1
ادبی مط ل ے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کت خ نہ
م رچ
2
فہرست
دیس بن پردیس‘‘ ایک کت ! بیسیوں رنگ
خوش بو کے امین
ایک قدی اردو ش عر کے کلا ک ت رفی و لس نی ج ئزہ
مثنوی م سٹر نرائن داس' ایک ادبی ج ئزہ
آش پربھ ت' مسک تے' س گتے اور ب کتے احس س ت کی ش عر
اکبر اردو اد ک پہلا بڑا مزاحمتی ش عر
ام نت کی ایک غزل ......فکری و لس نی رویہ
منظو شجرہ ع لیہ حضور کری ....عہد جہ نگیر
میرے اب ۔۔۔۔۔۔ ایک مط ل تی ج ئزہ
ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی تدوینی تحقی کے ادبی اطوار
رحم ن ب ب کی زب ن ک اردو کے تن ظر میں لس نی مط ل ہ
عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ
گنج سوالات' ایک لس نی تی ج ئزہ
ڈاکٹر عبد ال زیز س حر کی ایک ق بل تق ید تدوینی ک وش
ڈاکٹر منیر کے افس نے اور مغربی طرز حی ت
نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ
3
دیس بن پردیس‘‘ ایک کت ! بیسیوں رنگ
ن صر ن ک گ وا سے میری روبرو ملاق ت لاہور اردو نیٹ ج پ ن کی
ایک تقری میں ہوئی۔ بڑا ن یس س دہ گو ،م نس ر ،مج سی اد و
آدا سے آگ ہ مگر قدرے شرمیلا س اور رکھ رکھ ؤ والا شخص
ہے۔ بڑا اچھ اور پی را لگ ۔ ملاق ت ک دورانیہ اگرچہ مختصر تھ
لیکن پر لطف اور ی دگ ر تھ ۔ اس ک ادبی اور ملاق تی ذائقہ آج
اور ا بھی محسوس کرت ہوں۔ ’’دیس بن پردیس‘‘ ک میں نے
پوری توجہ اور دی نتداری سے اول ت آخر مط ل ہ کی ہے۔ بڑے
ک کی چیز ہے۔ یہی نہیں اردو اد میں اسے ایک خوبصورت
اض فہ قرار دین کسی طرح بھی غ ط اور مب لغہ نہ ہو گ ۔
کت کو تین حصوں میں تقسی کی گی ہے لیکن میں اسے پ نچ
حصوں پر مشتمل کت سمجھت ہوں۔ پہلا حصہ اہل ق کی آراء
پر مشتمل ہے۔ اس حصہ کے مط ل ہ سے مصنف کی شخصیت،
اردو نیٹ ج پ ن کے حوالہ سے خدم ت اور اس کے اس و کے
ب رے میں بہت س ری م وم ت ہ تھ لگتی ہیں۔ پہ ے حصہ ہی
میں اہل رائے حضرات سے چہرہ بہ چہرہ ملاق ت ہوتی ہے۔ وہ
س کت کے ق ری کو پر تحسین نظروں سے دیکھتے نظر آتے
ہیں۔ زب ن سے نہیں ق سے بہت کچھ اور مخت ف زاویوں سے
کہتے محسوس ہوتے ہیں۔ کت کے آخری حصہ میں ( جسے
4
میں پ نچواں حصہ کہہ رہ ہوں )بہت س رے خوبصورت چہروں
سے ملاق ت ہوتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں بھی ن صر ن ک گ وا
کے حوالہ سے بہت کچھ پڑھنے کو مل ج ت ہے۔ اس ’’بہت
کچھ‘‘ میں جہ ں زندگی سے مت ت خ حق ئ ،مصنف ک سچ
اور کھرا پن ،ش مل ہے وہ ں طنز و مزاح ک عنصر پ ی ج ت ہے۔
:کچھ ت خ حق ئ
ج پ نی خواتین خوش اخلا اور شوہروں کی وف دار ہیں۔ ’’
ج پ نی بیوی ں پ کست نی بیویوں کی طرح نہیں ہوتیں کہ انہیں
پ ؤں کی جوتی سمجھ کر تبدیل کر لی ج ئے۔ یہ ں کہ بچے بھی
اتنے فرم نبردار اور بدھو نہیں ہوتے کہ آپ خود جس ک کو
اچھ سمجھیں اسے بچوں کو کرنے سے روکیں۔ ‘‘ (پ کست نی
شوہروں اور ج پ نی بیویوں کے درمی ن تشدد کے واق ت و
)محرک ت
:چند مزید حق ئ
ج پ ن میں دیکھ گی ہے کہ زی دہ مس جد ج پ نی ب زاروں اور ’’
گ ی مح ے میں ہی ق ئ ہیں مگر ش ذ و ن در ہی کبھی کوئی ن
‘‘ خوشگوار واق ہ پیش آی ہو۔
ج پ ن کی میٹرو پولیٹین پولیس ڈپ رٹمنٹ کی خ رج زدہ خ یہ (
)ف ئ وں میں کی ہے ؟
5
پ کست ن میں قی کے دوران مجھے ہر جگہ انٹرنیٹ کی ’’
سہولت میسر تھی مگر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے میں است م ل
ہی نہیں کر سکت تھ ۔ یہ کراچی تھ جسے روشنیوں ک شہر کہ
کر تے تھے آج روشنی ائیرپورٹ کے علا قے اور زرداری اور
بلاول ہ ؤس اور می ں ہ ؤس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے
)کیونکہ یہ لوگ زی دہ حقدار ہیں۔ ‘‘(ٹوکیو سے کراچی تک
:ذرا یہ پر مزاح مک لمے ملاحظہ ہوں
خیبر پختونخواہ اسمب ی کے اسپیکر طویل ق مت کے کرامت اللہ ’’
خ ن تشریف لائے تو ان کے استقب ل میں مجھ سمیت ندا خ ن،
یوسف انص ری اور امین سجن بھی ش مل تھے ،لو گوں کو
کرامت اللہ سے گ ے م تے ہوئے دیکھ کر ایس لگ جیسے لوگ
ان کے گھٹنوں میں کچھ سرگوشی کر رہے ہوں۔ ‘‘(ٹوکیو سے
) متحدہ عر ام رات ک س ر
امیگر یشن نو جوان افسر نے میرے پ سپو رٹ پر تین م ہ ک ’’
ویزہ لگ ی تو میں نے اس سے پوچھ کہ آپ کی زب ن میں
شکریہ کو کی کہتے ہیں ’’ تیری م ں کیسی ‘‘کی ؟’’تیری م ں
کیسی‘‘۔ میں سمجھ اسے اردو آتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہ ان
کی وف ت ہو گئی ہے۔ وہ کچھ سمجھ نہیں تو میں نے انگریزی
میں کہ تو وہ ہنسنے لگ کہ نہیں میں نے جو کہ اس ک مط
ہو ت ہے شکر یہ۔ وہ تو ب د میں پت چلا کہ صحیح ت ظ یہ ہے
6
) کہ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ تیری م ک سی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(سہ روزہ دورۂ ملائشی ء
:شنگھ ئی کے ایک ب تھ رو ک ن ک نقشہ ملاحظہ ہو
ب تھ رو کے تولیے گھسے ہوئے تھے اور گنجے تھے اور ’’
امتی ز کرن مشکل تھ کہ تولیہ ہے ی رو م ل ،لگت تھ ج سے
ہوٹل ت میر ہوا ہے یہی تولیے چل رہے ہیں۔ چھو ٹی چھو ٹی
ص بن کی ٹکیہ رکھی ہوئی تھیں ک فی دیر ہ تھوں میں رگڑنے
سے بھی نہیں گھستی تھیں۔ شیمپو پلا سٹک کی بوتل میں اس
طر ح سے نک ت تھ جیسے سردیوں میں شہد کی بوتل الٹ بھی
)دیں تو شہد ب ہر نہیں آت ۔ ‘‘(اسلا آب د سے شنگھ ئی تک
:ن صر ن ک گ وا کے کھرے اور سچے پن کی مث ل ملاحظہ ہو
اس سے قبل مہینوں گزر ج تے تھے مجھے نم ز کی توفی ’’
نہیں ہوتی تھی ،ات سے کسی مسجد ک دورہ ہو گی تو نم ز ادا
کر لی کبھی خصوصی طور پر نم ز ادا کرنے کی توفی ہوئے
‘‘ عرصہ گزر چک تھ ۔
) ن گوی اور گی و ک ی دگ ر س ر۔ ۔ ۔ بذری ہ ب یٹ ٹرین(
درج ب لا ٹکڑے کت کے مخت ف حصوں سے لیے گئے ہیں۔ ان
کے مط ل ہ سے اندازہ ہو ج ت ہے کہ کت کتنی بھرپور ہے
اور ن صر ن ک گ وا کس درجہ کی تحسین ک ح رکھتے ہیں۔
کت میں افس نہ اور ایک خط بھی ش مل کی گی ہے۔ ایک کت
7
لیکن بیسیوں رنگ ،ایسے میں ان کی خو صورت پیش کش پر
شکریہ ادا کر ن لا ز آت ہے۔ اللہ کری ن صر ن ک گ وا کی
توفیق ت میں اض فہ فر م ئے اور اسے ش د و ش دا رکھے۔
خوش بو کے امین
8
ہم رے ہ ں ک عج دستور ہے۔ ہر م تبر رشتے کے لیے کسی نہ
س بقے لاحقے ک ہون ضروری ہوت ہے۔ چ ہے وہ ‘‘خونی’’کسی
س بقہ لاحقہ دل و دم کی رگوں سے خون ہی کیوں نہ ‘‘’’خونی
نچوڑ رہ ہو۔ اس کے ہ تھوں کتنی ب ر قر ہون پڑا ہو ی اس
س بقے لاحقے نے عزت اور جی کی ہمیشہ نیلامی لگ ئی ہو۔ ‘‘’’خونی
تم من ی حق ئ کی موجودگی میں بھی انہیں سبقت اور اہمیت دی
ج تی ہے۔ ش دی بی ہ ہوکہ مرگ م مے چ چے اور پھوپھی م سی کے
ب رے میں دری فت کی ج ت ہے۔ اگر یہ موجود نہ ہوں تو دلہ کی
خوشی ں تہ تیغ کر دی ج تی ہیں ج کہ ارم نوں کی لاش کی بھ نت
بھ نت کی بولیوں سے مٹی پ ید کی ج تی ہے ۔ ب ور رہے ،خوشیوں
س بقے لاحقے سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ ‘‘خونی’’کے ق تل کسی
اپنے اس س بقے لاحقے ک ح ادا کر رہے ہوتے ہیں ی یہ س کرن
اپن فرض منصبی سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔
محبت کے ت کو کوئی قبول نہیں کرت ح لاں کہ قبول نہ کرنے
والے خود کسی نہ کسی کی محبت میں گرفت ر ہوتے ہیں اور وہ
س بقوں لاحقوں سے ن رت کررہے ہوتے ہیں ۔ منہ بولا اپن ‘‘’’خونی
اعتب ر رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہوت ۔ اسے گھر کی دہ یز سے ب ہر
رکھن شرافت کی دلیل سمجھ ج ت ہے۔ دہ یز کے اندر مستحک وجود
رکھتے ہوئے بھی وہ غیرت پر بدنم لیبل ہوت ہے۔ اس حقیقت سے
انک ر نہیں ب ض منہ بولے رشتے بد دی نتی کے مرتک ہوتے ہیں ۔
س بقوں لاحقوں سے آراستہ رشتے ک ‘‘سوال یہ ہے کہ ’’خونی
اعتب ر کے ق بل رہے ہیں ۔
9
کی م مے چ چے م سی پھوپھی وغیرہ ک س بقہ لاحقہ رکھنے والے
رشتے ہ تھ نہیں دکھ تے۔ ان کی اولادیں غیرت کی ج ئیداد پر ڈاکے
نہیں ڈالتیں ۔ یہی کی ان کے بڑے آپس میں فیئر ہوتے ہیں ۔
ان کی مخ صی ن ق بل چی نج رہتی ہے؟ ان ک اعتب ر م د کی ڈور سے
بندھ رہت ہے۔ ج ایسی صورت ہے تو منہ بولے رشتوں پر انگشت
نم ئی کیوں ؟ وہ خ نگی زندگی میں م تبر کیوں نہیں ہو پ تے۔ ان پر
شک کی آتش کیوں برستی رہتی ہے۔ انہیں اعتب ر دےنے میں کیوں
! بخل سے ک لی ج ت ہے۔ یہ عجی وتیرا اور چ ن نہیں ہے؟
محبت مس ک مذہبوں اور ریتوں رواجوں سے آزاد ہوتی ہے۔ میں
منہ بولا‘‘ س بقہ ’’نے اپنے کسی پی ر کے رشتے کے س تھ کبھی کوئی
لاحقہ پیوست کرنے کی حم قت نہیں کی۔ یہی نہیں انہیں گھر کی
دہ یز کے اندر لا کر غیر م تبر نہیں ہونے دی ۔ ہ ں اپنے دل کے
س رے در ان پر کھ ے رکھے ہیں وہ ں وہ بڑے آسودگی سے پروان
چڑھے ہیں اور وہ ں وہ خو رنگ لائے ہیں ۔ میں نے ان کے
پھول اورپھل ب نٹنے کی حم قت کبھی نہیں کی۔ ان پھولوں پھ وں پر
صرف اپن ح سمجھ ہے۔ مجھے محبت کے پھولوں اور پھ وں کی
بے حرمتی قط ً پسند نہیں ۔ ب ت کروں گ تو وہ تنقید ک نش نہ بنیں
گے۔ ضروری نہیں یہ کوئی کسی دوسرے کی محبت کی خوشبو اور
مٹھ س سے محظوظ ہو ۔ کدو اور بینگن میری پسند میں داخل ہیں ۔
میں اپنی پسند اور است دے کی وض حت ک پ بند نہیں۔
وض حت کو کون م نت ہے ۔ ہر کسی کے پ س اپنی وض حتوں کے انب ر
لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ کسی اچھے مقرر ک اچھ س مع ہون ضروری تو
10
نہیں ۔ میں بڑا اچھ س مع ہوں ۔ حظ کی اس عن یت کے حوالہ سے
بے حد سکھی ہوں ۔ اس طرح مجھے اپنی محبتوں کی تصریح و
توضیع کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ خدا ک شکر ہے میری محبتیں
میری ذات تک محدودرہی ہیں اور میری ذات ک حصہ رہی ہیں ۔
میری بدقسمتی رہی ہے کہ میری محبتیں آخری س نسوں تک میرے
س تھ نہیں چ یں ۔ پتہ نہیں راہ میں اکیلا چھوڑن انہوں نے اپن کیوں
فرض عین سمجھ ہے۔ سید غلا حضور حسنی (اب جی) ہی کو لے
لیں ۔ لاکھ منتوں کے ب وجود دو چ ر لمحے مزید رکنے کی زحمت
گوارا نہیں کی۔
میں یہ نہیں کہت کہ میری محبت یک طرفہ تھی وہ مجھ سے بے
تح ش محبت کرتے تھے۔ وہ زندگی میں س ر کے شوقین رہے۔ نئے
س ر کے شو نے انہیں رکنے نہ دی ۔ میں نے اتن پی ر کرنے والا
کبھی اور کہیں نہیں دیکھ ۔ اپنے تو خیر اپنے ہوتے ہیں وہ تو
دوسروں کے لیے بھی حد درجے ک درد رکھتے تھے ۔ ان کے بھ ے
کے لےے اپنے خس رے کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔(پنج بی) صوفی
ش عر ہونے کے سب حد درجہ کے حس س واقع ہوئے تھے۔ ظ ہر ہے
صوفی ہونے کے سب ان کی ش عری درد ،سوز اور انس نی بھلائی
کے درس کے لیے مخصوص تھی۔ انہوں نے ہمیشہ انس ن کی ظ ر
مندی کے حوالہ سے گ تگو کی۔ وہ ہیر وارث اور سیف الم وک خوش
الح نی سے پڑھتے تھے۔ اپنی ش عری بھی لے سے سن ی کرتے تھے۔
میری بڑی بہن جو پڑھی لکھی ہونے کے ب وجود ج ہل مط ہے ،کی
ج ہل محبت کے س تھ ان کی ش عری گمن می کی اتھ ہ گہرائیوں میں
مدغ ہوگئی ہے۔ وہ اب جی کی آواز میں بھری کیسٹوں کو ان کی
11
نش نی سمجھ کر سینے لگ ئے بیٹھی ہے۔ ا وہ کیسٹیں ج ہو گئی
ہیں۔ بڑے بھ ئی ص ح کو اپنی عورتوں سے فرصت نہیں م ی۔ رہ
میں جو پرچیوں اورپرزوں کو سنبھ لے بیٹھ ہوں ۔ ان کے تین
پنج بی قصے جو ان کی زندگی میں ش ئع ہوئے تھے سینے سے
لگ ئے بیٹھ ہوں ۔
ان پر ک کرنے ک ارادہ رکھت ہوں ۔ اب جی کو ش عری ک شو ورثے
میں ملا تھ ۔ ان کے والد ع ی احمد حسنی اچھے ش عر اور لاجوا
ع ل دین تھے۔ میں جو یہ الٹے سیدھے ل ظ گھسیڑ رہ ہوں ان کی
محبت اور ش قت ک انمول عطیہ ہیں ۔ ان کے مشورے میرے لےے
ہمیشہ خضر راہ رہے۔
اگست ء عید ک دن تھ مگر لوگوں کے لیے ،میرے لیے یہ
یتیمی کی خزاں لے کر ط وع ہوا۔ فرشتہءاجل نے میرے سر سے
چھت الٹ دی اور دامن امید میں بے بسی کے چھید کر دےے۔اتنے
مخ ص ،ہمدرد اور محبت کرنے والے کو مجبور و بے بس کرنے سے
پہ ے موت کو موت کیوں نہ آگئی۔ ہو سکت ہے ویدی کے ویدان کے
ہ تھوں وہ بھی مجبو ر ہو ،ورنہ اتنے خوبصورت ،کومل اور خوش بو
سے لبریز پھولوں کو کون مس ت ہے۔
ڈاکٹر علامہ وف راشدی کو ہی دیکھ لیں ۔ ایسے لوگ ک مرنے کے
لیے ہوتے ہیں ۔ انہیں تو می ی آنکھ دیکھنے سے بھی پ پ لگت ہے۔
میں سمجھت ہوں موت کو میرا پی ر کبھی راس آی ۔ وہ مجھ سے ج تی
ہے ،کی ہو ج ت جو وہ دس بیس س ل اور جی لیے ہوتے۔ش ید میری
محبت کی انہیں سزا م ی ورنہ وہ مرنے والے ک تھے ورنہ اگر وہ
12
کچھ اور جی لےے ہوتے تو ج نے ع و اد کی چ در پر اور کتنے
خوبصورت پھول گ ڑھ لیتے۔ اگرچہ ان ک ک پہ ے ہی بہت ہے۔ ان کے
ب ض ک تو فرد واحد کے بس ک روگ نہیں ۔ بلاشبہ وہ اپنی ذات میں
ادبی جن تھے۔ اوروں کی طرح وہ ک ظرف اور بخیل نہیں تھے۔
دوسروں کے ادبی ک موں کی دل کھول کر داد دے کر ان کی حوص ہ
افزائی کرتے۔ ہر اچھے ادبی ک پر خوش ہوتے۔ اتنی پذیرائی کرتے کہ
مخ ط مزید خوبصورتیوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوت ۔ میرے س تھ
بھی ان ک شروع سے ایس ہی رویہ اور انداز رہ ۔
عجی انہونی دیکھیے ڈاکٹر علامہ بیدل حیدری بھی مر گئے۔ انص ف
کیجیے انہیں مرن چ ہئے تھ ؟ ایسے لوگوں کی روح قبض کرتے
م ک الموت ک ک یجہ منہ کو کیوں نہ آی ۔ اس کے ظ ل اور بے رح
ہ تھ لرز لرز کیوں نہ گئے۔ وہ عصر موجود کے م مولی ش عر نہ
تھے۔ ١٨٦٩ء کے ب د ایس بڑا ش عر دیکھنے کو نہیں م ت ۔ ان کے در
پر بڑی بڑی پگڑی ں سجدہ ریز نظر آتی ہیں ۔ کسی کے کلا کے ب رے
میں ان کے ق سے نکلا ہر ل ظ پی ایچ ڈی کی ڈگری سے کہیں بڑھ
کر تھ ۔ وہ میرے دل اور دم کی دنی کے چہکتے ب بل تھے۔ ان کے
خوبصورت ل ظوں نے مجھے ہمیشہ شکتی دان کی۔ ان ک ہون میری
توان ئیوں کے لیے سربکس ٹی ک درجہ رکھت تھ ۔ وہ ج تک زندہ
رہے ،میری روح میں گلابوں کی مہک بھرتے رہے۔ کی کہوں ،مجھ
سے کی ہوا کہ وہ میرا س تھ نبھ نہ سکے۔ سوچت ہوں ا ل ظوں کی
لوری ں کہ ں سے سنوں گ ۔
ڈاکٹر سید م ین الرحمن سے تو مجھے قط ً توقع نہ تھی کہ مجھے
لاچ ر و بے بس چھوڑکر م ک عد کی راہ لیں گے۔ وہ تو محبتیں
13
نبھ ن ج نتے تھے۔ ان کی موت ک غ مجھے دیمک کی طرح چ ٹ رہ
ہے۔ میں کوشش کے ب وجود خود کو سنبھ لا نہیں دے پ ر ہ ۔ ان کے
بغیر کیسے جیوں ،کی کروں ۔ ان کی جگہ میں کیوں نہیں مر گی ۔
اتنے بڑے آدمی ک مرن اد کی دنی میں عصر جدید کے بھونچ ل سے
ک نہیں ۔ ان گنت لوگ یتی ہو گئے ہیں ۔ان ک ادبی کھ تہ کئی میدانوں
میں کھلا نظر آت ہے لیکن غ ل کے حوالہ سے وہ اپن جوا نہیں
رکھتے تھے۔ سوچت ہوں ان کی روح میرے نہ رکنے والے آنسوئوں
کو کیسے گوارا کرتی ہوگی۔ میری تنہ ئی کو وہ کس طرح برداشت
کرتے ہوں گے۔ میں رون نہیں چ ہت ۔ ج نت ہوں مرد روی نہیں
کرتے لیکن آنکھیں میرے بس میں نہیں ہیں ۔ دل میری بے چ رگی
اور بے بسی کی استدع ئیں ک سنت ہے۔
میں اپنے بہت ہی پی رے دوست اور بھ ئی ڈاکٹر ص بر آف قی کے ب رے
کوئی خبر نہ پ کر پریش ن تھ ۔ سوچت تھ قسمت مجھ پر کبھی مہرب ن
نہیں ہوئی۔ ا بہت ہی ک لوگ میری گرہ میں رہ گئے ہیں ۔ ب لکل
کنگ ل اور م س ہو گی ہوں ۔ ج نے اس ب ر قسمت کو کیسے رح آگی ۔
پرسوں ان ک فون آی کہ بچ گی ہوں ۔ کہہ رہے تھے کہ بکرے کی م ں
ک تک خیر من ئے گی۔ سوچت ہوں میں اتن بدقسمت نہیں ہوں جتن
کہ خود کو سمجھ رہ تھ چ و کچھ تو بچ رہ ہے۔ اللہ کرے میرا یہ بچ
کھچ اث ثہ میری س نسوں تک مح وظ رہے۔
مقصود حسنی
شیر رب نی ک لونی ،قصور
14
یک نومبر ٥،ء
بزرگوں سے رشتہ اد آدا ک متق ضی رہت ہے۔ ان سے کھل ج نے
کے ب وجود ہ عمروں کی سی ب ت نہیں ہوتی ۔ ان سے نبھ بھی
مشکل ہوت ہے کیونکہ سنجیدگی اور رکھ رکھ ئو بھی خت نہیں ہو
پ ت ۔ زم نی ب د بھی بہر صورت ب قی رہت ہے۔ وہ اپنے عہد کی ب تیں
کرتے ہیں جبکہ ان ک عہد م ضی کی لحد میں اتر گی ہوت ہے۔ نی
عہد اپنے تق ضوں کے س تھ گزر رہ ہوت ہے۔ ان حق ئ کے ب وجود
بزرگوں سے دوستی من فع بخش ہوتی ہے۔ ان ک تجربہ بلا تردد ہ تھ
لگت ہے۔ زندگی کے بہت سے اطوار اور س یقے میسر آتے ہیں ۔ آدمی
وقت سے پہ ے بہت کچھ ج ن لیت ہے جس کے لیے وقت درک ر ہوت
ہے ۔ ان کی ک می بیوں کے گردستی ہوتے ہیں اسی طرح ان کی
خ میوں سے آگہی میسر آتی ہے۔ یہ آگہی آتے وقتوں میں ک آتی
ہے۔ کت بوں کی بھ ش لگی لپٹی سمیٹے ہوتی ہے۔ کت بوں میں وہ
کچھ نہیں ہوت جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کی ہوت ہے۔
اسی طرح سن نے والا بھی کہیں نہ کہیں ،ڈنڈی ضرور م رت ہے اور
یک طرفہ ہی کہت ہے ۔ بزرگ دوست لگی لپٹی کو ایک طرف رکھ دیت
ہے اور جو اور جیس ہی پیش کرت ہے۔ اسی طرح اص ی صورتح ل
سے آگہی میسر آتی ہے۔
میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے بزرگ دوست میسر آتے رہے
ہیں ۔ سچی ب ت تو یہ ہے کہ ان سے میں نے بہت کچھ سیکھ ہے۔
یہی نہیں بے لوث ت ون بھی دستی ہوا ہے۔ ان کی پذیرائی ک یہ
کم ل ہے کہ کچھ ن کچھ لکھنے کے ق بل ہوا ہوں ۔ کچھ دوستوں ک
کہن ہے کہ میں اچھ لکھ لیت ہوں ۔ سچی ب ت تو یہ ہے کہ میں اچھ
15
لکھن تو دور کی ب ت ایک سطر بھی نہ لکھ پ ت ۔ یہ س میرے بزرگ
دوستوں کی محبت اور ش قت ک نتیجہ ہے۔ مجھے بڑی اچھی طر ح
ی د ہے کہ میرے گرامی والد ص ح مجھے س تھ س تھ لیے پھرتے
تھے۔ بیٹھک میں کوئی آج ت تو بھی مجھے س تھ رکھتے ح لانکہ
بچوں کو عموم ً چ ت کی ج ت ہے۔ میں ان ک س سے چھوٹ بیٹ تھ
۔ ش ید اسی لیے وہ مجھ سے اتن پی ر کرتے تھے۔ ہو سکت ہے
ریٹ ئرمنٹ کی تنہ ئی نے انہیں بچے سے دوستی پر مجبور کر دی تھ ۔
بہر طور جو بھی سہی ،میں نے بہت کچھ سیکھ ۔ بہت سے بزرگ
دوستوں سے میری کبھی ملاق ت نہیں ہوئی۔ میری تحریر کے حوالہ
سے انہوں نے مجھے بھی بوڑھ خی ل کرلی ہو او ر ان ک اس و و
رویہ ہ عمر س تھیوں ک س رہ ۔ تحریر کی اچھی ہون ہے وہ س بڑے
ب کہ بہت بڑے لوگ تھے اسی لیے ہر بڑی سے بڑی ب ت کی توقع کی
ج سکتی ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کسی قس کی ع ر محسوس نہیں ہو رہی کہ میں
نے جو کچھ بھی لکھ ہے ان کی محبتوں ک ثمر ہے۔
بزرگوں سے دوستی ک من ی پہ و یہ ہے کہ وہ چھوڑ کر چ ے ج تے
ہیں۔ان کے ج نے ک جو دکھ ہوت ہے میں وہ بی ن کرنے سے ق صر و
ع جز ہوں ۔ ہر لمحہ ان کی یاد ست تی ہے۔ میں سوچ رہ تھ کہ
ڈاکٹرری ض انج جو میرے بیٹے ک کلاس فی و ہے اتن پختہ ک ر کیوں
ہو گی ہے اس کی عمر کے بچے تو موب ئل ایس ای ایس کی زندگی
گزارتے ہیں اور یہ تحقی ایسے دقی ک میں مشغول ہے۔ ج میں
نے اس کے دوستوں کی لسٹ دیکھی تو کھلا کہ اسے بزرگ دوست
میسر آئے ہیں وہ اس کے ب پ کی عمر کے لوگ ہیں ۔ یہی نہیں بلا
16
کے لائ اور تجربہ ک ر ہیں ۔ یہ بھی عمر میں ب بوں کی فکر رکھت
ہے۔ میں پورے یقین کے س تھ کہت ہوں کہ یہ میری عمر تک آتے
آتے میدان تحقی کی بہت بڑی بلاہوگ ۔ میں دیکھ رہ ہوں کہ آتے
س لوں میں تحقی سے مت لوگوں ک اس کے پ س ہجو ہوگ ۔
آج ج بڑھ پ اپنی جوانی کی سرحدوں کو چھوڑ کر بڑی تیز رفت ری
سے موت کی طرف بڑھ رہ ہے۔ م یوسی نہیں ،بے چ رگی کے ع ل
میں اپن دامن دیکھت ہوں تو لحد میں اترت بڑھ پ مسکرا دیت ہے۔
ابھی کچھ پھول ب قی ہیں ۔ میں تہی دامن نہیں ہوا۔ میرے دامن کے
پھولوں میں خوش بو ب قی ہے اور وہ اپنی خوشبو بڑی ذمہ داری سے
زندگی کے حوالے کر رہے ہیں ۔ ان کی مہک میں رائی بھر کمی نہیں
آئی۔ موت ان ک کچھ نہیں بگ ڑ سکتی۔ میں بھول رہ تھ کہ بیدل
حیدری ،سید م ین الرحمن ،وف راشدی ،فرم ن فتح پوری ،سید غلا
حضور اور کئی ان سے حسین چہرے منوں مٹی ت ے ج چھپے۔ مریں
ان کے دشمن ،وہ مر نہیں سکتے۔ موت ان ک کچھ نہیں بگ ڑ سکتی۔
انہیں گ شن اردو میں ل ظوں کے لب س میں زندہ رہن ہے۔ ان کے
ق سے ل ظوں کو ک یوں ک تمث لی وجود مل چک ہے۔
ہ ں ڈاکٹر تبس ک شمیری ،ڈاکٹر محمد امین ،ڈاکٹر مظ ر عب س ،ڈاکٹر
س دت س ید ،ڈاکٹر نجی جم ل ،ڈاکٹر اختر شم ر ،ڈاکٹر غلا شبیر
ران ،ڈاکٹر عبدال زیز س حر ،ڈاکٹر ق ضی محمد عبداللہ وغیرہ سے
میری ج بھی موب ئل فون پر ب ت ہوتی ہے تو زندگی کو اپنے بہت
قری پ ت ہوں ۔ مجھے اپنے ہونے ک یقین ہونے لگت ہے۔کون کہت ہے
اردو اد زوال ک شک ر ہو چک ہے ی تحقی و تنقید ک میدان اردو کے
انڈر ٹیکروں سے خ لی ہو رہ ہے۔ ج تک یہ لوگ زندہ ہیں اردو
17
اد پر بہ روں کے موس مہرب ن رہیں گے۔ ان ص حب ن ع و دانش
ک کم ل ہے کہ انہوں نے اچھی خ صی نئی کھیپ پیدا کر دی ہے جو
اردو اد کو حسن و خوبی سے سرفراز کرے گی۔اس طرح اردو زب ن
و اد ک دامن خوش رنگ پھولوں سے بھرا رہے گ ،ان ش ئ اللہ۔
ڈاکٹر ری ض انج جوان ہے لیکن اس کے ہررنگ اور ہر ترنگ میں
بوڑھوں کے ل ظوں کی محبت اور خوش بو م تی ہے ۔اس کی یہی ادا
اسے مجھ سے اور مجھے اس سے قری رکھتی ہے۔ اللہ اسے
سرفرازیوں سے نوازے اور ہر نظر بد سے مح وظ فرم ئے۔آمین
!مکرمی ومحترمی حسنی ص ح :سلا مسنون
یقین کیجئے کہ میں سوچ رہ تھ کہ عرصہ سے آپ یہ ں نظر نہیں
آئے۔ کہیں ایس تو نہیں ہے کہ چونکہ یہ ں لکھنے پڑھنے والے
م دودے چند رہ گئے ہیں آپ دل برداشتہ ہو کر انجمن سے کن رہ کش
ہو گئے ہیں۔ آپ ک یہ انش ئیہ دیکھ تو دل ب ب ہو گی ۔ اللہ آپ کو
طویل عمر اور صحت سے نوازے اور آپ اسی طرح گ شن اردو میں
پھولوں کی ب رش کرتے رہیں۔
آپ ک انش ئیہ پڑھ کر دل بھر آی ،کیسے کیسے لوگ ی د آئے ،کیسی
کیسی ی دوں نے دل پر کچوکے لگ ئے اور آنکھوں میں کیسے کیسے
من ظر گھو گئے۔ دل م ول ہوا اور بہت م ول ہوا۔ لیکن انش ئیہ کے آخر
میں جو امید اور خوش آئند مستقبل کی نوید م ی وہ بہت تقویت ک
ب عث ہوئی۔ آپ کے ب رے میں جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ بہت اچھ
لکھتے ہیں وہ ب لکل صحیح کہتے ہیں۔ آپ کے ق میں درد ہے ،کسک
18
ہے ،ع ہے ،م ضی کی گونج ہے ،ح ل ک پی نو ہے اور مستقبل کی
نوید نو۔ پھر اور کس چیز کی کمی ہے جو ہ شکوہ کریں ی دل چھوٹ
کریں۔ دع ہے کہ آپ اسی طرح لکھتے رہیں۔ اور ش دک رہیں۔
افسوس اس ک ہے کہ آپ کو پڑھنے والے بہت ک ہیں۔ لیکن اس ک
علاج کی ہے یہ نہیں م و ۔ خیر کوئی ب ت نہیں۔ پھول کی خوشبو کے
لئے ضروری نہیں کہ پھول ہ تھ ہی میں ہو۔ وہ خود ہوا کے دوش پر
سوار کونے کونے میں پہنچ ج تی ہے اور س کو ش دک کرتی ہے۔
انش ئیہ ک بہت بہت شکریہ۔
ب قی راوی س چین بولت ہے۔
سرور ع ل راز
مکرمی ومحترمی جن ڈاکٹر حسنی ص ح :سلا ع یک
میں ن د ہوں کہ اتنے عرصے آپ کی تخ یق ت سے فیضی نہ ہو سک ۔
انش اللہ کوشش کر کے آپ کو پڑھوں گ ۔ آپ ک یہ مضمون پڑھ کر
انتہ ئی مسرت ہوئی اور یہ احس س بھی پیدا ہوا کہ آپ کی تحریر کتنی
ع افزا اور دلکش ہوتی ہیں۔ یہ مضمون کہنے کو ایک س دہ اور
سیدھے س دے موضوع پر لکھ گی ہے لیکن ہ نئی نسل کے لوگوں
کے لئے ندرت زب ن و بی ن ،ت زگی اور دلچسپی کے بہت سے پہ و
رکھت ہے۔ پڑھ کر دل م لا م ل ہو گی ۔ ا ایسی تحریریں دیکھنے کو
نہیں م تی ہیں۔ اللہ سے دع ہے کہ آپ کو طویل عمر اور اچھی صحت
19
عط فرم ئے ت کہ ہ اسی طرح فیضی ہوتے رہیں۔ آمین۔
خ د :مشیر شمسی
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9832.0
ایک قدی اردو ش عر کے کلا ک ت رفی و لس نی ج ئزہ
مخدومی و مرشدی جنت مک نی قب ہ سید غلا حضور کے ع می وادبی
20
ذخیرے سے م نے والی کت ' اظہ ر محمدی منظور احمدی' ک اور
کس سن میں ش ئع ہوئی' ٹھیک سے کہ نہیں ج سکت ۔ اس پر ت ریخ
اور سن درج نہیں ہے۔ ہ ں پب یشر ک ن .....فقیر فضل حسین ت جر
کت ابن ح جی علاؤالدین مرحو س کن پتوکی نوآب د ض ع لاہور.....
درج ہے۔ پتوکی نوآب د ض ع لاہور سے یہ ب ت وضح ہوتی ہے کہ اس
چوبیس ص حے کی اش عت' اس وقت ہوئی' ج پتوکی نی نی آب د ہوا
تھ ۔
اس میں مولوی احمد ی ر کی پنج بی مثنوی' مرزا ص حب ن ک کچھ حصہ
درج ہے۔ گوی یہ ان دنوں کی ب ت ہے' ج وہ زندہ تھے اور مثنوی
مرزا ص حب ن تحریر کر رہے تھے۔ یہ کلا ص 10تک ہے۔ ص15-14
پر سترہ پنج بی اش ر پر مشتمل ک فی بھی ہے۔ گوی مولوی احمد ی ر
پنج بی ک فی بھی کہتے تھے۔ پنج بی میں ان کی صرف مثنوی مرزا
ص حب ن پڑھنے کو م تی ہے۔
کت کے بقیہ ص ح ت پر' مولوی غلا محمد ک اردو پنج بی اور
ف رسی کلا ش مل ہے۔ سرور پر موجود م وم ت کے مط ب ' مولوی
غلا محمد قسم نہ س کن ص ب تحصیل دیپ لپور تھ نہ حجرہ ض ع
منٹگمری ح ل س ہی وال کے تھے۔ ص 12-11پر ریختہ کے ن سے
کلا درج ہے۔ یہ کل نو ش ر ہیں۔ انہوں نے ل ظ ریختہ زب ن کے لیے
لکھ ہے ی اردو غزل کے لیے' واضح نہیں۔ پہلا پ نچواں اور آخری
ش ر غزل کے مزاج کے قری ہے۔ غزل کے ب قی اش ر' مروجہ
عمومی مزاج سے لگ نہیں رکھتے۔ ہ ں غزل میں صوفی نہ طور'
صوفی ش را کے ہ ں ضرور م ت ہے۔
21
نہ م ت گ رخن سے دل میرا مسرور کیوں ہوت
نہ اس نرگس کوں دیکہت رنجور کیوں ہوت
نہ پڑت پرہ تو ح ک اگر رخس ر خوب ں پر
تو ہر ع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت
مقی اس دا زل میں نہ بھنست اگر دل تیرا
تو سر گردان ت ریکی شبے رتجور کیوں ہوت
ص 13پر ایک خمسہ ہے' جسے مولود شریف ک ن دی گی ہے۔ اس
سے پہ ے مولود شریف شیخ س دی ص ح کے چ ر ش ر دیئے گیے
ہیں۔ اردو مولود شریف کے ب د' مولود شریف مولوی ج می ص ح
کے' نو ش ر درج کیے گیے ہیں۔ آخر میں مولود شریف کے عنوان
سے' نو ش ر درج کیے گیے۔ ص 19پر موجود کلا کو ک فی ک ن دی
گی ہے۔ اس کلا کو نہ پنج بی کہ ج سکت اور ن ہی اردو' ت ہ ب ض
ش ر اردو کے قری تر ہیں۔ دو ایک ش ر ب طور نمونہ ملاحظہ ہوں۔
ک ئی کہو سجن کی ب ت جن کے پری لگ ئی چ ٹ پہلا ش ر
پ نچواں ش ر س یم ن نبی ب قیس نہ ہو ہک آہی مط ذات
بحر محیط نے جوش کی ت نوروں ہوی خوش کی چھٹ ش ر
مو کرے دل لوہ س را چھبسواں ش ر ک مل پیر پن ہ ہم را
دو غزلیں ف رسی کی ہیں۔ اوپر عنوان بھی دی گی ہے
22
غزل مولوی غلا محمد از ص ب
اے بن ت تو مزین مسند پیغمبری وے خجل گشتہءرویت آفت
خ وری
مط ع ف رسی غزل ص 12
غزل از غلا محمد ص ح
ج ں فدائے تو ی رسول اللہ دل گدائے تو ی رسول اللہ
مط ع ف رسی غزل ص 23
پنج بی کلا کے لیے' ل ظ ک فی است م ل ہوا ہے۔ داخ ی شہ دت سے یہ
ب ت واضح ہوتی ہے' کہ ل ظ ریختہ اردو غزل کے لیے ہی است م ل ہوا
ہے۔ دلی وغیرہ میں جو مش عرے ہوا کرتے تھے' ان کے لیے دو
اصطلاح ت رواج رکھتی تھیں۔ ف رسی کلا کے لیے مش عرے' ج کہ
اردو کلا کے لیے' ل ظ مراختے رواج رکھت تھ .ل ظ اردو محض
شن خت کے لیے لکھ رہ ہوں' یہ ل ظ عمومی رواج نہ رکھت تھ ۔
اس صورت ح ل کے پیش نظر' غ ل کے ہ ں است م ل ہونے والا ل ظ
ریختہ' گڑبڑ ک شک ر ہو ج ت ہے۔ مولوی غلا محمد پہ ے کے ہیں'
عہد غ ل کے ہیں ی ب د کے' ب ت قط ی الگ تر ہے۔ مش عروں میں
زی دہ تر غزلیہ کلا سن ی ج ت تھ اور آج صورت ح ل مخت ف نہیں۔
گوی غزل کے لیے ل ظ ریختہ' ج کہ مش عرے کے لیے ل ظ مراختہ
است م ل ہوت تھ ۔ لامح لہ زب ن کے لیے کوئی دوسرا ل ظ است م ل ہوت
ہوگ ۔ اس حس سے غ ل کے ہ ں بھی غزل کے م نوں میں
اسست م ل ہوا ہے۔ اگر یہ ص ح ' غ ل کے ب د کے ہیں' تو اس ک
23
مط یہ ٹھہرے گ کہ ل ظ اردو ب طور زب ن است م ل ہوت ہو گ لیکن
عمومی مہ ورہ نہ بن سک تھ ۔ اس ک عمومی مہ ورہ بنن بہت ب د کی
ب ت ہے۔
ل ظوں کو ملا کر لکھنے ک ع چ ن تھ ۔ اس کت میں بھی یہ چ ن
موجود ہے۔ مثلا
ہ سے ج نیکی بدی ت ے گی ہمسے کجہ نہیں غ
ص 13
تو ہر ع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت آنکہون میں ص
12
دو چشمی حے کی جگہ حے مقصورہ ک رواج تھ ۔ مثلا
نہوت سر مولے ک اگر کجہ ذات انس نمیں
بہت سے ل ظوں ک ت ظ اور مکتوبی صورت آج سے الگ تھی۔ مثلا
نہوت بھیت اسمیں خورشید فدا ک
بھید ص 11 بھیت
ولیوں کے ک ندہے قد غوث اعظ
ک ندہے کندھے ص 24
تو سر گردان ت ریکی شبے رتجور کیوں ہوت
میں اض فت کی بج ئے ے ک است م ل کی گی ہے۔
ش عر نے خو صورت مرکب ت سے بھی کلا کو ج ز فکر بن نے
24
کی س ی کی ہے۔ مثلا
حسن منظور
تو ہر ع ش کی آنکونمیں حسن منظور کیوں ہوت ص 12
ست رہ محمدی
غ ل س سے آی ست رہ محمدی ص13
مست مل س پہ ہے لیکن س سے است م ل کی گی ہے۔
مرک ل ظ دیکھیے
خداگر
عمر گر عدالت خداگر نہ کرتے ص 24
کلا میں ریشمیت ک عنصر بھی پ ی ج ت ہے۔ مثلا
نہ پڑت پرتوہ ح اگر رخس ر خوب ں پر
تو ہرع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت ص 12
کی زبردست طور سے صن ت تض د ک است م ل ہوا ہے۔
تو دین اورک ر میں جدائی نہ ہوتی ص 24
صن ت تض د کی مخت ف نوعیت کی دو ایک مث لیں اور ملاحظہ ہوں۔
نہ م ت گ رخن سے دل میرا مسرور کیوں ہوت
نہ اس نرگس کوں دیکہت رنجور کیوں ہوت ص 12
25
جہ ں صن ت تض د ک است م ل ہوا ہے' وہ ں اردو زب ن کو دو خو
صورت است رے بھی میسر آئے ہیں.اگر مخت ر ہو آد آپن کے خیر
وشر اوپر
تو دانہ کھ کے گند ک جنت سے دور کیوں ہوت ص 12
اش ر ت میح ت سے مت ہوتے ہی۔ ت میح ت ک است م ل اسی حوالہ
سے ہوا ہے۔ اس ذیل میں دو ایک مث لیں ملاحظہ ہوں۔
اگر مخت ر ہو آد آپن کے خیر وشر اوپر
تو دانہ کھ کے گند ک جنت سے دور کیوں ہوت ص 12
لکھی تہی لوح پر ل نت پڑھی تھی س فرشتوں نے
اگر یوں ج نت شیط ں تو وہ مغرور کیوں ہوت ص11
اس ک مط یہ بھی نہیں کہ دو چشمی حے ک است م ل ہی نہیں ہوت
تھ ۔ دو ایک مث لیں ملاحظہ ہوں۔
لکھی تہی لوح پر ل نت پڑھی تھی س فرشتوں نے ص 11
بھیت سجن کی خبر لی وے ص 19
تو ہ ع جزوں کی رھ ئی نہوتی ص 24
زب ن ک مہ ورہ بھی برا اور ن موس نہیں۔ مثلا
کی دعوئے ان الح ک ہوی سردار کیوں ہوت ص11
ک ئی کہو سجن کی ب ت
26
جن کے پری لگ ئی چ ٹ ص19
گذر گی سر توں پ نی ص20
اس ش ری مجموعے کے اردو کلا پر' پنج بی کے اثراات واضح طور
پر محسوس ہوتے ہیں۔ ب ض جگہ لس نی اور کہیں لہجہ پنج بی ہو ج ت
ہے۔ مثلا
نہ ہوت بھیت اسمیں اگر خوشید ذرہ ک ص 11
تو ہر ذرہ انہ ں خورشید سے پرنور کیوں ہوت ص12
ہک لکھ کئی ہزار پیغمبر گذر گئے ص 13
ا لہجے سے مت ایک دو مثث لیں ملاحظ ہوں۔
ج نیکی بدی ت ے گی ہمسے کجھ نہیں غ ص 13
ع ی کو جے مشکل کش ح نہ کرتے ص 24
اردو پر ہی موقوف نہیں' پنج بی بھی اردو سے مت ثر نظر آتی ہے۔
مصرعے کے مصرعے اردو کے ہیں۔
کہیں میراں ش ہ جیلانی ہے کہیں قط فرید حق نی ہے
کہیں بہ ؤالدین م ت نی ہے کہیں پیر پن ہ لوہ ر ص 19
اس چوبیس ص حے کی مختصر سی کت سے' یہ ب ت واضح ہوتی
ہے' کہ مولوی غلا محمد آف ص ب تین زب نوں کے ش عر تھے.
مخت ف اردو اصن ف میں ش ر کہتے تھے اور اچھ کہتے تھے۔ ان ک
کلا کی ہوا اور کدھر گی ' کھوج کرنے کی ضرورت ہے۔
27
مثنوی م سٹر نرائن داس' ایک ادبی ج ئزہ
28
دوسری زب نوں کی طرح اردو' وہ جس رس الغط میں بھی رہی' مخت ف
حوالوں سے' اس کے س تھ دھرو ہوت آی ہے۔ مثلا
جنگجوں نے' اسے دشمن ک ذخیرہءع سمجھتے ہوئے' برب د کر دی '
ح لاں کہ ل ظ کسی قو ی علاقہ کی م کیت نہیں ہوتے۔
اردو کو مسم نوں کی زب ن سمجھتے ہوئے' غیر مس موں کی تحریوں
کو نظر انداز کر دی گی ۔ ج کہ اصل حقیقت تو یہ ہے' کہ زب ن تو اسی
کی ہے' جو اسے است م ل میں لات ہے۔
گھر والوں نے' چھنیوں' کولیوں اور لکڑیوں کو ترجیح میں رکھتے
ہوئے' ع می وادبی سرم یہ ردی میں بیچ کر' دا کھرے کر لیے۔
بہت کچھ' ح لات' ح دث ت اور عد توجہگی کی نذر ہو گی ۔
قددرتی آف ت بھی' اپنے حصہ ک کردار ادا کرتی آئی ہیں۔
تہذیبں مٹ گئیں' وہ ں محض کھنڈر اور ٹی ے رہ گیے۔ بہت کچھ ان
میں بھی د گی ۔ ب د کے آنے والوں نے' انہیں ب ڈوز کرکے ص ف
زمین کے ٹکڑے کو' س کچھ سمجہ لی ۔ اگر محت ط روی اختی ر کی
ج تی تو وہ ں سے' بہت کچھ دستی ہو سکت تھ ۔
م سٹر نرائن داس' اردو کے خوش فکر اور خوش زب ن' ش عر اور
نث ر تھے۔ سردست ان کی ایک ک وش فکر فوٹو ک پی کی صورت میں'
دستی ہوئی ہے' جو پیش خمت ہے۔ اس سے پہ ے سوامی را تیرتھ
ک کلا پیش کر چک ہوں۔
م سٹر نرائن داس' جو قصور کے رہنے والے تھے اور فرید کوٹ کے
مڈل سکول میں' ب طور ہیڈ م سٹر فرائض انج دے رہے تھے'
29
اٹھ ئیس بندوں پر مشتمل مسدس ب عنوان۔۔۔۔۔جوہر صداقت۔۔۔۔۔ تحریر
کی ۔ یہ 1899میں بلالی پریس س ڈھورہ ض ع انب لہ میں کری بخش و
محمد بلال کے اہتم طبع ہوا۔ گوی یہ آج سے' 116س ل پہ ے ش ئع
ہوا۔ اس مسدس کی زب ن آج سے' رائی بھر مخت ف نہیں۔ خدا لگتی یہ
ہے' اسے پڑھنے کے ب د اندازہ ہوا' کہ م سٹر نرائن داس کو زب ن پر
ک مل دسترس تھی۔ زب ن وبی ن میں فطری روانی موجود ہے۔ اپن نقطہء
نظر' انہوں نے پوری دی نت' خ وص اور ذمہ داری سے پیش کی ہے۔
انہوں نے اپنی پیش کش کے لیے' دس طور اختی ر کیے ہیں۔
مزے کی ب ت یہ کہیں مذہبی ی نظری تی پرچھ ئیں تک نہیں م تی۔ حیرت
کی ب ت تو یہ ہے' فقط آٹھ ئیس بندوں میں زب ن بی ن کے دس اطوار
اختی ر کیے۔ بلاشبہ م سٹر نرائن داس بڑے سچے کھرے اور ب اصول
انس ن رہے ہوں گے۔
انہوں نے سچ ئی کو مذہ پر فضی ت دی ہے۔ ان کے مط ب خدا
سچ ئی سے ال ت رکھت ہے۔ کہتے ہیں۔
سچ ئی کے عقیدے کو مذہ پر فضی ت ہے
خدا کو بندگ ن راستی سے خ ص ال ت ہے
صداقت اپنی حیثیت میں ہے کی ۔
سچ ئی رحمت ازلی و ابدی ک خزینہ ہے
صد اوج س دت ک عظی الش ن زینہ ہے
اس ک فنکشن کی ہے۔
30
ذرا چھونے سے ادنے چیز کو اع ے بن تی ہے
وہ قیمت بیشتر اکسیر اعظ سے بھی پ تی ہے
صداقت اور کذ ک موازنہ
م مع محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچ ئی کے
نکم محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچ ئی کے
صداقت کے فوائد
سچ ئی ہر دوع ل میں ہے دیتی رتبہ اع ے
سچ ئی کرتی ہے ہر دو جہ ں میں مرتبہ اع ے
سچ ئی کے ضمن میں دلائل
حکومت بھرتری نے چھوڑ دی خ طر سچ ئی کی
..........
تی گی ہو گی س کی منی خ طر سچ ئی کی
.............
سچ ئی کو بن ی راہنم پہلاد نے اپن
...........
پکڑ کر ہ تھ سے اپنے پئے خ طر سچ ئی کی
پی لے زہر کے سقراط نے خ طر سچ ئی کی
31
...........
مسیح بھی ہوئے ص و تھے خ طر سچ ئی کی
.............
ہزاروں سر ہوئے تن سے جدا خ طر سچ ئی کی
.............
کئی بچھڑے پی رے وطن سے خ طر سچ ئی کی
.............
پڑے ش وں میں ج تی آگ کے خ طر سچ ئی کی
سچ ئی فقرا ک مس ک ہوتی ہے۔
سچ ئی ہی قدر قیمت فقیروں کی بڑھ تی ہے
سچ ئی م رفت کے راستے انکو بت تی ہے
سچ ئی کردگ ر پ ک کی قربت دلاتی ہے
یہی آخر انہیں درگ ہ ایزد میں پہنچ تی ہے
کذ ک انج کی ہوت ہے۔
کذ د میں گنوات ہے شہنش ہونکی عزت کو
تب ہ کرت ہے انکی ش ن کو شوکت کو ہیبت کو
اسی سے ڈر ہے وق ت کو خطر اس سے دولت کو
32
گرات سرنگوں ہے غرض ان کے ع ل رف ت کو
ہزل پیشوں کو اللہ خ ک میں آخر ملات ہے
مگر سچوں ک ح فظ اور مودی اور دات ہے
حک ئتی انداز بھی اختی ر کی گی ہے۔
گڈریے کی حک یت بھی نصیحت خو دیتی ہے
کہ جسکی شیر کے پنجے سے پی ری ج ن نک تی ہے
کذ کے ہ تھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے
سزا جھوٹوں کو اپنے جھوٹ کی ایسے ہی م تی ہے
اہل ہند کے ب رے چینیوں اور رومیوں کی آراء
صداقت اہل ہندوست ں کے یون نی ثن خواں تھے
چ ن کے اہل ہندوست ں کے چینی ثن خواں تھے
موجودہ صورت ح ل
صداقت ہو گئی ہے دور ہندوست ں کے لوگوں سے
ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے
سچ ئی کے رستے پر چ نے والوں کی تحسین اور مب رکب د
مب رک ہو خوشی اے راستی کے چ ہنے والو
مب رک مخروقی اے راستی کے چ ہنے والو
33
مب رک برتری اے راستی کے چ ہنے والو
مب رک خوش روی اے راستی کے چ ہنے والو
مب رک آپ کو مژدہ یہ خوشخبری مب رک ہو
مب رک آپ کو یہ مہر رب نی مب رک ہو
ان کی مذہبی عصبت سے دوری ک س سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں
نے ذات ب ری کے لیے کردگ ر' ایزد' اللہ'ر ' خدا ن است م ل کیے
ہیں۔
م سٹر ص ح کے پ س متب دلات ک خزانہ موجود ہونے ک گم ن گزرت
ہے۔
سچ ئی سے خدا ت لے کی رحمت کی ترقی ہے
........
خدا کو بندگ ن راستی سے خ ص ال ت ہے
........
صد کو ی زرہ سمجھو کہ یہ اک زی تن کی ہے
........
نہ ہرگز س نچ کو ہے آنچ اس نے آزم دیکھ
........
صداقت کی مدد ان کو سچ ئی کے سہ رے ہیں
34
ا کچھ مرکب ت ملاحظہ ہوں۔
وہ ف ک راستی کے چمکتے گوی ست رے ہیں
........
مب رک گ ست ن راستی کے ٹہ نے والو
مب رک زیور صد و صداقت پہننے والو
.........
ستون سرخ آہن سے خوشی سے دوڑ کر لپٹ
.........
شہیدان صداقت نے دی خ طر سچ ئی کی
.........
فتح کےلوک میں پرلوک میں ڈنکے بج تے ہیں
........
کی خو مصرع ہیں۔ فص حت و بلاغت ک منہ بولت ثبوت ہیں۔ اس
ن صح نہ انداز میں ت خی ضرور ہے' لیکن فکری و لس نی حوالہ سے'
ان مصرعوں کو نظرانداز کرن ' زی دتی ہو گی۔ بےشک ان مصرعوں
میں' انہوں نے آف قی سچ ئی بی ن کی ہے۔
ہوا کرت ہے جھوٹوں پر سدا قہر خدا ن زل
35
کبھی درگ ہ سچی میں نہیں ک ز ہوئے داخل
..........
ہزل پیشوں کو اللہ خ ک میں آخر ملات ہے
.........
مب رک آپ کو یہ مہر رب نی مب رک ہو
م سٹر ص ح کی زب ن ک مہ ورہ بھی ن ست سے گرا ہوانہیں۔ دو ایک
مث لیں ملاحظہ ہوں
کذ کے ہ تھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے
...........
ک ہ ڑی ہ تھ سے اپنے وہ خود پ ؤں پہ دھرتے ہیں
...........
سچ ئی ک نصیبے والے ہی دامن پکڑتے ہیں
............
اسی سے ن رہت ہے جہ ں میں ی د سچوں ک
..........
ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے
مثنوی ک پہلا ش ر ہی تشبیہ پر استوار ہے۔ ملاحظہ ہو
سچ ئی مثل کندن چمکتی ہے دندن تی ہے
36
وہ ج وہ نور کوہ نور سے بڑھ کر دکھ تی ہے
صن ت تکرار ل ظی ک است م ل بھی ہوا ہے۔ ہ ں البتہ' دندن تی کی
جگہ' کوئی اور ل ظ رکھ دیتے' تو زی دہ اچھ ہوت ۔
ایک اور خو صورت سی تشبیہ ملاحظہ ہو۔
مگر ہے جھوٹ مثل ک نچ اس نے آزم دیکھ
ا صن ت تض د کی کچھ مث لیں ملاحظہ فرم لیں۔
شروع میں ہے خوشی اسکے خوشی ہی انتہ اسک
انتہ کو مونث ب ندھ گی ہے اور یہ غ ط نہیں۔
.......
سچ ئی راحت ازلی و ابدی ک خزینہ ہے
.......
زب ن پ ک کو اے دل نہ آلودہ کذ سے کر
م سٹر نرائن داس نے' اپنے عہد کی سچ ئی کے حوالہ سے' ہندوست ن
کی ح لت کو' ریک رڈ میں دے دی ہے۔ کہتے ہیں
بن ی جھوٹ کو ابتو ہے ہمنے راہنم اپن
سچ ئی الودع! ہے آجکل کذ وری اپن
دھر ب قی رہ اپن نہ دل ق ئ رہ اپن
37
نہ ی رو جھوٹ کے ہ تھوں سے ایم ں ہی بچ اپن
صداقت ہو گئی ہے دور ہندوست ں کے لوگوں سے
ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے
مثنوی ک آخری ش ر جس میں تخ ص است م ل ہوا ہے' پیش خدمت ہے
یہ ع صی اے سچ ئی تیرے ہی گھر ک سوالی ہے
ترا ہی داس اور تیرے ہی گھر ک سوالی ہے
کہ ج ت ہے' انس ن نے ترقی کر لی ہے۔ خ ک ترقی کی ہے' جہ ں ع
دو نمبر کی چیز ہو اور اہل ق کی موت کے ب د' ان کے پچھ ے' ان
کے لہو پ روں کو' ردی میں بیچ دیں ی ط قت کے نشہ میں چور
حکمرانوں کے پیشہ ور بےرح جنگجو' اس انس نی ورثے کو' نیست
ون بود کر دیں .وہ ں ہوس لالچ اور ن س ن سی کے سوا کی ہو سکت
ہے۔ اگر ہوس' لالچ اور ن س ن سی ترقی ہے' تو وہ بہت زی دہ ہوئی
ہے۔
م سٹر ص ح نے اور بھی بہت کچھ' ش ر و نثر میں لکھ ہو گ ' کچھ
کہہ نہیں سکتے۔ تقسی ہند ک عمل تقریب نصف صدی ب د ک ہے۔۔ اس
لیے' وہ تقسی میں ض ئع نہیں ہوا ہو گ ۔ آج ج م ت' تحیقی ڈگری
چھ پنے میں مصروف ہیں' اگر وہ خ موش اردو کے خدمت گ روں کو'
تلاشنے کو بھی' تحقی سمجھیں' تو یہ اردو زب ن کی بہت بڑی خدمت ہوگی
محتر جن ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ۔۔ السلا ع یک
38
آج موج غزل سے نکل کر موج بی ن ک رخ کی تو اس نتیجہ پر پہنچ
کہ اس س ئٹ میں موجود موج بی ن ک حصہ آپ کے د سے ق ئ ہے
کیونکہ میں نے پچ نوے فیصد سے زائد تح ریر آپ کی یہ ں آپکی لگی
ہوئ دیکھی ۔۔ اللہ پ ک آپکو اور آپکے اس ذو و شو اور فن کو
سلامت رکھے اور وس ت و ترقی عط فرم ئے ۔ میں محتر سرور راز
ص ح سے مت ہوں کہ یہ ں صنف ش عری کی نسبت احب کی توجہ
نثر کی طرف بہت ک ہے جو احب نثری تخ یق ت لکھ سکتے ہیں ان
کو ضرور اس ج ن بھی توجہ کرنی چ ہئے ۔۔
آپ نے بہت اہ مسئ ہ کی طرف توجہ دلائی ہے آپکی سوچ اور فکر
بج ہے کہ ادبی ورثہ کو مح وظ رکھنے کے لئے بھی ک ہون چ ہئے
۔۔ اللہ پ ک آپکو ش دا رکھے اور آپکی تم تر نیک و ج ئز تمن ؤں کو
پورا فرم ئے ۔۔
والسلا
محمد یوسف
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9892.0
آش پربھ ت' مسک تے' س گتے اور ب کتے احس س ت کی ش عر
39
عزیزہ آش پربھ ت نے اپن مجموعہءکلا ۔۔۔۔۔ مرموز۔۔۔۔۔۔ ان ال ظ کے
س تھ عط کی ۔
صف اول کے ف ل ادی ' نق د اور دانشور محتر بھ ئی ص ح کو
احترا کے س تھ
آش پربھ ت
اگست 8 1996
میں نے کچھ لکھ بھی تھ اور وہ کہیں ش ئع بھی ہوا تھ ۔ ب وجود
کوشش کے' وہ لکھ دستی نہیں ہو پ رہ ۔ کلا آج انیس س ل ب د'
دوب رہ پڑھنے میں آی ہے' میں بڑی سنجیدگی اور دی نت داری سے'
محسوس کر رہ ہوں' اس پر لکھ ج ن چ ہیے۔
مرموز 1996میں' پب شرز اینڈ ایڈورٹ ئزرز جے 6کرشن نگر دلی
سے' ش ئع ہوا۔ ٹ ئیٹل بیک پر' آش پربھ ت کی تصویر ت رف اور ان
کے کلا پر اظہ ر خی ل بھی' کی گی ہے۔ انہوں نے' اپنے کسی خط
میں' لکھنے والے کے مت بت ی ہو گ ۔ ا اس خط ک م ن ' آس ن
نہیں۔ اس تحریر کے مط ب ' آش پربھ ت کی ولادت رکسول' بہ ر میں
ہوئی۔ ان ک ن ول۔۔۔۔۔ دھند میں اگ پیڑ۔۔۔۔۔ م ہ ن مہ منشور کراچی میں
ش ئع ہوا' جو ب د میں' کت بی شکل میں بھی ش ئع ہوا تھ ۔ انہوں نے'
مہرب نی فرم تے ہوئے' ایک نسخہ مجھ ن چیز ف نی کو بھی' عن یت کی
تھ ۔ ان ک ایک مجموعہء ش ر ۔۔۔۔۔۔ دریچے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زب ن کے'
دیون گری خط میں بھی ش ئع ہوا تھ ۔ ان ک ایک ہ ئیکو پر مشتمل
مجموعہ۔۔۔۔۔گردا ۔۔۔۔۔۔ زیر اش عت تھ ۔
40
ان کی ش عری سے مت کہ گی ہے۔
اس و اور ہیئت کے اعتب ر سے ان کی نظمیں ش ری اد کے
سرم ئے میں ایک نئے ب ک اض فہ کرتی ہیں۔
اس مجموعے میں' کل اکسٹھ ش ر پ رے ش مل ہیں' جن میں سولہ
غزلیں اور پ نچ اوپر چ لیس نظمیں ش مل ہیں۔ آش بنی دی اور پیدائشی
طور پر' دیون گری رس الخط سے مت ہیں' لیکن اردو رس الخط
سے' ان کی محبت عش کی سطع پر نظر آتی ہے۔ ان ک کہن ہے۔
اردو میری محبو ہے اور میری محبو کی آنکھوں میندھنک کے
تم رنگ لہراتے ہیں۔
ان ک کہن ' کہنے کی حد تک نہیں' مرموز اس کی عم ی صورت میں
موجود ہے۔ واق ی اردو سے وہ عش کرتی ہیں۔
اس ک وش فکر ک ابتدائیہ' جو آش پربھ ت ک لکھ ہوا ہے' سچی ب ت
ہے' دل کے نہ ں گوشوں میں بھی' ارت ش پیدا کرت ہے۔ ملاحظہ
فرم ئیں۔
اس ک وش فکر ک ابتدائیہ جو آش پربھ ت ک لکھ ہوا ہے سچی ب ت
ہے دل کے نہ ں میں بھی ارت ش پیدا کرت ہے۔ ملاحظہ فرم ئیں۔
مجھے نہیں م و ش عری کی ہے۔ ش ری آہنگ کی ہوت ہے۔ ش ری
ش ور کی ہے اور داخ ی عوامل سے یہ کس طرح ترتی پ ت ہے۔ میں
بس اتن ج نتی ہوں کہ دھند صرف پہ ڑوں پر نہیں ہوتی آدمی کے اندر
بھی پھی تی ہے۔ سمندر لہرات ہے۔ دری موجزن ہوت ہے۔ طوف ن اٹھتے
ہیں' پھول کھ تے ہیں' خوشبو پھی تی ہے اور ج بھی میں ان کی یتوں
41
سے گزرتی ہوں تو ل ظوں ک سہ را لیتی ہوں اور محسوس ت کے
پراسرار دھندلکوں میں ال ظ کی قندیل جلاتی ہوں لیکن ال ظ دور تک
میرا س تھ نہیں دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے نزدیک ش عری قندیل جلانے ک عمل ہے۔ مجھے نہیں م و
میری قندیل کی روشنی محسوس ت کی کس سطع کو چھوتی ہے۔ لیکن
کی یہ ک ہے کہ میں نے قندیل جلائی ہے اور جلائے رکھنے ک عز
رکھتی ہوں۔
یہ زب نی کلامی کی ب تیں نہیں' مرموز کے مط ل ے کے ب د' یہ تم
کی ی ت پڑھنے کو م تی ہیں۔
ل ظ بہ مثل قندیل روشن رہتے ہیں
دل کے نہ ں خ نوں میں
ت موجود ہو
آک ش میں شبد کی طرح
نظ آک ش میں شبد ص9
دھند آدمی کے اندر بھی پھی تی ہے۔
ا کسی بھی آنکھ میں
پہچ ن کی خوشبو نہیں
چوب روں کے دیئے
ک کے بجھ چکے ہیں
42
بہت ج ن لیوا سن ٹ
وہ ں لیٹ رہت ہے
نظ گ ؤں ک المیہ ص 12
اس ضمن میں ایک اور مث ل ملاحظہ ہو۔
ہر سو
دھند ک پہرہ ہے
رات خ موش ہے
مٹ م ی چ ندنی
اتر آئی ہے میرے آنگن میں
نظ ۔ میری اداس آنکھیں ص27
جذ و احس س ت ک اٹھت طوف ن اور ردعم ی پک ر ملاحظہ ہو
روک لو
ان وحشی درندوں کو
ان کی کنٹھ ؤں کے
تیز ن خونوں کو توڑ ڈالو
یہ نہیں ج نتے
ب رود کی ڈھیر پر بیٹھ کر
43
خود م چس جلانے ک انج
یہ نہیں ج نتے
جھ ستے ہوئے انس نوں کے المیہ کو
جنگ ص 70نظ ۔
موجزن دری اور لہراتے سمندر کی کی یت ملاحظہ ہو
تمہ ری چھوی ابھرتی ہے
ایک روش ہ لہ کی طرح
اور ایک شکتی بن کر
میری روح میں سم ج تی ہے
میں جی اٹھتی ہوں
امبربیل کی طرح
پ کیں جھپک اٹھتی ہیں
توان ئی ک بےکراں سمندر
لہرا اٹھت ہے میرے انگ انگ میں
نظ تنہ ئی ص 16
احس س کی کہ نی ملاحظہ ہو
میرے اندر
44
کہیں چپ سی پڑی ہے
ایک ننھی چڑی
وہ ا نہیں پھدکتی
نہیں چہکتی
نہ ہی ب رش میں
اپنے پر بھگوتی ہے
نظ ننھی چڑی ص24
ل ظوں کی مسک ن اور خوش بو ملاحظہ ہو۔
آبگینے سے زی دہ ن زک لمحوں کے بی ن کے لیے ل ظوں ک انتخ
آش کو خو خو آت ہے۔ ذرا یہ لائینیں ملاحظہ ہوں۔
تمہ ری آواز کی نمی
ہمیشہ کی طرح
اس ب ر بھی گمراہ کر گئی
میں اس موڑ پر ہوں
جہ ں سے واپس مڑ گئی تھی
نظ تمہ ری آواز کی نمی ص37
آش مح ک ت کی تشکیل میں کم ل رکھتی ہیں۔ مثلا
حس م مول
45
اس ب ر بھی ت
میرے چہرے ک
اپنے ہ تھوں سے
کٹورا س بن ؤ گے
میرے ل چومو گے
اور بھر دو گے میرے آنچل کو
عہد و پیم ں کے جگنوؤں سے
نظ میرے ل س ے ہیں ص 32
آش کے ہ ں' تشبیہ ت ک ب لکل نئے طور اور نئی زب ن کے س تھ
است م ل ہوا ہے۔ چند ایک مث لیں ملاحظہ ہوں
دل کے نہ ں خ نوں میں
ت موجود ہو
آک ش میں شبد کی طرح
نظ آک ش میں شبد 9
تمہ رے س رے خی لات
نی خوابیدہ ہنسی کی طرح
میرے ہونٹوں پر پھیل ج ئیں گے
تنہ ئی ص 15
46
شوخ لہریں
سرکشی کرتی ہیں کن روں سے
س نپ کے کینچل کی طرح
نظ تمہ رے ج نے کے ب د ص17
تمہ ری نر انگ یوں ک مخم ی لمس
جیسے
بند شیشوں سے ب ہر گرتی
مس سل برف ب ری ک س س ہ
نظ ایک احس س ص78
اور سکھ
م صو بچے س
کونے میں دبک کر
سو گی ہے
نظ ریت کی ندی 85
ت میح ک است م ل اور است م ل کی زب ن' ملاحظہ ہو۔
ریت کی ندی بہتی ہے۔۔۔۔۔
گر ریت میں پھنس گی ہے کہیں
47
سوہنی ک گھڑا
نظ ریت کی ندی ص85
اٹھو
ہ تھ بڑھ ؤ
اور
ص ی پر ٹنگے نصی کو ات ر لو
ص ی پر ٹنگے نصی ص 69نظ
مندر کی روشنی میں
مسجد کی روشنی میں
کیوں کہرا بڑھ رہ ہے
کیوں کہرا چھ رہ ہے
نظ س نپ کو پکڑ لو ص60
بہت دن ہوئے
ج یوک پٹس کے پیڑوں کی طرح
دن اگت تھ
نظ بہت دن ہوئے ص10
سم ج کی عمومی چیزیں بھی' است م ل میں لاتی ہیں اور یہ ہی' اس کی
نظ کے لس نی حسن ک سب بنتی ہیں۔
48
آٹ گوندھنے کے درمی ن
نظ تمہ ری ی د ص92
........
کھڑکیوں اور دروازوں کے مخم ی پردے
........
ہ نڈیوں میں دانے
اکیسویں صدی ص 73-72نظ
.......
گ ی ڈنڈے اور
بچوں کے ہجو
وقت پیرہن بدلت ہے ص 91-90نظ
.......
چوپ لوں میں بجھے ہوئے گھوروں کی راکھ
نظ گ ؤں ک المیہ ص13
آش نے زب ن کو مخت ف نوعیت و حیثیت کے مرک فراہ کیے ہیں۔ یہ
اردو کی لس نی و فکری ثروت ک سب بنے ہیں۔ مثلا
کر گل ص54
49
نی خوابیدہ ہنسی ص14
خرگوشی لمس ص20
مٹ م ی چ ندنی ص27
من ک سن ٹ ص58
ل ظوں ک پل ص67
سکھ ک چل ص85
دہشت کے س ئے ص46
ت وار کے ق ص61
موت کی دستک ص47
کہرے کی دیوار ص47
جھینگر کی جھنک ر ص78
ریت کی ندی ص85
خی لوں میں اڑان ص66
آش کی زب ن ک مہ ورہ بھی فصیح وب یغ ہے۔مثلا
وقت پیرہن بدلت ہے
زخ بھر ج تےہیں ص41
آک ش نے
50
اپن پریچے کھو دی ہے
وقت موک بن
ٹھگ س دیکھت رہ گی ہے ص 88
جو جتن م ہر ہے
اتن بھوگت ہے اسٹیج ک سکھ ص86
اور سپنے
نی وا آنکھوں سے
چھ ک پڑے ص83-82
کوئی احس س
کوئی درد تمہ رےپیروں کی
بیڑی نہیں بن سک ص35
میرے اندر چپ سی پڑی ص24
خی لوں میں اڈان بھرو گے ص66
میرا پچھت وا مکھر ہو اٹھ ہے ص56
آش کے ہ ں' زب ن اور زب ن ک ل و لہجہ اور ذائقہ الگ پڑھنے کو م ت
ہے۔ غیر محسوس اور رونی میں' علامتوں اور است روں ک ' است م ل
مت ثر کرت ہے۔ مثلا
توان ئی ک بےکراں سمندر ص16