251
دل و ج ن سے احترا کرتے ہیں
شیو ہو کہ وشنو
موسی ہو کہ عیسی
زرتشت ہو کہ مہآتم بدھ
را اور کرشن بڑے لوگ تھے
بھا ہ ان سے کیسے ہو سکتے ہیں
ان کی ہر کرنی کو سا و پرن
بےشک وہ عزت کی ج ہیں
ان کی کہنی اور کرنی ایک تھی
وہ ایک کے ق ئل تھے
مصیبت میں رہے ہر لمحہ ص وبت میں رہے
اپنی کہنی پر استوار کرنی ک پرن لہ نہ وہ بدل سکے
وہ بڑے تھے بھوکے رہ سکتے تھے
ہم ری ضرورتیں ح جتیں ان سے جدا
وہ کہنی پر چل کر بڑے تھے
کہہ کر نہ کرنے سے ہی م ل آت ہے
252
اچھ کھ تے ہیں بڑے گھر میں رہتے ہیں
لوگ سا باتے ہیں
یہ ہی نہیں ہ سے ڈرتے ہیں
دنی میں رہتے ہیں
دنی کی اور بڑائی کی ہوتی ہے
ان سے کون ڈرت تھ
ان کی کون سنت تھ
ان کے جو قد لیت رہ
وہ ہی م تو ہوا
کی یہ ک ہے کہ ہ خود سے گزر کر
انہیں م نتے ہیں
قبر میں کی ہو گ حشر میں کی ہو گ
یہ آتے وقتوں کی ب ت ہے
قبروں میں ان پر کی ہو رہ ہے
ک کوئی دیکھ رہ ہے
مجر ت ٹھہریں گے
253
ج کہنی پر کرنی استوار نہ م نیں گے
یہ تو اصول حی ت ہے
اس ک کون ک فر منکر ہے
کی یہ ک فی نہیں
اس پر ہم را ایم ن و یقین ہے
254
255
256
ب ؤ بہشتی
ب پ ہو کہ م ں
م تبر ہیں محتر ہیں
زندگی کی مشقت تو ہے ہی
بچوں کے پ لن پوسن کی بھی
محبت سے پی ر سے خ وص سے
م ں مشقت اٹھ تی ہے
زب ن پر شکوے ک ک مہ
ک اتی ہے
ب پ بھی دنی میں بےبدل رشتہ ہے
منہ ک لقمہ جی میں رکھ ات ہے
من کھ ئے گ گڑی کے ک آئے گ
دونمبری کم ئی اکیا وہ ک کھ ج ت ہے
پیٹ بھر سہی‘ حصہ کے لقمے
پیٹ میں لے ج ت ہے
257
عمرا چور اپنے بچوں پر ج ن دیت تھ
خراش بھی آتی تو تڑپ تڑپ ج ت تھ
کس کے لیے
آدھی رات کو گھر سے قد ب ہر رکھت تھ
وہ ڈاکو نہیں تھ
ہ ں چوری میں ن خو کم ی تھ
پر اتنی ب ت ہے
عاقے ک ہر گھر عزیز رکھت تھ
اس ذیل میں
کوئی اس پر انگ ی اٹھ نہیں سکت
ج ن تو ہے اس سے ک م ر ہے
اک روز وہ بھی حرف آخر ہوا
جن زے میں خ ص و ع ش مل تھے
چڑھی قسمت دیکھیے
س ت ص وں ک جن زہ ہوا
ہر کوئی
258
عاقے میں اس کی شرافت کے گن گ رہ تھ
کئی دن بھورا بےرون نہ ہوا
اک آ رہ ہے تو اک ج رہ ہے
اس ک بڑا لڑک بھورا نشین رہ
اپنے انداز سے ب پ کے گن گ ت تھ
کہت تھ
ب ؤ بہشی کوئی کچ چور نہ تھ
بس اک ادھ ب ر پکڑا گی
پ س ٹل لگ تی رہی مگر وہ نہ م ن تھ
قس لے لو
جو کبھی چوری کے جر میں جیل گی
اس کی کوئی چوری پ س ریک رڈ میں نہیں
یہ کھ ی بکواس ہے کہ وہ چور تھ
اس کے پکے پیڈے ہونے پر
س عش عش کر اٹھے
یہ بھی اس نے بت ی
259
ج عمرا اس کی م ں کو بھگ کر ای
وہ اس کے پیٹ میں تھ
ن ن اس ک عاقے ک بڑا کھنی خ ں تھ
زور اس نے ایڑی چوٹی ک لگ ی
مگر کہ ں
ب ؤ بہشی نے اس کی ایک بھی نہ چ نے دی
ب زو دے دیت تو کی اج رہتی
تھک ہ ر کر ن ن ہی اس ک چپ ہو گی
اس کے پ س اس کے سوا کوئی رستہ بھی نہ تھ
آفرین آفرین ف ک بوس ن رہ ب ند ہوا
عمو کم گر نے یہ لقمہ دی
صدیوں ب د ایسے پوت جن لیتے ہیں
انو کہنے لگ
ہمیں اس کی جی داری پر ن ز ہے
شیر تھ دلیر تھ
یہ س کیوں تھ
260
عمرے ک بڑا پوت
ب پ کے اصولوں کو بھول گی تھ
آغ ز اس ک عاقے سے ہوت تھ
ج کبھی خ لی ہ تھ رہت تو ہی رخ ب ہر ک کرت
محنت کی کم ئی ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے
ٹی سی ہی وہ راہ تھی کہ
وہ اس کے گھر سے ٹا رہے
اس حوالہ سے اس کے ب ؤ بہشتی کی
ہر دل میں ی د ت زہ بہ ت زہ تھی
اگ ے وقتوں کے طور ہی کچھ اور تھے
اپنے عاقے کی عزت ہر آنکھ میں تھی
آج خرابی گھر سے شروع ہوتی ہے
خیر ا چوری کی رس بد ک رہ گئی ہے
یہ رس اگ ے وقتوں کی تھی
نمرود عصر بڑی کرسی پر بیٹھ کر
ڈاکے ڈلوات ہے
261
س م ن لٹ ج ئے خیر ہے
اور آ ج ئے گ
فرعؤن بچوں کو مروات تھ
یہ بچوں بوڑھوں ض ی وں گریبوں مسکینوں کو بھی
کھ پی ج ت ہے
ہ ں اتن ضرور ہے
عمرے کے قدموں پر ہے
مگر اس کے حرامی بچے
عمرے کے بچے کے پیرو ہیں
لوگ آج بھی عمرے کو ی د کرتے ہیں
منہ پر نہیں پر آگے پیچھے
اس کے بیٹے کو برا بھا کہتے ہیں
262
کوئی کی ج نے
اس کے اچھ اور سچ ہونے میں
مجھ کو کی ‘ کسی کو شک نہیں
برے وقت میں
اوروں کی طرح منہ پھیر نہیں لیت
دامے درمے سخنے س تھ رہت ہے
سچے کو سچ جھوٹے کو جھوٹ
منہ پر کہت ہے
جینے کے لیے یہ طور اچھ نہیں
اس کی اس گندگی ع دت نے
م ت میں
اس کے کئی دشمن بن رکھے ہیں
اصل اندھیر یہ
جن کے ح میں کہہ ج ت ہے
وہ ہی اس سے منہ پھیر لیتے ہیں
263
بہت ک
اسے پرے پنچ یت میں بای ج ت ہے
ب ت یہ ں پر ہی خت نہیں ہو ج تی
اٹھنے بیٹھنے کے
مغر نے ہمیں طور طریقے سکھ ئے ہیں
بقول مغر کے
ابھی ہ چودہ سو س ل پیچھے ہیں
دس محر کو
اک م تمی ج وس گزر رہ تھ
اک انگریز جو ادھر سے گزر رہ تھ
اس نے س تھ چ تے چمچے سے پوچھ
یہ ں کی م م ہ ہے کی ہو رہ ہے
چمچے نے بت ی
حسین کی شہ دت ک ج وس گزر رہ ہے
وہ حیران ہوا اور کہ
انہیں ا پت چا ہے
264
چمچمے نے
وض حت نہ کی اور ہ ں میں ہ ں مائی
وہ ص ح تھ
یس سری ک ہی تو عوض نہ دیت تھ
می ں ح قن عت لیے پھرت تھ
ت ہی تو بھوک مرت تھ
س چھوڑو
ایک ع دت اس کی عصری آد سے قط ی ہٹ کر تھی
ک ر قض کبھی کسی تقری میں با لی ج ت
دیسی کپڑوں میں چا ج ت
چٹے دیس کے اہل ج ہ کی
برائی ں گننے بیٹھ ج ت
یہ بھی نہ دیکھت کہ کوئی ن ک منہ چڑھت ہے
لوگ کھ ن کھ نے کھڑے ہوتے
زمین پر وہ روم ل بچھ کر بیٹھ ج ت
ک نٹوں چمچوں کے ہوتے
265
ہ تھ سے کھ ت
کھ کر اچھی طرح انگ ی ں چ ٹت
ٹشو پیپر کو چھوڑ کر ہ تھ دھوت
سچی ب ت ہے یہ اطوار دیکھ کر
س کو بڑی کراہت ہوتی
ہم رے ہ ں اک اور سچ پتر رہتے ہیں
م م ہ ان سے پوچھنے چ ے گیے
بقول اس کے می ں ح ک کہن ہے
کھڑے ہو کر کھ نے سے
شخص ک زمین سے رشتہ نہیں رہت
م دہ مت ثرہوت ہے
دل دم اعص پر برا اثر پڑت ہے
بیٹھ کر کھ نے سے
جس ک زمین سے رشتہ رہت ہے
زمین میں سو طرح کی دھ تیں ہیں
جو جس پر اپنے اثر چھوڑتی ہیں
266
چوکڑی م ر کر بیٹھنے سے
سکون کی کی یت رہتی ہے
ہر انگ ی کو دل ہر لمحہ
ت زہ خون سپائی کرت ہے
ہر شخص کے خون ک گروپ الگ ہوت ہے
ہ تھ مانے
گ ے م نے سے
سو طرح کے جراثیموں سے
مکتی م تی ہے
ہ ں زن کی ب ت اور ہے
زانی ت نے دیکھے ہوں گے
ذرا غور کرن
یک زنی اور صد زنی کے اطوار میں
فر کی ہے
حالی حرامی کی پیدائش کو الگ رکھیے
زانی ک بدن زانی کے بول زانی کی شخصیت
267
فطری توزان میں نہیں رہتی
ہم رے اس سچ پتر پر
می ں ح کی ب توں ک بڑا اثر ہوا
س ری را لی ی اس نے آ کر ہمیں سن ئی
س رے ان ب توں پر خو ہنسے اور ٹھٹھ بن ی
وہ رائی بھر بھی نہ ہنس نہ مسکرای
ہ نے اسے بڑا ڈھیٹ کی
ٹس سے مس نہ ہوا
س یک زب ن ہو کر بولے
لو اک اور عاقے کے گ ے گاواں پڑا
می ں ح چل بس
رنگو نے آ کر اچ نک یہ خبر سن ئی
مح ل پر سکوت چھ گی
سچ پتر ڈھ ڑیں م ر کر رونے لگ
ق نون قدرت ہے
سچ ب قی رہے گ اسے ب قی رہن ہے
268
کوئی کی ج نے
می ں ح عاقے ک گہن تھ
ا سچ پتر گہن ہے
269
کل کو آتی دفع ک ذکر ہے
پچھ ی دف ہ کی اہمیت سے مجھ کو انک ر نہیں
شخص ک وہ اترن ہے
یہ اترن ہی شخص کی وض حت ہے
اس پر ن ز کیس غرور کیس
میں کیس ہوں یہ ہی اصل حقیقیت ہے
خدارا مورکھ کے پ س نہ ج ئیے
سچ ک جھوٹ زی دہ بولت ہے
جو ہوت نہیں کہت ہے جو ہوت ہے کہت نہیں
ش ہ ک چمچہ ہی نہیں
وہ فص ی بٹیرا بھی ہے
چوری خور ک ح سچ کی کہتے ہیں
شخص ک ک ت نہیں
ش ہ اور ش ہ والوں کی وہ منشی گیری کرت ہے
شخص کے اس اترن کی کتھ
270
ش عروں کے ہ ں تاشیے
سچ وہ ں مل ج ئے گ
عامتوں است روں میں ہی سہی
س کچھ وہ کہہ گیے ہیں
اورنگی عہد ک سچ کہیں اور ک م ت ہے
رحم ن ب ب کہت ہے
مجنوں ک کوئی کی ح ل پوچھے
ہر گھر صحرا ک نقش ہے
یہ ش عر ہی تھ جو اش رے میں
بہت کچھ کہہ گی
مورکھ کو سچ کہنے کی توفی کہ ں
ہ ں داست نی اد ہو کہ مق می حک ئتیں
ح ان بھی بھی کہیں ن کہیں لک چھپ ہوت ہے
خیر جو بھی م م ہ رہ ہو
پچھ ی دف ہ ک یہ ذکر ہی نہیں
یہ کل کو آتی دفع ک ذکر ہے
271
شر ک اک سی ن
ست روں کے ع سے آگ ہ تھ
زمین ک وڈیرا لٹیرا
دھونس سے اسے اپنے پ س لے گی
پہ ے آنکھیں دکھ ئیں
نہ م ن تو تشدد کی
بڑا ڈھیٹ نکا تو بھوک کی چ در اڑھ دی
آخر ک ت تک
زب ن اس نے کھول ہی دی
موت سے ڈرا موت ص ہ ٹھہری
بھائی کے بدلے ش ب ش ک ہی م تی ہے
خیر اس نے تو مجبوری میں آ کر اپن سینہ کھوا
پولے پیریں بت دیت تو بھی اس ک یہ ہی حشر ہوت
زمین کے ہر چپے پراس کی حکومت تھی
سورج چ ند ست رے س رے کے س رے
تصرف میں اس کے آ چکے تھے
272
اس حقیقت کے ب وجود
کوئی ن کوئی زمین ک س نس لیت مردہ
کچھ ن کچھ کہیں ن کہیں گڑبڑ کر ہی دیت
سرکوبی کے جتن میں
گرہ خود سے ہتھی ی سکہ نکل ج ت
ہر ج ت سکہ اس کو ادھ موی کر دیت
کل کو آتی دفع کے ذکر میں
اس ب ت ک ب ور کران ضروری ہے
وہ شرقی ج ن سے گی
کسی شریک ک ہون وڈیرے کو کیسے گوارہ ہوت
ست روں ک ع آنے کی دیر تھی کہ حوص ہ اس ک
ہم لہ کی ب ندی کو بھی پ ر کر گی
ہر چ ت پھرت بدیسی
اس کو کیڑا مکوڑا لگنے لگ
اس کے کسی دیسی کو
اس کے کسی عمل پر کیوں اعتراض ہوت
273
پیٹ بھرے سوت پیٹ بھرے اٹھت
جو بولت اس کے منہ میں زیرہ رکھ دیت
بدیسی کسکت بھی تو اس ک ست رہ بدل دیت
مشتری سے ج وہ زحل میں آت
وہ جی ج ن سے ج ت یہ مسکرات قہقہے لگ ت
اسے کوئی پوچھنے واا نہ رہ
ہر سو خوف و ہراس ک پہرا ہوا
ہر بدیسی کے زحل میں آنے سے
قتل و غ رت کی دنی ش د و ش دا تھی
اک بے سہ را وچ رے سے لڑکے ک
بھوک کے سب میٹر گھو گی
زحل میں آئے اس کے ست رے کی
یہ بددیسی چ ل تھی
کسی می ں میٹھو نے اسے خبر کر دی
اس نے فورا سے پہ ے اس ک ست رہ بدل دی
ج دی میں اس سے چوک ہو گئی
274
درمی ں زحل کے ج نے کی بج ئے
ست رہ مشتری میں ج بس
پھر کی تھ
دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ک کچھ ہو گی
اس کے اقتدار ک گراف نیچے گرنے لگ
وہ بوکھا گی
بوکھاہٹ میں ہر صحیح بھی غ ط ہونے لگ
پھر کی تھ
آتے کل کی دفع میں وڈیرے ک اپن ست رہ
کہیں گ ہو گی
س سے پہ ی دف ہ میں بھی ایس ہی ہوا تھ
اب یس کی گڈی چڑھی ہوئی تھی
فرشتہ ہو کہ جن اس کے قد لیت تھ
تکبر زہریا اوا اگ نے لگ
اس کے س کے خ ل نے
پہا آد تخ ی کی
275
اسے ہی نہیں
س کو سجدہ ک حک دی
اس ک قی س تھ کہ آد زحل ًمیں وجود پ ی ہے
اس کی یہ ہی بھول تھی
غصہ و قہر میں لمحوں کی گنتی بھول گی
آد تو مشتری کی بہترین س عت کی تخ ی تھ
ہ کی حکمت اگر کھل ج ئے تو وہ ہ تو نہ ہوا
ہ کے آنے کے ان حد رستے ہیں
قہر کے رستے سے آئے ی عط کے رستے سے
کون ج ن سک ہے
آتے کل کی دفع میں
شکست آخر اب یس کے پیرو ک مقدر ٹھہری
ویدی ک ویدان تو اپنی ذات میں اٹل ہے
دیو ہو کہ جن شخص ہو کہ م ک
اس کے س منے بےبس ہے
اس کی ہونی میں ک کسی ک کوئی دخل ہے
276
دج ل آئے کہ اس ک پیو آئے
اس کی خدائی نہیں چل سکتی
حسین کے پیرو اس کی راہ میں آتے رہیں گے
وہ آگ میں پڑنے سے زہر پینے سے
سر کٹوانے سے ک ڈرتے ہیں
دج ل عصر سن لو!
تمہیں میں یہ کہے دیت ہوں
تمہ را ست رہ زحل میں آنے کو ہے
یہ ہی ہوت آی ہے یہ ہی ہوت رہے گ
کہ ں ہیں یون نی کہ ں ہیں رومی
بس ان کی کہ نی ں ب قی ہیں
ہ ں وہ س تکبر کی آگ ک ایندھن بنے
جل بھن گئے راکھ تک ب قی نہ رہی
سکندر ہو کہ ق س محمود ہو کہ چرچل
ب بر بھی عیش کوشی کے س م ن کرت رہ
کچھ کھ پی گئے
277
کچھ جمع آوری میں مشغول رہے
کسی نے ت ج محل ت میر کی
عورت کے تھ ے کی خوشنودی کی خ طر
کئی نور محل ت میر ہوئے
کوئی اپنے س تھ ک کچھ لے گی
ن ہ ک ب قی ہے ن ہ ک ب قی رہے گ
گزری دف ہ کی یہ ہی کتھ تھی
آتی دفع کی بھی یہ ہی کتھ ہوگی
278
کڑکت نوٹ
اس ب ت کو
آج کوئی نصف صدی ہوئی
آج بھی نوششہءصدر ہے
سکول کی اسمب ی میں کھڑے تھے
بڑے م سٹر ص ح نے
ب آواز ب ند کہآ
کسی کے پ س روپے ک کڑکت نوٹ ہے
خ موشی چھ گئی
روپیے ک نوٹ اوپر سے کڑکت
گریبوں ک فیس م فی سکول تھ
کسی سیٹھ کی تجوری نہ تھی
سو ک نوٹ بھی پوچھتے
اس کے غ ے میں مقید م ت
آخر چپ ٹوٹی
279
سکول کے م لی کی جی سے نکل آی
س کو حیرت ہوئی
م لی کی جی میں روپیے ک کڑکت نوٹ
میا را ک سر فخر سے تن گی
فخر اسے کیوں نہ ہوت
اتنوں میں فقط ایک وہ ہی تھ
جس کی جی سے
روپیے ک کڑکت نوٹ نکا تھ
خیر چھوڑیں ب ت ذرا آگے بڑھ تے ہیں
بڑے م سٹر ص ح نے
روپیے ک وہ نوٹ س کو دکھ ی
پت نہیں کتنے مونہوں میں پ نی آ گی
انہوں نے پوچھ یہ نوٹ کتنے ک ہے
س نے یک زب ن ہو کر کہ ایک ک ہے
نوٹ انہوں نے دوہرا چوہرا کر دی
پوچھ ا یہ نوٹ کتنے ک ہے
280
س نے کہ ایک ک
ہ ں البتہ می ہ را کے تیور بگڑ گئے
ب د اس کے
نوٹ انہوں نے ہ تھوں میں مسل دی
پھر پوچھ یہ نوٹ کتنے ک
جوا وہ ہی تھ کہ ایک ک
نوٹ کی ح لت دیکھ کر
می ہ را ک چہرا زرد پڑ گی
نوٹ انہوں نے اپنے پ ؤں سے مسل دی
پوچھ اس نوٹ کی قدر کی ہے
س نے کہ ایک روپیہ
ا کہ می ہ را کی طبیت خرا ہو گئی
بڑے م سٹر ص ح کی وہ نگ ہ میں تھ
انہوں نے فورا سے پہ ے کڑکت نوٹ
جی سے نک ا اور میا را کو تھم دی
رگڑا مسا نوٹ اپنی جی رکھ لی
281
کہ وہ ا بھی ایک ک تھ
چیز دونوں کی ایک سی آنی تھی
نی ہو کہ پران اس سے کی فر پڑت ہے
نوٹ دونوں ایک کے تھے
بڑے م سٹر ص ح بولے
اس نوٹ پر کوئی بھی قی مت گزرے
اس کی قیمت میں فر نہ آئے گ
ہ ں اتن ضرور ہے یہ ترا مرا نہیں
یہ جس ک بھی ہو ایک ک ہے
خرچ کرو گے تو ایک ک نہیں رہے گ
آگہی جتنی بھی خرچ ہو
اس کی قدر ک نہیں ہوتی
میں نے س کو دانش کی ب ت بت ئی
قدر مگر اس کی ک نہیں ہوئی
ت جتن بھی اسے خرچ کرو گے
یہ جتنی ہے اتنی ہی رہے گی
282
اسے زنگ نہیں آت یہ پرانی نہیں ہوتی
کس نے کہ مت دیکھو
کی کہ یہ ہی دیکھو
صوفی ی بھگت کے منہ سے نک ے
گ لی‘ گ لی ہو گی
بدم ش ل نگے کے منہ نک ے
دع ‘ دع ہو گی
پ ے سے مری یہ ب ت ب ندھ لو
ع کی جن میں
فرشتے بھی سجدہ ریز ہوئے
اچھ ‘ اچھ ہی رہت ہے
ک لک سو غ زوں کے پیچھے
ک لک ہی رہتی ہے
سقراط ہو کہ منصور
وقت کی دھول میں ک چھپ سکے ہیں
انہیں مسا گی کچا گی
283
قدر ان کی مگر کوئی ک نہ کر سک
وقت انہیں سا کرت آی ہے
سا کرت رہے گ
284
اسا س ک ہے
سچی کہ نی
ب ب شکر ہ بھ ے آدمی تھے
صو و ص وتہ کے ہی پ بند نہ تھے
قول کے کھرے
ہ تھ کے بھی کھ ے تھے
اچھ کہتے اچھ کہنے کو کہتے
اچھ کرتے اچھ کرنے کو کہتے
لوگوں ک ان کے پ س آن ج ن تھ
بس ط بھر ان کی خدمت کرتے
لینے کے خاف تھے
اگر کوئی کچھ لے آت
واپس اسے لے ج ن پڑت
ج ی پیروں کی ٹھگی پر افسردہ رہتے
285
کہتے
انہیں تو لوگوں کو حضور کی راہ پر چان ہے
حضور دیتے تھے
ان ک لین کہیں ث بت نہیں
لوگ انہیں پیر سمجھتے تھے
یہ الگ ب ت ہے
انہوں نے خود کو کبھی پیر م ن نہیں
کوئی پیر کہت تو برا من تے
پنشن پر گزرا کرتے
ام ں جی گھر میں
با فیس بچوں کو پڑھ تیں
عرصہ سے
ان کے ہ ں یہ ہی طور چا آت تھ
مجھ ن چیز کو بھی
ان کے پ س بیٹھنے ک شرف رہت
ایک ب ر
286
اک مولوی ص ح ان کے پ س آئے
سا دع با کے بیٹھ گئے
توند بس من س ہی تھی
ہ ں ش وار ٹخنوں سے اوپر تھی
مونچھوں ک کہیں ن و نش ن نہ تھ
داڑھی سرسیدی تھی
بولے حضرت اک سوال پوچھن ہے
ب ب بولے ہ ع ی و خبیر ہے
م و ہوا تو ہی جوا دے سکوں گ
ہ ں غور تو ہو سکت ہے
مولوی ص ح بولے :کی حضور کو ع غ ئ تھ
مولوی کے لہجے میں
مولوی کی آنکھوں میں شرارت تھی
ب ب ص ح پہ ے تو مسکرائے
پھر رنجیدہ ہو گئے
ب ب ص ح نے کہ :افسوس مولوی ص ح
287
افسوس صد افسوس
کرنے کے ک کرتے نہیں ہو
یہ ہ اور اس رسول ک م م ہ ہے
اس پر زور آزم تے ہو
ہے تو بھی‘ نہیں ہے تو بھی
یہ ہم را م م ہ نہیں ہے
ہمیں تو بس اس سے ک ہے
آپ کے کہے میں وحی ک اہتم ہے
آپ ک کہ گوی ہ ک کہ ہے
مولوی ص ح کیسے ہیں آپ
ک ن دیکھتے نہیں
کتے کے پیچھے دوڑے بھ گے ج تے ہو
کبھی خود سے بھی سوچ لی کرو
دعوی تمہ را ہو گ کہ پڑھ لکھ ہوں
ع قری سے بھی گزرا ہوت
یہ سوال نہ کرتے
288
کی حضور کو ع غ ئ تھ
تمہ را کہ ہی تض د ک شک ر ہے
کہتے ہو حضور
صیغہ تھ ک است م ل کرتے ہو
ل ظ حضور ح ضر کے لیے ہے
م نتے ہو آپ ح ضر ہیں
تھ کہہ کر ن ی کرتے ہو
یہ کی ب ت ہوئی
وہ ح ضر ہیں پر کی کریں
ہم ری آنکھں
انہیں دیکھنے کے ق بل نہیں ہیں
دیکھنے والے دیکھتے ہیں
یوں بھی لے سکتے ہو
ت قی مت قرآن ب قی ہے
آپ ح ضر ہیں
خیر یہ تض د تمہ رے پوچھنے میں ہے
289
تض د کی دنی سے نک و کہ امت متحد ہو
مذاہ غی پر ایم ن رکھنے پر استوار ہیں
ہ ت نے دیکھ ‘ نہیں
جنت دوزخ جن فرشتے ت دیکھے‘ نہیں
ح ضر کو دیکھ ‘ نہیں
قرآن اترتے دیکھ ‘ نہیں
ان س پر ہر ک مہ گو ک ایم ن ہے
ت ہی تو مس م ن ہے
حضور پر قرآن اترا
بے شک انے والے کو حضور نے دیکھ
وہ فرشتہ تھ انس ن نہیں تھ
بھیجنے والے سے مت آگہی ہو گی
جو کسی نے نہیں دیکھ
حضور نے دیکھ ج ن
ع غی ک ہون اور کس کو کہتے ہیں
میں سے گزر کر تو میں آنے واا
290
ک کسی پر کھل سکت ہے
یہ م م ہ حضور ک ہے
وہ ج نیں ی ان ک خدا ج نے
ہمیں اس سے مط نہیں
اگر ہ مسم ن ہیں تو سیدھ چ یں
ہ کی مخو کے ک آئیں
ای نی چکروں میں پڑو گے
تو مرو گے
خود ڈوبو گے یہ م م ہ تمہ را ہے
اوروں کو ڈبو دو گے
یہ م م ہ اسا ک ہے
اسا اس کی اج زت نہیں دیت
اسا تمہ را ہی نہیں
اسا س ک ہے
291
ڈنگ ٹپ نی
ہ بخشے ت ی نوا لڑکوں کو
چوکوں میں کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے
رشتہ میں وہ کسی کے کچھ نہ تھے
بوڑھے تھے حی دار تھے
س انہیں ت ی کہتے تھے
اچھ دور تھ اچھے لوگ تھے
ہر کس کی عزت اپنی عزت ج نتے تھے
س کی بھنیں اپنی بھنیں تھیں
آہ! وہ مر گئے
اچھی روائتیں بھی مر گئیں
آنکھوں میں شر تھی حی تھی
آج کوئی کوئی پران ب ت کرے تو کہتے ہیں:
چھوڑو جی دقی نوسی ہے
بیبی ں ب دوپٹہ ی ب برق ہ گھر سے نک تی تھیں
292
آج برق ہ تو دور رہ دوپٹہ بھی غ ئ ہو گی ہے
شریف سے اور ب حی سے رہو تو
کڑی ں مذا اڑاتی ہیں
چھیڑو تو پ ے پڑ ج تی ہیں
نہ ج ئے م ندن نہ پ ئے رفتن
اسی کو تو کہتے ہیں
بیدا اور شیدا مح ہ کے چوک میں کھڑے تھے
ای نی گپیں ہ نک رہے تھے
ت نک جھ نک دیدار ب زی ک عمل ج ری تھ
کوئی ن ک چڑھ کر کوئی مسکرا کر گزر ج تی
ہ ج ں تی ن ک بھی ادھر سے گزر ہوا
منہ متھے لگتی تھی شیدا نہ رہ سک
اس نے پرامید پراس و فوجی س یوٹ کی
وہ کھل کھائی
ہنسی اس کی پورے منہ کی تھی
وہ گزر گئی ب ت آئی گئی ہو گئی
293
وہ پھر سے گپوں میں جھٹ گئے
اسی ش ہ ج ں تی ن بیدے کے گھر آئی
بیدے کی م ں سے کہنے لگی
بیدے نے مح ہ کے چوک میں
مجھے چھڑا ہے
مرا ویر ادھر نہ تھ
ورنہ
پیر پر ڈکرے کر دیت
بیدے کی م ں شک یت سن کر ہکی بکی رہ گئی
اس نے غصے سے بیدے کو آواز دی
آیآ م ں جی کہہ کر
کچھ ہی دیر ب د چھت سے نیچے اتر آی
وہ گڈی اڑا رہ تھ
اتنی دیر میں ہ ج ں تی ن ج چکی تھی
بیدے کی م ں نے بن کچھ سنے
بیدے کی لہہ پہہ کر دی
294
بیدے نے تو اسے چھیڑا ہی نہ تھ
یہ گاواں م ت میں اس کے گ ے آ پڑا تھ
بیدے کی م ں بےچ ری کی ج نے
روا چھیڑنے ک تھ ہی نہیں
وہ شیدے کی پسند تھی
شیدا مگر ہ ج ں کی دل آنکھ میں نہ تھ
ہ ں وہ بیدے کی دیونی تھی
بیدے کو کی مری پڑی جو اس نے نہ چھیڑا
پر کی کریں
چھم ں بیدے کے دل کی رانی تھی
سوہنی تو تھی ہی
ہ ج ں سے بڑھ کر سی نی تھی
یہ ب ت تو
فرشتوں کے لکھے پر
ن ح پکڑے ج نے والی کی سی تھی
کیسی ب ت ہے یہ
295
ش دی کرنے کے ارادے دور تک نہ تھے
ہ ں مگر دو طرفہ محض ڈنگ ٹپ نی تھی
296
ایک اور اندھیر دیکھیے
ہر چپہ پہ سجدہ ریز ہوا
پھر بھی میں کی گرفت میں رہ
کرنی اپنی ہی کرنی تھی
سجدوں ک محض ڈھونگ رچ تھ
آخر ک تک
آزم ئش میں آ ہی گی
میں سر چڑھ کر بولی تو
ڈھول ک بھید کھل گی
پھر کی تھ
م لک نے حضوری دوری میں بدل دی
م فی کی طرف کیوں آت
دیکھتے ہی دیکھتے نٹک اس ک آسم ن لگ تھ
خ ل اسے ج نت تھ
وہ تو خود سے بےبہرہ تھ
297
رنگ روپ شکل بدل بدل کے م ت رہت ہے
کچھ ہی لمحے ہوئے ہوں گے
مجھے ما تھ
بےشک بڑا خوش لب س تھ
مرے س منے سو ک اس نے دنبہ خریدا
میں دیکھ رہ ہوں اس سے وہ بےخبر تھ
میں نے پوچھ دنبہ کتنے ک دو گے
ریٹ دنبے ک اس نے ایک سو چ لیس بت ی
میں نے کہ کچھ تو ک کرو
بڑی مشکل سے ایک سو تیس تک آی
اصرار کی تو کہنے لگ
قرآن کی قس کھ کر کہت ہؤں
ایک سو پچیس مری خرید ہے
پ نچ من فع لوں گ
میں نے بصد افسوس اس کی طرف دیکھ
دنبہ خرید لی کہ قرآن پر مرا یقین تھ
298
یہ قریب دو بجے کی ب ت ہے
ب ریش تھ مسجد سے نکل رہ تھ
ج دیوں میں تھ
لگت تھ کہیں ک ڈالے گ
سیدھ گودا میں آی
پیسی مرچوں کے دو بورے واں پڑے تھے
پیسی اینٹوں ک ایک بورا
اس کی راہ دیکھ رہ تھ
اپنے ہنر میں ص ح کم ل تھ
منٹوں سکنٹوں میں یہ پرای
مرچوں ک ہ س ر ہوا
ا کہ تین بورے مرچوں کے ٹھہرے
رنگ روپ حس نس ک جھگڑا ہی خت ہو گی
مسجد میں اس کے طور ہی کچھ اور تھے
ب ہر آ کر یکسر بدل گی
ح جی کے روپ میں بھی ما
299
بڑا خوش اخا شیریں زب ن تھ
مری بیوی کو شروع سے بیٹی کہت تھ
سر پر ہ تھ پھرت نگ ہ نیچی رکھت
یہ تو بہت ب د میں م و ہوا
مرے گھر کی س ری رون
اسی ک لطف و احس ن تھ
مجھ س ن ک رہ وگرنہ ک اس ائ تھ
ک ش س ئنس اتنی ترقی نہ کرتی
اور میں بےخبر ہی رہت
ع ش ں شکل و صورت میں کتنی م صو لگتی تھی
ب طن میں شیط ن ہی ک اترن تھی
برسوں سے مرا پرموشن کیس اڑا پھس تھ
بڑا ب بو کبھی یہ کبھی وہ ک غذ م نگ رہ تھ
مرے س تھ کی ہو رہ ہے
اکثر سوچت
مرے س تھ کے ترقی انجوائے کر رہے تھے
300
میں ابھی تک قسمت کو کوس رہ تھ
ایک ص ح نے باتک ف کہ
پ گل اصل ک غذ دیتے نہیں
کبھی ب بو کو کبھی قسمت کو کوستے ہو
کس ک غذ کی آپ ب ت کرتے ہیں
میں نے پوچھ ہی لی
بڑا نوٹ جس پر ب نی کی تصویر چھپی ہو
ف ئل میں لگ ؤ پھر بےچنت ہو ج ؤ
ک ہو ج ئے گ
سوچ میں پڑ گی
یہ بگا بھگت کتنے روپ دھ رت ہے
لو دور کی ج ن ہے
ہم ری گ ی کے موڑ پر ہی وہ رہت ہے
کچہری میں منصف کے روبرو
کا پر ہ تھ رکھ کر کہت ہے
جو کہوں گ سچ کہوں گ