عکاسی کرتی ہے۔ کیسے کیسے جانفزا ،معلومات افزا اور دقیق
و عمیق موضوعات پر آپ نے قلم اٹھایا ہے اور داد تحقیق دی
ہے۔ کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ایسے مضامین پر سوچا ہے،
لکھنا تو بہت بڑی بات ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ مضامین جستہ
جستہ اردو انجمن میں لگا دئے جاتے۔ کچھ احباب تو یقینا ان
سے استفادہ کریں گے۔ میری گزارش حسنی صاحب سے یہی ہے
کہ اس جانب توجہ کریں اور ممکن ہو تو یہ کام کروادیں۔ الله ان
کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے کہ وہ زبان و ادب کی ایسی ہی
خدمت کرتے رہیں۔
سرور عالم راز
مقصود حسنی کی مزاح نگاری‘ ایک اجمالی جائزہ
محبوب عالم۔۔۔۔۔۔۔۔قصور
پروفیسر مقصود حسنی ادبی دنیا میں ایک منفرد نام و مقام
رکھتے ہیں۔ وہ یک فنے نہیں ہیں بلکہ مختلف اصناف ادب میں
کمال رکھنا ان کا طرہءامتیاز ہے۔ طنز و مزاح بھی ان کی
دسترس سے باہر نہیں رہا۔ اکثر مزاح نگار تحریر کے عنوان
سے ہی عیاں ہو جاتا ہے کہ اس تحریر میں مزاح کا مواد کس
نوعیت کا رہا ہو گا۔ باباجی مقصود حسنی کے ہاں یہ چیز شاز ہی
ملتی ہے۔ عنوان سے قطعی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ تحریر میں کس
موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہو گا۔
ان کے ہاں مزاح بھی سنجیدہ اطوار لیے ہوئے ہے۔ گویا قاری
حیرانی میں حظ اٹھاتا ہے۔ وہ ورطہءحیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے
کہ مصنف نے طنز کا شائبہ بھی ہونے نہیں دیا‘ پھر گدگدا بھی
دیا ہے۔ سنجیدگی سے بات کرتے کرتے لطیفہ کرنے کا فن انہیں
خوب آتا ہے۔ روزمرہ یا پھر شائستہ سا ایس ایم ایس کا استعمال
بخوبی جانتے ہیں۔ بات سے بات نکالنے کے فن پر انہیں بلاشبہ
ملکہ حاصل ہے۔ کسی عوامی محاورے یا مرکب سے خوب فائدہ
اٹھاتے ہیں۔ یہ محاورے یا مرکب‘ کسی نہ کسی سماجی رویے
کے عکاس ہوتے ہیں۔
لفظ‘ پروفیسر مقصود حسنی کے ہاتھوں میں دیدہ زیب کھلونوں
کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ لفظوں کو مختلف تناظر میں استعمال
کرکے نئے مفاہیم دریافت کرتے ہیں۔ لفظوں کے استعمال کی یہ
صورت غالب کے بعد کسی کے ہاں پڑھنے کو ملتی ہے۔ وہ غالب
کے معنوی شاگرد بھی ہیں۔ ان کے مزاح میں زندگی متحرک
نظرآتی ہے۔ وہ اپنے اردگرد کو بڑے غور سے دیکھنے کے
عادی ہیں۔ وہ متحرک زندگی کو اپنے فکری ردعمل کے ساتھ
پیش کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا
ہے کہ کب اور کس وقت طنز کا کوئی تیر چھوڑ دیں گے۔
معاشرتی خرابیاں ان کا موضوع گفتگو رہتی ہیں۔ وہ اپنے مزاج
کے ہاتھوں مجبور نظر آتے ہیں۔ دفتر شاہی بھی ان کے طنز سے
باہر نہیں رہی۔ پروفیسر مقصود حسنی کسی بھی موضوع پر قلم
کو جنبش دیتے وقت حالات و واقعات کا ایسا نقشہ کھنچتے ہیں
کہ معاملے کے جملہ پہلو آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے
ہیں۔ ان کی کسی تحریر کو پڑھتے وقت قاری کو احساس بھی
نہیں ہوتا کہ وہ پڑھ رہا ہے یا دیکھ رہا ہے۔
باباجی مقصود حسنی زندگی کے خانگی حالات و واقعات کو بھی
نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ دہلیز کے اندر کے موضوعات پر گفتگو
کرکے شخص کی خانگی حیثیت اور کارگزاری پر بھی بہت کچھ
کہہ جاتے ہیں۔ اس انداز سے کہہ جاتے ہیں کہ قاری کو ہر ممکن
لطف میسر آتا ہے۔ خانگی حالات و واقعات بیان کرتے وقت وہ
صیغہ متکلم استعمال کرتے ہیں حالانکہ ایسے مزاح کا ان کی
ذات سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا۔ بعض تحریریں فرضی
ناموں کے ساتھ بیان کرکے اپنے فن کو کمال درجہ تک لے
جاتے ہیں۔
باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری کو روایتی قرار نہیں دیا جا
سکتا۔ انھوں نے روایت سےبغاوت کرکے نیا طرز اظہار دریافت
کیا ہے۔ مزاح اور سنجیدگی دو الگ سے طرز اظہار ہیں۔
سنجیدگی سے مزاح کا اظہار متضاد عمل ہے لیکن یہ ان کے ہاں
ملتا ہے۔ اس لیے یہ بات دعوعے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ
وہ سنجیدگی میں مزاح لکھتے وقت نئی زبان بھی متعارف
کرواتے ہیں۔
اس مختصر سے جائزے سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ
باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری اردو ادب میں انفرادیت کی
حامل ہے جو اب تک اردو کے کسی دوسرے مزاح نگار کے
حصہ میں نہیں آ سکی کیونکہ روایت کی پاسداری کرنے والے
انفرادیت کے دعوی دار نہیں ہو سکتے۔
ان کی مزاح نگاری کے چند نمونے ملاحظہ ہوں
ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے‘ بلی کتے سے‘ کتا
بھڑیے سے‘ بھیڑیا چیتے سے‘ چیتا شیر سے‘ شیر ہاتھی سے‘
ہاتھی مرد سے‘ مرد عورت سےاورعورت چوہے سے ڈرتی ہے۔
ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس اپنے موقف کی
دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں چھت پر بیھٹا تاڑا تاڑی
کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواندھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔
میں پوری پھرتی سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا
کہ صندوق میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے
ڈرتا‘ پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چلا گیا کہ تم نے مجھے بلی
یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا
صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔
غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم
ہم بڑے مذہبی لوگ ہیں کسی سکھ کی سیاسی شریعت تسلیم نہیں
کر سکتے۔ راجا رنجیت سنگھ اول تا آخر مقامی غیر مسلم تھا
اس لیے اس کا کہا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ راجا رنجیت
سنگھ اگر گورا ہوتا تو اس کی سیاسی شریعت کا مقام بڑا بلند
ہوتا۔ گورا دیس سے آئی ہر چیز ہمیں خوش آتی ہے۔
علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام
استاد کی باتوں کا برا نہ مانئیے گا۔ میں بھی اوروں کی طرح
ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔ اور کیا کروں مجھے محسن کش اور
پاکستان دشمن کہلانے کا کوئی شوق نہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی
کرنے کی باتیں ہیں کہ کتے کے منہ سے نکلی سانپ کے منہ
میں آ گئی۔ سانپ سے خلاصی ہونے کے ساتھ ہی چھپکلی کے
منہ میں چلی گئی۔
ہم زندہ قوم ہیں
دو میاں بیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےغصے میں آ کر
اپنی زوجہ ماجدہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ مولوی صاحب کی
کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے کی دیگ اور دو سو نان ڈال
دیے۔ نئی شادی پر اٹھنے والے خرچے سے یہ کہیں کم تھا۔ میاں
نے مولوی صاحب کے ڈالے گیے اصولی خرچے میں عافیت
سمجھی۔ رات کو میاں بیوی چولہے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔
بیوی نے اپنی فراست جتاتے ہوئے کہا
"اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔"
بات میں سچائی اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی۔ میاں
نےدوبارہ بھڑک کر کہا
"توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سی"
مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان
کچھ ہی پہلے‘ اندر سے آواز سنائی دی‘ حضرت بےغم صاحب
حیدر امام سے کہہ رہی تھیں‘ بیٹا اپنے ابو سے پیسے لے کر
بابے فجے سے غلہ لے آؤ۔ عید قریب آ رہی ہے‘ کچھ تو جمع
ہوں گے‘ عید پر کپڑے خرید لائیں گے۔ بڑا سادا اور عام فیہم
جملہ ہے‘ لیکن اس کے مفاہیم سے میں ہی آگاہ ہوں۔ یہ عید پر
کپڑے لانے کے حوالہ سے بڑا بلیغ اور طرح دار طنز ہے۔ طنز
اور مزاح میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ طنز لڑائی کے
دروازے کھولتا ہے جب کہ مزاح کے بطن سے قہقہے جنم لیتے
ہیں۔ جب دونوں کا آمیزہ پیش کیا جائے تو زہریلی مسکراہٹ
نمودار ہوتی ہے اور ایسی جعلی مسکراہٹ سے صبر بھلا‘
دوسرا بات گرہ میں بندھ جاتی ہے۔
لاٹھی والے کی بھینس
ان کی ایک مزاح پر مشتمل کتاب بیگمی تجربہ ١٩٩٣میں شائع
ہوئی جو اس سے پہلے نقد و نقد کے نام سے منظر عام پر جلوہ
گر ہوئی۔ اس کتاب کو اہل ذوق نے پسند کیا۔ چند آراء ملاحظہ
ہوں
آج ہمارا معاشرہ جس فتنہ و فساد اور پرآشوب دور سے گزر رہا
ہے جس کو بدقسمتی سے تہذیب و ترقی سے تعبیر کیا جاتا ہے
اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ رویہ اختیار کرنے
سے زیادہ لطیف طنز و مزاح کے نشتر چبھونا موثر ثابت ہو
سکتا ہے۔ مصنف موصوف نے اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا
ہے اور معاشرے کے ان زخموں سے فاسد مادہ کو طنزومزاح
کے نشروں سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔
ثناءالحق صدیقی
ماہنامہ الانسان کراچی مئی ١٩٩٤صفحہ نمبر ٣٢
مقصود صاحب بڑے ذہین معاملہ شناس مدبر اور نئی سوچ کے
مالک ہیں۔ بڑی بات یہ کہ آپ سچے اور منفرد انداز کے بادشاہ
ہیں۔ میں تو کہوں گا کہ میں نے ساٹھ ہزار کتب کا مطالعہ کیا ہے
ان میں ایسی معیاری کتب کوئی ایک درجن ہوں گی۔ اس کتاب نے
مجھے بڑا متاثر کیا ہے۔ میں اسے سندھ کے شاہ جو رسالو کی
طرح اپنے سفر میں بھی ساتھ رکھوں گا اور بار بار پڑھوں گا۔
مہر کاچیلوی
بیگمی تجربہ پر اظہار خیال‘ ہفت روزہ عورت میرپور خاص
سندھ ١٨نومبر ١٩٩٣
ان کی زبان میں لطافت ہے‘ ظرافت ہے‘ سحر آفرینی ہے۔ انھوں
نے جس ہنرمندی سے باتوں سے باتیں نکالی ہیں‘ وہ ان ہی کا
حصہ ہے۔ انھوں نے مزاحیہ طرز سے پژمردہ دلوں میں زندگی
اور زندہ دلی کی روح پھونک دی ہے۔ خشک ہونٹوں پر پھول
نچھاور کیے ہیں۔
ڈاکٹر وفا راشدی
سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ٢٠٠٥بیگمی تجربہ پر
اظہار خیال
بیگمی تجربہ میں کل ٣١مضمون شامل تھے جن کی تفصیل درج
خدمت ہے
بچوں کی بددعائیں نہ لیں 1
عقل بڑی یا بھینس 2
بیمار ہونا منع ہے 3
حاتم میرے آنگن میں 4
کاغذی قصے اور طاقت کا سرچشمہ 5
شادی+معاشقہ:جمہوری عمل 6
مجبور شرک 7
ترقی‘ ہجرین اور عصری تقاضے 8
دمدار ستارہ اور علامتی اظہار 9
ویڈیو ادارے اور قومی فریضہ 10
چھلکے بکریاں اور میمیں 11
پہلا ہلا اور برداشت کی خو 12
بیگمی تجربہ اور پت جھڑ 13
انسانی ترقی میں جوں کا کردار 14
اصلاح نفس اور برامدے کی موت 15
سنہری اصول اور دھندے کی اہمیت 16
بش شریعت اور سکی نمبرداری 17
نیل کنٹھ‘ شیر اور محکمہ ماہی پروری 18
بہتی گنگا اور نقد و نقد 19
ملاوٹ اور کھپ کھپاؤ 20
سپاہ گری سے گداگری تک 21
یار لوگ اور منہگائی میمو 22
سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے 23
ہدایت نامہ خاوند 24
ہدایت نامہ بیوی 25
ادھورا کون 26
محنت کے نقصانات 27
محاورے کا سفر 28
کتےاور عصری تقاضے 29
جواز 30
ظلم 31
مزاح سے متعلق ان کے بہت سے مضمون انٹرنیٹ کی مختلف
ویب سائٹس پر پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان کے ان مضامین کو
سراہا گیا ہے۔ اس ذیل میں صرف اردو انجمن سے متعلق چند اہل
قلم کی آراء ملاحظہ ہوں
آپ کا یہ نہایت دلچسپ انشائیہ پڑھا اور بہت محظوظ و مستفید
ہوا۔ جب اس کے اصول کا خود پر اطلاق کیا تو اتنے نام اور
خطاب نظر آئے کہ اگر ان کا اعلان کر دوں تو دنیا اور عاقبت
دونوں میں خوار ہوں۔ سو خاموشی سے سر جھکا کر یہ خط
لکھنے بیٹھ گیا ۔ انشا ئیہ بہت مزیدار ہے شاید اس لئے کہ
حقیقت پر مبنی ہے۔ اس آئنیہ میں سب اپنی صورت دیکھ سکتے
ہیں۔
اکتوبر 10:43:43 ,2013 ,20شام
مشتری ہوشیار باش
سرور عالم راز
آپ کے انشائیے پر لطف ہوتے ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی کہ آپ
ان میں اپنی طرف کی یا پنجابی کی معروف عوامی اصطلاحات
(میں تو انہیں یہی سمجھتا ہوں۔ ہو سکتا ہوں کہ غلطی پر ہوں)
استعمال کرتے ہیں جن کا مطلب سر کھجانے کے بعد آدھا پونا
سمجھ میں آ ہی جاتی ہے جیسے ادھ گھر والی یا کھرک۔ یا ایم
بی بی ایس۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کھرک جیسا با مزہ
مرض ابھی تک جدید سائنس نے ایجاد نہیں کیا ہے۔ والله بعض
اوقات تو جی چاہتا ہے کہ یہ مشغلہ جاری رہے اور تا قیامت
جاری رہے۔ اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ صور کی آواز کو پس
پشت ڈال کر ہم :کھرک اندازی :میں مشغول رہیں گے۔ الله الله خیر
سلا۔
میری ناچیز بدعا
اگست 09:00:12 ,2013 ,14صبح
سرور عالم راز
مجھے علم نہیں ہے کہ محترمہ زھرا کون ہیں ،قرین قیاس یہی
ہے کہ انکا تعلق بزم سے ہوسکتا ہے۔ ملاقات کی روداد میں
گھریلو ماحول کی عکاسی بہت عمدگی سے کی گی ہے ،اور یہ
وہ کہانی ہے جو گھر گھر کی ہے۔ اہل خانہ پر گھبراہٹ کا عالم
اور اندیشہ ہاے دور دراز ،گھر کے سربراہ کی واقعی جان پر بن
آتی ہے۔ ایک لطیف تحریر جس سے لطف اندوز ہونے کا حق ہر
قاری کو ہے
خلش
آپ کا انشائیہ حسب معمول نہایت دلچسپ اور شگفتہ تھا۔ پڑھ کر
لطف آ گیا۔ اس زندگی کی بھاگ دوڑ اور گھما گھمی میں چند
لمحات ہنسنے کے مل جائیں تو الله کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ہاں یہ
پڑھ کرانتہائی حیرت ہوئی کہ زہرا صاحبہ برقعہ میں آئین! یا میرا
چشمہ ہی خراب ہو گیا ہے؟ ایک نہایت پر لطف اور دل پذیر
تحریر کے لئے داد قبول کیجئے۔
قصہ زہرا بٹیا سے ملاقات کا
نومبر 03:25:04 ,2013 ,03صبح
سرور عالم راز
جیسے جیسے آپ کی تحریر پڑھتا گیا ہنسی کا ضبط کرنا ناگزیر
ہوتا چلا گیا اور آخر میں میری حالت پاکستان میں کسی زمانے
میں جی ٹی روڈ پر چلنے والی اس کھچاڑا جی ٹی ایس
) گورننمٹ ٹرانسپورٹ سروس(
کی طرح ہوگئی جو رک جانے کے بعد بھی ہلتی رہتی تھی ،بڑی
دیر تک لطف اندوز ہونے کے بعد سوچا اپنی اندرونی کیفیت کا
اظہار کر ہی دیا جائے
وہ کہتے ہیں ناں کہ جس سے پیار ہوجائے تو اس کا اظہار کر
دو کہ مبادا دیر نہ ہو جائے
تو جناب ڈاکٹر صاحب میری جانب سے ڈھیروں داد آپ کے قلم
کے کمال کی نذر کہ جس سے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جائیں
لاٹھی والے کی بھینس
جولائی 09:45:29 ,2013 ,12شام
اسماعیل اعجاز
اردو نیٹ جاپان‘ اردو انجمن‘ ہماری ویب‘ فرینڈز کارنر‘ پیغام
ڈاٹ کام‘ فورم پاکستان اور فری ڈم یونی ورسٹی سے‘ میں نے
٦٩مضامین تلاش کیے ہیں۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے
بھگوان ساز کمی کمین کیوں ہو جاتاہے 1
غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم 2
عوامی نمائیندے مسائل' اور بیورو کریسی 3
علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام 4
امریکہ کی پاگلوں سے جنگ چھڑنے والی ہے 5
لوڈ شیڈنگ کی برکات 6
ہم زندہ قوم ہیں 7
طہارتی عمل اور مرغی نواز وڈیرہ 8
رولا رپا توازن کا ضامن ہے 9
آدم خور چوہے اور بڈھا مکاؤ مہم 10
پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر 11
سیاست دان اپنی عینک کا نمبر بدلیں 12
قانون ضابطے اور نورا گیم 13
خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر 14
خدا بچاؤ مہم اور طلاق کا آپشن 15
غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم 16
جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں 17
ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو دوسیریاں 18
لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت 19
اس عذاب کا ذکر قرآن میں موجود نہیں 20
بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ 21
عوام شاہ کے ڈراموں کی زد میں رہے ہیں 22
دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو 23
رشوت کو طلاق ہو سکتی ہے 24
عوام بھوک اور گڑ کی پیسی 25
رمضان میں رحمتوں پر نظر رہنی چاہیے 26
جمہوریت سے عوام کو خطرہ ہے 27
سیری تک جشن آزادی مبارک ہو 28
دو قومی نظریہ اور اسلامی ونڈو 29
گھر بیٹھے حج کے ایک رکن کا ثواب کمائیں 30
مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان 31
لاٹھی والے کی بھینس 32
دمہ گذیدہ دفتر شاہی اور بیمار بابا 33
انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ 34
غیرملکی بداطواری دفتری اخلاقیات اور برفی کی چاٹ 35
حقیقت اور چوہے کی عصری اہمیت زندگی 36
تعلیم میر منشی ہاؤس اور میری ناچیز قاصری 37
محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی 38
آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں 39
دیگی ذائقہ اور مہر افروز کی نکتہ آفرینی 40
ایجوکیشن‘ کوالیفیکیشن اور عسکری ضابطے 41
وہ دن ضرور آئے گا 42
صیغہ ہم اور غالب نوازی 43
پروف ریڈنگ‘ ادارے اور ناصر زیدی 44
ناصر زیدی اور شعر غالب کا جدید شعری لباس 45
قصہ زہرا بٹیا سے ملاقات کا 46
مشتری ہوشیآر باش 47
مدن اور آلو ٹماٹر کا جال 48
احباب اور ادارے آگاہ رہیں 49
کھائی پکائی اور معیار کا تعین 50
بابا بولتا ہے 51
بابا چھیڑتا ہے 52
لاوارثا بابا اور تھا 53
فتوی درکار ہے 54
ڈینگی‘ ڈینگی کی زد میں 55
حضرت ڈینگی شریف اور نفاذ اسلام 56
یہ بلائیں صدقہ کو کھا جاتی ہیں 57
اب دیکھنا یہ ہے 58
سورج مغرب سے نکلتا ہے 59
یک پہیہ گاڑی منزل پر پہنچ پائے گی 60
حجامت بےسر کو سر میں لاتی ہے 61
انھی پئے گئی اے 62
امیری میں بھی شاہی طعام پیدا کر 63
وہ دن کب آئے گا 64
آزادی تک‘ جشن آزادی مبارک 65
رشتے خواب اور گندگی کی روڑیاں 66
پنجریانی اور گناہ گار آنکھوں کے خواب 67
میری ناچیز بدعا 68
طاقت اور ٹیڑھے مگر خوبصورت ہاتھ 69
انسان کی تلاش 70
معاشی ڈنگر اور کاغذ کے لاوارث پرزے 71
صبح ضرور ہو گی 72
قیامت ابھی تک ٹلی ہوئی ہے 73
وہ دن گیے جب بن دیے بھلا ہوتا تھا 74
عین ممکن ہے 75
کھائی بھلی کہ مائی 76
دفتر شاہی میں کالے گورے کی تقسیم کا مسلہ 77
درج بالا مختصر تفصیلات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے
کہ باباجی مقصود حسنی اس صنف ادب میں
بھی کامیاب و کامران رہے ہیں۔ آخر میں پروفیسر یونس حسن
کی رائے درج کر رہا ہوں جس سے باباجی کے اس ادبی کام کی
نوعیت و حیثیت کا اندازہ ہو جاتا ہے
مقصود حسنی نے مزاح کے میدان میں تقلید کو گوارہ نہیں کیا‘
اپنے لیے ایک علیحدہ اور جداگانہ رستہ نکالا ہے۔ ان کی یہی
انفرادیت ان کے پورے مزاح پر محیط نظر آتی ہے۔ ان کا مزاح
وقتی یا لمحاتی نہیں اور نہ ہی گراوٹ کا شکار ہوتا ہے بلکہ
اپنی جدت طرازی کی بنا پر ایک علیحدہ شناخت اور پہچان رکھتا
ہے۔ ان کے مزاح کی جڑیں ہماری سماجی زندگی کے اندر
پیوست نظر آتی ہے۔
پروفیسر یونس حسن
سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ٢٠٠٥بیگمی تجربہ پر
اظہار خیال
یاران اردو انجمن :تسلیمات
مکرمی ڈاکٹر حسنی صاحب کی علمی اور ادبی حیثیت پر لکھا ہوا
یہ مضمون نہ صرف دلچسپ اور معلومات افزا ہے بلکہ یہ بھی
بتاتا ہے کہ ہماری انجمن کو کیسے کیسے لوگوں نے اپنی
موجودگی اور نگارشات سے عزت بخشی ہے۔ الله سے دعا ہے
کہ حسنی صاحب کا سایہ انجمن پر ہمیشہ قائم رہے تاکہ ہم سب
ان سے مستفید و مستفیض ہوتے رہیں۔ اب ایسے لوگ بہت کم
رہ گئے ہیں جن سے ادبی استفادہ کیا جا سکے۔ خاص طور پر
انٹرنیٹ پر یہ کمی خطرناک حد تک محسوس ہوتی ہے۔ اردو
انجمن ڈاکٹر حسنی صاحب کی بے حد ممنون ہے اور ان کے حق
میں دعائے خیر اور درازی عمر کی طالب ہے۔
سرور عالم راز
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic
9165.0
مقصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ
محبوب عالم --۔۔ قصور
پروفیسر مقصود حسنی ملکی اور بین الااقوامی سطح پر اپنی
الگ سے شناخت رکھتے ہیں۔ تخلیقی میدان میں ان کی شخصیت
کثیرالجہتی ہے۔ یہ ہی صورت تحقیق و تنقید کے میدان کی ہے۔
نثر ہی نہیں‘ شاعری کے میدان میں بھی نمایاں حیثیت رکھتے
ہیں۔ انہوں نے طالب علمی کے ابتدائی دنوں میں ہی شعر کہنا
شروع کر دیے۔ ان کی ١٩٦٥کی شاعری دستیاب ہوئی ہے۔ اس
وقت وہ جماعت ہشتم کے طالب علم تھے۔ بطور نمونہ ابتدائی
:دور کے چند شعر ملاحظہ کریں
پھوٹا ناسور بن کرزخم جگر
سزا ملی مجھے گناہ کئے بغیر
٢٥مئی ١٩٦٥
آس کے دیپ جلانے نکلو
جاگ کر اب جگانے نکلو
٢٩اپریل ١٩٦٦
زخم کھا کر جو زخم کھانے کی رکھے ہوش
انداز اس کے تڑپنے پھڑکنے کا ذرا دیکھ
٣فروری ١٩٦٧
ہر صدف کی قسمت میں گوہر کہاں
ہزار پرند میں‘ اک شہباز ہوتا ہے
٢٧جون ١٩٦٨
عریاں پڑی ہے لاش حیا بے گور وکفن
لوگ لیتے ہیں گل‘ گلستاں رہے نہ رہے
٢٥اکتوبر ١٩٦٩
مولاں کو ہو گی جنت سے محبت زاہد
بار ہا گزریں گے دشت پرخار سے ہم
٥مارچ ١٩٧٠
١٩٧٠:میں لکھی گئی یہ نظم بھی بطور نمونہ ملاحظہ ہو
مجھے اب
میں اپنی تلاش میں تھا
گلاب سے انگارے نکلے
خوشبو سے شرارے اٹھے
‘میرا چہرا
کوئی لے گیا
چوڑیاں مجھے دے گیا
چوڑیوں کی کھنک میں
مجھے اب
بےچہرہ جیون
جینا ہے
ایک تازہ نظم ملاحظہ ہو
میں نے دیکھا
پانیوں پر
میں اشک لکھنے چلا تھا
دیدہءخوں دیکھ کر
ہر بوند
ہوا کے سفر بر نکل گئی
منصف کے پاس گیا
شاہ کی مجبوریوں میں
وہ جکڑا ہوا تھا
سوچا
پانیوں کی بےمروتی کا
فتوی ہی لے لیتا ہوں
ملاں شاہ کے دستر خوان پر
مدہوش پڑا ہوا تھا
دیکھا‘ شیخ کا در کھلا ہوا ہے
سوچا
شاید یہاں داد رسی کا
کوئی سامان ہو جائے گا
وہ بچارہ تو
پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا
کیا کرتا کدھر کو جاتا
دل دروازہ کھلا
خدا جو میرے قریب تھا
بولا
کتنے عجیب ہو تم بھی
کیا میں کافی نہیں
جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو
میرے پاس آؤ
ادھر ادھر نہ جاؤ
میری آغوش میں
تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی
ہر بوند
رشک لعل فردوس بریں ہو گی
اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا
میں نے دیکھا
شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں
بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی
اس نمونہء کلام سے ان کے فکری اور تخلیقی سفر کا اندازہ
لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے ہاں مجازی عشق و محبت شجر منوعہ
سے لگتے ہیں۔ پروفیسر مقصود حسنی کے والد سید غلام
حضور پنجابی صوفی شاعر تھے۔ ان کے دادا سید علی احمد
پنجابی اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔ یہ سلسلہ اس سے
پیچھے تک جاتا ہے۔ پروفیسر موصوف کے پاس اپنے دادا کا
کلام مخطوطوں کی شکل میں موجود ہے۔ گویا یہ شوق انہیں
وراثت میں ملا ہے۔ وہ اردو کے علاوہ انگریزی پنجابی اور
پوٹھوہاری میں بھی کہتے رہے ہیں۔
ان کے کلام میں ردعملی کی سی صورت ہر سطح پر غالب رہتی
ہے۔ چلتے چلتے ناصحانہ اور صوفیانہ ٹچ ضرور دے جاتے ہیں۔
ان کے کلام میں سیکڑوں مغربی مشرقی اسلامی اور ہندی
تلمیحات پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہر تلمیح کا بڑا برمحل استعمال ہوا
ہے۔ یہ تلمیحات بین الااقومی تناطر میں استعمال ہوئی ہیں۔
پروفیسر علی حسن چوہان ان کی مغربی تلمیحات پر بھرپور
تحقیقی مقالہ بھی تحریر کر چکے ہیں۔
١٩٩٣میں ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے بہ عنوان۔۔۔۔۔۔ مقصود حسنی
کی شاعری‘ تنقیدی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ شائع کی۔ مقصود حسنی کی
شاعری پر مشتمل تین کتب منصہءشہود پر آ چکی ہیں۔
سپنے اگلے پہر کے نثری ہائیکو
اوٹ سے نثری نظمیں یہ مجموعہ دو بار شائع ہوا۔
سورج کو روک لو نثری غزلیں
کاجل ابھی پھیلا نہیں اشاعت کے مراحل میں ہے۔
اس کے علاوہ بھی ان کا کلام رسائل میں شائع ہوتا رہا ہے۔ ان کا
بہت سارا کلام انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائیٹس پر پڑھنے کو ملتا
ہے۔ آمنہ رانی ان کی نظموں کو ڈازائین کر رہی ہیں۔ جو ان کی
شاعری کی پذیرائی میں خوب صورت اضافہ قرار دیا جا سکتا
ہے۔
مقصود حسنی کی شاعری کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی
ہوئے۔
پروفیسر امجد علی شاکر نے۔۔۔۔۔۔ اوٹ سے۔۔۔۔۔۔۔ کی نظموں کو
پنجابی روپ دیا۔
بلدیو مرزا نے ان کے ہائیکو کا انگریزی میں ترجمہ کیا‘ جو
سکائی لارک میں شائع ہوا۔
نصرالله صابر مرحوم نے ان کے ہائیکو کا پنجابی میں ترجمہ کیا۔
مہر کاچیلوی مرحوم نے ان کے ہائیکو کا سندھی میں ترجمہ کیا۔
ڈاکٹر اسلم ثاقب مالیر کوٹلہ‘ بھارت نے ان کے ہائیکو کا
گرمکھی میں ترجمہ کیا۔
عالمی رنگ ادب کراچی نے پورا مجموعہ ۔۔۔۔۔۔۔ سپنے اگلے پہر
کے۔۔۔۔۔۔۔ کو شاعر علی شاعر کے مضمون کے ساتھ شائع کیا۔
پروفیسر نیامت علی نے ان کی انگریزی شاعری پر ایم فل سطح
کا مقالہ تحریر کیا۔
اردو ادب کے جن ناقدین نے ان کی شاعری کو خراج تحسین
پیش کیا‘ اس کی میسر تفصیل کچھ یوں ہے
ڈااکٹر آغا سہیل
آفتاب احمد مشق ایم فل اردو
ڈاکٹر ابو سعید نور الدین
احمد ریاض نسیم
ڈاکٹر اسلم ثاقب
اسلم طاہر
ڈاکٹر احمد رفیع ندیم
احمد ندیم قاسمی
ڈاکٹر اختر شمار
ڈاکٹر اسعد گیلانی
اسماعیل اعجاز
اشرف پال
اطہر ناسک
اکبر کاظمی
پروفیسر اکرام ہوشیار پوری
ایاز قیصر
ڈاکٹر بیدل حیدری
پروفیسر تاج پیامی
تنویر عباسی
جمشید مسرور
ڈاکٹر ہومیو ریاض انجم
خواجہ غضنفر ندیم
ڈاکٹر فرمان فتح پوری
ڈاکٹر صابر آفاقی
ڈاکٹر صادق جنجوعہ
صفدر حسین برق
ضیغم رضوی
طفیل ابن گل
ڈاکٹر ظہور احمد چودھری
عباس تابش
ڈاکٹر عبدالله قاضی
علی اکبر گیلانی
پروفیسر علی حسن چوہان
ڈاکٹر عطاالرحمن
فیصل فارانی
کفیل احمد
ڈاکٹر گوہر نوشاہی
ڈاکٹر مبارک احمد
محبوب عالم
مشیر کاظمی
ڈاکٹر محمد امین
پرفیسر محمد رضا مدنی
مہر افروز کاٹھیاواڑی
مہر کاچیلوی
ڈاکٹر منیرالدین احمد
پروفیسر نیامت علی
ندیم شعیب
ڈاکٹر وزیر آغا
ڈاکٹر وفا راشدی
ڈاکٹر وقار احمد رضوی
وی بی جی
یوسف عالمگیرین
پروفیسر یونس حسن
ان ناقدین نے متوازن انداز میں حسنی کی شاعری پر اظہار خیال
کیا ہے۔ ان حضرات گرامی کےعلاوہ محمد اسلم طاہر نے مقصود
حسنی کی شخضیت ادبی خدمات کے عنوان سے بہاؤالدین زکریا
یونیورسٹی ملتان سے ایم فل کا مقلہ تحریر کیا جس میں ان کی
شاعری کے متعلق باب موجود ہے۔ راقم کے ایم فل کے مقالہ۔۔۔۔۔۔
قصور کی علمی و ادبی روایت۔۔۔۔۔۔ میں حسنی کی شاعری پر
رائے موجود ہے۔ ۔
:ان کی شاعری پر چند اہل قلم کی آراء ملاحظہ ہوں
آپ کا یہ کلام پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ جینویں کسی
نے آکر دستک دینڑ کے بجائے ُکسھن ماریا ،وجا جا کے ٹھا
کرکے بڑا ای سواد آیا ،کیا ای بات ہے ہماری طرف سے ایس
سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض یاب فرمانڑ کے واسطے
چوہلیاں پرھ پرھ داد پیش ہےگی
تواڈا چاہنے والا 1
اسماعیل اعجاز
:ڈاکٹر بیدل حیدری کا کہنا ہے
مقصود حسنی کی نثری غزلیں موضوع کے اعتبار سے کتنی
اچھوتی ہیں‘ لہجے کی کاٹ اور طنز کی گہرائی کا کیا معیار ہے‘
قاری کیا محسوس کرتا ہے‘ استعارے اور علامتیں کتنے خوب
صورت انداز میں آئی ہیں۔ مستقبل میں اتنی فرصت کسے ہو گی
کہ فرسودہ طویل غزلوں اور نظموں کو پڑھے۔ اگلی صدی تو
مقصود حسنی جیسے مختصر اور پراثر شعر گو کی صدی ہے۔
........................
:ڈاکٹر عطاءالرحمن بھی اسی مجموعے پر یوں رقم طراز ہیں
ان کی سبھی نظمیں خوب صورت ہیں جن کے بھنور میں کھو کر
انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے بےخبر ہو جاتا ہے لیکن
قتل‘ ہم کب آزاد ہیں‘ آسمان نکھر گیا ہے‘ میں نے دیکھا۔۔۔۔ خوب
ترین نظمیں ہیں جن میں انسانی درندگی‘فرعونیت‘ ظلم و جبر‘
استبدادیت‘ بےبسی و بچارگی‘ آہیں اور سسکیاں غرض اک آتش
فشاں پنہاں ہے جو اگر پھٹتا ہے تو اس کا لاوا راہ میں مزاحم ہر
شے کو جلا کر خاکستر کر ڈالتا ہے۔
.............................
آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ جب
تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے پڑھے ہوئے
مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں اور میں پھر
نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں گرفتار ہو جاتا ہوں۔ آپ
کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا صرف ایک بار ہوا اور میں جلد
ہی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ کی
نظم پر دلسوزی اور خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ
اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا
پیغام عام سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل
اقتدار کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے
ہیں کہ دینے والا تو کوئی اور ہی ہے۔ الله رحم کرے۔ ایسے ہی
لکھتے رہئے۔ الله آپ کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ صلاحیت
اور توفیق سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ باقی راوی سب چین بولتا
ہے۔ 2
سرور عالم راز
ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔۔۔۔اوٹ سے۔۔۔۔ پراپنی رائے کچھ یوں دیتے
:ہیں
یوں تو اس مجموعے کی ساری نظمیں خوب نہیں‘ خوب تر ہیں
لیکن ۔۔۔۔ وہ لفظ کہاں اور کدھر ہے‘ سورج دوزخی ہو گیا تھا‘
فیکٹری کا دھواں‘ ہم کب آزاد ہیں‘ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ کاش
یہ نظمیں باشعور قارئین تک پہنچیں اور ان میں دہکتے ہوئے
خواب شرمندہءتعبیر ہوں۔
.............................
واہ ...ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ہمارے معاشرے کے اس نوحے کو
بہت عمدگی سے بیان کیا ہے
باپ کی بے حسی اور
جنسی تسکین کا بین
بہت کم الفاظ میں آپ نے اشارہ دیا ہے کہ قصور صرف معاشرے
یا ارباب اختیار کا نہیں ہے بلکہ اس جرم میں وہ لوگ بھی برابر
کے شریک ہیں جو اپنے وسائل کو دیکھے بنأ ہی اپنی نفسانی
خواہشات کا گھوڑا سرپٹ سرپٹ دوڑائے چلے جاتے ہیں اور
ساتھ میں اپنی (مذہبی) جاہلیت کی وجہ سے بچوں کی ایک قطار
کھڑی کر دیتے ہیں3 -
فیصل فارانی
.................................
واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ آپ نے چہرہ کو گرد سے
صاف کرنے کو کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارا چہرہ اتنا
مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے کی نہیں بلکہ ایک بڑے
اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ
ہمارا اصلی اور بے مثالی چہرہ سامنے ائے۔ 4
کفیل احمد
......................................
اپ کی نظموں پر اج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے انھیں بُہت ہی فکر
انگیز اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں بُہت پسند ائی ہے۔ اگرچہ
ہم اپ کے علم کے ُمقابلے میں شائید اسے اُن معنوں تک سمجھ
نہ پائے ہوں۔ جہاں تک ہم سمجھے ہیں اپ اس میں انسان سے
ُمخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انسان صرف قُدرت کی عطا کی
ہوئی چیزوں سے ُکچھ حاصل کرتا ہے۔ اگر اس سے سب ُکچھ
چھین لیا جائے تو انسان کے اپنے پاس ُکچھ بھی نہیں ،فقط مٹی
کا ڈھیر ہے۔ انسان کو قُدرت کی تراشی چیزیں بُہت ُکچھ دیتی ہیں،
لیکن انسان ان مخلوقات کو ُکچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ جبرائیل
والی بات ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی کم علمی پر نادم ہیں۔
اگر ہم سمجھنے میں ُکلی یا ُجزوی طور پر غلط ہوں تو مہربانی
فرما کر اس ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے گا۔ ہمارا علم و ادراک
فقط اتنا ہی ہے ،جس پر ہم مجبور ہیں اور شرمسار بھی۔ 5
وی بی جی
درج بالا آرء کے تناظر میں برملا کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر
مقصود حسنی کی شاعری ناصرف اپنا الگ سے مقام رکھتی ہے
بلکہ اپنے عہد کے سماجی‘ معاشی اور سیاسی حالات کی منہ
بولتی گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔ صوفی مزاج ہونے کے سبب
ایک مثالی معاشرت کی ہر موڑ پر خواہش نمایاں نظر آتی ہے۔
..................................................
1. http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7988.0
2-
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.03-.http://
www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8504.0
4- .http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9121.0
5. http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8506.0
اردو انجمن اور مقصود حسنی کی افسانہ نگاری
محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور
دور جدید کی مفید ترین ایجاد کمپیوٹر جہاں دیگر شعبہ ہائے
زندگی میں اپنے کمالات دکھا رہا ہے وہاں انٹرنیٹ کی دنیا میں
شعر وادب کے فروغ میں بھی اپنے حصہ کا کردار ادا کر رہا ہے۔
اب ادب کتابوں رسالوں یا پھر اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں تک
محدود نہیں رہا۔ چلتے پھرتے‘ سفر کرتے یا دفتر میں بیٹھے
ادبی حظ اٹھایا جا سکتا ہے۔ دنیا کی دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ
اردو بھی انٹرنیٹ پر رواں دواں ہے۔ اردو کی بہت سی ویب
سائٹس اس وقت یہ فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ان ویب سائٹس پر
سنجیدہ اور غیر سنجیدہ لوگوں کے ساتھ ساتھ شاعر اور ادیب
بھی آ رہے ہیں۔ جہاں ادب تخلیق ہو رہا ہے وہاں عمومی اور
غیرعمومی آراء بھی پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ ان غیرعمومی آراء
کو کسی طرح صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ادب قارئین کے لیے
ہوتا ہے۔ قارئین مختلف نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ وہ معاملات
کو اپنے حوالے سے دیکھتے ہیں اور ان کے حوالہ ہی سے اپنی
رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی بھی رائے کو نظرانداز نہیں کیا
جا سکتا کیوں کہ رائے تو رائے ہوتی ہے اور اپنے سیٹ اپ کی
عکاس ہوتی ہے۔ ان عمومی آراء کے ساتھ ساتھ اہل نقد کی آراء
بھی پڑھنے کو مل رہی ہیں۔
ان فورمز بورڈز کی خدمات اپنی جگہ پر لیکن اردو انجمن بڑی
سنجیدگی اور ادبی دیانت کے ساتھ اردو کی خدمت انجام دے رہی
ہے۔ یہاں سنجیدہ اور پختہ کار تخلیق کار اور نقاد حضرات سے
ملاقات کا موقع میسر آتا ہے۔ یہ انجمن محدود دائروں میں مقید
نہیں۔ یہ پچیس سے زائد گوشوں پر مشتمل ہے۔ اس کی تفصیل
کچھ یوں ہے
ُگلہائے عقیدت
حمد ،نعت اور دُعا
ناظمین :محمد خاور ,سالم باشوار
اصلاح ُسخن
نئے شعراء کے کلام کی اصلاح اور رہنمائی
ناظم :سرور عالم راز
انداز غزل
اساتذہ اور مشاہیر کی غزلیات
ناظمین :سرور عالم راز ,زرقا مفتی
موج غزل
آپ کی غزلیات جو بحر میں ہوں
ناظمین :ضیاء بلوچ ,سہیل ملک ,خورشید الحسن نیر
قافیہ الفاظ
رنگ غزل
نئے شعراء کی غزلیات
ناظمین :محمد خاور ,حشمت عثمانی
انداز ُسخن
اساتذہ اور مشاہیر کی منظومات
ناظمین :عاکف غنی ,صدف
موج ُسخن
اراکین انجمن کی پابند منظومات
ناظمین :زاہدہ رئیس راجی ,سہیل ملک
طرز ُسخن
جدید شاعری اور زبان و بیان کے نئے تجربات
رنگ ُسخن
اراکین انجمن کی آزاد اور نثری منظومات
ناظمین :صدفُ ,سمن شاہ
ذیلی بورڈ
لُطف بیان
افسانے ،خاکے اور انشائیے
ناظمین :شاہکار ,صالح اچ ّھا
انداز بیان
نامور نثر نگاروں کی تحاریر
ناظمین :زاہدہ رئیس راجی ,سرور عالم راز
ذیلی بورڈ
موج بیان
آپ کی تحاریر
ناظمین :زاہدہ رئیس راجی ,زرقا مفتی
مزاحیہ مضامین اور خاکے
ناظمین :شاہکار ,صالح اچ ّھا
ذیلی بورڈ
مزاحیہ منظومات
ناظمین :ضیاء بلوچ ,صالح اچ ّھا
لطائف و ظرائف
ناظمین :عاکف غنی ,حشمت عثمانی
خبر نامہ
ادبی خبرنامہ اور تقریبات کا احوال
نیا بورڈ
تفہیم ُسخن
آسان عروض
آسان عروض اور شاعری کی بنیادی باتیں
ناظم :سرور عالم راز
ذیلی بورڈ
طرحی مشاعرہ
ماہانہ طرحی مشاعرہ ﴿انجمن کا ایک سلسلہ﴾
ناظمین :زاہدہ رئیس راجی ,زرقا مفتی
بیت بازی
اُردو شاعری کو فروغ دینے کے لئے ایک دلچسپ سلسلہ
, balvinderناظمین :عامر عباس
صوتی مشاعرہ
آپ کی اپنی آواز میں مشاعرہ ﴿سہ ماہی سلسلہ﴾
ناظمین :زاہدہ رئیس راجی ,ضیاء بلوچ
بزبان شاعر
آپکا کلام آپکی آواز میں
آپ کی پسند
اقوال زریں ،دلچسپ باتیں ،تصاویر اور ویڈیوز
ناظمین :زاہدہ رئیس راجی ,سرور عالم راز
گوشہء خاص
اُردو انجمن سے متعلق اعلانات احباب کے سوالات
جان پہچان
خوش آمدید اور تعارف
ناظمین :سرور عالم راز ,زرقا مفتی
خزانہ
ناظم :زرقا مفتی
تجرباتی بورڈ
غور فرمائیں‘ ان گوشوں میں اردو کی تمام اصناف زیر مطالعہ آ
جاتی ہیں۔ ہر گوشے میں اچھا خاصا مواد دستیاب ہے۔ اس مواد
کو شخصی حوالہ سے مرتب کر دیا جائے تو کئی تحقیقی مقالے
بھارتی اور پاکستنی جامعات اس ‘ہو سکتے ہیں۔ اگر مغربی
جانب توجہ دیں تو قدیم لوگوں کے ساتھ عصر رواں کے متعلق
لوگوں کی ادبی خدمات کو بھی تصرف میں لایا جا سکتا ہے۔ یہاں
میں انجمن کے صرف ایک رکن کے افسانوں کے متعلق تفصیلات
درج کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ میری اس کوشش سے اندازہ
ہو جائے گا کہ انجمن اپنے ادبی جثے میں کتنی مضبوط اور فراخ
ہے۔
باباجی مقصود حسنی کی انجمن پر مختلف نوعیت کی تحریریں
ملتی ہیں۔ ان میں افسانے بھی شامل ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق
موصوف ١٩٦٩سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ رسائل میں چھپنے
کے علاوہ ان کے افسانوں کے تین مجموعے -١کاجل ابھی پھیلا
نہیں -٢وہ اکیلی تھی -٣جس ہاتہ میں لاٹھی شائع ہو چکے ہیں۔
تیسرا مجموعہ ١٩٩٣میں شائع ہوا تھا۔ اب تک وہ دو سو سے
زائد افسانے قلم بند کر چکے ہیں۔ اختصار ان کے افسانوں کی
بنیادی خصوصیت ہے۔ ان کے افسانوں میں تصوف‘ اخلاقیات‘
روحانیت اور سماجی پہلو غالب رہتے ہیں۔ میں نے یہاں صرف
انجمن کی اعلی کارگزاری کے ثبوت کے لیے مواد صرف انجمن
کے گوشوں سے حاصل کیا ہے ورنہ ان کے افسانے انٹر نیٹ کی
مختلف ویب سائٹس پر بھی پڑے ہیں۔ نیچے پیش کیا گیا جملہ
مواد میں نے صرف اور صرف اردو انجمن سے حاصل کیا ہے۔
روحانی اور تصوف کے ‘مقصود حسنی کے افسانوں میں اخلاقی
عناصر کے چند نمونے ملاحظہ ہوں
ہاں‘ جب رات کو‘ چارپائی پر لیٹا‘ تو حق حق حق کے نعروں
کہ ‘نے‘ مجھے دیر تک سونے نہ دیا۔ میں نے بڑی کوشش کی
دھیان ادھر ادھر کرکے‘ ان نعروں سے‘ خلاصی پا لوں‘ مگر
حق حق ‘کہاں جی۔ میری ایما کے برعکس‘ میرے منہ سے بھی
حق کے آوازے نکلنے کو ہی تھے‘ کہ میں نے‘ سورت اخلاص
شاید خدا سے‘ عشق کا‘ میرا یہ پہلا قدم ‘پڑھنا شروع کر دی
تھا۔ یہ پہلا موقع تھا‘ جو اثرآفرینی کے لیے‘ دم والے پانی اور
تعویزوں کا مرہون منت نہ ہوا۔ اس کے لیے‘ مجھے ایک اکنی
بھی نہ دینا پڑی۔
پٹھی بابا
حمادی اسی لیے زندہ ہے‘ کہ اس نے‘ منصور کے قتل کا فتوی
مفتی اور قاضی ہو گزرے ہیں‘ ‘دیا تھا‘ ورنہ سیکڑوں مولوی
انہیں کون جانتا ہے۔ وہ دکھنے والے منصور کو پہچانتا تھا‘ اگر
وہ اناالحق کا نعرہ لگانے والے‘ قیدی منصور کو جانتا ہوتا‘ تو
اس کے قتل کا کبھی فتوی نہ دیتا۔ وہ مدعی کا‘ اس کے دعوے
کی سطح کا‘ امتحان کرتا‘ تو ہی دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہو
یاتا۔
ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر ‘میرے اندر بھی
سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ نہیں
ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے بغیر‘ ملنگ
بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔
میں ابھی اسلم ہی تھا
بابو صابر کا طرز عمل‘ اسے کچکوکے لگاتا رہا۔ وہ بے آب ماہی
کی طرح‘ دیر تک چارپائی پر کروٹیں بدلتا رہا۔ پھر اس نے طے
کیا‘ کہ وہ ہر معاملے کے بابو کو کھانا ضرور کھلائے۔ حرام تو
پہلے کماتے ہیں۔ وہ حرا م کا کھانا کھلا کر‘ انہیں ڈبل حرامی
بنانے کا چارہ کرے گا۔ اس سوچ نے‘ شاید اس کی انا کو تسکین
کہ وہ تھوڑی ہی دیر بعد‘ گہری ‘بخش دی تھی۔ یہ ہی وجہ تھی
نیند میں چلا گیا۔
انا کی تسکین
یہ ہی وتیرا رہا ہے۔ جہاں میں بسیرا رکھتا ‘جنگل کا شروع سے
تھا‘ وہاں رہتے توانسان تھے‘ لیکن ان کے اطوار اور قانون‘
جنگل کے قانون سے‘ کسی طرح کم نہ تھے۔ اس جبر کی فضا‘
کہ بچانے والا‘ ‘اور ماحول میں‘ ایک بات ضرور موجود تھی
چوتھی مرغی کو‘ بچا ہی لیتا ہے۔ اس کی نسل‘ آتے وقتوں میں‘
اس کے ہونے‘ اور بچانے والے محاکاتکر‘ کی گواہی دیتی رہتی
ہے۔
چوتھی مرغی
آہ۔۔۔۔۔ کتنی بدنصیب تھی وہ صبح‘ ویر جی کو‘ موت کے حوالے
کر دیا۔ وقت کا سرمد‘ چلا تو گیا‘ لیکن محبتوں کی یادیں چھوڑ
گیا۔ ملک زوراور کے کوئی نہ منہ آ سکا۔ ملک پھر سے دوسرے
علاقوں کے وسائل پر تسلط وتصرف کی سوچ میں پڑ گیا۔ اسے
یاد تک نہ رہا کہ اس نے کتنا بڑا ظلم ڈھا دیا ہے۔
تنازعہ کے دروازے پر
برہما سے بردان حاصل کیے ‘وہ یہ بھی جانتا تھا‘ کہ یہ تپسوی
یہاں سے نہیں ٹلے گا‘ کیوں کہ جو دھار کر آتے ہیں‘ کٹ ‘بغیر
جاتے ہیں‘ قدم پیچھے نہیں رکھتے۔ یہ اصول بھی ہے‘ اور
یہ ہی چلا آتا ہے۔‘ویدی کا ویدان بھی
کامنا
نمرود کو‘ اپنی جاہ وحشمت پر ناز تھا۔ وہ سمجھتا تھا‘ کہ زندگی
اسی کے دم قدم سے‘ رواں دواں ہے۔ اگر وہ نہ رہا‘ تو چار سو
بربادی پھیل جائے گی۔ اسے یہ بھی گمان تھا‘ کہ وہ ہر اونچ نیچ
کر سکتا ہے۔ اس کے رستے میں آنے ‘پر قادر ہے۔ وہ کچھ بھی
والا‘ ذلت ناکی سے دوچار ہو گا۔ وہ بلاشبہ‘ شیطان کی بدترین
لعنت تھا۔
کملا کہیں کا
جس پیٹ میں‘ رزق حرام چلا گیا‘ وہ حلال دا کس طرح رہا۔ حرام
لقموں سے بننے والا خون‘ سر سے پاؤں تک‘ گردش کرتا ہے۔
جس جسم میں؛ حرام خون دوڑ رہا ہوتا ہے‘ اس پیٹ والے کے‘
جسم کے جملہ کل‘ کس طرح درست اور فطری اصولوں پر‘
استوار ہو سکتے ہیں۔ حرام کھانے والے‘ شرعی واجبات کے
کوشش کرتے ہیں۔ ‘ذریعے‘ خود کو حلال دا ثابت کرنے کی
شیدا حرام دا
آج بڑھاپے نے شاید ہوش غارت کر دئے ہیں‘ تب ہی تو سوچتی
ہوں‘ کہ دینو کی پسینہ آمیز کمائی میں‘ بےحد سواد تھا۔ اس
وقت مجھے کوئی بیماری لاحق نہ تھی۔ یہاں حلالے کے دو ماہ
پعد ہی معدہ کی بیماری لاحق ہوگئی۔ اس کے بعد شوگر نے آ
گھیرا۔ کمردرد تو معمول کا معاملہ ہے۔ بی پی کی کسر رہ گئی
وہ بھی گلے کا ہار بن گئی ہے۔ مولوی صاحب کسی کی ‘تھی
جیب تو نہیں کاٹتے‘ اس کے باوجود ان کا لایا ہوا رزق‘ ذائقہ
میں‘ دینو کے لائے سا نہیں۔
حلالہ
آج میں بڑا اور صاحب حیثیت آدمی ہوں‘ مگر کب تک‘ بس
سانسوں کے آنے جانے تک۔ اس کے بعد‘ کسی کے خواب وخیال
میں بھی نہیں رہوں گا۔ مزے کی بات یہ کہ‘ لوگ میرے سامنے
اور پشت پیچھے‘ مجھے بڑا آدمی کہتے ہیں اور سمجھتے بھی
یہ کیسا بڑاپن ہے‘ جو سانسوں سے مشروط ‘ہیں۔ سوچتا ہوں
مرا نہیں۔ وقت کا فیصلہ ‘ہے۔ بڑا تو سقراط تھا‘ جو مر کر بھی
بھی کتنا عجیب ہے‘ کہ شاہ حسین سے بھوکے ننگے‘ آج بھی
زندہ اورلاکھوں دلوں میں‘ اپنی عزت اور محبت رکھتے ہیں۔
جو وقت کے بہت ‘قارون کے سوا‘ مجھ سے لاکھوں لکھ پتی
بڑے آدمی تھے‘ آج کسی کو یاد تک نہیں ہیں۔ یہ بڑاپن کیسا
ہے‘ جو کیڑوں مکوڑوں سے مختلف نہیں۔
بڑا آدمی
عوفی نے موت کا رستہ چن کر‘ ٹیپو کی حکمت عملی پر‘ درستی
کی مہر ثبت کر دی تھی۔ یہ کوئی ایسی معمولی بات نہ تھی۔
لیکن کوئی تجزیہ نگار اسے ناکام ‘عوفی فاتح جرنیل ناسہی
جرنیل بھی نہیں قرار دے گا۔ کاشف اور پنکی جیت کر بھی ہار
چکے تھے۔ عوفی نے انھیں عبرت ناک شکست دی تھی۔ یہ ہی
‘حقیقت اور یہ ہی وقت کا انصاف ہوگا۔ ہر کیے کا‘ کوئی ناکوئی
پرینام تو ہوتا ہی ہے۔ کاشف‘ باپ ہو کر‘ ماموں کا رشتہ استوار
کرنے پر مجبور ہو گا اور پنکی کا آنچل پچھتاوے کی آگ میں
جلتا رہے گا۔۔۔۔۔۔۔ ہاں جلتا رہے گا۔
آنچل جلتا رہے گا
مسجد سے الله اکبر کی صدا گونجی۔ میں کانپ کانپ گیا۔ اس سے
پہلے بھی یہ آواز کئی بار سن چکا تھا لیکن اج تو اس آواز نے
گھائل کر دیا۔ الله مجھے واپس لوٹنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ میں
تیزی سے مسجد کی جانب بڑھ گیا۔ جانے کتنی دیر سجدہ میں رہا
لیکن جب سر اٹھایا سارا غبار چھٹ چکا تھا۔
بیوہ طوائف
فقیر بابا کو میں بھی پاگل سمجھتا تھا۔ میں نے اس کے کہے کے
مفاہیم دریافت کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ ہوٹل پر
کام کرتے بچے کو دیکھ کر احساس ہوا ہے کہ فقیر بابا غلط نہیں
کہتا۔ وہ پاگل نہیں‘ اس نے تو دنیا کی گل پا لی ہے۔ اسی لیے ہر
پوچھنے والے کو دنیا کا حقیقی چہرا دیکھاتا ہے کہ انسان تنہا
ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں یکسر تنہا۔
فقیر بابا
یہ سب اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے
بھول پاتا۔ کربناک لحموں کی بازگشت تازیست یادوں کے نہاں
گوشوں میں اپنا تمثالی وجود برقرار رکھتی ہے۔ یادوں کا تمثالی
وجود نیند کے جھونکوں کا انتظار نہیں کرتا۔ موقعہ بہ موقعہ
اپنے اٹوٹ وجود اور قلبی رشتے کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ اسے
اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی پر کیا گزرے گی۔
بازگشت کا رشتہ اگر مٹی ہو جائے تو گزرا کل اپنی معنویت کھو
دے اور صیغہ تھا لایعنی ہو کر رہ جائے۔
بازگشت
اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ رستہ
منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ تعاقب
نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف کے
بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔
آخری کوشش
سقراط اور حسین نے‘ اس مروجہ طور کو‘ جان دے کر‘ غلط
قرار دیا۔ ہم سقراط اور حسین کے راستے کو‘ درست مانتے ہیں
اوراس رستے کا‘ زبانی کلامی احترام بھی کرتے ہیں۔ عملی طور
پر‘ ہمارا پرنالہ وہیں پر ہے۔
معالجہ
‘مجھے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہیں۔ ایک دن‘ مرنا تو ہے ہی
دو دن آگے کیا‘ دو دن پیچھے کیا۔ مجھے تین باتوں کا رنج ہے‘
کہ میں حمیدے کو بچا نہ سکا۔ وہ ابھی زندہ تھا اور آخری
سانسوں پر نہ تھا۔ افسوس‘ وہ قانونی تقاضوں کی بھینٹ چڑھ
گیا۔ قانون اس کا قاتل نہیں‘ قانونی تقاضوں کے علم بردار‘ اس
کے قاتل ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دوسرا جیرے کا
جھاکا کھلنے پر‘ تاسف ہے‘ اب تو وہ اور انھی مچائے گا۔ اس
ذیل میں تیسری بات یہ ہے‘ کہ پتا نہیں‘ منافقت کا دیو‘ کب بوتل
میں بند ہو کر‘ دریا برد ہو گا۔
ابھی وہ زندہ تھا
سچائی کا حسن‘ بار بار نمودار ہونے کے لیے‘ ہوتا ہے۔ اسے
نمودار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہاں اس کی جڑوں کا
پھیلنا اور مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سب الله کے اختیار
میں ہے۔ زمین کے اندر‘ ہم دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ سچائی
کی زمین‘ حد درجہ ذرخیز ہوتی ہے۔ اس کی ازل سے موجود
جڑیں‘ کسی ناکسی پودے کو سطح زمین پر لاتی رہیں گی۔
سچائی کی زمین
سب سے زیادہ خرابی سر اٹھاتی ہے۔ روپے کی ‘رمضان میں ہی
چیز کے‘ پانچ روپے وصولے جاتے ہیں۔ اس نے سوچا‘ شیطان
کے قید ہو جانے کے بعد‘ اس کے انڈے بچے‘ شیطان سے بڑھ
کر‘ اندھیر مچاتے ہیں۔ اسے اپنے منصوبے کے‘ ناکام ہو جانے
کا اعتراف کرنا پڑا۔ وہ اپنی ذات سے‘ شرمندہ تھا۔ اس منصوبے
کی کام یابی کے لیے‘ برائی کا لاروا‘ پہلے تلف ہونا چاہیے۔
لاروا ختم ہو جائے‘ تو ہی آتا کل محفوظ ہو سکتا ہے۔
لاروا اور انڈے بچے
گامو سوچیار کے ان لفظوں نے‘ میری نیند اور سکون چھین لیا
ہے۔ میں کئی بار‘ اپنے ضمیر کو مطمن کرنے کی کوشش کر
چکا ہوں۔ کم بخت‘ مطمن ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ گامو سوچیار
جیسے لوگوں کو‘ مصلوب کیا جاتا رہا ہے‘ اس کے باوجود‘
ہر عہد میں‘ ان کی جگہ لے ہی لیتا ہے۔ گامو ‘کوئی ناکوئی
یہ بات غور طلب ہے‘ تاہم یہ ‘ یا نہیں‘سوچیار کا کہا‘ درست ہے
-طے ہے‘ کہ اس گھر میں ہنستے مسکراتے دو منافق رہتے ہیں
دو منافق
ہر زبان پر‘ اس کی اچھائی اور شریف النفسی کے‘ کلمے تھے۔
وہاں سے‘ معلوم ہوا‘ اس کی بیوہ‘ کسی وقت رشیدہ خانم تھی۔
حالات اور وقت نے‘ اسے شیداں کپتی بنا دیا تھا اور رشتہ‘
حضرت سید حیدر امام صاحب نے کروایا تھا۔ سید صاحب بھی
تشریف لائے تھے۔ وہ گوشہ نشین بزرگ تھے۔ پورا علاقہ‘ ان
کی عزت کرتا تھا۔ وہ کچھ ہی دیر‘ وہاں رکے۔ چہرے پر جلال
تھا‘ ہاں‘ ساتھ چھوٹ جانے پر‘ ان کی آنکھوں سے‘ خاموش
آنسو رواں تھے
ان پڑھ
یہاں کے شرفا بڑے نیک اور حاجی ثناءالله ‘سروے کے مطابق
ہیں لیکن عملی اعتبار سے‘ حرام خور ہیں۔ مانیں نہ مانیں‘ آپ
کی مرضی۔ حقیقت یہ ہی ہے‘ کہ ہم کسی ناکسی سطح پر‘ حرام
خور ہیں۔۔۔۔۔ حرام خور۔۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے ہم پوری دنیا میں ذلیل
وخوار ہیں۔
پاخانہ خور مخلوق
الله جانے‘ شخص کے ذاتی حقوق کو‘ کیوں گول کر دیا جاتا ہے۔
ذاتی حقوق‘ پہلی ترجیع پر ہوتے ہیں۔ جو شخص‘ اپنے حقوق
ادا کرے گا‘ وہی الله اور اس کی پوری کائنات کی مخلوق کے‘
حقوق ادا کر سکے گا۔۔ جو شخص‘ اپنی ذات سے انصاف نہیں
یا کہہ ‘کرتا‘ لالچ اور خوف کے زیر اثر‘ ضمیر کی نہیں کہتا
سکتا‘ رزق حلال‘ اپنے وجود کو مہیا نہیں کرتا‘ دوسروں کو
کیسے کر سکے گا۔ الله کا بےنیاز اور ہر حاجت سے بالا ہونا‘
اسی میں ہے‘ کہ شخص‘ اس کی ‘مسلم ہے۔ اس کی خوشی
مخلوق کے حقوق پوری دیانت داری سے ادا کرے۔ حقوق کا
معاملہ ذات سے‘ الله کی طرف پھرتا ہے۔
دائیں ہاتھ کا کھیل
موسی خود کو جانتے تھے۔ انہیں‘ اس امر سے خوب آگہی
کہ انہیں الله کی تائید حاصل ہے۔ اگر انہیں یہ اگہی ‘حاصل تھی
تو وہ دریا میں‘ اتنے لوگوں کو‘ ساتھ لے کر‘ ‘حاصل نہ ہوتی
سفر جاری نہ رکھتے۔ فرعون کو‘ اپنی خدائی کا پورا پورا یقین
یا یقین دلوا دیا گیا تھا‘ تب ہی تو‘ اس نے دریا میں فوجیں ‘تھا
ڈال دیں۔ اس سے‘ وہ ناصرف فوج سے‘ ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ
عزت بھرم اور پہلے سی شان و شوکت سے بھی گیا۔ یہ عبرت‘
آتی نسلوں کے لیے‘ حجت بنی رہی۔ ذاتی گمان اور چیلوں چمٹوں
اندھی اور بے لگام طاقت ‘کی لایعنی اور مطلبی جی حضوری
نے‘ کچھ باقی نہ رہنے دیا۔
پنگا
کسی انسانی ماں کی اولاد‘ کسی دوسری ماں کی اولاد پر‘ ظلم
کی اس حد تک جا ہی نہیں سکتی۔ بندوق کی نوک‘ سر جھکانے
پر مجبور کر سکتی ہے‘ لیکن اس سے‘ دل فتح نہیں ہو سکتے۔
قبضہ و تصرف کی ہوس‘ تصادم کے دروازے کھولتی ہے۔ ماں
کی محنت‘ مشقت اور پیار سے‘ پروان چڑھنے والے بچوں کو
لہو میں نہلاتی ہے۔ تلوار کی فتح کو‘ فتح کا نام دینا‘ کھلی جہالت
ہے۔ ہاں ماں کے سے‘ پیار سے‘ دل جیتو‘ تاکہ کمزور طبقے‘
سکھ کا سانس لے سکیں اور انسانیت‘ سسکنے بلکنے سے‘
مکتی حاصل کر سکے۔
وہ کون تھے
سوچوں کے گہرے سائے تلے‘ آہستہ آہستہ چلتا ہوا‘ اپنے گھر
کے دروازے تک‘ پہنچ گیا۔ دروازے سے دروازے تک کا یہ
‘سفر‘ اسے صدیوں کا سفر محسوس ہوا۔ قدسیہ کا گرجنا برسنا
یقینا غلط نہ ہو گا۔ اس نے سوچا‘ میں بھی کیسا شخص ہوں‘
صدیاں لایعنیت میں گزار کر‘ گھر خالی ہاتھ لوٹ آیا ہوں۔ مجھے
یہ یاد نہ رہا‘ کہ بچوں کے لیے‘ چکی سے آٹا ‘غیر تو یاد رہے
لینے نکلا تھا۔ پھر وہ سر جھکائے‘ گھر میں داخل ہو گیا۔
دروازے سے دروازے تک
ناں ناں‘ ناں یہ سب بکواس‘ اور الله کے رازق ہونے سے‘ انکار
کے مترادف ہے۔ ہر پیدا ہونے والا‘ اپنا رزق لے کر پیدا ہوتا ہے۔
ایسا ہو ہی نہیں سکتا‘ کہ اس کا رزق‘ اس کے ساتھ نہ آئے۔ اس
یا اس کا رزق کھا کر‘ مر جانے والوں ‘کا رزق ارم بنانے والوں
یہاں شخص ہزاروں سال ‘کو‘ فراہم کیا جاتا ہے۔ ماسٹر صاحب
سے‘ بھوکا پیاسا ہے۔ ایسے حالات میں‘ کوے کی پیاس کون
دیکھتا ہے۔ اسے پیاسا ہی رہنا ہے۔ الله نے‘ اس کے حصہ میں
پیاس نہیں رکھی۔ معاشی ڈسپلن کو‘ تباہ کرنے کے باعث‘ کوے
کی پیاس نہیں بجھ رہی۔
اسے پیاسا ہی رہنا ہے
میرا مارا جانا‘ ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ پریشان ہونے کی کوئی
ضرورت نہیں‘ ایسا ہوتا آیا ہے‘ ہوتا رہے گا۔ یہ معمول کا مسلہ
پہلے سے چلی آتی ہے۔ محسن کشوں سے‘ ‘ہے۔ محسن کشی
قدرت سب کچھ چھین لیتی ہے‘ اور زمین و آسمان پر‘ ذلت و
ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم‘ نمرود کے ‘رسوائی
‘خیر خواہ تھے‘ اس نے صلہ میں اذیت دی۔ حضرت موسی
فرعون کے ہم درد تھے‘ لیکن وہ محسن کش نکلا۔ سقراط‘ خیر
‘کی چلتی پھرتی علامت تھا‘ اسے زہر پلایا گیا۔ حضرت عیسی
کوئی معمولی شخص نہ تھے۔ وہ‘ جن کا وہ بھلا کر رہے تھے‘
وہ ہی انہیں صلیب تک لے آیا۔ حضرت محمد کو‘ اچھا کرنے کے
جرم میں‘ پتھر مارے گیے۔ ہر طرح کی ازیت دی گئی۔ حضرت
حسین‘ خیر کے رستے پر تھے‘ جن کی بھلائی کر رہے تھے‘
اور انہیں جہنم کی آگ سےبچانے کے لیے‘ کوشش کر رہے
تھے وہ ہی پرلے درجے کے بدکردار نکلے۔ منصور خیر کا
پرچارک تھا‘ کتنی اذیت ناکی سے‘ اسے قتل کیا گیا۔ سرمد میں‘
ہند سچائی کا سورچ تھا‘ اس کے ساتھ کیا گیا‘ ہند کا بچہ بچہ
جانتا ہے۔
پہلا قدم
بابا جی کی باتوں کو‘ سب نے سنا اور پسند کیا۔ ادریس صاحب
قربانی کے گوشت پر‘ اٹکی ہوئی تھی۔ اتنی دیر میں‘ ‘کی سوئی
پانچ لوگوں کا کھانا‘ اندر سے آ گیا۔ چار لوگوں کے لیے چٹنی
جب کہ ایک کے لیے‘ گوشت سے بھری پلیٹ آئی۔ ‘ملی لسی
جو اماں جی ‘سب نے‘ باطور تبرک چٹنی ملی لسی سے روٹی
کھائی اور کھانے کو پرذائقہ ‘کے ہاتھوں کی پکی ہوئی تھی
قرار دیا۔ ادریس صاحب کا‘ موڈ اب بھی خراب تھا۔ انہیں پکائی
کے‘ ناقص ہونے کا‘ گلہ تھا۔ وہ کیا جانیں‘ گھر میں تو گوشت
پکا ہی نہ تھا۔ گوشت کی پلیٹ اور روٹیاں‘ چوہدھری صاحب نے‘
بجھوائی تھیں۔ وہ ہی سفید آٹے کی روٹیاں‘ ادریس صاحب کے
پیٹ میں گئی تھیں۔
ادریس شرلی
رحمو‘ نیکی کے رستے سے‘ رائی بھر ادھر ادھر نہ ہوا۔ میں
مجھ سے غلطیاں تو ہوتی رہتی تھیں۔ ‘انسان تھا‘ نادانستہ سہی
الله نے‘ دو سال مجھے معافی مانگنے کا‘ موقع دیا۔ آخری تین
ماہ‘ لوگوں نے‘ میرے لیے دعائیں کیں۔ ان کی دعاؤں نے‘
مجھے الله کی رحمت سے‘ مایوس ہونے سے بچایا۔ میں ہر
یقینا ‘لمحہ‘ الله کی عطا و رحمت کا امید وار رہا۔ آخری پندرہ دن
یہ ہی میری پوری ‘بڑے درد ناک اور کرب ناک تھے۔ جانتے ہو
زندگی کا حاصل تھے۔ میری حالت پر‘ لوگوں کو ترس آنے لگا۔
لوگوں نے‘ خلوص نیتی سے میرے گناہوں کی بخشش کے لیے‘
دعا کی۔ الله انہیں اجر دے۔ میری موت اور راحت مرزا کی موت کا
موازنہ کرو‘ لوگ تو لوگ‘ اسے خود‘ اپنے گناہوں کی توبہ کا
موقع نہ مل سکا۔ دنیا میں‘ راحت مرزا سے زیادہ بدنصیب‘ اور
کون ہو گا۔ ذرا غور تو کرو۔
موازنہ
وہ اسے وقت ضائع کرنے کے مترادف سمجھتا تھا۔ اس کا زیادہ
تر‘ بیبیاں پاک دامناں اور حضرت شاہ حسین لاہوری کے
باتیں ‘درباروں پر‘ آنا چانا تھا۔ وہ دیر تک‘ وہاں بیٹھا اکیلا ہی
کرتا رہتا۔ اسے واپسی کوئی جواب ملتا یا نہ ملتا‘ کوئی نہیں
جانتا۔ اگر کوئی پوچھتا‘ تو جواب میں ہنس دینا۔ اس کے اس
ہنسنے میں‘ اثبات اور نہی کا‘ دور تک نام ونشان تک نہ ہوتا۔
سرگوشی
کتنی عجیب بات ہے‘ ان میں سے کسی کو اپنی اخلاقی و روحانی
بیماریوں کا علم تک نہیں۔
علالتی استعارے
حضرت پیر صاحب کی باتوں میں حقیقت رقصاں تھی۔ وہ
بےچارے دعا ہی کر سکتے تھے۔ وہ علی رضا کے لیے کیا کر
سکتے تھے۔ ان کی باتیں‘ ان کے علاقہ کے چوہدری صاحب کو‘
گولی کی طرح لگتی تھیں۔ حالاں کہ وہ کسی کا نقصان نہیں کرتے
تھے۔ وہ تو‘ اپنے منہ کا لقمہ‘ حاجت مندوں کو دے دیتے تھے۔
دوسری بار
آپ حسب معمول نہایت ذمہ داری اور دلسوزی سے ہمارے
معاشرہ کے حالات پر لکھ رہے ہیں۔ حقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے
لیکن اس سے مفر بھی نہیں ہے۔ میں بھی اسی معاشرہ کا فرد
ہوں جس کا ماتم آپ کرتے رہتے ہیں۔ اب تو ایسا نظر آنے لگا
ہے کہ ہمارا الله بھی محافظ نہیں ہے کیونکہ ہم خود اپنی ذمہ
داریوں سے ہاتھ کھینچ چکے
آراء دہندگان اردو انجمن
جناب اسماعیل اعجاز
جناب اظہر
جناب تنویرپھول
جناب خلش
جناب ساجد پرویز آنس
جناب سرور عالم راز
جناب ضیا بلوچ
جناب مشیر شمسی
جناب وی بی جی
افسانے جن پر رائے دستیاب ہوئی ہے۔ اس میں کوتاہی یا غلطی
ممکن ہے۔ جس کے لیے پیشگی معذرت چاہوں گا۔
ادریس شرلی
آخری کوشش
چار چہرے
سرگوشی
موازنہ
پہلا قدم
اسے پیاسا ہی رہنا ہے
یہ کوئی نئی بات نہ تھی
دروازے سے دروازے تک
وہ کون تھے
پنگا
دائیں ہاتھ کا کھیل
الله جانے
پاخانہ خور مخلوق
ان پڑھ
لاروا اور انڈے بچے
سچائی کی زمین
ابھی وہ زندہ تھا
حلالہ
بازگشت
فقیر بابا
بیوہ طواءف
بڑا آدمی
کریمو دو نمبری
معالجہ
میں ابھی اسلم ہی تھا
پٹھی بابا
جواب کا سکتہ
ماسٹر جی
بڑے ابا
گناہ گار
گناہ گار
انا کی تسکین
انگریزی فیل
چوتھی مرغی
تنازعہ کے دروازے پر
کامنا
ابا جی کا ہم زاد
دو دھاری تلوار
شیدا حرام دا
علالتی استعارے
بیوہ طوائف