101
:کرے اور اس میں یہ خواہش پیدا ہو ی زور پکڑے
'ک ش کہ یہ خوبی میرے کردار ک حصہ بن ج ئے '
اگر وہ خ کہ' ق ری کے سوچ میں' کسی بھی سطح پر' بدلاؤ ک سب
بنت ہے' تو سمجھیے لکھنے والے کی محنت' ک رگر ث بت ہوئی۔ اسی
طرح' کسی م م ہ سے ن رت جن لیتی ہے' ت بھی تحریر کو' ک می
تحریر قرار دی ج ئے گ ۔
عزیزہ مہر افروز ک تحریر کردہ خ کہ۔۔۔۔۔۔۔ میرے اب ۔۔۔۔۔۔ نظر سے گزرا
اور پھر' گزرت ہی گی ۔ بلامب لغہ کہوں گ ' کہ یہ کم ل کی تحریر ہے۔
انہوں نے خ ن ص ح مرحو کی شخصیت ک ' جس انداز سےاح طہ
کی ہے' وہ بلاشبہ داد کی مستح ہیں۔ اس خ کہ کو پڑھ کر' میرے دل
میں دو خواہشوں نے جن لی
.اللہ' اس سوچ اور فکر کی بیٹی سے' ہر کسی کو نوازے
ک ش خ ن ص ح مرحو سے اطوار' ہر کسی میں پیدا ج ئیں۔
گھر کے ڈسپ ن میں' ہر کسی کو ایس ہی ہون چ ہیے' ت ہ چیخ و پک ر
.سے زی دہ' گھرکی ج ن دار ہو
اپنے بچوں کو' اپنے قری رکھے' ان کے ج ئز امور و م ملات سے'
آگ ہی رکھے اور بہتری میں براہ راست م وث رہے۔
102
ع ح صل کرئے اور اس کی تقسی میں' بخل سے ک نہ لے۔
اپنے بچوں کو' گ ت گو ی کہ نی کے انداز میں' اچھی ب تیں بت ئے۔
بچوں کی ت ی کے م م ہ میں' غربت کو بہ نہ ی جواز نہ بن ئے .ان
کی ت ی کے لیے' ہر قس کی قرب نی سے ک لے۔
اس خ کے سے یہ امور بھی وض حت کے س تھ س منے آتے ہیں کہ
.بزرگوں اور اہل ع کے م م ے میں' آدمی کو کیس ہون چ ہیے
ذات تک محدود سوچ' تھوڑدل بن تی ہے۔
اوروں کے لیے سیری اور اپنے لیے' بھوک بچ ن ہی م راج انس یت
ہے۔
آدمی کو' بلا کسی تمیز و امتی ز' لوگوں کی مدد کرتے رہن چ ہیے۔
ہ دردانہ رویہ' انس نوں میں اعتب ر ک سب بنت ہے۔
ص ح تقوی کبھی خس رے میں نہیں رہتے۔
شخص پر' جم ہ مخ وق ت کی ذمہ داری ع ئد ہوتی ہے اور یہ ہی چیز'
اسے اشرف المخوق ت ٹھہراتی ہے۔
خ کہ' خ ن ص ح مرحو کی زندگی کے احوال و اطوار کھولنے کے
س تھ س تھ' ان کے عہد کے اش رے فراہ کرت ہے۔ مثلا
103
مٹی ک تیل بھی راشن میں م ت ۔ صرف چھوٹی سی ایک بتی ج تی "
"رہتی
اسی طرح' ان کی سی سی ہمدردی ں بھی غیرواضح نہیں رہتیں۔
ان کی' س دات وشیوخ سے محبت و عقیدت' ہر قس کے شبے سے
ب لا رہتی ہے۔ ہ ں البتہ' اس ذیل میں یہ پیرہ خصوصی توجہ چ ہت ہے۔
اب بہت محنتی۔ اور ع جز مزاج تھے۔ صبح گھر اور آنگن میں جھ ڑو "
لگ ن خود پر لاز کر رکھ تھ ۔ ام ں چونکہ اع ی گھر سے تھیں۔
اس ئے کبھی ام ں کو جھ ڑو لگ نے نہیں دی ۔ نہ گھر ک بیت الخلاء اور
موری ں ص ف کرنے دیں۔ کہتے' میں پٹھ ن ہوں اور تمہ ری ام ں شیخ
"اور سید گھرانے سے ہے۔
گھر گرہستی میں' بیٹی مہر افروز کی ام ں کی ک زور شخصیت کو
س منے لات ہے۔ جو بھی سہی' وہ خ ن ص ح مرحو بیوی تھیں۔
خ کے ک مط ل ہ کرتے' بیٹی مہر افروز کی اپنی شخصیت اور ان کی
زندگی کے احوال بھی س منے آتے ہیں
خ کے کی زب ن س دہ' رواں' ع فہ اور بےتک ف ہے۔ مط ل ہ کے
دوران' کسی موڑ پر' ابہ می صورت پیدا نہیں ہوتی۔ ہر چند م وم ت'
104
لطف اور عصری شہ دتیں میسر آتی ہیں۔ اکت ہٹ کی' کہیں صورت پیدا
نہیں ہوتی۔ کہیں کہیں مق می مہ ورے ک استم ل ہوا ہے' جو لس نی تی
حظ ک سب بنت ہے۔
بیٹی مہر افروز کی یہ تحریر' مجھے بہت ہی اچھی لگی ہے۔ اللہ ان
کے ق کو' مزید توان ئی اور روانی سے سرفراز فرم ئے۔
105
ڈاکٹر عبدال زیز س حر
کی
تدوینی تحقی کے ادبی اطوار
شخصی نظریہ اور رجح ن شخص کی ک رگزاری پر اثرانداز ہوت ہے۔
اس ک کہن سنن اس نظریے ک عک س ہوت ۔ جہ ں م م ہ برعکس ہوت
ہے' وہ ں من فقت غ ل رہتی ہے۔ من فقت سے بڑھ کر' کوئی شے بری
نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر عبدال زیز س حر زب نی کلامی ہی نہیں' اپنی کرنی کے حوالہ سے
بھی' صوفی ہیں۔ تحقیقی عمل میں بھی ان ک ' یہ ہی طور اور رویہ
غ ل ہوت ہے۔ ان کی تین کت بیں مجھ ن چیز ف نی کی نظر سے گزری
ہیں' جو ان کے ب عمل صوفی ہونے پر مہر ثبت کرتی ہیں۔ اس ذیل
میں' ان کی کت ۔۔۔۔۔ محرا تحقی ۔۔۔۔۔ کو ہی لے لیں۔ اس میں دس
تحقیقی مق لے ش مل ہیں' جن میں سے'آٹھ تصوف سے مت م زز و
محتر حضرات کے ہیں۔ ان ک مط ل ہ کرنے کے ب د ان کہے
تحقی ایک طرح ک صوفی نہ عمل ہے۔ اس میں بھی اس گہرے انہم ک
اور استغرا کی ضرورت ہوتی ہے' جو راہ س وک کے مس فر ک
لازمہءس ر ہے۔ جس طرح س لک اعتدال اور توازن کے حجرے میں
بیٹھ کر انکش ف ذات کے رنگوں میں بےرنگ کی ی ت کی تج ی ت سے
106
لطف اندوز ہوت ہے' اسی طرح ایک محق بھی اد ' ت ریخ اور تہذی
کے دائروں میں س ر کرت ہوا گوہر ہ ئے آ دار کی دری فت اور
ب زی فت سے نئے رنگوں کی کشید کرت ہے۔ وہ ح کی تلاش میں
سرگر ک ر ہوت ہے اور اس عمل میں اس کی تلاش اور جستجو کے
رنگ دیدنی ہوتے ہیں۔
محرا تحقی :ص ϳ
پر عمل کی مہر ثبت ہو ج تی ہے۔
ص حب ن ذو کے لیے' یہ دس مق لے گراں قدر سرم یہ ہیں۔ رفتہ کی
دھول سے' ان ک تلاشن اور ان پر ک کرن ' ایس آس ن اور م مولی ک
نہیں۔ پرانی تحریروں کو پڑھن ' بڑا ہی مشکل ک ہے۔ خط اور زب ن آج
سے میل نہیں کھ تے۔ اوپر سے پرانی ف رسی' کچھ کرنے اور
سمجھنے سے دور رکھتی۔ ان پرانی تحریروں کو نظرانداز کرن بھی'
زی دتی کے مترادف ہے۔ پرکٹھن مشکل گزار اور پرخ ر راہوں کے
راہی' بلاشبہ سقراط منصور اور سرمد کے قد لیتے ہیں۔ وہ ان ہونی
کو' ہونی میں بدل کر ہی ش نت ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر س حر کی تدوینی تحقی ' ب ض م ملات میں' اوروں سے قط ی
ہٹ کر ہے۔ انہوں نے' اسے س ئنسی عمل کے طور پر' لی ہے۔ ان کی
جم ہ ک وش ہ ' حس بی ک یوں سے' مط بقت رکھتی ہیں۔ گن چن کر'
بڑے محت ط انداز میں' ل ظوں ک است م ل کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی
107
تحریریں' خشک اور بور ہوتی ہیں لیکن ان ہ ں' یہ صورت' دیکھنے
کو بھی نہیں م تی۔ اس وصف کی بن ء پر' ق ری ان کے ل ظوں میں
انولو ہونے میں' دقت محسوس نہیں کرت ۔
اظہ ر کے لیے ال ظ چن ؤ میں' کوت ہ کوسی ک شک ر نہیں ہوتے۔ اس
کے لیے' ذمہ دارانہ اہتم کرتے ہین ور کسی سطع پر' زود نویسی ک
شک ر نہیں ہوتے۔ مختصر نویسی انتہ ئی دشوار گزار عمل ہوت ہے۔
ایک چیز کو' ب ر ب ر دیکھن ' قطر برید کے عمل سے گزارتے رہن ' اکت
دینے والا عمل ہوت ہے۔ مزے کی ب ت یہ کہ شگ تگی اور شی تگی
م ند نہیں پڑتی .فیکشن ک ق ری' تحقی و تنقید سے مت تحریروں
کے قری سے بھی' نہیں گزرت ۔
تحققی و تننقید سے مت تحریروں میں' کہیں کہیں سہی' ب م نی اور
موضوع سے مت تحریر میں' فیکشن ک س ذائقہ کم ل کے فن ک
غم ز ہوت ہے۔ رؤف پ ریکھ نے یوں ہی نہیں کہہ دی ۔
س حر ص ح تحقی اور تنقید کے تو مرد میدان ہیں ہی نثر بھی خو
لکھتے ہیں۔ لہذا ا آپ س حر ص ح کی تحقی کے س تھ ان کی سحر
طراز نثر سے بھی لطف اٹھ ئیے۔
محرا تحقی :ص ϭϬ
108
حس الدین لاہوری کی غزل کے تم اش رع رف نہ اور صوفی نہ رنگ
سخن کے غم ز ہیں۔
ان کی فکر :وحدت اور تس سل کی آئینہ دار ہے
دنی مق فن ہے' اس سے دل لگ ن وب ل ج ن ہے' اصل زندگی خدائے
ذوالجلال کی م رفت و آگہی سے عب رت ہے' تخ ی ک ئن ت ک مقصد و
محور انس ن ہے' انس ن کی ب ثت اور عب دت الہیہ لاز وم زو ہیں'
مرشد' خداوند قدوس تک رس ئی ک ایک زینہ ہے' جیسےمتصوفی نہ
مض مین اس غزل میں بی ن ہوئے ہیں۔
محرا تحقی ϭϲ :
اس کہے کی سند میں' یہ جم ے ملاحظہ فرم ئیں۔ حسن کے س تھ
س تھ' قطرے میں دج ہ مقید دکھ ئی پڑت ہے۔ سید حس الدین لاہوری
کی گی رہ اش ر پر مشتمل غزل کی روح کو' صرف اور صرف تین
.جم وں میں بند کر دی ہے
محض تین جم وں پر مشتمل ایک پیرہ تین رنگ لئے ہوئے۔
۔بڑا' چھوٹ ' اس سے چھوٹ ب لکل چھوٹ جم ہ۔ ہر جم ے کی تشریح و
ت ہی کے لیے بہت سے پہروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
ل ظ جیسے ک است م ل' ق ری کو اصل غزل کی طرف پھرنے پر مجبور
109
کر دیت ہے۔
رموز م نویت اور تحریر کی درست قرآت میں م ون عنصر ک درجہ
رکھتےہیں۔ یہ ابہ سے بچ ئے رکھتے ہیں۔ اسی بن ء پر انہوں نے
اپنی تحریروں میں ان ک ب طور خ ص اہتم کی ہے۔
وہ اپنی تحریروں میں' مصنف ی ش عر کی مجموعی فکری سے
انسلاک اور لس نی تی اثرپذیری ک ' بڑے ہی واضح ل ظوں میں اظہ ر
کرتے ہیں۔ اس سے مت قہ ش عر ی ادی کے کہے کو' سمجھنے میں
آس نی ں پیدا ہو ج تی ہیں۔ ب طور نمونہ یہ اقتب س ملاحظہ فرم ئیں۔
بہ در ش ہ ظ ر بنی دی طور پر ایک درویش منش اور فقیر مزاج انس ن
تھے۔ ا بتدا ہی سے س س ہ چشتیہ کے صوفیہ کے س تھ خصوصی
ت خ طر تھ ۔
محرا تحقی :ص ϳϳ
سند میں بہ در ش ہ ظ ر کے پ نچ ش ر بھی درج کرتے ہیں۔ ان پ نچ
اش ر میں سے ایک ش ر درج خدمت ہے۔
یہی عقدہ کش میرے' یہی ہیں رہنم میرے
110
سمجھت ان کو اپن ح می دنی و دیں ہوں میں
محرا تحقی :ص ϳϴ
لس نی تی حوالہ سے تذکرے کی یہ مث ل ملاحظہ ہو۔
لس نی اعتب ر سے نج الدین س یم نی کی زب ن ک دائرہءاثر کئی زب نوں
اور بولیوں کے اثرات کو محیط ہے۔ اس میں ہری نی ک رنگ بھی ہے
اور راجھست نی ک رس بھی' پنج بی کی خوش بو بھی ہےاور برج ک
آہنگ بھی; سندھی چند ال ظ بھی اس ب رہ م سے کی منظر آرائی میں
م ون ہیں اور ہندی ل ظوں کی ج وہ آرائی بھی ک نہیں; عربی اور
ف رسی کے مت دد ال ظ پنج بی ت ظ اور آہنگ میں نظ ہوئے۔
محرا تحقی :ص ϭϰϯ
رنگ' رس' خوش بو' آہنگ' منظر آرائی اور ج وہ آرائی جیسے ل ظوں
اور مرکب ت کے است م ل نے' ڈاکٹر س حر کی نثر کو ش ر خیزی عط
کی۔ یہ اس طرز اظہ ر ک اعج ز ہے' اس کے مط ل ے سے فیکش ک
ق ری بھی' تک ن اور اکت ہٹ محسوس نہیں کرت ۔
اد کی ت ریخ میں' تھوڑے میں زی دہ لکھنے کی مث ل ش ید ہی پ ئے
گی۔ بہت ک ل ظوں میں بہت کچھ سمون دین ' ش عری ک وتیرہ رہ ہے۔
111
اس ذیل کی نثر میں' بہت ک مث لیں پڑھنے کو م تی ہیں۔ اس تھوزے
میں م وم ت ک ایک انب ر لگ دی گی ہے۔ اس ضمن فقط ایک جم ہ ک '
ایک ٹکرا ملاحظہ ہو۔
اس میں فکر و فرہنگ ک اس وبی تی آہنگ; ش ور وادراک کی ......
جم لی تی م نویت کو اپنی تم تر رنگینی اور رعن ئی کے س تھ منکشف
کر رہ ہے۔۔۔۔۔۔
محرا تحقی :ص ϵϵ
اس ن مکمل جم ے میں روم ن خیزی اور ش ری حسن تو ہے ہی'
م نویت کے اعتب ر سے بھی' ب کم ل ہے۔صن ت تکرار ل ظی اپنی جگہ'
مرکب ت فکر و فرہنگ' اس وبی تی آہنگ' ش ور وادراک' جم لی تی
م نویت' رنگینی اور رعن ئی کی تشکیل میں' ان کے فکر کے بھرپور
ہونے میں شک و شبہ کی گنج ئش ب قی نہیں رہتی۔
ڈاکٹر س حر ق ری کی سہولت اور ابہ می کی ی ت سے بچنے کے لیے'
اپنے ک کو مخت ف حصوں میں ب نٹ دیتے ہیں۔ ہر حصہ' تخ کے
ایک گوشہ کو پوری طرح سے واضح کر دیت ہے۔ اس طرح اگ ے
گوشے میں' پہ ے گوشے سے قط ی ہٹ کر ب ت کی گئی ہوتی ہے۔ یہ
تقسی ' ایک ہی ب ت کے دہرائے ج نے سے بچ ج تی ہے۔ ان ک یہ
طور' مط ل ہ کے دوران' ق ری کے لیے فکری بوجھ پیدا نہیں ہونے
112
دیت ۔ اس ک دوسرا ف ئدہ یہ ہوت ہے' کہ ق ری انہیں فرصت کی مخت ف
نشتووں میں پڑھ سکت ہے۔ مط ل تی تس سل ہر سطح پر' برقرار رہت
ہے۔ ایک نشت میں' تخ ی سے مت ایک نقطہ اسے میسر آ ج ت
ہے۔
ڈاکٹر س حر کسی غ ط ی اختلافی ب ت کو گھم پھرا کر نہیں کرتے۔ جو
کہتے کی ب ت' ص ف اور واضح طور پر کہہ دیتے ہیں۔ لپیٹ کر کرنے
سے' ت ہی میں گڑبڑ اور الجھ ؤ پیدا ہو ج ت ہے۔ مثلا
مثنوی کے ب ض مصرعے س قط الوزن ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ ال ظ
کو قدی روش املا کے برعکس موجودہ دور میں مروج املا اور ت ظ
کے مط ب پڑھ ج ئے' تو وہ مثنوی کے وزن پر پورا اترتے ہیں۔
محرا تحقی :ص ϰϴ
وہ قی سی ب ت سے پرہیز رکھتے ہیں۔ ک کے دوران' تحقیقی خوردبین
کو ہرچند متحرک رکھتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ دور کی کوڑی
تلاش لاتے ہیں۔ مت اور غیر مت کی تمیز و شن خت میں' انہیں
کسی قس کی دشواری ک س من نہیں کرن پڑت ۔
ڈاکٹر س حر کی تدوینی تحقی ک ' ایک اور پہ و بڑا ہی ج ندار ہے' کہ
113
وہ مت قہ مخطوطے کے غیرمست ل ال ظ کی جدید املا اور ل ظوں کے
م ہی درج کر دیتے ہیں۔ ایک طرح ک ج مع فرہنگ تی ر کر دیتے ہیں۔
متنی تحقی سے مت اسک لر حضرات کے لیے' بلاشبہ یہ بڑے ک
کی ہے۔ اگر جم ہ مخطوطوں کے اس بکھرے سرم ئے کو ایک جگہ
جمع کر دی ج ئے تو یہ اہل تحقی کے لئے ایک تح ہ ہو گ اور اس
حوالہ سے ک کرنے والے' ان کے احس ن مند رہیں گے
ڈاکٹر س حر حوالہ ج ت اور حواشی کے م ملات میں' بڑے چوکس ہیں
اور اس ذیل میں کوت ہ کوسی ک شک ر نہیں ہوتے۔ یہ ہی نہیں' اش ریے
جیسی اہ چیز کو نظرانداز نہیں کرتے۔ اس سے کوئی بھی محق '
بےج لیبر ک شک ر نہیں ہوت ۔ مت ق ت تک' اس کی رس ئی منٹوں
سیکنٹوں میں ہو ج تی ہے۔
مجموعی طور یہ ب ت کرنے میں' کسی قس ک ع ر ی تردد محسوس
نہیں ہوت کہ ڈاکٹر س حر ہوش مند' ب لغ فکر اور ذمہ دار محق ہیں۔ ان
کی جم ہ ک وش ہ متنی تحقی سے مت اسک لرز حضرات کے لئے'
ق بل سند نمونہ رہیں گی
114
رحم ن ب ب کی زب ن ک اردو کے تن ظر میں لس نی مط ل ہ
ب میں سو طرح کے پودے ہوتے ہیں۔ ہر پودے ک اپن رنگ ڈھنگ'
طور اور م نویت ہوتی ہے۔ ہر پودے کے پھول ن صرف ہیت الگ سے
رکھتے ہیں' ان کی خوش بو بھی دوسروں سے' الگ تر ہوتی ہے۔
م لی کے لیے' کوئی پودا م نویت سے تہی نہیں ہوت ۔ اسی طرح' ب
بھی ان سو طرح کے پودوں کی وجہ سے' ب کہلات ہے۔ یہ رنگ
رنگی ہی' اس کے ب ہونے کی دلیل ہے۔ انہیں بہرصورت' ب ک
حصہ ہی بنے رہن ہوت ہے۔
انس ن بھی' ایک پودے کے مم ثل ہے' جو انس نوں کے ہجو میں
زندگی کرت ہے' ب لکل ب کے پودوں کی طرح۔ اس ب میں بھی
مخت ف رنگ' نس وں اور مزاجوں کے لوگ آب د ہیں۔ ہر رنگ' ہر نسل
اور قو ک شخص زندگی کے ب کے حسن اور م نویت ک سب ہے۔
کسی ایک کی غیرفطری موت' اس کے حسن اور م نویت کو گہن کر
رکھ دیتی ہے۔ ج یہ ایک صف میں کھڑے' اللہ کے حضور ح ضری ک
شرف ح صل کرتےہیں تو مخ و ف کی بھی' عش عش کر اٹھتی ہے۔
ج کسی ہوس ی برتری کے زع میں' اپنے سے' کسی کی گردن
اڑاتے ہیں' تو اب یس جشن من ت ہے۔
یہ امر ہر کسی کے لیے' حیرت ک سب ہو گ ' کہ زب نیں جو انس ن کی
115
ہیں اورانس ن کے لیے ہیں' ایک دوسرے سے قری ہونے سے' پرہیز
نہیں رکھتیں۔ دشمن قوموں کی زب نوں کے ل ظوں کو' اپنے
ذخیرہءال ظ میں داخل ہونے سے' منع نہیں کرتیں۔ وہ انہیں اپنے
دامن میں اس طرح سے جگہ دیتی ہیں' جیسے وہ ل ظ اس کے قریبی
رشتہ دار ہوں اور ان سے کسی سطح پر چھوٹ ممکن ہی نہ ہو۔
زب نیں کسی مخصوص کی ت بح فرم ن نہیں ہوتیں۔ جو' جس نظریہ اور
مس ک ک ہوت ہے' اس ک س تھ دیتی ہیں۔ اللہ ج نے' انس ن ت ری و
امتی ز سے' اٹھ کر' انس ن کے دکھ سکھ ک س تھی کیوں نہیں بنت ۔
سیری اور سکھ اپنے لیے' ج کہ بھوک پی س اور دکھ دوسروں کے
کھیسے میں ڈال کر' خوشی محسوس کرت ہے۔ ان سے تو ایک درخت
اچھ ہے'جوخود دھوپ میں کھڑا ہوت ہے اور جڑیں ک ٹنے والوں کو
بھی' س یہ فراہ کرنے میں بخل سے ک نہیں لیت ۔
مخدومی و مرشدی حضرت سید غلا حضور الم روف ب ب جی شکراللہ
کی ب قی ت میں سے' پشتو زب ن کے عظی صوفی ش عر حضرت رحم ن
ب ب ص ح ک دیوان ملا ہے .یہ ک قی پران ہے۔ اس کے ابتدائی Ϯϴ
ص حے پھٹے ہوئے ہیں۔ اسی طرح آخری ص حے بھی موجود نہیں
ہیں۔ دیوان اول ص ϳϴتک ہےاور یہ ں ک ت ک ن فضل ودود درج
ہے۔ فضل ودود ک ت تہک ل ب لا' پش ور سے ہے۔ قی س کہ ج سکت
ہے کہ دیوان کی جن بھومی ی نی مق اش عت پش ور رہی ہو گی' ت ہ
اسے پکی ب ت نہیں کہ ج سکت ۔ حیران کن ب ت یہ ہے' کہ دو چ ر
نہیں' سیکڑوں عربی ف رسی کے ال ظ' جو اردو زب ن میں رواج ع
رکھتے ہیں' بڑی حسن و خوبی اور متن کی پوری م نویت کے س تھ'
116
پشتو میں سم گیے ہیں' کہیں اجنبت ک احس س تک نہیں ہوت ۔
دیوان میں بہت سی غزلوں کے قوافی' عربی ف رسی کے ہیں اور یہ
عصری اردو میں رواج رکھتے ہیں۔ ص Ϯϵپر موجود غزل ک مط ع
:یہ ہے
لکہ ش ھسے سحر یہ نظر د بےبصر
:اس غزل کے قوافی یہ ہیں
گوھر' زر' شر' برابر' بتر' بھتر' زبر' نظر' ضرر' ھنر' خبر زن ور ی نی
ج نور' روکر'اوتر' پیغمبر' محشر' س ر' بشر' عنبر' پسر' اثر' رھبر'
شر' حجر' شجر' ج دوگر'مصور پرور' ثمر' سر' م در' زیور' کمر' منبر'
قمر ق ندر' ب ور' ک فر' مرور' در' گذر' خر' افسر' میسر' مسخر' پدر'
بتر' کشور' سکندر' بحروبر' ...نم ز ...دیگر' بستر' چ کر' کوثر' منور'
خطر' شر' دفتر' اختر' ب زیگر' شکر مقدر' سرور' اکثر
ایک دوسری غزل جس کے تم قوافی عربی ف رسی کے ہیں۔ اس غزل
:ک مقطع یہ ہے
چہ منکر پرے اعتزاز کوے نہ شی
داد ش ر دے رحم نہ کہ اعج ز
:اس غزل کے قوافی ملاحظہ ہوں
آواز -شہب ز مط ع
117
غم ز' داز' آغ ز' ب ز' س ز' نم ز' اعج ز
:ص حہ ϭϳϲپر موجود ک مط ع ث نی ملاحظہ ہو
د مط و بےوف ئی و ط ل و تہ وف شی
:ا اس کے قوافی ملاحظہ ہوں
آشن ئی -جدائی .........مط ع اول
وف شی -بےوف ئی۔۔۔۔۔۔۔۔مط ع ث نی
'گدائی' دوست ئی
اگ ے پ نچ ش ر پھٹے ہوئے ہیں۔
شیدائی' ملائی' رسوائی' بےنوائی' ری ئی' فرم ئی' ست ئی' دان ئی'
بھ ئی' کج ئی' ھمت ئی' عط ئی' دلکش ئی' رھ ئی' پیم ئی' صحرائی'
تنھ ئی' گرم ئی' تمن ئی' پ رس ئی' آزم ئی' کم ئی' زیب ئی' سودائی'
خدائی' ص ئی' سروپ ئی' رعن ئی' ب لائی' دری ئی' ح وائی
:ص ϴϴ :پر موجود غزل کے قوافی یہ ہیں
راغ ' غ ئ ' ت ئ ' من س ' غ ل ' ط ل ' واج ' ک ت ' ق ل ' ن ئ '
عج ئ ' مرات
یہ محض ب طور نمونہ چند غزلوں کے قوافی درج کیے ہیں ورنہ ان
کی کئی غزلوں کے قوافی عربی اورف رسی ال ظ پر مشتمل ہیں۔
118
حضرت رحم ن ب ب ص ح کے کئی ردیف عربی ف رسی ال ظ ہیں اور
یہ ال ظ اردو میں مست ل ہیں۔ مثلا
ص حہ ϰϭپر موجود ایک غزل ک ردیف اخلاص ہے ج کہ دوسری ک
ردیف غرض ہے۔
ص حہ ϰϮپر ایک غزل ک ردیف واعظ ہے ج کہ دوسری ک ردیف
شمع ہے۔
ص حہ ϲϬپر ایک غزل ک ردیف تورو زل و....سی ہ زلف .....ہے۔ زلف
کو زل و کی شکل دی گئی ہے۔
ص ϵϬپر موجود دو غزلوں ک ردیف نشت ہے
ص ϵϭپرموجود دو غزلوں ک ردیف الغی ث ہے
ص ϭϬϬپر موجود ایک غزل ک ردیف عمر ہے
ص ϭϭϲپر موجود دو غزلوں ک ردیف بےمخ ص ہے
ا ذرا ب طور نمونہ' ان مصرعوں کو دیکھیں' ن صرف ص ف اور
واضح ہیں' ب کہ ہر مصرعے میں ک از تین ل ظ ایسے ہیں جو اردو
والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔
نہ صی د بہ ترے خبر وہ نہ شہب ز
کھ مک ن ئے پہ آسم ن دے غذا او شو
119
ھمیشہ د م صیت پہ اور کب ی
لکہ خس وی ی زر
تن د درست زیروزبر شو
رحمن ب ب کے ہ ں صن ت تض د کے لیے است م ل ہونے والے ال ظ '
اردو میں مست مل ہیں۔ مثلا
سی ھی واڑہ س یدی شوہ
تن د درست زیروزبر شو
نہ مس وی نہ ک فر
ھمیشہ رفت و آمد کہ
لکھ عذر چہ ص ح تہ غلا نہ ک
ملامت د خ ص و ع
نور پیدا شو شوروشر
منت ب ر دھر س ید دھر سی ہ یئ
چہ د دین مت ع بدل بہ پھ دنی ک
رحم ن ب ب ' اپنے کلا صن ت تکرار ل ظی ک خو خو است م ل کرتے
120
ہیں۔ اس ذیل میں اردو میں رواج رکھتے ال ظ کو بھی بڑی حسن و
خوبی سے است م ل میں لاتے ہیں ی یہ ال ظ' زب ن پر دسترس ہونے
کے ب عث است م ل میں آ گیے ہیں .مثلا
د ھجران عمر د عمر پھ شم ر نہ دے
دنی دار د دنی ک ر ک زہ د دین
ہ صوت ال ظ ' ش ر میں ش ریت کو جلا بخشتے ہیں۔ ان سے ش ر
میں نغمیت اور چستی پیدا ہوتی ہے۔ رحم ن ب ب اس صن ت ک ب کثرت
است م ل کرتے ہیں۔ اس سے ن صرف ش ر ک مضمون روح کی گہرایوں
میں اترت چلا ج ت ہے' ب کہ جس میں تھرل سی پیدا کر دیت ہے۔ ب ب
ص ح موصوف نے' اردو کے مست مل ال ظ کو تصرف میں لا کر اپنی
جدت طرازی' زب ن دانی اور انس نوں کی فکری س نجھوں کو اج گر کی
ہے۔ اس ضمن میں دو ایک مث لیں ملاحظہ ہوں۔
نہ ئے متل نہ مث ل نہ ئے زوال شتہ
کہ مط د نور چ نورے مرتبہ دی
پہ کینہ بہ آیئنہ نہ کڑی تہ خ ک
ل ظ کے مت ق ت ک ' ایک مخصوص س یقے سے است م ل کرن ' ایک
الگ سے فن ک درجہ رکھت ہے۔ ب ب ص ح کو اس فن میں کم ل
121
ح صل ہے۔ مت قہ ل ظ نکھر جت ہے۔ م ہو الجھ ؤ سے تہی ہو کر'
فکر کے دھ رے موڑ دیت ہے۔ ان کے پ س ایک وسییع ذخییرہءال ظ
ہے۔ اس حوالہ سے' وہ اردو کے مست مل ال ظ کو بھی' تصرف میں
رکھتے ہوئے' انس ن کے ب ہمی بھ ئی چ رے کو واضح کرتے ہیں۔ چند
:ایک مث لیں ملاحظہ ہوں
ب دش ھی د ھ ت کشور
م شوقے ھمیشہ ن ز پھ ع ش ک ندی
پک ر نہ دے مقتدی وی کہ ام
چہ تصویر کہ مصور
ست رہ بہ شمس قمر نہ شی ھرگز
پہ عی ل د خپل پدر
ھ ب دش ہ دے ھ سرور
نہ سنت د پیغمبر
رحمن ب ب ت میح ت کے است م ل کی ذیل میں' اردو ش را سےالگ تر
رویہ اور انداز اختی ر نہیں کرتے۔ اسی طرح پشتو میں ان کے ن
ع یحدہ سے نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے کلا میں' بہت سی ت میح ت
است م ل کی ہیں اور یہ اردو والوں کے لیے' غیر م نوس نہیں ہیں۔
:چند ایک مث لیں ملاحظہ ہوں
122
کہ جنت دے کہ دوزخ دے کہ اعراف
د اب یس و ری ضت تھ نظر او کڑہ
دغہ ک ر بھ پھ عص کوے تر کو
مرتبہ د س یم ن چہ چ لہ ورشی
چہ خ ورے د فرھ د او د مجنون دی
ھغھ شیرین حوض کوثر
رحمن ب ب کے بہت سے اش ر ضر الامث ل کے درجے پر ف ئز نظر
آتے ہیں۔ ان اش ر میں اردو کے بہت سے عمومی رواج رکھتے ال ظ
موجود ہیں۔ مثلا
لکھ گنج د کت بونو پہ خرہ ب رش ع میت د بےعق ہ ع لم نو
نہ مس وی نہ ک فر پہ مث ل د من فقو
نہ ئے فھ فراست وی نہ ئے عقل خ لی نقش لکھ عکس د
م کوس
نہ دلیل وی نہ نظر پہ توا او پہ خدائے
نہ سنت د پیغمبر نہ دے فرض د خدائے ادا کڑہ
غ ہ وی خ پہ زیور نہ مئے حسن نہ جم ل وی
پشتو اور اردو میں' ف رسی کے بہت سے مشترک ال ظ موجود ہیں۔
123
رحمن ب ب ف رسی مصددر ک بھی بلاتک ف است م ل کر ج تے ہیں اور یہ
رویہ اردو والوں کے ہ ں بھی موجود رہ ہے۔ رحمن ب ب کے ہ ں
:مصدر رفتن ک است م ل ملاحظہ ہو
چہ ئے خواتہ رفتن دے
مرکب ت ش عری کی ج ان ہوتے ہیں اور یہ زب ن کو ثروت عط کرتے
ہیں۔ رحم ن ب ب کے ہ ں' پشتو مرکب ت اپنی جگہ' اردو زب ن میں
مست مل ال ظ کے بہت سے مرکب ت نظرآتے ہیں۔ ان مرکب ت کے حوالہ
سے' دونوں زب نوں کی لس نی قربت ک ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت
ہے۔
واؤ سے ترکی پ نے والے مرکب ت
ھمیشہ رفت و آمد کہ
نور پیدا شو شور و شر
چہ ئے قیل و ق ل د ی رہ سرہ نہ دی
د دنی چ رے پہ مثل خوا وخی ل دے
مس وی د ع شقی پھ خ ص وع
دیگر مرکب ت کی کچھ مث لیں ملاحظہ ہوں۔
ارم نو بھ کوی زار زار بھ ژااڑی
124
ع قبت بھ ئے جدا جدا منزل شی
نہ ئے فھ فراست وی نہ ئے عقل
و رئح بہ نھ شی ش ت ر د تورو زل و
دی رغ لکھ مزرے دا ب ندی راشی
کہ د خ قو و نظر تھ آدمے دے
غرض دا چہ ع قبت خ نہ خرا ی
بندیوان د ھغہ سی ذقن پہ چ ہ یئ
منت ب ر دھر س ید دھر سی ہ یئ
منت ب ر' دراصل منت کش ......منت کشیدن سے ......ہی ک روپ ہے۔
چہ پرے غ غ طہ د شپے پ س
غ غ ط کرن ' ب ق عدہ اردو مح ورہ ہے۔ اس مصرعے میں بھی 'اس ک
ب طور مح ورہ است م ل ہوا ہے۔
چہ پرے غ غ طہ د شپے پ س
دین دنی ' اردو اور پنج بی میں ع است م ل ک مرک ہے۔ ب ب ص ح
125
کے ہ ں اس ک است م ل' ب سواد اور الگ سے رنگ لیے ہوئے ہے۔
ملاحظہ ہو
چہ د دین مت ع بدل بہ پھ دنی ک
پنج میں بےمروت ' بےپرتیت ' بےنیت ' بےبنی دا ب طور گ لی است م ل
ہوتے ہیں۔ رحم ن ب ب ص ح کے ہ ں بےبنی دہ اور بےبق کچھ اسی
طرح سے' است م ل میں آئے ہیں۔ لہجہ میں سختی واضح طور پر
موجود ہے۔
سر ت پ یہ بےبنی دہ بےبق شو
ایک دع ئیہ ش ر ملاحظہ ہو۔ کی والہ نہ اور بےس ختہ پن ہے۔
ھغھ شیرین حوض کوثر ح ت لی کہ ئے نصی کھ
بے' نہی ک س بقہ ہے اور اردو میں ب کثرت استم ل ہوت ہے۔ رحم ن
ب ب کے ہ ں بھی' یہ س بقہ است م ل ہوا ہے۔ چند مث لیں ملاحظہ ہوں۔ یہ
ال ظ اردو کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔
لکھ تش صورتہ بےروحہ
بےب لین او بےبستر
کہ جہ ن و بےھنر و تھ فراخ دے
د بےدرد ھمدمی بہ د بےدردک
126
رحم ن ھسے بیوقوف سوداگر نہ دے
لہ ک ذات بے دی نتھ بےنم زہ
د بےمث ہ بےمث لہ بےمک ن دے
لکہ تش کدو بے مغزہ
مراد ئے بےدی ر لہ درہ بل ہ نہ دے
رحم ن ھسے و خپل ی ر تہ بےحجت رے
مزید کچھ نہی کے س بقے ملاحظہ فرم ئیں۔ ال ظ اور س بقے اردو
:زب ن سے مت بھی ہیں
ن
پہ ن بود ب ند ن ح د بود کم ن ک
د ن مرد د ھمدمی بہ د ن مردک
تہ ن ح پہ کینہ کڑے کینہ ن ک
ک
لہ ک ذات بے دی نتھ بےنم زہ
ک اندیشہ کہ بیدار دے بیدار نہ دے
127
ھر ک فھ کج ئی
ھر ک بخت ئے ک ہ مومی
بد
دع گو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ ی
مزید دو س بقوں ک است م ل ملاحظہ ہو جو اردو میں بھی مست مل ہیں۔
ھ
یؤ صورت دے ھ نشی دے ھ فراز
ہ گ ت ر بہ ئے د خدائی پہ در قبول شی
نغمے ک ندی ھ رقص کہ ھ خ ندی
ب
د رحم ن پہ ش ر ترکے د ب کرا
ا چند لاحقے ملاحظہ ہوں' یہ اور ان سے مت ال ظ ' اردو کے
ذخیرہءال ظ میں داخل ہیں۔
128
نک
تہ ن ح پہ کینہ کڑے کینہ ن ک
کینہ ن ک' اردو میں مست مل نہیں ت ہ کینہ اور ن ک' ب طور لاحقہ
مست مل ہیں۔
گر
صد رحمت شھ پھ روزگ ر د درویش نو
دار
دنی دار د دنی ک ر ک زہ د دین
خواہ
دع گو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ ی
گو
دع گو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ ی
129
مند
بؤ لحد دے ھنرمند و لرہ تنگ
پذیر
ھر کلا چہ دلپذیر او دلپسند وی
یہ ہی نہیں' ب ب ص ح کے ہ ں پج بی ذائقہ بھی موجود۔ اردو میں پ ید
اور پ یدی است م ل میں آتے ہیں۔ پنج بی میں پ ید سے پ یت اور پ یدی
سے پ یتی' بولے لکھے ج تے ہیں۔ ب ب ص ح نے ایک مصرعے میں'
یہ دونوں ال ظ است م ل کیے ہیں۔ اس کے ب وجود اس و پنج بی نہیں
ہو پ ی ۔
د دنی پھ پ یتی ح ن پ یت کڑو
اردو میں ہمیشہ' ج کہ پنج بی میں ہمیش مست مل ہے۔ ب ب ص ح
نے کم ل حسن و خوبی سے اس ل ظ ک است م ل کی ہے۔
دھوا غشے ھمیش حکمتہ پھ زور شی
لاہور میں بیبی ں پ ک دامنہ کے محتر و م زز مزار ہیں۔ عوا میں پ ک
دامنہ مرک م روف ہے۔ رحم ن ب ب نے اس مرک ک است م ل کی ہے۔
130
اس سے پ کیزگی کی فض پیدا ہو گئی ہے۔ ملاحظہ ہو
پ کدامنہ پرھیزگ رہ از تینھ
ب ب ص ح ک ایک مقطع ب طور تبرک ملاحظہ ہو۔
داد ش ر دے رحم نہ کہ چہ منکر پرے اعتزاز کوے نہ شی
اعج ز
اگرب ب ص ح کے اس مقط ے کو پڑھ کر' اگر کوئی ان کی فکری
پرواز اور پرذائقہ زب ن کی داد نہیں دیت ' تو اس سے بڑھ کر کوئی
بدذو نہ رہ ہو گ ۔
اس ن چیز سے لس نی مط ل ے کے ب د' میں اس نتیجہ پر پہنچ ہوں' کہ
زب نیں بڑی م ن س ر ہوتی ہیں۔ اردو' پختو' پنج بی' عربی اور ف رسی
ایک دوسرے سے یوں گ ے م تی ہیں' کہ کہیں اجنبیت ک احس س تک
نہیں ہوت ۔ ت ظ' لہجہ' است م ل' م نویت اور ہیت تک بدل لیتی ہیں اور
ل ظ' اختی ری زب ن کے قد لیتے ہیں۔ آخر انس ن کو کی ہو گی ہے' کہ
یہ م دی' نظری تی' مذہبی' م شی' سی سی دائروں ک مکین ہو کر' ایک
دوسرے سے' کوسوں کی دوری اختی ر کر لیت ہے۔ رنگ' نسل اور
علاقہ' اسے دور کیے ج رہ ہے۔ لس نی ت ص بھی اسے دور کیے
رکھت ہے۔ زب ن کے ن پر' دوری ں بڑھی ہیں' ج کہ ہر زب ن دوریوں
.کو ن پسند کرتی ہے
131
انس ن آخر ک ' اپنی ہی زب ن سے' م ن س ری ک سب لے گ ۔
!!!۔۔۔۔آخر ک
132
عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ
ح ک زب نیں' محکو علاقوں کی زب نوں اور بولیوں پر' اثر انداز ہوتی
ہیں۔ ہ ں البتہ' انہیں محکو زب نوں اور بولیوں کے نحوی سیٹ اپ کو'
ابن ن پڑت ہے۔ ان کے بولنے والوں ک لہجہ' اندازتک ' اظہ ری اطوار
اور کلا کی نوعیت اور فطری ضرورتوں کو بھی' اختی ر کرن پڑٹ ہے۔
یہ ہی نہیں' م نویت کے پیم نے بھی بدلن پڑتے ہیں۔ اس کے سم جی'
م شی اور سی سی ح لات کے زیر اثر ہون پڑت ہے۔ شخصی اور
علاق ئی موسموں کے تحت' تشکیل پ ئے' آلات نط اور م ون آلات
نط کو بہرصورت' مدنظر رکھن پڑت ہے۔ قدرتی ' شخصی ی خود
سے' ترکی شدہ م حول کی حدود میں رہن پڑت ہے۔ نظری تی' فکری
اور مذہبی ح لات و ضرورت کے زیراثر رہن پڑت ہے۔ اسی طرح' بدلتے
ح لات' نظرانداز نہیں ہو پ تے۔ یہ ب ت پتھر پر لکیر سمجھی ج نی
چ ہیے' کہ ل ظ چ ہے ح ک زب ن ہی ک کیوں نہ ہو' اسے است م ل
کرنے والے کی ہر سطع پر' انگ ی پکڑن پڑتی ہے' ب صورت دیگر' وہ
ل ظ اپنی موت آپ مر ج ئے گ ۔
عربی بڑا ب د میں' برصغیر کی ح ک زب ن بنی۔ مسم نوں کی برصغیر
میں آمد سے بہت پہ ے' برصغیر والوں کے' عربوں سے مخت ف
نوعیت کے ت ق ت استوار تھے۔ یہ ت ق ت عوامی اور سرک ری سطح
پر تھے۔ عربوں کو برصغیر میں' عزت اور قدر کی نگ ہ سے دیکھ
ج ت تھ ۔ عربوں نے' یہ ں گھر بس ئے۔ ان کی اولادیں ہوئیں۔ دور امیہ
133
میں س دات اوران کے ح می یہ ں آ کر آب د ہوئے۔ ϰϰھ میں زبردست
لشکرکشی ہوئی۔ ن ک می کے ب د' بچ رہنے والے بھی' یہ ں کے ہو کر
رہ گیے۔ محمد بن ق س اوراس کے ب د' برصغیر عربوں ک ہو گی ۔ اس
س رے عمل میں' جہ ں سم جی اطوار درآمد ہوئے' وہ ں عربی زب ن
نے بھی' یہ ں کی زب نوں اور بولیوں پر' اپنے اثرات مرت کیے۔ یہ
س ' لاش وری سطح پر ہوا اور کہیں ش وری سطح پر بھی ہوا۔
دوسری سطح' لس نی عصبیت سے ت رکھتی ہے۔
مخدومی و مرشدی حضرت سید غلا حضور الم روف ب ب جی شکراللہ
کی ب قی ت میں سے' ت سیرالقران ب لقران کی تین ج دیں دستی ہوئیں۔
اس کے مولف ڈاکٹر عبدالحکی خ ں ای بی ہیں۔ اسے مطبح عزیزی
مق تراوڑی ض ع کرن ل نے' ب اہتم فتح محمد خ ں منیجر ϭϵϬϭء
میں ش ئع کی ۔ اسے دیکھ کر' ازحد مسرت ہوئی۔ یک د خی ل کوندا'
کیوں نہ اس کی زب ن کے' کسی حصہ کو' عصری زب ن کے حوالہ سے
دیکھ ج ئے۔ اس کے لیے میں نے' سورت ف تحہ ک انتخ کی ۔ ت سیر
کی زب ن کے دیگر امور پر' ب د ازاں گ تگو کرنے کی جس رت کروں
گ ' سردست عربی کے اردو پر لس ی تی اثرات ک ج ئزہ لین مقصود
ہے۔
تسمیہ کے ال ظ میں سے' اس ' اللہ' رحمن اور رحی رواج ع میں
داخل ہیں اور ان ک ' ب کثرت است م ل ہوت رہت ہے۔
134
سورت ف تحہ میں :حمد' لله' ر ' ع لمین' رحمن' رحی ' م ک' یو ' دین'
عبد' صراط' مستقی ' ن مت' مغضو ' ' ض لین ....غیر' و' لا' ع یہ
ایسے ال ظ ہیں' جو اردو والوں کے لیے غیر م نوس نہیں ہیں۔ ع م
نے ان ک ترجمہ بھی کی ہے۔ ترجمہ کے ال ظ' اردو مترف ت کی حیثت
رکھتے ہیں۔
اس ' کسی جگہ' چیز' شخص ی جنس کے ن کو کہ ج ت ہے۔ یہ ں بھی
.ن کے لیے است م ل ہوا ہے۔ ی نی اللہ کے ن سے
تکیہءکلا بھی ہے' کوئی گر ج ئے ی گرنے لگے' تو بےس ختہ منہ
سے بس اللہ نکل ج ت ہے۔
حمد' اردو میں ب ق عدہ ش ری صنف اد ہے اور اللہ کی ذات گرامی
کے لیے مخصوص ہے۔
ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی بشیر احمد لاہوری' مولوی فرم ن ع ی'
مولوی محمد جون گڑھی' ش ہ عبدالق در محدث دہ وی' مولوی سید
مودودی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی اور س ودی ترجمہ ت ریف کی گی
ہے۔
definitionکے لیے بھی مخصوص ہے اور رواج ع میں ہے۔
ت ریف
کہ ج ت ہے' درج ذیل اصن ف کی ت ریف کریں اور دو دو مث لیں بھی
دیں۔
ش ہ ولی اللہ دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں' حمد کے لیے' ل ظ
135
ست ئش است م ل کی ہے۔ ل ظ ست ئش ردو میں مست مل ہے۔
مولوی فیروزالدین ڈسکوی نے' خوبی ں ترجمہ کی ہے۔
گوی حمد کو برصغیر میں ت ریف ست ئش اور خوبی ں کے م نوں میں
لی گی ہے۔
س ودی عر کے ترجمے میں بھی حمد کے لیے ت ریف مترادف لی گی
ہے۔
:قمر نقوی کے ہ ں اس کے است م ل کی صورت دیکھیں
میں تیری حمد لکھن چ ہت ہوں
جو ن مکن ہے کرن چ ہت ہوں
تری توصیف۔۔۔۔اک گہرا سمندر
سمنر میں اترن چ ہت ہوں
قمر نقوی نے اس کے لیے مترادف ل ظ توصیف دی ہے۔
ڈاکٹر عبدالحکی خ ن نے ص Ϯϯپر' ایک ش ر میں ل ظ حمد ک
:است م ل کچھ یوں کی ہے
حمد الہی پر ہیں مبنی س ترقی ت روح
اس سے ہی پیدا ہوتی ہیں س ری تج ی ت روح
لله کو' اللہ کے لیے' کے م نوں میں س نے لی ہے۔ ف رسی میں ش ہ
136
ولی اللہ دہ وی نے برائے اللہ' ترجمہ کی ۔ یہ بھی اللہ کے لیے' کے
مترادف ہے۔
لله' ب طورتکیہءکلا رائج ہے۔
اللہ کے لیے' ب طورتکیہءکلا بھی رواج میں ہے۔
خدا کے لیے' خ گی ی غصے کی ح لت میں اکثر بولا ج ت ہے۔ مثلا
خدا کے لیے چپ ہو ج ؤ۔
خدا کے لیے' استدع کے لیے بھی بولا ج ت ہے۔ مثلا
خدا کے لیے ا م ن بھی ج ؤ۔
:ر
ڈاکٹرعبدالحکی خ ن نے ترجمہ ر ہی ترجمہ کی ہے۔
مولوی محمد فیروزالدین ڈسکوی نے بھی ر کے ترجمہ میں ر ہی
لکھ ہے۔
یہ ل ظ ع است م ل میں آت ۔ مثلا
وہ تو ر ہی بن بیٹھ ہے۔
بندہ کی دے گ ' ر سے م نگو
توں ر ایں۔۔۔۔۔۔ ب طور سوالیہ
ش ہ عبدالق در محدث دہ وی' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی فرم ن
137
ع ی نے پ لنے والا ترجمہ کی ہے
س ودی ترجمہ بھی پ لنے والا ہے۔
مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے مربی مترادف درج کی ہے۔ مربی پ لنے
والے ہی کے لیے است م ل ہوت ہے۔ مہرب ن' خی ل رکھنے والے' توجہ
دینے والے' کسی قریبی کے لیے بولنے اور لکھنے میں مربی آت ہے۔
ش ہ ولی اللہ دہ وی اور مولوی بشیر احمد لاہوری نے ر ک ترجمہ
پروردگ ر کی ہے۔
پروردگ ر' ذرا ک ' لیکن بول چ ل میں ش مل ہے۔
گوی اردو میں یہ ل ظ غیر م نوس نہیں۔
ع مین' ع ل کی جمع ہے۔ ہر دو صورتیں' اردو میں مست مل ہیں۔
پنج کی سٹریٹ لنگوئج میں زبر کے س تھ بول کر' مولوی ص ح ی
ع دین ج ننے والا مراد لی ج ت ہے۔
جہ ن بھی مراد لیتے ہیں۔
قرآن مجید کو دو جہ نوں ک ب دش ہ بولا ج ت ہے۔
ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے' ع مین ک جہ نوں ترجمہ کی ہے۔
مولوی محمد جون گڑھی کے ہ ں اور س ودی ترجمہ بھی جہ نوں ہوا
ہے۔
ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی فرم ن ع ی
138
نےس رے جہ نوں ترجمہ کی ہے۔
مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے ہر ع ل ترجمہ کی ہے۔
مولوی بشیر احمد لاہوری نے کل دنی ' مولوی مودودی نے ک ئن ت' ج
کہ ش ہ ولی اللہ کے ہ ں ف رسی میں ع ل ہ ترجمہ ہوا
ترجمے سے مت تم ال ظ' اردو میں مست ل ہیں۔ ہ رواج میں نہیں
رہ ' ہ ں البتہ ہ ئے رواج میں ہے۔ جیسے انجمن ہ ئے امداد ب ہمی
اردو بول چ ل میں ع لموں' ع لم ں بھی پڑھنے سننے میں آتے ہیں۔
ن بھی رکھے ج تے ہیں۔ جیسے ع ل ش ہ' نور ع ل
ب طور ٹ ئیٹل بھی رواج میں ہے۔ جیسے فخر ع ل ' فخر دو ع ل
ل ظ رحمن' عمومی است م ل میں ہے۔ ن بھی رکھے ج تے ہیں۔ مثلا
.عبد الرحمن' عتی الرحمن فیض الرحمن' فضل الرحمن وغیرہ
ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے رحمن ک ترجمہ' ل ظ کے عمومی بول چ ل
میں مست مل ہونے کے سب ' رحمن ہی کی ہے۔
مولوی سید مودودی نے بھی' رحمن ک ترجمہ رحم ن ہی کی ہے۔
مولوی محمد فیروزالدین نے' رحمن ک ترجمہ مہرب ن کی ہے۔
مولوی محمد جون گڑھی کے ہ ں' رحمن ک ترجمہ' بخشش کرنے والا
ہوا ہے۔
139
ش ہ ولی اللہ نے' ف رسی ترجمہ بخش یندہ کی ہے' جو بخشش کرنے
والا ہی ک مترادف ہے۔ بخش یندہ اردو میں مست مل نہیں ت ہ بخشنے
والا' بخش دینے والا' بخشش کرنے والا' بخشن ہ ر وغیرہ غیر م نوس
نہیں ہیں۔
بخشیش خیرات کے لیے بھی' بولا ج ت ہے۔
ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں
بری وی' مولوی بشیر احمد لاہوری' مولوی فرم ن ع ی نے رحمن ک
ترجمہ مہرب ن کی ہے۔
س ودی ترجمہ بھی مہرب ن ہے۔
ل ظ رحی ' اردو میں غیر م نوس نہیں۔ اشخ ص کے ن بھی رکھے
ج تے ہیں .جیسے عبدالرحی ۔
اسی تن ظر میں ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے رحی ک ترجمہ رحی ہی کی
ہے۔ مولوی سید مودودی نے بھی' اس ک ترجمہ رحی ہی کی ہے۔
ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں
بری وی' مولوی بشیر احمد لاہوری' مولوی فرم ن ع ی' مولوی محمد
فیروزالدین نے رح والا ترجمہ کی ہے۔
ش ہ ولی اللہ دہ وی اور مولوی محمد جون گڑھی نے رحی ک ترجمہ
مہرب ن کی ہے۔
140
ل ظ م لک' م کیت والے کے لیے' ع بول چ ل میں ہے .جیسے م لک
مک ن ی وہ پ نچ ایکڑ زمین ک م لک ہے۔ بیشتر ترجمہ کنندگ ن نے'
اس ک ترجمہ م لک ہی کی ہے۔ ہ ں مولوی فرم ن ع ی نے اس ک
ترجمہ ح ک کی ہے۔اشخ ص کے ن بھی' سننے کو م تے ہیں .مثلا
عبدالم لک' محمد م لک
ڈاکٹر عبدالحکی خ ں' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی فیروز الدین'
مولوی اشرف ع ی تھ نوی' ش ہ عبدالق در' مولوی احمد رض خ ں
بری وی' مولوی سید مودودی نے اس ک ترجمہ م لک ہی کی ہے۔
س ودی ترجمہ بھی م لک ہی ہے۔ اس سے ب خوبی اندازہ کی ج سکت
ہے کہ ل ظ م لک کس قدر عرف ع میں ہے۔
ل ظ یو ' ع است م ل ک ہے۔ مرک است م ل بھی سننے کو م تے ہیں۔
مثلا یو آزادی' یو شہدا' یو ع شورہ' یو حج وغیرہ
ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے' یو ک ترجمہ یو ہی کی ہے۔ مولوی سید
مودودی نے بھی یو ک ترجمہ یو ہی کی ہے۔
مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد
.لاہوری نے اس ک ترجمہ دن کی ہے
س ودی ترجمہ بھی دن ہی ہوا ہے۔
ش ہ ولی اللہ' ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد
رض خ ں بری وی' مولوی فرم ن ع ی نے یو ک ترجمہ روز کی ہے۔
141
ل ظ دین' مذہ کے م نوں میں ع است م ل ک ہے۔
مرک بھی است م ل ہوت ہے۔ مثلا دین محمدی' دین اسلا ' دین دار'
دین دنی وغیرہ
ن موں میں بھی مست مل ہے۔ مثلا احمد دین' دین محمد' چرا دین ام
دین وغیرہ
دین دار ایک ذات اور قو کے لیے بھی مخصوص ہے۔
دین کے م نی رستہ بھی لیے ج تے ہیں۔
ڈاکٹر عدالحکی خ ں نے' اس ل ظ کو' جزا کے م نوں میں لی ہے۔
ش ہ ولی اللہ دہ وی' ش ہ عبدالق در' مولوی سید مودودی' مولوی اشرف
ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی فرم ن ع ی نے
ل ظ دین کو جزا کے م نوں میں لی ہے۔
مولوی محمد جون گڑھی نے' ل ظ دین ک ترجمہ قی مت کی ہے۔
مولوی محمد قیروز الدین اور مولوی بشیر احمد لاہوری نے' ل ظ دین
کو انص ف کے م نوں میں لی ہے۔
س ودی ترجمے میں' اس ک ترجمہ بدلے ک ' ج کہ قوسین میں قی مت
درج ہے' م نی لیے گیے ہیں۔
ل ظ عبد' اردو میں عمومی است م ل ک نہیں' ت ہ اشخ ص کے ن موں
میں ب کثرت است م ل ہوت ہے۔ مثلا عبداللہ' عبدالق در' عبداعزیز'
142
عبدالکری ' عبدالرحم ن' عبدالقوی وغیرہ
ن بد ک ڈاکٹر عبدالحکی ' مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جون گڑھی'
مولوی سید مودودی' مولوی فرم ن ع ی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی
نے ترجمہ عب دت کی ہے۔
س ودی ترجمے میں بھی م نی عب دت لیے گیے ہیں۔
مولوی احمد رض خ ن نے پوجھیں ترجمہ کی ہے۔
ش ہ عبدالق در اور مولوی بشیر احمد لاہوری نے بندگی م نی دیے ہیں۔
ش ہ ولی اللہ دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں می پرستی م نی دیے
ہیں۔ ل ظ پرست' پرستی' پرستش اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں'
ب کہ بول چ ل میں موجود ہیں۔
ل ظ صراط' اردو میں ع است م ل ک نہیں' لیکن غیر م نوس بھی
نہیں۔ مرک پل صراط ع بولنےاور سننے میں آت ہے۔ لوگ اس امر
سے آگ ہ نہیں' یہ دو الگ چیزیں ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض
خ ں بری وی اور مولوی سید مودودی نے' اسے رستہ کےم نی دیے
ہیں۔
ش ہ ولی اللہ دہ وی' ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی
محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد لاہوری اور مولوی فرم ن ع ی
نے صراط ک ترجمہ راہ کی ہے۔
143
س ودی ترجمہ بھی راہ ہی ہوا ہے۔
ل ظ مستقی ' عمومی است م ل میں نہیں۔ ن کے لیے است م ل ہوت آ رہ
ہے۔ جیسے محمد مستقی
اسی طرح' خط مستقی جیویٹری کی اصطلاح سننے میں آتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض
خ ں بری وی' اور مولوی سید مودودی نے' سیدھ ترجمہ کی ہے۔
صراط مستقی بم نی سیدھ رستہ
مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد لاہوری اور مولوی فرم ن
ع ی نے سیدھی ترجمہ کی ہے۔ س ودی ترجمہ بھی سیدھی ہوا ہے
لیکن قوسین میں سچی درج کی گی ہے۔
صراط مستقی ی نی سیدھی راہ
ش ہ ولی اللہ دہ وی نے' اس کے لیے ل ظ راست است م ل کی ہے۔
صراط مستقی ی نی راہ راست
ان مت' ن مت سے ہے۔ ل ظ ن مت' بولنے اور لکھنے پڑھنے میں
است م ل ہوت آ رہ ہے۔ پنج بی میں اسے نی مت روپ مل گی ہے۔
ن بھی رکھے ج تے ہیں جیسے ن مت ع ی' ن مت اللہ
ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی محمد جون
144
گڑھی اور مولوی سید مودودی نے' اس ک ان ترجمہ کی ہے۔
س ودی ترجمہ میں بھی ان است م ل میں آی ہے۔
ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی بشیر احمد لاہوری
نے اس ک ترجمہ فضل کی ہے۔
مولوی فرم ن ع ی نے ن مت' احمد رض خ ں بری وی نے احس ن' ج
کہ ش ہ ولی اللہ دہ وی نے اسے اکرا م نی دیے ہیں۔
ان و اکرا عمومی است ل ک مرک ہے۔
مغضو ' اردو میں است م ل نہیں ہوت ' ت ہ اس ک روپ غض ' اردو
میں ع است م ل ہوت ہے۔ مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد
لاہوری' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی احمد رض خ ں بری وی اور
مولوی فرم ن ع ی نے غض کے م نی لیے ہیں۔
س ودی ترجمہ میں بھی غض مراد لی گی ہے۔
ش ہ عبدالق در نے غصہ' ج کہ مولوی سید مودودی نے عت م نی
لیے ہیں۔
ش ہ ولی اللہ دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں خش م نی لیے ہیں۔
ض لین' ضلالت سے ہے۔ اردو میں یہ ل ظ' ع بول چ ل میں نہیں۔ ہ ں
البتہ ذلالت عمومی است م ل میں ہے۔ ضلالت لکھنے میں آت رہ ہے۔
145
ش ہ عبدالق در اور ڈاکٹر عبدالحکی خ ن نے گمراہ' مولوی محمد جون
گڑھی ' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد لاہوری اور مولوی
فرم ن ع ی نے گمراہوں ترجمہ کی ہے۔
مولوی احمد رض خ ں بری وی نے بہکن م نی مراد لیے ہیں۔
مولوی سید مودودی نے' بھٹکے ہوئے ترجمہ کی ہے۔
س ودی ترجمہ گمراہی ہوا ہے۔
ش ہ ولی اللہ دہ وی نے گمراہ ن ترجمہ کی ہے۔
ان کے علاوہ' چ ر ل ظ اردو میں ب کثرت است م ل ہوتے ہیں
ع یہ :ک مہء احترا کے دوران' جیسے حضرت داؤد ع یہ
اسلا ........مدع ع یہ' مکتو ع یہ وغیرہ
غیر :نہی ک س بقہ ہے' جیسے غیر محر ' غیر ارادی' غیر ضروری'
غیر منطقی وغیرہ
لا :نہی ک س بقہ ہے' جیسے لاح صل' لاع ' لا ی نی' لات وغیرہ
و :و اور کے م نی میں مست مل چلا آت ہے۔ مثلا
ش و روز' رنگ ونمو' ش ر وسخن' ق ونظر وغیرہ
کمشنر و سپرنٹنڈنٹ' منیجر و پرنٹر وغیرہ
درج ب لا ن چیز سے ج ئزے کے ب د' یہ اندازہ کرن دشوار نہیں رہت ' کہ
عربی نے اردو پر کس قدر گہرے اثرات مر ت کیے ہیں۔ مس م نوں ک
146
حج اور کئی دوسرے حوالوں سے' اہل عر سے واسظہ رہت ہے۔
اس لیے مخت ف نوعیت کی اصطلاح ت ک ' اردو میں چ ے آن ' ہر گز
حیرت کی ب ت نہیں۔ روزمرہ کی گ ت گو ک ' تجزیہ کر دیکھیں' کسی
ن کسی شکل میں' کئی ایک لقظ ن دانسہ اور اظہ ری روانی کے تحت'
بولے چ ے ج تے ہیں۔ مکتوبی صورتیں بھی' اس سے مخت ف نہیں
ہیں۔
مکرمی حسنی ص ح :سلا مسنون
آپ ادھر کچھ عرصہ سے اردو انجمن میں نظرنہیں آرہے ہیں۔ آپ کو
ایک خط بھی لکھ چک ہوں۔ اللہ سے دع ہے کہ آپ ب فیت ہوں اور
انجمن کو بھولے نہ ہوں۔ میں زندگی کی تگ ودو میں ایس گرفت ر رہ
کہ آپ کی تخ یق ت کی ج ن رخ نہ کرسک ،ن د ہوں۔ سوچ کہ ا آی
ہوں تو آپ کے پچھ ی تحریریں دیکھ لوں۔ سو آج عربی زب ن کے اردو
پر اثرات سے مت یہ مضمون دیکھ رہ ہوں اور عش عش کر رہ
ہوں۔
ویسے دیکھنے میں یہ مضمون آس ن م و ہوت ہے کہ چند کت بیں
دیکھ کر ان سے کچھ ب تیں اخذ کر لی ج ئیں تو مضمون ہوج ت ہے
لیکن یہ تو لکھنے والا ہی ج نت ہے کہ اسیے مق لے کی تشکیل میں
کی کی پ پڑ بی نے پڑتے ہیں ،کیسی دم سوزی کرن ہوتی ہے اورکس
طرح اپنے ک کی ب توں کو مرت کرکے ق ری کو پہنچ ن پڑت ہے۔
سبح ن اللہ! کی خو تحریر ہے۔ آپ نے جس دلسوزی سے یہ ک کی
147
ہے اس ک اجر تو اللہ ہی دے گ ۔ہ ن اہل بندے تو صرف اس سے
مست ید ہی ہوسکتے ہیں اور یہ دع کرتے ہیں کہ ایس ک کرنے کی
توفی اور اہ یت ہ کوبھی ح صل ہو۔آمین۔ آپ کی محنت اور آپ ک ع
اپنے جوا آپ ہی ہیں۔ لکھتے رہئے۔ انش اللہ ف ئدہ اٹھ نے والے
ہمیشہ آپ کو اپنی دع ئے خیر میں ی د رکھیں گے۔
سرور ع ل راز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9490.0
148
گنج سوالات' ایک لس نی تی ج ئزہ
مخدومی و مرشدی حضرت سید غلا حضور الم روف ب ب جی شکراللہ
کی ب قی ت میں سے' ایک انچ س ص ح ت کی کت ۔۔۔۔۔ گنج سوالات ۔۔۔۔۔
دستی ہوئی ہے۔ یہ کت ϭϴϱϴء میں ش ئع ہوئی۔ اس ک ٹ ئیٹل پیج
:کچھ یوں ہے
گنج سوالات
ق نون دیوانی پنج وسرک رات
ص ح جوڈیشل کمشنر بہ در پنج مجریہ
ب د مشتہر ہونے ق نون مذکور کے
مول ہ
مستر رابرٹ ینڈہ کسٹ ص ح بہ در کمشنر و سپرنٹنڈنٹ قسمت لاہور
جسکو
مستر ایف اسک رلٹ ص ح بہ در پرنسپل اسسٹنٹ کمشنر نے
ب ع نت
منشی درگ پرش د پنڈت کے ترجمہ کی
ء1858
مطبع کوہ نور لاہور میں ب ہتم پنڈت سورج بہ ن منیجر وغلا محمد
پرنٹر کے چہپہ
149
اس کت کے ت ئیٹل پیج سے اندازہ ہوت ہے کہ ϭϴϱϴء میں' لاہور
ذویژن تھ اور یہ ں سے ج ری ہونے والے احک م ت' پنج پر لاگو
ہوتے تھے' ی یوں کہہ لیں' لاہور قسمت میں پورا پنج داخل تھ ۔
لاہور قسمت ک کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ رابرٹ ینڈہ کسٹ' ج کہ
پرنسپل اسسٹنٹ کمشنر ایف اسک رلٹ تھ ۔ منشی درگ پرش د پنڈت'
پرنسپل اسسنٹ کمشنر ایف اسک رلٹ سے وابستہ تھے۔ ترجمہ ص ف
اور رواں دوا ں ہے۔ تحریر سے یہ ظ ہر ہوت ہے کہ ترجمہ' ایف
اسک رلٹ نے کی ہے ج کہ منشی درگ پرش د پنڈت نے' محض
م ونت کی ہے۔ ترجمے کیی روانی اور ترجمے کی زب ن' اس امر کی
یکسر تردید کر رہی ہے .ب اختی ر لوگ اوروں ک کی ' اپنی گرہ میں
کرتے آئے ہیں یہ کوئی ایسی نئی اور حیران کن ب ت نہیں۔
انگریز اگرچہ ایک عرصہ پہ ے سے' ہندوست ن کے اقتدار پر ق بض
تھ ' ت ہ ب طور ح ک واضح نہ ہوا تھ ۔ گ یوں میں' کسی من دی کے
ابتدائی ک موں میں کہ ج ت تھ ۔۔۔۔۔۔ م ک ش ہ ک حکومت کمپنی بہ در
کی۔۔۔۔۔۔ ϭϴϱϳء میں' م ک بھی انگریز ک ہو گی تھ ۔ انگریز فقط دو
ڈھ ئی ہزار کی ت داد میں تھے۔ فتح ϭϴϱϳء میں' م ون کرداروں کو'
جہ ں ج گیریں وغیرہ دی گئیں' وہ ں خط ب ت اور اعزای عہدوں سے
بھی نوازا گی ۔ یہ حضرات مخبری' چغل خوری اور دو نمبری میں ط
ضرور تھے' لیکن اطوار و ضوابط جہ ں ب نی سے' آگ ہ نہ تھے۔ انہیں
م ملات ب طری احسن اور ب ض بطہ نپٹ نے کے لیے' لائحہ عمل فراہ
کرن ضروری تھ ت کہ ان کی من م نی کے زیراثر' کوئی شورش جن
نہ لے سکے۔ اس کت کے متن سے' بہرصورت یہ ہی اندازہ ہوت ہے۔
150
:اس ذیل میں ب طور نمونہ دو چ ر مث لیں ملاحظہ فرم ئیں
.۔ نہ یت ق نون نہ یت ظ ہے1
۔ وکیل ک س ختہ برداختہ تمہ را س ختہ برداختہ ہے۔2
۔ شرع و ق نون رواج سے گہرا ہوا ہے۔3
۔ خرچہ دیوانی مین تمیز کرو اور غیر واجبی خرچہ ہرگز نہ درج 4
کرو۔
۔ ہنگ رجوع ن لش کے ح ک کو یہہ لاز نہین کہ بطور ن بین حک 5.
ق مبندی اظہ ر ص در کرے اور پہر حس ض بطہ حک ط بی گواہ ن و
مدع ع یہ ص در کرے ب کہ ہوشی ر ح ک اول ذرا تک یف اوٹہ ت ہے اور
پیچہے بہت تکیف سے مح وظ رہت ہے ی نی اوسکو اول ۔ہنگ رجوع
مقدمہ ان ب تونک خی ل کرن چ ہئے۔
جو افسر اور اہل ک ر' یہ ں آئے غیر مث قہ فی ڈ کے تھے دوسرا انہیں
ان کی اوق ت سے بڑھ کر عہدے دے دیے گیے ی ک از ک ون سٹیپ
اپ کی گی ۔ اوپر سے' غلا قو کی جی حضوری اور گم شتوں کی حد
سے بڑھ کر چ پ وسی نے' ان کے دم خرا کر دیے تھے .ایسے
میں ن انص فی ک جن لین ' فطری سی ب ت تھی۔ اس کے نتیجہ میں' اس
قس کی ہدای ت ک ج ری کی ج ن ضروری تھ ۔ آزادی ہند میں' جہ ں
یہ ں کے حریت پسندوں' امریکہ کی مداخ ت اور ہٹ ر کی اندھی یورش
ک ہ تھ ہے' وہ ں بےانص فی اور حد سے بڑھ کر دلانوازی کو بھی نظر