The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-02-21 22:26:52

khidmaat (2)

khidmaat (2)

‫مقصود حسنی کی ادبی خدمات‬
‫ایک مختصر جائزہ‬

‫مرتبہ‪:‬‬
‫پروفیسر نیامت علی مرتضائی‬

‫مقصود حسنی‬

‫بوزر برقی کتب خانہ‬
‫فروری ‪٢٠١٧‬‬

‫فہرست‬

‫بلھے شاہ کا مور۔۔۔۔۔۔۔ ایک ادبی تعارف ‪١-‬‬
‫میرے استاد میرے دوست میرے بزرگ ‪٢-‬‬
‫حسنی اور برصغیر کا مضافاتی اور مغربی ادب ‪٣-‬‬
‫مقصود حسنی کے تنقیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی مطالعہ ‪٤-‬‬
‫ایک اجمالی جائزہ ‘مقصود حسنی کی مزاح نگاری ‪٥-‬‬
‫مقصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ ‪٦-‬‬
‫اردو انجمن اور مقصود حسنی کی افسانہ نگاری ‪٧-‬‬
‫حضرت بلھے شاہ قصوری کی اردو شاعری ‪٨-‬‬
‫ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ماہر لسانیات ‪٩-‬‬

‫مقصود حسنی اور اردو زبان ‪١٠-‬‬
‫مقصود حسنی اور اقبال فہمی ‪١١-‬‬
‫مقصود حسنی اور سائنسی ادب ‪١٢-‬‬
‫ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ایک اسلامی مفکر اور اسکالر ‪١٣-‬‬
‫ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم ‪١٤-‬‬
‫فرہنگ غالب ایک نادر مخطوطہ ‪١٥-‬‬

‫بلھے شاہ کا مور۔۔۔۔۔۔۔ تعلیمی و ادبی کوائف‬

‫مرتبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبوب عالم‬

‫پروفیسر مقصود حسنی اردو ادب کا وہ دمکتا آفتاب ہے جس کی‬
‫ضیا پاشیاں حدود میں نہیں آ سکتیں۔ ان کی ادبی کرنوں کی‬
‫تحسین نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ ہر صنف ادب کا یہ سیاح اپنے‬

‫سفر نامے کی ہر چھوٹی بڑی کہانی لکھتا چلا آ رہا ہے۔ یہ ان‬
‫کی بلاجواز مداح سرائی نہیں بلکہ روز روشن کی طرح عیاں‬
‫حقیقت بیان کرنے کی ادنی سی کوشش ہے۔ ادب کا شاید ہی‬
‫کوئی گوشہ ہو گا جہاں انھوں نے طبع آزمائی نہ کی ہو گی۔‬
‫انہوں نے تو کینسر اور ڈینگی جیسے امراض پر بھی تحقیقی‬
‫کام کیا ہے۔ اس سلسلے میں اردو نیٹ جاپان اور سکربڈ ڈاٹ کام‬
‫پر ان کا مواد موجود ہے۔ وہ ایسے آل راؤنڈر کی حیثیت اختیار‬

‫کر گیے ہیں جو کسی بھی صنف کے ماتھے کا جھومر ہو‬
‫سکتے ہیں۔ ان کی زندگی کے سالوں کو دنوں میں تبدیل کر دیا‬
‫جائے تو کوئی دن بلا ادبی خدمت نہیں نکلے گا۔ گویا وہ ہمہ‬

‫وقت اور ہمہ جہت ادبی شخصیت ہیں۔‬

‫پروفیسر مقصود حسنی کی ادبی خدمات پر ملکی و غیر ملکی‬
‫مداحوں نے انہیں متعدد ادبی خطابات سے نوازا ہے۔ اس تحریر‬
‫کا عنوان بھی بین الااقومی شہرت کے مالک پروفیسر ڈاکٹر تبسم‬
‫کاشمیری کے عطا کیے گیے خطاب سے لیا گیا ہے۔ پیش نظر‬

‫سطور میں ان کا مختصر مختصر ادبی تعارف پیش کیا گیا ہے۔‬
‫احباب کو میری ادنی سی کوشش ضرور پسند آئے گی۔‬

‫بنیادی کوائف‬

‫نام‪ :‬مقصود صفدر علی‬
‫معروف‪ :‬مقصود حسنی‬
‫ولدیت‪ :‬سید غلام حضور‬

‫گھر کا پتا‪:‬‬
‫شیر ربانی کالونی‬
‫قصور‘ پاکستان‬

‫‪:‬ای پوسٹ‬

‫‪[email protected]‬‬
‫تعلیم‬

‫ایم اے‪ :‬ارو‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ تاریخ‬
‫ایم فل‘ اردو‬

‫ڈاکٹریٹ‘ لسانیات‬
‫پوسٹ ڈاکٹریٹ‘ لسانیات‬

‫تجربہ‬
‫تدریس اردو ادب‪ ٣٠‬سال‬

‫تخلیق ادب‪ ٤٥ :‬سال‬
‫تحقیق ادب‪ ٣٤ :‬سال‬
‫انتظامی‪ ٠٥ :‬سال‬

‫خدمات‬

‫برانچ سپرنٹنڈنٹ ایم آئی ٹی برانچ‘ زون اے‘ پنجاب‬
‫ممبر بورڑ آف سٹیڈی پنجاب یونیورسٹی لاہور‬
‫پنجاب یونیورسٹی ‘تجزیہ نگار خاکہ پی ایچ ڈی‬
‫وائس پرنسپل‬
‫ریٹائرڈ‪ :‬ایسوسی ایٹ پروفیسراردو زبان و ادب‬

‫ادارہ فراغت ملازمت‪ :‬گورنمنٹ اسلامیہ کالج‘ قصور‬
‫ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ‘ حکومت پنجاب‘ پاکستان‬

‫ادبی خدمات‬

‫مطبوعہ کتب‬

‫سپنے اگلے پہر کے ہائیکو ‪١-‬‬

‫نظمیں ‪٢-‬‬ ‫اوٹ سے‬

‫سورج کو روک لو نظمیں ‪٣-‬‬

‫کاجل ابھی پھیلا نہیں نظمیں ‪٤-‬‬

‫مزاح ‪٥-‬‬ ‫بیگمی تجربہ‬

‫آنچل جلتا رہے گا افسانے ‪٦-‬‬

‫افسانے ‪٧-‬‬ ‫زرد کاجل‬

‫افسانے ‪٨-‬‬ ‫وہ اکیلی تھی‬

‫جس ہاتھ میں لاٹھی افسانے ‪٩-‬‬

‫شعریات شرق و غرب تحقیق تنقید ‪١٠-‬‬

‫تحریکات اردو تحقیق ‪١١-‬‬

‫اصول اورجائزے اصول تحقیق ‪١٢-‬‬

‫اردو شعر فکری و لسانی جائزے تحقیق ‪١٣-‬‬

‫شعریات خیام تحقیق تنقید ترجمہ ‪١٤-‬‬

‫ستارے بنتی آنکھیں ترک نظموں کے تراجم ‪١٥-‬‬

‫تحقیق ‪١٦-‬‬ ‫لسانیات غالب‬

‫لفظیات غالب کا لسانی وساختیاتی جائزہ تحقیق ‪١٧-‬‬

‫تحقیق ‪١٨-‬‬ ‫عہد غالب‬

‫خوشبو کے امین خطوط ‪١٩-‬‬

‫منیر کے افسانے تنقدی جائزہ تنید ‪٢٠-‬‬

‫جرمن شاعری کے فکری جائزے تنید ‪٢١-‬‬

‫تنید ‪٢٢-‬‬ ‫اردو میں نئی نظم‬

‫تنید ‪٢٣-‬‬ ‫تخلیقیو تنقیدی زاویے‬

‫سیکڑوں مضامین مختلف ادبی رسائل و جرائد میں شائع‬
‫ہوئے۔‬

‫سیکڑوں مضامین اور کئی کتب انٹرنیٹ پر موجود ہیں‘‬
‫جنھیں کسی بھی ریسرج انجن کے حوالہ سے‬
‫ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔‬

‫ایوارڈز‬

‫ستارہ صد سالہ جشن ولادت قائد اعظم‘ حکومت پاکتان‬
‫بیدل حیدری ایوارڑ‘ کاروان ادب ملتان‬
‫مسٹر اردو‘ فورم پاکستان‬
‫بابائے گوشہءمصنفین‘ فرینڈز کارنر‬

‫میدان جن میں کام دستیاب ہوتا ہے‬

‫اردو ادب‬

‫لسانیات‬

‫تحقیق‬

‫تنقید‬

‫افسانہ‬

‫مزاح‬

‫شاعری‬

‫سماجیات‬

‫غالبیات‬
‫اقبالیات‬
‫ترجمہ‬
‫تاریخ‬
‫تعلیم‬
‫صحافت‬
‫میڈیکل‬
‫سائنسز‬
‫معاشیات‬

‫تخلیق و تخلیق پر ہونے والے تحقیقی کام کی تفصیل‬

‫انگریزی شاعری پر ایم فل سطع کا ‘پرفیسر نیامت علی‬
‫تحقیقی کام کر چکے ہیں۔‬

‫ڈاکٹر ارشد شاہد‘ پنجابی شاعری پر‘ ایم فل سطع کا تحقیقی‬
‫کام کر چکے ہیں‬

‫اسلم طاہر‘ ‘مقصود حسنی‪ -‬شخصیت اور ادبی خدمات‘ کے‬
‫عنوان سے‘ ایم فل سطع کا تحقیق مقالہ تحریر کرکے‘‬
‫ملتان سے ڈگری حاصل کر ‘بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی‬
‫چکے ہیں۔‬

‫پروفیسر محمد لطیف‘ ‘مقصود حسنی کی غالب شناسی‪-‬‬
‫تحقیقی و تنقیدی و مطالعہ‘ موضوع پر ایم فل سطع کا‬

‫اسلام آباد سےتحقیقی کام کر ‘علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی‬
‫رہے ہیں۔‬

‫رانا جنید‘ ایف سی کالج سے‘ ان کے افسانوں پر‘ بی اے‬
‫آنرز سطع کا‘ تحقیقی کام کرنے میں مصروف ہیں۔‬

‫ڈاکٹر ریاض شاہد نے‘ اپنے پی ایچ ڈی سطع کے تحقیقی‬
‫مقالے میں‘ کتاب ‘ اردو شعر‪ -‬فکری و لسانی زاویے‘ کو‬

‫بطور بنیادی ماخذ استعمال کیا۔‬

‫پر ہونے والے ایم فل سطع کے کام ‘علامہ بیدل حیدری‬
‫میں‘ بنیادی حوالہ سے تذکرہ کیا گیا ہے۔‬

‫محبوب عام‘ زیب النسا اور زبیدہ بیگم کے ایم فل سطع کے‬
‫مقالہ جات میں‘ غالب حصہ موجود ہے۔‬

‫پی ایچ ڈی اور ایم فل سطح کی اسائنمنٹس بھی ہوتی رہی‬
‫ہیں۔‬

‫مختلف سطع کی ڈگری کے تحقیقی کام میں‘ تحقیق کاروں‬
‫کے کام میں تعاون کر چکے ہیں‘ جس کا اظہار‘ وہ اپنے‬
‫تحیقیقی مقالوں میں کر چکے ہیں۔ دستیاب تفصیل کچھ یوں‬

‫ہے۔‬

‫سید اختر عباس‬

‫مقالہ ایم ایڈ میں تعاون کیا‬

‫ڈاکٹر ارشد شاہد‬

‫مقالہ پی ایچ ڈی میں تعاون کیا‬

‫پروفیسر شرافت علی‬

‫مقالہ ایم فل میں تعاون کیا‬

‫پروفیسر طلعت رشید‬

‫مقالہ ایم فل میں تعاون کیا‬

‫ڈاکٹر عطاءالرحمن‬

‫مقالہ ایم فل میں تعاون کیا‬

‫پروفیسر یونس حسن‬

‫مقالہ ایم فل میں تعاون کیا‬

‫‪ ١٩٩٣‬میں‘ ‘مقصود حسنی کی ‘ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے‬
‫شاعری کا تنقیدی جائزہ‘ کے عنوان سے‘ کتاب تحریر کی۔‬
‫ڈاکٹر ریاض انجم نے‘ ‘مسٹر اردو‪ -‬اسرا زیست اور ادبی‬

‫خدمات‘ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا‘ جو روزنامہ‬
‫معاشرت‘ لاہور میں‘ پچاس قسطوں میں شائع ہوا۔‬

‫عالمی رنگ ادب نے‘ پورے مجموعے سپنے اگلے پہر‬
‫کے‘ کو ‪ ٢٠١٣‬میں شائع کیا۔‬

‫‪ ٣٠‬سے زیادہ تحقیقی مقالے ‘پروفیسر یونس حسن نے‬
‫تحریر کئے‘ جو مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے‬

‫ہیں۔‬
‫پروفیسر محمد رفیق ساگر نے‘ تیس کے قریب مضامین‬

‫تحریر کئے‘ جو ابھی غیر مطبوعہ ہیں۔‬
‫پی ایچ ڈی اور ایم فل سطح کی اسائنمنٹس بھی ہوتی رہی‬

‫ہیں۔‬

‫درج ذیل اہل قلم نے مضامین لکھے یا اپنی آراء دیں۔‬

‫ڈاکٹر ابو سعید نور الدین‘ ڈاکٹر اختر شمار‘ ڈاکٹر اسلم ثاقب‘‬
‫ڈاکٹر انور سدید ڈاکٹر انعام الحق جاوید‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر اسعد گیلانی‬

‫ڈاکٹر اختر سندھو‘ ‘انعام الحق کوثر‘ ڈاکٹر اختر علی میرٹھی‬
‫پروفیسر امجد علی شاکر‘ پروفیسر ‘پروفیسر اکرام ہوشیارپوری‬

‫اقبال سحر ‘اطہر ناسک‘ پروفیسر انور جمال‘ اکبر حمیدی‬
‫یاد‘ اعظم ‘اکبر کاظمی ‘ادیب سہیل‘ انیس شاہ جیلانی ‘انبالوی‬
‫بہرام طارق‘ ڈا ‘اسماعیل اعجاز‘ اشرف پال‘ ڈاکٹر بیدل حیدری‬
‫‘ثناءالحق حقی ‘تنویر بخاری ‘تاج پیامی ‘کٹر تبسم کاشمیری‬
‫جمشید مسرور‘پروفیسر حسین سحر‘ حسن ‘ڈاکٹر جمیل جالبی‬
‫ڈاکٹر خواجہ حمید ‘پروفیسر حفیظ صدیقی ‘عسکری کاظمی‬
‫ڈاکٹر ذوالفقار دانش‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی ‘یزدانی‬
‫ذوالفقار علی رانا‘ پروفیسر رب نواز مائل‘ رانا سلطان محمود‘‬
‫ڈاکٹر سعادت سعید‘ سرور عالم راز‘ میاں سعید بدر‘ سید اختر‬
‫ڈاکٹر صادق جنجوعہ‘ ‘ڈاکٹر صابر آفاقی ‘شاہد حنائی ‘علی‬

‫ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر ظہور احمد چوہدری‬
‫عطاالرحمن‘ ڈاکٹر عبدالعزیز سحر‘ عباس تابش‘ عبدالقوی‬
‫علی دیپک قزلباس‘ علی اکبر ‘پروفیسر عقیل حیدری ‘دسنوی‬
‫فہیم ‘ڈاکٹر غلام شبیر رانا‘ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ‘گیلانی‬
‫پروفیسر کلیم ضیا‘ ‘قیصر تمکین‘ ڈاکٹر قاسم دہلوی ‘اعظمی‬

‫ڈاکٹر مظفرعباس‘ ڈاکٹر ‘کوکب مظہر خاں‘ ڈاکٹر گوہر نوشاہی‬
‫ڈاکٹر سید معین الرحمن‘ ڈاکثر ‘محمد امین‘ ڈاکٹر مبارک علی‬
‫منیر الدین احمد‘ ڈاکٹر محمد ریاض انجم‘ پروفیسر محمد رضا‬
‫محمود ‘مسرور احمد زائی ‘مشفق خواجہ‘ مشیر کاظمی ‘مدنی‬
‫ڈاکٹر نجیب ‘مسعود اعجاز بخاری ‘مہر کاچیلوی ‘احمد مودی‬
‫ناصر ‘ڈاکٹر نوریہ بلیک‘ نیر زیدی ‘جمال‘ ڈاکٹر نثار قریشی‬
‫‘ڈاکٹر وقار احمد رضوی ‘ندیم شعیب‘ ڈاکٹر وفا راشدی ‘زیدی‬
‫پروفیسر یونس حسن‘ ‘ولایت حسین حیدری ‘وصی مظہر ندوی‬

‫وغیرہ وغیرہ‬

‫سے کلام دستیاب ہوتا ہے۔ شاعری پر بہت سے لوگوں نے‬
‫اظہار خیال کیا۔ جند ایک کے نام درج ہیں۔ ‪١٩٦٥‬‬

‫ڈااکٹر آغا سہیل‬

‫آفتاب احمد‬

‫ڈاکٹر ابو سعید نور الدین‬

‫احمد ریاض نسیم‬

‫ڈاکٹر اسلم ثاقب‬

‫اسلم طاہر‬

‫ڈاکٹر احمد رفیع ندیم‬

‫احمد ندیم قاسمی‬

‫ڈاکٹر اختر شمار‬

‫ڈاکٹر اسعد گیلانی‬

‫اسماعیل اعجاز‬
‫اشرف پال‬
‫اطہر ناسک‬
‫اکبر کاظمی‬

‫پروفیسر اکرام ہوشیار پوری‬
‫ایاز قیصر‬

‫ڈاکٹر بیدل حیدری‬
‫پروفیسر تاج پیامی‬

‫تنویر عباسی‬
‫جمشید مسرور‬
‫ڈاکٹر ریاض انجم‬
‫سرور عالم راز‬
‫خواجہ غضنفر ندیم‬
‫ڈاکٹر فرمان فتح پوری‬
‫ڈاکٹر صابر آفاقی‬
‫ڈاکٹر صادق جنجوعہ‬
‫صفدر حسین برق‬
‫ضیغم رضوی‬

‫طفیل ابن گل‬
‫ڈاکٹر ظہور احمد چودھری‬

‫عباس تابش‬
‫ڈاکٹر عبدالله قاضی‬
‫علی اکبر گیلانی‬
‫پروفیسر علی حسن چوہان‬
‫ڈاکٹر عطالرحمن‬

‫فیصل فارانی‬
‫ڈاکٹر گوہر نوشاہی‬
‫ڈاکٹر مبارک احمد‬

‫محبوب عالم‬
‫مشیر کاظمی‬
‫ڈاکٹر محمد امین‬
‫پرفیسر محمد رضا مدنی‬
‫مہر افروز کاٹھیاواڑی‬
‫مہر کاچیلوی‬
‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‬
‫پروفیسر نیامت علی‬

‫ندیم شعیب‬
‫ڈاکٹر وزیر آغا‬
‫ڈاکٹر وفا راشدی‬
‫ڈاکٹر وقار احمد رضوی‬

‫وی بی جی‬
‫یوسف عالمگیرین‬
‫پروفیسر یونس حسن‬

‫اردو شاعری سے تراجم کرنے والے محترم حضرات‬
‫انگریزی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلدیو مرزا‬

‫پنجابی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروفیسر امجد علی شاکر‘ نصرالله صابر‬
‫گرمکھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اسلم ثاقب‬

‫پشتو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علی دیپک قزلباش‬
‫سندھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہر کاچیلوی‬

‫شاعری ڈازائین کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمنہ رانی‬

‫رباعیات خیام کے سہ مصرعی ترجمے کو بڑی پذیرائی حاصل‬
‫ہوئی نامور اہل قلم نے اپنی رائے کا اظہار کیا‪-‬‬
‫مثلا‬

‫ڈاکٹر عبدالقوی ضیا کینیڈا‬
‫ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی‬
‫ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی‬
‫ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘ ڈھاکہ‘ بنگلہ دیش‬
‫ڈاکٹراسلم ثاقب‘ مالیر کوٹلہ‘ بھارت‬

‫ڈاکٹر اختر علی‬
‫ڈاکٹر وفا راشدی‬
‫ڈاکٹر صابر آفاقی‬
‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمنی‬
‫انڈیا ‘پروفیسر کلیم ضیا‘ بمبئی‬
‫پرفیسر رب نواز مائل‬
‫پروفیسراکرام ہوشیار پوری‬
‫پروفیسرامجد علی شاکر‬
‫پروفیسر حسین سحر‬
‫ڈاکٹر عطاالرحمن‬
‫ڈاکٹر رشید امجد‬
‫ڈاکٹر محمد امین‬
‫علی دیپک قزلباش‬
‫سید نذیر حسین فاضل‬

‫حرفی خطابات‬

‫آل عمران‬
‫بہت زبردست آدمی‬

‫ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری‬
‫اہل نظر‬

‫ڈاکٹر اختر شمار‬

‫ممتاز لکھاری‬

‫اسماعیل اعجاز‬

‫علم و ادب کا بہتا دریا‬

‫ڈاکٹر انور سدید‬

‫اردو کے مایہءناز ادیب‬
‫انیس شاہ جیلانی‬
‫کمال بزرگ‬
‫ڈاکٹر ایلن جان‬
‫ہائی لی موٹی وئیٹڈ‬

‫ایم ارشد خالد‬
‫بڑے کام کا آدمی‬

‫پرفیسر اکرام ہوشیارپوری‬
‫بیدار مغز ادیب وشاعر‬

‫میاں بدر انجم‬
‫بڑا لکھاری‬

‫ثقلین احمد‬

‫عطر فروش‬

‫ڈاکٹر تبسم کاشمیری‬
‫گودڑی کا لعل‘ بلھے کا مور‬

‫جی کے تاج‬
‫نرم دل انسان‬

‫ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی‬
‫تحقیق پسند 'ہمہ جہت ادیب‬

‫ڈاکٹر ذوالفقار دانش‬
‫ہمہ جہت شخصیت‬

‫رانا سلطان محمود‬
‫عظیم قومی سرمایہ‬
‫پروفیسر رمضانہ برکت‬
‫چلتا پھرتا انسکلوپیڈیا‬

‫ریسا کیسٹل‬
‫مین وڈ ویزڈم‬

‫رینجنا ڈس‬
‫سویث پرسن‬

‫سرور عالم راز‬

‫بڑے نثر نگار‪ ،‬عظیم نقاد‪ ،‬اچھے شاعر‪ ،‬باکمال انشائیہ‬
‫نویس‬

‫بہت بڑے انسان‬

‫ڈاکٹر سعادت سعید‬

‫استادالاساتذہ‬

‫اردو کی ترویج و ترقی میں ڈاکٹر سید عبدالله کے بعد کا‬
‫شخص‬

‫شاہ سوار علی ناصر‬
‫گامو سوچیار‬

‫سوی عباس‬

‫گریٹ مین‬

‫ڈاکٹر صفدر حسین برق‬

‫شعر کی دنیا میں‬
‫ایک شخص‬
‫پیغمبر نکلا‬

‫ڈاکٹر صابر آفاقی‬
‫معروف محققوں میں‘ سرفہرست‬

‫ضیغم رضوی‬
‫روایت شکن‬

‫ڈاکٹر عبداالقوی ضیا علیگ‬
‫شخصیت میں مقصدیت اور معروضیت‬

‫ڈاکٹر عطاالرحن‬

‫نامور محقق‬

‫پروفیسر علی حسن چوہان‬

‫اپنی ذات میں ایک انجمن‬

‫ڈاکٹر غلام شبر رانا‬
‫عظیم داشور‘ ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹی‬

‫ڈاکٹر کرنل غلام فرید بھٹی‬
‫باصلاحیت ساتھی‬

‫غلام مصطفے بسمل‬
‫بلند پایہ حقائق نگار‬

‫کالمنگ میلوڈی‬

‫فراخ طبیعت اور مزاج‘ فراخ دل‬

‫کرشنا دیو‬
‫ہمیشہ الگ سے سوچنے والا‬

‫ڈاکٹر گوہر نوشاہی‬
‫باشعور تخلیق کار‬

‫ڈاکٹر محمد امین‬

‫خلاق ذہن‘ فعال شخصیت‘ جدت پسند‬

‫پروفیسر محمد رضا مدنی‬

‫بگ گن‬

‫مشیر شمی‬

‫شگفتہ قلم‬

‫ڈاکٹر مظفر عباس‬
‫ہمہ جہت شخصیت‘ ہمہ جہت تخلیق کار‬

‫مثل سر سید‬

‫معراج جامی سید‬
‫فعال اور متحرک شخصیت‬

‫ڈاکٹر معین الرحمن‘ سید‬
‫معنی یاب اور محنتی متن شناس‬

‫ڈاکٹر مقصود الہی شیخ‬

‫بڑے ملاپڑے‬

‫نابغہءروزگارشخصیت‬

‫پروفیسر منور غنی‬

‫درویش صفت‬

‫ناصر زیدی‬
‫قابل ذکر شخصیت‘ ہمہ جہت اہل قلم‬

‫ڈاکٹر نجیب جمال‬

‫آزمودہ کار محقق و نقاد ' نایاب شخص‬

‫ڈاکٹر نوریہ بلیک‬
‫شفیق اور مہربان انسان‬

‫پروفیسر نیامت علی‬

‫لوجک اور ریسرچ سے روایت شکنی کرنے والا‬
‫واہیو سورنو‬
‫ویری گڈ لیڈر‬

‫ڈاکٹر وقار احمد رضوی‬
‫ادیب شہیر‬

‫ڈاکٹر وفا راشدی‬
‫محنتی حرف کار‘ دائروں سے باہر کا شخص‬

‫پروفیسر یاسمین تبسم‬
‫عدیم المثال شخصیت‬

‫میرے استاد میرے دوست میرے بزرگ‬

‫مقصود حسنی‬

‫مجھ سے پوچھا گیا‘ کہ آپ نے زندگی میں‘ کن کن اساتذہ سے‬
‫علمی استفادہ کیا ہے۔‬

‫وقت‘ حالات‘ حاجات اور حضرت بےغم صاحب سے بڑھ کر‘‬
‫آدمی کس سے سیکھ سکتا ہے۔‬

‫اس سے تشفی نہ ہوئی۔ شاید ہر چہار کی ‘سوال کرنے والے کی‬
‫استادی کو‘ وہ ناقص سمجھتے ہوں گے۔ حضرت بےغم صاحب‬

‫تو میری زندگی میں ‪ ١٩٧٢‬میں آئیں‘ اور پھر مسلسل اور‬
‫متواتر آتی ہی چلی گیئں۔ ان کے مزید آنے کے امکان کو رد نہ‬
‫کیا جائے۔ ان سے پہلے بھی تو لکھتا پڑھتا تھا۔ اپنی رائے کا‬
‫اظہار کرتا تھا۔ اس لیے لامحالہ ‪ ١٩٧٢‬سے پہلے بھی تو میری‬

‫زندگی میں استاد آئے ہوں گے۔‬
‫والد صاحب مرحوم جو میرے پیر ‘یہ کوئی ‪ ١٩٥٨‬کی بات ہو گی‬

‫و مرشد بھی تھے‘ سکول چلے آئے اور ماسٹر صاحب سے‬
‫میری تعلیمی حالت پوچھی۔‬

‫دراز قامت کے ماسٹر صاحب نے‘ بلامروت جواب میں ارشاد‬
‫فرمایا‪ :‬خلیفہ ہے۔‬

‫کہنے کو تو وہ یہ کہہ گیے‘ لیکن میری حالت مت پوچھیے۔ قبلہ‬
‫گاہ تو چپ چاپ چلے گیے۔ جواب میں کیا کہتے۔ میرا خیال تھا‘‬
‫کہ آج خیر نہیں۔ خوب مرمت کریں گے۔ شام کو‘ جب وہ گھر‬

‫تشریف لائے‘ میرا خون خشک ہو گیا۔ معاملے کا نتیجہ میرے‬
‫اندازے سے قطعی برعکس نکلا۔ مجھے پاس بٹھایا‘ پیار کیا۔‬
‫جیب سے ٹانگر نکال کر‘ کھانے کو دیے۔ صبح کی بات‘ مجھے‬
‫جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس دن کے بعد‘ میرے ساتھ ‘نہ جتائی‬
‫خصوصی شفقت فرمانے لگے۔ مجھے اپنے ساتھ ساتھ رکھتے۔‬
‫بیٹھک میں کوئی آ جاتا‘ تو پاس بٹھا لیتے۔ باتیں کرتے‘ گلستان‬
‫یا ‘سے کہاوتیں سناتے۔ میں ان کے ساتھ سونے لگا۔ پڑھنے‬
‫کتابیں لے کر آنے کو‘ کبھی نہ کہا۔ بڑوں کی محفل میں بیٹھنا‘‬
‫مجھے اچھا لگتا۔ پہلے سنتا تھا۔ پھر میرے قبلہ گاہ نے‘ سوال‬
‫کرنے کی عادت ڈالی۔ جہاں الجھتا‘ سوال کرتا۔ میں اپنے قبلہ گاہ‬
‫کے ساتھ رہتے ہوئے‘ بڑوں کی صحبت سے لطف اندوز ہوتا۔‬
‫بڑے مجھ سے سوال بھی کرتے‘ میں ان کے سوال کا اعتماد‬
‫سے جواب دیتا۔ جواب غلط ہوتا یا صحیح‘ کچھ یاد نہیں۔ انہوں‬
‫نے منع کیا تھا‘ کہ کسی بھی آنے والے سے‘ اس کے اصرار‬
‫کے باوجود‘ کچھ لینا نہیں۔ ہاں مجھ سے مانگنے میں‘ تکلف نہ‬
‫کرنا۔ مزے کی بات‘ وہ میری ہر ضرورت کو بھانپ لیتے‘ اور‬

‫مجھے مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔‬

‫گھر کے حالات بہتر نہ تھے‘ میٹرک کا امتحان دینے کے فورا‬
‫بعد‘ انہوں نے مجھے لائل پور موجودہ فیصل آباد میں‘ اپنے‬
‫ایک دوست کے توسط سے‘ اقبال ٹرانسپورٹ میں ملازمت دلوا‬
‫دی۔ وہاں محمد حسن بخاری بھی ملازم تھے۔ موصوف‘ ساٹھ‬
‫سال کی عمر سے زیادہ تھے۔ بڑے شفیق اور مہربان تھے۔‬
‫مجھے لکھنے‘ پڑھنے اور دریافت کرنے کی عادت تھی۔ وہ‬
‫میری حوصلہ افزائی فرماتے۔ انہوں نے میری تحریروں پر لکھا‬

‫جو آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ کتابت شدہ مسودہ بھی ‘بھی‬
‫کہیں ناکہیں پڑا ہو گا۔ پرچم نام کا ایک مقامی رسالہ شائع ہوتا‬

‫تھا۔ میں اس رسالے کا نمائندہ بن گیا۔ بعد ازاں‘ اقبال ٹرانسپورٹ‬
‫سے ملازمت چھوز کر‘ چناب ٹرانسپورٹ میں آ گیا۔ یہاں بھی‬
‫میرا پالا ساٹھ سال کی عمر سے زائد شخص کے ساتھ پڑا۔ ان‬
‫کے ساتھ کچھ زیادہ وقت نہ رہا‘ تاہم جتنا عرصہ رہا‘ سہراب‬
‫صاحب سے بہت کچھ سیکھا۔ سہراب صاحب بڑے سخت اور‬

‫اصول پرست آدمی تھے۔ غلطی پر درگزر کرنے کی بجائے‘ ڈانٹ‬
‫پلاتے۔ اس وقت تو برا لگتا تھا‘ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی ڈانٹ‬

‫بڑے کام کی چیز تھی۔‬

‫میٹرک کے رزلٹ کی اطلاع‘ میرے قبلہ گاہ نے دی۔ میڑک میں‬
‫اور ‘کامیابی حاصل کر لینا‘ میرے لیے بڑی معنویت کی بات تھی‬

‫یقین ہو گیا‘ کہ اب میں خلیفہ نہیں رہا۔ قبلہ گاہ نے‘ مجھے‬
‫بزگوں کی محفل میں بیٹھنے کی عادت ڈال دی تھی۔ مجھے اپنی‬
‫عمر کے لڑکوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا‘ خوش نہیں آتا تھا۔ شاید‬
‫میں نویں جماعت میں تھا‘ میرے قبلہ گاہ نے یہ بات میرے دل و‬
‫کہ اگر زندگی میں کچھ کرنا ہے‘ تو ‘دماغ میں باندھ دی تھی‬
‫کسی لڑکی سے عشق نہیں کرنا۔ اگر عشق کرنا ہے‘ تو الله سے‬
‫کرو‘ الله باقی رہنے والا ہے‘ تم بھی باقی رہو گے۔ میں ناچیز الله‬
‫سے عشق کے کب قابل تھا‘ ہاں کسی خاتون کے عشق کے منہ‬
‫نہ لگا۔ ہو سکتا ہے‘ میں کسی خاتون کی پسند کے قابل نہ تھا۔‬
‫کسی خاتون کو پسند کرنے کے لیے‘ میرے پاس وقت ہی نہ تھا۔‬

‫ہاں خواتین سے نفرت بھی نہ تھی۔ حضرت والدہ ماجدہ سے‬
‫عشق کرتا تھا۔ چھوٹی بہن نصرت شگفتہ‘ میری پسندیدہ سہیلی‬

‫تھی۔ ہم دونوں آپس میں خوب موج مستی کرتے‘ تاہم ہمارے‬
‫باہمی شور شرابے اور کھیل کود سے‘ گھر کے دوسرے لوگ‬
‫ڈسٹرب نہ ہوتے تھے۔ ہم اپنے منہ کا لقمہ‘ ایک دوسرے کو کھلا‬

‫کر‘ خوشی محسوس کرتے۔‬

‫میرے قبلہ گاہ کے‘ فوج میں کوئی صاحب واقف تھے۔ میں اے‬
‫ایم سی میں‘ باطور نرسنگ اسسٹنٹ بھرتی ہو گیا۔ ٹرینگ کے‬
‫بعد‘ سی ایم ایچ کھاریاں آ گیا۔ وہاں سے‘ کچھ عرصہ بعد‘ سی‬
‫ایم ایچ حیدرآباد تبادلہ ہو گیا۔ سی ایم ایچ حیدرآباد میں‘ شگفتہ‬
‫لاہوتی باطور پینٹر ملازم تھے۔ ان کے پاس‘ شہر کے شاعر ادیب‬
‫آتے رہتے تھے۔ بزرگ وضع دار اور خوش گو تھے یہ ہی وجہ‬
‫ہے‘ کہ سب ان کی عزت کرتے تھے۔آنے والے انہیں استاد‬
‫مانتے تھے۔ میں ان کے ہاں تقریبا روزانہ جاتا۔ جب جاتا‘ کوئی‬
‫ناکوئی آیا ہوتا اور اپنا کلام سنا رہا ہوتا۔ اس طرح میں بھی آنے‬
‫والے کے کلام سے لطفف اندواز ہوتا۔ مجھے ان کے اصلاح کے‬
‫اطوار سے بھی آگاہی ہوتی۔ دو تین بار مجھے اکیلے میں ملنے‬
‫کا اتفاق ہوا۔ بڑی شفقت سے‘ کلام کی اصلاح کی اور اصلاح شدہ‬
‫کلام دو تین بار مجھ سے سنا۔ کسی اگلی نشت میں‘ جب پانچ‬
‫سات لوگ آئے ہوتے مجھ سے کلام سنانے کی فرمائش کرتے۔‬
‫میں وہ ہی اصلاح شدہ کلام‘ سنا دیتا۔ دل کھول کر داد دیتے۔ اس‬
‫طرح محفل میں سنانے کی عادت پڑ گئی۔ رائی بھر جھجھک‬
‫حیدرآباد کے معروف صحافی افسانہ ‘محسوس نہ ہوتی۔ یہاں ہی‬
‫جو برسوں چلی۔ ‘نگار احمد ریاض نسیم سے ملاقات ہوئی‬

‫حیدرآباد سے میرا تبادلہ‘ سی ایم اییچ بہاول پور ہو گیا۔ یہاں‬

‫مجھے ایک جاروب کش سے ملاقات کا موقع ملا‘ اور میں نے‬
‫ان سے زندگی کا حقیقی چلن سیکھا۔ ان سے ملنے کے لیے‘‬
‫مجھے تھوڑا اوپر سے آنا پڑتا تھا تاہم‘ میں ان سے ملے بغیر‘‬
‫ڈیوٹی پر نہ جاتا تھا۔ ہماری ملاقات فقط ایک لمحے کی ہوتی۔ میں‬

‫چلتے چلتے ان سے پوچھتا‪ :‬کیا حال ہے سائیں بادشاہ‬
‫جواب میں‘ وہ جھاڑو زمین پر رکھ دیتے‘ اور ہاتھ جوڑ کر‬

‫میں نئیں الله بادشاہ ‘فرماتے‪ :‬نئیں باباجی‬
‫یہ سن کر میں آگے بڑھ جاتا۔ اس کلمے سے مجھے قلبی سکون‬

‫میسر آتا۔‬

‫‪١٩٧٢‬‬
‫میں‘ میری شادی زیب النسا سے کر دی گئی۔ وہ مر گئی ہے‘ اور‬

‫میں نے مرنا ہے‘ سچی بات تو یہ ہے کہ مرحومہ بڑی صابر‘‬
‫لیکن عادت کے ‘قناعت پسند اور شفیق عورت تھی۔ ان پڑھ تھی‬

‫حوالہ سے‘ پڑھے لکھوں سے‘ کہیں بڑھ کر تھی۔ عمر زیادہ‬
‫ہونے کے باعث‘ ابتدا میں میرا رویہ بہتر نہ رہا لیکن وہ سب‬
‫بڑے حوصلے سے‘ برداشت کر جاتی۔ ایک دن میں نے سوچا‘‬
‫اس میں اس بےچاری کا کیا قصور ہے۔ میں نے خود کو یکسر‬
‫ہمیں چاند سا بیٹا‘ سید کنور ‘بدل دیا۔ الله نے عنایت فرمائی‬
‫عباس عطا کیا۔ پھر تو سب کچھ ہی بدل گیا۔ اس کے بعد‘ زیب‬
‫النسا مجھے دنیا کی سب سے پیاری عورت محسوس ہونے لگی۔‬
‫میں یہ تسلیم کرنے میں قطعی شرمندگی محسوس نہیں کرتا‘‬
‫عجز انکسار اور برداشت کا مادہ‘ زیب النسا سے ملا۔ الله اسے‘‬

‫قبر میں کروٹ کروٹ سکون عطا فرمائے۔‬

‫شاید ہی کوئی دن ہو گا‘ جس دن میں نے کچھ پڑھا یا لکھا نہ ہو‬
‫یہ شغل خیر جاری رکھتا۔ دوستوں ‘گا۔ بیماری کی حالت میں بھی‬
‫تو بھی کوئی ناکوئی معاملہ گفتگو میں رہتا۔ ‘سے ملاقات رہتی‬
‫رسائل میں چھپنے کے باعث‘ بہت سے اہل قلم سے میرا رابطہ‬
‫اعظم ‘ہو گیا۔ احمد ریاض نسیم سے میرا قلمی رابطہ تو تھا ہی‬

‫یاد جو ‪ ١٩٥٩‬سے لکھ رہے تھے‘ خط و کتابت رہی۔ اس دور‬
‫‘میں بڑا مانا ہوا نام تھا۔ ملک شاہ سوار ناصر‘ ایم اے علی‬

‫کوکب مظہر خاں وغیرہ خط و کتابت میں آ گیے۔‬

‫میرے قبلہ گاہ کا اصرار تھا‘ کہ میں مزید پڑھوں۔ ان کی ہدایت‬
‫اور نصیحت پر‘ میں نے پڑھنا شروع کیا۔ کالج کا پروفیسر ہونا‘‬
‫‪ ١٩٨٥‬کو ‘ان کا خواب تھا‘ اور یہ خواب ان کی زندگی ہی میں‬
‫شرمندہءتعبیر ہوا۔ انہوں نے ‪ ١٩٨٨‬میں پردہ فرمایا‘ اور خلد‬

‫نشین ہوئے۔‬

‫گورنمنٹ کالج نارنگ منڈی ہوئی۔ وہاں ‘میری پہلی تقرری‬
‫پروفیسر مشتاق راحت‘ ڈاکٹر قیس اسلم‘ ‘پروفیسر امانت علی‬
‫پروفیسر انور خاں اور پروفیسر رفیق مغل جیسے‘ لوگوں سے‬

‫ہیلو ہائے ہوئی۔‬

‫‪١٩٨٧‬‬

‫میں‘ گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور میں آ گیا۔ پروفیسر ارشاد‬
‫صحافتی دورے پر رہتے تھے۔ مجھے بی اے کی ‘احمد حقانی‬

‫تاریخ کا پریڈ دے دیا گیا۔‬

‫ڈاکٹر صادق جنجوعہ کا تبادلہ لاہور ہو گیا‘ تو ایک عرصہ تک‬
‫مجھے سال اول سے سال چہارم تک پنجابی پڑھانے کا موقع ملا۔‬

‫گویا پنجابی اور تاریخ کے طلبا سے‘ میں نے بہت کچھ سیکھا۔‬

‫پروفیسر علامہ عبدالغفور ظفر‘ ‘پروفیسر اکرام ہوشیارپوری‬
‫پروفیسر ڈاکٹر عطاارحمن اور پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد‬

‫میرے دوستوں میں تھے۔ بعد ازاں پروفیسر امجد علی ‘چودھری‬
‫شاکر تشریف لے آئے تو ان سے بھی پیار اور دوستی کا رشتہ‬

‫استوار ہوا۔‬

‫مختلف رسائل میں چھپنے کے سبب‘ اہل قلم سے رابطہ بڑھتا‬
‫ڈاکٹر محمد امین ‘چلا گیا۔ ان میں ڈاکٹر بیدل حیدری‬

‫ڈاکٹر نجیب جمال‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر اختر شمار ڈاکٹر وفا راشدی ‘‬
‫پروفیسر حفیظ ‘ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی ‘وقار احمد رضوی‬
‫‘تاج پیامی ‘ڈاکٹر تبسم کاشمیری ‘ڈاکٹر گوہر نوشاہی ‘صدیقی‬
‫پروفیسر کلیم ضیا‘ ڈاکٹر مظفر عباس‘ ڈاکٹر منیر الدین احمد‘‬
‫‘ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘ ڈاکٹر آغا سہیل‘ ڈاکٹر سید اسعد گیلانی‬
‫‘مولانا نعیم صدیقی ‘ڈاکٹر قاسم دہلوی ‘ڈاکٹر فرمان فتح پوری‬

‫مولانا وصی مظہر ندوی وغیرہم سے قلمی رابطہ رہا۔‬

‫ڈاکٹر سعادت سعید‘ ڈاکٹر انیس ناگی اور مبارک احمد‘ کی‬
‫سرگرمیاں میری توجہ کا مرکز رہیں۔‬

‫لاہور فٹ پاتھ پر سے کتابیں خریدنے جاتا تو ڈاکثر سہیل احمد‬
‫خاں اور ڈاکٹر سید معین الرحمن سے ضرور ملتا۔ ڈاکٹر تحسین‬

‫فراقی سے خط و کتابت اور ملاقات بھی رہی۔‬

‫ڈاکٹر نور العالم‘ مستقل نمائندہ یو این او صوفی ہیں۔ ان سے میرا‬
‫محبت اور خلوص کا رشتہ رہا۔ ان کی محبت کا ثمرہ ہے‘ جو میں‬

‫نے تصوف کے حوالہ سے‘ مضامین لکھے‘ جو‬

‫‪www.scribd.com‬‬

‫پر موجود ہیں۔‬
‫ایمان داری کی بات یہ ہی ہے‘ کہ جہاں حالات اور وقت نے‬
‫سکھایا‘ وہاں میں نے ان لوگوں سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ یہ‬
‫سب میرے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ میں نے جو بھی ناچیز‬
‫سا کام کیا ہے‘ سب ان کی محبتوں اور عطاوں کا پھل ہے۔‬

‫مجھے بہت کچھ ‘سچ پوچھیے‘ تو انار کلی فٹ پاتھ نے بھی‬
‫سکھایا ہے۔‬

‫مقصود حسنی اور برصغیر کا مضافاتی اور مغربی ادب‬

‫محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔ قصور‬

‫پروفیسر مقصود حسنی اردو کے جدید وقدیم شعری و نثری ادب‬
‫کے مطالعہ تک محدود نہیں ہیں۔ انہوں نے برصغیر سے باہر‬
‫بھی دیکھا ہے۔ ان کے ہاں اس ذیل کے مختلف ذائقے نظر آتے‬
‫ہیں۔ وہ ان تمام عوامل کا بھی جائزہ لیتے ہیں جو اس کے‬
‫بنیادی فکر اور زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس مطالعے کی‬

‫پانچ صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں‬
‫انفرادی ‪١-‬‬
‫مجموعی ‪٢-‬‬
‫تقابلی ‪٣-‬‬
‫رجحانی ‪٣-‬‬

‫تشریحی اور وضاحتی ‪٥-‬‬
‫اردو ادب سے متعلق ان کی خدمات نمایاں اور مختلف گوشوں پر‬

‫پھیلی ہوئی ہیں جنھیں اردوادب کے نامورمحقق سند پذیرائی‬
‫عطا کر چکے ہیں۔‬

‫برصغیر سے باہر کے ادب کے مطلعہ کی دو صورتیں ہیں‬
‫ایشیائی شعر وادب‬
‫مغربی شعر وادب‬

‫ڈیوڈ کوگلٹی نوف نمائندہ روسی شاعر ہے۔ اس کی شاعری کے‬
‫مطلعہ کا باباجی مقصود حسنی کے ہاں حاصل مطلعہ کچھ یہ ہے‬
‫ڈیوڈ شر کے مقابل خیر کی حمایت کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک‬

‫خیر کی حمایت ہی‬
‫حقیقی زندگی ہے۔ خیر کی حمایت کرنے والے بظاہر لمبی عمر‬
‫نہیں پاتے۔ دار ورسن ان کا مقدر ہوتا ہے لیکن خیر کی حمایت‬

‫میں گزرے لحمے ہی تو ابدیت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔‬
‫شعریات شرق وغرب ص‪٢٢٧‬‬

‫روس میں ترقی پسندی کے نام سے اٹھنے والی تحریک کو بھی‬
‫نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس ذیل میں ایک بھرپور مقالہ۔۔۔۔۔۔ترقی‬
‫پسند تحریک۔۔۔۔۔۔ ان کی کتاب تحریکات اردو ادب میں شامل ہے۔‬

‫فینگ سیو فینگ چینی زبان کا خوش فکر شاعر ہے۔ باباجی‬
‫مقصود حسنی نے ناصرف اس کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ‬
‫پیش کیا ہے بلکہ اس کی کچھ نظموں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔‬

‫فینگ سیو فینگ کی شاعری کے متعلق ان کا کہنا ہے‬
‫فینگ سیو فینگ کی شاعری کرب ناک لمحوں کی عکاس ہے۔‬
‫اس کے کلام میں جہاں لہو لہو سسکیاں ہیں تو وہاں امید کے‬

‫بےشمار دیپ بھی جلتے نظرآتے ہیں۔‬
‫روزنامہ نوائے وقت لاہور ‪ -٧‬اپریل ‪١٩٨٨‬‬

‫بطور نمونہ ایک نظم کا ترجمہ ملاحظہ ہو‬

‫شاعر‪ :‬فینگ سیو فینگ‬
‫مترجم‪ :‬مقصود حسنی‬

‫میں بد قسمتی پہ اک نظم لکھنے کو تھا‬

‫مری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے‬
‫کاغذ بھر گیا‬

‫اور میں نے قلم نیچے رکھ دیا‬
‫کیا اشکوں سے تر کاغذ‬
‫لوگوں کو دکھا سکتا تھا؟‬
‫وہ سمجھ پاتے‬
‫یہی تو بد قسمتی ہے‬

‫زائی زی لیو چینی مصور تھا۔ باباجی مقصود حسنی کواس کی‬
‫مصوری نے متاثر کیا۔ انہوں نے اس کےتصویری ورک کو قدر‬
‫کی نظر سے دیکھا اوراسے خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا اس‬
‫کی مصوری سے متعلق مضمون رزنامہ مشرق لاہور میں شائع‬

‫ہوا۔‬
‫چین سے باباجی کی فکری قربت کااندازہ ان کے مضمون۔۔۔۔۔چین‬
‫دوستی علاقہ میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔۔۔۔۔ سے لگایا جا‬

‫سکتا ہے۔‬
‫یہ مضمون روزنامہ مشرق لاہور ‪ ٩‬اپریل ‪ ١٩٨٨‬کی اشاعت میں‬

‫شامل ہے۔‬

‫صادق ہدایت فارسی کا ناول نگار تھا۔ اس کے ناول۔۔۔۔ بوف‬
‫کور۔۔۔۔۔ کا مطالعہ پیش کیا۔ ان کا یہ مضمون ماہنامہ تفاخر لاہور‬

‫کے مارچ ‪ ١٩٩١‬کے شمارے مینشائع ہوا۔‬

‫فارسی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔۔ تین اقساط میں اردو نیٹ‬
‫جاپان پر شائع ہوا۔‬

‫عمر خیام فارسی کے شعری ادب میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔‬
‫باباجی نے اس پر بھرپور قسم کا کام کیا ہے۔ یہ کام چھے‬

‫حصوں پر مشتمل ہے‬
‫عمر خیام سوانح و شخصیت اوراس کا عہد ‪١-‬‬
‫رباعیات خیام کا تنقیدی و تشریحی مطالعہ ‪٢-‬‬

‫رباعیات خیام کے شعری محاسن ‪٣-‬‬
‫عمر خیام کے نظریات واعتقادات ‪٤-‬‬

‫عمر خیام کا فلسفہءوجود ‪٥-‬‬
‫سہ مصرعی اردو ترجمہ رباعیات خیام ‪٦-‬‬

‫ان کے اس ترجمے کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی نامور اہل قلم‬
‫نے اپنی رائے کا اظہار کیا‪ -‬مثلا‬
‫ڈاکٹر عبدالقوی ضیا کینیڈا‬
‫ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی‬
‫ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی‬

‫ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘ ڈھاکہ‘ بنگلہ دیش‬
‫ڈاکٹراسلم ثاقب‘ مالیر کوٹلہ‘ بھارت‬
‫ڈاکٹر اختر علی‬
‫ڈاکٹر وفا راشدی‬
‫ڈاکٹر صابر آفاقی‬
‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمنی‬
‫انڈیا ‘پروفیسر کلیم ضیا‘ بمبئی‬
‫پرفیسر رب نواز مائل‬
‫پروفیسراکرام ہوشیار پوری‬
‫پروفیسرامجد علی شاکر‬

‫پروفیسر حسین سحر‬
‫پروفیسر عطاالرحمن‬

‫ڈاکٹر رشید امجد‬
‫ڈاکٹر محمد امین‬
‫علی دیپک قزلباش‬
‫سید نذیر حسین فاضل‬
‫بطور نمونہ ایک رباعی کا ترجمہ ملاحظہ ہو‬

‫کیا خوب زندگی ہو گی ‘وہ زندگی‬
‫مری مٹی سے تعمیر ہو کر‬

‫جام‘ جب مےکدے سے طلوع ہو گا‬

‫بوعلی قلندر کا اسی دھرتی سے تعلق تھا۔ باباجی نے ان کی‬
‫مثنوی کا عہد سلاطین کے حوالہ سے مطالعہ کیا۔ ان کایہ مقالہ‬
‫پیام آشنا میں شائع ہوا جو بعد ازاں بابا جی کی کتاب ۔۔۔۔۔شعریات‬

‫شرق وغرب۔۔۔۔۔۔کا حصہ بنا۔‬

‫اقبال اور علامہ رازی کی فکر۔ کا تقابلی مطالعہ۔۔۔۔۔۔یہ مقالہ بابا‬
‫جی کی محنت وکاوش کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔‬

‫یہ مقالہ اردو انجمن اور کئی دوسرے فورمز پر موجود ہے۔‬

‫ان کا ایک مقالہ۔۔۔۔۔عربی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔بڑا‬
‫شاندار مقالہ ہے اور یہ‬

‫‪www.scribd.com‬‬

‫پر موجود ہے۔‬

‫انہوں نے جاپانی آوازوں کے نظام پر تفصیلی مقالہ تحریر کیا۔‬
‫اس مقالے کا کچھ حصہ اردو میں بھی منتقل کیا۔ اصل مقالہ‬

‫‪www.scribd.com‬‬

‫پر موجود ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تین قسطوں میں اردو نیٹ‬
‫جاپان پر شائع ہوا۔ اس مقالے کی نگرانی وغیرہ پروفیسر ڈاکٹر‬
‫ماسا آکی اوکا نے کی۔ اس مقالے کا اصل کمال یہ ہے کہ جاپانی‬

‫آوازوں کے ساتھ برصغیر کی آوازوں کے اشتراک کو بھی‬
‫واضح کیا گیا ہے۔ ہر جاپانی آواز کے ساتھ اردو کی آوازوں کا‬

‫موازناتی اوراشتراکی مطالعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔‬

‫مطلعہ کی پیاس انہیں دور مغرب میں بھی لے گئی۔ باباجی نے‬
‫اپنے مطالعہ میں آنے والے اہل قلم کی فکر کو اپنی آراء کے‬
‫ساتھ اردو دان طبقے کے سامنے بھی پیش کیا۔ اس حوالہ سے‬
‫باباجی کو کسی ایک کرے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں‬
‫نےمغرب کا مطالعہ ارسطو سے شروع کیا۔۔۔۔ شاعری پر ایک‬
‫عام اور بالموازنہ نظر۔۔۔۔۔ مقالہ ان کی کتاب اصول اور جائزے‬

‫میں شامل ہے۔‬

‫مغرب کے مطالعہ کے حوالہ سے ان کے درج ذیل مضامین قابل‬
‫ذکر ہیں‬

‫ایلیٹ اور ادب میں روایت کی اہمیت۔۔۔۔۔۔مسودہ‬
‫شیلے کا نظریہءشعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشمولہ شعریات شرق وغرب‬
‫جان کیٹس کا شعور شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب‬
‫شارل بودلیئر کا شعری شعور۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب‬

‫شارل بودلیئر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق‬

‫وغرب‬
‫ژاں پال سارتر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق‬

‫وغرب‬
‫کروچے اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب‬

‫ورڈزورتھ اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق و‬
‫غرب‬

‫مغربی اہل سخن پر بات کرتے ہوئے اردو شعرا کے حوالے بھی‬
‫درج کرتے ہیں۔ اکثر موازناتی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ امر‬

‫بھی غالب رہتا ہے کہ اردو شعر و ادب مغرب کے شعر ادب‬
‫سے زیادہ جان دار اور زندگی کے دکھ سکھ کو واضح کرنے‬

‫میں کامیاب ہے۔‬

‫باباجی مقصود حسنی مغربی شعر و ادب کا جائزہ لیتے ہوئے‬
‫صرف شخصی محاکمے تک محدود نہیں رہتے۔ وہ مجموعی‬
‫مطالعہ بھی پیش کرتے ہیں۔ اس ذیل میں ان کے یہ مقالے قابل‬

‫توجہ ہیں‬
‫مغرب میں تنقید شعر‪------‬مشمولہ شعریات شرق و غرب ‪١-‬‬
‫ناوریجین شاعری کے فکری و سماجی زاویے‪------‬مشمولہ ‪٢-‬‬

‫شعریات شرق و غرب‬
‫شاعری اور مغرب کے معروف ناقدین۔۔۔۔۔۔۔۔مسودہ ‪٣-‬‬

‫اقبال اور مغربی مفکرین‪---------‬مسودہ ‪٤-‬‬
‫اکبر اور مغربی تہذیب۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق لاہور ‪ ٢٦-٢٥‬جولائی‬

‫‪١٩٩١‬‬
‫اکبر اقبال اور مغربی زاویے۔۔۔۔۔ہفت روزہ فروغ حیدرآباد ‪١٦‬‬

‫جوائی ‪١٩٩١‬‬

‫شیلے اور زاہدہ صدیقی کی نظمیں۔۔۔۔ ماہنامہ تحریریں لاہور‬
‫دسمبر ‪١٩٩٣‬‬

‫انگریزی اور اردو کا محاورتی اشتراک ۔۔۔۔۔سہ ماہی لوح ادب‬
‫حیدرآباد اپریل تا جون ‪٢٠٠٤‬‬

‫جرمن شاعری کے فکری زاویے ‪٥-‬‬
‫باباجی کی یہ کتاب ‪ ١٩٩٣‬میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب سات‬

‫حصوں پر مشتمل ہے۔‬
‫اس کی تفصیل کچھہ یہ ہے‬
‫ا‪ -‬جرمن شاعری اور فلسفہء جنگ‬
‫ب‪ -‬جرمن شاعری اور تصور انسان‬
‫ج‪ -‬جرمن شاعری کا نظریہء محبت‬
‫د۔ جرمن شاعری کا نظریہءزندگی‬
‫ھ‪ -‬جرمن شاعری اور فلسفہءفنا‬
‫و۔ جرمن شاعری اور امن کی خواہش‬
‫ظ‪ -‬جرمن شاعری اور انسانی اقدار‬
‫جرمن قوم کے حوالہ سے ان کا ایک مضمون بعنوان جرمن ایک‬
‫خودشناس قوم‘ کے نام سے روزنامہ مشرق لاہور کی اشاعت ‪٥‬‬
‫مئی ‪ ١٩٨٨‬میں شائع ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا کہ وہ جرمن قوم‬
‫کو فکری اعتبار سے کس قدر اپنے قریب محسوس کرتے تھے۔‬

‫اس کے علاوہ بابا جی مقصود حسنی نے مغربی ادب میں اٹھنے‬
‫والی معروف تحریکوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ اس حوالہ‬
‫سے ان کی کتاب تحریکات اردو ادب میں حسب ذیل مقالے‬
‫موجود ہیں۔ یہ کتاب ‪ ١٩٩٧‬میں شائع ہوئی۔‬
‫شعور کی رو اور اردو فیکشن‬

‫فطرت نگاری اور اردو فیکشن‬
‫علامتی تحریک اور اردو شاعری‬

‫امیجزم اور اردو شاعری‬
‫ڈاڈا ازم اور اردو شاعری‬
‫سریلزم اور اردو شاعری‬
‫نئی دنیا اور رومانی تحریک‬
‫وجودیت ایک فلسفہ ایک تحریک‬

‫ساختیات کے حوالہ سے باباجی نے بہت کام کیا ہے۔ دو مقالے‬
‫ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں موجود ہیں جب کہ ایک مقالہ‬
‫ان کی کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں‬

‫موجود ہے۔ مقالہ پی ایچ ڈی اور‬
‫کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں نشانیات‬

‫غالب کا ساختیاتی مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے۔‬

‫حضرت بلھے شاہ قصوری کا اردو کلام علیحدہ کرتے‬
‫ہوئےانہوں نے حضرت بلھے شاہ قصوری کی زبان کا لسانی‬
‫مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کے اس مطالعے کو ڈاکٹر محمد امین‬
‫نے کسی شاعر کا باقاعدہ پہلا ساختیاتی مطالعہ قرار دیا ہے۔‬

‫اردو شعر‪ -‬فکری و لسانی رویے ‪ ١٩٩٧‬ص ‪١١٥‬‬

‫باباجی مقصود حسنی کی کتاب اردو میں نئی نظم مغربی شاعری‬
‫کے تناظر میں قلم بند ہوئی۔ اس میں ایک طرح سے مغربی نظم‬
‫اور اردو نظم کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی یہ کتاب‬

‫مئی ‪ ١٩٩٣‬میں شائع ہوئی۔‬

‫منیرالدین احمد ایک اردو افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کی‬
‫زبان اردو ہے لیکن مواد یہاں کی معاشرت سے متعلق نہیں ہے۔‬
‫کردار ماحول مکالمے نقطہءنظر وغیرہ قطعی الگ تر ہیں۔ اس‬
‫ضمن میں باباجی نے منیر کا حوالہ بھی کوڈ کیا ہے جو کتاب‬
‫کے پیش لفظ میں موجود ہے۔ منیر کا کہنا ہے‪ :‬اردو میں لکھے‬

‫جانے والے یہ جرمن افسانے ہیں جو جرمن روایت کے تحت‬
‫لکھے گئے ہیں۔ گویا سب کچھ جرمن ہے۔ منیرالدین احمد کے‬

‫افسانوں سے متعلق باباجی کی کتاب۔۔۔۔منیرالدین احمد کے‬
‫افسانے‪ -‬تنقیدی جائزہ ‪١٩٩٥‬میں شائع ہوئی۔ ابتدا میں‬
‫منیرالدین احمد کے دس نمائندہ افسانوں کا مطالعہ پیش کیا گیا‬

‫ہے۔ اس کے بعد تین عنوان قائم کئےگئے ہیں‬
‫منیر کے چند افسانوی کردار‬

‫منیر کے افسانوں میں ثقافتی عکاسی‬
‫منیر اپنے افسانوں میں‬

‫منیرالدین احمد کےافسانوں کا مطالعہ گویا جرمن افسانوں کا‬
‫مطالعہ ہے۔‬

‫باباجی کی ان کاوش ہا کے متعلق معروف اسکالر ڈاکٹر سعادت‬
‫سعید کا کہنا ہے‪ :‬مقصود حسنی نے معاصر مغرب کے نظریاتی‬
‫تنقیدی جوہروں سے گہری شناسائی رکھنے کا مظاہرہ بھی کیا‬
‫ہے۔ اس پس منظر میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ادب شناسی‬
‫کے حوالے سے مشرق و مغرب کی تفریق کو کار عبث جانتے‬
‫ہیں۔ نئی مغربی تنقید کے پس پشت جو عوامل کار فرما ہیں ان‬
‫کا بھی انھیں بخوبی اندازہ ہے۔ یوں انہوں نے پوسٹ کلونیل یا‬

‫مابعد نوآبادیاتی تنقید کے میکانکی رویوں سے نسبت رکھنے‬
‫سے زیادہ اپنے مشرقی علم بیان کی سحر انگیریوں پر توجہ دی‬
‫ہے۔ اس تناظر میں مقصود حسنی کی تاثراتی اور اظہاری تنقید‬

‫کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جس میں ان کے شعری و‬
‫‪‘ ٧‬ادبی ذوق کے عکسی مظاہرے موجود ہیں۔ اردو نیٹ جاپان‬

‫جنوری ‪٢٠١٤‬‬

‫ان کے اس نوعیت کے مطلعے سےمتعلق بہت سے اہل قلم نے‬
‫قلم اٹھایا۔ چند ایک اندراج کر رہا ہوں‬
‫آشا پربھات‬
‫ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری‬
‫ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‬
‫ادیب سہیل‬
‫پروفیسرامجد علی شاکر‬
‫ڈاکٹر بیدل حیدری‬
‫پروفیسر رب نواز مائل‬
‫پروفیسر حفیظ صدیقی‬
‫ڈاکٹر سعادت سعید‬
‫شاہد حنائی‬
‫ڈاکٹر صابرآفاقی‬
‫ڈاکٹر صادق جنجوعہ‬
‫علی دیپک قزلباش‬
‫دہلی ‘ڈاکٹر قاسم دہلوی‬
‫پروفیسر نیامت علی‬
‫ڈاکٹر مظفر عباس‬

‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمن‬
‫ندیم شعیب‬

‫ڈاکٹر وفا راشدی‬
‫ڈاکٹر وقار احمد رضوی‬
‫پروفیسر یونس حسن‬

‫درج بالا تفصیلات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ باباجی‬
‫مقصود حسنی اپنی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت کے سبب ہمہ‬
‫وقت مختلف ادبی کروں کے نمائندہ حرف کار ہیں۔ ہر کرے میں‬
‫ان کی ایک شناخت وجود پذیر ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں انہیں‬
‫ادب کی دنیا کا لیجنڈ قرار دینا‘ کسی بھی حوالہ سے غلط نہ ہو‬
‫گا۔ آتے کل کو ان کی ادبی شناخت کے لیے مروجہ اور مستعمل‬

‫پیمانوں سے انحراف کرنا پڑے گا۔‬

‫مقصود حسنی کے تنقیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی مطالعہ‬

‫محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور‬

‫تخلیق‘ تنقید اور تحقیق انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ کچھ لوگ ان‬
‫سے زیادہ قربت اختیار کرتے ہیں اور اپنی کاوششوں کو کاغذ‬
‫پر منتقل کر دیتے ہیں یا انہیں عملی جامہ پہنا دیتے ہیں۔ ان کے‬
‫برعکس کچھ لوگ ان صلاحیتوں کا بہت ہی کم استعمال کرتے‬
‫ہیں تاہم ان سے کچھ نہ کچھ نادانستہ طور پر ہوتا رہتا ہے۔ جس‬
‫طرح سائنسی ایجادات زندگی میں آسودگی یا عدم تحفظ کا سبب‬
‫بنتی ہیں‘ بالکل اسی طرح ادبی تخلیقات بھی انسانی زندگی پر‬
‫اپنے اثرات چھوڑتی ہیں۔ انسانی رویوں‘ رجحانات اور ترجیحات‬
‫میں تبدیلی لاتی ہیں۔ تخلیق ادب کے لیے جہاں ایک فکر انگیز‬
‫احساس اور شعور کی ضرورت ہوتی ہے وہاں اس ادب کی جانچ‬
‫اور پرکھ کے لیے اس سے قریب تر تنقیدی شعور بھی ہونا‬
‫چاہیے۔ ادبی سرمائے کی صحیح تفہیم کے لیے تنقیدی شعور کا‬
‫معقول ہونا ضروری ہے۔ تنقید اپنی اصل میں مطالعہ کا سلیقہ‬

‫سکھاتی ہے۔‬

‫پروفیسر مقصود حسنی نے اپنی تمام عمر ادب کی خدمت کرتے‬
‫گزاری ہے۔ انہوں نےتقریبا ہر صنف ادب پر عقابی نظر رکھی‬
‫ہے۔ تنقید بھی ان کا میدان عشق رہا ہے۔ شرق و غرب کے اہل‬
‫قلم کی کاوشوں کو جانچا اور پرکھا ہے۔ ان کی نہ صرف ادبی‬
‫حیثیت و اہمیت کا تعین کیا ہے بلکہ اس کے ممکنہ سماجی‬
‫اثرات کا بھی اندازہ پیش کیا ہے۔ یہ بھی کہ وہ کس سماجی‬

‫رویے یا رجحان کا نتیجہ ہیں‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ادبی کاوشوں‬
‫پر ان کا اظہار خیال کسی سطح پر نظر انداز نہ کیا جا سکے گا۔‬
‫باباجی مقصود حسنی کسی ادبی گروپ یا گروہ سے منسلک نہیں‬
‫رہے۔ وہ کسی انسلاک کے قائل بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے جس‬
‫تخلیق پر بھی اظہار خیال کیا ہے اپنا بندہ ہے‘ سے ہٹ کر کیا‬

‫ہے۔ انہوں نے وہی لکھا ہے جو نظرآیا ہے یا جو انہوں نے‬
‫محسوس کیا ہے۔ وہ ان تخلیقات کے سماجی معاشی اور‬

‫نظریاتی حوالوں کو بھی دوران مطالعہ نظر میں رکھتے ہیں۔ وہ‬
‫ان عوامل تک اپروچ کی کوشش کرتے ہیں جو وجہءتخلیق بنے‬

‫ہوتے ہیں۔‬

‫تاریخ سے بھی باباجی شغف رکھتے ہیں‘ اس لیے وہ یہ بھی‬
‫دیکھتے ہیں کہ زیر مطالعہ کاوش ادبی تاریخ کے کس مقام و‬
‫مرتبے پر کھڑی ہے۔ مطالعہ کے دوران تقابلی صورت کو بھی‬
‫فنی اور لسانی ‘زیر بحث لاتے ہیں۔ ادبی تخلیق کے فکری‬
‫متوازن احاطہ باباجی کے تنقیدی رویوں کا امتیازی پہلو ہے اور‬

‫انہیں دوسرے نقادوں سے ممتاز کرتا ہے۔‬

‫باباجی مقصود حسنی کی نظر فن پارے کے تخلیقی تحرک پر‬
‫مرتکز رہتی ہے۔ وہ اس کھوج میں رہتے ہیں کہ کون کون سے‬
‫عوامل تھے‘ جو اس کاوش کی تخلیق کا سبب بنے۔ وہ اس امر‬

‫کو بھی نظر انداز نہیں کرتے کہ اس تخلیق کے اضافے سے‬
‫ادب کا چہرا کیسا دکھائی دے گا۔ لسانیات چونکہ ان کی پسند کا‬
‫میدان ہے‘ اس لیے وہ اس تخلیق کو لسانی حوالہ سے ضرور‬
‫پرکھتے ہیں اور اس کی لسانی خوبیوں وغیرہ پر گفتگو کرتے‬

‫ہیں۔ ان کے نزدیک کوئی جملہ چاہے کسی جاہل کے منہ ہی‬
‫سے کیوں نہ نکلا ہو‘ لسانی حوالہ سے بےکار نہیں۔ اس میں‬
‫کچھ نہ کچھ نیا ضرور ہوتا ہے۔ کوئی اصطلاح میسرآ سکتی ہے‬
‫جو پہلے استعمال میں نہیں آئی ہوتی۔ اس کا مقامی اور نیا تلفظ‬

‫سامنے آ سکتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ وہ اس تخلیق کے‬
‫لسانی پہلو پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔‬

‫ادب کی تنقیدی روایت میں جہاں انہوں نے انفرادی طور پر‬
‫ادیبوں کی تخلیقات کو موضوع بنایا ہے وہاں تحقیقی اور تنقیدی‬

‫کتب پر بھی احسن انداز میں گفتگو کی ہے۔ نفاست اور رکھ‬
‫رکھاؤ کو ان کے مضامین کا طرہءامتیاز قرار دینا غلط نہ ہو گا۔‬
‫میں نے بصد کوشش ان کے پچاس سے زائد مطبوعہ و غیر‬
‫مطبوعہ مضامین کو تلاش کیا ہے۔ ممکن ہے ادبی تحیقیق کرنے‬

‫والوں کے لیے کام کے ثابت ہوں۔ ان مضامین پر تحقیقی کام‬
‫کرنے کی ضرورت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکےگا۔‬

‫ماہنامہ تفاخر لاہور مارچ ‪١-‬‬ ‫بوف کور۔۔۔ایک جائزہ‬

‫‪١٩٩١‬‬

‫اکبر اقبال اور مغربی زاویے ہفت روزہ فروغ حیدرآباد ‪٢- ١٦‬‬

‫جولائی ‪١٩٩١‬‬

‫اکبر اور تہذیب مغرب۔۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق لاہور ‪ ٢٥‬جولائی ‪٣-‬‬

‫‪١٩٩١‬‬

‫نذیر احمد کے کرداروں کا تاریخی شعور ماہنامہ صریر ‪٤-‬‬

‫کراچی مئی ‪١٩٩٢‬‬

‫کرشن چندر کی کردار نگاری ماہنامہ تحریریں لاہور ‪٥-‬‬

‫جون۔جولائی ‪١٩٩٢‬‬
‫اسلوب‘ تنقیدی جائزہ سہ ماہی صحیفہ لاہور جولائی تا ‪٦-‬‬

‫ستمبر ‪١٩٩٢‬‬
‫پطرس بخاری کے قہقہوں کی سرگزشت ماہنامہ تجدید نو ‪٧-‬‬

‫لاہور اپریل ‪١٩٩٣‬‬
‫شیلے اور زاہدہ صدیقی کی نظمیں ماہنامہ تحریریں لاہور ‪٨-‬‬

‫دسمبر ‪١٩٩٣‬‬
‫شوکت الہ آبادی کی نعتیہ شاعری ماہنامہ الاانسان کراچی ‪٩-‬‬

‫دسمبر ‪١٩٩٣‬‬
‫میرے بزرگ میرے ہم عصر‘ ایک جائزہ ماہنامہ اردو ادب ‪١٠-‬‬

‫اسلام آباد اپریل۔جون ‪١٩٩٦‬‬
‫یا عبدالبہا‘ تشریحی مطالعہ ماہنامہ نفحات لاہور جولائی ‪١١-‬‬

‫‪١٩٩٦‬‬
‫ڈاکٹر محمد امین کی ہائیکو نگاری ماہنامہ ادب لطیف ‪١٢-‬‬

‫لاہور اکتوبر ‪١٩٩٦‬‬
‫بیدل حیدری اردو غزل کی توانا آواز مشمولہ شعریات ‪١٣-‬‬

‫شرق و غرب ‪١٩٩٦‬‬
‫کثرت نظارہ۔۔۔ایک منفرد سفرنامہ پندرہ روزہ ہزارہ ٹائمز ‪١٤-‬‬

‫ایبٹ آباد یکم جولائی ‪١٩٩٧‬‬
‫داستان وفا۔۔۔۔ایک مطالعہ ماہنامہ اردو ادب اسلام آباد ‪١٥-‬‬

‫نومبر۔ دسمبر ‪١٩٩٧‬‬
‫شاہی کی کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ‪١٦-‬‬
‫مشمولہ کتاب اردو شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے ‪١٩٩٧‬‬
‫ڈاکٹر بیدل حیدری کی اردو غزل مشمولہ کتاب اردو ‪١٧-‬‬

‫شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے ‪١٩٩٧‬‬

‫پروفیسر مائل کی اردو نظم مشمولہ کتاب اردو شعر۔۔۔فکری ‪١٨-‬‬
‫و لسانی رویے ‪١٩٩٧‬‬

‫علامہ مشرقی اور تسخیر کائنات کی فلاسفی ہفت روزہ ‪١٩-‬‬
‫الاصلاح لاہور ‪ ٥‬تا ‪ ١٨‬مئی ‪١٩٩٨‬‬

‫ڈاکٹر منیر احمد کے افسانے اور مغربی طرز حیات ماہنامہ ‪٢٠-‬‬
‫ادب لطیف لاہور جنوری ‪١٩٩٩‬‬

‫ڈاکٹر منیر احمد کا ایک متحر کردار ماہنامہ لاہور دسمبر ‪٢١-‬‬
‫‪١٩٩٩‬‬

‫حفیظ صدیقی کے دس نعتعہ اشعار ماہنامہ تحریریں لاہور ‪٢٢-‬‬
‫جولائی ‪١٩٩٩‬‬

‫رئیس امروہوی کی قطعہ نگاری ماہنامہ نوائے پٹھان ‪٢٣-‬‬
‫لاہور جون ‪٢٠٠٢‬‬

‫ڈاکٹر وفا راشدی شخصیت اور ادبی خدمات ماہنامہ نوائے ‪٢٤-‬‬
‫پٹھان لاہور جون ‪٢٠٠٢‬‬

‫ڈاکٹر معین الرحمن۔۔۔ ایک ہمہ جہت شخصیت۔۔ مشمولہ نذر ‪٢٥-‬‬
‫معین مرتب محمد سعید ‪٢٠٠٣‬‬

‫قبلہ سید صاحب کے چند اردو نواز جملے نوائے پٹھان ‪٢٦-‬‬
‫لاہور جولائی ‪٢٠٠٤‬‬

‫مہر کاچیلوی کے افسانے۔۔۔۔۔تنقدی مطالعہ سہ ماہی لوح ‪٢٧-‬‬
‫ادب حیدرآباد اپریل تا ستمبر ‪٢٠٠٤‬‬

‫اردو شاعری کا ایک خوش فکر شاعر ماہنامہ رشحات ‪٢٨-‬‬
‫لاہور جولائی ‪٢٠٠٥‬‬

‫عابد انصاری احساس کا شاعر ماہنامہ رشحات لاہور ‪٢٩-‬‬
‫مارچ ‪٢٠٠٦‬‬

‫پروفیسر مائل کی غزل کی فکر اور زبان ماہنامہ رشحات ‪٣٠-‬‬

‫لاہور اگست ‪٢٠٠٦‬‬
‫دل ہے عشقی تاج کا ایک نقش منفرد کتابی سلسلہ پہچان ‪٣١-‬‬

‫نمبر‪٢٤‬‬
‫جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر ہماری ویب ڈاٹ کام ‪٣٢-‬‬

‫اردو میں منظوم سیرت نگاری اردو نیٹ جاپان ‪٣٣-‬‬
‫اختر شمار کی اختر شماری کتابت شدہ مسودہ ‪٣٤-‬‬
‫سرسید اور ڈیپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری کتابت شدہ ‪٣٥-‬‬

‫مسودہ‬
‫سرسید اردو۔ معروضی حالات کے نظریے اساس کتابت ‪٣٦-‬‬

‫شدہ مسودہ‬
‫اردو داستان۔۔ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کتابت شدہ مسودہ ‪٣٧-‬‬

‫تاریخ اردو۔۔۔ایک جائزہ کتابت شدہ مسودہ ‪٣٨-‬‬
‫اکبر الہ آبادی تحقیقی وتنقدی مطالعہ کتابت شدہ مسودہ ‪٣٩-‬‬
‫سروراور فسانہءعجائب ایک جائزہ کتابت شدہ مسودہ ‪٤٠-‬‬

‫کرشن چندرایک تعارف کتابت شدہ مسودہ ‪٤١-‬‬
‫صادق ہدایت کاایک کردار۔ کتابت شدہ مسودہ ‪٤٢-‬‬
‫اختر شمار کی شاعری کے فکری زاویے کتابت شدہ ‪٤٣-‬‬

‫مسودہ‬
‫دیوان غاب کے متن مسلہ کتابت شدہ مسودہ ‪٤٤-‬‬
‫سرسید تحریک اور اکبر کی ناگزیریت کتابت شدہ مسودہ ‪٤٥-‬‬
‫ڈاکٹر سعادت سعید کے ناوریجین شاعری سے اردو تراجم ‪٤٦-‬‬

‫کتابت شدہ مسودہ‬
‫سوامی رام تیرتھ کی شاعری کا لسانی مطاعہ مسودہ ‪٤٧-‬‬
‫اور شمع جلتی رہے گی روزنامہ مشرق لاہور ‪ ١٨‬ستمبر ‪٤٨-‬‬

‫‪١٩٨٨‬‬

‫دو علما کی موت پر لکھا گیا ایک تاثراتی مضمون جو ‪٤٩-‬‬
‫اسلوبی اعتبار سے بڑا جاندار ہے۔‬

‫پیاسا ساگر۔۔۔ گلوکار مکیش کی موت پر لکھا گیا مضون ‪٥٠-‬‬
‫ہفت روزہ اجالا لاہور میں شائع ہوا‬

‫کرشن چندر‘ منفرد ادیب۔۔۔ کرشن چندر کی موت پر لکھا ‪٥١-‬‬
‫گیا۔ ہفت روزہ ممتاز لاہور ‪ ١٨‬مئی ‪١٩٧٧‬‬

‫ڈاکٹر گوہر نوشاہی الادب گوگڈن جوبلی نمبر ‪ ١٩٩٧‬ادبی ‪٥٢-‬‬
‫مجلہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور‬

‫علامہ طالب جوہری کی مرثیہ نگاری ‪٥٣-‬‬
‫پروفیسر محمد رضا‘ شعبہءاردو گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول‬

‫لائنز لاہورکے ریکارڈ میں‬
‫‪ ٥٤‬میجک ان ریسرچ اور میری چند معروضات اردوانجمن ڈاٹ‬

‫کام‬
‫قصہ ایک قلمی بیاض کی خریداری کا ‪٥٥-‬‬
‫پروفیسر سوامی رام تیرتھ کی غالب طرازی ‪٥٦-‬‬
‫جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر ‪٥٧-‬‬
‫اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ ‪٥٨-‬‬
‫اختر شمار کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔ایک لسانیاتی جائزہ ‪٥٩-‬‬

‫تمثال میں لسانیاتی تبسم کی تلاش ‪٦٠-‬‬
‫شکیب جلالی کے کلام کی ہجویہ تشریح ‪٦١-‬‬
‫سعادت سعید۔۔۔۔۔اردو شعر کی زبان کا جادوکر ‪٦٢-‬‬
‫سرور عالم راز‘ ایک منفرد اصلاح کار ‪٦٣-‬‬
‫شکیب جلالی کی زبان اور انسانی نفسیات ‪٦٤-‬‬
‫محمد امین کی شاعری ۔۔۔۔۔۔۔ عصری حیات کی ہم سفر ‪٦٥-‬‬
‫ردی چڑھی رفتہ کی ایک منہ بولتی شہادت ‪٦٦-‬‬

‫شاعری اور مغرب کے چند ناقدین ‪٦٧-‬‬
‫ٹی ایس ایلیٹ اور روایت کی اہمیت ‪٦٨-‬‬

‫یاران اردو انجمن‪ :‬تسلیمات‬

‫موجودہ دور کے رسالوں اور کتابوں کا جائزہ لیا جائے یا انٹرنیٹ‬
‫پر اردو کے حوالے سے ہونے والے کام پر ایک نظر ڈالی جائے‬
‫تو فورا یہ معلوم ہو جائے گا کہ اردو شعر وادب کی ابتدا اور انتہا‬
‫صرف غزل ہے۔ جدھر دیکھئے ادھر شاعر اور تک بند غزل کے‬
‫پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں اور ہر ایک خود کو میرتقی میر اور‬
‫مرزا غالب سے کم نہیں سمجھتا۔ اگر آپ اس بیان کو مبالغہ آمیز‬

‫سمجھتے ہیں تو فیس بک پر جا کر کسی کی غزل پر تنقید کر‬
‫کے دیکھ لیجئے! فورا ہی بقول شخصے آٹے دال کا بھائو معلوم‬
‫ہو جائے گا۔ نثر نگاری اور خصوصا تنقید تو جیسے اردو ادب‬
‫کے افق سے غائب ہی ہو گئی ہے۔ اہل فکرونظر جانتے ہیں کہ ہر‬
‫زبان کی ترقی اور پیش رفت کے لئے تنقید و تحقیق کلیدی حیثیت‬
‫رکھتی ہے۔ اگر یہ دو باتیں نہیں ہوں گی تو زبان وادب جمود اور‬
‫اضمحلال کا شکار ہوکر رہ جائیں گے اور اس کا انجام ظاہر ہے‬
‫کہ کیا ہوگا۔ نئی نسل خاص طور سے اس حقیقت سے نا بلد ہے‬

‫اور یہ بہت تشویش کی بات ہے۔‬
‫ڈاکٹر حسنی صاحب ان ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی‬
‫ساری ادبی زندگی تخلیق‪ ،‬تنقید اور تحقیق کی سنگلاخ زمین کی‬
‫آبیاری میں صرف کی ہے۔ زیر نظر مضمون میں دی گئی فہرست‬

‫مضامین حسنی صاحب کی بالغ نظری اور علوئے فکر کی‬


Click to View FlipBook Version