1
چھی سی اختص رئیے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کت خ نہ
فروری
2
فہرست
لوک نہ - سہ گنی
اسے م و نہ تھ لوک نہ -
منس نہ - ان دنوں
منس نہ - آنٹی ثمرین
لوک نہ - انص ف ک قتل
بےک ر کی شر س ری منس نہ -
میں مولوی بنوں گ منس نہ -
لوک نہ - ایس کیوں ہے
لوک نہ - یہ اچھ ہی ہوا
منس نہ وہی پران چ ا
منس نہ - سدھر ج ؤ
منظومہ - اچھ نہیں ہوت
منس نہ - آئندہ کے لیے
منس نہ - منہ سے نک ی
3
منس نہ - یک مشت
دیگچہ تہی دامن تھ لوک نہ -
لوک نہ - حک عدولی
لوک نہ - لوگ کی ج نیں
منس نہ - چپ ک م ہدہ
لوک نہ - ک لی زب ن
لوک نہ - فیص ہ
منس نہ- ق تل
میں کریک ہوں -
ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی -
جذبے کی سزا -
ہ بھ ی کرے -
آخری کوشش -
تیسری دفع ک ذکر ہے -
انگ ی -
آخری تبدی ی کوئی نہیں -
4
کھڑ پینچ دی جئے ہو -
سراپے کی دنی -
میں ہی ق تل ہوں -
خی لی پاؤ -
ت ی اور روٹی -
بوسیدہ اش -
وب ل دیکھیے -
عصری ضرورت -
ام ں جین ں -
اس ک ن ہدایت ہی رہ -
بھ ری پتھر -
ایسے لوگ کہ ں ہیں -
منظومے
ش عر اور غزل -
ٹیکس لی کے شیشہ میں -
ک لے سویرے -
5
کیچڑ ک کنول -
دو لقمے -
آخری خبریں آنے تک -
یہ ہی فیص ہ ہوا تھ -
حیرت تو یہ ہے -
میں نے دیکھ -
کس منہ سے -
حی ت کے برزخ میں -
سورج دوزخی ہو گی تھ -
فیکٹری ک دھواں -
مط ع رہیں -
امید ہی تو زندگی ہے -
میٹھی گولی -
دو بی وں کی مرضی ہے -
ذات کے قیدی -
چل' محمد کے در پر چل -
6
عط ئیں ہ کی ک بخیل ہیں -
کرپ نی فتوی -
مقدر -
دو ب نٹ -
دو حرفی ب ت -
سوچ کے گھروندوں میں -
کی یہ ک فی نہیں -
ی دوں کی دودھ ندی -
ب ؤ بہشتی -
کوئی کی ج نے -
کل کو آتی دفع ک ذکر ہے -
کڑکت نوٹ -
اسا س ک ہے -
ڈنگ ٹپ نی -
ایک اور اندھیر دیکھیے -
یہ حرف -
7
عہد ک در وا ہوا -
مشینی دیو کے خوا -
اک م ت سوال -
ریت بت کی شن س ئی م نگ -
آنکھوں دیکھے موس -
سوال ک جوا -
یہ ہی دنی ہے -
م لک کی مرضی ہے -
سی ست -
8
سہ گنی
لوک نہ
ایک ب دش ہ اور اس ک وزیر گشت پر نک ے ہوئے تھے۔ دیکھ
ایک درخت کے نیچے ایک ادمی سوی ہوا ہے۔ وزیر نے ب دش ہ
سے کہ :ب دش ہ سامت درخت کے نیچے سوی ہوا آدمی بڑے
ک ک ہے۔ وہ دونوں اس شخص کے پ س چ ے گئے۔ اسے
جگ ی اور پوچھ کہ ت کی کی ہنر رکھتے ہو۔ اس شخص نے
بت ی کہ میں تین گن رکھت ہوں:
اول -میں اص ی اور نق ی ہیرے کی ج نچ کر سکت ہوں۔
دوئ -مجھے نس ی اور غیرنس ی گھوڑوں کی پہچ ن ہے۔
سوئ -مجھے آدمیوں کی پہچ ن ہے۔
ب دش ہ اسے اپنے س تھ لے آی اور اس کی پ نچ روپے م ہ نہ
تنخواہ مقرر کر دی اور اسے کہ ج ؤ ہم رے قر وجوار میں
موج کرو ج تمہ ری ضرورت پڑے گی با لیں گے۔
ایک مرتبہ درب ر میں ہیروں ک سوداگر آی ۔ ب دش ہ کو ہیرے
دکھ ئے۔ ب دش ہ کو ایک ہیرا بہت پسند آی ۔ اچ نک اسے اپن سہ
گنی ماز ی د آ گی ۔ اسے بای گی اور پسند کیے گئے ہیرے کے
مت پوچھ ۔ اس نے وہ خو صورت ہیرا دیکھ ۔ ج نچنے کے
9
ب د کہنے لگ یہ ہیرا نق ی ہے اور اس میں ریت بھری ہوئی ہے
اور سوداگر سے کہ ت خ ک ہیروں کے سوداگر ہو جو اص ی
اور نق ی ہیرے کی پہچ ن نہیں رکھتے۔
سوداگر کے تو ہ تھوں کے طوطے اڑ گئے اور وہ بہت پریش ن
ہوا۔ حیران تو ب دش بھی ہوا۔ ب دش ہ نے سوداگر سے کہ اگر
اس شخص کی ب ت صحیح نک ی تو میں تمہ را سر اڑا دوں گ
اگر یہ ہیرا اص ی نکا تو خرید لوں گ ۔ پھر اس شخص سے کہ
اگر ہیرا درست نکا تو ت ج ن سے ج ؤ گے۔
ہیرا توڑا گی تو ہیرے میں سے ریت برآمد ہوئی۔ ب دش ہ اس
شخص سے راضی ہوا اور اس کی پ نچ روپے تنخواہ برقرار
رکھی۔
کچھ ہی وقت گزا ہو گ کہ ایک گھوڑوں ک سوداگر آی ۔ اس کے
پ س ون سونی نسل کے گھوڑے تھے۔ ان میں سے ب دش ہ کو
ایک گھوڑا بہت پسند ای ۔ پہچ ن کے لیے اس شخص کو دوب رہ
سے ط کی گی گی اور اپنی پسند کے گھوڑے کے مت
دری فت کی ۔
اس شخص نے گھوڑے کو دیکھنے کے ب د کہ :گھوڑے کے
نس ی ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن اس کی کمر میں رسولی
ہے۔ گھوڑوں کے سوداگر سے کہ ت کیسے گھوڑوں کے
سوداگر ہو کہ ج نور میں موجود اعض ئی نقص سے بےخبر
10
رہتے ہو۔
گھوڑوں کے سوداگر کو سخت پریش نی ہوئی۔ اس گھوڑے کے
حوالہ سے اسے ان واکرا م نے کی امید تھی۔
ج نوروں کے امراض کے م ہر کو بای گی ۔ اس نے گھوڑے ک
طبی م ئینہ کی اور کمر میں رسولی ہونے کی تصدی کر دی۔
ب دش ہ گھوڑوں کے سوداگر سے سخت خ ہوا اور اسے درب ر
سے دھکے دے کر نک ل دی ۔ ب دش ہ اپنے اس ماز کی پرکھ
پہچ ن پر بہت راضی ہوا اور اس کی تنخواہ پ نچ روپے برقرار
رکھی۔
ایک دن ب دش ہ نے سوچ کیوں نہ تیسری خوبی بھی آزم ئی
ج ئے۔ اسے بای گی ۔ ب دش ہ نے اس سے پوچھ کہ ت میرے
ب رے میں کی کہتے ہو کہ میں کون ہوں۔ ب دش ہ کو اپنے اع ی
نسل ہونے ک یقین تھ اور اس پر فخر و غرور بھی تھ ۔ اس
شخص نے ک فی پس و پیش سے ک لی لیکن ب دش ہ ک اصرار
بڑھت گی ۔ اس شخص نے ج ن بخشی کی درخواست کی۔ ب دش ہ
نے ج ن بخشی ک وعدہ کی تو اس شخص نے بت ی کہ ت چوڑے
کی اواد ہو۔
ب دش ہ نے ت وار نی سے نک لی اور کہ کہ یہ ت کیسے اور کس
بنی د پر کہتے ہو۔ ب دش ہ کے ہ تھ میں وعدہ خافی کے حوالہ
سے ت وار دیکھی تو زوردار قہقہ لگ کر کہنے لگ :اے ب دش ہ
11
میں نے ہیرے کی پرکھ بت ئی ت خوش ہوئے لیکن میری تنخواہ
پ نچ ہی رہنے دی۔ گھوڑے کے مت درست بت ی ت خوش
ہوئے لیکن میری پ نچ روپے ہی رہنے دی۔ ا وعدہ خافی
کرکے ت وار نی سے نک ل رہے ہو۔ ج میں نے بت نے سے
انک ر کی تو تمہیں ع یدگی میں پوچھن چ ہیے تھ ۔ تمہ رے ک
ہی چوڑوں جیسے ہیں‘ میں نے اسی بنی د پر تمہیں چوڑے کی
اواد کہ ہے۔ مجھے قتل کرنے سے پہ ے اپنی م ں سے ج کر
پوچھ کہ ت کس کی اواد ہو۔
ب دش ہ غصہ سے ہ تھ میں ننگی ت وار لے کر م ں کی طرف
بھ گ ۔ اس کی م ں آرا کر رہی تھی۔ اس نے ج کر م ں کو اٹھ ی
اور کہ سچ بت کہ میں کس کی اواد ہوں۔ م ں اس ک یہ رویہ
اور تیور دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس نے کہ اپنے ب پ کی اواد
ہو اور کس کی ہو۔ پھر ب دش ہ نے ت وار لہرائی اور کہ سچ سچ
بت ؤ کہ میں کس کی اواد ہوں۔ پھر اس کی م ں نے بت ی کہ میرا
خ وند جنگ میں تھ اور اسے گھر آئے ک فی دن ہو گئے میرا دل
بڑا چ ہ تو میں نے گھر میں جھ ڑو بھ ری کرنے والے کو
است م ل کر لی اور پھر وہ ہی میرے ک آنے لگ ۔ تمہ را وزیر
وہی چوڑا ہی تو ہے۔ مح وں میں یہ الگ سے اور انوکھ واق ہ
نہیں ہے۔
یہ سنن تھ کہ ب دش ہ چکرا گی اور وہیں سر پکڑ کر زمین پر
بیٹھ گی ۔
12
اسے م و نہ تھ
لوک نہ
ایک شخص درخت کے نیچے منہ کھولے گہری نیند سو رہ تھ
کہ ایک سپولیہ اس کی ج ن بڑھ ۔ دریں اثن ایک گھڑسوار وہ ں
آ پہنچ ۔ وہ پھرتی سے گھوڑے سے نیچے اترا۔ اس کے نیچے
اترتے اترتے سپولیہ سوئے ہوئے شخص کے منہ میں گھس
گی ۔ وہ بڑا پریش ن ہوا۔ اچ نک اسے کچھ سوجھ اور اس نے
سوئے ہوئے شخص کو زور زور سے چھ نٹے م رن شروع کر
دیے۔ سوی ہوا شخص گھبرا کر ج گ اٹھ اور اس نے گھڑسوار
اس نے کہ وجہ چھوڑو ‘سے چھ نٹے م رنے کی وجہ پوچھی
اور تیز رفت ری سے بھ گو ورنہ اور زور سے م روں گ ۔
اس شخص نے بھ گن شروع کر دی ۔ ج رکنے لگت تو وہ
چھ نٹے م رن شروع کر دیت ۔ رستے میں ایک ندی آ گئی۔
گھڑسوار نے کہ پ نی پیو۔ اس نے پی ۔ اس نے چھ نٹ م رتے
ہوئے کہ اور پیو۔ اس نے اور پی اور کہ ا مزید نہیں پی
سکت ۔ اچھ نہیں پی سکتے تو بھ گو۔
وہ بھ گت ج رہ تھ اور س تھ میں وجہ بھی پوچھے ج ت ۔
گھڑسوار وجہ نہیں بت رہ تھ ہ ں البتہ بھ گنے کے لیے کہے
ج ت تھ ۔
13
تھوڑا آگے گیے تو ایک سیبوں ک ب آ گی ۔ گھڑ سوار نے کہ
نیچے گرے ہوئے سی کھ ؤ۔ اس نے کھ ئے اور کہ مزید نہیں
کھ سکت ۔ گھڑسوار نے زوردار چھ نٹ م رتے ہوئے کہ ‘ میں
کہت ہوں اور کھ ؤ۔ اس نے کھ ن شروع کر دی ۔ پھر کہنے لگ
اور نہیں کھ سکت مجھے قے آ رہی ہے۔ ہ ں ہ ں کھ تے ج ؤ
ج تک قے نہیں آ ج تی تمہیں سی کھ تے رہن ہو گ ۔
وہ سی کھ ت رہ کہ اسے زوردار قے آ گئی۔ قے کے س تھ ہی
سپولیہ بھی ب ہر آ گی ۔ ت اس پر اصل م جرا کھا۔ وہ گھڑسوار
ک شکرگزار ہوا اور اس نے م فی م نگی کہ وہ بھ گتے پ نی
پیتے اور سی کھ تے ہوئے جی ہی جی میں اسے گ لی ں اور
بددع ئیں دے رہ تھ اور اس مصبیت سے چھٹک رے کے لیے
دع ئیں کر رہ تھ ۔
تمہ ری بددع ئیں مٹی ہوئیں ہ ں البتہ دع ئیں ک رگر ث بت ہوئیں۔۔
اسے قط م و نہ تھ کہ اس ظ ہری برائی میں خیر چھپی
ہوئی ہے۔ گھڑسوار مسکرای اور اپنی منزل کو چل دی
14
ان دنوں
لوک نہ
اس بچی ک اصل ن ارش د تھ لیکن سی ہ رنگت کے سب ک لی
م ت ن عرف ع میں آ گی تھ ۔ خصوص بچے اسے چھیڑنے
کے لیے ش داں ک لی م ت کہہ کر پک رتے۔ وہ اس ن پر پٹ پٹ
ج تی۔ اکثر نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ ج تی۔ وہ تو چڑتی تھی
ہی لیکن اس کی م ں اس سے زی دہ ت ؤ میں آ ج تی اور چھیڑنے
والے کو اگ ے گھر تک پہنچ کر آتی۔
اس روز ہ س ئے ک لڑک جو عمر میں ش داں کے برابر ک تھ ۔
ش داں کو ک لی م ت کہہ کر اپنے گھر بھ گ گی ۔ ش داں نے اپنی
م ں کو آ کر شک یت لگ ئی۔ ش داں کی م ں نے نہ آؤ دیکھ نہ ت ؤ
ان کے گھر ج کر اس لڑکے کو دو تین زوردار جڑ آئی۔ پھر کی
تھ میدان لگ گی ۔ اس لڑکے کی م ں نے اونچی اونچی بولن
شروع کر دی ۔ ش داں کی م ں بھی نیچے چونکی رکھ کر دیوار
کے س تھ کھڑی ہو گئی۔ پہ ے س دا گر ک ری ہوئی اس کے ب د
آلودہ ل ظوں کے دھ رے کھل گئے۔ دونوں بیبی ں تھکنے ک ن
ہی نہیں لے رہی تھیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے نئے پرانے
راز اگل کر رکھ دیے۔ بہت سی پس پردہ ب تیں اور حق ئ کھل
گئے اور دونوں کی کردای شرافت پر برسوں ک پڑا پردہ اٹھ گی ۔
15
ابھی زور دار ب ب ری ک س س ہ ج ری تھ کہ ش داں ک دادا گھر آ
گی ۔ بہو کو گرجتے برستے دیکھ کر م جرہ پوچھ ۔ ش داں کی
م ں نے بہت سی پ س سے لگ کر سسر کو کہ نی ں سن ئیں۔ یہ
بھی بت ی کہ ک فٹین ک بیٹ میری ش داں کو ک لی م ت کہہ کر
چھیڑت ہے۔
بندہ سی ن تھ ۔ اس نے بہو سے پوچھ ش داں کدھر ہے۔ ش داں
کی م ں نے گھر میں ادھر ادھر اسے تاش وہ گھر پر نہ تھی۔
ش داں ک دادا کہنے لگ اسے نہ تاشو وہ گھر میں نہیں ہے ب ہر
بچوں کے س تھ کھیل رہی ہے۔ اس کی پ رٹی میں ہ س ئی ک
لڑک ہے۔ پھر اس نے اونچی آواز میں ہ س ئی سے کہ بیٹ
بچوں کی وجہ سے نہ لڑو‘ ت ادھر لڑ رہی ہو ب ہر یہ ہی بچے
آپس میں مل کر کھیل رہے ہیں۔ بچوں کے لیے لڑن کھ ی حم قت
ہے۔
ب ڑے کی ب تیں سن کر دونوں بیبی ں بڑی شرمندہ ہوئیں اور شر
سے اندر گھس گئیں۔ بچوں نے تو ان کے پ ے کچھ نہ چھوڑا
تھ ۔
کئی دنوں تک بول بارے کے نتیجہ میں ان کی ب ہمی رنجش
چ تی رہی اور پھر م ضی گئی گزری کی قبر میں دفن ہو گی ۔
وقت پر لگ کر محو س ر رہ ۔ بچے جوان ہو گئے۔ شیداں اور
ک فٹین ک لڑک جیرا آپس میں سٹ ہو گئے۔ ان کی یہ ب ہمی ہی و
16
ہ ئے دو س ل تک چ ی۔ عزت بچ نے کی خ طر دونوں کے م ئی
ب پ کو راضی ہون پڑا اور ان کی ش دی طے کر دی گئی۔
ان دنوں جیرا اور شیداں ایک چھت ت ے رہ رہے ہیں اور جیرے
کے لیے شیداں حسینہ ع ل ہے۔ وہ اس کی ب ت ٹ لنے کو بھی
پ پ سمجھت ہے۔
17
آنٹی ثمرین
منس نہ
م ں کی محبت کے ب رے میں کچھ کہن سورج کو چ ند دکھ نے
والی ب ت ہے۔ یہ کسی دلیل ی ثبوت کی محت ج نہیں ہوتی۔ م ں
بچوں کے لیے جو مشقت اٹھ تی ہے کوئی اٹھ ہی نہیں سکت ۔
اس کی س نسیں اپنے بچے کے س تھ اول ت آخر جڑی رہتی ہیں۔
وہ اپنے بچے کے لیے کسی بھی سطع تک ج سکتی ہے۔ اس
ک ہر کی با ک حیرت انگیز ہوت ہے۔ م ں بچے کے لیے اپنی
ج ن سے بھی گزر ج تی ہے۔ یہ محبت اور ش قت اس کی ممت
کی گرہ میں بندھ ہوا ہوت ہے اس لیے حیران ہونے کی
ضرورت نہیں۔ محبت اس کی ممت ک خ ص اور ازمہ ہے۔
عورت اپنے پچھ وں کے م م ہ میں اواد سے بھی زی دہ
حس س ہوتی ہے۔ اس ذیل میں اس ک قول زریں ہے کہ نہ م ں
ب پ نے دوب رہ آن ہے اور نہ بہن اور بھ ئی پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس ک دو نمبر بھ ئی بھی قط نم اور ب پ کو نبی قری
سمجھتی ہے۔ ان کی کوئی کمی خ می یا خرابی اس کو نظر نہیں
آتی یا ان سے کمی کوت ہی سرزد ہوتی ہی نہیں۔ ج کہ خ وند
کی م ں عموم ف ے کٹن اور ب پ لوبھی اور الچی ہوت ہے۔ بہن
بھ ئی تو خیر دو نمبری کی آخری سطع کو چھو رہے ہوتے ہیں۔
18
کر بی بی بھی اول ت آخر عورت تھی اور وہ بھی یہ ہی
اصولی اطوار رکھتی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے بہن کی بیٹی
ان چ ہتی تھی ج کہ اس ک خ وند ادھر رشتہ نہیں کرن چ ہت
تھ ۔ لڑکی میں کوئی کجی یا خ می نہ تھی۔ بس وہ ادھر رشتہ
نہیں کرن چ ہت تھ ۔ ان کے گھر میں کئی م ہ سے یہ ہی رگڑا
جھگڑا چل رہ تھ ۔ جوں ہی گھر میں وہ قد رکھت کل ک ی ن
شروع ہو ج تی اور یہ اگ ے دن اس کے ک پر ج نے تک
تھوڑے تھوڑے وق ے کے س تھ چ تی رہتی۔
ایک دن اس نے اپنے ایک قریبی دوست سے م م ہ شیئر کی ،
وہ ہنس پڑا
او ی ر اس میں پریش نی والی کی ب ت ہے۔ بھ بی کو اپنی ڈال دو
س ٹھیک ہو ج ئے گ ۔
اپنی کی ڈالوں۔
یہ ہی کہ ت درسری ش دی کرنے والے ہو۔ عورت ت نے پسند
کر لی ہے۔ اس نے کہ
ی ر میں پ گل ہوں جو ایک ب ر شدگی کے ب د کوئی عورت پسند
کروں گ ۔
تمہیں کس نے کہ ہے کہ یہ حم قت کرو‘ ج ی کردار تخ ی
کرو۔
19
اسے اپنے دوست ک آئیڈی پسند آی ۔ طے یہ پ ی کہ وہ ٹی ی فون
پر مس ک ل کرے گ ۔ اس کے ب د وہ ج ی عورت سے دیر تک
روم ن پرور ب تیں کرت رہے گ ۔ پہ ے ہ تے زب نی کامی اگ ے
ہ تے سے ٹی ی فونک س س ہ چ ے گ ۔
اس دن ج رشتے کی ب ت شروع ہوئی تو اس نے اپنی محبت
کی کہ نی چھیڑ دی۔ پہ ے تو اس کی بیوی کو یقین نہ آی ۔ اس ک
خی ل تھ کہ اسے کون پسند کرے گی۔ اس نے بت ی کہ وہ بڑے
ب ند مرتبہ شخص کی س لی ہے۔ اسے طا ہو گئی ہے۔ بڑی ہی
خو صورت ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی دو بیٹی ں ہیں۔
کر بی بی کچھ دن اسے اف زنی خی ل کرتی رہی ۔ اگ ے ہ تے
ٹی ی فون آن شروع ہو گئے۔ وہ دیر تک ج ی عورت سے ج ی
روم ن پرور ب تیں کرت ۔ کئی ب ر ب توں کے درمی ن کہیں سے
ٹی ی فون بھی آی ۔ کر بی بی اتنی پیدل ہو گئی کہ اس نے غور
ہی نہ کی کہ ٹی ی فون کرنے کے دوران ٹی ی فون کیسے آ سکت
ہے۔
کر بی بی بھ نجی ک رشتہ انے ک مس ہ بھول سی گئی اسے
اپنی پڑ گئی۔ اسے گھر میں اپنے وجود ک خطرہ اح ہو گی ۔
گھر میں اکی ی دھندن تی تھی سوت کے آ ج نے کے دکھ نے
اسے ادھ موا کر دی ۔ ان ہی دنوں لڑکے ک رشتہ آ گی جیسے
سوت کے آنے سے پہ ے کر لی گی مب دہ سوت کے آنے کے ب د
20
کی ح ات ہوں۔ کر بی بی کے ذہن میں یہ ب ت نقش ہو گئی کہ
سوت کے آنے کے ب د ح ات برعکس ہو ج ئیں گے۔
لڑکے کی ش دی کو ابھی دس دن ہی گزرے ہوں گے کہ ولی
محمد اپنے کمرے میں اداس بیٹھ ہوا تھ ۔ ب ت ب ت پر برہ ہوت
اور کبھی رونے لگت ۔ کوئی کچھ سمجھ نہیں پ رہ تھ کہ اسے
اچ نک کی ہو گی ہے۔ اتن اداس اور رنجیدہ کیوں ہے۔ س ب ر
ب ر پوچھتے کہ آپ اتنے پریش ن اور اداس کیوں ہیں۔ ہر کسی
سے یہ ہی کہت ک پریش ن ہوں۔ میں کیوں اور کس سے اداس
ہونے لگ ۔
آخر کر بی بی ہی دور کی کوڑی ائی۔ کہنے لگی تمہ ری
ثمرین تو دغ نہیں دے گئی ۔ ولی محمد نے حیرت سے پوچھ
تمہیں کیسے پت چا۔ کوئی ٹی ی فون تو نہیں ای ۔
کر بی بی کی ب چھیں کھل گئیں۔ کہنے لگی کہتی تھی ن کہ ت
سے عین غین بندے سے کون نبھ کر سکت ہے وہ میں ہی ہوں
جو تمہ رے س تھ نبھ کر رہی ہوں ۔ کر بی بی با تھک ن بولتی
رہی وہ موٹے موٹے آنسوبہ ت گی ۔ اس کی یہ کئی م ہ اور
خصوص اس روز کی اداک ری دلیپ کم ر بھی دیکھ لیت تو عش
عش کر اٹھت ۔
اس گی میں اسے تین نوعیت کے دکھوں سے پ ا پڑا۔ س لی کی
21
بیٹی ک بیٹے کے لیے رشتہ نہ لینے کی وجہ سے ع رضی سہی
قی مت سے گزرن پڑا۔ ج ی ثمرین کی ج ی محبت ک ڈرامہ
زبردست بےسکونی ک سب بن لیکن اصل مس ہ حل ہو گی ۔
ج ی ثمرین آج بھی کنبہ میں اپنے حقیقی وجود کے س تھ
موجود ہے۔
آج ج وہ بوڑھ ہو چک ہے۔ چ نے پھرنے سے بھی ق صر
وع جز ہے اسے ثمرین سے دیوانگی کے س تھ محبت ک ط نہ
م ت ہے۔ یہ ط نہ اسے اتن ذلیل نہیں کرت جتن کہ اس کے
چھوڑ ج نے ک ط نہ ذلیل کرت ہے۔ کر بی بی کہتی آ رہی ہے
اگر ت س ؤ پتر ہوتے تو وہ تمہیں چھوڑ کر کیوں ج تی۔ یہ میں
ہی ہوں جو ت ایسے بندے کے س تھ گزرا کرتی چ ی آ رہی ہوں
کوئی اور ہوتی تو ک کی چھوڑ کرچ ی ج تی۔ خ ندانی ہوں اور
میں اپنے م ئی ب پ کی اج نبھ رہی ہوں۔
22
انص ف ک قتل
لوک نہ
ایک ب ر ایک ب دش ہ جوانوں کے لنگر خ نے گی ۔ ص ئی
درست تھی۔ پھر اس نے پوچھ کہ جوانوں ‘ستھرائی چیک کی
کے لیے کی پک ی ہے۔ جوا ما بت ؤں ی نی بیگن۔ ب دش ہ سخت
ن راض ہوا کہ جوانوں کے لیے اتن گھٹی کھ ن کیوں پک ی گی
ہے۔ اس کے مشیر نے بیگن کی بدت ری ی میں زمین آسم ن ایک
کر دیے۔ بہر کیف لنگر کم نڈڑ نے م ذرت کی اور آئندہ سے
بیگن نہ پک نے اور اچھ کھ ن پک نے ک وعدہ کی تو ب دش ہ
لنگرخ نے سے رخصت ہو گی ۔
کچھ وقت گزرنے کے ب د ب دش ہ کو دوب رہ سے جوانوں کے
لنگرخ نے ج نے ک ات ہوا۔ سوئے ات اس روز بھی بیگن
پک ئے گئے تھے۔ ب دش ہ نے بیگن کی ت ریف کی۔ وہ ہی مشیر
س تھ تھ اس نے بیگن کی ت ریف میں ممکنہ سے بھی آگے
بیگن کے فوائد بی ن کر دیے۔ گوی بیگن کے توڑ کی کوئی سبزی
اور پکوان ب قی نہ رہے۔ لنگر کم نڈر خوش ہوا اور آگے سے
بیگن کے برابر اور متوار پک ئے ج نے ک وعدہ کی ۔
ب دش ہ اس مشیر کی ج ن مڑا اور کہنے لگ کہ اس دن میں نے
بیگن کی بدت ری ی کی تو ت نے بیگن کی بدت ری ی میں کوئی
23
کسر نہ چھوڑی۔ آج ج کہ میں نے ت ریف کی ہے تو ت نے
کیوں۔ ‘بیگن کی ت ریف میں کوئی کسر اٹھ نہیں رکھی
اس نے جواب کہ حضور میں آپ ک غا ہوں بیگن ک نہیں۔
یہ سن کر ب دش ہ نے کہ ت سے جی حضوریے ح اور سچ کو
س منے نہیں آنے دیتے جس کے سب ص ح اقتدار متکبر ہو
ج تے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان سے انص ف نہیں ہو پ ت ۔
انص ف ک قتل ہی قوموں کے زوال ک سب بنت ہے۔
پہ ے تو وہ جی حضوریہ چپ رہ پھر کہنے لگ حضور ج ن کی
ام ن پ ؤں تو ایک عرض کروں۔
ب دش ہ نے کہ :کہو کی کہن چ ہتے ہو۔
حضور سچ اور ح کی کہنے والے ہمیشہ ج ن سے گئے ہیں۔
ب دش ہ نے کہ :ی د رکھو سچ اور ح ج ن سے بڑھ کر قیمتی
ہیں۔ مرن تو ایک روز ہے ہی سچ کہتے مرو گے تو ب قی رہو
گے۔ ہ ں جھوٹ کہنے ی اس پر درست کی مہر ثبت کرنے کی
صورت میں بھی زندہ رہو گے لیکن ل نت اور پھٹک ر اس زندگی
ک مقدر بنی رہے گی۔
24
بےک ر کی شر س ری
منس نہ
یہ ہی کوئی پچیس تیس س ل پہ ے کی ب ت ہے۔ یہ ں ہ بخشے
مولوی دین محمد ہوا کرتے تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور خوش طبع
تھے۔ کھ نے پینے کے م م ہ میں بڑے س دہ اور فراخ مزاج
واقع ہوئے تھے۔ پہ ے کتن بھی کھ چکے ہوتے اس کے ب د
بھی جو م ت بس ہ کرکے ہڑپ ج تے۔ اس ذیل میں انک ر ن
کی چیز سے بھی ن آشن تھے۔ اواد بھی ہ نے انہیں ک فی سے
زی دہ دے رکھی تھی۔
ان کی رن حد درجہ کی کپتی تھی۔ عزت افزائی کرتے آی گی بھی
نہ دیکھتی تھی۔ گوی وہ مولوی ص ح کی لہہ پہ کے لیے موقع
تاشتی رہتی تھی۔ ب ض اوق ت باموقع بھی بہت کچھ منہ سے
نک ل ج تی تھی۔ انس ن تھے چھوٹی موٹی غ طی ہو ہی ج تی بس
پھر وہ شروع ہو ج تی۔ س ج نتے تھے کہ حد درجہ کی بوار
ہے۔ ہ ں اس کے بوارے سے مولوی ص ح کے بہت سے
پوشیدہ راز ضرور کھل ج تے۔ مولوی ص ح نے کبھی اسے
ذلیل کرنے کے لیے موقع کی تاش نہ کی تھی۔ ہ ں البتہ خود
بچ ؤ کی ح لت میں ضرور رہتے تھے۔
انس ن تھے آخر ک تک برداشت کرتے‘ انہوں نے بھی اسے
25
ذلیل کرنے کی ٹھ ن لی۔ ایک مرتبہ ان کے گھر میں بہت سے
مہم ن آئے ہوئے تھے۔ کھرے میں دھونے والے ک فی برتن
پڑے ہوئے تھے‘ انہیں دھونے بیٹھ گئے اور س تھ میں مولوی نہ
انداز میں آواز لگ ئی کہ کوئی اور برتن موجود ہو تو دے ج ؤ۔
ان کی بیوی نے نوٹس لی اور گرج دار آواز میں کہنے لگی
کیوں ذلیل کرنے پر اتر آئے ہو پہ ے ت دھوتے ہو۔ پھر اس نے
زبردستی انہیں وہ ں سے اٹھ دی ۔ مولوی نے اس کے ہ رے
ہ رے سے طور کو خو انجوائے کی ۔
کچھ ہی دنوں ب د ایک اور ایس واق ہ پیش آی ۔ اندر پ ن س ت
عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں یہ کپڑے دھونے کے انداز میں بیٹھ
گئے اور آواز لگ ئی کوئی اور دھونے واا کپڑا پڑا ہو تو دے
ج ؤ مجھے کہیں ج ن ہے۔ کوئی رہ گی تو مجھے نہ کہن ۔
مولوی نی پر پہ ے کی کی یت ط ری ہو گئی اور اس نے انہیں
کھرے سے اٹھ دی کہ کیوں ذلیل کرتے ہو۔
مولوی ص ح ک خی ل تھ کہ ان کی رن عورتوں میں ذلیل ہو
ج ئے گی اور س اسے توئے توئے کریں گے لیکن م م ہ الٹ
ہو گی ۔ عورتوں میں مشہور ہو گی کہ مولوی ص ح کے پہ ے
کچھ نہیں رہ ت ہی تو اتن تھ ے لگ گی ہے۔ پ گل تھیں کہ اگر
مولوی ص ح کے پ ے کچھ نہ ہوت تو اتنے بچے کیسے ہو
گئے۔ رشتہ داروں میں ج تے ی گ ی سے گزرتے تو عورتیں
انہیں دیکھ کر ہنستیں۔ وہ کیسے ان س کو یقین داتے کہ وہ
26
ٹھیک ہیں انہوں نے تو یہ س ان کے س تھ ہونی ک بدا ات رنے
کے لیے کی تھ ۔
اتنے خوش طبع مولوی ص ح سنجیدہ سے ہو گئے۔ اسی طرح
لوگوں کے ہ ں سے کھ نے پینے کے مواقع بھی بےک ر کی شر
س ری کی لحد میں اتر گیے۔ اس واق ے کے ب د انہوں نے کہن
شروع کر دی کہ کوئی کی کرت ہے اس کو مت دیکھو ت ہمیشہ
اچھ کی کرو کیوں کہ اچھ کرنے میں ہی خیر اور اچھ ئی ہے۔
.....................................
27
میں مولوی بنوں گ
منس نہ
میں نے تنویر کے مستقبل کے بڑے سنہرے خوا دیکھ رکھے
تھے۔ ًمیں اسے بہت بڑا آدمی بن ن چ ہت تھ ۔ اس نے میٹرک میں
اچھے نمبر ح صل کرکے دل خوش کر دی ۔ اسے کھیل کود سے
ک کت سے زی دہ دلچسپی تھی۔ ج کبھی اسکول گی است د
اس کی ت یمی ح لت کی ت ریف کرتے۔ ان کے منہ سے اپنے
بیٹے کی ت ریف سن کر دل خوشی سے ب ب ہو ج ت ۔ منہ
سے اس کے اچھے مستقبل کے لیے بےاختی ر ڈھیر س ری
دع ئیں نکل ج تیں۔
ایف اے میں بھی ت یمی م م ہ میں اچھ رہ ۔ تھرڈ ایئر میں آی
تو اس نے چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھ لی۔ نم ز روزے ک بھی
پ بند ہو گی ۔ یہ دیکھ کر اور بھی خوشی ہوئی کہ چ و ت ی میں
بہتر ک رگزاری کے س تھ س تھ نیک راہ پر بھی چل نکا ہے
ورنہ آج کے م حول میں بےراہروی ہی لڑکی لڑکوں ک وتیرہ بن
گی ہے۔ یہ بےراہروی انہیں بدتمیز بھی بن رہی ہے۔ بڑے
چھوٹے ک کوئی پ س لح ظ ہی نہیں رہ ۔ تھرڈ ایئر تو خیر سے
گزر گئی اور اس نے اچھے نمبر بھی ح صل کیے۔ فورتھ ائیر ہ
س کے لیے قی مت ث بت ہوئی۔ اس نے داڑھی بڑھ دی اور ایک
28
دن ک لج کی پڑھ ئی چھوڑنے ک اعان کر دی ۔ اس ک یہ اعان
میرے دل و دم پر اٹی ب بن کر گرا۔ مجھے پریش نی کے س تھ
س تھ حیرانی بھی ہوئی کہ آخر اسے اچ نک یہ کی ہو گی ہے۔
اس نے یہ فیص ہ کیوں کی ہے کہ میں دینی مدرسے میں داخل
ہو کر مستند مولوی بنوں گ ۔ کہ ں ک لج کی پڑھ ئی کہ ں مولوی
بننے ک اعان‘ عج مخمصے میں پڑ گی ۔
میں دو تین دن اس کے پیچھے پڑا رہ کہ آخر اس نے مولوی
بننے ک کیوں ارادہ کی ہے۔ کچھ بت ت ہی نہ تھ ۔ چوتھے دن اس
نے بڑے غصے اور اکت ئے ہوئے لہجے میں کہ کہ میں ک ر
کے فتوے ج ری کرنے کے لیے مستند مولوی بنن چ ہت ہوں۔
ک ر کے فتوے۔۔۔ کس پر۔۔۔۔ مگر کیوں۔
میں پہا ک ر ک فتوی آپ کے خاف ج ری کروں گ ۔
یہ سن کر میرے طور پہوں گئے۔ میرے خاف ی نی ب پ کے
خاف۔ میں اس ک کھا اعان سن کر د بہ خود رہ گی ۔
پھر میں نے پوچھ :می ں آخر ت نے مجھ میں کون سی ایسی
ک ریہ ب ت دیکھ لی ہے۔
کہنے لگ :میری م ں آپ کی خ لہ زاد ہے آپ انہیں خو خو
ج نتے تھے کہ بڑی بوار ہے تو ش دی کیوں کی۔ کی اور لڑکی ں
مر گئی تھیں۔ آپ دونوں نے لڑ لڑ کر ہ س ک جین حرا کر
دی ہے۔ غ طی آپ کی ہے کہ آپ اسے بولنے ک موقع دیتے ہیں۔
29
اییسی ب ت کیوں کرتے ہیں کہ وہ س را س را دن اور پھر رات
گئے تک بولتی رہے۔
اس کی اس ب ت نے مجھے پریش ن کر دی ۔ میں نے فیض ں کو
ب وای اور کہ بیٹے کے ارادے سنے ہیں ن ۔
ہ ں میں نے س کچھ سن لی ہے۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہ ہے۔
ایسی ب ت کیوں کرتے ہیں جس سے مجھے غصہ آئے اور میں
بولنے لگوں۔
چ و میں کسی دوسری جگہ تب دلہ کروا لیت ہوں لہذا ت ک لج کی
پڑھ ئی ج ری رکھو۔
ہ ں ہ ں اچھ فیص ہ ہے کہ پھر ہم رے س تھ ڈٹ کر بول بوارا
کرتی رہے۔ وہ ت خ اور طنز آمیز لہجے میں بوا
م ں آپ فکر نہ کرو آپ بھی میرے فتوے کی زد میں آؤ گی۔
خ وند کی اتنی بےعزتی اسا میں ج ئز نہیں۔
بیٹے کی یہ ب ت سن کر وہ ہک بک رہ گئی۔ اسے امید نہ تھی کہ
تنویر ایسی ب ت کرے۔ پھر ہ دونوں می ں بیوی کی نظریں م یں۔
ہ دونوں کی آنکھوں میں دکھ اور پریش نی کے ب دل تیر رہے
تھے۔ ہ اسے بہت بڑا آدمی بن نے کے خوا دیکھ رہے تھے
کہ بیٹ کچھ ک کچھ سوچ رہ تھ ۔ پھر ہ دونوں کے منہ سے
بےاختی ر نکل گی ۔ بیٹ ت ک لج کی پڑھ ئی نہ چھوڑو ہ آگے
30
سے نہیں لڑیں گے بل کہ م مات ب ت چیت سے طے کر لی
کریں گے۔
تنویر م ن ہی نہیں رہ تھ ۔ اس ک اصرار تھ کہ وہ مولوی ہی
بنے گ ۔ وہ کہے ج رہ تھ کہ آپ وعدہ پر پورا نہیں اترو گے۔
ک فی دیر تکرار و اصرار ک س س ہ ج ری رہ ۔ تنویر کو آخر
ہم رے تکرار اصرار کے س منے ہتھی ر ڈالن ہی پڑے اور وہ
ک لج کی کت لے کر بیٹھ گی اور ہ چپ چ پ اس کے کمرے
سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چ ے گیے۔
31
ایس کیوں ہے
لوک نہ
میں عقیدت‘ پی ر‘ محبت اور کچھ موسمی سوغ ت کی پنڈ اٹھ ئے
پیر ص ح کے در دولت پر ح ضر ہوا۔ دروازے پر دستک دی۔
اندر سے ان کی بےغ ص ح دروازے پر آئیں۔ میں نے انہیں
اپن ت رف کراتے ہوئے بت ی کہ میں ان ک م ننے واا خ د ہوں
اور یہ سوغ ت ب طور نذرانہ لے کر ح ضر ہوا ہوں۔ بےغ
ص ح نے سوغ ت کی پنڈ لے لی اور کہ :تمہ را ج ی پیر ادھر
ادھر ہی کہیں دھکے کھ ت پھرت ہو گ ۔ ج ؤ ج کر تاش لو۔
اس کے انداز اور رویے پر مجھے حیرت اور پریش نی ہوئی۔
اس کے خ وند کو ایک زم نہ م نت تھ لیکن یہ ان کے لیے رائی
بھر دل میں عزت نہ رکھتی تھی۔ اس ک لہجہ انتہ ئی ذلت آمیز
طنز میں م وف تھ ۔ بڑا ہی حیران کن تجربہ تھ ۔ سوغ ت ح صل
کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہ کی۔ پ نی دھ نی ایک طرف اس ک
اپنے خ وند کے ب رے انداز قط ی افسوس ن ک تھ ۔ کی کہت ‘ وہ
میری عزت کی ج تھی۔ میں چپ چ پ وہ ں سے افسوسیہ سوچ
لے کر چل دی ۔
سوچوں میں غ ط ں میں یوں ہی ایک طرف کو چل دی ۔ ابھی
تھوڑی ہی دور گی ہوں گ کہ حضرت پیر ص ح آتے دکھ ئی
32
دیے۔ وہ ببر شیر پر سوار تھے۔ شیر کو لگ ڈالی ہوئی تھی ببر
شیر بڑی ت ب داری سے ان کے حک کی ت میل میں قد اٹھ رہ
تھ ۔ انہوں نے میری طرف دیکھ اور مسکرائے۔ فرم نے لگے:
بیٹ شیر کو لگ ڈالن آس ن ک ہے مگر گھروالی کو ت بع رکھن
ممکن نہیں۔ دیکھو سیدن نوح ع یہ السا کتنے بڑے انس ن
تھے لیکن بیگ انہیں نہیں پہچ نتی تھی ت ہی تو ن فرم ن تھی۔
سقراط کو لے لو من رد اور ن ی شخص تھ ۔ س ری دنی عزت
کرتی تھی لیکن گھروالی اسے نہیں پہچ نتی تھی‘ ت ہی تو
گست خ تھی۔
یہ بھی ی د رکھو! پیٹ نواز ح ظ مرات ج ن لیں تو زندگی نکھر
نہ ج ئے۔ بیٹ دل میں مال نہ اؤ۔ جو ت نے دیکھ وہ اس کی
کرنی ہے برداشت ہ کے احس ن سے میرا ف ل ہے۔
میں درحقیقت اپنی گھر والی کی شک یت لے کر گی تھ اور چ ہت
تھ کہ وہ دع فرم ئیں ت کہ اس ک منہ بند ہو ج ئے۔ واپسی پر
سوچت سوچت آ رہ تھ کہ ہ تو م مولی لوگ ہیں‘ پیر ص ح
سے بڑے لوگ ان بیبیوں کے س منے بےبس ہیں۔ میں سوچ رہ
تھ کہ ایس کیوں ہے۔ پھر خی ل گزرا کہ ان بیبیوں کے س منے
رات تنہ ئی میں ف ل مخصوص انج دینے کے دوران کمل
م رنے واا شخص ہوت ہے اور وہ اسی تن ظر میں صبح انج
پ نے والے امور کو دیکھتی ہیں اور وہ س انہیں خودس ختہ س
33
محسوس ہوت ہے ح اں کہ وہ ہر اچھ ہ کی رض کے لیے
انج دے رہے ہوتے ہیں۔
ممکن ہے یہ سوچ غ ط اور بےبنی د ہو لیکن کہیں ن کہیں اور
کسی سطح پر اس امر ک عمل دخل ضرور ہوت ہے۔
34
یہ اچھ ہی ہوا
لوک نہ
عاقے کے مولوی ص ح دھنیے دک ن دار سے ادھ ر سودا لی
کرتے تھے۔ چوں کہ مولوی ص ح تھے اس لیے وہ بڑی
برداشت اور لح ظ مروت سے ادھ ر سودا دیت رہ ۔ ادھ ر کی رق
ک فی ہو گئی اور م م ہ دھنیے کی بس ت و برداشت سے ب ہر ہو
گی تو اس نے ادھ ر سودا دینے سے ص ف انک ر کر دی ۔
مولوی ص ح نے کہ :اگر ت نے سودا نہ دی تو یہ تمہ رے
لیے اچھ نہ ہو گ ۔
دھنیے نے کہ :ٹھیک ہے جو ہو گ دیکھ ج ئے گ ۔
مولوی ص ح نے اس کی ج ن طنز آمیز غصے سے دیکھ ۔
دھنیے کے چہرے پر کسی قس کی فکرمندی ی مال نہ تھ ۔ گوی
یہ ہی ت ثر تھ کہ جو ہو گ دیکھ ج ئے گ ۔ مولوی ص ح کو
تین قول پورے کرن چ ہیے تھے لیکن انہوں نے دوسری ب ر
کچھ کہنے ی وارننگ کو مذید زوردار اور سخت بن نے کی
زحمت ہی نہ اٹھ ئی اور پیر پٹکتے ہوئے وہ ں سے روانہ ہو
گئے۔ ج تے ہیں تو ج ئیں دھین بڑبڑای اور اس نے ان کی ج ن
سرسری نظر سے بھی نہ دیکھ ۔
35
مولوی ص ح نے مسجد میں آ کر سپیکر کھوا اور دکھ بھری
آواز میں اعان کی ۔
حضرات ایک ضروری اعان سنیے۔ بڑے دکھ اور افسوس کی
ب ت ہے کہ دھنی دک ن دار وہ بی ہو گی ہے لہذا اس سے کسی
قس کی سودا نہ خریدا ج ئے اور نہ کسی قس ک لین دین ی بول
چ ل رکھ ج ئے جو اس سے سودا خریدے گ ی کسی قس ک لین
دین کرے گ ی بول چ ل رکھے گ سیدھ جہن کی بھڑکتی آگ
میں ج ئے گ ۔
لوگوں نے دھنیے سے ہر قس کی خریداری بول چ ل اور لین
دین بند کر دی ۔ اس کے ب د دھنی س را دن ہ تھ پہ ہ تھ دھرے
بیٹھ بدنصیبی کی مکھی ں م رت رہت ۔ کوئی اس کی دک ن کے
نزدیک سے بھی نہ گزرت ۔
کچھ دن تو اس نے برداشت سے ک لی ج ب ئیک ٹ میں کسی
قس کی لچک پیدا نہ ہوئی تو وہ مولوی ص ح کے در دولت پر
ح ضر ہوا اور ہتھی ر ڈالتے ہوئے کہنے لگ :مولوی ص ح آپ
جتن جی چ ہے سودا لے لیں لیکن یہ کٹھور پ بندی اٹھ لیں۔
مولوی ص ح اس کی دک ن پر گئے اور اچھ خ ص سودا لی ۔
سودا گھر پر چھوڑ کر مسجد میں ج کر اعان کی ۔ حضرات آپ
کے لیے خوشی کی یہ ہے ب ت کہ دھنی دک ن دار ت ئ ہو گی ہے
ا اسی سے سودا خرید کی کریں کہیں اور سے سودا نہ
36
خریدیں ۔ اپن قریبی دک ن دار چھوڑ کر کسی اور سے سودا
خریدنے سے پ پ لگت ہے۔ دھنیے نے ایشور ک شکریہ ادا کی
اور چھری پہ ے سے تیز کر دی۔ اپنی اصل میں ب لوسطہ دھنیے
کے لیے یہ اچھ ہی ہوا کہ اس کے من فع کی شرح میں ہرچند
اض فہ ہی ہوا۔
37
وہی پ ن چ ا
منس نہ
بیٹی کو رخصتی کے وقت یہ سختی سے ہداہت کی ج نی چ ہیے
کہ وہ میکہ کی کوئی من ی ب ت سسرال میں ی سسرال کی کوئی
من ی ب ت میکہ میں شیئر نہ کرے۔ اس ع ت بد کے سب غ ط
فہمی ں جن لیتی ہیں جو ب د میں ت خیوں ک سب بن ج تی ہیں۔
ہنستی مسکراتی زندگی پریش نیوں میں بدل ج تی ہے۔ بدقسمتی
سے گھر کے گھر اس بیم ری کے ب عث تب ہ ہو ج تے ہیں۔ یہ
ہی لوتی ں ب د میں کورٹ کچہری والوں کی کھٹی ک ذری ہ بن
ج تی ہیں۔ ڈاکٹر ہوں کہ یہ کورٹ کچہری والے‘ ہنستے
مسکراتے چ تے پھرتے لوگ انہیں بھ ے نہں لگتے۔
حنیف گربت کی چکی میں پس رہ تھ ۔ س را دن مشقت میں کٹ
ج ت ۔ رات می ں بیوی کی ای نی چخ چخ میں گزر ج تی۔ دونوں
می ں بیوی کو پچھ وں میں چھوٹی چھوٹی ب ت شیئر کرنے کی
ع دت بد اح تھی۔ پچھ ے کوئی م لی مدد تو نہ کرتے ہ ں
دونوں می ں بیوی میں غ ط فہمی ں پیدا کرنے والے سب ضرور
پڑھ تے رہتے تھے۔ یہ تھے کہ اس ع دت سے ب ز ہی نہیں آ
رہے تھے۔ پچھ وں کے پڑھ ئے گئے اسب کی وجہ سے ان
کے درمی ن ن رتوں میں ہرچند اض فہ ہی ہوت چا ج رہ تھ ۔
38
انہوں نے کبھی سر جوڑ کر ح ات سے لڑنے کی مش ورت کی
ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی ح اں کہ ایسے ح ات میں سر
جوڑ کر مش ورت بہت ضروری ہوتی ہے۔
خدا م و حنیف کی کس طرح درک لگ گئی کہ اس کی بیرون
م ک میں سرک ری نوکری لگ گئی۔ پھر کی تھ ‘ نوٹ آن شروع
ہو گئے۔ جہ ں بھوک بھنگڑے ڈالتی تھی وہ ں رج کے نق رے
بجن شروع ہو گئے۔ جو بیوی کو رق بھجت اس کی خبریں
پچھ وں کو بھجوا دیت ۔ ادھر اس کی بیوی میکہ اور ارد گرد میں
یہ مشہور کرنے بیٹھ گئی جو کم ت ہے اپنے پچھ وں کو بھجوا
دیت ہے اور ہ اسی طرح گربت کی زندگی گزارتے ہیں۔ ج کہ
حقیقت یہ تھی کہ جو حنیف بھجوات اس سے اس کے میکہ کی
بھوک نک نے لگی تھی۔ اس غ طی کے سب دونوں خ ندانوں
میں اٹ کتے ک بیر چل نکا۔ وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے
کے بھی روادار نہ رہے۔
حنیف چھٹی پر آی تو اطراف سے خو لون مرچ مح لحہ لگ کر
اسے خبریں دی گئیں۔ بج ئے چھٹی کے دن ہنس کھیڈ کر گزارے
ج تے جنگ جدل کی عم ی کی یتں ط ری رہیں۔ ان کی اس ب ہمی
بکواس کے سب بچے بڑے ڈسٹر ہوتے۔ ج چھٹی ک ٹ کر
ج نے لگ تو اس نے عن ئت ں کو گھر سے نک ل دی ۔
39
چند دن تو اس نے بھ ئیوں کے ہ ں گزارے۔ ب ہر سے آئی رق
سے اس نے پ ئی بھی جمع نہ کی تھی۔ کھ نے والے ک کھا
سکتے ہیں۔ وہ ں اس کی زندگی عذا ہو گئی۔ بچے کھ نے
پینے کی چیزوں تک کو ترسنے لگے۔ حنیف نے رق بھجوان
بند کر دی۔ حنیف کے بڑے بھ ئی نے بچوں کی یہ ح لت دیکھی
تو بڑا افسردہ ہوا۔ اس نے بچوں کو کچھ کھ نے پینے کی چیزیں
بھجوان شروع کر دیں۔
اپنے ہی لوگوں کو یہ برداشت نہ ہوا۔ اس امر کی بڑھ چڑھ کر
حنیف کو خبریں بیجھن شروع کر دیں۔
حنیف کو بھ ئی کی اس حرکت پر سخت غصہ آی ۔ اس نے ٹی ی
فون پر اپنے بڑے بھ ئی کی بڑی بےعزتی کی۔ اس نے کسی
الزا سے بچنے کے لیے عن ئت ں اور بچوں کو کچھ بیجھن بند
کر دی ۔ پھر ہون کی تھ ‘ ب پ کی بھری جی ہوتے بچے بھوکوں
مرنے لگے۔ ہ تو ن فرم ن سے ن فرم ن ک رز بند نہیں کرت
بل کہ اسے سدھرنے کے مواقع مسیر کرت ہے اگر نہ سمجھے
تو وہ اپنی ہی کسی کرنی میں پھنس ج ت ہے۔
حنیف کے دم میں اوق ت سے ب ہر میسر ک فتور آ گی تھ اور
وہ یہ سوچنے سے ع ری ہو گی تھ کہ رز تو ہ ک دی ہوا
ہے اور اس کی جی میں پڑا بھی ہ ہی ک ہے۔ وہ تو اپنے
س نس ک بھی م لک و وارث نہیں۔
40
پت نہیں اس سے کی ہو گی اور وہ نوکری سے نک ل ب ہر کر دی
گی ۔ جوتے چٹخ ت ہوا واپس لوٹ آی ۔ اس نے عن ئت ں سے
چھٹک رے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کر دی ۔ جو س تھ ای
تھ کورٹ کچہری کی نذر ہو گی ۔ دوب رہ سے مشقت کی ج ن
راغ ہوا۔ اس سے پہ ے کی طرح ک نہیں ہو پ رہ تھ ۔ بڑے
بھ ئی نے ک فی بھ گ دوڑ کی اور دونوں می ں بیوی کی صاح
کروا دی۔ ان دنوں دونوں می ں بیوی ایک چھت کے نیچے رہ
رہے تھے لیکن اتن بڑا جھٹک لگنے کے ب وجود انہیں عقل
نہیں آئی تھی اور ا بھی ان ک چ ا وہ ہی پران تھ ۔
41
سدھر ج ؤ
منس نہ
خوش ح ل زندگی کون گزارن نہیں چ ہت ۔ خوش ح ل زندگی کے
لیے ہر کوئی کوشش اور محنت کرت ہے۔ اٹھتے بیٹھتے چ تے
پھرتے سوتے ج تے سوچت اور سو طرح کے منصوبے بن ت
ہے۔ یہ الگ ب ت ہے کہ اس کی کوشش اور سوچ ک ثمرہ محدود
رہت ہے اور ان حد دولت اس کے پ س آ نہیں پ تی۔ آنکھ کی
سیری نہ ہونے کے ب عث پریش نی بےسکونی اور گھر میں
ب ہمی غ ط فہمیوں کے س ئے خت ہونے ک ن ہی نہیں لیتے۔
س کچھ میسر ہونے کے ب وجود م یوسی کی فض ط ری رہتی
ہے۔ قن عت ک آئینہ اندھ ہو ج ت ہے اور شخص اپنی حقیقی
صورت دیکھنے سے بھی م ذور ہو ج ت ہے۔
الے کر دین کے شریف اور بھام نس ہونے میں قط ی شبہ
نہیں کی ج سکت ۔ زبردست مشقتی تھ ۔ وہ میسر پر گزارا کرنے
واا شخص تھ لیکن اس کے بیوی بچے اس قم ش کے نہ
تھے۔ وہ دنی کی س ری دولت گرہ کر لینے کی ہوس رکھتے
تھے۔ اس ک محنت نہ ان کی ہوس کے پ سنگ نہ تھ ۔ ان کی اس
ہوس کے ب عث گھر میں ہر وقت بےچینی اور بےسکونی کی
کی یت ط ری رہتی۔
42
وہ اکثر سوچت آخر اس ک جر کی ہے جو اس کے اپنے گھر
والے اسے سزا دے رہے ہیں۔ ف ر تو نہیں رہت ۔۔۔۔ جوا نہیں
کھ ت ۔۔۔۔ شرا نہیں پیت ۔۔۔۔ عورتوں کے پیچھے نہیں ج ت ۔۔۔۔ س را
دن مشقت کرت ہے اور جو میسر آت ہے ان لوگوں پر خرچ کر
دیت ہے۔ یہ ہیں کہ خوش ہی نہیں ہوتے۔ خدمت تو دور رہی‘ ان
کے پ س تو اس کے لیے ایک مسکراہٹ تک نہیں۔ ج دیکھو
گ ے شکوے‘ بول بوارا۔ آخر اس ک جر کی ہے۔ اس نے کی کی
ہے جس کی یہ لوگ اسے سزا دے رہے ہیں۔
اس روز اس نے طے کر لی کہ شیداں سے ضرور پوچھے گ
کہ اس ک جر کی ہے اور وہ کی کرے کہ اس کی زب ن بند ہو
ج ئے۔
قدرتی ب ت تھی کہ اس روز ج نے کیوں شیداں ک موڈ خوشگوار
تھ ۔ اس نے موقع کو غنیمت ج ن اور شیداں سے پوچھ ہی لی
کہ اس میں کی پرائی اور خرابی ہے کہ وہ ہر وقت ٹکوا لے کر
اس کے پیچھے پڑی رہتی ہے اور وہ کی کرے جس سے گھر
میں سکھ اورش نتی کی فض ق ئ ہو۔
شیداں نے جواب کہ کہ وہ سدھر ج ئے اپنی ان حرکتوں سے
ب ز آ ج ئے۔
اس نے کہ یہ ہی تو میں ج نن چ ہت ہوں کہ کن حرکتوں سے
ب ز آ ج ؤں۔
43
اپنی کم ئی غیروں پر خرچ کرن بند کر دو۔ اپنے بچوں ک ح نہ
م رو۔
ت کن غیروں کی ب ت کر رہی ہو جن پر میں اپنی کم ئی ض ئع کر
رہ ہوں۔
کہنے لگی بڑے بھولے بنتے ہو۔ س کچھ م ں ف ےکٹن اور اپنی
کمینی بہن کو کھا رہے ہو۔ ہمیں دیتے ہی کی ہو۔
وہ ج نت تھ کہ شیداں کو کی پیڑ ہے اور وہ کیوں روا ڈالتی
ہے۔ وہ م ں کو دیت ہی کی تھ ۔ ہ تے عشرے ب د چند ٹکے اور
بیوہ بہن اور اس کے بچوں کو عید شبرات پر سستے قس کے
کپڑے بن دیت تھ اور بس۔ یہ ہی اسے کھٹکتے تھے۔ م ں اور
بہن ک اس پر ح تھ ۔
شیداں ج بھی بولتی اس کی م ں کو ف ےکٹن کہتی ج کہ اپنی
م ں کو ہمیشہ امی ج ن کہتی۔ ج اس کی م ں آتی تو بوتھ
ٹیڑھ کر لیتی پ نی تک نہ پوچھتی۔ ج اس کی م ں آتی تو امی
ج ن امی ج ن کرتی اس کے آگے پیچھے ہوتی۔ خو خدمت
تواضح کرتی۔ یہ ہی نہیں اچھ پک تک ان کے گھر بھجوا کر
س نس لیتی۔ بچت کرکے اس کی چوری چھپے مٹھی بھی گر
کرتی رہتی تھی۔ بھ ئی کے بیٹے ک اسکول ک خرچ اٹھ ی ہوا
تھ ۔ بھ ئی تھ کہ سیدھے منہ سے حضرت ک سا بان پسند
نہیں کرت تھ ۔
44
اگر کبھی کبھ ر م ں کو پنج دس روپے دے دیت ہے تو اس سے
کی فر پڑت ہے۔ کون س روز روز دیت ہے۔ رہ گئی بہن اس کو
کی دیت ہے۔ عید شبرات پر تیسرے درجے کے کپڑے اور بس۔
وہ کہتی تو پھر اتنی کم ئی کہ ں ج تی ہے۔ اتنی پر اسے بڑا ت ؤ
آت جیسے اس کے ب پ نے دو مرب ے زمین اس کے ن کر دی
ہو ی جہیز میں م یں ائی تھی۔
کم ئی کی تھی وہ ہی دن بھر ک محنت نہ جو وہ ان پر خرچ کر
دیت تھ ۔
وہ سوچت رہ کہ دنی کوئی آرا دہ مق نہیں ہے۔ ب ہر دنی اور
گھر میں اپنے لوگ زمین پر پ ؤں نہیں آنے دیتے۔ کتن بھی کچھ
کر لو‘ خوش نہیں ہوتے۔ ایک ہ ہی ہے جو م مولی سی
اچھ ئی پر خوش ہو ج ت ہے۔ اس روز وہ بڑا ہی ڈس ہ رٹ ہوا
تھ ۔ کچھ بھی کر لے‘ کتنی قسمیں کھ لے‘ گھر میں کوئی یقین
کرنے واا نہیں تھ ۔ اس کے سوچ کے ح قے گہرے ہوتے چ ے
گئے۔
اسے ی د آی شیداں نے کہ تھ کہ سدھر ج ؤ۔ اس نے سوچ یہ
سدھرن کی ہے۔ ہ کی طرف پھرن ہی تو اپنی حقیقت میں
سدھرن ہے۔ اس نے پہ ی ب ر ہ کو دل سے پ د کی اور درود
پ ک پڑھنے لگ ۔ ابھی آدھ بھی نہیں پڑھ پ ی ہو گ کہ گہری اور
پرسکون نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لی ۔
45
بےشک ہ اور اس کے رسول کے ہ ں ہی سکھ اور چین کی
دنی آب د ہے۔ اگر موت جو لمبی نیند ہے‘ میسر نہ ہوتی تو دنی
میں پ گ وں اور وحشیوں کے سوا کے سوا کچھ نہ ہوت ۔
46
اچھ نہیں ہوت
ہ ں میں موت
ن ں میں بہن ک گھر اجڑت تھ
برسوں ک بن کھیل بگڑت تھ
چپ میں ک سکھ تھ
چ ر سو بچھ دکھ تھ
زندگی کی تھی اک وب ل تھ
بھ گ نک نے کو نہ کوئی رستہ بچ تھ
پہیہ زندگی ک پٹڑی سے اتر رہ تھ
زیست ک پ ؤں بےبصر دلدل میں گر رہ تھ
بےچ رگی ک نی دانت نکل رہ تھ
بہنوئی کی آنکھوں میں سکوں کی ہری لی تھی
آتی ہر گھڑی اس کے لیے کرم والی تھی
بہن کی آنکھ سے چپ کے آنسو گرتے
م ں کی آنکھوں کے حسیں سپنے
بےکسی کے قدموں میں بکھرتے
47
کی کرت کدھر کو ج ت
خود کو بچ ت
کہ م ں کے آنسوؤں کے صدقے واری ج ت
زہر ک پی لہ مرے رو بہ رو تھ
تذبذ کی ص ی پہ لٹک کے
شنی اپنے ک رے میں س ل ہوا
پیت تو یہ خود کشی ہوتی
ٹھکرات تو خود پرستی ہوتی
پیچھے ہٹوں کہ آگے بڑھوں
ہ ں نہ کے پل پر
بےکسی کی میت اٹھ ئے کھڑا تھ
آگے پیچھے اندھیرا منہ پھ ڑے
فیص ے کی راہ دیکھ رہ تھ
پھر میں آگے بڑھ اور زہر ک پی لہ اٹھ لی
خودکشی حرا سہی
کی کرت
48
بہن کی بےکسی
م ں کے آنسو بےوق ر کیوں کرت
اب یس قہقے لگ رہ تھ
نہ پیت ت بھی اسی کی جیت تھی
پھر بھی وہ قہقے لگ ت
دوزخی با نے مرے گھر قد رکھ
گھر ک ہر ذرہ لرز لرز گی
میں بھی موت کے گھ ٹ اتر گی
جسے ت دیکھ رہے ہو
ہنستی بستی زندگی ک بےک ن اشہ ہے
پہ ے دو ٹھک نے لگ آئی تھی
اشے کو کیوں ٹھک نے لگ تی
اشے ک م س کھ چکی ہے
ہڈی ں مگر ب قی ہیں
بہن اشے کو دیکھ کر روتی ہے
ہڈی ں مگر کی تی گ کریں
49
آنسوؤں کے قدموں میں کی دھریں
کوئی اس کو ج کر بت ئے
السہ سرحدوں کی ک چیز ہے
جہ ں ت کھڑی ہو وہ تو فقط اس کی دہ یز ہے
کوئی ح دثہ ہی
تمہیں خ وند کی السہ کے جہن سے ب ہر ائے گ
پھر تمہ را ہر آنسو پچھت وے کی اگنی میں ج ے گ
ت تک
ہڈی ں بھی یہ دوزخ کی رانی کھ چکی ہوگی
راکھ ہو گی نہ کوئی رفتہ کی چنگ ری
ہو گی تو السہ کی آری
دکھ ک دری بہہ رہ ہو گ
ہر لمحہ تمہیں کہہ رہ ہو گ
ح کی بھی کبھی سوچ لی کرو
لقموں ک د بھرن اچھ نہیں ہوت
اچھ نہیں ہوت
50
آئندہ کے لیے
بہت اع ی درجے کی چیزیں میسر ہوں‘ لیکن آدمی ک بس اوق ت
ان سے ک تر درجے کی چیز کھ نے کو جی چ ہنے لگت ہے۔
ایک مرتبہ‘ اس کے س تھ بھی کچھ ایسی ہی صورت گزری۔ س
کچھ میسر تھ ‘ لیکن مولی کھ نے کے لیے‘ اس کی طبی ت مچل
مچل گئی۔ پھر وہ سبزی منڈی کی طرف بڑھ گی ۔
منڈی کے دروازے سے ایک ب ب جی‘ جنہوں نے اپنے کندھے
پر‘ مولیوں ک گٹھ اٹھ رکھ تھ ‘ نک ے۔ اس میں سے ایک
مولی نک ی اور نیچے گر گئی۔ اس نے نیچے سے مولی اتھ ئی
اور ب ب جی کو دینے کی غرض سے آگے بڑھ ۔ ج اس نے
آواز دی تو ب ب جی نے مڑ کر دیکھ ۔ ج ب ب جی نے مڑ کر
دیکھ ‘ تو اس نے مولی ان کی ج ن بڑھ تے ہوئے کہ :ب ب جی
یہ مولی گر گئی تھی‘ لے لیں۔ وہ مسکرائے اور کہ :ت لے لو۔
یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیے۔
پہ ے تو اس نے غور نہ کی ‘ اس کے ب د اس نے غور کی کہ
مولیوں ک گٹھ ‘ اس انداز سے بندھ تھ کہ مزید مولی ں گرنے
ک قوی امک ن تھ ۔ پھر وہ چھوٹے قدموں ان کے پیچھے پیچھے
چ نے لگ ۔ ک فی دور تک گی ‘ لیکن مزید کوئی مولی نہ گری۔
اچ نک ب ب جی نے دوب رہ سے پیچھے مڑ کر دیکھ ‘ تو اس نے