151
اجتہ د ک در وا ہوا
روایت ک دی بجھ گی
حقیقیت سےپردہ اٹھ گی
ش عر نہیں‘ میں تو بھک ری تھ
خورشید ض یف ہو گی
مہت زرد پڑ گی
گا مرجھ گی
طب ے ک پول کھل گی
جھنک ر تھ گئی
سمندر ندامت پی گئی
ک سہ دو لخت ہوا
جو جس ک تھ لے گی
اب یس کرچی ں چننے لگ
بھک ری مر گی
قبروں کو اپن دی مل گی
پھر ش عر ج گ
152
ذات میں کھو گی
خ مشی چھ گئی
ذات میں انقا آ گی
اندر ک اوا اب نے لگ
حد سے گزرنے لگ
اب یس کے قہقہوں ک س س ہ رک گی
ا ذات تھی
ش عر تھ
آنکھوں میں لہو کی بوندیں
ہ تھ میں ق
ک غذ پر جگر تھ
153
ٹیکس لی کے شیشہ میں
م صو گڑی سی
سراپ جس ک
ک یوں گابوں نے بن تھ
ش ید سراپے ک شیش محل
چ ند کی کرنوں سے ت میر ہوا تھ
زیست کے نشی و فراز سے بے خبر
کہکش نی رستوں کی تاش میں
مشک و عنبر کی جہ ں ب س ہو
ہوا جس کی مگر اسے راس ہو
پریوں کے شہزادے ک میسر س تھ ہو
گھر سے بھ گ نک ی
آنکھوں میں اس کے روشی تھی
ہر دل سے درد اٹھ
مونس و غ گس ر بن گی
154
وہ کی ج نے
اس نگر میں بھنورے بھی رہتے ہیں
بھیڑیے ت ک میں ہیں
اک روز پھر اخب ر میں خبر چھپی
مط ع ہوں
اک لڑکی کے اعض ء بکھر گیے تھے
گندے گٹر میں پڑے تھے
ہر ٹکڑا زخموں سے چور تھ
اور خون بھی بہہ رہ تھ
گندے پ نی کی ٹھوکریں سہہ رہ تھ
کہہ رہ تھ
ش ید میرا کوئی بچ رہ ہو
یہ بکھرے اعض ء بڑی ح ظت سے
کڑی ری ضت سے
جوڑ کر‘ سی کر
داراان بھیج دیے ہیں
155
داراام ن سے رابطہ کریں
خوبی قسمت دیکھیے
ٹیکس لی کے ب سی قدر شن س نک ے
آج بھی وہ اعض ء
ٹیکس لی کے شیشہ میں سجے ہیں
کہ ان ک کوئی مستقبل نہیں
م ضی کہیں کھو گی ہے
ح ل مت ین نہیں ہوا
کہ ا ان پر س ک ح ہے
156
ک لے سویرے
مجھے ڈر لگت ہے
ع و فن کے ک لے سویروں سے
جن کے بطن سے
ہوس کے ن گ جن لیتے ہیں
منصف کے من کی آواز کو
جو ڈس لیتے ہیں
سہ گن کے سہ گ کی پی سی آتم سے
ہوس کی آگ بجھ تے ہیں
سچ کے موسموں کے چراغوں کی روشنی
دھندا دھندا دیتے ہیں
حقیقتوں ک ہ زاد
گھبرا کر
ویران اور اداس ل ظوں ک
آس سے
157
جو خود فریبی کے جھولے میں پڑی
فرار کے رستے سوچ رہی ہے
رستہ پوچھت ہے
ان زہری ے ن گوں کی آنکھوں کی مقن طیسیت
اپنے حص ر میں
اسے بھی لے لیتی ہے
یہ ن گ
ان اور اس س کو بھی ڈستے ہیں
یہ خونی منظر دیکھ کر ک نپ ج ت ہوں
کہ یہ ا ضمیر کو بھی ڈس لیں گے
ک لے سویروں کی زرد روشنی کے س ئے
جوں جوں دراز ہوتے ہیں
زندگی کو اک اور کربا سے گزرن پڑت ہے
ان ن گوں کی زب نیں
چمکتی‘ زہر میں بجھی
تیز دھ ر ت واریں ہیں
158
گھ ؤ کرنے میں
یہ اپن جوا نہیں رکھتیں
زندگی خوف کے س ئے میں
کیوں کر پروان چڑھ سکتی ہے
جہ ں کوئی روٹی دینے واا نہیں
پ نی کی اک بوند ن ی ہے
جہ ں خودکشی حرا جین جر ہے
جہ ں نی ے آسم ن کی
چ ند ست روں سے لبریز چھت
اپنی نہیں
ہوا ک بھی گزر نہیں ہوت
بدلتے موسوں ک تصور
شیخ چ ی ک خوا ہے
بوسیدگی اور غاظت
شخص ک مقدر ہے
ی پھر
159
زہر بجھی یہ چمکتی ت واریں ہیں
یقین م نو‘ یہ ہی کچھ ہے
پھر میں
ی س کی ت ریکیوں کی تمن کرت ہوں
ج نت ہوں کہ یہ ن گ
ت ریکیوں سے نہیں گھبرائیں گے
پھر بھی ک ٹیں گے
گدھ نوچیں گے
کتے ہڈیوں پر ٹوٹیں گے
ہر ہڈی پر
گھمس ن ک رن ہو گ
اپن حصہ لگڑ بگڑ بھی م نگیں گے
ف س ورس کی ب نٹ ًپر بھی
تن زعے اٹھیں گے
درد پھر بھی ہو گ
کر پھر بھی ہو گ
160
زہر پھر بھی پھی ے گ
ک نچ بدن پھر بھی نیا ہو گ
م یوسی کی سی ہ ذل وں کے س ئے میں
بص رت کو بصیرت کو
ش ئد پن ہ مل ج ئے گی
میں ن گوں کے پہرے نہ دیکھ سکوں گ
لہو رستے پر نظر نہ ج ئے گی
مگر کی کروں
سچ کی حسین تمن مجھے مرنے نہیں
مرنے نہیں دے گی
اور میں اس سرا جیون میں
نہ مروں گ نہ جی سکوں گ
161
کیچڑ ک کنول
میا س چیتھڑا ‘آلودہ
ش ید ح جت سے بچ ہوگ
‘آد زادے ک پراہین
!عیی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟
گا سے چہرے پر
ب ور ایسی‘ دیکھتی آنکھیں
حیرت خوف غ غصہ اورافسوس
ج نے کی کچھ تھ ان میں
سم ج کی بےحسی پہ
ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں
دو بوند‘ لہو سی
صدیوں کے ظ کی داست ن
لیے ہوئے تھیں
اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ
162
پتھر بھی پگھل کر پ نی ہو
ترسی ترسی ب ہیں
میرے بوبی کی ب ہیں ایسی ہی تھیں کہ
ج وہ بچہ تھ
ت محبتوں ک حص ر تھ
اور ا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خ ت ندامت ک حص ر
مرے گرد ہے
لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دائرہ تنگ ہو رہ ہے
مجھے فنک ر سے نسبت ہے
فنک ر‘ س ک درد
سینے کی وس توں میں سمو لیت ہے
‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
س کت وج مد
مٹی کے بت کی طرح
163
خ موش تم ش ئی تھ
اس نے پک را آواز دی
احتج ج بھی کی
کچھ نہ میں کر سک
‘جیسے وہ آد زادہ نہ ہو
ہم لہ سے گرا
کوئ پتھر ہو
:اس نے کہ
!فنک ر۔۔۔۔۔۔۔“
مجھے اپنی ب ہوں میں سم لو
"ازل سے پی س ہوں
گھبرا کر تھوڑا س
)پستیوں کی ج ن )
پیچھے سرک
کوئی مصیبت کوئی وب ل
تہمت ی بدن می سر نہ آئے
164
چیخ “فنک ر ک سینہ
!ک سے تنگ ہوا ہے؟
میری ب ہیں غیر جنس کی ب ہیں ہیں؟
ان ک ت پر کوئی ح نہیں؟؟؟
وہ کہت رہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنت رہ
کی جوا تھ میرے پ س
!ک ش
میرے ش ور کی آنکھیں بند ہو ج تیں
یوں جیسے ممت کی سم ج کی
آنکھیں بند تھیں
سوچت ہوں‘ مجر کون ہے
‘گن ہ کس نے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
م ں ی سم ج نے
وہ تو اپنے گھروں میں
آسودہ س نسوں کے س تھ
گر ک فی پی رہے ہوں گے
165
ی میں نے جو
ش کی بھی نک تنہ ئ میں
ندامت سے
سگریٹ کے دھوئیں میں
تح یل ہو رہ ہوں
گٹرکے قری پڑا‘ وہ کنول
مجھ سے میرے ضمیر سے
انص ف ط کر رہ ہے
کہ ت ‘ خدائے عزوجل کی تخ ک
یہ حشر کرتے ہو
مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
بت ؤ‘ ح می کون ہے؟
ضمیر کس ک مردہ ہے؟
مجر کون ہے؟
میں ی ت ؟؟؟
!میری بستی کے ب سیو
166
کہ تمہیں عظی مخ و ہونے ک دعوی ہے
کی جوا دوں اسے؟
اس ک ننھ س م صو چہرا
احتج ج سے لبریزآنکھیں
پنکھڑی سے ہونٹوں پر
تھرکتی بےصدا سسکی ں
مجھے پ گل کر دیں گی
پ گل
ہ ں پ گل
167
دو لقمے
ت ن میں اٹی
‘اندھی روں میں لیپٹی وہ بستی
جہ ں چھیتڑوں میں م وف زندہ اشوں کے دل کی دھڑکنیں
دیوار پر آویزاں کاک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔
‘بھوک کی اہیں
بےبسی کی سسکیوں میں مدغ ہو رہی تھیں۔
آس ک س یہ آس پ س نہ تھ ۔ تھ کچھ تو ق تل خ موشی تھی۔
بھوک ک ن گ پھن پھیائے بیٹھ تھ ۔
م یوسیوں کی اس بستی سے رح ک دیوت ش ید خ تھ ی پھر
وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گی تھ ۔
اک مسکراہٹ کے ط بگ ر یہ اشے بے حس نہیں‘ بے بس
تھے۔
پھر اک اشہ بھوک ن گ جس کے قری تر تھ ۔۔۔۔۔۔ تڑپ اور
رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گی ۔ اس حرکت میں اس نے اپنی
س ری توان ئی صرف کر دی۔ ہر سو اج لے تھے لیکن وہ بھوک
168
کے سی ہ ک ن میں م بوس تھ ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہ ں پھر‘ بھی وہ
زندہ تھ اور اج لوں کی شہراہ پر پڑا ہ نپ رہ تھ ۔ س نسیں
بےترتی تھیں۔ خوش پوش راہی ش ید اسے دیکھ نہیں رہے
تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ن ک پر روم ل رکھ کر گزر رہے تھے۔
وہ س اس کے ہ جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہ ں تک آی
تھ ۔ ان دیکھتے کر لمحوں کو کون ج ن پ ت ۔
وہ اس بستی ک نہ تھ ۔
بھوک ن گ بوا :کہ ں تک بھ گو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بنن ہی ہو
گ کہ خود میں بھوک ہوں۔
پھر وہ تھوڑا آگے بڑھ ۔
اشہ چای :نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آئے
گی۔
س بےک ر۔۔۔۔۔روٹی کوئی نہیں دے گ ۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی
آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گ
روٹی۔ ان کے ہش ش بش ش چہروں پر نہ ج ؤ۔ ان کے من کی
بھوک کو دیکھو اور میرے صبر ک امتح ن نہ لو۔
:اشہ سٹپٹ ی اور چای
!اج لوں کے ب سیو
!ع و فن کے دعوےدارو
169
!سی ست میں شرافت کے مدعیو
!جمہوریت کے ع بردارو
!اس حہ خرید کرنے والو
!فاحی اداروں کے نمبردارو
‘ع لمی وڈیرو
‘کہ ں ہو ت س
تمہ رے وعدے اور دعوے کی ہوئے؟
اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچ لو۔ بھوک ن گ میرے
قری آ گی ہے۔
دیکھو غور کرو‘ میں تمہ را ہ جنس ہوں
‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہ ں فقط دو لقمے
میری زندگی کے ض من ہیں۔
ایف سولہ ہ ئیڈروجن ب مجھے نہیں چ ہیے۔
میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔
اس دور کی یہ تمہ ری بہت بڑی جیت ہو گی جو ت ریخ میں
تمہیں امر کر دے گی۔
170
آخری خبریں آنے تک
کون
انص ف
تمہ را یہ ں کی ک
جہ ں میری ضرورت ہوتی ہے بن بائے چا آت ہوں
بن بائے کی اوق ت سمجھتے ہو
جی ہ ں
اوق ت عمل سے بنتی ہے
تمہ ری م ننے والے بھوکے مرے
بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کی ہے
لوگ ہمیں سا کرتے ہیں
تمہیں نہیں‘ تمہ ری شر کو سا کہتے ہیں
ت ریخ میں دھنوان امر رہ ہے
ت ریخ پیٹ کے بندوں ک روزن مچہ ہے
پیٹ ہی تو س کچھ ہے
171
ت ہی تو ب ا سطع پر رہتے ہو
تہہ کے مت ت کی ج نو
بڑے ڈھیٹ ہو
بنن پڑت ہے
تمہیں تمہ ری اوق ت میں ان پڑے گ
کی کر لو گے؟؟؟
تمہ ری ہڈی پس ی ایک کر دوں گ
یہ س تو پہ ے بھی میرے س تھ ہو چک ہے
کوئی نئی ترکی سوچو
تمہیں جا کر راکھ کر دوں گ
عبرت کے لیے
تمہ ری راکھ گ یوں میں بکھیر دوں گ
یہ تو اور بھی اچھ ہو گ
وہ کیسے؟
میری راکھ ک ہر ذرا انقا بن ابھرے گ
اہ م ئی گ ڈ‘ تو پھر میں کی کروں؟
172
مجھے اپنے سینے سے لگ لو
یہ مجھ سے نہیں ہو گ
تو طے یہ ہوا
تمہ ری اور میری جنگ ک کوئی انت نہیں
دیکھت ہوں کہ ں تک اذیت برداشت کرتے ہو
چ و میں بھی دیکھت ہوں
اذیت میں کس حد تک ج تے ہو
اس کے ب د
گھمس ن کی جنگ چھڑ گئی
اور آخری خبریں آنے تک
جنگ ج ری تھی
173
یہ ہی فیص ہ ہوا تھ
عہد شہ میں بےحج بےکسی بھی عج قی مت تھی۔ صبح
اٹھتے مشقت اٹھ تےعوضوانے کو ہ تھ بڑھ تے بے نقط سنتے۔
س نسیں اکھڑ ج تیں مہر بہ ل جیتے کہ س نسیں ب قی تھیں۔ جین
تو تھ ہی لہو تو پین تھ ہی۔
ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گ یوں
میں خوف ک پہرا تھ کہ ش ہ بہرا تھ ۔ ش ہ والے گ یوں میں
بےچنت کرپ نیں لیے پھرتے تھے۔ نق ہت ہ تھ ب ندھے شک میں
بھوک آنکھوں میں پی س لیے کھڑی تھی ہ ں مگر ش ہ کی دی ک
بول ب ا تھ ۔
پنڈت کے ہونٹوں پر ش نتی بغل میں درانتی ماں بھی من میں
ت ری ک ب رود بھرے امن امن امن کیے ج رہ تھ ۔
ا ج کہ پیری پہ شنی ک پہرا ہے بھوک ک گھ ؤ گہرا ہے۔
جی میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دا
چک ئے بڑے ش خ نے کے در پر ائے م یوسی کی ک لک مٹ ئے
آہیں سنے تش ی کی لوری سن ئے۔ ہونٹوں پہ گا سج ئے دل
میں کر اٹھ ئے ا کون ہے جو مرے مرنے سے مر ج ئے۔
174
بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی س س کپتی ہے
بھ ئی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنت ہے سیٹھ
کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔
بیگ روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے ک ن دفن کے لیے
پیسے کہ ں سے آئیں گے کہیں اس کے بھ ئیوں کی چمڑے نہ
ادھڑ ج ئے وہ تو بہنوئی کی کھ تے تھے ج بھی آتے تھے
کچھ ن کچھ لے ج تے تھے۔
جیت ہوں تو مصیبت مرت ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں
جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جات رہ دوا دور رہی
مری گرہ میں تو اس اجڑے گ ست ن ک کرایہ نہیں۔
گھر میں روشنی نہیں ن سہی ش ید کوئی فرشتہ مری لحد میں
بوند بھر روشنی لے کر آ ج ئے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سک
سوچ سک واں سکوں ہو گ خود کو دیکھ سکوں گ سوچ سکوں
گ خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔
خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی ق بی خدا کی
بےکراں عظمتوں ک اسرار کھل ج ئے گ وہ میرا تھ میرا ہے
مجھے مل ج ئے گ ۔ سردست ک ن و دفن کے س م ن کی فکر ہے۔
ک ن م ے ن م ے اس سے کی فر پڑت ہے۔ عمر بھر اس نے
مری پردہ پوشی کی ہے ا بھی کرئے گ ۔
175
ایونوں میں بستے س یدی میں لپٹے شیط نوں ک نگر مرا نہیں
مرا نہیں گورنگر مرا ہو گ مرا خدا کچھ لیت نہیں دیت ہے۔ لین
مری ع دت دین اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی
چنت میں کیوں کروں مری ج ن میں آ رہ ہوں تو مختصر سہی
مرے لیے مری حسرتوں کے لیے س ت زمینوں سے بڑھ کر
وس ت رکھتی ہے میں بھول میں رہ کہ یہ ں کچھ بھی مرا نہ تھ
زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی
یہ ہی فیص ہ ہوا تھ
یہ ہی فیص ہ ہوا تھ
یہ ہی فیص ہ ہوا تھ ۔
176
حیرت تو یہ ہے
موس گل ابھی محو کا تھ کہ
مہت ب دلوں میں ج چھپ
اندھیرا چھ گی
پریت پرندہ
ہوس کے جنگ وں میں کھو گی
اس کی بین ئی ک دی بجھ گی
کوئی ذات سے‘ کوئی ح ات سے الجھ گی
کی اپن ہے‘ کی بیگ نہ‘ ی د میں نہ رہ
ب دل چھٹنے کو تھے کہ
اف لہو اگ نے لگ
دو ب ادھر دو ادھر گرے
پھر تو
ہر سو دھواں ہی دھواں تھ
چہرے ج دھول میں اٹے تو
177
ظ ک اندھیر مچ گی
پھر اک درویش مین ر آگہی پر چڑھ
کہنے لگ سنو سنو
دامن س سمو لیت ہے
اپنے دامن سے چہرے ص ف کرو
ش ید کہ ت میں سے کوئی
ابھی یتی نہ ہوا ہو
یتیمی ک ذو لٹی ڈبو دیت ہے
من کے موس دبوچ لیت ہے
کون سنت پھٹی پرانی آواز کو
حیرت تو یہ ہے
موس گل ک س کو انتظ ر ہے
گرد سے اپن دامن بھی بچ ت ہے
اوروں سے کہے ج ت ہے
چہرہ اپن ص ف کرو‘ چہرہ اپن ص ف کرو
178
میں نے دیکھ
پ نیوں پر
میں اشک لکھنے چا تھ
دیدہءخوں دیکھ کر
ہر بوند
ہوا کے س ر بر نکل گئی
منصف کے پ س گی
ش ہ کی مجبوریوں میں
وہ جکڑا ہوا تھ
سوچ
پ نیوں کی بےمروتی ک
فتوی ہی لے لیت ہوں
ماں ش ہ کے دستر خوان پر
مدہوش پڑا ہوا تھ
دیکھ ‘ شیخ ک در کھا ہوا ہے
179
سوچ
ش ید یہ ں داد رسی ک
کوئی س م ن ہو ج ئے گ
وہ بچ رہ تو
پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھ
کی کرت کدھر کو ج ت
دل دروازہ کھا
خدا جو میرے قری تھ
بوا
کتنے عجی ہو ت بھی
کی میں ک فی نہیں
جو ہوس کے اسیروں کے پ س ج تے ہو
میرے پ س آؤ
ادھر ادھر نہ ج ؤ
میری آغوش میں
تمہ رے اشکوں کو پن ہ م ے گی
180
ہر بوند
رشک ل ل فردوس بریں ہو گی
اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپک
میں نے دیکھ
ش ہ اور ش ہ والوں کی گردن میں
بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی
181
کس منہ سے
چ بھرتے ہ ت‘ اٹھ نہیں سکتے
ہونٹوں پر فقیہ عصر نے
چپ رکھ دی ہے
کتن عظی تھ وہ شخص
گ یوں میں
رسولوں کے ل ظ ب نٹت رہ
ان بولتے ل ظوں کو‘ ہ سن نہ سکے
آنکھوں سے‘ چن نہ سکے
ہم رے ک نوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں
آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے
ہ ج نتے ہیں‘ وہ سچ تھ
قول ک پک تھ
مرن تو ہے‘ ہمیں ی د نہ رہ
ہ ج نتے ہیں اس نے جو کی
182
ہم رے لیے کی
جی تو ہم رے لیے جی
کتن عجی تھ
زندہ اشوں ک د بھرت رہ
مص و ہوا ہ دیکھتے رہے
نیزے چڑھ ہ دیکھتے رہے
مرا جا راکھ اڑی ہ دیکھتے رہے
اس کے کہے پر دو گ تو چا ہوت
کس منہ سے ا
اس کی راہ دیکھتے ہیں
ہ خ موش تم ش ئی
مظ ومیت ک فقط ڈھونگ رچ تے ہیں
بے ج ن جیون کے دامن میں
غیرت کہ ں جو رن میں اترے
ی پھر
پس ل اس کی مدح ہی کر سکے
183
چ و دنی چ ری ہی سہی
آؤ
اندرون ل دع کریں
ان مول سی مدح کہیں
184
حی ت کے برزخ میں
تاش م نویت کے س لمحے
صدی ں ڈک ر گئیں
چیتھڑوں میں م بوس م نویت ک س ر
اس کن رے کو چھو نہ سک
ت سف کے دو آنسو
ک سہءمحرومی ک مقدر نہ بن سکے
کی ہو پ ت کہ ش کشف
دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی
صبح دھی ن
ن ن ن رس کی نذر ہوئی
ش عر ک کہ
بےحواسی ک ہ نوا ہوا
دفتر رفتہ ش ہ کے گیت گ ت رہ
وسیبی حک ئتیں بےوق ر ہوئیں
185
قرط س فکر پہ نہ چڑھ سکیں
گوی روایت ک جن زہ اٹھ گی
ضمیر بھی چ ندی میں تل گی
مجذو کے خوا میں گرہ پڑی
مکیش کے نغموں سے طب ہ پھسل گی
درویش کے حواس بیدار نقطے
ترقی ک ڈر نگل گی
نہ مشر رہ نہ مغر اپن بن
آخر ک تک یتی جیون
حی ت کے برزخ میں
شن خت کے لیے بھٹکت رہے
186
سورج دوزخی ہو گی تھ
گدھ
خ یج کے بیم روں کی س نسیں گن رہے ہیں
اشوں کو ک ن دفن
غسل کی ضرورت نہیں ہو گی
اگست کو
سورج دوزخی ہو گی تھ
گنگ سے اٹھتے بخ رات
دع ک اٹھتے ہ ت
گا کی مہک
مٹی سے رشتے
ک پوتر رہے ہیں
درگ وتی کی عصمت مرنے کے ب د
اپنوں کے ہ ت لٹ گئی تھی
‘ہ تو
187
حنوط شدہ ممی ں ہیں
رگوں میں لہو نہیں
کیمیکل دوڑت ہے کہ
آکسیجن ج تی نہیں
ج نے میں م ون ہے
ڈوبتی س نسوں کو
مسیح کی ضرورت نہیں
گوشت گدھ کھ ئیں گے
‘ہڈی ں
ف س ورس کی ک نیں ہیں
یہودی ابی کے گ ے کھ ے ہیں
بٹنوں کی سخت ضرورت ہے
188
فیکٹری ک دھواں
اس نے کہ
یہ س کس کے لیے لکھتے ہو
میں نے کہ
تمہ رے لیے
بوا
مگر مجھے ت سے گھن آتی ہے
می ے می ے ل ظوں می ے می ے جذبوں سے
روشنیوں کی ب ت کرو
حسن کی کہو
حسین آنکھوں سے
ٹپکتی ش کی ب ت کرو
ک نچ سے بدنوں سے
ٹپکتے روم ن کی ب ت کرو
بہ روں میں مچ تے شب کی ب ت کرو
189
روٹی م ے گی‘ شہرت م ے گی
بھوک اور افاس
کی رکھ ہے چیٹھڑوں کی دنی میں
سوچت ہوں
شہرت لے لوں
روٹی لے لوں
کئی روز کی بھوک ہے
لب س بھی الجھ الجھ ہے
سسکتے ب کتے جذبوں کو
بےلب سی کی دنی میں رہنے دوں
پھر سوچ کے اف سے
اک شہ ث ق ٹوٹ
زہری ی سوچ ک چہرا
فیکٹری کی چمنی سے
اٹھتے دھویں میں مدغ ہو گی
190
مط ع رہیں
مسز ریح نہ کوثر
با دکھ تحریر کی ج ت ہے
آپ کی خدم ت کی ا یہ ں
ضرورت نہیں رہی
آپ کی بریزئر ک س ئز بڑھ گی ہے
آنکھوں کے گرد ح قے بھی ہیں
ب لوں میں چ ندی آ گئی ہے
رخس ر پچک گئے ہیں
روزن نش ط کی فراخی سے
پرفومنس گھٹ گئی ہے
س بقہ ک رگزاری کے پیش نظر
کمیٹی نے فیص ہ کی ہے
آپ کی بیٹی ظل ہم کو
آپ کی سیٹ پر
191
آپ کے ہی پے سکیل پر
مع مروجہ ااؤنسز
اکتیس مئی ک وزنگ ٹ ئ تک
ت ین ت کی ج سکت ہے
آپ کو ہدایت کی ج تی ہے
ت ریخ مقررہ کے اندر
زیر دستخطی کو مط ع کریں
اپنے واجب ت کی وصولی کے لیے
زیر دستخطی کے
ح ضر ہونے کی ضرورت نہیں
یہ خدمت ا
آفس سپرٹنڈنٹ انج دیت ہے
ف ئ وں کی سی ہی سپیدی ک
وہ ہی تو م لک ہے
مط ع رہیں
ضروری نوت
192
آپ اپنی کنگی اور نیل پ لش
ہم رے میز پر کل کی امید میں
بھول گئی ہیں
یہ چیزیں
جن کی آپ کو اشد ضرورت ہو گی
مس ظل ہم کو
آفس ٹ ئ کے ب د بھیج کر
منگوا سکتی ہیں
کہ ان کی ا ی ں ضرورت نہیں رہی
مط ع رہیں
193
امید ہی تو زندگی ہے
زکرا بولے ج رہی تھی
بولے ج رہی تھی
ش ید آتی صدیوں کے غ مٹ رہی تھی
خو گرجی خو برسی
اس کے گرجنے میں دھواں
برسنے میں مسا دھ ر تھی
رانی توپ کے گرجنے سے
حمل گر ج تے تھے
برسنے سے
بستی ں زمین بوس ہوتی تھیں
اس کے برسنے سے
سکون کے شہر آگ پکڑتے تھے
گرجنے سے حواس
بدحواس ہوتے تھے
194
کس سے گ ہ کرت
جھورا مردود مر چک تھ
تھیا مردود آج بھی
رشوت ڈک رت ہے
وہ چپ تھ
مس سل چپ تھ
منہ میں زب ن رکھت تھ
پھر بھی چپ تھ
چپ میں ش ید اسے سکھ تھ
جو بھی سہی
یہ سوال نوشتہءدیوار بن تھ
وہ چپ تھ تو کیوں چپ تھ
ہر زب ن پر یہ ہی سوال تھ
وہ بزدل تھ
ی صبر میں ب کم ل تھ
کچھ اسے زن مرید کہتے تھے
195
کسی کے خی ل میں
مرد کی ان ک وہ کھا زوال تھ
وہ تو خیر زیر عت تھ ہی
اس کے پچھ ے بھی
کوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے
اس سے کوئی کیوں پوچھت
ہر دوسرے
امریش پوری سے ڈائیاگ
سننے کو م تے تھے
نمرود وقت بھی
ک نوں پر پہرے نہیں رکھ سکت
پہ ے ریڈیو ہی تو تھ
ٹی وی تو کل کی دین ہے
ک ن سنتے تھے
تصور امیج بن ت تھ
آخر چپ تھ تو کیوں چپ تھ
196
اک روز میں نے پوچھ ہی لی
میرا کہ
اس کے قہقہوں میں اڑنے لگ
میں نے سوچ
کہن کچھ تھ
ش ید کہہ کچھ اور گی ہوں
بھول میں
کسی سردار ک لطی ہ کہہ گی ہوں
بھ کڑ ہوں
یہ قول زریں مری زوجہ ک ہے
زوجہ کے کہے کو غ ط کہوں
کہوں تو کس بل پر
اگ ے سے ن سہی اس جہ ن سے ج ؤں گ
مہر بہ ل رہ کہ
دیواروں کو بھی ک ن ہوتے ہیں
مجھے کی پڑی غیروں کی اپنے سر لوں
197
میں نے بھی چپ میں ع فیت ج نی
ہ کیؤں پرائی آگ میں کودیں
مرے لیے خ لہ کی لگ ئی ہی ک فی ہے
خود چل بسی
میں بھی چل بسوں س م ن کر گئی ہے
پھر وہ دف ت چپ ہو گی
مری طرف
بےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگ
چند لمحے خ مشی رہی
ج ہل ج نتے ہو
بولنے میں کتنے اعض خرچ ہوتے ہیں
حیرت ہوئی‘ بھا یہ کی جوا ہوا
غصہ میں بولنے سے
چودہ اعض کشٹ اٹھ تے ہیں
مرا کی ہے
ادھر سے سنت ہوں ادھر سے نک ل دیت ہوں
198
چہرے کے بدلتے رنگوں ک اپن ہی سواد ہوت ہے
ہ ں سٹپٹ نے میں
کھونے کے آث ر ہوتے ہیں
گھورنے بسورنے میں
کہکش نی اطوار ہوتے ہیں
شخص پڑھو کہ حی ت کے
ت پر پوشیدہ اطوار کھ یں
ہ ں غصہ میں
دم کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے
خیر یہ وقت خیر نہیں آئے گ
دم ہوت تو صبر ک جہ ں آب د کرتی
دل ک دورہ بھی ب ید از قی س نہیں
اس امید پر ہی تو جی رہ ہوں
کبھی تو غصہ کے اف سے
خوشی ک چ ند مسکرائے گ
پھر مستی میں آ کر گنگن ئے گ
199
آ گئی بہ ر گ وں ک رنگ اور بھی نکھر گی
پی سی آتم ئیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے
میں پڑھ لکھ سہی
اپنی اوق ت میں ہوں تو مزدور
زوجہ گزیدہ ہوں
بھ ش ف س ے کی میں کی ج نوں
بوا :ج ؤ امید پر زندہ رہو
امید پر میں زندہ ہوں
امید ہی تو زندگی ہے
200
میٹھی گولی
ہ کچھ دوست
ہوٹل میں چ ئے پیتے ہیں
اور اکثر پیتے ہیں
سچی پوچھو تو
چ ئے پر ہی تو جیتے ہیں
زندگی میں ورنہ
چ ئے کے سوا رکھ کی ہے
بھوک ک پرن پی س ک پٹک
ہم ری زیست ک یہ ہی اث ثہ ہے
جسے دیکھو رکھے ہے ہزار گز ک نٹک
امیر وقت
ب ت گریبوں کی کرت ہے
کھیسہ مگر اپن بھرت ہے
ہر بولت