The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-03-30 04:47:57

j-2 (1)

j-2 (1)

‫‪1‬‬

‫ادبی مط ل ے‬
‫مقصود حسنی‬
‫ابوزر برقی کت خ نہ‬

‫م رچ‬

‫‪2‬‬

‫فہرست‬
‫دیس بن پردیس‘‘ ایک کت ! بیسیوں رنگ‬

‫خوش بو کے امین‬
‫ایک قدی اردو ش عر کے کلا ک ت رفی و لس نی ج ئزہ‬

‫مثنوی م سٹر نرائن داس' ایک ادبی ج ئزہ‬
‫آش پربھ ت' مسک تے' س گتے اور ب کتے احس س ت کی ش عر‬

‫اکبر اردو اد ک پہلا بڑا مزاحمتی ش عر‬
‫ام نت کی ایک غزل‪ ......‬فکری و لس نی رویہ‬
‫منظو شجرہ ع لیہ حضور کری ‪....‬عہد جہ نگیر‬

‫میرے اب ۔۔۔۔۔۔ ایک مط ل تی ج ئزہ‬

‫ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی تدوینی تحقی کے ادبی اطوار‬

‫رحم ن ب ب کی زب ن ک اردو کے تن ظر میں لس نی مط ل ہ‬
‫عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ‬
‫گنج سوالات' ایک لس نی تی ج ئزہ‬

‫ڈاکٹر عبد ال زیز س حر کی ایک ق بل تق ید تدوینی ک وش‬
‫ڈاکٹر منیر کے افس نے اور مغربی طرز حی ت‬

‫نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ‬

‫‪3‬‬

‫دیس بن پردیس‘‘ ایک کت ! بیسیوں رنگ‬

‫ن صر ن ک گ وا سے میری روبرو ملاق ت لاہور اردو نیٹ ج پ ن کی‬
‫ایک تقری میں ہوئی۔ بڑا ن یس س دہ گو‪ ،‬م نس ر‪ ،‬مج سی اد و‬
‫آدا سے آگ ہ مگر قدرے شرمیلا س اور رکھ رکھ ؤ والا شخص‬

‫ہے۔ بڑا اچھ اور پی را لگ ۔ ملاق ت ک دورانیہ اگرچہ مختصر تھ‬
‫لیکن پر لطف اور ی دگ ر تھ ۔ اس ک ادبی اور ملاق تی ذائقہ آج‬
‫اور ا بھی محسوس کرت ہوں۔ ’’دیس بن پردیس‘‘ ک میں نے‬
‫پوری توجہ اور دی نتداری سے اول ت آخر مط ل ہ کی ہے۔ بڑے‬
‫ک کی چیز ہے۔ یہی نہیں اردو اد میں اسے ایک خوبصورت‬

‫اض فہ قرار دین کسی طرح بھی غ ط اور مب لغہ نہ ہو گ ۔‬

‫کت کو تین حصوں میں تقسی کی گی ہے لیکن میں اسے پ نچ‬
‫حصوں پر مشتمل کت سمجھت ہوں۔ پہلا حصہ اہل ق کی آراء‬
‫پر مشتمل ہے۔ اس حصہ کے مط ل ہ سے مصنف کی شخصیت‪،‬‬
‫اردو نیٹ ج پ ن کے حوالہ سے خدم ت اور اس کے اس و کے‬

‫ب رے میں بہت س ری م وم ت ہ تھ لگتی ہیں۔ پہ ے حصہ ہی‬
‫میں اہل رائے حضرات سے چہرہ بہ چہرہ ملاق ت ہوتی ہے۔ وہ‬
‫س کت کے ق ری کو پر تحسین نظروں سے دیکھتے نظر آتے‬
‫ہیں۔ زب ن سے نہیں ق سے بہت کچھ اور مخت ف زاویوں سے‬
‫کہتے محسوس ہوتے ہیں۔ کت کے آخری حصہ میں ( جسے‬

‫‪4‬‬

‫میں پ نچواں حصہ کہہ رہ ہوں )بہت س رے خوبصورت چہروں‬
‫سے ملاق ت ہوتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں بھی ن صر ن ک گ وا‬

‫کے حوالہ سے بہت کچھ پڑھنے کو مل ج ت ہے۔ اس ’’بہت‬
‫کچھ‘‘ میں جہ ں زندگی سے مت ت خ حق ئ ‪ ،‬مصنف ک سچ‬
‫اور کھرا پن‪ ،‬ش مل ہے وہ ں طنز و مزاح ک عنصر پ ی ج ت ہے۔‬

‫‪:‬کچھ ت خ حق ئ‬

‫ج پ نی خواتین خوش اخلا اور شوہروں کی وف دار ہیں۔ ’’‬
‫ج پ نی بیوی ں پ کست نی بیویوں کی طرح نہیں ہوتیں کہ انہیں‬
‫پ ؤں کی جوتی سمجھ کر تبدیل کر لی ج ئے۔ یہ ں کہ بچے بھی‬
‫اتنے فرم نبردار اور بدھو نہیں ہوتے کہ آپ خود جس ک کو‬
‫اچھ سمجھیں اسے بچوں کو کرنے سے روکیں۔ ‘‘ (پ کست نی‬
‫شوہروں اور ج پ نی بیویوں کے درمی ن تشدد کے واق ت و‬

‫)محرک ت‬

‫‪:‬چند مزید حق ئ‬

‫ج پ ن میں دیکھ گی ہے کہ زی دہ مس جد ج پ نی ب زاروں اور ’’‬
‫گ ی مح ے میں ہی ق ئ ہیں مگر ش ذ و ن در ہی کبھی کوئی ن‬
‫‘‘ خوشگوار واق ہ پیش آی ہو۔‬

‫ج پ ن کی میٹرو پولیٹین پولیس ڈپ رٹمنٹ کی خ رج زدہ خ یہ (‬
‫)ف ئ وں میں کی ہے ؟‬

‫‪5‬‬

‫پ کست ن میں قی کے دوران مجھے ہر جگہ انٹرنیٹ کی ’’‬
‫سہولت میسر تھی مگر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے میں است م ل‬
‫ہی نہیں کر سکت تھ ۔ یہ کراچی تھ جسے روشنیوں ک شہر کہ‬
‫کر تے تھے آج روشنی ائیرپورٹ کے علا قے اور زرداری اور‬

‫بلاول ہ ؤس اور می ں ہ ؤس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے‬
‫)کیونکہ یہ لوگ زی دہ حقدار ہیں۔ ‘‘(ٹوکیو سے کراچی تک‬

‫‪ :‬ذرا یہ پر مزاح مک لمے ملاحظہ ہوں‬

‫خیبر پختونخواہ اسمب ی کے اسپیکر طویل ق مت کے کرامت اللہ ’’‬
‫خ ن تشریف لائے تو ان کے استقب ل میں مجھ سمیت ندا خ ن‪،‬‬
‫یوسف انص ری اور امین سجن بھی ش مل تھے‪ ،‬لو گوں کو‬

‫کرامت اللہ سے گ ے م تے ہوئے دیکھ کر ایس لگ جیسے لوگ‬
‫ان کے گھٹنوں میں کچھ سرگوشی کر رہے ہوں۔ ‘‘(ٹوکیو سے‬
‫) متحدہ عر ام رات ک س ر‬

‫امیگر یشن نو جوان افسر نے میرے پ سپو رٹ پر تین م ہ ک ’’‬
‫ویزہ لگ ی تو میں نے اس سے پوچھ کہ آپ کی زب ن میں‬

‫شکریہ کو کی کہتے ہیں ’’ تیری م ں کیسی ‘‘کی ؟’’تیری م ں‬
‫کیسی‘‘۔ میں سمجھ اسے اردو آتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہ ان‬
‫کی وف ت ہو گئی ہے۔ وہ کچھ سمجھ نہیں تو میں نے انگریزی‬

‫میں کہ تو وہ ہنسنے لگ کہ نہیں میں نے جو کہ اس ک مط‬
‫ہو ت ہے شکر یہ۔ وہ تو ب د میں پت چلا کہ صحیح ت ظ یہ ہے‬

‫‪6‬‬

‫) کہ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ تیری م ک سی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(سہ روزہ دورۂ ملائشی ء‬

‫‪:‬شنگھ ئی کے ایک ب تھ رو ک ن ک نقشہ ملاحظہ ہو‬

‫ب تھ رو کے تولیے گھسے ہوئے تھے اور گنجے تھے اور ’’‬
‫امتی ز کرن مشکل تھ کہ تولیہ ہے ی رو م ل‪ ،‬لگت تھ ج سے‬

‫ہوٹل ت میر ہوا ہے یہی تولیے چل رہے ہیں۔ چھو ٹی چھو ٹی‬
‫ص بن کی ٹکیہ رکھی ہوئی تھیں ک فی دیر ہ تھوں میں رگڑنے‬
‫سے بھی نہیں گھستی تھیں۔ شیمپو پلا سٹک کی بوتل میں اس‬
‫طر ح سے نک ت تھ جیسے سردیوں میں شہد کی بوتل الٹ بھی‬

‫)دیں تو شہد ب ہر نہیں آت ۔ ‘‘(اسلا آب د سے شنگھ ئی تک‬

‫‪:‬ن صر ن ک گ وا کے کھرے اور سچے پن کی مث ل ملاحظہ ہو‬

‫اس سے قبل مہینوں گزر ج تے تھے مجھے نم ز کی توفی ’’‬
‫نہیں ہوتی تھی‪ ،‬ات سے کسی مسجد ک دورہ ہو گی تو نم ز ادا‬

‫کر لی کبھی خصوصی طور پر نم ز ادا کرنے کی توفی ہوئے‬
‫‘‘ عرصہ گزر چک تھ ۔‬

‫) ن گوی اور گی و ک ی دگ ر س ر۔ ۔ ۔ بذری ہ ب یٹ ٹرین(‬

‫درج ب لا ٹکڑے کت کے مخت ف حصوں سے لیے گئے ہیں۔ ان‬
‫کے مط ل ہ سے اندازہ ہو ج ت ہے کہ کت کتنی بھرپور ہے‬
‫اور ن صر ن ک گ وا کس درجہ کی تحسین ک ح رکھتے ہیں۔‬
‫کت میں افس نہ اور ایک خط بھی ش مل کی گی ہے۔ ایک کت‬

‫‪7‬‬

‫لیکن بیسیوں رنگ‪ ،‬ایسے میں ان کی خو صورت پیش کش پر‬
‫شکریہ ادا کر ن لا ز آت ہے۔ اللہ کری ن صر ن ک گ وا کی‬
‫توفیق ت میں اض فہ فر م ئے اور اسے ش د و ش دا رکھے۔‬

‫خوش بو کے امین‬

‫‪8‬‬

‫ہم رے ہ ں ک عج دستور ہے۔ ہر م تبر رشتے کے لیے کسی نہ‬
‫س بقے لاحقے ک ہون ضروری ہوت ہے۔ چ ہے وہ ‘‘خونی’’کسی‬
‫س بقہ لاحقہ دل و دم کی رگوں سے خون ہی کیوں نہ ‘‘’’خونی‬

‫نچوڑ رہ ہو۔ اس کے ہ تھوں کتنی ب ر قر ہون پڑا ہو ی اس‬
‫س بقے لاحقے نے عزت اور جی کی ہمیشہ نیلامی لگ ئی ہو۔ ‘‘’’خونی‬

‫تم من ی حق ئ کی موجودگی میں بھی انہیں سبقت اور اہمیت دی‬
‫ج تی ہے۔ ش دی بی ہ ہوکہ مرگ م مے چ چے اور پھوپھی م سی کے‬

‫ب رے میں دری فت کی ج ت ہے۔ اگر یہ موجود نہ ہوں تو دلہ کی‬
‫خوشی ں تہ تیغ کر دی ج تی ہیں ج کہ ارم نوں کی لاش کی بھ نت‬

‫بھ نت کی بولیوں سے مٹی پ ید کی ج تی ہے ۔ ب ور رہے‪ ،‬خوشیوں‬
‫س بقے لاحقے سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ ‘‘خونی’’کے ق تل کسی‬
‫اپنے اس س بقے لاحقے ک ح ادا کر رہے ہوتے ہیں ی یہ س کرن‬

‫اپن فرض منصبی سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔‬

‫محبت کے ت کو کوئی قبول نہیں کرت ح لاں کہ قبول نہ کرنے‬
‫والے خود کسی نہ کسی کی محبت میں گرفت ر ہوتے ہیں اور وہ‬
‫س بقوں لاحقوں سے ن رت کررہے ہوتے ہیں ۔ منہ بولا اپن ‘‘’’خونی‬
‫اعتب ر رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہوت ۔ اسے گھر کی دہ یز سے ب ہر‬
‫رکھن شرافت کی دلیل سمجھ ج ت ہے۔ دہ یز کے اندر مستحک وجود‬
‫رکھتے ہوئے بھی وہ غیرت پر بدنم لیبل ہوت ہے۔ اس حقیقت سے‬
‫انک ر نہیں ب ض منہ بولے رشتے بد دی نتی کے مرتک ہوتے ہیں ۔‬
‫س بقوں لاحقوں سے آراستہ رشتے ک ‘‘سوال یہ ہے کہ ’’خونی‬

‫اعتب ر کے ق بل رہے ہیں ۔‬

‫‪9‬‬

‫کی م مے چ چے م سی پھوپھی وغیرہ ک س بقہ لاحقہ رکھنے والے‬
‫رشتے ہ تھ نہیں دکھ تے۔ ان کی اولادیں غیرت کی ج ئیداد پر ڈاکے‬

‫نہیں ڈالتیں ۔ یہی کی ان کے بڑے آپس میں فیئر ہوتے ہیں ۔‬

‫ان کی مخ صی ن ق بل چی نج رہتی ہے؟ ان ک اعتب ر م د کی ڈور سے‬
‫بندھ رہت ہے۔ ج ایسی صورت ہے تو منہ بولے رشتوں پر انگشت‬
‫نم ئی کیوں ؟ وہ خ نگی زندگی میں م تبر کیوں نہیں ہو پ تے۔ ان پر‬
‫شک کی آتش کیوں برستی رہتی ہے۔ انہیں اعتب ر دےنے میں کیوں‬

‫! بخل سے ک لی ج ت ہے۔ یہ عجی وتیرا اور چ ن نہیں ہے؟‬

‫محبت مس ک مذہبوں اور ریتوں رواجوں سے آزاد ہوتی ہے۔ میں‬
‫منہ بولا‘‘ س بقہ ’’نے اپنے کسی پی ر کے رشتے کے س تھ کبھی کوئی‬

‫لاحقہ پیوست کرنے کی حم قت نہیں کی۔ یہی نہیں انہیں گھر کی‬
‫دہ یز کے اندر لا کر غیر م تبر نہیں ہونے دی ۔ ہ ں اپنے دل کے‬

‫س رے در ان پر کھ ے رکھے ہیں وہ ں وہ بڑے آسودگی سے پروان‬
‫چڑھے ہیں اور وہ ں وہ خو رنگ لائے ہیں ۔ میں نے ان کے‬

‫پھول اورپھل ب نٹنے کی حم قت کبھی نہیں کی۔ ان پھولوں پھ وں پر‬
‫صرف اپن ح سمجھ ہے۔ مجھے محبت کے پھولوں اور پھ وں کی‬

‫بے حرمتی قط ً پسند نہیں ۔ ب ت کروں گ تو وہ تنقید ک نش نہ بنیں‬
‫گے۔ ضروری نہیں یہ کوئی کسی دوسرے کی محبت کی خوشبو اور‬
‫مٹھ س سے محظوظ ہو ۔ کدو اور بینگن میری پسند میں داخل ہیں ۔‬

‫میں اپنی پسند اور است دے کی وض حت ک پ بند نہیں۔‬

‫وض حت کو کون م نت ہے ۔ ہر کسی کے پ س اپنی وض حتوں کے انب ر‬
‫لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ کسی اچھے مقرر ک اچھ س مع ہون ضروری تو‬

‫‪10‬‬

‫نہیں ۔ میں بڑا اچھ س مع ہوں ۔ حظ کی اس عن یت کے حوالہ سے‬
‫بے حد سکھی ہوں ۔ اس طرح مجھے اپنی محبتوں کی تصریح و‬
‫توضیع کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ خدا ک شکر ہے میری محبتیں‬
‫میری ذات تک محدودرہی ہیں اور میری ذات ک حصہ رہی ہیں ۔‬

‫میری بدقسمتی رہی ہے کہ میری محبتیں آخری س نسوں تک میرے‬
‫س تھ نہیں چ یں ۔ پتہ نہیں راہ میں اکیلا چھوڑن انہوں نے اپن کیوں‬

‫فرض عین سمجھ ہے۔ سید غلا حضور حسنی (اب جی) ہی کو لے‬
‫لیں ۔ لاکھ منتوں کے ب وجود دو چ ر لمحے مزید رکنے کی زحمت‬

‫گوارا نہیں کی۔‬

‫میں یہ نہیں کہت کہ میری محبت یک طرفہ تھی وہ مجھ سے بے‬
‫تح ش محبت کرتے تھے۔ وہ زندگی میں س ر کے شوقین رہے۔ نئے‬
‫س ر کے شو نے انہیں رکنے نہ دی ۔ میں نے اتن پی ر کرنے والا‬

‫کبھی اور کہیں نہیں دیکھ ۔ اپنے تو خیر اپنے ہوتے ہیں وہ تو‬
‫دوسروں کے لیے بھی حد درجے ک درد رکھتے تھے ۔ ان کے بھ ے‬
‫کے لےے اپنے خس رے کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔(پنج بی) صوفی‬
‫ش عر ہونے کے سب حد درجہ کے حس س واقع ہوئے تھے۔ ظ ہر ہے‬

‫صوفی ہونے کے سب ان کی ش عری درد‪ ،‬سوز اور انس نی بھلائی‬
‫کے درس کے لیے مخصوص تھی۔ انہوں نے ہمیشہ انس ن کی ظ ر‬
‫مندی کے حوالہ سے گ تگو کی۔ وہ ہیر وارث اور سیف الم وک خوش‬
‫الح نی سے پڑھتے تھے۔ اپنی ش عری بھی لے سے سن ی کرتے تھے۔‬
‫میری بڑی بہن جو پڑھی لکھی ہونے کے ب وجود ج ہل مط ہے‪ ،‬کی‬
‫ج ہل محبت کے س تھ ان کی ش عری گمن می کی اتھ ہ گہرائیوں میں‬
‫مدغ ہوگئی ہے۔ وہ اب جی کی آواز میں بھری کیسٹوں کو ان کی‬

‫‪11‬‬

‫نش نی سمجھ کر سینے لگ ئے بیٹھی ہے۔ ا وہ کیسٹیں ج ہو گئی‬
‫ہیں۔ بڑے بھ ئی ص ح کو اپنی عورتوں سے فرصت نہیں م ی۔ رہ‬

‫میں جو پرچیوں اورپرزوں کو سنبھ لے بیٹھ ہوں ۔ ان کے تین‬
‫پنج بی قصے جو ان کی زندگی میں ش ئع ہوئے تھے سینے سے‬

‫لگ ئے بیٹھ ہوں ۔‬

‫ان پر ک کرنے ک ارادہ رکھت ہوں ۔ اب جی کو ش عری ک شو ورثے‬
‫میں ملا تھ ۔ ان کے والد ع ی احمد حسنی اچھے ش عر اور لاجوا‬

‫ع ل دین تھے۔ میں جو یہ الٹے سیدھے ل ظ گھسیڑ رہ ہوں ان کی‬
‫محبت اور ش قت ک انمول عطیہ ہیں ۔ ان کے مشورے میرے لےے‬

‫ہمیشہ خضر راہ رہے۔‬

‫اگست ء عید ک دن تھ مگر لوگوں کے لیے‪ ،‬میرے لیے یہ‬
‫یتیمی کی خزاں لے کر ط وع ہوا۔ فرشتہءاجل نے میرے سر سے‬
‫چھت الٹ دی اور دامن امید میں بے بسی کے چھید کر دےے۔اتنے‬
‫مخ ص‪ ،‬ہمدرد اور محبت کرنے والے کو مجبور و بے بس کرنے سے‬
‫پہ ے موت کو موت کیوں نہ آگئی۔ ہو سکت ہے ویدی کے ویدان کے‬
‫ہ تھوں وہ بھی مجبو ر ہو‪ ،‬ورنہ اتنے خوبصورت‪ ،‬کومل اور خوش بو‬

‫سے لبریز پھولوں کو کون مس ت ہے۔‬

‫ڈاکٹر علامہ وف راشدی کو ہی دیکھ لیں ۔ ایسے لوگ ک مرنے کے‬
‫لیے ہوتے ہیں ۔ انہیں تو می ی آنکھ دیکھنے سے بھی پ پ لگت ہے۔‬
‫میں سمجھت ہوں موت کو میرا پی ر کبھی راس آی ۔ وہ مجھ سے ج تی‬
‫ہے‪ ،‬کی ہو ج ت جو وہ دس بیس س ل اور جی لیے ہوتے۔ش ید میری‬
‫محبت کی انہیں سزا م ی ورنہ وہ مرنے والے ک تھے ورنہ اگر وہ‬

‫‪12‬‬

‫کچھ اور جی لےے ہوتے تو ج نے ع و اد کی چ در پر اور کتنے‬
‫خوبصورت پھول گ ڑھ لیتے۔ اگرچہ ان ک ک پہ ے ہی بہت ہے۔ ان کے‬
‫ب ض ک تو فرد واحد کے بس ک روگ نہیں ۔ بلاشبہ وہ اپنی ذات میں‬

‫ادبی جن تھے۔ اوروں کی طرح وہ ک ظرف اور بخیل نہیں تھے۔‬
‫دوسروں کے ادبی ک موں کی دل کھول کر داد دے کر ان کی حوص ہ‬
‫افزائی کرتے۔ ہر اچھے ادبی ک پر خوش ہوتے۔ اتنی پذیرائی کرتے کہ‬
‫مخ ط مزید خوبصورتیوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوت ۔ میرے س تھ‬

‫بھی ان ک شروع سے ایس ہی رویہ اور انداز رہ ۔‬

‫عجی انہونی دیکھیے ڈاکٹر علامہ بیدل حیدری بھی مر گئے۔ انص ف‬
‫کیجیے انہیں مرن چ ہئے تھ ؟ ایسے لوگوں کی روح قبض کرتے‬
‫م ک الموت ک ک یجہ منہ کو کیوں نہ آی ۔ اس کے ظ ل اور بے رح‬
‫ہ تھ لرز لرز کیوں نہ گئے۔ وہ عصر موجود کے م مولی ش عر نہ‬

‫تھے۔ ‪١٨٦٩‬ء کے ب د ایس بڑا ش عر دیکھنے کو نہیں م ت ۔ ان کے در‬
‫پر بڑی بڑی پگڑی ں سجدہ ریز نظر آتی ہیں ۔ کسی کے کلا کے ب رے‬

‫میں ان کے ق سے نکلا ہر ل ظ پی ایچ ڈی کی ڈگری سے کہیں بڑھ‬
‫کر تھ ۔ وہ میرے دل اور دم کی دنی کے چہکتے ب بل تھے۔ ان کے‬
‫خوبصورت ل ظوں نے مجھے ہمیشہ شکتی دان کی۔ ان ک ہون میری‬
‫توان ئیوں کے لیے سربکس ٹی ک درجہ رکھت تھ ۔ وہ ج تک زندہ‬
‫رہے‪ ،‬میری روح میں گلابوں کی مہک بھرتے رہے۔ کی کہوں ‪ ،‬مجھ‬
‫سے کی ہوا کہ وہ میرا س تھ نبھ نہ سکے۔ سوچت ہوں ا ل ظوں کی‬

‫لوری ں کہ ں سے سنوں گ ۔‬

‫ڈاکٹر سید م ین الرحمن سے تو مجھے قط ً توقع نہ تھی کہ مجھے‬
‫لاچ ر و بے بس چھوڑکر م ک عد کی راہ لیں گے۔ وہ تو محبتیں‬

‫‪13‬‬

‫نبھ ن ج نتے تھے۔ ان کی موت ک غ مجھے دیمک کی طرح چ ٹ رہ‬
‫ہے۔ میں کوشش کے ب وجود خود کو سنبھ لا نہیں دے پ ر ہ ۔ ان کے‬
‫بغیر کیسے جیوں ‪ ،‬کی کروں ۔ ان کی جگہ میں کیوں نہیں مر گی ۔‬
‫اتنے بڑے آدمی ک مرن اد کی دنی میں عصر جدید کے بھونچ ل سے‬
‫ک نہیں ۔ ان گنت لوگ یتی ہو گئے ہیں ۔ان ک ادبی کھ تہ کئی میدانوں‬

‫میں کھلا نظر آت ہے لیکن غ ل کے حوالہ سے وہ اپن جوا نہیں‬
‫رکھتے تھے۔ سوچت ہوں ان کی روح میرے نہ رکنے والے آنسوئوں‬

‫کو کیسے گوارا کرتی ہوگی۔ میری تنہ ئی کو وہ کس طرح برداشت‬
‫کرتے ہوں گے۔ میں رون نہیں چ ہت ۔ ج نت ہوں مرد روی نہیں‬

‫کرتے لیکن آنکھیں میرے بس میں نہیں ہیں ۔ دل میری بے چ رگی‬
‫اور بے بسی کی استدع ئیں ک سنت ہے۔‬

‫میں اپنے بہت ہی پی رے دوست اور بھ ئی ڈاکٹر ص بر آف قی کے ب رے‬
‫کوئی خبر نہ پ کر پریش ن تھ ۔ سوچت تھ قسمت مجھ پر کبھی مہرب ن‬

‫نہیں ہوئی۔ ا بہت ہی ک لوگ میری گرہ میں رہ گئے ہیں ۔ ب لکل‬
‫کنگ ل اور م س ہو گی ہوں ۔ ج نے اس ب ر قسمت کو کیسے رح آگی ۔‬
‫پرسوں ان ک فون آی کہ بچ گی ہوں ۔ کہہ رہے تھے کہ بکرے کی م ں‬
‫ک تک خیر من ئے گی۔ سوچت ہوں میں اتن بدقسمت نہیں ہوں جتن‬
‫کہ خود کو سمجھ رہ تھ چ و کچھ تو بچ رہ ہے۔ اللہ کرے میرا یہ بچ‬

‫کھچ اث ثہ میری س نسوں تک مح وظ رہے۔‬

‫مقصود حسنی‬

‫شیر رب نی ک لونی‪ ،‬قصور‬

‫‪14‬‬

‫یک نومبر‪ ٥،‬ء‬

‫بزرگوں سے رشتہ اد آدا ک متق ضی رہت ہے۔ ان سے کھل ج نے‬
‫کے ب وجود ہ عمروں کی سی ب ت نہیں ہوتی ۔ ان سے نبھ بھی‬
‫مشکل ہوت ہے کیونکہ سنجیدگی اور رکھ رکھ ئو بھی خت نہیں ہو‬

‫پ ت ۔ زم نی ب د بھی بہر صورت ب قی رہت ہے۔ وہ اپنے عہد کی ب تیں‬
‫کرتے ہیں جبکہ ان ک عہد م ضی کی لحد میں اتر گی ہوت ہے۔ نی‬
‫عہد اپنے تق ضوں کے س تھ گزر رہ ہوت ہے۔ ان حق ئ کے ب وجود‬
‫بزرگوں سے دوستی من فع بخش ہوتی ہے۔ ان ک تجربہ بلا تردد ہ تھ‬
‫لگت ہے۔ زندگی کے بہت سے اطوار اور س یقے میسر آتے ہیں ۔ آدمی‬
‫وقت سے پہ ے بہت کچھ ج ن لیت ہے جس کے لیے وقت درک ر ہوت‬
‫ہے ۔ ان کی ک می بیوں کے گردستی ہوتے ہیں اسی طرح ان کی‬
‫خ میوں سے آگہی میسر آتی ہے۔ یہ آگہی آتے وقتوں میں ک آتی‬
‫ہے۔ کت بوں کی بھ ش لگی لپٹی سمیٹے ہوتی ہے۔ کت بوں میں وہ‬
‫کچھ نہیں ہوت جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کی ہوت ہے۔‬
‫اسی طرح سن نے والا بھی کہیں نہ کہیں ‪،‬ڈنڈی ضرور م رت ہے اور‬
‫یک طرفہ ہی کہت ہے ۔ بزرگ دوست لگی لپٹی کو ایک طرف رکھ دیت‬
‫ہے اور جو اور جیس ہی پیش کرت ہے۔ اسی طرح اص ی صورتح ل‬

‫سے آگہی میسر آتی ہے۔‬

‫میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے بزرگ دوست میسر آتے رہے‬
‫ہیں ۔ سچی ب ت تو یہ ہے کہ ان سے میں نے بہت کچھ سیکھ ہے۔‬
‫یہی نہیں بے لوث ت ون بھی دستی ہوا ہے۔ ان کی پذیرائی ک یہ‬
‫کم ل ہے کہ کچھ ن کچھ لکھنے کے ق بل ہوا ہوں ۔ کچھ دوستوں ک‬
‫کہن ہے کہ میں اچھ لکھ لیت ہوں ۔ سچی ب ت تو یہ ہے کہ میں اچھ‬

‫‪15‬‬

‫لکھن تو دور کی ب ت ایک سطر بھی نہ لکھ پ ت ۔ یہ س میرے بزرگ‬
‫دوستوں کی محبت اور ش قت ک نتیجہ ہے۔ مجھے بڑی اچھی طر ح‬

‫ی د ہے کہ میرے گرامی والد ص ح مجھے س تھ س تھ لیے پھرتے‬
‫تھے۔ بیٹھک میں کوئی آج ت تو بھی مجھے س تھ رکھتے ح لانکہ‬
‫بچوں کو عموم ً چ ت کی ج ت ہے۔ میں ان ک س سے چھوٹ بیٹ تھ‬

‫۔ ش ید اسی لیے وہ مجھ سے اتن پی ر کرتے تھے۔ ہو سکت ہے‬
‫ریٹ ئرمنٹ کی تنہ ئی نے انہیں بچے سے دوستی پر مجبور کر دی تھ ۔‬

‫بہر طور جو بھی سہی‪ ،‬میں نے بہت کچھ سیکھ ۔ بہت سے بزرگ‬
‫دوستوں سے میری کبھی ملاق ت نہیں ہوئی۔ میری تحریر کے حوالہ‬
‫سے انہوں نے مجھے بھی بوڑھ خی ل کرلی ہو او ر ان ک اس و و‬
‫رویہ ہ عمر س تھیوں ک س رہ ۔ تحریر کی اچھی ہون ہے وہ س بڑے‬
‫ب کہ بہت بڑے لوگ تھے اسی لیے ہر بڑی سے بڑی ب ت کی توقع کی‬

‫ج سکتی ہے۔‬

‫مجھے یہ کہنے میں کسی قس کی ع ر محسوس نہیں ہو رہی کہ میں‬
‫نے جو کچھ بھی لکھ ہے ان کی محبتوں ک ثمر ہے۔‬

‫بزرگوں سے دوستی ک من ی پہ و یہ ہے کہ وہ چھوڑ کر چ ے ج تے‬
‫ہیں۔ان کے ج نے ک جو دکھ ہوت ہے میں وہ بی ن کرنے سے ق صر و‬

‫ع جز ہوں ۔ ہر لمحہ ان کی یاد ست تی ہے۔ میں سوچ رہ تھ کہ‬
‫ڈاکٹرری ض انج جو میرے بیٹے ک کلاس فی و ہے اتن پختہ ک ر کیوں‬

‫ہو گی ہے اس کی عمر کے بچے تو موب ئل ایس ای ایس کی زندگی‬
‫گزارتے ہیں اور یہ تحقی ایسے دقی ک میں مشغول ہے۔ ج میں‬
‫نے اس کے دوستوں کی لسٹ دیکھی تو کھلا کہ اسے بزرگ دوست‬
‫میسر آئے ہیں وہ اس کے ب پ کی عمر کے لوگ ہیں ۔ یہی نہیں بلا‬

‫‪16‬‬

‫کے لائ اور تجربہ ک ر ہیں ۔ یہ بھی عمر میں ب بوں کی فکر رکھت‬
‫ہے۔ میں پورے یقین کے س تھ کہت ہوں کہ یہ میری عمر تک آتے‬
‫آتے میدان تحقی کی بہت بڑی بلاہوگ ۔ میں دیکھ رہ ہوں کہ آتے‬
‫س لوں میں تحقی سے مت لوگوں ک اس کے پ س ہجو ہوگ ۔‬

‫آج ج بڑھ پ اپنی جوانی کی سرحدوں کو چھوڑ کر بڑی تیز رفت ری‬
‫سے موت کی طرف بڑھ رہ ہے۔ م یوسی نہیں‪ ،‬بے چ رگی کے ع ل‬
‫میں اپن دامن دیکھت ہوں تو لحد میں اترت بڑھ پ مسکرا دیت ہے۔‬
‫ابھی کچھ پھول ب قی ہیں ۔ میں تہی دامن نہیں ہوا۔ میرے دامن کے‬

‫پھولوں میں خوش بو ب قی ہے اور وہ اپنی خوشبو بڑی ذمہ داری سے‬
‫زندگی کے حوالے کر رہے ہیں ۔ ان کی مہک میں رائی بھر کمی نہیں‬

‫آئی۔ موت ان ک کچھ نہیں بگ ڑ سکتی۔ میں بھول رہ تھ کہ بیدل‬
‫حیدری‪ ،‬سید م ین الرحمن‪ ،‬وف راشدی‪ ،‬فرم ن فتح پوری‪ ،‬سید غلا‬
‫حضور اور کئی ان سے حسین چہرے منوں مٹی ت ے ج چھپے۔ مریں‬
‫ان کے دشمن‪ ،‬وہ مر نہیں سکتے۔ موت ان ک کچھ نہیں بگ ڑ سکتی۔‬
‫انہیں گ شن اردو میں ل ظوں کے لب س میں زندہ رہن ہے۔ ان کے‬

‫ق سے ل ظوں کو ک یوں ک تمث لی وجود مل چک ہے۔‬

‫ہ ں ڈاکٹر تبس ک شمیری‪ ،‬ڈاکٹر محمد امین‪ ،‬ڈاکٹر مظ ر عب س‪ ،‬ڈاکٹر‬
‫س دت س ید‪ ،‬ڈاکٹر نجی جم ل‪ ،‬ڈاکٹر اختر شم ر‪ ،‬ڈاکٹر غلا شبیر‬
‫ران ‪ ،‬ڈاکٹر عبدال زیز س حر‪ ،‬ڈاکٹر ق ضی محمد عبداللہ وغیرہ سے‬
‫میری ج بھی موب ئل فون پر ب ت ہوتی ہے تو زندگی کو اپنے بہت‬

‫قری پ ت ہوں ۔ مجھے اپنے ہونے ک یقین ہونے لگت ہے۔کون کہت ہے‬
‫اردو اد زوال ک شک ر ہو چک ہے ی تحقی و تنقید ک میدان اردو کے‬

‫انڈر ٹیکروں سے خ لی ہو رہ ہے۔ ج تک یہ لوگ زندہ ہیں اردو‬

‫‪17‬‬

‫اد پر بہ روں کے موس مہرب ن رہیں گے۔ ان ص حب ن ع و دانش‬
‫ک کم ل ہے کہ انہوں نے اچھی خ صی نئی کھیپ پیدا کر دی ہے جو‬
‫اردو اد کو حسن و خوبی سے سرفراز کرے گی۔اس طرح اردو زب ن‬
‫و اد ک دامن خوش رنگ پھولوں سے بھرا رہے گ ‪ ،‬ان ش ئ اللہ۔‬
‫ڈاکٹر ری ض انج جوان ہے لیکن اس کے ہررنگ اور ہر ترنگ میں‬
‫بوڑھوں کے ل ظوں کی محبت اور خوش بو م تی ہے ۔اس کی یہی ادا‬

‫اسے مجھ سے اور مجھے اس سے قری رکھتی ہے۔ اللہ اسے‬
‫سرفرازیوں سے نوازے اور ہر نظر بد سے مح وظ فرم ئے۔آمین‬

‫!مکرمی ومحترمی حسنی ص ح ‪ :‬سلا مسنون‬

‫یقین کیجئے کہ میں سوچ رہ تھ کہ عرصہ سے آپ یہ ں نظر نہیں‬
‫آئے۔ کہیں ایس تو نہیں ہے کہ چونکہ یہ ں لکھنے پڑھنے والے‬

‫م دودے چند رہ گئے ہیں آپ دل برداشتہ ہو کر انجمن سے کن رہ کش‬
‫ہو گئے ہیں۔ آپ ک یہ انش ئیہ دیکھ تو دل ب ب ہو گی ۔ اللہ آپ کو‬
‫طویل عمر اور صحت سے نوازے اور آپ اسی طرح گ شن اردو میں‬
‫پھولوں کی ب رش کرتے رہیں۔‬

‫آپ ک انش ئیہ پڑھ کر دل بھر آی ‪ ،‬کیسے کیسے لوگ ی د آئے‪ ،‬کیسی‬
‫کیسی ی دوں نے دل پر کچوکے لگ ئے اور آنکھوں میں کیسے کیسے‬
‫من ظر گھو گئے۔ دل م ول ہوا اور بہت م ول ہوا۔ لیکن انش ئیہ کے آخر‬

‫میں جو امید اور خوش آئند مستقبل کی نوید م ی وہ بہت تقویت ک‬
‫ب عث ہوئی۔ آپ کے ب رے میں جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ بہت اچھ‬
‫لکھتے ہیں وہ ب لکل صحیح کہتے ہیں۔ آپ کے ق میں درد ہے‪ ،‬کسک‬

‫‪18‬‬

‫ہے‪ ،‬ع ہے‪ ،‬م ضی کی گونج ہے‪ ،‬ح ل ک پی نو ہے اور مستقبل کی‬
‫نوید نو۔ پھر اور کس چیز کی کمی ہے جو ہ شکوہ کریں ی دل چھوٹ‬

‫کریں۔ دع ہے کہ آپ اسی طرح لکھتے رہیں۔ اور ش دک رہیں۔‬
‫افسوس اس ک ہے کہ آپ کو پڑھنے والے بہت ک ہیں۔ لیکن اس ک‬
‫علاج کی ہے یہ نہیں م و ۔ خیر کوئی ب ت نہیں۔ پھول کی خوشبو کے‬
‫لئے ضروری نہیں کہ پھول ہ تھ ہی میں ہو۔ وہ خود ہوا کے دوش پر‬
‫سوار کونے کونے میں پہنچ ج تی ہے اور س کو ش دک کرتی ہے۔‬

‫انش ئیہ ک بہت بہت شکریہ۔‬
‫ب قی راوی س چین بولت ہے۔‬

‫سرور ع ل راز‬

‫مکرمی ومحترمی جن ڈاکٹر حسنی ص ح ‪ :‬سلا ع یک‬
‫میں ن د ہوں کہ اتنے عرصے آپ کی تخ یق ت سے فیضی نہ ہو سک ۔‬

‫انش اللہ کوشش کر کے آپ کو پڑھوں گ ۔ آپ ک یہ مضمون پڑھ کر‬
‫انتہ ئی مسرت ہوئی اور یہ احس س بھی پیدا ہوا کہ آپ کی تحریر کتنی‬

‫ع افزا اور دلکش ہوتی ہیں۔ یہ مضمون کہنے کو ایک س دہ اور‬
‫سیدھے س دے موضوع پر لکھ گی ہے لیکن ہ نئی نسل کے لوگوں‬

‫کے لئے ندرت زب ن و بی ن‪ ،‬ت زگی اور دلچسپی کے بہت سے پہ و‬
‫رکھت ہے۔ پڑھ کر دل م لا م ل ہو گی ۔ ا ایسی تحریریں دیکھنے کو‬
‫نہیں م تی ہیں۔ اللہ سے دع ہے کہ آپ کو طویل عمر اور اچھی صحت‬

‫‪19‬‬

‫عط فرم ئے ت کہ ہ اسی طرح فیضی ہوتے رہیں۔ آمین۔‬
‫خ د ‪ :‬مشیر شمسی‬

‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9832.0‬‬

‫ایک قدی اردو ش عر کے کلا ک ت رفی و لس نی ج ئزہ‬
‫مخدومی و مرشدی جنت مک نی قب ہ سید غلا حضور کے ع می وادبی‬

‫‪20‬‬

‫ذخیرے سے م نے والی کت ' اظہ ر محمدی منظور احمدی' ک اور‬
‫کس سن میں ش ئع ہوئی' ٹھیک سے کہ نہیں ج سکت ۔ اس پر ت ریخ‬

‫اور سن درج نہیں ہے۔ ہ ں پب یشر ک ن ‪ .....‬فقیر فضل حسین ت جر‬
‫کت ابن ح جی علاؤالدین مرحو س کن پتوکی نوآب د ض ع لاہور‪.....‬‬
‫درج ہے۔ پتوکی نوآب د ض ع لاہور سے یہ ب ت وضح ہوتی ہے کہ اس‬
‫چوبیس ص حے کی اش عت' اس وقت ہوئی' ج پتوکی نی نی آب د ہوا‬

‫تھ ۔‬

‫اس میں مولوی احمد ی ر کی پنج بی مثنوی' مرزا ص حب ن ک کچھ حصہ‬
‫درج ہے۔ گوی یہ ان دنوں کی ب ت ہے' ج وہ زندہ تھے اور مثنوی‬

‫مرزا ص حب ن تحریر کر رہے تھے۔ یہ کلا ص‪ 10‬تک ہے۔ ص‪15-14‬‬
‫پر سترہ پنج بی اش ر پر مشتمل ک فی بھی ہے۔ گوی مولوی احمد ی ر‬
‫پنج بی ک فی بھی کہتے تھے۔ پنج بی میں ان کی صرف مثنوی مرزا‬
‫ص حب ن پڑھنے کو م تی ہے۔‬

‫کت کے بقیہ ص ح ت پر' مولوی غلا محمد ک اردو پنج بی اور‬
‫ف رسی کلا ش مل ہے۔ سرور پر موجود م وم ت کے مط ب ' مولوی‬

‫غلا محمد قسم نہ س کن ص ب تحصیل دیپ لپور تھ نہ حجرہ ض ع‬
‫منٹگمری ح ل س ہی وال کے تھے۔ ص‪ 12-11‬پر ریختہ کے ن سے‬
‫کلا درج ہے۔ یہ کل نو ش ر ہیں۔ انہوں نے ل ظ ریختہ زب ن کے لیے‬
‫لکھ ہے ی اردو غزل کے لیے' واضح نہیں۔ پہلا پ نچواں اور آخری‬

‫ش ر غزل کے مزاج کے قری ہے۔ غزل کے ب قی اش ر' مروجہ‬
‫عمومی مزاج سے لگ نہیں رکھتے۔ ہ ں غزل میں صوفی نہ طور'‬

‫صوفی ش را کے ہ ں ضرور م ت ہے۔‬

‫‪21‬‬

‫نہ م ت گ رخن سے دل میرا مسرور کیوں ہوت‬

‫نہ اس نرگس کوں دیکہت رنجور کیوں ہوت‬

‫نہ پڑت پرہ تو ح ک اگر رخس ر خوب ں پر‬

‫تو ہر ع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت‬

‫مقی اس دا زل میں نہ بھنست اگر دل تیرا‬

‫تو سر گردان ت ریکی شبے رتجور کیوں ہوت‬

‫ص‪ 13‬پر ایک خمسہ ہے' جسے مولود شریف ک ن دی گی ہے۔ اس‬
‫سے پہ ے مولود شریف شیخ س دی ص ح کے چ ر ش ر دیئے گیے‬

‫ہیں۔ اردو مولود شریف کے ب د' مولود شریف مولوی ج می ص ح‬
‫کے' نو ش ر درج کیے گیے ہیں۔ آخر میں مولود شریف کے عنوان‬
‫سے' نو ش ر درج کیے گیے۔ ص ‪ 19‬پر موجود کلا کو ک فی ک ن دی‬
‫گی ہے۔ اس کلا کو نہ پنج بی کہ ج سکت اور ن ہی اردو' ت ہ ب ض‬
‫ش ر اردو کے قری تر ہیں۔ دو ایک ش ر ب طور نمونہ ملاحظہ ہوں۔‬

‫ک ئی کہو سجن کی ب ت جن کے پری لگ ئی چ ٹ پہلا ش ر‬

‫پ نچواں ش ر‬ ‫س یم ن نبی ب قیس نہ ہو ہک آہی مط ذات‬

‫بحر محیط نے جوش کی ت نوروں ہوی خوش کی چھٹ ش ر‬

‫مو کرے دل لوہ س را چھبسواں ش ر‬ ‫ک مل پیر پن ہ ہم را‬

‫دو غزلیں ف رسی کی ہیں۔ اوپر عنوان بھی دی گی ہے‬

‫‪22‬‬

‫غزل مولوی غلا محمد از ص ب‬

‫اے بن ت تو مزین مسند پیغمبری وے خجل گشتہءرویت آفت‬
‫خ وری‬

‫مط ع ف رسی غزل ص ‪12‬‬

‫غزل از غلا محمد ص ح‬

‫ج ں فدائے تو ی رسول اللہ دل گدائے تو ی رسول اللہ‬

‫مط ع ف رسی غزل ص ‪23‬‬

‫پنج بی کلا کے لیے' ل ظ ک فی است م ل ہوا ہے۔ داخ ی شہ دت سے یہ‬
‫ب ت واضح ہوتی ہے' کہ ل ظ ریختہ اردو غزل کے لیے ہی است م ل ہوا‬

‫ہے۔ دلی وغیرہ میں جو مش عرے ہوا کرتے تھے' ان کے لیے دو‬
‫اصطلاح ت رواج رکھتی تھیں۔ ف رسی کلا کے لیے مش عرے' ج کہ‬

‫اردو کلا کے لیے' ل ظ مراختے رواج رکھت تھ ‪ .‬ل ظ اردو محض‬
‫شن خت کے لیے لکھ رہ ہوں' یہ ل ظ عمومی رواج نہ رکھت تھ ۔‬

‫اس صورت ح ل کے پیش نظر' غ ل کے ہ ں است م ل ہونے والا ل ظ‬
‫ریختہ' گڑبڑ ک شک ر ہو ج ت ہے۔ مولوی غلا محمد پہ ے کے ہیں'‬

‫عہد غ ل کے ہیں ی ب د کے' ب ت قط ی الگ تر ہے۔ مش عروں میں‬
‫زی دہ تر غزلیہ کلا سن ی ج ت تھ اور آج صورت ح ل مخت ف نہیں۔‬
‫گوی غزل کے لیے ل ظ ریختہ' ج کہ مش عرے کے لیے ل ظ مراختہ‬
‫است م ل ہوت تھ ۔ لامح لہ زب ن کے لیے کوئی دوسرا ل ظ است م ل ہوت‬

‫ہوگ ۔ اس حس سے غ ل کے ہ ں بھی غزل کے م نوں میں‬
‫اسست م ل ہوا ہے۔ اگر یہ ص ح ' غ ل کے ب د کے ہیں' تو اس ک‬

‫‪23‬‬

‫مط یہ ٹھہرے گ کہ ل ظ اردو ب طور زب ن است م ل ہوت ہو گ لیکن‬
‫عمومی مہ ورہ نہ بن سک تھ ۔ اس ک عمومی مہ ورہ بنن بہت ب د کی‬

‫ب ت ہے۔‬

‫ل ظوں کو ملا کر لکھنے ک ع چ ن تھ ۔ اس کت میں بھی یہ چ ن‬
‫موجود ہے۔ مثلا‬

‫ہ سے‬ ‫ج نیکی بدی ت ے گی ہمسے کجہ نہیں غ‬
‫ص ‪13‬‬

‫تو ہر ع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت آنکہون میں ص‬
‫‪12‬‬

‫دو چشمی حے کی جگہ حے مقصورہ ک رواج تھ ۔ مثلا‬

‫نہوت سر مولے ک اگر کجہ ذات انس نمیں‬

‫بہت سے ل ظوں ک ت ظ اور مکتوبی صورت آج سے الگ تھی۔ مثلا‬

‫نہوت بھیت اسمیں خورشید فدا ک‬

‫بھید ص ‪11‬‬ ‫بھیت‬

‫ولیوں کے ک ندہے قد غوث اعظ‬

‫ک ندہے کندھے ص ‪24‬‬

‫تو سر گردان ت ریکی شبے رتجور کیوں ہوت‬

‫میں اض فت کی بج ئے ے ک است م ل کی گی ہے۔‬

‫ش عر نے خو صورت مرکب ت سے بھی کلا کو ج ز فکر بن نے‬

‫‪24‬‬

‫کی س ی کی ہے۔ مثلا‬
‫حسن منظور‬

‫تو ہر ع ش کی آنکونمیں حسن منظور کیوں ہوت ص ‪12‬‬
‫ست رہ محمدی‬

‫غ ل س سے آی ست رہ محمدی ص‪13‬‬
‫مست مل س پہ ہے لیکن س سے است م ل کی گی ہے۔‬

‫مرک ل ظ دیکھیے‬
‫خداگر‬

‫عمر گر عدالت خداگر نہ کرتے ص ‪24‬‬
‫کلا میں ریشمیت ک عنصر بھی پ ی ج ت ہے۔ مثلا‬

‫نہ پڑت پرتوہ ح اگر رخس ر خوب ں پر‬
‫تو ہرع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت ص ‪12‬‬

‫کی زبردست طور سے صن ت تض د ک است م ل ہوا ہے۔‬
‫تو دین اورک ر میں جدائی نہ ہوتی ص ‪24‬‬

‫صن ت تض د کی مخت ف نوعیت کی دو ایک مث لیں اور ملاحظہ ہوں۔‬
‫نہ م ت گ رخن سے دل میرا مسرور کیوں ہوت‬

‫نہ اس نرگس کوں دیکہت رنجور کیوں ہوت ص ‪12‬‬

‫‪25‬‬

‫جہ ں صن ت تض د ک است م ل ہوا ہے' وہ ں اردو زب ن کو دو خو‬
‫صورت است رے بھی میسر آئے ہیں‪.‬اگر مخت ر ہو آد آپن کے خیر‬

‫وشر اوپر‬
‫تو دانہ کھ کے گند ک جنت سے دور کیوں ہوت ص ‪12‬‬
‫اش ر ت میح ت سے مت ہوتے ہی۔ ت میح ت ک است م ل اسی حوالہ‬
‫سے ہوا ہے۔ اس ذیل میں دو ایک مث لیں ملاحظہ ہوں۔‬

‫اگر مخت ر ہو آد آپن کے خیر وشر اوپر‬
‫تو دانہ کھ کے گند ک جنت سے دور کیوں ہوت ص ‪12‬‬

‫لکھی تہی لوح پر ل نت پڑھی تھی س فرشتوں نے‬
‫اگر یوں ج نت شیط ں تو وہ مغرور کیوں ہوت ص‪11‬‬
‫اس ک مط یہ بھی نہیں کہ دو چشمی حے ک است م ل ہی نہیں ہوت‬

‫تھ ۔ دو ایک مث لیں ملاحظہ ہوں۔‬
‫لکھی تہی لوح پر ل نت پڑھی تھی س فرشتوں نے ص ‪11‬‬

‫بھیت سجن کی خبر لی وے ص ‪19‬‬
‫تو ہ ع جزوں کی رھ ئی نہوتی ص ‪24‬‬
‫زب ن ک مہ ورہ بھی برا اور ن موس نہیں۔ مثلا‬
‫کی دعوئے ان الح ک ہوی سردار کیوں ہوت ص‪11‬‬

‫ک ئی کہو سجن کی ب ت‬

‫‪26‬‬

‫جن کے پری لگ ئی چ ٹ ص‪19‬‬
‫گذر گی سر توں پ نی ص‪20‬‬

‫اس ش ری مجموعے کے اردو کلا پر' پنج بی کے اثراات واضح طور‬
‫پر محسوس ہوتے ہیں۔ ب ض جگہ لس نی اور کہیں لہجہ پنج بی ہو ج ت‬

‫ہے۔ مثلا‬
‫نہ ہوت بھیت اسمیں اگر خوشید ذرہ ک ص ‪11‬‬
‫تو ہر ذرہ انہ ں خورشید سے پرنور کیوں ہوت ص‪12‬‬
‫ہک لکھ کئی ہزار پیغمبر گذر گئے ص ‪13‬‬
‫ا لہجے سے مت ایک دو مثث لیں ملاحظ ہوں۔‬
‫ج نیکی بدی ت ے گی ہمسے کجھ نہیں غ ص ‪13‬‬
‫ع ی کو جے مشکل کش ح نہ کرتے ص ‪24‬‬
‫اردو پر ہی موقوف نہیں' پنج بی بھی اردو سے مت ثر نظر آتی ہے۔‬

‫مصرعے کے مصرعے اردو کے ہیں۔‬
‫کہیں میراں ش ہ جیلانی ہے کہیں قط فرید حق نی ہے‬
‫کہیں بہ ؤالدین م ت نی ہے کہیں پیر پن ہ لوہ ر ص ‪19‬‬
‫اس چوبیس ص حے کی مختصر سی کت سے' یہ ب ت واضح ہوتی‬
‫ہے' کہ مولوی غلا محمد آف ص ب تین زب نوں کے ش عر تھے‪.‬‬
‫مخت ف اردو اصن ف میں ش ر کہتے تھے اور اچھ کہتے تھے۔ ان ک‬
‫کلا کی ہوا اور کدھر گی ' کھوج کرنے کی ضرورت ہے۔‬

‫‪27‬‬

‫مثنوی م سٹر نرائن داس' ایک ادبی ج ئزہ‬

‫‪28‬‬

‫دوسری زب نوں کی طرح اردو' وہ جس رس الغط میں بھی رہی' مخت ف‬
‫حوالوں سے' اس کے س تھ دھرو ہوت آی ہے۔ مثلا‬

‫جنگجوں نے' اسے دشمن ک ذخیرہءع سمجھتے ہوئے' برب د کر دی '‬
‫ح لاں کہ ل ظ کسی قو ی علاقہ کی م کیت نہیں ہوتے۔‬

‫اردو کو مسم نوں کی زب ن سمجھتے ہوئے' غیر مس موں کی تحریوں‬
‫کو نظر انداز کر دی گی ۔ ج کہ اصل حقیقت تو یہ ہے' کہ زب ن تو اسی‬

‫کی ہے' جو اسے است م ل میں لات ہے۔‬

‫گھر والوں نے' چھنیوں' کولیوں اور لکڑیوں کو ترجیح میں رکھتے‬
‫ہوئے' ع می وادبی سرم یہ ردی میں بیچ کر' دا کھرے کر لیے۔‬

‫بہت کچھ' ح لات' ح دث ت اور عد توجہگی کی نذر ہو گی ۔‬

‫قددرتی آف ت بھی' اپنے حصہ ک کردار ادا کرتی آئی ہیں۔‬

‫تہذیبں مٹ گئیں' وہ ں محض کھنڈر اور ٹی ے رہ گیے۔ بہت کچھ ان‬
‫میں بھی د گی ۔ ب د کے آنے والوں نے' انہیں ب ڈوز کرکے ص ف‬
‫زمین کے ٹکڑے کو' س کچھ سمجہ لی ۔ اگر محت ط روی اختی ر کی‬

‫ج تی تو وہ ں سے' بہت کچھ دستی ہو سکت تھ ۔‬

‫م سٹر نرائن داس' اردو کے خوش فکر اور خوش زب ن' ش عر اور‬
‫نث ر تھے۔ سردست ان کی ایک ک وش فکر فوٹو ک پی کی صورت میں'‬
‫دستی ہوئی ہے' جو پیش خمت ہے۔ اس سے پہ ے سوامی را تیرتھ‬

‫ک کلا پیش کر چک ہوں۔‬

‫م سٹر نرائن داس' جو قصور کے رہنے والے تھے اور فرید کوٹ کے‬
‫مڈل سکول میں' ب طور ہیڈ م سٹر فرائض انج دے رہے تھے'‬

‫‪29‬‬

‫اٹھ ئیس بندوں پر مشتمل مسدس ب عنوان۔۔۔۔۔جوہر صداقت۔۔۔۔۔ تحریر‬
‫کی ۔ یہ ‪ 1899‬میں بلالی پریس س ڈھورہ ض ع انب لہ میں کری بخش و‬
‫محمد بلال کے اہتم طبع ہوا۔ گوی یہ آج سے' ‪ 116‬س ل پہ ے ش ئع‬
‫ہوا۔ اس مسدس کی زب ن آج سے' رائی بھر مخت ف نہیں۔ خدا لگتی یہ‬
‫ہے' اسے پڑھنے کے ب د اندازہ ہوا' کہ م سٹر نرائن داس کو زب ن پر‬
‫ک مل دسترس تھی۔ زب ن وبی ن میں فطری روانی موجود ہے۔ اپن نقطہء‬
‫نظر' انہوں نے پوری دی نت' خ وص اور ذمہ داری سے پیش کی ہے۔‬

‫انہوں نے اپنی پیش کش کے لیے' دس طور اختی ر کیے ہیں۔‬

‫مزے کی ب ت یہ کہیں مذہبی ی نظری تی پرچھ ئیں تک نہیں م تی۔ حیرت‬
‫کی ب ت تو یہ ہے' فقط آٹھ ئیس بندوں میں زب ن بی ن کے دس اطوار‬
‫اختی ر کیے۔ بلاشبہ م سٹر نرائن داس بڑے سچے کھرے اور ب اصول‬
‫انس ن رہے ہوں گے۔‬

‫انہوں نے سچ ئی کو مذہ پر فضی ت دی ہے۔ ان کے مط ب خدا‬
‫سچ ئی سے ال ت رکھت ہے۔ کہتے ہیں۔‬

‫سچ ئی کے عقیدے کو مذہ پر فضی ت ہے‬

‫خدا کو بندگ ن راستی سے خ ص ال ت ہے‬

‫صداقت اپنی حیثیت میں ہے کی ۔‬

‫سچ ئی رحمت ازلی و ابدی ک خزینہ ہے‬

‫صد اوج س دت ک عظی الش ن زینہ ہے‬

‫اس ک فنکشن کی ہے۔‬

‫‪30‬‬

‫ذرا چھونے سے ادنے چیز کو اع ے بن تی ہے‬
‫وہ قیمت بیشتر اکسیر اعظ سے بھی پ تی ہے‬

‫صداقت اور کذ ک موازنہ‬
‫م مع محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچ ئی کے‬
‫نکم محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچ ئی کے‬

‫صداقت کے فوائد‬
‫سچ ئی ہر دوع ل میں ہے دیتی رتبہ اع ے‬
‫سچ ئی کرتی ہے ہر دو جہ ں میں مرتبہ اع ے‬

‫سچ ئی کے ضمن میں دلائل‬
‫حکومت بھرتری نے چھوڑ دی خ طر سچ ئی کی‬

‫‪..........‬‬
‫تی گی ہو گی س کی منی خ طر سچ ئی کی‬

‫‪.............‬‬
‫سچ ئی کو بن ی راہنم پہلاد نے اپن‬

‫‪...........‬‬
‫پکڑ کر ہ تھ سے اپنے پئے خ طر سچ ئی کی‬

‫پی لے زہر کے سقراط نے خ طر سچ ئی کی‬

‫‪31‬‬

‫‪...........‬‬
‫مسیح بھی ہوئے ص و تھے خ طر سچ ئی کی‬

‫‪.............‬‬
‫ہزاروں سر ہوئے تن سے جدا خ طر سچ ئی کی‬

‫‪.............‬‬
‫کئی بچھڑے پی رے وطن سے خ طر سچ ئی کی‬

‫‪.............‬‬
‫پڑے ش وں میں ج تی آگ کے خ طر سچ ئی کی‬

‫سچ ئی فقرا ک مس ک ہوتی ہے۔‬
‫سچ ئی ہی قدر قیمت فقیروں کی بڑھ تی ہے‬

‫سچ ئی م رفت کے راستے انکو بت تی ہے‬
‫سچ ئی کردگ ر پ ک کی قربت دلاتی ہے‬

‫یہی آخر انہیں درگ ہ ایزد میں پہنچ تی ہے‬
‫کذ ک انج کی ہوت ہے۔‬

‫کذ د میں گنوات ہے شہنش ہونکی عزت کو‬
‫تب ہ کرت ہے انکی ش ن کو شوکت کو ہیبت کو‬
‫اسی سے ڈر ہے وق ت کو خطر اس سے دولت کو‬

‫‪32‬‬

‫گرات سرنگوں ہے غرض ان کے ع ل رف ت کو‬
‫ہزل پیشوں کو اللہ خ ک میں آخر ملات ہے‬

‫مگر سچوں ک ح فظ اور مودی اور دات ہے‬
‫حک ئتی انداز بھی اختی ر کی گی ہے۔‬

‫گڈریے کی حک یت بھی نصیحت خو دیتی ہے‬
‫کہ جسکی شیر کے پنجے سے پی ری ج ن نک تی ہے‬

‫کذ کے ہ تھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے‬
‫سزا جھوٹوں کو اپنے جھوٹ کی ایسے ہی م تی ہے‬

‫اہل ہند کے ب رے چینیوں اور رومیوں کی آراء‬
‫صداقت اہل ہندوست ں کے یون نی ثن خواں تھے‬
‫چ ن کے اہل ہندوست ں کے چینی ثن خواں تھے‬

‫موجودہ صورت ح ل‬
‫صداقت ہو گئی ہے دور ہندوست ں کے لوگوں سے‬
‫ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے‬
‫سچ ئی کے رستے پر چ نے والوں کی تحسین اور مب رکب د‬

‫مب رک ہو خوشی اے راستی کے چ ہنے والو‬
‫مب رک مخروقی اے راستی کے چ ہنے والو‬

‫‪33‬‬

‫مب رک برتری اے راستی کے چ ہنے والو‬
‫مب رک خوش روی اے راستی کے چ ہنے والو‬

‫مب رک آپ کو مژدہ یہ خوشخبری مب رک ہو‬
‫مب رک آپ کو یہ مہر رب نی مب رک ہو‬

‫ان کی مذہبی عصبت سے دوری ک س سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں‬
‫نے ذات ب ری کے لیے کردگ ر' ایزد' اللہ'ر ' خدا ن است م ل کیے‬
‫ہیں۔‬

‫م سٹر ص ح کے پ س متب دلات ک خزانہ موجود ہونے ک گم ن گزرت‬
‫ہے۔‬

‫سچ ئی سے خدا ت لے کی رحمت کی ترقی ہے‬
‫‪........‬‬

‫خدا کو بندگ ن راستی سے خ ص ال ت ہے‬
‫‪........‬‬

‫صد کو ی زرہ سمجھو کہ یہ اک زی تن کی ہے‬
‫‪........‬‬

‫نہ ہرگز س نچ کو ہے آنچ اس نے آزم دیکھ‬
‫‪........‬‬

‫صداقت کی مدد ان کو سچ ئی کے سہ رے ہیں‬

‫‪34‬‬

‫ا کچھ مرکب ت ملاحظہ ہوں۔‬

‫وہ ف ک راستی کے چمکتے گوی ست رے ہیں‬
‫‪........‬‬

‫مب رک گ ست ن راستی کے ٹہ نے والو‬
‫مب رک زیور صد و صداقت پہننے والو‬

‫‪.........‬‬
‫ستون سرخ آہن سے خوشی سے دوڑ کر لپٹ‬

‫‪.........‬‬
‫شہیدان صداقت نے دی خ طر سچ ئی کی‬

‫‪.........‬‬
‫فتح کےلوک میں پرلوک میں ڈنکے بج تے ہیں‬

‫‪........‬‬
‫کی خو مصرع ہیں۔ فص حت و بلاغت ک منہ بولت ثبوت ہیں۔ اس‬
‫ن صح نہ انداز میں ت خی ضرور ہے' لیکن فکری و لس نی حوالہ سے'‬
‫ان مصرعوں کو نظرانداز کرن ' زی دتی ہو گی۔ بےشک ان مصرعوں‬

‫میں' انہوں نے آف قی سچ ئی بی ن کی ہے۔‬
‫ہوا کرت ہے جھوٹوں پر سدا قہر خدا ن زل‬

‫‪35‬‬

‫کبھی درگ ہ سچی میں نہیں ک ز ہوئے داخل‬
‫‪..........‬‬

‫ہزل پیشوں کو اللہ خ ک میں آخر ملات ہے‬
‫‪.........‬‬

‫مب رک آپ کو یہ مہر رب نی مب رک ہو‬
‫م سٹر ص ح کی زب ن ک مہ ورہ بھی ن ست سے گرا ہوانہیں۔ دو ایک‬

‫مث لیں ملاحظہ ہوں‬
‫کذ کے ہ تھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے‬

‫‪...........‬‬
‫ک ہ ڑی ہ تھ سے اپنے وہ خود پ ؤں پہ دھرتے ہیں‬

‫‪...........‬‬
‫سچ ئی ک نصیبے والے ہی دامن پکڑتے ہیں‬

‫‪............‬‬
‫اسی سے ن رہت ہے جہ ں میں ی د سچوں ک‬

‫‪..........‬‬
‫ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے‬
‫مثنوی ک پہلا ش ر ہی تشبیہ پر استوار ہے۔ ملاحظہ ہو‬

‫سچ ئی مثل کندن چمکتی ہے دندن تی ہے‬

‫‪36‬‬

‫وہ ج وہ نور کوہ نور سے بڑھ کر دکھ تی ہے‬

‫صن ت تکرار ل ظی ک است م ل بھی ہوا ہے۔ ہ ں البتہ' دندن تی کی‬
‫جگہ' کوئی اور ل ظ رکھ دیتے' تو زی دہ اچھ ہوت ۔‬
‫ایک اور خو صورت سی تشبیہ ملاحظہ ہو۔‬
‫مگر ہے جھوٹ مثل ک نچ اس نے آزم دیکھ‬
‫ا صن ت تض د کی کچھ مث لیں ملاحظہ فرم لیں۔‬
‫شروع میں ہے خوشی اسکے خوشی ہی انتہ اسک‬
‫انتہ کو مونث ب ندھ گی ہے اور یہ غ ط نہیں۔‬
‫‪.......‬‬
‫سچ ئی راحت ازلی و ابدی ک خزینہ ہے‬
‫‪.......‬‬
‫زب ن پ ک کو اے دل نہ آلودہ کذ سے کر‬

‫م سٹر نرائن داس نے' اپنے عہد کی سچ ئی کے حوالہ سے' ہندوست ن‬
‫کی ح لت کو' ریک رڈ میں دے دی ہے۔ کہتے ہیں‬
‫بن ی جھوٹ کو ابتو ہے ہمنے راہنم اپن‬
‫سچ ئی الودع! ہے آجکل کذ وری اپن‬
‫دھر ب قی رہ اپن نہ دل ق ئ رہ اپن‬

‫‪37‬‬

‫نہ ی رو جھوٹ کے ہ تھوں سے ایم ں ہی بچ اپن‬

‫صداقت ہو گئی ہے دور ہندوست ں کے لوگوں سے‬

‫ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے‬

‫مثنوی ک آخری ش ر جس میں تخ ص است م ل ہوا ہے' پیش خدمت ہے‬

‫یہ ع صی اے سچ ئی تیرے ہی گھر ک سوالی ہے‬

‫ترا ہی داس اور تیرے ہی گھر ک سوالی ہے‬

‫کہ ج ت ہے' انس ن نے ترقی کر لی ہے۔ خ ک ترقی کی ہے' جہ ں ع‬
‫دو نمبر کی چیز ہو اور اہل ق کی موت کے ب د' ان کے پچھ ے' ان‬

‫کے لہو پ روں کو' ردی میں بیچ دیں ی ط قت کے نشہ میں چور‬
‫حکمرانوں کے پیشہ ور بےرح جنگجو' اس انس نی ورثے کو' نیست‬

‫ون بود کر دیں‪ .‬وہ ں ہوس لالچ اور ن س ن سی کے سوا کی ہو سکت‬
‫ہے۔ اگر ہوس' لالچ اور ن س ن سی ترقی ہے' تو وہ بہت زی دہ ہوئی‬

‫ہے۔‬

‫م سٹر ص ح نے اور بھی بہت کچھ' ش ر و نثر میں لکھ ہو گ ' کچھ‬
‫کہہ نہیں سکتے۔ تقسی ہند ک عمل تقریب نصف صدی ب د ک ہے۔۔ اس‬

‫لیے' وہ تقسی میں ض ئع نہیں ہوا ہو گ ۔ آج ج م ت' تحیقی ڈگری‬
‫چھ پنے میں مصروف ہیں' اگر وہ خ موش اردو کے خدمت گ روں کو'‬

‫تلاشنے کو بھی' تحقی سمجھیں' تو یہ اردو زب ن کی بہت بڑی خدمت ہوگی‬

‫محتر جن ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ۔۔ السلا ع یک‬

‫‪38‬‬

‫آج موج غزل سے نکل کر موج بی ن ک رخ کی تو اس نتیجہ پر پہنچ‬
‫کہ اس س ئٹ میں موجود موج بی ن ک حصہ آپ کے د سے ق ئ ہے‬
‫کیونکہ میں نے پچ نوے فیصد سے زائد تح ریر آپ کی یہ ں آپکی لگی‬

‫ہوئ دیکھی ۔۔ اللہ پ ک آپکو اور آپکے اس ذو و شو اور فن کو‬
‫سلامت رکھے اور وس ت و ترقی عط فرم ئے ۔ میں محتر سرور راز‬
‫ص ح سے مت ہوں کہ یہ ں صنف ش عری کی نسبت احب کی توجہ‬
‫نثر کی طرف بہت ک ہے جو احب نثری تخ یق ت لکھ سکتے ہیں ان‬

‫کو ضرور اس ج ن بھی توجہ کرنی چ ہئے ۔۔‬
‫آپ نے بہت اہ مسئ ہ کی طرف توجہ دلائی ہے آپکی سوچ اور فکر‬
‫بج ہے کہ ادبی ورثہ کو مح وظ رکھنے کے لئے بھی ک ہون چ ہئے‬
‫۔۔ اللہ پ ک آپکو ش دا رکھے اور آپکی تم تر نیک و ج ئز تمن ؤں کو‬

‫پورا فرم ئے ۔۔‬

‫والسلا‬
‫محمد یوسف‬

‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9892.0‬‬

‫آش پربھ ت' مسک تے' س گتے اور ب کتے احس س ت کی ش عر‬

‫‪39‬‬

‫عزیزہ آش پربھ ت نے اپن مجموعہءکلا ۔۔۔۔۔ مرموز۔۔۔۔۔۔ ان ال ظ کے‬
‫س تھ عط کی ۔‬

‫صف اول کے ف ل ادی ' نق د اور دانشور محتر بھ ئی ص ح کو‬
‫احترا کے س تھ‬

‫آش پربھ ت‬

‫اگست ‪8 1996‬‬

‫میں نے کچھ لکھ بھی تھ اور وہ کہیں ش ئع بھی ہوا تھ ۔ ب وجود‬
‫کوشش کے' وہ لکھ دستی نہیں ہو پ رہ ۔ کلا آج انیس س ل ب د'‬
‫دوب رہ پڑھنے میں آی ہے' میں بڑی سنجیدگی اور دی نت داری سے'‬

‫محسوس کر رہ ہوں' اس پر لکھ ج ن چ ہیے۔‬

‫مرموز ‪ 1996‬میں' پب شرز اینڈ ایڈورٹ ئزرز جے ‪ 6‬کرشن نگر دلی‬
‫سے' ش ئع ہوا۔ ٹ ئیٹل بیک پر' آش پربھ ت کی تصویر ت رف اور ان‬

‫کے کلا پر اظہ ر خی ل بھی' کی گی ہے۔ انہوں نے' اپنے کسی خط‬
‫میں' لکھنے والے کے مت بت ی ہو گ ۔ ا اس خط ک م ن ' آس ن‬
‫نہیں۔ اس تحریر کے مط ب ' آش پربھ ت کی ولادت رکسول' بہ ر میں‬
‫ہوئی۔ ان ک ن ول۔۔۔۔۔ دھند میں اگ پیڑ۔۔۔۔۔ م ہ ن مہ منشور کراچی میں‬
‫ش ئع ہوا' جو ب د میں' کت بی شکل میں بھی ش ئع ہوا تھ ۔ انہوں نے'‬
‫مہرب نی فرم تے ہوئے' ایک نسخہ مجھ ن چیز ف نی کو بھی' عن یت کی‬

‫تھ ۔ ان ک ایک مجموعہء ش ر ۔۔۔۔۔۔ دریچے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زب ن کے'‬
‫دیون گری خط میں بھی ش ئع ہوا تھ ۔ ان ک ایک ہ ئیکو پر مشتمل‬

‫مجموعہ۔۔۔۔۔گردا ۔۔۔۔۔۔ زیر اش عت تھ ۔‬

‫‪40‬‬

‫ان کی ش عری سے مت کہ گی ہے۔‬

‫اس و اور ہیئت کے اعتب ر سے ان کی نظمیں ش ری اد کے‬
‫سرم ئے میں ایک نئے ب ک اض فہ کرتی ہیں۔‬

‫اس مجموعے میں' کل اکسٹھ ش ر پ رے ش مل ہیں' جن میں سولہ‬
‫غزلیں اور پ نچ اوپر چ لیس نظمیں ش مل ہیں۔ آش بنی دی اور پیدائشی‬

‫طور پر' دیون گری رس الخط سے مت ہیں' لیکن اردو رس الخط‬
‫سے' ان کی محبت عش کی سطع پر نظر آتی ہے۔ ان ک کہن ہے۔‬

‫اردو میری محبو ہے اور میری محبو کی آنکھوں میندھنک کے‬
‫تم رنگ لہراتے ہیں۔‬

‫ان ک کہن ' کہنے کی حد تک نہیں' مرموز اس کی عم ی صورت میں‬
‫موجود ہے۔ واق ی اردو سے وہ عش کرتی ہیں۔‬

‫اس ک وش فکر ک ابتدائیہ' جو آش پربھ ت ک لکھ ہوا ہے' سچی ب ت‬
‫ہے' دل کے نہ ں گوشوں میں بھی' ارت ش پیدا کرت ہے۔ ملاحظہ‬
‫فرم ئیں۔‬

‫اس ک وش فکر ک ابتدائیہ جو آش پربھ ت ک لکھ ہوا ہے سچی ب ت‬
‫ہے دل کے نہ ں میں بھی ارت ش پیدا کرت ہے۔ ملاحظہ فرم ئیں۔‬

‫مجھے نہیں م و ش عری کی ہے۔ ش ری آہنگ کی ہوت ہے۔ ش ری‬
‫ش ور کی ہے اور داخ ی عوامل سے یہ کس طرح ترتی پ ت ہے۔ میں‬
‫بس اتن ج نتی ہوں کہ دھند صرف پہ ڑوں پر نہیں ہوتی آدمی کے اندر‬
‫بھی پھی تی ہے۔ سمندر لہرات ہے۔ دری موجزن ہوت ہے۔ طوف ن اٹھتے‬
‫ہیں' پھول کھ تے ہیں' خوشبو پھی تی ہے اور ج بھی میں ان کی یتوں‬

‫‪41‬‬

‫سے گزرتی ہوں تو ل ظوں ک سہ را لیتی ہوں اور محسوس ت کے‬
‫پراسرار دھندلکوں میں ال ظ کی قندیل جلاتی ہوں لیکن ال ظ دور تک‬

‫میرا س تھ نہیں دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میرے نزدیک ش عری قندیل جلانے ک عمل ہے۔ مجھے نہیں م و‬
‫میری قندیل کی روشنی محسوس ت کی کس سطع کو چھوتی ہے۔ لیکن‬
‫کی یہ ک ہے کہ میں نے قندیل جلائی ہے اور جلائے رکھنے ک عز‬

‫رکھتی ہوں۔‬
‫یہ زب نی کلامی کی ب تیں نہیں' مرموز کے مط ل ے کے ب د' یہ تم‬

‫کی ی ت پڑھنے کو م تی ہیں۔‬
‫ل ظ بہ مثل قندیل روشن رہتے ہیں‬

‫دل کے نہ ں خ نوں میں‬
‫ت موجود ہو‬

‫آک ش میں شبد کی طرح‬
‫نظ آک ش میں شبد ص‪9‬‬
‫دھند آدمی کے اندر بھی پھی تی ہے۔‬

‫ا کسی بھی آنکھ میں‬
‫پہچ ن کی خوشبو نہیں‬

‫چوب روں کے دیئے‬
‫ک کے بجھ چکے ہیں‬

‫‪42‬‬

‫بہت ج ن لیوا سن ٹ‬
‫وہ ں لیٹ رہت ہے‬
‫نظ گ ؤں ک المیہ ص ‪12‬‬
‫اس ضمن میں ایک اور مث ل ملاحظہ ہو۔‬

‫ہر سو‬
‫دھند ک پہرہ ہے‬
‫رات خ موش ہے‬
‫مٹ م ی چ ندنی‬
‫اتر آئی ہے میرے آنگن میں‬
‫نظ ۔ میری اداس آنکھیں ص‪27‬‬
‫جذ و احس س ت ک اٹھت طوف ن اور ردعم ی پک ر ملاحظہ ہو‬

‫روک لو‬
‫ان وحشی درندوں کو‬

‫ان کی کنٹھ ؤں کے‬
‫تیز ن خونوں کو توڑ ڈالو‬

‫یہ نہیں ج نتے‬
‫ب رود کی ڈھیر پر بیٹھ کر‬

‫‪43‬‬

‫خود م چس جلانے ک انج‬
‫یہ نہیں ج نتے‬

‫جھ ستے ہوئے انس نوں کے المیہ کو‬
‫جنگ ص‪ 70‬نظ ۔‬

‫موجزن دری اور لہراتے سمندر کی کی یت ملاحظہ ہو‬
‫تمہ ری چھوی ابھرتی ہے‬
‫ایک روش ہ لہ کی طرح‬
‫اور ایک شکتی بن کر‬

‫میری روح میں سم ج تی ہے‬
‫میں جی اٹھتی ہوں‬
‫امبربیل کی طرح‬

‫پ کیں جھپک اٹھتی ہیں‬
‫توان ئی ک بےکراں سمندر‬
‫لہرا اٹھت ہے میرے انگ انگ میں‬

‫نظ تنہ ئی ص ‪16‬‬
‫احس س کی کہ نی ملاحظہ ہو‬

‫میرے اندر‬

‫‪44‬‬

‫کہیں چپ سی پڑی ہے‬
‫ایک ننھی چڑی‬

‫وہ ا نہیں پھدکتی‬
‫نہیں چہکتی‬

‫نہ ہی ب رش میں‬
‫اپنے پر بھگوتی ہے‬
‫نظ ننھی چڑی ص‪24‬‬
‫ل ظوں کی مسک ن اور خوش بو ملاحظہ ہو۔‬
‫آبگینے سے زی دہ ن زک لمحوں کے بی ن کے لیے ل ظوں ک انتخ‬
‫آش کو خو خو آت ہے۔ ذرا یہ لائینیں ملاحظہ ہوں۔‬
‫تمہ ری آواز کی نمی‬

‫ہمیشہ کی طرح‬
‫اس ب ر بھی گمراہ کر گئی‬

‫میں اس موڑ پر ہوں‬
‫جہ ں سے واپس مڑ گئی تھی‬
‫نظ تمہ ری آواز کی نمی ص‪37‬‬
‫آش مح ک ت کی تشکیل میں کم ل رکھتی ہیں۔ مثلا‬

‫حس م مول‬

‫‪45‬‬

‫اس ب ر بھی ت‬
‫میرے چہرے ک‬
‫اپنے ہ تھوں سے‬
‫کٹورا س بن ؤ گے‬
‫میرے ل چومو گے‬
‫اور بھر دو گے میرے آنچل کو‬
‫عہد و پیم ں کے جگنوؤں سے‬
‫نظ میرے ل س ے ہیں ص ‪32‬‬
‫آش کے ہ ں' تشبیہ ت ک ب لکل نئے طور اور نئی زب ن کے س تھ‬
‫است م ل ہوا ہے۔ چند ایک مث لیں ملاحظہ ہوں‬
‫دل کے نہ ں خ نوں میں‬

‫ت موجود ہو‬
‫آک ش میں شبد کی طرح‬

‫نظ آک ش میں شبد ‪9‬‬
‫تمہ رے س رے خی لات‬
‫نی خوابیدہ ہنسی کی طرح‬
‫میرے ہونٹوں پر پھیل ج ئیں گے‬

‫تنہ ئی ص ‪15‬‬

‫‪46‬‬

‫شوخ لہریں‬
‫سرکشی کرتی ہیں کن روں سے‬

‫س نپ کے کینچل کی طرح‬
‫نظ تمہ رے ج نے کے ب د ص‪17‬‬
‫تمہ ری نر انگ یوں ک مخم ی لمس‬

‫جیسے‬
‫بند شیشوں سے ب ہر گرتی‬
‫مس سل برف ب ری ک س س ہ‬

‫نظ ایک احس س ص‪78‬‬
‫اور سکھ‬

‫م صو بچے س‬
‫کونے میں دبک کر‬

‫سو گی ہے‬
‫نظ ریت کی ندی ‪85‬‬
‫ت میح ک است م ل اور است م ل کی زب ن' ملاحظہ ہو۔‬
‫ریت کی ندی بہتی ہے۔۔۔۔۔‬
‫گر ریت میں پھنس گی ہے کہیں‬

‫‪47‬‬

‫سوہنی ک گھڑا‬
‫نظ ریت کی ندی ص‪85‬‬

‫اٹھو‬
‫ہ تھ بڑھ ؤ‬

‫اور‬
‫ص ی پر ٹنگے نصی کو ات ر لو‬
‫ص ی پر ٹنگے نصی ص‪ 69‬نظ‬

‫مندر کی روشنی میں‬
‫مسجد کی روشنی میں‬
‫کیوں کہرا بڑھ رہ ہے‬
‫کیوں کہرا چھ رہ ہے‬
‫نظ س نپ کو پکڑ لو ص‪60‬‬

‫بہت دن ہوئے‬
‫ج یوک پٹس کے پیڑوں کی طرح‬

‫دن اگت تھ‬
‫نظ بہت دن ہوئے ص‪10‬‬
‫سم ج کی عمومی چیزیں بھی' است م ل میں لاتی ہیں اور یہ ہی' اس کی‬
‫نظ کے لس نی حسن ک سب بنتی ہیں۔‬

‫‪48‬‬

‫آٹ گوندھنے کے درمی ن‬

‫نظ تمہ ری ی د ص‪92‬‬
‫‪........‬‬

‫کھڑکیوں اور دروازوں کے مخم ی پردے‬
‫‪........‬‬

‫ہ نڈیوں میں دانے‬
‫اکیسویں صدی ص‪ 73-72‬نظ‬

‫‪.......‬‬
‫گ ی ڈنڈے اور‬
‫بچوں کے ہجو‬
‫وقت پیرہن بدلت ہے ص‪ 91-90‬نظ‬

‫‪.......‬‬
‫چوپ لوں میں بجھے ہوئے گھوروں کی راکھ‬

‫نظ گ ؤں ک المیہ ص‪13‬‬
‫آش نے زب ن کو مخت ف نوعیت و حیثیت کے مرک فراہ کیے ہیں۔ یہ‬

‫اردو کی لس نی و فکری ثروت ک سب بنے ہیں۔ مثلا‬
‫کر گل ص‪54‬‬

‫‪49‬‬

‫نی خوابیدہ ہنسی ص‪14‬‬
‫خرگوشی لمس ص‪20‬‬
‫مٹ م ی چ ندنی ص‪27‬‬
‫من ک سن ٹ ص‪58‬‬
‫ل ظوں ک پل ص‪67‬‬
‫سکھ ک چل ص‪85‬‬

‫دہشت کے س ئے ص‪46‬‬
‫ت وار کے ق ص‪61‬‬

‫موت کی دستک ص‪47‬‬
‫کہرے کی دیوار ص‪47‬‬
‫جھینگر کی جھنک ر ص‪78‬‬

‫ریت کی ندی ص‪85‬‬
‫خی لوں میں اڑان ص‪66‬‬
‫آش کی زب ن ک مہ ورہ بھی فصیح وب یغ ہے۔مثلا‬

‫وقت پیرہن بدلت ہے‬
‫زخ بھر ج تےہیں ص‪41‬‬

‫آک ش نے‬

‫‪50‬‬

‫اپن پریچے کھو دی ہے‬
‫وقت موک بن‬

‫ٹھگ س دیکھت رہ گی ہے ص ‪88‬‬
‫جو جتن م ہر ہے‬

‫اتن بھوگت ہے اسٹیج ک سکھ ص‪86‬‬
‫اور سپنے‬

‫نی وا آنکھوں سے‬
‫چھ ک پڑے ص‪83-82‬‬

‫کوئی احس س‬
‫کوئی درد تمہ رےپیروں کی‬
‫بیڑی نہیں بن سک ص‪35‬‬
‫میرے اندر چپ سی پڑی ص‪24‬‬
‫خی لوں میں اڈان بھرو گے ص‪66‬‬
‫میرا پچھت وا مکھر ہو اٹھ ہے ص‪56‬‬
‫آش کے ہ ں' زب ن اور زب ن ک ل و لہجہ اور ذائقہ الگ پڑھنے کو م ت‬
‫ہے۔ غیر محسوس اور رونی میں' علامتوں اور است روں ک ' است م ل‬

‫مت ثر کرت ہے۔ مثلا‬
‫توان ئی ک بےکراں سمندر ص‪16‬‬


Click to View FlipBook Version