51
درد چ ت ہے دبے پ ؤں ص79
م ں کی چھ تیوں ک سمندر ص73
ل ظوں ک پل ٹوٹ گی ص67
کہر کی دیواروں کے بچ ص47
اس خ موشی کے شکنجہ میں
فقط ج ن بہ ل تھ میرا ایم ن ص55
آش کے ہ ں' اس عہد کی سچی تصویریں دیکھنے کو م تی ہیں' س تھ
میں' اس عہد کے شخص کے لیے پیغ بھی ہے۔ ب طور مث ل یہ نظ
.ملاحظہ ہو
ص ی پر ٹنگے نصی
اٹھو
ہ تھ بڑھ ؤ
اور
ص ی پر ٹنگے نصی کو ات ر لو
وہ بھی مضبوط ارادوں کی
راہ دیکھت ہے
زندگی کو دان کی
پیٹی مت دو
52
کسی آدھے ادھورے
مندر کی بنی د پر رکھی
دان کی پیٹی
جس میں
مجبوری ی ڈر سے
ڈال ج ت ہے کوئی
پ نچ پیسے دس پیسے
غرض آش پربھ ت کی ش عری' اپنے وجود میں' فکری اور لس نی
اعتب ر سے' ق بل توجہ توان ئی رکھتی ہے اور اسے نظر انداز کرن '
مبنی برانص ف نہ ہو گ ۔ غژل چوں کہ نظ سے' قط ی الگ صنف
سخن ہے' اسی لیے اسے' کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھ رکھ ہے۔
مکرمی جن ڈاکٹر حسنی ص ح :سلا ع یک
53
آش پربھ ت پر آپ ک سیرح صل مضمون پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ وہ
ہندوست ن کی ش عرہ ہیں۔ہندوست ن میں کسی ہندو ش عرہ ک اردو میں
ش عری کرن ایک نہ یت خوش آئند م رکہ ہے۔ اس سے ایک اش رہ یہ
بھی م ت ہے کہ اردو ک مستقبل وہ ں بھی خرا ہرگز نہیں ہے۔ ک ش
اہل اردو ایسے ادیبوں اور ش عروں کی قدر کریں جو ن مس عد ح لات
کے ب وجود محبت اور لگن سے زب ن و اد کی خدمت میں مصروف
ہیں۔ اردو ک ح ل جیس کچھ بھی ہے وہ اہل اردو کے ہ تھوں ہی ہے۔
آش پربھ ت کی تقریب تم نظمیں نثری نظمیں لگ رہی ہیں۔ کوئی آزاد
نظ بھی نظر نہیں آئی۔ ان کے خی لات بہت ج ندار اور ت زہ ہیں اور
بی ن پر ان کو عبور ہے۔ اتن تو ہ بہت سے اردو کے ش عروں کے
ب رے میں بھی نہیں کہہ سکتے ہیں! مجھ کو آش ص حبہ کی غزلوں ک
بے صبری سے انتظ ر ہے۔ امید ہے کہ آپ ج د ہی اس ج ن فکر
فرم ئیں گے۔ بہت بہت شکریہ۔ اللہ سے دع ہے کہ آپ کو اسی طرح
خدمت اد وش ر کے مح ز پر ت زہ ک ر اورت زہ د رکھے۔
مہر افروز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9894.0
اکبر اردو اد ک پہلا بڑا مزاحمتی ش عر
54
ن خوشگوار اور ن س زگ ر ح لات میں' ح کہن آس ن ک نہیں۔ اکبر الہ
آب دی نے' یہ فریضہ بڑے س یقے اور اہتم سے انج دی ۔ سرک ری
ملاز ہو کر' ن گوار ح لات پیدا کرنے والوں کو' آڑے ہ تھوں لی ۔ کہیں
پوشیدہ کہیں نی پوشیدہ اور کہیں بلاپوشیدگی' کہنے کی ب ت' کہہ دی۔
ایک طرف سرسید' جو مغربی تہذی کے نم ئندہ تھے' س تھیوں سمیت'
مغر کے لیے سرگر عمل تھے' تو دوسری طرف اکبر' اس کہے ی
کیے کی' تکذی کر رہے تھے۔ ہمہ وقت سپ ٹ اور براہ راست کہن '
آس ن ک نہ تھ اسی لیے انہوں نے طنز و مزاح ک رستہ اختی ر کی ۔
ہ سے ہ سے میں' کسی عمل' فکر ی طور کی ڈنڈ لاہ کر رکھ دیتے ہیں۔
ایک طرف ٹی ورک ہو رہ تھ ' تو دوسری طرف فرد واحد'
غیرسنجیدہ انداز میں' سرگر عمل تھ ۔ بدقسمتی یہ کہ جس پذیرائی
اور اعزاز و اکرا کے مستح تھے' وہ انہیں میسر نہ آئی .اس کے
برعکس' سرک ری گم شتے سر خ ن بہ در اور ش ہی ت وے چوس' کی
سے کی قرار دے دیے گیے۔ بدقسمتی کی ب ت یہ کہ وہ ت ریکیوں کے
امین' آج بھی عظی ت ریخی اور قومی شخصی ت ہیں۔ ش ہی کڑچوں ک
ہیرو ٹھہرن ' کوئی نئی نہیں' بہت پرانی ریت چ ی آتی ہے۔
اکبر نے اردو کو نی طور اور نی اس و دی ۔ ان کے اکثر مرکب ت بڑے
ک ٹ دار ہیں۔ ان کی ترکیب ت اور تشبیہ ت' حس س دلوں کی دھڑکنوں
کو بڑی ملائمیت سے چھیڑتی ہیں۔ ج وہ پرانی اقدار کی تذلیل ک
نوحہ کہتے ہیں' تو مغر پریدہ انہیں دقی نوس قرار دے کر' ان کی
سننے سے انک ر کر دیت ہے۔ اس ذیل فقط یہ دو ش ر ملاحظہ ہوں
55
تمھ ری پ لیسی ک ح ل کچھ کھ ت نہیں ص ح
ہم ری پ لیسی تو ص ف ہے ایم ں فروشی کی
شکست رنگ مذہ ک اثر دیکھیں نئے مرشد
مس م نوں میں کثرت ہو رہی ہے ب دہ نوشی کی
اکبر ک موقف رہ ہے' کہ بےشک ہم رے دشمنوں نے ہمیں روند ڈالا
ہے' ہم رے مذہبی اور تہذیبی ورثے کو ن ق بل تلافی نقص ن پہنچ ہے'
ریورس ک عمل اگرچہ ابھی ج ری ہے' ت ہ اس امر کو خ رج از امک ن
قرار نہیں دی ج سکت ' کہ جو لوگ آج ک می ہیں' کل جہ ں ب نی کے
م ملات میں ن ک ہو ج ئیں اور آج کے ن ک کل کو ک می ٹھہریں۔
انگریز نے 1857میں جنگ جیت ج نے کے ب د' ظ وست کی انتہ
کر دی۔ چوں کہ اس نے مس حکومت کو خت کی تھ اور ردعمل کی'
اسی سے توقع تھی' اس لیے زی دہ تر مسم ن ہی اس کی تیغ ست ک
نش نہ بنے۔ دہ ی اس وقت چھے لاکھ آب دی ک شہر تھ ' جہ ں آہوں اور
سسکیوں کے سوا' کچھ سن ئی نہ دیت تھ ۔ اس صورت ح ل سے
گزرنے کے ب وجود' مس م نوں میں جذبہءآزادی بیدار ہوا' جس کے
ب عث زندگی میں جدوجہد کی ایک نئی لہر
دوڑنے لگی' اکبر کے ہ ں اس امر ک اش رہ م ت ہے' کہ ف تح اپنی فتح
پر خوش نہ ہوں' کیوں کہ
سورج ہمیشہ نئے انقلا کے س تھ ط وع ہوا کرت ہے۔ ان ک موقف
تھ ' کہ لوگ مرتے رہتے ہیں' آزادی کے متوالے جن لیتے رہتے ہیں۔
غلامی سے آزادی تک ک س ر' ہر صورت اور ہر رنگ میں' ج ری رہت
56
ہے۔ پرانی نسل خت ہو رہی ہے تو اس سے کوئی فر نہیں پڑت ۔ جس
تن س سے اموات ہو رہی ہیں' اسی تن س سے لوگ آ بھی رہے ہیں'
جو اپنے سینے میں گزرا ہوا کل رکھتے ہیں۔ اکبر کے ہ ں جگہ جگہ
موازنہ کی صورتیں نظر آتی ہیں اور واضح ا ل ظ میں' نئی آمدہ تہذی
کے نق ئص کو واضح کی ۔
نئی تہذی سے س قی نے ایسی گرمجوشی کی
کہ آخر مس م نوں میں روح پھونکی ب دہ نوشی کی
ہ ریش دکھ تے ہیں کہ اسلا کو دیکھو
مس زلف دکھ تی ہے کہ اس لا کو دیکھو
اس پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ ب ض اوق ت بڑی بےب قی سے ک لیتے
ہیں۔ مثلا
یہی فرم تے رہے تیغ سے پھیلا اسلا
یہ نہ ارش د ہوا توپ سے کی پھیلا ہے
وہ ح ک لوگوں کے رویے رجح ن اور اطوار سے خو خو آگ ہ
تھے' ت ہی تو کہتے ہیں
رع ی کو من س ہے کہ ب ہ دوستی رکھیں
حم قت ح کموں سے ہے توقع گر جوشی کی
وہ حکومتی چمچوں کڑچھوں کی ن یس ت سے آگہی رکھتے تھے۔ یہ
پٹھو لوگ' اپنی پرانی تہذی کی خ می ں گنوا رہے تھے اور نئی تہذی
57
کی خوبیوں ک ڈھندورہ پیٹ رہے تھے اور اسی کو ترقی ک زینہ قرار
دے رہے تھے۔ اس ذیل میں اکبر ایک جگہ کہتے ہیں
چھپ نے کے عوض چھپوا رہے ہیں خود وہ عی اپنے
نصیحت کی کروں میں قو کو ا عی پوشی کی
چوں کہ آزادی اور ح سچ کی ب ت کرنے والے ج ن ج تے تھے اس
:لیے انہوں نے اس کے لیے تین حربے است م ل کیے
اش رتی انداز اختی ر کرتے 1-
دبے ل ظوں بہت کچھ کہہ ج تے 2-
کبھی تھوڑا کھل کر ب ت کرتے 3-
انہیں اس امر ک ت سف رہ ' کہ ان کے ہ نوا اور ح کی ب ت کرنے
والے' تقریب خت ہو گیے ہیں اور انگریز تہذی کے ح میوں میں'
ہرچند اض فہ ہو رہ ہے۔ ان کے تکذی کرنے والے ان کے خلاف من ی
اطوار پر اتر آئے ہیں۔ کہتے ہیں
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے ج ج کے تھ نے میں
کہ اکبر ن لیت ہے خدا ک اس زم نے میں
انہوں نے علامتی طور اختی ر کرکے' ایک اصول وضع کی ' کہ کچھ
بھی سہی' ح لات کیسے بھی رہے ہوں' حریت ک س ر ج ری رہن
چ ہیے۔ عیش و طر کی مح ل میں رونے والے بھی رہن چ ہیے۔ وہ
روتے رہے۔
58
ت ی ک شور اتن تہذی ک غل اتن
برکت جو نہیں ہوتی نیت کی خرابی ہے
سرسید تحریک کی طرف اش رہ ہے۔ ایک دوسرے ش ر میں ایک ن
نہ د مص ح طبقہ' نسل نو کو جس ت ی سے آرائستہ کرن چ ہت تھ ' پر
چوٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
ہ ایسی کل کت بیں ق بل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے ب پ کو خبطی سمجھتے ہیں
ح ک یہ ں کے وس ئل سے پچرے اڑا رہ تھ ' بچے کھچے میں سے
پیٹ بھر انہیں بھی مل رہ تھ ۔ گوی کم ئے گی دنی کھ ئیں گے ہ ' کے
مصد دونوں فریقوں ک موجو لگ ہوا تھ ۔ اکبر اسے وقتی اور
ع رضی سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک' عیش و نش ط ک خ تمہ ن تم
حسرتوں اور خواہشوں پر ہوا کرت ہے۔ ج یہ طے ہے' کہ عیش و
عشرت ک خ تمہ ن تم حسرتوں پر ہوا کرت ہے' تو پھر کیوں نہ وقت
مثبت ک موں پر صرف کی ج ئے۔ گوی وہ عیش کوشی کو تی گنے کے
ح میں تھے۔ درحقیقت وہ مغ وں کی عیش کوشی کو زوال ک سب
سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے وس ئل ک غ ط کی ۔ انج ک ر زوال ک شک ر
ہوئے۔ اگر وہ
ب صول اور ڈھنگ کی زندگی کرتے' تو ذلت و رسوائی اور دیس بدری
ان ک مقدر نہ ٹھہرتی۔ ا بھی یہ ہی کچھ چل رہ تھ ' لیکن اپنی اصل
میں یہ ں کی تہذی کے مزاج سے ہٹ کر' کہ اور لکھ ج رہ تھ ۔ اس
سے لمح تی ارت ش تو پیدا ہوا۔ مخصوص ح قوں کے سوا مجموعی
59
مزاج ترکی نہ پ سک ۔
انس ن دکھ میں خدا کو ی د کرت ہے اور اس سے مدد م نگت ہے۔ کتن
بڑا طنز ہے' کہ مغربی ت ی نے' خدا کی ی د ہی بھلا دی ہے۔ شخص
کے لیے ص ح ہی س کچھ ہو گی ۔ جم ہ توق ت اسی سے وابسطہ ہو
گئیں۔
مصیبت میں بھی ا ی دخدا آتی نہیں ان کو
زب ں سے دع نہ نک ی جی سے عرضی ں نک یں
شر وحی ' برصغیر کی تہذی ک لازمہ و لوازمہ رہ ہے۔ مس م نوں کے
ہ ں تو پردہ حک میں داخل ہے۔ مغر میں' صورت ح ل اس سے
مخت ف ہے۔ بےحج بی ک ایک ت ریخی جواز ہے۔ یہ ں اس کی ت صیل
درج کرن ' لای نی طوالت کے مترادف ہوگ ۔ یہ م م ہ م دری اور پدری
سوس ئٹی ک ہے۔ عہد اکبر میں مردوں اور عورتوں ک توازن بگڑا نہیں
تھ ' لیکن مغربی اطوار کے زیر اثر ی ترغی دہی کے تحت'
ب لااسٹیٹس کے ح مل شورےف کے ہ ں بھی' بیبی ں مم نم ئی وغیرہ پر'
اتر آئی تھیں۔ اکبر نے جس طور سے چوٹ لگ ئی ہے' اس پر ان
شورےف ک سیخ پ ہون ' فطری سی ب ت تھی۔ ت ہ ان ک طرز تک
خ لص برصغیر کی اسلامی تہذی ک غم ز ہے۔
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبی ں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گی
پوچھ جو ان سے آپ ک پردہ وہ کی ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گی
60
یہ بدیسی تہذی کے دل دادہ اور پرانی تہذی کو ن پسند کرنے والوں
کے' رخس ر گرامی پر پرزن ٹ طم چہ تھ ۔ اگر شر وحی ہوتی' تو
ضرور ج گ اٹھتی۔ ان کے نزدیک ایس شخص دھوکے میں ہے'
اندھیروں میں بھٹک رہ ہے اور اسے م م ہ دکھ ہی نہیں رہ ۔ یہ بھی
کہ ہمیں ان کی رہنم ئی کی ضرورت ہی نہیں۔
اکبر' مغر کے چ ن اور اس کے کہے کو' طنز ک نش نہ بن تے اور
اس کی تق ید کو مضر اثر قرار دیتے آئے ہیں۔ مغر کے چوری خور
توتے کہتے تھے' تمہیں زندگی اور حکومت کرن نہیں آت ۔ مغر
تمہ ری تربیت کر رہ ہے۔ اسی تن ظر میں' اکبر مغر اور اس کی
تہذی پر چوٹ کرتے رہے۔ انہوں نے عی ری سے حکومت ہتھ ئی اور
عی ری سے ہی لوگوں کو اپنے س تھ کی ۔
گولوں اور گم شتوں کو ایک طرف رکھیے' یہ ہر دور میں' مقتدرہ
قوتوں کے د ہلاوے اور گری عوا کے خون چوس رہے ہیں۔ لالچ
اور طمع انہیں گھٹی میں ملا ہوت ہے۔ ان سے خیر کی توقع ن دانی کے
سوا کچھ نہیں۔ کوئی مرت ہے ی م ر دی ج ت ہے' انہیں اس سے کوئی
غرض نہیں ہوتی۔
اکبر کے نزدیک' خ وص اور ت داری یک طرفہ چیز نہیں ہے۔ اس
کی موجودگی اطراف میں ضروری ہوتی ہے۔ تپ ک سے م نے والے
لوگوں ک ب طن بھی گر جوشی سے م مور ہو' یہ ضروری نہیں۔ ایسی
صورت میں گمشتگ ن سے' خیر کی توقع اپنے پ ؤں پر خود ک ہ ڑی
م رنے کے مترادف ہوت ہے۔
اگر اکبر کی ش عری ک ' دی نت داری سے مط ل ہ کی ج ئے' تو یہ کہن
61
کسی طرح غ ط نہ ہو گ ' کہ انہوں نے مزاحمتی اد لکھنے ک آغ ز
کی ۔ اس ذیل میں انہیں پہلا بڑا مزحمتی ش عر قرار دین ' مبنی بر
انص ف ہو گ ۔ اس حوالہ سے ان پر ک کرن ابھی ب قی ہے۔
تحریر م رچ 1978 '6
مکرمی و محترمی جن حسنی ص ح :سلا مسنون
اکبر الہ آب دی پر آپ ک انش ئیہ دلچسپ ہے اور ع افزا بھی۔ اس انداز
فکر ک مضمون اکبر پر مجھ کو ی د نہیں کہ کسی اور نے لکھ ہو۔
گزارش ہے کہ اس فکر کو اور جلادے کر ایک طویل اور ج مع
مضمون لکھیں اور ش ئع کروائیں۔ اس کی سخت ضرورت ہے۔ اکبر اور
دوسرے مزاح نگ روں پر ہم رے یہ ں بہت ک ک ہوا ہے۔ مزاح کو
ہم رے اد میں وہ مق نہیں دی گی جس ک یہ مستح ہے۔ آپ
جیسےاہل ع کو اس ج ن فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ مضمون پر
میری داد اور دلی شکریہ قبول کیجئے۔
سر سید پر آپ کے خی لات جزوی طور پر صحیح ہیں لیکن یک طرفہ
ہیں۔ سر سید کو برا بھلا کہنے والے ،غدار قو اور مغر کے غلا
کہنے والے پہ ے بھی بہت تھے اورا بھی ہیں لیکن ان کے احس ن ت
ک اعتراف بھی بہت ضروری ہے۔ اگر انہوں نے مس م نوں ک گریب ن
پکڑ کر نہ جھنجوڑا ہوت اور ان کی ت ی کی ایسی فکر نہ کی ہوتی تو
نہ میں انجینئر ہوت اور نہ آپ ڈاکٹر۔ ان کی کوشش سے میری اور آپ
کی اولاد جو فیض پ رہی ہے اس ک شکریہ ادا نہ کرن ن دانی ہے۔
خ می ں کس میں نہیں ہوتیں اور ب ض اوق ت وقت ک دب ئو اور تق ضے
62
بھی انس ن کو مجبور کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ سر سید اور اکبر الہ
آب دی کے ہر ک اور موقف کی ت ئید کی ج ئے۔ جس نے جو احس ن
قو پر کی ہے اس ک اعتراف ضروری ہے۔ میں ع ی گڑھ ک پڑھ ہوا
ہوں اور سرسید کے ک کو میں نے بہت قری سے دیکھ ہے۔ وہ
فرشتہ نہیں تھے لیکن قو کے بہت بڑے ہمدرد تھے۔ انہوں نے جو
ک کی وہ ک لوگ کر سکے ہیں۔ اللہ ان کی مغ رت فرم ئے۔
سرور ع ل راز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10009.0
63
ام نت کی ایک غزل ......فکری و لس نی رویہ
مخدومی و مرشدی حضرت قب ہ سید غلا حضور حسنی الم روف ب ب
شکراللہ سرک ر کے ذخیرہ ء کت سے' ایک مخطوطہ ص ح ت سولہ '
دستی ہوا ہے۔ اس میں ایک بتیس اش ر پر مشتمل غزل اور ایک
نظ ' جس میں ب سٹھ اش ر ہیں' دستی ہوئی ہے۔ غزل دیگر پرعنوان
درج ہے' جس سے یہ کھ ت ہے' کہ مواد اور بھی تھ اور وہ مواد'
حوادث زم نہ ک شک ر ہو گی ۔ ب ب جی مرحو کے جو ہ تھ لگ ' انہوں
نے مح وظ کر لی ۔ غزل والے آٹھ ص ح ت پر' ص حوں کے نمبر درج
نہیں ہیں' ج کہ نظ کے آٹھ ص حوں پر ص حہ 13ت 20درج ہے۔
مخطوطے کی ح لت بڑی خستہ اور ق بل رح ہے .غزل کے مقطع میں'
ام نت تخ ص ہوا ہے' ش عر ک ن بھی ام نت تھ ی یہ محض ان ک
تخ ص تھ ' ٹھیک سے کہ نہیں ج سکت ۔ ہ ں یہ ضرور کہ ج سکت
ہے' کہ یہ ص ح ش ی ن ع ی سے مت تھے۔ مقطع ملاحظہ ہو۔
رکہ جنت میں ام نت جو قد حیدر نے
دوڑے جبرائیل یہ کہہکر میرا است د آی
ک غذ اور کت بت بت تی ہے' کہ یہ مسودہ ایک سو پچ س س ل سے زی دہ'
عمر رکھت ہے۔ مض مین غزل کی عمومی روایت سے مت ہیں۔ ش عر
کی زب ن رواں' ش یستہ اور شگ تہ ہے۔ کہیں کوئی ابہ می صورت
موجود نہیں۔ یہ ایک مربوط غزل ہے۔ اس میں' بی نیہ' مخ طبیہ اور
64
خود کلامی ک اس و تک م ت ہے۔ آغ ز روح کے س ر سے ہوت ہے'
ب قی اکتیس اش ر' کسی ن کسی سطح پر' اس س ر سے مربوط سے
محسوس ہوتے ہیں۔
غزل کے پہ ے چ ر اش ر میں ی د آی ب طور ردیف است م ل ہوا ہے ج
کہ ب قی اٹھ ئیس اش ر میں آی کو ردیف بن ی گی ہے۔ ی د کی صوت پر'
ال ظ ب طور ق فیہ است م ل ہوئے ہیں۔ اسے چ ر اش ر کی غزل کے
طور پر لی ج سکت ہے۔
ملاحظ ہو۔
روح کو راہ عد میں میرا تن ی د آی
دشت غربت میں مس فر کو وطن ی د آی
چہچہے بہول گئے رنج و مہن ی د آی
روح دی میں نے ق س میں جو چمن ی د آی
آ گی میرے جن زے پر جو وہ ہوش رب
کر چکے دفن تو ی روں کو ک ن ی د آی
میں وہ ہوں ب بل مست نہ جو مرجہ ون نہ ل
بہول کر کنج ق س ۔۔۔۔۔۔۔چمن ی د آی
65
تشنگی محسوس نہیں ہوتی' ت ہ اگ ے اش ر' ارتب ط کے احس س سے
خ لی نہیں ہیں۔
حس رواج و رویت' ال ظ ملا کر لکھے گیے ہیں۔ مثلا
دیکہکے' مجہپر' سمجہکر' کیطرح' کہہکر وغیرہ
دوچشمی حے کی جگہ' حے مقصورہ ک است م ل کی گی ہے۔
رکہ ' دیکہ ' بہولے' مجہے' مجہپر
مہ پران بھی نظر انداز نہیں ہوئے۔
'ھ' بھ' پھ' جھ' چھ' کھ
ھے' کبھی' پھیر' برچھی ں' مجھے' کھیل
ایک جگہ نون غنہ کی جگہ' نون ک است م ل بھی ہوا ہے۔
ہچکی ں آتی ہیں کیون ع ل غربت میں دلا
حے مقصورہ کی جگہ' بڑی ے ک است م ل بھی پڑھنے کو م ت ہے۔
ہوں وہ ب بل کے خریدار نے منہہ پھیر لی
66
متت ' مگر متض د ال ظ ک است م ل' کم ل حسن و خوبی سے کی گی
ہے۔ مثلا
چہچہے بہول گئے رنج و مہن ی د آی
روح دی میں نے ق س میں جو چمن ی د آی
ق س :قید' پ بندی
چمن :آزادی' خوشی' خوش ح لی
پہ ے مصرعے میں چہچہے اور رنج و مہن۔ بھول اور ی د
دوسرے مصرعے میں ق س اور چمن
اس ش ر میں زندگی کی دونوں ح لتوں' رنج اور خوشی کو نم ی ں طور
پر بی ن کی گی ہے۔
ہ صوت' مگر مت ل ظوں ک است م ل ملاحظہ ہو۔
کر چکے دفن تو ی روں کو ک ن ی د آی
ک ن دفن' مرک عمومی است م ل ک ہے۔
ایک ہی ل ظ کے' دو اسم ء کے لیے است م ل کی ایک مث ل ملاحظہ ہو۔
گ بدن دیکہکے اس گل ک بدن ی د آی
67
عمومی مہ ورے میں مرک 'خی ل ہی خی ل میں' است م ل ہوت لیکن
ام نت نے' وہ ہی وہ میں' است م ل کی ہے۔ گوی وہ کو' خی ل کے
مترادف کے طور پر' است م ل کی گی ہے۔
وہ ہی وہ میں اپنے ہوئے اوق ت بسر
ام نت نے' بڑے خو صورت مرک بھی' اردو کے دامن میں رکھے
ہیں۔ مثلا
دشت غربت' ست ایج د' تک ف سخن' راہ عد ' ع ل غربت' آوارہ وطن'
چ ند گہی' کشتہ مقدر 'حسرت پرواز' آتش عش ' سخت ج نی ' مر
بسمل
رنج و مہن
چشمہءکوثر
عمومی طور پر حوض کوثر است م ل میں آت ہے۔
ہ ر ک کھیل
ع ش کے نصی
سورج کی کرن
چھینک آئے تو کہ ج ت ہے' کہ کسی نے ی د کی ہے۔ ام نت نے' اس
کے لیے ہچکی ں آن است م ل کی ہے۔ اس کی م نویت چھینک آن سے'
68
الگ تر ہے۔
ہچکی ں آتی ہیں کیون ع ل غربت میں دلا
کی عزیزوں کو میں آوارہ وطن ی د آی
ام نت نے اپنی اس طول غزل میں' کئی ایک رائج اصطلاح ت ک
است م ل کی ہے۔ ان ک است م ل' س ر کے تن ظر میں ہوا ہے۔ مثلا
جن زہ' دفن' ک ن' غسل صحت' زاہد ' عد ' کشتہ
ام نت کو مہ ورات کے است م ل میں' کم ل ح صل ہے۔ وہ مہ ورے ک
است م ل' رواں روی میں کر ج تے ہیں۔ یہ است م ل لس نی تی حسن
سے' بہرہ ور ہے۔ چند ایک مہ ورے ملاحظہ ہوں۔
ہوش اڑن ' پر ک ٹن ' نصی لڑن ' رع یت سوجھن ' گل لگ ن ' لہو خشک
ہون ' خون میں نہلان ' امید قطع ہون ' دل کڑا کرن ' منہ پھیرن ' روح دین '
دا لگ ن ' خی ل ب ندھن ' چٹکی ں لین ' اوق ت بسر ہون ' در بدر پھرن ' قد
رکھن ' نقش کھیچن
مہ ورے کے است م ل کی' صرف ایک مث ل ملاحظہ ہو۔
رع یت سوجھن :ب بل زار سمجہکر یہ رع یت سوجہی
ام نت' تشببہ ت ک است م ل بھی بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔ مثلا
ہوں وہ ب بل کے خریدار نے منہہ پھیر لی
69
شجر ق مت دلدار مجھے ی د آی
مر بسمل کیطرح ب میں تڑپی ب بل
حسن ش ر میں' ت میح کو بڑی اہمیت ح صل ہے۔ ام نت کے ایک ہی
ش ر میں' ایک س تھ' تین ت میح ت ک است ل ملاحظہ فرم ئیں۔
تذکرہ چشمہءکوثر ک جو زاہد نے کی
آپنے یوسف ک مجہے چ ہ زقند ی د آی
شمش د کے س تھ' پہ یوں ک انتس بڑا ہی من بھ ت ہے۔ ملاحظہ ہو
پہ یوں کی ئے کوئی ب میں شمش د آی
مق می اور عمومی بول چ ل کے ل ظ بھی' است م ل میں لاتے ہیں۔ مثلا
ب ب وں کے لئے پ لی میں نہ صی د آی
ہچکی ں آتی ہیں کیون ع ل غربت میں دلا
مست مل مرک ال ظ ک است م ل' اپنی ہی بن ٹھن رکھت ہے۔
پر واز :ہو گئی قطع اسیری میں امید پرواز
گل بدن :گ بدن دیکہکے اس گل ک بدن ی د آی
70
ش ش د :پہ یوں کی ئے کوئی ب میں شمش د آی
صن نت تکرار حرفی سے بھی' ک لیتے ہیں۔ مثلا
در بدر پھر کے دلا گھر کی ہمیں قدر ہوئی
ا ام نت کے' دو ایک س بقوں لاحقوں سے ترکی پ نے والے' ال ظ
ملاحظہ فرم ئیں
اہل وف ' بےاعتب روں' بےنش نی
پری زاد' خریدار' دل دار' ب بل زار 'در گ ہ' سی ہ ف
مترادف ال ظ ک است م ل' ان کے کلا میں ایک الگ سے' ت ثیر'
ج زبیت اور صوتی و بصری حسن و توجہ ک سب بنت ہے۔ مثلا یہ
مصرع ملاحظہ فرم ئیں
مجہکو رشک قمرچ ند گہی ی د آی
ام نت کو ن صرف زب ن پر دسترس ح صل ہے' بل کہ ان کے بہت سے
مض مین' بڑے پرلطف ہیں۔ ان سے فکری حظ ہی نہیں' سم عتی اور
بصری لطف بھی میسر آت ہے۔ اس ذیل میں' ذرا ان اش ر کو دیکھیں'
پڑھیں' غور کریں اور مزا لیں۔
روح کو راہ عد میں میرا تن ی د آی
71
دشت غربت میں مس فر کو وطن ی د آی
............
آ گی میرے جن زے پر جو وہ ہوش رب
کر چکے دفن تو ی روں کو ک ن ی د آی
...........
مر بسمل کیطرح ب میں تڑپی ب بل
گل لگ کر کہ قمری نے میرا صی د آی
............
غسل صحت کی خبر سن کے ہوا خشک لہو
خون میں نہلانے کو فورا مجھے جلاد آی
..........
تذکرہ چشمہءکوثر ک جو زاہد نے کی
اپنے یوسف ک مجہے چ ہ زقند ی د آی
..........
ہو گی حسرت پرواز میں دل سو ٹکڑے
ہ نے دیکہ جو ق س تو ف ک ی د آی
..........
72
کیوں تیرا ع ش برکشتہ مقدر کیطرح
ست تو نے کئے تو چرخ کہن ی د آی
........................................................................
دیگر
روح کو راہ عد میں میرا تن ی د آی
دشت غربت میں مس فر کو وطن ی د آی
چہچہے بہول گئے رنج و مہن ی د آی
روح دی میں نے ق س میں جو چمن ی د آی
آ گی میرے جن زے پر جو وہ ہوش رب
کر چکے دفن تو ی روں کو ک ن ی د آی
میں وہ ہوں ب بل مست نہ جو مرجہ ون نہ ل
بہول کر کنج ق س ۔۔۔۔۔۔۔چمن ی د آی
آتش عش ک پ کر میری رگ رگ میں اثر
آپ ہمراہ لئے نشتر فص د آی
سخت ج نی سے میری پھیر دی منہہ د میں
دل کڑا کرکے اگر خنجر فولاد آی
73
ہوں وہ ب بل کے خریدار نے منہہ پھیر لی
دا مجہپر لگ نے کو کوئی صی د آی
برچھی ں ہیں مجہے سورج کی کرن
سنہکی ے کے یہ چرخ ست ایج د آی
دل ہوا سرو گ ست نی کے نظ رے سے نہ ل
شجر ق مت دلدار مجھے ی د آی
ہو گئی قطع اسیری میں امید پرواز
اڑ گئی ہوش جو پر ک ٹنے صی د آی
ہ ر ک کھیل ہوا لٹر گئے ع ش کے نصی
غیر بولا جو فراموش تو میں ی د آی
ب بل زار سمجہکر یہ رع یت سوجہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پر ب ندھنے صی د آی
اس درد دل فرموش کی ع ش کو
نہ کبھی آپ کو بہولے سے بھی میں ی د آی
مر بسمل کیطرح ب میں تڑپی ب بل
گل لگ کر کہ قمری نے میرا صی د آی
در ج ن ں ک ب ندھے ھے چمن دہر میں رنگ
74
پہ یوں کی ئے کوئی ب میں شمش د آی
غسل صحت کی خبر سن کے ہوا خشک لہو
خون میں نہلانے کو فورا مجھے جلاد آی
ہچکی ں آتی ہیں کیون ع ل غربت میں دلا
کی عزیزوں کو میں آوارہ وطن ی د آی
رخ ج ن ں پہ نظر کرکے بندہ گل ک خی ل
قد کو دیکہ تو مجہے سرو چمن ی د آی
بےنش نی سے نش ں بہول گی آنے کو
کھینچ چک ہ ر نقشہ تو وہی ی د آی
تذکرہ چشمہءکوثر ک جو زاہد نے کی
اپنے یوسف ک مجہے چ ہ زقند ی د آی
خ کے ٹکڑے کئے شیشوں کو کی میں نے چور
توڑے پیم نے جو وہ عہد شکنی ی د آی
ط ل اشک آنکہوں میں بھرنے لگے مرد کیطرح
خورد س لونکو بزرگوں ک چ ن ی د آی
تیرے منہہ پر جو رکہ غیر سی ہ ف نے منہہ
75
مجہکو رشک قمرچ ند گہی ی د آی
کیوں تیرا ع ش برکشتہ مقدر کیطرح
ست تو نے کئے تو چرخ کہن ی د آی
چٹکی ں دل میں میرے لینے لگ ن خن عش
گ بدن دیکہکے اس گل ک بدن ی د آی
وہ ہی وہ میں اپنے ہوئے اوق ت بسر
کمر ی ر کو بہولے تو دہن ی د آی
برگ گل دیکہکے آنکہوں میں تیرے پھر گئے آ
غنچہ چٹک تو مجہے تک ف سخن ی د آی
در بدر پھر کے دلا گھر کی ہمیں قدر ہوئی
راہ غربت میں جو بہولے تو وطن ی د آی
چ و درگ ہ میں ہنگ مہ ہے دیوانوں ک
بڑی منت کی بڑھ نے کو پری زاد آی
ہو گی حسرت پرواز میں دل سو ٹکڑے
ہ نے دیکہ جو ق س تو ف ک ی د آی
بے اعتب روں سے نہیں اہل وف کو کچہ ک
ب ب وں کے لئے پ لی میں نہ صی د آی
76
رکہ جنت میں ام نت جو قد حیدر نے
دوڑے جبرائیل یہ کہہکر میرا است د آی
مکرمی و محترمی حسنی ص ح :سلا مسنون
آپ ک شکریہ کس طرح ادا کی ج ئے کہ آپ ہمہ وقت اردو انجمن کی
اور اردو ش ر واد کی بیش بہ خدم ت میں سرگر ہیں اور اس ک
میں کسی ص ے ی ست ئش کے خواہشمند کبھی نہیں رہے ہیں۔ اردو کو
آپ جیسے بے لوث اور وف ش ر خدا کی ضرورت ہے۔ آج کے ح لات
میں ایس سوچن بھی گن ہ بن کر رہ گی ہے چہ ج ئیکہ ایسے افراد کو
جمع کرنے ک ک ہ تھ میں لی ج ئے۔ اللہ آپ کو طویل عمر اور اچھی
صحت سے نوازے اور جزائے خیر مرحمت فرم ئے۔
حس م مول آپ ک انش ئیہ نہ یت ک می اور سیر ح صل ہے۔ ایسے
نوادرات ا بزرگوں کے کت خ نوں ی ان کی میز کی درازوں میں ہی
مل سکتے ہیں۔ نہ کوئی ان ک پرس ن ح ل ہے اور نہ کوئی ان سے
است دہ کرنے والا۔ یہ اہل اردو ک بہت بڑا المیہ ہے کہ انہوں نے
کت بیں پڑھنی ب لکل ہی چھوڑدی ہیں۔ والد مرحو کے کت خ نے سے
مجھ کو بھی کئی نوادرات م ے ہیں۔ میں نے کوشش کی کہ ان کو یہ ں
اور دوسری مح وں میں لوگوں کے است دے کے لئے پیش کروں
لیکن مجھ کو م یوسی ک س من کرن پڑا اس لئے کہ ان چیزوں کو
پڑھنے والے نہ مل سکے۔ اگر کسی نے انہیں دیکھ بھی تو دو ال ظ
نہ لکھے کہ کی دیکھنے کے ب د انہوں نے ان شہ پ روں کو پڑھ بھی
تھ ؟ ہ ر کر میں نے اس ک سے ہ تھ اٹھ لی ۔ ظ ہر ہے کہ میں ایک
چن یہ بھ ڑ نہیں پھوڑسکت ہوں۔
77
آپ نے بہت ت صیل سے اپنے نوادرات ک تجزیہ کی ہے اور اس ک
میں بہت محنت کی ہے۔ اوروں کی خبر نہیں لیکن میں اپنی ج ن سے
یقین دلات ہوں کہ میں نے اس سے بھر پور است دہ کی اورابھی یہ ک
دو ایک دن مزید چ ے گ ت کہ آپ کے مضمون سے پوری طرح مست ید
ہو سکوں۔ بہت بہت شکریہ۔
اور رہ گی وہ راوی تو اس مرتبہ بڑی بش شت کے س تھ چین ہی چین
)! :بولت ہوا گی ہے
سرور ع ل راز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10052.0
منظو شجرہ ع لیہ حضور کری ....عہد جہ نگیر
78
ش عر :غلا حسین
مخدومی ومرشدی قب ہ حضرت سید غلا حضور حسنی کے ذخیرہءکت
سے' ایک تین سو سے زائد ص ح ت ک ' مخطوطہ دستی ہوا ہے۔ اس
کی ح لت بڑی خستہ و خرا ہے۔ اوپر سے' یہ کہ ص ح ت بےترتی
ہیں۔ یہ مخطوطہ پنج بی عربی اور ف رسی میں ہے۔ اس میں اردو' آق
کری ان پر ان حد درود وسلا ' ک شجرہ ہے۔ یہ کل' آٹھ اوپر ستر
اش ر پر مشتمل ہے۔ اس میں سے' ایک ش ر ک ٹ ہوا ہے۔ یہ ق می
مسودہ حکمت' ع ج ر' ت ویزات اور حمد و ن ت سے مت ہے۔
اس میں ف رسی نثر بھی موجود ہے۔ بے ترتی ہونے کے ب عث
پڑھنے میں ہر چند دشواری ک س من کرن پڑ رہ ہے۔
داخ ی شہ دت کے مط ب ' اس کے لکھنے والے غلا حسین ولد پیر
محمد متین ہیں اور اس کی ت ریخ نوشت
بت ریخ ہشت کہ زالحج ن بروزے چہ ر شنبہ شداند تم
ہے۔
یہ ص ح ' پیر بہ ر ش ہ کی خ نق ہ سے مت ہیں۔
خدای بتوفی خود راہ دہ
79
کہ ت ہید ازین بندہءہیچ بہ
خدای مقصد بک ر آمد
تہے دستے امیدوار امید
بپوش ازسر لطف غیبے نوشیے
ش ر بزرک ن شوہ عی نوشیے
سخنی بتوک ق بند کنے
صر از ی دک رں جہ ن چند کنے
نوشت ست ن مہءغلا حسین
صر پسر ست پیرے محمد متین
بروزے چہ ر شنبہ شداند تم
بت ریخ ہشت کہ زالحج ن
بدر خ نق ہ پیر بہ ر ش ہ مدا
کوہ دہ است دینہہ ثب
............
اس مخطوطہ میں' ایک قصیدہ جہ نگیر ب دش ہ ک ہے۔ قصیدہ میں'
جہ نگیر سے عی ش اور عیش کوش ب دش ہ کو' دو چ ر انچ ہی' کسی
ج یل القدر نبی سے ک رکھ گی ہے۔ دو چ ر س ل اور زندہ رہت تو'
80
ش ید وہ نبی ہو ہی ج ت ۔
قصیدہ ملاحظہ ہو۔
ب لا فرخندہء بر جہ ن س لار
ص ح الت ج احسن الآآث ر
روشن آئینہ ضمیر
بحر عرف ن لجہء تدبیر
داور دہر رست دوران
س لک ح بہ در میدان
مط ع آفت ع و عمل
مظہر نور عین فیض ازل
شمس ایوان ب رک ہ جلال
قط دوران کم ل نور جم ل
والی ء دہر رست ج ج ہ
شہہ جہ نکیر ابن اکبر ش ہ
اکمل اللہ روح عظمتہہ
شرف اولادہ بدرجتہہ
لطف ح بر ہزاری ن ب لا
81
کز رہ عش پر ص ب لا
مست ب لا از ج ل یزلیے
ہست ب لا ہسستنے ازلے
شجرے کے آغ ز کے پچھ ے ص حے پر' س ت دع ئیہ اش ر ہیں۔
ص حہ کے چ روں طرف ح شیہ میں' ف رسی میں منظو ف رسی لکھ
مٹ ' کٹ ی پھٹ ہوا ہے۔ اش ر میں ن ی تخ ص ک است م ل نہیں ہوا۔
شجرہ 'جو پ نچ ص ح ت میں تم ہوا ہے .دع ک آغ ز تو اوپر سے ہوا
ہے' اسے پڑھن ممکن نہیں' جو پڑھ ج سکت ہے پیش خدمت ہے۔ان
دع ئیہ اش ر کے آخر میں جہ نگیر کے قصیدے ک راز کھ ت ہے' کہ یہ
ص ح جہ نگیر کے ق ضی تھے۔ اش ر میں ایک ن شمس الدین بھی
:م ت ہے۔ اش ر ملاحظہ فرم ئیں
ی خداوندا بح قدسمع
از کر ہ ر بکن خ طر جمع
ی خداوندا بح سورتہ تب ر
جم ہ عصی ن بندہ ع صے درکذر
ی خداوندا بح سورہ ع
در دو ع ل رفع کردن ہ زغ
82
ی خداوندا بح دعوت چنین
ب سلامت دار ایم ن شمش الدین
تم شد
غلا حسین
ق ضے
زب ن پر پنج بی اور ف رسی کے اثرات غ ل ہیں۔ مثلا
پنج بی
بولای ہے اپنے نکہت نور سین
............
دی ت ج لولاک ک سیس پر
............
جو مط کے ہ ش کے کہر میں ہوی
..........
عمر ہوک کر چہوڑ دنی چلا
83
..........
قی مت کون دیوندیں خلاصی مجہے
ف رسی
ولد اوسک تہ ابرہیمش خ یل
..........
زغ ت ہمیشہ ک ر مون مواء
............
نبیے ب پ قنی ن ک یونس است
........
پت اوسکے ک ن مستوسبخ است
.........
کریں عدل و انص ف در ہر زم ن
ف رسی میں کہے مصرعے اور ش ر ش مل کیے گیے ہیں۔
امید چن ن است بر مصط ے
84
بدنی و دین دہد مدع
.........
نہ پیغمبر و ش ہ او ک فر است
.........
کی ذکر دربطن م ہے نشت
ولدیت کے لیے ب پ' پت ' پدر اور ولد ال ظ است م ل کیے گیے ہیں۔
نبیے ب پ قنی ن ک یونس است
...........
پت اوسک ی مرد پہی درجہ ن
............
پدر ویی لود است ن مش ضوح
............
پہر اوسک ولد ہود لکہی کت
ل ظ ملا کر لکھے گیے ہیں۔ مثلا
85
محمد کے دادایک مط ہے ن
..........
ش ہ لویک ش ہ غ ل سلاد
..........
پہر اوسک پت ج ن لیجو فرید
........
گ ف گ کی بج ئے ک ف ک است م ل کی گی ہے
دہر و کوش مو مذہ خ ص و ع
کوش بج ئے گوش
میں ک ؤں محمد کون ہر صبح و ش
ک ؤں بج ئے گ ؤں
کریزان ہوا خوف جنکے سو پ پ
کریزان بج ئے گریزاں
جو مط کے ہ ش کے کہر میں ہوی
کہر بج ئے گھر
86
بدیی عدل و انص ف کے ب رک ہ
ک ہ بج ئے گ ہ
مہ پران ی نی بھ ری آوزوں ک سرے سے است م ل نہیں ہوا۔ اس کی
جگہ' حے مقصورہ ہ است م ل میں لائی گئی ہے۔ مثلا
محمد سین آد ت ک سبہہ کہول
.............
کہ شہنش ہ تہ وہ در کوو ق ف
...............
پہر اوسک پت ن ترار ہے
................
کت ب ن مین لکہی جہن پی
..........
عمر ہوک کر چہوڑ دنی چلا
شین کے لیے ص د ک است م ل بھی م ت ہے
87
کریی نصر دنی نمیں پیغمبرے
نشر سے نصر
ل ظوں کی' اشک لی اور اصواتی تبدی ی ں بھی م تی ہیں۔ مثلا
جس کی جگہ جن
سے کے لیے سین
کو کے لیے کون
بہت کے لیے بہتہ
س کے لیے سبہہ
دین کے لے دیوند
اس کے لیے اوس
میں کے لیے مون
ڑ کی جگھ' د ک است م ل کی گی ہے۔ مثلا
کریی ب دش ہی بدے ب صوا
.........
88
بدا ک ر مین وہ ہوی جیون یزید
چھوٹی ے کی جگہ بڑی ے ک است م ل کی گی ہے۔ مثلا
رم ن ش ہ ک ب پ برح نبے
ال ظ کے س تھ ء ک است م ل م ت ہے۔
پیغمبر کے کہر میں جو پیدا ہواء
پہولاد۔۔۔۔ کون ک ر مین وہ موی ء
نون غنہ کے لیے نون است م ل کی گئی ہے۔
کہون ش ہ کلا ک جو پت
........
بدا ک ر مین وہ ہوی جیون یزید
جو بھی سہی' اس ش ر پ رے کے حوالہ سے' قدی زب ن ک طور و
چ ن میسر آت ہے اوراس کے ہونے ک ' ثبوت م ت ہے۔ آئیے ا ' اس
89
ش ر پ رے کے مط ل ہ سے' لطف لیتے ہیں۔
بس اللہ الرحمن الرحی
تو سنو ا خدا کے کلا
کی جن محمد ع یہ
کی ہے محمد خدا نور سین
بولای ہے اپنے نکہت نور سین
دی ت ج لولاک ک سیس پر
سن ی ہمہ راز خود سر بسر
سنو ا محمد کے کرسے تم
دہر و کوش مو مذہ خ ص و ع
میرے ح مین ا دع ی ر ہوء
تواضع سیتے بہتہ دلش د ہوء
سنو شجرہ مصط ے ہر ہمہ
مکن از بلا ہچکس داعہ
محمد سین آد ت ک سبہہ کہول
لہون اجر بسی ر کہون ج رسول
90
چودہ د ہی خ ک سو پ وں ان
میں ک ؤں محمد کون ہر صبح و ش
قی مت کون دیوندیں خلاصی مجہے
یہے ب ت برح سن ؤں تجہے
سرانج دین عین سبہہ ک ک
برا ح دی صدقہ اس ن ک
امید چن ن است بر مصط ے
بدنی و دین دہد مدع
محمد کے ب پ ک جو ن ہے
سو عبداللہ ہے ن ہر کر نہ لے
محمد کے دادایک مط ہے ن
اوسے دین کوجہ ہنین غض ک
جو مط کے ہ ش کے کہر میں ہوی
کریں ب دش ہے سو ہ ش مواء
پت ش ہ ہ ش ک عبدمن ف
کہ شہنش ہ تہ وہ در کوو ق ف
قصے ش ہ تہ ب پ عبد المن ف
91
اوسے ب دش ہے کرن خو ص ف
قصے ک پت ش ہ سن لے کلا
کریی ب دش ہی بدے ب صوا
کہون ش ہ کلا ک جو پت
سومرہ ت ج نون جسے جک جیت
بدا ش ہ مرہ ت حکمین ہوی
نہ ق ی رہ ایک دن وہ موی
سنون ب پ مرہ ت ک ہے ک
کریی خ مین ب دش ہے عج
ک ک پت لویی ش ہ جہ ن
زوارال ن رفت دارلام ن
ش ہ لویک ش ہ غ ل سلاد
عمر ہوک کر چہوڑ دنی چلا
پہر اوسک پت ج ن لیجو فرید
بدا ک ر مین وہ ہوی جیون یزید
سنون ب پ اوسک ہوی حکمین ش ہ
بدا ن م لک سو ع ل پن ہ
92
پت ش ہ م لک ک تہ وہ نبیے
کریی نصر دنی نمیں پیغمبرے
کی ش ہ ہو ک ر کون جن تب ہ
کریی س طنت ہ کت بت کے ب پ
زجوخش زمین ظ لم ن کشت
سنو مدارک اوس ش ہ ک ب پ تہ
اوسے ک ر مون جک سون لین
او تہ نبیے ب پ اوسک سو الی س ن
عج خداوند مولی کے ک
عدو او حزیمت شد اندر جہ ن
حزیمت ک سن ن نصرت نش ن
ک ر مون خدا نے پیغمبر کئے
لطف کر بولا پ س اپنے لئے
پیغمبر کے کہر میں جو پیدا ہواء
پہولاد۔۔۔۔ کون ک ر مین وہ موی ء
کئے ش ہ کیتے پیغمبر ہزار
93
کئے ک فران ک نہ آدمی شم ر
خدا دست قدرت سون کردا۔۔۔۔۔۔۔
ہزراں مخنث نس ہ ں مرد
جو بہ وی کون سوئی کوچہ کرتے
ہنین ہ تہہ بند کے جو لکو کرے
نبیے ب پ الی س ک ھوجوک
کت ب ن مضر ن اوسک لکہ
سنو کوش دہر کے جوتکرار نے
پہر اوسک پت ن ترار ہے
اوسے۔۔۔۔۔سون ک مط ہنین
کریں بت پرستیے ستے ہن کہ ن
م د ولد او ش ہ اندر جہ ن
کریں عدل و انص ف در ہر زم ن
م د ک پت ش ہ عدن ن تہ
کریں ب دش ہے نہ حکمبین رہ
ولد اوسک یسر ک ر مون کی
کت ب ن مین لکہی جہن پی
94
کہون ب پ یسر ک ا ن مین
بدا ک ر مین ن ن من کہ ین
سنو ن ن من کی ا ب پ ک
یسع ن تہ شجر وہ ب پ ک
یسع ک جو تہ ب پ اورد ش ہ
بدیی عدل و انص ف کے ب رک ہ
ہمیش کرے ک ر ن مش ہمیش
پت ش ہ اورد ک ک ر کیش
جو تہ ب پ اوسک ہو اندر جہ ن
سنو ن ان ش ہ ازمن رم ن
رم ن ش ہ ک ب پ برح نبے
مب ت شدہ ن او در صیح
مب ت نبے ک کہ وں جو ب پ
لئے ن ہمکت ک ہون ہی ب ت
ک ر مون رہ ک ر ہے سون مواء
کی ہ ر دنی سون ب زی جواء
جو اوسک پت تہ سو قیدار ن
95
ہوا وہ نبیے خ ص بروں سلا
زبیح اللہ اوسک پت اسم عیل
ولد اوسک تہ ابرہیمش خ یل
پیغمبر سے تین اہ ن دار
چہ ط قت کہ آری و ص تیں شم ر
ہوی جد پیغمبرابراہی
چکہ سین رکہی ح تی ذالیش کری
جو ب پ اوسک اذر بدا بت تراش
ہمیشہ بتون کی نب دیں وہ لاش
ہوی ک ر کی بیچ سردار خو
بتون کیی پرستے مین رہت غرو
جو تہ ب پ ک آزر ک ت رخ سو ن
کریں ب دش ہے سو بدنی تم
پت ش ہ ت رخ ف زح ہواء
زغ ت ہمیشہ ک ر مون مواء
جو تہ ب پ اوسک سو ی قو ن
پیغمبر سن ہی سو ع ل تم
96
جو ی قو ک ب پ غ یر بہلا
دی ک ر کون خ ک مین جز ملا
سنو ص لح ہی غ یر ک ب پ
کریزان ہوا خوف جنکے سو پ پ
پہر اوسک ولد ہود لکہی کت
ک ر کون کی آن چہ روں خرا
پیغمبر ہوئی ج زاہ ج ن لے
کہی سہبہ کت بون ک تون م ن لے
کہو ش ہ ارفخشد اوسک پت ء
بدا ش ہ ع ل کون جسنے جت
پہر اوس ک پت س ک فر کہوء
جیو ن اوسک نہہ کر رہوء
یہی نوح آد ک ث نی نبیے
پت س ک ج ن لیجو۔۔۔۔۔۔۔
کہنہ ک ر ہوئی خ بیشم ر
بطوف ن میں غر کیتے ہزار
بن ئی بدیی نوح کشتے کلاں
97
رکہی بیچ ہر ج ت کے درمی ن
ج
جہ ن ازسر نو ہویدا شدہ
ط یل نبیے نوح پیدا شدہ
کہین نوح کون ث نی آد ہوی
زوارال ن ہ آخر اوہ بہےموی
پت اوسکے ک ن مستوسبخ است
نہ پیغمبر و ش ہ او ک فر است
پدر ویی لود است ن مش ضوح
شدہ ک رمین........بدک صبوح
پت اوسک ی مرد پہی درجہ ن
بدا ک ر او ک فریمین عی ن
کریی ب پ مہلان کے ک فر ہے
سنو ن قنی ن او در کت
بروز حشر ک فران اہ عذا
نبیے ب پ قنی ن ک یونس است
کی ذکر دربطن م ہے نشت
98
تولد شدہ یونس از ع شیش
مب رک ز پیغمبریشیش ریش
پت شیش ک آد اندر کت
خدا کرو ص وات او بےحس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ :یہ ش ر ک ٹ ہوا ہے
سو ک فر نہ آی ہے دہر میں
اوسے ی د کر ن ہنین مین نہ مین
99
میرے اب ۔۔۔۔۔۔ ایک مط ل تی ج ئزہ
خ کہ' سوانح عمری کی نسبت' مختصر ہوت ہے لیکن اس میں' زی دہ
سے زی دہ اس شخص' اس کے کنبہ اور اس کے سم ج سے راہ و
رس کے حوالہ سے' م وم ت فراہ کی گئی ہوتی ہیں۔ خ کہ کے دور
نزدیک کے ج نو لکھ ری ہونے کے سب تین طور دیکھنے کو م تے
ہیں۔
لکھنے والے کے ذاتی ت کے حوالہ سے م ملات
وقتی' ات فیہ ی ح دث تی امور و اطوار
سنے سن ئے ی نی ب الوسطہ چ ن کی سرگزشت
اول الذکر' بہت قری کی صورت ہے' لیکن اس ک ت دہ یز کے اس
پ ر سے ہے' اس لیے یہ یک طرفہ ہوتی ہیں کیوں کہ اس شخص کے'
دہ یز کے اندر اور دہ یز پ ر کے اطوار' مخت ف اور اکثر برعکس
ہوتے ہیں۔ اس حوالہ سے' ان پر درست ی مکمل کی مہر' ثبت نہیں کی
ج سکتی۔
دوسری وقتی ہوتی ہے اور شخص کے' عمومی اطوار سے لگ نہیں
رکھتی۔ اس لیے' اسے پیم نہ ٹھہرا کر' کوئی نتیجہ اخذ کرن ' درست
100
نہیں ہوت ہے۔
تیسری صورت لمح تی ہوتی ہے .اسے بھی' شخصی فطرت ی اس کی
فطرت ث نیہ ک درجہ نہیں دی سکت اور ن ہی' اس کے حوالہ سے'
شخصیت ک مجموعی اح طہ کی ج سکت ہے۔
اگر کوئی دہ یز کے اندر ک لکھت ہے' تو اس کی ذاتی محبت ی ن رت ک
جذبہ غ ل رہت ہے' ہ ں اگر اس کے اندرونی و بیرونی احوال کو ق
بند کر دی ج ت ہے' تو یہ دوطرفہ ہونے کے سب ' زی دہ م وم ت
افروز ہوت ہے' جس کے ب عث' اس شخص کی شخصیت کو ج ننے اور
پہچ ننے میں' مدد م تی ہے۔ س تھ س تھ لکھنے والے اور دہ یز کے
اندر کے ب ض لوگوں ک ' ت رف اور ان کی شخصیت کے' مضبوط اور
ک زور پہ و بھی' س منے آتے چ ے ج تے ہیں۔
ہر لکھنے والے ک ' اپن اس و ہوت ہے لیکن خ کہ نگ ری میں' مت
اور رسمی مت ک عنصر' اس و پر اثر انداز ہوت ہے بل کہ غ ل
رہت ہے۔ مت میں' محبت ی ن رت کے زیر اثر' اس و ترکی پ ت
ہے۔ اس ذیل میں' غیرج ن داری کی ہر س ی' کسی ن کسی سطح پر'
ضرور مجروع ہوتی ہے اور یہ امر' بہرطور بس ک نہیں ہوت ۔
اچھے خ کے کی' س بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ق ری کو' مت ثر بھی