The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-03-30 04:47:57

j-2 (1)

j-2 (1)

‫‪101‬‬

‫‪:‬کرے اور اس میں یہ خواہش پیدا ہو ی زور پکڑے‬
‫'ک ش کہ یہ خوبی میرے کردار ک حصہ بن ج ئے '‬

‫اگر وہ خ کہ' ق ری کے سوچ میں' کسی بھی سطح پر' بدلاؤ ک سب‬
‫بنت ہے' تو سمجھیے لکھنے والے کی محنت' ک رگر ث بت ہوئی۔ اسی‬

‫طرح' کسی م م ہ سے ن رت جن لیتی ہے' ت بھی تحریر کو' ک می‬
‫تحریر قرار دی ج ئے گ ۔‬

‫عزیزہ مہر افروز ک تحریر کردہ خ کہ۔۔۔۔۔۔۔ میرے اب ۔۔۔۔۔۔ نظر سے گزرا‬
‫اور پھر' گزرت ہی گی ۔ بلامب لغہ کہوں گ ' کہ یہ کم ل کی تحریر ہے۔‬
‫انہوں نے خ ن ص ح مرحو کی شخصیت ک ' جس انداز سےاح طہ‬

‫کی ہے' وہ بلاشبہ داد کی مستح ہیں۔ اس خ کہ کو پڑھ کر' میرے دل‬
‫میں دو خواہشوں نے جن لی‬

‫‪.‬اللہ' اس سوچ اور فکر کی بیٹی سے' ہر کسی کو نوازے‬
‫ک ش خ ن ص ح مرحو سے اطوار' ہر کسی میں پیدا ج ئیں۔‬

‫گھر کے ڈسپ ن میں' ہر کسی کو ایس ہی ہون چ ہیے' ت ہ چیخ و پک ر‬
‫‪.‬سے زی دہ' گھرکی ج ن دار ہو‬

‫اپنے بچوں کو' اپنے قری رکھے' ان کے ج ئز امور و م ملات سے'‬
‫آگ ہی رکھے اور بہتری میں براہ راست م وث رہے۔‬

‫‪102‬‬

‫ع ح صل کرئے اور اس کی تقسی میں' بخل سے ک نہ لے۔‬
‫اپنے بچوں کو' گ ت گو ی کہ نی کے انداز میں' اچھی ب تیں بت ئے۔‬
‫بچوں کی ت ی کے م م ہ میں' غربت کو بہ نہ ی جواز نہ بن ئے‪ .‬ان‬

‫کی ت ی کے لیے' ہر قس کی قرب نی سے ک لے۔‬

‫اس خ کے سے یہ امور بھی وض حت کے س تھ س منے آتے ہیں کہ‬
‫‪.‬بزرگوں اور اہل ع کے م م ے میں' آدمی کو کیس ہون چ ہیے‬
‫ذات تک محدود سوچ' تھوڑدل بن تی ہے۔‬

‫اوروں کے لیے سیری اور اپنے لیے' بھوک بچ ن ہی م راج انس یت‬
‫ہے۔‬

‫آدمی کو' بلا کسی تمیز و امتی ز' لوگوں کی مدد کرتے رہن چ ہیے۔‬
‫ہ دردانہ رویہ' انس نوں میں اعتب ر ک سب بنت ہے۔‬
‫ص ح تقوی کبھی خس رے میں نہیں رہتے۔‬

‫شخص پر' جم ہ مخ وق ت کی ذمہ داری ع ئد ہوتی ہے اور یہ ہی چیز'‬
‫اسے اشرف المخوق ت ٹھہراتی ہے۔‬

‫خ کہ' خ ن ص ح مرحو کی زندگی کے احوال و اطوار کھولنے کے‬
‫س تھ س تھ' ان کے عہد کے اش رے فراہ کرت ہے۔ مثلا‬

‫‪103‬‬

‫مٹی ک تیل بھی راشن میں م ت ۔ صرف چھوٹی سی ایک بتی ج تی "‬
‫"رہتی‬

‫اسی طرح' ان کی سی سی ہمدردی ں بھی غیرواضح نہیں رہتیں۔‬

‫ان کی' س دات وشیوخ سے محبت و عقیدت' ہر قس کے شبے سے‬
‫ب لا رہتی ہے۔ ہ ں البتہ' اس ذیل میں یہ پیرہ خصوصی توجہ چ ہت ہے۔‬
‫اب بہت محنتی۔ اور ع جز مزاج تھے۔ صبح گھر اور آنگن میں جھ ڑو "‬

‫لگ ن خود پر لاز کر رکھ تھ ۔ ام ں چونکہ اع ی گھر سے تھیں۔‬
‫اس ئے کبھی ام ں کو جھ ڑو لگ نے نہیں دی ۔ نہ گھر ک بیت الخلاء اور‬
‫موری ں ص ف کرنے دیں۔ کہتے' میں پٹھ ن ہوں اور تمہ ری ام ں شیخ‬

‫"اور سید گھرانے سے ہے۔‬

‫گھر گرہستی میں' بیٹی مہر افروز کی ام ں کی ک زور شخصیت کو‬
‫س منے لات ہے۔ جو بھی سہی' وہ خ ن ص ح مرحو بیوی تھیں۔‬

‫خ کے ک مط ل ہ کرتے' بیٹی مہر افروز کی اپنی شخصیت اور ان کی‬
‫زندگی کے احوال بھی س منے آتے ہیں‬

‫خ کے کی زب ن س دہ' رواں' ع فہ اور بےتک ف ہے۔ مط ل ہ کے‬
‫دوران' کسی موڑ پر' ابہ می صورت پیدا نہیں ہوتی۔ ہر چند م وم ت'‬

‫‪104‬‬

‫لطف اور عصری شہ دتیں میسر آتی ہیں۔ اکت ہٹ کی' کہیں صورت پیدا‬
‫نہیں ہوتی۔ کہیں کہیں مق می مہ ورے ک استم ل ہوا ہے' جو لس نی تی‬

‫حظ ک سب بنت ہے۔‬

‫بیٹی مہر افروز کی یہ تحریر' مجھے بہت ہی اچھی لگی ہے۔ اللہ ان‬
‫کے ق کو' مزید توان ئی اور روانی سے سرفراز فرم ئے۔‬

‫‪105‬‬

‫ڈاکٹر عبدال زیز س حر‬
‫کی‬

‫تدوینی تحقی کے ادبی اطوار‬

‫شخصی نظریہ اور رجح ن شخص کی ک رگزاری پر اثرانداز ہوت ہے۔‬
‫اس ک کہن سنن اس نظریے ک عک س ہوت ۔ جہ ں م م ہ برعکس ہوت‬
‫ہے' وہ ں من فقت غ ل رہتی ہے۔ من فقت سے بڑھ کر' کوئی شے بری‬

‫نہیں ہوتی۔‬

‫ڈاکٹر عبدال زیز س حر زب نی کلامی ہی نہیں' اپنی کرنی کے حوالہ سے‬
‫بھی' صوفی ہیں۔ تحقیقی عمل میں بھی ان ک ' یہ ہی طور اور رویہ‬

‫غ ل ہوت ہے۔ ان کی تین کت بیں مجھ ن چیز ف نی کی نظر سے گزری‬
‫ہیں' جو ان کے ب عمل صوفی ہونے پر مہر ثبت کرتی ہیں۔ اس ذیل‬
‫میں' ان کی کت ۔۔۔۔۔ محرا تحقی ۔۔۔۔۔ کو ہی لے لیں۔ اس میں دس‬

‫تحقیقی مق لے ش مل ہیں' جن میں سے'آٹھ تصوف سے مت م زز و‬
‫محتر حضرات کے ہیں۔ ان ک مط ل ہ کرنے کے ب د ان کہے‬

‫تحقی ایک طرح ک صوفی نہ عمل ہے۔ اس میں بھی اس گہرے انہم ک‬
‫اور استغرا کی ضرورت ہوتی ہے' جو راہ س وک کے مس فر ک‬

‫لازمہءس ر ہے۔ جس طرح س لک اعتدال اور توازن کے حجرے میں‬
‫بیٹھ کر انکش ف ذات کے رنگوں میں بےرنگ کی ی ت کی تج ی ت سے‬

‫‪106‬‬

‫لطف اندوز ہوت ہے' اسی طرح ایک محق بھی اد ' ت ریخ اور تہذی‬
‫کے دائروں میں س ر کرت ہوا گوہر ہ ئے آ دار کی دری فت اور‬

‫ب زی فت سے نئے رنگوں کی کشید کرت ہے۔ وہ ح کی تلاش میں‬
‫سرگر ک ر ہوت ہے اور اس عمل میں اس کی تلاش اور جستجو کے‬

‫رنگ دیدنی ہوتے ہیں۔‬
‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϳ‬‬

‫پر عمل کی مہر ثبت ہو ج تی ہے۔‬
‫ص حب ن ذو کے لیے' یہ دس مق لے گراں قدر سرم یہ ہیں۔ رفتہ کی‬
‫دھول سے' ان ک تلاشن اور ان پر ک کرن ' ایس آس ن اور م مولی ک‬
‫نہیں۔ پرانی تحریروں کو پڑھن ' بڑا ہی مشکل ک ہے۔ خط اور زب ن آج‬

‫سے میل نہیں کھ تے۔ اوپر سے پرانی ف رسی' کچھ کرنے اور‬
‫سمجھنے سے دور رکھتی۔ ان پرانی تحریروں کو نظرانداز کرن بھی'‬

‫زی دتی کے مترادف ہے۔ پرکٹھن مشکل گزار اور پرخ ر راہوں کے‬
‫راہی' بلاشبہ سقراط منصور اور سرمد کے قد لیتے ہیں۔ وہ ان ہونی‬

‫کو' ہونی میں بدل کر ہی ش نت ہوتے ہیں۔‬

‫ڈاکٹر س حر کی تدوینی تحقی ' ب ض م ملات میں' اوروں سے قط ی‬
‫ہٹ کر ہے۔ انہوں نے' اسے س ئنسی عمل کے طور پر' لی ہے۔ ان کی‬

‫جم ہ ک وش ہ ' حس بی ک یوں سے' مط بقت رکھتی ہیں۔ گن چن کر'‬
‫بڑے محت ط انداز میں' ل ظوں ک است م ل کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی‬

‫‪107‬‬

‫تحریریں' خشک اور بور ہوتی ہیں لیکن ان ہ ں' یہ صورت' دیکھنے‬
‫کو بھی نہیں م تی۔ اس وصف کی بن ء پر' ق ری ان کے ل ظوں میں‬
‫انولو ہونے میں' دقت محسوس نہیں کرت ۔‬

‫اظہ ر کے لیے ال ظ چن ؤ میں' کوت ہ کوسی ک شک ر نہیں ہوتے۔ اس‬
‫کے لیے' ذمہ دارانہ اہتم کرتے ہین ور کسی سطع پر' زود نویسی ک‬
‫شک ر نہیں ہوتے۔ مختصر نویسی انتہ ئی دشوار گزار عمل ہوت ہے۔‬
‫ایک چیز کو' ب ر ب ر دیکھن ' قطر برید کے عمل سے گزارتے رہن ' اکت‬
‫دینے والا عمل ہوت ہے۔ مزے کی ب ت یہ کہ شگ تگی اور شی تگی‬
‫م ند نہیں پڑتی‪ .‬فیکشن ک ق ری' تحقی و تنقید سے مت تحریروں‬

‫کے قری سے بھی' نہیں گزرت ۔‬

‫تحققی و تننقید سے مت تحریروں میں' کہیں کہیں سہی' ب م نی اور‬
‫موضوع سے مت تحریر میں' فیکشن ک س ذائقہ کم ل کے فن ک‬
‫غم ز ہوت ہے۔ رؤف پ ریکھ نے یوں ہی نہیں کہہ دی ۔‬

‫س حر ص ح تحقی اور تنقید کے تو مرد میدان ہیں ہی نثر بھی خو‬
‫لکھتے ہیں۔ لہذا ا آپ س حر ص ح کی تحقی کے س تھ ان کی سحر‬

‫طراز نثر سے بھی لطف اٹھ ئیے۔‬
‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϭϬ‬‬

‫‪108‬‬

‫حس الدین لاہوری کی غزل کے تم اش رع رف نہ اور صوفی نہ رنگ‬
‫سخن کے غم ز ہیں۔‬

‫ان کی فکر‪ :‬وحدت اور تس سل کی آئینہ دار ہے‬
‫دنی مق فن ہے' اس سے دل لگ ن وب ل ج ن ہے' اصل زندگی خدائے‬
‫ذوالجلال کی م رفت و آگہی سے عب رت ہے' تخ ی ک ئن ت ک مقصد و‬

‫محور انس ن ہے' انس ن کی ب ثت اور عب دت الہیہ لاز وم زو ہیں'‬
‫مرشد' خداوند قدوس تک رس ئی ک ایک زینہ ہے' جیسےمتصوفی نہ‬

‫مض مین اس غزل میں بی ن ہوئے ہیں۔‬
‫محرا تحقی ‪ϭϲ :‬‬

‫اس کہے کی سند میں' یہ جم ے ملاحظہ فرم ئیں۔ حسن کے س تھ‬
‫س تھ' قطرے میں دج ہ مقید دکھ ئی پڑت ہے۔ سید حس الدین لاہوری‬

‫کی گی رہ اش ر پر مشتمل غزل کی روح کو' صرف اور صرف تین‬
‫‪.‬جم وں میں بند کر دی ہے‬

‫محض تین جم وں پر مشتمل ایک پیرہ تین رنگ لئے ہوئے۔‬

‫۔بڑا' چھوٹ ' اس سے چھوٹ ب لکل چھوٹ جم ہ۔ ہر جم ے کی تشریح و‬
‫ت ہی کے لیے بہت سے پہروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔‬

‫ل ظ جیسے ک است م ل' ق ری کو اصل غزل کی طرف پھرنے پر مجبور‬

‫‪109‬‬

‫کر دیت ہے۔‬
‫رموز م نویت اور تحریر کی درست قرآت میں م ون عنصر ک درجہ‬
‫رکھتےہیں۔ یہ ابہ سے بچ ئے رکھتے ہیں۔ اسی بن ء پر انہوں نے‬

‫اپنی تحریروں میں ان ک ب طور خ ص اہتم کی ہے۔‬

‫وہ اپنی تحریروں میں' مصنف ی ش عر کی مجموعی فکری سے‬
‫انسلاک اور لس نی تی اثرپذیری ک ' بڑے ہی واضح ل ظوں میں اظہ ر‬
‫کرتے ہیں۔ اس سے مت قہ ش عر ی ادی کے کہے کو' سمجھنے میں‬

‫آس نی ں پیدا ہو ج تی ہیں۔ ب طور نمونہ یہ اقتب س ملاحظہ فرم ئیں۔‬

‫بہ در ش ہ ظ ر بنی دی طور پر ایک درویش منش اور فقیر مزاج انس ن‬
‫تھے۔ ا بتدا ہی سے س س ہ چشتیہ کے صوفیہ کے س تھ خصوصی‬
‫ت خ طر تھ ۔‬
‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϳϳ‬‬

‫سند میں بہ در ش ہ ظ ر کے پ نچ ش ر بھی درج کرتے ہیں۔ ان پ نچ‬
‫اش ر میں سے ایک ش ر درج خدمت ہے۔‬

‫یہی عقدہ کش میرے' یہی ہیں رہنم میرے‬

‫‪110‬‬

‫سمجھت ان کو اپن ح می دنی و دیں ہوں میں‬
‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϳϴ‬‬

‫لس نی تی حوالہ سے تذکرے کی یہ مث ل ملاحظہ ہو۔‬

‫لس نی اعتب ر سے نج الدین س یم نی کی زب ن ک دائرہءاثر کئی زب نوں‬
‫اور بولیوں کے اثرات کو محیط ہے۔ اس میں ہری نی ک رنگ بھی ہے‬
‫اور راجھست نی ک رس بھی' پنج بی کی خوش بو بھی ہےاور برج ک‬
‫آہنگ بھی; سندھی چند ال ظ بھی اس ب رہ م سے کی منظر آرائی میں‬

‫م ون ہیں اور ہندی ل ظوں کی ج وہ آرائی بھی ک نہیں; عربی اور‬
‫ف رسی کے مت دد ال ظ پنج بی ت ظ اور آہنگ میں نظ ہوئے۔‬

‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϭϰϯ‬‬

‫رنگ' رس' خوش بو' آہنگ' منظر آرائی اور ج وہ آرائی جیسے ل ظوں‬
‫اور مرکب ت کے است م ل نے' ڈاکٹر س حر کی نثر کو ش ر خیزی عط‬
‫کی۔ یہ اس طرز اظہ ر ک اعج ز ہے' اس کے مط ل ے سے فیکش ک‬
‫ق ری بھی' تک ن اور اکت ہٹ محسوس نہیں کرت ۔‬
‫اد کی ت ریخ میں' تھوڑے میں زی دہ لکھنے کی مث ل ش ید ہی پ ئے‬

‫گی۔ بہت ک ل ظوں میں بہت کچھ سمون دین ' ش عری ک وتیرہ رہ ہے۔‬

‫‪111‬‬

‫اس ذیل کی نثر میں' بہت ک مث لیں پڑھنے کو م تی ہیں۔ اس تھوزے‬
‫میں م وم ت ک ایک انب ر لگ دی گی ہے۔ اس ضمن فقط ایک جم ہ ک '‬

‫ایک ٹکرا ملاحظہ ہو۔‬

‫اس میں فکر و فرہنگ ک اس وبی تی آہنگ; ش ور وادراک کی ‪......‬‬
‫جم لی تی م نویت کو اپنی تم تر رنگینی اور رعن ئی کے س تھ منکشف‬

‫کر رہ ہے۔۔۔۔۔۔‬
‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϵϵ‬‬

‫اس ن مکمل جم ے میں روم ن خیزی اور ش ری حسن تو ہے ہی'‬
‫م نویت کے اعتب ر سے بھی' ب کم ل ہے۔صن ت تکرار ل ظی اپنی جگہ'‬

‫مرکب ت فکر و فرہنگ' اس وبی تی آہنگ' ش ور وادراک' جم لی تی‬
‫م نویت' رنگینی اور رعن ئی کی تشکیل میں' ان کے فکر کے بھرپور‬

‫ہونے میں شک و شبہ کی گنج ئش ب قی نہیں رہتی۔‬

‫ڈاکٹر س حر ق ری کی سہولت اور ابہ می کی ی ت سے بچنے کے لیے'‬
‫اپنے ک کو مخت ف حصوں میں ب نٹ دیتے ہیں۔ ہر حصہ' تخ کے‬

‫ایک گوشہ کو پوری طرح سے واضح کر دیت ہے۔ اس طرح اگ ے‬
‫گوشے میں' پہ ے گوشے سے قط ی ہٹ کر ب ت کی گئی ہوتی ہے۔ یہ‬

‫تقسی ' ایک ہی ب ت کے دہرائے ج نے سے بچ ج تی ہے۔ ان ک یہ‬
‫طور' مط ل ہ کے دوران' ق ری کے لیے فکری بوجھ پیدا نہیں ہونے‬

‫‪112‬‬

‫دیت ۔ اس ک دوسرا ف ئدہ یہ ہوت ہے' کہ ق ری انہیں فرصت کی مخت ف‬
‫نشتووں میں پڑھ سکت ہے۔ مط ل تی تس سل ہر سطح پر' برقرار رہت‬

‫ہے۔ ایک نشت میں' تخ ی سے مت ایک نقطہ اسے میسر آ ج ت‬
‫ہے۔‬

‫ڈاکٹر س حر کسی غ ط ی اختلافی ب ت کو گھم پھرا کر نہیں کرتے۔ جو‬
‫کہتے کی ب ت' ص ف اور واضح طور پر کہہ دیتے ہیں۔ لپیٹ کر کرنے‬

‫سے' ت ہی میں گڑبڑ اور الجھ ؤ پیدا ہو ج ت ہے۔ مثلا‬

‫مثنوی کے ب ض مصرعے س قط الوزن ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ ال ظ‬
‫کو قدی روش املا کے برعکس موجودہ دور میں مروج املا اور ت ظ‬
‫کے مط ب پڑھ ج ئے' تو وہ مثنوی کے وزن پر پورا اترتے ہیں۔‬
‫محرا تحقی ‪ :‬ص ‪ϰϴ‬‬

‫وہ قی سی ب ت سے پرہیز رکھتے ہیں۔ ک کے دوران' تحقیقی خوردبین‬
‫کو ہرچند متحرک رکھتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ دور کی کوڑی‬
‫تلاش لاتے ہیں۔ مت اور غیر مت کی تمیز و شن خت میں' انہیں‬
‫کسی قس کی دشواری ک س من نہیں کرن پڑت ۔‬

‫ڈاکٹر س حر کی تدوینی تحقی ک ' ایک اور پہ و بڑا ہی ج ندار ہے' کہ‬

‫‪113‬‬

‫وہ مت قہ مخطوطے کے غیرمست ل ال ظ کی جدید املا اور ل ظوں کے‬
‫م ہی درج کر دیتے ہیں۔ ایک طرح ک ج مع فرہنگ تی ر کر دیتے ہیں۔‬

‫متنی تحقی سے مت اسک لر حضرات کے لیے' بلاشبہ یہ بڑے ک‬
‫کی ہے۔ اگر جم ہ مخطوطوں کے اس بکھرے سرم ئے کو ایک جگہ‬
‫جمع کر دی ج ئے تو یہ اہل تحقی کے لئے ایک تح ہ ہو گ اور اس‬

‫حوالہ سے ک کرنے والے' ان کے احس ن مند رہیں گے‬

‫ڈاکٹر س حر حوالہ ج ت اور حواشی کے م ملات میں' بڑے چوکس ہیں‬
‫اور اس ذیل میں کوت ہ کوسی ک شک ر نہیں ہوتے۔ یہ ہی نہیں' اش ریے‬

‫جیسی اہ چیز کو نظرانداز نہیں کرتے۔ اس سے کوئی بھی محق '‬
‫بےج لیبر ک شک ر نہیں ہوت ۔ مت ق ت تک' اس کی رس ئی منٹوں‬

‫سیکنٹوں میں ہو ج تی ہے۔‬

‫مجموعی طور یہ ب ت کرنے میں' کسی قس ک ع ر ی تردد محسوس‬
‫نہیں ہوت کہ ڈاکٹر س حر ہوش مند' ب لغ فکر اور ذمہ دار محق ہیں۔ ان‬
‫کی جم ہ ک وش ہ متنی تحقی سے مت اسک لرز حضرات کے لئے'‬

‫ق بل سند نمونہ رہیں گی‬

‫‪114‬‬

‫رحم ن ب ب کی زب ن ک اردو کے تن ظر میں لس نی مط ل ہ‬

‫ب میں سو طرح کے پودے ہوتے ہیں۔ ہر پودے ک اپن رنگ ڈھنگ'‬
‫طور اور م نویت ہوتی ہے۔ ہر پودے کے پھول ن صرف ہیت الگ سے‬

‫رکھتے ہیں' ان کی خوش بو بھی دوسروں سے' الگ تر ہوتی ہے۔‬
‫م لی کے لیے' کوئی پودا م نویت سے تہی نہیں ہوت ۔ اسی طرح' ب‬
‫بھی ان سو طرح کے پودوں کی وجہ سے' ب کہلات ہے۔ یہ رنگ‬
‫رنگی ہی' اس کے ب ہونے کی دلیل ہے۔ انہیں بہرصورت' ب ک‬

‫حصہ ہی بنے رہن ہوت ہے۔‬

‫انس ن بھی' ایک پودے کے مم ثل ہے' جو انس نوں کے ہجو میں‬
‫زندگی کرت ہے' ب لکل ب کے پودوں کی طرح۔ اس ب میں بھی‬
‫مخت ف رنگ' نس وں اور مزاجوں کے لوگ آب د ہیں۔ ہر رنگ' ہر نسل‬
‫اور قو ک شخص زندگی کے ب کے حسن اور م نویت ک سب ہے۔‬
‫کسی ایک کی غیرفطری موت' اس کے حسن اور م نویت کو گہن کر‬
‫رکھ دیتی ہے۔ ج یہ ایک صف میں کھڑے' اللہ کے حضور ح ضری ک‬
‫شرف ح صل کرتےہیں تو مخ و ف کی بھی' عش عش کر اٹھتی ہے۔‬
‫ج کسی ہوس ی برتری کے زع میں' اپنے سے' کسی کی گردن‬

‫اڑاتے ہیں' تو اب یس جشن من ت ہے۔‬

‫یہ امر ہر کسی کے لیے' حیرت ک سب ہو گ ' کہ زب نیں جو انس ن کی‬

‫‪115‬‬

‫ہیں اورانس ن کے لیے ہیں' ایک دوسرے سے قری ہونے سے' پرہیز‬
‫نہیں رکھتیں۔ دشمن قوموں کی زب نوں کے ل ظوں کو' اپنے‬

‫ذخیرہءال ظ میں داخل ہونے سے' منع نہیں کرتیں۔ وہ انہیں اپنے‬
‫دامن میں اس طرح سے جگہ دیتی ہیں' جیسے وہ ل ظ اس کے قریبی‬

‫رشتہ دار ہوں اور ان سے کسی سطح پر چھوٹ ممکن ہی نہ ہو۔‬
‫زب نیں کسی مخصوص کی ت بح فرم ن نہیں ہوتیں۔ جو' جس نظریہ اور‬

‫مس ک ک ہوت ہے' اس ک س تھ دیتی ہیں۔ اللہ ج نے' انس ن ت ری و‬
‫امتی ز سے' اٹھ کر' انس ن کے دکھ سکھ ک س تھی کیوں نہیں بنت ۔‬
‫سیری اور سکھ اپنے لیے' ج کہ بھوک پی س اور دکھ دوسروں کے‬
‫کھیسے میں ڈال کر' خوشی محسوس کرت ہے۔ ان سے تو ایک درخت‬
‫اچھ ہے'جوخود دھوپ میں کھڑا ہوت ہے اور جڑیں ک ٹنے والوں کو‬

‫بھی' س یہ فراہ کرنے میں بخل سے ک نہیں لیت ۔‬

‫مخدومی و مرشدی حضرت سید غلا حضور الم روف ب ب جی شکراللہ‬
‫کی ب قی ت میں سے' پشتو زب ن کے عظی صوفی ش عر حضرت رحم ن‬

‫ب ب ص ح ک دیوان ملا ہے‪ .‬یہ ک قی پران ہے۔ اس کے ابتدائی ‪Ϯϴ‬‬
‫ص حے پھٹے ہوئے ہیں۔ اسی طرح آخری ص حے بھی موجود نہیں‬
‫ہیں۔ دیوان اول ص ‪ ϳϴ‬تک ہےاور یہ ں ک ت ک ن فضل ودود درج‬
‫ہے۔ فضل ودود ک ت تہک ل ب لا' پش ور سے ہے۔ قی س کہ ج سکت‬
‫ہے کہ دیوان کی جن بھومی ی نی مق اش عت پش ور رہی ہو گی' ت ہ‬
‫اسے پکی ب ت نہیں کہ ج سکت ۔ حیران کن ب ت یہ ہے' کہ دو چ ر‬
‫نہیں' سیکڑوں عربی ف رسی کے ال ظ' جو اردو زب ن میں رواج ع‬
‫رکھتے ہیں' بڑی حسن و خوبی اور متن کی پوری م نویت کے س تھ'‬

‫‪116‬‬

‫پشتو میں سم گیے ہیں' کہیں اجنبت ک احس س تک نہیں ہوت ۔‬

‫دیوان میں بہت سی غزلوں کے قوافی' عربی ف رسی کے ہیں اور یہ‬
‫عصری اردو میں رواج رکھتے ہیں۔ ص ‪ Ϯϵ‬پر موجود غزل ک مط ع‬

‫‪:‬یہ ہے‬

‫لکہ ش ھسے سحر‬ ‫یہ نظر د بےبصر‬

‫‪:‬اس غزل کے قوافی یہ ہیں‬

‫گوھر' زر' شر' برابر' بتر' بھتر' زبر' نظر' ضرر' ھنر' خبر زن ور ی نی‬
‫ج نور' روکر'اوتر' پیغمبر' محشر' س ر' بشر' عنبر' پسر' اثر' رھبر'‬

‫شر' حجر' شجر' ج دوگر'مصور پرور' ثمر' سر' م در' زیور' کمر' منبر'‬
‫قمر ق ندر' ب ور' ک فر' مرور' در' گذر' خر' افسر' میسر' مسخر' پدر'‬

‫بتر' کشور' سکندر' بحروبر' ‪...‬نم ز‪ ...‬دیگر' بستر' چ کر' کوثر' منور'‬
‫خطر' شر' دفتر' اختر' ب زیگر' شکر مقدر' سرور' اکثر‬

‫ایک دوسری غزل جس کے تم قوافی عربی ف رسی کے ہیں۔ اس غزل‬
‫‪:‬ک مقطع یہ ہے‬

‫چہ منکر پرے اعتزاز کوے نہ شی‬
‫داد ش ر دے رحم نہ کہ اعج ز‬

‫‪:‬اس غزل کے قوافی ملاحظہ ہوں‬
‫آواز‪ -‬شہب ز مط ع‬

‫‪117‬‬

‫غم ز' داز' آغ ز' ب ز' س ز' نم ز' اعج ز‬
‫‪:‬ص حہ ‪ ϭϳϲ‬پر موجود ک مط ع ث نی ملاحظہ ہو‬

‫د مط و بےوف ئی‬ ‫و ط ل و تہ وف شی‬

‫‪:‬ا اس کے قوافی ملاحظہ ہوں‬

‫آشن ئی‪ -‬جدائی‪ .........‬مط ع اول‬

‫وف شی‪ -‬بےوف ئی۔۔۔۔۔۔۔۔مط ع ث نی‬

‫'گدائی' دوست ئی‬

‫اگ ے پ نچ ش ر پھٹے ہوئے ہیں۔‬

‫شیدائی' ملائی' رسوائی' بےنوائی' ری ئی' فرم ئی' ست ئی' دان ئی'‬
‫بھ ئی' کج ئی' ھمت ئی' عط ئی' دلکش ئی' رھ ئی' پیم ئی' صحرائی'‬
‫تنھ ئی' گرم ئی' تمن ئی' پ رس ئی' آزم ئی' کم ئی' زیب ئی' سودائی'‬

‫خدائی' ص ئی' سروپ ئی' رعن ئی' ب لائی' دری ئی' ح وائی‬

‫‪:‬ص‪ ϴϴ :‬پر موجود غزل کے قوافی یہ ہیں‬

‫راغ ' غ ئ ' ت ئ ' من س ' غ ل ' ط ل ' واج ' ک ت ' ق ل ' ن ئ '‬
‫عج ئ ' مرات‬

‫یہ محض ب طور نمونہ چند غزلوں کے قوافی درج کیے ہیں ورنہ ان‬
‫کی کئی غزلوں کے قوافی عربی اورف رسی ال ظ پر مشتمل ہیں۔‬

‫‪118‬‬

‫حضرت رحم ن ب ب ص ح کے کئی ردیف عربی ف رسی ال ظ ہیں اور‬
‫یہ ال ظ اردو میں مست ل ہیں۔ مثلا‬

‫ص حہ‪ ϰϭ‬پر موجود ایک غزل ک ردیف اخلاص ہے ج کہ دوسری ک‬
‫ردیف غرض ہے۔‬

‫ص حہ ‪ ϰϮ‬پر ایک غزل ک ردیف واعظ ہے ج کہ دوسری ک ردیف‬
‫شمع ہے۔‬

‫ص حہ ‪ ϲϬ‬پر ایک غزل ک ردیف تورو زل و‪....‬سی ہ زلف‪ .....‬ہے۔ زلف‬
‫کو زل و کی شکل دی گئی ہے۔‬

‫ص ‪ ϵϬ‬پر موجود دو غزلوں ک ردیف نشت ہے‬
‫ص ‪ ϵϭ‬پرموجود دو غزلوں ک ردیف الغی ث ہے‬

‫ص‪ ϭϬϬ‬پر موجود ایک غزل ک ردیف عمر ہے‬
‫ص ‪ ϭϭϲ‬پر موجود دو غزلوں ک ردیف بےمخ ص ہے‬

‫ا ذرا ب طور نمونہ' ان مصرعوں کو دیکھیں' ن صرف ص ف اور‬
‫واضح ہیں' ب کہ ہر مصرعے میں ک از تین ل ظ ایسے ہیں جو اردو‬

‫والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔‬

‫نہ صی د بہ ترے خبر وہ نہ شہب ز‬
‫کھ مک ن ئے پہ آسم ن دے غذا او شو‬

‫‪119‬‬

‫ھمیشہ د م صیت پہ اور کب ی‬
‫لکہ خس وی ی زر‬

‫تن د درست زیروزبر شو‬

‫رحمن ب ب کے ہ ں صن ت تض د کے لیے است م ل ہونے والے ال ظ '‬
‫اردو میں مست مل ہیں۔ مثلا‬
‫سی ھی واڑہ س یدی شوہ‬

‫تن د درست زیروزبر شو‬
‫نہ مس وی نہ ک فر‬
‫ھمیشہ رفت و آمد کہ‬

‫لکھ عذر چہ ص ح تہ غلا نہ ک‬
‫ملامت د خ ص و ع‬

‫نور پیدا شو شوروشر‬
‫منت ب ر دھر س ید دھر سی ہ یئ‬
‫چہ د دین مت ع بدل بہ پھ دنی ک‬

‫رحم ن ب ب ' اپنے کلا صن ت تکرار ل ظی ک خو خو است م ل کرتے‬

‫‪120‬‬

‫ہیں۔ اس ذیل میں اردو میں رواج رکھتے ال ظ کو بھی بڑی حسن و‬
‫خوبی سے است م ل میں لاتے ہیں ی یہ ال ظ' زب ن پر دسترس ہونے‬

‫کے ب عث است م ل میں آ گیے ہیں‪ .‬مثلا‬
‫د ھجران عمر د عمر پھ شم ر نہ دے‬
‫دنی دار د دنی ک ر ک زہ د دین‬

‫ہ صوت ال ظ ' ش ر میں ش ریت کو جلا بخشتے ہیں۔ ان سے ش ر‬
‫میں نغمیت اور چستی پیدا ہوتی ہے۔ رحم ن ب ب اس صن ت ک ب کثرت‬
‫است م ل کرتے ہیں۔ اس سے ن صرف ش ر ک مضمون روح کی گہرایوں‬
‫میں اترت چلا ج ت ہے' ب کہ جس میں تھرل سی پیدا کر دیت ہے۔ ب ب‬
‫ص ح موصوف نے' اردو کے مست مل ال ظ کو تصرف میں لا کر اپنی‬
‫جدت طرازی' زب ن دانی اور انس نوں کی فکری س نجھوں کو اج گر کی‬

‫ہے۔ اس ضمن میں دو ایک مث لیں ملاحظہ ہوں۔‬

‫نہ ئے متل نہ مث ل نہ ئے زوال شتہ‬
‫کہ مط د نور چ نورے مرتبہ دی‬

‫پہ کینہ بہ آیئنہ نہ کڑی تہ خ ک‬

‫ل ظ کے مت ق ت ک ' ایک مخصوص س یقے سے است م ل کرن ' ایک‬
‫الگ سے فن ک درجہ رکھت ہے۔ ب ب ص ح کو اس فن میں کم ل‬

‫‪121‬‬

‫ح صل ہے۔ مت قہ ل ظ نکھر جت ہے۔ م ہو الجھ ؤ سے تہی ہو کر'‬
‫فکر کے دھ رے موڑ دیت ہے۔ ان کے پ س ایک وسییع ذخییرہءال ظ‬
‫ہے۔ اس حوالہ سے' وہ اردو کے مست مل ال ظ کو بھی' تصرف میں‬
‫رکھتے ہوئے' انس ن کے ب ہمی بھ ئی چ رے کو واضح کرتے ہیں۔ چند‬

‫‪:‬ایک مث لیں ملاحظہ ہوں‬
‫ب دش ھی د ھ ت کشور‬

‫م شوقے ھمیشہ ن ز پھ ع ش ک ندی‬
‫پک ر نہ دے مقتدی وی کہ ام‬
‫چہ تصویر کہ مصور‬

‫ست رہ بہ شمس قمر نہ شی ھرگز‬
‫پہ عی ل د خپل پدر‬

‫ھ ب دش ہ دے ھ سرور‬
‫نہ سنت د پیغمبر‬

‫رحمن ب ب ت میح ت کے است م ل کی ذیل میں' اردو ش را سےالگ تر‬
‫رویہ اور انداز اختی ر نہیں کرتے۔ اسی طرح پشتو میں ان کے ن‬

‫ع یحدہ سے نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے کلا میں' بہت سی ت میح ت‬
‫است م ل کی ہیں اور یہ اردو والوں کے لیے' غیر م نوس نہیں ہیں۔‬

‫‪:‬چند ایک مث لیں ملاحظہ ہوں‬

‫‪122‬‬

‫کہ جنت دے کہ دوزخ دے کہ اعراف‬
‫د اب یس و ری ضت تھ نظر او کڑہ‬
‫دغہ ک ر بھ پھ عص کوے تر کو‬
‫مرتبہ د س یم ن چہ چ لہ ورشی‬

‫چہ خ ورے د فرھ د او د مجنون دی‬
‫ھغھ شیرین حوض کوثر‬

‫رحمن ب ب کے بہت سے اش ر ضر الامث ل کے درجے پر ف ئز نظر‬
‫آتے ہیں۔ ان اش ر میں اردو کے بہت سے عمومی رواج رکھتے ال ظ‬

‫موجود ہیں۔ مثلا‬

‫لکھ گنج د کت بونو پہ خرہ ب رش‬ ‫ع میت د بےعق ہ ع لم نو‬

‫نہ مس وی نہ ک فر‬ ‫پہ مث ل د من فقو‬

‫نہ ئے فھ فراست وی نہ ئے عقل خ لی نقش لکھ عکس د‬
‫م کوس‬

‫نہ دلیل وی نہ نظر‬ ‫پہ توا او پہ خدائے‬

‫نہ سنت د پیغمبر‬ ‫نہ دے فرض د خدائے ادا کڑہ‬

‫غ ہ وی خ پہ زیور‬ ‫نہ مئے حسن نہ جم ل وی‬

‫پشتو اور اردو میں' ف رسی کے بہت سے مشترک ال ظ موجود ہیں۔‬

‫‪123‬‬

‫رحمن ب ب ف رسی مصددر ک بھی بلاتک ف است م ل کر ج تے ہیں اور یہ‬
‫رویہ اردو والوں کے ہ ں بھی موجود رہ ہے۔ رحمن ب ب کے ہ ں‬
‫‪:‬مصدر رفتن ک است م ل ملاحظہ ہو‬
‫چہ ئے خواتہ رفتن دے‬

‫مرکب ت ش عری کی ج ان ہوتے ہیں اور یہ زب ن کو ثروت عط کرتے‬
‫ہیں۔ رحم ن ب ب کے ہ ں' پشتو مرکب ت اپنی جگہ' اردو زب ن میں‬

‫مست مل ال ظ کے بہت سے مرکب ت نظرآتے ہیں۔ ان مرکب ت کے حوالہ‬
‫سے' دونوں زب نوں کی لس نی قربت ک ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت‬
‫ہے۔‬
‫واؤ سے ترکی پ نے والے مرکب ت‬
‫ھمیشہ رفت و آمد کہ‬
‫نور پیدا شو شور و شر‬
‫چہ ئے قیل و ق ل د ی رہ سرہ نہ دی‬
‫د دنی چ رے پہ مثل خوا وخی ل دے‬
‫مس وی د ع شقی پھ خ ص وع‬

‫دیگر مرکب ت کی کچھ مث لیں ملاحظہ ہوں۔‬
‫ارم نو بھ کوی زار زار بھ ژااڑی‬

‫‪124‬‬

‫ع قبت بھ ئے جدا جدا منزل شی‬

‫نہ ئے فھ فراست وی نہ ئے عقل‬
‫و رئح بہ نھ شی ش ت ر د تورو زل و‬

‫دی رغ لکھ مزرے دا ب ندی راشی‬

‫کہ د خ قو و نظر تھ آدمے دے‬

‫غرض دا چہ ع قبت خ نہ خرا ی‬
‫بندیوان د ھغہ سی ذقن پہ چ ہ یئ‬

‫منت ب ر دھر س ید دھر سی ہ یئ‬
‫منت ب ر' دراصل منت کش ‪ ......‬منت کشیدن سے‪ ......‬ہی ک روپ ہے۔‬

‫چہ پرے غ غ طہ د شپے پ س‬
‫غ غ ط کرن ' ب ق عدہ اردو مح ورہ ہے۔ اس مصرعے میں بھی 'اس ک‬

‫ب طور مح ورہ است م ل ہوا ہے۔‬
‫چہ پرے غ غ طہ د شپے پ س‬

‫دین دنی ' اردو اور پنج بی میں ع است م ل ک مرک ہے۔ ب ب ص ح‬

‫‪125‬‬

‫کے ہ ں اس ک است م ل' ب سواد اور الگ سے رنگ لیے ہوئے ہے۔‬
‫ملاحظہ ہو‬

‫چہ د دین مت ع بدل بہ پھ دنی ک‬
‫پنج میں بےمروت ' بےپرتیت ' بےنیت ' بےبنی دا ب طور گ لی است م ل‬
‫ہوتے ہیں۔ رحم ن ب ب ص ح کے ہ ں بےبنی دہ اور بےبق کچھ اسی‬

‫طرح سے' است م ل میں آئے ہیں۔ لہجہ میں سختی واضح طور پر‬
‫موجود ہے۔‬

‫سر ت پ یہ بےبنی دہ بےبق شو‬

‫ایک دع ئیہ ش ر ملاحظہ ہو۔ کی والہ نہ اور بےس ختہ پن ہے۔‬

‫ھغھ شیرین حوض کوثر‬ ‫ح ت لی کہ ئے نصی کھ‬

‫بے' نہی ک س بقہ ہے اور اردو میں ب کثرت استم ل ہوت ہے۔ رحم ن‬
‫ب ب کے ہ ں بھی' یہ س بقہ است م ل ہوا ہے۔ چند مث لیں ملاحظہ ہوں۔ یہ‬

‫ال ظ اردو کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔‬

‫لکھ تش صورتہ بےروحہ‬

‫بےب لین او بےبستر‬

‫کہ جہ ن و بےھنر و تھ فراخ دے‬

‫د بےدرد ھمدمی بہ د بےدردک‬

‫‪126‬‬

‫رحم ن ھسے بیوقوف سوداگر نہ دے‬
‫لہ ک ذات بے دی نتھ بےنم زہ‬

‫د بےمث ہ بےمث لہ بےمک ن دے‬
‫لکہ تش کدو بے مغزہ‬

‫مراد ئے بےدی ر لہ درہ بل ہ نہ دے‬
‫رحم ن ھسے و خپل ی ر تہ بےحجت رے‬

‫مزید کچھ نہی کے س بقے ملاحظہ فرم ئیں۔ ال ظ اور س بقے اردو‬
‫‪:‬زب ن سے مت بھی ہیں‬

‫ن‬
‫پہ ن بود ب ند ن ح د بود کم ن ک‬

‫د ن مرد د ھمدمی بہ د ن مردک‬
‫تہ ن ح پہ کینہ کڑے کینہ ن ک‬

‫ک‬
‫لہ ک ذات بے دی نتھ بےنم زہ‬
‫ک اندیشہ کہ بیدار دے بیدار نہ دے‬

‫‪127‬‬

‫ھر ک فھ کج ئی‬
‫ھر ک بخت ئے ک ہ مومی‬

‫بد‬
‫دع گو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ ی‬

‫مزید دو س بقوں ک است م ل ملاحظہ ہو جو اردو میں بھی مست مل ہیں۔‬

‫ھ‬
‫یؤ صورت دے ھ نشی دے ھ فراز‬
‫ہ گ ت ر بہ ئے د خدائی پہ در قبول شی‬

‫نغمے ک ندی ھ رقص کہ ھ خ ندی‬

‫ب‬
‫د رحم ن پہ ش ر ترکے د ب کرا‬

‫ا چند لاحقے ملاحظہ ہوں' یہ اور ان سے مت ال ظ ' اردو کے‬
‫ذخیرہءال ظ میں داخل ہیں۔‬

‫‪128‬‬

‫نک‬
‫تہ ن ح پہ کینہ کڑے کینہ ن ک‬
‫کینہ ن ک' اردو میں مست مل نہیں ت ہ کینہ اور ن ک' ب طور لاحقہ‬

‫مست مل ہیں۔‬

‫گر‬
‫صد رحمت شھ پھ روزگ ر د درویش نو‬

‫دار‬
‫دنی دار د دنی ک ر ک زہ د دین‬

‫خواہ‬
‫دع گو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ ی‬

‫گو‬
‫دع گو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ ی‬

‫‪129‬‬

‫مند‬
‫بؤ لحد دے ھنرمند و لرہ تنگ‬

‫پذیر‬
‫ھر کلا چہ دلپذیر او دلپسند وی‬

‫یہ ہی نہیں' ب ب ص ح کے ہ ں پج بی ذائقہ بھی موجود۔ اردو میں پ ید‬
‫اور پ یدی است م ل میں آتے ہیں۔ پنج بی میں پ ید سے پ یت اور پ یدی‬
‫سے پ یتی' بولے لکھے ج تے ہیں۔ ب ب ص ح نے ایک مصرعے میں'‬
‫یہ دونوں ال ظ است م ل کیے ہیں۔ اس کے ب وجود اس و پنج بی نہیں‬

‫ہو پ ی ۔‬
‫د دنی پھ پ یتی ح ن پ یت کڑو‬

‫اردو میں ہمیشہ' ج کہ پنج بی میں ہمیش مست مل ہے۔ ب ب ص ح‬
‫نے کم ل حسن و خوبی سے اس ل ظ ک است م ل کی ہے۔‬
‫دھوا غشے ھمیش حکمتہ پھ زور شی‬

‫لاہور میں بیبی ں پ ک دامنہ کے محتر و م زز مزار ہیں۔ عوا میں پ ک‬
‫دامنہ مرک م روف ہے۔ رحم ن ب ب نے اس مرک ک است م ل کی ہے۔‬

‫‪130‬‬

‫اس سے پ کیزگی کی فض پیدا ہو گئی ہے۔ ملاحظہ ہو‬
‫پ کدامنہ پرھیزگ رہ از تینھ‬

‫ب ب ص ح ک ایک مقطع ب طور تبرک ملاحظہ ہو۔‬

‫داد ش ر دے رحم نہ کہ‬ ‫چہ منکر پرے اعتزاز کوے نہ شی‬
‫اعج ز‬

‫اگرب ب ص ح کے اس مقط ے کو پڑھ کر' اگر کوئی ان کی فکری‬
‫پرواز اور پرذائقہ زب ن کی داد نہیں دیت ' تو اس سے بڑھ کر کوئی‬

‫بدذو نہ رہ ہو گ ۔‬

‫اس ن چیز سے لس نی مط ل ے کے ب د' میں اس نتیجہ پر پہنچ ہوں' کہ‬
‫زب نیں بڑی م ن س ر ہوتی ہیں۔ اردو' پختو' پنج بی' عربی اور ف رسی‬
‫ایک دوسرے سے یوں گ ے م تی ہیں' کہ کہیں اجنبیت ک احس س تک‬
‫نہیں ہوت ۔ ت ظ' لہجہ' است م ل' م نویت اور ہیت تک بدل لیتی ہیں اور‬
‫ل ظ' اختی ری زب ن کے قد لیتے ہیں۔ آخر انس ن کو کی ہو گی ہے' کہ‬
‫یہ م دی' نظری تی' مذہبی' م شی' سی سی دائروں ک مکین ہو کر' ایک‬
‫دوسرے سے' کوسوں کی دوری اختی ر کر لیت ہے۔ رنگ' نسل اور‬
‫علاقہ' اسے دور کیے ج رہ ہے۔ لس نی ت ص بھی اسے دور کیے‬
‫رکھت ہے۔ زب ن کے ن پر' دوری ں بڑھی ہیں' ج کہ ہر زب ن دوریوں‬
‫‪.‬کو ن پسند کرتی ہے‬

‫‪131‬‬

‫انس ن آخر ک ' اپنی ہی زب ن سے' م ن س ری ک سب لے گ ۔‬
‫!!!۔۔۔۔آخر ک‬

‫‪132‬‬

‫عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ‬

‫ح ک زب نیں' محکو علاقوں کی زب نوں اور بولیوں پر' اثر انداز ہوتی‬
‫ہیں۔ ہ ں البتہ' انہیں محکو زب نوں اور بولیوں کے نحوی سیٹ اپ کو'‬

‫ابن ن پڑت ہے۔ ان کے بولنے والوں ک لہجہ' اندازتک ' اظہ ری اطوار‬
‫اور کلا کی نوعیت اور فطری ضرورتوں کو بھی' اختی ر کرن پڑٹ ہے۔‬
‫یہ ہی نہیں' م نویت کے پیم نے بھی بدلن پڑتے ہیں۔ اس کے سم جی'‬

‫م شی اور سی سی ح لات کے زیر اثر ہون پڑت ہے۔ شخصی اور‬
‫علاق ئی موسموں کے تحت' تشکیل پ ئے' آلات نط اور م ون آلات‬

‫نط کو بہرصورت' مدنظر رکھن پڑت ہے۔ قدرتی ' شخصی ی خود‬
‫سے' ترکی شدہ م حول کی حدود میں رہن پڑت ہے۔ نظری تی' فکری‬
‫اور مذہبی ح لات و ضرورت کے زیراثر رہن پڑت ہے۔ اسی طرح' بدلتے‬

‫ح لات' نظرانداز نہیں ہو پ تے۔ یہ ب ت پتھر پر لکیر سمجھی ج نی‬
‫چ ہیے' کہ ل ظ چ ہے ح ک زب ن ہی ک کیوں نہ ہو' اسے است م ل‬
‫کرنے والے کی ہر سطع پر' انگ ی پکڑن پڑتی ہے' ب صورت دیگر' وہ‬

‫ل ظ اپنی موت آپ مر ج ئے گ ۔‬

‫عربی بڑا ب د میں' برصغیر کی ح ک زب ن بنی۔ مسم نوں کی برصغیر‬
‫میں آمد سے بہت پہ ے' برصغیر والوں کے' عربوں سے مخت ف‬

‫نوعیت کے ت ق ت استوار تھے۔ یہ ت ق ت عوامی اور سرک ری سطح‬
‫پر تھے۔ عربوں کو برصغیر میں' عزت اور قدر کی نگ ہ سے دیکھ‬
‫ج ت تھ ۔ عربوں نے' یہ ں گھر بس ئے۔ ان کی اولادیں ہوئیں۔ دور امیہ‬

‫‪133‬‬

‫میں س دات اوران کے ح می یہ ں آ کر آب د ہوئے۔ ‪ϰϰ‬ھ میں زبردست‬
‫لشکرکشی ہوئی۔ ن ک می کے ب د' بچ رہنے والے بھی' یہ ں کے ہو کر‬
‫رہ گیے۔ محمد بن ق س اوراس کے ب د' برصغیر عربوں ک ہو گی ۔ اس‬

‫س رے عمل میں' جہ ں سم جی اطوار درآمد ہوئے' وہ ں عربی زب ن‬
‫نے بھی' یہ ں کی زب نوں اور بولیوں پر' اپنے اثرات مرت کیے۔ یہ‬

‫س ' لاش وری سطح پر ہوا اور کہیں ش وری سطح پر بھی ہوا۔‬
‫دوسری سطح' لس نی عصبیت سے ت رکھتی ہے۔‬

‫مخدومی و مرشدی حضرت سید غلا حضور الم روف ب ب جی شکراللہ‬
‫کی ب قی ت میں سے' ت سیرالقران ب لقران کی تین ج دیں دستی ہوئیں۔‬

‫اس کے مولف ڈاکٹر عبدالحکی خ ں ای بی ہیں۔ اسے مطبح عزیزی‬
‫مق تراوڑی ض ع کرن ل نے' ب اہتم فتح محمد خ ں منیجر ‪ϭϵϬϭ‬ء‬
‫میں ش ئع کی ۔ اسے دیکھ کر' ازحد مسرت ہوئی۔ یک د خی ل کوندا'‬
‫کیوں نہ اس کی زب ن کے' کسی حصہ کو' عصری زب ن کے حوالہ سے‬
‫دیکھ ج ئے۔ اس کے لیے میں نے' سورت ف تحہ ک انتخ کی ۔ ت سیر‬
‫کی زب ن کے دیگر امور پر' ب د ازاں گ تگو کرنے کی جس رت کروں‬
‫گ ' سردست عربی کے اردو پر لس ی تی اثرات ک ج ئزہ لین مقصود‬

‫ہے۔‬

‫تسمیہ کے ال ظ میں سے' اس ' اللہ' رحمن اور رحی رواج ع میں‬
‫داخل ہیں اور ان ک ' ب کثرت است م ل ہوت رہت ہے۔‬

‫‪134‬‬

‫سورت ف تحہ میں‪ :‬حمد' لله' ر ' ع لمین' رحمن' رحی ' م ک' یو ' دین'‬
‫عبد' صراط' مستقی ' ن مت' مغضو ' ' ض لین‪ ....‬غیر' و' لا' ع یہ‬

‫ایسے ال ظ ہیں' جو اردو والوں کے لیے غیر م نوس نہیں ہیں۔ ع م‬
‫نے ان ک ترجمہ بھی کی ہے۔ ترجمہ کے ال ظ' اردو مترف ت کی حیثت‬

‫رکھتے ہیں۔‬

‫اس ' کسی جگہ' چیز' شخص ی جنس کے ن کو کہ ج ت ہے۔ یہ ں بھی‬
‫‪.‬ن کے لیے است م ل ہوا ہے۔ ی نی اللہ کے ن سے‬

‫تکیہءکلا بھی ہے' کوئی گر ج ئے ی گرنے لگے' تو بےس ختہ منہ‬
‫سے بس اللہ نکل ج ت ہے۔‬

‫حمد' اردو میں ب ق عدہ ش ری صنف اد ہے اور اللہ کی ذات گرامی‬
‫کے لیے مخصوص ہے۔‬

‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی بشیر احمد لاہوری' مولوی فرم ن ع ی'‬
‫مولوی محمد جون گڑھی' ش ہ عبدالق در محدث دہ وی' مولوی سید‬

‫مودودی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی اور س ودی ترجمہ ت ریف کی گی‬
‫ہے۔‬

‫‪ definition‬کے لیے بھی مخصوص ہے اور رواج ع میں ہے۔‬
‫ت ریف‬

‫کہ ج ت ہے' درج ذیل اصن ف کی ت ریف کریں اور دو دو مث لیں بھی‬
‫دیں۔‬

‫ش ہ ولی اللہ دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں' حمد کے لیے' ل ظ‬

‫‪135‬‬

‫ست ئش است م ل کی ہے۔ ل ظ ست ئش ردو میں مست مل ہے۔‬
‫مولوی فیروزالدین ڈسکوی نے' خوبی ں ترجمہ کی ہے۔‬

‫گوی حمد کو برصغیر میں ت ریف ست ئش اور خوبی ں کے م نوں میں‬
‫لی گی ہے۔‬

‫س ودی عر کے ترجمے میں بھی حمد کے لیے ت ریف مترادف لی گی‬
‫ہے۔‬

‫‪:‬قمر نقوی کے ہ ں اس کے است م ل کی صورت دیکھیں‬
‫میں تیری حمد لکھن چ ہت ہوں‬
‫جو ن مکن ہے کرن چ ہت ہوں‬
‫تری توصیف۔۔۔۔اک گہرا سمندر‬
‫سمنر میں اترن چ ہت ہوں‬

‫قمر نقوی نے اس کے لیے مترادف ل ظ توصیف دی ہے۔‬

‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن نے ص ‪ Ϯϯ‬پر' ایک ش ر میں ل ظ حمد ک‬
‫‪:‬است م ل کچھ یوں کی ہے‬

‫حمد الہی پر ہیں مبنی س ترقی ت روح‬
‫اس سے ہی پیدا ہوتی ہیں س ری تج ی ت روح‬
‫لله کو' اللہ کے لیے' کے م نوں میں س نے لی ہے۔ ف رسی میں ش ہ‬

‫‪136‬‬

‫ولی اللہ دہ وی نے برائے اللہ' ترجمہ کی ۔ یہ بھی اللہ کے لیے' کے‬
‫مترادف ہے۔‬

‫لله' ب طورتکیہءکلا رائج ہے۔‬
‫اللہ کے لیے' ب طورتکیہءکلا بھی رواج میں ہے۔‬
‫خدا کے لیے' خ گی ی غصے کی ح لت میں اکثر بولا ج ت ہے۔ مثلا‬

‫خدا کے لیے چپ ہو ج ؤ۔‬
‫خدا کے لیے' استدع کے لیے بھی بولا ج ت ہے۔ مثلا‬

‫خدا کے لیے ا م ن بھی ج ؤ۔‬

‫‪:‬ر‬
‫ڈاکٹرعبدالحکی خ ن نے ترجمہ ر ہی ترجمہ کی ہے۔‬
‫مولوی محمد فیروزالدین ڈسکوی نے بھی ر کے ترجمہ میں ر ہی‬

‫لکھ ہے۔‬
‫یہ ل ظ ع است م ل میں آت ۔ مثلا‬

‫وہ تو ر ہی بن بیٹھ ہے۔‬
‫بندہ کی دے گ ' ر سے م نگو‬
‫توں ر ایں۔۔۔۔۔۔ ب طور سوالیہ‬
‫ش ہ عبدالق در محدث دہ وی' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی فرم ن‬

‫‪137‬‬

‫ع ی نے پ لنے والا ترجمہ کی ہے‬
‫س ودی ترجمہ بھی پ لنے والا ہے۔‬
‫مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے مربی مترادف درج کی ہے۔ مربی پ لنے‬
‫والے ہی کے لیے است م ل ہوت ہے۔ مہرب ن' خی ل رکھنے والے' توجہ‬
‫دینے والے' کسی قریبی کے لیے بولنے اور لکھنے میں مربی آت ہے۔‬
‫ش ہ ولی اللہ دہ وی اور مولوی بشیر احمد لاہوری نے ر ک ترجمہ‬

‫پروردگ ر کی ہے۔‬
‫پروردگ ر' ذرا ک ' لیکن بول چ ل میں ش مل ہے۔‬

‫گوی اردو میں یہ ل ظ غیر م نوس نہیں۔‬

‫ع مین' ع ل کی جمع ہے۔ ہر دو صورتیں' اردو میں مست مل ہیں۔‬
‫پنج کی سٹریٹ لنگوئج میں زبر کے س تھ بول کر' مولوی ص ح ی‬

‫ع دین ج ننے والا مراد لی ج ت ہے۔‬
‫جہ ن بھی مراد لیتے ہیں۔‬

‫قرآن مجید کو دو جہ نوں ک ب دش ہ بولا ج ت ہے۔‬
‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے' ع مین ک جہ نوں ترجمہ کی ہے۔‬
‫مولوی محمد جون گڑھی کے ہ ں اور س ودی ترجمہ بھی جہ نوں ہوا‬

‫ہے۔‬
‫ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی فرم ن ع ی‬

‫‪138‬‬

‫نےس رے جہ نوں ترجمہ کی ہے۔‬
‫مولوی اشرف ع ی تھ نوی نے ہر ع ل ترجمہ کی ہے۔‬
‫مولوی بشیر احمد لاہوری نے کل دنی ' مولوی مودودی نے ک ئن ت' ج‬
‫کہ ش ہ ولی اللہ کے ہ ں ف رسی میں ع ل ہ ترجمہ ہوا‬
‫ترجمے سے مت تم ال ظ' اردو میں مست ل ہیں۔ ہ رواج میں نہیں‬
‫رہ ' ہ ں البتہ ہ ئے رواج میں ہے۔ جیسے انجمن ہ ئے امداد ب ہمی‬
‫اردو بول چ ل میں ع لموں' ع لم ں بھی پڑھنے سننے میں آتے ہیں۔‬

‫ن بھی رکھے ج تے ہیں۔ جیسے ع ل ش ہ' نور ع ل‬
‫ب طور ٹ ئیٹل بھی رواج میں ہے۔ جیسے فخر ع ل ' فخر دو ع ل‬

‫ل ظ رحمن' عمومی است م ل میں ہے۔ ن بھی رکھے ج تے ہیں۔ مثلا‬
‫‪.‬عبد الرحمن' عتی الرحمن فیض الرحمن' فضل الرحمن وغیرہ‬

‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے رحمن ک ترجمہ' ل ظ کے عمومی بول چ ل‬
‫میں مست مل ہونے کے سب ' رحمن ہی کی ہے۔‬

‫مولوی سید مودودی نے بھی' رحمن ک ترجمہ رحم ن ہی کی ہے۔‬
‫مولوی محمد فیروزالدین نے' رحمن ک ترجمہ مہرب ن کی ہے۔‬

‫مولوی محمد جون گڑھی کے ہ ں' رحمن ک ترجمہ' بخشش کرنے والا‬
‫ہوا ہے۔‬

‫‪139‬‬

‫ش ہ ولی اللہ نے' ف رسی ترجمہ بخش یندہ کی ہے' جو بخشش کرنے‬
‫والا ہی ک مترادف ہے۔ بخش یندہ اردو میں مست مل نہیں ت ہ بخشنے‬
‫والا' بخش دینے والا' بخشش کرنے والا' بخشن ہ ر وغیرہ غیر م نوس‬

‫نہیں ہیں۔‬
‫بخشیش خیرات کے لیے بھی' بولا ج ت ہے۔‬
‫ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں‬
‫بری وی' مولوی بشیر احمد لاہوری' مولوی فرم ن ع ی نے رحمن ک‬

‫ترجمہ مہرب ن کی ہے۔‬
‫س ودی ترجمہ بھی مہرب ن ہے۔‬

‫ل ظ رحی ' اردو میں غیر م نوس نہیں۔ اشخ ص کے ن بھی رکھے‬
‫ج تے ہیں‪ .‬جیسے عبدالرحی ۔‬

‫اسی تن ظر میں ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے رحی ک ترجمہ رحی ہی کی‬
‫ہے۔ مولوی سید مودودی نے بھی' اس ک ترجمہ رحی ہی کی ہے۔‬
‫ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں‬

‫بری وی' مولوی بشیر احمد لاہوری' مولوی فرم ن ع ی' مولوی محمد‬
‫فیروزالدین نے رح والا ترجمہ کی ہے۔‬

‫ش ہ ولی اللہ دہ وی اور مولوی محمد جون گڑھی نے رحی ک ترجمہ‬
‫مہرب ن کی ہے۔‬

‫‪140‬‬

‫ل ظ م لک' م کیت والے کے لیے' ع بول چ ل میں ہے‪ .‬جیسے م لک‬
‫مک ن ی وہ پ نچ ایکڑ زمین ک م لک ہے۔ بیشتر ترجمہ کنندگ ن نے'‬
‫اس ک ترجمہ م لک ہی کی ہے۔ ہ ں مولوی فرم ن ع ی نے اس ک‬
‫ترجمہ ح ک کی ہے۔اشخ ص کے ن بھی' سننے کو م تے ہیں‪ .‬مثلا‬
‫عبدالم لک' محمد م لک‬

‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ں' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی فیروز الدین'‬
‫مولوی اشرف ع ی تھ نوی' ش ہ عبدالق در' مولوی احمد رض خ ں‬
‫بری وی' مولوی سید مودودی نے اس ک ترجمہ م لک ہی کی ہے۔‬

‫س ودی ترجمہ بھی م لک ہی ہے۔ اس سے ب خوبی اندازہ کی ج سکت‬
‫ہے کہ ل ظ م لک کس قدر عرف ع میں ہے۔‬

‫ل ظ یو ' ع است م ل ک ہے۔ مرک است م ل بھی سننے کو م تے ہیں۔‬
‫مثلا یو آزادی' یو شہدا' یو ع شورہ' یو حج وغیرہ‬

‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ں نے' یو ک ترجمہ یو ہی کی ہے۔ مولوی سید‬
‫مودودی نے بھی یو ک ترجمہ یو ہی کی ہے۔‬

‫مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد‬
‫‪.‬لاہوری نے اس ک ترجمہ دن کی ہے‬

‫س ودی ترجمہ بھی دن ہی ہوا ہے۔‬

‫ش ہ ولی اللہ' ش ہ عبدالق در' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد‬
‫رض خ ں بری وی' مولوی فرم ن ع ی نے یو ک ترجمہ روز کی ہے۔‬

‫‪141‬‬

‫ل ظ دین' مذہ کے م نوں میں ع است م ل ک ہے۔‬
‫مرک بھی است م ل ہوت ہے۔ مثلا دین محمدی' دین اسلا ' دین دار'‬

‫دین دنی وغیرہ‬
‫ن موں میں بھی مست مل ہے۔ مثلا احمد دین' دین محمد' چرا دین ام‬

‫دین وغیرہ‬
‫دین دار ایک ذات اور قو کے لیے بھی مخصوص ہے۔‬

‫دین کے م نی رستہ بھی لیے ج تے ہیں۔‬
‫ڈاکٹر عدالحکی خ ں نے' اس ل ظ کو' جزا کے م نوں میں لی ہے۔‬
‫ش ہ ولی اللہ دہ وی' ش ہ عبدالق در' مولوی سید مودودی' مولوی اشرف‬
‫ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض خ ں بری وی' مولوی فرم ن ع ی نے‬

‫ل ظ دین کو جزا کے م نوں میں لی ہے۔‬
‫مولوی محمد جون گڑھی نے' ل ظ دین ک ترجمہ قی مت کی ہے۔‬
‫مولوی محمد قیروز الدین اور مولوی بشیر احمد لاہوری نے' ل ظ دین‬

‫کو انص ف کے م نوں میں لی ہے۔‬
‫س ودی ترجمے میں' اس ک ترجمہ بدلے ک ' ج کہ قوسین میں قی مت‬

‫درج ہے' م نی لیے گیے ہیں۔‬

‫ل ظ عبد' اردو میں عمومی است م ل ک نہیں' ت ہ اشخ ص کے ن موں‬
‫میں ب کثرت است م ل ہوت ہے۔ مثلا عبداللہ' عبدالق در' عبداعزیز'‬

‫‪142‬‬

‫عبدالکری ' عبدالرحم ن' عبدالقوی وغیرہ‬
‫ن بد ک ڈاکٹر عبدالحکی ' مولوی فیروز الدین' مولوی محمد جون گڑھی'‬

‫مولوی سید مودودی' مولوی فرم ن ع ی' مولوی اشرف ع ی تھ نوی‬
‫نے ترجمہ عب دت کی ہے۔‬

‫س ودی ترجمے میں بھی م نی عب دت لیے گیے ہیں۔‬
‫مولوی احمد رض خ ن نے پوجھیں ترجمہ کی ہے۔‬

‫ش ہ عبدالق در اور مولوی بشیر احمد لاہوری نے بندگی م نی دیے ہیں۔‬
‫ش ہ ولی اللہ دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں می پرستی م نی دیے‬
‫ہیں۔ ل ظ پرست' پرستی' پرستش اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں'‬

‫ب کہ بول چ ل میں موجود ہیں۔‬

‫ل ظ صراط' اردو میں ع است م ل ک نہیں' لیکن غیر م نوس بھی‬
‫نہیں۔ مرک پل صراط ع بولنےاور سننے میں آت ہے۔ لوگ اس امر‬

‫سے آگ ہ نہیں' یہ دو الگ چیزیں ہیں۔‬
‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض‬
‫خ ں بری وی اور مولوی سید مودودی نے' اسے رستہ کےم نی دیے‬

‫ہیں۔‬
‫ش ہ ولی اللہ دہ وی' ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی‬
‫محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد لاہوری اور مولوی فرم ن ع ی‬

‫نے صراط ک ترجمہ راہ کی ہے۔‬

‫‪143‬‬

‫س ودی ترجمہ بھی راہ ہی ہوا ہے۔‬

‫ل ظ مستقی ' عمومی است م ل میں نہیں۔ ن کے لیے است م ل ہوت آ رہ‬
‫ہے۔ جیسے محمد مستقی‬

‫اسی طرح' خط مستقی جیویٹری کی اصطلاح سننے میں آتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی احمد رض‬

‫خ ں بری وی' اور مولوی سید مودودی نے' سیدھ ترجمہ کی ہے۔‬
‫صراط مستقی بم نی سیدھ رستہ‬

‫مولوی محمد جون گڑھی' مولوی بشیر احمد لاہوری اور مولوی فرم ن‬
‫ع ی نے سیدھی ترجمہ کی ہے۔ س ودی ترجمہ بھی سیدھی ہوا ہے‬
‫لیکن قوسین میں سچی درج کی گی ہے۔‬
‫صراط مستقی ی نی سیدھی راہ‬
‫ش ہ ولی اللہ دہ وی نے' اس کے لیے ل ظ راست است م ل کی ہے۔‬
‫صراط مستقی ی نی راہ راست‬

‫ان مت' ن مت سے ہے۔ ل ظ ن مت' بولنے اور لکھنے پڑھنے میں‬
‫است م ل ہوت آ رہ ہے۔ پنج بی میں اسے نی مت روپ مل گی ہے۔‬
‫ن بھی رکھے ج تے ہیں جیسے ن مت ع ی' ن مت اللہ‬

‫ڈاکٹر عبدالحکی خ ن' مولوی اشرف ع ی تھ نوی' مولوی محمد جون‬

‫‪144‬‬

‫گڑھی اور مولوی سید مودودی نے' اس ک ان ترجمہ کی ہے۔‬
‫س ودی ترجمہ میں بھی ان است م ل میں آی ہے۔‬

‫ش ہ عبدالق در' مولوی محمد فیروزالدین اور مولوی بشیر احمد لاہوری‬
‫نے اس ک ترجمہ فضل کی ہے۔‬

‫مولوی فرم ن ع ی نے ن مت' احمد رض خ ں بری وی نے احس ن' ج‬
‫کہ ش ہ ولی اللہ دہ وی نے اسے اکرا م نی دیے ہیں۔‬
‫ان و اکرا عمومی است ل ک مرک ہے۔‬

‫مغضو ' اردو میں است م ل نہیں ہوت ' ت ہ اس ک روپ غض ' اردو‬
‫میں ع است م ل ہوت ہے۔ مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد‬

‫لاہوری' مولوی محمد جون گڑھی' مولوی احمد رض خ ں بری وی اور‬
‫مولوی فرم ن ع ی نے غض کے م نی لیے ہیں۔‬
‫س ودی ترجمہ میں بھی غض مراد لی گی ہے۔‬

‫ش ہ عبدالق در نے غصہ' ج کہ مولوی سید مودودی نے عت م نی‬
‫لیے ہیں۔‬

‫ش ہ ولی اللہ دہ وی نے' اپنے ف رسی ترجمہ میں خش م نی لیے ہیں۔‬

‫ض لین' ضلالت سے ہے۔ اردو میں یہ ل ظ' ع بول چ ل میں نہیں۔ ہ ں‬
‫البتہ ذلالت عمومی است م ل میں ہے۔ ضلالت لکھنے میں آت رہ ہے۔‬

‫‪145‬‬

‫ش ہ عبدالق در اور ڈاکٹر عبدالحکی خ ن نے گمراہ' مولوی محمد جون‬
‫گڑھی ' مولوی محمد فیروزالدین' مولوی بشیر احمد لاہوری اور مولوی‬

‫فرم ن ع ی نے گمراہوں ترجمہ کی ہے۔‬
‫مولوی احمد رض خ ں بری وی نے بہکن م نی مراد لیے ہیں۔‬

‫مولوی سید مودودی نے' بھٹکے ہوئے ترجمہ کی ہے۔‬
‫س ودی ترجمہ گمراہی ہوا ہے۔‬

‫ش ہ ولی اللہ دہ وی نے گمراہ ن ترجمہ کی ہے۔‬
‫ان کے علاوہ' چ ر ل ظ اردو میں ب کثرت است م ل ہوتے ہیں‬

‫ع یہ‪ :‬ک مہء احترا کے دوران' جیسے حضرت داؤد ع یہ‬
‫اسلا ‪........‬مدع ع یہ' مکتو ع یہ وغیرہ‬

‫غیر‪ :‬نہی ک س بقہ ہے' جیسے غیر محر ' غیر ارادی' غیر ضروری'‬
‫غیر منطقی وغیرہ‬

‫لا‪ :‬نہی ک س بقہ ہے' جیسے لاح صل' لاع ' لا ی نی' لات وغیرہ‬
‫و‪ :‬و اور کے م نی میں مست مل چلا آت ہے۔ مثلا‬

‫ش و روز' رنگ ونمو' ش ر وسخن' ق ونظر وغیرہ‬
‫کمشنر و سپرنٹنڈنٹ' منیجر و پرنٹر وغیرہ‬

‫درج ب لا ن چیز سے ج ئزے کے ب د' یہ اندازہ کرن دشوار نہیں رہت ' کہ‬
‫عربی نے اردو پر کس قدر گہرے اثرات مر ت کیے ہیں۔ مس م نوں ک‬

‫‪146‬‬

‫حج اور کئی دوسرے حوالوں سے' اہل عر سے واسظہ رہت ہے۔‬
‫اس لیے مخت ف نوعیت کی اصطلاح ت ک ' اردو میں چ ے آن ' ہر گز‬
‫حیرت کی ب ت نہیں۔ روزمرہ کی گ ت گو ک ' تجزیہ کر دیکھیں' کسی‬
‫ن کسی شکل میں' کئی ایک لقظ ن دانسہ اور اظہ ری روانی کے تحت'‬
‫بولے چ ے ج تے ہیں۔ مکتوبی صورتیں بھی' اس سے مخت ف نہیں‬

‫ہیں۔‬

‫مکرمی حسنی ص ح ‪ :‬سلا مسنون‬

‫آپ ادھر کچھ عرصہ سے اردو انجمن میں نظرنہیں آرہے ہیں۔ آپ کو‬
‫ایک خط بھی لکھ چک ہوں۔ اللہ سے دع ہے کہ آپ ب فیت ہوں اور‬
‫انجمن کو بھولے نہ ہوں۔ میں زندگی کی تگ ودو میں ایس گرفت ر رہ‬
‫کہ آپ کی تخ یق ت کی ج ن رخ نہ کرسک ‪ ،‬ن د ہوں۔ سوچ کہ ا آی‬
‫ہوں تو آپ کے پچھ ی تحریریں دیکھ لوں۔ سو آج عربی زب ن کے اردو‬
‫پر اثرات سے مت یہ مضمون دیکھ رہ ہوں اور عش عش کر رہ‬

‫ہوں۔‬

‫ویسے دیکھنے میں یہ مضمون آس ن م و ہوت ہے کہ چند کت بیں‬
‫دیکھ کر ان سے کچھ ب تیں اخذ کر لی ج ئیں تو مضمون ہوج ت ہے‬
‫لیکن یہ تو لکھنے والا ہی ج نت ہے کہ اسیے مق لے کی تشکیل میں‬
‫کی کی پ پڑ بی نے پڑتے ہیں‪ ،‬کیسی دم سوزی کرن ہوتی ہے اورکس‬
‫طرح اپنے ک کی ب توں کو مرت کرکے ق ری کو پہنچ ن پڑت ہے۔‬
‫سبح ن اللہ! کی خو تحریر ہے۔ آپ نے جس دلسوزی سے یہ ک کی‬

‫‪147‬‬

‫ہے اس ک اجر تو اللہ ہی دے گ ۔ہ ن اہل بندے تو صرف اس سے‬
‫مست ید ہی ہوسکتے ہیں اور یہ دع کرتے ہیں کہ ایس ک کرنے کی‬
‫توفی اور اہ یت ہ کوبھی ح صل ہو۔آمین۔ آپ کی محنت اور آپ ک ع‬

‫اپنے جوا آپ ہی ہیں۔ لکھتے رہئے۔ انش اللہ ف ئدہ اٹھ نے والے‬
‫ہمیشہ آپ کو اپنی دع ئے خیر میں ی د رکھیں گے۔‬

‫سرور ع ل راز‬

‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9490.0‬‬

‫‪148‬‬

‫گنج سوالات' ایک لس نی تی ج ئزہ‬

‫مخدومی و مرشدی حضرت سید غلا حضور الم روف ب ب جی شکراللہ‬
‫کی ب قی ت میں سے' ایک انچ س ص ح ت کی کت ۔۔۔۔۔ گنج سوالات ۔۔۔۔۔‬

‫دستی ہوئی ہے۔ یہ کت ‪ϭϴϱϴ‬ء میں ش ئع ہوئی۔ اس ک ٹ ئیٹل پیج‬
‫‪:‬کچھ یوں ہے‬
‫گنج سوالات‬

‫ق نون دیوانی پنج وسرک رات‬
‫ص ح جوڈیشل کمشنر بہ در پنج مجریہ‬

‫ب د مشتہر ہونے ق نون مذکور کے‬
‫مول ہ‬

‫مستر رابرٹ ینڈہ کسٹ ص ح بہ در کمشنر و سپرنٹنڈنٹ قسمت لاہور‬
‫جسکو‬

‫مستر ایف اسک رلٹ ص ح بہ در پرنسپل اسسٹنٹ کمشنر نے‬
‫ب ع نت‬

‫منشی درگ پرش د پنڈت کے ترجمہ کی‬
‫ء‪1858‬‬

‫مطبع کوہ نور لاہور میں ب ہتم پنڈت سورج بہ ن منیجر وغلا محمد‬
‫پرنٹر کے چہپہ‬

‫‪149‬‬

‫اس کت کے ت ئیٹل پیج سے اندازہ ہوت ہے کہ ‪ϭϴϱϴ‬ء میں' لاہور‬
‫ذویژن تھ اور یہ ں سے ج ری ہونے والے احک م ت' پنج پر لاگو‬
‫ہوتے تھے' ی یوں کہہ لیں' لاہور قسمت میں پورا پنج داخل تھ ۔‬

‫لاہور قسمت ک کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ رابرٹ ینڈہ کسٹ' ج کہ‬
‫پرنسپل اسسٹنٹ کمشنر ایف اسک رلٹ تھ ۔ منشی درگ پرش د پنڈت'‬
‫پرنسپل اسسنٹ کمشنر ایف اسک رلٹ سے وابستہ تھے۔ ترجمہ ص ف‬
‫اور رواں دوا ں ہے۔ تحریر سے یہ ظ ہر ہوت ہے کہ ترجمہ' ایف‬

‫اسک رلٹ نے کی ہے ج کہ منشی درگ پرش د پنڈت نے' محض‬
‫م ونت کی ہے۔ ترجمے کیی روانی اور ترجمے کی زب ن' اس امر کی‬

‫یکسر تردید کر رہی ہے‪ .‬ب اختی ر لوگ اوروں ک کی ' اپنی گرہ میں‬
‫کرتے آئے ہیں یہ کوئی ایسی نئی اور حیران کن ب ت نہیں۔‬

‫انگریز اگرچہ ایک عرصہ پہ ے سے' ہندوست ن کے اقتدار پر ق بض‬
‫تھ ' ت ہ ب طور ح ک واضح نہ ہوا تھ ۔ گ یوں میں' کسی من دی کے‬
‫ابتدائی ک موں میں کہ ج ت تھ ۔۔۔۔۔۔ م ک ش ہ ک حکومت کمپنی بہ در‬
‫کی۔۔۔۔۔۔ ‪ϭϴϱϳ‬ء میں' م ک بھی انگریز ک ہو گی تھ ۔ انگریز فقط دو‬
‫ڈھ ئی ہزار کی ت داد میں تھے۔ فتح ‪ϭϴϱϳ‬ء میں' م ون کرداروں کو'‬
‫جہ ں ج گیریں وغیرہ دی گئیں' وہ ں خط ب ت اور اعزای عہدوں سے‬
‫بھی نوازا گی ۔ یہ حضرات مخبری' چغل خوری اور دو نمبری میں ط‬
‫ضرور تھے' لیکن اطوار و ضوابط جہ ں ب نی سے' آگ ہ نہ تھے۔ انہیں‬
‫م ملات ب طری احسن اور ب ض بطہ نپٹ نے کے لیے' لائحہ عمل فراہ‬
‫کرن ضروری تھ ت کہ ان کی من م نی کے زیراثر' کوئی شورش جن‬
‫نہ لے سکے۔ اس کت کے متن سے' بہرصورت یہ ہی اندازہ ہوت ہے۔‬

‫‪150‬‬

‫‪:‬اس ذیل میں ب طور نمونہ دو چ ر مث لیں ملاحظہ فرم ئیں‬

‫‪.‬۔ نہ یت ق نون نہ یت ظ ہے‪1‬‬
‫۔ وکیل ک س ختہ برداختہ تمہ را س ختہ برداختہ ہے۔‪2‬‬

‫۔ شرع و ق نون رواج سے گہرا ہوا ہے۔‪3‬‬
‫۔ خرچہ دیوانی مین تمیز کرو اور غیر واجبی خرچہ ہرگز نہ درج ‪4‬‬

‫کرو۔‬
‫۔ ہنگ رجوع ن لش کے ح ک کو یہہ لاز نہین کہ بطور ن بین حک ‪5.‬‬
‫ق مبندی اظہ ر ص در کرے اور پہر حس ض بطہ حک ط بی گواہ ن و‬
‫مدع ع یہ ص در کرے ب کہ ہوشی ر ح ک اول ذرا تک یف اوٹہ ت ہے اور‬
‫پیچہے بہت تکیف سے مح وظ رہت ہے ی نی اوسکو اول ۔ہنگ رجوع‬

‫مقدمہ ان ب تونک خی ل کرن چ ہئے۔‬

‫جو افسر اور اہل ک ر' یہ ں آئے غیر مث قہ فی ڈ کے تھے دوسرا انہیں‬
‫ان کی اوق ت سے بڑھ کر عہدے دے دیے گیے ی ک از ک ون سٹیپ‬
‫اپ کی گی ۔ اوپر سے' غلا قو کی جی حضوری اور گم شتوں کی حد‬
‫سے بڑھ کر چ پ وسی نے' ان کے دم خرا کر دیے تھے‪ .‬ایسے‬
‫میں ن انص فی ک جن لین ' فطری سی ب ت تھی۔ اس کے نتیجہ میں' اس‬

‫قس کی ہدای ت ک ج ری کی ج ن ضروری تھ ۔ آزادی ہند میں' جہ ں‬
‫یہ ں کے حریت پسندوں' امریکہ کی مداخ ت اور ہٹ ر کی اندھی یورش‬
‫ک ہ تھ ہے' وہ ں بےانص فی اور حد سے بڑھ کر دلانوازی کو بھی نظر‬


Click to View FlipBook Version