The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-02-21 22:26:52

khidmaat (2)

khidmaat (2)

‫!تخلیق جہاں سے کم نہیں ہے‬
‫سرور عالم راز‬

‫ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ایک اسلامی مفکر اور اسکالر‬

‫مرتبہ‪ :‬پروفیسر یونس حسن‬

‫ڈاکٹر مقصود حسنی بلاشبہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک‬
‫ہیں۔ وہ مختلف ادبی سائنسی سماجی صحافتی وغیرہ فیلڈز میں‬
‫اپنے قلم کا جوہر دکھلاتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے دوجنوں‬
‫مقالے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ بیس سے‬
‫زائد کتب بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ یہ اس امر کی دلیل ہے‬
‫کہ ان کا تخلیقی اور تحقیقی سفر نت نئی منزلوں کی جانب رواں‬
‫دواں رہا ہے۔ ان کے اس سفر میں ہر سطح پر تنوع اور رنگا‬
‫رنگی کی صورت نطر آتی ہے۔ ڈاکٹر اختر شمار انہیں ادبی جن‬
‫کہتے ہیں۔ راقم نے حال ہی میں ان کے اسلام سے متعلق کچھ‬
‫مضامین کا سراغ لگایا ہے۔ یہ مختلف اخبارات میں شائع ہو‬
‫چکے ہیں۔ یہ کل کتنے ہوں گے ٹھیک سے کہہ نہیں سکتا تاہم‬

‫ستر کا میں کھوج لگا سکا۔‬

‫ان مضامین کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ڈاکٹر‬
‫صاحب کا اسلام کے بارے مطالعہ سرسری اور عام نوعیت کا‬
‫نہیں۔ انہوں نے اپنے مضامین میں انسان اور عصر حاضر کے‬
‫مسائل کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ ان کے موضوعات ان کی‬
‫گہری تلاش اور سنجیدہ غور و فکر کا مظہر ہیں۔ وہ روایت سے‬
‫ہٹ کر کفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے فلسیفانہ موشلافیوں کو‬
‫چھوڑ کر نہایت سادہ اور دلنشین انداز میں اپنی بات قاری تک‬

‫پہنچائی ہے۔ اسلام کا موڈریٹ اور روشن چہرا دکھایا ہے۔ انہوں‬
‫نے ہر قسم کے تعصبات تنگ نظری اور رجعت پسندی کی نفی‬
‫کرتے ہوئے حقیقت اور انسانیت سے محبت کے پہلو کو اجاگر‬

‫کیا ہے۔‬

‫ان کے نزدیک ہر انسان قابل قدر ہے اور اسے معاشی سماجی‬
‫عزت اور انصاف مہیا ہونا چاہیے۔ اسلام کے گوناں گوں‬

‫موضوعات اور پہلووں پر لکھے ہوئے مضامین میں رواداری‬
‫ایثار اور قربانی کا پیغام ملتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان کو‬
‫دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کیے تخلیق کیا گیا ہے۔‬

‫اسے ان کی مشکلات مصائب اور المیوں کے تدارک کے لیے‬
‫اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ان کے نزدیک اختلاف رائے پرداشت‬
‫کرنے کا مادہ پیدا کرنا چاہیے۔ دلیل سے بات کرنے کی طرح‬

‫ڈالنا ہی آج کی ضرورت ہے۔‬

‫اسلام کے گونا گوں موضوعات پر ڈاکٹر مقصود حسنی کے‬
‫مضامین اور کالم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ وہ صرف اردو‬

‫ادب کی یگانہء روزگار شخصیت نہیں ہیں بلکہ اسلامی امور‬
‫کے بھی ایک اہم اسکالر ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ شیڈ اور‬
‫زاویہ شاید ان کے بہت سے پڑھنے والوں پر وا نہ ہوا ہو گا۔‬
‫راقم نے بصد کوشش ستر مضامین کا کھوج لگایا ہے۔ ہو سکتا‬
‫ہے میری یہ کوشش کسی کے کام کی نکلے۔ ان مضامین کے‬
‫تناظر میں ان کی اسلامی سوچ کی ندرت اوراپج انہیں سمجھنے‬
‫میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان کا یہ اسلوب روانی دلکشی‬
‫اور مخصوص رعنائی رکھتا ہے۔ ذیل میں ان کے مضامین کی‬

‫فہرست قارئین کی نذر کی جاتی ہے۔‬

‫تعبیر شریعت‘ قومی اسمبلی اور مخصوص صلاحیتیں ‪١-‬‬

‫روزنامہ مشرق لاہور ‪ ٢٠‬دسمبر ‪١٩٨٦‬‬

‫شریعت عین دین نہیں‘ جزو دین ہے ‪٢-‬‬

‫روزنامہ مشرق لاہور ‪ ٥‬جنوری ‪١٩٨٧‬‬

‫اسلام کا نظریہء قومیت اور جی ایم سید کا موقف روزنامہ ‪٣-‬‬

‫مشرق لاہور ‪ ١٥‬فروری ‪١٩٨٧‬‬

‫غیر اسلامی قوتیں اور وفاق اسلام کی ضرورت ‪٤-‬‬

‫روزنامہ مشرق لاہور ‪ ٢٩‬اپریل ‪١٩٨٧‬‬

‫روزنامہ ‪٥-‬‬ ‫غیر اسلامی قوانین اور وفاق اسلام‬

‫مشرق لاہور ‪ ٢٨‬اپریل ‪١٩٨٧‬‬

‫روزنامہ ‪٦-‬‬ ‫اسلام ایک مکمل ضابطہءحیات‬

‫وفاق لاہور ‪ ٧‬جنوری ‪١٩٨٨‬‬

‫اسلام مسائل و معاملات کے حل کے لیے اجتہاد کے در وا ‪٧-‬‬

‫کرتا ہے‬

‫روزنامہ مشرق لاہور ‪ ٧‬جنوری ‪١٩٨٨‬‬

‫روز نامہ ‪٨-‬‬ ‫اسلام سیاست اور جمہوریت‬

‫‪-‬جنگ لاہور ‪ ٢٦‬جنوری ‪١٩٨٨٨‬‬

‫روزنامہ ‪٩-‬‬ ‫اسلام میں سپر پاور کا تصور‬

‫مشرق لاہور ‪ ٥‬فروری ‪١٩٨٨‬‬

‫ہفت روزہ ‪١٠-‬‬ ‫پاکستان اور غلبہءاسلام دو اقساط‬

‫‪ ١٩‬فروری ‪‘١٩٨٨‬الاصلاح لاہور ‪١٢‬‬

‫مسلمانوں کی نجات اسلام میں ہے ہفت روزہ الاصلاح ‪١١-‬‬

‫لاہور ‪ ٢٢‬فروری ‪١٩٨٨‬‬

‫انسان کی ذمہ داری خیر و نیکی کی طرف بلانا اور برائی ‪١٢-‬‬

‫سے منع کرنا ہے‬

‫روزنامہ مشرق لاہور ‪٢٢‬فروری ‪١٩٨٨‬‬

‫خداوند عالم‘ انسان دوست حلقے اور انسانی خون ‪١٣-‬‬

‫روزنامہ مشرق لاہور ‪ ٧‬مارچ ‪١٩٨٨‬‬

‫روزنامہ ‪١٤-‬‬ ‫اسلامی دنیا اور قران و سننت‬

‫مشرق لاہور ‪ ٢٦‬مارچ ‪١٩٨٨‬‬

‫جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ‪١٥-‬‬

‫روزنامہ مشرق لاہور ‪ ٢٩‬مارچ ‪١٩٨٨‬‬

‫ربط ملت میں علمائے امت کا کردار ہفت روزہ الاصلاح ‪١٦-‬‬

‫لاہور ‪ ١٥‬اپریل ‪١٩٨٨‬‬

‫غلبہءاسلام کے لیے متحد اور یک جا ہونے کی ضرورت ‪١٧-‬‬

‫روزنامہ مشرق لاہور‪ ٣٠‬اپریل ‪١٩٨٨‬‬

‫اسلام کا پارلیمانی نظام رائے پر استوار ہوتا ہے روزنامہ ‪١٨-‬‬

‫مشرق لاہور ‪ ٧‬مئی ‪١٩٨٨‬‬

‫نفاذ اسلام اور عصری جمہوریت کے حیلے روزنامہ ‪١٩-‬‬

‫نوائے وقت لاہور ‪ ١٤‬مئی ‪١٩٨٨‬‬

‫ہفت روزہ ‪٢٠-‬‬ ‫اسلام انسان اور تقاضے‬

‫الاصح لاہور ‪ ٢٧‬مئی ‪١٩٨٨‬‬

‫روزنامہ مشرق ‪٢١-‬‬ ‫بنگلہ دیش میں اسلام یا سیکولرازم‬

‫لاہور ‪١‬جون ‪١٩٨٨‬‬

‫بنگلہ دیش میں اسلام۔۔۔۔۔اسلامی تاریخ کی درخشاں مثال ‪٢٢-‬‬

‫روزنامہ مشرق لاہور ‪ ٢٠‬جون ‪١٩٨٨‬‬

‫روزنامہ ‪٢٣-‬‬ ‫اسلام کا نظریہءقومیت اور اسلامی دنیا‬

‫امروز لاہور ‪ ٢٠‬جون ‪١٩٨٨‬‬

‫روزنامہ ‪٢٤-‬‬ ‫اسلام کا نظریہءقومیت‬

‫مشرق لاہور ‪ ١٥‬جولائی ‪١٩٨٨‬‬

‫ہماری نجات اتحاد اور لہو سے مشروط ہے روزنامہ ‪٢٥-‬‬

‫مشرق لاہور ‪ ٣٠‬اگست ‪١٩٨٨‬‬

‫روزنامہ وفاق ‪٢٦-‬‬ ‫اسلام اور کفر کا اتحاد ممکن نہیں‬

‫لاہور ‪ ٣٠‬اگست ‪١٩٨٨‬‬

‫روزنامہ امروز ‪٢٧-‬‬ ‫انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے‬

‫لاہور ‪ ٣٠‬اگست ‪١٩٨٨‬‬

‫روزنامہ مشرق ‪٢٨-‬‬ ‫جمہوریت اشتراکیت اور اسلام‬

‫لاہور ‪ ٣٠‬اگست ‪١٩٨٨‬‬

‫حضور کا پیغام ہے برائی کو طاقت سے روک دو روزنامہ ‪٢٩-‬‬

‫مشرق لاہور ‪ ٣١‬اگست ‪١٩٨٨‬‬

‫امت مسلمہ رنگ و نسل‘ علاقہ زبان اور نظریات کے ‪٣٠-‬‬

‫حصار میں مقید ہے‬

‫روزنامہ مشرق لاہور ‪ ٣١‬اگست ‪١٩٨٨‬‬

‫آزاد مملکت میں اسلامی نقطہءنظر اور آزادی روزنامہ ‪٣١-‬‬

‫وفاق لاہور ‪ ٥‬ستمبر ‪١٩٨٨‬‬

‫روز نامہ ‪٣٢-‬‬ ‫اسلامی دنیا سے ایک سوال‬

‫وفاق لاہور ‪ ٥‬ستمبر ‪١٩٨٨‬‬

‫روزنامہ ‪٣٣-‬‬ ‫پاکستان میں نفاذاسلام کا عمل‬

‫وفاق لاہور ‪ ٢‬اکتوبر ‪١٩٨٨‬‬

‫روزنامہ وفاق ‪٣٤-‬‬ ‫اسلام میں عورت کا مقام‬

‫لاہور ‪ ٢٥‬اکتوبر ‪١٩٨٨‬‬

‫انسانی فلاح اسلام کےبغیر ممکن نہیں روزنامہ وفاق ‪٣٥-‬‬

‫لاہور ‪ ٢٨‬اکتوبر ‪١٩٨٨‬‬

‫اسلام کی پیروی کا دعوی تو ہے مگر! روزنامہ آفتاب ‪٣٦-‬‬

‫لاہور ‪ ٢٨‬اکتوبر ‪١٩٨٨‬‬

‫پاکستان میں نفاذ اسلام کیوں نہیں ہو سکا روزنامہ ‪٣٧-‬‬

‫‪ ٣١‬اکتوبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫وفاق لاہور‬

‫روزنامہ ‪٣٨-‬‬ ‫نفاذ اسلام میں تاخیر کیوں‬

‫آفتاب لاہور ‪ ٨‬نومبر ‪١٩٨٨‬‬

‫ہفت روزہ ‪٣٩-‬‬ ‫اسلامی دنیا کے قلعہ میں داڑاڑیں کیوں‬

‫جہاں نما لاہور ‪ ١٠‬نومبر ‪١٩٨٨‬‬

‫اعتدال اور توازن کا رستہ عین اسلام ہے روزنامہ مشرق ‪٤٠-‬‬

‫لاہور ‪ ٢٠‬نومبر ‪١٩٨٨‬‬

‫روزنامہ مشرق ‪٤١-‬‬ ‫اسلام کا نظام سیاست و حکومت‬

‫لاہور ‪ ٢٢‬نومبر ‪١٩٨٨‬‬

‫روزنامہ ‪٤٢-‬‬ ‫شناخت‘ اسلامائزیشن کا پہلا زینہ‬

‫مشرق لاہور ‪ ٣٠‬نومبر ‪١٩٨٨‬‬

‫اسلام کے داعی طبقے کی شکست کیوں روزنامہ ‪٤٣-‬‬

‫مساوات لاہور ‪ ٥‬دسمبر ‪١٩٨٨‬‬

‫روزنامہ وفاق ‪٤٤-‬‬ ‫کیا اسلام ایک قدیم مذہب ہے‬

‫لاہور ‪ ١٠‬جنوری ‪١٩٨٩‬‬

‫روزنامہ وفاق ‪٤٥-‬‬ ‫ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ‬

‫لاہور ‪ ٢‬فروری ‪١٩٨٩‬‬

‫اسلام اور عصری جمہوریت چار اقساط روزنامہ وفاق ‪٤٦-‬‬

‫لاہور‬

‫‪ ٢٨‬اگست ‪‘١٩٨٩‬مارچ ‪‘٣‬فروری‬

‫اہل اسلام کے لیے لمحہءفکریہ روز نامہ وفاق لاہور ‪٤٧- ٨‬‬

‫مارچ ‪١٩٨٩‬‬

‫اسلام دوست حلقوں کے لیے لمحہءفکریہ روزنامہ وفاق ‪٤٨-‬‬

‫لاہور ‪ ١٩‬مارچ ‪١٩٨٩‬‬

‫غیر اسلامی دنیا کے خلاف جہاد کرنے کی ضرورت ‪٤٩-‬‬

‫روزنامہ وفاق لاہور ‪ ١٩‬مارچ ‪١٩٨٩‬‬

‫اسلامی دنیا‘ ذلت و خواری کیوں روزنامہ وفاق لاہور ‪٥٠-‬‬

‫‪ ٢٢‬مئی ‪١٩٨٩‬‬

‫امور حرامین میں اسلامی دنیا کا کردار ماہنامہ ‪٥١-‬‬

‫وحدت اسلامی اسلام آباد محرم ‪١٣١١‬ھ‬

‫روزنامہ وفاق ‪٥٢-‬‬ ‫حج کی اہمیت عظمت اور فضیلت‬

‫لاہور جولائی ‪١٩٨٩‬‬

‫اسلامی مملکت میں سربراہ مملکت کی حیثیت روزنامہ ‪٥٣-‬‬

‫وفاق لاہور ‪ ٦‬جولائی ‪١٩٨٩‬‬

‫روز نامہ ‪٥٤-‬‬ ‫نفاذ اسلام کی کوششیں‬

‫وفاق لاہور ‪ ٣‬اگست ‪١٩٨٩‬‬

‫اسلام عصر جدید کے تقاضے پورا کرتا ہے روزنامہ ‪٥٥-‬‬

‫مشرق لاہور ‪ ٤‬اگست ‪١٩٨٩‬‬

‫روزنامہ‬ ‫اسلام اور عصری ے جمہوریت چار اقساط‬

‫وفاق لاہور‬

‫‪ ٢٨‬اگست ‪‘١٩٨٩‬مارچ ‪‘٣‬فروری‬

‫مسلم دنیا کی نادانی جوہرقسم کی ارزانی ہفت روزہ جہاں ‪٥٦-‬‬

‫نما لاہور ‪ ١٧‬ستمبر ‪١٩٨٩‬‬

‫روزنامہ ‪٥٧-‬‬ ‫اسلام میں جہاد کی ضرورت و اہمیت‬

‫وفاق لاہور ‪ ٣٠‬ستمبر ‪١٩٨٩‬‬

‫روزنامہ وفاق ‪٥٨-‬‬ ‫ورقہ بن نوفل کا قبول‬

‫لاہور ‪ ١٥‬اکتوبر ‪١٩٨٩‬‬

‫روزنامہ مشرق ‪٥٩-‬‬ ‫اسلام میں جرم و سزا کا تصور‬

‫لاہور ‪ ١٥‬اکتوبر ‪١٩٨٩‬‬

‫پاکستان اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے ‪٦٠-‬‬

‫لیے حاصل کیا گیا تھا‬

‫روزنامہ مشرق لاہور ‪ ١٥‬اکتوبر ‪١٩٩٠‬‬

‫ہم اسلام کے ماننے والے ہیں پیروکار نہیں اردو نیٹ ‪٦١-‬‬

‫جاپان‬

‫اردو نیٹ ‪٦٢-‬‬ ‫ہم مسلمان کیوں ہیں‬

‫جاپان‬

‫اردو نیٹ ‪٦٣-‬‬ ‫مذہب اور حقوق العباد کی اہمیت‬

‫جاپان‬

‫ورڈز ‪٦٤-‬‬ ‫آقا کریم کی آمد‬

‫ولیج ڈاٹ کام‬

‫فورم ‪٦٥-‬‬ ‫الله انسان کی غلامی پسند نہیں کرتا‬

‫پاکستان ڈاٹ کام‬

‫سکربڈ ‪٦٦-‬‬ ‫مسلمان کون ہے‬

‫ڈاٹ کام‬

‫اردو نیٹ ‪٦٧-‬‬ ‫سکھ ازم یا ایک صوفی سلسلہ‬

‫جاپان‬

‫شرک ایک مہلک اور خطرناک بیماری ‪٦٨-‬‬

‫‪www.dirale.com‬‬

‫اسلامی سزائیں اور اسلامی و غیراسلامی انسان اردو ‪٦٩-‬‬

‫نیٹ جاپان‬

‫سکربڈ ‪٧٠-‬‬ ‫پہلا آدم کون تھا‬

‫ڈاٹ کام‬

‫ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم‬

‫از پروفیسر یونس حسن‬

‫ڈاکٹر مقصود حسنی ایک نامور محقق‘ نقاد اور ماہر‬
‫لسانیات ہونے کے ساتھ ایک کامیاب مترجم بھی ہیں۔ انہوں‬
‫نے جن فن پاروں کا ترجمہ کیا ہے ان پر طبع زاد ہونے کا‬
‫گمان گزرتا ہے۔ ان کے تراجم سادگی سلاست اور رونی کا‬
‫عمدہ نمونہ ہیں۔ ایک کامیاب مترجم کے لیے ضروری ہوتا‬
‫ہے کہ وہ اصل کے مفاہیم کو خوب ہضم کرکے ترجمے کا‬

‫فریضہ انجام دے تا کہ ترجمہ اصل کے قریب تر ہو۔‬
‫موصوف کے تراجم کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے‬
‫اصل کی تفہیم پر دسترس حاصل کرنے کے بعد ہی یہ کام کیا‬

‫ہے۔‬
‫ان کے تراجم روایت سے ہٹ کر ہیں۔ یہاں تک کہ متعلقہ فن‬

‫پارے کی ہیئت سے بھی تجاوز کیا ہے۔ اس کی مثال‬
‫رباعیات کا سہ مصرعی ترجمہ ہے جسے برصغیر کے‬
‫نامور علما نے پسند کیا اور حسنی صاحب کو اس کام پر داد‬
‫بھی دی۔ ان کے تراجم میں ایک ندرت اور چاشنی پائی جاتی‬
‫ہے۔ ان کے تراجم کو جہاں ایک نئی جہت عطا ہوئی ہے‬
‫وہاں الفاظ پر ان کی غیر معمولی گرفت کا بھی اندازہ ہوتا‬

‫ہے۔‬
‫حسنی صاحب کے تراجم کے مطالعہ سے یہ بھی کھلتا ہے‬
‫کہ مترجم لفظ کے نئے نئے استعمالات سے آگاہ ہے۔ ڈاکٹر‬

‫ابو سعید نورالدین نے ان تراجم پر بات کرتے ہوئے درست‬
‫‪:‬کہا تھا‬

‫واقعی تعجب ہوتا ہے۔ آپ نے رباعیات کا اردو ترجمہ چہار‬
‫مصرعی کی بجائے سہ مصرعی میں اتنی کامیابی کے ساتھ‬

‫کیسے کیا۔ یہ آپ کا کمال ہے۔‬
‫ترجمے کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ مترجم کی اس میں‬
‫مکمل دلچسپی ہو ورنہ اس کی ساری محنت اکارت چلی‬
‫جائے گی۔ حسنی صاحب نے ترجمے کا کام پوری دلچسپی‬
‫اور بھرپور کمٹ منٹ کے ساتھ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان‬
‫کے تراجم اصل کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے‬
‫رباعیات خیام کے تراجم کے حوالہ سے پروفیسر کلیم ضیا‬

‫‪:‬نے کہا تھا‬
‫سہ مصرعی ترجمے ماشاءالله بہت عمدہ ہیں۔ ہر مصرعہ‬
‫رواں ہے۔ ابتددائی دونوں مصرعے پڑھ پڑھ لینے کے بعد‬
‫مفہوم اس وقت تک واضح اور مکمل نہیں ہو سکتا جب تک‬
‫کہ مصرع سوئم پڑھ نہ لیا جائے۔ یہی خوبی رباعی میں بھی‬

‫‪:‬ہے کہ چوتھا مصرع قفل کا کام کرتا ہے۔‬
‫ان کے تراجم کا یہی کمال نہیں کہ وہ اصل کے مطابق ہیں‬
‫بلکہ ان میں جازبیت اور حسن آفرینی کو بھی شامل کیا گیا‬
‫ہے۔ بڑھتے جائیں طبیعت بوجھل نہیں ہوتی۔ ان کے تراجم‬
‫میں پایا جانے والا فطری بہاؤ قاری کو اپنی گرفت میں لے‬
‫لیتا ہے۔ شاید اسی بنیاد پر ڈاکٹر عبدالقوی ضیاء نے کہا‬

‫‪:‬تھا‬
‫حسنی صاحب ماہر تیراک اور غوطہ خور ہیں ان کے سہ‬
‫مصرعوں میں اثرآفرینی ہے‘ روانی ہے‘ حسن بیان ہے‘‬

‫تازہ کاری اور طرحداری ہے۔ قاری کو مفہوم سمجھنے میں‬
‫کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی بلکہ لطف آتا ہے۔‬

‫گویا ان کا مخصوص اسلوب تکلم اور طرز ادا ترجمے کو‬
‫کہیں بھی خشک اور بےمزہ نہیں ہونے دیتا بلکہ اس کی‬

‫اسلوبی اور معنوی سطح برقرار رہتی ہے۔‬
‫انہوں نے عمر خیام کی چوراسی رباعیات کا اردو ترجمہ کیا۔‬
‫یہی نہیں اپنی کتاب۔۔۔۔۔ شعریات خیام۔۔۔۔۔ میں خیام کی سوانح‬
‫کے ساتھ ساتھ چار ابواب میں ان کا تنقیدی و لسانی جائزہ‬

‫بھی پیش کیا۔‬
‫پچاس ترکی نظموں کا اردو ترجمہ کیا اس ترجمے کو ڈاکٹر‬

‫نوریہ بلیک قونیہ یونیورسٹی نے پسند کیا۔‬
‫یہ ترجمہ ۔۔۔۔۔ستارے بنتی آنکھیں۔۔۔۔۔ کے نام سے کتابی‬

‫شکل میں پیش کیا گیا۔‬
‫انہوں نے فینگ سیو فینگ کے کلام پر تنقیدی گفتگو کی۔ ان‬

‫کا یہ تنقیدی مضمون۔۔۔۔۔ فینگ سیو فینگ جذبوں کا‬
‫شاعر۔۔۔۔۔۔ کے عنوان سے روزنامہ نوائے وقت لاہور کی‬
‫اشاعت اپریل ‪ 1988 '8‬میں شائع ہوا۔ اس کی نظموں کے‬

‫ترجمے بھی پیش کیے۔‬
‫اس کے علاوہ معروف انگریزی شاعر ولیم بلیک کی نظموں‬
‫کا بھی اردو ترجمہ کیا۔ ان کے یہ تراجم تجدید نو میں شائع‬

‫ہوئے۔ ہنری لانگ فیلو کی نظموں کے ترجمے بھی کیے۔‬
‫قراتہ العین طاہرہ کی غزلوں کا پنجابی اور انگریزی آزاد‬

‫ترجمہ کیا۔‬
‫سو کے قریب غالب کے اشعار کا پنجابی ترجمہ کیا۔ ان کے‬

‫یہ تراجم انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔‬

‫فرہنگ غالب ایک نادر مخطوطہ‬

‫از پروفیسر یونس حسن‬

‫ڈاکٹر مقصود حسنی عصر حاضر کے ایک نامور غالب‬
‫شناس ہیں۔ غالب کی لسانیات پر ان کی متعدد کتابیں چھپ‬
‫چکی ہیں۔ جناب لطیف اشعر ان پر اس حوالہ سے ایم فل‬
‫سطح کا تحقیقی مقالہ بھی رقم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مقصود‬
‫‘اصطلاحی ‘تمدنی ‘حسنی نے لفظیات غالب کے تہذیبی‬
‫ساختیاتی اور لسانیاتی پہلووں پر نہایت جامع اور وقع کام‬
‫کیا ہے۔ ان کا کام اپنی نوعیت کا منفرد اور جداگانہ کام ہے۔‬
‫ابھی تک غالب کی لسانیات پر تحقیقی کام دیکھنے میں نہیں‬
‫آیا۔ ان کے کام کی انفرادیت اس حوالے سے بھی ہے کہ آج‬
‫تک غالب کی تشریحات کے حوالہ سے ہی کام ہوا ہے جبکہ‬

‫غالب کی لسانیات پر ابھی تک کسی نے کام نہیں کیا۔‬
‫لسانیات غالب پر ان کا ایک نادر مخطوطہ۔۔۔۔فرہنگ غالب۔۔۔۔‬
‫بھی ہے۔ یہ مخطوطہ فرہنگ سے زیادہ لغات غالب ہے۔ اس‬
‫مخطوطے کے حوالہ سے لفظات غالب کی تفہیم میں شارح‬
‫کو کئی نئے گوشے ملتے ہیں اور وہ تفہیم میں زیادہ آسانی‬
‫محسوس کر سکتا ہے۔ غالب کے ہاں الفظ کا استعمال روایت‬
‫سے قطعی ہٹ کر ہوا ہے۔ روایتی اور مستعمل مفاہیم میں‬
‫اشعار غالب کی تفہیم ممکن ہی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ‬
‫لغات بھی عجب ڈھنگ سے ترتیب دی ہے۔ لفظ کو عہد غالب‬
‫سے پہلے‘ عہد غالب اور عہد غالب کے بعد تک دیکھا ہے۔‬

‫ان کے نزدیک غالب شاعر فردا ہے۔ لفظ کے مفاہیم اردو‬
‫اصناف شعر میں بھی تلاش کیے گیے ہیں۔ یہاں تک کہ جدید‬
‫صنف شعر ہائیکو اور فلمی شاعری کو بھی نظرانداز نہیں‬

‫کیا گیا۔ امکانی معنی بھی درج کر دیے گیے ہیں۔‬
‫اس مخطوطے کے مطالعہ سے ڈاکٹر مقصود حسنی کی‬
‫لفظوں کے باب میں گہری کھوج اور تلاش کا پتا جلتا ہے۔‬
‫لگن اور ‘اس تلاش کے سفر میں ان کی ریاضت‘ مغز ماری‬
‫سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے لفظ کی تفہیم کے‬
‫لیے‘ اردو کی تمام شعری اصناف کو کھنگال ڈالا ہے۔ ایک‬
‫ایک لفظ کے درجنوں اسناد کے ساتھ معنی پڑھنے کو ملتے‬
‫ہیں۔ ماضی سے تادم تحریر شعرا کے کلام سے استفادہ کیا‬
‫گیا ہے۔ گویا لفظ کے مفاہیم کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔‬
‫اس نادر مخطوطے کا سرسری جائزہ بھی اس جانب توجہ‬
‫مبذول کراتا ہے کہ غالب کو محض سطعی انداز سے نہ‬
‫دیکھیں۔ اس کے کلام کی تفہیم سرسری مطالعے سے ہاتھ‬
‫آنے کی نہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے سنجیدہ غوروفکر‬
‫کرنا پڑتا ہے۔ پروفیسر حسنی کی یہ کاوش فکر و تلاش‬
‫اسی امر کی عملی دلیل ہے۔ انہوں غالب کے قاری کے لیے‬
‫آسانیاں پیدا کرنے کے لیے اپنی سی جو کوششیں کی ہیں‬

‫وہ بلاشبہ لایق تحسین ہیں۔‬
‫ماضی میں غالب پر بڑا کام ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ وہ‬

‫آج بھی ادبی حلقوں میں تشریح طلب مصرعے کا درجہ‬
‫رکھتا ہے۔ تشنگی کی کیفیت میں ہرچند اضافہ ہی ہوا ہے۔‬
‫اس صورت حال کے تحت بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے‬
‫کہ غالب مستقبل قریب و بعید میں اپنی ضرورت اور اہمیت‬

‫نہیں کھوئے گا یا اس پر ہونے والے کام کو حتمی قرار نہیں‬
‫دے دیا جائے گا۔ جہاں تفہیم غالب کی ضرورت باقی رہے‬
‫گی وہاں ڈاکٹر مقصود حسنی کی فرہنگ غالب کو بنیادی‬
‫ماخذ کا درجہ بھی حاصل رہے گا۔ اسے تفہیم غالب کی ذیل‬
‫میں نظر انداز کرنے سے ادھورہ پن محسوس کیا جاتا رہے‬
‫گا۔‬
‫اس مخطوطے کی اشاعت کی جانب توجہ دینا غالب فہمی‬
‫کے لیے ازبس ضروری محسوس ہوتا ہے۔ جب تک یہ‬
‫مخطوطہ چھپ کر منظر عام پر نہیں آ جاتا غالب شناسی‬
‫تشنگی کا شکار رہے گی۔ لوگوں تک اس میں موجود‬
‫گوشوں کا پہنچنا غالب شناسی کا تقاضا ہے کیونکہ جب تک‬
‫یہ نادر مخطوطہ چھپ کر سامنے نہیں آ جاتا اس کی اہمیت‬
‫اور ضرورت کا اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ یہ بھی کہ غالب‬
‫کے حوالہ سے پروفیسر حسنی کی لسانی بصیرت کا اندازہ‬
‫نہیں ہو سکے گا۔ وہ گویا لسانیات غالب پر کام کرنے والوں‬
‫میں نقش اول کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ لغت آ سے شروع ہو‬
‫کر لفظ یگانہ کی معنوی تفہیم تک جاتی ہے۔‬

‫مقصود حسنی کی ادبی خدمات‬
‫ایک مختصر جائزہ‬

‫مرتبہ‪:‬‬
‫پروفیسر نیامت علی مرتضائی‬

‫مقصود حسنی‬

‫بوزر برقی کتب خانہ‬
‫فروری ‪٢٠١٧‬‬


Click to View FlipBook Version