کیونکہ یہ جذبات اور احساسات سے لبریز ہے۔ایک بار پھر
بھرپور داد کے ساتھ۔۔
وی بی جی 23
گناہ گار
اپریل 2014 ,26
ماشاالله جناب یہ تحریر بھی بُہت خوب ہے۔ کمال یہ ہے کہ اپ اس
قدر وسعت رکھتے ہیں کہ اپ کا لکھا جب پڑھا بالکل ُمختلف سا
ہی ہوتا ہے اور یہ انفرادیت اپ کے قلم کی پہچان ہے۔ ہر بار ایک
نئی اور علیحدہ دُنیا کی ہی سیر کرواتے ہیں۔ اس کے لیئے ُشکر
گزار بھی ہیں ہم اور اپنے ساتھ بھرپور داد بھی لائے ہیں جو
پیش خدمت ہے۔رزق سے ُمتعلق چونکہ بات ہو رہی تھی سو ہم
نے بُہت غور سے پڑھا اپ کے خیالات کو۔ لیکن ایک فقرہ ہے
جس کی تشریح ہم ٹھیک سے نہیں کر پا رہے ہیں۔ وجہ شائید
اس فقرے میں موجود یہ الفاظ ہیں :تو وہ اس شخص کے اندر
رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے :۔ فقرہ درج ذیل ہے۔
انہوں نے‘ اس سے آگے فرمایا‘ کہ اگر انسان سے زمینی :
استحصال پسند قوتیں‘ رزق چھین لیں‘ تو وہ اس شخص کے
اندر‘ رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے‘ اور کوئی نہیں‘ جو
مزاحم آ سکےُ :ممکن ہے کتابت کی چھوٹی سی کوئی غلطی ہو
لیکن چونکہ ہم خود کم فہم قسم کے شخص ہیں تو ذیادہ تر
امکان اسی بات کا ہے کہ ہم اپ کے مفہوم تک نہ پُہنچ پا رہے
ہیں۔مولانا ازاد صاحب بُہت مثبت سوچ رکھنے والے شخص
تھےُ ،سنتے ہیں کہ ایک بار کسی نے اُن سے کہا کہ فلاں بادشاہ
کے دور میں عورتیں کپڑے نہیں پہنتی تھیں بلکہ اپنے جسم پر
کپڑوں کی سی تصویر (پینٹنگ) بنوا لیا کرتی تھیں۔ مولانا صاحب
کا مثبت جواب دیکھیئے کہ فرمایا کہ اس بات سے اُس زمانے
کے مصوروں کی فنی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے کہ کس قدر
مہارت رکھتے تھے۔تو صاحب رزق اور ُخدا سے مطعلق بھی
ہمارا ایسا ہی مثبت اور سادہ وطیرہ ہے۔ اگر رزق مل جائے تو
الله نے دیا ،نہ ملا تو حکومت یا ُمسلمانوں کی دین سے دوری
ذمہ دار۔ اگر انعامی بانڈ نکل ایا تو الله کا ُشکر ،نہ ملا تو اسی
میں بھلائی تھی ،اپ ہی کی مثال سے دونوں پستانوں کا دودھ ‘
ذائقہ اور تاثیر میں‘ ایک سا نہیں ہوتا تو واہ کیا ہی خوب قُدرت
کا کمال ہے اگر ایک سا ہے تو بھی واہ کیا ہی خوب قُدرت کا
کمال ہے کہ دو الگ الگ پستانوں سے ایک سا دودھ ۔ دُنیا کو
دیکھ کر اندازہ لگاتے رہتے ہیں کہ فلاں کام اچھا ہؤا یا بُرا۔ اگر
اچھا ہؤا ہے تو واہ الله تیرا کمال ،اگر بُرا ہؤا تو شیطان مردود۔
الله کا خوف ہے کہ کہیں ُکچھ غلط منہ سے نکلا تو نُقصان نہ
اُٹھانا پڑے اس لیئے ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے ،کہ سوچتے
پھریں کہ دُنیا میں جو جتنا کالا ہے اُتنا بدحال اور جو جتنا گورا
ہے اُتنا خوشحال کیوں ہے۔ یا یہ کہ اُن کے حالات کا ذمہ دار اُن
کا رنگ ہے یا اُن کی رنگت اُن کی خوشحالی کی نسبت ٹھہری
ہے۔اپ کے خیالات اس ُمعاملے میں بُہت اچھے ہیں اور مثبت
ہیں ،یہ اچھی بات ہے۔ افسانہ بھی بُہت خوبصورت ہے۔ الله پاک
اپ کے قلم کو مذید وسعت دے۔ایک چھوٹی سی شکایت بھی ہے
کہ اپ داد وصول کرنے کی بجائے داد دینے لگ گئے ہینہمیں
احتیاط کرنی پڑے گی۔
وی بی جی
گناہ گار
اپریل 2014 ,26
جناب داد کی بات نہیں کر رہے ،وہ تو اپ کی تحریریں ہم سے
ہمارا گریبان پکڑ کر لے لیتی ہیں ،ایسے ہی جیسے ہم ہر ماہ کی
پہلی تاریخ کو اپنی تنخواہ کی پائی پائی تک مشین سے وصول
کرتے ہیں۔ ہم اپنے خیالات کی اظہار کی بات کر رہے تھے کہ ہم
ذرا ادھر اُدھر کی ہانکنا کم کر دیں ،وگرنہ ہمیں یقین ہے کہ اپ
جس طرح کی نظر رکھتے ہیں ہم پر بھی اپ کی تجزیہ کی تیز
نگاہ ہو گی ،اور ممکن ہے کہ کسی دن ایک عجیب کردار کی
صورت میں اپ کی کسی تحریر کا حصہ بن جائیں گے۔ اپ کا
ُشکریہ کہ ہمیں ان تحریروں سے فیضیاب ہونے کا موقع فراہم
کرتے ہیں۔طالب دُعا
ماشاالله جناب۔ بُہت ہی خوب۔ ایک تو ہمارے علم میں اضافہ ہؤا
کہ :رزق اندر :کے کیا معنی ہیں دوسرا اپ کے اس فقرے کے
معنی جان کر بُہت اچھا لگا۔ واقعی وہ رزق دیتا ہے تو کہاں نہیں
دیتا۔
توجہ اور رہنمائی کا شکریہ۔۔
وی بی جی 24
انا کی تسکین
اپریل 2014 ,18
بُہت اچھی تحریر ہے ،داد قبول کیجے۔ (ہم :تحریر :اس لیئے
کہتے ہیں کہ کم علمی کے سبب ،ہم :انشائیہ: ،:افسانہ :وغیرہم
میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں)اپ نے فرمایا تھا کہ ہم
خصوصی برتاؤ رکھتے ہیں تو جناب ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم تو
جیسا پڑھتے ہیں ویسا بیان کرتے ہیں۔ یہ اپ کی تحریریں ہیں
جو ہمیں یہاں لاتی ہیں۔ اگرچہ اپ جانتے ہی ہیں کہ مصروفیات
اج کے دور میں بُہت زیادہ ہو ُچکی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ایک
:ابا جی :کماتے تھے اور سارا :ٹبر :کھاتا تھا ،اور ایک یہ وقت
ہے کہ :سارا :ٹبر :کماتا ہے اور ایک :ابا جی :کو نہیں کھلا
سکتا۔ سو ہماری حاضری کم رہتی ہے ،وجہ یہ بھی ہے کہ اپ
کی تحریر کو سرسری نظر سے دیکھنا ،ہم سے ُممکن نہیں۔ یہ
خود ہی توجہ چھین لیتی ہے۔ اپ کے ُشکر ُگزار ہیں ہم کہ احباب
اگر کم توجہ بھی دیں تو اپ ان تحریروں کو یہاں پیش کرتے
رہتے ہیں ،اور کم از کم ہم اس سے استفاضہ کرتے رہتے ہیں۔یہ
تحریر بُہت تلخ محسوس ہوئی ،اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا۔ اس
قدر الفاظ میں نفرت بھری ہے کہ جیسے صاحب قلم کو خود بھی
چوٹ پڑی ہو۔ ایک ُجملہ ہے اپ کا ،اس پر داد بھی قبول کیجے۔
اقتباس
بڑی اور شہرت یافتہ دکان سے‘ کھلانے پلانے کی صورت میں‘
فائل کی بلند پروازی پر‘ شاہین بھی شرمندہ ہو جاتا ہے۔
ہم لوگوں نے :حرام :پر تحقیق کی اور اس کی بھی کئی اقسام
ُمرتب کیں۔ اقسام بھی دو قسم کے نقطہ نظر سے کی گئی ہیں۔
پہلا نُقطہ نظر۔ایک تو :اپنے لیئے حرام ،دوسرے کے لیئے حلال:
اور دوسرا :اپنے لیئے حلال ،دوسرے کے لیئے حرام :جیسا کہ
اپ کی تحریر نے بھی وضاحت کی ہے۔دوسرا نقطہ نظراگرچہ یہ
اقسام بُہت ہیں لیکن ہم چیدہ چیدہ کا ذکر کئیے دیتے ہیں۔
پہلی قسم :اسے کبھی ُمسلمان اپنے لیئے حلال نہیں سمجھتے۔ :
جیسے سور اور ُکتے کا گوشت۔
دوسری قسم :اسے حسب طبیعیت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ :
جیسے شراب ،جؤا۔
تیسری قسم :ایسی چیزیں جنہیں کہنا تو حرام ہوتا ہے لیکن ان :
کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ،بلکہ ترغیب دی جاتی ہے۔
جیسے ُسود ،کسی دوسرے ُمسلمان بھائی کا مال و زن۔ ُکچھ
ُمفتی حضرات کے بھی ہم احسانمند ہیں کہ اُنہوں نے اس کو کئی
اور نام دے کر نہ صرف عوام کو سہولت مہیا کی بلکہ خود بھی
لاکھوں روپے ماہانہ لے کر دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ (ویسے
ہم خود بھی ایسے ہی کسی ضمیر فروش ُمفتی کی تلاش میں ہیں
جو ہمیں روزہ میں سگریٹ پینے کی اجازت کا فتوی دے دے)۔اپ
کی تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ ہم اپنا رونے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس
پر معذرت بھی چاہتے ہیں۔ یہ تحریر پڑھ کر ہمارا نہیں خیال کہ
کوئی پڑھے گا اور اثر نہ لے گا۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے
ساتھ
وی بی جی
جناب یہ تو اپ نے حد سے بڑھ کر عزت دے دی ہماری عامیانہ
سی رائے کو۔ عامیانہ اس لیئے کہا کہ ایک عام سے ادمی کی
رائے ہے ،ہم نہ مفکر ہیں اور نہ دبیر۔ اور نہ ہی کوئی عالم
فاضل ہیں کہ :علوم فضول :حاصل کر رکھے ہوں اور نہ ہمارا نام
:علما فضلا :میں اتا ہے :وی بی جی :۔ سو صاحب ،اگر ہم سے
کوئی کام کی بات سرزد ہو جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ
یہ کس نے کی۔ ایک اور ُگزارش کرنا چاہیں گے کہ ہم اپنا نام
یہاں نہیں لائے ہیں۔ ہمارے ہمذاد ہیں ،ایک کردار :وی بی جی:
وہ یہاں ائے ہیں اور اُن کا یہی نام ہے۔ اگر وقت اجازت دیتا ہو تو
ہماری یہ نظمیہ غزل ایک نظر پڑھ لیجے گا۔.اُمید ہے خفا نہ
ہونگے۔اپ نے اس نالائق کو اس لائق سمجھا ہے جس پر سراپا
سپاس ہیں اور ایک بار پھر ُشکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہمیں :چوتھی:
ُمرغی بھی ذبح کرنی ہے سو وہاں چلتے ہیں۔
وی بی جی 25
انگریزی فیل
اپریل 2014 ,18
معذرت خواہ ہیں کہ دیر سے حاضر ہوئے۔ یہ موضوع اگرچہ اس
قدر انوکھا نہیں ہے ،لیکن اپ کے قلم نے اسے اپنی طرز سے
بیان کیا ہے اور بُہت ہی خوب کیا ہے۔ ہکے پھلکے انداز میں اپ
نے کہانی بیان کی ہے جو پڑھنے والے کو کسی ذہنی دباؤ میں
نہیں ڈالتی۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ قارئین جو گہرے فلسفوں
سے کتراتے ہیں یا سمجھ نہیں پاتے وہ بھی اس سے محظوظ ہو
پاتے ہیں اور ُکچھ نہ ُکچھ بات کا اثر ضرور لے کر جاتے ہیں۔
ہماری طرف سے بھپور داد قبول کیجے۔ویسے ہمارا خیال اس
سے ُمتعلق تو یہ ہے کہ ایک تو جو شاگرد رٹہ نہیں لگا سکتے
اُن کو اساتذہ سے شاباش بھی شاز و نادر ہی ملتی ہے ،وگرنہ
نہیں ملتی۔ ہمارا اپنا المیہ یہی رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس میں
صرف انگریزی ہی کارفرما نہیں ہے ،بلکہ کئی ایسی چیزیں
ہمارے نصاب کا حصہ ہیں جس کی کوئی تُک نہیں ملتی۔ یقین
جانئیے اج تک ہمیں الجبرا ،جسے جبراً پڑھایا جاتا ہے ،کو
استعمال کرنے کا کوئی موقع زندگی نے نہیں دیا۔ ہم ایکسوں میں
سے وائیاں تفریق کیئے بغیر زندگی ُگزار رہے ہیں۔ نہ مرہٹوں
کی لڑائیوں کی تاریخوں کی کہیں ضرورت پڑی ہے۔ اور تو اور
قائداعظم کے چودہ نُقاط جسے ہم چوتھی جماعت سے لے کر
مسلسل چودھویں جماعت تک یاد کرنے کی کوشش کرتے رہے
ہیں ،نہ تو اج تک کبھی یاد ہوئے ہیں اور نہ کبھی اس کی
ضرورت پڑی ہے۔یہاں کسی کام کو کرنے کے لیئے اُس کام لیئے
موزوں ترین شخص بھی تلاش کرنے کا کوئی اصول دُرست نہیں
ہے۔ ہم جہاں کام کر رہے ہیں وہاں بھی صرف اس لیئے کہ ہمیں
:ڈائریکٹ ،ان ڈائریکٹ: ،:ایکٹو ،پیسو: ،:دُعائے قنوت ،:اور
اپنے وزیر اطلاعات کا نام یاد تھا۔ ہم اس سے بھی اچھا ُعہدہ پا
سکتے تھے لیکن چونکہ ہمیں نہ صرف :امریکہ کے صدر
کینڈی :کے قاتل کا نام یاد نہیں تھا بلکہ یہ تک معلوم نہ تھا کہ
:بُلبُل :کی اوسط ُعمر کتنی ہوتی ہے ،اس لیئے ہم اُس عہدے کے
لائق نہ تھے۔ اس لیئے ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف یہ شعور
دینا ضروری ہے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے اور اس میں کردار
سازی کی کیا اہمیت ہے۔ بلکہ یہ بھی کہ کسی کام کو کرنے کے
لیئے موزوں ترین شخص کا انتخاب کیسے کرنا چاہیئے۔ اگر
ہمارے بس میں ہو تو ،حافظ ،سعدی اور ُعرفی جیسے لوگوں کا
کلام ،بلکہ قصہ چہار درویش کو نصاب کا حصہ بنائیں اور بُہت
سی خرافات کو اس میں سے نکال پھینکیں۔ ورنہ ہمارا تو یہی
حال ہے بقول سعدی کہ اگر کوئی شخص علم حاصل کرے اور
پھر اُسے استعمال نہ کرے تو ایسے ہی ہے جیسے کسی گدھے
پر کتابوں کا بوجھ لدا ہو۔ تحریر پر ایک بار پھر داد کے ساتھ۔
وی بی جی 26
چوتھی مرغی
,اپریل 2014 ,26
بُہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ اپ ماشاالله بُہت ہی گہری نظر
رکھتے ہیں۔ اور پھر اپ کے پاس نہ صرف خیالات کو الفاظ دینے
کا ہُنر ہے بلکہ وہ طاقت بھی ہے کہ اپ کی تحریر پڑھنے والا نہ
صرف قائل ہو جاتا ہے بلکہ ہمیں یقین ہے کہ اثر بھی لیتا ہے۔
ایک ُمعاشرتی مسئلہ کہ اپ نے کہاں ُمرغی سے ُشروع کیا ہے
اور کیسے تمام کہانی کے بعد اسے وہیں سمیٹا ہے۔ ہماری طرف
سے بھرپور داد قبول کیجے۔ اپ کہاں :اسیلُ :مرغی پر چ ُھری
پھروا رہے تھے جناب یہ تو ُمرغے لڑانے والوں کی نظر میں
:کفر :سے کم نہیں۔ اپ کی تحریر پڑھ کر ُکچھ باتیں ذہن میں ائی
ہیں ایک تو یہ کہ عام خیال ہہی ہے کہ پڑھنے لکھنے کا مطلب
ہے رزق میں اضافہ اور یقین دہانی۔ ایک فارمولا کہہ لیجے کہ
جتنا ذیادہ پڑھا لکھا ہو گا انسان ،اُتنا ہی ذیادہ اُس کا رزق ہونا
چاہیئے۔ اور دوسری بات یہ کہ جنگل کا قانون بُرا ہوتا ہے،
انسانوں کے قوانین اچھے ہوتے ہیں اور اُنہیں ہی رائج ہونا
چاہیئے۔ رزق کے بارے تو ہمارا خیال ہے کہ اس کا کوئی فارمولا
نہیں ہے۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ اگر کوئی شخص ہماری طرح
اپنی تعلیمی اخراجات کی رسیدیں جنہیں ڈگریاں بھی کہتے ہیں
لیئے پھرے ،چاہے کوئی بڑا سائنس دان ہو ،چاہے عالم ہو شاطر
ہو ،رزق کا حقدار اس ناطے سے نہیں ٹھہرتا۔ اس کو بانٹنے کا
قدرت کا اگر کوئی فارمولا ہے تو ہمیں ٹھیک سے سمجھ نہیں ایا
اج تک۔ ایک طرف تو دین کہتا ہے کہ رزق صرف الله کے ہاتھ
میں ہے ،دوسری طرف ١٠٠بچے بھوکے مر جاتے ہیں۔ الزام
کسے دیں؟ لے دے کر اگر رزق کا کوئی فارمولا ہمیں دین سے
ملا ہے تو یہی ہے کہ صدقہ خیرات دو کہ یہ دوگنا ہو کر واپس
ملے گا۔ جس کے پاس ُکچھ نہ ہو وہ کیا کرے یہ کہیں نہیں ملا۔
دوسری طرف اگر رزق الله کے ہاتھ نہ ہو تو پورے ملک کو وہ
بیرونی کمپنیاں کھا جائیں ،جو ایک ہی وقت میں نہ صرف کئی
قسم کے صابن بنا کر اشتہاروں میں اپس میں لڑ کر دکھاتی ہیں
بلکہ انہیں صابنوں کے دو نمبر بھی خود ہی بناتی ہیں کہ کوئی
دوسرا فریق کیوں بنا کر کمائے۔ جنگل کے قانون سے ُمتعلق
ہمارا خیال ہے کہ یہ انسان کی تعصب سے بھری ہوئی سوچ ہے
کہ خود کو جانوروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ انسان اشرف
المخلوقات ہے لیکن یہاں انسان کی جو :تعریف :ہے وہ ُکچھ اور
ہے۔ اپ خود ہی سوچئیے کونسی ایسی بُرائی ہے جو جانوروں
نے کی ہوں اور انسانوں نے وہ بُرائی نہ کی ہو۔ اچھائیاں بُرائیں
دونوں سوچ لیجے۔ ایک بھی ایسی نہ ملے گی۔ انسان ،انسانوں
تک کا گوشت محوارتاً نہیں بلکہ حقیقتاً کھا رہا ہے۔ ادھر انسانوں
کی وہ بُرائیں دیکھ لیجے جو جانوروں نے کبھی نہ کی ہوں۔ اتنی
لمبی فہرست نکلے گی کہ ُخدا کی پناہ۔ سو ہمارا خیال ہے کہ اگر
تعصب کو تھوڑا سا ایک طرف رکھ کر سوچا جائے تو جانور
بدرجحا بہتر نظر ائیں گے۔ وہ تو معصوم نظر اتے ہیں ہمیں۔
جنگل کے قوانین میں شکار تبھی ہوتا ہے جب بھوک لگے۔ یہاں
اُلٹا ُمعاملہ ہے ،بھوک لگنے سے پہلے انتظام کرنا ہوتا ہے۔
بھیڑیے کی خصلت تھی کہ وہ کمزور پڑ جانے والے بھیڑیئے کو
مل کھا جاتے ہیں۔ لیکن یہاں مل بانٹ کر بھی نہیں کھاتے۔ واہ
رے انسان۔۔سو صاحب جب تک دُنیا میں کمزور اور طاقتور
موجود ہیں ،کمزور کی گردن طاقتور کی دو انگلیوں میں رہے
گی۔ یہ اصول ہم نے صرف انسانوں کے گھٹیا ُمعاشرے اور
قوانین سے ہی نہیں اخذ کیا بلکہ جانوروں کے ُسلجھے ہوئے
اور ُمہذب ُمعاشرے اور جنگل کے قوانین سے بھی ثابت ہے۔اپ
کی تحریر بُہت خوب ہے۔ اُمید ہے اگر نا انصافی کو دُنیا سے ہم
مٹا نہیں سکتے تو کسی حد تک کم کرنے کی ُجستجو تو کر
سکتے ہیں۔ اور یہی اپ کر رہے ہیں۔ اپ کی یہ تحریر بھی اسی
کاوش کا حصہ ہے اور ُمقام رکھتی ہے۔ ایک بار پھر بھرپور داد
کے ساتھ ۔ ۔
وی بی جی 27
تنازعہ کے دروازے پر
اپریل 2014 ,16
واہ جناب یہ پہلو بھی اپ نہیں چھوڑا۔ بُہت اچھی تحریر ہے۔ داد
حاضر ہے۔اب بات یہ ہے کہ جو کہانی اپ نے لکھی ہے وہ تاریخ
میں قدم قدم پر دُہرائی گئی ہے۔ سو سچ پوچھیں تو ہم ان
کرداروں کی شناخت میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی ہمارے خیال
سے دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم اپنی کمزور
سیاسی بصیرت کی وجہ سے کئی تاریخی نُقاط سے ناواقف ہیں
سو ایسا ہونا لازم ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اپ
نے کئی کہانیوں کے کردار اپنی تحریر میں ایک واحد کردار میں
سمو دیئے ہوں۔ جس کی وجہ سے اصل تک نہ پُہنچ پا رہے
ہوں۔ہم معذرت بھی چاہیں گے کہ اپنی کم علمی کی وجہ سے اپ
کی تحریر کو وہ خراج نہیں پیش کر پائے جس کی یقیناً یہ
ُمستحق ہو گی۔ اپ کی تمام ُگزشتہ تحریروں کو نظر میں رکھتے
ہوئے ہمیں یقین ہے کہ یہ ہماری نا سمجھی کی وجہ سے
ہے۔لیکن جس پہلو سے بھی ہم دیکھ سکے ہیں اور جہاں تک
سمجھ سکے ہیں تحریر اچھی ہے اور داد اپ کا حق۔بھرپور داد
کے ساتھ
وی بی جی 28
کامنا
اپریل 2014 ,14
واہ جناب واہ۔ اپ کی نظر کہاں کہاں تک ہے ،یہ تحریر پڑھ کر
پتہ چلا۔ پھر اپ کہتے ہیں کہ ریشماں جوان نہیں رہی۔ صاحب اس
تحریر کے اخر میں اپ نے مرہٹوں کی سرکوبی کی تاریخ رقم
نہیں کی سو ہمارا خیال ہے کہ تحریر نئی بھی ہے اور ریشماں
کی جوانی کی سند بھی۔ اور صاحب ہمارے خیال سے ریشماں
کبھی بوڑھی نہیں ہوتی ،اُس پر مرنے والی انکھیں بوڑھی ہو
جاتی ہیں۔اس تحریر نے ہمیں جیت لیا ہے۔ ایک تو اس سے یہ
پتہ چلتا ہے کہ اپ کی نظر کہاں کہاں تک ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ
موضوع کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اور اس پر لکھنے کا خیال
تک انا ،بُہت بڑی بات ہے۔ دوسرا اپ کے علم کا بھی پتہ چلتا ہے
کہ کس گہرائی سے اپ نے مشاہدہ کیا ہے۔ اگر اس موضوع سے
ُمتعلق باریک چیزوں کا علم نہ ہو تو ظاہر ہے کہ چند ٹوٹے
پھوٹے فقروں کے سوا کوئی اس پر ُکچھ نہیں لکھ سکتا۔ اور اپ
نے تو کمال حکایت بیان کی۔ دل عش عش کر اُٹھتا ہے۔اسے
پہلے پڑھا تو کئی باتیں ذہن میں ائیں لیکن اسے دوبارہ پڑھا اور
پھر ایسا محسوس ہؤا کہ ُکچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔
اپ نے کوئی کونہ خالی نہ چھوڑا ہے۔ ویدی کا ویدان ہمارے
اپنے خیال سے ُمتعلق بھی یہی ہے۔ جب تک دُنیا قائم ہے کوئی
نہ کوئی گیانی کہیں نہ کہیں ایک ٹانگ پر کھڑا ہوتا رہے گا۔ اور
شائید ذات باری تعالی بھی نہیں چاہتی کہ اذان کے ہوتے ہی سب
:مسیت :میں جا پڑیں۔ ُکچھ لوگ سیمنا گھروں میں بھی نظر اتے
رہیں گے۔ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ بُہت ہی عمدہ
تحریر ہے۔ اپ جیسے صاحبان علم اس دُنیا کا سرمایا ہیں ،جسے
بے قدرے لوگ صرف عیاشی پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔الله پاک اپ
کے علم اور صحت میں برکت عطا فرمائیں۔
وی بی جی 29
ابا جی کا ہم زاد
اپریل 2014 ,13
اپ کی یہ شاندار تحریر پڑھی۔ بُہت زوراور ہے اور اس میں اپ
کا ایک نیا انداز نظر ایا۔ یا ُمنفرد انداز کہہ لیجے۔ یقین جانیئے کہ
رشک ایا پڑھ کر اور دل سے داد نکلی۔ اپ نے ایک جگہ کہا کہ
ہم ُکچھ زیادہ تعریف کر جاتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس تحریر
کو ہی دیکھیئے۔ جتنی تعیف کی جائے کم ہے۔ اس موضوع کو
اس انداس سے سوچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہم ایسے
کئی لوگ جب کسی مسئلہ میں ہوتے ہیں تو ویسا ہی کرنے کی
کوشش کرتے ہیں جیسا کہ اُن کے والد ایسے موقع پر کیا کرتے
تھے ،اور اگر ُکچھ لوگوں کو ایسا خیال نہیں ایا تو اُنہیں بھی
ایسا ہی کرنا چاہیئے۔ یہ ہمارا خیال ہے اور ایسا ہی ہم نے اس
تحریر سے بھی اخذ کیا ہے۔ اپ کی تحریر اگرچہ سوچنے پر
مجبور کرتی ہے ،اور ہر شخص اپنی سوچ کے حساب سے نتیجہ
یا نتائج اخذ کر سکتا ہے ،لیکن ہمیں ایسا ہی محسوس ہؤا۔
ہمارے گھر میں کئی قسموں کے کردار تھے اور ہم اُنہی کو
محسوس کرتے رہے۔ بابا ،ماں ،بہنیں ،بھائی وغیرہ ،لیکن دو
ایسے کردار تھے جنہیں ہم نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ اور وہ
تھے ایک میاں اور ایک بیوی۔ یہ کردار پس پردہ رہتے ہیں اور
انسان کی شادی ہو جانے تک کبھی محسوس نہیں ہوتے۔ یا پھر
ہمیں نہیں محسوس ہؤے۔ اپ نے کہاں سے بات ُشروع کی اور
کہاں لا چھوڑی ،قابل تحیسن ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد
قبول کیجے۔ اس بات کا ُشکریہ بھی کہ ہمیں اپ کی تحریر کے
توسط سے پتہ چلا ہے کہ ہم بُہت سے کام کیوں کرتے ہیں۔ ایک
چھوٹی سی عرض بھی کرنا چاہیں گے کہ یا تو اپ نے :مقالموں:
کو زیادہ توجہ نہیں دی یا پھر ہمیں افسانے اور کہانیاں وغیرہ
پڑھنے کی عادت نہیں رہی۔ ہمیں مقالموں کو پڑھنے اور
سمجھنے میں ُکچھ دقت ہوئی ہے۔ یہ بات بیان کرنا اس لیئے
ضروری سمجھا تاکہ اپ کے علم میں ہو کہ ُکچھ لوگ ایسے بھی
ہو سکتے ہیں جنہیں اس قسم کی مشکلات بھی پیش ا سکتی
ہیں۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔
وی بی جی 30
دو دھاری تلوار
اپریل 2014 ,09
بُہت جاندار تحریر ہے اور پھر اپ کا انداز بیاں ،منظر کشی بُہت
ہی جاندار اور خوبصورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی تحریریں
کردار سازی کے لیئے بہت ضروری ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اچھے
برے کی تمیز سکھاتی ہیں ،بلکہ اچھائی کو پسند کرنے اور
بُرائی سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ اپ کے انداز بیاں
مشکل پسندی سے دور ہے اس لیئے قاری کے ذہن پر اثر
چھوڑتا ہے۔ اپ نے ڈارون کی بات کی ،ہمارا تو خیال ہے کہ اُن
کے نظریہ میں ایک معمولی سی تبدلی کر لی جائے تو بالکل
دُرست ہے۔ اور وہ تبدیلی یہ ہے کہ نظریہ کی مشہور تصویر میں
دکھائے گئے قطار میں موجود تمام کے تمام اراکین اپنا ُرخ موڑ
کر پیچھے کی طرف کر لیں۔ انسان کی پریشان حال زندگی کو
دیکھ کر لگتا ہے کہ اصل میں انسان ترقی کرتے کرتے بندر بن
گئے ہیں۔ مغربی ُممالک کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے لوگوں
میں یہ ترقی صاف دکھائی بھی دیتی ہے۔ اُن کی بڑھتی ہوئی
معصومیت دیکھ کر ہمیں وہ جانور ہی لگنے لگ گئے ہیں۔اس
وقت جو ڈارون کا نظریہ موجود ہے اس میں ایک سب سے بڑا
سوال یہ ہے کہ اگر بندر ترقی کر کہ انسان بنا ہے تو پھر ابھی
تک ہماری دُنیا میں اتنے بندر کیوں ہیں اور اُن کی ترقی میں کیا
رکاوٹ ہے؟ ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جانوروں کے خاندان ہوتے
ہیں جیسے ،گھوڑا ،گدھا ،خچر ،زیبرا وغیرہ۔ خرگوش ،چوہا،
ُگلہری ،نیولا وغیرہ۔ ایسے ہی انسان کا خاندان بندروں کا ہی ہے،
لیکن یہ علیحدہ نسل ہے۔ اور جس چیز نے انہیں اتنی ترقی دی
ہے وہ صرف ُزبان ہے۔ جس نے انہیں ایک دوسرے کے تجربات
سے بھی سیکھنے کی طاقت دی۔خیر ،اپ کی تحریر کا صرف
ایک حصہ ہے ڈارون کا نظریہ ،اصل تو یہی ہے کہ انسان کو
انسانوں اور جانوروں میں فرق رکھنا چاہیئے۔اپ کی تحریر بُہت
پسند ائی۔ بُہت ُشکریہ کہ اپ یہاں رقم کر دیتے ہیں اور ہم
فیضیاب ہو پاتے ہیں۔
وی بی جی
شیدا حرام دا
مارچ 2014 ,27
آپ کا انشائیہ پڑھا اور کچھ سوچ کر بیٹھ گیا۔ یہ مسئلہ کوئی آج
کا تو نہیں ہے۔ یہ ہمارے معاشرہ کا ازلی المیہ ہے۔ ہم نماز،
روزے ،حج کو اسلام کی ابتدا اور انتہا جانتے ہیں اور اس پیمانہ
پر ہر ایک کو پرکھتے ہیں۔ سو تو ٹھیک ہے لیکن جب
ایمانداری ،رشوت ،بد عنوانی ،حرام خوری کا مرحلہ آتا ہے تو
سوائے "میرے" ہر شخص مجرم ہوتا ہے اور گردن زدنی۔ اپنے
گریبان میں کوئی جھانک کر نہیں دیکھتا۔ پچھلے دنوں ہندوستان
گیا تو ایک بزرگ (جو کہ عمر بھر کچہری میں صدر قانونگو
رہے ہیں اور رشوت پر گزارہ ہی نہیں کیا بلکہ مکان دوکان
بنوائے ہوئے ہیں) سے میں ملنے گیا۔ وہ اپنے صاحبزادے کو
سمجھا رہے تھے کہ دفتر نہ جایاکرو۔ جب دوسرے نہیں آتے تو
تم کیوں جاتے ہو۔ بس پہلی تاریخ کو جا کر تنخواہ لے آیا کرو۔
موصوف کے ہاتھ بھر سفید داڑھی ہے اور پنج وقتہ نماز پر
سختی سے عامل ہیں ۔ میں نے جب ادب سے عرض کی کہ آپ
اپنی اولاد کو حرام کام کے لئے تاکید کر رہے ہیں تو الٹے مجھ
پر بگڑ پڑے کہ دنیا کرتی ہے تو ہم کیوں نہ کریں۔ عرض کیا کہ
دنیا زنا کرے گی تو آپ بھی کریں گے اور ۔۔۔۔۔ کھائے گی تو وہ
آپ بھی کھائیں گے؟ صاحب وہ ایسے بکھرے کہ الله دے اور
بندہ لے۔ میں نے اپنی عافیت اسی میں جانی کہ اٹھ کر چلا
جائوں۔اب امریکہ کی سنئے۔ میں یہاں تقریبا پچاس سال سے
مقیم ہوں۔ الله کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اس عرصہ
میں نہ تو میں نے کسی کو ایک پیسہ رشوت دی اور نہ ایک
پیسہ رشوت لی اور الله کے فضل سے سرکاری اور غیر سرکاری
سارے کام ہوتے چلے گئے اور آج بھی ہورہے ہیں۔ یہ ایک
"کافر ملک" کا حال ہے اور وہ ایک "مسلم" مملکت کی کیفیت
ہے۔ ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا۔
سرور عالم راز
اپ کی یہ تحریر کافی دن پہلے پڑھ لی تھی ،لیکن اپ کی تحریرں
ُکچھ ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا جھٹ سے جواب دینا نا انصافی
معلوم ہوتا ہے۔ اسے تحمل سے پڑھنا ،اس پر سوچتے رہنا اور
پھر کہیں جا کر ُکچھ کہا جا سکتا ہے۔ ہم تو پڑھ کر ایسے جذباتی
ہوئے تھے کہ اگر اُسی وقت لکھنے بیٹھ جاتے تو جانے اس
ُمعاشرے پر کیا کیا لکھ جاتے۔ بُہت جاندار تحریر ہے اور اتنے
بڑے معاشرتی مسائل کو اپ کا اس چھوٹی سی تحریر میں بیان
کر دینا لائق صد تحسین ہے۔ ہماری نا چیز داد قبول کیجے۔ اس
:تحیر سے ُمتعلق لکھنا تو بُہت ُکچھ تھا کہ
ہزار نُکتہ باریک تر رموز ایں جا ہست
لیکن اب قلم کو سنبھال لیا ہے ہم نے۔ اتنا کہنا چاہیں گے کہ
ہمارے ہاں یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ تعلیم سے تہذیب اور کردار
سازی ہوتی ہے۔ حالانکہ ہمارا خیال ہے کہ اب ایسا نہیں رہا۔
ہزاروں سال پہلے سے لے کر شائید تھوڑا عرصہ پہلے یعنی
شیخ سعدی مرحوم کے زمانے تک شائید ،کردار سازی تعلیم کی
اولین ترجیح ہوتی تھی۔ اب صرف رٹہ رہ گیا ہے۔ اتنی فضولیات
تعلیم کا حصہ بن گئی ہے۔ کردار سازی کے لیئے چند گھسی پٹی
حکایات پڑھا دی جاتی ہیں جن میں :پیاسا کوا :جب کنکریاں ڈالتا
ہے تو ہمارا پہلی جماعت کا 6سالہ بچہ بھی ہنستا ہے کہ کوا
ایسا نہیں کر سکتا۔ پڑھ لکھ لینے سے کچھ نہیں ہوتا ،اہم یہ ہے
کہ کیا پڑھا ہے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ ُمسلمان سؤر بھی صرف
اس لیئے نہیں کھاتا کہ کئی صدیوں سے نہیں کھایا اور اب کھا
کر متلی ہو گی وگرنہ تو شراب و سود بھی حرام ہیں۔ اور ہمارا یہ
خیال بھی ہے کہ اب صرف ادیب ہی یہ کوششیں کر رہے ہیں،
اور انہیں بھی بُہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم نے اپ کا بُہت وقت لے لیا۔ جس پر معذرت چاہیں گے۔تحریر پر
ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔۔
وی بی جی
علالتی استعارے
جولائی 2014 ,23
ُکچھ عرصہ غیر حاضر رہے۔ اپ جانتے ہی ہیں کہ رمضان میں
ہم ایسوں کو قید ہی کر لیا جاتا ہے
جناب کیا ہی اچھا مضمون ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول
کیجے۔ دُرست فرمایا اپ نے کہ اخلاقی اور روحانی بیماریوں کی
کسی کو فکر نہیں۔ ہم تو پہلے سے ہی قائل ہیں کہ اپ کی نظر
بہت گہرائی میں معاشرتی رویوں پر ٹکی ہے۔ ماشا الله بُہت
وسعت دی ہے اپ کے خیال کو قدرت نے۔
ویسے زیادہ تر یہ خودساختہ بیماریاں خواتین کو لاحق ہوتی
ہیں ،لیکن کئی مرد حضرات بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر
وقت یہی رونا روتے رہتے ہیں۔ ان سب بیماریوں کی اہم بات یہ
ہوتی ہے کہ یہ کسی ڈاکٹر کو سمجھ نہیں اتیں اور ان میں افاقہ
نہیں ہوتا۔ گھر میں اتنی اقسام کی دوائیاں ہوتی ہیں کہ توبہ اور
ایک وقت میں کھانے کے بعد اتنی گولیاں کھائی جاتی ہیں کہ
سالن کی بجائے ،چند نان فقط گولیوں کے ساتھ کھائے جا سکتے
ہیں۔ اگر کوئی ان کو یہ کہے کہ خدا نہ خواستہ اب وہ ہشاش
بشاش نظر ا رہے ہیں تو وہ اس شخص کے دشمن ہو جاتے ہیں۔
ایک جیسے چند لوگ مل کر بیٹھ جاتے ہیں تو مرغوں کی طرح
بیماریوں کا مقابلہ کراتے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر اور
حیران کن بیماری بتاتا ہے۔ ایک دوسرے کی بات ُسنتے کم ہیں
اور دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی بیماری بیان کرنے کا انتظار
کرتے رہتے ہیں۔ انہیں دوسروں کی ُکچھ بیماریاں سن کر افسوس
بھی ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ یہ بیماری انہیں کیوں نہ ہوئی۔
اخر میں بات اپ کے بیان پر ہی ختم ہوتی ہے کہ یہ خود ایک
روحانی و اخلاقی بیماری ہی ہے۔
تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد
وی بی جی 31
دوسری بار
آپ کی تحریر ہمیشہ کی طرح دلچسپ ہے۔ آپ کے پیر صاحب نے
لوگوں کا جو تجزیہ کیا ہے وہ تو بالکل صحیح ہے لیکن اس
صورت حال کا علاج کیا ہے یہ نہ معلوم ہو سکا۔ ایک بات اور
عرض کروں کہ پڑھنے کے بعد احساس تشنگی رہ گیا۔ ایک تو
آپ کبھی کبھی پنجابی کے کچھ مخصوص الفاظ اور محاورے لکھ
جاتے ہیں جن سے ہر شخص واقف نہیں ہے گو سیاق وسباق
سے اکثر معنی اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ دوسرے اس انشائیہ کا
اختتام کسی نتیجہ پر قاری کو نہیں پہنچا سکا۔ یہ ممکن ہے کہ
میرا تاثر بالکل ہی غلط ہو۔ اس صورت میں آپ سے معذرت کا
طالب ہوں۔
سرور عالم راز
جناب کیسے ممکن ہے کہ یہ افسانہ پسند نہ ایا ہو۔ ماشا الله نئے
موضوع پر ہے اور ہمارے اپنے خیالات کی تائید کرتا ہے سو
پسند نہ انا تو ممکن نہ تھا۔ البتہ ُکچھ لکھتے ہوئے ذرا سا
ہچکچائے تھے کہ محترم سرور عالم راز سرور صاحب نے ایک
ادھ ایسی بات کی جس سے ہمیں مکمل اتفاق نہیں۔ سوچا ُکچھ
لکھیں گے تو یہ اختلاف سامنے ا جائے گا اور ہم اپنی کم عقلی
اور کم علمی کے باعث کہیں انہیں خفا نہ کر دیں۔ اب چونکہ ُکچھ
کہنا لازم ہو گیا ہے تو عرض کئیے دیتے ہیں۔
ہمارے ناقص علم اور کم تجربہ کاری کی روشنی میں افسانہ ہوتا
ہی ایسا ہے کہ تشنگی چھوڑ جاتا ہے۔ افسانے کے مقاصد اور
انداز ،مضمون سے قطعی مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مقصد کسی
کہانی کو مکمل کرنا بھی نہیں ہوتا۔ مضمون کا کام تو شاید یہی
ہوتا ہے کہ وہ پہلے کسی مسئلہ کی طرف توجہ دلائے ،پھر اس
کی اصلیت کو پرکھے ،فوائد نقصانات ،اثرات ،اور پھر اخر میں
کہیں جا کر ان کے حل کو واضح کرے۔ لیکن افسانہ اپنا کام اس
چھوٹی سی تقریباً نامکمل کہانی میں کر گیا ہے۔ معاشرے کی
کسی ایک تصور سے روشناس کروا گیا ہے۔ وہ تصور مثبت بھی
ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔
اسی خوبصورت افسانہ کے حوالے سے ،اپ نے پڑھنے والوں
کے ذہنوں کو ان کرداروں کو پہچاننا سکھایا ہے جو مذہبی فرقہ
واریت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ دوسروں کے ذہنوں میں نفرت
بھرتے ہیں۔ لوگ اگر اس نفرت سے اتفاق نہ بھی کریں تو کھل
کر اظہار سے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کو بھی مذہبی طور پر
لوگ دھتکار نہ دیں۔ الفاظ کا چناؤ اور کہانی کا بیان یہ ایسے
عناصر سے پڑھنے والے کے دل میں نفرت پیدا کر رہا ہے اور
درزی کا کردار ان تکالیف کا شکار ہونے والوں کے لیئے دل میں
احترام پیدا کر رہا ہے۔ افسانہ اپنا کام کر ُچکا ہے اور اس کا حل
کوئی واضح ُکلیہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہی اس کا حل ہے کہ ایسے
مولوی سے نفرت کی جائے اور اسے دھتکار دیا جائے اور
ایسے درزی کا خیال رکھا جائے جو اس طرح کے مسئلہ کا
شکار ہو۔
اس خوبصورت اختتام پر بھی ہم اپ کو داد پیش کریں گے۔ ہلکی
سی تشنگی کا احساس جو قاری کو اس پر مجبور کرتا رہے گا کہ
افسانہ ُکچھ عرصہ یا وقت تک ذہن میں گردش کرتا رہے۔ اور پھر
اس کا پیغام اہستہ اہستہ خود ہی لا شعور کا حصہ بن جائے گا
اور وقت پر شعور میں ا کر معاشرے کو فائدہ دے گا۔ افسانہ کو
اس سے غرض نہیں کہ کہانی کے ہیرو نے اسے چیرا یا نہیں۔
لیکن ہمیں یقین کے کہ ایسے کرداروں کو قاری کا ذہن خود بخود
چیر کر رکھ دے گا۔
ہماری طرف سے داد قبول کیجے۔ اور محترم سرور عالم راز
سرور صاحب سے بھی معذرت چاہیں گے اگر ہم ُکچھ بے ُسرے
ہو گئے ہوں۔ جو حال سو حاضر
وی بی جی32
اردو انجمن پر باباجی مقصود حسنی کے دستیاب افسانے
پٹھی بابا ١-
کریمو دو نمبری ٢-
میں ابھی اسلم ہی تھا ٣-
جواب کا سکتہ ٤-
ماسٹر جی ٥-
بڑے ابا ٦-
گناہ گار ٧-
انا کی تسکین ٨-
چوتھی مرغی ٩-
انگریزی فیل ١٠-
تنازعہ کے دروازے پر ١١-
کامنا ١٢-
ابا جی کا ہم زاد ١٣-
کملا کہیں کا ١٤-
دو دھاری تلوار ١٥-
آوارہ الفاظ ١٦-
شیدا حرام دا ١٧-
١٨زینہ
ممتا عشق کی صلیب پر ١٩-
مائی جنتے زندہ باد ٢٠-
حلالہ ٢١-
بڑا آدمی ٢٢-
من کا بوجھ ٢٣-
آنچل جلتا رہے گا ٢٤-
بیوہ طوائف ٢٥-
جنگ ٢٦-
دو لقمے ٢٧-
فقیر بابا ٢٨-
بازگشت ٢٩-
میری ناچیز بدعا ٣٠-
دو منافق ٣١-
آخری کوشش ٣٢-
معالجہ ٣٣-
ابھی وہ زندہ تھا٣٤-
سچائی کی زمین ٣٥-
لاروا اور انڈے بچے ٣٦-
ان پڑھ ٣٧-
پاخانہ خور مخلوق٣٨-
دائیں ہاتھ کا کھیل ٣٩-
پنگا ٤٠-
الله جانے ٤١-
وہ کون تھے ٤٢-
دروازے سے دروازے تک ٤٣-
یہ کوئی نئی بات نہ تھی ٤٤-
اسے پیاسا ہی رہنا ہے ٤٥-
پہلا قدم ٤٦-
ادریس شرلی ٤٧-
اسلام اگلی نشت پر ٤٨-
موازنہ ٤٩-
سرگوشی ٥٠-
علالتی استعارے ٥١-
دوسری بار ٥٢-
آخری کوشش ٥٣-
چار چہرے ٥٤-
بازگشت ٥٥-
بیوہ طوائف ٥٦-
کیچڑ کا کنول ٥٧-
درج بالا تفصیلات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو انجمن
کتنی امیر اور جاندار ہے۔ یہ مواد صرف ایک شخص سے متعلق
ہے۔ اگر شخصی حوالہ سے مواد کی اصناف کے تحت جمع بندی
ہو جائے تو مشرق و مغرب کی جامعات کو بہت سا معیاری مواد
میسر آ جائے گا اور اس پر تحقیقی نوعیت کا کام کرنا آسان ہو
جائے گا۔ اردو انجمن کا کوئی رکن بھی یہ کام کرنے کا بیڑا اٹھا
سکتا ہے۔ بلاشبہ اہل تحقیق اور اہل نقد پر یہ بہت بڑا احسان ہو
گا۔
----------------------------------------
حوالہ جات
1- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9023.02-
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0
3- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8365.0
4- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9069.0
5- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9044.0
6- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9019.0
7- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9000.0
8- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8987.0
9- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8972.0
10- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8952.0
11- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8976.0
12- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8944.0
13- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8934.0
14- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8916.0
15- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8904.0
16- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8895.0
17- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8580.018-
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8673.0
19- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8880.0
20- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8885.0
21- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8863.0
22- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8753.0
23- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8844.0
24- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8840.025-
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&
topic=8809.0
26-
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&
topic=8808.0
27-
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&
topic=8841.0
28-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf5
7&topic=8798.0
29-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf5
7&topic=8794.0
30-
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&
topic=8787.0
31-
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9097.032-http://www.bazm.urduanjuma
n.com/index.php?topic=9162.msg56757#new
حضرت بلھے شاہ قصوری کی اردو شاعری
محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور
قصور جہاں اپنی قدامت اور مخصوص ثقافت کے حوالہ سے اپنی
پہچان رکھتا ہے وہاں اپنی الگ سے تاریخی حثیت بھی رکھتا
ہے۔ شہزادہ کسو‘ امیر خسرو‘ اخوند سعید‘ راجہ ٹوڈر مل‘
شہزادہ سلیم عرف شیخو وغیرہ کی اس شہر سے نسبت رہی ہے۔
استاد امانت علی اور نور جہاں کو کیوں کر فراموش کیا جا سکے
گا۔ کھانے کے شوقین حضرات کے لیے اندرسے‘ قصوری
فالودہ خاص دل چسپی کا سامان ہیں۔ لو قصوری جتی کو ‘میتھی
تو میں بھول ہی رہا تھا۔
ان تمام چیزوں سے ہٹ کر‘ وراث شاہ اور بلھے شاہ تو ادبی دنیا
میں کسی بھی سطح پر فراموش نہیں کیے جا سکتے۔ ان ادبی
شخصیتوں سے تحقیقی حوالہ سے وابستہ لوگ بھی کبھی
فراموش نہ کیے جا سکیں گے۔ قصور کی ادب روایت کم زور
نہیں یہ الگ بات ہے کہ اس جانب کسی کی خصوصی توجہ نہیں
گئی۔ ایک سے ایک بڑھ کر علمی اور ادبی شخصیات پڑی ہیں۔
قصور حضرت بلھے شاہ قصوری کی وجہ سے دنیا بھر میں
شہرت رکھتا ہے۔ صوفیا اور بھی ہیں لیکن حضرت بلھے شاہ
قصوری اپنے صوفیانہ کلام کی وجہ سے معروف ہیں۔ انھوں نے
اپنے کلام میں جہاں صوفیانہ معاملات کو پیش کیا ہے وہاں
سماجی امور کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ سماجی رویوں کی بھی
عکاسی کی ہے۔ عصری سیاسی قوتوں کو بھی تنقید کا نشانہ
بنایا ہے۔ ان کا کلام علامتوں استعاروں کے ذریعے ہی سہی اپنے
عہد کی عکاسی کرتا ہے۔ بعض جگہ کھل کر بھی تنقید کرتے
ہیں۔ غالبا یہی وجہ رہی ہو گی کہ ان کے عہد کے مخصوص
طبقے ان سے نالاں تھے۔
حضرت شاہ حسین لاہوری نے پنجابی شاعری میں کافی کو
متعارف کرایا اور اسے عروج دیا۔ ان کی کافیاں راگ پر لکھی
گئیں۔ ہر کافی کسی نہ کسی راگ پر ہے۔ حضرت شاہ حسین
لاہوری نے کافی کو جو مقام بخشا اسے حضرت بلھے شاہ
قصوری شہرت کی بلندیوں پر لے گیے۔ ان کی کافیاں راگ کے
علاوہ مروجہ میٹر پر ہیں۔ ان میں غنائیت کا عنصر بدرجہ اتم
موجود ہے۔ حضرت بلھے شاہ قصوری کی کافیوں کو ملک کے
ممتاز گلوکاروں نے گا کر شہرت اور عزت حاصل کی۔ عابدہ
پروین‘ حامد علی بیلا‘ نصرت فتح علی خاں‘ پٹھانے خاں وغیرہ
ان میں شامل ہیں۔ یہاں تک کہ بھارتی گلوکاروں نے بھی ان کی
کافیوں کو شوق اور عقیدت سے گایا ہے۔ بعض بول تو عوامی
سطح پر محاورے کا درجہ اختیار کر گیے ہیں۔
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے بڑی محنت‘ لگن اور دیانت داری سے
ان کا کلام اکھٹا کیا اور اسے کلیات کی شکل دے کر زبان و ادب
پر بہت بڑا احسان کیا۔ بلاشبہ ان کی کوشش عوامی سطح پر
مقبولیت کے درجے پر فائز ہوئی۔ اسے آج بھی اساسی ماخذ کا
درجہ حاصل ہے۔ باباجی مقصود حسنی کے خصوصی مطالعہ میں
حضرت بلھے شاہ قصوری رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے
مقالہ۔۔۔۔۔بلھے شاہ کی شاعری کا لسانی مطالعہ۔۔۔۔ میں ڈاکٹر فقیر
محمد فقیر کے مرتب کردہ کلیات کو ہی اساسی ماخذ کے طور پر
استعمال کیا ہے۔
باباجی مقصود حسنی نے اس لسانیاتی مطالعے سے یہ بات
واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجابی کلام میں حضرت
بلھے شاہ قصوری کے اردو کلام کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ ان
کے اس مطالعے سے حافظ شیرانی کے نظریے۔۔۔۔ پنجاب میں
اردو۔۔۔۔ کو تقویت ملتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ باباجی مقصود
حسنی اس نظریے سے قطعی متفق نہیں۔ اردو کے حوالہ سے ان
کا اپنا الگ سے نقطہءنظر ہے۔ انھوں نے ۔۔۔۔۔اردو ہے جس کا
نام۔۔۔۔۔ میں اپنا نظریہ پیش کر دیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے
حضرت بلھے شاہ قصوری کے کلام میں اردو شاعری کی
نشاندہی کی تھی۔ باباجی مقصود حسنی نے اسے عملی شکل دے
کر اردو والوں کو خوشخبری کا سندیسہ دیا ہے۔
انھوں نے اپنے اس لسانیاتی مطالعہ میں اس کی پانچ صورتیں
بتائی ہیں۔
مکمل اردو کلام ١-
پنجابی کلام میں اردو کلام کی آمیزش ٢-
ہندی نما اردو کلام ٣-
پنجابی کلام میں اردو مصرعے ٤-
ا اردو نما پنجابی کلام ٥-
ب مکمل پنجابی کلام
ڈاکٹر ریاض شاہد نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں باباجی کے
مقالے کو بنیادی ماخذ کے طور پر استعمال کیا ہے اور ان کے
موقف کو دہرایا ہے۔
باباجی نے اپنے اس تحقیقی کام کو بڑی باریک بینی سے انجام
دیا ہے۔ سارے کلام کو الگ الگ جزئیات میں تقسیم کرکے دیکھنا
واقعی بڑے دل گردے اور محنت کا کام ہے۔ ان کی اس محنت کو
قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا تاہم اس تحقیقی کاوش کو اس کا جائز
مقام حاصل نہیں ہو سکا۔ شاید اس کی وجہ بھی ہے کہ وہ
اشتہاربازی نہیں کرتے۔ ایک کام کی تکمیل کے بعد کسی دوسرے
کام میں جٹ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد امین کا کہنا ہے
یہ پہلی کتاب ہے جس میں کسی شاعر کا باقاعدہ ساختیاتی
مطالعہ کیا گیا ہے۔
اردو شعر فکری و لسانی رویے ص١١٥ :
انھوں نے اپنے اس مطالعے کو سات حصوں میں تقسیم کیا ہے
مذکر اسما کے خاتمے کی آواز ١-
اردو میں جمع بنانے کے اصول
فعلی صورتیں
حاصل مصدر بنانے کے اصول
فعلی مادوں کے مختلف اصول
یو اور ئیو کا لاحقہ چند مخصوص مرکبات
ضمائر کا استعمال
اسم صفت ٢-
حروف
‘حروف عطف‘ حروف اضافت‘ حرف استفہام‘ حرف استثنی
حرف شرط‘ حروف جار‘ حروف تردید
آوازوں کا ہیر پھیر ٣-
نوں غنہ کا حشوی استعمال
نوں غنہ کا حذف
قدیم اردو املا
تلمیحات
لفظوں کے نئے روپ
چند اردو مصادر
قدیم اردو پر مقامی زبانوں کی چھاپ ٤-
تجزیاتی مطالعہ ٥-
چند الفاظ ٦-
اردو کلام ٧-
جو کتاب میں شامل نہیں‘ باباجی کے پاس مسودے کی صورت
میں موجود ہے۔
باباجی نے اپنے موقف کی تائید میں اردو جدید و قدیم کلام سے
مثالیں پیش کی ہیں ساتھ حضرت بلھے شاہ قصوری کے کلام
سے بھی مثالیں دی ہیں۔ اس طرح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے
کہ پنجابی کلام میں اردو کلام بھی شامل ہے۔
انھوں نے اس مطالعے کے لیے بائیس کتب سے استفادہ کیا ہے۔
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ماہر لسانیات
پرفیسر یونس حسن
ڈاکٹر مقصود حسنی ایک منفرد اور نامور ماہر لسانیات ہیں۔ ان
کے درجنوں مقالے رسائل و جرائد اور انٹر نیٹ کی مختلف ویب
سائٹس پر پڑھنے کو ملتے ہیں۔ غیر مطبوعہ مقالات دیکھنے کا
مجھے اتفاق ہوا ہے۔ ان مقالات پر سرسری نظر ڈالنے سے
بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ لسانیات میں غیر معمولی قدرت
رکھتے ہیں۔ ان مقالات میں موضوعات کا تنوع اور رنگا رنگی
ملتی ہے۔ راقم اپنے بےلاگ مطالعے اور جائزے سے اس
نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ مقالات لسانیات کے باب میں ایک اہم
اضافہ ہیں۔
ان مقالات میں زبان کے جو موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں
ان میں آوازوں کا نظام بڑی خصوصیت کا حامل ہے۔ زبانوں میں
آوازیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ الفاظ کی تشکیل میں
آوازیں کلیدی کردار کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے
لفظیات‘ صوتیات‘ معنویات‘ ہیت‘ ساخت‘ گرائمر اور بناوٹ کو
بھی موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے لفظوں کی سماجیات اور
نفسیات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ساختیات اور پس ساختیات پر بھی نمایاں کام
کیا ہے۔ انہوں باباجی بلھے شاہ صاحب کا لسانی مطالعہ کیا ہے
جسے ڈاکٹر محمد امین نے کسی شاعر کے کلام کا پہلا
ساختیاتی مطالعہ قرار دیا ہے۔ مرزا غالب کی لفظیات
کےساختیاتی مطالعہ کے ساتھ ساتھ ساختیات پر بھی تین مقالے
تحریر کیے ہیں۔
ان کےاس کام سے کئی لسانی اور ساختیاتی جہتیں سامنے آتی
ہیں۔
مزید براں ان کے دستیاب مقالات میں زبانوں کے وجود میں‘
آنے ترقی کرنے یا بعض الفظ کے متروک ہو جانے کے حوالہ
سے بھی بہت سا مواد میسر آتا ہے۔ اردو زبان کے وہ عاشق
ہیں اس لیے وہ کسی مقام پر اسے نظرانداز نہیں ہوتی۔ اردو پر
گفتگو کے دوران اس کی موجودہ صرتحال پر بھی گفتگو کرتے
ہیں۔
عربی فارسی اور انگریزی کےاردو پر اثرات کو بھی اپنی تحقیق
کا حصہ بنایا ہے۔ تقابلی مطالعے کے دوران اردو سے مثالیں
ضرور پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے جاپانی کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی ہے۔ اس کا
کچھ حصہ ترجمہ ہو کر اردو نیٹ جاپان پر قسطوں میں شائع ہو
چکا ہے۔
ڈاکٹر مقصود حسنی نے اردو کی ذاتی آوازیں اور بدیسی آوازوں
کے دخول پر بھی گفتگو کی ہے۔ مہاجر زبانوں کے الفاظ کا
مقامی زبانوں میں دخول اور اشکالی اور ان کی معنوی تبدیلی پر
بھی گفتگو کی ہے۔ وہ بھاری آوازوں کو بھی زیر بحث لائے
ہیں۔
غالب پر ان کے لسانی کام کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال اوپن
یونیورسٹی نےمحمد لطیف لیکچرار اردو پاکپتن کو ایم فل اردو
کا مقالہ بعنوان مقصود حسنی اور غالب شناسی تفویض کیا ہے۔
ان کے کچھ مقالات کی فہرست درج کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے
کہ یہ تفصیل لسانیات سے شغف رکھنے والوں کے لیے
خصوصی دل چسپی کا موجب بنے گی۔
دستیاب اردو مضامین کی فہرست
اردو ہے جس کا نام ١-
لفظ ہند کی کہانی ٢-
ہندوی تاریخ اور حقائق کے آئینہ میں ٣-
ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود ٤-
اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ٥-
اردو کی چار آوازوں سے متعلق گفتگو ٦-
اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ ٧-
اردو میں رسم الخط کا مسلہ ٨-
انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات ٩-
سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں ١٠-
اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک ١١-
اردو سائنسی علوم کا اظہار ١٢-
قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے ١٣-
اردو‘ حدود اور اصلاحی کوششیں ١٤-
قدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ١٥-
بلھے شاہ کی زبان کا لسانی مطالعہ ١٦-
شاہی کی شاعری کا لسانی مطالعہ ١٧-
خواجہ درد کے محاورے ١٨-
سوامی رام تیرتھ کی اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ١٩-
الفاظ اور ان کا استعمال ٢٠-
آوازوں کی ترکیب و تشکیل کے عناصر ٢١-
الفاظ کی ترکیب‘ استعمال اور ان کی تفہیم کا مسلہ ٢٢-
زبانوں کی مشترک آوازیں ٢٣-
پاکستان کی زبانوں کی پانچ مخصوص آوازیں ٢٤-
عربی زبان کی بنیادی آوازیں ٢٥-
عربی کی علامتی آوازیں ٢٦-
دوسری بدیسی آوازیں اور عربی کا تبادلی نظام ٢٧-
پ کی متبادل عربی آوازیں ٢٨-
گ کی متبادل عربی آوازیں ٢٩-
چ کی متبادل عربی آوازیں ٣٠-
مہاجر اور عربی کی متبادل آوازیں ٣١-
بھاری آوازیں اور عربی کے لسانی مسائل ٣٢-
چند انگریزی اور عربی کے مترادفات ٣٣-
پنجابی اور عربی کا لسانی رشتہ ٣٤-
چند انگریزی اور عربی مشترک آوازیں ٣٥-
انٹرنیٹ پر عربی میں اظہار خیال کا مسلہ ٣٦-
عربی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ٣٧-
عربی اور عہد جدید کے لسانی تقاضے ٣٨-
فارسی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ٣٩-
پشتو کی چار مخصوص آوازیں ٤٠-
آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی ٤١-
انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ٤٢-
انگریزی اور اس کے حدود ٤٣-
انگریزی آج اور آتا کل ٤٤-
تبدیلیاں زبانوں کے لیے وٹامنز کا درجہ رکھتی ہیں ٤٥-
زبانیں ضرورت اور حالات کی ایجاد ہیں ٤٦-
معاون عناصر کے پیش نظر مزید حروف کی تشکیل ٤٧-
برصغیر میں بدیسیوں کی آمد اور ان کے زبانوں پر اثرات ٤٨-
کچھ دیسی زبانوں میں آوازوں کا تبادل ٤٩-
جاپانی میں مخاطب کرنا ٥٠-
جاپانی اور برصغیر کی لسانی ممثالتیں ٥١-
اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ ٥٢-
لسانیات کے متعلق کچھ سوال و جواب ٥٣-
انگریزی مضامین کی دستیاب فہرست
1- Urdu has a strong expressing power and a sounds system
2- Word is to silence instrument of expression
3- This is the endless truth
4- The words will not remain the same style
5- Language experts can produce new letters
6- Sound sheen is very commen in the world languages
7- Native speakers are not feel problem
8- Languages are by the man and for the man
9- The language is a strong element of pride for the people
10- Why to learn Urdu under any language of the world
11- Word is nothing without a sentence
12- No language remain in one state
13- Expression is much important one than designates that correct
or wrong writing
14- Student must be has left liberations in order to express his
ideas
15- Six qualifications are required for a language
17- Sevevn Senses importence in the life of a language
18- Whats bad or wrong with it?!
19- No language remains in one state
20. The common compound souds of language
21- The identitical sounds used in Urdu
22- Some compound sounds in Urdu
23- Compound sounds in Urdu (2)
24- The idiomatic association of urdu and english
25- The exchange of sounds in some vernacular languages
26- The effects of persian on modern sindhi
27- The similar rules of making plurals in indigious and
foreign languages
28- The common compounds of indigious and foreign
languages
29- The trend of droping or adding sounds
30- The languages are in fact the result of sounds
31- Urdu and Japanese sound’s similirties
32- Other languages have a natural link with Japanese’s
sounds
33- Man does not live in his own land
34- A person is related to the whole universe
35- Where ever a person
36- Linguistic set up is provided by poetry
37- How to resolve problems of native and second language
38- A student must be instigated to do something himself
39- Languages never die till its two speakers
40- A language and society don’t delovp in days
41- Poet can not keep himself aloof from the universe
42- The words not remain in the same style
43- Hindustani can be suggested as man's comunicational
language
44- Nothing new has been added in the alphabets
45- A language teacher can makea lot for the human society
46- A language teacher would have to be aware
47- Hiden sounds of alphabet are not in the books
48- The children are large importence and sensative resource of the
sounds
49- The search of new sounds is not dificult matter
50- The strange thought makes an odinary to special one
51- For the relevation of expression man collects the words from the
different caltivations
52- Eevery language sound has has then two prononciations
53- Language and living beings
مقصود حسنی اور اردو زبان
قاضی جرار حسنی
پروفیسر مقصود حسنی کا اردو سے جنم جنم کا پیار ہے۔ اس کی
‘ترویج و ترقی کے لیے زندگی بھر کوشش کی۔ افسانہ‘ شاعری
مزاح‘ لسانیات‘ تنقید‘ تحقیق‘ مشرق و مغرب کے شعر و ادب‘
تراجم وغیرہ پر کام تو کیا ہی ہے‘ لیکن اس کے نفاذ کے لیے
بھی کوششیں کی ہیں۔ اس کے لیے‘ اردو سوسائٹی پاکستان قائم
درخواستیں گزاریں‘ علما سے فتوے لیے‘ قراردادیں منظور ‘کی
پتا ‘کروائیں‘ مقتدرہ حلقوں سے رابطے کیے‘عدالت دیکھی
نہیں کیا کچھ کیا۔
ان تمام باتوں سے ہٹ کر‘ اردو کے بارے مضامین تحریر کیے۔
یہ مضامین جہاں اردو کی تاریخ سے متعلق ہیں‘ وہاں اردو کے
روشنی ڈالتے ہیں۔ ان مضامین میں اردو ‘ابلاغی دائرے پر بھی
کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ ان مضامین میں دیگر
زبانوں سے تقابلی صورت بھی ملتی ہے۔ تقابل میں ابلاغ‘
آوازوں کا نظام اور اس زبان کی لچک پذری کو باطورخاص‘ زیر
بحث لایا گیا ہے۔ ان تینوں کے تحت اردو کو اس قابل بتایا ہے‘
کہ وہ انسانی رابطے کی زبان‘ بننے کی اہلیت رکھتی ہے۔
پروفیسر مقصود حسنی نے‘ اس کے تینوں رسم الخط پر بھی
گفتگو کی ہے۔ انہوں نے خواندگی کی صورتوں پر بھی گفتگو کی
ہے۔ دلائل سے ثابت کیا ہے‘ کہ اردو اپنے لسانی نظام اور
آوازوں کی کثرت کے حوالہ سے‘ دنیا کی بہتریں زبان ہے۔ اسے
استعمال میں آنے کے حوالہ سے‘ چینی کے قریب قریب کی زبان
قرار دیا۔
انہوں نے اپنے مضامین میں‘ انگریزی کے لسانی نقائص پر بھی
گفتگو کی ہے۔ آوازوں کی کمی اور نقائص کو بھی صرف نظر
نہیں کیا۔ ان کی تحریریں اخبارات و رسائل میں چھپنے کے
علاوہ‘ انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔ دستیاب پچاس تحریروں کی
فہرست درج خدمت ہے۔ ہر عنوان تحریر کی نوعیت و حیثیت کو
واضح کر رہا ہے۔ اب مضامین کی فہرست ملاحظہ ہو۔
اردو کی ترویج کا ترجیحی بنیادوں پر اہتمام لازم ہے روزنامہ ١-
امروز لاہور ٦ستمبر ١٨٨٧
اردو کو اپنا مقام کیوں نہیں ملا روزنامہ مشرق لاہور ٢- ١٧
جون ١٩٨٩
‘انگریز کی اردو نوازی کیوں روزنامہ امروز لاہور ٣- ٢٤
جولائی ٢٥‘ ٢٦‘ ٢٧ ١٩٩٠
اردو کا تاریخی سفر روزنامہ جہاں نما لاہور ٢دسمبر ٤-
١٩٩٠
سرسید تحریک نے اردو کو مسلمانوں کی زبان کا درجہ دیا ٥-
روزنامہ مشرق لاہور ٢٧جنوری ١٩٩١
اردو اور عصری تقاضے روزنامہ جہاں نما لاہور ٦- -١٩
اگست ١٩٩١
اردو کی ترقی آج کی ضرورت روزنامہ وفاق لاہور ١٨مارچ ٧-
١٩٩٢
روزنامہ مشرق لاہور ١اپریل ١٩٩٢
اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کی اپنی زبان روزنامہ وفاق لاہور ٨-
١٧مارچ ١٩٩٢
اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم اسلام کی ضرورت ہے روزنامہ مشرق ٩-
لاہور ٥فروری ١٩٩٢
اردو کو لازمی زبان اور مضمون کا درجہ دیا جائے ١٠-
روزنامہ مشرق لاہور ٩فروری ١٩٩٢
اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم انسانی کی ضرورت کیوں روزنامہ ١١-
مشرق لاہور ١٩فروری ١٩٩٢
انگریزی زبان۔۔۔۔۔فروغ کیسے ہو روزنامہ پاکستان لاہور ١٢-
١مارچ ١٩٩٢
اردو سے نفرت ایک نفسیاتی عارضہ روزنامہ مشرق ١٣-
لاہور ٩اپریل ١٩٩٢
اردو برصغیر کے مسلمانوں کی زبان روزنامہ جہاں نما ١٤-
لاہور ١٠اپریل ١٩٩٢
اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے روزنامہ وفاق لاہور ١٥-
١٩اپریل ١٩٩٢
انگریزی کی مقبولیت میں کمی کیوں روزنامہ مشرق لاہور ١٦-
٢٧اپریل ١٩٩٢
اردو پر چند اعتراضات اور ان کا جواب روزنامہ وفاق ١٧-
لاہور ٢٠مارچ ١٩٩٢
انگریزی قومی ترقی کی راہ پتھر ماہنامہ اخبار اردو اسلام ١٨-
آباد نومبر ١٩٩٢
اردو کی مختصر کہانی اہل قلم ملتان ١٩- ١٩٩٦
اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ماہنامہ نوائے پٹھان لاہور ٢٠-
جون ٢٠٠٦
اردو بالمقابلہ انگریزی روزنامہ وفاق لاہور س ن ٢١-
زبان اور قومی یک جہتی مسودہ ٢٢-
اردو ہے جس کا نام ٢٣-
اردو کے متعلق انٹرنیٹ پر ملنے والے مضامین
لفظ ہند کی کہانی ٢٤-
ہندوی تاریخ اور حقائق کے آئینہ میں ٢٥-
ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود ٢٦-
اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ٢٧-
اردو کی چار آوازوں سے متعلق گفتگو ٢٨-
اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ ٢٩-
اردو میں رسم الخط کا مسلہ ٣٠-
انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات ٣١-
سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں ٣٢-
اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک ٣٣-
اردو سائنسی علوم کا اظہار ٣٤-
قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے ٣٥-
حدود اور اصلاحی کوششیں ‘اردو ٣٦-
قدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ٣٧-
انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ٣٨-
انگریزی اور اس کے حدود ٤٩-
٤٠- انگریزی آج اور آتا کل
٤١- آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی
٤٢- اردو' رسم الخط کے مباحث اور دنیا کی زبانیں
43- Lets learn urdu
44- Urdu has a strong expressing power and a
sounds system
45- Why to learn Urdu under any language of the
world
46- The identitical sounds used in Urdu
47- Some compound sounds in Urdu
48- Compound sounds in Urdu (2)
49- Urdu and Japanese sound’s similirties
50- Urdu can be suggested world's language
مقصود حسنی اور اقبال فہمی
قاضی جرار حسنی
اقبال شاعر اور مفکر کی حیثیت سے‘ بین الاقوامی شہرت کے
حامل شخص ہیں۔ پاکستان میں انہیں مفکر پاکستان کی حیثیت
بھی حاصل ہے۔ معاملات میں‘ بات کو باوزن کرنے کے حوالہ
سے‘ ان کے کسی ناکسی شعر کو درمیان میں لایا جاتا ہے۔ شاید
ہی کوئی ایسا شخص ہو گا‘ جسے اتنی پذیرائی حاصل ہوئی گی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ان پر بہت سا تحقیقی کام ہوا ہے اور ہو رہا
ہے۔ جامعات میں شعبہءاقبالیات قائم ہو چکا ہے‘ تاہم لوگ ذاتی
سطح پر بھی مصروف کار ہیں۔
پروفیسر مقصود حسنی بھی اس ذیل میں پیچھے نہیں رہے۔
انہوں نے ناصرف‘ ان کی حیات کے مختلف گوشوں کو قلم بند
کیا ہے‘ بلکہ اقبال کی فکر پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ اقبال کے
مطالعہ کے لیے چند اصول بعنوان۔۔۔۔۔۔۔۔ مطالعہءاقبال کے لیے
چند معروضات۔۔۔۔۔۔ بھی وضع کیے ہیں۔ یہاں ان کے کچھ مضامین
کی فہرست پیش کی جا رہی ہے ممکن ہے اقبال پر کام کرنے
والوں کے کام کی نکلے۔
علامہ اقبال نے عصبیت کے لیے ربط ملت کی اصطلاح ١-
استعمال کی ہے
روزنامہ مشرق لاہور ١٠جنوری ١٩٨٨
اقبال اور تسخیر کائنات کی فلاسفی روزنامہ وفاق لاہور ٢- ٢١
فروری ١٩٨٩
مسلمان اقبال کی نظر میں روزنامہ وفاق لاہور ٨مارچ ٣-
١٩٨٩
اقبال کا نظریہءقومیت روزنامہ وفاق لاہور ٢٣مارچ ٤-
١٩٨٩
اقبال اور تحریک آزادی ہفت روزہ جہاں نما لاہور ٢٣اپریل ٥-
١٩٨٩
علامہ اقبال کے کلام میں دعوت آزادی روزنامہ وفاق لاہور ٦-
٣٠اکتوبر ١٩٨٩
اکبر اقبال اور مغربی زاویے ہفت روزہ فروغ حیدرآباد ٧- ٢٢
جولائی ١٩٩١
فلسفہءعجم۔۔۔۔ایک جائزہ مہنامہ سخنور کراچی مارچ ٨- ٢٠٠١
نظم میں اور تو کے حواشی الادب مجلہ اسلامیہ کالج قصور ٩-
٢٠١٤
اقبال کا فلسہءخودی اردو انجمن ڈاٹ کام ١٠-
فسلفہءخودی اس کے حدود اور ڈاکٹر اقبال تفریح میلہ ڈاٹ ١١-
کام
اقبال کے یورپ روانگی سے پہلے کے احوال اردو انجمن ١٢-
ڈاٹ کام
اقبال لندن میں اردو نیٹ جاپان ١٣-
کتابیات اقبال اردو انجمن ڈاٹ کام ١٤-
اقبال اور غزالی کی فکر کا تقابلی مطالعہ اردو انجمن ڈاٹ ١٥-
کام
اقبال کا نظریہءمعاش ومعاشرت اردو انجمن ڈاٹ کام ١٦-
اقبال اور مغربی مفکرین مسودہ ١٧-
اقبال کا تصور عشق مسودہ ١٨-
اقبال کے ہاں شاہین کا استعارہ مسودہ ١٩-
اقبال اور قانون آزادی تفصیلات درج نہیں ہیں ٢٠-
مطالعہءاقبال کے حوالہ سے چند معروضات مسودہ ٢١-
نظم طلوع اسلام ۔۔۔۔۔ایک جائزہ مسودہ ٢٢-
مطالعہءاقبال کے چند ماخذ اردو انجمن ڈاٹ کام ٢٣-
الادب آور اقبال فہمی اردو انجمن ڈاٹ کام ٢٤-
مقصود حسنی اور سائینسی ادب
قاضی جرار حسنی
شعر ادب سے متعلق‘ کسی شخص کا‘ مختلف سائینسز پر قلم
اٹھانا‘ ہر کسی کو عجیب محسوس ہو گا‘ اور اس پر‘ حیرت بھی
یہ بھی بچ نہیں ‘ہوگی۔ پروفیسر مقصود حسنی کے قلم سے
پائے۔ انہوں نے نفسیات سمیت‘ دیگر سائینسز سے متعلق امور
پر بھی لکھا ہے۔
آج شمسی توانائی کی پروڈکٹس مارکیٹ میں آ گئی ہیں۔ انہوں
نے تو ١٩٨٨میں‘ اس کے تصرف کا مشورہ دیا تھا‘ اور اس
موضوع پر سیر حاصل گفت گو بھی کی تھی۔ آج وہ خود بھی
اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے‘ ایک بلب بھی نہ
لگانے والا شخص‘ خرابی کی صورت میں‘ خود ہی درستی کے
لیے میدان میں اترتا ہے۔ اس وقت تھیوری کا شخص پریکٹیکل
ہو جاتا ہے۔
یہ ہی نہیں‘ کینسر ایسے مہلک مرض سے متغلق‘ ان کا لمبا
چوزا‘ کئی حصوں پر مشتمل مقالہ‘ سکربڈ ڈاٹ کام پر موجود
ہے۔ اس مقالے کے کچھ حصے‘ دو قسطوں میں‘ اردو خط میں‘
اردو نیٹ جاپان پر‘ پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان کا ایک
مضمون‘ جو ڈینگی سے متعلق ہے‘ اردو نیٹ جاپان پر جلوہ
افروز ہے۔
سرور عالم راز صاحب ایسے عالم فاضل شخص نے‘ انہیں
ہر فن مولا قرار نہیں دیا تھا۔ ان کے ایسے مضامین ‘ایسے ہی
ادبی چاشنی موجود ہوتی ہے۔ اس لیے سائینسز سے ‘میں بھی
متعلق‘ ان کی تحریروں کو‘ سائینسی ادب کا نام دیا جا سکتا ہے۔
دستیاب چند مضامین کی فہرست درج ہے۔ کوشش کرنے سے‘
ممکن ہے‘ اور مضامین بھی مل جائیں۔
مردہ اجسام کے خلیے اپنی افادیت نہیں کھوتے روزنامہ ١-
مشرق لاہور ١٨مئی ١٩٨٧
رورنامہ ٢- اعصابی تناؤ اور اس کا تدارک
امروز ٩مئی ١٩٨٨
رورنامہ ٣- احساس کمتری ایک خطرناک عارضہ
امروز لاہور یکم اگست ١٩٨٨
شمسی تواتانئی کو تصرف میں لانے کی تدبیر ہونی چاہیے ٤-
رورنامہ امروز لاہور ١٨ستمبر ١٩٨٨
ہفت روزہ ٥- عالم برزخ میں بھی حرکت موجود ہے
جہاں نما لاہور ٨مارچ ١٩٨٩
انسان تخلیق کائنات کے لیے پیداکیا گیا ہے روزنامہ ٦-
مشرق لاہور ٢اپریل ١٩٨٩
روزنامہ ٧- ممکنات حیات اور انسان کی ذمہ داری
وفاق لاہور ٧اپریل ١٩٨٩
ہفت روزہ ٨- علامہ المشرقی کا نظرہءکائنات
الاصلاح لاہور ٥مئی ١٩٨٩
روزنامہ ٩- کیا انسان کو زندہ رکھا جا سکتا ہے
امروز لاہور ٦اپریل ١٩٩٠
١٠-
کینسر حفاظتی تدبیر اور معالجہ
مکمل مقالہ سکربڈ ڈاٹ کام دو قسطوں میں کچھ ترجمہ اردو
نیٹ جاپان
اردو نیٹ جاپان ١١-
ڈینگی حفاظتی تدبیر اور معالجہ
محترم مقصود حسنی صاحب ،سلام۔
آپ کے مضامین اکثر نظر سے گذرتے رہتے ہیں۔ وقت کی
دستیابی کے مطابق ان پر کبھی سرسری تو کبھی دقیق نگاہ
ڈالنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ البتہ ہر مضمون پر اپنی دستخط لگانا
یا ان پر تبصرہ وغیرہ لکھنا ممکن نہیں ہوتا سو خاموش مسافر
کی طرح گذر جاتا ہوں۔ آج مہلت ملی ہے تو سوچا کہ آپ کا اس
مضمون اور اس کے توسل سے باقی تخلیقات پر شکریہ کہتا
چلوں۔ سو براہ کرم وصول کیجیے۔
محترمی سرور صاحب نے اگر آپ کو "آل راونڈر" قرار دیا ہے
تو یقیناً اس میں کچھ سچائی بھی ہوگی۔ کچھ ایسا ہی آپ کے
مضامین سے بھی جھلکتا ہے ،جس سے میں اور دیگر احباب
مستفیض ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کے یہاں عنایت کردہ کئی مضامین
کے مصنفین آپ کی مدح سرائی کرتے اور آپ کی ہنرمندی کے
گیت گاتے نظر آتے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ آپ کا انجمن سے
وابستہ ہونا اور ہمارے درمیان اپنی نگارشات کو پیش کرنا
ہمارے لیے باعث افتخار ہے۔
ہاں ،احباب کی تخلیقات پر آپ کے تبصرہ جات میری نظر سے کم
ہی گذرے ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ سے نیاز حاصل ہوتا رہے گا
اور بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
عامر عباس
مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :سلام مسنون
آپ کی ادبی و علمی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ افسوس اس
بات کا ہے کہ اہل اردو نے کبھی بھی آپ جیسی ہستیوں کی کما
حقہ قدر نہیں کی۔ البتہ اس عالم فانی سے گزر جانے کے بعد
رسالوں کے خاص نمبر ضرور شائع کئے ہیں۔ غالب ہی شاید
ایک ایسے شخص ہوئے ہیں جن کی عزت اور قدر ان کی زندگی
میں ہی کی جانے لگی تھی۔ الله آپ کو طویل عمر عطا فرمائے
تاکہ یہ چشمہ علم وادب اسی طرح جاری رہے اور ہم جیسے
لوگ مستفید ہوتے رہیں۔
زیر نظر مختصر مضمون میں "انسان تخلیق کائنات کے لئے پیدا
کیا گیا ہے" دیکھا تو والد مرحوم حضرت راز چاندپوری کا ایک
شعر بے اختیار یاد آگیا۔ سوچا کہ آپ کو بھی سنا دوں۔ میں
مرحوم کے اس خیالات سے سو فیصد متفق ہوں اور میرا خیال
:ہے کہ ہر صاحب علم ونظر متفق ہو گا۔شعر یہ ہے
تصویر جہاں میں رنگ بھرنا