The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-02-21 22:26:52

khidmaat (2)

khidmaat (2)

‫کیونکہ یہ جذبات اور احساسات سے لبریز ہے۔ایک بار پھر‬
‫بھرپور داد کے ساتھ۔۔‬
‫وی بی جی ‪23‬‬

‫گناہ گار‬
‫اپریل ‪2014 ,26‬‬

‫ماشاالله جناب یہ تحریر بھی بُہت خوب ہے۔ کمال یہ ہے کہ اپ اس‬
‫قدر وسعت رکھتے ہیں کہ اپ کا لکھا جب پڑھا بالکل ُمختلف سا‬
‫ہی ہوتا ہے اور یہ انفرادیت اپ کے قلم کی پہچان ہے۔ ہر بار ایک‬
‫نئی اور علیحدہ دُنیا کی ہی سیر کرواتے ہیں۔ اس کے لیئے ُشکر‬
‫گزار بھی ہیں ہم اور اپنے ساتھ بھرپور داد بھی لائے ہیں جو‬
‫پیش خدمت ہے۔رزق سے ُمتعلق چونکہ بات ہو رہی تھی سو ہم‬
‫نے بُہت غور سے پڑھا اپ کے خیالات کو۔ لیکن ایک فقرہ ہے‬
‫جس کی تشریح ہم ٹھیک سے نہیں کر پا رہے ہیں۔ وجہ شائید‬
‫اس فقرے میں موجود یہ الفاظ ہیں ‪ :‬تو وہ اس شخص کے اندر‬

‫رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے‪ :‬۔ فقرہ درج ذیل ہے۔‬

‫انہوں نے‘ اس سے آگے فرمایا‘ کہ اگر انسان سے زمینی ‪:‬‬
‫استحصال پسند قوتیں‘ رزق چھین لیں‘ تو وہ اس شخص کے‬
‫اندر‘ رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے‘ اور کوئی نہیں‘ جو‬
‫مزاحم آ سکے‪ُ :‬ممکن ہے کتابت کی چھوٹی سی کوئی غلطی ہو‬
‫لیکن چونکہ ہم خود کم فہم قسم کے شخص ہیں تو ذیادہ تر‬

‫امکان اسی بات کا ہے کہ ہم اپ کے مفہوم تک نہ پُہنچ پا رہے‬
‫ہیں۔مولانا ازاد صاحب بُہت مثبت سوچ رکھنے والے شخص‬
‫تھے‪ُ ،‬سنتے ہیں کہ ایک بار کسی نے اُن سے کہا کہ فلاں بادشاہ‬
‫کے دور میں عورتیں کپڑے نہیں پہنتی تھیں بلکہ اپنے جسم پر‬
‫کپڑوں کی سی تصویر (پینٹنگ) بنوا لیا کرتی تھیں۔ مولانا صاحب‬
‫کا مثبت جواب دیکھیئے کہ فرمایا کہ اس بات سے اُس زمانے‬
‫کے مصوروں کی فنی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے کہ کس قدر‬
‫مہارت رکھتے تھے۔تو صاحب رزق اور ُخدا سے مطعلق بھی‬
‫ہمارا ایسا ہی مثبت اور سادہ وطیرہ ہے۔ اگر رزق مل جائے تو‬
‫الله نے دیا‪ ،‬نہ ملا تو حکومت یا ُمسلمانوں کی دین سے دوری‬
‫ذمہ دار۔ اگر انعامی بانڈ نکل ایا تو الله کا ُشکر‪ ،‬نہ ملا تو اسی‬
‫میں بھلائی تھی‪ ،‬اپ ہی کی مثال سے دونوں پستانوں کا دودھ ‘‬
‫ذائقہ اور تاثیر میں‘ ایک سا نہیں ہوتا تو واہ کیا ہی خوب قُدرت‬
‫کا کمال ہے اگر ایک سا ہے تو بھی واہ کیا ہی خوب قُدرت کا‬
‫کمال ہے کہ دو الگ الگ پستانوں سے ایک سا دودھ ۔ دُنیا کو‬
‫دیکھ کر اندازہ لگاتے رہتے ہیں کہ فلاں کام اچھا ہؤا یا بُرا۔ اگر‬
‫اچھا ہؤا ہے تو واہ الله تیرا کمال‪ ،‬اگر بُرا ہؤا تو شیطان مردود۔‬
‫الله کا خوف ہے کہ کہیں ُکچھ غلط منہ سے نکلا تو نُقصان نہ‬
‫اُٹھانا پڑے اس لیئے ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے‪ ،‬کہ سوچتے‬
‫پھریں کہ دُنیا میں جو جتنا کالا ہے اُتنا بدحال اور جو جتنا گورا‬
‫ہے اُتنا خوشحال کیوں ہے۔ یا یہ کہ اُن کے حالات کا ذمہ دار اُن‬
‫کا رنگ ہے یا اُن کی رنگت اُن کی خوشحالی کی نسبت ٹھہری‬
‫ہے۔اپ کے خیالات اس ُمعاملے میں بُہت اچھے ہیں اور مثبت‬
‫ہیں‪ ،‬یہ اچھی بات ہے۔ افسانہ بھی بُہت خوبصورت ہے۔ الله پاک‬
‫اپ کے قلم کو مذید وسعت دے۔ایک چھوٹی سی شکایت بھی ہے‬

‫کہ اپ داد وصول کرنے کی بجائے داد دینے لگ گئے ہینہمیں‬
‫احتیاط کرنی پڑے گی۔‬
‫وی بی جی‬

‫گناہ گار‬
‫اپریل ‪2014 ,26‬‬

‫جناب داد کی بات نہیں کر رہے‪ ،‬وہ تو اپ کی تحریریں ہم سے‬
‫ہمارا گریبان پکڑ کر لے لیتی ہیں‪ ،‬ایسے ہی جیسے ہم ہر ماہ کی‬
‫پہلی تاریخ کو اپنی تنخواہ کی پائی پائی تک مشین سے وصول‬
‫کرتے ہیں۔ ہم اپنے خیالات کی اظہار کی بات کر رہے تھے کہ ہم‬
‫ذرا ادھر اُدھر کی ہانکنا کم کر دیں‪ ،‬وگرنہ ہمیں یقین ہے کہ اپ‬

‫جس طرح کی نظر رکھتے ہیں ہم پر بھی اپ کی تجزیہ کی تیز‬
‫نگاہ ہو گی‪ ،‬اور ممکن ہے کہ کسی دن ایک عجیب کردار کی‬
‫صورت میں اپ کی کسی تحریر کا حصہ بن جائیں گے۔ اپ کا‬
‫ُشکریہ کہ ہمیں ان تحریروں سے فیضیاب ہونے کا موقع فراہم‬

‫کرتے ہیں۔طالب دُعا‬
‫ماشاالله جناب۔ بُہت ہی خوب۔ ایک تو ہمارے علم میں اضافہ ہؤا‬
‫کہ ‪:‬رزق اندر‪ :‬کے کیا معنی ہیں دوسرا اپ کے اس فقرے کے‬
‫معنی جان کر بُہت اچھا لگا۔ واقعی وہ رزق دیتا ہے تو کہاں نہیں‬

‫دیتا۔‬
‫توجہ اور رہنمائی کا شکریہ۔۔‬

‫وی بی جی ‪24‬‬

‫انا کی تسکین‬
‫اپریل ‪2014 ,18‬‬

‫بُہت اچھی تحریر ہے‪ ،‬داد قبول کیجے۔ (ہم ‪:‬تحریر‪ :‬اس لیئے‬
‫کہتے ہیں کہ کم علمی کے سبب‪ ،‬ہم ‪:‬انشائیہ‪: ،:‬افسانہ‪ :‬وغیرہم‬

‫میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں)اپ نے فرمایا تھا کہ ہم‬
‫خصوصی برتاؤ رکھتے ہیں تو جناب ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم تو‬
‫جیسا پڑھتے ہیں ویسا بیان کرتے ہیں۔ یہ اپ کی تحریریں ہیں‬
‫جو ہمیں یہاں لاتی ہیں۔ اگرچہ اپ جانتے ہی ہیں کہ مصروفیات‬
‫اج کے دور میں بُہت زیادہ ہو ُچکی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ایک‬
‫‪:‬ابا جی‪ :‬کماتے تھے اور سارا ‪:‬ٹبر‪ :‬کھاتا تھا‪ ،‬اور ایک یہ وقت‬
‫ہے کہ ‪:‬سارا ‪:‬ٹبر‪ :‬کماتا ہے اور ایک ‪:‬ابا جی‪ :‬کو نہیں کھلا‬
‫سکتا۔ سو ہماری حاضری کم رہتی ہے‪ ،‬وجہ یہ بھی ہے کہ اپ‬
‫کی تحریر کو سرسری نظر سے دیکھنا‪ ،‬ہم سے ُممکن نہیں۔ یہ‬
‫خود ہی توجہ چھین لیتی ہے۔ اپ کے ُشکر ُگزار ہیں ہم کہ احباب‬
‫اگر کم توجہ بھی دیں تو اپ ان تحریروں کو یہاں پیش کرتے‬
‫رہتے ہیں‪ ،‬اور کم از کم ہم اس سے استفاضہ کرتے رہتے ہیں۔یہ‬
‫تحریر بُہت تلخ محسوس ہوئی‪ ،‬اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا۔ اس‬
‫قدر الفاظ میں نفرت بھری ہے کہ جیسے صاحب قلم کو خود بھی‬
‫چوٹ پڑی ہو۔ ایک ُجملہ ہے اپ کا‪ ،‬اس پر داد بھی قبول کیجے۔‬

‫اقتباس‬
‫بڑی اور شہرت یافتہ دکان سے‘ کھلانے پلانے کی صورت میں‘‬

‫فائل کی بلند پروازی پر‘ شاہین بھی شرمندہ ہو جاتا ہے۔‬
‫ہم لوگوں نے ‪:‬حرام‪ :‬پر تحقیق کی اور اس کی بھی کئی اقسام‬

‫ُمرتب کیں۔ اقسام بھی دو قسم کے نقطہ نظر سے کی گئی ہیں۔‬
‫پہلا نُقطہ نظر۔ایک تو ‪:‬اپنے لیئے حرام‪ ،‬دوسرے کے لیئے حلال‪:‬‬
‫اور دوسرا ‪:‬اپنے لیئے حلال‪ ،‬دوسرے کے لیئے حرام‪ :‬جیسا کہ‬
‫اپ کی تحریر نے بھی وضاحت کی ہے۔دوسرا نقطہ نظراگرچہ یہ‬

‫اقسام بُہت ہیں لیکن ہم چیدہ چیدہ کا ذکر کئیے دیتے ہیں۔‬

‫پہلی قسم‪ :‬اسے کبھی ُمسلمان اپنے لیئے حلال نہیں سمجھتے۔ ‪:‬‬
‫جیسے سور اور ُکتے کا گوشت۔‬

‫دوسری قسم‪ :‬اسے حسب طبیعیت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ‪:‬‬
‫جیسے شراب‪ ،‬جؤا۔‬

‫تیسری قسم‪ :‬ایسی چیزیں جنہیں کہنا تو حرام ہوتا ہے لیکن ان ‪:‬‬
‫کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں‪ ،‬بلکہ ترغیب دی جاتی ہے۔‬
‫جیسے ُسود‪ ،‬کسی دوسرے ُمسلمان بھائی کا مال و زن۔ ُکچھ‬

‫ُمفتی حضرات کے بھی ہم احسانمند ہیں کہ اُنہوں نے اس کو کئی‬
‫اور نام دے کر نہ صرف عوام کو سہولت مہیا کی بلکہ خود بھی‬
‫لاکھوں روپے ماہانہ لے کر دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ (ویسے‬
‫ہم خود بھی ایسے ہی کسی ضمیر فروش ُمفتی کی تلاش میں ہیں‬
‫جو ہمیں روزہ میں سگریٹ پینے کی اجازت کا فتوی دے دے)۔اپ‬
‫کی تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ ہم اپنا رونے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس‬
‫پر معذرت بھی چاہتے ہیں۔ یہ تحریر پڑھ کر ہمارا نہیں خیال کہ‬
‫کوئی پڑھے گا اور اثر نہ لے گا۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے‬

‫ساتھ‬
‫وی بی جی‬

‫جناب یہ تو اپ نے حد سے بڑھ کر عزت دے دی ہماری عامیانہ‬
‫سی رائے کو۔ عامیانہ اس لیئے کہا کہ ایک عام سے ادمی کی‬
‫رائے ہے‪ ،‬ہم نہ مفکر ہیں اور نہ دبیر۔ اور نہ ہی کوئی عالم‬
‫فاضل ہیں کہ ‪:‬علوم فضول‪ :‬حاصل کر رکھے ہوں اور نہ ہمارا نام‬
‫‪:‬علما فضلا‪ :‬میں اتا ہے ‪:‬وی بی جی‪ :‬۔ سو صاحب‪ ،‬اگر ہم سے‬
‫کوئی کام کی بات سرزد ہو جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ‬
‫یہ کس نے کی۔ ایک اور ُگزارش کرنا چاہیں گے کہ ہم اپنا نام‬
‫یہاں نہیں لائے ہیں۔ ہمارے ہمذاد ہیں‪ ،‬ایک کردار ‪:‬وی بی جی‪:‬‬
‫وہ یہاں ائے ہیں اور اُن کا یہی نام ہے۔ اگر وقت اجازت دیتا ہو تو‬
‫ہماری یہ نظمیہ غزل ایک نظر پڑھ لیجے گا۔‪.‬اُمید ہے خفا نہ‬
‫ہونگے۔اپ نے اس نالائق کو اس لائق سمجھا ہے جس پر سراپا‬
‫سپاس ہیں اور ایک بار پھر ُشکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہمیں ‪:‬چوتھی‪:‬‬

‫ُمرغی بھی ذبح کرنی ہے سو وہاں چلتے ہیں۔‬
‫وی بی جی ‪25‬‬
‫انگریزی فیل‬
‫اپریل ‪2014 ,18‬‬

‫معذرت خواہ ہیں کہ دیر سے حاضر ہوئے۔ یہ موضوع اگرچہ اس‬
‫قدر انوکھا نہیں ہے‪ ،‬لیکن اپ کے قلم نے اسے اپنی طرز سے‬
‫بیان کیا ہے اور بُہت ہی خوب کیا ہے۔ ہکے پھلکے انداز میں اپ‬
‫نے کہانی بیان کی ہے جو پڑھنے والے کو کسی ذہنی دباؤ میں‬
‫نہیں ڈالتی۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ قارئین جو گہرے فلسفوں‬
‫سے کتراتے ہیں یا سمجھ نہیں پاتے وہ بھی اس سے محظوظ ہو‬
‫پاتے ہیں اور ُکچھ نہ ُکچھ بات کا اثر ضرور لے کر جاتے ہیں۔‬

‫ہماری طرف سے بھپور داد قبول کیجے۔ویسے ہمارا خیال اس‬
‫سے ُمتعلق تو یہ ہے کہ ایک تو جو شاگرد رٹہ نہیں لگا سکتے‬
‫اُن کو اساتذہ سے شاباش بھی شاز و نادر ہی ملتی ہے‪ ،‬وگرنہ‬
‫نہیں ملتی۔ ہمارا اپنا المیہ یہی رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس میں‬

‫صرف انگریزی ہی کارفرما نہیں ہے‪ ،‬بلکہ کئی ایسی چیزیں‬
‫ہمارے نصاب کا حصہ ہیں جس کی کوئی تُک نہیں ملتی۔ یقین‬
‫جانئیے اج تک ہمیں الجبرا ‪ ،‬جسے جبراً پڑھایا جاتا ہے‪ ،‬کو‬
‫استعمال کرنے کا کوئی موقع زندگی نے نہیں دیا۔ ہم ایکسوں میں‬
‫سے وائیاں تفریق کیئے بغیر زندگی ُگزار رہے ہیں۔ نہ مرہٹوں‬
‫کی لڑائیوں کی تاریخوں کی کہیں ضرورت پڑی ہے۔ اور تو اور‬
‫قائداعظم کے چودہ نُقاط جسے ہم چوتھی جماعت سے لے کر‬
‫مسلسل چودھویں جماعت تک یاد کرنے کی کوشش کرتے رہے‬

‫ہیں‪ ،‬نہ تو اج تک کبھی یاد ہوئے ہیں اور نہ کبھی اس کی‬
‫ضرورت پڑی ہے۔یہاں کسی کام کو کرنے کے لیئے اُس کام لیئے‬
‫موزوں ترین شخص بھی تلاش کرنے کا کوئی اصول دُرست نہیں‬
‫ہے۔ ہم جہاں کام کر رہے ہیں وہاں بھی صرف اس لیئے کہ ہمیں‬

‫‪:‬ڈائریکٹ‪ ،‬ان ڈائریکٹ‪: ،:‬ایکٹو‪ ،‬پیسو‪: ،:‬دُعائے قنوت‪ ،:‬اور‬
‫اپنے وزیر اطلاعات کا نام یاد تھا۔ ہم اس سے بھی اچھا ُعہدہ پا‬

‫سکتے تھے لیکن چونکہ ہمیں نہ صرف ‪:‬امریکہ کے صدر‬
‫کینڈی‪ :‬کے قاتل کا نام یاد نہیں تھا بلکہ یہ تک معلوم نہ تھا کہ‬
‫‪:‬بُلبُل‪ :‬کی اوسط ُعمر کتنی ہوتی ہے‪ ،‬اس لیئے ہم اُس عہدے کے‬
‫لائق نہ تھے۔ اس لیئے ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف یہ شعور‬
‫دینا ضروری ہے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے اور اس میں کردار‬
‫سازی کی کیا اہمیت ہے۔ بلکہ یہ بھی کہ کسی کام کو کرنے کے‬
‫لیئے موزوں ترین شخص کا انتخاب کیسے کرنا چاہیئے۔ اگر‬

‫ہمارے بس میں ہو تو ‪ ،‬حافظ‪ ،‬سعدی اور ُعرفی جیسے لوگوں کا‬
‫کلام‪ ،‬بلکہ قصہ چہار درویش کو نصاب کا حصہ بنائیں اور بُہت‬
‫سی خرافات کو اس میں سے نکال پھینکیں۔ ورنہ ہمارا تو یہی‬
‫حال ہے بقول سعدی کہ اگر کوئی شخص علم حاصل کرے اور‬
‫پھر اُسے استعمال نہ کرے تو ایسے ہی ہے جیسے کسی گدھے‬
‫پر کتابوں کا بوجھ لدا ہو۔ تحریر پر ایک بار پھر داد کے ساتھ۔‬

‫وی بی جی ‪26‬‬

‫چوتھی مرغی‬
‫‪,‬اپریل ‪2014 ,26‬‬

‫بُہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ اپ ماشاالله بُہت ہی گہری نظر‬
‫رکھتے ہیں۔ اور پھر اپ کے پاس نہ صرف خیالات کو الفاظ دینے‬
‫کا ہُنر ہے بلکہ وہ طاقت بھی ہے کہ اپ کی تحریر پڑھنے والا نہ‬
‫صرف قائل ہو جاتا ہے بلکہ ہمیں یقین ہے کہ اثر بھی لیتا ہے۔‬
‫ایک ُمعاشرتی مسئلہ کہ اپ نے کہاں ُمرغی سے ُشروع کیا ہے‬
‫اور کیسے تمام کہانی کے بعد اسے وہیں سمیٹا ہے۔ ہماری طرف‬

‫سے بھرپور داد قبول کیجے۔ اپ کہاں ‪:‬اسیل‪ُ :‬مرغی پر چ ُھری‬
‫پھروا رہے تھے جناب یہ تو ُمرغے لڑانے والوں کی نظر میں‬
‫‪:‬کفر‪ :‬سے کم نہیں۔ اپ کی تحریر پڑھ کر ُکچھ باتیں ذہن میں ائی‬
‫ہیں ایک تو یہ کہ عام خیال ہہی ہے کہ پڑھنے لکھنے کا مطلب‬
‫ہے رزق میں اضافہ اور یقین دہانی۔ ایک فارمولا کہہ لیجے کہ‬
‫جتنا ذیادہ پڑھا لکھا ہو گا انسان‪ ،‬اُتنا ہی ذیادہ اُس کا رزق ہونا‬
‫چاہیئے۔ اور دوسری بات یہ کہ جنگل کا قانون بُرا ہوتا ہے‪،‬‬

‫انسانوں کے قوانین اچھے ہوتے ہیں اور اُنہیں ہی رائج ہونا‬
‫چاہیئے۔ رزق کے بارے تو ہمارا خیال ہے کہ اس کا کوئی فارمولا‬

‫نہیں ہے۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ اگر کوئی شخص ہماری طرح‬
‫اپنی تعلیمی اخراجات کی رسیدیں جنہیں ڈگریاں بھی کہتے ہیں‬
‫لیئے پھرے‪ ،‬چاہے کوئی بڑا سائنس دان ہو‪ ،‬چاہے عالم ہو شاطر‬
‫ہو‪ ،‬رزق کا حقدار اس ناطے سے نہیں ٹھہرتا۔ اس کو بانٹنے کا‬
‫قدرت کا اگر کوئی فارمولا ہے تو ہمیں ٹھیک سے سمجھ نہیں ایا‬
‫اج تک۔ ایک طرف تو دین کہتا ہے کہ رزق صرف الله کے ہاتھ‬
‫میں ہے‪ ،‬دوسری طرف ‪ ١٠٠‬بچے بھوکے مر جاتے ہیں۔ الزام‬
‫کسے دیں؟ لے دے کر اگر رزق کا کوئی فارمولا ہمیں دین سے‬
‫ملا ہے تو یہی ہے کہ صدقہ خیرات دو کہ یہ دوگنا ہو کر واپس‬
‫ملے گا۔ جس کے پاس ُکچھ نہ ہو وہ کیا کرے یہ کہیں نہیں ملا۔‬
‫دوسری طرف اگر رزق الله کے ہاتھ نہ ہو تو پورے ملک کو وہ‬
‫بیرونی کمپنیاں کھا جائیں‪ ،‬جو ایک ہی وقت میں نہ صرف کئی‬
‫قسم کے صابن بنا کر اشتہاروں میں اپس میں لڑ کر دکھاتی ہیں‬
‫بلکہ انہیں صابنوں کے دو نمبر بھی خود ہی بناتی ہیں کہ کوئی‬
‫دوسرا فریق کیوں بنا کر کمائے۔ جنگل کے قانون سے ُمتعلق‬
‫ہمارا خیال ہے کہ یہ انسان کی تعصب سے بھری ہوئی سوچ ہے‬

‫کہ خود کو جانوروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ انسان اشرف‬
‫المخلوقات ہے لیکن یہاں انسان کی جو ‪:‬تعریف‪ :‬ہے وہ ُکچھ اور‬
‫ہے۔ اپ خود ہی سوچئیے کونسی ایسی بُرائی ہے جو جانوروں‬
‫نے کی ہوں اور انسانوں نے وہ بُرائی نہ کی ہو۔ اچھائیاں بُرائیں‬
‫دونوں سوچ لیجے۔ ایک بھی ایسی نہ ملے گی۔ انسان‪ ،‬انسانوں‬
‫تک کا گوشت محوارتاً نہیں بلکہ حقیقتاً کھا رہا ہے۔ ادھر انسانوں‬
‫کی وہ بُرائیں دیکھ لیجے جو جانوروں نے کبھی نہ کی ہوں۔ اتنی‬

‫لمبی فہرست نکلے گی کہ ُخدا کی پناہ۔ سو ہمارا خیال ہے کہ اگر‬
‫تعصب کو تھوڑا سا ایک طرف رکھ کر سوچا جائے تو جانور‬
‫بدرجحا بہتر نظر ائیں گے۔ وہ تو معصوم نظر اتے ہیں ہمیں۔‬

‫جنگل کے قوانین میں شکار تبھی ہوتا ہے جب بھوک لگے۔ یہاں‬
‫اُلٹا ُمعاملہ ہے‪ ،‬بھوک لگنے سے پہلے انتظام کرنا ہوتا ہے۔‬

‫بھیڑیے کی خصلت تھی کہ وہ کمزور پڑ جانے والے بھیڑیئے کو‬
‫مل کھا جاتے ہیں۔ لیکن یہاں مل بانٹ کر بھی نہیں کھاتے۔ واہ‬
‫رے انسان۔۔سو صاحب جب تک دُنیا میں کمزور اور طاقتور‬
‫موجود ہیں‪ ،‬کمزور کی گردن طاقتور کی دو انگلیوں میں رہے‬
‫گی۔ یہ اصول ہم نے صرف انسانوں کے گھٹیا ُمعاشرے اور‬
‫قوانین سے ہی نہیں اخذ کیا بلکہ جانوروں کے ُسلجھے ہوئے‬
‫اور ُمہذب ُمعاشرے اور جنگل کے قوانین سے بھی ثابت ہے۔اپ‬
‫کی تحریر بُہت خوب ہے۔ اُمید ہے اگر نا انصافی کو دُنیا سے ہم‬
‫مٹا نہیں سکتے تو کسی حد تک کم کرنے کی ُجستجو تو کر‬
‫سکتے ہیں۔ اور یہی اپ کر رہے ہیں۔ اپ کی یہ تحریر بھی اسی‬
‫کاوش کا حصہ ہے اور ُمقام رکھتی ہے۔ ایک بار پھر بھرپور داد‬
‫کے ساتھ ۔ ۔‬
‫وی بی جی ‪27‬‬

‫تنازعہ کے دروازے پر‬
‫اپریل ‪2014 ,16‬‬

‫واہ جناب یہ پہلو بھی اپ نہیں چھوڑا۔ بُہت اچھی تحریر ہے۔ داد‬

‫حاضر ہے۔اب بات یہ ہے کہ جو کہانی اپ نے لکھی ہے وہ تاریخ‬
‫میں قدم قدم پر دُہرائی گئی ہے۔ سو سچ پوچھیں تو ہم ان‬

‫کرداروں کی شناخت میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی ہمارے خیال‬
‫سے دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم اپنی کمزور‬
‫سیاسی بصیرت کی وجہ سے کئی تاریخی نُقاط سے ناواقف ہیں‬
‫سو ایسا ہونا لازم ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اپ‬
‫نے کئی کہانیوں کے کردار اپنی تحریر میں ایک واحد کردار میں‬
‫سمو دیئے ہوں۔ جس کی وجہ سے اصل تک نہ پُہنچ پا رہے‬
‫ہوں۔ہم معذرت بھی چاہیں گے کہ اپنی کم علمی کی وجہ سے اپ‬
‫کی تحریر کو وہ خراج نہیں پیش کر پائے جس کی یقیناً یہ‬
‫ُمستحق ہو گی۔ اپ کی تمام ُگزشتہ تحریروں کو نظر میں رکھتے‬
‫ہوئے ہمیں یقین ہے کہ یہ ہماری نا سمجھی کی وجہ سے‬
‫ہے۔لیکن جس پہلو سے بھی ہم دیکھ سکے ہیں اور جہاں تک‬
‫سمجھ سکے ہیں تحریر اچھی ہے اور داد اپ کا حق۔بھرپور داد‬

‫کے ساتھ‬
‫وی بی جی ‪28‬‬

‫کامنا‬
‫اپریل ‪2014 ,14‬‬

‫واہ جناب واہ۔ اپ کی نظر کہاں کہاں تک ہے‪ ،‬یہ تحریر پڑھ کر‬
‫پتہ چلا۔ پھر اپ کہتے ہیں کہ ریشماں جوان نہیں رہی۔ صاحب اس‬

‫تحریر کے اخر میں اپ نے مرہٹوں کی سرکوبی کی تاریخ رقم‬

‫نہیں کی سو ہمارا خیال ہے کہ تحریر نئی بھی ہے اور ریشماں‬
‫کی جوانی کی سند بھی۔ اور صاحب ہمارے خیال سے ریشماں‬
‫کبھی بوڑھی نہیں ہوتی‪ ،‬اُس پر مرنے والی انکھیں بوڑھی ہو‬
‫جاتی ہیں۔اس تحریر نے ہمیں جیت لیا ہے۔ ایک تو اس سے یہ‬
‫پتہ چلتا ہے کہ اپ کی نظر کہاں کہاں تک ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ‬
‫موضوع کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اور اس پر لکھنے کا خیال‬
‫تک انا‪ ،‬بُہت بڑی بات ہے۔ دوسرا اپ کے علم کا بھی پتہ چلتا ہے‬
‫کہ کس گہرائی سے اپ نے مشاہدہ کیا ہے۔ اگر اس موضوع سے‬
‫ُمتعلق باریک چیزوں کا علم نہ ہو تو ظاہر ہے کہ چند ٹوٹے‬
‫پھوٹے فقروں کے سوا کوئی اس پر ُکچھ نہیں لکھ سکتا۔ اور اپ‬
‫نے تو کمال حکایت بیان کی۔ دل عش عش کر اُٹھتا ہے۔اسے‬
‫پہلے پڑھا تو کئی باتیں ذہن میں ائیں لیکن اسے دوبارہ پڑھا اور‬
‫پھر ایسا محسوس ہؤا کہ ُکچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔‬
‫اپ نے کوئی کونہ خالی نہ چھوڑا ہے۔ ویدی کا ویدان ہمارے‬
‫اپنے خیال سے ُمتعلق بھی یہی ہے۔ جب تک دُنیا قائم ہے کوئی‬
‫نہ کوئی گیانی کہیں نہ کہیں ایک ٹانگ پر کھڑا ہوتا رہے گا۔ اور‬
‫شائید ذات باری تعالی بھی نہیں چاہتی کہ اذان کے ہوتے ہی سب‬
‫‪:‬مسیت‪ :‬میں جا پڑیں۔ ُکچھ لوگ سیمنا گھروں میں بھی نظر اتے‬
‫رہیں گے۔ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ بُہت ہی عمدہ‬
‫تحریر ہے۔ اپ جیسے صاحبان علم اس دُنیا کا سرمایا ہیں‪ ،‬جسے‬
‫بے قدرے لوگ صرف عیاشی پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔الله پاک اپ‬

‫کے علم اور صحت میں برکت عطا فرمائیں۔‬

‫وی بی جی ‪29‬‬

‫ابا جی کا ہم زاد‬
‫اپریل ‪2014 ,13‬‬

‫اپ کی یہ شاندار تحریر پڑھی۔ بُہت زوراور ہے اور اس میں اپ‬
‫کا ایک نیا انداز نظر ایا۔ یا ُمنفرد انداز کہہ لیجے۔ یقین جانیئے کہ‬
‫رشک ایا پڑھ کر اور دل سے داد نکلی۔ اپ نے ایک جگہ کہا کہ‬
‫ہم ُکچھ زیادہ تعریف کر جاتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس تحریر‬
‫کو ہی دیکھیئے۔ جتنی تعیف کی جائے کم ہے۔ اس موضوع کو‬
‫اس انداس سے سوچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہم ایسے‬
‫کئی لوگ جب کسی مسئلہ میں ہوتے ہیں تو ویسا ہی کرنے کی‬
‫کوشش کرتے ہیں جیسا کہ اُن کے والد ایسے موقع پر کیا کرتے‬

‫تھے‪ ،‬اور اگر ُکچھ لوگوں کو ایسا خیال نہیں ایا تو اُنہیں بھی‬
‫ایسا ہی کرنا چاہیئے۔ یہ ہمارا خیال ہے اور ایسا ہی ہم نے اس‬
‫تحریر سے بھی اخذ کیا ہے۔ اپ کی تحریر اگرچہ سوچنے پر‬
‫مجبور کرتی ہے‪ ،‬اور ہر شخص اپنی سوچ کے حساب سے نتیجہ‬

‫یا نتائج اخذ کر سکتا ہے‪ ،‬لیکن ہمیں ایسا ہی محسوس ہؤا۔‬
‫ہمارے گھر میں کئی قسموں کے کردار تھے اور ہم اُنہی کو‬
‫محسوس کرتے رہے۔ بابا‪ ،‬ماں‪ ،‬بہنیں‪ ،‬بھائی وغیرہ‪ ،‬لیکن دو‬
‫ایسے کردار تھے جنہیں ہم نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ اور وہ‬
‫تھے ایک میاں اور ایک بیوی۔ یہ کردار پس پردہ رہتے ہیں اور‬
‫انسان کی شادی ہو جانے تک کبھی محسوس نہیں ہوتے۔ یا پھر‬
‫ہمیں نہیں محسوس ہؤے۔ اپ نے کہاں سے بات ُشروع کی اور‬
‫کہاں لا چھوڑی‪ ،‬قابل تحیسن ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد‬
‫قبول کیجے۔ اس بات کا ُشکریہ بھی کہ ہمیں اپ کی تحریر کے‬

‫توسط سے پتہ چلا ہے کہ ہم بُہت سے کام کیوں کرتے ہیں۔ ایک‬
‫چھوٹی سی عرض بھی کرنا چاہیں گے کہ یا تو اپ نے ‪:‬مقالموں‪:‬‬

‫کو زیادہ توجہ نہیں دی یا پھر ہمیں افسانے اور کہانیاں وغیرہ‬
‫پڑھنے کی عادت نہیں رہی۔ ہمیں مقالموں کو پڑھنے اور‬

‫سمجھنے میں ُکچھ دقت ہوئی ہے۔ یہ بات بیان کرنا اس لیئے‬
‫ضروری سمجھا تاکہ اپ کے علم میں ہو کہ ُکچھ لوگ ایسے بھی‬

‫ہو سکتے ہیں جنہیں اس قسم کی مشکلات بھی پیش ا سکتی‬
‫ہیں۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔‬
‫وی بی جی ‪30‬‬

‫دو دھاری تلوار‬
‫اپریل ‪2014 ,09‬‬

‫بُہت جاندار تحریر ہے اور پھر اپ کا انداز بیاں‪ ،‬منظر کشی بُہت‬
‫ہی جاندار اور خوبصورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی تحریریں‬
‫کردار سازی کے لیئے بہت ضروری ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اچھے‬

‫برے کی تمیز سکھاتی ہیں‪ ،‬بلکہ اچھائی کو پسند کرنے اور‬
‫بُرائی سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ اپ کے انداز بیاں‬

‫مشکل پسندی سے دور ہے اس لیئے قاری کے ذہن پر اثر‬
‫چھوڑتا ہے۔ اپ نے ڈارون کی بات کی‪ ،‬ہمارا تو خیال ہے کہ اُن‬
‫کے نظریہ میں ایک معمولی سی تبدلی کر لی جائے تو بالکل‬
‫دُرست ہے۔ اور وہ تبدیلی یہ ہے کہ نظریہ کی مشہور تصویر میں‬
‫دکھائے گئے قطار میں موجود تمام کے تمام اراکین اپنا ُرخ موڑ‬
‫کر پیچھے کی طرف کر لیں۔ انسان کی پریشان حال زندگی کو‬

‫دیکھ کر لگتا ہے کہ اصل میں انسان ترقی کرتے کرتے بندر بن‬
‫گئے ہیں۔ مغربی ُممالک کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے لوگوں‬

‫میں یہ ترقی صاف دکھائی بھی دیتی ہے۔ اُن کی بڑھتی ہوئی‬
‫معصومیت دیکھ کر ہمیں وہ جانور ہی لگنے لگ گئے ہیں۔اس‬
‫وقت جو ڈارون کا نظریہ موجود ہے اس میں ایک سب سے بڑا‬
‫سوال یہ ہے کہ اگر بندر ترقی کر کہ انسان بنا ہے تو پھر ابھی‬
‫تک ہماری دُنیا میں اتنے بندر کیوں ہیں اور اُن کی ترقی میں کیا‬
‫رکاوٹ ہے؟ ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جانوروں کے خاندان ہوتے‬
‫ہیں جیسے‪ ،‬گھوڑا‪ ،‬گدھا‪ ،‬خچر‪ ،‬زیبرا وغیرہ۔ خرگوش‪ ،‬چوہا‪،‬‬
‫ُگلہری‪ ،‬نیولا وغیرہ۔ ایسے ہی انسان کا خاندان بندروں کا ہی ہے‪،‬‬
‫لیکن یہ علیحدہ نسل ہے۔ اور جس چیز نے انہیں اتنی ترقی دی‬
‫ہے وہ صرف ُزبان ہے۔ جس نے انہیں ایک دوسرے کے تجربات‬
‫سے بھی سیکھنے کی طاقت دی۔خیر‪ ،‬اپ کی تحریر کا صرف‬
‫ایک حصہ ہے ڈارون کا نظریہ‪ ،‬اصل تو یہی ہے کہ انسان کو‬
‫انسانوں اور جانوروں میں فرق رکھنا چاہیئے۔اپ کی تحریر بُہت‬

‫پسند ائی۔ بُہت ُشکریہ کہ اپ یہاں رقم کر دیتے ہیں اور ہم‬
‫فیضیاب ہو پاتے ہیں۔‬
‫وی بی جی‬

‫شیدا حرام دا‬
‫مارچ ‪2014 ,27‬‬

‫آپ کا انشائیہ پڑھا اور کچھ سوچ کر بیٹھ گیا۔ یہ مسئلہ کوئی آج‬
‫کا تو نہیں ہے۔ یہ ہمارے معاشرہ کا ازلی المیہ ہے۔ ہم نماز‪،‬‬

‫روزے‪ ،‬حج کو اسلام کی ابتدا اور انتہا جانتے ہیں اور اس پیمانہ‬
‫پر ہر ایک کو پرکھتے ہیں۔ سو تو ٹھیک ہے لیکن جب‬

‫ایمانداری‪ ،‬رشوت ‪ ،‬بد عنوانی‪ ،‬حرام خوری کا مرحلہ آتا ہے تو‬
‫سوائے "میرے" ہر شخص مجرم ہوتا ہے اور گردن زدنی۔ اپنے‬
‫گریبان میں کوئی جھانک کر نہیں دیکھتا۔ پچھلے دنوں ہندوستان‬

‫گیا تو ایک بزرگ (جو کہ عمر بھر کچہری میں صدر قانونگو‬
‫رہے ہیں اور رشوت پر گزارہ ہی نہیں کیا بلکہ مکان دوکان‬
‫بنوائے ہوئے ہیں) سے میں ملنے گیا۔ وہ اپنے صاحبزادے کو‬
‫سمجھا رہے تھے کہ دفتر نہ جایاکرو۔ جب دوسرے نہیں آتے تو‬
‫تم کیوں جاتے ہو۔ بس پہلی تاریخ کو جا کر تنخواہ لے آیا کرو۔‬
‫موصوف کے ہاتھ بھر سفید داڑھی ہے اور پنج وقتہ نماز پر‬
‫سختی سے عامل ہیں ۔ میں نے جب ادب سے عرض کی کہ آپ‬
‫اپنی اولاد کو حرام کام کے لئے تاکید کر رہے ہیں تو الٹے مجھ‬
‫پر بگڑ پڑے کہ دنیا کرتی ہے تو ہم کیوں نہ کریں۔ عرض کیا کہ‬
‫دنیا زنا کرے گی تو آپ بھی کریں گے اور ۔۔۔۔۔ کھائے گی تو وہ‬
‫آپ بھی کھائیں گے؟ صاحب وہ ایسے بکھرے کہ الله دے اور‬
‫بندہ لے۔ میں نے اپنی عافیت اسی میں جانی کہ اٹھ کر چلا‬
‫جائوں۔اب امریکہ کی سنئے۔ میں یہاں تقریبا پچاس سال سے‬
‫مقیم ہوں۔ الله کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اس عرصہ‬
‫میں نہ تو میں نے کسی کو ایک پیسہ رشوت دی اور نہ ایک‬
‫پیسہ رشوت لی اور الله کے فضل سے سرکاری اور غیر سرکاری‬
‫سارے کام ہوتے چلے گئے اور آج بھی ہورہے ہیں۔ یہ ایک‬
‫"کافر ملک" کا حال ہے اور وہ ایک "مسلم" مملکت کی کیفیت‬

‫ہے۔ ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا۔‬
‫سرور عالم راز‬

‫اپ کی یہ تحریر کافی دن پہلے پڑھ لی تھی‪ ،‬لیکن اپ کی تحریرں‬
‫ُکچھ ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا جھٹ سے جواب دینا نا انصافی‬

‫معلوم ہوتا ہے۔ اسے تحمل سے پڑھنا‪ ،‬اس پر سوچتے رہنا اور‬
‫پھر کہیں جا کر ُکچھ کہا جا سکتا ہے۔ ہم تو پڑھ کر ایسے جذباتی‬

‫ہوئے تھے کہ اگر اُسی وقت لکھنے بیٹھ جاتے تو جانے اس‬
‫ُمعاشرے پر کیا کیا لکھ جاتے۔ بُہت جاندار تحریر ہے اور اتنے‬
‫بڑے معاشرتی مسائل کو اپ کا اس چھوٹی سی تحریر میں بیان‬

‫کر دینا لائق صد تحسین ہے۔ ہماری نا چیز داد قبول کیجے۔ اس‬
‫‪ :‬تحیر سے ُمتعلق لکھنا تو بُہت ُکچھ تھا کہ‬
‫ہزار نُکتہ باریک تر رموز ایں جا ہست‬

‫لیکن اب قلم کو سنبھال لیا ہے ہم نے۔ اتنا کہنا چاہیں گے کہ‬
‫ہمارے ہاں یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ تعلیم سے تہذیب اور کردار‬

‫سازی ہوتی ہے۔ حالانکہ ہمارا خیال ہے کہ اب ایسا نہیں رہا۔‬

‫ہزاروں سال پہلے سے لے کر شائید تھوڑا عرصہ پہلے یعنی‬
‫شیخ سعدی مرحوم کے زمانے تک شائید‪ ،‬کردار سازی تعلیم کی‬
‫اولین ترجیح ہوتی تھی۔ اب صرف رٹہ رہ گیا ہے۔ اتنی فضولیات‬
‫تعلیم کا حصہ بن گئی ہے۔ کردار سازی کے لیئے چند گھسی پٹی‬
‫حکایات پڑھا دی جاتی ہیں جن میں ‪:‬پیاسا کوا‪ :‬جب کنکریاں ڈالتا‬
‫ہے تو ہمارا پہلی جماعت کا ‪ 6‬سالہ بچہ بھی ہنستا ہے کہ کوا‬
‫ایسا نہیں کر سکتا۔ پڑھ لکھ لینے سے کچھ نہیں ہوتا‪ ،‬اہم یہ ہے‬

‫کہ کیا پڑھا ہے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ ُمسلمان سؤر بھی صرف‬
‫اس لیئے نہیں کھاتا کہ کئی صدیوں سے نہیں کھایا اور اب کھا‬
‫کر متلی ہو گی وگرنہ تو شراب و سود بھی حرام ہیں۔ اور ہمارا یہ‬
‫خیال بھی ہے کہ اب صرف ادیب ہی یہ کوششیں کر رہے ہیں‪،‬‬

‫اور انہیں بھی بُہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔‬

‫ہم نے اپ کا بُہت وقت لے لیا۔ جس پر معذرت چاہیں گے۔تحریر پر‬
‫ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔۔‬
‫وی بی جی‬

‫علالتی استعارے‬
‫جولائی ‪2014 ,23‬‬

‫ُکچھ عرصہ غیر حاضر رہے۔ اپ جانتے ہی ہیں کہ رمضان میں‬
‫ہم ایسوں کو قید ہی کر لیا جاتا ہے‬

‫جناب کیا ہی اچھا مضمون ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول‬
‫کیجے۔ دُرست فرمایا اپ نے کہ اخلاقی اور روحانی بیماریوں کی‬
‫کسی کو فکر نہیں۔ ہم تو پہلے سے ہی قائل ہیں کہ اپ کی نظر‬

‫بہت گہرائی میں معاشرتی رویوں پر ٹکی ہے۔ ماشا الله بُہت‬
‫وسعت دی ہے اپ کے خیال کو قدرت نے۔‬

‫ویسے زیادہ تر یہ خودساختہ بیماریاں خواتین کو لاحق ہوتی‬
‫ہیں‪ ،‬لیکن کئی مرد حضرات بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر‬
‫وقت یہی رونا روتے رہتے ہیں۔ ان سب بیماریوں کی اہم بات یہ‬
‫ہوتی ہے کہ یہ کسی ڈاکٹر کو سمجھ نہیں اتیں اور ان میں افاقہ‬
‫نہیں ہوتا۔ گھر میں اتنی اقسام کی دوائیاں ہوتی ہیں کہ توبہ اور‬
‫ایک وقت میں کھانے کے بعد اتنی گولیاں کھائی جاتی ہیں کہ‬
‫سالن کی بجائے‪ ،‬چند نان فقط گولیوں کے ساتھ کھائے جا سکتے‬
‫ہیں۔ اگر کوئی ان کو یہ کہے کہ خدا نہ خواستہ اب وہ ہشاش‬

‫بشاش نظر ا رہے ہیں تو وہ اس شخص کے دشمن ہو جاتے ہیں۔‬
‫ایک جیسے چند لوگ مل کر بیٹھ جاتے ہیں تو مرغوں کی طرح‬
‫بیماریوں کا مقابلہ کراتے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر اور‬
‫حیران کن بیماری بتاتا ہے۔ ایک دوسرے کی بات ُسنتے کم ہیں‬
‫اور دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی بیماری بیان کرنے کا انتظار‬
‫کرتے رہتے ہیں۔ انہیں دوسروں کی ُکچھ بیماریاں سن کر افسوس‬

‫بھی ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ یہ بیماری انہیں کیوں نہ ہوئی۔‬
‫اخر میں بات اپ کے بیان پر ہی ختم ہوتی ہے کہ یہ خود ایک‬

‫روحانی و اخلاقی بیماری ہی ہے۔‬
‫تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد‬

‫وی بی جی ‪31‬‬

‫دوسری بار‬

‫آپ کی تحریر ہمیشہ کی طرح دلچسپ ہے۔ آپ کے پیر صاحب نے‬
‫لوگوں کا جو تجزیہ کیا ہے وہ تو بالکل صحیح ہے لیکن اس‬
‫صورت حال کا علاج کیا ہے یہ نہ معلوم ہو سکا۔ ایک بات اور‬
‫عرض کروں کہ پڑھنے کے بعد احساس تشنگی رہ گیا۔ ایک تو‬

‫آپ کبھی کبھی پنجابی کے کچھ مخصوص الفاظ اور محاورے لکھ‬
‫جاتے ہیں جن سے ہر شخص واقف نہیں ہے گو سیاق وسباق‬
‫سے اکثر معنی اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ دوسرے اس انشائیہ کا‬
‫اختتام کسی نتیجہ پر قاری کو نہیں پہنچا سکا۔ یہ ممکن ہے کہ‬
‫میرا تاثر بالکل ہی غلط ہو۔ اس صورت میں آپ سے معذرت کا‬
‫طالب ہوں۔‬
‫سرور عالم راز‬

‫جناب کیسے ممکن ہے کہ یہ افسانہ پسند نہ ایا ہو۔ ماشا الله نئے‬
‫موضوع پر ہے اور ہمارے اپنے خیالات کی تائید کرتا ہے سو‬
‫پسند نہ انا تو ممکن نہ تھا۔ البتہ ُکچھ لکھتے ہوئے ذرا سا‬
‫ہچکچائے تھے کہ محترم سرور عالم راز سرور صاحب نے ایک‬
‫ادھ ایسی بات کی جس سے ہمیں مکمل اتفاق نہیں۔ سوچا ُکچھ‬
‫لکھیں گے تو یہ اختلاف سامنے ا جائے گا اور ہم اپنی کم عقلی‬
‫اور کم علمی کے باعث کہیں انہیں خفا نہ کر دیں۔ اب چونکہ ُکچھ‬

‫کہنا لازم ہو گیا ہے تو عرض کئیے دیتے ہیں۔‬

‫ہمارے ناقص علم اور کم تجربہ کاری کی روشنی میں افسانہ ہوتا‬
‫ہی ایسا ہے کہ تشنگی چھوڑ جاتا ہے۔ افسانے کے مقاصد اور‬
‫انداز‪ ،‬مضمون سے قطعی مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مقصد کسی‬
‫کہانی کو مکمل کرنا بھی نہیں ہوتا۔ مضمون کا کام تو شاید یہی‬
‫ہوتا ہے کہ وہ پہلے کسی مسئلہ کی طرف توجہ دلائے‪ ،‬پھر اس‬
‫کی اصلیت کو پرکھے‪ ،‬فوائد نقصانات‪ ،‬اثرات‪ ،‬اور پھر اخر میں‬
‫کہیں جا کر ان کے حل کو واضح کرے۔ لیکن افسانہ اپنا کام اس‬
‫چھوٹی سی تقریباً نامکمل کہانی میں کر گیا ہے۔ معاشرے کی‬
‫کسی ایک تصور سے روشناس کروا گیا ہے۔ وہ تصور مثبت بھی‬

‫ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔‬

‫اسی خوبصورت افسانہ کے حوالے سے‪ ،‬اپ نے پڑھنے والوں‬
‫کے ذہنوں کو ان کرداروں کو پہچاننا سکھایا ہے جو مذہبی فرقہ‬

‫واریت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ دوسروں کے ذہنوں میں نفرت‬
‫بھرتے ہیں۔ لوگ اگر اس نفرت سے اتفاق نہ بھی کریں تو کھل‬

‫کر اظہار سے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کو بھی مذہبی طور پر‬
‫لوگ دھتکار نہ دیں۔ الفاظ کا چناؤ اور کہانی کا بیان یہ ایسے‬
‫عناصر سے پڑھنے والے کے دل میں نفرت پیدا کر رہا ہے اور‬
‫درزی کا کردار ان تکالیف کا شکار ہونے والوں کے لیئے دل میں‬
‫احترام پیدا کر رہا ہے۔ افسانہ اپنا کام کر ُچکا ہے اور اس کا حل‬
‫کوئی واضح ُکلیہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہی اس کا حل ہے کہ ایسے‬
‫مولوی سے نفرت کی جائے اور اسے دھتکار دیا جائے اور‬
‫ایسے درزی کا خیال رکھا جائے جو اس طرح کے مسئلہ کا‬

‫شکار ہو۔‬

‫اس خوبصورت اختتام پر بھی ہم اپ کو داد پیش کریں گے۔ ہلکی‬
‫سی تشنگی کا احساس جو قاری کو اس پر مجبور کرتا رہے گا کہ‬
‫افسانہ ُکچھ عرصہ یا وقت تک ذہن میں گردش کرتا رہے۔ اور پھر‬

‫اس کا پیغام اہستہ اہستہ خود ہی لا شعور کا حصہ بن جائے گا‬
‫اور وقت پر شعور میں ا کر معاشرے کو فائدہ دے گا۔ افسانہ کو‬
‫اس سے غرض نہیں کہ کہانی کے ہیرو نے اسے چیرا یا نہیں۔‬
‫لیکن ہمیں یقین کے کہ ایسے کرداروں کو قاری کا ذہن خود بخود‬

‫چیر کر رکھ دے گا۔‬

‫ہماری طرف سے داد قبول کیجے۔ اور محترم سرور عالم راز‬
‫سرور صاحب سے بھی معذرت چاہیں گے اگر ہم ُکچھ بے ُسرے‬

‫ہو گئے ہوں۔ جو حال سو حاضر‬
‫وی بی جی‪32‬‬

‫اردو انجمن پر باباجی مقصود حسنی کے دستیاب افسانے‬

‫پٹھی بابا ‪١-‬‬
‫کریمو دو نمبری ‪٢-‬‬
‫میں ابھی اسلم ہی تھا ‪٣-‬‬
‫جواب کا سکتہ ‪٤-‬‬

‫ماسٹر جی ‪٥-‬‬
‫بڑے ابا ‪٦-‬‬
‫گناہ گار ‪٧-‬‬

‫انا کی تسکین ‪٨-‬‬
‫چوتھی مرغی ‪٩-‬‬
‫انگریزی فیل ‪١٠-‬‬
‫تنازعہ کے دروازے پر ‪١١-‬‬

‫کامنا ‪١٢-‬‬
‫ابا جی کا ہم زاد ‪١٣-‬‬

‫کملا کہیں کا ‪١٤-‬‬
‫دو دھاری تلوار ‪١٥-‬‬

‫آوارہ الفاظ ‪١٦-‬‬
‫شیدا حرام دا ‪١٧-‬‬

‫‪ ١٨‬زینہ‬
‫ممتا عشق کی صلیب پر ‪١٩-‬‬

‫مائی جنتے زندہ باد ‪٢٠-‬‬
‫حلالہ ‪٢١-‬‬

‫بڑا آدمی ‪٢٢-‬‬
‫من کا بوجھ ‪٢٣-‬‬
‫آنچل جلتا رہے گا ‪٢٤-‬‬

‫بیوہ طوائف ‪٢٥-‬‬
‫جنگ ‪٢٦-‬‬

‫دو لقمے ‪٢٧-‬‬
‫فقیر بابا ‪٢٨-‬‬
‫بازگشت ‪٢٩-‬‬
‫میری ناچیز بدعا ‪٣٠-‬‬
‫دو منافق ‪٣١-‬‬
‫آخری کوشش ‪٣٢-‬‬
‫معالجہ ‪٣٣-‬‬
‫ابھی وہ زندہ تھا‪٣٤-‬‬
‫سچائی کی زمین ‪٣٥-‬‬
‫لاروا اور انڈے بچے ‪٣٦-‬‬
‫ان پڑھ ‪٣٧-‬‬
‫پاخانہ خور مخلوق‪٣٨-‬‬
‫دائیں ہاتھ کا کھیل ‪٣٩-‬‬

‫پنگا ‪٤٠-‬‬
‫الله جانے ‪٤١-‬‬
‫وہ کون تھے ‪٤٢-‬‬
‫دروازے سے دروازے تک ‪٤٣-‬‬
‫یہ کوئی نئی بات نہ تھی ‪٤٤-‬‬
‫اسے پیاسا ہی رہنا ہے ‪٤٥-‬‬
‫پہلا قدم ‪٤٦-‬‬
‫ادریس شرلی ‪٤٧-‬‬
‫اسلام اگلی نشت پر ‪٤٨-‬‬
‫موازنہ ‪٤٩-‬‬

‫سرگوشی ‪٥٠-‬‬
‫علالتی استعارے ‪٥١-‬‬

‫دوسری بار ‪٥٢-‬‬
‫آخری کوشش ‪٥٣-‬‬
‫چار چہرے ‪٥٤-‬‬

‫بازگشت ‪٥٥-‬‬
‫بیوہ طوائف ‪٥٦-‬‬
‫کیچڑ کا کنول ‪٥٧-‬‬

‫درج بالا تفصیلات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو انجمن‬
‫کتنی امیر اور جاندار ہے۔ یہ مواد صرف ایک شخص سے متعلق‬
‫ہے۔ اگر شخصی حوالہ سے مواد کی اصناف کے تحت جمع بندی‬
‫ہو جائے تو مشرق و مغرب کی جامعات کو بہت سا معیاری مواد‬
‫میسر آ جائے گا اور اس پر تحقیقی نوعیت کا کام کرنا آسان ہو‬
‫جائے گا۔ اردو انجمن کا کوئی رکن بھی یہ کام کرنے کا بیڑا اٹھا‬
‫سکتا ہے۔ بلاشبہ اہل تحقیق اور اہل نقد پر یہ بہت بڑا احسان ہو‬

‫گا۔‬

‫‪----------------------------------------‬‬

‫حوالہ جات‬

1- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9023.02-
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0

3- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8365.0
4- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9069.0
5- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9044.0
6- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9019.0
7- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9000.0
8- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8987.0
9- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8972.0
10- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8952.0
11- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8976.0
12- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8944.0
13- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8934.0
14- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8916.0
15- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8904.0
16- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8895.0
17- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8580.018-

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8673.0
19- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8880.0
20- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8885.0
21- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8863.0
22- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8753.0
23- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8844.0
24- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8840.025-
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&

topic=8809.0
26-

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&
topic=8808.0
27-

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&
topic=8841.0

28-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf5
7&topic=8798.0

29-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf5
7&topic=8794.0
30-

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&
topic=8787.0
31-

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9097.032-http://www.bazm.urduanjuma
n.com/index.php?topic=9162.msg56757#new

‫حضرت بلھے شاہ قصوری کی اردو شاعری‬

‫محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور‬

‫قصور جہاں اپنی قدامت اور مخصوص ثقافت کے حوالہ سے اپنی‬
‫پہچان رکھتا ہے وہاں اپنی الگ سے تاریخی حثیت بھی رکھتا‬
‫ہے۔ شہزادہ کسو‘ امیر خسرو‘ اخوند سعید‘ راجہ ٹوڈر مل‘‬

‫شہزادہ سلیم عرف شیخو وغیرہ کی اس شہر سے نسبت رہی ہے۔‬
‫استاد امانت علی اور نور جہاں کو کیوں کر فراموش کیا جا سکے‬

‫گا۔ کھانے کے شوقین حضرات کے لیے اندرسے‘ قصوری‬
‫فالودہ خاص دل چسپی کا سامان ہیں۔ لو قصوری جتی کو ‘میتھی‬

‫تو میں بھول ہی رہا تھا۔‬

‫ان تمام چیزوں سے ہٹ کر‘ وراث شاہ اور بلھے شاہ تو ادبی دنیا‬
‫میں کسی بھی سطح پر فراموش نہیں کیے جا سکتے۔ ان ادبی‬
‫شخصیتوں سے تحقیقی حوالہ سے وابستہ لوگ بھی کبھی‬
‫فراموش نہ کیے جا سکیں گے۔ قصور کی ادب روایت کم زور‬
‫نہیں یہ الگ بات ہے کہ اس جانب کسی کی خصوصی توجہ نہیں‬
‫گئی۔ ایک سے ایک بڑھ کر علمی اور ادبی شخصیات پڑی ہیں۔‬

‫قصور حضرت بلھے شاہ قصوری کی وجہ سے دنیا بھر میں‬
‫شہرت رکھتا ہے۔ صوفیا اور بھی ہیں لیکن حضرت بلھے شاہ‬
‫قصوری اپنے صوفیانہ کلام کی وجہ سے معروف ہیں۔ انھوں نے‬
‫اپنے کلام میں جہاں صوفیانہ معاملات کو پیش کیا ہے وہاں‬
‫سماجی امور کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ سماجی رویوں کی بھی‬
‫عکاسی کی ہے۔ عصری سیاسی قوتوں کو بھی تنقید کا نشانہ‬
‫بنایا ہے۔ ان کا کلام علامتوں استعاروں کے ذریعے ہی سہی اپنے‬
‫عہد کی عکاسی کرتا ہے۔ بعض جگہ کھل کر بھی تنقید کرتے‬

‫ہیں۔ غالبا یہی وجہ رہی ہو گی کہ ان کے عہد کے مخصوص‬
‫طبقے ان سے نالاں تھے۔‬

‫حضرت شاہ حسین لاہوری نے پنجابی شاعری میں کافی کو‬
‫متعارف کرایا اور اسے عروج دیا۔ ان کی کافیاں راگ پر لکھی‬
‫گئیں۔ ہر کافی کسی نہ کسی راگ پر ہے۔ حضرت شاہ حسین‬

‫لاہوری نے کافی کو جو مقام بخشا اسے حضرت بلھے شاہ‬
‫قصوری شہرت کی بلندیوں پر لے گیے۔ ان کی کافیاں راگ کے‬
‫علاوہ مروجہ میٹر پر ہیں۔ ان میں غنائیت کا عنصر بدرجہ اتم‬
‫موجود ہے۔ حضرت بلھے شاہ قصوری کی کافیوں کو ملک کے‬
‫ممتاز گلوکاروں نے گا کر شہرت اور عزت حاصل کی۔ عابدہ‬
‫پروین‘ حامد علی بیلا‘ نصرت فتح علی خاں‘ پٹھانے خاں وغیرہ‬
‫ان میں شامل ہیں۔ یہاں تک کہ بھارتی گلوکاروں نے بھی ان کی‬
‫کافیوں کو شوق اور عقیدت سے گایا ہے۔ بعض بول تو عوامی‬

‫سطح پر محاورے کا درجہ اختیار کر گیے ہیں۔‬

‫ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے بڑی محنت‘ لگن اور دیانت داری سے‬
‫ان کا کلام اکھٹا کیا اور اسے کلیات کی شکل دے کر زبان و ادب‬

‫پر بہت بڑا احسان کیا۔ بلاشبہ ان کی کوشش عوامی سطح پر‬
‫مقبولیت کے درجے پر فائز ہوئی۔ اسے آج بھی اساسی ماخذ کا‬
‫درجہ حاصل ہے۔ باباجی مقصود حسنی کے خصوصی مطالعہ میں‬

‫حضرت بلھے شاہ قصوری رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے‬
‫مقالہ۔۔۔۔۔بلھے شاہ کی شاعری کا لسانی مطالعہ۔۔۔۔ میں ڈاکٹر فقیر‬
‫محمد فقیر کے مرتب کردہ کلیات کو ہی اساسی ماخذ کے طور پر‬

‫استعمال کیا ہے۔‬

‫باباجی مقصود حسنی نے اس لسانیاتی مطالعے سے یہ بات‬

‫واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجابی کلام میں حضرت‬
‫بلھے شاہ قصوری کے اردو کلام کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ ان‬

‫کے اس مطالعے سے حافظ شیرانی کے نظریے۔۔۔۔ پنجاب میں‬
‫اردو۔۔۔۔ کو تقویت ملتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ باباجی مقصود‬
‫حسنی اس نظریے سے قطعی متفق نہیں۔ اردو کے حوالہ سے ان‬
‫کا اپنا الگ سے نقطہءنظر ہے۔ انھوں نے ۔۔۔۔۔اردو ہے جس کا‬
‫نام۔۔۔۔۔ میں اپنا نظریہ پیش کر دیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے‬

‫حضرت بلھے شاہ قصوری کے کلام میں اردو شاعری کی‬
‫نشاندہی کی تھی۔ باباجی مقصود حسنی نے اسے عملی شکل دے‬

‫کر اردو والوں کو خوشخبری کا سندیسہ دیا ہے۔‬

‫انھوں نے اپنے اس لسانیاتی مطالعہ میں اس کی پانچ صورتیں‬
‫بتائی ہیں۔‬

‫مکمل اردو کلام ‪١-‬‬

‫پنجابی کلام میں اردو کلام کی آمیزش ‪٢-‬‬

‫ہندی نما اردو کلام ‪٣-‬‬

‫پنجابی کلام میں اردو مصرعے ‪٤-‬‬

‫ا اردو نما پنجابی کلام ‪٥-‬‬

‫ب مکمل پنجابی کلام‬

‫ڈاکٹر ریاض شاہد نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں باباجی کے‬
‫مقالے کو بنیادی ماخذ کے طور پر استعمال کیا ہے اور ان کے‬
‫موقف کو دہرایا ہے۔‬

‫باباجی نے اپنے اس تحقیقی کام کو بڑی باریک بینی سے انجام‬

‫دیا ہے۔ سارے کلام کو الگ الگ جزئیات میں تقسیم کرکے دیکھنا‬
‫واقعی بڑے دل گردے اور محنت کا کام ہے۔ ان کی اس محنت کو‬
‫قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا تاہم اس تحقیقی کاوش کو اس کا جائز‬

‫مقام حاصل نہیں ہو سکا۔ شاید اس کی وجہ بھی ہے کہ وہ‬
‫اشتہاربازی نہیں کرتے۔ ایک کام کی تکمیل کے بعد کسی دوسرے‬

‫کام میں جٹ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد امین کا کہنا ہے‬

‫یہ پہلی کتاب ہے جس میں کسی شاعر کا باقاعدہ ساختیاتی‬
‫مطالعہ کیا گیا ہے۔‬

‫اردو شعر فکری و لسانی رویے ص‪١١٥ :‬‬

‫انھوں نے اپنے اس مطالعے کو سات حصوں میں تقسیم کیا ہے‬

‫مذکر اسما کے خاتمے کی آواز ‪١-‬‬

‫اردو میں جمع بنانے کے اصول‬

‫فعلی صورتیں‬

‫حاصل مصدر بنانے کے اصول‬

‫فعلی مادوں کے مختلف اصول‬

‫یو اور ئیو کا لاحقہ چند مخصوص مرکبات‬

‫ضمائر کا استعمال‬

‫اسم صفت ‪٢-‬‬

‫حروف‬

‫‘حروف عطف‘ حروف اضافت‘ حرف استفہام‘ حرف استثنی‬

‫حرف شرط‘ حروف جار‘ حروف تردید‬

‫آوازوں کا ہیر پھیر ‪٣-‬‬

‫نوں غنہ کا حشوی استعمال‬

‫نوں غنہ کا حذف‬

‫قدیم اردو املا‬

‫تلمیحات‬

‫لفظوں کے نئے روپ‬

‫چند اردو مصادر‬

‫قدیم اردو پر مقامی زبانوں کی چھاپ ‪٤-‬‬

‫تجزیاتی مطالعہ ‪٥-‬‬

‫چند الفاظ ‪٦-‬‬

‫اردو کلام ‪٧-‬‬

‫جو کتاب میں شامل نہیں‘ باباجی کے پاس مسودے کی صورت‬
‫میں موجود ہے۔‬

‫باباجی نے اپنے موقف کی تائید میں اردو جدید و قدیم کلام سے‬
‫مثالیں پیش کی ہیں ساتھ حضرت بلھے شاہ قصوری کے کلام‬
‫سے بھی مثالیں دی ہیں۔ اس طرح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے‬

‫کہ پنجابی کلام میں اردو کلام بھی شامل ہے۔‬

‫انھوں نے اس مطالعے کے لیے بائیس کتب سے استفادہ کیا ہے۔‬

‫ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ماہر لسانیات‬

‫پرفیسر یونس حسن‬

‫ڈاکٹر مقصود حسنی ایک منفرد اور نامور ماہر لسانیات ہیں۔ ان‬
‫کے درجنوں مقالے رسائل و جرائد اور انٹر نیٹ کی مختلف ویب‬
‫سائٹس پر پڑھنے کو ملتے ہیں۔ غیر مطبوعہ مقالات دیکھنے کا‬

‫مجھے اتفاق ہوا ہے۔ ان مقالات پر سرسری نظر ڈالنے سے‬
‫بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ لسانیات میں غیر معمولی قدرت‬
‫رکھتے ہیں۔ ان مقالات میں موضوعات کا تنوع اور رنگا رنگی‬

‫ملتی ہے۔ راقم اپنے بےلاگ مطالعے اور جائزے سے اس‬
‫نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ مقالات لسانیات کے باب میں ایک اہم‬

‫اضافہ ہیں۔‬
‫ان مقالات میں زبان کے جو موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں‬
‫ان میں آوازوں کا نظام بڑی خصوصیت کا حامل ہے۔ زبانوں میں‬
‫آوازیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ الفاظ کی تشکیل میں‬
‫آوازیں کلیدی کردار کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے‬
‫لفظیات‘ صوتیات‘ معنویات‘ ہیت‘ ساخت‘ گرائمر اور بناوٹ کو‬

‫بھی موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے لفظوں کی سماجیات اور‬
‫نفسیات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔‬

‫ڈاکٹر صاحب نے ساختیات اور پس ساختیات پر بھی نمایاں کام‬
‫کیا ہے۔ انہوں باباجی بلھے شاہ صاحب کا لسانی مطالعہ کیا ہے‬

‫جسے ڈاکٹر محمد امین نے کسی شاعر کے کلام کا پہلا‬
‫ساختیاتی مطالعہ قرار دیا ہے۔ مرزا غالب کی لفظیات‬

‫کےساختیاتی مطالعہ کے ساتھ ساتھ ساختیات پر بھی تین مقالے‬
‫تحریر کیے ہیں۔‬

‫ان کےاس کام سے کئی لسانی اور ساختیاتی جہتیں سامنے آتی‬
‫ہیں۔‬

‫مزید براں ان کے دستیاب مقالات میں زبانوں کے وجود میں‘‬
‫آنے ترقی کرنے یا بعض الفظ کے متروک ہو جانے کے حوالہ‬
‫سے بھی بہت سا مواد میسر آتا ہے۔ اردو زبان کے وہ عاشق‬
‫ہیں اس لیے وہ کسی مقام پر اسے نظرانداز نہیں ہوتی۔ اردو پر‬
‫گفتگو کے دوران اس کی موجودہ صرتحال پر بھی گفتگو کرتے‬

‫ہیں۔‬
‫عربی فارسی اور انگریزی کےاردو پر اثرات کو بھی اپنی تحقیق‬
‫کا حصہ بنایا ہے۔ تقابلی مطالعے کے دوران اردو سے مثالیں‬

‫ضرور پیش کرتے ہیں۔‬

‫انہوں نے جاپانی کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی ہے۔ اس کا‬
‫کچھ حصہ ترجمہ ہو کر اردو نیٹ جاپان پر قسطوں میں شائع ہو‬

‫چکا ہے۔‬

‫ڈاکٹر مقصود حسنی نے اردو کی ذاتی آوازیں اور بدیسی آوازوں‬
‫کے دخول پر بھی گفتگو کی ہے۔ مہاجر زبانوں کے الفاظ کا‬

‫مقامی زبانوں میں دخول اور اشکالی اور ان کی معنوی تبدیلی پر‬
‫بھی گفتگو کی ہے۔ وہ بھاری آوازوں کو بھی زیر بحث لائے‬
‫ہیں۔‬

‫غالب پر ان کے لسانی کام کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال اوپن‬
‫یونیورسٹی نےمحمد لطیف لیکچرار اردو پاکپتن کو ایم فل اردو‬
‫کا مقالہ بعنوان مقصود حسنی اور غالب شناسی تفویض کیا ہے۔‬

‫ان کے کچھ مقالات کی فہرست درج کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے‬
‫کہ یہ تفصیل لسانیات سے شغف رکھنے والوں کے لیے‬
‫خصوصی دل چسپی کا موجب بنے گی۔‬

‫دستیاب اردو مضامین کی فہرست‬

‫اردو ہے جس کا نام ‪١-‬‬
‫لفظ ہند کی کہانی ‪٢-‬‬

‫ہندوی تاریخ اور حقائق کے آئینہ میں ‪٣-‬‬
‫ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود ‪٤-‬‬

‫اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ‪٥-‬‬
‫اردو کی چار آوازوں سے متعلق گفتگو ‪٦-‬‬

‫اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ ‪٧-‬‬
‫اردو میں رسم الخط کا مسلہ ‪٨-‬‬

‫انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات ‪٩-‬‬
‫سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں ‪١٠-‬‬
‫اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک ‪١١-‬‬

‫اردو سائنسی علوم کا اظہار ‪١٢-‬‬
‫قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے ‪١٣-‬‬

‫اردو‘ حدود اور اصلاحی کوششیں ‪١٤-‬‬
‫قدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ‪١٥-‬‬

‫بلھے شاہ کی زبان کا لسانی مطالعہ ‪١٦-‬‬
‫شاہی کی شاعری کا لسانی مطالعہ ‪١٧-‬‬

‫خواجہ درد کے محاورے ‪١٨-‬‬
‫سوامی رام تیرتھ کی اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ‪١٩-‬‬

‫الفاظ اور ان کا استعمال ‪٢٠-‬‬
‫آوازوں کی ترکیب و تشکیل کے عناصر ‪٢١-‬‬
‫الفاظ کی ترکیب‘ استعمال اور ان کی تفہیم کا مسلہ ‪٢٢-‬‬

‫زبانوں کی مشترک آوازیں ‪٢٣-‬‬
‫پاکستان کی زبانوں کی پانچ مخصوص آوازیں ‪٢٤-‬‬

‫عربی زبان کی بنیادی آوازیں ‪٢٥-‬‬
‫عربی کی علامتی آوازیں ‪٢٦-‬‬

‫دوسری بدیسی آوازیں اور عربی کا تبادلی نظام ‪٢٧-‬‬
‫پ کی متبادل عربی آوازیں ‪٢٨-‬‬
‫گ کی متبادل عربی آوازیں ‪٢٩-‬‬
‫چ کی متبادل عربی آوازیں ‪٣٠-‬‬

‫مہاجر اور عربی کی متبادل آوازیں ‪٣١-‬‬
‫بھاری آوازیں اور عربی کے لسانی مسائل ‪٣٢-‬‬

‫چند انگریزی اور عربی کے مترادفات ‪٣٣-‬‬
‫پنجابی اور عربی کا لسانی رشتہ ‪٣٤-‬‬

‫چند انگریزی اور عربی مشترک آوازیں ‪٣٥-‬‬
‫انٹرنیٹ پر عربی میں اظہار خیال کا مسلہ ‪٣٦-‬‬

‫عربی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ‪٣٧-‬‬
‫عربی اور عہد جدید کے لسانی تقاضے ‪٣٨-‬‬
‫فارسی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ‪٣٩-‬‬

‫پشتو کی چار مخصوص آوازیں ‪٤٠-‬‬

‫آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی ‪٤١-‬‬
‫انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ‪٤٢-‬‬
‫انگریزی اور اس کے حدود ‪٤٣-‬‬
‫انگریزی آج اور آتا کل ‪٤٤-‬‬

‫تبدیلیاں زبانوں کے لیے وٹامنز کا درجہ رکھتی ہیں ‪٤٥-‬‬
‫زبانیں ضرورت اور حالات کی ایجاد ہیں ‪٤٦-‬‬

‫معاون عناصر کے پیش نظر مزید حروف کی تشکیل ‪٤٧-‬‬
‫برصغیر میں بدیسیوں کی آمد اور ان کے زبانوں پر اثرات ‪٤٨-‬‬

‫کچھ دیسی زبانوں میں آوازوں کا تبادل ‪٤٩-‬‬
‫جاپانی میں مخاطب کرنا ‪٥٠-‬‬

‫جاپانی اور برصغیر کی لسانی ممثالتیں ‪٥١-‬‬
‫اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ ‪٥٢-‬‬

‫لسانیات کے متعلق کچھ سوال و جواب ‪٥٣-‬‬

‫انگریزی مضامین کی دستیاب فہرست‬

‫‪1- Urdu has a strong expressing power and a sounds system‬‬

‫‪2- Word is to silence instrument of expression‬‬

‫‪3- This is the endless truth‬‬

‫‪4- The words will not remain the same style‬‬

‫‪5- Language experts can produce new letters‬‬

6- Sound sheen is very commen in the world languages
7- Native speakers are not feel problem

8- Languages are by the man and for the man

9- The language is a strong element of pride for the people

10- Why to learn Urdu under any language of the world

11- Word is nothing without a sentence

12- No language remain in one state

13- Expression is much important one than designates that correct
or wrong writing

14- Student must be has left liberations in order to express his
ideas

15- Six qualifications are required for a language

17- Sevevn Senses importence in the life of a language

18- Whats bad or wrong with it?!
19- No language remains in one state
20. The common compound souds of language
21- The identitical sounds used in Urdu
22- Some compound sounds in Urdu
23- Compound sounds in Urdu (2)

24- The idiomatic association of urdu and english
25- The exchange of sounds in some vernacular languages

26- The effects of persian on modern sindhi
27- The similar rules of making plurals in indigious and

foreign languages
28- The common compounds of indigious and foreign

languages
29- The trend of droping or adding sounds
30- The languages are in fact the result of sounds
31- Urdu and Japanese sound’s similirties
32- Other languages have a natural link with Japanese’s

sounds
33- Man does not live in his own land
34- A person is related to the whole universe

35- Where ever a person
36- Linguistic set up is provided by poetry
37- How to resolve problems of native and second language
38- A student must be instigated to do something himself
39- Languages never die till its two speakers
40- A language and society don’t delovp in days
41- Poet can not keep himself aloof from the universe
42- The words not remain in the same style

43- Hindustani can be suggested as man's comunicational
language

44- Nothing new has been added in the alphabets
45- A language teacher can makea lot for the human society

46- A language teacher would have to be aware
47- Hiden sounds of alphabet are not in the books
48- The children are large importence and sensative resource of the

sounds
49- The search of new sounds is not dificult matter
50- The strange thought makes an odinary to special one
51- For the relevation of expression man collects the words from the

different caltivations
52- Eevery language sound has has then two prononciations

53- Language and living beings

‫مقصود حسنی اور اردو زبان‬

‫قاضی جرار حسنی‬

‫پروفیسر مقصود حسنی کا اردو سے جنم جنم کا پیار ہے۔ اس کی‬
‫‘ترویج و ترقی کے لیے زندگی بھر کوشش کی۔ افسانہ‘ شاعری‬
‫مزاح‘ لسانیات‘ تنقید‘ تحقیق‘ مشرق و مغرب کے شعر و ادب‘‬
‫تراجم وغیرہ پر کام تو کیا ہی ہے‘ لیکن اس کے نفاذ کے لیے‬
‫بھی کوششیں کی ہیں۔ اس کے لیے‘ اردو سوسائٹی پاکستان قائم‬
‫درخواستیں گزاریں‘ علما سے فتوے لیے‘ قراردادیں منظور ‘کی‬
‫پتا ‘کروائیں‘ مقتدرہ حلقوں سے رابطے کیے‘عدالت دیکھی‬

‫نہیں کیا کچھ کیا۔‬

‫ان تمام باتوں سے ہٹ کر‘ اردو کے بارے مضامین تحریر کیے۔‬
‫یہ مضامین جہاں اردو کی تاریخ سے متعلق ہیں‘ وہاں اردو کے‬
‫روشنی ڈالتے ہیں۔ ان مضامین میں اردو ‘ابلاغی دائرے پر بھی‬
‫کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ ان مضامین میں دیگر‬

‫زبانوں سے تقابلی صورت بھی ملتی ہے۔ تقابل میں ابلاغ‘‬
‫آوازوں کا نظام اور اس زبان کی لچک پذری کو باطورخاص‘ زیر‬
‫بحث لایا گیا ہے۔ ان تینوں کے تحت اردو کو اس قابل بتایا ہے‘‬

‫کہ وہ انسانی رابطے کی زبان‘ بننے کی اہلیت رکھتی ہے۔‬

‫پروفیسر مقصود حسنی نے‘ اس کے تینوں رسم الخط پر بھی‬
‫گفتگو کی ہے۔ انہوں نے خواندگی کی صورتوں پر بھی گفتگو کی‬

‫ہے۔ دلائل سے ثابت کیا ہے‘ کہ اردو اپنے لسانی نظام اور‬
‫آوازوں کی کثرت کے حوالہ سے‘ دنیا کی بہتریں زبان ہے۔ اسے‬
‫استعمال میں آنے کے حوالہ سے‘ چینی کے قریب قریب کی زبان‬

‫قرار دیا۔‬

‫انہوں نے اپنے مضامین میں‘ انگریزی کے لسانی نقائص پر بھی‬
‫گفتگو کی ہے۔ آوازوں کی کمی اور نقائص کو بھی صرف نظر‬
‫نہیں کیا۔ ان کی تحریریں اخبارات و رسائل میں چھپنے کے‬
‫علاوہ‘ انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔ دستیاب پچاس تحریروں کی‬
‫فہرست درج خدمت ہے۔ ہر عنوان تحریر کی نوعیت و حیثیت کو‬
‫واضح کر رہا ہے۔ اب مضامین کی فہرست ملاحظہ ہو۔‬

‫اردو کی ترویج کا ترجیحی بنیادوں پر اہتمام لازم ہے روزنامہ ‪١-‬‬
‫امروز لاہور ‪ ٦‬ستمبر ‪١٨٨٧‬‬

‫اردو کو اپنا مقام کیوں نہیں ملا روزنامہ مشرق لاہور ‪٢- ١٧‬‬
‫جون ‪١٩٨٩‬‬

‫‘انگریز کی اردو نوازی کیوں روزنامہ امروز لاہور ‪٣- ٢٤‬‬
‫جولائی ‪٢٥‘ ٢٦‘ ٢٧ ١٩٩٠‬‬

‫اردو کا تاریخی سفر روزنامہ جہاں نما لاہور ‪ ٢‬دسمبر ‪٤-‬‬
‫‪١٩٩٠‬‬

‫سرسید تحریک نے اردو کو مسلمانوں کی زبان کا درجہ دیا ‪٥-‬‬
‫روزنامہ مشرق لاہور ‪ ٢٧‬جنوری ‪١٩٩١‬‬

‫اردو اور عصری تقاضے روزنامہ جہاں نما لاہور ‪٦- -١٩‬‬
‫اگست ‪١٩٩١‬‬

‫اردو کی ترقی آج کی ضرورت روزنامہ وفاق لاہور ‪ ١٨‬مارچ ‪٧-‬‬
‫‪١٩٩٢‬‬

‫روزنامہ مشرق لاہور ‪ ١‬اپریل ‪١٩٩٢‬‬
‫اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کی اپنی زبان روزنامہ وفاق لاہور ‪٨-‬‬

‫‪ ١٧‬مارچ ‪١٩٩٢‬‬
‫اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم اسلام کی ضرورت ہے روزنامہ مشرق ‪٩-‬‬

‫لاہور ‪ ٥‬فروری ‪١٩٩٢‬‬
‫اردو کو لازمی زبان اور مضمون کا درجہ دیا جائے ‪١٠-‬‬

‫روزنامہ مشرق لاہور ‪ ٩‬فروری ‪١٩٩٢‬‬
‫اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم انسانی کی ضرورت کیوں روزنامہ ‪١١-‬‬

‫مشرق لاہور ‪ ١٩‬فروری ‪١٩٩٢‬‬
‫انگریزی زبان۔۔۔۔۔فروغ کیسے ہو روزنامہ پاکستان لاہور ‪١٢-‬‬

‫‪ ١‬مارچ ‪١٩٩٢‬‬
‫اردو سے نفرت ایک نفسیاتی عارضہ روزنامہ مشرق ‪١٣-‬‬

‫لاہور ‪ ٩‬اپریل ‪١٩٩٢‬‬
‫اردو برصغیر کے مسلمانوں کی زبان روزنامہ جہاں نما ‪١٤-‬‬

‫لاہور ‪ ١٠‬اپریل ‪١٩٩٢‬‬
‫اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے روزنامہ وفاق لاہور ‪١٥-‬‬

‫‪ ١٩‬اپریل ‪١٩٩٢‬‬
‫انگریزی کی مقبولیت میں کمی کیوں روزنامہ مشرق لاہور ‪١٦-‬‬

‫‪ ٢٧‬اپریل ‪١٩٩٢‬‬
‫اردو پر چند اعتراضات اور ان کا جواب روزنامہ وفاق ‪١٧-‬‬

‫لاہور ‪ ٢٠‬مارچ ‪١٩٩٢‬‬
‫انگریزی قومی ترقی کی راہ پتھر ماہنامہ اخبار اردو اسلام ‪١٨-‬‬

‫آباد نومبر ‪١٩٩٢‬‬

‫اردو کی مختصر کہانی اہل قلم ملتان ‪١٩- ١٩٩٦‬‬
‫اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ماہنامہ نوائے پٹھان لاہور ‪٢٠-‬‬

‫جون ‪٢٠٠٦‬‬
‫اردو بالمقابلہ انگریزی روزنامہ وفاق لاہور س ن ‪٢١-‬‬

‫زبان اور قومی یک جہتی مسودہ ‪٢٢-‬‬
‫اردو ہے جس کا نام ‪٢٣-‬‬

‫اردو کے متعلق انٹرنیٹ پر ملنے والے مضامین‬

‫لفظ ہند کی کہانی ‪٢٤-‬‬
‫ہندوی تاریخ اور حقائق کے آئینہ میں ‪٢٥-‬‬
‫ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود ‪٢٦-‬‬

‫اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ‪٢٧-‬‬
‫اردو کی چار آوازوں سے متعلق گفتگو ‪٢٨-‬‬

‫اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ ‪٢٩-‬‬
‫اردو میں رسم الخط کا مسلہ ‪٣٠-‬‬

‫انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات ‪٣١-‬‬
‫سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں ‪٣٢-‬‬
‫اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک ‪٣٣-‬‬

‫اردو سائنسی علوم کا اظہار ‪٣٤-‬‬
‫قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے ‪٣٥-‬‬

‫حدود اور اصلاحی کوششیں ‘اردو ‪٣٦-‬‬
‫قدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ‪٣٧-‬‬
‫انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ‪٣٨-‬‬

‫انگریزی اور اس کے حدود ‪٤٩-‬‬

٤٠- ‫انگریزی آج اور آتا کل‬
٤١- ‫آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی‬
٤٢- ‫اردو' رسم الخط کے مباحث اور دنیا کی زبانیں‬

43- Lets learn urdu

44- Urdu has a strong expressing power and a

sounds system

45- Why to learn Urdu under any language of the

world

46- The identitical sounds used in Urdu

47- Some compound sounds in Urdu

48- Compound sounds in Urdu (2)
49- Urdu and Japanese sound’s similirties

50- Urdu can be suggested world's language

‫مقصود حسنی اور اقبال فہمی‬

‫قاضی جرار حسنی‬

‫اقبال شاعر اور مفکر کی حیثیت سے‘ بین الاقوامی شہرت کے‬
‫حامل شخص ہیں۔ پاکستان میں انہیں مفکر پاکستان کی حیثیت‬
‫بھی حاصل ہے۔ معاملات میں‘ بات کو باوزن کرنے کے حوالہ‬
‫سے‘ ان کے کسی ناکسی شعر کو درمیان میں لایا جاتا ہے۔ شاید‬
‫ہی کوئی ایسا شخص ہو گا‘ جسے اتنی پذیرائی حاصل ہوئی گی۔‬
‫یہ بھی حقیقت ہے کہ ان پر بہت سا تحقیقی کام ہوا ہے اور ہو رہا‬
‫ہے۔ جامعات میں شعبہءاقبالیات قائم ہو چکا ہے‘ تاہم لوگ ذاتی‬

‫سطح پر بھی مصروف کار ہیں۔‬

‫پروفیسر مقصود حسنی بھی اس ذیل میں پیچھے نہیں رہے۔‬
‫انہوں نے ناصرف‘ ان کی حیات کے مختلف گوشوں کو قلم بند‬

‫کیا ہے‘ بلکہ اقبال کی فکر پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ اقبال کے‬
‫مطالعہ کے لیے چند اصول بعنوان۔۔۔۔۔۔۔۔ مطالعہءاقبال کے لیے‬
‫چند معروضات۔۔۔۔۔۔ بھی وضع کیے ہیں۔ یہاں ان کے کچھ مضامین‬
‫کی فہرست پیش کی جا رہی ہے ممکن ہے اقبال پر کام کرنے‬

‫والوں کے کام کی نکلے۔‬

‫علامہ اقبال نے عصبیت کے لیے ربط ملت کی اصطلاح ‪١-‬‬
‫استعمال کی ہے‬

‫روزنامہ مشرق لاہور ‪ ١٠‬جنوری ‪١٩٨٨‬‬
‫اقبال اور تسخیر کائنات کی فلاسفی روزنامہ وفاق لاہور ‪٢- ٢١‬‬

‫فروری ‪١٩٨٩‬‬
‫مسلمان اقبال کی نظر میں روزنامہ وفاق لاہور ‪ ٨‬مارچ ‪٣-‬‬

‫‪١٩٨٩‬‬
‫اقبال کا نظریہءقومیت روزنامہ وفاق لاہور ‪ ٢٣‬مارچ ‪٤-‬‬

‫‪١٩٨٩‬‬
‫اقبال اور تحریک آزادی ہفت روزہ جہاں نما لاہور ‪ ٢٣‬اپریل ‪٥-‬‬

‫‪١٩٨٩‬‬
‫علامہ اقبال کے کلام میں دعوت آزادی روزنامہ وفاق لاہور ‪٦-‬‬

‫‪ ٣٠‬اکتوبر ‪١٩٨٩‬‬
‫اکبر اقبال اور مغربی زاویے ہفت روزہ فروغ حیدرآباد ‪٧- ٢٢‬‬

‫جولائی ‪١٩٩١‬‬
‫فلسفہءعجم۔۔۔۔ایک جائزہ مہنامہ سخنور کراچی مارچ ‪٨- ٢٠٠١‬‬
‫نظم میں اور تو کے حواشی الادب مجلہ اسلامیہ کالج قصور ‪٩-‬‬

‫‪٢٠١٤‬‬
‫اقبال کا فلسہءخودی اردو انجمن ڈاٹ کام ‪١٠-‬‬
‫فسلفہءخودی اس کے حدود اور ڈاکٹر اقبال تفریح میلہ ڈاٹ ‪١١-‬‬

‫کام‬
‫اقبال کے یورپ روانگی سے پہلے کے احوال اردو انجمن ‪١٢-‬‬

‫ڈاٹ کام‬
‫اقبال لندن میں اردو نیٹ جاپان ‪١٣-‬‬
‫کتابیات اقبال اردو انجمن ڈاٹ کام ‪١٤-‬‬
‫اقبال اور غزالی کی فکر کا تقابلی مطالعہ اردو انجمن ڈاٹ ‪١٥-‬‬

‫کام‬
‫اقبال کا نظریہءمعاش ومعاشرت اردو انجمن ڈاٹ کام ‪١٦-‬‬

‫اقبال اور مغربی مفکرین مسودہ ‪١٧-‬‬

‫اقبال کا تصور عشق مسودہ ‪١٨-‬‬
‫اقبال کے ہاں شاہین کا استعارہ مسودہ ‪١٩-‬‬
‫اقبال اور قانون آزادی تفصیلات درج نہیں ہیں ‪٢٠-‬‬
‫مطالعہءاقبال کے حوالہ سے چند معروضات مسودہ ‪٢١-‬‬
‫نظم طلوع اسلام ۔۔۔۔۔ایک جائزہ مسودہ ‪٢٢-‬‬
‫مطالعہءاقبال کے چند ماخذ اردو انجمن ڈاٹ کام ‪٢٣-‬‬
‫الادب آور اقبال فہمی اردو انجمن ڈاٹ کام ‪٢٤-‬‬

‫مقصود حسنی اور سائینسی ادب‬

‫قاضی جرار حسنی‬

‫شعر ادب سے متعلق‘ کسی شخص کا‘ مختلف سائینسز پر قلم‬
‫اٹھانا‘ ہر کسی کو عجیب محسوس ہو گا‘ اور اس پر‘ حیرت بھی‬

‫یہ بھی بچ نہیں ‘ہوگی۔ پروفیسر مقصود حسنی کے قلم سے‬
‫پائے۔ انہوں نے نفسیات سمیت‘ دیگر سائینسز سے متعلق امور‬

‫پر بھی لکھا ہے۔‬

‫آج شمسی توانائی کی پروڈکٹس مارکیٹ میں آ گئی ہیں۔ انہوں‬
‫نے تو ‪ ١٩٨٨‬میں‘ اس کے تصرف کا مشورہ دیا تھا‘ اور اس‬
‫موضوع پر سیر حاصل گفت گو بھی کی تھی۔ آج وہ خود بھی‬
‫اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے‘ ایک بلب بھی نہ‬
‫لگانے والا شخص‘ خرابی کی صورت میں‘ خود ہی درستی کے‬
‫لیے میدان میں اترتا ہے۔ اس وقت تھیوری کا شخص پریکٹیکل‬

‫ہو جاتا ہے۔‬

‫یہ ہی نہیں‘ کینسر ایسے مہلک مرض سے متغلق‘ ان کا لمبا‬
‫چوزا‘ کئی حصوں پر مشتمل مقالہ‘ سکربڈ ڈاٹ کام پر موجود‬
‫ہے۔ اس مقالے کے کچھ حصے‘ دو قسطوں میں‘ اردو خط میں‘‬

‫اردو نیٹ جاپان پر‘ پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان کا ایک‬
‫مضمون‘ جو ڈینگی سے متعلق ہے‘ اردو نیٹ جاپان پر جلوہ‬

‫افروز ہے۔‬

‫سرور عالم راز صاحب ایسے عالم فاضل شخص نے‘ انہیں‬
‫ہر فن مولا قرار نہیں دیا تھا۔ ان کے ایسے مضامین ‘ایسے ہی‬
‫ادبی چاشنی موجود ہوتی ہے۔ اس لیے سائینسز سے ‘میں بھی‬
‫متعلق‘ ان کی تحریروں کو‘ سائینسی ادب کا نام دیا جا سکتا ہے۔‬
‫دستیاب چند مضامین کی فہرست درج ہے۔ کوشش کرنے سے‘‬

‫ممکن ہے‘ اور مضامین بھی مل جائیں۔‬

‫مردہ اجسام کے خلیے اپنی افادیت نہیں کھوتے روزنامہ ‪١-‬‬

‫مشرق لاہور ‪ ١٨‬مئی ‪١٩٨٧‬‬

‫رورنامہ ‪٢-‬‬ ‫اعصابی تناؤ اور اس کا تدارک‬

‫امروز ‪ ٩‬مئی ‪١٩٨٨‬‬

‫رورنامہ ‪٣-‬‬ ‫احساس کمتری ایک خطرناک عارضہ‬

‫امروز لاہور یکم اگست ‪١٩٨٨‬‬

‫شمسی تواتانئی کو تصرف میں لانے کی تدبیر ہونی چاہیے ‪٤-‬‬

‫رورنامہ امروز لاہور ‪ ١٨‬ستمبر ‪١٩٨٨‬‬

‫ہفت روزہ ‪٥-‬‬ ‫عالم برزخ میں بھی حرکت موجود ہے‬

‫جہاں نما لاہور ‪ ٨‬مارچ ‪١٩٨٩‬‬

‫انسان تخلیق کائنات کے لیے پیداکیا گیا ہے روزنامہ ‪٦-‬‬

‫مشرق لاہور ‪ ٢‬اپریل ‪١٩٨٩‬‬

‫روزنامہ ‪٧-‬‬ ‫ممکنات حیات اور انسان کی ذمہ داری‬

‫وفاق لاہور ‪ ٧‬اپریل ‪١٩٨٩‬‬

‫ہفت روزہ ‪٨-‬‬ ‫علامہ المشرقی کا نظرہءکائنات‬

‫الاصلاح لاہور ‪ ٥‬مئی ‪١٩٨٩‬‬

‫روزنامہ ‪٩-‬‬ ‫کیا انسان کو زندہ رکھا جا سکتا ہے‬

‫امروز لاہور ‪ ٦‬اپریل ‪١٩٩٠‬‬
‫‪١٠-‬‬

‫کینسر حفاظتی تدبیر اور معالجہ‬
‫مکمل مقالہ سکربڈ ڈاٹ کام دو قسطوں میں کچھ ترجمہ اردو‬

‫نیٹ جاپان‬
‫اردو نیٹ جاپان ‪١١-‬‬
‫ڈینگی حفاظتی تدبیر اور معالجہ‬

‫محترم مقصود حسنی صاحب‪ ،‬سلام۔‬
‫آپ کے مضامین اکثر نظر سے گذرتے رہتے ہیں۔ وقت کی‬
‫دستیابی کے مطابق ان پر کبھی سرسری تو کبھی دقیق نگاہ‬
‫ڈالنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ البتہ ہر مضمون پر اپنی دستخط لگانا‬
‫یا ان پر تبصرہ وغیرہ لکھنا ممکن نہیں ہوتا سو خاموش مسافر‬
‫کی طرح گذر جاتا ہوں۔ آج مہلت ملی ہے تو سوچا کہ آپ کا اس‬
‫مضمون اور اس کے توسل سے باقی تخلیقات پر شکریہ کہتا‬

‫چلوں۔ سو براہ کرم وصول کیجیے۔‬

‫محترمی سرور صاحب نے اگر آپ کو "آل راونڈر" قرار دیا ہے‬
‫تو یقیناً اس میں کچھ سچائی بھی ہوگی۔ کچھ ایسا ہی آپ کے‬
‫مضامین سے بھی جھلکتا ہے‪ ،‬جس سے میں اور دیگر احباب‬
‫مستفیض ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کے یہاں عنایت کردہ کئی مضامین‬
‫کے مصنفین آپ کی مدح سرائی کرتے اور آپ کی ہنرمندی کے‬
‫گیت گاتے نظر آتے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ آپ کا انجمن سے‬
‫وابستہ ہونا اور ہمارے درمیان اپنی نگارشات کو پیش کرنا‬

‫ہمارے لیے باعث افتخار ہے۔‬

‫ہاں‪ ،‬احباب کی تخلیقات پر آپ کے تبصرہ جات میری نظر سے کم‬
‫ہی گذرے ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ سے نیاز حاصل ہوتا رہے گا‬

‫اور بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔‬

‫عامر عباس‬

‫مکرم بندہ جناب حسنی صاحب‪ :‬سلام مسنون‬
‫آپ کی ادبی و علمی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ افسوس اس‬
‫بات کا ہے کہ اہل اردو نے کبھی بھی آپ جیسی ہستیوں کی کما‬
‫حقہ قدر نہیں کی۔ البتہ اس عالم فانی سے گزر جانے کے بعد‬
‫رسالوں کے خاص نمبر ضرور شائع کئے ہیں۔ غالب ہی شاید‬
‫ایک ایسے شخص ہوئے ہیں جن کی عزت اور قدر ان کی زندگی‬
‫میں ہی کی جانے لگی تھی۔ الله آپ کو طویل عمر عطا فرمائے‬
‫تاکہ یہ چشمہ علم وادب اسی طرح جاری رہے اور ہم جیسے‬

‫لوگ مستفید ہوتے رہیں۔‬

‫زیر نظر مختصر مضمون میں "انسان تخلیق کائنات کے لئے پیدا‬
‫کیا گیا ہے" دیکھا تو والد مرحوم حضرت راز چاندپوری کا ایک‬

‫شعر بے اختیار یاد آگیا۔ سوچا کہ آپ کو بھی سنا دوں۔ میں‬
‫مرحوم کے اس خیالات سے سو فیصد متفق ہوں اور میرا خیال‬

‫‪ :‬ہے کہ ہر صاحب علم ونظر متفق ہو گا۔شعر یہ ہے‬

‫تصویر جہاں میں رنگ بھرنا‬


Click to View FlipBook Version