا
ڈاکٹر عبدالقوی ضیا کینیڈا
ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی
ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘ ڈھاکہ‘ بنگلہ دیش
ڈاکٹراسلم ثاقب‘ مالیر کوٹلہ‘ بھارت
ڈاکٹر اختر علی
ڈاکٹر وفا راشدی
ڈاکٹر صابر آفاقی
ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمنی
انڈیا ‘پروفیسر کلیم ضیا‘ بمبئی
پرفیسر رب نواز مائل
پروفیسراکرام ہوشیار پوری
پروفیسرامجد علی شاکر
پروفیسر حسین سحر
پروفیسر عطاالرحمن
ڈاکٹر رشید امجد
ڈاکٹر محمد امین
علی دیپک قزلباش
سید نذیر حسین فاضل
بطور نمونہ ایک رباعی کا ترجمہ ملاحظہ ہو
کیا خوب زندگی ہو گی ‘وہ زندگی
مری مٹی سے تعمیر ہو کر
جام‘ جب مےکدے سے طلوع ہو گا
بوعلی قلندر کا اسی دھرتی سے تعلق تھا۔ باباجی نے ان کی
مثنوی کا عہد سلاطین کے حوالہ سے مطالعہ کیا۔ ان کایہ مقالہ
پیام آشنا میں شائع ہوا جو بعد ازاں بابا جی کی کتاب ۔۔۔۔۔شعریات
شرق وغرب۔۔۔۔۔۔کا حصہ بنا۔
اقبال اور علامہ رازی کی فکر۔ کا تقابلی مطالعہ۔۔۔۔۔۔یہ مقالہ بابا
جی کی محنت وکاوش کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
یہ مقالہ اردو انجمن اور کئی دوسرے فورمز پر موجود ہے۔
ان کا ایک مقالہ۔۔۔۔۔عربی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔بڑا
شاندار مقالہ ہے اور یہ
www.scribd.com
پر موجود ہے۔
انہوں نے جاپانی آوازوں کے نظام پر تفصیلی مقالہ تحریر کیا۔
اس مقالے کا کچھ حصہ اردو میں بھی منتقل کیا۔ اصل مقالہ
www.scribd.com
پر موجود ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تین قسطوں میں اردو نیٹ
جاپان پر شائع ہوا۔ اس مقالے کی نگرانی وغیرہ پروفیسر ڈاکٹر
ماسا آکی اوکا نے کی۔ اس مقالے کا اصل کمال یہ ہے کہ جاپانی
آوازوں کے ساتھ برصغیر کی آوازوں کے اشتراک کو بھی
واضح کیا گیا ہے۔ ہر جاپانی آواز کے ساتھ اردو کی آوازوں کا
موازناتی اوراشتراکی مطالعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔
مطلعہ کی پیاس انہیں دور مغرب میں بھی لے گئی۔ باباجی نے
اپنے مطالعہ میں آنے والے اہل قلم کی فکر کو اپنی آراء کے
ساتھ اردو دان طبقے کے سامنے بھی پیش کیا۔ اس حوالہ سے
باباجی کو کسی ایک کرے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں
نےمغرب کا مطالعہ ارسطو سے شروع کیا۔۔۔۔ شاعری پر ایک
عام اور بالموازنہ نظر۔۔۔۔۔ مقالہ ان کی کتاب اصول اور جائزے
میں شامل ہے۔
مغرب کے مطالعہ کے حوالہ سے ان کے درج ذیل مضامین قابل
ذکر ہیں
ایلیٹ اور ادب میں روایت کی اہمیت۔۔۔۔۔۔مسودہ
شیلے کا نظریہءشعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشمولہ شعریات شرق وغرب
جان کیٹس کا شعور شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب
شارل بودلیئر کا شعری شعور۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب
شارل بودلیئر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق
وغرب
ژاں پال سارتر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق
وغرب
کروچے اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب
ورڈزورتھ اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق و
غرب
مغربی اہل سخن پر بات کرتے ہوئے اردو شعرا کے حوالے بھی
درج کرتے ہیں۔ اکثر موازناتی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ امر
بھی غالب رہتا ہے کہ اردو شعر و ادب مغرب کے شعر ادب
سے زیادہ جان دار اور زندگی کے دکھ سکھ کو واضح کرنے
میں کامیاب ہے۔
باباجی مقصود حسنی مغربی شعر و ادب کا جائزہ لیتے ہوئے
صرف شخصی محاکمے تک محدود نہیں رہتے۔ وہ مجموعی
مطالعہ بھی پیش کرتے ہیں۔ اس ذیل میں ان کے یہ مقالے قابل
توجہ ہیں
مغرب میں تنقید شعر------مشمولہ شعریات شرق و غرب ١-
ناوریجین شاعری کے فکری و سماجی زاویے------مشمولہ ٢-
شعریات شرق و غرب
شاعری اور مغرب کے معروف ناقدین۔۔۔۔۔۔۔۔مسودہ ٣-
اقبال اور مغربی مفکرین---------مسودہ ٤-
اکبر اور مغربی تہذیب۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق لاہور ٢٦-٢٥جولائی
١٩٩١
اکبر اقبال اور مغربی زاویے۔۔۔۔۔ہفت روزہ فروغ حیدرآباد ١٦
جوائی ١٩٩١
شیلے اور زاہدہ صدیقی کی نظمیں۔۔۔۔ ماہنامہ تحریریں لاہور
دسمبر ١٩٩٣
انگریزی اور اردو کا محاورتی اشتراک ۔۔۔۔۔سہ ماہی لوح ادب
حیدرآباد اپریل تا جون ٢٠٠٤
جرمن شاعری کے فکری زاویے ٥-
باباجی کی یہ کتاب ١٩٩٣میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب سات
حصوں پر مشتمل ہے۔
اس کی تفصیل کچھہ یہ ہے
ا -جرمن شاعری اور فلسفہء جنگ
ب -جرمن شاعری اور تصور انسان
ج -جرمن شاعری کا نظریہء محبت
د۔ جرمن شاعری کا نظریہءزندگی
ھ -جرمن شاعری اور فلسفہءفنا
و۔ جرمن شاعری اور امن کی خواہش
ظ -جرمن شاعری اور انسانی اقدار
جرمن قوم کے حوالہ سے ان کا ایک مضمون بعنوان جرمن ایک
خودشناس قوم‘ کے نام سے روزنامہ مشرق لاہور کی اشاعت ٥
مئی ١٩٨٨میں شائع ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا کہ وہ جرمن قوم
کو فکری اعتبار سے کس قدر اپنے قریب محسوس کرتے تھے۔
اس کے علاوہ بابا جی مقصود حسنی نے مغربی ادب میں اٹھنے
والی معروف تحریکوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ اس حوالہ
سے ان کی کتاب تحریکات اردو ادب میں حسب ذیل مقالے
موجود ہیں۔ یہ کتاب ١٩٩٧میں شائع ہوئی۔
شعور کی رو اور اردو فیکشن
فطرت نگاری اور اردو فیکشن
علامتی تحریک اور اردو شاعری
امیجزم اور اردو شاعری
ڈاڈا ازم اور اردو شاعری
سریلزم اور اردو شاعری
نئی دنیا اور رومانی تحریک
وجودیت ایک فلسفہ ایک تحریک
ساختیات کے حوالہ سے باباجی نے بہت کام کیا ہے۔ دو مقالے
ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں موجود ہیں جب کہ ایک مقالہ
ان کی کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں
موجود ہے۔ مقالہ پی ایچ ڈی اور
کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں نشانیات
غالب کا ساختیاتی مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
حضرت بلھے شاہ قصوری کا اردو کلام علیحدہ کرتے
ہوئےانہوں نے حضرت بلھے شاہ قصوری کی زبان کا لسانی
مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کے اس مطالعے کو ڈاکٹر محمد امین
نے کسی شاعر کا باقاعدہ پہلا ساختیاتی مطالعہ قرار دیا ہے۔
اردو شعر -فکری و لسانی رویے ١٩٩٧ص ١١٥
باباجی مقصود حسنی کی کتاب اردو میں نئی نظم مغربی شاعری
کے تناظر میں قلم بند ہوئی۔ اس میں ایک طرح سے مغربی نظم
اور اردو نظم کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی یہ کتاب
مئی ١٩٩٣میں شائع ہوئی۔
منیرالدین احمد ایک اردو افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کی
زبان اردو ہے لیکن مواد یہاں کی معاشرت سے متعلق نہیں ہے۔
کردار ماحول مکالمے نقطہءنظر وغیرہ قطعی الگ تر ہیں۔ اس
ضمن میں باباجی نے منیر کا حوالہ بھی کوڈ کیا ہے جو کتاب
کے پیش لفظ میں موجود ہے۔ منیر کا کہنا ہے :اردو میں لکھے
جانے والے یہ جرمن افسانے ہیں جو جرمن روایت کے تحت
لکھے گئے ہیں۔ گویا سب کچھ جرمن ہے۔ منیرالدین احمد کے
افسانوں سے متعلق باباجی کی کتاب۔۔۔۔منیرالدین احمد کے
افسانے -تنقیدی جائزہ ١٩٩٥میں شائع ہوئی۔ ابتدا میں
منیرالدین احمد کے دس نمائندہ افسانوں کا مطالعہ پیش کیا گیا
ہے۔ اس کے بعد تین عنوان قائم کئےگئے ہیں
منیر کے چند افسانوی کردار
منیر کے افسانوں میں ثقافتی عکاسی
منیر اپنے افسانوں میں
منیرالدین احمد کےافسانوں کا مطالعہ گویا جرمن افسانوں کا
مطالعہ ہے۔
باباجی کی ان کاوش ہا کے متعلق معروف اسکالر ڈاکٹر سعادت
سعید کا کہنا ہے :مقصود حسنی نے معاصر مغرب کے نظریاتی
تنقیدی جوہروں سے گہری شناسائی رکھنے کا مظاہرہ بھی کیا
ہے۔ اس پس منظر میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ادب شناسی
کے حوالے سے مشرق و مغرب کی تفریق کو کار عبث جانتے
ہیں۔ نئی مغربی تنقید کے پس پشت جو عوامل کار فرما ہیں ان
کا بھی انھیں بخوبی اندازہ ہے۔ یوں انہوں نے پوسٹ کلونیل یا
مابعد نوآبادیاتی تنقید کے میکانکی رویوں سے نسبت رکھنے
سے زیادہ اپنے مشرقی علم بیان کی سحر انگیریوں پر توجہ دی
ہے۔ اس تناظر میں مقصود حسنی کی تاثراتی اور اظہاری تنقید
کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جس میں ان کے شعری و
‘ ٧ادبی ذوق کے عکسی مظاہرے موجود ہیں۔ اردو نیٹ جاپان
جنوری ٢٠١٤
ان کے اس نوعیت کے مطلعے سےمتعلق بہت سے اہل قلم نے
قلم اٹھایا۔ چند ایک اندراج کر رہا ہوں
آشا پربھات
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری
ڈاکٹر ابوسعید نورالدین
ادیب سہیل
پروفیسرامجد علی شاکر
ڈاکٹر بیدل حیدری
پروفیسر رب نواز مائل
پروفیسر حفیظ صدیقی
ڈاکٹر سعادت سعید
شاہد حنائی
ڈاکٹر صابرآفاقی
ڈاکٹر صادق جنجوعہ
علی دیپک قزلباش
دہلی ‘ڈاکٹر قاسم دہلوی
پروفیسر نیامت علی
ڈاکٹر مظفر عباس
ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمن
ندیم شعیب
ڈاکٹر وفا راشدی
ڈاکٹر وقار احمد رضوی
پروفیسر یونس حسن
درج بالا تفصیلات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ باباجی
مقصود حسنی اپنی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت کے سبب ہمہ
وقت مختلف ادبی کروں کے نمائندہ حرف کار ہیں۔ ہر کرے میں
ان کی ایک شناخت وجود پذیر ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں انہیں
ادب کی دنیا کا لیجنڈ قرار دینا‘ کسی بھی حوالہ سے غلط نہ ہو
گا۔ آتے کل کو ان کی ادبی شناخت کے لیے مروجہ اور مستعمل
پیمانوں سے انحراف کرنا پڑے گا۔
مقصود حسنی کے تنقیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی مطالعہ
محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور
تخلیق‘ تنقید اور تحقیق انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ کچھ لوگ ان
سے زیادہ قربت اختیار کرتے ہیں اور اپنی کاوششوں کو کاغذ
پر منتقل کر دیتے ہیں یا انہیں عملی جامہ پہنا دیتے ہیں۔ ان کے
برعکس کچھ لوگ ان صلاحیتوں کا بہت ہی کم استعمال کرتے
ہیں تاہم ان سے کچھ نہ کچھ نادانستہ طور پر ہوتا رہتا ہے۔ جس
طرح سائنسی ایجادات زندگی میں آسودگی یا عدم تحفظ کا سبب
بنتی ہیں‘ بالکل اسی طرح ادبی تخلیقات بھی انسانی زندگی پر
اپنے اثرات چھوڑتی ہیں۔ انسانی رویوں‘ رجحانات اور ترجیحات
میں تبدیلی لاتی ہیں۔ تخلیق ادب کے لیے جہاں ایک فکر انگیز
احساس اور شعور کی ضرورت ہوتی ہے وہاں اس ادب کی جانچ
اور پرکھ کے لیے اس سے قریب تر تنقیدی شعور بھی ہونا
چاہیے۔ ادبی سرمائے کی صحیح تفہیم کے لیے تنقیدی شعور کا
معقول ہونا ضروری ہے۔ تنقید اپنی اصل میں مطالعہ کا سلیقہ
سکھاتی ہے۔
پروفیسر مقصود حسنی نے اپنی تمام عمر ادب کی خدمت کرتے
گزاری ہے۔ انہوں نےتقریبا ہر صنف ادب پر عقابی نظر رکھی
ہے۔ تنقید بھی ان کا میدان عشق رہا ہے۔ شرق و غرب کے اہل
قلم کی کاوشوں کو جانچا اور پرکھا ہے۔ ان کی نہ صرف ادبی
حیثیت و اہمیت کا تعین کیا ہے بلکہ اس کے ممکنہ سماجی
اثرات کا بھی اندازہ پیش کیا ہے۔ یہ بھی کہ وہ کس سماجی
رویے یا رجحان کا نتیجہ ہیں‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ادبی کاوشوں
پر ان کا اظہار خیال کسی سطح پر نظر انداز نہ کیا جا سکے گا۔
باباجی مقصود حسنی کسی ادبی گروپ یا گروہ سے منسلک نہیں
رہے۔ وہ کسی انسلاک کے قائل بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے جس
تخلیق پر بھی اظہار خیال کیا ہے اپنا بندہ ہے‘ سے ہٹ کر کیا
ہے۔ انہوں نے وہی لکھا ہے جو نظرآیا ہے یا جو انہوں نے
محسوس کیا ہے۔ وہ ان تخلیقات کے سماجی معاشی اور
نظریاتی حوالوں کو بھی دوران مطالعہ نظر میں رکھتے ہیں۔ وہ
ان عوامل تک اپروچ کی کوشش کرتے ہیں جو وجہءتخلیق بنے
ہوتے ہیں۔
تاریخ سے بھی باباجی شغف رکھتے ہیں‘ اس لیے وہ یہ بھی
دیکھتے ہیں کہ زیر مطالعہ کاوش ادبی تاریخ کے کس مقام و
مرتبے پر کھڑی ہے۔ مطالعہ کے دوران تقابلی صورت کو بھی
فنی اور لسانی ‘زیر بحث لاتے ہیں۔ ادبی تخلیق کے فکری
متوازن احاطہ باباجی کے تنقیدی رویوں کا امتیازی پہلو ہے اور
انہیں دوسرے نقادوں سے ممتاز کرتا ہے۔
باباجی مقصود حسنی کی نظر فن پارے کے تخلیقی تحرک پر
مرتکز رہتی ہے۔ وہ اس کھوج میں رہتے ہیں کہ کون کون سے
عوامل تھے‘ جو اس کاوش کی تخلیق کا سبب بنے۔ وہ اس امر
کو بھی نظر انداز نہیں کرتے کہ اس تخلیق کے اضافے سے
ادب کا چہرا کیسا دکھائی دے گا۔ لسانیات چونکہ ان کی پسند کا
میدان ہے‘ اس لیے وہ اس تخلیق کو لسانی حوالہ سے ضرور
پرکھتے ہیں اور اس کی لسانی خوبیوں وغیرہ پر گفتگو کرتے
ہیں۔ ان کے نزدیک کوئی جملہ چاہے کسی جاہل کے منہ ہی
سے کیوں نہ نکلا ہو‘ لسانی حوالہ سے بےکار نہیں۔ اس میں
کچھ نہ کچھ نیا ضرور ہوتا ہے۔ کوئی اصطلاح میسرآ سکتی ہے
جو پہلے استعمال میں نہیں آئی ہوتی۔ اس کا مقامی اور نیا تلفظ
سامنے آ سکتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ وہ اس تخلیق کے
لسانی پہلو پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔
ادب کی تنقیدی روایت میں جہاں انہوں نے انفرادی طور پر
ادیبوں کی تخلیقات کو موضوع بنایا ہے وہاں تحقیقی اور تنقیدی
کتب پر بھی احسن انداز میں گفتگو کی ہے۔ نفاست اور رکھ
رکھاؤ کو ان کے مضامین کا طرہءامتیاز قرار دینا غلط نہ ہو گا۔
میں نے بصد کوشش ان کے پچاس سے زائد مطبوعہ و غیر
مطبوعہ مضامین کو تلاش کیا ہے۔ ممکن ہے ادبی تحیقیق کرنے
والوں کے لیے کام کے ثابت ہوں۔ ان مضامین پر تحقیقی کام
کرنے کی ضرورت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکےگا۔
ماہنامہ تفاخر لاہور مارچ ١- بوف کور۔۔۔ایک جائزہ
١٩٩١
اکبر اقبال اور مغربی زاویے ہفت روزہ فروغ حیدرآباد ٢- ١٦
جولائی ١٩٩١
اکبر اور تہذیب مغرب۔۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق لاہور ٢٥جولائی ٣-
١٩٩١
نذیر احمد کے کرداروں کا تاریخی شعور ماہنامہ صریر ٤-
کراچی مئی ١٩٩٢
کرشن چندر کی کردار نگاری ماہنامہ تحریریں لاہور ٥-
جون۔جولائی ١٩٩٢
اسلوب‘ تنقیدی جائزہ سہ ماہی صحیفہ لاہور جولائی تا ٦-
ستمبر ١٩٩٢
پطرس بخاری کے قہقہوں کی سرگزشت ماہنامہ تجدید نو ٧-
لاہور اپریل ١٩٩٣
شیلے اور زاہدہ صدیقی کی نظمیں ماہنامہ تحریریں لاہور ٨-
دسمبر ١٩٩٣
شوکت الہ آبادی کی نعتیہ شاعری ماہنامہ الاانسان کراچی ٩-
دسمبر ١٩٩٣
میرے بزرگ میرے ہم عصر‘ ایک جائزہ ماہنامہ اردو ادب ١٠-
اسلام آباد اپریل۔جون ١٩٩٦
یا عبدالبہا‘ تشریحی مطالعہ ماہنامہ نفحات لاہور جولائی ١١-
١٩٩٦
ڈاکٹر محمد امین کی ہائیکو نگاری ماہنامہ ادب لطیف ١٢-
لاہور اکتوبر ١٩٩٦
بیدل حیدری اردو غزل کی توانا آواز مشمولہ شعریات ١٣-
شرق و غرب ١٩٩٦
کثرت نظارہ۔۔۔ایک منفرد سفرنامہ پندرہ روزہ ہزارہ ٹائمز ١٤-
ایبٹ آباد یکم جولائی ١٩٩٧
داستان وفا۔۔۔۔ایک مطالعہ ماہنامہ اردو ادب اسلام آباد ١٥-
نومبر۔ دسمبر ١٩٩٧
شاہی کی کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ١٦-
مشمولہ کتاب اردو شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے ١٩٩٧
ڈاکٹر بیدل حیدری کی اردو غزل مشمولہ کتاب اردو ١٧-
شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے ١٩٩٧
پروفیسر مائل کی اردو نظم مشمولہ کتاب اردو شعر۔۔۔فکری ١٨-
و لسانی رویے ١٩٩٧
علامہ مشرقی اور تسخیر کائنات کی فلاسفی ہفت روزہ ١٩-
الاصلاح لاہور ٥تا ١٨مئی ١٩٩٨
ڈاکٹر منیر احمد کے افسانے اور مغربی طرز حیات ماہنامہ ٢٠-
ادب لطیف لاہور جنوری ١٩٩٩
ڈاکٹر منیر احمد کا ایک متحر کردار ماہنامہ لاہور دسمبر ٢١-
١٩٩٩
حفیظ صدیقی کے دس نعتعہ اشعار ماہنامہ تحریریں لاہور ٢٢-
جولائی ١٩٩٩
رئیس امروہوی کی قطعہ نگاری ماہنامہ نوائے پٹھان ٢٣-
لاہور جون ٢٠٠٢
ڈاکٹر وفا راشدی شخصیت اور ادبی خدمات ماہنامہ نوائے ٢٤-
پٹھان لاہور جون ٢٠٠٢
ڈاکٹر معین الرحمن۔۔۔ ایک ہمہ جہت شخصیت۔۔ مشمولہ نذر ٢٥-
معین مرتب محمد سعید ٢٠٠٣
قبلہ سید صاحب کے چند اردو نواز جملے نوائے پٹھان ٢٦-
لاہور جولائی ٢٠٠٤
مہر کاچیلوی کے افسانے۔۔۔۔۔تنقدی مطالعہ سہ ماہی لوح ٢٧-
ادب حیدرآباد اپریل تا ستمبر ٢٠٠٤
اردو شاعری کا ایک خوش فکر شاعر ماہنامہ رشحات ٢٨-
لاہور جولائی ٢٠٠٥
عابد انصاری احساس کا شاعر ماہنامہ رشحات لاہور ٢٩-
مارچ ٢٠٠٦
پروفیسر مائل کی غزل کی فکر اور زبان ماہنامہ رشحات ٣٠-
لاہور اگست ٢٠٠٦
دل ہے عشقی تاج کا ایک نقش منفرد کتابی سلسلہ پہچان ٣١-
نمبر٢٤
جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر ہماری ویب ڈاٹ کام ٣٢-
اردو میں منظوم سیرت نگاری اردو نیٹ جاپان ٣٣-
اختر شمار کی اختر شماری کتابت شدہ مسودہ ٣٤-
سرسید اور ڈیپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری کتابت شدہ ٣٥-
مسودہ
سرسید اردو۔ معروضی حالات کے نظریے اساس کتابت ٣٦-
شدہ مسودہ
اردو داستان۔۔ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کتابت شدہ مسودہ ٣٧-
تاریخ اردو۔۔۔ایک جائزہ کتابت شدہ مسودہ ٣٨-
اکبر الہ آبادی تحقیقی وتنقدی مطالعہ کتابت شدہ مسودہ ٣٩-
سروراور فسانہءعجائب ایک جائزہ کتابت شدہ مسودہ ٤٠-
کرشن چندرایک تعارف کتابت شدہ مسودہ ٤١-
صادق ہدایت کاایک کردار۔ کتابت شدہ مسودہ ٤٢-
اختر شمار کی شاعری کے فکری زاویے کتابت شدہ ٤٣-
مسودہ
دیوان غاب کے متن مسلہ کتابت شدہ مسودہ ٤٤-
سرسید تحریک اور اکبر کی ناگزیریت کتابت شدہ مسودہ ٤٥-
ڈاکٹر سعادت سعید کے ناوریجین شاعری سے اردو تراجم ٤٦-
کتابت شدہ مسودہ
سوامی رام تیرتھ کی شاعری کا لسانی مطاعہ مسودہ ٤٧-
اور شمع جلتی رہے گی روزنامہ مشرق لاہور ١٨ستمبر ٤٨-
١٩٨٨
دو علما کی موت پر لکھا گیا ایک تاثراتی مضمون جو ٤٩-
اسلوبی اعتبار سے بڑا جاندار ہے۔
پیاسا ساگر۔۔۔ گلوکار مکیش کی موت پر لکھا گیا مضون ٥٠-
ہفت روزہ اجالا لاہور میں شائع ہوا
کرشن چندر‘ منفرد ادیب۔۔۔ کرشن چندر کی موت پر لکھا ٥١-
گیا۔ ہفت روزہ ممتاز لاہور ١٨مئی ١٩٧٧
ڈاکٹر گوہر نوشاہی الادب گوگڈن جوبلی نمبر ١٩٩٧ادبی ٥٢-
مجلہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور
علامہ طالب جوہری کی مرثیہ نگاری ٥٣-
پروفیسر محمد رضا‘ شعبہءاردو گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول
لائنز لاہورکے ریکارڈ میں
٥٤میجک ان ریسرچ اور میری چند معروضات اردوانجمن ڈاٹ
کام
قصہ ایک قلمی بیاض کی خریداری کا ٥٥-
پروفیسر سوامی رام تیرتھ کی غالب طرازی ٥٦-
جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر ٥٧-
اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ ٥٨-
اختر شمار کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔ایک لسانیاتی جائزہ ٥٩-
تمثال میں لسانیاتی تبسم کی تلاش ٦٠-
شکیب جلالی کے کلام کی ہجویہ تشریح ٦١-
سعادت سعید۔۔۔۔۔اردو شعر کی زبان کا جادوکر ٦٢-
سرور عالم راز‘ ایک منفرد اصلاح کار ٦٣-
شکیب جلالی کی زبان اور انسانی نفسیات ٦٤-
محمد امین کی شاعری ۔۔۔۔۔۔۔ عصری حیات کی ہم سفر ٦٥-
ردی چڑھی رفتہ کی ایک منہ بولتی شہادت ٦٦-
شاعری اور مغرب کے چند ناقدین ٦٧-
ٹی ایس ایلیٹ اور روایت کی اہمیت ٦٨-
یاران اردو انجمن :تسلیمات
موجودہ دور کے رسالوں اور کتابوں کا جائزہ لیا جائے یا انٹرنیٹ
پر اردو کے حوالے سے ہونے والے کام پر ایک نظر ڈالی جائے
تو فورا یہ معلوم ہو جائے گا کہ اردو شعر وادب کی ابتدا اور انتہا
صرف غزل ہے۔ جدھر دیکھئے ادھر شاعر اور تک بند غزل کے
پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں اور ہر ایک خود کو میرتقی میر اور
مرزا غالب سے کم نہیں سمجھتا۔ اگر آپ اس بیان کو مبالغہ آمیز
سمجھتے ہیں تو فیس بک پر جا کر کسی کی غزل پر تنقید کر
کے دیکھ لیجئے! فورا ہی بقول شخصے آٹے دال کا بھائو معلوم
ہو جائے گا۔ نثر نگاری اور خصوصا تنقید تو جیسے اردو ادب
کے افق سے غائب ہی ہو گئی ہے۔ اہل فکرونظر جانتے ہیں کہ ہر
زبان کی ترقی اور پیش رفت کے لئے تنقید و تحقیق کلیدی حیثیت
رکھتی ہے۔ اگر یہ دو باتیں نہیں ہوں گی تو زبان وادب جمود اور
اضمحلال کا شکار ہوکر رہ جائیں گے اور اس کا انجام ظاہر ہے
کہ کیا ہوگا۔ نئی نسل خاص طور سے اس حقیقت سے نا بلد ہے
اور یہ بہت تشویش کی بات ہے۔
ڈاکٹر حسنی صاحب ان ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی
ساری ادبی زندگی تخلیق ،تنقید اور تحقیق کی سنگلاخ زمین کی
آبیاری میں صرف کی ہے۔ زیر نظر مضمون میں دی گئی فہرست
مضامین حسنی صاحب کی بالغ نظری اور علوئے فکر کی