The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-02-18 04:49:14

afsanay (1)

afsanay (1)

‫‪101‬‬

‫پ ؤں کی آہٹ سے ج گ گئی لیکن سونے ک ن ٹک ج ری رکھ ۔‬
‫میں نے بھی ڈسٹر کرن من س نہ سمجھ اور چپک رہ ۔‬

‫ہ کے احس ن سے رات گزر گئی۔ ٹھیک سے ٹھیک نہ ہوا‘‬
‫ہ ں البتہ پہ ے سے قدرے بہتر ضرور تھ ۔ میں نے اس کی‬
‫ج ن یوں ہی باوجہ دیکھ لی ۔ چہرے پر بیم ر ہونے کی کی یت‬
‫ط ری کر لی۔ میں نے فورا سے پہ ے نگ ہ نیچی کر لی۔ آدھ‬
‫گھنٹے ب د چ رپ ئی لگ گئی۔ پوچھ کی ہوا۔ سخت بیم ر ہوں۔ میں‬
‫پوچھن چ ہت تھ ابے والی بیم ر ہو ی میرے والی بیم ری ہے۔‬
‫چپ رہ ‘ ج نت تھ آج اور آت کل بےمزگی میں گزرے گ ۔ اس ک‬
‫کہن تھ کہ میری شوگر چھے سو ستر پر پہنچ گئی ہے۔ بی پی‬
‫بھی ہ ئی ہو گی ہے۔ صبح سے مس سل اور متواتر الٹی ں کر رہی‬
‫ہوں۔ سر پھٹ رہ ہے۔ ایک دو بیم ری ں اور بھی گنوائیں۔ میں‬
‫نے کہ ہ آس نی پیدا کرے گ ۔ کہنے لگی س ہ پر چھوڑے‬
‫رکھن ‘ خود سے کچھ نہ کرن ۔ چ ہ کہ کہوں سر دب دیت ہوں پھر‬
‫فورا خی ل آی بچو ش تک اسی ک میں رہو گے۔ مجبور قدموں‬
‫چ ت ہوا ب زار گی ن ن چنے اور س تھ میں ح ظ م م تقد سائس‬
‫اور انڈے بھی لے آی ۔ بےچ ری نے اوکھے سوکھے ہو کر‬
‫دونوں ن ن چنے اور ایک انڈا ڈک ر لی ۔ اصوا بہتری آ ج نی‬
‫چ ہیے تھی‘ قدرے آ بھی گئی۔ ہ ک شکر ادا کی زب ن کی کوترا‬
‫کتری سے بچ گی ہوں۔ ش تک ح ات درست رہے۔ ش کو‬
‫ف ئرنگ شروع ہو گئی۔ وجہ یہ تھی کہ ن ن چنے اور انڈے‬

‫‪102‬‬

‫سائس تو لے آئے لیکن منہ میں بڑ بڑ کر رہے تھے‘ ح اں کہ‬
‫ایس نہیں تھ ۔ ت ہ دیر تک چل سو‬

‫چل ہی رہی اور میں بھول گی کہ بیم ر ہوں۔‬

‫‪103‬‬

‫انگ ی‬

‫مہ ج بڑے سکون اور آرا سے دک ن پر بیٹھ ‘ دودھ اوب ل رہ‬
‫تھ ‘ س تھ میں پڑوسی دک ن دار سے ب تیں کیے ج رہ تھ اور‬
‫دودھ میں کڑچھ بھی م رے ج رہ تھ ۔ اس ک پ لتو با اس کی‬
‫نشت کے نیچے‘ پرسکون بیٹھ ہوا تھ ۔ وقت با کسی پریش نی‬

‫کے گزر رہ تھ ۔ کوئی نہیں ج نت کہ اگ ے لمحے کیسے ہوں‬
‫گے۔‬

‫س ج نتے ہیں‘ شیط ن انس نی سکون ک دشمن ہے۔ انس ن کی‬
‫پرسکون زندگی‘ اسے ہمیشہ سے کھٹکتی آئی ہے۔ اس نے ایک‬

‫انگ ی‘ جس پر ایک ی دو بوند ہی دودھ چڑھ ہو گ ‘ س منے‬
‫دیوار پر لگ دی۔ دودھ پر مکھی ں ع ش ہوتی ہیں‘ جھٹ سے‬
‫مکھی ں دیوار پر لگے دودھ پر آ گئیں۔ جہ ں مکھی ں ہوں‘ وہ ں‬

‫چھپک ی ک آن غیرفطری نہیں۔ جھٹ سے ایک چھوڑ‘ کئی‬
‫چھپک ی ں آ گئیں۔ با چھپک یوں کو برداشت نہیں کرت وہ‬
‫چھپک یوں پر جھپٹ ‘ ات دیکھیے اسی لمحے‘ ایک نوا‬

‫ص ح اپنے ٹومی سمیت ادھر سے گزرے۔ ٹومی ب ے کو‬
‫کیسے برداشت کرت ۔ وہ ب ے پر بڑی تیزی سے جھپٹ ۔ با دودھ‬

‫میں گر گی ۔‬

‫‪104‬‬

‫ردعمل ہون فطری سی ب ت تھی۔ مہ جے نے پوری ط قت سے‬
‫ٹومی کے سر پر کڑچھ م را اور وہ وہیں ڈھیر ہو گی ۔ نوا‬
‫ص ح ٹومی کی بےحرمتی اور اس پر ہونے واا یہ تشدد‬

‫کیسے دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے چھے کی چھے مہ جے کے‬
‫سینے میں ات ر دیں۔‬

‫مہ ج اتنی بڑی فیم ی ک واحد ک یل تھ چل بس ۔ پوری فیم ی‬
‫اغر و اپ ہج ہو گئی۔ وہ کی کر سکتے تھے بس قسمت کو ہی‬
‫کوس سکتے تھے۔ نوا ص ح ک کی بگڑن تھ ۔ یہ لوگوں ک‬
‫ک سنوارتے ہیں لوگ ان ک گ پ کرنے اور ظ سہنے کے لیے‬
‫جن لیتے ہیں۔ ان ک گ پ ہی اقتداری طور رہ ہے اور ش ئد رہے‬

‫گ۔‬

‫ان پر ی ان کے کیے پر انگ ی اٹھ نے والے زہر پیتے رہیں گے‬
‫سولی چڑھتے رہیں گے۔ اقتدار ک یہ ہی اصولی فیص ہ رہ ہے۔‬
‫ح ل کی مستقبل قری میں بھی ان سے مکتی م تی نظر نہیں آتی۔‬
‫قصوروار کون تھ ص ف ظ ہر ہے مہ ج ۔۔ نوا کبھی غ طی پر‬

‫نہیں ی شیط ن کوسنوں کی زد میں رہے گ ۔ کوئی خود کو‬
‫سدھ رنے کی جس رت نہیں کرے گ ۔ جی ہ ں‘ یہ ہی سچ اور یہ‬

‫ہی حقیقت ہے۔‬

‫‪105‬‬

‫آخری تبدی ی کوئی نہیں‬

‫‪:‬نوٹ‬
‫ہ چھوٹے چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے مخدومی و مرشدی‬
‫ب ب جی سید غا حضور حسنی اس طرح کی کہ نی ں سن ی کرتے‬

‫تھے۔ وہ کہ نی ں آج بھی لوح دل پر نقش ہیں۔ دن کبھی ایک‬
‫سے نہیں رہتے۔ ہر لمحہ تبدی ی سے گزرت ہے اور کل من عیھ‬

‫ف ن کی طرف بڑھ ج ت ہے۔‬

‫بھ ے وقتوں کی ب ت ہے۔ دو دوست ہوا کرتے تھے۔ ایک‬
‫سوداگر ج کہ دوسرا کوئی ک نہیں کرت تھ ۔ ایک دن سوداگر‬
‫دوست نے کہ ف ر رہنے سے وقت نہیں گزرت ۔ ضرورتیں تو‬
‫منہ پھ ڑے رہتی ہیں۔ آؤ تمہیں اوبےنگر کی فوج میں بھرتی کرا‬
‫دیت ہوں۔ اس کی ری ست اوبے نگر میں وق یت تھی لہذا ج د ہی‬

‫اس ک دوست فوج میں بھرتی ہو گی ۔ دونوں کو خوشی ہوئی۔‬
‫ب ت بھی خوشی والی تھی کہ روٹی ک س س ہ چل نکا۔‬

‫دو چ ر س ل کے ب د اس ک ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے سوچ‬
‫کیوں نہ دوست ہی سے مل لوں۔ چھ ؤنی گی ۔ اس نے پوچھ‬
‫سپ ہی تیغ را کدھر ہوت ہے۔ پت چا اچھی ک رگزاری کی وجہ‬

‫‪106‬‬

‫سے وہ حوالدار ہو گی ہے۔ اسے خوشی ہوئی کہ اس ک دوست‬
‫ترقی کر گی ہے۔ دونوں کی ماق ت ہوئی۔ سوداگر دوست نے‬
‫‪:‬اپنی خوشی ک اظہ ر کی تو جواب تیغ را نے کہ‬

‫ی ر دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬

‫اسے دوست کے جوا پر حیرانی ہوئی۔ کچھ نہ کہ ‘ چپ رہ ۔‬

‫وقت اپنی مرضی‘ مزاج اور روٹین کی ڈگر پر چ ت رہ ۔ شخص‬
‫اوروں سے بےنی ز اپنے اپنے طور سے روٹی ٹکر تاشنے میں‬

‫مصروف تھ ۔ سوداگر بھی سوداگری میں مصروف تھ ۔ اس ک‬
‫روٹین میں اوبےنگر ج ن ہوا۔ اس نے اپنے دوست حوالدار تیغ‬

‫را ک چھ ؤنی میں ج کر پوچھ ۔ وہ ں سے پت چا تیغ را‬
‫صوبےدار ہوگی ہے۔ اس خبر نے اسے خوشی سے نہ ل کر دی ۔‬

‫ماق ت پر اس نے مب رک ب د دی۔ تیغ را نے بڑی سنجیدگی‬
‫سے کہ ۔‬

‫ی ر دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬

‫تیغ را موج اور ٹھ ٹھ کی گزار رہ تھ ۔ حیرانی تو ہون ہی تھی‬
‫لیکن وہ چپ رہ ۔ جوا میں کی کہت ۔ س لوں میں تبدی ی تو آئی‬

‫تھی۔ تیغ را غ ط نہیں کہہ رہ تھ ۔‬

‫کچھ س لوں کے ب د سوداگر ک اوبے نگر سے گزر ہوا۔ وہ اپنے‬
‫دوست تیغ را سے م نے چا گی ۔ وہ ں سے م و پڑا کہ وہ‬

‫‪107‬‬

‫ب دش ہ ک منظور نظر ہو گی ہے اور وزیر مقرر کر دی گی ہے۔‬
‫اس نے سوچ وزیر ہو گی تو کی ہوا میرا تو دوست ہے۔ ب مشکل‬

‫ماق ت ہوئی۔ سوداگر نے اپنی خوشی ک اظہ ر کی تو جواب تیغ‬
‫را نے وہ ہی پران ڈائیاگ دوہرا۔ اس ک کہن غ ط نہ تھ ‘ لہذا‬
‫اس نے ہ ں میں ہ ں مائی اور تھوڑا وقت گزار کر رخصت ہو‬

‫گی ۔‬

‫ج قسمت ک ست رہ زحل سے نکل کر مشتری میں آ ج ئے‬
‫انس ن کچھ سے کچھ ہو ج ت ۔ اوبےنگر کے ب دش ہ کی موت کے‬

‫ب د ب دش ہی تیغ را کے ہ تھ میں آئی۔ اصل ب ت یہ تھی کہ تیغ‬
‫را کی ع دات میں تبدی ی نہ آئی۔ وہ اپنے سوداگر دوست سے‬
‫اسی طرح پیش آی ۔ پہ ے کی طرح کھل ڈھل کر گپ شپ لگ ئی۔‬

‫اس ک کہن وہ ہی رہ کہ‬

‫دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬

‫سوداگر حیران تھ کہ تیغ را ترقی کی آخری سیڑھی کراس کر‬
‫گی ا بھی اسی ب ت پر ہے۔ اس سے آگے تو زندگی میں کچھ‬

‫بھی نہیں۔ وہ اسے ڈائیاگ سمجھ کر چپ رہ ۔‬

‫اگ ی ب ر ج سوداگر اوبے نگر آی تو اسے م و پڑا کہ ب دش ہ‬
‫تیغ را انتق ل کر گی ہے۔ شہر کے ب ہر کھ ے میدان میں‬

‫چ ردیواری کے اندر اس کی ی دگ ر بن ئی گئی تھی۔ مخت ف طرح‬
‫کے پودے لگ ئے گئے تھے۔ اسے خو صورت بن نے میں‬

‫‪108‬‬

‫کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی۔ لوح ی دگ ر پر تحریر کی گی تھ‬

‫ع دل ب دش ہ مہ راج تیغ را‬

‫دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے‬

‫سوداگر حیران تھ ا آخری تبدی ی بھا کی آئے گی۔ موت کے‬
‫ب د بھا کی تبدی ی آ سکتی ہے۔‬

‫سوداگر ک اوبے نگر میں وہ آخری پھیرا تھ ۔ وہ تیغ را کی‬
‫آخری ی گ ر کی طرف بڑھ رہ تھ ۔ م ضی ک ہر لمحہ ش ور کے‬
‫دریچوں سے جھ نک رہ تھ ۔ اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔‬
‫اس نے سوچ تیغ را درست کہت تھ کہ دن وہ نہیں رہے دن یہ‬
‫بھی نہیں رہیں گے۔ وہ سوچ رہ تھ ا بھا اور کی تبدی ی آئے‬
‫گی۔ ج وہ ں پہنچ تو دیکھ وہ ں دری بہہ رہ تھ ۔ اس کے منہ‬

‫‘سے بےاختی ر نکل گی‬

‫دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬

‫‪109‬‬

‫کھڑ پینچ دی جئے ہو۔‬

‫ہی و مسٹر!‬
‫یو ار سویٹ اینڈ لولی ہو غور منٹ کمپ ینٹ اس دیٹ یو‬

‫پھڑک ئیٹڈ ہر برسرع اسٹ ڈے۔‬
‫وائی۔‬

‫نو حجور شی از جھوٹ م رنگ۔ آئی اون ی ون ویری س و مک‬
‫م ریڈ‬

‫او م ئی گ ڈ‘ یو بےغیرت مین۔ وائی یو مک م ریڈ ہر ان دی‬
‫ب زار۔ یو نو پیپل ور ویکھنگ اینڈ افنگ ایٹ یو‬

‫آئی ای ن ٹ بےغیرت حجور شی از بےغیرت بی ک ز شی م رڈ‬
‫می سو مےنی لیترز ویری ٹھوک ٹھوک کر پیوپل ور افنگ ایٹ‬

‫ہر ری ایکشن‬
‫اٹ از یو ار کیس وچ مے بی ڈسکسڈ لیٹر اون۔ فسٹ ٹل اس‬

‫وائی یو مک م رڈ‬
‫حجور اٹ از آ شی فل سٹوری اینڈ کن ن ٹ ن ریٹ ان دی پنچ یت‬

‫ڈونٹ وری یو گ ٹی کمی کمین‬
‫حجور آئی ن ٹ کمی کمین۔ م ئی ک سٹ از انص ری‬

‫‪110‬‬

‫او یس یو مین جوای ‪ ،‬آئی نو یو ار جوای ۔ جوای ک سٹ از ان‬
‫فیکٹ کمی کمین۔ وائل یو ار ہو گورمنٹ از قریشی گوی شی از‬

‫ن ٹ کمی کمین‬
‫یس حجور شی از مراسی۔‬
‫ڈونٹ ب رک‘ ان فیکٹ دس ورڈ از مراثی۔‬
‫از آئی ای رائٹ او یو سویٹ اینٍڈ جنٹل لیڈی‬
‫حجور یو ار ابس وٹ ی رائٹ‬
‫او مین ن ؤ س تھنگ ہری ی پہونکو‬
‫حجور شی ہیز ن ٹ ذرا بھورا شر‬

‫وٹ ہپنڈ ٹل اس‬
‫حجور شی واز مم ن ئزنگ ان دی ب زار‬
‫او م ئی گ رڈ واٹس آمیزنگ سیچویشن ول بی گوئنگ دیئر‬
‫او جنٹل اینڈ سویٹ لیڈی شو اس یو ار فن‬
‫شی سٹ رٹیڈ ہر فن ود آؤٹ اینی ہیزیٹیشن۔ ایوری ون انجوائڈ اٹ‬

‫اے اٹ‬
‫او مسٹر جواہے طا ہر ایٹ دی سپ ٹ اینڈ یو دفع دف ن فرو‬
‫ہیئر۔ شی ہیز اے ونڈرفل کوالٹی۔ ان فیوچر شی ول سٹے ہیئر۔‬

‫‪111‬‬

‫وین مسٹر جوای ڈو نٹھنگ ون مین گٹ اپ اینڈ رکھڈ پنج ست‬
‫لتر ایٹ ہیز بوٹ ۔ ہی گیو طا دایٹ سویٹ مم نئیزر اینڈ دوڑ‬
‫لگ ئیڈ۔‬
‫اٹ واز اے ن ئس فیص ہ۔ پیوپل واز ریزنگ س وگن‬
‫کھڑ پینچ دی جئے ہو۔‬

‫ن ؤ آ ڈئیز شی از سرونگ ایٹ کھڑ پینچز ڈیرہ اینڈ ارننگ اچھی‬
‫خ صی ام ؤنٹ ود ن ئس فی ۔ شی ہیزن ٹ کمپ ینٹ فرو اینی س ئڈ۔‬

‫پیوپل ار سیٹس ئیڈ اینڈ ہیپی فرو دیئر چودھری س ۔‬

‫‪112‬‬

‫سراپے کی دنی‬

‫اس کے حسن کی ت ریف کرنے بیٹھوں تو ش ید‘ بہت س ری‬
‫تشبیہ ت کے است م ل کے ب وجود‘ ب ت نہ بن پ ئے گی۔ اسے‬
‫زمین پر ہ ک تخ ی کردہ م سٹر پیس کہن ‘ کسی طرح غ ط نہ‬

‫ہو گ ۔ لب س کے اندر بھی ش ید یہ ہی صورت رہی ہو گی۔ ہ‬
‫لب س کے ب ہر پر مر مٹتے ہیں‘ ج لب س کے اندر جھ نکتے‬
‫ہیں تو سخت م یوسی ہوتی ہے۔ اسی طرح ج گوشت پوست اور‬
‫ہڈیوں کے پیچھے جھ نکنے ک موقع م ت ہے‘ تو سر پر گھڑوں‬
‫پ نی پڑ ج ت ہے۔ ج تک یہ ج ننے ک موقع م ت ہے‘ اس وقت‬

‫تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گوی‬

‫نہ ج ئے م ندن نہ پ ئے رفتن‬

‫کی کی یت ط ری ہو ج تی ہے۔ وقت گزرنے کے ب د‘ پھسی کو‬
‫پھڑکن کیس‬

‫ہی ب قی رہ ج ت ہے۔‬

‫اس کے پ س میرا کسی ک کے س س ے میں ج ن ہوا تھ ۔ اسے‬
‫دیکھ کر‘ مجھے اصل مدع ہی ی د نہ رہ ۔ وہ تو اچھ ہوا کہ میں‬
‫کچھ دیر ب د‘ اپنے آپے میں آ گی ۔ میں قری چا گی ‘ سا بای ۔‬

‫اس نے با اوپر دیکھے‘ سا ک تقریب س جوا دی ۔ میں نے‬

‫‪113‬‬

‫اسے ہی غنیمت سمجھ اور بڑے مائ اور پری بھرے لہجے‬
‫میں عرض کی ‘ میڈ میں ایک سم جی م م ے پر ریسرچ کر رہ‬

‫ہوں‘ اس ذیل میں چند ایک سواات کے جوا درک ر ہیں۔ اس‬
‫نے سر اٹھ ی اور بڑی بے رخی سے جوا دی ‪ :‬میں بہت‬
‫مصروف ہوں جو پوچھن ہے ج دی سے پوچھ لو۔‬
‫جی میڈ ‘ آپ ک ن‬
‫ت نیہ‬
‫آپ مق می ہیں ی ب ہر سے تشریف ائی ہیں‬
‫کوئی ڈھنگ ک اور مت سوال پوچھو‬
‫بہتر میڈ ‘ پڑھ ئی سے وابستہ ہیں‬
‫ای فل ف رمیسی کر رہی ہوں‬
‫اس کے چہرے کی اکت ہٹ دیکھ کر میں نے آخری سوال کی‬

‫ای فل ف رمیسی کرنے کے ب د کی جذبہ اور ارادہ رکھتی ہیں۔‬
‫اس کے ب د کی کرن ہے‘ ٹیبل پر بیٹھی ون لیگ روزانہ ک‬
‫کم ؤں گی۔‬

‫میرا خی ل تھ کہ کہے گی‘ انس ن کی بےلوث خدمت کروں گی۔‬
‫خو صورت لب س اور خو صورت سراپے میں چھپ پیٹو‬
‫شیط ن‘ میرے سوچ کی دھجی ں بکھر رہ تھ ۔ میرے سوچ ک‬

‫‪114‬‬

‫شیش محل کرچی کرچی ہو کر گندگی کی دلدل میں دھنس چک‬
‫تھ ۔ میں نے سوچ ‘ یہ کیس انس ن س پتا ہے جو من میں اپنی‬

‫ذات سے ہٹ کر‘ کچھ نہیں رکھت ۔ آگہی ک حصول محض پیٹ‬
‫کے لیے ہو گی ہے۔‬

‫پھر میں نے سوچ ‘ اتن کم کر آخر کی کر لے گی۔ کوٹھی بنگ ہ‬
‫اور بینک بی نس بن لے گی۔ اس سے کی فر پڑے گ ۔ قبر میں‬
‫تو کچھ نہیں ج سکے گ ۔ مر ج نے کے ب د‘ پی ر کرنے والوں‬

‫کو بھی ج دی ں ہوں گی۔ اش کے لیے کون بےک ر میں وقت‬
‫ض ئع کرت پھرے۔ اس کوٹھی بنگ ے اور بینک بی نس کی تقسی‬

‫پر‘ سگے بہن بھ ئیوں کے کئی یدھ ہوں گے۔ کورٹ کچری‬
‫چڑھیں گے۔ کسی کو کبھی اس کی قبر پر بھولے سے بھی‘ چ ر‬

‫پھول چڑھ نے کی توفی نہ ہو گی۔ مرنے والے نے ڈگری لے‬
‫لی‘ پیسے بھی کم لیے‘ لیکن آگہی اس ک مقدر نہ بن سکی۔‬
‫حسین گوشت پوست کے پیچھے اتنی پوشیدہ غاظت۔ توبہ بھی‬
‫میری روح میں‘ توبہ کرنے لگی۔ جھوٹ نہیں بولوں گ ‘ میں تو‬

‫اس کے سراپے کی دنی ک اسیر ہو کر‘ اسے جیون س تھی‬
‫بن نے کی سوچ بیٹھ تھ ۔ اگر ہ کی عن یت ش مل نہ ہوتی‘ میں‬

‫تو م را گی تھ ۔‬

‫‪115‬‬

‫میں ہی ق تل ہوں‬

‫ک م کبو‘ تیز قدموں سے کھیتر کی طرف بڑھ رہ تھ ۔ آج کھیتر‬
‫پر ک ک فی تھ ۔ دوسرا چودھری کے موڈ ک بھی کچھ پت نہیں‬
‫چ ت تھ ۔ اس کے بگڑنے کے لیے‘ کسی وجہ ک ہون ضروری نہ‬
‫تھ ۔ چودھرین سے اپنے لچھنوں کی وجہ سے‘ چھتر کھ ت رہت‬
‫تھ ۔ گھر ک غصہ ب ہر آ کر ک موں پر نک لت ۔ ک ک ج کوئی کرت‬
‫نہیں تھ ‘ گھر سے یوں سج سنور کر نک ت جیسے جنج چڑھنے‬
‫ج رہ ہو۔ س را دن ڈیرہ پر بیٹھ ‘ آئے گئے کے س تھ گپیں ہ نکت‬

‫ی پنڈ کی سوہنی کڑیوں کے ن ز و ادا کے قصے سنت ۔ کوئی‬
‫ہتھے چڑھ ج تی تو م فی ک دروازہ بند کر دیت ۔ ن ک می کی‬
‫صورت رہتی‘ تو س را غصہ ک موں پر نک لت ۔ س چپ رہتے‘ ہر‬

‫کسی کو ج ن اور چمڑی بڑی عزیز ہوتی ہے۔‬

‫کھیتر پر آتے ج تے اس طرح کی سوچیں اسے گھیرے رکھتیں‪،‬‬
‫غ طی ی ظ ‘ زی دتی چودھری کرت ڈال گری ک موں پر دی‬

‫ج تی۔ وہ سوچ رہ تھ ‘ یہ زندگی بھی کیسی ہے گھر ج ؤ‘ کوئی‬
‫ن کوئی مس ہ راہ روکے کھڑا ہوت ۔ ب ہر آؤ تو ک مے پر وہ کچھ‬
‫بیت ج ت جو اس کے خوا و خی ل میں بھی نہ ہوت ۔‬

‫ج وہ کھیتر پہنچ ‘ وہ ں عج کھیل رچ ہوا تھ ۔ چودھری کے‬
‫ہ تھ میں خون آلودہ چھرا تھ اور س منے ک م ابی‘ خون میں لت‬

‫‪116‬‬

‫پت پڑا تھ ۔ وہ یہ منظر دیکھ کر گھبرا گی ۔ چودھری سخت‬
‫غصے میں تھ ۔ اس نے چھرا ک مے کبو کی طرف بڑھ تے ہوئے‬

‫کہ ‪ :‬ذرا اسے پکڑن ‘ کبو نے پکڑ لی اور خود ک مے ابی کے‬
‫پ س پہنچ گی اور افسردہ و پریش ن ہو کر اس کے پ س بیٹھ گی ۔‬

‫دریں اثن پولیس پہنچ گئی اور کبو کو پکڑ لی ۔‬

‫چودھری غصے سے اٹھ اور پ ن س ت کبو کو رکھ دیں۔ مجھے‬
‫پت نہ تھ کہ ت اتنے ظ ل اور کمینے ہو۔ پولیس والوں نے کہ‬
‫چودھری ت چھوڑو‘ تھ نے ج کر ہ اس کی طبی ت ص ف کر‬
‫دیں گے۔ وہ ں موقع پر اور بھی دو تین ک مے موجود تھے‘‬
‫کسی کے منہ سے سچ نہ پھوٹ ۔ اس اچ نک ن زلی آفت نے اس‬
‫کے ہوش ہی گ کر دیے۔‬

‫تھ نے ج کر اس کی خو لترول کی گئی۔ وہ کہے ج رہ تھ ‘‬
‫میں نے کچھ نہیں کی ۔ اس کی ک کوئی سن رہ تھ ۔‬

‫ایک شپ ئی بوا‪ :‬تمہیں ہ نے کچھ نہ کرنے سے روک تھ ۔‬

‫ایک اور نے ن رہ لگ ؤ‪ :‬کچھ کر لیتے ن‬

‫ایک نے کہ ‪ :‬ا یہ ں سے ج کر کچھ کر لین‬

‫پہ ے واا بوا‪ :‬یہ ں سے ج ئے تو ہی کچھ کرئے گ‬

‫ایک جو ذرا پرے کھڑا تھ کہنے لگ ‪ :‬تو پھر یہ قتل کس نے کی‬
‫ہے۔ خون سے بھرا چھرا تو تمہ رے ہ تھ میں تھ ۔‬

‫‪117‬‬

‫حجور قتل کرن تو دور کی ب ت‘ میں تو ایس قیمتی چھرا خرید‬
‫ہی نہیں سکت ۔ چھرا تو چودھری نے مجھے پکڑای تھ ۔‬

‫الزا تراشی کرتے ہو۔ اس کے ب د اتوں مکوں اور تھپڑوں کی‬
‫برس ت ہو گئی۔‬

‫تھ نہ تو تھ نہ‘ کورٹ کچہری بھی اس کی سن نہیں رہی تھی۔‬
‫لگت تھ ‘ کہ کورٹ کچہری بھی چودھری ہی کی تھی۔ ہر کوئی‬
‫اسے دشن کر رہ تھ ۔ اس کی تو کوئی سن ہی نہیں رہ تھ ۔‬

‫م جرے کو آنکھوں سے دیکھنے والے‘ اس کے ہی گری‬
‫س تھی تھے۔ وہ بھی دیکھ اور ج ن کر‘ کبو ہی کو مجر ٹھہرا‬

‫رہے تھے۔ اس کے ح میں‘ ایک بھی نہ تھ ۔ ہر کوئی اسے‬
‫ق تل کہے ج رہ تھ ۔ اس نے سوچ ‘ ج اتنے لوگ کہہ رہے‬
‫ہیں کہ میں ق تل ہوں تو یقین میں ہی ق تل ہوں۔ پھر اس نے کہن‬
‫شوع کر دی ‪ :‬ہ ں ہ ں میں ہی ق تل ہوں۔۔۔۔ابی کو میں نے ہی قتل‬

‫کی تھ ۔‬

‫‪118‬‬

‫خی لی پاؤ‬

‫ہ بخشے پہ خ د بڑے ہنس مکھ اور جی دار قس کے بندے‬
‫تھے۔ خوش ح لی سے تہی دست ہوتے ہوئے بھی‘ انہیں کبھی‬
‫کسی نے رنج و مال کی ح لت میں نہ دیکھ ۔ منہ میں خوش بول‬
‫رکھتے تھے۔ کبھی کسی کو م و نہ ہو سک کہ اندر سے کتنے‬
‫دکھی ہیں۔ ان کی بیگ فیج ں‘ اتنی ہی سڑیل اور بدمزاج تھی۔‬

‫کردار کی بھی ص ف ستھری نہ تھی۔ مزے کی ب ت یہ کہ گھر‬
‫سے کبھی کسی نے دونوں کی اونچی آواز تک نہ سنی تھی۔ یہ‬
‫تو محض خوش فہمی ہو گی کہ ان کے درمی ن ت خی نہ ہوتی ہو‬

‫گی۔‬

‫ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے اڈ پی ر کر رہے تھے۔ منہ سے بھی‬
‫بہت کچھ کہے ج رہے تھے۔ کہہ رہے تھے‘ میں اپنے بیٹے‬

‫کو ڈاکٹر بن ؤں گ ‘ پھر سونے کے سہرے سج کر‘ ہ تھی پر بٹھ‬
‫کر‘ پیچھے گ ڑیوں کی قط ر ہو گی‘ بہو بی نے ج ؤں گ ۔ اس کی‬

‫ش دی پر بٹیروں کے گوشت کی دیگیں چڑھیں گی۔‬

‫س تھ میں بیسیوں بکرے زبح کر ڈالے۔ میٹھے میں بھی بہت‬
‫س ری چیزیں دستر خوان پر سج دیں۔‬

‫میں کچھ دیر تو ان کی آسم ن بوس ب تیں سنت رہ ۔ پھر مجھ‬
‫سے چپ نہ رہ گی ‘ میں نے پوچھ ہی لی ‘ پہ جی یہ آپ کی کہہ‬

‫‪119‬‬

‫رہے ہیں۔ یہ س کچھ کیسے ہو سکے گ ۔ میری طرف انہوں‬
‫نے ہنس کر دیکھ اور کہ ‘ ج خی لی پاؤ پک ی ج رہ ہو تو‬
‫راشن رسد کی کیوں کمی رکھی ج ئے۔ یہ کہہ کر ان کی آنکھیں‬

‫لبریز ہو گیئں‘ ہ ں منہ سے کچھ نہ بولے۔‬

‫میں نے سوچ ‘ کہہ تو ٹھیک رہے ہیں۔ ہم رے لیڈر ص حب ن‬
‫ووٹ کی حصولی کے لیے بڑے خی لی پاؤ پک تے ہیں۔ راشن‬

‫رسد کی اس میں کمی نہیں چھوڑتے۔ ایسے ایسے نقشے‬
‫کھنچتے ہیں‘ کہ شداد کی ار بھی کوسوں کے ف ص ے پر چ ی‬

‫ج تی ہے۔ امن و سکون کی وہ فض ‘ خی لوں اور خوابوں کو‬
‫سکھ چین سے نوازتی ہے۔ عم ی طور پر بھوک‘ دکھ‘ درد اور‬
‫مصیبت ان کے کھیسے لگی ہے۔ ہ ں البتہ یہ رشک ار دنی ‘ ان‬

‫لیڈروں کی دنی میں ضرور بسی چ ی آتی ہے۔ گم شتے انہیں‬
‫س اچھ ک سندیسہ سن تے آئے ہیں۔‬

‫اگر عورت چ ہے تو ص ر کو بھی‘ سو کے مرتبے پر ف ئز کر‬
‫سکتی ہے۔ اگر الٹے پ ؤں چ نے لگے تو سو کو ص ر بھی نہیں‬

‫رہنے دیتی۔ دوسرا گری صرف خوا ہی دیکھ سکت ہے‘ اس‬
‫سے آگے اس کی اوق ت و بس ت ہی نہیں ہوتی۔ فیج ں کو تو اہل‬
‫اخگر سے‘ موج مستی سے ہی فرصت نہ تھی‘ شوہر اور بچوں‬

‫پر کی توجہ دیتی۔ وہ م کی لیڈر ص حب ن کے قدموں پر تھی۔‬

‫‪120‬‬

‫ایک روز پت چا‘ اس نے پہ خ د سے طا لے لی ہے اور‬
‫کسی کے س تھ چ ی گئی ہے۔ پہ خ د اکیا ہی زندگی کی گ ڑی‬
‫چات رہ ۔ ایک روز شرا کے نشہ میں دھت‘ ایک سیٹھ ص ح‬
‫کی گ ڑی کے نیچے آ کر‘ ہ کو پی را ہو گی ۔ بچے در بہ در ہو‬
‫گئے۔ جس بچے کو وہ ڈاکٹر بن ن چ ہت تھ ‘ منڈی میں پ ے داری‬

‫کرنے لگ ۔ ب د میں اری اڈے ہ کری کرنے لگ ۔ اس کی ایک‬
‫مزدور کی بیٹی سے ش دی ہو گئی۔ ہ نے اسے چ ند س بیٹ‬
‫عط کی ۔ بےشک ب پ کی طرح بڑا محنتی ہے اور آج کل ب پ کے‬
‫سے خی لی پاؤ پک ت ہے۔ اس کی بیوی سگھڑ ہے‘ ع بی کی‬
‫وف دار بھی ہے۔ کچھ کہ نہیں ج سکت کہ اس کے خی لی پاؤ‬

‫کسی حد تک سہی‘ منزل پ ہی لیں۔‬

‫‪121‬‬

‫ت ی اور روٹی‬

‫وہ ک پڑھ لکھ ک می ہنرمند تھ ۔ گزارے سے بڑھ کر کم لیت‬
‫تھ لیکن اپنی ایک الگ سے فکر رکھت تھ ۔ ہنرمندوں کی‬

‫بدح لی اسے خون کے آنسو رواتی۔ کی کر سکت تھ ۔ وہ کی ‘‬
‫م مات روٹی ٹکر میں بڑے بڑے کھنی خ ن مجبور و بےبس‬

‫ہو گیے تھے۔ دفتر ش ہی ہو کہ انتظ میہ‘ اقتداری طبقے کی‬
‫گم شتہ چ ی آتی تھی۔ اسی طرح اقتداری طبقہ اس کے بغیر زیرو‬

‫میٹر تھ ۔‬

‫وہ دیر تک سوچت رہ ‘ آخر ہنرمند طبقے کی کس طرح مدد‬
‫کرے۔ پھر اسے ایک خی ل سوجھ ۔ خوشی سے اس ک چہرا‬
‫دمک اٹھ اور اس نے ت ی ایسے مشکل گزار رستے پر چ نے‬
‫ک فیص ہ کر لی ۔ کت ‘ ک پی اور ق کی خریدداری کے لیے اس‬
‫کے پ س پیسے تھے۔ ت یمی م مات میں مشکل پیش آ ج نے‬

‫کی صورت میں م سٹر نور دین سے رابطہ ممکن تھ ۔‬

‫صبح اٹھتے ہی‘ وہ س سے پہ ے کت بوں کی دک ن پر گی ۔ پ نچ‬
‫پ س تھ ‘ چٹھی کی کت بیں‘ ایک بڑا رجسٹر اور ق خرید کی ۔ اس‬

‫نے یہ غور ہی نہ کی کہ پڑھے لکھے ب ش ور طبقے‘ روز اول‬
‫سے‘ ش ور سے ع ری ب اختی ر طبقے کی چھتر چھ ؤں میں‬

‫زندگی کرتے آئے ہیں۔ ہنرمندوں کو‘ مکہ بردار اپنے محل اور‬





‫‪124‬‬

‫بوسیدہ اش‬

‫شب مرزا ایمرجنسی وارڈ میں پڑا‘ زندگی کی آخری گھڑی ں گن‬
‫رہ تھ ۔ ڈاکٹر اور نرسیں‘ اس کی زندگی بچ نے کی کوشش کر‬
‫رہے تھے۔ اس پر کھل گی تھ کہ ا کہ نی‘ اپنے انج کو پہنچ‬

‫چکی ہے۔ دوا دارو دوب رہ سے‘ اسے زندگی کی ش ہراہ پر ا‬
‫کر‘ کھڑا نہیں کرسکتے۔ بچ بھی گی تو وہ پہ ے سی توان ئی‘‬
‫میسر نہ آ سکے گی۔ وہ زندگی بھر کسی ک سہ را نہیں بن ‘ اس‬

‫ک کوئی کیوں سہ را بنے گ ۔ ہر کسی ک قول و ف ل‘ محض‬
‫دکھ وے اور اسے خوش کرکے‘ کچھ ح صل کرنے کے لیے ہو‬

‫گ۔‬

‫زندگی ک ہر بیت لمحہ‘ اس کی آنکھوں کے س منے گھو گھو‬
‫گی ۔ ابھی وہ اتن بڑا نہیں ہوا تھ کہ اسے لذت ک احس س ہو گی ۔‬

‫ہوا یوں کہ ان کے گھر اس کی خ لہ اور اس کی بیٹی م نے ی‬
‫کسی ک سے آئیں۔ خ لہ نے اسے گ ے لگ ی اور اس کی بائیں‬
‫لیں۔ اس کی خ لہ زاد‘ جو عمر میں کوئی اس سے زی دہ بڑی نہ‬
‫تھی‘ بھی اسے گ ے م ی۔ خ لہ کے گ ے م نے میں کوئی مزا نہ‬
‫تھ لیکن خ لہ زاد کے م نے سے‘ اس کے بدن میں عج سی‬
‫لذت دوڑ گئی۔ وہ اسے ب ر ب ر م ن چ ہت تھ ۔ اس کے رونگٹے‬
‫میں ان ج نی سی ہ چل مچ گئی۔ کئی ب ر کھڑا بھی ہوا۔ ش ید اس‬

‫‪125‬‬

‫لڑکی کی است دہ میں بھی یہ ہی کی یت رہی ہو گی۔‬

‫اس کی ام ں اور خ لہ ب توں میں جھٹ گئیں۔ سسرالی خ ندانوں‬
‫کی خ می ں موضوع گ تگو تھیں۔ وہ تو اپنے مج زی خداؤں کو‬

‫بھی لت ڑے چ ی ج رہی تھیں۔ وہ اور اس کی خ لہ زاد‘ اپنی‬
‫م ؤں کے ب ہمی مذاکرات سے بےنی ز‘ روم ن کی دنی آب د کیے‬
‫ہوئے تھے۔ یہ س س ہ اس وقت تک چ ت رہ ‘ ج تک اس کی‬

‫خ لہ نے اپنی بیٹی کو آواز نہ دے دی۔‬

‫لذت کے اس احس س نے‘ اسے متحرک کر دی ۔ ت یمی م مات‬
‫طے کرنے کے لیے‘ اس نے ہر ج ئز ن ج ئز حربہ اختی ر کی ۔ یہ‬
‫ہی طور اس نے اچھے روزگ ر کے لیے اپن ی ۔ اچھی رہ ئش اور‬
‫اس کے لوازم ت کے لیے ج ئز کو مستقل طور پر‘ زندگی سے‬
‫خ رج ہی کر دی ۔ دنی کی کون سی ایسی آس ئش ہو گی‘ جو اسے‬

‫میسر نہ آئی۔ کوٹھی‘ ک ر‘ بنگ ہ‘ بینک بی س‘ نوکر چ کر گوی‬
‫س کچھ اس کے کھیسے لگ چک تھ ۔ ایسے ح ات میں‘ بڑے‬

‫گھر کی بیٹی بھی رون افروز ہو گئی۔ وہ ہی کی ‘ حسین ؤں ک‬
‫ایک ہجو اس کے گرد رہت ۔ اس ک قر ‘ بڑے حسن اور ن ز و‬

‫ادا والیوں کو ہی نصی ہوت ۔‬

‫رونگٹ ذرا ک زور پڑت تو دواؤں ک انب ر لگ ج ت ۔ اٹھنے‬
‫بیٹھنے‘ آنے ج نے‘ کھ نے پینے‘ سونے ج گنے غرض ہر نوع‬
‫کی لذت اس کے قد لیتی رہی۔ آخر ک تک‘ م دہ اپ سٹ رہنے‬

‫‪126‬‬

‫لگ ۔ رونگٹ بھی ڈھیٹ س ہو گی ۔ ب ہر تو ب ہر‘ اس ذیل میں گھر‬
‫پر بھی ذلت اٹھ ن پڑتی اور وہ وہ ب تیں سنت ‘ جن ک وہ کبھی‬

‫سوچ بھی نہیں سکت تھ ۔ م ں کی دیکھ دیکھی‘ بچے بھی اس‬
‫کی پرواہ چھوڑ گیے۔ ا وہ ب اختی ر افسر نہیں تھ جو اردگرد‬

‫چمچے کڑچھے ہوتے۔ ب ہر نک ت تو ن انص فی برداشت کرنے‬
‫والوں کی غصی ی نظریں کھ نے کو دوڑتیں گھر آت تو ن دیہ پ گل‬
‫کتی کی طرح‘ ک ٹنے کو آتی۔ لذت نے آزار ک بھیس اختی ر کر لی‬

‫تھ ۔‬

‫ایک دو دن نہیں‘ پ نچ سے زی دہ عرصہ‘ اس نے ذلت و عذا‬
‫میں گزارا۔ رونگٹے کی بےوف ئی اس ح لت تک لے آئی تھی۔‬
‫ہسپت ل بھی اسے شر کوشرمی ای گی تھ دوسرا س را دن اس‬
‫عذا کو کون جھی ت ۔ یہ ں س بقہ سرک ری افسر ہونے کی وجہ‬
‫سے‘ کسی حد تک سہی‘ خدمت میسر آ رہی تھی۔ وہ آنکھیں بند‬
‫کیے یہ ہی سوچے ج رہ تھ کہ لذت کے لمحے آخر کیوں خت‬
‫ہو ج تے ہیں۔ آخر س کچھ برقرار کیوں نہیں رہت ۔ پھر اس نے‬
‫سوچ کہ اگر زندگی کی لذت کو استحق نہیں تو زندگی کی اذیت‬
‫کو بھی بق نہیں ہو سکتی‘ یہ بھی خت ہو ج ئے گی۔ سوچوں‬
‫کے گردا میں پھنسی اذیت آمیز زندگی نے‘ آخری ہچکی لی‬

‫اور پھر وہ ں ایک بوسیدہ اش کے سوا کچھ ب قی نہ رہ ۔‬

‫‪127‬‬

‫وب ل دیکھیے‬

‫الے دینو سے‘ اکثر چ ئے کے کھوکھے پر ماق ت ہوتی رہتی‬
‫تھی۔ اس کے محنتی اور مشقتی ہونے میں‘ کوئی شک نہیں۔‬

‫س را دن ریڑھی پر سبزی بیچت اور رات کو ریڑھی گھر ڈک کر‘‬
‫یہ ں چ ر ی ری میں آ بیٹھت ۔ ہ س مل کر گپ شپ کرتے‘ ہنسی‬
‫مذا بھی خو چ ت ‘ دن بھر کی ب تیں ہوتیں‘ سی سی موضوع ت‬

‫بھی گ تگو میں آ ج تے‘ ذاتی م مات پر مش ورت ہوتی۔‬

‫شقے کو بیوی کی بدس وکی کے سوا‘ کچھ نہ آت تھ ۔ غری تو‬
‫س رے ہی تھے‘ لیکن لبھے پر غربت کچھ زی دہ ہی ن زل ہو گئی‬

‫تھی۔ ط فی نے چوں کہ داڑھی رکھی ہوئی تھی‘ اس لیے ہ س‬
‫اسے مولوی کہہ کر پک رتے‘ مس م ن جرنی وں کے کچھ ت ریخی‬

‫اور کچھ پ س سے گھڑ گھڑ کر قصے سن ت ۔ اگر پڑھ لکھ ہوت‬
‫تو دوھ ئی ک کہ نی ک ر ہوت ۔ الے دینو کو اپنے بڑوں کی وڈی ئی‬

‫کے سوا کچھ نہ آت تھ ۔ وہ وہ چھوڑت ‘ کہ ہ س دھنگ رہ‬
‫ج تے۔ اکبر ب دش ہ بھی ج ہ و جال اور م ل و من ل میں پیچھے‬

‫رہ ج ت ۔‬

‫صدیق منہ پھٹ بھی ہم ری سا دع میں ش مل تھ ۔ اس ک ک‬
‫ہی ہر اچھے برے‘ سچ جھوٹ پر تنقید کرن تھ ۔‬

‫تنقید‘ مولوی اور الے دینو کو تو آڑے ہ تھوں لیت تھ ۔ اس کی‬

‫‪128‬‬

‫کسی حد تک غ ط بھی نہ تھی۔ اس ک کہن تھ ‘ ان جرنی وں نے‬
‫اسا نہیں پھیای ۔ جرنیل مس م ن ہوں ی غیرمس ‘ قتل و غ رت‬
‫ک ہی ب زار گر کرتے آئے ہیں‘ ان پر فخر کیس ‘ ہ ں دات ص ح‬

‫ی ایسے دوسروں نے‘ اپنے عجز و انکس ر‘ پی ر‘ رواداری‘‬
‫بھ ئی چ رے‘ انس نی برابری کے درس سے اسا پھیای ہے۔‬
‫اسی طرح الے دینو سے کہت ‘ او چھوڑو ی ر‘ جو ت بت تے ہو‘‬

‫وہ ہوں گے‘ دیکھن تو یہ ہے کہ ت کی ہو‘ بس م ضی پر‬
‫اتراتے رہو اور خود ص ر رہو۔ ی ر ہمیں بھی کوئی خ ص کرن‬

‫چ ہیے ت کہ آتی نسل کے ک آ سکے۔‬

‫اکثر م م ہ بحث اور پھر تو تکرار کی حدوں کو چھونے لگت ۔‬
‫میرا موقف تھ ‘ اس بیٹھک کو شغل می ے تک رہن چ ہیے۔‬

‫کوشش کے ب وجود‘ تو تکرار ہو ہی ج تی۔ اس روز اا دینو‬
‫کچھ زی دہ ہی گر ہو گی ۔ صدیق بھی تو زب ن کو ت لہ نہیں لگ‬
‫رہ تھ ۔ صدیقے نے الے دینو ک گریب ن پکڑ لی ۔ الے دینو نے‬
‫وٹ کر صدیقے کے سینے میں گھونسہ م را اور وہ نیچے گر‬
‫پڑا۔ الے دینو کے وہ وگم ن میں بھی نہ تھ کہ صدیقہ زمین پر‬
‫آ رہے گ ۔ ا وہ ہی س سے زی دہ ترلے لینے والوں میں تھ ۔‬

‫افسوس صدیق الے دینو کی ایک نہ سہہ سک اور ہ کو پی را ہو گی ۔‬
‫پ س آئی اور ہ س کو پکڑ کر لے گئی۔ ہم ری تو کچھ جھڑ جھڑا کر‬
‫تھ نے سے رخصتی ہو گئی ہ ں الے دینو کو پھنٹی کے س تھ جیل بھی‬
‫ج ن پڑا۔ وب ل دیکھیے‘ ہمیں بھی ب طور گواہ ح ضری پر رکھ لی گی ۔‬

‫‪129‬‬

‫عصری ضرورت‬

‫میں جدید لبرل مس م ن ہوں اور یہ س ج نتے ہیں‘ بت نے کی‬
‫ضرورت نہیں۔ ایک شیط ن ہی ہے جو نہیں م نت ‘ اس ک کہن ہے‬

‫کہ میں اس ک ہ پیشہ و ہ مشر ہوں۔ پرسوں ہ انٹرنیشنل‬
‫ف ئیو سٹ ر ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آتے ج تے جوڑوں کے‬
‫لب س اور ان کے طور و اطوار کو پرذو اور پرحسرت نگ ہوں‬

‫سے دیکھ رہے تھے۔ یقین م نیئے ہر آنے والی ک حسن و‬
‫جم ل اور ادائیں‘ ک ش کے تند و تیز چھرے سے‘ میری روح کو‬
‫زخمی کر رہی تھیں۔ بدبخت پ س ہی بیٹھ ‘ ان کے حسن و جم ل‬

‫اور اداؤں سے ک ‘ میری بےچینی پر زی دہ خوش ہو رہ تھ ۔‬

‫بیٹھ بیٹھ اچ نک سنجیدہ س ہو گی ۔ میں نے پوچھ ‘ او س لے یہ‬
‫اچ نک تمہ را بوتھ شریف کیوں لمک گی ہے۔ کہنے لگ ی ر دنی‬

‫بڑی خودی غرض ہے۔‬

‫کیوں کی ہو گی‬

‫ہون کی تھ ‘ پرسوں بھ بی اور بٹی ادھر ہی‘ م کوں کے ایک‬
‫شوخے کے س تھ آئے ہوئے تھے۔ ک بخت بھ بی ک آن پسند‬
‫نہیں کر رہ تھ ۔ پہ ے اس نے اپن مط نک ل لی ۔ بھ بی نے کی‬
‫کہن تھ ‘ بےچ ری چپ چ پ بیٹھی ن شتے پ نی ک انتظ ر کر رہی‬
‫تھی۔ ک فی دیر ب د کھ نے میں ک فی کچھ منگوای گی ۔ خود بھی‬

‫‪130‬‬

‫کھ ت مرت رہ ۔ پھر واش رو ج نے کے بہ نے سے اٹھ اور‬
‫کھسک گی ۔ ان بےچ ریوں نے چھوٹے کے ہ تھ پیسے منگ ئے‬

‫اور وہ ں سے خاص ہوئیں۔‬

‫مجھے بڑا ت ؤ آی ۔ ان کی اس بیٹھک ک تو مجھے ع تھ ‘ لیکن‬
‫م کوں کے شوخے کی اس کمینی حرکت سے آگ ہ نہ تھ ۔ س‬

‫بےمزا اور کرکرا ہو گی ۔ دل چ ہت تھ کہ اس شوخے کے ڈکرے‬
‫ڈکرے کر دوں۔ میں نے اسے کہ ‘ ی ر بس ا اٹھو‘ چ تے ہیں۔‬

‫دنی کی چ ل ب زی پر مجھے دکھ اور افسوس ہوا۔ م مات میں‬
‫آدمی کو اتن بھی نہیں گرن چ ہیے۔ میں اگر جھوٹ بولت ہوں‘ تو‬
‫لوگ میرے کہے ک یقین کرتے ہیں۔ اگر یقین نہ کریں تو مجھے‬

‫کی پڑی ہے‘ جوجھوٹ بولوں۔‬

‫م مات میں‘ میں نے کبھی دونمبری نہیں کی۔ وہ پیسے دیتے‬
‫ہیں‘ میں گواہی دیت ہوں۔ ان ک احس ن نہ میرا احس ن۔ رشوت کی‬

‫رق م ت میں تو نہیں لیت ‘ ک کرت اور کروات ہوں۔ کسی‬
‫دوسرے دفتر سے ک کروات ہوں تو ٹن پرسنٹ میرا اصولی ح‬
‫بنت ہے۔ میں دودھ میں پ نی مات ہوں تو اس میں غ ط کی ہے‘‬

‫پیچھے سے ک کھرا آت ہے۔ میرا پ نی مان دکھت ہے تو‬
‫سپائی کرنے واا کیوں نظر نہیں آت ۔ دوسرا میں کون س زور‬
‫زبردستی فروخت کرت ہوں‘ نہ خریدیں۔ انہیں حکی نے کہ ہے‘‬

‫جو وہ پ نی ی کیمیکل ما دودھ خریدتے ہیں۔ خریددار کے س‬

‫‪131‬‬

‫ع میں ہے تو یہ دو نمبری کس حس سے ہوئی۔‬

‫میں لبرل م ڈرن مس م ن ہوں‘ دو نمبری کو غ ط اور ق بل ت زیر‬
‫سمجھت ہوں۔ عہد قدی کے مس م نوں ک دائرہ محدود تھ ‘ اس‬
‫لیے اصول بھی اسی دور کے مط ب تھے۔ میرا واسطہ گ وبل‬
‫ہے۔ امریکہ اور ج پ ن ا دو قد کے م ک رہ گئے ہیں‘ لہذا‬

‫مجھے عصری اصولوں کو ف لو کرن ہوت ہے۔ حضرت بال‬
‫حضور کری کے قری تھے‘ لہذا وہ ویسے تھے۔ حضور کری‬

‫میرے قری نہیں ہیں‘ کی یہ میری برخورداری نہیں کہ میں‬
‫حضور کری سے بڑی محبت کرت ہوں‘ ہ ں ان کے کہے پر نہیں‬

‫چ ت ‘ بل کہ آج کی ضرورت کے مط ب زندگی کر رہ ہوں۔‬

‫لبرل م ڈرن مس م ن ہونے کے ن تے‘ گیو ٹیک کو اپن ئے ہوئے‬
‫ہوں۔ میں نے ہر اس عورت کو اپنی م ں بہن سمجھ ہے جو‬
‫میرے س تھ پھنستی نہیں۔ بڑی س لی تکبر میں رہی‘ میں نے‬
‫بھی اسے جوتے کی نوک پر رکھ ۔ ہمیشہ ب جی ب جی کہہ کر‬

‫مخ ط کی ہے۔ ہ ں چھوٹی لبرل م ڈرن مس م ن تھی‘ اس سے‬
‫سا دع ہو گئی۔ اس کی ش دی ہو گئی‘ ا ج کبھی آتی ہے‘‬
‫تو ہم را گیو ٹیک ہو ج ت ہے۔ ہ ں البتہ س س مجھ پر مہرب ن ہے‬

‫تو میں بھی اس کے م م ہ میں بخیل نہیں۔‬

‫مجھے م کوں کے شوخے پر ت ؤ آت ہے‘ بےغیرت دونمبری‬
‫کرت ہے۔ کچھ لی ہے تو کچھ دو بھی۔ ایسے ہی دو نمبر لوگ‬

‫‪132‬‬

‫ق بل ت زیر ہوتے ہیں۔ اگر م ک کی ب گ ڈور میرے ہ تھ میں آ‬
‫ج ئے تو اس طور کے ہر دونمبری کو‘ چوراہے میں الٹ لٹک‬
‫دوں ت کہ کسی کو دونمبری کرنے کی جرآت ہی نہ ہو۔ وہ لبرل‬
‫م ڈرن مس م ن نہیں ہیں‘ مولوی کو‘ ایسے دو نمبریوں پر ک ر‬
‫ک فتوی لگ دین چ ہیئے۔ مولوی عصری ضرورت سے ہٹ کر‘‬
‫فتوی س زی میں مصروف ہیں۔ انہیں آج کی ضرورت اور حق ئ‬
‫کے مط ب چ ن ہو گ ‘ ورنہ انہیں لبرل م ڈرن مس م ن نہیں کہ‬

‫ج سکت ۔‬

‫‪133‬‬

‫ام ں جین ں‬

‫ام ں جین ں مح ہ کی ‘ اردگرد کے مح وں میں بھی پسند نہیں کی‬
‫ج تی تھی۔ اسے بیوہ ہوئے آٹھ س ل ہو گئے تھے۔ اس ک خ وند‬

‫مشقتی تھ ‘ لیکن تھ بھا آدمی۔ صبح ک پر چا ج ت اور رات‬
‫دیر تک مشقت کرت ۔ اس نے اپنی محنت سے‘ چھوٹ اور کچ‬

‫پک ذاتی مک ن بھی بن لی تھ ۔ ضرورت کی ہر شے اس میں ا‬
‫کر رکھ دی تھی۔ جتن ایک مشقتی سے ممکن ہوت ہے کی ۔ اپنی‬

‫بوار بیوی کو ہر طرح ک سکھ‘ فراہ کرنے ک جتن کی ۔‬
‫ام ں جین ں نے اپنے خ وند سح کے کے ہر رشتہ دار‘ یہ ں تک‬
‫کہ اس م ں کی بھی دڑکی لگ دی۔ وہ بڑی برداشت ک م لک تھ ۔‬

‫اس زی دتی کو کوڑا گھونٹ سمجھ کر پی گی اور حس م مول‬
‫محنت مشقت پر جھٹ رہ ۔ م ں اور بہن بھ ئیوں کو وقت نک ل کر‬

‫مل لیت ۔ ہ ں البتہ پ نچ دس منٹ کے لیے سہی‘ م ں کو ہر روز‬
‫بھرج ئی کے کوسنے سن کر بھی‘ م نے چا ج ت ۔ م و پڑ‬

‫ج نے کے ب د جین ں بھی وقت کووقت اور اپنے خ وند کی ح لت‬
‫دیکھے بغیر‘ منہ میں زب ن رکھن بھول ج تی۔‬

‫اس کی زب ن نے ب بے سح کے کے اپنے تو اپنے‘ م نے والے‬
‫بھی بہت دور کر دیے تھے۔ ہر کوئی اس سے ب ت کرتے ڈرت ‘‬

‫‪134‬‬

‫مب دا کوئی گاواں ہی گ ے آ پڑے گ ۔ الٹی کھوپڑی کی م لک‬
‫تھی‘ سیدھی ب ت کو غ ط م نوں میں لے لیتی تھی۔ مثا کوئی‬

‫بھولے سے بھی پوچھ بیٹھت ‪ :‬م ئی جین ں کی ح ل ہے۔ جوا‬
‫میں اسے یہ ہی سنن پڑت ‘ اندھے ہو نظر نہیں آت ‘ چنگی بھ ی‬

‫ہوں۔ ج ایسی صورت ہو تو کوئی اس کے منہ کیوں لگت ۔‬

‫منہ متھے لگتی تھی‘ عاقے میں انھی ڈال سکتی تھی۔ ہمیشہ‬
‫سے بوڑھی نہ تھی۔ مج ل ہے کوئی اس کے ب رے غ ط بھی‬
‫سوچت ۔ کھگو نے جوانی کے دور میں‘ ٹرائی م ری تھی۔ اس‬

‫کے س تھ کی ہوا جگ ج نت ہے۔ ج بھی وہ نظر آ ج ت ‘ شروع‬
‫ہو ج تی۔ اس نے م فی بھی م نگی لیکن جین ں نے م ف نہ کی ۔‬

‫اس ک موقف تھ کہ کھگو کو ایسی جرآت ہی کیوں ہوئی۔ اس‬
‫نے ایس سوچ بھی کس طرح لی ۔ چوں کہ قری کی گ ی کے‬

‫تھے‘ وہ گ ی دیکھ کر گزرت ۔ اگر جین ں نظر آ ج تی تو بل ب ش‬
‫ہو ج ت ۔ اس کے برعکس اگر جین ں کی اس پر نظر پڑ ج تی‘ تو‬
‫رانی توپ ک منہ کھل ج ت ۔ ج تک زندہ رہ ‘ نزع کی ح لت میں‬

‫ہی رہ ۔‬

‫ام ں جین ں کی کوئی اواد نہ تھی۔ خ وند کے مرنے کے ب د‬
‫بےسہ را سی ہو گئی۔ پورے مح ہ میں کوئی اسے پوچھنے واا‬
‫نہ تھ ۔ ج تک گھر پر جمع پونجی ب قی رہی‘ گزارا کرتی رہی۔‬
‫ف قوں پر آ گئی‘ اس نے کسی پر ظ ہر تک نہ کی ۔ س کچھ ذات‬

‫اور آنسوؤں میں ضبط کرتی رہی۔ میری گھروالی کو ج نے‬

‫‪135‬‬

‫کیسے م و ہو گی ۔ اس نے ب ت میرے س منے رکھی۔ مجھے‬
‫عزت عزیز تھی۔ میں اس کی مدد کرن چ ہت تھ ‘ لیکن ڈرت تھ‬

‫کہ کہیں م م ہ گ ے ہی نہ آ پڑے۔‬

‫ایک دن گ ی سے گزر رہ تھ ‘ ام ں جین ں اپنے گھر کی دہ یز پر‬
‫اداس اور افسردہ بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ میں دور سے‘ جو اسے‬

‫سن ئی دے رہ ج ی بڑبڑات ہوا اس کے قری سے گزرا۔ اس‬
‫نے مجھے کبھی اس انداز میں نہ دیکھ تھ ۔ قری آی تو اس‬

‫‪:‬نے پوچھ ہی لی‬

‫پتر کی ہوا‬

‫م ں جی ہون کی ہے‘ کیس دور آ گی ہے‘ پیسے پورے لے کر‬
‫بھی چیز درست نہیں دیتے۔ میرے بیگ میں کی ے تھے میں نے‬

‫کی ے انہیں پکڑائے اور خود دوب رہ سے بڑبرات ہوا آگے بڑھ‬
‫گی ۔ اس نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھ اور کی ے لے کر‬

‫اندر چ ی گئی۔‬

‫مجھے شہہ مل گئی اور پھر میں‘ آنے بہ نے ام ں جین ں کو‬
‫کچھ ن کچھ دے کر ک پر چا ج ت ۔ ایک مرتبہ میں نے کچھ‬
‫پیسے بھی چیز کے س تھ رکھ دیے۔ اگ ے روز گھر واپس آتے‬
‫اس نے مجھے روک لی اور کہ غ طی سے پیسے بھی آ گیے‬
‫تھے۔ میں نے کہ نہیں م ں جی‘ آپ کے حصہ ہی کے تھے اور‬
‫میں ج دی سے وہ ں سے رخصت ہو گی ‘ کہ کوئی تم ش کھڑا نہ‬

‫‪136‬‬

‫کر دے۔ ج اگ ے دن وہ ں سے گذرا تو دیکھ ‘ ام ں کی آنکھوں‬
‫میں تشکر لبریز آنسو تھے۔ سچی ب ت ہے میری بھی آنکھیں‬

‫چھ ک پڑیں۔ اس کے ب د میں باڈرے اس کی خدمت کرنے لگ ۔۔‬

‫دن گزر گئے‘ اور آج ام ں کو ح ہوئے بھی کئی س ل ہو چ ے‬
‫ہیں۔ کوئی نہیں ج نت تھ ‘ وڈ ٹک سے پہ ے ام ں بڑے کھ تے‬
‫پیتے خ ندان کی تھی۔ سح ک ہی اسے زخمی ح لت میں‘ اس کی‬
‫ج ن بچ کر لے آی تھ ورنہ ہ ج نے اس کے س تھ کی گزرتی۔‬
‫ام ں نے سح کے کے س تھ نک ح کر لی ۔ سح ک ازدواجی م مات‬
‫میں پیدل تھ ‘ ام ں نے پھر بھی پ ک ص ف رہ کر زندگی گزار‬

‫دی۔‬

‫م ئی صوب ں ک یہ انکش ف‘ حیرت سے خ لی نہ تھ ۔ س خائی‬
‫س م و ہو رہ تھ ۔ سچ میں‘ ہ کی اس زمین پر یہ وقوع میں‬

‫آ چک تھ ۔‬

‫‪137‬‬

‫اس ک ن ہدایت ہی رہ‬

‫تجربہ زندگی کو سنوارت ‘ نکھ رت اور ب ض اوق ت شخصیت میں‬
‫انقا برپ کر دیت ہے۔ ہداتے اور اس کی رن م جدہ ک ‘ ہر‬

‫دوسرے تیسرے رن کچھ س رن لگت ۔ وہ جند ج ن میں اس سے‬
‫کہیں بھ ری تھی۔ اڑبڑ کرت ‘ تو سیدھ چمٹ چاتی‘ جو اس کے‬
‫کہیں ن کہیں آ لگت ۔ آش ں ک نش نہ بڑے کم ل ک تھ ۔ اس کے وڈ‬
‫وڈیروں میں یقین کوئی بہت بڑا شک ری رہ ہو گ ۔ ایک ب ر تو‬

‫سیدھ وہ ں سے‘ تھوڑا ہی ف ص ے پر آ لگ ۔ کئی دن ٹ نگیں‬
‫چوڑی کرکے چ ت رہ ۔ اگر خدا نخواستہ وہ ں لگ ج ت ‘ تو آج‬
‫صحن میں اٹھکی ی ں کرتی منی سے ہ تھ دھو بیٹھتے۔ اس چوٹ‬
‫نے آش ں پر تو کوئی اثر نہ ڈاا‘ ہ ں البتہ اس تجربے نے اس‬
‫کے م مول میں انقابی تبدی ی ضرور کر دی۔ ا ج بھی رن‘‬
‫رن میں اترنے ک موڑ بن تی‘ یہ فورا سے پہ ے گھر کی دہ یز‬

‫کے اس پ ر ہوت ۔‬

‫وہ اندر ف ئرنگ کرتی یہ ب ہر کھڑا کبھی گولے اور کبھی تھری‬
‫نٹ تھری کی گولی ں چات ۔ ہ ں البتہ‘ ہر دو تین گولی ں ی گولے‬
‫چانے کے ب د‘ اتن ضرور کہت ‘ ہ تمہیں ہدایت دے۔ اس کے‬
‫ب د ہ تمہیں ہدایت دے اس ک تکیہءکا ہی بن گی ۔ اس ک اصل‬

‫ن نور محمد تھ لیکن اس تکیہءکا کی وجہ سے‘ اس ک ن‬

‫‪138‬‬

‫بھی ہدایت پڑ گی ۔ پھر ہر دو تین ک مے منہ سے نک لنے کے ب د‘‬
‫ہ تمہیں ہدایت دے ضرور کہت ۔ لوگ چوں کہ اس کے اس‬

‫تکیہءکا سے آگ ہ ہو چکے تھے‘ اس لیے غصہ نہ کرتے۔‬

‫ایک ب ر سردار ص ح کے بیٹے کی جنج چڑھن تھ ۔ اچھے‬
‫کپڑے س وا لیے‘ اسی طرح اوکھے سوکھے ہو کر نی جوت بھی‬
‫خرید لی ۔ اگ ے دن جنج چڑھن تھ ‘ رن سرک ر سے خو حج مت‬
‫کروانے کے ب د‘ شہر حج مت اور شیو بنوانے چا گی ۔ حج کی‬

‫دک ن پر تھوڑا رش تھ ۔ وہ ادھر ہی بیٹھ گی اور موجود لوگوں‬
‫کی ب تیں سننے لگ اور س تھ میں ہوں ہ ں بھی کرنے لگ ۔ خدا‬

‫خدا کرکے‘ اس کی بھی ب ری آ ہی گئی۔‬

‫حج ب تونی تھ ۔ حج مت بھی بن ئے ج رہ تھ اور س تھ میں‬
‫ب تیں بھی کیے چ ے ج رہ تھ ۔ ہدایت اس کی ہ ں میں ہ ں ما‬
‫رہ تھ ۔ س ری ب تیں وہ ہی کیے ج ت تھ ۔ خدا خدا کرکے ایک دو‬
‫ب تیں اسے بھی کرنے ک موقع مل گی ۔ حس ع دت دو تین ب تیں‬
‫کرنے کے ب د‘ ہ تمیں ہدایت دے کہہ بیٹھ ۔ حج ک چھوڑ کر‘‬
‫ال ال آنکھیں نک ل کر کہنے لگ ‘ اوئے پینڈو کی میں بےہدایت‬
‫ہوں اور ہدایت تو سکھ ئے گ ۔ چپ رہت ی م ذرت کر لیت تو ب ت‬

‫نہ بگڑتی۔‬

‫ل ظ پینڈو اسے چبھ س گی اور گھر سمجھ کر بکنے لگ ۔ پھر کی‬
‫تھ ‘ وہ ں موجود لوگوں نے اسے پکڑ کر خو وج ی ۔ اور تو‬

‫‪139‬‬

‫اور چہرے پر بھی اچھے خ صے آلو ڈال دیے۔ ابھی آدھے ہی‬
‫ب ل کٹے تھے کہ بقیہ ج ن بچ کر واپس آ گی ۔ آش ں زخموں پر‬
‫مرہ رکھنے ی اس حج ک گھر پر ہی زب نی کامی گھر پورا‬
‫کرنے کی بج ئے‘ اس کے چہرے کے آلو دیکھ کر خو ہنسی۔‬

‫اس واق ے کے ب د وہ جنج چڑھنے سے محرو ہو گی اور‬
‫گ ؤں بھر کے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے مذا بن گی ۔‬

‫ہ ں البتہ اس ک تکیہءکا ضرور بدل گی ۔ ہ تمہیں ہدایت دے‬
‫کی بج ئے‘ ہ مجھے ہدایت دے بولنے لگ ۔ یہ ب ت قط ی الگ‬
‫سے ہے کہ زب ن پر مجھے اور دل میں تجھے ہی ہوت ۔ اس نے‬
‫اپنے لیے کبھی ہدایت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی‘ جیسے‬

‫پیدایشی ہدایت ی فتہ ہو۔ اس ح دثے کے ب د‘ ن بھی تبدیل ہو‬
‫ج ن چ ہیے تھ ‘ لیکن اس ک ن ہدایت ہی رہ ۔‬

‫‪140‬‬

‫بھ ری پتھر‬

‫مغر میں ام ں ب بوں ک گاواں‘ اواد گ ے میں نہیں ڈالتی۔ وہ ں‬
‫ان پرانے وقتوں کے لوگوں کو‘ بڈھ ہ ؤسز میں چھوڑ دی ج ت‬
‫ہے‘ جہ ں وہ اپنے وقتوں کی کہ نی ں‘ ایک دوسرے کو سن کر‘‬
‫ہنسی خوشی زندگی گزار لیتے ہیں۔ ہر نئے دور کے تق ضے‬
‫اپنے ہوتے ہیں۔ نئے دور کے لوگ‘ اپنے ان تق ضوں کے س تھ‬

‫کھل ڈھل کر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی کرنی میں‘ کوئی می میخ‬
‫نک لنے واا نہیں ہوت ۔ ن ہی انہیں ایک دوسرے کی کرنی پر کوئی‬

‫اعتراض ہوت ہے۔ جہ ں ج ن ہو دوڑ کر ج سکتے ہیں۔ ان کی‬
‫موجودگی میں‘ انہیں بھی کندھ پکڑا کر س تھ لے ج ن پڑت ہے۔‬

‫واپس آ کر ان کی تقریریں سنن پڑتی ہیں۔‬

‫دور کی ج ن ہے‘ کل ہی کی ب ت کو لے لیں۔ ب بے مہنگے کو‬
‫بھی ش دی ح ل میں لے گئے۔ خی ل تھ کہ نی م حول دیکھ کر‘‬
‫ت زہ د ہو ج ئے گ اور آج کل ک پیٹ بھر کر کھ کر‘ خوش ہو‬
‫گ ۔ مگر کہ ں جی‘ جتنی دیر وہ ں بیٹھ ‘ بڑ بڑ کرت رہ ۔ بہو اور‬

‫بیٹیوں کو گھور گھور کر اور کھ ج نے والی نظروں سے‬
‫دیکھت رہ ۔ گھر آ کر‘ ام ں پر برس پڑا کہ کتن بےحی دور آ گی‬
‫ہے۔ کسی کو اپنی عزت آبرو ک احس س تک نہیں رہ ۔ یہ لب س‬
‫تھ ‘ ب ریک‘ آدھ اور وہ بھی ٹ ئٹ۔ ٹ نگوں کی اگ ی پچھ ی اور‬

‫‪141‬‬

‫سینے کی لکیریں‘ نم ی ں ہو رہی تھیں۔ کسی کے سر پر دوپٹہ‬
‫نہ تھ ۔ یوں نچ ٹپ رہی تھیں‘ جیسے چوتڑوں میں کیڑا گھس گی‬
‫ہو۔ بھ ئی اور خ وند س تھ تھے‘ کسی کو غیرت نہیں آ رہی تھی۔‬
‫ا پت چا کہ ہ مس م ن ہو کر بھی‘ دنی جہ ن کے چھتروں کی‬

‫زد میں کیوں ہیں۔‬

‫ب بے نے اتنے اع ی کھ نے میں بھی‘ ہزار طرح کے کیڑے‬
‫نک لے۔ ام ں جس نے ب بے کو س ری عمر نپ کر رکھ تھ ‘ آج‬
‫اسے ق بو نہ کر پ رہی تھی۔ اپنی کہے ج رہی تھی لیکن پورا نہ‬
‫اتر رہی تھی۔ ب ب مکمل طور پر چھ ی ہوا تھ اور پٹری سے اتر‬

‫چک تھ ۔‬

‫م ک کے سربراہوں کے بھی ب بے ہوں گے‘ م و نہیں وہ ان‬
‫پر کس طرح ق بو پ تے ہوں گے ی پھر ان کے ب بے بھی لکیر‬
‫پسند ہوں گے۔ سربراہ ب ب ہو تو بھی ب ب نہیں ہوت ۔ حکی ڈاکٹر‬
‫ان کے مطیع ہوتے ہیں۔ دوسرا وہ س کے ہوتے ہیں اس لیے‬
‫ان ک لبرل اور لکیر نواز ہون ضروری ہوت ہے۔ رہ گئی ب ت دنی‬
‫جہ ں کے چھتر کھ نے کی‘ وہ تو ہ صدیوں سے کھ رہے ہیں۔‬
‫اگر کوئی ان موق وں پر ہم ری بیویوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کی‬

‫لکیروں سے‘ نظری ی محض م مولی م مولی ٹچ سے لطف‬
‫اندوز ہو رہ ہوت ہے‘ تو ہ بھی ک پیچھے ہوتے ہیں۔ ہم ری‬
‫آنکھیں کھ ی اور ہ تھ متحرک ہوتے ہیں۔ اگر ہم ری عورتیں ان‬
‫کے لیے لطف ک س م ن ہوتی ہیں‘ تو ان کی عورتیں بھی ہمیں‬

‫‪142‬‬

‫حظ مہی کر رہی ہوتی ہیں۔‬

‫ب بر سے لبرل ب دش ہ نے کہ تھ ‪:‬‬

‫ب بر ب عیش کوش کہ دنی دوب رہ نیست‬

‫یہ ب بے کی ج نیں۔ خشک جیئے اور ہمیں بھی‘ اسی رہ پر رکھن‬
‫چ ہتے ہیں۔ ح ک اپنی موج میں ہیں۔ ہمیں بھی جدید طرز کی‬
‫زندگی گزارن ہے لیکن ان ب بوں کے ہوتے‘ مکمل طور پر یہ‬

‫ممکن نہیں۔ ب اختی ر اداروں ک فرض بنت ہے کہ ان ب بوں ک کچھ‬
‫کریں ورنہ ان کے لیکچر ہمیں جدید زندگی سے درر رکھیں گے۔‬

‫ہ آزادی ح صل کرکے بھی آزادی سے دور رہیں گے۔ جو بھی‬
‫سہی‘ یہ طے ہے کہ امرا کے ن سہی‘ ہم رے ب بے عصری‬

‫آزادی کی راہ ک بھ ری پتھر ہیں اور ہ سے لبرل‘ م ڈرن‘ آزاد‘‬
‫ترقی پسند اور مغر کے پیروں کو غیرت ک لیکچر پا پا کر‬
‫غیرت پسند بن دین چ ہتے ہیں۔‬

‫‪143‬‬

‫ایسے لوگ کہ ں ہیں‬

‫یہ دنی سرائے کی م نند ہے‘ کوئی آ رہ ہے تو کوئی ج رہ ہے۔‬
‫سرائے میں مستقل کوئی اقمت نہیں رکھت ۔ ہ ں ہر آنے واا اپن‬
‫ایک ت ثر ضرور چھوڑ ج ت ہے۔ کوئی اچھ تو کوئی برا۔ اس‬
‫ت ثر کے حوالہ سے ہی‘ اس مس فر کو ی د میں رکھ ج ت ہے۔‬

‫ب ب ص ح بھ ے آدمی تھے۔ طب مہرب ن‘ ش ی اور اپنے‬
‫پرائے کے غ گس ر تھے۔ کسی کو دکھ میں دیکھتے‘ تو تڑپ‬
‫تڑپ ج تے۔ ج تک اس کی تک یف دور کرنے ک پربند نہ کر‬
‫لیتے‘ سکھ ک س نس نہ لیتے تھے۔ اچھ ئی اور خیر کے م م ہ‬

‫میں‘ دھر اور مس ک ان کے نزدیک‘ کوئی م نویت نہ رکھت‬
‫تھ ۔ ان ک موقف تھ ‘ جس طرح ہ س ک نگہب ن ہے‘ اسی‬
‫طرح انس ن بھی س ک نگہب ن ہے۔ اس کی پیدا کی ہوئی کوئی‬
‫بھی مخ و ‘ دکھ میں ہے تو انس ن کو‘ اس ک ہر ح ل میں دکھ‬
‫دور کرن چ ہیے۔ کوئی برا کرت ہے تو یہ اس ک ک ہے‘ برائی‬
‫کے بدلے برائی کرن ‘ تمہ را ک نہیں۔ ت جو بھی کرو‘ اچھ اور‬

‫اچھے کے لیے کرو۔‬

‫ان کے پ س‘ ہر دھر سے مت لوگ آتے۔ کوئی خیر و برکت‬
‫کی دع کے لیے آت ‘ تو کوئی ع واد اور مذہ سے مت‬

‫گ تگو ی مش ورت کے لیے آت ۔ س کے س تھ یکس ں س وک روا‬

‫‪144‬‬

‫رکھتے۔ تحمل سے اس کی سنتے اور پھر اپن موقف پیش‬
‫کرتے۔ ج تک وہ مطمن نہ ہو ج ت ‘ رخصت نہ کرتے۔‬

‫ب ئیبل مقدس‘ روم ئن‘ بھگوت گیت ‘ گرنتھ ص ح ک ور ور‬
‫انہوں نے پڑھ رکھ تھ ۔ بدھ مت کے مت بھی اچھ خ ص ن لج‬

‫رکھتے تھے۔ پہ ے تو مت قہ کی کت اور پھر قرآن مجید کے‬
‫حوالہ سے ب ت کرتے۔ ی ر کم ل کے شخص تھے۔ کوئی نذر نی ز‬

‫لے آت تو رکھ لیتے‘ ج ج نے لگت تو اس ت کید کے س تھ‬
‫واپس کر دیتے‘ کہ چیزیں صرف اپنے بیوی بچوں میں تقسی‬
‫کرن ۔ اصرار کے ب وجود کچھ نہ رکھتے۔ فرم تے بیٹ ‘ ت چنت نہ‬
‫کرو‘ ہ مجھ اور میری بھوک پی س سے خو خو واقف ہے۔‬

‫ایک ب ر ایک اجنبی آی ۔ کچھ کہے سنے بغیر ہی‘ دروازے پر‬
‫کھڑے ہو کر‘ ب ب ص ح کو برا بھا کہنے لگ ۔ ج حد سے‬

‫گزرنے لگ ‘ تو بیٹھے لوگوں میں سے ایک اٹھ کر اس کی‬
‫ٹھک ئی کرنے لگ ۔ ب ب ص ح نے اسے منع کر دی ۔ بہت کچھ‬

‫کہہ لینے کے ب د وہ چا گی ۔‬

‫ایک بوا بیڑا غر ہو اس خ نہ خرا ک ‘ کتنی بکواس کر رہ‬
‫تھ ۔ اگر ب ب ص ح نہ روکتے‘ تو آج میں اسے اس بدتمیزی ک‬
‫ایس مزا چکھ ت کہ نس وں کو بھی منع کر ج ت ۔ ب ب ص ح اس‬
‫کے اس طرز تک سے سخت پریش ن ہوئے۔ پھر فرم نے لگے‘‬
‫بیٹ کبھی اور بھی کسی بھی صورت میں‘ گ تگو میں ش ئستگی‬

‫‪145‬‬

‫کو ہ تھ سے نہ ج نے دو۔ ی د رکھو‘ ایک طرف نیکیوں ک انب ر‬
‫لگ ہو تو دوسری طرف ایک بددع ‘ بددع اس پر بھ ری ہے۔ کی‬

‫تمہیں حضرت یونس ع یہ السا کی بددع ک انج ی د نہیں۔‬
‫انہیں مچھ ی کے پیٹ میں ج ن پڑا۔ پھر فرم ی بددع کی بج ئے‬
‫ت دع بھی دے سکتے ہو کہ ہ اسے ہدایت دے۔ ب ید نہیں وہ‬

‫وقت قبولیت ک وقت ہو۔‬

‫تھوڑی دیر کے ب د وہ شخص دوب رہ سے آ گی اور دروازے پر‬
‫کھڑا ہو کر‘ اندر آنے کی اج زت ط کرنے لگ ۔ ا کہ وہ اور‬
‫اس ک انداز بڑا مہذ اور ش ئستہ تھ ۔ س اس کے اس دوہرے‬

‫روپ سے حیران رہ گئے۔ ب ب ص ح نے اسے اندر آنے کی‬
‫اج زت دے دی۔ اندر آ کر وہ ب ب ص ح کے پ ؤں پڑنے لگ تو‬

‫ب ب ص ح نے اسے سختی سے منع کر دی اور پھر اس کی‬
‫طرف دیکھ کر مسکرائے۔ وہ مسکراہٹ کی تھی‘ جنت کی ہوا ک‬

‫ایک جھونک تھ ‘ جو س کو نہ ل کر گی ۔‬

‫وہ شخص کہنے لگ ‪ :‬سرک ر میں تو آپ کے ظرف ک امتح ن لے‬
‫رہ تھ ۔ جیس اور جو سن ویس ہی پ ی ۔ آپ سچے ولی ہیں۔‬

‫نہیں بیٹ ‘ یہ ت محبت میں کہہ رہے ہو۔ میں بےچ رہ کہ ں اور‬
‫وایت کہ ں۔ ہ ں یہ ہ ک احس ن اور لطف وکر ہے‘ جو اس نے‬

‫توفی دی اور میں اس امتح ن میں ک می ہوا۔‬

‫سوچت ہوں‘ ا ایسے لوگ کہ ں ہیں۔ اگر کوئی ہے‘ تو چا‬

‫‪146‬‬

‫کیوں ج ت ہے۔ کی کریں‘ یہ ں کوئی ٹھہرنے کے لیے نہیں آت ۔‬
‫اچھ ہو کہ برا‘ گری ہو کہ امیر‘ ش ہ ہو کہ فقیر‘ اسے ایک‬

‫روز ج ن ہی تو ہے۔ الچ‘ ہوس اور حرص نے انس ن کو‘ انس ن‬
‫نہیں رہنے دی ۔ ک ش ہمیں یقین ہو ج ئے‘ کہ ہمیں ہر صورت‬

‫میں ج ن ہی ہے اور کوئی یہ ں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آی ۔‬
‫جمع پونجی س تھ نہ ج سکے گی۔ ج تے وقت ہ تھ خ لی ہوں‬
‫گے اور اپنے قدموں پر نہیں ج سکیں گے۔‬

‫‪147‬‬

‫ش عر اور غزل‬

‫چ ند کی کرنوں سے غزل کی بھیک م نگی‬
‫اس نے ک سے میں دو بوندیں نچوڑ دیں‬
‫کہ غزل آنکھوں کی ٹھنڈک ہو ج ئے‬
‫سیپ نے مروارید دیئے‬
‫کہ دل اس ک پرسکون ہو ج ئے‬
‫قوس قزح نے سرخی بخشی‬
‫کہ رخ مثل ی قوت ہو ج ئے‬
‫طب ے کی تھ پ نے‬
‫گھنگھرو کی جھنک ر نے‬
‫م یوس نہیں کی‬
‫نسی سحر سے بھی دست سوال دراز کی‬
‫قبروں کے کتبوں سے بھی‬
‫غزل کی بھیک م نگ کے ای‬
‫سورج سے تھوڑی حدت م نگ لی‬

‫‪148‬‬

‫سیم سے بےقراری لے لی‬
‫لہر نے بغ وت دے دی‬
‫گا کے پ س بھی گی‬

‫اس نے ک سے کو بوسہ دی‬
‫اور اپنی اک پنکھڑی رکھ دی‬

‫خوش تھ کہ‬
‫آج محنت رنگ ائے گی‬

‫وہ مری ہو ج ئے گی‬
‫دامن مرا خوشیوں سے بھر ج ئے گ‬

‫غزل کے چہرے پر‬
‫حسین س عنوان لکھ دے گی‬
‫خ وص کی طشتری میں رکھ کر‬

‫ج غزل میں نے پیش کی‬
‫جس رت پہ مری وہ بپھر گئی‬
‫ضبط کی پٹڑی سے اتر گئی‬

‫ک سے میں تھوک دی‬

‫‪149‬‬

‫بولی‬
‫بھک ری! اپن خون جگر نچوڑ کے اؤ‬

‫غزل سے زندگی کی خوش بو آئے‬
‫راحتوں کے لیے‬

‫لہو کی اک بوند ک فی ہے‬
‫پھر اس نے‬

‫چھ تی سے جدا کرکے‬
‫اپنی بچی مری گود میں رکھ دی‬

‫ممت کی ب ہوں میں غزل تھی‬
‫ممت کی نگ ہوں میں غزل تھی‬

‫بچی کے لبوں پر‬
‫بچی کی انگ یوں میں‬
‫بچی کی س نسوں میں‬
‫مگر بچی تو سراپ غزل تھی‬
‫میں مش ہدے میں ہی تھ کہ‬
‫اس نے بچی مجھ سے لے لی‬

‫‪150‬‬

‫مری آغوش میں شرمندگی رکھ دی‬
‫درم ندگی رکھ دی‬

‫اپنی اور م نگے کی چیز میں‬
‫کتن فر ہوت ہے‬

‫وہ ائ صد افتخ ر تھی‬
‫پروق ر تھی‬

‫میں تنکے سے بھی حقیر تھ‬
‫اس ک سر تن ہوا تھ‬
‫مرا سر جھک ہوا تھ‬

‫کہ غزل کے چہرے پر‬
‫بھیک ک پیوند لگ ہوا تھ‬
‫غزل ک بدن زیر عت تھ‬

‫میں بھی تو ہ ر گی تھ‬
‫مری ش عری کی ک ئن ت پر رعشہ تھ‬

‫وہ مسکرا رہی تھی‬
‫غزل سٹپٹ رہی تھی‬


Click to View FlipBook Version