101
پ ؤں کی آہٹ سے ج گ گئی لیکن سونے ک ن ٹک ج ری رکھ ۔
میں نے بھی ڈسٹر کرن من س نہ سمجھ اور چپک رہ ۔
ہ کے احس ن سے رات گزر گئی۔ ٹھیک سے ٹھیک نہ ہوا‘
ہ ں البتہ پہ ے سے قدرے بہتر ضرور تھ ۔ میں نے اس کی
ج ن یوں ہی باوجہ دیکھ لی ۔ چہرے پر بیم ر ہونے کی کی یت
ط ری کر لی۔ میں نے فورا سے پہ ے نگ ہ نیچی کر لی۔ آدھ
گھنٹے ب د چ رپ ئی لگ گئی۔ پوچھ کی ہوا۔ سخت بیم ر ہوں۔ میں
پوچھن چ ہت تھ ابے والی بیم ر ہو ی میرے والی بیم ری ہے۔
چپ رہ ‘ ج نت تھ آج اور آت کل بےمزگی میں گزرے گ ۔ اس ک
کہن تھ کہ میری شوگر چھے سو ستر پر پہنچ گئی ہے۔ بی پی
بھی ہ ئی ہو گی ہے۔ صبح سے مس سل اور متواتر الٹی ں کر رہی
ہوں۔ سر پھٹ رہ ہے۔ ایک دو بیم ری ں اور بھی گنوائیں۔ میں
نے کہ ہ آس نی پیدا کرے گ ۔ کہنے لگی س ہ پر چھوڑے
رکھن ‘ خود سے کچھ نہ کرن ۔ چ ہ کہ کہوں سر دب دیت ہوں پھر
فورا خی ل آی بچو ش تک اسی ک میں رہو گے۔ مجبور قدموں
چ ت ہوا ب زار گی ن ن چنے اور س تھ میں ح ظ م م تقد سائس
اور انڈے بھی لے آی ۔ بےچ ری نے اوکھے سوکھے ہو کر
دونوں ن ن چنے اور ایک انڈا ڈک ر لی ۔ اصوا بہتری آ ج نی
چ ہیے تھی‘ قدرے آ بھی گئی۔ ہ ک شکر ادا کی زب ن کی کوترا
کتری سے بچ گی ہوں۔ ش تک ح ات درست رہے۔ ش کو
ف ئرنگ شروع ہو گئی۔ وجہ یہ تھی کہ ن ن چنے اور انڈے
102
سائس تو لے آئے لیکن منہ میں بڑ بڑ کر رہے تھے‘ ح اں کہ
ایس نہیں تھ ۔ ت ہ دیر تک چل سو
چل ہی رہی اور میں بھول گی کہ بیم ر ہوں۔
103
انگ ی
مہ ج بڑے سکون اور آرا سے دک ن پر بیٹھ ‘ دودھ اوب ل رہ
تھ ‘ س تھ میں پڑوسی دک ن دار سے ب تیں کیے ج رہ تھ اور
دودھ میں کڑچھ بھی م رے ج رہ تھ ۔ اس ک پ لتو با اس کی
نشت کے نیچے‘ پرسکون بیٹھ ہوا تھ ۔ وقت با کسی پریش نی
کے گزر رہ تھ ۔ کوئی نہیں ج نت کہ اگ ے لمحے کیسے ہوں
گے۔
س ج نتے ہیں‘ شیط ن انس نی سکون ک دشمن ہے۔ انس ن کی
پرسکون زندگی‘ اسے ہمیشہ سے کھٹکتی آئی ہے۔ اس نے ایک
انگ ی‘ جس پر ایک ی دو بوند ہی دودھ چڑھ ہو گ ‘ س منے
دیوار پر لگ دی۔ دودھ پر مکھی ں ع ش ہوتی ہیں‘ جھٹ سے
مکھی ں دیوار پر لگے دودھ پر آ گئیں۔ جہ ں مکھی ں ہوں‘ وہ ں
چھپک ی ک آن غیرفطری نہیں۔ جھٹ سے ایک چھوڑ‘ کئی
چھپک ی ں آ گئیں۔ با چھپک یوں کو برداشت نہیں کرت وہ
چھپک یوں پر جھپٹ ‘ ات دیکھیے اسی لمحے‘ ایک نوا
ص ح اپنے ٹومی سمیت ادھر سے گزرے۔ ٹومی ب ے کو
کیسے برداشت کرت ۔ وہ ب ے پر بڑی تیزی سے جھپٹ ۔ با دودھ
میں گر گی ۔
104
ردعمل ہون فطری سی ب ت تھی۔ مہ جے نے پوری ط قت سے
ٹومی کے سر پر کڑچھ م را اور وہ وہیں ڈھیر ہو گی ۔ نوا
ص ح ٹومی کی بےحرمتی اور اس پر ہونے واا یہ تشدد
کیسے دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے چھے کی چھے مہ جے کے
سینے میں ات ر دیں۔
مہ ج اتنی بڑی فیم ی ک واحد ک یل تھ چل بس ۔ پوری فیم ی
اغر و اپ ہج ہو گئی۔ وہ کی کر سکتے تھے بس قسمت کو ہی
کوس سکتے تھے۔ نوا ص ح ک کی بگڑن تھ ۔ یہ لوگوں ک
ک سنوارتے ہیں لوگ ان ک گ پ کرنے اور ظ سہنے کے لیے
جن لیتے ہیں۔ ان ک گ پ ہی اقتداری طور رہ ہے اور ش ئد رہے
گ۔
ان پر ی ان کے کیے پر انگ ی اٹھ نے والے زہر پیتے رہیں گے
سولی چڑھتے رہیں گے۔ اقتدار ک یہ ہی اصولی فیص ہ رہ ہے۔
ح ل کی مستقبل قری میں بھی ان سے مکتی م تی نظر نہیں آتی۔
قصوروار کون تھ ص ف ظ ہر ہے مہ ج ۔۔ نوا کبھی غ طی پر
نہیں ی شیط ن کوسنوں کی زد میں رہے گ ۔ کوئی خود کو
سدھ رنے کی جس رت نہیں کرے گ ۔ جی ہ ں‘ یہ ہی سچ اور یہ
ہی حقیقت ہے۔
105
آخری تبدی ی کوئی نہیں
:نوٹ
ہ چھوٹے چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے مخدومی و مرشدی
ب ب جی سید غا حضور حسنی اس طرح کی کہ نی ں سن ی کرتے
تھے۔ وہ کہ نی ں آج بھی لوح دل پر نقش ہیں۔ دن کبھی ایک
سے نہیں رہتے۔ ہر لمحہ تبدی ی سے گزرت ہے اور کل من عیھ
ف ن کی طرف بڑھ ج ت ہے۔
بھ ے وقتوں کی ب ت ہے۔ دو دوست ہوا کرتے تھے۔ ایک
سوداگر ج کہ دوسرا کوئی ک نہیں کرت تھ ۔ ایک دن سوداگر
دوست نے کہ ف ر رہنے سے وقت نہیں گزرت ۔ ضرورتیں تو
منہ پھ ڑے رہتی ہیں۔ آؤ تمہیں اوبےنگر کی فوج میں بھرتی کرا
دیت ہوں۔ اس کی ری ست اوبے نگر میں وق یت تھی لہذا ج د ہی
اس ک دوست فوج میں بھرتی ہو گی ۔ دونوں کو خوشی ہوئی۔
ب ت بھی خوشی والی تھی کہ روٹی ک س س ہ چل نکا۔
دو چ ر س ل کے ب د اس ک ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے سوچ
کیوں نہ دوست ہی سے مل لوں۔ چھ ؤنی گی ۔ اس نے پوچھ
سپ ہی تیغ را کدھر ہوت ہے۔ پت چا اچھی ک رگزاری کی وجہ
106
سے وہ حوالدار ہو گی ہے۔ اسے خوشی ہوئی کہ اس ک دوست
ترقی کر گی ہے۔ دونوں کی ماق ت ہوئی۔ سوداگر دوست نے
:اپنی خوشی ک اظہ ر کی تو جواب تیغ را نے کہ
ی ر دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔
اسے دوست کے جوا پر حیرانی ہوئی۔ کچھ نہ کہ ‘ چپ رہ ۔
وقت اپنی مرضی‘ مزاج اور روٹین کی ڈگر پر چ ت رہ ۔ شخص
اوروں سے بےنی ز اپنے اپنے طور سے روٹی ٹکر تاشنے میں
مصروف تھ ۔ سوداگر بھی سوداگری میں مصروف تھ ۔ اس ک
روٹین میں اوبےنگر ج ن ہوا۔ اس نے اپنے دوست حوالدار تیغ
را ک چھ ؤنی میں ج کر پوچھ ۔ وہ ں سے پت چا تیغ را
صوبےدار ہوگی ہے۔ اس خبر نے اسے خوشی سے نہ ل کر دی ۔
ماق ت پر اس نے مب رک ب د دی۔ تیغ را نے بڑی سنجیدگی
سے کہ ۔
ی ر دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔
تیغ را موج اور ٹھ ٹھ کی گزار رہ تھ ۔ حیرانی تو ہون ہی تھی
لیکن وہ چپ رہ ۔ جوا میں کی کہت ۔ س لوں میں تبدی ی تو آئی
تھی۔ تیغ را غ ط نہیں کہہ رہ تھ ۔
کچھ س لوں کے ب د سوداگر ک اوبے نگر سے گزر ہوا۔ وہ اپنے
دوست تیغ را سے م نے چا گی ۔ وہ ں سے م و پڑا کہ وہ
107
ب دش ہ ک منظور نظر ہو گی ہے اور وزیر مقرر کر دی گی ہے۔
اس نے سوچ وزیر ہو گی تو کی ہوا میرا تو دوست ہے۔ ب مشکل
ماق ت ہوئی۔ سوداگر نے اپنی خوشی ک اظہ ر کی تو جواب تیغ
را نے وہ ہی پران ڈائیاگ دوہرا۔ اس ک کہن غ ط نہ تھ ‘ لہذا
اس نے ہ ں میں ہ ں مائی اور تھوڑا وقت گزار کر رخصت ہو
گی ۔
ج قسمت ک ست رہ زحل سے نکل کر مشتری میں آ ج ئے
انس ن کچھ سے کچھ ہو ج ت ۔ اوبےنگر کے ب دش ہ کی موت کے
ب د ب دش ہی تیغ را کے ہ تھ میں آئی۔ اصل ب ت یہ تھی کہ تیغ
را کی ع دات میں تبدی ی نہ آئی۔ وہ اپنے سوداگر دوست سے
اسی طرح پیش آی ۔ پہ ے کی طرح کھل ڈھل کر گپ شپ لگ ئی۔
اس ک کہن وہ ہی رہ کہ
دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔
سوداگر حیران تھ کہ تیغ را ترقی کی آخری سیڑھی کراس کر
گی ا بھی اسی ب ت پر ہے۔ اس سے آگے تو زندگی میں کچھ
بھی نہیں۔ وہ اسے ڈائیاگ سمجھ کر چپ رہ ۔
اگ ی ب ر ج سوداگر اوبے نگر آی تو اسے م و پڑا کہ ب دش ہ
تیغ را انتق ل کر گی ہے۔ شہر کے ب ہر کھ ے میدان میں
چ ردیواری کے اندر اس کی ی دگ ر بن ئی گئی تھی۔ مخت ف طرح
کے پودے لگ ئے گئے تھے۔ اسے خو صورت بن نے میں
108
کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی۔ لوح ی دگ ر پر تحریر کی گی تھ
ع دل ب دش ہ مہ راج تیغ را
دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے
سوداگر حیران تھ ا آخری تبدی ی بھا کی آئے گی۔ موت کے
ب د بھا کی تبدی ی آ سکتی ہے۔
سوداگر ک اوبے نگر میں وہ آخری پھیرا تھ ۔ وہ تیغ را کی
آخری ی گ ر کی طرف بڑھ رہ تھ ۔ م ضی ک ہر لمحہ ش ور کے
دریچوں سے جھ نک رہ تھ ۔ اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔
اس نے سوچ تیغ را درست کہت تھ کہ دن وہ نہیں رہے دن یہ
بھی نہیں رہیں گے۔ وہ سوچ رہ تھ ا بھا اور کی تبدی ی آئے
گی۔ ج وہ ں پہنچ تو دیکھ وہ ں دری بہہ رہ تھ ۔ اس کے منہ
‘سے بےاختی ر نکل گی
دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔
109
کھڑ پینچ دی جئے ہو۔
ہی و مسٹر!
یو ار سویٹ اینڈ لولی ہو غور منٹ کمپ ینٹ اس دیٹ یو
پھڑک ئیٹڈ ہر برسرع اسٹ ڈے۔
وائی۔
نو حجور شی از جھوٹ م رنگ۔ آئی اون ی ون ویری س و مک
م ریڈ
او م ئی گ ڈ‘ یو بےغیرت مین۔ وائی یو مک م ریڈ ہر ان دی
ب زار۔ یو نو پیپل ور ویکھنگ اینڈ افنگ ایٹ یو
آئی ای ن ٹ بےغیرت حجور شی از بےغیرت بی ک ز شی م رڈ
می سو مےنی لیترز ویری ٹھوک ٹھوک کر پیوپل ور افنگ ایٹ
ہر ری ایکشن
اٹ از یو ار کیس وچ مے بی ڈسکسڈ لیٹر اون۔ فسٹ ٹل اس
وائی یو مک م رڈ
حجور اٹ از آ شی فل سٹوری اینڈ کن ن ٹ ن ریٹ ان دی پنچ یت
ڈونٹ وری یو گ ٹی کمی کمین
حجور آئی ن ٹ کمی کمین۔ م ئی ک سٹ از انص ری
110
او یس یو مین جوای ،آئی نو یو ار جوای ۔ جوای ک سٹ از ان
فیکٹ کمی کمین۔ وائل یو ار ہو گورمنٹ از قریشی گوی شی از
ن ٹ کمی کمین
یس حجور شی از مراسی۔
ڈونٹ ب رک‘ ان فیکٹ دس ورڈ از مراثی۔
از آئی ای رائٹ او یو سویٹ اینٍڈ جنٹل لیڈی
حجور یو ار ابس وٹ ی رائٹ
او مین ن ؤ س تھنگ ہری ی پہونکو
حجور شی ہیز ن ٹ ذرا بھورا شر
وٹ ہپنڈ ٹل اس
حجور شی واز مم ن ئزنگ ان دی ب زار
او م ئی گ رڈ واٹس آمیزنگ سیچویشن ول بی گوئنگ دیئر
او جنٹل اینڈ سویٹ لیڈی شو اس یو ار فن
شی سٹ رٹیڈ ہر فن ود آؤٹ اینی ہیزیٹیشن۔ ایوری ون انجوائڈ اٹ
اے اٹ
او مسٹر جواہے طا ہر ایٹ دی سپ ٹ اینڈ یو دفع دف ن فرو
ہیئر۔ شی ہیز اے ونڈرفل کوالٹی۔ ان فیوچر شی ول سٹے ہیئر۔
111
وین مسٹر جوای ڈو نٹھنگ ون مین گٹ اپ اینڈ رکھڈ پنج ست
لتر ایٹ ہیز بوٹ ۔ ہی گیو طا دایٹ سویٹ مم نئیزر اینڈ دوڑ
لگ ئیڈ۔
اٹ واز اے ن ئس فیص ہ۔ پیوپل واز ریزنگ س وگن
کھڑ پینچ دی جئے ہو۔
ن ؤ آ ڈئیز شی از سرونگ ایٹ کھڑ پینچز ڈیرہ اینڈ ارننگ اچھی
خ صی ام ؤنٹ ود ن ئس فی ۔ شی ہیزن ٹ کمپ ینٹ فرو اینی س ئڈ۔
پیوپل ار سیٹس ئیڈ اینڈ ہیپی فرو دیئر چودھری س ۔
112
سراپے کی دنی
اس کے حسن کی ت ریف کرنے بیٹھوں تو ش ید‘ بہت س ری
تشبیہ ت کے است م ل کے ب وجود‘ ب ت نہ بن پ ئے گی۔ اسے
زمین پر ہ ک تخ ی کردہ م سٹر پیس کہن ‘ کسی طرح غ ط نہ
ہو گ ۔ لب س کے اندر بھی ش ید یہ ہی صورت رہی ہو گی۔ ہ
لب س کے ب ہر پر مر مٹتے ہیں‘ ج لب س کے اندر جھ نکتے
ہیں تو سخت م یوسی ہوتی ہے۔ اسی طرح ج گوشت پوست اور
ہڈیوں کے پیچھے جھ نکنے ک موقع م ت ہے‘ تو سر پر گھڑوں
پ نی پڑ ج ت ہے۔ ج تک یہ ج ننے ک موقع م ت ہے‘ اس وقت
تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گوی
نہ ج ئے م ندن نہ پ ئے رفتن
کی کی یت ط ری ہو ج تی ہے۔ وقت گزرنے کے ب د‘ پھسی کو
پھڑکن کیس
ہی ب قی رہ ج ت ہے۔
اس کے پ س میرا کسی ک کے س س ے میں ج ن ہوا تھ ۔ اسے
دیکھ کر‘ مجھے اصل مدع ہی ی د نہ رہ ۔ وہ تو اچھ ہوا کہ میں
کچھ دیر ب د‘ اپنے آپے میں آ گی ۔ میں قری چا گی ‘ سا بای ۔
اس نے با اوپر دیکھے‘ سا ک تقریب س جوا دی ۔ میں نے
113
اسے ہی غنیمت سمجھ اور بڑے مائ اور پری بھرے لہجے
میں عرض کی ‘ میڈ میں ایک سم جی م م ے پر ریسرچ کر رہ
ہوں‘ اس ذیل میں چند ایک سواات کے جوا درک ر ہیں۔ اس
نے سر اٹھ ی اور بڑی بے رخی سے جوا دی :میں بہت
مصروف ہوں جو پوچھن ہے ج دی سے پوچھ لو۔
جی میڈ ‘ آپ ک ن
ت نیہ
آپ مق می ہیں ی ب ہر سے تشریف ائی ہیں
کوئی ڈھنگ ک اور مت سوال پوچھو
بہتر میڈ ‘ پڑھ ئی سے وابستہ ہیں
ای فل ف رمیسی کر رہی ہوں
اس کے چہرے کی اکت ہٹ دیکھ کر میں نے آخری سوال کی
ای فل ف رمیسی کرنے کے ب د کی جذبہ اور ارادہ رکھتی ہیں۔
اس کے ب د کی کرن ہے‘ ٹیبل پر بیٹھی ون لیگ روزانہ ک
کم ؤں گی۔
میرا خی ل تھ کہ کہے گی‘ انس ن کی بےلوث خدمت کروں گی۔
خو صورت لب س اور خو صورت سراپے میں چھپ پیٹو
شیط ن‘ میرے سوچ کی دھجی ں بکھر رہ تھ ۔ میرے سوچ ک
114
شیش محل کرچی کرچی ہو کر گندگی کی دلدل میں دھنس چک
تھ ۔ میں نے سوچ ‘ یہ کیس انس ن س پتا ہے جو من میں اپنی
ذات سے ہٹ کر‘ کچھ نہیں رکھت ۔ آگہی ک حصول محض پیٹ
کے لیے ہو گی ہے۔
پھر میں نے سوچ ‘ اتن کم کر آخر کی کر لے گی۔ کوٹھی بنگ ہ
اور بینک بی نس بن لے گی۔ اس سے کی فر پڑے گ ۔ قبر میں
تو کچھ نہیں ج سکے گ ۔ مر ج نے کے ب د‘ پی ر کرنے والوں
کو بھی ج دی ں ہوں گی۔ اش کے لیے کون بےک ر میں وقت
ض ئع کرت پھرے۔ اس کوٹھی بنگ ے اور بینک بی نس کی تقسی
پر‘ سگے بہن بھ ئیوں کے کئی یدھ ہوں گے۔ کورٹ کچری
چڑھیں گے۔ کسی کو کبھی اس کی قبر پر بھولے سے بھی‘ چ ر
پھول چڑھ نے کی توفی نہ ہو گی۔ مرنے والے نے ڈگری لے
لی‘ پیسے بھی کم لیے‘ لیکن آگہی اس ک مقدر نہ بن سکی۔
حسین گوشت پوست کے پیچھے اتنی پوشیدہ غاظت۔ توبہ بھی
میری روح میں‘ توبہ کرنے لگی۔ جھوٹ نہیں بولوں گ ‘ میں تو
اس کے سراپے کی دنی ک اسیر ہو کر‘ اسے جیون س تھی
بن نے کی سوچ بیٹھ تھ ۔ اگر ہ کی عن یت ش مل نہ ہوتی‘ میں
تو م را گی تھ ۔
115
میں ہی ق تل ہوں
ک م کبو‘ تیز قدموں سے کھیتر کی طرف بڑھ رہ تھ ۔ آج کھیتر
پر ک ک فی تھ ۔ دوسرا چودھری کے موڈ ک بھی کچھ پت نہیں
چ ت تھ ۔ اس کے بگڑنے کے لیے‘ کسی وجہ ک ہون ضروری نہ
تھ ۔ چودھرین سے اپنے لچھنوں کی وجہ سے‘ چھتر کھ ت رہت
تھ ۔ گھر ک غصہ ب ہر آ کر ک موں پر نک لت ۔ ک ک ج کوئی کرت
نہیں تھ ‘ گھر سے یوں سج سنور کر نک ت جیسے جنج چڑھنے
ج رہ ہو۔ س را دن ڈیرہ پر بیٹھ ‘ آئے گئے کے س تھ گپیں ہ نکت
ی پنڈ کی سوہنی کڑیوں کے ن ز و ادا کے قصے سنت ۔ کوئی
ہتھے چڑھ ج تی تو م فی ک دروازہ بند کر دیت ۔ ن ک می کی
صورت رہتی‘ تو س را غصہ ک موں پر نک لت ۔ س چپ رہتے‘ ہر
کسی کو ج ن اور چمڑی بڑی عزیز ہوتی ہے۔
کھیتر پر آتے ج تے اس طرح کی سوچیں اسے گھیرے رکھتیں،
غ طی ی ظ ‘ زی دتی چودھری کرت ڈال گری ک موں پر دی
ج تی۔ وہ سوچ رہ تھ ‘ یہ زندگی بھی کیسی ہے گھر ج ؤ‘ کوئی
ن کوئی مس ہ راہ روکے کھڑا ہوت ۔ ب ہر آؤ تو ک مے پر وہ کچھ
بیت ج ت جو اس کے خوا و خی ل میں بھی نہ ہوت ۔
ج وہ کھیتر پہنچ ‘ وہ ں عج کھیل رچ ہوا تھ ۔ چودھری کے
ہ تھ میں خون آلودہ چھرا تھ اور س منے ک م ابی‘ خون میں لت
116
پت پڑا تھ ۔ وہ یہ منظر دیکھ کر گھبرا گی ۔ چودھری سخت
غصے میں تھ ۔ اس نے چھرا ک مے کبو کی طرف بڑھ تے ہوئے
کہ :ذرا اسے پکڑن ‘ کبو نے پکڑ لی اور خود ک مے ابی کے
پ س پہنچ گی اور افسردہ و پریش ن ہو کر اس کے پ س بیٹھ گی ۔
دریں اثن پولیس پہنچ گئی اور کبو کو پکڑ لی ۔
چودھری غصے سے اٹھ اور پ ن س ت کبو کو رکھ دیں۔ مجھے
پت نہ تھ کہ ت اتنے ظ ل اور کمینے ہو۔ پولیس والوں نے کہ
چودھری ت چھوڑو‘ تھ نے ج کر ہ اس کی طبی ت ص ف کر
دیں گے۔ وہ ں موقع پر اور بھی دو تین ک مے موجود تھے‘
کسی کے منہ سے سچ نہ پھوٹ ۔ اس اچ نک ن زلی آفت نے اس
کے ہوش ہی گ کر دیے۔
تھ نے ج کر اس کی خو لترول کی گئی۔ وہ کہے ج رہ تھ ‘
میں نے کچھ نہیں کی ۔ اس کی ک کوئی سن رہ تھ ۔
ایک شپ ئی بوا :تمہیں ہ نے کچھ نہ کرنے سے روک تھ ۔
ایک اور نے ن رہ لگ ؤ :کچھ کر لیتے ن
ایک نے کہ :ا یہ ں سے ج کر کچھ کر لین
پہ ے واا بوا :یہ ں سے ج ئے تو ہی کچھ کرئے گ
ایک جو ذرا پرے کھڑا تھ کہنے لگ :تو پھر یہ قتل کس نے کی
ہے۔ خون سے بھرا چھرا تو تمہ رے ہ تھ میں تھ ۔
117
حجور قتل کرن تو دور کی ب ت‘ میں تو ایس قیمتی چھرا خرید
ہی نہیں سکت ۔ چھرا تو چودھری نے مجھے پکڑای تھ ۔
الزا تراشی کرتے ہو۔ اس کے ب د اتوں مکوں اور تھپڑوں کی
برس ت ہو گئی۔
تھ نہ تو تھ نہ‘ کورٹ کچہری بھی اس کی سن نہیں رہی تھی۔
لگت تھ ‘ کہ کورٹ کچہری بھی چودھری ہی کی تھی۔ ہر کوئی
اسے دشن کر رہ تھ ۔ اس کی تو کوئی سن ہی نہیں رہ تھ ۔
م جرے کو آنکھوں سے دیکھنے والے‘ اس کے ہی گری
س تھی تھے۔ وہ بھی دیکھ اور ج ن کر‘ کبو ہی کو مجر ٹھہرا
رہے تھے۔ اس کے ح میں‘ ایک بھی نہ تھ ۔ ہر کوئی اسے
ق تل کہے ج رہ تھ ۔ اس نے سوچ ‘ ج اتنے لوگ کہہ رہے
ہیں کہ میں ق تل ہوں تو یقین میں ہی ق تل ہوں۔ پھر اس نے کہن
شوع کر دی :ہ ں ہ ں میں ہی ق تل ہوں۔۔۔۔ابی کو میں نے ہی قتل
کی تھ ۔
118
خی لی پاؤ
ہ بخشے پہ خ د بڑے ہنس مکھ اور جی دار قس کے بندے
تھے۔ خوش ح لی سے تہی دست ہوتے ہوئے بھی‘ انہیں کبھی
کسی نے رنج و مال کی ح لت میں نہ دیکھ ۔ منہ میں خوش بول
رکھتے تھے۔ کبھی کسی کو م و نہ ہو سک کہ اندر سے کتنے
دکھی ہیں۔ ان کی بیگ فیج ں‘ اتنی ہی سڑیل اور بدمزاج تھی۔
کردار کی بھی ص ف ستھری نہ تھی۔ مزے کی ب ت یہ کہ گھر
سے کبھی کسی نے دونوں کی اونچی آواز تک نہ سنی تھی۔ یہ
تو محض خوش فہمی ہو گی کہ ان کے درمی ن ت خی نہ ہوتی ہو
گی۔
ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے اڈ پی ر کر رہے تھے۔ منہ سے بھی
بہت کچھ کہے ج رہے تھے۔ کہہ رہے تھے‘ میں اپنے بیٹے
کو ڈاکٹر بن ؤں گ ‘ پھر سونے کے سہرے سج کر‘ ہ تھی پر بٹھ
کر‘ پیچھے گ ڑیوں کی قط ر ہو گی‘ بہو بی نے ج ؤں گ ۔ اس کی
ش دی پر بٹیروں کے گوشت کی دیگیں چڑھیں گی۔
س تھ میں بیسیوں بکرے زبح کر ڈالے۔ میٹھے میں بھی بہت
س ری چیزیں دستر خوان پر سج دیں۔
میں کچھ دیر تو ان کی آسم ن بوس ب تیں سنت رہ ۔ پھر مجھ
سے چپ نہ رہ گی ‘ میں نے پوچھ ہی لی ‘ پہ جی یہ آپ کی کہہ
119
رہے ہیں۔ یہ س کچھ کیسے ہو سکے گ ۔ میری طرف انہوں
نے ہنس کر دیکھ اور کہ ‘ ج خی لی پاؤ پک ی ج رہ ہو تو
راشن رسد کی کیوں کمی رکھی ج ئے۔ یہ کہہ کر ان کی آنکھیں
لبریز ہو گیئں‘ ہ ں منہ سے کچھ نہ بولے۔
میں نے سوچ ‘ کہہ تو ٹھیک رہے ہیں۔ ہم رے لیڈر ص حب ن
ووٹ کی حصولی کے لیے بڑے خی لی پاؤ پک تے ہیں۔ راشن
رسد کی اس میں کمی نہیں چھوڑتے۔ ایسے ایسے نقشے
کھنچتے ہیں‘ کہ شداد کی ار بھی کوسوں کے ف ص ے پر چ ی
ج تی ہے۔ امن و سکون کی وہ فض ‘ خی لوں اور خوابوں کو
سکھ چین سے نوازتی ہے۔ عم ی طور پر بھوک‘ دکھ‘ درد اور
مصیبت ان کے کھیسے لگی ہے۔ ہ ں البتہ یہ رشک ار دنی ‘ ان
لیڈروں کی دنی میں ضرور بسی چ ی آتی ہے۔ گم شتے انہیں
س اچھ ک سندیسہ سن تے آئے ہیں۔
اگر عورت چ ہے تو ص ر کو بھی‘ سو کے مرتبے پر ف ئز کر
سکتی ہے۔ اگر الٹے پ ؤں چ نے لگے تو سو کو ص ر بھی نہیں
رہنے دیتی۔ دوسرا گری صرف خوا ہی دیکھ سکت ہے‘ اس
سے آگے اس کی اوق ت و بس ت ہی نہیں ہوتی۔ فیج ں کو تو اہل
اخگر سے‘ موج مستی سے ہی فرصت نہ تھی‘ شوہر اور بچوں
پر کی توجہ دیتی۔ وہ م کی لیڈر ص حب ن کے قدموں پر تھی۔
120
ایک روز پت چا‘ اس نے پہ خ د سے طا لے لی ہے اور
کسی کے س تھ چ ی گئی ہے۔ پہ خ د اکیا ہی زندگی کی گ ڑی
چات رہ ۔ ایک روز شرا کے نشہ میں دھت‘ ایک سیٹھ ص ح
کی گ ڑی کے نیچے آ کر‘ ہ کو پی را ہو گی ۔ بچے در بہ در ہو
گئے۔ جس بچے کو وہ ڈاکٹر بن ن چ ہت تھ ‘ منڈی میں پ ے داری
کرنے لگ ۔ ب د میں اری اڈے ہ کری کرنے لگ ۔ اس کی ایک
مزدور کی بیٹی سے ش دی ہو گئی۔ ہ نے اسے چ ند س بیٹ
عط کی ۔ بےشک ب پ کی طرح بڑا محنتی ہے اور آج کل ب پ کے
سے خی لی پاؤ پک ت ہے۔ اس کی بیوی سگھڑ ہے‘ ع بی کی
وف دار بھی ہے۔ کچھ کہ نہیں ج سکت کہ اس کے خی لی پاؤ
کسی حد تک سہی‘ منزل پ ہی لیں۔
121
ت ی اور روٹی
وہ ک پڑھ لکھ ک می ہنرمند تھ ۔ گزارے سے بڑھ کر کم لیت
تھ لیکن اپنی ایک الگ سے فکر رکھت تھ ۔ ہنرمندوں کی
بدح لی اسے خون کے آنسو رواتی۔ کی کر سکت تھ ۔ وہ کی ‘
م مات روٹی ٹکر میں بڑے بڑے کھنی خ ن مجبور و بےبس
ہو گیے تھے۔ دفتر ش ہی ہو کہ انتظ میہ‘ اقتداری طبقے کی
گم شتہ چ ی آتی تھی۔ اسی طرح اقتداری طبقہ اس کے بغیر زیرو
میٹر تھ ۔
وہ دیر تک سوچت رہ ‘ آخر ہنرمند طبقے کی کس طرح مدد
کرے۔ پھر اسے ایک خی ل سوجھ ۔ خوشی سے اس ک چہرا
دمک اٹھ اور اس نے ت ی ایسے مشکل گزار رستے پر چ نے
ک فیص ہ کر لی ۔ کت ‘ ک پی اور ق کی خریدداری کے لیے اس
کے پ س پیسے تھے۔ ت یمی م مات میں مشکل پیش آ ج نے
کی صورت میں م سٹر نور دین سے رابطہ ممکن تھ ۔
صبح اٹھتے ہی‘ وہ س سے پہ ے کت بوں کی دک ن پر گی ۔ پ نچ
پ س تھ ‘ چٹھی کی کت بیں‘ ایک بڑا رجسٹر اور ق خرید کی ۔ اس
نے یہ غور ہی نہ کی کہ پڑھے لکھے ب ش ور طبقے‘ روز اول
سے‘ ش ور سے ع ری ب اختی ر طبقے کی چھتر چھ ؤں میں
زندگی کرتے آئے ہیں۔ ہنرمندوں کو‘ مکہ بردار اپنے محل اور
124
بوسیدہ اش
شب مرزا ایمرجنسی وارڈ میں پڑا‘ زندگی کی آخری گھڑی ں گن
رہ تھ ۔ ڈاکٹر اور نرسیں‘ اس کی زندگی بچ نے کی کوشش کر
رہے تھے۔ اس پر کھل گی تھ کہ ا کہ نی‘ اپنے انج کو پہنچ
چکی ہے۔ دوا دارو دوب رہ سے‘ اسے زندگی کی ش ہراہ پر ا
کر‘ کھڑا نہیں کرسکتے۔ بچ بھی گی تو وہ پہ ے سی توان ئی‘
میسر نہ آ سکے گی۔ وہ زندگی بھر کسی ک سہ را نہیں بن ‘ اس
ک کوئی کیوں سہ را بنے گ ۔ ہر کسی ک قول و ف ل‘ محض
دکھ وے اور اسے خوش کرکے‘ کچھ ح صل کرنے کے لیے ہو
گ۔
زندگی ک ہر بیت لمحہ‘ اس کی آنکھوں کے س منے گھو گھو
گی ۔ ابھی وہ اتن بڑا نہیں ہوا تھ کہ اسے لذت ک احس س ہو گی ۔
ہوا یوں کہ ان کے گھر اس کی خ لہ اور اس کی بیٹی م نے ی
کسی ک سے آئیں۔ خ لہ نے اسے گ ے لگ ی اور اس کی بائیں
لیں۔ اس کی خ لہ زاد‘ جو عمر میں کوئی اس سے زی دہ بڑی نہ
تھی‘ بھی اسے گ ے م ی۔ خ لہ کے گ ے م نے میں کوئی مزا نہ
تھ لیکن خ لہ زاد کے م نے سے‘ اس کے بدن میں عج سی
لذت دوڑ گئی۔ وہ اسے ب ر ب ر م ن چ ہت تھ ۔ اس کے رونگٹے
میں ان ج نی سی ہ چل مچ گئی۔ کئی ب ر کھڑا بھی ہوا۔ ش ید اس
125
لڑکی کی است دہ میں بھی یہ ہی کی یت رہی ہو گی۔
اس کی ام ں اور خ لہ ب توں میں جھٹ گئیں۔ سسرالی خ ندانوں
کی خ می ں موضوع گ تگو تھیں۔ وہ تو اپنے مج زی خداؤں کو
بھی لت ڑے چ ی ج رہی تھیں۔ وہ اور اس کی خ لہ زاد‘ اپنی
م ؤں کے ب ہمی مذاکرات سے بےنی ز‘ روم ن کی دنی آب د کیے
ہوئے تھے۔ یہ س س ہ اس وقت تک چ ت رہ ‘ ج تک اس کی
خ لہ نے اپنی بیٹی کو آواز نہ دے دی۔
لذت کے اس احس س نے‘ اسے متحرک کر دی ۔ ت یمی م مات
طے کرنے کے لیے‘ اس نے ہر ج ئز ن ج ئز حربہ اختی ر کی ۔ یہ
ہی طور اس نے اچھے روزگ ر کے لیے اپن ی ۔ اچھی رہ ئش اور
اس کے لوازم ت کے لیے ج ئز کو مستقل طور پر‘ زندگی سے
خ رج ہی کر دی ۔ دنی کی کون سی ایسی آس ئش ہو گی‘ جو اسے
میسر نہ آئی۔ کوٹھی‘ ک ر‘ بنگ ہ‘ بینک بی س‘ نوکر چ کر گوی
س کچھ اس کے کھیسے لگ چک تھ ۔ ایسے ح ات میں‘ بڑے
گھر کی بیٹی بھی رون افروز ہو گئی۔ وہ ہی کی ‘ حسین ؤں ک
ایک ہجو اس کے گرد رہت ۔ اس ک قر ‘ بڑے حسن اور ن ز و
ادا والیوں کو ہی نصی ہوت ۔
رونگٹ ذرا ک زور پڑت تو دواؤں ک انب ر لگ ج ت ۔ اٹھنے
بیٹھنے‘ آنے ج نے‘ کھ نے پینے‘ سونے ج گنے غرض ہر نوع
کی لذت اس کے قد لیتی رہی۔ آخر ک تک‘ م دہ اپ سٹ رہنے
126
لگ ۔ رونگٹ بھی ڈھیٹ س ہو گی ۔ ب ہر تو ب ہر‘ اس ذیل میں گھر
پر بھی ذلت اٹھ ن پڑتی اور وہ وہ ب تیں سنت ‘ جن ک وہ کبھی
سوچ بھی نہیں سکت تھ ۔ م ں کی دیکھ دیکھی‘ بچے بھی اس
کی پرواہ چھوڑ گیے۔ ا وہ ب اختی ر افسر نہیں تھ جو اردگرد
چمچے کڑچھے ہوتے۔ ب ہر نک ت تو ن انص فی برداشت کرنے
والوں کی غصی ی نظریں کھ نے کو دوڑتیں گھر آت تو ن دیہ پ گل
کتی کی طرح‘ ک ٹنے کو آتی۔ لذت نے آزار ک بھیس اختی ر کر لی
تھ ۔
ایک دو دن نہیں‘ پ نچ سے زی دہ عرصہ‘ اس نے ذلت و عذا
میں گزارا۔ رونگٹے کی بےوف ئی اس ح لت تک لے آئی تھی۔
ہسپت ل بھی اسے شر کوشرمی ای گی تھ دوسرا س را دن اس
عذا کو کون جھی ت ۔ یہ ں س بقہ سرک ری افسر ہونے کی وجہ
سے‘ کسی حد تک سہی‘ خدمت میسر آ رہی تھی۔ وہ آنکھیں بند
کیے یہ ہی سوچے ج رہ تھ کہ لذت کے لمحے آخر کیوں خت
ہو ج تے ہیں۔ آخر س کچھ برقرار کیوں نہیں رہت ۔ پھر اس نے
سوچ کہ اگر زندگی کی لذت کو استحق نہیں تو زندگی کی اذیت
کو بھی بق نہیں ہو سکتی‘ یہ بھی خت ہو ج ئے گی۔ سوچوں
کے گردا میں پھنسی اذیت آمیز زندگی نے‘ آخری ہچکی لی
اور پھر وہ ں ایک بوسیدہ اش کے سوا کچھ ب قی نہ رہ ۔
127
وب ل دیکھیے
الے دینو سے‘ اکثر چ ئے کے کھوکھے پر ماق ت ہوتی رہتی
تھی۔ اس کے محنتی اور مشقتی ہونے میں‘ کوئی شک نہیں۔
س را دن ریڑھی پر سبزی بیچت اور رات کو ریڑھی گھر ڈک کر‘
یہ ں چ ر ی ری میں آ بیٹھت ۔ ہ س مل کر گپ شپ کرتے‘ ہنسی
مذا بھی خو چ ت ‘ دن بھر کی ب تیں ہوتیں‘ سی سی موضوع ت
بھی گ تگو میں آ ج تے‘ ذاتی م مات پر مش ورت ہوتی۔
شقے کو بیوی کی بدس وکی کے سوا‘ کچھ نہ آت تھ ۔ غری تو
س رے ہی تھے‘ لیکن لبھے پر غربت کچھ زی دہ ہی ن زل ہو گئی
تھی۔ ط فی نے چوں کہ داڑھی رکھی ہوئی تھی‘ اس لیے ہ س
اسے مولوی کہہ کر پک رتے‘ مس م ن جرنی وں کے کچھ ت ریخی
اور کچھ پ س سے گھڑ گھڑ کر قصے سن ت ۔ اگر پڑھ لکھ ہوت
تو دوھ ئی ک کہ نی ک ر ہوت ۔ الے دینو کو اپنے بڑوں کی وڈی ئی
کے سوا کچھ نہ آت تھ ۔ وہ وہ چھوڑت ‘ کہ ہ س دھنگ رہ
ج تے۔ اکبر ب دش ہ بھی ج ہ و جال اور م ل و من ل میں پیچھے
رہ ج ت ۔
صدیق منہ پھٹ بھی ہم ری سا دع میں ش مل تھ ۔ اس ک ک
ہی ہر اچھے برے‘ سچ جھوٹ پر تنقید کرن تھ ۔
تنقید‘ مولوی اور الے دینو کو تو آڑے ہ تھوں لیت تھ ۔ اس کی
128
کسی حد تک غ ط بھی نہ تھی۔ اس ک کہن تھ ‘ ان جرنی وں نے
اسا نہیں پھیای ۔ جرنیل مس م ن ہوں ی غیرمس ‘ قتل و غ رت
ک ہی ب زار گر کرتے آئے ہیں‘ ان پر فخر کیس ‘ ہ ں دات ص ح
ی ایسے دوسروں نے‘ اپنے عجز و انکس ر‘ پی ر‘ رواداری‘
بھ ئی چ رے‘ انس نی برابری کے درس سے اسا پھیای ہے۔
اسی طرح الے دینو سے کہت ‘ او چھوڑو ی ر‘ جو ت بت تے ہو‘
وہ ہوں گے‘ دیکھن تو یہ ہے کہ ت کی ہو‘ بس م ضی پر
اتراتے رہو اور خود ص ر رہو۔ ی ر ہمیں بھی کوئی خ ص کرن
چ ہیے ت کہ آتی نسل کے ک آ سکے۔
اکثر م م ہ بحث اور پھر تو تکرار کی حدوں کو چھونے لگت ۔
میرا موقف تھ ‘ اس بیٹھک کو شغل می ے تک رہن چ ہیے۔
کوشش کے ب وجود‘ تو تکرار ہو ہی ج تی۔ اس روز اا دینو
کچھ زی دہ ہی گر ہو گی ۔ صدیق بھی تو زب ن کو ت لہ نہیں لگ
رہ تھ ۔ صدیقے نے الے دینو ک گریب ن پکڑ لی ۔ الے دینو نے
وٹ کر صدیقے کے سینے میں گھونسہ م را اور وہ نیچے گر
پڑا۔ الے دینو کے وہ وگم ن میں بھی نہ تھ کہ صدیقہ زمین پر
آ رہے گ ۔ ا وہ ہی س سے زی دہ ترلے لینے والوں میں تھ ۔
افسوس صدیق الے دینو کی ایک نہ سہہ سک اور ہ کو پی را ہو گی ۔
پ س آئی اور ہ س کو پکڑ کر لے گئی۔ ہم ری تو کچھ جھڑ جھڑا کر
تھ نے سے رخصتی ہو گئی ہ ں الے دینو کو پھنٹی کے س تھ جیل بھی
ج ن پڑا۔ وب ل دیکھیے‘ ہمیں بھی ب طور گواہ ح ضری پر رکھ لی گی ۔
129
عصری ضرورت
میں جدید لبرل مس م ن ہوں اور یہ س ج نتے ہیں‘ بت نے کی
ضرورت نہیں۔ ایک شیط ن ہی ہے جو نہیں م نت ‘ اس ک کہن ہے
کہ میں اس ک ہ پیشہ و ہ مشر ہوں۔ پرسوں ہ انٹرنیشنل
ف ئیو سٹ ر ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آتے ج تے جوڑوں کے
لب س اور ان کے طور و اطوار کو پرذو اور پرحسرت نگ ہوں
سے دیکھ رہے تھے۔ یقین م نیئے ہر آنے والی ک حسن و
جم ل اور ادائیں‘ ک ش کے تند و تیز چھرے سے‘ میری روح کو
زخمی کر رہی تھیں۔ بدبخت پ س ہی بیٹھ ‘ ان کے حسن و جم ل
اور اداؤں سے ک ‘ میری بےچینی پر زی دہ خوش ہو رہ تھ ۔
بیٹھ بیٹھ اچ نک سنجیدہ س ہو گی ۔ میں نے پوچھ ‘ او س لے یہ
اچ نک تمہ را بوتھ شریف کیوں لمک گی ہے۔ کہنے لگ ی ر دنی
بڑی خودی غرض ہے۔
کیوں کی ہو گی
ہون کی تھ ‘ پرسوں بھ بی اور بٹی ادھر ہی‘ م کوں کے ایک
شوخے کے س تھ آئے ہوئے تھے۔ ک بخت بھ بی ک آن پسند
نہیں کر رہ تھ ۔ پہ ے اس نے اپن مط نک ل لی ۔ بھ بی نے کی
کہن تھ ‘ بےچ ری چپ چ پ بیٹھی ن شتے پ نی ک انتظ ر کر رہی
تھی۔ ک فی دیر ب د کھ نے میں ک فی کچھ منگوای گی ۔ خود بھی
130
کھ ت مرت رہ ۔ پھر واش رو ج نے کے بہ نے سے اٹھ اور
کھسک گی ۔ ان بےچ ریوں نے چھوٹے کے ہ تھ پیسے منگ ئے
اور وہ ں سے خاص ہوئیں۔
مجھے بڑا ت ؤ آی ۔ ان کی اس بیٹھک ک تو مجھے ع تھ ‘ لیکن
م کوں کے شوخے کی اس کمینی حرکت سے آگ ہ نہ تھ ۔ س
بےمزا اور کرکرا ہو گی ۔ دل چ ہت تھ کہ اس شوخے کے ڈکرے
ڈکرے کر دوں۔ میں نے اسے کہ ‘ ی ر بس ا اٹھو‘ چ تے ہیں۔
دنی کی چ ل ب زی پر مجھے دکھ اور افسوس ہوا۔ م مات میں
آدمی کو اتن بھی نہیں گرن چ ہیے۔ میں اگر جھوٹ بولت ہوں‘ تو
لوگ میرے کہے ک یقین کرتے ہیں۔ اگر یقین نہ کریں تو مجھے
کی پڑی ہے‘ جوجھوٹ بولوں۔
م مات میں‘ میں نے کبھی دونمبری نہیں کی۔ وہ پیسے دیتے
ہیں‘ میں گواہی دیت ہوں۔ ان ک احس ن نہ میرا احس ن۔ رشوت کی
رق م ت میں تو نہیں لیت ‘ ک کرت اور کروات ہوں۔ کسی
دوسرے دفتر سے ک کروات ہوں تو ٹن پرسنٹ میرا اصولی ح
بنت ہے۔ میں دودھ میں پ نی مات ہوں تو اس میں غ ط کی ہے‘
پیچھے سے ک کھرا آت ہے۔ میرا پ نی مان دکھت ہے تو
سپائی کرنے واا کیوں نظر نہیں آت ۔ دوسرا میں کون س زور
زبردستی فروخت کرت ہوں‘ نہ خریدیں۔ انہیں حکی نے کہ ہے‘
جو وہ پ نی ی کیمیکل ما دودھ خریدتے ہیں۔ خریددار کے س
131
ع میں ہے تو یہ دو نمبری کس حس سے ہوئی۔
میں لبرل م ڈرن مس م ن ہوں‘ دو نمبری کو غ ط اور ق بل ت زیر
سمجھت ہوں۔ عہد قدی کے مس م نوں ک دائرہ محدود تھ ‘ اس
لیے اصول بھی اسی دور کے مط ب تھے۔ میرا واسطہ گ وبل
ہے۔ امریکہ اور ج پ ن ا دو قد کے م ک رہ گئے ہیں‘ لہذا
مجھے عصری اصولوں کو ف لو کرن ہوت ہے۔ حضرت بال
حضور کری کے قری تھے‘ لہذا وہ ویسے تھے۔ حضور کری
میرے قری نہیں ہیں‘ کی یہ میری برخورداری نہیں کہ میں
حضور کری سے بڑی محبت کرت ہوں‘ ہ ں ان کے کہے پر نہیں
چ ت ‘ بل کہ آج کی ضرورت کے مط ب زندگی کر رہ ہوں۔
لبرل م ڈرن مس م ن ہونے کے ن تے‘ گیو ٹیک کو اپن ئے ہوئے
ہوں۔ میں نے ہر اس عورت کو اپنی م ں بہن سمجھ ہے جو
میرے س تھ پھنستی نہیں۔ بڑی س لی تکبر میں رہی‘ میں نے
بھی اسے جوتے کی نوک پر رکھ ۔ ہمیشہ ب جی ب جی کہہ کر
مخ ط کی ہے۔ ہ ں چھوٹی لبرل م ڈرن مس م ن تھی‘ اس سے
سا دع ہو گئی۔ اس کی ش دی ہو گئی‘ ا ج کبھی آتی ہے‘
تو ہم را گیو ٹیک ہو ج ت ہے۔ ہ ں البتہ س س مجھ پر مہرب ن ہے
تو میں بھی اس کے م م ہ میں بخیل نہیں۔
مجھے م کوں کے شوخے پر ت ؤ آت ہے‘ بےغیرت دونمبری
کرت ہے۔ کچھ لی ہے تو کچھ دو بھی۔ ایسے ہی دو نمبر لوگ
132
ق بل ت زیر ہوتے ہیں۔ اگر م ک کی ب گ ڈور میرے ہ تھ میں آ
ج ئے تو اس طور کے ہر دونمبری کو‘ چوراہے میں الٹ لٹک
دوں ت کہ کسی کو دونمبری کرنے کی جرآت ہی نہ ہو۔ وہ لبرل
م ڈرن مس م ن نہیں ہیں‘ مولوی کو‘ ایسے دو نمبریوں پر ک ر
ک فتوی لگ دین چ ہیئے۔ مولوی عصری ضرورت سے ہٹ کر‘
فتوی س زی میں مصروف ہیں۔ انہیں آج کی ضرورت اور حق ئ
کے مط ب چ ن ہو گ ‘ ورنہ انہیں لبرل م ڈرن مس م ن نہیں کہ
ج سکت ۔
133
ام ں جین ں
ام ں جین ں مح ہ کی ‘ اردگرد کے مح وں میں بھی پسند نہیں کی
ج تی تھی۔ اسے بیوہ ہوئے آٹھ س ل ہو گئے تھے۔ اس ک خ وند
مشقتی تھ ‘ لیکن تھ بھا آدمی۔ صبح ک پر چا ج ت اور رات
دیر تک مشقت کرت ۔ اس نے اپنی محنت سے‘ چھوٹ اور کچ
پک ذاتی مک ن بھی بن لی تھ ۔ ضرورت کی ہر شے اس میں ا
کر رکھ دی تھی۔ جتن ایک مشقتی سے ممکن ہوت ہے کی ۔ اپنی
بوار بیوی کو ہر طرح ک سکھ‘ فراہ کرنے ک جتن کی ۔
ام ں جین ں نے اپنے خ وند سح کے کے ہر رشتہ دار‘ یہ ں تک
کہ اس م ں کی بھی دڑکی لگ دی۔ وہ بڑی برداشت ک م لک تھ ۔
اس زی دتی کو کوڑا گھونٹ سمجھ کر پی گی اور حس م مول
محنت مشقت پر جھٹ رہ ۔ م ں اور بہن بھ ئیوں کو وقت نک ل کر
مل لیت ۔ ہ ں البتہ پ نچ دس منٹ کے لیے سہی‘ م ں کو ہر روز
بھرج ئی کے کوسنے سن کر بھی‘ م نے چا ج ت ۔ م و پڑ
ج نے کے ب د جین ں بھی وقت کووقت اور اپنے خ وند کی ح لت
دیکھے بغیر‘ منہ میں زب ن رکھن بھول ج تی۔
اس کی زب ن نے ب بے سح کے کے اپنے تو اپنے‘ م نے والے
بھی بہت دور کر دیے تھے۔ ہر کوئی اس سے ب ت کرتے ڈرت ‘
134
مب دا کوئی گاواں ہی گ ے آ پڑے گ ۔ الٹی کھوپڑی کی م لک
تھی‘ سیدھی ب ت کو غ ط م نوں میں لے لیتی تھی۔ مثا کوئی
بھولے سے بھی پوچھ بیٹھت :م ئی جین ں کی ح ل ہے۔ جوا
میں اسے یہ ہی سنن پڑت ‘ اندھے ہو نظر نہیں آت ‘ چنگی بھ ی
ہوں۔ ج ایسی صورت ہو تو کوئی اس کے منہ کیوں لگت ۔
منہ متھے لگتی تھی‘ عاقے میں انھی ڈال سکتی تھی۔ ہمیشہ
سے بوڑھی نہ تھی۔ مج ل ہے کوئی اس کے ب رے غ ط بھی
سوچت ۔ کھگو نے جوانی کے دور میں‘ ٹرائی م ری تھی۔ اس
کے س تھ کی ہوا جگ ج نت ہے۔ ج بھی وہ نظر آ ج ت ‘ شروع
ہو ج تی۔ اس نے م فی بھی م نگی لیکن جین ں نے م ف نہ کی ۔
اس ک موقف تھ کہ کھگو کو ایسی جرآت ہی کیوں ہوئی۔ اس
نے ایس سوچ بھی کس طرح لی ۔ چوں کہ قری کی گ ی کے
تھے‘ وہ گ ی دیکھ کر گزرت ۔ اگر جین ں نظر آ ج تی تو بل ب ش
ہو ج ت ۔ اس کے برعکس اگر جین ں کی اس پر نظر پڑ ج تی‘ تو
رانی توپ ک منہ کھل ج ت ۔ ج تک زندہ رہ ‘ نزع کی ح لت میں
ہی رہ ۔
ام ں جین ں کی کوئی اواد نہ تھی۔ خ وند کے مرنے کے ب د
بےسہ را سی ہو گئی۔ پورے مح ہ میں کوئی اسے پوچھنے واا
نہ تھ ۔ ج تک گھر پر جمع پونجی ب قی رہی‘ گزارا کرتی رہی۔
ف قوں پر آ گئی‘ اس نے کسی پر ظ ہر تک نہ کی ۔ س کچھ ذات
اور آنسوؤں میں ضبط کرتی رہی۔ میری گھروالی کو ج نے
135
کیسے م و ہو گی ۔ اس نے ب ت میرے س منے رکھی۔ مجھے
عزت عزیز تھی۔ میں اس کی مدد کرن چ ہت تھ ‘ لیکن ڈرت تھ
کہ کہیں م م ہ گ ے ہی نہ آ پڑے۔
ایک دن گ ی سے گزر رہ تھ ‘ ام ں جین ں اپنے گھر کی دہ یز پر
اداس اور افسردہ بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ میں دور سے‘ جو اسے
سن ئی دے رہ ج ی بڑبڑات ہوا اس کے قری سے گزرا۔ اس
نے مجھے کبھی اس انداز میں نہ دیکھ تھ ۔ قری آی تو اس
:نے پوچھ ہی لی
پتر کی ہوا
م ں جی ہون کی ہے‘ کیس دور آ گی ہے‘ پیسے پورے لے کر
بھی چیز درست نہیں دیتے۔ میرے بیگ میں کی ے تھے میں نے
کی ے انہیں پکڑائے اور خود دوب رہ سے بڑبرات ہوا آگے بڑھ
گی ۔ اس نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھ اور کی ے لے کر
اندر چ ی گئی۔
مجھے شہہ مل گئی اور پھر میں‘ آنے بہ نے ام ں جین ں کو
کچھ ن کچھ دے کر ک پر چا ج ت ۔ ایک مرتبہ میں نے کچھ
پیسے بھی چیز کے س تھ رکھ دیے۔ اگ ے روز گھر واپس آتے
اس نے مجھے روک لی اور کہ غ طی سے پیسے بھی آ گیے
تھے۔ میں نے کہ نہیں م ں جی‘ آپ کے حصہ ہی کے تھے اور
میں ج دی سے وہ ں سے رخصت ہو گی ‘ کہ کوئی تم ش کھڑا نہ
136
کر دے۔ ج اگ ے دن وہ ں سے گذرا تو دیکھ ‘ ام ں کی آنکھوں
میں تشکر لبریز آنسو تھے۔ سچی ب ت ہے میری بھی آنکھیں
چھ ک پڑیں۔ اس کے ب د میں باڈرے اس کی خدمت کرنے لگ ۔۔
دن گزر گئے‘ اور آج ام ں کو ح ہوئے بھی کئی س ل ہو چ ے
ہیں۔ کوئی نہیں ج نت تھ ‘ وڈ ٹک سے پہ ے ام ں بڑے کھ تے
پیتے خ ندان کی تھی۔ سح ک ہی اسے زخمی ح لت میں‘ اس کی
ج ن بچ کر لے آی تھ ورنہ ہ ج نے اس کے س تھ کی گزرتی۔
ام ں نے سح کے کے س تھ نک ح کر لی ۔ سح ک ازدواجی م مات
میں پیدل تھ ‘ ام ں نے پھر بھی پ ک ص ف رہ کر زندگی گزار
دی۔
م ئی صوب ں ک یہ انکش ف‘ حیرت سے خ لی نہ تھ ۔ س خائی
س م و ہو رہ تھ ۔ سچ میں‘ ہ کی اس زمین پر یہ وقوع میں
آ چک تھ ۔
137
اس ک ن ہدایت ہی رہ
تجربہ زندگی کو سنوارت ‘ نکھ رت اور ب ض اوق ت شخصیت میں
انقا برپ کر دیت ہے۔ ہداتے اور اس کی رن م جدہ ک ‘ ہر
دوسرے تیسرے رن کچھ س رن لگت ۔ وہ جند ج ن میں اس سے
کہیں بھ ری تھی۔ اڑبڑ کرت ‘ تو سیدھ چمٹ چاتی‘ جو اس کے
کہیں ن کہیں آ لگت ۔ آش ں ک نش نہ بڑے کم ل ک تھ ۔ اس کے وڈ
وڈیروں میں یقین کوئی بہت بڑا شک ری رہ ہو گ ۔ ایک ب ر تو
سیدھ وہ ں سے‘ تھوڑا ہی ف ص ے پر آ لگ ۔ کئی دن ٹ نگیں
چوڑی کرکے چ ت رہ ۔ اگر خدا نخواستہ وہ ں لگ ج ت ‘ تو آج
صحن میں اٹھکی ی ں کرتی منی سے ہ تھ دھو بیٹھتے۔ اس چوٹ
نے آش ں پر تو کوئی اثر نہ ڈاا‘ ہ ں البتہ اس تجربے نے اس
کے م مول میں انقابی تبدی ی ضرور کر دی۔ ا ج بھی رن‘
رن میں اترنے ک موڑ بن تی‘ یہ فورا سے پہ ے گھر کی دہ یز
کے اس پ ر ہوت ۔
وہ اندر ف ئرنگ کرتی یہ ب ہر کھڑا کبھی گولے اور کبھی تھری
نٹ تھری کی گولی ں چات ۔ ہ ں البتہ‘ ہر دو تین گولی ں ی گولے
چانے کے ب د‘ اتن ضرور کہت ‘ ہ تمہیں ہدایت دے۔ اس کے
ب د ہ تمہیں ہدایت دے اس ک تکیہءکا ہی بن گی ۔ اس ک اصل
ن نور محمد تھ لیکن اس تکیہءکا کی وجہ سے‘ اس ک ن
138
بھی ہدایت پڑ گی ۔ پھر ہر دو تین ک مے منہ سے نک لنے کے ب د‘
ہ تمہیں ہدایت دے ضرور کہت ۔ لوگ چوں کہ اس کے اس
تکیہءکا سے آگ ہ ہو چکے تھے‘ اس لیے غصہ نہ کرتے۔
ایک ب ر سردار ص ح کے بیٹے کی جنج چڑھن تھ ۔ اچھے
کپڑے س وا لیے‘ اسی طرح اوکھے سوکھے ہو کر نی جوت بھی
خرید لی ۔ اگ ے دن جنج چڑھن تھ ‘ رن سرک ر سے خو حج مت
کروانے کے ب د‘ شہر حج مت اور شیو بنوانے چا گی ۔ حج کی
دک ن پر تھوڑا رش تھ ۔ وہ ادھر ہی بیٹھ گی اور موجود لوگوں
کی ب تیں سننے لگ اور س تھ میں ہوں ہ ں بھی کرنے لگ ۔ خدا
خدا کرکے‘ اس کی بھی ب ری آ ہی گئی۔
حج ب تونی تھ ۔ حج مت بھی بن ئے ج رہ تھ اور س تھ میں
ب تیں بھی کیے چ ے ج رہ تھ ۔ ہدایت اس کی ہ ں میں ہ ں ما
رہ تھ ۔ س ری ب تیں وہ ہی کیے ج ت تھ ۔ خدا خدا کرکے ایک دو
ب تیں اسے بھی کرنے ک موقع مل گی ۔ حس ع دت دو تین ب تیں
کرنے کے ب د‘ ہ تمیں ہدایت دے کہہ بیٹھ ۔ حج ک چھوڑ کر‘
ال ال آنکھیں نک ل کر کہنے لگ ‘ اوئے پینڈو کی میں بےہدایت
ہوں اور ہدایت تو سکھ ئے گ ۔ چپ رہت ی م ذرت کر لیت تو ب ت
نہ بگڑتی۔
ل ظ پینڈو اسے چبھ س گی اور گھر سمجھ کر بکنے لگ ۔ پھر کی
تھ ‘ وہ ں موجود لوگوں نے اسے پکڑ کر خو وج ی ۔ اور تو
139
اور چہرے پر بھی اچھے خ صے آلو ڈال دیے۔ ابھی آدھے ہی
ب ل کٹے تھے کہ بقیہ ج ن بچ کر واپس آ گی ۔ آش ں زخموں پر
مرہ رکھنے ی اس حج ک گھر پر ہی زب نی کامی گھر پورا
کرنے کی بج ئے‘ اس کے چہرے کے آلو دیکھ کر خو ہنسی۔
اس واق ے کے ب د وہ جنج چڑھنے سے محرو ہو گی اور
گ ؤں بھر کے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے مذا بن گی ۔
ہ ں البتہ اس ک تکیہءکا ضرور بدل گی ۔ ہ تمہیں ہدایت دے
کی بج ئے‘ ہ مجھے ہدایت دے بولنے لگ ۔ یہ ب ت قط ی الگ
سے ہے کہ زب ن پر مجھے اور دل میں تجھے ہی ہوت ۔ اس نے
اپنے لیے کبھی ہدایت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی‘ جیسے
پیدایشی ہدایت ی فتہ ہو۔ اس ح دثے کے ب د‘ ن بھی تبدیل ہو
ج ن چ ہیے تھ ‘ لیکن اس ک ن ہدایت ہی رہ ۔
140
بھ ری پتھر
مغر میں ام ں ب بوں ک گاواں‘ اواد گ ے میں نہیں ڈالتی۔ وہ ں
ان پرانے وقتوں کے لوگوں کو‘ بڈھ ہ ؤسز میں چھوڑ دی ج ت
ہے‘ جہ ں وہ اپنے وقتوں کی کہ نی ں‘ ایک دوسرے کو سن کر‘
ہنسی خوشی زندگی گزار لیتے ہیں۔ ہر نئے دور کے تق ضے
اپنے ہوتے ہیں۔ نئے دور کے لوگ‘ اپنے ان تق ضوں کے س تھ
کھل ڈھل کر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی کرنی میں‘ کوئی می میخ
نک لنے واا نہیں ہوت ۔ ن ہی انہیں ایک دوسرے کی کرنی پر کوئی
اعتراض ہوت ہے۔ جہ ں ج ن ہو دوڑ کر ج سکتے ہیں۔ ان کی
موجودگی میں‘ انہیں بھی کندھ پکڑا کر س تھ لے ج ن پڑت ہے۔
واپس آ کر ان کی تقریریں سنن پڑتی ہیں۔
دور کی ج ن ہے‘ کل ہی کی ب ت کو لے لیں۔ ب بے مہنگے کو
بھی ش دی ح ل میں لے گئے۔ خی ل تھ کہ نی م حول دیکھ کر‘
ت زہ د ہو ج ئے گ اور آج کل ک پیٹ بھر کر کھ کر‘ خوش ہو
گ ۔ مگر کہ ں جی‘ جتنی دیر وہ ں بیٹھ ‘ بڑ بڑ کرت رہ ۔ بہو اور
بیٹیوں کو گھور گھور کر اور کھ ج نے والی نظروں سے
دیکھت رہ ۔ گھر آ کر‘ ام ں پر برس پڑا کہ کتن بےحی دور آ گی
ہے۔ کسی کو اپنی عزت آبرو ک احس س تک نہیں رہ ۔ یہ لب س
تھ ‘ ب ریک‘ آدھ اور وہ بھی ٹ ئٹ۔ ٹ نگوں کی اگ ی پچھ ی اور
141
سینے کی لکیریں‘ نم ی ں ہو رہی تھیں۔ کسی کے سر پر دوپٹہ
نہ تھ ۔ یوں نچ ٹپ رہی تھیں‘ جیسے چوتڑوں میں کیڑا گھس گی
ہو۔ بھ ئی اور خ وند س تھ تھے‘ کسی کو غیرت نہیں آ رہی تھی۔
ا پت چا کہ ہ مس م ن ہو کر بھی‘ دنی جہ ن کے چھتروں کی
زد میں کیوں ہیں۔
ب بے نے اتنے اع ی کھ نے میں بھی‘ ہزار طرح کے کیڑے
نک لے۔ ام ں جس نے ب بے کو س ری عمر نپ کر رکھ تھ ‘ آج
اسے ق بو نہ کر پ رہی تھی۔ اپنی کہے ج رہی تھی لیکن پورا نہ
اتر رہی تھی۔ ب ب مکمل طور پر چھ ی ہوا تھ اور پٹری سے اتر
چک تھ ۔
م ک کے سربراہوں کے بھی ب بے ہوں گے‘ م و نہیں وہ ان
پر کس طرح ق بو پ تے ہوں گے ی پھر ان کے ب بے بھی لکیر
پسند ہوں گے۔ سربراہ ب ب ہو تو بھی ب ب نہیں ہوت ۔ حکی ڈاکٹر
ان کے مطیع ہوتے ہیں۔ دوسرا وہ س کے ہوتے ہیں اس لیے
ان ک لبرل اور لکیر نواز ہون ضروری ہوت ہے۔ رہ گئی ب ت دنی
جہ ں کے چھتر کھ نے کی‘ وہ تو ہ صدیوں سے کھ رہے ہیں۔
اگر کوئی ان موق وں پر ہم ری بیویوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کی
لکیروں سے‘ نظری ی محض م مولی م مولی ٹچ سے لطف
اندوز ہو رہ ہوت ہے‘ تو ہ بھی ک پیچھے ہوتے ہیں۔ ہم ری
آنکھیں کھ ی اور ہ تھ متحرک ہوتے ہیں۔ اگر ہم ری عورتیں ان
کے لیے لطف ک س م ن ہوتی ہیں‘ تو ان کی عورتیں بھی ہمیں
142
حظ مہی کر رہی ہوتی ہیں۔
ب بر سے لبرل ب دش ہ نے کہ تھ :
ب بر ب عیش کوش کہ دنی دوب رہ نیست
یہ ب بے کی ج نیں۔ خشک جیئے اور ہمیں بھی‘ اسی رہ پر رکھن
چ ہتے ہیں۔ ح ک اپنی موج میں ہیں۔ ہمیں بھی جدید طرز کی
زندگی گزارن ہے لیکن ان ب بوں کے ہوتے‘ مکمل طور پر یہ
ممکن نہیں۔ ب اختی ر اداروں ک فرض بنت ہے کہ ان ب بوں ک کچھ
کریں ورنہ ان کے لیکچر ہمیں جدید زندگی سے درر رکھیں گے۔
ہ آزادی ح صل کرکے بھی آزادی سے دور رہیں گے۔ جو بھی
سہی‘ یہ طے ہے کہ امرا کے ن سہی‘ ہم رے ب بے عصری
آزادی کی راہ ک بھ ری پتھر ہیں اور ہ سے لبرل‘ م ڈرن‘ آزاد‘
ترقی پسند اور مغر کے پیروں کو غیرت ک لیکچر پا پا کر
غیرت پسند بن دین چ ہتے ہیں۔
143
ایسے لوگ کہ ں ہیں
یہ دنی سرائے کی م نند ہے‘ کوئی آ رہ ہے تو کوئی ج رہ ہے۔
سرائے میں مستقل کوئی اقمت نہیں رکھت ۔ ہ ں ہر آنے واا اپن
ایک ت ثر ضرور چھوڑ ج ت ہے۔ کوئی اچھ تو کوئی برا۔ اس
ت ثر کے حوالہ سے ہی‘ اس مس فر کو ی د میں رکھ ج ت ہے۔
ب ب ص ح بھ ے آدمی تھے۔ طب مہرب ن‘ ش ی اور اپنے
پرائے کے غ گس ر تھے۔ کسی کو دکھ میں دیکھتے‘ تو تڑپ
تڑپ ج تے۔ ج تک اس کی تک یف دور کرنے ک پربند نہ کر
لیتے‘ سکھ ک س نس نہ لیتے تھے۔ اچھ ئی اور خیر کے م م ہ
میں‘ دھر اور مس ک ان کے نزدیک‘ کوئی م نویت نہ رکھت
تھ ۔ ان ک موقف تھ ‘ جس طرح ہ س ک نگہب ن ہے‘ اسی
طرح انس ن بھی س ک نگہب ن ہے۔ اس کی پیدا کی ہوئی کوئی
بھی مخ و ‘ دکھ میں ہے تو انس ن کو‘ اس ک ہر ح ل میں دکھ
دور کرن چ ہیے۔ کوئی برا کرت ہے تو یہ اس ک ک ہے‘ برائی
کے بدلے برائی کرن ‘ تمہ را ک نہیں۔ ت جو بھی کرو‘ اچھ اور
اچھے کے لیے کرو۔
ان کے پ س‘ ہر دھر سے مت لوگ آتے۔ کوئی خیر و برکت
کی دع کے لیے آت ‘ تو کوئی ع واد اور مذہ سے مت
گ تگو ی مش ورت کے لیے آت ۔ س کے س تھ یکس ں س وک روا
144
رکھتے۔ تحمل سے اس کی سنتے اور پھر اپن موقف پیش
کرتے۔ ج تک وہ مطمن نہ ہو ج ت ‘ رخصت نہ کرتے۔
ب ئیبل مقدس‘ روم ئن‘ بھگوت گیت ‘ گرنتھ ص ح ک ور ور
انہوں نے پڑھ رکھ تھ ۔ بدھ مت کے مت بھی اچھ خ ص ن لج
رکھتے تھے۔ پہ ے تو مت قہ کی کت اور پھر قرآن مجید کے
حوالہ سے ب ت کرتے۔ ی ر کم ل کے شخص تھے۔ کوئی نذر نی ز
لے آت تو رکھ لیتے‘ ج ج نے لگت تو اس ت کید کے س تھ
واپس کر دیتے‘ کہ چیزیں صرف اپنے بیوی بچوں میں تقسی
کرن ۔ اصرار کے ب وجود کچھ نہ رکھتے۔ فرم تے بیٹ ‘ ت چنت نہ
کرو‘ ہ مجھ اور میری بھوک پی س سے خو خو واقف ہے۔
ایک ب ر ایک اجنبی آی ۔ کچھ کہے سنے بغیر ہی‘ دروازے پر
کھڑے ہو کر‘ ب ب ص ح کو برا بھا کہنے لگ ۔ ج حد سے
گزرنے لگ ‘ تو بیٹھے لوگوں میں سے ایک اٹھ کر اس کی
ٹھک ئی کرنے لگ ۔ ب ب ص ح نے اسے منع کر دی ۔ بہت کچھ
کہہ لینے کے ب د وہ چا گی ۔
ایک بوا بیڑا غر ہو اس خ نہ خرا ک ‘ کتنی بکواس کر رہ
تھ ۔ اگر ب ب ص ح نہ روکتے‘ تو آج میں اسے اس بدتمیزی ک
ایس مزا چکھ ت کہ نس وں کو بھی منع کر ج ت ۔ ب ب ص ح اس
کے اس طرز تک سے سخت پریش ن ہوئے۔ پھر فرم نے لگے‘
بیٹ کبھی اور بھی کسی بھی صورت میں‘ گ تگو میں ش ئستگی
145
کو ہ تھ سے نہ ج نے دو۔ ی د رکھو‘ ایک طرف نیکیوں ک انب ر
لگ ہو تو دوسری طرف ایک بددع ‘ بددع اس پر بھ ری ہے۔ کی
تمہیں حضرت یونس ع یہ السا کی بددع ک انج ی د نہیں۔
انہیں مچھ ی کے پیٹ میں ج ن پڑا۔ پھر فرم ی بددع کی بج ئے
ت دع بھی دے سکتے ہو کہ ہ اسے ہدایت دے۔ ب ید نہیں وہ
وقت قبولیت ک وقت ہو۔
تھوڑی دیر کے ب د وہ شخص دوب رہ سے آ گی اور دروازے پر
کھڑا ہو کر‘ اندر آنے کی اج زت ط کرنے لگ ۔ ا کہ وہ اور
اس ک انداز بڑا مہذ اور ش ئستہ تھ ۔ س اس کے اس دوہرے
روپ سے حیران رہ گئے۔ ب ب ص ح نے اسے اندر آنے کی
اج زت دے دی۔ اندر آ کر وہ ب ب ص ح کے پ ؤں پڑنے لگ تو
ب ب ص ح نے اسے سختی سے منع کر دی اور پھر اس کی
طرف دیکھ کر مسکرائے۔ وہ مسکراہٹ کی تھی‘ جنت کی ہوا ک
ایک جھونک تھ ‘ جو س کو نہ ل کر گی ۔
وہ شخص کہنے لگ :سرک ر میں تو آپ کے ظرف ک امتح ن لے
رہ تھ ۔ جیس اور جو سن ویس ہی پ ی ۔ آپ سچے ولی ہیں۔
نہیں بیٹ ‘ یہ ت محبت میں کہہ رہے ہو۔ میں بےچ رہ کہ ں اور
وایت کہ ں۔ ہ ں یہ ہ ک احس ن اور لطف وکر ہے‘ جو اس نے
توفی دی اور میں اس امتح ن میں ک می ہوا۔
سوچت ہوں‘ ا ایسے لوگ کہ ں ہیں۔ اگر کوئی ہے‘ تو چا
146
کیوں ج ت ہے۔ کی کریں‘ یہ ں کوئی ٹھہرنے کے لیے نہیں آت ۔
اچھ ہو کہ برا‘ گری ہو کہ امیر‘ ش ہ ہو کہ فقیر‘ اسے ایک
روز ج ن ہی تو ہے۔ الچ‘ ہوس اور حرص نے انس ن کو‘ انس ن
نہیں رہنے دی ۔ ک ش ہمیں یقین ہو ج ئے‘ کہ ہمیں ہر صورت
میں ج ن ہی ہے اور کوئی یہ ں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آی ۔
جمع پونجی س تھ نہ ج سکے گی۔ ج تے وقت ہ تھ خ لی ہوں
گے اور اپنے قدموں پر نہیں ج سکیں گے۔
147
ش عر اور غزل
چ ند کی کرنوں سے غزل کی بھیک م نگی
اس نے ک سے میں دو بوندیں نچوڑ دیں
کہ غزل آنکھوں کی ٹھنڈک ہو ج ئے
سیپ نے مروارید دیئے
کہ دل اس ک پرسکون ہو ج ئے
قوس قزح نے سرخی بخشی
کہ رخ مثل ی قوت ہو ج ئے
طب ے کی تھ پ نے
گھنگھرو کی جھنک ر نے
م یوس نہیں کی
نسی سحر سے بھی دست سوال دراز کی
قبروں کے کتبوں سے بھی
غزل کی بھیک م نگ کے ای
سورج سے تھوڑی حدت م نگ لی
148
سیم سے بےقراری لے لی
لہر نے بغ وت دے دی
گا کے پ س بھی گی
اس نے ک سے کو بوسہ دی
اور اپنی اک پنکھڑی رکھ دی
خوش تھ کہ
آج محنت رنگ ائے گی
وہ مری ہو ج ئے گی
دامن مرا خوشیوں سے بھر ج ئے گ
غزل کے چہرے پر
حسین س عنوان لکھ دے گی
خ وص کی طشتری میں رکھ کر
ج غزل میں نے پیش کی
جس رت پہ مری وہ بپھر گئی
ضبط کی پٹڑی سے اتر گئی
ک سے میں تھوک دی
149
بولی
بھک ری! اپن خون جگر نچوڑ کے اؤ
غزل سے زندگی کی خوش بو آئے
راحتوں کے لیے
لہو کی اک بوند ک فی ہے
پھر اس نے
چھ تی سے جدا کرکے
اپنی بچی مری گود میں رکھ دی
ممت کی ب ہوں میں غزل تھی
ممت کی نگ ہوں میں غزل تھی
بچی کے لبوں پر
بچی کی انگ یوں میں
بچی کی س نسوں میں
مگر بچی تو سراپ غزل تھی
میں مش ہدے میں ہی تھ کہ
اس نے بچی مجھ سے لے لی
150
مری آغوش میں شرمندگی رکھ دی
درم ندگی رکھ دی
اپنی اور م نگے کی چیز میں
کتن فر ہوت ہے
وہ ائ صد افتخ ر تھی
پروق ر تھی
میں تنکے سے بھی حقیر تھ
اس ک سر تن ہوا تھ
مرا سر جھک ہوا تھ
کہ غزل کے چہرے پر
بھیک ک پیوند لگ ہوا تھ
غزل ک بدن زیر عت تھ
میں بھی تو ہ ر گی تھ
مری ش عری کی ک ئن ت پر رعشہ تھ
وہ مسکرا رہی تھی
غزل سٹپٹ رہی تھی