The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-02-21 22:26:52

khidmaat (2)

khidmaat (2)

‫عکاسی کرتی ہے۔ کیسے کیسے جانفزا‪ ،‬معلومات افزا اور دقیق‬
‫و عمیق موضوعات پر آپ نے قلم اٹھایا ہے اور داد تحقیق دی‬
‫ہے۔ کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ایسے مضامین پر سوچا ہے‪،‬‬
‫لکھنا تو بہت بڑی بات ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ مضامین جستہ‬
‫جستہ اردو انجمن میں لگا دئے جاتے۔ کچھ احباب تو یقینا ان‬
‫سے استفادہ کریں گے۔ میری گزارش حسنی صاحب سے یہی ہے‬
‫کہ اس جانب توجہ کریں اور ممکن ہو تو یہ کام کروادیں۔ الله ان‬
‫کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے کہ وہ زبان و ادب کی ایسی ہی‬

‫خدمت کرتے رہیں۔‬
‫سرور عالم راز‬

‫مقصود حسنی کی مزاح نگاری‘ ایک اجمالی جائزہ‬

‫محبوب عالم۔۔۔۔۔۔۔۔قصور‬

‫پروفیسر مقصود حسنی ادبی دنیا میں ایک منفرد نام و مقام‬
‫رکھتے ہیں۔ وہ یک فنے نہیں ہیں بلکہ مختلف اصناف ادب میں‬

‫کمال رکھنا ان کا طرہءامتیاز ہے۔ طنز و مزاح بھی ان کی‬
‫دسترس سے باہر نہیں رہا۔ اکثر مزاح نگار تحریر کے عنوان‬
‫سے ہی عیاں ہو جاتا ہے کہ اس تحریر میں مزاح کا مواد کس‬
‫نوعیت کا رہا ہو گا۔ باباجی مقصود حسنی کے ہاں یہ چیز شاز ہی‬
‫ملتی ہے۔ عنوان سے قطعی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ تحریر میں کس‬

‫موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہو گا۔‬

‫ان کے ہاں مزاح بھی سنجیدہ اطوار لیے ہوئے ہے۔ گویا قاری‬
‫حیرانی میں حظ اٹھاتا ہے۔ وہ ورطہءحیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے‬
‫کہ مصنف نے طنز کا شائبہ بھی ہونے نہیں دیا‘ پھر گدگدا بھی‬
‫دیا ہے۔ سنجیدگی سے بات کرتے کرتے لطیفہ کرنے کا فن انہیں‬
‫خوب آتا ہے۔ روزمرہ یا پھر شائستہ سا ایس ایم ایس کا استعمال‬
‫بخوبی جانتے ہیں۔ بات سے بات نکالنے کے فن پر انہیں بلاشبہ‬
‫ملکہ حاصل ہے۔ کسی عوامی محاورے یا مرکب سے خوب فائدہ‬
‫اٹھاتے ہیں۔ یہ محاورے یا مرکب‘ کسی نہ کسی سماجی رویے‬

‫کے عکاس ہوتے ہیں۔‬

‫لفظ‘ پروفیسر مقصود حسنی کے ہاتھوں میں دیدہ زیب کھلونوں‬
‫کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ لفظوں کو مختلف تناظر میں استعمال‬

‫کرکے نئے مفاہیم دریافت کرتے ہیں۔ لفظوں کے استعمال کی یہ‬
‫صورت غالب کے بعد کسی کے ہاں پڑھنے کو ملتی ہے۔ وہ غالب‬

‫کے معنوی شاگرد بھی ہیں۔ ان کے مزاح میں زندگی متحرک‬
‫نظرآتی ہے۔ وہ اپنے اردگرد کو بڑے غور سے دیکھنے کے‬
‫عادی ہیں۔ وہ متحرک زندگی کو اپنے فکری ردعمل کے ساتھ‬
‫پیش کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا‬

‫ہے کہ کب اور کس وقت طنز کا کوئی تیر چھوڑ دیں گے۔‬

‫معاشرتی خرابیاں ان کا موضوع گفتگو رہتی ہیں۔ وہ اپنے مزاج‬
‫کے ہاتھوں مجبور نظر آتے ہیں۔ دفتر شاہی بھی ان کے طنز سے‬
‫باہر نہیں رہی۔ پروفیسر مقصود حسنی کسی بھی موضوع پر قلم‬
‫کو جنبش دیتے وقت حالات و واقعات کا ایسا نقشہ کھنچتے ہیں‬

‫کہ معاملے کے جملہ پہلو آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے‬
‫ہیں۔ ان کی کسی تحریر کو پڑھتے وقت قاری کو احساس بھی‬

‫نہیں ہوتا کہ وہ پڑھ رہا ہے یا دیکھ رہا ہے۔‬

‫باباجی مقصود حسنی زندگی کے خانگی حالات و واقعات کو بھی‬
‫نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ دہلیز کے اندر کے موضوعات پر گفتگو‬
‫کرکے شخص کی خانگی حیثیت اور کارگزاری پر بھی بہت کچھ‬
‫کہہ جاتے ہیں۔ اس انداز سے کہہ جاتے ہیں کہ قاری کو ہر ممکن‬
‫لطف میسر آتا ہے۔ خانگی حالات و واقعات بیان کرتے وقت وہ‬

‫صیغہ متکلم استعمال کرتے ہیں حالانکہ ایسے مزاح کا ان کی‬
‫ذات سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا۔ بعض تحریریں فرضی‬
‫ناموں کے ساتھ بیان کرکے اپنے فن کو کمال درجہ تک لے‬

‫جاتے ہیں۔‬

‫باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری کو روایتی قرار نہیں دیا جا‬
‫سکتا۔ انھوں نے روایت سےبغاوت کرکے نیا طرز اظہار دریافت‬

‫کیا ہے۔ مزاح اور سنجیدگی دو الگ سے طرز اظہار ہیں۔‬
‫سنجیدگی سے مزاح کا اظہار متضاد عمل ہے لیکن یہ ان کے ہاں‬
‫ملتا ہے۔ اس لیے یہ بات دعوعے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ‬

‫وہ سنجیدگی میں مزاح لکھتے وقت نئی زبان بھی متعارف‬
‫کرواتے ہیں۔‬

‫اس مختصر سے جائزے سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ‬
‫باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری اردو ادب میں انفرادیت کی‬

‫حامل ہے جو اب تک اردو کے کسی دوسرے مزاح نگار کے‬
‫حصہ میں نہیں آ سکی کیونکہ روایت کی پاسداری کرنے والے‬

‫انفرادیت کے دعوی دار نہیں ہو سکتے۔‬

‫ان کی مزاح نگاری کے چند نمونے ملاحظہ ہوں‬
‫ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے‘ بلی کتے سے‘ کتا‬
‫بھڑیے سے‘ بھیڑیا چیتے سے‘ چیتا شیر سے‘ شیر ہاتھی سے‘‬
‫ہاتھی مرد سے‘ مرد عورت سےاورعورت چوہے سے ڈرتی ہے۔‬
‫ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس اپنے موقف کی‬
‫دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں چھت پر بیھٹا تاڑا تاڑی‬
‫کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواندھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔‬
‫میں پوری پھرتی سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا‬
‫کہ صندوق میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے‬
‫ڈرتا‘ پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چلا گیا کہ تم نے مجھے بلی‬

‫یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا‬
‫صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔‬
‫غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم‬

‫ہم بڑے مذہبی لوگ ہیں کسی سکھ کی سیاسی شریعت تسلیم نہیں‬
‫کر سکتے۔ راجا رنجیت سنگھ اول تا آخر مقامی غیر مسلم تھا‬
‫اس لیے اس کا کہا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ راجا رنجیت‬
‫سنگھ اگر گورا ہوتا تو اس کی سیاسی شریعت کا مقام بڑا بلند‬
‫ہوتا۔ گورا دیس سے آئی ہر چیز ہمیں خوش آتی ہے۔‬
‫علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام‬

‫استاد کی باتوں کا برا نہ مانئیے گا۔ میں بھی اوروں کی طرح‬
‫ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔ اور کیا کروں مجھے محسن کش اور‬
‫پاکستان دشمن کہلانے کا کوئی شوق نہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی‬
‫کرنے کی باتیں ہیں کہ کتے کے منہ سے نکلی سانپ کے منہ‬
‫میں آ گئی۔ سانپ سے خلاصی ہونے کے ساتھ ہی چھپکلی کے‬

‫منہ میں چلی گئی۔‬
‫ہم زندہ قوم ہیں‬
‫دو میاں بیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےغصے میں آ کر‬
‫اپنی زوجہ ماجدہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ مولوی صاحب کی‬
‫کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے کی دیگ اور دو سو نان ڈال‬
‫دیے۔ نئی شادی پر اٹھنے والے خرچے سے یہ کہیں کم تھا۔ میاں‬
‫نے مولوی صاحب کے ڈالے گیے اصولی خرچے میں عافیت‬
‫سمجھی۔ رات کو میاں بیوی چولہے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔‬
‫بیوی نے اپنی فراست جتاتے ہوئے کہا‬

‫"اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔"‬
‫بات میں سچائی اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی۔ میاں‬

‫نےدوبارہ بھڑک کر کہا‬
‫"توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سی"‬
‫مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان‬
‫کچھ ہی پہلے‘ اندر سے آواز سنائی دی‘ حضرت بےغم صاحب‬
‫حیدر امام سے کہہ رہی تھیں‘ بیٹا اپنے ابو سے پیسے لے کر‬
‫بابے فجے سے غلہ لے آؤ۔ عید قریب آ رہی ہے‘ کچھ تو جمع‬
‫ہوں گے‘ عید پر کپڑے خرید لائیں گے۔ بڑا سادا اور عام فیہم‬
‫جملہ ہے‘ لیکن اس کے مفاہیم سے میں ہی آگاہ ہوں۔ یہ عید پر‬
‫کپڑے لانے کے حوالہ سے بڑا بلیغ اور طرح دار طنز ہے۔ طنز‬
‫اور مزاح میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ طنز لڑائی کے‬
‫دروازے کھولتا ہے جب کہ مزاح کے بطن سے قہقہے جنم لیتے‬
‫ہیں۔ جب دونوں کا آمیزہ پیش کیا جائے تو زہریلی مسکراہٹ‬
‫نمودار ہوتی ہے اور ایسی جعلی مسکراہٹ سے صبر بھلا‘‬
‫دوسرا بات گرہ میں بندھ جاتی ہے۔‬

‫لاٹھی والے کی بھینس‬
‫ان کی ایک مزاح پر مشتمل کتاب بیگمی تجربہ ‪ ١٩٩٣‬میں شائع‬
‫ہوئی جو اس سے پہلے نقد و نقد کے نام سے منظر عام پر جلوہ‬
‫گر ہوئی۔ اس کتاب کو اہل ذوق نے پسند کیا۔ چند آراء ملاحظہ‬

‫ہوں‬
‫آج ہمارا معاشرہ جس فتنہ و فساد اور پرآشوب دور سے گزر رہا‬
‫ہے جس کو بدقسمتی سے تہذیب و ترقی سے تعبیر کیا جاتا ہے‬
‫اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ رویہ اختیار کرنے‬

‫سے زیادہ لطیف طنز و مزاح کے نشتر چبھونا موثر ثابت ہو‬
‫سکتا ہے۔ مصنف موصوف نے اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا‬
‫ہے اور معاشرے کے ان زخموں سے فاسد مادہ کو طنزومزاح‬

‫کے نشروں سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔‬
‫ثناءالحق صدیقی‬

‫ماہنامہ الانسان کراچی مئی ‪ ١٩٩٤‬صفحہ نمبر ‪٣٢‬‬

‫مقصود صاحب بڑے ذہین معاملہ شناس مدبر اور نئی سوچ کے‬
‫مالک ہیں۔ بڑی بات یہ کہ آپ سچے اور منفرد انداز کے بادشاہ‬
‫ہیں۔ میں تو کہوں گا کہ میں نے ساٹھ ہزار کتب کا مطالعہ کیا ہے‬
‫ان میں ایسی معیاری کتب کوئی ایک درجن ہوں گی۔ اس کتاب نے‬
‫مجھے بڑا متاثر کیا ہے۔ میں اسے سندھ کے شاہ جو رسالو کی‬
‫طرح اپنے سفر میں بھی ساتھ رکھوں گا اور بار بار پڑھوں گا۔‬

‫مہر کاچیلوی‬
‫بیگمی تجربہ پر اظہار خیال‘ ہفت روزہ عورت میرپور خاص‬

‫سندھ ‪ ١٨‬نومبر ‪١٩٩٣‬‬

‫ان کی زبان میں لطافت ہے‘ ظرافت ہے‘ سحر آفرینی ہے۔ انھوں‬
‫نے جس ہنرمندی سے باتوں سے باتیں نکالی ہیں‘ وہ ان ہی کا‬
‫حصہ ہے۔ انھوں نے مزاحیہ طرز سے پژمردہ دلوں میں زندگی‬
‫اور زندہ دلی کی روح پھونک دی ہے۔ خشک ہونٹوں پر پھول‬

‫نچھاور کیے ہیں۔‬
‫ڈاکٹر وفا راشدی‬
‫سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ‪ ٢٠٠٥‬بیگمی تجربہ پر‬

‫اظہار خیال‬

‫بیگمی تجربہ میں کل ‪ ٣١‬مضمون شامل تھے جن کی تفصیل درج‬
‫خدمت ہے‬

‫بچوں کی بددعائیں نہ لیں ‪1‬‬
‫عقل بڑی یا بھینس ‪2‬‬
‫بیمار ہونا منع ہے ‪3‬‬
‫حاتم میرے آنگن میں ‪4‬‬

‫کاغذی قصے اور طاقت کا سرچشمہ ‪5‬‬
‫شادی‪+‬معاشقہ‪:‬جمہوری عمل ‪6‬‬
‫مجبور شرک ‪7‬‬

‫ترقی‘ ہجرین اور عصری تقاضے ‪8‬‬
‫دمدار ستارہ اور علامتی اظہار ‪9‬‬
‫ویڈیو ادارے اور قومی فریضہ ‪10‬‬
‫چھلکے بکریاں اور میمیں ‪11‬‬
‫پہلا ہلا اور برداشت کی خو ‪12‬‬
‫بیگمی تجربہ اور پت جھڑ ‪13‬‬
‫انسانی ترقی میں جوں کا کردار ‪14‬‬

‫اصلاح نفس اور برامدے کی موت ‪15‬‬
‫سنہری اصول اور دھندے کی اہمیت ‪16‬‬

‫بش شریعت اور سکی نمبرداری ‪17‬‬

‫نیل کنٹھ‘ شیر اور محکمہ ماہی پروری ‪18‬‬

‫بہتی گنگا اور نقد و نقد ‪19‬‬
‫ملاوٹ اور کھپ کھپاؤ ‪20‬‬
‫سپاہ گری سے گداگری تک ‪21‬‬
‫یار لوگ اور منہگائی میمو ‪22‬‬

‫سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے ‪23‬‬
‫ہدایت نامہ خاوند ‪24‬‬

‫ہدایت نامہ بیوی ‪25‬‬

‫ادھورا کون ‪26‬‬
‫محنت کے نقصانات ‪27‬‬
‫محاورے کا سفر ‪28‬‬
‫کتےاور عصری تقاضے ‪29‬‬

‫جواز ‪30‬‬
‫ظلم ‪31‬‬
‫مزاح سے متعلق ان کے بہت سے مضمون انٹرنیٹ کی مختلف‬
‫ویب سائٹس پر پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان کے ان مضامین کو‬
‫سراہا گیا ہے۔ اس ذیل میں صرف اردو انجمن سے متعلق چند اہل‬
‫قلم کی آراء ملاحظہ ہوں‬
‫آپ کا یہ نہایت دلچسپ انشائیہ پڑھا اور بہت محظوظ و مستفید‬
‫ہوا۔ جب اس کے اصول کا خود پر اطلاق کیا تو اتنے نام اور‬
‫خطاب نظر آئے کہ اگر ان کا اعلان کر دوں تو دنیا اور عاقبت‬
‫دونوں میں خوار ہوں۔ سو خاموشی سے سر جھکا کر یہ خط‬
‫لکھنے بیٹھ گیا ۔ انشا ئیہ بہت مزیدار ہے شاید اس لئے کہ‬
‫حقیقت پر مبنی ہے۔ اس آئنیہ میں سب اپنی صورت دیکھ سکتے‬

‫ہیں۔‬
‫اکتوبر ‪ 10:43:43 ,2013 ,20‬شام‬

‫مشتری ہوشیار باش‬
‫سرور عالم راز‬

‫آپ کے انشائیے پر لطف ہوتے ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی کہ آپ‬
‫ان میں اپنی طرف کی یا پنجابی کی معروف عوامی اصطلاحات‬

‫(میں تو انہیں یہی سمجھتا ہوں۔ ہو سکتا ہوں کہ غلطی پر ہوں)‬
‫استعمال کرتے ہیں جن کا مطلب سر کھجانے کے بعد آدھا پونا‬
‫سمجھ میں آ ہی جاتی ہے جیسے ادھ گھر والی یا کھرک۔ یا ایم‬
‫بی بی ایس۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کھرک جیسا با مزہ‬
‫مرض ابھی تک جدید سائنس نے ایجاد نہیں کیا ہے۔ والله بعض‬
‫اوقات تو جی چاہتا ہے کہ یہ مشغلہ جاری رہے اور تا قیامت‬
‫جاری رہے۔ اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ صور کی آواز کو پس‬
‫پشت ڈال کر ہم ‪:‬کھرک اندازی‪ :‬میں مشغول رہیں گے۔ الله الله خیر‬

‫سلا۔‬
‫میری ناچیز بدعا‬
‫اگست ‪ 09:00:12 ,2013 ,14‬صبح‬
‫سرور عالم راز‬

‫مجھے علم نہیں ہے کہ محترمہ زھرا کون ہیں‪ ،‬قرین قیاس یہی‬
‫ہے کہ انکا تعلق بزم سے ہوسکتا ہے۔ ملاقات کی روداد میں‬
‫گھریلو ماحول کی عکاسی بہت عمدگی سے کی گی ہے‪ ،‬اور یہ‬
‫وہ کہانی ہے جو گھر گھر کی ہے۔ اہل خانہ پر گھبراہٹ کا عالم‬
‫اور اندیشہ ہاے دور دراز‪ ،‬گھر کے سربراہ کی واقعی جان پر بن‬
‫آتی ہے۔ ایک لطیف تحریر جس سے لطف اندوز ہونے کا حق ہر‬

‫قاری کو ہے‬
‫خلش‬

‫آپ کا انشائیہ حسب معمول نہایت دلچسپ اور شگفتہ تھا۔ پڑھ کر‬
‫لطف آ گیا۔ اس زندگی کی بھاگ دوڑ اور گھما گھمی میں چند‬

‫لمحات ہنسنے کے مل جائیں تو الله کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ہاں یہ‬
‫پڑھ کرانتہائی حیرت ہوئی کہ زہرا صاحبہ برقعہ میں آئین! یا میرا‬

‫چشمہ ہی خراب ہو گیا ہے؟ ایک نہایت پر لطف اور دل پذیر‬
‫تحریر کے لئے داد قبول کیجئے۔‬
‫قصہ زہرا بٹیا سے ملاقات کا‬

‫نومبر ‪ 03:25:04 ,2013 ,03‬صبح‬
‫سرور عالم راز‬

‫جیسے جیسے آپ کی تحریر پڑھتا گیا ہنسی کا ضبط کرنا ناگزیر‬
‫ہوتا چلا گیا اور آخر میں میری حالت پاکستان میں کسی زمانے‬

‫میں جی ٹی روڈ پر چلنے والی اس کھچاڑا جی ٹی ایس‬
‫) گورننمٹ ٹرانسپورٹ سروس(‬

‫کی طرح ہوگئی جو رک جانے کے بعد بھی ہلتی رہتی تھی ‪ ،‬بڑی‬
‫دیر تک لطف اندوز ہونے کے بعد سوچا اپنی اندرونی کیفیت کا‬

‫اظہار کر ہی دیا جائے‬
‫وہ کہتے ہیں ناں کہ جس سے پیار ہوجائے تو اس کا اظہار کر‬

‫دو کہ مبادا دیر نہ ہو جائے‬
‫تو جناب ڈاکٹر صاحب میری جانب سے ڈھیروں داد آپ کے قلم‬
‫کے کمال کی نذر کہ جس سے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جائیں‬

‫لاٹھی والے کی بھینس‬
‫جولائی ‪ 09:45:29 ,2013 ,12‬شام‬

‫اسماعیل اعجاز‬
‫اردو نیٹ جاپان‘ اردو انجمن‘ ہماری ویب‘ فرینڈز کارنر‘ پیغام‬
‫ڈاٹ کام‘ فورم پاکستان اور فری ڈم یونی ورسٹی سے‘ میں نے‬

‫‪ ٦٩‬مضامین تلاش کیے ہیں۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے‬
‫بھگوان ساز کمی کمین کیوں ہو جاتاہے ‪1‬‬
‫غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم ‪2‬‬

‫عوامی نمائیندے مسائل' اور بیورو کریسی ‪3‬‬

‫علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام ‪4‬‬
‫امریکہ کی پاگلوں سے جنگ چھڑنے والی ہے ‪5‬‬

‫لوڈ شیڈنگ کی برکات ‪6‬‬
‫ہم زندہ قوم ہیں ‪7‬‬

‫طہارتی عمل اور مرغی نواز وڈیرہ ‪8‬‬
‫رولا رپا توازن کا ضامن ہے ‪9‬‬

‫آدم خور چوہے اور بڈھا مکاؤ مہم ‪10‬‬
‫پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر ‪11‬‬
‫سیاست دان اپنی عینک کا نمبر بدلیں ‪12‬‬

‫قانون ضابطے اور نورا گیم ‪13‬‬
‫خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر ‪14‬‬

‫خدا بچاؤ مہم اور طلاق کا آپشن ‪15‬‬
‫غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم ‪16‬‬
‫جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں ‪17‬‬
‫ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو دوسیریاں ‪18‬‬
‫لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت ‪19‬‬
‫اس عذاب کا ذکر قرآن میں موجود نہیں ‪20‬‬
‫بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ ‪21‬‬
‫عوام شاہ کے ڈراموں کی زد میں رہے ہیں ‪22‬‬
‫دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو ‪23‬‬
‫رشوت کو طلاق ہو سکتی ہے ‪24‬‬

‫عوام بھوک اور گڑ کی پیسی ‪25‬‬

‫رمضان میں رحمتوں پر نظر رہنی چاہیے ‪26‬‬
‫جمہوریت سے عوام کو خطرہ ہے ‪27‬‬
‫سیری تک جشن آزادی مبارک ہو ‪28‬‬

‫دو قومی نظریہ اور اسلامی ونڈو ‪29‬‬
‫گھر بیٹھے حج کے ایک رکن کا ثواب کمائیں ‪30‬‬
‫مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان ‪31‬‬

‫لاٹھی والے کی بھینس ‪32‬‬
‫دمہ گذیدہ دفتر شاہی اور بیمار بابا ‪33‬‬
‫انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ ‪34‬‬
‫غیرملکی بداطواری دفتری اخلاقیات اور برفی کی چاٹ ‪35‬‬

‫حقیقت اور چوہے کی عصری اہمیت زندگی ‪36‬‬

‫تعلیم میر منشی ہاؤس اور میری ناچیز قاصری ‪37‬‬

‫محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی ‪38‬‬
‫آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں ‪39‬‬

‫دیگی ذائقہ اور مہر افروز کی نکتہ آفرینی ‪40‬‬
‫ایجوکیشن‘ کوالیفیکیشن اور عسکری ضابطے ‪41‬‬

‫وہ دن ضرور آئے گا ‪42‬‬

‫صیغہ ہم اور غالب نوازی ‪43‬‬

‫پروف ریڈنگ‘ ادارے اور ناصر زیدی ‪44‬‬
‫ناصر زیدی اور شعر غالب کا جدید شعری لباس ‪45‬‬

‫قصہ زہرا بٹیا سے ملاقات کا ‪46‬‬
‫مشتری ہوشیآر باش ‪47‬‬

‫مدن اور آلو ٹماٹر کا جال ‪48‬‬
‫احباب اور ادارے آگاہ رہیں ‪49‬‬
‫کھائی پکائی اور معیار کا تعین ‪50‬‬

‫بابا بولتا ہے ‪51‬‬
‫بابا چھیڑتا ہے ‪52‬‬
‫لاوارثا بابا اور تھا ‪53‬‬

‫فتوی درکار ہے ‪54‬‬
‫ڈینگی‘ ڈینگی کی زد میں ‪55‬‬
‫حضرت ڈینگی شریف اور نفاذ اسلام ‪56‬‬
‫یہ بلائیں صدقہ کو کھا جاتی ہیں ‪57‬‬

‫اب دیکھنا یہ ہے ‪58‬‬
‫سورج مغرب سے نکلتا ہے ‪59‬‬

‫یک پہیہ گاڑی منزل پر پہنچ پائے گی ‪60‬‬

‫حجامت بےسر کو سر میں لاتی ہے ‪61‬‬
‫انھی پئے گئی اے ‪62‬‬

‫امیری میں بھی شاہی طعام پیدا کر ‪63‬‬
‫وہ دن کب آئے گا ‪64‬‬

‫آزادی تک‘ جشن آزادی مبارک ‪65‬‬
‫رشتے خواب اور گندگی کی روڑیاں ‪66‬‬
‫پنجریانی اور گناہ گار آنکھوں کے خواب ‪67‬‬

‫میری ناچیز بدعا ‪68‬‬
‫طاقت اور ٹیڑھے مگر خوبصورت ہاتھ ‪69‬‬

‫انسان کی تلاش ‪70‬‬
‫معاشی ڈنگر اور کاغذ کے لاوارث پرزے ‪71‬‬

‫صبح ضرور ہو گی ‪72‬‬

‫قیامت ابھی تک ٹلی ہوئی ہے ‪73‬‬
‫وہ دن گیے جب بن دیے بھلا ہوتا تھا ‪74‬‬

‫عین ممکن ہے ‪75‬‬

‫کھائی بھلی کہ مائی ‪76‬‬

‫دفتر شاہی میں کالے گورے کی تقسیم کا مسلہ ‪77‬‬
‫درج بالا مختصر تفصیلات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے‬

‫کہ باباجی مقصود حسنی اس صنف ادب میں‬
‫بھی کامیاب و کامران رہے ہیں۔ آخر میں پروفیسر یونس حسن‬
‫کی رائے درج کر رہا ہوں جس سے باباجی کے اس ادبی کام کی‬

‫نوعیت و حیثیت کا اندازہ ہو جاتا ہے‬

‫مقصود حسنی نے مزاح کے میدان میں تقلید کو گوارہ نہیں کیا‘‬
‫اپنے لیے ایک علیحدہ اور جداگانہ رستہ نکالا ہے۔ ان کی یہی‬
‫انفرادیت ان کے پورے مزاح پر محیط نظر آتی ہے۔ ان کا مزاح‬
‫وقتی یا لمحاتی نہیں اور نہ ہی گراوٹ کا شکار ہوتا ہے بلکہ‬
‫اپنی جدت طرازی کی بنا پر ایک علیحدہ شناخت اور پہچان رکھتا‬

‫ہے۔ ان کے مزاح کی جڑیں ہماری سماجی زندگی کے اندر‬
‫پیوست نظر آتی ہے۔‬
‫پروفیسر یونس حسن‬

‫سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ‪ ٢٠٠٥‬بیگمی تجربہ پر‬
‫اظہار خیال‬

‫یاران اردو انجمن‪ :‬تسلیمات‬
‫مکرمی ڈاکٹر حسنی صاحب کی علمی اور ادبی حیثیت پر لکھا ہوا‬
‫یہ مضمون نہ صرف دلچسپ اور معلومات افزا ہے بلکہ یہ بھی‬

‫بتاتا ہے کہ ہماری انجمن کو کیسے کیسے لوگوں نے اپنی‬
‫موجودگی اور نگارشات سے عزت بخشی ہے۔ الله سے دعا ہے‬
‫کہ حسنی صاحب کا سایہ انجمن پر ہمیشہ قائم رہے تاکہ ہم سب‬
‫ان سے مستفید و مستفیض ہوتے رہیں۔ اب ایسے لوگ بہت کم‬
‫رہ گئے ہیں جن سے ادبی استفادہ کیا جا سکے۔ خاص طور پر‬
‫انٹرنیٹ پر یہ کمی خطرناک حد تک محسوس ہوتی ہے۔ اردو‬

‫انجمن ڈاکٹر حسنی صاحب کی بے حد ممنون ہے اور ان کے حق‬
‫میں دعائے خیر اور درازی عمر کی طالب ہے۔‬

‫سرور عالم راز‬

‫=‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic‬‬
‫‪9165.0‬‬

‫مقصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ‬

‫محبوب عالم ‪--‬۔۔ قصور‬

‫پروفیسر مقصود حسنی ملکی اور بین الااقوامی سطح پر اپنی‬
‫الگ سے شناخت رکھتے ہیں۔ تخلیقی میدان میں ان کی شخصیت‬
‫کثیرالجہتی ہے۔ یہ ہی صورت تحقیق و تنقید کے میدان کی ہے۔‬
‫نثر ہی نہیں‘ شاعری کے میدان میں بھی نمایاں حیثیت رکھتے‬
‫ہیں۔ انہوں نے طالب علمی کے ابتدائی دنوں میں ہی شعر کہنا‬
‫شروع کر دیے۔ ان کی ‪ ١٩٦٥‬کی شاعری دستیاب ہوئی ہے۔ اس‬
‫وقت وہ جماعت ہشتم کے طالب علم تھے۔ بطور نمونہ ابتدائی‬

‫‪:‬دور کے چند شعر ملاحظہ کریں‬

‫پھوٹا ناسور بن کرزخم جگر‬
‫سزا ملی مجھے گناہ کئے بغیر‬

‫‪٢٥‬مئی ‪١٩٦٥‬‬

‫آس کے دیپ جلانے نکلو‬
‫جاگ کر اب جگانے نکلو‬

‫‪٢٩‬اپریل ‪١٩٦٦‬‬

‫زخم کھا کر جو زخم کھانے کی رکھے ہوش‬
‫انداز اس کے تڑپنے پھڑکنے کا ذرا دیکھ‬

‫‪٣‬فروری ‪١٩٦٧‬‬

‫ہر صدف کی قسمت میں گوہر کہاں‬
‫ہزار پرند میں‘ اک شہباز ہوتا ہے‬

‫‪٢٧‬جون ‪١٩٦٨‬‬

‫عریاں پڑی ہے لاش حیا بے گور وکفن‬
‫لوگ لیتے ہیں گل‘ گلستاں رہے نہ رہے‬

‫‪٢٥‬اکتوبر ‪١٩٦٩‬‬

‫مولاں کو ہو گی جنت سے محبت زاہد‬
‫بار ہا گزریں گے دشت پرخار سے ہم‬

‫‪٥‬مارچ ‪١٩٧٠‬‬
‫‪١٩٧٠:‬میں لکھی گئی یہ نظم بھی بطور نمونہ ملاحظہ ہو‬

‫مجھے اب‬

‫میں اپنی تلاش میں تھا‬
‫گلاب سے انگارے نکلے‬
‫خوشبو سے شرارے اٹھے‬

‫‘میرا چہرا‬
‫کوئی لے گیا‬
‫چوڑیاں مجھے دے گیا‬
‫چوڑیوں کی کھنک میں‬
‫مجھے اب‬
‫بےچہرہ جیون‬

‫جینا ہے‬
‫ایک تازہ نظم ملاحظہ ہو‬

‫میں نے دیکھا‬

‫پانیوں پر‬
‫میں اشک لکھنے چلا تھا‬

‫دیدہءخوں دیکھ کر‬
‫ہر بوند‬

‫ہوا کے سفر بر نکل گئی‬
‫منصف کے پاس گیا‬

‫شاہ کی مجبوریوں میں‬
‫وہ جکڑا ہوا تھا‬
‫سوچا‬

‫پانیوں کی بےمروتی کا‬
‫فتوی ہی لے لیتا ہوں‬
‫ملاں شاہ کے دستر خوان پر‬
‫مدہوش پڑا ہوا تھا‬
‫دیکھا‘ شیخ کا در کھلا ہوا ہے‬

‫سوچا‬
‫شاید یہاں داد رسی کا‬
‫کوئی سامان ہو جائے گا‬

‫وہ بچارہ تو‬
‫پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا‬

‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬
‫دل دروازہ کھلا‬

‫خدا جو میرے قریب تھا‬
‫بولا‬

‫کتنے عجیب ہو تم بھی‬
‫کیا میں کافی نہیں‬

‫جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو‬
‫میرے پاس آؤ‬

‫ادھر ادھر نہ جاؤ‬
‫میری آغوش میں‬
‫تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی‬

‫ہر بوند‬
‫رشک لعل فردوس بریں ہو گی‬
‫اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا‬

‫میں نے دیکھا‬
‫شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں‬
‫بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی‬

‫اس نمونہء کلام سے ان کے فکری اور تخلیقی سفر کا اندازہ‬
‫لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے ہاں مجازی عشق و محبت شجر منوعہ‬

‫سے لگتے ہیں۔ پروفیسر مقصود حسنی کے والد سید غلام‬
‫حضور پنجابی صوفی شاعر تھے۔ ان کے دادا سید علی احمد‬
‫پنجابی اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔ یہ سلسلہ اس سے‬
‫پیچھے تک جاتا ہے۔ پروفیسر موصوف کے پاس اپنے دادا کا‬
‫کلام مخطوطوں کی شکل میں موجود ہے۔ گویا یہ شوق انہیں‬

‫وراثت میں ملا ہے۔ وہ اردو کے علاوہ انگریزی پنجابی اور‬
‫پوٹھوہاری میں بھی کہتے رہے ہیں۔‬

‫ان کے کلام میں ردعملی کی سی صورت ہر سطح پر غالب رہتی‬
‫ہے۔ چلتے چلتے ناصحانہ اور صوفیانہ ٹچ ضرور دے جاتے ہیں۔‬

‫ان کے کلام میں سیکڑوں مغربی مشرقی اسلامی اور ہندی‬
‫تلمیحات پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہر تلمیح کا بڑا برمحل استعمال ہوا‬

‫ہے۔ یہ تلمیحات بین الااقومی تناطر میں استعمال ہوئی ہیں۔‬
‫پروفیسر علی حسن چوہان ان کی مغربی تلمیحات پر بھرپور‬

‫تحقیقی مقالہ بھی تحریر کر چکے ہیں۔‬
‫‪١٩٩٣‬میں ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے بہ عنوان۔۔۔۔۔۔ مقصود حسنی‬

‫کی شاعری‘ تنقیدی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ شائع کی۔ مقصود حسنی کی‬
‫شاعری پر مشتمل تین کتب منصہءشہود پر آ چکی ہیں۔‬
‫سپنے اگلے پہر کے نثری ہائیکو‬
‫اوٹ سے نثری نظمیں یہ مجموعہ دو بار شائع ہوا۔‬
‫سورج کو روک لو نثری غزلیں‬
‫کاجل ابھی پھیلا نہیں اشاعت کے مراحل میں ہے۔‬

‫اس کے علاوہ بھی ان کا کلام رسائل میں شائع ہوتا رہا ہے۔ ان کا‬
‫بہت سارا کلام انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائیٹس پر پڑھنے کو ملتا‬
‫ہے۔ آمنہ رانی ان کی نظموں کو ڈازائین کر رہی ہیں۔ جو ان کی‬

‫شاعری کی پذیرائی میں خوب صورت اضافہ قرار دیا جا سکتا‬
‫ہے۔‬

‫مقصود حسنی کی شاعری کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی‬
‫ہوئے۔‬

‫پروفیسر امجد علی شاکر نے۔۔۔۔۔۔ اوٹ سے۔۔۔۔۔۔۔ کی نظموں کو‬

‫پنجابی روپ دیا۔‬
‫بلدیو مرزا نے ان کے ہائیکو کا انگریزی میں ترجمہ کیا‘ جو‬

‫سکائی لارک میں شائع ہوا۔‬
‫نصرالله صابر مرحوم نے ان کے ہائیکو کا پنجابی میں ترجمہ کیا۔‬
‫مہر کاچیلوی مرحوم نے ان کے ہائیکو کا سندھی میں ترجمہ کیا۔‬

‫ڈاکٹر اسلم ثاقب مالیر کوٹلہ‘ بھارت نے ان کے ہائیکو کا‬
‫گرمکھی میں ترجمہ کیا۔‬

‫عالمی رنگ ادب کراچی نے پورا مجموعہ ۔۔۔۔۔۔۔ سپنے اگلے پہر‬
‫کے۔۔۔۔۔۔۔ کو شاعر علی شاعر کے مضمون کے ساتھ شائع کیا۔‬
‫پروفیسر نیامت علی نے ان کی انگریزی شاعری پر ایم فل سطح‬

‫کا مقالہ تحریر کیا۔‬

‫اردو ادب کے جن ناقدین نے ان کی شاعری کو خراج تحسین‬
‫پیش کیا‘ اس کی میسر تفصیل کچھ یوں ہے‬

‫ڈااکٹر آغا سہیل‬
‫آفتاب احمد مشق ایم فل اردو‬

‫ڈاکٹر ابو سعید نور الدین‬
‫احمد ریاض نسیم‬
‫ڈاکٹر اسلم ثاقب‬
‫اسلم طاہر‬

‫ڈاکٹر احمد رفیع ندیم‬
‫احمد ندیم قاسمی‬
‫ڈاکٹر اختر شمار‬
‫ڈاکٹر اسعد گیلانی‬

‫اسماعیل اعجاز‬
‫اشرف پال‬
‫اطہر ناسک‬
‫اکبر کاظمی‬

‫پروفیسر اکرام ہوشیار پوری‬
‫ایاز قیصر‬

‫ڈاکٹر بیدل حیدری‬
‫پروفیسر تاج پیامی‬

‫تنویر عباسی‬
‫جمشید مسرور‬
‫ڈاکٹر ہومیو ریاض انجم‬
‫خواجہ غضنفر ندیم‬
‫ڈاکٹر فرمان فتح پوری‬
‫ڈاکٹر صابر آفاقی‬
‫ڈاکٹر صادق جنجوعہ‬
‫صفدر حسین برق‬
‫ضیغم رضوی‬
‫طفیل ابن گل‬
‫ڈاکٹر ظہور احمد چودھری‬
‫عباس تابش‬
‫ڈاکٹر عبدالله قاضی‬
‫علی اکبر گیلانی‬
‫پروفیسر علی حسن چوہان‬
‫ڈاکٹر عطاالرحمن‬
‫فیصل فارانی‬

‫کفیل احمد‬
‫ڈاکٹر گوہر نوشاہی‬
‫ڈاکٹر مبارک احمد‬

‫محبوب عالم‬
‫مشیر کاظمی‬
‫ڈاکٹر محمد امین‬
‫پرفیسر محمد رضا مدنی‬
‫مہر افروز کاٹھیاواڑی‬
‫مہر کاچیلوی‬
‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‬
‫پروفیسر نیامت علی‬
‫ندیم شعیب‬
‫ڈاکٹر وزیر آغا‬
‫ڈاکٹر وفا راشدی‬
‫ڈاکٹر وقار احمد رضوی‬
‫وی بی جی‬
‫یوسف عالمگیرین‬
‫پروفیسر یونس حسن‬

‫ان ناقدین نے متوازن انداز میں حسنی کی شاعری پر اظہار خیال‬
‫کیا ہے۔ ان حضرات گرامی کےعلاوہ محمد اسلم طاہر نے مقصود‬
‫حسنی کی شخضیت ادبی خدمات کے عنوان سے بہاؤالدین زکریا‬
‫یونیورسٹی ملتان سے ایم فل کا مقلہ تحریر کیا جس میں ان کی‬
‫شاعری کے متعلق باب موجود ہے۔ راقم کے ایم فل کے مقالہ۔۔۔۔۔۔‬

‫قصور کی علمی و ادبی روایت۔۔۔۔۔۔ میں حسنی کی شاعری پر‬

‫رائے موجود ہے۔ ۔‬

‫‪:‬ان کی شاعری پر چند اہل قلم کی آراء ملاحظہ ہوں‬

‫آپ کا یہ کلام پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ جینویں کسی‬
‫نے آکر دستک دینڑ کے بجائے ُکسھن ماریا ‪،‬وجا جا کے ٹھا‬
‫کرکے بڑا ای سواد آیا ‪ ،‬کیا ای بات ہے ہماری طرف سے ایس‬
‫سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض یاب فرمانڑ کے واسطے‬

‫چوہلیاں پرھ پرھ داد پیش ہےگی‬
‫تواڈا چاہنے والا ‪1‬‬
‫اسماعیل اعجاز‬

‫‪:‬ڈاکٹر بیدل حیدری کا کہنا ہے‬
‫مقصود حسنی کی نثری غزلیں موضوع کے اعتبار سے کتنی‬
‫اچھوتی ہیں‘ لہجے کی کاٹ اور طنز کی گہرائی کا کیا معیار ہے‘‬
‫قاری کیا محسوس کرتا ہے‘ استعارے اور علامتیں کتنے خوب‬
‫صورت انداز میں آئی ہیں۔ مستقبل میں اتنی فرصت کسے ہو گی‬
‫کہ فرسودہ طویل غزلوں اور نظموں کو پڑھے۔ اگلی صدی تو‬
‫مقصود حسنی جیسے مختصر اور پراثر شعر گو کی صدی ہے۔‬

‫‪........................‬‬
‫‪:‬ڈاکٹر عطاءالرحمن بھی اسی مجموعے پر یوں رقم طراز ہیں‬
‫ان کی سبھی نظمیں خوب صورت ہیں جن کے بھنور میں کھو کر‬
‫انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے بےخبر ہو جاتا ہے لیکن‬
‫قتل‘ ہم کب آزاد ہیں‘ آسمان نکھر گیا ہے‘ میں نے دیکھا۔۔۔۔ خوب‬
‫ترین نظمیں ہیں جن میں انسانی درندگی‘فرعونیت‘ ظلم و جبر‘‬

‫استبدادیت‘ بےبسی و بچارگی‘ آہیں اور سسکیاں غرض اک آتش‬
‫فشاں پنہاں ہے جو اگر پھٹتا ہے تو اس کا لاوا راہ میں مزاحم ہر‬

‫شے کو جلا کر خاکستر کر ڈالتا ہے۔‬

‫‪.............................‬‬
‫آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ جب‬
‫تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے پڑھے ہوئے‬
‫مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں اور میں پھر‬
‫نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں گرفتار ہو جاتا ہوں۔ آپ‬
‫کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا صرف ایک بار ہوا اور میں جلد‬
‫ہی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ کی‬
‫نظم پر دلسوزی اور خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ‬
‫اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا‬
‫پیغام عام سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل‬
‫اقتدار کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے‬
‫ہیں کہ دینے والا تو کوئی اور ہی ہے۔ الله رحم کرے۔ ایسے ہی‬
‫لکھتے رہئے۔ الله آپ کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ صلاحیت‬
‫اور توفیق سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ باقی راوی سب چین بولتا‬

‫ہے۔ ‪2‬‬
‫سرور عالم راز‬

‫ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔۔۔۔اوٹ سے۔۔۔۔ پراپنی رائے کچھ یوں دیتے‬
‫‪:‬ہیں‬

‫یوں تو اس مجموعے کی ساری نظمیں خوب نہیں‘ خوب تر ہیں‬
‫لیکن ۔۔۔۔ وہ لفظ کہاں اور کدھر ہے‘ سورج دوزخی ہو گیا تھا‘‬
‫فیکٹری کا دھواں‘ ہم کب آزاد ہیں‘ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ کاش‬

‫یہ نظمیں باشعور قارئین تک پہنچیں اور ان میں دہکتے ہوئے‬
‫خواب شرمندہءتعبیر ہوں۔‬

‫‪.............................‬‬
‫واہ‪ ...‬ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ہمارے معاشرے کے اس نوحے کو‬

‫بہت عمدگی سے بیان کیا ہے‬
‫باپ کی بے حسی اور‬
‫جنسی تسکین کا بین‬

‫بہت کم الفاظ میں آپ نے اشارہ دیا ہے کہ قصور صرف معاشرے‬
‫یا ارباب اختیار کا نہیں ہے بلکہ اس جرم میں وہ لوگ بھی برابر‬
‫کے شریک ہیں جو اپنے وسائل کو دیکھے بنأ ہی اپنی نفسانی‬

‫خواہشات کا گھوڑا سرپٹ سرپٹ دوڑائے چلے جاتے ہیں اور‬
‫ساتھ میں اپنی (مذہبی) جاہلیت کی وجہ سے بچوں کی ایک قطار‬

‫کھڑی کر دیتے ہیں‪3 -‬‬
‫فیصل فارانی‬

‫‪.................................‬‬
‫واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ آپ نے چہرہ کو گرد سے‬

‫صاف کرنے کو کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارا چہرہ اتنا‬
‫مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے کی نہیں بلکہ ایک بڑے‬
‫اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ‬

‫ہمارا اصلی اور بے مثالی چہرہ سامنے ائے۔ ‪4‬‬
‫کفیل احمد‬

‫‪......................................‬‬
‫اپ کی نظموں پر اج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے انھیں بُہت ہی فکر‬
‫انگیز اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں بُہت پسند ائی ہے۔ اگرچہ‬
‫ہم اپ کے علم کے ُمقابلے میں شائید اسے اُن معنوں تک سمجھ‬

‫نہ پائے ہوں۔ جہاں تک ہم سمجھے ہیں اپ اس میں انسان سے‬
‫ُمخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انسان صرف قُدرت کی عطا کی‬
‫ہوئی چیزوں سے ُکچھ حاصل کرتا ہے۔ اگر اس سے سب ُکچھ‬
‫چھین لیا جائے تو انسان کے اپنے پاس ُکچھ بھی نہیں‪ ،‬فقط مٹی‬
‫کا ڈھیر ہے۔ انسان کو قُدرت کی تراشی چیزیں بُہت ُکچھ دیتی ہیں‪،‬‬
‫لیکن انسان ان مخلوقات کو ُکچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ جبرائیل‬
‫والی بات ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی کم علمی پر نادم ہیں۔‬
‫اگر ہم سمجھنے میں ُکلی یا ُجزوی طور پر غلط ہوں تو مہربانی‬
‫فرما کر اس ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے گا۔ ہمارا علم و ادراک‬

‫فقط اتنا ہی ہے‪ ،‬جس پر ہم مجبور ہیں اور شرمسار بھی۔ ‪5‬‬
‫وی بی جی‬

‫درج بالا آرء کے تناظر میں برملا کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر‬
‫مقصود حسنی کی شاعری ناصرف اپنا الگ سے مقام رکھتی ہے‬
‫بلکہ اپنے عہد کے سماجی‘ معاشی اور سیاسی حالات کی منہ‬
‫بولتی گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔ صوفی مزاج ہونے کے سبب‬
‫ایک مثالی معاشرت کی ہر موڑ پر خواہش نمایاں نظر آتی ہے۔‬

‫‪..................................................‬‬
‫‪1. http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7988.0‬‬

‫‪2-‬‬
‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.03-.http://‬‬

‫‪www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8504.0‬‬
‫‪4- .http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9121.0‬‬
‫‪5. http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8506.0‬‬

‫اردو انجمن اور مقصود حسنی کی افسانہ نگاری‬

‫محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور‬

‫دور جدید کی مفید ترین ایجاد کمپیوٹر جہاں دیگر شعبہ ہائے‬
‫زندگی میں اپنے کمالات دکھا رہا ہے وہاں انٹرنیٹ کی دنیا میں‬
‫شعر وادب کے فروغ میں بھی اپنے حصہ کا کردار ادا کر رہا ہے۔‬
‫اب ادب کتابوں رسالوں یا پھر اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں تک‬
‫محدود نہیں رہا۔ چلتے پھرتے‘ سفر کرتے یا دفتر میں بیٹھے‬
‫ادبی حظ اٹھایا جا سکتا ہے۔ دنیا کی دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ‬

‫اردو بھی انٹرنیٹ پر رواں دواں ہے۔ اردو کی بہت سی ویب‬
‫سائٹس اس وقت یہ فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ان ویب سائٹس پر‬
‫سنجیدہ اور غیر سنجیدہ لوگوں کے ساتھ ساتھ شاعر اور ادیب‬

‫بھی آ رہے ہیں۔ جہاں ادب تخلیق ہو رہا ہے وہاں عمومی اور‬
‫غیرعمومی آراء بھی پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ ان غیرعمومی آراء‬
‫کو کسی طرح صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ادب قارئین کے لیے‬
‫ہوتا ہے۔ قارئین مختلف نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ وہ معاملات‬
‫کو اپنے حوالے سے دیکھتے ہیں اور ان کے حوالہ ہی سے اپنی‬
‫رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی بھی رائے کو نظرانداز نہیں کیا‬
‫جا سکتا کیوں کہ رائے تو رائے ہوتی ہے اور اپنے سیٹ اپ کی‬
‫عکاس ہوتی ہے۔ ان عمومی آراء کے ساتھ ساتھ اہل نقد کی آراء‬

‫بھی پڑھنے کو مل رہی ہیں۔‬
‫ان فورمز بورڈز کی خدمات اپنی جگہ پر لیکن اردو انجمن بڑی‬

‫سنجیدگی اور ادبی دیانت کے ساتھ اردو کی خدمت انجام دے رہی‬
‫ہے۔ یہاں سنجیدہ اور پختہ کار تخلیق کار اور نقاد حضرات سے‬
‫ملاقات کا موقع میسر آتا ہے۔ یہ انجمن محدود دائروں میں مقید‬
‫نہیں۔ یہ پچیس سے زائد گوشوں پر مشتمل ہے۔ اس کی تفصیل‬

‫کچھ یوں ہے‬

‫ُگلہائے عقیدت‬
‫حمد‪ ،‬نعت اور دُعا‬
‫ناظمین‪ :‬محمد خاور‪ ,‬سالم باشوار‬

‫اصلاح ُسخن‬
‫نئے شعراء کے کلام کی اصلاح اور رہنمائی‬

‫ناظم‪ :‬سرور عالم راز‬

‫انداز غزل‬
‫اساتذہ اور مشاہیر کی غزلیات‬
‫ناظمین‪ :‬سرور عالم راز‪ ,‬زرقا مفتی‬

‫موج غزل‬
‫آپ کی غزلیات جو بحر میں ہوں‬
‫ناظمین‪ :‬ضیاء بلوچ‪ ,‬سہیل ملک‪ ,‬خورشید الحسن نیر‬

‫قافیہ الفاظ‬

‫رنگ غزل‬

‫نئے شعراء کی غزلیات‬
‫ناظمین‪ :‬محمد خاور‪ ,‬حشمت عثمانی‬

‫انداز ُسخن‬
‫اساتذہ اور مشاہیر کی منظومات‬

‫ناظمین‪ :‬عاکف غنی‪ ,‬صدف‬

‫موج ُسخن‬
‫اراکین انجمن کی پابند منظومات‬
‫ناظمین‪ :‬زاہدہ رئیس راجی‪ ,‬سہیل ملک‬

‫طرز ُسخن‬
‫جدید شاعری اور زبان و بیان کے نئے تجربات‬

‫رنگ ُسخن‬
‫اراکین انجمن کی آزاد اور نثری منظومات‬

‫ناظمین‪ :‬صدف‪ُ ,‬سمن شاہ‬

‫ذیلی بورڈ‬

‫لُطف بیان‬
‫افسانے‪ ،‬خاکے اور انشائیے‬
‫ناظمین‪ :‬شاہکار‪ ,‬صالح اچ ّھا‬

‫انداز بیان‬
‫نامور نثر نگاروں کی تحاریر‬
‫ناظمین‪ :‬زاہدہ رئیس راجی‪ ,‬سرور عالم راز‬

‫ذیلی بورڈ‬

‫موج بیان‬
‫آپ کی تحاریر‬
‫ناظمین‪ :‬زاہدہ رئیس راجی‪ ,‬زرقا مفتی‬
‫مزاحیہ مضامین اور خاکے‬
‫ناظمین‪ :‬شاہکار‪ ,‬صالح اچ ّھا‬

‫ذیلی بورڈ‬

‫مزاحیہ منظومات‬
‫ناظمین‪ :‬ضیاء بلوچ‪ ,‬صالح اچ ّھا‬

‫لطائف و ظرائف‬
‫ناظمین‪ :‬عاکف غنی‪ ,‬حشمت عثمانی‬

‫خبر نامہ‬
‫ادبی خبرنامہ اور تقریبات کا احوال‬

‫نیا بورڈ‬

‫تفہیم ُسخن‬

‫آسان عروض‬
‫آسان عروض اور شاعری کی بنیادی باتیں‬

‫ناظم‪ :‬سرور عالم راز‬

‫ذیلی بورڈ‬

‫طرحی مشاعرہ‬
‫ماہانہ طرحی مشاعرہ ﴿انجمن کا ایک سلسلہ﴾‬

‫ناظمین‪ :‬زاہدہ رئیس راجی‪ ,‬زرقا مفتی‬

‫بیت بازی‬
‫اُردو شاعری کو فروغ دینے کے لئے ایک دلچسپ سلسلہ‬

‫‪, balvinder‬ناظمین‪ :‬عامر عباس‬

‫صوتی مشاعرہ‬
‫آپ کی اپنی آواز میں مشاعرہ ﴿سہ ماہی سلسلہ﴾‬

‫ناظمین‪ :‬زاہدہ رئیس راجی‪ ,‬ضیاء بلوچ‬

‫بزبان شاعر‬
‫آپکا کلام آپکی آواز میں‬

‫آپ کی پسند‬
‫اقوال زریں‪ ،‬دلچسپ باتیں‪ ،‬تصاویر اور ویڈیوز‬

‫ناظمین‪ :‬زاہدہ رئیس راجی‪ ,‬سرور عالم راز‬

‫گوشہء خاص‬
‫اُردو انجمن سے متعلق اعلانات احباب کے سوالات‬

‫جان پہچان‬
‫خوش آمدید اور تعارف‬
‫ناظمین‪ :‬سرور عالم راز‪ ,‬زرقا مفتی‬

‫خزانہ‬
‫ناظم‪ :‬زرقا مفتی‬

‫تجرباتی بورڈ‬

‫غور فرمائیں‘ ان گوشوں میں اردو کی تمام اصناف زیر مطالعہ آ‬
‫جاتی ہیں۔ ہر گوشے میں اچھا خاصا مواد دستیاب ہے۔ اس مواد‬
‫کو شخصی حوالہ سے مرتب کر دیا جائے تو کئی تحقیقی مقالے‬
‫بھارتی اور پاکستنی جامعات اس ‘ہو سکتے ہیں۔ اگر مغربی‬
‫جانب توجہ دیں تو قدیم لوگوں کے ساتھ عصر رواں کے متعلق‬
‫لوگوں کی ادبی خدمات کو بھی تصرف میں لایا جا سکتا ہے۔ یہاں‬
‫میں انجمن کے صرف ایک رکن کے افسانوں کے متعلق تفصیلات‬
‫درج کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ میری اس کوشش سے اندازہ‬
‫ہو جائے گا کہ انجمن اپنے ادبی جثے میں کتنی مضبوط اور فراخ‬

‫ہے۔‬

‫باباجی مقصود حسنی کی انجمن پر مختلف نوعیت کی تحریریں‬
‫ملتی ہیں۔ ان میں افسانے بھی شامل ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق‬
‫موصوف ‪ ١٩٦٩‬سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ رسائل میں چھپنے‬
‫کے علاوہ ان کے افسانوں کے تین مجموعے ‪ -١‬کاجل ابھی پھیلا‬
‫نہیں ‪ -٢‬وہ اکیلی تھی ‪ -٣‬جس ہاتہ میں لاٹھی شائع ہو چکے ہیں۔‬
‫تیسرا مجموعہ ‪ ١٩٩٣‬میں شائع ہوا تھا۔ اب تک وہ دو سو سے‬
‫زائد افسانے قلم بند کر چکے ہیں۔ اختصار ان کے افسانوں کی‬
‫بنیادی خصوصیت ہے۔ ان کے افسانوں میں تصوف‘ اخلاقیات‘‬
‫روحانیت اور سماجی پہلو غالب رہتے ہیں۔ میں نے یہاں صرف‬
‫انجمن کی اعلی کارگزاری کے ثبوت کے لیے مواد صرف انجمن‬
‫کے گوشوں سے حاصل کیا ہے ورنہ ان کے افسانے انٹر نیٹ کی‬
‫مختلف ویب سائٹس پر بھی پڑے ہیں۔ نیچے پیش کیا گیا جملہ‬
‫مواد میں نے صرف اور صرف اردو انجمن سے حاصل کیا ہے۔‬

‫روحانی اور تصوف کے ‘مقصود حسنی کے افسانوں میں اخلاقی‬
‫عناصر کے چند نمونے ملاحظہ ہوں‬

‫ہاں‘ جب رات کو‘ چارپائی پر لیٹا‘ تو حق حق حق کے نعروں‬
‫کہ ‘نے‘ مجھے دیر تک سونے نہ دیا۔ میں نے بڑی کوشش کی‬

‫دھیان ادھر ادھر کرکے‘ ان نعروں سے‘ خلاصی پا لوں‘ مگر‬
‫حق حق ‘کہاں جی۔ میری ایما کے برعکس‘ میرے منہ سے بھی‬
‫حق کے آوازے نکلنے کو ہی تھے‘ کہ میں نے‘ سورت اخلاص‬
‫شاید خدا سے‘ عشق کا‘ میرا یہ پہلا قدم ‘پڑھنا شروع کر دی‬
‫تھا۔ یہ پہلا موقع تھا‘ جو اثرآفرینی کے لیے‘ دم والے پانی اور‬

‫تعویزوں کا مرہون منت نہ ہوا۔ اس کے لیے‘ مجھے ایک اکنی‬
‫بھی نہ دینا پڑی۔‬
‫پٹھی بابا‬

‫حمادی اسی لیے زندہ ہے‘ کہ اس نے‘ منصور کے قتل کا فتوی‬
‫مفتی اور قاضی ہو گزرے ہیں‘ ‘دیا تھا‘ ورنہ سیکڑوں مولوی‬
‫انہیں کون جانتا ہے۔ وہ دکھنے والے منصور کو پہچانتا تھا‘ اگر‬
‫وہ اناالحق کا نعرہ لگانے والے‘ قیدی منصور کو جانتا ہوتا‘ تو‬
‫اس کے قتل کا کبھی فتوی نہ دیتا۔ وہ مدعی کا‘ اس کے دعوے‬
‫کی سطح کا‘ امتحان کرتا‘ تو ہی دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہو‬

‫یاتا۔‬
‫ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر ‘میرے اندر بھی‬
‫سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ نہیں‬
‫ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے بغیر‘ ملنگ‬

‫بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔‬
‫میں ابھی اسلم ہی تھا‬

‫بابو صابر کا طرز عمل‘ اسے کچکوکے لگاتا رہا۔ وہ بے آب ماہی‬
‫کی طرح‘ دیر تک چارپائی پر کروٹیں بدلتا رہا۔ پھر اس نے طے‬
‫کیا‘ کہ وہ ہر معاملے کے بابو کو کھانا ضرور کھلائے۔ حرام تو‬
‫پہلے کماتے ہیں۔ وہ حرا م کا کھانا کھلا کر‘ انہیں ڈبل حرامی‬
‫بنانے کا چارہ کرے گا۔ اس سوچ نے‘ شاید اس کی انا کو تسکین‬
‫کہ وہ تھوڑی ہی دیر بعد‘ گہری ‘بخش دی تھی۔ یہ ہی وجہ تھی‬

‫نیند میں چلا گیا۔‬
‫انا کی تسکین‬

‫یہ ہی وتیرا رہا ہے۔ جہاں میں بسیرا رکھتا ‘جنگل کا شروع سے‬
‫تھا‘ وہاں رہتے توانسان تھے‘ لیکن ان کے اطوار اور قانون‘‬
‫جنگل کے قانون سے‘ کسی طرح کم نہ تھے۔ اس جبر کی فضا‘‬
‫کہ بچانے والا‘ ‘اور ماحول میں‘ ایک بات ضرور موجود تھی‬
‫چوتھی مرغی کو‘ بچا ہی لیتا ہے۔ اس کی نسل‘ آتے وقتوں میں‘‬
‫اس کے ہونے‘ اور بچانے والے محاکاتکر‘ کی گواہی دیتی رہتی‬
‫ہے۔‬
‫چوتھی مرغی‬

‫آہ۔۔۔۔۔ کتنی بدنصیب تھی وہ صبح‘ ویر جی کو‘ موت کے حوالے‬
‫کر دیا۔ وقت کا سرمد‘ چلا تو گیا‘ لیکن محبتوں کی یادیں چھوڑ‬
‫گیا۔ ملک زوراور کے کوئی نہ منہ آ سکا۔ ملک پھر سے دوسرے‬
‫علاقوں کے وسائل پر تسلط وتصرف کی سوچ میں پڑ گیا۔ اسے‬

‫یاد تک نہ رہا کہ اس نے کتنا بڑا ظلم ڈھا دیا ہے۔‬
‫تنازعہ کے دروازے پر‬

‫برہما سے بردان حاصل کیے ‘وہ یہ بھی جانتا تھا‘ کہ یہ تپسوی‬
‫یہاں سے نہیں ٹلے گا‘ کیوں کہ جو دھار کر آتے ہیں‘ کٹ ‘بغیر‬

‫جاتے ہیں‘ قدم پیچھے نہیں رکھتے۔ یہ اصول بھی ہے‘ اور‬
‫یہ ہی چلا آتا ہے۔‘ویدی کا ویدان بھی‬
‫کامنا‬

‫نمرود کو‘ اپنی جاہ وحشمت پر ناز تھا۔ وہ سمجھتا تھا‘ کہ زندگی‬
‫اسی کے دم قدم سے‘ رواں دواں ہے۔ اگر وہ نہ رہا‘ تو چار سو‬

‫بربادی پھیل جائے گی۔ اسے یہ بھی گمان تھا‘ کہ وہ ہر اونچ نیچ‬
‫کر سکتا ہے۔ اس کے رستے میں آنے ‘پر قادر ہے۔ وہ کچھ بھی‬

‫والا‘ ذلت ناکی سے دوچار ہو گا۔ وہ بلاشبہ‘ شیطان کی بدترین‬
‫لعنت تھا۔‬

‫کملا کہیں کا‬

‫جس پیٹ میں‘ رزق حرام چلا گیا‘ وہ حلال دا کس طرح رہا۔ حرام‬
‫لقموں سے بننے والا خون‘ سر سے پاؤں تک‘ گردش کرتا ہے۔‬
‫جس جسم میں؛ حرام خون دوڑ رہا ہوتا ہے‘ اس پیٹ والے کے‘‬

‫جسم کے جملہ کل‘ کس طرح درست اور فطری اصولوں پر‘‬
‫استوار ہو سکتے ہیں۔ حرام کھانے والے‘ شرعی واجبات کے‬
‫کوشش کرتے ہیں۔ ‘ذریعے‘ خود کو حلال دا ثابت کرنے کی‬

‫شیدا حرام دا‬

‫آج بڑھاپے نے شاید ہوش غارت کر دئے ہیں‘ تب ہی تو سوچتی‬
‫ہوں‘ کہ دینو کی پسینہ آمیز کمائی میں‘ بےحد سواد تھا۔ اس‬
‫وقت مجھے کوئی بیماری لاحق نہ تھی۔ یہاں حلالے کے دو ماہ‬
‫پعد ہی معدہ کی بیماری لاحق ہوگئی۔ اس کے بعد شوگر نے آ‬
‫گھیرا۔ کمردرد تو معمول کا معاملہ ہے۔ بی پی کی کسر رہ گئی‬
‫وہ بھی گلے کا ہار بن گئی ہے۔ مولوی صاحب کسی کی ‘تھی‬
‫جیب تو نہیں کاٹتے‘ اس کے باوجود ان کا لایا ہوا رزق‘ ذائقہ‬
‫میں‘ دینو کے لائے سا نہیں۔‬

‫حلالہ‬

‫آج میں بڑا اور صاحب حیثیت آدمی ہوں‘ مگر کب تک‘ بس‬

‫سانسوں کے آنے جانے تک۔ اس کے بعد‘ کسی کے خواب وخیال‬
‫میں بھی نہیں رہوں گا۔ مزے کی بات یہ کہ‘ لوگ میرے سامنے‬
‫اور پشت پیچھے‘ مجھے بڑا آدمی کہتے ہیں اور سمجھتے بھی‬
‫یہ کیسا بڑاپن ہے‘ جو سانسوں سے مشروط ‘ہیں۔ سوچتا ہوں‬
‫مرا نہیں۔ وقت کا فیصلہ ‘ہے۔ بڑا تو سقراط تھا‘ جو مر کر بھی‬
‫بھی کتنا عجیب ہے‘ کہ شاہ حسین سے بھوکے ننگے‘ آج بھی‬
‫زندہ اورلاکھوں دلوں میں‘ اپنی عزت اور محبت رکھتے ہیں۔‬
‫جو وقت کے بہت ‘قارون کے سوا‘ مجھ سے لاکھوں لکھ پتی‬
‫بڑے آدمی تھے‘ آج کسی کو یاد تک نہیں ہیں۔ یہ بڑاپن کیسا‬

‫ہے‘ جو کیڑوں مکوڑوں سے مختلف نہیں۔‬
‫بڑا آدمی‬

‫عوفی نے موت کا رستہ چن کر‘ ٹیپو کی حکمت عملی پر‘ درستی‬
‫کی مہر ثبت کر دی تھی۔ یہ کوئی ایسی معمولی بات نہ تھی۔‬
‫لیکن کوئی تجزیہ نگار اسے ناکام ‘عوفی فاتح جرنیل ناسہی‬
‫جرنیل بھی نہیں قرار دے گا۔ کاشف اور پنکی جیت کر بھی ہار‬

‫چکے تھے۔ عوفی نے انھیں عبرت ناک شکست دی تھی۔ یہ ہی‬
‫‘حقیقت اور یہ ہی وقت کا انصاف ہوگا۔ ہر کیے کا‘ کوئی ناکوئی‬
‫پرینام تو ہوتا ہی ہے۔ کاشف‘ باپ ہو کر‘ ماموں کا رشتہ استوار‬
‫کرنے پر مجبور ہو گا اور پنکی کا آنچل پچھتاوے کی آگ میں‬

‫جلتا رہے گا۔۔۔۔۔۔۔ ہاں جلتا رہے گا۔‬
‫آنچل جلتا رہے گا‬

‫مسجد سے الله اکبر کی صدا گونجی۔ میں کانپ کانپ گیا۔ اس سے‬
‫پہلے بھی یہ آواز کئی بار سن چکا تھا لیکن اج تو اس آواز نے‬

‫گھائل کر دیا۔ الله مجھے واپس لوٹنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ میں‬
‫تیزی سے مسجد کی جانب بڑھ گیا۔ جانے کتنی دیر سجدہ میں رہا‬

‫لیکن جب سر اٹھایا سارا غبار چھٹ چکا تھا۔‬
‫بیوہ طوائف‬

‫فقیر بابا کو میں بھی پاگل سمجھتا تھا۔ میں نے اس کے کہے کے‬
‫مفاہیم دریافت کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ ہوٹل پر‬
‫کام کرتے بچے کو دیکھ کر احساس ہوا ہے کہ فقیر بابا غلط نہیں‬
‫کہتا۔ وہ پاگل نہیں‘ اس نے تو دنیا کی گل پا لی ہے۔ اسی لیے ہر‬
‫پوچھنے والے کو دنیا کا حقیقی چہرا دیکھاتا ہے کہ انسان تنہا‬

‫ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں یکسر تنہا۔‬
‫فقیر بابا‬

‫یہ سب اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے‬
‫بھول پاتا۔ کربناک لحموں کی بازگشت تازیست یادوں کے نہاں‬
‫گوشوں میں اپنا تمثالی وجود برقرار رکھتی ہے۔ یادوں کا تمثالی‬
‫وجود نیند کے جھونکوں کا انتظار نہیں کرتا۔ موقعہ بہ موقعہ‬
‫اپنے اٹوٹ وجود اور قلبی رشتے کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ اسے‬
‫اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی پر کیا گزرے گی۔‬
‫بازگشت کا رشتہ اگر مٹی ہو جائے تو گزرا کل اپنی معنویت کھو‬

‫دے اور صیغہ تھا لایعنی ہو کر رہ جائے۔‬
‫بازگشت‬

‫اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ رستہ‬
‫منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ تعاقب‬

‫نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف کے‬
‫بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔‬
‫آخری کوشش‬

‫سقراط اور حسین نے‘ اس مروجہ طور کو‘ جان دے کر‘ غلط‬
‫قرار دیا۔ ہم سقراط اور حسین کے راستے کو‘ درست مانتے ہیں‬
‫اوراس رستے کا‘ زبانی کلامی احترام بھی کرتے ہیں۔ عملی طور‬

‫پر‘ ہمارا پرنالہ وہیں پر ہے۔‬
‫معالجہ‬

‫‘مجھے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہیں۔ ایک دن‘ مرنا تو ہے ہی‬
‫دو دن آگے کیا‘ دو دن پیچھے کیا۔ مجھے تین باتوں کا رنج ہے‘‬

‫کہ میں حمیدے کو بچا نہ سکا۔ وہ ابھی زندہ تھا اور آخری‬
‫سانسوں پر نہ تھا۔ افسوس‘ وہ قانونی تقاضوں کی بھینٹ چڑھ‬
‫گیا۔ قانون اس کا قاتل نہیں‘ قانونی تقاضوں کے علم بردار‘ اس‬
‫کے قاتل ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دوسرا جیرے کا‬
‫جھاکا کھلنے پر‘ تاسف ہے‘ اب تو وہ اور انھی مچائے گا۔ اس‬
‫ذیل میں تیسری بات یہ ہے‘ کہ پتا نہیں‘ منافقت کا دیو‘ کب بوتل‬

‫میں بند ہو کر‘ دریا برد ہو گا۔‬
‫ابھی وہ زندہ تھا‬

‫سچائی کا حسن‘ بار بار نمودار ہونے کے لیے‘ ہوتا ہے۔ اسے‬
‫نمودار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہاں اس کی جڑوں کا‬
‫پھیلنا اور مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سب الله کے اختیار‬
‫میں ہے۔ زمین کے اندر‘ ہم دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ سچائی‬

‫کی زمین‘ حد درجہ ذرخیز ہوتی ہے۔ اس کی ازل سے موجود‬
‫جڑیں‘ کسی ناکسی پودے کو سطح زمین پر لاتی رہیں گی۔‬

‫سچائی کی زمین‬

‫سب سے زیادہ خرابی سر اٹھاتی ہے۔ روپے کی ‘رمضان میں ہی‬
‫چیز کے‘ پانچ روپے وصولے جاتے ہیں۔ اس نے سوچا‘ شیطان‬
‫کے قید ہو جانے کے بعد‘ اس کے انڈے بچے‘ شیطان سے بڑھ‬
‫کر‘ اندھیر مچاتے ہیں۔ اسے اپنے منصوبے کے‘ ناکام ہو جانے‬
‫کا اعتراف کرنا پڑا۔ وہ اپنی ذات سے‘ شرمندہ تھا۔ اس منصوبے‬

‫کی کام یابی کے لیے‘ برائی کا لاروا‘ پہلے تلف ہونا چاہیے۔‬
‫لاروا ختم ہو جائے‘ تو ہی آتا کل محفوظ ہو سکتا ہے۔‬
‫لاروا اور انڈے بچے‬

‫گامو سوچیار کے ان لفظوں نے‘ میری نیند اور سکون چھین لیا‬
‫ہے۔ میں کئی بار‘ اپنے ضمیر کو مطمن کرنے کی کوشش کر‬

‫چکا ہوں۔ کم بخت‘ مطمن ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ گامو سوچیار‬
‫جیسے لوگوں کو‘ مصلوب کیا جاتا رہا ہے‘ اس کے باوجود‘‬
‫ہر عہد میں‘ ان کی جگہ لے ہی لیتا ہے۔ گامو ‘کوئی ناکوئی‬

‫یہ بات غور طلب ہے‘ تاہم یہ ‘ یا نہیں‘سوچیار کا کہا‘ درست ہے‬
‫‪-‬طے ہے‘ کہ اس گھر میں ہنستے مسکراتے دو منافق رہتے ہیں‬

‫دو منافق‬

‫ہر زبان پر‘ اس کی اچھائی اور شریف النفسی کے‘ کلمے تھے۔‬
‫وہاں سے‘ معلوم ہوا‘ اس کی بیوہ‘ کسی وقت رشیدہ خانم تھی۔‬

‫حالات اور وقت نے‘ اسے شیداں کپتی بنا دیا تھا اور رشتہ‘‬

‫حضرت سید حیدر امام صاحب نے کروایا تھا۔ سید صاحب بھی‬
‫تشریف لائے تھے۔ وہ گوشہ نشین بزرگ تھے۔ پورا علاقہ‘ ان‬
‫کی عزت کرتا تھا۔ وہ کچھ ہی دیر‘ وہاں رکے۔ چہرے پر جلال‬
‫تھا‘ ہاں‘ ساتھ چھوٹ جانے پر‘ ان کی آنکھوں سے‘ خاموش‬

‫آنسو رواں تھے‬
‫ان پڑھ‬

‫یہاں کے شرفا بڑے نیک اور حاجی ثناءالله ‘سروے کے مطابق‬
‫ہیں لیکن عملی اعتبار سے‘ حرام خور ہیں۔ مانیں نہ مانیں‘ آپ‬
‫کی مرضی۔ حقیقت یہ ہی ہے‘ کہ ہم کسی ناکسی سطح پر‘ حرام‬
‫خور ہیں۔۔۔۔۔ حرام خور۔۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے ہم پوری دنیا میں ذلیل‬

‫وخوار ہیں۔‬
‫پاخانہ خور مخلوق‬

‫الله جانے‘ شخص کے ذاتی حقوق کو‘ کیوں گول کر دیا جاتا ہے۔‬
‫ذاتی حقوق‘ پہلی ترجیع پر ہوتے ہیں۔ جو شخص‘ اپنے حقوق‬
‫ادا کرے گا‘ وہی الله اور اس کی پوری کائنات کی مخلوق کے‘‬
‫حقوق ادا کر سکے گا۔۔ جو شخص‘ اپنی ذات سے انصاف نہیں‬
‫یا کہہ ‘کرتا‘ لالچ اور خوف کے زیر اثر‘ ضمیر کی نہیں کہتا‬
‫سکتا‘ رزق حلال‘ اپنے وجود کو مہیا نہیں کرتا‘ دوسروں کو‬
‫کیسے کر سکے گا۔ الله کا بےنیاز اور ہر حاجت سے بالا ہونا‘‬
‫اسی میں ہے‘ کہ شخص‘ اس کی ‘مسلم ہے۔ اس کی خوشی‬
‫مخلوق کے حقوق پوری دیانت داری سے ادا کرے۔ حقوق کا‬

‫معاملہ ذات سے‘ الله کی طرف پھرتا ہے۔‬
‫دائیں ہاتھ کا کھیل‬

‫موسی خود کو جانتے تھے۔ انہیں‘ اس امر سے خوب آگہی‬
‫کہ انہیں الله کی تائید حاصل ہے۔ اگر انہیں یہ اگہی ‘حاصل تھی‬
‫تو وہ دریا میں‘ اتنے لوگوں کو‘ ساتھ لے کر‘ ‘حاصل نہ ہوتی‬
‫سفر جاری نہ رکھتے۔ فرعون کو‘ اپنی خدائی کا پورا پورا یقین‬
‫یا یقین دلوا دیا گیا تھا‘ تب ہی تو‘ اس نے دریا میں فوجیں ‘تھا‬
‫ڈال دیں۔ اس سے‘ وہ ناصرف فوج سے‘ ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ‬
‫عزت بھرم اور پہلے سی شان و شوکت سے بھی گیا۔ یہ عبرت‘‬
‫آتی نسلوں کے لیے‘ حجت بنی رہی۔ ذاتی گمان اور چیلوں چمٹوں‬
‫اندھی اور بے لگام طاقت ‘کی لایعنی اور مطلبی جی حضوری‬

‫نے‘ کچھ باقی نہ رہنے دیا۔‬
‫پنگا‬

‫کسی انسانی ماں کی اولاد‘ کسی دوسری ماں کی اولاد پر‘ ظلم‬
‫کی اس حد تک جا ہی نہیں سکتی۔ بندوق کی نوک‘ سر جھکانے‬
‫پر مجبور کر سکتی ہے‘ لیکن اس سے‘ دل فتح نہیں ہو سکتے۔‬
‫قبضہ و تصرف کی ہوس‘ تصادم کے دروازے کھولتی ہے۔ ماں‬
‫کی محنت‘ مشقت اور پیار سے‘ پروان چڑھنے والے بچوں کو‬
‫لہو میں نہلاتی ہے۔ تلوار کی فتح کو‘ فتح کا نام دینا‘ کھلی جہالت‬
‫ہے۔ ہاں ماں کے سے‘ پیار سے‘ دل جیتو‘ تاکہ کمزور طبقے‘‬
‫سکھ کا سانس لے سکیں اور انسانیت‘ سسکنے بلکنے سے‘‬

‫مکتی حاصل کر سکے۔‬
‫وہ کون تھے‬

‫سوچوں کے گہرے سائے تلے‘ آہستہ آہستہ چلتا ہوا‘ اپنے گھر‬

‫کے دروازے تک‘ پہنچ گیا۔ دروازے سے دروازے تک کا یہ‬
‫‘سفر‘ اسے صدیوں کا سفر محسوس ہوا۔ قدسیہ کا گرجنا برسنا‬
‫یقینا غلط نہ ہو گا۔ اس نے سوچا‘ میں بھی کیسا شخص ہوں‘‬
‫صدیاں لایعنیت میں گزار کر‘ گھر خالی ہاتھ لوٹ آیا ہوں۔ مجھے‬
‫یہ یاد نہ رہا‘ کہ بچوں کے لیے‘ چکی سے آٹا ‘غیر تو یاد رہے‬

‫لینے نکلا تھا۔ پھر وہ سر جھکائے‘ گھر میں داخل ہو گیا۔‬
‫دروازے سے دروازے تک‬

‫ناں ناں‘ ناں یہ سب بکواس‘ اور الله کے رازق ہونے سے‘ انکار‬
‫کے مترادف ہے۔ ہر پیدا ہونے والا‘ اپنا رزق لے کر پیدا ہوتا ہے۔‬
‫ایسا ہو ہی نہیں سکتا‘ کہ اس کا رزق‘ اس کے ساتھ نہ آئے۔ اس‬
‫یا اس کا رزق کھا کر‘ مر جانے والوں ‘کا رزق ارم بنانے والوں‬
‫یہاں شخص ہزاروں سال ‘کو‘ فراہم کیا جاتا ہے۔ ماسٹر صاحب‬

‫سے‘ بھوکا پیاسا ہے۔ ایسے حالات میں‘ کوے کی پیاس کون‬
‫دیکھتا ہے۔ اسے پیاسا ہی رہنا ہے۔ الله نے‘ اس کے حصہ میں‬
‫پیاس نہیں رکھی۔ معاشی ڈسپلن کو‘ تباہ کرنے کے باعث‘ کوے‬

‫کی پیاس نہیں بجھ رہی۔‬
‫اسے پیاسا ہی رہنا ہے‬

‫میرا مارا جانا‘ ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ پریشان ہونے کی کوئی‬
‫ضرورت نہیں‘ ایسا ہوتا آیا ہے‘ ہوتا رہے گا۔ یہ معمول کا مسلہ‬
‫پہلے سے چلی آتی ہے۔ محسن کشوں سے‘ ‘ہے۔ محسن کشی‬
‫قدرت سب کچھ چھین لیتی ہے‘ اور زمین و آسمان پر‘ ذلت و‬
‫ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم‘ نمرود کے ‘رسوائی‬

‫‘خیر خواہ تھے‘ اس نے صلہ میں اذیت دی۔ حضرت موسی‬

‫فرعون کے ہم درد تھے‘ لیکن وہ محسن کش نکلا۔ سقراط‘ خیر‬
‫‘کی چلتی پھرتی علامت تھا‘ اسے زہر پلایا گیا۔ حضرت عیسی‬
‫کوئی معمولی شخص نہ تھے۔ وہ‘ جن کا وہ بھلا کر رہے تھے‘‬
‫وہ ہی انہیں صلیب تک لے آیا۔ حضرت محمد کو‘ اچھا کرنے کے‬
‫جرم میں‘ پتھر مارے گیے۔ ہر طرح کی ازیت دی گئی۔ حضرت‬
‫حسین‘ خیر کے رستے پر تھے‘ جن کی بھلائی کر رہے تھے‘‬
‫اور انہیں جہنم کی آگ سےبچانے کے لیے‘ کوشش کر رہے‬
‫تھے وہ ہی پرلے درجے کے بدکردار نکلے۔ منصور خیر کا‬
‫پرچارک تھا‘ کتنی اذیت ناکی سے‘ اسے قتل کیا گیا۔ سرمد میں‘‬
‫ہند سچائی کا سورچ تھا‘ اس کے ساتھ کیا گیا‘ ہند کا بچہ بچہ‬

‫جانتا ہے۔‬
‫پہلا قدم‬

‫بابا جی کی باتوں کو‘ سب نے سنا اور پسند کیا۔ ادریس صاحب‬
‫قربانی کے گوشت پر‘ اٹکی ہوئی تھی۔ اتنی دیر میں‘ ‘کی سوئی‬

‫پانچ لوگوں کا کھانا‘ اندر سے آ گیا۔ چار لوگوں کے لیے چٹنی‬
‫جب کہ ایک کے لیے‘ گوشت سے بھری پلیٹ آئی۔ ‘ملی لسی‬
‫جو اماں جی ‘سب نے‘ باطور تبرک چٹنی ملی لسی سے روٹی‬
‫کھائی اور کھانے کو پرذائقہ ‘کے ہاتھوں کی پکی ہوئی تھی‬
‫قرار دیا۔ ادریس صاحب کا‘ موڈ اب بھی خراب تھا۔ انہیں پکائی‬
‫کے‘ ناقص ہونے کا‘ گلہ تھا۔ وہ کیا جانیں‘ گھر میں تو گوشت‬
‫پکا ہی نہ تھا۔ گوشت کی پلیٹ اور روٹیاں‘ چوہدھری صاحب نے‘‬
‫بجھوائی تھیں۔ وہ ہی سفید آٹے کی روٹیاں‘ ادریس صاحب کے‬

‫پیٹ میں گئی تھیں۔‬
‫ادریس شرلی‬

‫رحمو‘ نیکی کے رستے سے‘ رائی بھر ادھر ادھر نہ ہوا۔ میں‬
‫مجھ سے غلطیاں تو ہوتی رہتی تھیں۔ ‘انسان تھا‘ نادانستہ سہی‬
‫الله نے‘ دو سال مجھے معافی مانگنے کا‘ موقع دیا۔ آخری تین‬

‫ماہ‘ لوگوں نے‘ میرے لیے دعائیں کیں۔ ان کی دعاؤں نے‘‬
‫مجھے الله کی رحمت سے‘ مایوس ہونے سے بچایا۔ میں ہر‬
‫یقینا ‘لمحہ‘ الله کی عطا و رحمت کا امید وار رہا۔ آخری پندرہ دن‬
‫یہ ہی میری پوری ‘بڑے درد ناک اور کرب ناک تھے۔ جانتے ہو‬
‫زندگی کا حاصل تھے۔ میری حالت پر‘ لوگوں کو ترس آنے لگا۔‬
‫لوگوں نے‘ خلوص نیتی سے میرے گناہوں کی بخشش کے لیے‘‬
‫دعا کی۔ الله انہیں اجر دے۔ میری موت اور راحت مرزا کی موت کا‬
‫موازنہ کرو‘ لوگ تو لوگ‘ اسے خود‘ اپنے گناہوں کی توبہ کا‬
‫موقع نہ مل سکا۔ دنیا میں‘ راحت مرزا سے زیادہ بدنصیب‘ اور‬

‫کون ہو گا۔ ذرا غور تو کرو۔‬
‫موازنہ‬

‫وہ اسے وقت ضائع کرنے کے مترادف سمجھتا تھا۔ اس کا زیادہ‬
‫تر‘ بیبیاں پاک دامناں اور حضرت شاہ حسین لاہوری کے‬

‫باتیں ‘درباروں پر‘ آنا چانا تھا۔ وہ دیر تک‘ وہاں بیٹھا اکیلا ہی‬
‫کرتا رہتا۔ اسے واپسی کوئی جواب ملتا یا نہ ملتا‘ کوئی نہیں‬
‫جانتا۔ اگر کوئی پوچھتا‘ تو جواب میں ہنس دینا۔ اس کے اس‬
‫ہنسنے میں‘ اثبات اور نہی کا‘ دور تک نام ونشان تک نہ ہوتا۔‬
‫سرگوشی‬

‫کتنی عجیب بات ہے‘ ان میں سے کسی کو اپنی اخلاقی و روحانی‬

‫بیماریوں کا علم تک نہیں۔‬
‫علالتی استعارے‬

‫حضرت پیر صاحب کی باتوں میں حقیقت رقصاں تھی۔ وہ‬
‫بےچارے دعا ہی کر سکتے تھے۔ وہ علی رضا کے لیے کیا کر‬
‫سکتے تھے۔ ان کی باتیں‘ ان کے علاقہ کے چوہدری صاحب کو‘‬
‫گولی کی طرح لگتی تھیں۔ حالاں کہ وہ کسی کا نقصان نہیں کرتے‬
‫تھے۔ وہ تو‘ اپنے منہ کا لقمہ‘ حاجت مندوں کو دے دیتے تھے۔‬

‫دوسری بار‬

‫آپ حسب معمول نہایت ذمہ داری اور دلسوزی سے ہمارے‬
‫معاشرہ کے حالات پر لکھ رہے ہیں۔ حقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے‬
‫لیکن اس سے مفر بھی نہیں ہے۔ میں بھی اسی معاشرہ کا فرد‬
‫ہوں جس کا ماتم آپ کرتے رہتے ہیں۔ اب تو ایسا نظر آنے لگا‬
‫ہے کہ ہمارا الله بھی محافظ نہیں ہے کیونکہ ہم خود اپنی ذمہ‬

‫داریوں سے ہاتھ کھینچ چکے‬

‫آراء دہندگان اردو انجمن‬

‫جناب اسماعیل اعجاز‬
‫جناب اظہر‬

‫جناب تنویرپھول‬
‫جناب خلش‬

‫جناب ساجد پرویز آنس‬

‫جناب سرور عالم راز‬
‫جناب ضیا بلوچ‬

‫جناب مشیر شمسی‬
‫جناب وی بی جی‬

‫افسانے جن پر رائے دستیاب ہوئی ہے۔ اس میں کوتاہی یا غلطی‬
‫ممکن ہے۔ جس کے لیے پیشگی معذرت چاہوں گا۔‬

‫ادریس شرلی‬
‫آخری کوشش‬
‫چار چہرے‬

‫سرگوشی‬
‫موازنہ‬
‫پہلا قدم‬
‫اسے پیاسا ہی رہنا ہے‬
‫یہ کوئی نئی بات نہ تھی‬
‫دروازے سے دروازے تک‬
‫وہ کون تھے‬
‫پنگا‬
‫دائیں ہاتھ کا کھیل‬
‫الله جانے‬
‫پاخانہ خور مخلوق‬
‫ان پڑھ‬
‫لاروا اور انڈے بچے‬
‫سچائی کی زمین‬

‫ابھی وہ زندہ تھا‬
‫حلالہ‬
‫بازگشت‬
‫فقیر بابا‬

‫بیوہ طواءف‬
‫بڑا آدمی‬

‫کریمو دو نمبری‬
‫معالجہ‬

‫میں ابھی اسلم ہی تھا‬
‫پٹھی بابا‬

‫جواب کا سکتہ‬
‫ماسٹر جی‬
‫بڑے ابا‬
‫گناہ گار‬
‫گناہ گار‬

‫انا کی تسکین‬
‫انگریزی فیل‬
‫چوتھی مرغی‬
‫تنازعہ کے دروازے پر‬

‫کامنا‬
‫ابا جی کا ہم زاد‬
‫دو دھاری تلوار‬
‫شیدا حرام دا‬
‫علالتی استعارے‬

‫بیوہ طوائف‬


Click to View FlipBook Version