The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-02-21 22:26:52

khidmaat (2)

khidmaat (2)

‫آراء‬

‫ادریس شرلی‬
‫جون ‪2014 ,23‬‬

‫بُہت عمدہ جناب۔ ایسی تحریروں کی معاشرے کو بہت شدت سے‬
‫ضرورت ہے۔ لوگوں کو ہر پہلو سے ائینہ دکھاتے رہنا ہی اپ کی‬
‫تحریروں کا مقصد ہے اور وہ اپ بہترین طریقے سے کر رہے‬

‫ہیں۔‬

‫ادریس صاحب میں وہ وہ خصلتیں پائی جاتی ہیں جو اکثر‬
‫عورتوں میں پائی جاتی ہیں‪ ،‬لیکن ُکچھ مردوں میں بھی یہ‬
‫خصلتیں پائی جاتی ہی ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال ُکچھ اس بارے میں یہ‬
‫ہے کہ ہمیں نیکی اور بدی کے فرق کو بہتر طور پر سمجھنے‬
‫کی ضرورت ہے۔ کئی ایسی نام نہاد نیکیاں معاشرے میں عام ہیں‬
‫جس سے بُہت نقصان ہو رہا ہے۔ جس کی مثال ہم ُکچھ یوں دیں‬
‫گے کہ کئی غیر قانونی سرکاری مراعات یہ کہہ کہ جائز قرار دے‬
‫دی جاتی ہیں ‪:‬چھوڑیں جی‪ ،‬یہ غریب ادمی ہے‪ ،‬اس کا بھلا ہو‬

‫جائے گا‪ :‬۔۔۔ سرکاری مال ‪ ،‬مال مفت اور دل بے رحم۔‬

‫دوسری مثال ان عمر رسیدہ لوگوں کی بھی ہے جنہیں ہم اپنے‬
‫بچوں سے چاچا اور انکل کہلواتے ہیں۔ بچوں کو یہ احساس‬
‫ضرور ہونا چاہیئے کہ عمر کے ساتھ لازماً زندگی کا وسیع تجربہ‬
‫منسلک ہوتا ہے‪ ،‬لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہر بات‬
‫میں وہ درست ہوں۔ بقول ہمارے دیرینہ دوست شیخ سعدی‬

‫مرحوم کے‪: ،‬بزرگی بہ عقل ہست‪ ،‬نہ بہ سال‪:‬۔‬

‫اندھی تقلید چاہے مذہب کی ہی کیوں نہ ہو‪ ،‬ہم ذاتی طور پر اس‬
‫کے حق میں نہیں ہیں۔ سو ہمارے خیال میں کہانی کے مرکزی‬
‫کردار جیسے لوگوں کو ان کے منہ پر اپنے دل کی بات مناسب‬
‫انداز میں بتا دینی چاہیئے اور ہر کسی کی عزت اتنی ہی کرنی‬
‫چاہیئے جتنے اس کے اعمال کا حق ہو۔ ہمارے ہاں تو اپ جانتے‬
‫ہی ہیں کہ کسی کی تعظیم اور اس کا مقام‪ ،‬اج بھی لوگ‪ ،‬یا تو اس‬
‫کی دولت کے حساب سے کرتے ہیں یا پھر عمر کے حساب سے۔‬
‫ہماری نظرمیں یہ پیمانہ درست نہیں۔ بڑی گاڑی سے اترے والے‬
‫شخص کی خدمت بھاگ بھاگ کر کی جاتی ہے‪ ،‬چاہے وہ خود نہ‬
‫بھی چاہے‪ ،‬جبکہ اس ناچیز جیسا کوئی شخص سنیارے کی دکان‬
‫میں جانا چاہے تو محافظ دروازے پر ہی روک کر پوچھ گچھ‬
‫ُشروع کر دیتا ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی بزرگ‪ ،‬بقول اپ ہی‬
‫کے‪ ،‬اپنا لُچ بیچ میں تلنے کی کوشش کرے (ویسے یہ محاورہ‬
‫بھی کیا ہی خوب کسی نے بنایا ہے‪ ،‬ہمیں بُہت پسند ہے) تو اس‬

‫پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔‬

‫سو ہمارے خیال میں جب تک تعظیم کا معیار درست نہیں ہوتا‪،‬‬
‫معاشرتی نا انصافیاں بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔ لوگوں کو ہر پہلو‬
‫سے ائنہ اپ خوب دکھاتے رہتے ہیں تاکہ لوگ اپنے گریبان میں‬
‫جھانک کر اپنے اندر موجود برائی کو جان پائیں۔ اور اگر وہ جان‬

‫گئے تو اس میں سب کا بھلا ہو گا۔‬

‫ایک بات ہم سے کہنا رہ گئی تھی۔ اپ کی تحریروں میں محاوراتی‬

‫زبان کا عنصر نمایاں ہے۔ اسے پڑھ کر ہمارے علم میں بہت‬
‫اضافہ ہوتا ہے اور یقیناً اس کے اثر سے ہم بھی اپنی بات کو‬
‫بہتر‪ ،‬پُر اثر اور با معنی بنا سکا کریں گے۔ جس پر ُشکر گزار‬

‫ہیں۔‬

‫ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔‬
‫وی بی جی ‪1‬‬

‫آخری کوشش‬
‫جولائی ‪2013 ,15‬‬

‫فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چلاہے۔ کوئی رسالہ بھی !‬
‫اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افسانوں اور چند‬
‫منظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔‬
‫ماضی میں رسالوں میں ادبی‪ ،‬علمی اور تحقیقی مضامین کثرت‬
‫سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید و تبصرہ فن کی حیثیت سے سیکھے‬
‫اور سکھائے جاتے تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے معیار کی‬

‫حامل تھی۔ اب ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے ہی نثر‬
‫نگاری خصوصا اضمحلال کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ آسان‬
‫سمجھتے ہیں (حالانکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں وقت کم لگتا ہے‬
‫اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور تحقیق بھی چاہتی‬
‫ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ ظاہر‬
‫ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے بل بوتے پر‬
‫پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس معمولی سی حقیقت‬

‫سے یا تو واقف ہی نہیں ہیں یا دانستہ اس سے صرف نظر کر‬
‫رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو محفلیں بھی اسی مرض کا شکار ہیں‬
‫اور وہاں بھی سوائے معمولی غزلوں کے (جن میں سے بیشتر‬
‫تک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔ آپ کی نثرنویسی میں‬
‫مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت خوش آئند ہیں۔ آپ مطالعہ‬
‫کرتے ہیں ‪،‬سوچتے ہیں اور انشائیے لکھتےہیں۔ اس جدو جہد‬
‫کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں اپی مثال کسی خودستائی‬

‫کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ‬
‫شوق‪،‬محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ میں نے‬
‫انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ غزل‪ ،‬نظم‪،‬‬
‫افسانے‪ ،‬ادبی مضامین‪ ،‬تحقیقی مضامین‪ ،‬ادبی تنقید وغیرہ سب‬
‫ہی لکھا ہے۔ یقینا سب کچھ اعلی معیار کا نہیں ہے لیکن بیشتر‬
‫اچھے معیار کا ہے اور ہندو پاک کے معتبر اور موقر رسالوں‬
‫میں شائع ہوتا ہے۔ میں آپ کی انشائیہ نگاری کا مداح ہوں اور‬
‫درخواست کرتا ہوں کہ برابر لکھتے رہہئے۔زیر نظر انشائیہ اچھا‬
‫ہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ وقت کے ساتھ خود ہی‬
‫کر لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔ باقی راوی سب چین بولتا‬

‫ہے۔‬
‫سرور عالم راز‬

‫سلام اس تحریر پر ہم ُکچھ نہ لکھیں گے۔ فقط یہی کہ اسے پڑھ‬
‫کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام کے قریب‬
‫سانسیں ُرک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ ک ُھلا کا ک ُھلا رہ جاتا ہے۔ اس‬
‫کے اندر جو کرب ہے اور جو ُکچھ یہ انگلیاں لکھنے کو دوڑ رہی‬

‫ہیں‪ ،‬اُسے بصد مشکل روکتے ہوئے‪ ،‬ایک بار پھر سے بھرپور‬
‫داد ۔۔۔دُعا گو‬
‫وی بی جی ‪2‬‬

‫چار چہرے‬
‫نومبر ‪2013 ,26‬‬

‫‪Pehla chehra yaqeenan sab se mumtaaz hai.‬‬
‫‪Hairangi ki baat yeh hai keh iss taraf koi jaata he‬‬
‫‪nahi. Danish ka barqaraar rehna aur usske liye‬‬
‫‪apne aap ko qurban karna buhot baRi baat hai‬‬

‫‪aur yehi baat pehle chehre ko dosrooN se‬‬
‫‪mumtaz karti hai.‬‬

‫‪Fikr angaiz khayyal aur umah tahreer.‬‬
‫خلش‬

‫آپ کا مختصر انشائیہ دیکھا تو مجھ کو ‪ ١٩۴٨‬کے آس پاس والد‬
‫مرحوم کا لکھا ہوا ایک مضمون ‪:‬عورت کی فطرت‪ :‬یاد آ گیا جس‬
‫کالب لباب یہ تھا کہ یہ معمہ اب تک حل ہوا ہے اور نہ آئندہ اس‬

‫کے حل ہونے کی کوئی امید ہے۔ آپ کاانشائیہ دیکھا کہ آخری‬
‫چند سطروں میں آپ نے خیال ظاہر کیے ہے کہ ان چار چہروں‬

‫کے مطالعہ سے یہ گتھی سلجھ سکتی ہے۔ میں صرف جذباتی‬
‫طور پر ہی نہیں بلکہ فکری سطح پربھی والد مرحوم سے زیادہ‬
‫متفق ہوں۔ آپ جب اس معمہ کو سمجھ لیں تو اپنے ارادت مندوں‬
‫کو ضرور حل سے آگاہ کیجئے گا! باقی رہ گیا راوی تو وہ چین‬

‫بولتا ہے۔‬
‫سرور عالم راز‬

‫میرا بھی یہی خیال ہے کہ محترم راز چاند پوری نے درست‬
‫فرمایا تھا ویسے یہ بھی پیش نظر رہے کہ ایک حدیث کا مفہوم‬
‫کچھ اس طرح ہے کہ عورت پسلیکی ہڈی سے پیدا ہوئی ہے‬
‫‪،‬اسے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو ورنہ توڑ بیٹھو‬

‫گےاس کی کجی کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھاتے رہو‬
‫والسلام‬

‫تنویرپھول ‪3‬‬

‫سرگوشی‬
‫جولائی ‪2014 ,06‬‬
‫آپ کاانشائیہ "سرگوشی" آپ کے مخصوص طرز فکر وبیان کا‬
‫اعلی نمونہ ہے۔ ایک ایک جملہ میں ایک داستان پوشیدہ ہے۔ بین‬
‫السطور کیا کیا نہیں کہہ دیا گیا ہے۔ پنجابی سے میں نا واقف ہوں‬
‫پھر بھی سیاق و سباق سے کچھ سمجھ ہی گیا۔ اگر آپ پنجابی‬
‫اشعار‪ ،‬کہاوتوں اور فقروں کا ترجمہ بھی لکھ دیا کریں تو ہماری‬
‫مشکل آسان ہو جائے گی۔ اس سے قبل بھی آپ کے کئی انشائیے‬

‫نظر آئے لیکن اپنی بد تقدیری کے ہاتھوں ان سے مستفید نہ ہو‬
‫سکا۔ اب واپس جا کر ان کو پڑھنے کا ارادہ ہے۔ رمضان چل رہے‬

‫ہیں۔ اس مبارک ماہ میں ایسے مضامین اور بھی دل پذیر ہو‬
‫جاتے ہیں۔ جزاک الله خیرا۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔‬

‫سرور عالم راز ‪4‬‬

‫موازنہ‬
‫جون ‪2014 ,27‬‬

‫جناب عزت افزائی کا بُہت ُشکریہ۔ ہمارے لیئے اعزاز کی بات ہے‬
‫کہ اپ کے قلم نے ہمیں اس لائق سمجھا ہے۔ لیکن ایک گزارش‬

‫کرنا چاہیں گے کہ صاحب! یہ تعریفیں ہم سے برداشت نہیں‬
‫ہوتیں۔ سمجھ لیجے کہ تعریفیں وی بی جی کی موت ہیں۔ ہمیں‬
‫اچھی طرح معلوم ہے کہ اپ نے کس قدر خلوص اور محبت سے‬
‫ہمارے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ اور یقیناً اپ‬
‫نے حق گوئی کا مظاہرہ کیا ہو گا۔ جیسا محسوس ہؤا ویسا بیان‬
‫کیا ہو گا۔ ہم ُشکر گزار ہیں کہ اس لائق سمجھا اپ نے۔اپ نے‬
‫بُہت ہی خوبصورت انداز میں جواب عنایت فرمایا ہے۔ اپ قلم کار‬
‫ہیں سو اپ بات کہنے کا فن جانتے ہیں۔ لیکن اس گہرائی سے‬
‫مشاہدہ کرنا ظاہر ہے کہ گہری سوچ اور سلجھا ہؤا ذہن چاہتا ہے۔‬
‫ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ جواب بھی ہمیں بہت‬
‫پسند ایا ہے۔ دراصل کئی ایسے سوال ہوتے ہیں‪ ،‬جن کے ذہن‬
‫میں اتے ہی‪ ،‬لوگ انہیں جھٹلانا ُشروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو‬

‫سوچنا بھی گناہ ہے۔ اور اس طرح گویا یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ‬
‫ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے جو انسان دے سکے۔ اور‬
‫نتیجہ یہ کہ اپنے اپ کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں اور ایمان کی‬
‫کمزوری کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تمام سوالات کے‬
‫جواب موجود ہوتے ہیں۔ الله پاک اور اس دنیا کا وجود ہمیں غیر‬
‫منطقی نہیں نظر اتا۔ اگر ہم سوچنے پر ہی پابندی لگا دیں‪ ،‬تو‬
‫جواب کہاں سے ائیں گے۔ ایمان پُختہ ہونا چاہیئے‪ ،‬راز ک ُھلتے‬
‫چلے جاتے ہیں۔تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد۔۔۔ بُہت ہی عمدہ‬
‫تحریر ہے۔ ظاہر ہے کہ کئی سوالوں کے جواب دیتی ہے۔ ُسلجھا‬

‫ہؤا انداز تحریر ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔‬
‫وی بی جی ‪5‬‬

‫پہلا قدم‬
‫جون ‪2014 ,22‬‬

‫بُہت عمدہ جناب۔ بُہت ہی اعلی تحریر ہے۔ بھرپور داد۔ اپ کو بات‬
‫کہنے کا فن اتا ہے‪ ،‬اور ظاہر ہے کہ یہی ایک قلم کار کے فن کا‬
‫مظہر ہے۔یہ تحریر جس راستے پر چلنے کا سبق دے رہی ہے‬
‫جناب‪ ،‬وہ بُہت ہی مشکل راستہ ہے۔ اس قدر مشکل کے تصور‬

‫کرنا بھی محال۔ کاش کہ ہم لوگ اس مقام تک پہنچ‬
‫سکیں۔مشکلات صرف یہی نہیں جو تحریر سے عیاں ہیں‪ ،‬بلکہ‬
‫ُکچھ برعکس بھی ہیں۔ اپ نے تاریخ میں سے ُکچھ مثالیں قلمبند‬
‫کی ہیں‪ ،‬لیکن سچ پوچھیں تو ہم ایسی ہزاروں مثالیں پیش کر‬

‫سکتے ہیں‪ ،‬جہاں بُرا کرنے والے کو اس کے کیئے کے برابر‬
‫سزا نہیں ملی۔ کئی ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں سرے سے سزا‬
‫ملی ہی نہیں‪ ،‬بلکہ ظلم کرنے والے اخری سانس تک عیاشی اور‬

‫ظلم کرتے رہے۔ کئی مثالیں تو ہمارے سامنے ہی موجود ہیں‬
‫جہاں شرفا مہینوں چارپائی پر کھانس کھانس کر اور ایڑیاں رگڑ‬
‫رگڑ کر مرتے ہیں‪ ،‬جبکہ ظالم لوگوں کے لیئے قدرت نے قدرے‬
‫اسان طریقہ موت بھی ایجاد کر رکھا ہے جیسے دل کا دورہ پڑنے‬

‫سے اچانک دُنیا سے اُٹھ گیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر دُنیا میں‬
‫انصاف ہو رہا ہوتا اور ہر ظالم کو حق کے مطابق سزا مل رہی‬
‫ہوتی‪ ،‬تو‪ ،‬نہ تو یہاں ظلم عام ہوتا‪ ،‬اور نہ ہی جنت اور دوزخ کے‬
‫وجود کی کوئی ضرورت تھی۔جب یہ سب انسان دیکھتا ہے‪ ،‬کہ‬
‫دنیا میں انصاف نہیں ہے۔ اچھا کرتا اور بُرا نتیجہ لیتا ہے تو‬
‫ظاہر ہے کہ قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ الله پر اعتماد بھی کہنے کو تو‬
‫بُہت ہوتا ہے‪ ،‬لیکن دل میں کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں‬
‫اس راستہ پر چلنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔باقی جناب اپ کی‬
‫تحریر اس قدر خوبصورتی سے کئی پہلو سمجھا رہی ہے کہ مذید‬
‫ُکچھ کہنے کو رہ ہی نہیں جاتا۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول‬
‫کیجے۔ امید ہے کہ پڑھنے والے جس قدر ہو سکا‪ ،‬اثر لیتے‬
‫ہوئے‪ ،‬سچائی کے راستہ پر ڈٹے رہیں گے۔ایک بار پھر بھرپور‬

‫داد کے ساتھ‬
‫وی بی جی‬

‫ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہماری باتوں نے اپ کو کل سے عجیب‬
‫سی کشمکش اور بے چینی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہم نے کوشش‬

‫کی کہ جلد سے جلد حاضر ہو سکیں سو حاضر ہو گئے ہیں۔پہلے‬
‫تو ہم یہ بتاتے چلیں کہ جو اپ ‪ 40 - 50‬سال سے کر رہے ہیں وہ‬
‫بُہت بڑا کام ہے۔ ہم نے بھی ایسی ہی تحریریں پڑھی ہیں اور ہمیں‬
‫یاد تک نہیں کہ وہ کون لکھتے تھے۔ اور بھی کئی لوگ ہیں جو‬

‫اس علمی خزانے سے استفاضہ حاصل کرتے ہیں۔ اپ کی‬
‫تحریروں نے کئی لوگوں کو اگہی بخشی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ‬
‫اُنہیں اپ کا نام بھی یاد نہ رہے‪ ،‬اور تحریروں کو سرسری پڑھ‬
‫کر چلے جائیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہی وہ تحریریں ہیں جو‬
‫اُن کے لاشعور میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ اور پھر اہستہ اہستہ‬
‫شعور کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔اپ جانتے ہی ہیں کہ ہم قلم کار‬
‫نہیں ہیں سو ُکچھ بھی لکھتے ہیں تو وہ بکھرا بکھرا اور کئی‬
‫بار بے ربط سا ہو جاتا ہے۔ ُکچھ ایسا ہی یہاں بھی ہؤا۔اصل میں‬
‫بات پیر صاحب کی تھی‪ ،‬سو ہم اسے پیری میں ہی لے گئے۔ جو‬
‫طرز عمل پیر صاحب کا اس تحریر میں تھا وہ ہمارے خیال سے‬
‫صرف پیروں کے ہی بس کی سی بات ہے۔ سو ہم نے اس میں‬
‫پیش انے والی مشکلات کو ذرا سا بیان کر دیا اپنی محدود عقل‬
‫کے حساب سے۔ مشکلات تو اس بھی کہیں ذیادہ بڑھ کر ہیں۔ اس‬
‫سے ایک درجہ اوپر کی مشکل بھی موجود ہے جسے الفاظ بھی‬
‫دئیے جا سکتے ہیں‪ ،‬لیکن اس کے بعد کی مشکلات کو تو الفاظ‬
‫بھی دینا ممکن نظر نہیں اتا ہمیں۔ ہم اس میں ذیادہ نہیں جاتے‪،‬‬
‫وگرنہ شاید ہم اپنی بے تُکی باتوں سے اپ کو مذید الجھا ہی نہ‬
‫دیں۔الله پاک ہم سب کو طاقت دے کہ ہر مشکل برداشت کریں لیکن‬

‫نیکی کے راستے سے قدم نہ بہکیں۔‬

‫وی بی جی‬

‫اسے پیاسا ہی رہنا ہے‬
‫جون ‪2014 ,20‬‬

‫آپ کی تحریر میں بہت درد ہوتا ہے اور ہر بات آپ کے دل سے‬
‫نکلی ہوئی لگتی ہے۔ نئی نسل ہماراہی عکس ہے۔ ہم نے ان کے‬
‫لئے جو روایات چھوڑی ہیں وہ ان سے الگ کیونکر ہو سکتے‬
‫ہیں۔ لوگوں سے جب ذکر ہوتا ہے تو ہمارے یہاں بندھا ٹکا جملہ‬
‫ہوتا ہے کہ "دعا کیجئے" اور ظاہر ہے کہ صرف دعا سے کیا‬
‫ہوتا ہے۔ اونٹ تو بھاگ چکا ہے۔ اب ہم لاکھ دعا مانگیں وہ لوٹ‬

‫کر نہیں آنے کا۔ الله الله خیر سلا۔‬
‫سرور عالم راز‬

‫بُہت ہی شاندار تحریر ہے۔ ایک تو جس طرح یہ کہانی کوے کے‬
‫پیاسے ہونے کی تشریح کرتی ہے بُہت ہی خوب ہے اور پھر‬
‫اختتام تو سبھان الله ۔۔ ہماری طرف سے بھرپور داد۔‬

‫محترم سرور عالم راز سرور صاحب کی باتوں سے بھی استفادہ‬
‫کیا۔ اپ کی باتیں بجا ہیں۔ حاکم ہمیشہ محکوم کی وجہ سے حاکم‬
‫رہا ہے اور رہے گا۔ ہمیں اس سے کیا کہ ہماری تاریخ میں کیا‬

‫ُکچھ بھرا پڑا ہے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہارون‬
‫الرشید اور مامون الرشید کے دور میں فرقہ معتضلہ کی کیا‬
‫حیثیت تھی۔ خاندان برامکہ کے ساتھ کیا ہؤا۔ کس کی لاش بازار‬
‫میں کتنے دن لٹکی رہی۔ اور حضرت امام احمد بن حنبل کے ساتھ‬
‫کیا کیا گیا۔ ہمیں صرف ان کے دور حکومت کی تعریف کرنی ہے‬

‫کیونکہ وہ مسلمان خلفا تھے۔ ہمیں مغلیہ دور کی بھی تعریف‬
‫کرنی ہے ہم کیوں جانیں یا مانیں کہ نور جہاں شیر افگن کی بیوی‬
‫تھی یا نہیں۔ اسے کس نے کیوں قتل کروایا۔ ہمیں ان کی تعریف‬
‫ہی کرنی ہے۔ اپ کئی بار کہہ ُچکے ہیں کہ مورخین نے بُہت ظلم‬
‫کیا ہے۔ بالکل دُرست کہتے ہیں جناب کوا پیاسا رہے گا۔ دُرست۔‬

‫لیکن کوے کو پانی کی تلاش جاری رکھنی چاہیئے اور ہم اس‬
‫کے لیے کوشاں رہیں گے۔‬

‫قدرت کا کھیل ہی ایسا ہے۔ کوے کو پیاس دی ہے اور امتحان یہی‬
‫ہے کہ اسے پانی پلا کر دکھاؤ تو تم کامیاب۔ یہی جہت ہے یہی‬
‫جہاد۔ہماری نظر میں یہ اپ کی زور دار تحریروں میں سے ایک‬
‫ہے۔ شاندار ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد۔‬

‫وی بی جی‬

‫عمدہ پُر فکر تحریر سے ہمیں جھنجھوڑنے کا بے حد شکریہ‬
‫مگر صاحب ہم سبھی اپنا اپنا کردار نبھاتے اپنی اپنی منزل کی‬
‫جانب رواں دواں ہیں ہم میں سے ہر شخص دوسرے کے ئے‬
‫امتحان ہے اور اسی امتحان پر پورا اترنے کا نام ڈسپلن ہے اور‬
‫یہ ڈسپلن حق ادا کرنے کا نام ہے حق مانگنے کا نہیں ‪ ،‬مگر آج‬

‫الٹی گنگا بہ رہی ہے ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے مگر‬
‫دوسروں کا حق ادا نہیں کر رہا یہیتو ڈسپلن کی خلاف ورزی‬
‫ہےایسی پُر فکر تحریروں کے آئینے میں ہمیں ہمارا چہرہ‬
‫دکھانے کا شکریہ قبول فرمائیےکبھی نہ کبھی شرم ہمیں ضرور‬

‫آئے گیوالسلام‬
‫‪6‬اسماعیل اعجاز‬

‫یہ کوئی نئی بات نہ تھی‬
‫جون ‪2014 ,18‬‬

‫کیا ہی بات ہے جناب ۔ بُہت خوب۔ بُہت باریک معاملے پر قلم اٹھایا‬
‫ہے اور کیا ہی خوب اٹھایا ہے۔ یہ انداز بھی بُہت پسند ایا جس‬
‫طرح اپنے معاملے کو ایک مقالمہ کی شکل دی اور بات واضح‬

‫سے واضح طور تر ہوتی چلی گئی۔ ہمیں سو فی صد اتفاق ہے اپ‬
‫کی اس بات سے۔ معاملے کو تھوڑا وسیع کر کے دیکھیں تو بات‬
‫وہیں جنون و خرد کی لڑائی پر اتی ہے۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ‬
‫جنوں اورد کی طرح ہے اور عموماً کسی چیز کا حقیقی اور حتمی‬
‫احساس ہوتا ہے۔ خرد کو دلائل چاہیئں۔ وہی فرق جو وکالت اور‬
‫نفسیات کا اپ کی تحریر میں جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔نفسیات‬
‫چونکہ اس چیز کا مطالعہ کرتی ہے ‪:‬جو ہے‪ ،:‬اس لیئے حقیقت‬
‫کے قریب تر ہے۔ جبکہ وکالت کا زیادہ تر زور اس پر ہے کہ ‪:‬کیا‬

‫ہونا چاہیئے‪ :‬حالانکہ ہمارے نذدیک ‪:‬کیا ہونا چاہیئے‪ :‬کا اس‬
‫وقت تک تعین ہی نہیں کیا جاسکتا جب تک یہ مکمل طور پر جان‬
‫نہ لیا جائے ‪:‬جو ہے‪ :‬۔اپ نے بجا فرمایا کہ ہمارا معاشرہ‪ ،‬اکہرے‬
‫نہیں بلکہ دوہرے معیار کا شکار ہے بلکہ ہم تو کہیں گے کہ کئی‬
‫ہرے معیاروں کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول شخصے ‪:‬ہر‬
‫شخص چاہتا ہے کہ اس کی بیوی وہ ُکچھ نہ کرے جو وہ چاہتا‬
‫ہے کہ پڑوسی کی بیوی کرے‪ :‬اس کی وجہ ہمیں جو محسوس‬
‫ہوتی ہے وہ بھی اپ نے بیان فرما ہی دی ہے‪ ،‬کہ ہم لوگوں نے‬

‫اسلام کو اپنی ہندوستانی تہذیب کے ساتھ ہم اہنگ کرنے کی‬
‫کوشش کی ہے۔ اسلام میں غیرت کا ایسا تصور ہمیں کہیں نہیں‬
‫ملتا‪ ،‬وہاں کافی باتیں ُکچھ مختلف انداز میں ہیں۔لیکن خیر یہ‬

‫واقعی کوئی نئی بات نہیں ہے‪ ،‬لیکن اپ نے اسے اپنے قلم کے‬
‫زور سے نیا بنا دیا ہے۔ مقالمہ بُہت اچھا لکھا ہے اپ نے۔ ہمیں‬
‫تو پڑھ کر بُہت مزا ایا جناب۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔۔‬

‫وی بی جی ‪7‬‬

‫دروازے سے دروازے تک‬
‫جون ‪2014 ,14‬‬

‫بُہت ہی دلسوز تحریر ہے جناب۔ کیا خوب قلم چلائی۔ یقین جانیے‬
‫تحریر پڑھ کر اپ کے قلم کی تعریف کرنے کی بجائے‪ ،‬رونے کا‬
‫دل چاہتا ہے۔تحریر کا پہلا حصہ جس موضوع پر قاری کا دل نرم‬
‫کرتا ہے‪ ،‬اُس پر ُکچھ کہتے بھی شرم محسوس ہوتی ہے لیکن‬
‫اس دلسوز حقیقت کو جان لینے کے بعد تحریر کا دوسرا حصہ‬

‫صحیح طور سے سمجھ بھی اتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔‬
‫مسلمان معاشرہ اتنی بیماریوں کا شکار ہو ُچکا ہے کہ بندہ کیا‬
‫کہے اور کیا نہ کہے۔ لوگ اس قدر بے حس ہو ُچکے ہیں کہ ہر‬
‫معاملہ کو حکومت کی زمہ داری قرار دے کر‪ ،‬پہلو تہی کر جاتے‬
‫ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں وہ‬
‫گھروں میں سکون سے بیٹھے رہا کریں اور حکومت سب کو‬
‫گھر گھر ہر مہینے پیسوں کی بوری دے جایا کرے۔ انہیں سمجھ‬
‫نہیں اتا کہ اناج نہیں اُگائیں گے تو نہیں کھائیں گے۔ ریڑھی پر‬
‫لوگوں کو دھوکے سے گندے ٹماٹر بیچنے والا خود حکومت سے‬
‫رنجیدہ ہے کہ وہ دھوکے باز ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ‬

‫ایجادات‪ ،‬تعلیم‪ ،‬زراعت وغیرہ میں محنت کر کہ دنیا کو ُکچھ دیں‬
‫گے نہیں تو دنیا انہیں موبائل اور کمپوٹر مفت فراہم نہیں کرے‬
‫گی۔ مذہبی ُمعاملات میں انتہا پسندی یہی ہے کہ ایک فرقہ قبر کو‬
‫سجدے تک کرنے پر راضی ہے تو دوسرا قبروں کو لاتیں مارتا‬
‫پھرتا ہے۔ برداشت ختم ہو چکی ہے۔ ایک انگریز بوڑھی سی‬
‫خاتون ایک دن ٹی وی پر کسی پروگرام میں بہت پیار اور حیرت‬
‫بھرے لہجے میں فرما رہی تھیں کہ اخر مسلمانوں کو کیوں‬

‫کمیونٹی بن کر رہنا نہیں ا رہا ہے۔ وہ نہیں سیکھ رہے اور‬
‫نقصان بھی وہ اپنا ہی کرتے جا رہے ہیں۔ اُس کے نذدیک یہ بُہت‬
‫معمولی سی بات تھی کہ اتنی سی بات نہیں سمجھ ا رہی۔خیر ہمیں‬
‫تو اب اپنے اپ سے ڈر لگنے لگ گیا ہے کہ اگر ہم اپنے قلم پر‬
‫قابو نہ پا سکے تو ہمارا حال وہی ہو گا جو ساحر اور جالب کا‬
‫ہؤا تھا۔ لیکن خیر‪ ،‬ابھی ہمیں اپنے اندر موجود‪ ،‬اس بے حسی پر‬
‫بھروسہ ہے‪ ،‬جو اس معاشرہ نے ہمیں تحفہ میں دی ہے۔تحریر‬

‫پر ہم اپ کو ایک بار پھر بھرپور داد دیتے ہیں۔‬
‫وی بی جی ‪8‬‬

‫وہ کون تھے‬
‫جون ‪2014 ,11‬‬

‫سلام عاجزانہ‬
‫آپ کی تحریر پڑھی دل میں برسوں سوۓ ہوۓ جذبہ رحم دلی‬
‫جگا گئی ہماری طرف سے اتنی اچھی تحریر لکھنے پر بھرپور‬
‫داد قبول کیجئے جناب ڈاکٹر صاحب ہمارا علم اتنا وسیع نہیں کہ‬

‫ہم اس بات کی گہرائی تک پہنچ سکیں لفظ "حضرت"جس کے‬
‫کافی لفظی معنی ہیں لیکن اکثر یہ لفظ تعظیما استعمال کیا جاتا ہے‬
‫لیکن زیادہ تر یہ لفظ کسی پیغمبر یا الله کے ولی کے نام کے ساتھ‬

‫آیا‬
‫"‪.......‬حضرت مہاتما بدھ کی تعلیمات"‬
‫ہمیں مہاتما بدھ کے بارے میں زیادہ علم نہیں لیکن میں نے یہ‬
‫لفظ ان کے نام کے ساتھ پہلے کبھی نہیں پڑھا ہم چونکہ مہاتما‬
‫بدھ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ممکن ہے کہ پہلے بھی ان‬
‫کے نام کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوا ہو لیکن پھر بھی آپ سے‬
‫گزارش ہے کہ تسلی بخش جواب دیں جس سے ہمارے علم میں‬
‫اضافہ ہوغلطی گستاخ معاف دعا ہے کہ الله آپ کو اور زور قلم‬
‫عطا کرے مجھے اپنی دعاؤں می یاد رکھیں‬

‫وی بی جی‬

‫پنگا‬
‫جون ‪2014 ,07‬‬

‫آداب و تسلیمات کے بعد بہت دلکش پیرائے میں لکھی ہوئی‬
‫تحریر ہے‪ ،‬داد آپ کا حق ہے وصول پائیے‬
‫اظہر‬

‫آپ کو علم ہی ہے کہ میں آپ کے مضامین کا پرانا مداح ہوں۔‬
‫روز اول سے ہی میں اس خیال کا ہوں کہ آپ کو اپنے مضامین‬

‫کتابی صورت میں شائع کوادینا چاہئیں۔ خدا خدا کرکے آپ بالآخر‬
‫اس پر راضی ہو گئے ہیں سو بصد عجز و محبت عرض ہے کہ‬
‫نصف "رائلٹی" کا میں مستحق ہوں! یہاں لکھے دے رہا ہوں‬

‫تاکہ "سند رہےاور بوقت ضرورت کام آوے"۔آپ کا انشائیہ‬
‫"پنگا" آپ کے مخصوص انداز فکر و بیان کی عکاسی کرتا ہے۔‬

‫اس میں حسب معمول زندگی اور دنیا کے چہرے سے نقاب‬
‫اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر چند کہ بہت سی باتیں ظاہر‬
‫سی ہیں لیکن "گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را" والی‬
‫بات بھی تو اہم ہے۔ بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔ الله آپ کو سلامت‬
‫رکھے۔ لکھتے رہئے اور یہ بتائیں کہ کتاب کب تک آ رہی ہے۔‬

‫باقی راوی سب چین بولتا ہے۔‬
‫سرور عالم راز‬

‫بُہت خوب تحریر ہے۔ ہمیشہ کی طرح داد حاضر۔ معذرت بھی‬
‫چاہتے ہیں کہ فوری حاضری نہیں دے پاتے۔ جس کی وجہ یہ ہے‬

‫کہ اپ کی تحریر کو لفظ لفظ پڑھنا ہوتا ہے‪ ،‬اور اسے انہماک‬
‫سے پڑھتے وقت یکسوئی ضروری ہوتی ہے۔ جبکہ کاروبار‬
‫زندگی اس کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ جیسے ہی فرصت پاتے ہیں تو‬
‫حاضر ہو جاتے ہیں۔جان کر بُہت خوشی ہوئی کہ طباعت کا کام‬
‫جاری ہے‪ ،‬اور جلد اپ کی کتابیں شائع ہونے والی ہیں۔اپ کی‬
‫تحریر بُہت جاندار ہے‪ ،‬البتہ جناب پنگے کے بغیر تو دُنیا میں‬
‫کوئی تبدیلی نہیں ا سکی۔ چاہے تبدیلی اچھی ہو یا بُری‪ ،‬اس کے‬
‫بغیر ممکن نظر نہیں اتی۔ اگرچہ ہمارا یہ بیان بھی پنگا لینے کے‬
‫مترادف ہے‪ ،‬لیکن چونکہ ہم پنگا لینے کے خوب حق میں ہیں‪،‬‬

‫سو یہ اعلامیہ جاری کرنا جائز سمجھتے ہیں۔تقدیر کسی کے پنگا‬
‫لینے یا نہ لینے کو دیکھتی ہی نہیں۔ ٹائگر کی ہی مثال لیجے‪،‬‬
‫تحریر کہیں نہیں کہتی کہ اس کو خارش لگنے کا سبب بھی کوئی‬
‫پنگا ہی تھا جو ٹائگر سے سرزد ہؤا۔ وہ بغیر پنگا لیئے ہی‬
‫خارش کی نظر ہو گیا۔ دوسری طرف پنگا لینے والا ناگ خود تو‬
‫اپنے پنگے کی سزا ب ُھگت گیا‪ ،‬لیکن ساتھ میں ٹائگر کو بھی لے‬
‫گیا۔ ہٹلر نے جو پنگا لیا سو لیا‪ ،‬لیکن اُن لاکھوں لوگوں نے کیا‬
‫پنگا لیا تھا کہ بیچارے‪ ،‬ایٹم بم کی نذر ہو گئے۔ ایسے ہی سکندر‬

‫کو تو جہلم کے مچھروں نے سزا دی‪ ،‬لیکن اس ہاتھی بیچارے کا‬
‫کیا قصور تھا جس کی سونڈ کاٹ گیا۔ نہ ہی راجہ پورس کی‬

‫فوجوں نے کوئی پنگا لیا تھا کہ لتاڑی گئیں۔سو صاحب جس نے‬
‫پنگا لیا‪ ،‬اُس نے دوسروں کو بھی بڑا نقصان پہنچایا۔ دوسری‬
‫طرف خود پنگا نہ لو تو کسی دوسرے کے پنگے کا شکار ہو‬
‫جانا پڑتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب اپنی ایک کتاب میں‬
‫لکھتے ہیں کہ ایک بار اُنہیں ُکچھ دوستوں کے ساتھ خچروں پر‬
‫دشوار گزار پہاڑی راستوں پر سفر کرنا پڑا۔ ایک صاحب تھے‪،‬‬
‫کہ جب بھی خچر کسی دشوار اور خطرناک جگہ سے پہار پر‬

‫چڑھتا تو وہ صاحب‪ ،‬خچر سے نیچے اُتر جاتے اور خود‬
‫چڑھتے۔ کسی نے کہا کہ صاحب‪ ،‬یہ خچر ماہر ہیں یہاں پہاڑوں‬
‫پر چڑھنے کے۔ اپ کا پاؤں پھسلا تو اپ بے موت گہری کھائی‬
‫میں مارے جائیں گے۔ اُن صاحب نے جواب دیا کہ حضرت جانتا‬
‫ہوں‪ ،‬لیکن میں اپنی غلطی کی موت مرنا چاہتا ہوں‪ ،‬نہ کہ اس‬
‫خچر کی غلطی کی سزا میں مروں۔تو صاحب اس سے پہلے کہ‬
‫کوئی اور پنگا لے کر ہماری زندگی میں خلل ڈالے‪ ،‬ہم خود پنگا‬
‫لے لینا مناست سمجھتے ہیں۔مزاح برطرف۔ اس بات سے انکار‬

‫نہیں کہ قدرت سے پنگا لینے والے کا انجام بُہت بُرا ہے۔ احتیاط‬
‫لازم ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔‬
‫وی بی جی‬

‫کیا ہی دلچسپ پنگا ہے کیا دلچسپ انداز بیاں ہے آپ کا کیسے‬
‫کیسے پنگے منظر عام پر آپ لائے ایک منظر ابھی آنکھوں میں‬

‫ہوتا ہے کہ دوسرا منظر آ جاتا ہے قائم ہو جاتا ہے اور سبھی‬
‫میں دلچسپ پنگا بقول وی بی جی کہ ہر چیز میں پنگا لازم‬
‫ہےپنگا نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہےیہ مانا کہ پنگے سے‬
‫جیون حسیں ہےمجھ سے آ پ کی تحریر پڑھ کر خاموش نہ رہا‬
‫گیا پنگا لینے چلا آیا صاحب آپ کے اس پنگے نے مجھے ایک‬
‫ساتھی اسلم پنگا یاد دلا دیے اسلم پنگا ہمارے بہت اچھے ساتھی‬
‫تھے ہم ان دنوں‪ 91 , 1990‬میں کراچی ایئر پورٹ کی تعمیر میں‬
‫مصروف تھے جہاں ہماری ایک بڑی ٹیم تین حصوں پر مشتمل‬
‫تھی جن میں ایپرن ‪ ،‬بلڈنگ اور روڈ اینڈ انفرا اسٹیکچر ورکس‬
‫وغیرہ شامل تھے ہمارے پاس ایپرن والا حصہ تھا جس میں اسلم‬
‫پنگا ہمارے ساتھ ہوا کرتے تھے ہم لوگ ایک فرنچ تعمیراتی‬
‫کمپنی ـ’’ سوجیا پاکستان ‘‘ میں کام کر رہے تھے اسلم پنگا آج‬
‫آپ کے اس پنگا مضمون کو پڑھ کر یاد آئے ان کا کام ہر ایک‬
‫سے پنگا لینا ہوتا تھا بغیر پنگے کے ان کی زندگی ادھوری تھی‬
‫کھانا گھر سے لایا کرتے تھے ایک دن انہوں نے انڈے اور‬
‫بینگن کو ملا کر ایسا پنگا لیا کہ پہچاننا مشکل ہو گیا کہ اس‬
‫خمیرہ گاؤزبان میں انڈہ کونسا ہے اور بینگن کونسا ہے الله تعالی‬
‫کی تخلیق کردہ دو الگ الگ ذائقوں میں الگ الگ مزاج کی حامل‬

‫اجناس کو یکجا کر کے ایسا کشتہ تیار کیا تھا کہ جس کے کھانے‬
‫کے کئی گھنٹے بعد تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کھایا بس یہ لگا‬
‫کہ کسی حکیم صاحب نے اپنی زندگی کے آزمودہ نسخوں سے‬
‫حاصل شدہ معجون کہہ لیں کشتہ کہہ لیں تیار کیا ہے کہ جسے‬
‫کھایا تو جاسکتا ہے مگر اس میں شامل اجزا کاتجزیہ نہیں کیا‬
‫جاسکتا جس کے کھانے کے بعد بہت سے رکے ہوئے معاملات‬
‫نہ صرف حل ہو جاتے ہیں بلکہ ان سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ‬
‫مل جاتا ہےتو صاحب کبھی یہ پنگا بھی لیجئے بینگن اور انڈے‬

‫کچھ اسطرح پکائیے کہ بینگن بینگن نہ رہے اور انڈہ انڈہ نہ‬
‫رہے بینگنڈہ بن جائےہلکی سی کالی مرچ اور نمک کے ساتھ‬
‫تناول فرمائیے مزہ نہ آنے پر انڈہ الگ اور بینگن الگ پکائیے‬
‫اور الگ الگ کھائیےاس دلکش تحریر سے مستفید فرمانے کے‬

‫شکریہ قبول فرمائیے‬
‫اسماعیل اعجاز ‪9‬‬
‫دائیں ہاتھ کا کھیل‬
‫جون ‪2014 ,01‬‬

‫تحریر ہم کئی بار پڑھ ُچکے ہیں‪ ،‬لیکن یکسوئی نصیب نہ ہو‬
‫سکی۔ ہر بار دھیان ادھر ادھر کرنا پڑا اور ہم ُکچھ کہنے کے لائق‬
‫نہ ہو سکے۔بُہت خوب تحریر ہے جناب۔ کیا ہی بات ہے۔ بھر پور‬

‫داد قبول کیجے۔ دین ایسی چیز ہے کہ اس کو حوالہ بنا کر جو‬
‫چاہے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اشتعال پھیلانا بھی بُہت اسان سا‬
‫کام ہو گیا ہے۔ چند لوگ اشتعال سچ ُمچ میں محسوس کرتے ہیں‪،‬‬
‫باقی کی کثیر تعداد صرف مشتعل نظر ا کر ثواب حاصل کرنا چاہتی‬
‫ہے۔ ایسے ہی جس پہلو کی طرف اپ نے اشارہ فرمایا ہے‪ ،‬وہاں‬

‫بھی زوجہ کے صرف حقوق ہوتے ہیں اور خاوند کے صرف‬
‫فرائض۔ ہمیں تو یہ بھی سمجھ نہیں اتی کہ صرف ماں کو اس قدر‬
‫درجہ دے دیا جاتا ہے کہ جیسے باپ کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو۔‬
‫حالانکہ عموماً باپ‪ ،‬صرف اور صرف اپنے بچوں کے لیئے‪ ،‬اپنی‬
‫بیوی کی کئی غلط باتیں بھی برداشت کرتا رہتا ہے۔ اور عموماً‬
‫کوئی اور چیز طلاق سے مانع نہیں ہوتی۔ لیکن بچے چونکہ اپنی‬

‫ماں کے پاس زیادہ وقت ُگزارتے ہیں‪ ،‬تو ظاہر ہے ہمیشہ چندا‬
‫ماموں ہی ہوتے ہیں‪ ،‬کبھی چندا چاچو نہیں ہوتے۔اپ نے لکھا‬
‫ہےحقوق کا معاملہ ذات سے‘ الله کی طرف پھرتا ہے۔یہ بات‬

‫سمجھنا‪ ،‬بُہت مشکل کام ہے۔ اور شائید اس کے لیئے کئی‬
‫تحریریں لکھنی پڑیں۔ لوگوں کی سمجھ کو اس مقام تک لانا‪ ،‬اہل‬
‫قلم کی ذمہ دارہ ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ اپ کوشاں ہیں۔ اگر‬
‫ایسی تربیتی تحریریں لوگوں کو پڑھنے کو ملیں یا ٹی وی ڈرامہ‬
‫وغیرہ میں ملتی رہیں‪ ،‬تو لوگوں کی سمجھ بڑھ سکتی ہے۔ ہمیں‬
‫تو محترم اشفاق احمد کے بعد کوئی ایسا ڈرامہ نگار نہیں نظر‬
‫ایا‪ ،‬جو ان باتوں کو اس گہرائی میں نہ صرف محسوس کرے‪،‬‬

‫بلکہ لوگوں کو بھی سمجھائے۔ اج کل کے دور کی فضول اور‬
‫کردار ُکشی سے بھرپور کہانیوں کے ساتھ ٹکرانے کی اشد‬
‫ضرورت ہے اور اپ یہ کام کر رہے ہیں۔ ہزار دُعائیں جناب اپ‬

‫کے لیئے۔تحریر پر بُہت بُہت داد جناب۔ ہزار داد‬
‫وی بی جی ‪10‬‬

‫الله جانے‬
‫جون ‪2014 ,09‬‬

‫جناب کیا ہی بات ہے۔ بُہت عمدہ تحریر ہے۔ داد داد داد ۔۔ اپ کی‬
‫تحریروں کا خاصہ ہے کہ بات کو ایسے زاویوں سے گ ُھما کر‬
‫لاتے ہیں کہ وہم و گمان میں نہیں ہوتا کہ یہ تان کہاں جا کر ختم‬
‫ہو گی۔ اور اختتام بھی شاندار ہوتا ہے۔ یہاں بھی اپ نے جس‬
‫طرح زرینہ کو تشبیہہ دی ہے‪ ،‬بُہت ہی خوب ہے۔ عوام کی سمجھ‬
‫بھی ُکچھ بڑھانے کی ضرورت ہے‪ ،‬تاکہ وہ ایسی تحریروں کا‬
‫دُرست ُرخ سمجھ سکیں اور نتائج اخذ کر سکیں۔دراصل ایسی‬
‫کمائی جس میں مزدوری سے زیادہ مل جائے یا بغیر مزدوری‬
‫کے مل جائے ہمارے اپنے خیال کے مطابق سود ہے۔ انسان کی‬
‫ارام پسندی یہی چاہتی ہے کہ کم سے کم محنت سے زیادہ سے‬
‫زیادہ کمائی ہو اور کامیابی کی صورت میں انسان مذید ارام پسند‬
‫ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی حال اس قرض پر پلے والی عوام کا ہو گیا‬
‫ہے۔ قرض حکومتی خزانے میں جاتا ہے‪ ،‬اور حکومتی خزانے کا‬
‫کوئی مالک نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کی حفاظت کی‬

‫کوشش بھی نہیں کی جا سکتی وگرنہ یہی ُسننا پڑتا ہے کہ‬
‫‪:‬تمہارے باپ کا ہے کیا‪ :‬۔۔ یہ کسی کے باپ کا نہیں ہوتا اور ویسا‬
‫ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ لالچ ایسی ہی چیز ہے کہ‬
‫اگر پیٹ بھرا بھی ہو تو بقول غالبگو ہاتھ کو جنبش نہیں‪ ،‬انکھوں‬

‫میں تو دم ہےرہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے اگےسو مذید‬
‫سے مذید کی لالچ کبھی جان نہیں چھوڑتی۔ اپ کی تحریریں‪ ،‬اُمید‬

‫کی کرن ہیں۔ جتنے لوگ پڑھیں گے اپنے کردار میں ضرور‬
‫جھانک کر دیکھیں گے۔ انہیں کردار کی خرابیوں کو عوام تک‬
‫پُہنچانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ہماری طرف سے ایک‬

‫بار پھر بھرپور داد جناب ۔‬

‫وی بی جی ‪11‬‬

‫پاخانہ خور مخلوق‬
‫مئی ‪2014 ,30‬‬

‫بُہت اعلی تحریر ہے جناب‪ ،‬کیا ہی بات ہے۔ نازک مسئلے کو‬
‫چھیڑ دیا اپ نے۔ البتہ اپنا حق رائے دہی ازاد جان کر اور اپ کی‬
‫پُرخلوص طبعیت کو دیکھتے ہوئے درخواست کریں گے کہ اس‬

‫کا عنوان ُکچھ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہمیں۔‬
‫ہمارا خیال ہے کہ عنوان ایسا ہونا چاہیئے کہ پڑھنے والے کی‬
‫طبعیت کو مائل کرے۔دوسری طرف‪ ،‬اس تحریر کے لاجواب ہونے‬
‫میں کوئی کلام نہیں۔ عوام کو ایسے مضامین پڑھنے کی اشد‬
‫ضرورت ہے‪ ،‬شائید کسی کا ضمیر جاگے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی‬
‫صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اے ُخدا‪ ،‬تُو نے میرے ہاتھ‬
‫باندھ کر ُمجھے دریا میں پھینک دیا ہے اور ُحکم دیا ہے کہ‬
‫کپڑے گیلے نہ ہوں۔ تو جناب حمام ہے یہ تو۔ہمیں یاد پڑتا ہے‪ ،‬کہ‬
‫بچپن میں ہم ‪:‬زمانہ قبل از اسلام میں کفار کی جہالت‪ :‬پر نوٹ‬
‫لکھا کرتے تھے‪ ،‬اور جناب کیا کیا بُرائی نہ اُن کے سر لگاتے‬
‫تھے‪ ،‬اور خوب نمبر سمیٹا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ بھی لکھ‬
‫دیتے تھے کہ ‪:‬قبل از اسلام‪ُ ،‬کفار کا یہ عالم تھا کہ ناک میں‬
‫اُنگلی تک ڈالتے تھے‪ :‬۔ لیکن صاحب! اب سوچتے ہیں‪ ،‬کہ اسلام‬
‫سے کیا سیکھا ہے مسلمانوں نے تو حیرت ہوتی ہے۔ ابھی تک‬
‫دو ایسی چیزیں دریافت ہو پائی ہیں جو اسلام سے سیکھی ہیں ہم‬

‫نے اور سب اس پر ُمتفق بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی بت کی‬
‫پوجا نہیں کرتے‪ ،‬اور دوسری یہ کہ خنزیر نہیں کھاتے۔ اخر‬
‫الزکر اگرچہ مشکوک ہے کہ یہاں تو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً‬
‫انسان انسان کو کھا جاتا ہے۔ کیا اسلام نے اتنا ہی سکھایا ہمیں؟‬
‫ہم نے غور کیا تو معلوم ہؤا کہ انسان کو امن میں رہنے کے‬
‫طریقے سمجھانے والے مذاہب کی وجہ سے دُنیا میں سب سے‬
‫زیادہ قتل و غارت ہوئی ہے۔ مذہب کی بُنیاد پر جتنا نقصان انسان‬
‫نے کیا ہے‪ ،‬کسی اور چیز کی وجہ سے نہیں کیا۔ توبہ ہے‬
‫صاحب۔خیر یہ تو تھے ہمارے کچھ بکھرے ہوئے خیالات۔ اپ کی‬
‫تحریر ہماری نظر میں بُہت اعلی اور عمدہ ہے۔ ہماری طرف سے‬

‫بھرپور داد قبول کیجے۔‬
‫وی بی جی‬

‫زیر نظر مضمون پر وی بی جی کے خیالات سے میں کلی طور پر‬
‫متفق ہوں۔ عنوان کو بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔ قاری عنوان‬
‫دیکھ کر اگر ٹھٹکے تو اچھا نہیں ہے۔ مضمون ہمارے معاشرے‬
‫کی تصویر کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ اپنے آس‬
‫پاس مسلمانوں کا حال دیکھ کر طبیعت پر مستقل انقباض رہتا ہے۔‬
‫بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ اب ا س قوم کا کوئی پرسان‬
‫حال نہیں ہے۔ یہ دنیا میں خوار ہے اور خوار ہی رہے گی کیونکہ‬

‫یہ اپنی اساس سے دور ہو چکی ہے۔ دنیا میں ڈیڑھ سو‬
‫"اسلامی" ممالک ہیں۔ افسوس کہ ان میں ایک بھی ایسا نہیں‬
‫ہے جہاں ہم اور آپ اپنی اولاد کو پڑھنے لکھنے یا رہنے کے‬
‫لئے بھیج سکیں۔ انا للہ و ان الیہ راجعون۔ میں امریکہ میں رہتا‬

‫ہوں اور اس کا قائل ہوں کہ ہمارے مقابلہ میں دوسرے مذاہب‬
‫کے لوگوں کا اخلاق اور کردار بدرجہا بہتر اور "اسلامی" ہے۔‬

‫اور اس صورت حال کا علاج بھی کوئی نظر نہیں آتا۔لکھتے‬
‫رہئے۔ میں کوشش کروں گا کہ یہاں آمدورفت بڑھا دوں۔ باقی‬

‫راوی سب چین بولتا ہے۔‬
‫سرور عالم راز‬

‫اس ناچیز کو بہتر انسان سمجھا اپ نے‪ ،‬اپ کی ذرہ نوازی !‬
‫ہے۔ ہم بیچارے اوارہ قسم کے ادمی ہیں‪ ،‬کبھی کسی پہاڑ پر‬
‫بیٹھے شہر کی ٹمٹماتی روشنیوں سے گوٹ بنا کر کسی پیراہن‬
‫میں ٹانکنے میں مصروف تو کبھی رات رات بھر کسی فُٹ پاتھ پر‬
‫بیٹھ کر کسی ُکتیا کے بچے ُگم ہو جانے کے دُکھ میں شریک۔ سو‬
‫ہمارا انتظار نہ ہی کیا کیجے۔ اپ کے یاد کرنے پر محترم سرور‬

‫عالم راز سرور صاحب بنفس نفیس تشریف لا ُچکے ہیں۔‬
‫وی بی جی‪12‬‬

‫ان پڑھ‬
‫مئی ‪2014 ,27‬‬

‫ہمارے منہ کی بات چھین لی اپ نے۔ بُہت ہی اچھی تحریر ہے۔‬
‫بالکل دُرست ہے کہ جو اچھی صفت یا ضمیر رکھتا ہے‪ ،‬وہ اس‬
‫سے انحراف کر ہی نہیں سکتا۔ اور ہمارا خیال ہے کہ یہ بچپن‬

‫میں والدین یا ماحول سے انسان سیکھتا ہے۔ اگر اُس کی تعلیم‬
‫اُس کے دل میں بُرائی کی نفرت ڈال دے تو زندگی بھر اُس سے‬
‫بُرا کام سرزد نہیں ہوتا۔ ہمارے نذدیک اس میں اُن چھوٹی چھوٹی‬
‫کہانیوں یا حکایات کی بھی بُہت اہمیت ہے‪ ،‬جو دادیاں بچوں کو‬
‫ُسناتی ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ہماری دادی ہمیں ایسی کئی حکایات‬
‫ُسناتی تھیں‪ ،‬اور کئی اس قدر جذباتی ہوتی تھیں کہ رونا ا جاتا‬

‫تھا۔ اُن کہانیوں میں بُرا کبھی ہیرو نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمیشہ‬
‫اچھائی کی جیت ہوتی تھی۔ علاوہ ازیں‪ ،‬ایسے حساس اور‬
‫سوچنے پر مجبور کر دینے والے موضوعات ہوتے تھے کہ‬
‫ننھی سی عمر میں ہی سوچنے اور باتوں کو سمجھنے کی طرف‬
‫رجحان رہا۔ جذباتی ہونے کے نقصانات سے اگہی ہوئی‪ ،‬اور ہر‬
‫معاملے کو انصاف کے ترازو میں تولنا ا گیا۔ سچ پوچھیں تو ہم‬
‫نے ُکچھ بار بھرپور کوشش کی کہ رشوت لے لیں‪ ،‬لیکن اُس ذات‬
‫پاک کی قسم‪ ،‬ہم ‪:‬اسامی‪ :‬سے انکھ نہ ملا سکے۔ اپنے اپ سے‬
‫ایسی گھن اتی تھی‪ ،‬کہ ایک لفظ بھی نہ کہہ سکے۔ یہ بھی‬
‫حقیقت ہے کہ ہمیں یہ احساس نہ تھا کہ الله ناراض ہو گا‪ ،‬ہمیں‬
‫مسئلہ یہ پیش تھا کہ غیرت اور انا اجازت نہ دیتی تھی۔ ہم اپنی‬
‫کہانی لے کر بیٹھ گئے۔کہنا یہی چاہتے تھے‪ ،‬کہ تبھی ہماری‬
‫خواہش رہی ہے کہ ایسی چیزوں کو تعلیم کا حصہ ہونا چاہیئے‬
‫جو کردار سازی کریں۔ ہمارے بچوں کو رٹے لگانے کی کوئی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔ تمام علوم اس کے محتاج ہیں۔ جس میں کردار‬
‫نہیں اُس کی کوئی سائنسدانی کسی کام کی نہیں۔ اور بقول اپ کی‬
‫اس تحریر کے ہی‪ ،‬حکومتیں ُکچھ نہیں کر سکتیں‪ ،‬سب ُکچھ‬
‫کرنے والی عوام ہی ہے۔ حکومت کو کوسنے والا سبزی فروش‬
‫خود نگاہ بچا کر گندے ٹماٹر بیچتا ہے۔ لوگ گندم نہیں اُگائیں‬

‫گے‪ ،‬تو اٹا مہنگا ہوگا‪ ،‬حکومت روٹی پکا کہ نہ کبھی کسی کو‬
‫دے سکی ہے‪ ،‬نہ کبھی دے سکے گی۔اس تحریر پر ایک بار پھر‬
‫بھرپور داد قبول کیجے۔۔۔ ہمیں بُہت پسند ائی ہے اپ کی تحریر۔‬

‫وی بی جی ‪13‬‬

‫لاروا اور انڈے بچے‬
‫مئی ‪2014 ,21‬‬

‫پڑھ تو ہم فوراً ہی لیتے ہیں‪ ،‬لیکن سمجھنے اور پھر ُکچھ کہنے‬
‫کے لائق ہونے میں وقت لگ جاتا ہے۔ اور سچ پوچھیے تو اس‬
‫تحریر کے آخر میں جس طرح اس کا اختتام ہوتا ہے‪ ،‬کافی سوچ‬
‫بچار کرنی پڑتی ہے‪ ،‬کہ لاروے اور انڈے بچے سے ُمراد کیا‬
‫ہے۔ بُرائی کے خلاف تو کہانی کا ہیرہ نکلا ہی تھا‪ ،‬اور انہیں‬

‫لارووں کا خاتمہ چاہتا تھا‪ ،‬پھر آخر یہ کیا کہانی ہوئی۔کہانی‬
‫لکھنے میں تو ویسے آپ کا جواب نہیں۔ اس میں تو پیچیدہ‬
‫صورتیں بھی نظر آئیں‪ ،‬جہاں لکھنے والا راستہ بھٹک کر کسی‬
‫اور سمت نکل سکتا تھا‪ ،‬لیکن بُہت خوبصورتی سے آپ نے‬
‫اسے اپنے مقصد کے محور میں رکھا ہے۔ ہم جہاں تک سمجھ‬
‫سکے ہیں وہ یہی ہے کہ بُرائی انسان خود ہی ہے‪ ،‬اور اسی کا‬
‫خاتمہ بُرائی کو ختم کر سکتا ہے۔ شیطان کی غیر موجودگی کی‬
‫مثال بھی خوب دی آپ نے کہ اس کی غیر موجودگی میں کس حد‬
‫تک بُرائی بڑھ جاتی ہے۔ایسی تحریروں کی جگہ ہم تو سمجھتے‬
‫ہیں‪ ،‬کہ نصابی کتابوں میں ہونی چاہیئے‪ ،‬جہاں کردار سازی کی‬

‫بہت ضرورت ہے۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ جتنا نُقصان‬
‫پہنچا رہے ہیں‪ ،‬ہم نہیں سمجھتے کہ ان پڑھ اتنا نُقصان پُہنچا‬
‫بھی سکتے ہیں۔ پڑھ لکھ کر صرف تعلیمی اسناد حاصل ہوتی‬
‫ہیں‪ ،‬اور اس کے بعد بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں‪ ،‬کہ شرم نام‬
‫کی چیز پاس نہیں پھٹکتی۔ہماری دُعا ہے کہ آپ کی کوششیں‬
‫رنگ لائیں۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر بھرپور داد قبول‬

‫کیجے۔‬
‫وی بی جی ‪14‬‬

‫سچائی کی زمین‬
‫مئی ‪2014 ,17‬‬

‫جنب بہت عمدہ تحریر ہے۔ اپ نے کہانی کو نیا ُرخ دیا ہے اور کیا‬
‫ہی خوب دیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ قُدرت کا نظام اپنے اپ کو‬

‫خود ہی برقرار رکھتا ہے‪ ،‬لیکن یہ بات بھی بجا ہے کہ انسان اس‬
‫میں بُہت بگاڑ پیدا کرنے کے درپے ہے۔ اگرچہ اس بات کا یہاں‬
‫تذکرہ ُکچھ ضرری نہیں لیکن ہمارا طریقہ ُکچھ ایسے ہے کہ‬
‫قُدرتی نظام میں کم سے کم دخل اندازی کرتے ہیں۔ لوگ بھاگ کر‬
‫بلی کے منہ سے چڑیا کا بچہ چھین لیتے ہیں‪ ،‬جبکہ ہم صرف‬
‫خاموشی اور خالی الذہن ہو کر دیکھتے رہتے ہیں۔ اگرچہ اس‬
‫سے ہمارے اندر بُہت حد تک سفاکی پیدا کر دی ہے‪ ،‬لیکن ہم نے‬
‫قدرتی نظام کو اس قدر سفاک پایا ہے‪ ،‬کہ بیان سے باہر ہے۔‬
‫جس نظام میں ایک کی موت دوسرے کی زندگی ہو‪ ،‬اُس کا علاج‬
‫ہمارے پاس تو ہو نہیں سکتا۔ کئی بار خود کو سمجھاتے ہیں‪،‬‬

‫لیکن اکثر اپنی باتوں میں اتے نہیں ہیں ہم۔ دخل اندازی صرف‬
‫اُس وقت روا جانتے ہیں‪ ،‬جب کسی کی موت کسی کی زندگی نہ‬
‫ہو۔تحریر جان دار ہے‪ ،‬سچائی اور اچھائی کا ساتھ دینے کا جذبہ‬
‫پیدا کرتی ہے۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر داد قبول کیجے۔‬

‫وی بی جی ‪15‬‬

‫ابھی وہ زندہ تھا‬
‫مئی ‪2014 ,16‬‬

‫واہ واہ واہ جناب‪ ،‬کیا ہی بات ہے۔ ہمیں تو ایسا لگا کہ ہمارے منہ‬
‫کی بات ہی چھین لی ہو اپ نے۔ بے شک اپ کو بات بیان کرنے‬
‫کا فن اتا ہے۔ جن الفاظ میں اپ نے ان تلخ حقیقتوں کو بیان کیا‬
‫ہے وہ لائق صد تحسین ہیں۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول‬
‫کیجے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جو تمام لوگ جانتے اور سمجھتے‬
‫ہیں‪ ،‬لیکن انہیں زبان پر لاتے ہوئے شرماتے ہیں۔ حالانکہ وہ‬
‫حمام والی ضربالمثل خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اپ نے کسی‬
‫ٹوپی سلار کا ذکر بھی کیا ہے‪ ،‬اور خوب کیا ہے۔ اب اپ کا کس‬
‫طرف اشارہ ہے یہ کوئی سمجھے نہ سمجھے لیکن حقیقت اپنی‬
‫جگہ ٹھوس حقیقت ہی ہوتی ہے۔تحریر زبردست ہے اور طنز‬
‫جس انداز میں کیا گیا ہے‪ ،‬ہمیں یقین ہے کہ کئی لوگوں کا ضمیر‬
‫جگا سکتی ہے۔ اس تحریر پر ہم ذیادہ اس لیئے بھی نہیں لکھ‬
‫سکتے کہ اپ نے اس میں ہمارے کہنے والی ہر بات ہم سے‬
‫کہیں بہتر انداز میں کہہ دی ہے۔ہماری طرف سے بھرپور داد‬

‫وی بی جی‪16‬‬

‫حلالہ‬
‫مارچ ‪2014 ,11‬‬

‫ڈاکٹر صاحب آپ کی تحریریں بفس نفیس بولتی ہیں اپنے پاس‬
‫سے گزرنے والوں کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ آؤ ہمیں پڑھو‬

‫ہم سے کچھ سیکھو کچھ اخذ کرو ‪ ،‬یہ دل کو چھو لینے والی‬
‫تحریر جو حقیقت سے قریب ترین معاشرے سے جڑے کرداروں‬
‫کو بے نقاب کرتی ہوئی بہت سے سوال بہت سے باتیں ذہن میں‬
‫پیدا کرتی ہوئی اپنے پڑھنے والے کو مجبور کر رہی ہے ۔ میرے‬
‫ذہن میں بھی کچھ باتیں آئیں جنکا اظہار خیال ضروری سمجھتا‬
‫ہونحلال و حرام کی پابندی و شرائط کب کہاں اور کس لئے کی‬

‫بنیاد پر ان کا نفاذ حکمیہ طور پر خالق کائینات کا مرتّب کردہ‬
‫ہےنکاح فرض ہے ‪ ،‬نکاح واجب ہے ‪ ،‬نکاح سنّت ہے ‪ ،‬نکاح‬
‫مستحب ہے یہ وہ شکلیں ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں مگر نکاح‬
‫حرام ہے جی نکاح حرام ہے محرم کے ساتھ مگر نکاح نامحرم‬
‫کہ جس سے نکاح حلال ہے حرام بھی ہے وہ اس صورت میں کہ‬
‫جب کوئی ایسا شخص جو نکاح تو کرلے مگر حقوق ذوجیت ادا‬
‫کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو نامرد ہو تو ایسے شخص کا‬
‫نکاح کہ جس کی منکوحہ اپنی جنسی ضرورت اور خواہش کو‬
‫کسی اور ذرائع سے پورا کرے وہ بھی حرام ہےطلاق دینا حلال‬
‫ہے مرد کے لئے مگر تمام حلال کاموں میں یہ وہ حلال کام ہے‬
‫جسے الله باری تعالی نے ناپسند فرمایا ہے ‪ ،‬عورت کو طلاق‬
‫دینے کا حق حاصل نہیں ہے ہاں خلع لے سکتی ہے ‪ ،‬اگر عورت‬
‫کو طلاق کا اختیار دے دیا جاتا تو دن بھر میں بیسیوں بار طلاق‬

‫دے دیتی اپنے مرد کو ‪ ،‬مگر مرد اس معاملے میں صابر ہے اور‬
‫بہت ہمت و برداشت والا ہوتا ہےشرعی طریقہ یہ ھے کہ عورت‬

‫تین طلاقوں کے بعد اگر دوبارہ پہلے شوھر سے نکاح کرنا‬
‫چاھتی ھے تو وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے بغیر اس‬
‫نیت کے کہ وہ پہلے کے لیے حلال ھونا چاھتی ھے‪ ،‬پھر وہ‬
‫شوھر اسے اپنی مرضی سے طلاق دے‪،‬مگر اس نیت سے نہیں‬
‫کہ وہ پہلے کے لیے حلال ھو جائے‪ ،‬یا پھر وہ مرجائے‪،‬اس‬
‫طرح عورت پہلے شوھر سے نکاح کرسکتی ھے!!! لیکن جو‬
‫حلالہ کا طریقہ ھمارے معاشرےمیں رائج ھو چکاھے‪،‬جوکسی‬
‫بھی صاحب علم سے مخفی نہیں ھے{اس قسم کے لوگوں پر نبی‬
‫صلی الله علیہ وسلم نے لعنت کی ھے‪،‬یعنی حلالہ کرنے والا اور‬
‫جس کےلیے کیاجائے‪ ،‬آپ نےاسے کرائے کا سانڈ قرار دیا‬
‫ھے}یہ ھےاندھی تقلید جس میں یہود ونصاری مبتلاء تھےیعنی‬
‫بغیر شرعی دلیل کےآنکھیں بند کرکےکسی چیز پر عمل کرنا۔سنن‬
‫ابوداودكتاب النكاحنکاح کے احکام و مسائلباب في التحلیلباب‪:‬‬
‫نکاح حلالہ کا بیان۔حدیث نمبر ‪2076 :‬حدثنا أحمد بن یونس‪ ،‬حدثنا‬
‫زھیر‪ ،‬حدثني إسماعیل‪ ،‬عن عامر‪ ،‬عن الحارث‪ ،‬عن علي‪ ،‬رضى‬

‫الله عن ‪ -‬قال إسماعیل وأراہ قد رفع إلى النبي صلى الله علی‬
‫وسلم ‪ -‬أن النبي صلى الله علی وسلم قال "لعن الله المحلل والمحلل‬
‫ل "‪.‬سیدنا علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی‬
‫الله علیہ وسلم نے فرمایا ”حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے کیا‬

‫گیا ہے (دونوں) ملعون ہیں۔"قال الشیخ الألباني‪ :‬صحیح‬
‫اسماعیل اعجاز‬

‫بازگشت‬
‫دسمبر ‪2013 ,23‬‬

‫بہت عمدہ ۔ بہت لطف آیا ‪ ،‬سلامت رہیں آپ شکریہ‬
‫ضیا بلوچ‬

‫فقیر بابا‬
‫دسمبر ‪2013 ,24‬‬

‫آپ کا انشائیہ بہت دلچسپ ہے۔ آپ نے جس تنہائی کی کیفیت کا‬
‫ذکر کیا ہے اس سے آج ساری دنیا آشنا ہے۔ انسان اب انسان‬
‫کونہیں پہچانتا ہےجب تک کہ اس کی کوئی غرض کسی اور سے‬
‫نہ اٹکی ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پچھلے زمانے میں سب‬
‫لوگ بے غرض ہوا کرتے تھے اور اپنی طبیعت سے سب فرشتہ‬
‫تھے۔ ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ اورنہ کبھی ہو گا۔ ہاں یہ‬
‫ایک حقیقت ہے کہ اب خلوص‪ ،‬انسانیت اور بھائی چارہ پہلے‬
‫سے کم ہو گیا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن سے کم وبیش‬
‫ہم سب واقف ہیں سو تفصیل ضروری نہیں ہے۔ یادش بخیر میرے‬
‫بچپن میں آس پاس کے گھروں میں‪ ،‬عزیزوں دوستوں میں‪ ،‬گھر‬
‫کی مائوں ‪،‬بہوئوں اور بڑی بوڑھیوں میں ملنا جلنا‪ ،‬آنا جانا‪ ،‬بے‬
‫مقصد آ کر بیٹھ جانا اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک‬
‫ہونا اتنا عام تھا کہ آج کی تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ یہ‬
‫عالم تھا کہ محلہ کا ہر بزرگ (اور غیر بزرگ!) اپنے آپ کو‬
‫دوسروں کی اولاد کا ولی اور ‪:‬ٹھیکہ دار‪ :‬سمجھتا تھا۔ ایک واقعہ‬
‫سناتا ہوں جو اس کیفہت کو خوب بیان کرتا ہے۔ایک دن سڑک پر‬







‫جو ان کی کلاہ سے جڑا ہوتا ہے فرق سمجھنے کا ہے کسی ماہر‬
‫فن کو آپ فن کار کہہ سکتے ہیں جس کا کام بولتا ہے جس کا ہنر‬

‫بولتا ہے مگر ایسے بھی لوگ مجھ جیسے ہیں جو کچھ نہیں‬
‫جانتے مگر باتیں خوب بناتے ہیں انہیں بھی فن کار کہا جاتا‬
‫ہےکبھی کبھی لہجہ وہی رہتا ہے مگر معانی بدل جاتے ہیں‬
‫جیسے کہ ایک صاحب فرمانے لگےماں کسم ایسا بھینکر اجگر‬
‫دیکھا ایسی بری طرح فن کار ریا تھا کی میرے تو دماگ کے‬

‫طوطے اڑ گئے ‪ ،‬آج کل طوطے پکڑ ریا ہوں ۔۔۔۔۔۔‬
‫اسماعیل اعجاز‬

‫بیوہ طواءف‬
‫فروری ‪2014 ,08‬‬

‫اپ کا یہ چھوٹا سا افسانہ پڑھا۔ بُہت اچھا لگا۔ اپ کی تحریریں‬
‫ماشاالله بُہت جاندار ہوتی ہیں۔ اور اپ کے احساسات کی وسعت کو‬

‫سموئے ہوتی ہیں۔ زندگی کو اس قدر قریب سے دیکھنے اور‬
‫محسوس کرنے کا فن اپ کی تحریروں سے واضح ہے۔الله پاک‬

‫اپ کو ہمیشہ خوش و ُخرم رکھے۔‬
‫وی بی جی ‪17‬‬

‫بڑا آدمی‬
‫مارچ ‪2014 ,08‬‬

‫یہ تحریر واقعی میں بُہت کرب رکھتی ہے۔ اور پھر اپ کے‬

‫لکھنے کے انداز نے اسے بیش قیمت بنا دیا ہے۔ قاری کو ایسے‬
‫جہان کی سیر کروا کر نتیجہ کی طرف لاتی ہے اثر روح تک اُتر‬
‫جاتا ہے۔ پھر جس قدر اپ نے حالات و واقعات لکھے ہیں اپ کے‬
‫تجزیئے کی طاقت اور احساس کی وسعت اس سے ظاہر ہے کہ‬

‫جیسے معلوم نہیں کتنا ہی قریب سے اپ نے یہ سب دیکھا‬
‫ہے۔ہمیں وقت کی کمی رہتی ہے‪ ،‬لیکن اپ کے مضامین اور‬
‫افسانے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بُہت پسند اتا ہے ہمیں‬

‫اپ کا لکھا۔‬
‫وی بی جی‪18‬‬

‫کریمو دو نمبری‬
‫مئی ‪2014 ,12‬‬

‫معذرت چاہتے ہیں کہ دیر سے حاضری ہوئی۔ بُہت خوبصورت‬
‫تحریر ہے‪ ،‬اور اپ کی اُن بہترین تحریروں میں سے ایک ہے جن‬

‫میں اپ کی اس صلاحیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اپ ڈرامہ بھی‬
‫بُہت خوب لکھ سکتے ہیں۔ کہانی لکھنا جتنا اسان دکھائی دیتا ہے‬

‫اُتنا اسان ہوتا نہیں۔ اپ کی خصوصیات ہیں کہ اپ کا قلم کسی‬
‫دائرے میں مقید نہیں ہے۔یہ صدیوں سے روایت چلی اتی ہے کہ‬
‫بُرا کا انجام بُرا ہوتا ہے‪ ،‬کئی تحریرں لکھی گئی ہیں‪ ،‬جن سے یہ‬
‫تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن ذاتی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا‬

‫ہوتا نہیں ہے۔ ہم اوائل میں بچوں کو یہ سبق سکھانے کی‬
‫کوشش کرتے ہیں‪ ،‬لیکن بڑے ہوتے ہی وہ تجربات سے سیکھ‬
‫ہی جاتے ہیں کہ نیکی کا انجام اچھا تو ہوتا ہے لیکن صرف اُس‬

‫کے حق میں جس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہے۔ ہم مثالیں‬
‫ڈھونڈتے ہیں ایسے لوگوں کی جن کا انجام بُرا ہؤا ہو‪ ،‬اور اُن‬
‫لوگوں کو بھول جاتے ہیں‪ ،‬جو نیکی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں‪،‬‬
‫یا وہ جو بُرائی کر کہ تا حیات کامیاب ہی رہتے ہیں۔ ہم خود بھی‬
‫یہی کرتے ہیں‪ ،‬کسی بات کو قُدرت کی طرف سے ازمائیش کے‬
‫زمرے میں ڈال دیتے ہیں‪ ،‬کسی نیک کے ساتھ بُرا ہو تو اُسے‬
‫اُس کی کسی نامعلوم بُرائی کا نتیجہ قرار دے لیتے ہیں‪ ،‬اگر کوئی‬
‫بُرا دُنیا میں کامیاب رہے تو اس کی سزا اخرت پر موقوف کر‬
‫دیتے ہیں۔ کیا کیجے‪ ،‬الله کے ُمعاملے میں بھی جھوٹ کے بغیر‬
‫چارہ نہیں۔اگر ہماری کسی بات سے دل ازاری ہوئی ہو تو معذرت‬
‫چاہتے ہیں۔ لیکن جو حال سو حاضر ہے۔تحریر پر ایک بار پھر‬

‫بھرپور داد کے ساتھ‬
‫وی بی جی ‪19‬‬

‫معالجہ‬
‫مئی ‪2014 ,13‬‬

‫ہمیشہ کی طرح بُہت خوبصورت تحریر ہے۔ ایک عام سی کہانی‬
‫سے اپ نے فکر امیز نتائج اخذ کیئے ہیں‪ ،‬بلکہ سوچ کو اس ڈگر‬
‫تک پُہنچا دیا ہے کہ انسان خود سوچ سکے ان باتوں پر۔ ہماری‬
‫طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔جیسے کہ ریت ٹھہری ہے کہ‬

‫ہم اپنی سی رائے دیتے رہتے ہیں۔ خیالات ہمارے بیکار سہی‬
‫لیکن اپ کو اندازہ ہو جاتا ہو گا کہ ُکچھ لوگ ایسا بھی سوچتے‬

‫ہیں۔ تو اسی حوالے سے ہم اس تحریر کے اخری پیرائے کی‬
‫طرف اتے ہیں۔‬
‫اقتباس‬

‫بایو کیمک اصول کے مطابق‘ منفی کی درستی کے لیے‘ منفی‬
‫رستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ منفی کا‘ اس کے سوا‘ کوئی اور‬

‫معالجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔‬
‫ہمارا تجزیہ اس بارے یہ کہتا ہے کہ منفی کا علاج منفی سے‬
‫ممکن ضرور ہے لیکن بُہت ہی کٹھن ہے۔ منفی اور منفی اپس‬
‫میں مل کر بھی مثبت نہیں بن سکتے‪ ،‬اور جیسا کہ ریاضی کا‬
‫اصول ہے انہیں اپس میں ‪:‬ضربیں‪ :‬کھانی پڑتی ہیں اور نتیجہ تب‬
‫ہی مثبت نکلتا ہے۔ منفی کو شکست صرف مثبت ہی سے ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬لیکن اس کی شرط اول مثبت کا مکمل مثبت ہونا ہے۔ وگرنہ‬
‫شکست لازم ہے۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ یہ کونسے مرزا صاحب‬
‫تھے‪ ،‬لیکن اُن سے کسی نے کہا تھا کہ صاحب! اپ کے بارے‬
‫میں فلاں صاحب نے بُہت سخت باتیں لکھی ہیں اپ کیوں خاموش‬
‫ہیں‪ ،‬اپ بھی لکھیئے ُکچھ‪ ،‬تو اُنہوں نے فرمایا تھا کہ ‪:‬بھائی!‬
‫اگر گدھا تُمہیں لات مارے تو تم کیا کرو گے‪:‬ہم نے اس پر کافی‬
‫غور کیا۔ لات کا جواب لات سے دینا دُرست نہیں ہو گا کیونکہ لات‬
‫مارنا گدھے کی خصلت ہے‪ ،‬انسان لاتوں کے ُمقابلہ میں اُس سے‬
‫جیت نہیں سکتا۔ ایسے ہی منفی کا مقابلہ کرنے کے لیئے منفی‬
‫ہو جانا بُہت مشکل ہے۔ ہٹلر کی اپ نے مثال دی ہے۔ اگر اُس کو‬
‫لاکھوں لوگوں کے مرنے پر رحم نہ ا جاتا تو دُنیا کا نقشہ ُکچھ‬
‫اور ہوتا۔ اخر اُس کے اندر کی اچھائی کہیں سے اُبھر ہی ائی‪ ،‬اور‬
‫شکست کھانا پڑی۔ ایک مثبت کا منفی کے ُمقبالے میں ُمکمل‬
‫منفی ہو جانا بُہت مشکل ہے۔ اس کی ایک اور مثال ہمارے دیرینہ‬

‫دوست مرحوم شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہایک بار ایک‬
‫شخص کو پاؤں میں ُکتے نے کاٹ لیا۔ بیچارہ رات بھر تکلیف‬
‫میں چیختا رہا۔ اُس کی معصوم اور ننھی سی بیٹی نے اُس سے‬
‫کہا کہ بابا اگر ُکتے نے اپ کو کاٹا تھا تو اپ بھی اُسے کاٹ‬
‫لیتے۔وہ اس تکلیف میں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ بیٹی۔ میں یہ تو‬
‫برداشت کر لوں گا کہ میرے سر میں تلوار گھس جائے لیکن یہ‬

‫ُمجھ سے نہ ہوتا کہ ُکتے کے غلیظ پاؤں میں میرے دانت‬
‫گھستے۔سو صاحب مثبت کے لیئے یہ بُہت ُمشکل یا تقریباً‬
‫ناممکن ہوتا ہے کہ وہ منفی کا مقابلہ منفی ہو کر کر سکے۔ ہاں‪،‬‬
‫اسے شکل بدلنی پڑتی ہے اور اُس بدلی شکل کو منفی نہیں کہا‬
‫جاتا‪ ،‬بلکہ مثبت کہا جاتا ہے۔ اگر شکل نہ بدلے تو منفی اور منفی‬
‫ایک صورت ہو جاتے ہیں۔قسمت بڑی مزاحیہ ہوتی ہے صاحب!‬
‫کہانی کے ہیرو کے دادا نے بھی اپنی سی کوشش کی تھی۔ کیا‬
‫جانئیے‪ ،‬کہ اس کی کوشش کامیاب ہو کر بھی ناکام ہو جائے اور‬
‫حال ویسا ہی ہو جیسا کہ اس کے دادا جان کا ہؤا۔ پھر بھی ہم ان‬
‫کو یہی مشورہ دیں گے کہ چاہے منفی ہی کیوں نہ ہونا پڑے‪،‬‬
‫انہیں اپنی بات منوانی چاہیئے۔ کل کو اس کی سزا ب ُھگتتے ہوئے‬
‫یہ احساس تو نہ ہوگا کہ کسی اور کے کیے کی سزا ب ُھگتنی پڑی۔‬
‫ایک اور مشورہ بھی ہے کہ ایک بار منفی ہونے کے بعد کامیابی‬
‫اسی میں ہے کہ ہمیشہ منفی رہا جائے کیونکہ قدرت‪ ،‬مثبت کی‬
‫طرف لوٹنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ایک بار پھر بھرپور‬

‫داد کے ساتھ۔‬

‫وی بی جی ‪20‬‬

‫میں ابھی اسلم ہی تھا‬
‫مئی ‪2014 ,09‬‬

‫واہ واہ واہ واہ ۔۔ جناب کیا ہی بات ہے۔ واہکہاں کہاں نظر ہے‬
‫جناب اپ کی‪ ،‬یہ حلاج اور حمادی کے فتوے کو کہاں لے ائے‬
‫اپ۔ اپ بات کہاں سے ُشروع کرتے ہیں اور کیسے اپنا مقصد‬
‫بیان کر جاتے ہیں اس کے تو ہم قائل ہیں ہی۔ لیکن یہ جو لکھا‬

‫ہے نا اپ نے کہ‪:‬۔‬

‫ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر ‘میرے اندر بھی‪:‬‬
‫سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ نہیں‬
‫ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے بغیر‘ ملنگ‬
‫بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔‪ :‬کمال ہے جناب۔ ڈھیروں داد‬

‫قبول کیجے۔سچ ہے‪ ،‬اگر منصور بھی ریحانہ نہ ہو گیا ہوتا تو‬
‫حمادی کا بھی کہیں نام و نشان نہ ہوتا۔ یہ بھی دُرست ہے کہ‬
‫منصور بھی اسی ملنگ بابے کی طرح اپے میں نہ رہا۔ یہی وجہ‬
‫ہے کہ شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی اپنی کتاب میں‬
‫لکھتے ہیں کہ منصور کو اخری وقت پر پتہ چل گیا تھا کہ وہ بھی‬
‫‪:‬اسلم ہی تھا‪ ،‬ریحانہ نہیں ہؤا تھا اور نہ ہو سکتا تھا‪ :‬اور یہ‬
‫خود کو ریحانہ سمجھنے سے اوپر کا درجہ تھا۔۔ہماری طرف‬
‫سے اس خوبصورت تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد جناب۔‬

‫وی بی جی‬

‫اپ کا علمی مراسلہ پڑھا اور خوشی ہوئی ُکچھ تاریخی پس منظر‬

‫جان کر اس کے لیئے ُشکریہ قبول کیجے۔اپ جس قدر علم‬
‫رکھتے ہیں اور اپ کا جس قدر مطالعہ ہے اس میں کوئی شک‬
‫کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم اس بارے میں جو خیال رکھتے ہیں وہ‬
‫تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں‪ ،‬کہ اپ کا وقت بھی نہ ذائع ہو اور‬
‫خیال بھی اپ تک پہنچ جائے۔اس پر غور کریں تو ُمعاملہ ‪:‬وحدت‬
‫الوجود‪ :‬اور ‪:‬وحدت الشہود‪ :‬کے نظریات کی طرف چلا جاتا ہے۔‬
‫ہمیں وحدت الوجود کے قائل صوفیا کرام کی اس قدر بڑی تعداد‬
‫ملتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ اپ جانتے ہی ہونگے لیکن بات‬

‫کے تواتر کے لیئے تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں کہ ‪:‬وحدت‬
‫الوجود‪ :‬کا نظریہ یعنی "ایک ہو جانا" یعنی الله تعالی کی ہستی‬
‫میں گم ہو جانا۔ ۔اور ‪:‬وحدت الشہود‪ :‬سے مراد ‪:‬ایک دیکھنا ہے‪:‬‬
‫یعنی چاروں طرف ‪:‬تو ہی تو‪ :‬ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے ۔ سالک‬
‫ہر چیز میں جلوہ باری تعالی دیکھتا ہے۔حضرت امام غزالی اور‬
‫اُس کے بعد کے کئی صوفیا نے جو سالک کے لیئے منازل بیان‬
‫کی ہیں یا ‪:‬طریقت‪ :‬بیان کی ہے اُس میں انسان خود کو ہر نفسانی‬
‫خواہش سے پاک کر کہ جب اس راہ چلتا ہے تو وہ ذکر کے‬
‫دوران ایک بُہت بڑا منبع نور دیکھتا ہے‪ ،‬اور خود کو اہستہ‬
‫اہستہ اس میں جذب ہوتا محسوس کرتا ہے۔ اخر کار وہ خود کو‬
‫ُمکمل طور پر اس کا حصہ محسوس کرتا ہے۔ تمام صوفیا اس پر‬

‫متفق ہیں کہ انسان خود کو ذات باری تعالی میں ضم ہوتا‬
‫محسوس کرتا ہے اور خود کو خدا محسوس کرتا ہے۔ حضرت‬
‫مجدد الف ثانی سے پہلے تک یہی نظریہ ‪:‬وحدت الوجود‪ :‬تھا اور‬
‫اس مقام کو اخری اور سب سے اونچا ُمقام سمجھا جاتا تھا۔ اس‬
‫نظریئے نے کئی مسلے پیدا کیئے کہ کئی لوگ راہ بھٹکے اور‬
‫خود کو خدا سمجھنے لگ گئے۔ پھر مجدد الف ثانی نے ‪:‬نظریہ‬

‫وحدت الشہود‪ :‬پیش کیا کہ صاحب اس سے اونچا ُمقام بھی‬
‫موجود ہے۔ اس میں انسان خود کو ذات باری تعالی سے الگ ہوتا‬
‫محسوس کرتا ہے اور اخر اسے ہر طرف خدا نظر اتا ہے‪ ،‬اور وہ‬
‫خود کو خدا محسوس نہیں کرتا۔ حضرت مجدد الف ثانی فرماتے‬

‫ہیں کہ کئی صوفیا اس درجے پر نہیں گئے اور انہیں تامرگ‬
‫معلوم تک نہ ہؤا کہ وہ غلطی کر رہے ہیں۔ صرف منصور کے‬
‫بارے وہ لکھتے ہیں کہ اخری ایام میں اسے علم ہو گیا تھا۔ان‬
‫باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے جو اخذ کر رکھا ہے وہ یہ‬
‫ہے کہ منصور چونکہ ‪:‬وحدت الوجود‪ :‬کا معتقد تھا اور ‪:‬وحدت‬
‫الشہود‪ :‬کا نظریہ بُہت بعد میں ایا‪ ،‬سو اس کا خود کو خدا سمجھنا‬
‫یا کہہ دینا عین ممکن نظر اتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عالم وجد‬
‫میں کہی گئی بات سے اُس کا کیا ُمراد تھا‪ ،‬وہ سب کو سمجھا پاتا‬
‫یا نہیں۔ اُس کا علم الہامی تھا اور اس کے لیئے دلائل نہیں ہؤا‬
‫کرتے۔یہ ہمارا خیال ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے اتفاق ضروری‬
‫نہیں۔ اُمید ہے اسی طرح اپ ہمیں بھی تاریخ کی ُکچھ نہ ُکچھ تعلیم‬

‫دیتے رہیں گے۔‬
‫وی بی جی‬

‫پٹھی بابا‬
‫مئی ‪2014 ,06‬‬

‫بُہت عمدہ جناب۔ اچھی تحریر ہے۔ ہمارے خیال کے ُمطابق‪ ،‬یہ تو‬
‫ایک عام سا ُمعاشرتی رویہ ہے کہ ہر ‪:‬عاشق پُتر‪ :‬کو ماں‪ ،‬بہن‬
‫یاد کروائی جاتی ہے‪ ،‬لیکن اپ نے اسی بات کو قدرے ُمختلف‬

‫رنگ دیا ہے۔ جہاں ‪:‬بابا حق‪ ، :‬نا صرف دلائل کے ساتھ‪ ،‬دھیدو‪،‬‬
‫سکندر اور محمود کی بات کرتا ہے‪ ،‬بلکہ ُکچھ غلط العام پیمانوں‬

‫کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جن کے ذریعے دُنیا اچھا بُرا‬
‫پہچانتی ہے۔ اپ کی بیش تر باتوں سے ہمیں اتفاق ہے۔ رانجھے‬
‫کا قصہ (ہر وارث شاہ) پڑھیں تو حضرت رانجھا صاحب کا‪ ،‬باغ‬
‫میں ہیر اور اُس کی سہیلیوں کے ساتھ سلوک کا‪ ،‬جو ذکر ملتا‬
‫ہے‪ ،‬وہ اپ کی بات کی تصدیق ہے۔ سکندر اعظم کے بارے بھی‬
‫ہمیں اپ سے اتفاق ہے‪ ،‬اور یہ بات دُرست ہے کہ راجہ پورس‬
‫کی اپنے ہی ہاتھیوں کے باعث شکست صرف اس لیئے صراحی‬
‫جاتی ہے کہ‪ ،‬ایک ہندو راجہ تھا‪ ،‬یہ کوئی نہیں کہتا کہ اُس کی‬
‫فوج نے اُس کے بعد مذید اگے جانے سے انکار کیوں کیا۔ محمود‬
‫کے بارے ہم ذیادہ نہیں جانتے اس لیئے ُکچھ کہہ نہیں سکتے‪،‬‬
‫لیکن جب اتنا ُکچھ اپ نے دُرست کہا ہے تو یقیناً اس کی تاریخ پر‬
‫بھی اپ کی نظر ہو گی۔ دُنیاوی عشق کے بارے ہمارا خیال ہے‬
‫کہ‪ ،‬بقول بابائے نفسیات‪ ،‬فرائڈ کے ہر انسانی خواہش‪ ،‬جنسی‬
‫ہوس اور بھوک وغیرہ سب ایک ہی اشتہا کا نام ہے۔ جب تک دُنیا‬
‫میں بھوک ہے‪ ،‬اور جب تک شیر‪ ،‬ہرن کو کھاتا رہے گا‪ ،‬اس کو‬
‫ختم نہیں کر سکتے۔ جب تک خواہشیں ہیں‪ ،‬تکمیل کی کوشش‬
‫انسان کرتا رہے گا اور یہی ترقی کا دوسرا نام بھی ہے۔ اب رہ‬
‫یہی جاتا ہے‪ ،‬کہ خواہشیں اگرچہ تمام ہی بُری ہیں‪ ،‬لیکن ان کو‬
‫اچھی اور بری اقسام میں تقسیم کیا جائے۔ بُری خواہشوں کو کم‬
‫سے کم کیا جائے‪ ،‬یا کم از کم ان کی تکمیل کرنے کی کاوش سے‬

‫انسان کو روکا جائے۔ یہی اپ نے کیا ہے‪ ،‬اور خوب کیا ہے۔‬
‫ہمارا خیال ہے کہ دُنیاوی ُمحبت‪ ،‬عشق وغیرہ اپ کے کہنے کے‬
‫ُمطابق ہی اصل میں جنسی ہوس ہی ہے‪ ،‬یہی فرائڈ بھی کہتا ہے‪،‬‬

‫لیکن ہمارا خیال ہے کہ انسان نے یہ دیکھتے ہوئے کہ‪ ،‬اس‬
‫گھوڑے کو روکا نہیں جا سکتا‪ ،‬اسے ُمحبت اور عشق جیسے‬
‫پاکیزہ نام دے کر‪ ،‬اس کی باگ موڑنے کی کوشش کی ہے۔ اور‬
‫بُہت حد تک کامیاب بھی ہؤا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو مرد کو‬
‫عورت اور عورت کو مرد پسند کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے‪،‬‬
‫اور غلاظت سے دور بھی رکھتا ہے۔ ہمارے نذدیک وہ تمام‬
‫کہانیاں جو عشق و ُمحبت کی پاکیزگی بیان کرتی ہیں اور انسان‬
‫کو اس بات پر امادہ کر دیتی ہیں کہ وہ انہیں خوبصورت جذبے کا‬
‫نام دے کر‪ ،‬برائی سے دور رہے‪ ،‬وہ اس قدر غلط نہیں ہیں۔‬
‫سوائے اس ایک بات کے‪ ،‬کہ وہ عشق اور محبت کی ناکامی کی‬
‫صورت میں‪ ،‬انسان کو لاغر اور بےکار بن جانے کی ترغیب دیتی‬
‫ہیں۔ اس کو روکنا بُہت ضروری ہے۔اب اس پر باقی ُکچھ ہم کہہ‬
‫نہیں سکتے‪ ،‬کیونکہ ہم خود اُن لوگوں میں سے ہیں جو بقول‬
‫شخصے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بیوی وہ ُکچھ نہ کرے جو وہ‬
‫چاہتے ہیں کہ پڑوسی کی بیوی کرے۔ تحریر پر ایک بار پھر‬
‫بھرپور داد۔ رواں رکھیں۔ انہیں پڑھ کر ہمیں بُہت فائدہ ہوتا ہے۔‬
‫ُکچھ دیر سوچنے کا موقع ملتا ہے اور اپنے اپ کو پرکھنے کا‬

‫بھی۔‬
‫وی بی جی‬

‫جی دُرست فرمایا اپ نے۔ ُظلم تو واقعی ہے۔ ہم لوگ اج بھی‬
‫خلیفہ ہارون الرشید کی تعریفیں کتابوں میں پڑھتے ہیں‪ ،‬بلکہ‬
‫تمام ُمسلمان بادشاہوں‪ ،‬جیسے ُمغلیہ خاندان وغیرہ کی تعریف‬
‫کرتے ہیں۔ کبھی نہیں کہتے کہ‪ ،‬خاندان برامکہ کا کیا حال ہؤا‬

‫تھا‪ ،‬کبھی نہیں لکھتے کہ فرقہ معتذلہ کیا تھا‪ ،‬کبھی نہیں پڑھتے‬
‫کہ‪ ،‬امام احمد بن حنبل کے ساتھ کیا سلوک ہؤا۔ تب بھی ایسا ہی‬
‫کرتے تھے۔ لیکن افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ اب بھی ہم‬
‫ایسا ہی کر رہے ہیں۔ بقول فرازیہاں قلم کی نوک پر ہے نوک‬
‫خنجر کیاپ کی دُعاؤں کا ُشکریہ۔ ہم ُگم ہو جائیں تو ‪:‬انا للہ‪ :‬پڑھ‬
‫لیا کیجے۔ ُسنا ہے کوئی چیز ُگم ہو جائے تو یہی پڑھنا چاہیئے۔‬

‫اگر دُنیا میں نہ ہوئے تو مغفرت کے کام ائے گی۔‬
‫وی بی جی ‪21‬‬

‫جواب کا سکتہ‬
‫اپریل ‪2014 ,04‬‬

‫اپ کی ُکچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں‪ ،‬کہ اُنہیں پڑھ کر انسان کو‬
‫لگتا ہے کہ ابھی اور اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اور کبھی‬
‫ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ پڑھ کر انسان جو ُکچھ محسوس کرتا‬

‫ہے اُسے الفاظ نہیں دے پاتا۔ کئی افسانے اپ کے ایسے بھی‬
‫ہوتے ہیں کہ کہتے ُکچھ نظر اتے ہیں لیکن کہہ ُکچھ اور رہے‬
‫ہوتے ہیں۔ ‪:‬نقاد‪ :‬تو بُہت اونچا مرتبہ ہے‪ ،‬ہم تو صرف ایک عام‬
‫ادمی کی سی عقل کے حامل ہیں اور صرف یہ سوچ کر اپنی رائے‬
‫کا اظہار کرتے ہیں کہ جو ہم نے محسوس کیا وہ اپ تک پُہنچ‬
‫جائے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ جو ُکچھ اپ اپنی تحریر میں کہہ‬
‫رہے ہوتے ہیں‪ ،‬ہم ُجزوی یا پھر ہو سکتا ہے کہ ُکلی طور پر‬
‫بھی نہ سمجھ پائے ہوں۔ ہمارے بیان سے اپ کو اتنا تو علم ہو‬

‫ہی جائے گا کہ ایک عام شخص نے پڑھ کر کیا محسوس کیا۔یہ‬
‫تحریر بھی سوال چھوڑ جاتی ہے‪ ،‬افسانے کا ہیرو چونکہ خود‬
‫ایک اسامیاں پھنسانے والا شخص ہے اس لیئے اُس کے اپنی‬

‫بیوی کے بارے جو بھی خیالات ہیں وہ مشکوک ہیں اور‬
‫بھروسے کے لائق نہیں۔ دوسری طرف بیویوں کے عام رویوں‬
‫کی طرف اشارہ ہے کہ اپنے بچے اُسے اپنے بچے ہی ہوتے ہیں‬

‫جبکہ شوہر کسی اور کا بچہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی‬
‫محسوس ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رقیہ کو معلوم ہو کہ اس کا‬
‫شوہر باہر کے کھانے پسند کرتا ہے سو اُس نے پہلے دن ہی اُس‬
‫کو خوش کر دیا ہو)۔ یہ بھی اخض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے‬
‫بچوں کو حرام نہیں کھلانا چاہتی تھی کیونکہ گھر کا کھانا بھی تو‬
‫اُسی کمائی کا ہو گا۔ویسے بیوی کے ُمعاملے میں زیادہ سوچنا‬

‫نہیں چاہیئے کیونکہ اُس کے کئی کام عقل سے باہر ہی ہوتے‬
‫ہیناور عورتوں کا منطقی طرز علم مردوں سے یکسر ُمختلف ہوتا‬
‫ہے۔اس ُمعمے کو ُمعاشرتی طرز عمل سے دریافت کرنے اور پھر‬

‫الفاظ دینے پر داد قبول کیجے‬
‫وی بی جی ‪22‬‬

‫ماسٹر جی‬
‫مئی ‪2014 ,02‬‬

‫بُہت اچھی تحریر جناب۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول‬
‫کیجے۔ اپ بات کرنے کا فن جانتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ ُمعاشرے‬
‫کے ایک تلخ رویئے کو اپ نے ایک چھوٹی سی کہانی میں سمو‬

‫دیا ہے۔ اور پھر پُر اثر بھی ہے۔ پڑھ کر ہمیں ُکچھ ُکچھ محسوس‬
‫ہؤا کہ ماسٹر جی شکل ہم سے کچھ ملتی ُجلتی سی ہے۔ لیکن‬

‫مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو تلقین کرنا ماسٹر جی کا اصلی روپ‪ ،‬یا‬
‫اصلی چہرہ تھا۔ اور اُس پر کتنے ہی نقاب ڈال لیئے جائیں وہ اس‬

‫سے بچ نہیں سکتے تھے۔ مذہب والا نقطہ بھی ‪ ١٠٠‬فی صد‬
‫دُرست ہے‪ ،‬کہ اس میں ویسے ہی عقل کو ایک طرف رکھ دیا‬
‫جانا ہوتا ہے سو ان معاملوں میں سمجھ کی ضرورت تو ہوتی‬
‫نہیں۔ مولوی صاحب کے ساتھ بھی یہی ہؤا کہ ایک دن اصلی‬
‫چہرہ سامنے ا ہی گیا۔ ہماری طرف سے بھروپر داد قبول کیجے۔‬

‫وی بی جی‬

‫سچ پوچھیں تو ہم ُشروع میں یہاں ائے تھے تو اپ کے لکھے‬
‫کی طرف انا دُشوار سا لگتا تھا کہ لمبی تحریروں کو کون پڑھے‬
‫اور وہ بھی توجہ مانگتی ہیں۔ پھر ایک ادھ بار پڑھا تو دل کو‬

‫بُہت بھایا۔ پھر ان پر لکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ صاحب‬
‫ہماری داد کس لائق ہے اس قدر تفکر امیز تحریروں کے سامنے‪،‬‬
‫لیکن پھر ہم سے رہا نہیں گیا۔ اپ نے ‪ 1993‬کے بعد کوئی کتاب‬
‫شائع نہیں کروائی‪ ،‬وجوہات بھی ہونگی۔ لیکن ہماری درخواست‬

‫یہی رہے گی کہ جہاں تک ہو سکے‪ ،‬ہمیں ان سے مستفیض‬
‫ہونے کا شرف دیتے رہیئے گا۔ داد و تحسین‪ ،‬اپ جانتے ہی ہیں‪،‬‬
‫کہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ‪:‬ہم تو پکھی واس ہوویں‪ :‬سو جانے‬
‫یہاں کب تک ہیں‪ ،‬لیکن یہ سلسلہ جاری رہے تو اچھا ہے۔ کوئی‬
‫نہ کوئی ان سے استفاضہ حاصل کرتا رہے گا۔ اپ جانتے ہی ہیں‬
‫کہ انٹرنیٹ پر اگر کوئی چیز ‪ ٢٠٠‬لوگ پڑھتے ہیں تو ‪ ١٠٠‬لوگ‬

‫پسند بھی کرتے ہیں‪ ،‬لیکن اپنی پسند کا اظہار فقط کوئی ایک ادھ‬
‫شخص ہی کرتا ہے۔ بہار اتی ہے کویل کوکتی ہے‪ ،‬کوئی ُسنے نہ‬
‫ُسنے۔ ایسے ہی اپ کے یہ خوبصورت احساسات ہیں‪ ،‬جو پڑھنے‬
‫والوں کے زہنوں کو پختگی دیتے ہیں۔ مردہ ضمیر کو زندہ کرتے‬
‫ہیں۔ اپ کو قدرت نے یہ صلاحیت دی ہے کہ اپ کی تحریر صرف‬

‫ایک قول کی طرح اچھا یا بُرا بتا نہیں دیتی‪ ،‬بلکہ ضمیر کو‬
‫جگاتی ہے۔ صرف اچھائی کی تغیب اور بُرائی چھوڑنے کی تلقین‬
‫نہیں کرتی‪ ،‬بلکہ اچھائی کرواتی ہے اور بُرائی کی طرف بڑھتا‬
‫ہاتھ روکتی ہے۔ بقول ہمارے ہیکھولے نہ کھولے در کوئی‪ ،‬ہے‬
‫ُمجھ کو اس سے کیامیں چیختا رہوں گا تیرے در کے سامنےالله‬

‫پاک کا ہمیشہ کرم رہے اپ پر۔‬
‫وی بی جی‬

‫بڑے ابا‬

‫اپریل ‪2014 ,28‬‬

‫بُہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ جہاں اپ نے انسان کے بٹتے‬
‫چلے جانے کی بات کی ہے وہاں یہ تحریر ایک دوسرے کے‬
‫ساتھ ُمحبتوں کے ساتھ جینے کا بھی سبق دیتی ہے۔ تحریر میں‬
‫موجود کرب کا احساس اسے اور زیادہ جاندار کر رہا ہے۔ واقعی‬
‫صفر کا ہندسہ بُہت طاقت رکھتا ہے‪ ،‬اور اپ نے اسے اپنے انداز‬
‫میں بُہت خوبصورتی سے ُمعاملے کے ساتھ جوڑا ہے۔ صفر کے‬
‫ساتھ صرف ایک کا اضافہ اسے بُہت طاقتور کر دیتا ہے اور خود‬

‫بھی بُہت طاقتور ہو جاتا ہے بشرطیکہ کہ ‪:‬صحیح سمت‪ :‬میں‬
‫اضافہ ہو۔ غلط سمت میں اگر ایک کا اضافہ ہو تو ایک‪ ،‬ایک ہی‬
‫رہتا ہے لیکن صفر اپنا وجود بھی کھو دیتا ہے۔ ایک کو چاہیئے‬
‫کہ کوشش کرے کہ کئی صفروں کے ساتھ لگ جائے اور اسی‬
‫طرح اپنی اور دوسروں کی قیمت میں اضافہ کرے۔ ہماری طرف‬

‫سے بھرپور داد قبول کیجے۔ بُہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ہم نے‬
‫انسان کے بٹنے کے عمل کو ایک اور نقطہ نظر سے بھی دیکھا‬
‫ہے۔ شیکسپئر کے ُمطابق ‪:‬ال دا ورلڈ از سٹیج‪ :‬۔ اُنہوں نے انسان‬
‫کی زندگی کے ادوار کو کردار دیئے ہیں‪ ،‬جبکہ ہمارا خیال ہے کہ‬
‫انسان ایک ہی وقت میں کئی کردار بھی نبھاتا ہے۔ باپ بھی ہے‬
‫بیٹا بھی۔ دفتر میں ایک چہرہ تو رشتہ داروں کے سامنے کوئی‬

‫اور چہرہ۔ کہیں اداب بھری محفل میں ایک مؤدب شخص تو‬
‫دوستوں کے سامنے ایک گالم گلوچ والے انسان کا چہرہ۔ کہیں‬
‫چالاک اور مکار تو مولوی صاحب کے سامنے عجز و انکسار۔‬
‫کہیں خوشی نہ ہوتے بھی ہنسنا پڑتا ہے تو کہیں کسی کو موت‬
‫پر زبردستی رونے کی کوشش کرتا ہے۔ کردار نبھاتا ہے۔ اور‬
‫انہیں کرداروں میں بٹتا بٹتا‪ ،‬اپنا اصلی چہرہ بھول جاتا ہے۔ ایسا‬
‫ہی ایک کردار یہ ‪:‬وی بی‪ :‬ہے جس میں ہمیں اپنا چہرہ نظر اتا‬
‫ہے اور ہم اس کے ساتھ وقت ُگزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم‬
‫نے اپ کی تحریر پڑھ کر زیادہ وقت نہیں لیا‪ ،‬سو جذباتی سی چند‬
‫باتیں جو ذہن میں اُبھریں بیان کر گئے ہیں‪ ،‬جس پر معذرت بھی‬
‫چاہتے ہیں۔ ائندہ کوشش کریں گے کہ اپ کی تحریر کے ساتھ‬
‫زیادہ وقت ُگزاریں تاکہ جذبات ُکچھ ٹھنڈے ہو جائیں اور ہم ُکچھ‬
‫عقل کو لگتی کہہ سکیں۔اپ کی یہ تحریر بھی بُہت خوب ہے‪ ،‬اور‬
‫ہمیں یقین ہے کہ پڑھنے والے اس سے ضرور اثر لیں گے۔‬


Click to View FlipBook Version