آراء
ادریس شرلی
جون 2014 ,23
بُہت عمدہ جناب۔ ایسی تحریروں کی معاشرے کو بہت شدت سے
ضرورت ہے۔ لوگوں کو ہر پہلو سے ائینہ دکھاتے رہنا ہی اپ کی
تحریروں کا مقصد ہے اور وہ اپ بہترین طریقے سے کر رہے
ہیں۔
ادریس صاحب میں وہ وہ خصلتیں پائی جاتی ہیں جو اکثر
عورتوں میں پائی جاتی ہیں ،لیکن ُکچھ مردوں میں بھی یہ
خصلتیں پائی جاتی ہی ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال ُکچھ اس بارے میں یہ
ہے کہ ہمیں نیکی اور بدی کے فرق کو بہتر طور پر سمجھنے
کی ضرورت ہے۔ کئی ایسی نام نہاد نیکیاں معاشرے میں عام ہیں
جس سے بُہت نقصان ہو رہا ہے۔ جس کی مثال ہم ُکچھ یوں دیں
گے کہ کئی غیر قانونی سرکاری مراعات یہ کہہ کہ جائز قرار دے
دی جاتی ہیں :چھوڑیں جی ،یہ غریب ادمی ہے ،اس کا بھلا ہو
جائے گا :۔۔۔ سرکاری مال ،مال مفت اور دل بے رحم۔
دوسری مثال ان عمر رسیدہ لوگوں کی بھی ہے جنہیں ہم اپنے
بچوں سے چاچا اور انکل کہلواتے ہیں۔ بچوں کو یہ احساس
ضرور ہونا چاہیئے کہ عمر کے ساتھ لازماً زندگی کا وسیع تجربہ
منسلک ہوتا ہے ،لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہر بات
میں وہ درست ہوں۔ بقول ہمارے دیرینہ دوست شیخ سعدی
مرحوم کے: ،بزرگی بہ عقل ہست ،نہ بہ سال:۔
اندھی تقلید چاہے مذہب کی ہی کیوں نہ ہو ،ہم ذاتی طور پر اس
کے حق میں نہیں ہیں۔ سو ہمارے خیال میں کہانی کے مرکزی
کردار جیسے لوگوں کو ان کے منہ پر اپنے دل کی بات مناسب
انداز میں بتا دینی چاہیئے اور ہر کسی کی عزت اتنی ہی کرنی
چاہیئے جتنے اس کے اعمال کا حق ہو۔ ہمارے ہاں تو اپ جانتے
ہی ہیں کہ کسی کی تعظیم اور اس کا مقام ،اج بھی لوگ ،یا تو اس
کی دولت کے حساب سے کرتے ہیں یا پھر عمر کے حساب سے۔
ہماری نظرمیں یہ پیمانہ درست نہیں۔ بڑی گاڑی سے اترے والے
شخص کی خدمت بھاگ بھاگ کر کی جاتی ہے ،چاہے وہ خود نہ
بھی چاہے ،جبکہ اس ناچیز جیسا کوئی شخص سنیارے کی دکان
میں جانا چاہے تو محافظ دروازے پر ہی روک کر پوچھ گچھ
ُشروع کر دیتا ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی بزرگ ،بقول اپ ہی
کے ،اپنا لُچ بیچ میں تلنے کی کوشش کرے (ویسے یہ محاورہ
بھی کیا ہی خوب کسی نے بنایا ہے ،ہمیں بُہت پسند ہے) تو اس
پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔
سو ہمارے خیال میں جب تک تعظیم کا معیار درست نہیں ہوتا،
معاشرتی نا انصافیاں بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔ لوگوں کو ہر پہلو
سے ائنہ اپ خوب دکھاتے رہتے ہیں تاکہ لوگ اپنے گریبان میں
جھانک کر اپنے اندر موجود برائی کو جان پائیں۔ اور اگر وہ جان
گئے تو اس میں سب کا بھلا ہو گا۔
ایک بات ہم سے کہنا رہ گئی تھی۔ اپ کی تحریروں میں محاوراتی
زبان کا عنصر نمایاں ہے۔ اسے پڑھ کر ہمارے علم میں بہت
اضافہ ہوتا ہے اور یقیناً اس کے اثر سے ہم بھی اپنی بات کو
بہتر ،پُر اثر اور با معنی بنا سکا کریں گے۔ جس پر ُشکر گزار
ہیں۔
ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔
وی بی جی 1
آخری کوشش
جولائی 2013 ,15
فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چلاہے۔ کوئی رسالہ بھی !
اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افسانوں اور چند
منظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔
ماضی میں رسالوں میں ادبی ،علمی اور تحقیقی مضامین کثرت
سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید و تبصرہ فن کی حیثیت سے سیکھے
اور سکھائے جاتے تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے معیار کی
حامل تھی۔ اب ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے ہی نثر
نگاری خصوصا اضمحلال کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ آسان
سمجھتے ہیں (حالانکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں وقت کم لگتا ہے
اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور تحقیق بھی چاہتی
ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ ظاہر
ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے بل بوتے پر
پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس معمولی سی حقیقت
سے یا تو واقف ہی نہیں ہیں یا دانستہ اس سے صرف نظر کر
رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو محفلیں بھی اسی مرض کا شکار ہیں
اور وہاں بھی سوائے معمولی غزلوں کے (جن میں سے بیشتر
تک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔ آپ کی نثرنویسی میں
مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت خوش آئند ہیں۔ آپ مطالعہ
کرتے ہیں ،سوچتے ہیں اور انشائیے لکھتےہیں۔ اس جدو جہد
کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں اپی مثال کسی خودستائی
کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ
شوق،محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ میں نے
انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ غزل ،نظم،
افسانے ،ادبی مضامین ،تحقیقی مضامین ،ادبی تنقید وغیرہ سب
ہی لکھا ہے۔ یقینا سب کچھ اعلی معیار کا نہیں ہے لیکن بیشتر
اچھے معیار کا ہے اور ہندو پاک کے معتبر اور موقر رسالوں
میں شائع ہوتا ہے۔ میں آپ کی انشائیہ نگاری کا مداح ہوں اور
درخواست کرتا ہوں کہ برابر لکھتے رہہئے۔زیر نظر انشائیہ اچھا
ہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ وقت کے ساتھ خود ہی
کر لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔ باقی راوی سب چین بولتا
ہے۔
سرور عالم راز
سلام اس تحریر پر ہم ُکچھ نہ لکھیں گے۔ فقط یہی کہ اسے پڑھ
کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام کے قریب
سانسیں ُرک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ ک ُھلا کا ک ُھلا رہ جاتا ہے۔ اس
کے اندر جو کرب ہے اور جو ُکچھ یہ انگلیاں لکھنے کو دوڑ رہی
ہیں ،اُسے بصد مشکل روکتے ہوئے ،ایک بار پھر سے بھرپور
داد ۔۔۔دُعا گو
وی بی جی 2
چار چہرے
نومبر 2013 ,26
Pehla chehra yaqeenan sab se mumtaaz hai.
Hairangi ki baat yeh hai keh iss taraf koi jaata he
nahi. Danish ka barqaraar rehna aur usske liye
apne aap ko qurban karna buhot baRi baat hai
aur yehi baat pehle chehre ko dosrooN se
mumtaz karti hai.
Fikr angaiz khayyal aur umah tahreer.
خلش
آپ کا مختصر انشائیہ دیکھا تو مجھ کو ١٩۴٨کے آس پاس والد
مرحوم کا لکھا ہوا ایک مضمون :عورت کی فطرت :یاد آ گیا جس
کالب لباب یہ تھا کہ یہ معمہ اب تک حل ہوا ہے اور نہ آئندہ اس
کے حل ہونے کی کوئی امید ہے۔ آپ کاانشائیہ دیکھا کہ آخری
چند سطروں میں آپ نے خیال ظاہر کیے ہے کہ ان چار چہروں
کے مطالعہ سے یہ گتھی سلجھ سکتی ہے۔ میں صرف جذباتی
طور پر ہی نہیں بلکہ فکری سطح پربھی والد مرحوم سے زیادہ
متفق ہوں۔ آپ جب اس معمہ کو سمجھ لیں تو اپنے ارادت مندوں
کو ضرور حل سے آگاہ کیجئے گا! باقی رہ گیا راوی تو وہ چین
بولتا ہے۔
سرور عالم راز
میرا بھی یہی خیال ہے کہ محترم راز چاند پوری نے درست
فرمایا تھا ویسے یہ بھی پیش نظر رہے کہ ایک حدیث کا مفہوم
کچھ اس طرح ہے کہ عورت پسلیکی ہڈی سے پیدا ہوئی ہے
،اسے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو ورنہ توڑ بیٹھو
گےاس کی کجی کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھاتے رہو
والسلام
تنویرپھول 3
سرگوشی
جولائی 2014 ,06
آپ کاانشائیہ "سرگوشی" آپ کے مخصوص طرز فکر وبیان کا
اعلی نمونہ ہے۔ ایک ایک جملہ میں ایک داستان پوشیدہ ہے۔ بین
السطور کیا کیا نہیں کہہ دیا گیا ہے۔ پنجابی سے میں نا واقف ہوں
پھر بھی سیاق و سباق سے کچھ سمجھ ہی گیا۔ اگر آپ پنجابی
اشعار ،کہاوتوں اور فقروں کا ترجمہ بھی لکھ دیا کریں تو ہماری
مشکل آسان ہو جائے گی۔ اس سے قبل بھی آپ کے کئی انشائیے
نظر آئے لیکن اپنی بد تقدیری کے ہاتھوں ان سے مستفید نہ ہو
سکا۔ اب واپس جا کر ان کو پڑھنے کا ارادہ ہے۔ رمضان چل رہے
ہیں۔ اس مبارک ماہ میں ایسے مضامین اور بھی دل پذیر ہو
جاتے ہیں۔ جزاک الله خیرا۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔
سرور عالم راز 4
موازنہ
جون 2014 ,27
جناب عزت افزائی کا بُہت ُشکریہ۔ ہمارے لیئے اعزاز کی بات ہے
کہ اپ کے قلم نے ہمیں اس لائق سمجھا ہے۔ لیکن ایک گزارش
کرنا چاہیں گے کہ صاحب! یہ تعریفیں ہم سے برداشت نہیں
ہوتیں۔ سمجھ لیجے کہ تعریفیں وی بی جی کی موت ہیں۔ ہمیں
اچھی طرح معلوم ہے کہ اپ نے کس قدر خلوص اور محبت سے
ہمارے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ اور یقیناً اپ
نے حق گوئی کا مظاہرہ کیا ہو گا۔ جیسا محسوس ہؤا ویسا بیان
کیا ہو گا۔ ہم ُشکر گزار ہیں کہ اس لائق سمجھا اپ نے۔اپ نے
بُہت ہی خوبصورت انداز میں جواب عنایت فرمایا ہے۔ اپ قلم کار
ہیں سو اپ بات کہنے کا فن جانتے ہیں۔ لیکن اس گہرائی سے
مشاہدہ کرنا ظاہر ہے کہ گہری سوچ اور سلجھا ہؤا ذہن چاہتا ہے۔
ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ جواب بھی ہمیں بہت
پسند ایا ہے۔ دراصل کئی ایسے سوال ہوتے ہیں ،جن کے ذہن
میں اتے ہی ،لوگ انہیں جھٹلانا ُشروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو
سوچنا بھی گناہ ہے۔ اور اس طرح گویا یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ
ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے جو انسان دے سکے۔ اور
نتیجہ یہ کہ اپنے اپ کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں اور ایمان کی
کمزوری کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تمام سوالات کے
جواب موجود ہوتے ہیں۔ الله پاک اور اس دنیا کا وجود ہمیں غیر
منطقی نہیں نظر اتا۔ اگر ہم سوچنے پر ہی پابندی لگا دیں ،تو
جواب کہاں سے ائیں گے۔ ایمان پُختہ ہونا چاہیئے ،راز ک ُھلتے
چلے جاتے ہیں۔تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد۔۔۔ بُہت ہی عمدہ
تحریر ہے۔ ظاہر ہے کہ کئی سوالوں کے جواب دیتی ہے۔ ُسلجھا
ہؤا انداز تحریر ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔
وی بی جی 5
پہلا قدم
جون 2014 ,22
بُہت عمدہ جناب۔ بُہت ہی اعلی تحریر ہے۔ بھرپور داد۔ اپ کو بات
کہنے کا فن اتا ہے ،اور ظاہر ہے کہ یہی ایک قلم کار کے فن کا
مظہر ہے۔یہ تحریر جس راستے پر چلنے کا سبق دے رہی ہے
جناب ،وہ بُہت ہی مشکل راستہ ہے۔ اس قدر مشکل کے تصور
کرنا بھی محال۔ کاش کہ ہم لوگ اس مقام تک پہنچ
سکیں۔مشکلات صرف یہی نہیں جو تحریر سے عیاں ہیں ،بلکہ
ُکچھ برعکس بھی ہیں۔ اپ نے تاریخ میں سے ُکچھ مثالیں قلمبند
کی ہیں ،لیکن سچ پوچھیں تو ہم ایسی ہزاروں مثالیں پیش کر
سکتے ہیں ،جہاں بُرا کرنے والے کو اس کے کیئے کے برابر
سزا نہیں ملی۔ کئی ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں سرے سے سزا
ملی ہی نہیں ،بلکہ ظلم کرنے والے اخری سانس تک عیاشی اور
ظلم کرتے رہے۔ کئی مثالیں تو ہمارے سامنے ہی موجود ہیں
جہاں شرفا مہینوں چارپائی پر کھانس کھانس کر اور ایڑیاں رگڑ
رگڑ کر مرتے ہیں ،جبکہ ظالم لوگوں کے لیئے قدرت نے قدرے
اسان طریقہ موت بھی ایجاد کر رکھا ہے جیسے دل کا دورہ پڑنے
سے اچانک دُنیا سے اُٹھ گیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر دُنیا میں
انصاف ہو رہا ہوتا اور ہر ظالم کو حق کے مطابق سزا مل رہی
ہوتی ،تو ،نہ تو یہاں ظلم عام ہوتا ،اور نہ ہی جنت اور دوزخ کے
وجود کی کوئی ضرورت تھی۔جب یہ سب انسان دیکھتا ہے ،کہ
دنیا میں انصاف نہیں ہے۔ اچھا کرتا اور بُرا نتیجہ لیتا ہے تو
ظاہر ہے کہ قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ الله پر اعتماد بھی کہنے کو تو
بُہت ہوتا ہے ،لیکن دل میں کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں
اس راستہ پر چلنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔باقی جناب اپ کی
تحریر اس قدر خوبصورتی سے کئی پہلو سمجھا رہی ہے کہ مذید
ُکچھ کہنے کو رہ ہی نہیں جاتا۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول
کیجے۔ امید ہے کہ پڑھنے والے جس قدر ہو سکا ،اثر لیتے
ہوئے ،سچائی کے راستہ پر ڈٹے رہیں گے۔ایک بار پھر بھرپور
داد کے ساتھ
وی بی جی
ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہماری باتوں نے اپ کو کل سے عجیب
سی کشمکش اور بے چینی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہم نے کوشش
کی کہ جلد سے جلد حاضر ہو سکیں سو حاضر ہو گئے ہیں۔پہلے
تو ہم یہ بتاتے چلیں کہ جو اپ 40 - 50سال سے کر رہے ہیں وہ
بُہت بڑا کام ہے۔ ہم نے بھی ایسی ہی تحریریں پڑھی ہیں اور ہمیں
یاد تک نہیں کہ وہ کون لکھتے تھے۔ اور بھی کئی لوگ ہیں جو
اس علمی خزانے سے استفاضہ حاصل کرتے ہیں۔ اپ کی
تحریروں نے کئی لوگوں کو اگہی بخشی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ
اُنہیں اپ کا نام بھی یاد نہ رہے ،اور تحریروں کو سرسری پڑھ
کر چلے جائیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہی وہ تحریریں ہیں جو
اُن کے لاشعور میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ اور پھر اہستہ اہستہ
شعور کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔اپ جانتے ہی ہیں کہ ہم قلم کار
نہیں ہیں سو ُکچھ بھی لکھتے ہیں تو وہ بکھرا بکھرا اور کئی
بار بے ربط سا ہو جاتا ہے۔ ُکچھ ایسا ہی یہاں بھی ہؤا۔اصل میں
بات پیر صاحب کی تھی ،سو ہم اسے پیری میں ہی لے گئے۔ جو
طرز عمل پیر صاحب کا اس تحریر میں تھا وہ ہمارے خیال سے
صرف پیروں کے ہی بس کی سی بات ہے۔ سو ہم نے اس میں
پیش انے والی مشکلات کو ذرا سا بیان کر دیا اپنی محدود عقل
کے حساب سے۔ مشکلات تو اس بھی کہیں ذیادہ بڑھ کر ہیں۔ اس
سے ایک درجہ اوپر کی مشکل بھی موجود ہے جسے الفاظ بھی
دئیے جا سکتے ہیں ،لیکن اس کے بعد کی مشکلات کو تو الفاظ
بھی دینا ممکن نظر نہیں اتا ہمیں۔ ہم اس میں ذیادہ نہیں جاتے،
وگرنہ شاید ہم اپنی بے تُکی باتوں سے اپ کو مذید الجھا ہی نہ
دیں۔الله پاک ہم سب کو طاقت دے کہ ہر مشکل برداشت کریں لیکن
نیکی کے راستے سے قدم نہ بہکیں۔
وی بی جی
اسے پیاسا ہی رہنا ہے
جون 2014 ,20
آپ کی تحریر میں بہت درد ہوتا ہے اور ہر بات آپ کے دل سے
نکلی ہوئی لگتی ہے۔ نئی نسل ہماراہی عکس ہے۔ ہم نے ان کے
لئے جو روایات چھوڑی ہیں وہ ان سے الگ کیونکر ہو سکتے
ہیں۔ لوگوں سے جب ذکر ہوتا ہے تو ہمارے یہاں بندھا ٹکا جملہ
ہوتا ہے کہ "دعا کیجئے" اور ظاہر ہے کہ صرف دعا سے کیا
ہوتا ہے۔ اونٹ تو بھاگ چکا ہے۔ اب ہم لاکھ دعا مانگیں وہ لوٹ
کر نہیں آنے کا۔ الله الله خیر سلا۔
سرور عالم راز
بُہت ہی شاندار تحریر ہے۔ ایک تو جس طرح یہ کہانی کوے کے
پیاسے ہونے کی تشریح کرتی ہے بُہت ہی خوب ہے اور پھر
اختتام تو سبھان الله ۔۔ ہماری طرف سے بھرپور داد۔
محترم سرور عالم راز سرور صاحب کی باتوں سے بھی استفادہ
کیا۔ اپ کی باتیں بجا ہیں۔ حاکم ہمیشہ محکوم کی وجہ سے حاکم
رہا ہے اور رہے گا۔ ہمیں اس سے کیا کہ ہماری تاریخ میں کیا
ُکچھ بھرا پڑا ہے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہارون
الرشید اور مامون الرشید کے دور میں فرقہ معتضلہ کی کیا
حیثیت تھی۔ خاندان برامکہ کے ساتھ کیا ہؤا۔ کس کی لاش بازار
میں کتنے دن لٹکی رہی۔ اور حضرت امام احمد بن حنبل کے ساتھ
کیا کیا گیا۔ ہمیں صرف ان کے دور حکومت کی تعریف کرنی ہے
کیونکہ وہ مسلمان خلفا تھے۔ ہمیں مغلیہ دور کی بھی تعریف
کرنی ہے ہم کیوں جانیں یا مانیں کہ نور جہاں شیر افگن کی بیوی
تھی یا نہیں۔ اسے کس نے کیوں قتل کروایا۔ ہمیں ان کی تعریف
ہی کرنی ہے۔ اپ کئی بار کہہ ُچکے ہیں کہ مورخین نے بُہت ظلم
کیا ہے۔ بالکل دُرست کہتے ہیں جناب کوا پیاسا رہے گا۔ دُرست۔
لیکن کوے کو پانی کی تلاش جاری رکھنی چاہیئے اور ہم اس
کے لیے کوشاں رہیں گے۔
قدرت کا کھیل ہی ایسا ہے۔ کوے کو پیاس دی ہے اور امتحان یہی
ہے کہ اسے پانی پلا کر دکھاؤ تو تم کامیاب۔ یہی جہت ہے یہی
جہاد۔ہماری نظر میں یہ اپ کی زور دار تحریروں میں سے ایک
ہے۔ شاندار ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد۔
وی بی جی
عمدہ پُر فکر تحریر سے ہمیں جھنجھوڑنے کا بے حد شکریہ
مگر صاحب ہم سبھی اپنا اپنا کردار نبھاتے اپنی اپنی منزل کی
جانب رواں دواں ہیں ہم میں سے ہر شخص دوسرے کے ئے
امتحان ہے اور اسی امتحان پر پورا اترنے کا نام ڈسپلن ہے اور
یہ ڈسپلن حق ادا کرنے کا نام ہے حق مانگنے کا نہیں ،مگر آج
الٹی گنگا بہ رہی ہے ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے مگر
دوسروں کا حق ادا نہیں کر رہا یہیتو ڈسپلن کی خلاف ورزی
ہےایسی پُر فکر تحریروں کے آئینے میں ہمیں ہمارا چہرہ
دکھانے کا شکریہ قبول فرمائیےکبھی نہ کبھی شرم ہمیں ضرور
آئے گیوالسلام
6اسماعیل اعجاز
یہ کوئی نئی بات نہ تھی
جون 2014 ,18
کیا ہی بات ہے جناب ۔ بُہت خوب۔ بُہت باریک معاملے پر قلم اٹھایا
ہے اور کیا ہی خوب اٹھایا ہے۔ یہ انداز بھی بُہت پسند ایا جس
طرح اپنے معاملے کو ایک مقالمہ کی شکل دی اور بات واضح
سے واضح طور تر ہوتی چلی گئی۔ ہمیں سو فی صد اتفاق ہے اپ
کی اس بات سے۔ معاملے کو تھوڑا وسیع کر کے دیکھیں تو بات
وہیں جنون و خرد کی لڑائی پر اتی ہے۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ
جنوں اورد کی طرح ہے اور عموماً کسی چیز کا حقیقی اور حتمی
احساس ہوتا ہے۔ خرد کو دلائل چاہیئں۔ وہی فرق جو وکالت اور
نفسیات کا اپ کی تحریر میں جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔نفسیات
چونکہ اس چیز کا مطالعہ کرتی ہے :جو ہے ،:اس لیئے حقیقت
کے قریب تر ہے۔ جبکہ وکالت کا زیادہ تر زور اس پر ہے کہ :کیا
ہونا چاہیئے :حالانکہ ہمارے نذدیک :کیا ہونا چاہیئے :کا اس
وقت تک تعین ہی نہیں کیا جاسکتا جب تک یہ مکمل طور پر جان
نہ لیا جائے :جو ہے :۔اپ نے بجا فرمایا کہ ہمارا معاشرہ ،اکہرے
نہیں بلکہ دوہرے معیار کا شکار ہے بلکہ ہم تو کہیں گے کہ کئی
ہرے معیاروں کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول شخصے :ہر
شخص چاہتا ہے کہ اس کی بیوی وہ ُکچھ نہ کرے جو وہ چاہتا
ہے کہ پڑوسی کی بیوی کرے :اس کی وجہ ہمیں جو محسوس
ہوتی ہے وہ بھی اپ نے بیان فرما ہی دی ہے ،کہ ہم لوگوں نے
اسلام کو اپنی ہندوستانی تہذیب کے ساتھ ہم اہنگ کرنے کی
کوشش کی ہے۔ اسلام میں غیرت کا ایسا تصور ہمیں کہیں نہیں
ملتا ،وہاں کافی باتیں ُکچھ مختلف انداز میں ہیں۔لیکن خیر یہ
واقعی کوئی نئی بات نہیں ہے ،لیکن اپ نے اسے اپنے قلم کے
زور سے نیا بنا دیا ہے۔ مقالمہ بُہت اچھا لکھا ہے اپ نے۔ ہمیں
تو پڑھ کر بُہت مزا ایا جناب۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔۔
وی بی جی 7
دروازے سے دروازے تک
جون 2014 ,14
بُہت ہی دلسوز تحریر ہے جناب۔ کیا خوب قلم چلائی۔ یقین جانیے
تحریر پڑھ کر اپ کے قلم کی تعریف کرنے کی بجائے ،رونے کا
دل چاہتا ہے۔تحریر کا پہلا حصہ جس موضوع پر قاری کا دل نرم
کرتا ہے ،اُس پر ُکچھ کہتے بھی شرم محسوس ہوتی ہے لیکن
اس دلسوز حقیقت کو جان لینے کے بعد تحریر کا دوسرا حصہ
صحیح طور سے سمجھ بھی اتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔
مسلمان معاشرہ اتنی بیماریوں کا شکار ہو ُچکا ہے کہ بندہ کیا
کہے اور کیا نہ کہے۔ لوگ اس قدر بے حس ہو ُچکے ہیں کہ ہر
معاملہ کو حکومت کی زمہ داری قرار دے کر ،پہلو تہی کر جاتے
ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں وہ
گھروں میں سکون سے بیٹھے رہا کریں اور حکومت سب کو
گھر گھر ہر مہینے پیسوں کی بوری دے جایا کرے۔ انہیں سمجھ
نہیں اتا کہ اناج نہیں اُگائیں گے تو نہیں کھائیں گے۔ ریڑھی پر
لوگوں کو دھوکے سے گندے ٹماٹر بیچنے والا خود حکومت سے
رنجیدہ ہے کہ وہ دھوکے باز ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ
ایجادات ،تعلیم ،زراعت وغیرہ میں محنت کر کہ دنیا کو ُکچھ دیں
گے نہیں تو دنیا انہیں موبائل اور کمپوٹر مفت فراہم نہیں کرے
گی۔ مذہبی ُمعاملات میں انتہا پسندی یہی ہے کہ ایک فرقہ قبر کو
سجدے تک کرنے پر راضی ہے تو دوسرا قبروں کو لاتیں مارتا
پھرتا ہے۔ برداشت ختم ہو چکی ہے۔ ایک انگریز بوڑھی سی
خاتون ایک دن ٹی وی پر کسی پروگرام میں بہت پیار اور حیرت
بھرے لہجے میں فرما رہی تھیں کہ اخر مسلمانوں کو کیوں
کمیونٹی بن کر رہنا نہیں ا رہا ہے۔ وہ نہیں سیکھ رہے اور
نقصان بھی وہ اپنا ہی کرتے جا رہے ہیں۔ اُس کے نذدیک یہ بُہت
معمولی سی بات تھی کہ اتنی سی بات نہیں سمجھ ا رہی۔خیر ہمیں
تو اب اپنے اپ سے ڈر لگنے لگ گیا ہے کہ اگر ہم اپنے قلم پر
قابو نہ پا سکے تو ہمارا حال وہی ہو گا جو ساحر اور جالب کا
ہؤا تھا۔ لیکن خیر ،ابھی ہمیں اپنے اندر موجود ،اس بے حسی پر
بھروسہ ہے ،جو اس معاشرہ نے ہمیں تحفہ میں دی ہے۔تحریر
پر ہم اپ کو ایک بار پھر بھرپور داد دیتے ہیں۔
وی بی جی 8
وہ کون تھے
جون 2014 ,11
سلام عاجزانہ
آپ کی تحریر پڑھی دل میں برسوں سوۓ ہوۓ جذبہ رحم دلی
جگا گئی ہماری طرف سے اتنی اچھی تحریر لکھنے پر بھرپور
داد قبول کیجئے جناب ڈاکٹر صاحب ہمارا علم اتنا وسیع نہیں کہ
ہم اس بات کی گہرائی تک پہنچ سکیں لفظ "حضرت"جس کے
کافی لفظی معنی ہیں لیکن اکثر یہ لفظ تعظیما استعمال کیا جاتا ہے
لیکن زیادہ تر یہ لفظ کسی پیغمبر یا الله کے ولی کے نام کے ساتھ
آیا
".......حضرت مہاتما بدھ کی تعلیمات"
ہمیں مہاتما بدھ کے بارے میں زیادہ علم نہیں لیکن میں نے یہ
لفظ ان کے نام کے ساتھ پہلے کبھی نہیں پڑھا ہم چونکہ مہاتما
بدھ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ممکن ہے کہ پہلے بھی ان
کے نام کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوا ہو لیکن پھر بھی آپ سے
گزارش ہے کہ تسلی بخش جواب دیں جس سے ہمارے علم میں
اضافہ ہوغلطی گستاخ معاف دعا ہے کہ الله آپ کو اور زور قلم
عطا کرے مجھے اپنی دعاؤں می یاد رکھیں
وی بی جی
پنگا
جون 2014 ,07
آداب و تسلیمات کے بعد بہت دلکش پیرائے میں لکھی ہوئی
تحریر ہے ،داد آپ کا حق ہے وصول پائیے
اظہر
آپ کو علم ہی ہے کہ میں آپ کے مضامین کا پرانا مداح ہوں۔
روز اول سے ہی میں اس خیال کا ہوں کہ آپ کو اپنے مضامین
کتابی صورت میں شائع کوادینا چاہئیں۔ خدا خدا کرکے آپ بالآخر
اس پر راضی ہو گئے ہیں سو بصد عجز و محبت عرض ہے کہ
نصف "رائلٹی" کا میں مستحق ہوں! یہاں لکھے دے رہا ہوں
تاکہ "سند رہےاور بوقت ضرورت کام آوے"۔آپ کا انشائیہ
"پنگا" آپ کے مخصوص انداز فکر و بیان کی عکاسی کرتا ہے۔
اس میں حسب معمول زندگی اور دنیا کے چہرے سے نقاب
اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر چند کہ بہت سی باتیں ظاہر
سی ہیں لیکن "گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را" والی
بات بھی تو اہم ہے۔ بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔ الله آپ کو سلامت
رکھے۔ لکھتے رہئے اور یہ بتائیں کہ کتاب کب تک آ رہی ہے۔
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔
سرور عالم راز
بُہت خوب تحریر ہے۔ ہمیشہ کی طرح داد حاضر۔ معذرت بھی
چاہتے ہیں کہ فوری حاضری نہیں دے پاتے۔ جس کی وجہ یہ ہے
کہ اپ کی تحریر کو لفظ لفظ پڑھنا ہوتا ہے ،اور اسے انہماک
سے پڑھتے وقت یکسوئی ضروری ہوتی ہے۔ جبکہ کاروبار
زندگی اس کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ جیسے ہی فرصت پاتے ہیں تو
حاضر ہو جاتے ہیں۔جان کر بُہت خوشی ہوئی کہ طباعت کا کام
جاری ہے ،اور جلد اپ کی کتابیں شائع ہونے والی ہیں۔اپ کی
تحریر بُہت جاندار ہے ،البتہ جناب پنگے کے بغیر تو دُنیا میں
کوئی تبدیلی نہیں ا سکی۔ چاہے تبدیلی اچھی ہو یا بُری ،اس کے
بغیر ممکن نظر نہیں اتی۔ اگرچہ ہمارا یہ بیان بھی پنگا لینے کے
مترادف ہے ،لیکن چونکہ ہم پنگا لینے کے خوب حق میں ہیں،
سو یہ اعلامیہ جاری کرنا جائز سمجھتے ہیں۔تقدیر کسی کے پنگا
لینے یا نہ لینے کو دیکھتی ہی نہیں۔ ٹائگر کی ہی مثال لیجے،
تحریر کہیں نہیں کہتی کہ اس کو خارش لگنے کا سبب بھی کوئی
پنگا ہی تھا جو ٹائگر سے سرزد ہؤا۔ وہ بغیر پنگا لیئے ہی
خارش کی نظر ہو گیا۔ دوسری طرف پنگا لینے والا ناگ خود تو
اپنے پنگے کی سزا ب ُھگت گیا ،لیکن ساتھ میں ٹائگر کو بھی لے
گیا۔ ہٹلر نے جو پنگا لیا سو لیا ،لیکن اُن لاکھوں لوگوں نے کیا
پنگا لیا تھا کہ بیچارے ،ایٹم بم کی نذر ہو گئے۔ ایسے ہی سکندر
کو تو جہلم کے مچھروں نے سزا دی ،لیکن اس ہاتھی بیچارے کا
کیا قصور تھا جس کی سونڈ کاٹ گیا۔ نہ ہی راجہ پورس کی
فوجوں نے کوئی پنگا لیا تھا کہ لتاڑی گئیں۔سو صاحب جس نے
پنگا لیا ،اُس نے دوسروں کو بھی بڑا نقصان پہنچایا۔ دوسری
طرف خود پنگا نہ لو تو کسی دوسرے کے پنگے کا شکار ہو
جانا پڑتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب اپنی ایک کتاب میں
لکھتے ہیں کہ ایک بار اُنہیں ُکچھ دوستوں کے ساتھ خچروں پر
دشوار گزار پہاڑی راستوں پر سفر کرنا پڑا۔ ایک صاحب تھے،
کہ جب بھی خچر کسی دشوار اور خطرناک جگہ سے پہار پر
چڑھتا تو وہ صاحب ،خچر سے نیچے اُتر جاتے اور خود
چڑھتے۔ کسی نے کہا کہ صاحب ،یہ خچر ماہر ہیں یہاں پہاڑوں
پر چڑھنے کے۔ اپ کا پاؤں پھسلا تو اپ بے موت گہری کھائی
میں مارے جائیں گے۔ اُن صاحب نے جواب دیا کہ حضرت جانتا
ہوں ،لیکن میں اپنی غلطی کی موت مرنا چاہتا ہوں ،نہ کہ اس
خچر کی غلطی کی سزا میں مروں۔تو صاحب اس سے پہلے کہ
کوئی اور پنگا لے کر ہماری زندگی میں خلل ڈالے ،ہم خود پنگا
لے لینا مناست سمجھتے ہیں۔مزاح برطرف۔ اس بات سے انکار
نہیں کہ قدرت سے پنگا لینے والے کا انجام بُہت بُرا ہے۔ احتیاط
لازم ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔
وی بی جی
کیا ہی دلچسپ پنگا ہے کیا دلچسپ انداز بیاں ہے آپ کا کیسے
کیسے پنگے منظر عام پر آپ لائے ایک منظر ابھی آنکھوں میں
ہوتا ہے کہ دوسرا منظر آ جاتا ہے قائم ہو جاتا ہے اور سبھی
میں دلچسپ پنگا بقول وی بی جی کہ ہر چیز میں پنگا لازم
ہےپنگا نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہےیہ مانا کہ پنگے سے
جیون حسیں ہےمجھ سے آ پ کی تحریر پڑھ کر خاموش نہ رہا
گیا پنگا لینے چلا آیا صاحب آپ کے اس پنگے نے مجھے ایک
ساتھی اسلم پنگا یاد دلا دیے اسلم پنگا ہمارے بہت اچھے ساتھی
تھے ہم ان دنوں 91 , 1990میں کراچی ایئر پورٹ کی تعمیر میں
مصروف تھے جہاں ہماری ایک بڑی ٹیم تین حصوں پر مشتمل
تھی جن میں ایپرن ،بلڈنگ اور روڈ اینڈ انفرا اسٹیکچر ورکس
وغیرہ شامل تھے ہمارے پاس ایپرن والا حصہ تھا جس میں اسلم
پنگا ہمارے ساتھ ہوا کرتے تھے ہم لوگ ایک فرنچ تعمیراتی
کمپنی ـ’’ سوجیا پاکستان ‘‘ میں کام کر رہے تھے اسلم پنگا آج
آپ کے اس پنگا مضمون کو پڑھ کر یاد آئے ان کا کام ہر ایک
سے پنگا لینا ہوتا تھا بغیر پنگے کے ان کی زندگی ادھوری تھی
کھانا گھر سے لایا کرتے تھے ایک دن انہوں نے انڈے اور
بینگن کو ملا کر ایسا پنگا لیا کہ پہچاننا مشکل ہو گیا کہ اس
خمیرہ گاؤزبان میں انڈہ کونسا ہے اور بینگن کونسا ہے الله تعالی
کی تخلیق کردہ دو الگ الگ ذائقوں میں الگ الگ مزاج کی حامل
اجناس کو یکجا کر کے ایسا کشتہ تیار کیا تھا کہ جس کے کھانے
کے کئی گھنٹے بعد تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کھایا بس یہ لگا
کہ کسی حکیم صاحب نے اپنی زندگی کے آزمودہ نسخوں سے
حاصل شدہ معجون کہہ لیں کشتہ کہہ لیں تیار کیا ہے کہ جسے
کھایا تو جاسکتا ہے مگر اس میں شامل اجزا کاتجزیہ نہیں کیا
جاسکتا جس کے کھانے کے بعد بہت سے رکے ہوئے معاملات
نہ صرف حل ہو جاتے ہیں بلکہ ان سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ
مل جاتا ہےتو صاحب کبھی یہ پنگا بھی لیجئے بینگن اور انڈے
کچھ اسطرح پکائیے کہ بینگن بینگن نہ رہے اور انڈہ انڈہ نہ
رہے بینگنڈہ بن جائےہلکی سی کالی مرچ اور نمک کے ساتھ
تناول فرمائیے مزہ نہ آنے پر انڈہ الگ اور بینگن الگ پکائیے
اور الگ الگ کھائیےاس دلکش تحریر سے مستفید فرمانے کے
شکریہ قبول فرمائیے
اسماعیل اعجاز 9
دائیں ہاتھ کا کھیل
جون 2014 ,01
تحریر ہم کئی بار پڑھ ُچکے ہیں ،لیکن یکسوئی نصیب نہ ہو
سکی۔ ہر بار دھیان ادھر ادھر کرنا پڑا اور ہم ُکچھ کہنے کے لائق
نہ ہو سکے۔بُہت خوب تحریر ہے جناب۔ کیا ہی بات ہے۔ بھر پور
داد قبول کیجے۔ دین ایسی چیز ہے کہ اس کو حوالہ بنا کر جو
چاہے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اشتعال پھیلانا بھی بُہت اسان سا
کام ہو گیا ہے۔ چند لوگ اشتعال سچ ُمچ میں محسوس کرتے ہیں،
باقی کی کثیر تعداد صرف مشتعل نظر ا کر ثواب حاصل کرنا چاہتی
ہے۔ ایسے ہی جس پہلو کی طرف اپ نے اشارہ فرمایا ہے ،وہاں
بھی زوجہ کے صرف حقوق ہوتے ہیں اور خاوند کے صرف
فرائض۔ ہمیں تو یہ بھی سمجھ نہیں اتی کہ صرف ماں کو اس قدر
درجہ دے دیا جاتا ہے کہ جیسے باپ کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو۔
حالانکہ عموماً باپ ،صرف اور صرف اپنے بچوں کے لیئے ،اپنی
بیوی کی کئی غلط باتیں بھی برداشت کرتا رہتا ہے۔ اور عموماً
کوئی اور چیز طلاق سے مانع نہیں ہوتی۔ لیکن بچے چونکہ اپنی
ماں کے پاس زیادہ وقت ُگزارتے ہیں ،تو ظاہر ہے ہمیشہ چندا
ماموں ہی ہوتے ہیں ،کبھی چندا چاچو نہیں ہوتے۔اپ نے لکھا
ہےحقوق کا معاملہ ذات سے‘ الله کی طرف پھرتا ہے۔یہ بات
سمجھنا ،بُہت مشکل کام ہے۔ اور شائید اس کے لیئے کئی
تحریریں لکھنی پڑیں۔ لوگوں کی سمجھ کو اس مقام تک لانا ،اہل
قلم کی ذمہ دارہ ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ اپ کوشاں ہیں۔ اگر
ایسی تربیتی تحریریں لوگوں کو پڑھنے کو ملیں یا ٹی وی ڈرامہ
وغیرہ میں ملتی رہیں ،تو لوگوں کی سمجھ بڑھ سکتی ہے۔ ہمیں
تو محترم اشفاق احمد کے بعد کوئی ایسا ڈرامہ نگار نہیں نظر
ایا ،جو ان باتوں کو اس گہرائی میں نہ صرف محسوس کرے،
بلکہ لوگوں کو بھی سمجھائے۔ اج کل کے دور کی فضول اور
کردار ُکشی سے بھرپور کہانیوں کے ساتھ ٹکرانے کی اشد
ضرورت ہے اور اپ یہ کام کر رہے ہیں۔ ہزار دُعائیں جناب اپ
کے لیئے۔تحریر پر بُہت بُہت داد جناب۔ ہزار داد
وی بی جی 10
الله جانے
جون 2014 ,09
جناب کیا ہی بات ہے۔ بُہت عمدہ تحریر ہے۔ داد داد داد ۔۔ اپ کی
تحریروں کا خاصہ ہے کہ بات کو ایسے زاویوں سے گ ُھما کر
لاتے ہیں کہ وہم و گمان میں نہیں ہوتا کہ یہ تان کہاں جا کر ختم
ہو گی۔ اور اختتام بھی شاندار ہوتا ہے۔ یہاں بھی اپ نے جس
طرح زرینہ کو تشبیہہ دی ہے ،بُہت ہی خوب ہے۔ عوام کی سمجھ
بھی ُکچھ بڑھانے کی ضرورت ہے ،تاکہ وہ ایسی تحریروں کا
دُرست ُرخ سمجھ سکیں اور نتائج اخذ کر سکیں۔دراصل ایسی
کمائی جس میں مزدوری سے زیادہ مل جائے یا بغیر مزدوری
کے مل جائے ہمارے اپنے خیال کے مطابق سود ہے۔ انسان کی
ارام پسندی یہی چاہتی ہے کہ کم سے کم محنت سے زیادہ سے
زیادہ کمائی ہو اور کامیابی کی صورت میں انسان مذید ارام پسند
ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی حال اس قرض پر پلے والی عوام کا ہو گیا
ہے۔ قرض حکومتی خزانے میں جاتا ہے ،اور حکومتی خزانے کا
کوئی مالک نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کی حفاظت کی
کوشش بھی نہیں کی جا سکتی وگرنہ یہی ُسننا پڑتا ہے کہ
:تمہارے باپ کا ہے کیا :۔۔ یہ کسی کے باپ کا نہیں ہوتا اور ویسا
ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ لالچ ایسی ہی چیز ہے کہ
اگر پیٹ بھرا بھی ہو تو بقول غالبگو ہاتھ کو جنبش نہیں ،انکھوں
میں تو دم ہےرہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے اگےسو مذید
سے مذید کی لالچ کبھی جان نہیں چھوڑتی۔ اپ کی تحریریں ،اُمید
کی کرن ہیں۔ جتنے لوگ پڑھیں گے اپنے کردار میں ضرور
جھانک کر دیکھیں گے۔ انہیں کردار کی خرابیوں کو عوام تک
پُہنچانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ہماری طرف سے ایک
بار پھر بھرپور داد جناب ۔
وی بی جی 11
پاخانہ خور مخلوق
مئی 2014 ,30
بُہت اعلی تحریر ہے جناب ،کیا ہی بات ہے۔ نازک مسئلے کو
چھیڑ دیا اپ نے۔ البتہ اپنا حق رائے دہی ازاد جان کر اور اپ کی
پُرخلوص طبعیت کو دیکھتے ہوئے درخواست کریں گے کہ اس
کا عنوان ُکچھ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہمیں۔
ہمارا خیال ہے کہ عنوان ایسا ہونا چاہیئے کہ پڑھنے والے کی
طبعیت کو مائل کرے۔دوسری طرف ،اس تحریر کے لاجواب ہونے
میں کوئی کلام نہیں۔ عوام کو ایسے مضامین پڑھنے کی اشد
ضرورت ہے ،شائید کسی کا ضمیر جاگے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی
صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اے ُخدا ،تُو نے میرے ہاتھ
باندھ کر ُمجھے دریا میں پھینک دیا ہے اور ُحکم دیا ہے کہ
کپڑے گیلے نہ ہوں۔ تو جناب حمام ہے یہ تو۔ہمیں یاد پڑتا ہے ،کہ
بچپن میں ہم :زمانہ قبل از اسلام میں کفار کی جہالت :پر نوٹ
لکھا کرتے تھے ،اور جناب کیا کیا بُرائی نہ اُن کے سر لگاتے
تھے ،اور خوب نمبر سمیٹا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ بھی لکھ
دیتے تھے کہ :قبل از اسلامُ ،کفار کا یہ عالم تھا کہ ناک میں
اُنگلی تک ڈالتے تھے :۔ لیکن صاحب! اب سوچتے ہیں ،کہ اسلام
سے کیا سیکھا ہے مسلمانوں نے تو حیرت ہوتی ہے۔ ابھی تک
دو ایسی چیزیں دریافت ہو پائی ہیں جو اسلام سے سیکھی ہیں ہم
نے اور سب اس پر ُمتفق بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی بت کی
پوجا نہیں کرتے ،اور دوسری یہ کہ خنزیر نہیں کھاتے۔ اخر
الزکر اگرچہ مشکوک ہے کہ یہاں تو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً
انسان انسان کو کھا جاتا ہے۔ کیا اسلام نے اتنا ہی سکھایا ہمیں؟
ہم نے غور کیا تو معلوم ہؤا کہ انسان کو امن میں رہنے کے
طریقے سمجھانے والے مذاہب کی وجہ سے دُنیا میں سب سے
زیادہ قتل و غارت ہوئی ہے۔ مذہب کی بُنیاد پر جتنا نقصان انسان
نے کیا ہے ،کسی اور چیز کی وجہ سے نہیں کیا۔ توبہ ہے
صاحب۔خیر یہ تو تھے ہمارے کچھ بکھرے ہوئے خیالات۔ اپ کی
تحریر ہماری نظر میں بُہت اعلی اور عمدہ ہے۔ ہماری طرف سے
بھرپور داد قبول کیجے۔
وی بی جی
زیر نظر مضمون پر وی بی جی کے خیالات سے میں کلی طور پر
متفق ہوں۔ عنوان کو بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔ قاری عنوان
دیکھ کر اگر ٹھٹکے تو اچھا نہیں ہے۔ مضمون ہمارے معاشرے
کی تصویر کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ اپنے آس
پاس مسلمانوں کا حال دیکھ کر طبیعت پر مستقل انقباض رہتا ہے۔
بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ اب ا س قوم کا کوئی پرسان
حال نہیں ہے۔ یہ دنیا میں خوار ہے اور خوار ہی رہے گی کیونکہ
یہ اپنی اساس سے دور ہو چکی ہے۔ دنیا میں ڈیڑھ سو
"اسلامی" ممالک ہیں۔ افسوس کہ ان میں ایک بھی ایسا نہیں
ہے جہاں ہم اور آپ اپنی اولاد کو پڑھنے لکھنے یا رہنے کے
لئے بھیج سکیں۔ انا للہ و ان الیہ راجعون۔ میں امریکہ میں رہتا
ہوں اور اس کا قائل ہوں کہ ہمارے مقابلہ میں دوسرے مذاہب
کے لوگوں کا اخلاق اور کردار بدرجہا بہتر اور "اسلامی" ہے۔
اور اس صورت حال کا علاج بھی کوئی نظر نہیں آتا۔لکھتے
رہئے۔ میں کوشش کروں گا کہ یہاں آمدورفت بڑھا دوں۔ باقی
راوی سب چین بولتا ہے۔
سرور عالم راز
اس ناچیز کو بہتر انسان سمجھا اپ نے ،اپ کی ذرہ نوازی !
ہے۔ ہم بیچارے اوارہ قسم کے ادمی ہیں ،کبھی کسی پہاڑ پر
بیٹھے شہر کی ٹمٹماتی روشنیوں سے گوٹ بنا کر کسی پیراہن
میں ٹانکنے میں مصروف تو کبھی رات رات بھر کسی فُٹ پاتھ پر
بیٹھ کر کسی ُکتیا کے بچے ُگم ہو جانے کے دُکھ میں شریک۔ سو
ہمارا انتظار نہ ہی کیا کیجے۔ اپ کے یاد کرنے پر محترم سرور
عالم راز سرور صاحب بنفس نفیس تشریف لا ُچکے ہیں۔
وی بی جی12
ان پڑھ
مئی 2014 ,27
ہمارے منہ کی بات چھین لی اپ نے۔ بُہت ہی اچھی تحریر ہے۔
بالکل دُرست ہے کہ جو اچھی صفت یا ضمیر رکھتا ہے ،وہ اس
سے انحراف کر ہی نہیں سکتا۔ اور ہمارا خیال ہے کہ یہ بچپن
میں والدین یا ماحول سے انسان سیکھتا ہے۔ اگر اُس کی تعلیم
اُس کے دل میں بُرائی کی نفرت ڈال دے تو زندگی بھر اُس سے
بُرا کام سرزد نہیں ہوتا۔ ہمارے نذدیک اس میں اُن چھوٹی چھوٹی
کہانیوں یا حکایات کی بھی بُہت اہمیت ہے ،جو دادیاں بچوں کو
ُسناتی ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ہماری دادی ہمیں ایسی کئی حکایات
ُسناتی تھیں ،اور کئی اس قدر جذباتی ہوتی تھیں کہ رونا ا جاتا
تھا۔ اُن کہانیوں میں بُرا کبھی ہیرو نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمیشہ
اچھائی کی جیت ہوتی تھی۔ علاوہ ازیں ،ایسے حساس اور
سوچنے پر مجبور کر دینے والے موضوعات ہوتے تھے کہ
ننھی سی عمر میں ہی سوچنے اور باتوں کو سمجھنے کی طرف
رجحان رہا۔ جذباتی ہونے کے نقصانات سے اگہی ہوئی ،اور ہر
معاملے کو انصاف کے ترازو میں تولنا ا گیا۔ سچ پوچھیں تو ہم
نے ُکچھ بار بھرپور کوشش کی کہ رشوت لے لیں ،لیکن اُس ذات
پاک کی قسم ،ہم :اسامی :سے انکھ نہ ملا سکے۔ اپنے اپ سے
ایسی گھن اتی تھی ،کہ ایک لفظ بھی نہ کہہ سکے۔ یہ بھی
حقیقت ہے کہ ہمیں یہ احساس نہ تھا کہ الله ناراض ہو گا ،ہمیں
مسئلہ یہ پیش تھا کہ غیرت اور انا اجازت نہ دیتی تھی۔ ہم اپنی
کہانی لے کر بیٹھ گئے۔کہنا یہی چاہتے تھے ،کہ تبھی ہماری
خواہش رہی ہے کہ ایسی چیزوں کو تعلیم کا حصہ ہونا چاہیئے
جو کردار سازی کریں۔ ہمارے بچوں کو رٹے لگانے کی کوئی
ضرورت نہیں ہے۔ تمام علوم اس کے محتاج ہیں۔ جس میں کردار
نہیں اُس کی کوئی سائنسدانی کسی کام کی نہیں۔ اور بقول اپ کی
اس تحریر کے ہی ،حکومتیں ُکچھ نہیں کر سکتیں ،سب ُکچھ
کرنے والی عوام ہی ہے۔ حکومت کو کوسنے والا سبزی فروش
خود نگاہ بچا کر گندے ٹماٹر بیچتا ہے۔ لوگ گندم نہیں اُگائیں
گے ،تو اٹا مہنگا ہوگا ،حکومت روٹی پکا کہ نہ کبھی کسی کو
دے سکی ہے ،نہ کبھی دے سکے گی۔اس تحریر پر ایک بار پھر
بھرپور داد قبول کیجے۔۔۔ ہمیں بُہت پسند ائی ہے اپ کی تحریر۔
وی بی جی 13
لاروا اور انڈے بچے
مئی 2014 ,21
پڑھ تو ہم فوراً ہی لیتے ہیں ،لیکن سمجھنے اور پھر ُکچھ کہنے
کے لائق ہونے میں وقت لگ جاتا ہے۔ اور سچ پوچھیے تو اس
تحریر کے آخر میں جس طرح اس کا اختتام ہوتا ہے ،کافی سوچ
بچار کرنی پڑتی ہے ،کہ لاروے اور انڈے بچے سے ُمراد کیا
ہے۔ بُرائی کے خلاف تو کہانی کا ہیرہ نکلا ہی تھا ،اور انہیں
لارووں کا خاتمہ چاہتا تھا ،پھر آخر یہ کیا کہانی ہوئی۔کہانی
لکھنے میں تو ویسے آپ کا جواب نہیں۔ اس میں تو پیچیدہ
صورتیں بھی نظر آئیں ،جہاں لکھنے والا راستہ بھٹک کر کسی
اور سمت نکل سکتا تھا ،لیکن بُہت خوبصورتی سے آپ نے
اسے اپنے مقصد کے محور میں رکھا ہے۔ ہم جہاں تک سمجھ
سکے ہیں وہ یہی ہے کہ بُرائی انسان خود ہی ہے ،اور اسی کا
خاتمہ بُرائی کو ختم کر سکتا ہے۔ شیطان کی غیر موجودگی کی
مثال بھی خوب دی آپ نے کہ اس کی غیر موجودگی میں کس حد
تک بُرائی بڑھ جاتی ہے۔ایسی تحریروں کی جگہ ہم تو سمجھتے
ہیں ،کہ نصابی کتابوں میں ہونی چاہیئے ،جہاں کردار سازی کی
بہت ضرورت ہے۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ جتنا نُقصان
پہنچا رہے ہیں ،ہم نہیں سمجھتے کہ ان پڑھ اتنا نُقصان پُہنچا
بھی سکتے ہیں۔ پڑھ لکھ کر صرف تعلیمی اسناد حاصل ہوتی
ہیں ،اور اس کے بعد بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں ،کہ شرم نام
کی چیز پاس نہیں پھٹکتی۔ہماری دُعا ہے کہ آپ کی کوششیں
رنگ لائیں۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر بھرپور داد قبول
کیجے۔
وی بی جی 14
سچائی کی زمین
مئی 2014 ,17
جنب بہت عمدہ تحریر ہے۔ اپ نے کہانی کو نیا ُرخ دیا ہے اور کیا
ہی خوب دیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ قُدرت کا نظام اپنے اپ کو
خود ہی برقرار رکھتا ہے ،لیکن یہ بات بھی بجا ہے کہ انسان اس
میں بُہت بگاڑ پیدا کرنے کے درپے ہے۔ اگرچہ اس بات کا یہاں
تذکرہ ُکچھ ضرری نہیں لیکن ہمارا طریقہ ُکچھ ایسے ہے کہ
قُدرتی نظام میں کم سے کم دخل اندازی کرتے ہیں۔ لوگ بھاگ کر
بلی کے منہ سے چڑیا کا بچہ چھین لیتے ہیں ،جبکہ ہم صرف
خاموشی اور خالی الذہن ہو کر دیکھتے رہتے ہیں۔ اگرچہ اس
سے ہمارے اندر بُہت حد تک سفاکی پیدا کر دی ہے ،لیکن ہم نے
قدرتی نظام کو اس قدر سفاک پایا ہے ،کہ بیان سے باہر ہے۔
جس نظام میں ایک کی موت دوسرے کی زندگی ہو ،اُس کا علاج
ہمارے پاس تو ہو نہیں سکتا۔ کئی بار خود کو سمجھاتے ہیں،
لیکن اکثر اپنی باتوں میں اتے نہیں ہیں ہم۔ دخل اندازی صرف
اُس وقت روا جانتے ہیں ،جب کسی کی موت کسی کی زندگی نہ
ہو۔تحریر جان دار ہے ،سچائی اور اچھائی کا ساتھ دینے کا جذبہ
پیدا کرتی ہے۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر داد قبول کیجے۔
وی بی جی 15
ابھی وہ زندہ تھا
مئی 2014 ,16
واہ واہ واہ جناب ،کیا ہی بات ہے۔ ہمیں تو ایسا لگا کہ ہمارے منہ
کی بات ہی چھین لی ہو اپ نے۔ بے شک اپ کو بات بیان کرنے
کا فن اتا ہے۔ جن الفاظ میں اپ نے ان تلخ حقیقتوں کو بیان کیا
ہے وہ لائق صد تحسین ہیں۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول
کیجے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جو تمام لوگ جانتے اور سمجھتے
ہیں ،لیکن انہیں زبان پر لاتے ہوئے شرماتے ہیں۔ حالانکہ وہ
حمام والی ضربالمثل خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اپ نے کسی
ٹوپی سلار کا ذکر بھی کیا ہے ،اور خوب کیا ہے۔ اب اپ کا کس
طرف اشارہ ہے یہ کوئی سمجھے نہ سمجھے لیکن حقیقت اپنی
جگہ ٹھوس حقیقت ہی ہوتی ہے۔تحریر زبردست ہے اور طنز
جس انداز میں کیا گیا ہے ،ہمیں یقین ہے کہ کئی لوگوں کا ضمیر
جگا سکتی ہے۔ اس تحریر پر ہم ذیادہ اس لیئے بھی نہیں لکھ
سکتے کہ اپ نے اس میں ہمارے کہنے والی ہر بات ہم سے
کہیں بہتر انداز میں کہہ دی ہے۔ہماری طرف سے بھرپور داد
وی بی جی16
حلالہ
مارچ 2014 ,11
ڈاکٹر صاحب آپ کی تحریریں بفس نفیس بولتی ہیں اپنے پاس
سے گزرنے والوں کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ آؤ ہمیں پڑھو
ہم سے کچھ سیکھو کچھ اخذ کرو ،یہ دل کو چھو لینے والی
تحریر جو حقیقت سے قریب ترین معاشرے سے جڑے کرداروں
کو بے نقاب کرتی ہوئی بہت سے سوال بہت سے باتیں ذہن میں
پیدا کرتی ہوئی اپنے پڑھنے والے کو مجبور کر رہی ہے ۔ میرے
ذہن میں بھی کچھ باتیں آئیں جنکا اظہار خیال ضروری سمجھتا
ہونحلال و حرام کی پابندی و شرائط کب کہاں اور کس لئے کی
بنیاد پر ان کا نفاذ حکمیہ طور پر خالق کائینات کا مرتّب کردہ
ہےنکاح فرض ہے ،نکاح واجب ہے ،نکاح سنّت ہے ،نکاح
مستحب ہے یہ وہ شکلیں ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں مگر نکاح
حرام ہے جی نکاح حرام ہے محرم کے ساتھ مگر نکاح نامحرم
کہ جس سے نکاح حلال ہے حرام بھی ہے وہ اس صورت میں کہ
جب کوئی ایسا شخص جو نکاح تو کرلے مگر حقوق ذوجیت ادا
کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو نامرد ہو تو ایسے شخص کا
نکاح کہ جس کی منکوحہ اپنی جنسی ضرورت اور خواہش کو
کسی اور ذرائع سے پورا کرے وہ بھی حرام ہےطلاق دینا حلال
ہے مرد کے لئے مگر تمام حلال کاموں میں یہ وہ حلال کام ہے
جسے الله باری تعالی نے ناپسند فرمایا ہے ،عورت کو طلاق
دینے کا حق حاصل نہیں ہے ہاں خلع لے سکتی ہے ،اگر عورت
کو طلاق کا اختیار دے دیا جاتا تو دن بھر میں بیسیوں بار طلاق
دے دیتی اپنے مرد کو ،مگر مرد اس معاملے میں صابر ہے اور
بہت ہمت و برداشت والا ہوتا ہےشرعی طریقہ یہ ھے کہ عورت
تین طلاقوں کے بعد اگر دوبارہ پہلے شوھر سے نکاح کرنا
چاھتی ھے تو وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے بغیر اس
نیت کے کہ وہ پہلے کے لیے حلال ھونا چاھتی ھے ،پھر وہ
شوھر اسے اپنی مرضی سے طلاق دے،مگر اس نیت سے نہیں
کہ وہ پہلے کے لیے حلال ھو جائے ،یا پھر وہ مرجائے،اس
طرح عورت پہلے شوھر سے نکاح کرسکتی ھے!!! لیکن جو
حلالہ کا طریقہ ھمارے معاشرےمیں رائج ھو چکاھے،جوکسی
بھی صاحب علم سے مخفی نہیں ھے{اس قسم کے لوگوں پر نبی
صلی الله علیہ وسلم نے لعنت کی ھے،یعنی حلالہ کرنے والا اور
جس کےلیے کیاجائے ،آپ نےاسے کرائے کا سانڈ قرار دیا
ھے}یہ ھےاندھی تقلید جس میں یہود ونصاری مبتلاء تھےیعنی
بغیر شرعی دلیل کےآنکھیں بند کرکےکسی چیز پر عمل کرنا۔سنن
ابوداودكتاب النكاحنکاح کے احکام و مسائلباب في التحلیلباب:
نکاح حلالہ کا بیان۔حدیث نمبر 2076 :حدثنا أحمد بن یونس ،حدثنا
زھیر ،حدثني إسماعیل ،عن عامر ،عن الحارث ،عن علي ،رضى
الله عن -قال إسماعیل وأراہ قد رفع إلى النبي صلى الله علی
وسلم -أن النبي صلى الله علی وسلم قال "لعن الله المحلل والمحلل
ل ".سیدنا علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی
الله علیہ وسلم نے فرمایا ”حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے کیا
گیا ہے (دونوں) ملعون ہیں۔"قال الشیخ الألباني :صحیح
اسماعیل اعجاز
بازگشت
دسمبر 2013 ,23
بہت عمدہ ۔ بہت لطف آیا ،سلامت رہیں آپ شکریہ
ضیا بلوچ
فقیر بابا
دسمبر 2013 ,24
آپ کا انشائیہ بہت دلچسپ ہے۔ آپ نے جس تنہائی کی کیفیت کا
ذکر کیا ہے اس سے آج ساری دنیا آشنا ہے۔ انسان اب انسان
کونہیں پہچانتا ہےجب تک کہ اس کی کوئی غرض کسی اور سے
نہ اٹکی ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پچھلے زمانے میں سب
لوگ بے غرض ہوا کرتے تھے اور اپنی طبیعت سے سب فرشتہ
تھے۔ ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ اورنہ کبھی ہو گا۔ ہاں یہ
ایک حقیقت ہے کہ اب خلوص ،انسانیت اور بھائی چارہ پہلے
سے کم ہو گیا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن سے کم وبیش
ہم سب واقف ہیں سو تفصیل ضروری نہیں ہے۔ یادش بخیر میرے
بچپن میں آس پاس کے گھروں میں ،عزیزوں دوستوں میں ،گھر
کی مائوں ،بہوئوں اور بڑی بوڑھیوں میں ملنا جلنا ،آنا جانا ،بے
مقصد آ کر بیٹھ جانا اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک
ہونا اتنا عام تھا کہ آج کی تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ یہ
عالم تھا کہ محلہ کا ہر بزرگ (اور غیر بزرگ!) اپنے آپ کو
دوسروں کی اولاد کا ولی اور :ٹھیکہ دار :سمجھتا تھا۔ ایک واقعہ
سناتا ہوں جو اس کیفہت کو خوب بیان کرتا ہے۔ایک دن سڑک پر
جو ان کی کلاہ سے جڑا ہوتا ہے فرق سمجھنے کا ہے کسی ماہر
فن کو آپ فن کار کہہ سکتے ہیں جس کا کام بولتا ہے جس کا ہنر
بولتا ہے مگر ایسے بھی لوگ مجھ جیسے ہیں جو کچھ نہیں
جانتے مگر باتیں خوب بناتے ہیں انہیں بھی فن کار کہا جاتا
ہےکبھی کبھی لہجہ وہی رہتا ہے مگر معانی بدل جاتے ہیں
جیسے کہ ایک صاحب فرمانے لگےماں کسم ایسا بھینکر اجگر
دیکھا ایسی بری طرح فن کار ریا تھا کی میرے تو دماگ کے
طوطے اڑ گئے ،آج کل طوطے پکڑ ریا ہوں ۔۔۔۔۔۔
اسماعیل اعجاز
بیوہ طواءف
فروری 2014 ,08
اپ کا یہ چھوٹا سا افسانہ پڑھا۔ بُہت اچھا لگا۔ اپ کی تحریریں
ماشاالله بُہت جاندار ہوتی ہیں۔ اور اپ کے احساسات کی وسعت کو
سموئے ہوتی ہیں۔ زندگی کو اس قدر قریب سے دیکھنے اور
محسوس کرنے کا فن اپ کی تحریروں سے واضح ہے۔الله پاک
اپ کو ہمیشہ خوش و ُخرم رکھے۔
وی بی جی 17
بڑا آدمی
مارچ 2014 ,08
یہ تحریر واقعی میں بُہت کرب رکھتی ہے۔ اور پھر اپ کے
لکھنے کے انداز نے اسے بیش قیمت بنا دیا ہے۔ قاری کو ایسے
جہان کی سیر کروا کر نتیجہ کی طرف لاتی ہے اثر روح تک اُتر
جاتا ہے۔ پھر جس قدر اپ نے حالات و واقعات لکھے ہیں اپ کے
تجزیئے کی طاقت اور احساس کی وسعت اس سے ظاہر ہے کہ
جیسے معلوم نہیں کتنا ہی قریب سے اپ نے یہ سب دیکھا
ہے۔ہمیں وقت کی کمی رہتی ہے ،لیکن اپ کے مضامین اور
افسانے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بُہت پسند اتا ہے ہمیں
اپ کا لکھا۔
وی بی جی18
کریمو دو نمبری
مئی 2014 ,12
معذرت چاہتے ہیں کہ دیر سے حاضری ہوئی۔ بُہت خوبصورت
تحریر ہے ،اور اپ کی اُن بہترین تحریروں میں سے ایک ہے جن
میں اپ کی اس صلاحیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اپ ڈرامہ بھی
بُہت خوب لکھ سکتے ہیں۔ کہانی لکھنا جتنا اسان دکھائی دیتا ہے
اُتنا اسان ہوتا نہیں۔ اپ کی خصوصیات ہیں کہ اپ کا قلم کسی
دائرے میں مقید نہیں ہے۔یہ صدیوں سے روایت چلی اتی ہے کہ
بُرا کا انجام بُرا ہوتا ہے ،کئی تحریرں لکھی گئی ہیں ،جن سے یہ
تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن ذاتی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا
ہوتا نہیں ہے۔ ہم اوائل میں بچوں کو یہ سبق سکھانے کی
کوشش کرتے ہیں ،لیکن بڑے ہوتے ہی وہ تجربات سے سیکھ
ہی جاتے ہیں کہ نیکی کا انجام اچھا تو ہوتا ہے لیکن صرف اُس
کے حق میں جس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہے۔ ہم مثالیں
ڈھونڈتے ہیں ایسے لوگوں کی جن کا انجام بُرا ہؤا ہو ،اور اُن
لوگوں کو بھول جاتے ہیں ،جو نیکی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں،
یا وہ جو بُرائی کر کہ تا حیات کامیاب ہی رہتے ہیں۔ ہم خود بھی
یہی کرتے ہیں ،کسی بات کو قُدرت کی طرف سے ازمائیش کے
زمرے میں ڈال دیتے ہیں ،کسی نیک کے ساتھ بُرا ہو تو اُسے
اُس کی کسی نامعلوم بُرائی کا نتیجہ قرار دے لیتے ہیں ،اگر کوئی
بُرا دُنیا میں کامیاب رہے تو اس کی سزا اخرت پر موقوف کر
دیتے ہیں۔ کیا کیجے ،الله کے ُمعاملے میں بھی جھوٹ کے بغیر
چارہ نہیں۔اگر ہماری کسی بات سے دل ازاری ہوئی ہو تو معذرت
چاہتے ہیں۔ لیکن جو حال سو حاضر ہے۔تحریر پر ایک بار پھر
بھرپور داد کے ساتھ
وی بی جی 19
معالجہ
مئی 2014 ,13
ہمیشہ کی طرح بُہت خوبصورت تحریر ہے۔ ایک عام سی کہانی
سے اپ نے فکر امیز نتائج اخذ کیئے ہیں ،بلکہ سوچ کو اس ڈگر
تک پُہنچا دیا ہے کہ انسان خود سوچ سکے ان باتوں پر۔ ہماری
طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔جیسے کہ ریت ٹھہری ہے کہ
ہم اپنی سی رائے دیتے رہتے ہیں۔ خیالات ہمارے بیکار سہی
لیکن اپ کو اندازہ ہو جاتا ہو گا کہ ُکچھ لوگ ایسا بھی سوچتے
ہیں۔ تو اسی حوالے سے ہم اس تحریر کے اخری پیرائے کی
طرف اتے ہیں۔
اقتباس
بایو کیمک اصول کے مطابق‘ منفی کی درستی کے لیے‘ منفی
رستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ منفی کا‘ اس کے سوا‘ کوئی اور
معالجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔
ہمارا تجزیہ اس بارے یہ کہتا ہے کہ منفی کا علاج منفی سے
ممکن ضرور ہے لیکن بُہت ہی کٹھن ہے۔ منفی اور منفی اپس
میں مل کر بھی مثبت نہیں بن سکتے ،اور جیسا کہ ریاضی کا
اصول ہے انہیں اپس میں :ضربیں :کھانی پڑتی ہیں اور نتیجہ تب
ہی مثبت نکلتا ہے۔ منفی کو شکست صرف مثبت ہی سے ہوتی
ہے ،لیکن اس کی شرط اول مثبت کا مکمل مثبت ہونا ہے۔ وگرنہ
شکست لازم ہے۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ یہ کونسے مرزا صاحب
تھے ،لیکن اُن سے کسی نے کہا تھا کہ صاحب! اپ کے بارے
میں فلاں صاحب نے بُہت سخت باتیں لکھی ہیں اپ کیوں خاموش
ہیں ،اپ بھی لکھیئے ُکچھ ،تو اُنہوں نے فرمایا تھا کہ :بھائی!
اگر گدھا تُمہیں لات مارے تو تم کیا کرو گے:ہم نے اس پر کافی
غور کیا۔ لات کا جواب لات سے دینا دُرست نہیں ہو گا کیونکہ لات
مارنا گدھے کی خصلت ہے ،انسان لاتوں کے ُمقابلہ میں اُس سے
جیت نہیں سکتا۔ ایسے ہی منفی کا مقابلہ کرنے کے لیئے منفی
ہو جانا بُہت مشکل ہے۔ ہٹلر کی اپ نے مثال دی ہے۔ اگر اُس کو
لاکھوں لوگوں کے مرنے پر رحم نہ ا جاتا تو دُنیا کا نقشہ ُکچھ
اور ہوتا۔ اخر اُس کے اندر کی اچھائی کہیں سے اُبھر ہی ائی ،اور
شکست کھانا پڑی۔ ایک مثبت کا منفی کے ُمقبالے میں ُمکمل
منفی ہو جانا بُہت مشکل ہے۔ اس کی ایک اور مثال ہمارے دیرینہ
دوست مرحوم شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہایک بار ایک
شخص کو پاؤں میں ُکتے نے کاٹ لیا۔ بیچارہ رات بھر تکلیف
میں چیختا رہا۔ اُس کی معصوم اور ننھی سی بیٹی نے اُس سے
کہا کہ بابا اگر ُکتے نے اپ کو کاٹا تھا تو اپ بھی اُسے کاٹ
لیتے۔وہ اس تکلیف میں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ بیٹی۔ میں یہ تو
برداشت کر لوں گا کہ میرے سر میں تلوار گھس جائے لیکن یہ
ُمجھ سے نہ ہوتا کہ ُکتے کے غلیظ پاؤں میں میرے دانت
گھستے۔سو صاحب مثبت کے لیئے یہ بُہت ُمشکل یا تقریباً
ناممکن ہوتا ہے کہ وہ منفی کا مقابلہ منفی ہو کر کر سکے۔ ہاں،
اسے شکل بدلنی پڑتی ہے اور اُس بدلی شکل کو منفی نہیں کہا
جاتا ،بلکہ مثبت کہا جاتا ہے۔ اگر شکل نہ بدلے تو منفی اور منفی
ایک صورت ہو جاتے ہیں۔قسمت بڑی مزاحیہ ہوتی ہے صاحب!
کہانی کے ہیرو کے دادا نے بھی اپنی سی کوشش کی تھی۔ کیا
جانئیے ،کہ اس کی کوشش کامیاب ہو کر بھی ناکام ہو جائے اور
حال ویسا ہی ہو جیسا کہ اس کے دادا جان کا ہؤا۔ پھر بھی ہم ان
کو یہی مشورہ دیں گے کہ چاہے منفی ہی کیوں نہ ہونا پڑے،
انہیں اپنی بات منوانی چاہیئے۔ کل کو اس کی سزا ب ُھگتتے ہوئے
یہ احساس تو نہ ہوگا کہ کسی اور کے کیے کی سزا ب ُھگتنی پڑی۔
ایک اور مشورہ بھی ہے کہ ایک بار منفی ہونے کے بعد کامیابی
اسی میں ہے کہ ہمیشہ منفی رہا جائے کیونکہ قدرت ،مثبت کی
طرف لوٹنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ایک بار پھر بھرپور
داد کے ساتھ۔
وی بی جی 20
میں ابھی اسلم ہی تھا
مئی 2014 ,09
واہ واہ واہ واہ ۔۔ جناب کیا ہی بات ہے۔ واہکہاں کہاں نظر ہے
جناب اپ کی ،یہ حلاج اور حمادی کے فتوے کو کہاں لے ائے
اپ۔ اپ بات کہاں سے ُشروع کرتے ہیں اور کیسے اپنا مقصد
بیان کر جاتے ہیں اس کے تو ہم قائل ہیں ہی۔ لیکن یہ جو لکھا
ہے نا اپ نے کہ:۔
ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر ‘میرے اندر بھی:
سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ نہیں
ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے بغیر‘ ملنگ
بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔ :کمال ہے جناب۔ ڈھیروں داد
قبول کیجے۔سچ ہے ،اگر منصور بھی ریحانہ نہ ہو گیا ہوتا تو
حمادی کا بھی کہیں نام و نشان نہ ہوتا۔ یہ بھی دُرست ہے کہ
منصور بھی اسی ملنگ بابے کی طرح اپے میں نہ رہا۔ یہی وجہ
ہے کہ شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی اپنی کتاب میں
لکھتے ہیں کہ منصور کو اخری وقت پر پتہ چل گیا تھا کہ وہ بھی
:اسلم ہی تھا ،ریحانہ نہیں ہؤا تھا اور نہ ہو سکتا تھا :اور یہ
خود کو ریحانہ سمجھنے سے اوپر کا درجہ تھا۔۔ہماری طرف
سے اس خوبصورت تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد جناب۔
وی بی جی
اپ کا علمی مراسلہ پڑھا اور خوشی ہوئی ُکچھ تاریخی پس منظر
جان کر اس کے لیئے ُشکریہ قبول کیجے۔اپ جس قدر علم
رکھتے ہیں اور اپ کا جس قدر مطالعہ ہے اس میں کوئی شک
کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم اس بارے میں جو خیال رکھتے ہیں وہ
تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں ،کہ اپ کا وقت بھی نہ ذائع ہو اور
خیال بھی اپ تک پہنچ جائے۔اس پر غور کریں تو ُمعاملہ :وحدت
الوجود :اور :وحدت الشہود :کے نظریات کی طرف چلا جاتا ہے۔
ہمیں وحدت الوجود کے قائل صوفیا کرام کی اس قدر بڑی تعداد
ملتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ اپ جانتے ہی ہونگے لیکن بات
کے تواتر کے لیئے تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں کہ :وحدت
الوجود :کا نظریہ یعنی "ایک ہو جانا" یعنی الله تعالی کی ہستی
میں گم ہو جانا۔ ۔اور :وحدت الشہود :سے مراد :ایک دیکھنا ہے:
یعنی چاروں طرف :تو ہی تو :ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے ۔ سالک
ہر چیز میں جلوہ باری تعالی دیکھتا ہے۔حضرت امام غزالی اور
اُس کے بعد کے کئی صوفیا نے جو سالک کے لیئے منازل بیان
کی ہیں یا :طریقت :بیان کی ہے اُس میں انسان خود کو ہر نفسانی
خواہش سے پاک کر کہ جب اس راہ چلتا ہے تو وہ ذکر کے
دوران ایک بُہت بڑا منبع نور دیکھتا ہے ،اور خود کو اہستہ
اہستہ اس میں جذب ہوتا محسوس کرتا ہے۔ اخر کار وہ خود کو
ُمکمل طور پر اس کا حصہ محسوس کرتا ہے۔ تمام صوفیا اس پر
متفق ہیں کہ انسان خود کو ذات باری تعالی میں ضم ہوتا
محسوس کرتا ہے اور خود کو خدا محسوس کرتا ہے۔ حضرت
مجدد الف ثانی سے پہلے تک یہی نظریہ :وحدت الوجود :تھا اور
اس مقام کو اخری اور سب سے اونچا ُمقام سمجھا جاتا تھا۔ اس
نظریئے نے کئی مسلے پیدا کیئے کہ کئی لوگ راہ بھٹکے اور
خود کو خدا سمجھنے لگ گئے۔ پھر مجدد الف ثانی نے :نظریہ
وحدت الشہود :پیش کیا کہ صاحب اس سے اونچا ُمقام بھی
موجود ہے۔ اس میں انسان خود کو ذات باری تعالی سے الگ ہوتا
محسوس کرتا ہے اور اخر اسے ہر طرف خدا نظر اتا ہے ،اور وہ
خود کو خدا محسوس نہیں کرتا۔ حضرت مجدد الف ثانی فرماتے
ہیں کہ کئی صوفیا اس درجے پر نہیں گئے اور انہیں تامرگ
معلوم تک نہ ہؤا کہ وہ غلطی کر رہے ہیں۔ صرف منصور کے
بارے وہ لکھتے ہیں کہ اخری ایام میں اسے علم ہو گیا تھا۔ان
باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے جو اخذ کر رکھا ہے وہ یہ
ہے کہ منصور چونکہ :وحدت الوجود :کا معتقد تھا اور :وحدت
الشہود :کا نظریہ بُہت بعد میں ایا ،سو اس کا خود کو خدا سمجھنا
یا کہہ دینا عین ممکن نظر اتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عالم وجد
میں کہی گئی بات سے اُس کا کیا ُمراد تھا ،وہ سب کو سمجھا پاتا
یا نہیں۔ اُس کا علم الہامی تھا اور اس کے لیئے دلائل نہیں ہؤا
کرتے۔یہ ہمارا خیال ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے اتفاق ضروری
نہیں۔ اُمید ہے اسی طرح اپ ہمیں بھی تاریخ کی ُکچھ نہ ُکچھ تعلیم
دیتے رہیں گے۔
وی بی جی
پٹھی بابا
مئی 2014 ,06
بُہت عمدہ جناب۔ اچھی تحریر ہے۔ ہمارے خیال کے ُمطابق ،یہ تو
ایک عام سا ُمعاشرتی رویہ ہے کہ ہر :عاشق پُتر :کو ماں ،بہن
یاد کروائی جاتی ہے ،لیکن اپ نے اسی بات کو قدرے ُمختلف
رنگ دیا ہے۔ جہاں :بابا حق ، :نا صرف دلائل کے ساتھ ،دھیدو،
سکندر اور محمود کی بات کرتا ہے ،بلکہ ُکچھ غلط العام پیمانوں
کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جن کے ذریعے دُنیا اچھا بُرا
پہچانتی ہے۔ اپ کی بیش تر باتوں سے ہمیں اتفاق ہے۔ رانجھے
کا قصہ (ہر وارث شاہ) پڑھیں تو حضرت رانجھا صاحب کا ،باغ
میں ہیر اور اُس کی سہیلیوں کے ساتھ سلوک کا ،جو ذکر ملتا
ہے ،وہ اپ کی بات کی تصدیق ہے۔ سکندر اعظم کے بارے بھی
ہمیں اپ سے اتفاق ہے ،اور یہ بات دُرست ہے کہ راجہ پورس
کی اپنے ہی ہاتھیوں کے باعث شکست صرف اس لیئے صراحی
جاتی ہے کہ ،ایک ہندو راجہ تھا ،یہ کوئی نہیں کہتا کہ اُس کی
فوج نے اُس کے بعد مذید اگے جانے سے انکار کیوں کیا۔ محمود
کے بارے ہم ذیادہ نہیں جانتے اس لیئے ُکچھ کہہ نہیں سکتے،
لیکن جب اتنا ُکچھ اپ نے دُرست کہا ہے تو یقیناً اس کی تاریخ پر
بھی اپ کی نظر ہو گی۔ دُنیاوی عشق کے بارے ہمارا خیال ہے
کہ ،بقول بابائے نفسیات ،فرائڈ کے ہر انسانی خواہش ،جنسی
ہوس اور بھوک وغیرہ سب ایک ہی اشتہا کا نام ہے۔ جب تک دُنیا
میں بھوک ہے ،اور جب تک شیر ،ہرن کو کھاتا رہے گا ،اس کو
ختم نہیں کر سکتے۔ جب تک خواہشیں ہیں ،تکمیل کی کوشش
انسان کرتا رہے گا اور یہی ترقی کا دوسرا نام بھی ہے۔ اب رہ
یہی جاتا ہے ،کہ خواہشیں اگرچہ تمام ہی بُری ہیں ،لیکن ان کو
اچھی اور بری اقسام میں تقسیم کیا جائے۔ بُری خواہشوں کو کم
سے کم کیا جائے ،یا کم از کم ان کی تکمیل کرنے کی کاوش سے
انسان کو روکا جائے۔ یہی اپ نے کیا ہے ،اور خوب کیا ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ دُنیاوی ُمحبت ،عشق وغیرہ اپ کے کہنے کے
ُمطابق ہی اصل میں جنسی ہوس ہی ہے ،یہی فرائڈ بھی کہتا ہے،
لیکن ہمارا خیال ہے کہ انسان نے یہ دیکھتے ہوئے کہ ،اس
گھوڑے کو روکا نہیں جا سکتا ،اسے ُمحبت اور عشق جیسے
پاکیزہ نام دے کر ،اس کی باگ موڑنے کی کوشش کی ہے۔ اور
بُہت حد تک کامیاب بھی ہؤا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو مرد کو
عورت اور عورت کو مرد پسند کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے،
اور غلاظت سے دور بھی رکھتا ہے۔ ہمارے نذدیک وہ تمام
کہانیاں جو عشق و ُمحبت کی پاکیزگی بیان کرتی ہیں اور انسان
کو اس بات پر امادہ کر دیتی ہیں کہ وہ انہیں خوبصورت جذبے کا
نام دے کر ،برائی سے دور رہے ،وہ اس قدر غلط نہیں ہیں۔
سوائے اس ایک بات کے ،کہ وہ عشق اور محبت کی ناکامی کی
صورت میں ،انسان کو لاغر اور بےکار بن جانے کی ترغیب دیتی
ہیں۔ اس کو روکنا بُہت ضروری ہے۔اب اس پر باقی ُکچھ ہم کہہ
نہیں سکتے ،کیونکہ ہم خود اُن لوگوں میں سے ہیں جو بقول
شخصے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بیوی وہ ُکچھ نہ کرے جو وہ
چاہتے ہیں کہ پڑوسی کی بیوی کرے۔ تحریر پر ایک بار پھر
بھرپور داد۔ رواں رکھیں۔ انہیں پڑھ کر ہمیں بُہت فائدہ ہوتا ہے۔
ُکچھ دیر سوچنے کا موقع ملتا ہے اور اپنے اپ کو پرکھنے کا
بھی۔
وی بی جی
جی دُرست فرمایا اپ نے۔ ُظلم تو واقعی ہے۔ ہم لوگ اج بھی
خلیفہ ہارون الرشید کی تعریفیں کتابوں میں پڑھتے ہیں ،بلکہ
تمام ُمسلمان بادشاہوں ،جیسے ُمغلیہ خاندان وغیرہ کی تعریف
کرتے ہیں۔ کبھی نہیں کہتے کہ ،خاندان برامکہ کا کیا حال ہؤا
تھا ،کبھی نہیں لکھتے کہ فرقہ معتذلہ کیا تھا ،کبھی نہیں پڑھتے
کہ ،امام احمد بن حنبل کے ساتھ کیا سلوک ہؤا۔ تب بھی ایسا ہی
کرتے تھے۔ لیکن افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ اب بھی ہم
ایسا ہی کر رہے ہیں۔ بقول فرازیہاں قلم کی نوک پر ہے نوک
خنجر کیاپ کی دُعاؤں کا ُشکریہ۔ ہم ُگم ہو جائیں تو :انا للہ :پڑھ
لیا کیجے۔ ُسنا ہے کوئی چیز ُگم ہو جائے تو یہی پڑھنا چاہیئے۔
اگر دُنیا میں نہ ہوئے تو مغفرت کے کام ائے گی۔
وی بی جی 21
جواب کا سکتہ
اپریل 2014 ,04
اپ کی ُکچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں ،کہ اُنہیں پڑھ کر انسان کو
لگتا ہے کہ ابھی اور اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اور کبھی
ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ پڑھ کر انسان جو ُکچھ محسوس کرتا
ہے اُسے الفاظ نہیں دے پاتا۔ کئی افسانے اپ کے ایسے بھی
ہوتے ہیں کہ کہتے ُکچھ نظر اتے ہیں لیکن کہہ ُکچھ اور رہے
ہوتے ہیں۔ :نقاد :تو بُہت اونچا مرتبہ ہے ،ہم تو صرف ایک عام
ادمی کی سی عقل کے حامل ہیں اور صرف یہ سوچ کر اپنی رائے
کا اظہار کرتے ہیں کہ جو ہم نے محسوس کیا وہ اپ تک پُہنچ
جائے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ جو ُکچھ اپ اپنی تحریر میں کہہ
رہے ہوتے ہیں ،ہم ُجزوی یا پھر ہو سکتا ہے کہ ُکلی طور پر
بھی نہ سمجھ پائے ہوں۔ ہمارے بیان سے اپ کو اتنا تو علم ہو
ہی جائے گا کہ ایک عام شخص نے پڑھ کر کیا محسوس کیا۔یہ
تحریر بھی سوال چھوڑ جاتی ہے ،افسانے کا ہیرو چونکہ خود
ایک اسامیاں پھنسانے والا شخص ہے اس لیئے اُس کے اپنی
بیوی کے بارے جو بھی خیالات ہیں وہ مشکوک ہیں اور
بھروسے کے لائق نہیں۔ دوسری طرف بیویوں کے عام رویوں
کی طرف اشارہ ہے کہ اپنے بچے اُسے اپنے بچے ہی ہوتے ہیں
جبکہ شوہر کسی اور کا بچہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی
محسوس ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رقیہ کو معلوم ہو کہ اس کا
شوہر باہر کے کھانے پسند کرتا ہے سو اُس نے پہلے دن ہی اُس
کو خوش کر دیا ہو)۔ یہ بھی اخض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے
بچوں کو حرام نہیں کھلانا چاہتی تھی کیونکہ گھر کا کھانا بھی تو
اُسی کمائی کا ہو گا۔ویسے بیوی کے ُمعاملے میں زیادہ سوچنا
نہیں چاہیئے کیونکہ اُس کے کئی کام عقل سے باہر ہی ہوتے
ہیناور عورتوں کا منطقی طرز علم مردوں سے یکسر ُمختلف ہوتا
ہے۔اس ُمعمے کو ُمعاشرتی طرز عمل سے دریافت کرنے اور پھر
الفاظ دینے پر داد قبول کیجے
وی بی جی 22
ماسٹر جی
مئی 2014 ,02
بُہت اچھی تحریر جناب۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول
کیجے۔ اپ بات کرنے کا فن جانتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ ُمعاشرے
کے ایک تلخ رویئے کو اپ نے ایک چھوٹی سی کہانی میں سمو
دیا ہے۔ اور پھر پُر اثر بھی ہے۔ پڑھ کر ہمیں ُکچھ ُکچھ محسوس
ہؤا کہ ماسٹر جی شکل ہم سے کچھ ملتی ُجلتی سی ہے۔ لیکن
مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو تلقین کرنا ماسٹر جی کا اصلی روپ ،یا
اصلی چہرہ تھا۔ اور اُس پر کتنے ہی نقاب ڈال لیئے جائیں وہ اس
سے بچ نہیں سکتے تھے۔ مذہب والا نقطہ بھی ١٠٠فی صد
دُرست ہے ،کہ اس میں ویسے ہی عقل کو ایک طرف رکھ دیا
جانا ہوتا ہے سو ان معاملوں میں سمجھ کی ضرورت تو ہوتی
نہیں۔ مولوی صاحب کے ساتھ بھی یہی ہؤا کہ ایک دن اصلی
چہرہ سامنے ا ہی گیا۔ ہماری طرف سے بھروپر داد قبول کیجے۔
وی بی جی
سچ پوچھیں تو ہم ُشروع میں یہاں ائے تھے تو اپ کے لکھے
کی طرف انا دُشوار سا لگتا تھا کہ لمبی تحریروں کو کون پڑھے
اور وہ بھی توجہ مانگتی ہیں۔ پھر ایک ادھ بار پڑھا تو دل کو
بُہت بھایا۔ پھر ان پر لکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ صاحب
ہماری داد کس لائق ہے اس قدر تفکر امیز تحریروں کے سامنے،
لیکن پھر ہم سے رہا نہیں گیا۔ اپ نے 1993کے بعد کوئی کتاب
شائع نہیں کروائی ،وجوہات بھی ہونگی۔ لیکن ہماری درخواست
یہی رہے گی کہ جہاں تک ہو سکے ،ہمیں ان سے مستفیض
ہونے کا شرف دیتے رہیئے گا۔ داد و تحسین ،اپ جانتے ہی ہیں،
کہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ :ہم تو پکھی واس ہوویں :سو جانے
یہاں کب تک ہیں ،لیکن یہ سلسلہ جاری رہے تو اچھا ہے۔ کوئی
نہ کوئی ان سے استفاضہ حاصل کرتا رہے گا۔ اپ جانتے ہی ہیں
کہ انٹرنیٹ پر اگر کوئی چیز ٢٠٠لوگ پڑھتے ہیں تو ١٠٠لوگ
پسند بھی کرتے ہیں ،لیکن اپنی پسند کا اظہار فقط کوئی ایک ادھ
شخص ہی کرتا ہے۔ بہار اتی ہے کویل کوکتی ہے ،کوئی ُسنے نہ
ُسنے۔ ایسے ہی اپ کے یہ خوبصورت احساسات ہیں ،جو پڑھنے
والوں کے زہنوں کو پختگی دیتے ہیں۔ مردہ ضمیر کو زندہ کرتے
ہیں۔ اپ کو قدرت نے یہ صلاحیت دی ہے کہ اپ کی تحریر صرف
ایک قول کی طرح اچھا یا بُرا بتا نہیں دیتی ،بلکہ ضمیر کو
جگاتی ہے۔ صرف اچھائی کی تغیب اور بُرائی چھوڑنے کی تلقین
نہیں کرتی ،بلکہ اچھائی کرواتی ہے اور بُرائی کی طرف بڑھتا
ہاتھ روکتی ہے۔ بقول ہمارے ہیکھولے نہ کھولے در کوئی ،ہے
ُمجھ کو اس سے کیامیں چیختا رہوں گا تیرے در کے سامنےالله
پاک کا ہمیشہ کرم رہے اپ پر۔
وی بی جی
بڑے ابا
اپریل 2014 ,28
بُہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ جہاں اپ نے انسان کے بٹتے
چلے جانے کی بات کی ہے وہاں یہ تحریر ایک دوسرے کے
ساتھ ُمحبتوں کے ساتھ جینے کا بھی سبق دیتی ہے۔ تحریر میں
موجود کرب کا احساس اسے اور زیادہ جاندار کر رہا ہے۔ واقعی
صفر کا ہندسہ بُہت طاقت رکھتا ہے ،اور اپ نے اسے اپنے انداز
میں بُہت خوبصورتی سے ُمعاملے کے ساتھ جوڑا ہے۔ صفر کے
ساتھ صرف ایک کا اضافہ اسے بُہت طاقتور کر دیتا ہے اور خود
بھی بُہت طاقتور ہو جاتا ہے بشرطیکہ کہ :صحیح سمت :میں
اضافہ ہو۔ غلط سمت میں اگر ایک کا اضافہ ہو تو ایک ،ایک ہی
رہتا ہے لیکن صفر اپنا وجود بھی کھو دیتا ہے۔ ایک کو چاہیئے
کہ کوشش کرے کہ کئی صفروں کے ساتھ لگ جائے اور اسی
طرح اپنی اور دوسروں کی قیمت میں اضافہ کرے۔ ہماری طرف
سے بھرپور داد قبول کیجے۔ بُہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ہم نے
انسان کے بٹنے کے عمل کو ایک اور نقطہ نظر سے بھی دیکھا
ہے۔ شیکسپئر کے ُمطابق :ال دا ورلڈ از سٹیج :۔ اُنہوں نے انسان
کی زندگی کے ادوار کو کردار دیئے ہیں ،جبکہ ہمارا خیال ہے کہ
انسان ایک ہی وقت میں کئی کردار بھی نبھاتا ہے۔ باپ بھی ہے
بیٹا بھی۔ دفتر میں ایک چہرہ تو رشتہ داروں کے سامنے کوئی
اور چہرہ۔ کہیں اداب بھری محفل میں ایک مؤدب شخص تو
دوستوں کے سامنے ایک گالم گلوچ والے انسان کا چہرہ۔ کہیں
چالاک اور مکار تو مولوی صاحب کے سامنے عجز و انکسار۔
کہیں خوشی نہ ہوتے بھی ہنسنا پڑتا ہے تو کہیں کسی کو موت
پر زبردستی رونے کی کوشش کرتا ہے۔ کردار نبھاتا ہے۔ اور
انہیں کرداروں میں بٹتا بٹتا ،اپنا اصلی چہرہ بھول جاتا ہے۔ ایسا
ہی ایک کردار یہ :وی بی :ہے جس میں ہمیں اپنا چہرہ نظر اتا
ہے اور ہم اس کے ساتھ وقت ُگزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم
نے اپ کی تحریر پڑھ کر زیادہ وقت نہیں لیا ،سو جذباتی سی چند
باتیں جو ذہن میں اُبھریں بیان کر گئے ہیں ،جس پر معذرت بھی
چاہتے ہیں۔ ائندہ کوشش کریں گے کہ اپ کی تحریر کے ساتھ
زیادہ وقت ُگزاریں تاکہ جذبات ُکچھ ٹھنڈے ہو جائیں اور ہم ُکچھ
عقل کو لگتی کہہ سکیں۔اپ کی یہ تحریر بھی بُہت خوب ہے ،اور
ہمیں یقین ہے کہ پڑھنے والے اس سے ضرور اثر لیں گے۔