151
.انداز نہیں کی ج سکت
اس کت کے پہ ے حصہ میں' تمہید کے ب د' ہدای ت ب عنوان۔۔۔۔ ہدای ت
و اصول م ص ہ ذیل پر افسران دیوانی ن آزمودء ک ر کو توجہ کرن
'چ ہیے۔۔۔۔۔
دوسرے حصہ میں ۔۔۔۔۔۔۔ فہرست ابوا گنج سوالات ق نون دیوانی پنج
ج کہ تیسرے حصہ میں۔۔۔۔۔سوالات دستورال مل ق نون دیوانی پنج '
دیے گیے ہیں۔
کت انچ س ص ح ت پر مشتمل ہے۔
رموز ک اہتم نہیں کی ج ت تھ ۔ اس کت میں بھی رموز ک اہتم نہیں
کی گی ۔ یہ امر چوں کہ رواج میں نہ تھ ' س لیے اسے' مکتوبی نقص
نہیں سمجھ ج سکت ۔ فقرے لمبے بن نے ک رواج تھ ۔ یہ کت چوں
کہ سوالات اور ہدای ت سے مت ہے' اس لیے اس ذیل سے ب ہر ہے.
ہ ں ب ض جگہوں پر مث لیں م تی ہیں .مثلا تمہید تقریب چھے سطور پر
مشتمل ہے۔ یہ بلا رموز اور ایک ہی فقرہ میں ہے۔ کت کی تحریر
ش ئستہ اور رواں دواں ہے۔ چند امور' لس نی تی اور مکتوبی طور کے
حوالہ سے' آج اور گزرے کل کی شن خت ک ذری ہ ہیں۔ مثلا
دو ل ظ ملا کر' لکھن ع تھ اور اس کی مث لیں' اس کت میں جگہ
152
جگہ پر م تی ہیں۔ مثلا
جنکے' کونسی' کسب ت' کسکو' قرضخوانونکی وغیرہ
ف رسی آمیز دو مرک ل ظ بھی پڑھنے کو م تے ہیں۔ مثلا
درصورتکہ
اس کت میں' تین ل ظوں کو ملا کر لکھنے کی' بہت سی مث لیں م تی
ہیں۔ مثلا
کسطرحکی' کسطرحپر' کسطرحک ' کسیطرحکی' کسطرحسے'
کیصورتمین' اس یئیکہ' دونوب تونک وغیرہ
ل ظوں میں واؤ کی بڑھوتی م تی ہے' جو آج متروک ہو چکی ہے۔ مثلا
اوس' اون' ج وے' اوٹہ نی وغیرہ
نون غنہ ک است م ل ب لکل نہیں م ت ' ح لاں کہ نون غنہ اردو کے
حروف ابجد میں موجود تھ ۔ نون غنہ کی جگہ' نون است م ل میں لای
گی ہے۔ مثلا
مین' ب تین' ہین' عورتین' نہین وغیرہ
یہ کو ڈبل حے مقصورہ کے س تھ رق کی گی ہے .ی نی یہہ
بھ ری آوازوں ک است م ل نہیں کی گی ۔ ان کی جگہ حے مقصورہ
است م ل کی گئی ہے۔ مثلا
دہوک ' پیچہے'س تہ' بہ ئی' رکہت وغیرہ
دو جگہ مہ پران ک است م ل بھی ہوا۔ مثلا ہدایت کے لیے' ھدایت اور
153
پہلا کے لے' پھلا رق کی گی ہے۔
چ کے لیے ج است م ل کی گئی ہے۔ ی نی دی چہ کو دیب جہ کت بت کی گی
ہے۔
ٹ کی جگہ ت' است م ل میں لائی گئی ہے۔ مسٹر کو مستر لکھ گی
ہے۔
دونوں کو' دونو لکھ گی ہے .ی نی ں ی ن ک است م ل نہیں گی ۔ ں
حشوی سہی' لیکن آج رواج ع میں ہے۔
ء کی جگہ' ی ک است م ل ہوا ہے۔ یہ ف رسی کی ییروی میں ہے' ح لاں
کہ ہمزہ اردو حروف ابجد میں' داخل تھی۔ جیسے دائرہ کی بج ئے
دایرہ لکھ گی ہے۔
گ ف کے لیے' ک ف ک است م ل ہوا ہے۔ ی نی ڈگری کو ڈکری لکھ گی
ہے۔
ڑ کی جگہ ڈ ک است م ل کی گی ی نی بڑھ ن کو بڈہ نہ تحریر میں لای
گی ہے۔
ت کی جگہ ط ک است م ل ہوا ہے۔
تی ری کو طی ری رق کی گی ہے۔
ا کچھ جم یں ملاحظہ ہوں۔
ن لش ت' ہنڈوی ت' ڈکری ت' سرک رات' بواعث' ہنڈویوں وغیرہ
154
ے کو ی کی طرز پر رق کی گی ہے' ۔فر صرف اتن ہے کہ نیچے
سے' گول نہیں کی گی ۔ ڈبل آنے کی صورت میں پہ ی ی کو حس
روٹین ج کہ دوسری کو ے کی شکل میں درج کی گی ہے۔
آج ل ظ دیوالیہ لکھ ج ت ہے' ج کہ اس میں ی ش مل نہیں۔ ی نی دوالہ
لکھ گی ہے۔
.اردو اور انگریزی مرک پڑھنے کو م تے ہیں
پنج وسرک رات' منیجر وغلا محمد پرنٹر
اسی طرح' دو انگریزی ل ظوں کو واؤ سے ملای گی ہے۔
کمشنر و سپرنٹنڈنٹ
ہر دو میں' واؤ الگ سے بولت ہے۔
دیسی روایت بھی م تی ہے .مثلا فش و ہدایت
اض فتی مرک بھی پڑھنے کو م تے ہیں۔ مثلا دعوی ن بین ' ک ید گنج
ایک مرک بلا اض فت ملاحظہ ہو :ن بین حک
زب ن پر مق میت کے بھی اثرات م تے ہیں۔ مثلا
ذمہ واری' دوالہ' نظیر دیو' چودہریوں وغیرہ
ل ظ اردوائے بھی گیے ہیں۔ مثلا تمسکی
یہ کت ' اگرچہ ق نون اور ض بطہ سے مت ہے' لیکن اس کے
155
مندرج ت کے مط ل ہ سے' ڈیڑھ سو سے زائد عرصہ پہ ے کی'
سرک ری ی نی دفتری اردو پڑھنے ک موقع م ت ہے۔ چوں کہ یہ عوا
سے مت ہے' اس لیے اس میں' عوامیت بھرپور انداز میں م تی ہے۔
یہ بھی کہ سرک ری' مزاج و رویہ اور عوا ' خصوص اور گوروں کے
م بین ت ری وامتی ز س منے آتی ہے۔ ق نون' سم ج اور مذہی ضوابط
کو' متوازی رکھتے ہوئے' یہ کت ترکی پ ئی ہے۔ اردو خط میں'
انگریزی ال ظ است م ل ہوئے ہیں' لیکن بہت ک ۔ اس کی روانی اور
شستگی مچھے اچھی لگی ہے۔
31-12-2014
156
ڈاکٹر عبد ال زیز س حر کی ایک ق بل تق ید تدوینی ک وش
تدوینی ک بھی' اپنی اصل میں' تخ یقی عمل ک حصہ ہے۔ یہ حد درجہ
حس س عمل تو ہے ہی' دوسری طرف انتہ ئی ذمہ داری ک ک ہے۔ اس
ک کی انج دہی میں' م مولی کوت ہی اور غ ت کی گنج ئش نہیں
ہوتی۔ م مولی سی کوت ہی اور غ ت' صدیوں کے لیے مخممصے پیدا
کر دیتی ہے۔ یہ مخمصے درحقیقت' متن کی ت ہی میں خرابی ک سب
بن ج تے ہیں۔ آتے وقتوں میں' اصل کو کر کھ چکی ہوتی ی وہ ردی
چڑھ چکے ہوتے ہیں ی ان تک رس ئی ن ممکن ت کی وادی میں داخل
ہو چکی ہوتی ہے۔ ہونے والے ک آس نی ں پیدا کرنے کی بج ئے' ب ض
لای نی پچیدگیوں ک سب بن ج تے ہیں۔
ہم رے ہ ں زی دہ تر' ذاتی دل چسپی سے ہٹ کر' تدوینی ک محض
خ نہ پری کی حد تک ہوا ہے اور یہ ہی ک پچیدگیوں کے دروازے
کھولت آی ہے۔ ایس بھی ہوا ہے' ص ح کت ہونے ک ' ن کے س تھ
لیبل چسپ ں کرنے کے لیے' کت ک دیب چہ لکھ دی اور دیب چے میں
اپنی کوشش کو بڑھ چڑھ کر پیش کر دی اور کی ' بس۔ یہ ہی نہیں'
خ نہ پری کے لیے' دو چ ر تبصرے لکھوا لیے۔ تبصرہ نگ ر نے'
چوں کہ کت کو پڑھ ہی نہیں ہوت ' اس لیے وہ بھی محض ٹوٹل پری
کے لیے' مرت کی ہمتوں اور شخصی اوص ف ہی کو موضوع گ تگو
بن ت ہے۔ لوگ ان تبصروں کو مدنظر رکھتے ہوئے' ت لیف کی حیثیت و
اہمیت ک ت ین کرتے آئے ہیں۔
157
ڈاکٹر عبد ال زیز س حر میرے دیرینہ اور بہت اچھے دوستوں میں ہیں۔
انہوں نے نہ یت مہرب نی فرم تے ہوئے۔۔۔۔ خیرالاذک ر فی من ق
الابرار۔۔۔۔ از مولوی محمد گھ وی مرید خواجہ نور محمد ث نی ن رووالہ
رح عن یت فرم ئی۔ ترتی و تہذی اور حواشی لکھنے کی' اللہ نے
موصوف کو توفی عط فرم ئی۔ کت پر' جس محنت اور لگن سے ک
کی گی ہے' اس کے مط ل ہ کے لیے بھی' اس سی ی اس سے بہت
قری کی لگن اور ذو کی ضرورت ہے۔ میں نے کئی ب ر پڑھ ' غور
کی ' ہر ب ر یہ ہی محسوس کی ' کہ مجھ س بےچ رہ تھوڑ ع ' اس پر
کی ' کیسے اور کیوں کر ب ت کر سکت ہے۔ یہ عرصہ پہ ے کی ف رسی
ہے' اس کے ب وجود ت زگی اور لس نی حسن میں' رائی بھر فر نہیں
آی ۔ اس میں عصری لس نی تی سواد اور ذائقہ موجود ہے۔ ب طور ذائقہ
:فقط یہ جم ہ اور ش ر ملاحظہ فرم ئیں
وروزی در جوا استدع ی غلامی کہ در ب ب نوا غ زی الدین گل
:ہ ی رنگ رنگ شگ تہ اند' تم ش ی آن ب ید کرد۔ این بیت فرمودند کہ
م اسیراں را تم ش ی چمن درک ر نیست
دا ہ ی سینہ م ک تر از گ زار نیست
یہ تخ ی ' ن صرف ایک ع ل ف ضل کی ہے' ب کہ ایک ب مرشد ع مل کی
بھی ہے' جو گزرے وقت کے پ کیزہ لمحوں کی ی د دلاتی ہے۔ کردار
س زی کے عم ی نمونے بھی پیش کرتی ہے۔ بڑے لوگوں کے کرنے
اور کہنے کے اطوار وانداز سے' آگ ہ کرتی ہے۔ بہت سے ان سنے'
مگر کم ل کے لوگوں سے' م نے کے مواقع مہی کرتی ہے۔
158
نثر میں' حسن و شی تگی کے عن صر اج گر کرنے کے لیے' گ ہے بہ
گ ہے ش ر بھی است م ل کیے گیے ہیں' جو حضرت ص ح کے اع ی
ذو کی نش ندہی کرتے ہیں۔ ب ت یہ ں تک محدود نہیں' ان کی ج ر
ش ری تخ یق ت اس تصنیف ک حصہ ہیں۔ ان میں دو آق کری کی ن ت
ہیں' ج کہ ب قی دو غزلیں ہیں۔ ایک ن ت ف رسی میں' ج کہ دوسری
عربی میں ہے۔ اسی طرح ایک غزل ف رسی' ج کہ دوسری غزل عربی
اور ف رسی میں ہے' ی نی پہلا مصرع ف رسی' ج کہ دوسرا مصرع
عربی میں ہے۔ چ روں ش ری تخ یق ت کم ل کی ہیں .ب طور نمونہ
:صرف تین ش ر ملاحظہ ہوں
تو پ دش ہی من گدا' تو قب ہ من قب ہ نم
ای پیشوای مرسلاں مشت دیدار تو ا
..............
من بداں حضرت ع لی کہ غمش سینہ گداخت
رس آخر بہ نش طی کہ بداں دلبر م بود
گرچہ بدک ر و بیک ر ام بدو صد دل
دار امید بش ہی کہ نگ ہش بگدا بود
ان اش ر کے حوالہ سے' حضرت ص ح کے ن صرف ذو ش ر ک
اندازہ لگ ی ج سکت ہے' ب کہ ل ظوں کے است م ل کے ہنر سے آگہی'
ک بھی پت چ ت ہے۔
ڈاکٹر عبد ال زیز س حر نے' اس تخ ی کی تدوین کے ذیل میں' اتہت ئی
159
ذمہ داری ک ثبوت دی ہے۔ ان کے ک میں س یقہ اور ن ست پ ئی ج تی
ہے۔ مثلا
نثری رموز ک خی ل نہیں رکھ ج ت تھ ' ی پھر یہ مست مل ہی نہ 1-
تھیں۔ میرے پ س میرے بڑوں کے' سو سے س ڑھے س ت سوس ل
کے' اردو' پنج بی اور ف رسی مخطوطے پڑے ہیں اور میں ان پر'
بس ط بھر ک بھی کر رہ ہوں۔ ان میں سے ایک بھی نہیں' جس میں
رموز ک است م ل کی گی ہو' ڈاکٹر عبد ال زیز س حر نے اس ن ی
تخ ی کے' اصل متن میں رموز ک است م ل کرکے' اس کے مط ل ہ کو
آس ن بن دی ہے۔ ان کی اس کوشش سے ت ہیی پچیدگیوں سے ایک حد
تک سہی' نج ت مل ج تی ہے۔
تذکرے ی اس قس تخ یق ت عموم رواں روی میں لکھی گئی ہوتی 2-
ہیں۔ یہ بھی کہ اصل مسودے وقت کی دھول میں کھو گیے ہوتے ہیں۔
ک ت بھی' اپنی ع می ک رہ گری میں ہ تھ دکھ گیے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر
عبد ال زیز س حر نے مسنگز کو' متن ک حصہ بن نے کی بج ئے'
بریکٹوں میں درج کر دی ہے۔
:قوسین میں مسنگز کے علاوہ 3-
ا۔ ت ظیمی ک مے درج کرکے' ان بزرگوں سے' اپنی محبت اور عقیدت و
س دت مندی ک اظہ ر کر گیے ہیں۔ بےشک اللہ بہتر اجر دینے والا ہے۔
۔ شخص سے مت امرجہ ک اندراج کر دی ہے۔
ج۔ اللہ کری کی ذات گرامی کے س تھ ت ظیمی ک مے بڑھ ئے گیے ہیں۔
160
د۔ جہ ں محض اش رہ ہے' وہ ں مت قہ ک ن لکھ دی گی ہے۔
ھ۔ کی یت ک بڑی خوبی سے اندراج کی گی ہے۔ مثلا
ودو سہ ک مہ در آن ح لت و رقص' یہ ں قوسین میں جلالت درج کر دی
گی ہے۔.......بر زب ن مب رک می راندند و در فہ من نمی آمدند' ام آن
ک م ت را فرای د گرفت ۔ ص۔ϴϲ
ل ظوں کو ملا کر لکھنے ک رواج تھ ' انہوں نے نثر کو عصری 4-
مزاج اور مست مل انداز میں' پیش کی ہے۔ اس سے پڑھنے میں' آج
کے ق ری کے لیے آس نی پیدا ہوئی ہے۔
ڈاکٹر عبد ال زیز س حر نے ک ک دائرہ' متن کی ذمہ دارانہ اور ب س یقہ
پیش کش تک محدود نہیں رکھ ' ب کہ مقدمہ تحریر کی ہے .انہوں نے
مقدمے کو ب رہ حصوں میں تقسی کی ہے۔ اس تقسی سے' ت یہی میں
اآس نی اور اس پیش کش کی ادبی و فکری قدروقیمت ک اندازہ ہوت
ہے۔
مقدمے کے پہ ے حصہ میں' مولوی گھ وی ص ح ک ت رف اور اس
تخ ی کی ذیل میں' ان کی مصروفی ت کے ب رے میں' م وم ت فراہ
کی گئی ہیں۔ ان م وم ت کے حوالہ سے' مولوی گھ وی ص ح کی
ع دات و اطوار اور عمومی رویے سے بھی آگہی دستی ہوتی ہے۔
کت خ نہ تونسہ شریف اور کت خ نہ مولان محمد ع ی مکھڈ شریف
میں موجود سولہ کت کی فہرست دی گئی ہے۔
مقدمے کے دوسرے حصہ میں' خیرالاذک ر کے آخر میں موجود چ ر
161
منظوم ت' یہ ں الگ سے ب طور خ ص پیش کی گئی ہیں ابتدا میں ان
کے پیش کرنے کی توضیح دی گئی ہے۔
مقدمے کے چوتھے حصہ میں مولوی گھ وی ص ح کے سقر آخر ک
احوال بی ن کی ہے۔ اس ذیل میں ران غلا یسین کے ایک خط ک اقتب س
دی ہے۔ یہ اقتب س اس ذیل میں بڑی اہمیت ک ح مل ہے۔
مقدمے کے پ نچویں حصہ میں' خیرالاذک ر ک مختصر تخ یقی ت رف
اور اس کے سن تخ ی کے مت گ تگو کی گئی ہے۔
مقدمے کے چھٹے حصہ میں' اس تخ ی کی زب ن' روح نی حیثیت اور
ت ریخی اہمیت کو واضح کی گی ہے۔
مقدمے کے س تویں حصہ میں' اس تضنیف کی ترتی وتہذی میں جن
امور کو مدنظر رکھ گی اور جن جن سورسز کو است م ل کی گی ہے'
ان ک کم ل اختص ر کے س تھ' بی ن کی گی ہے
آٹھواں حصہ' اختص ر کی بڑی ہی ش ن دار مث ل ہے۔ چند سطور میں'
مقدمہ کے س تویں حصہ کے نت ئج درج کر دیے گیے ہینگی
مقدمے کے نواں حصہ میں'خیرالاذک ر کی ترتی وتہذی کے دوران'
جن امور کو مدنظر رکھ گی ' رق کیے گیے ہیں۔
دسویں حصہ میں جس نسخے کو بنی دی رکھ گی ' اس کی چھے وجوہ
درج کی ہیں۔
گی رواں حصہ' ایک تحقیقی وض حت سے مت ہے' ج کہ ب رہواں
162
حصہ کت کی تکمیل اور احب کے شکریہ وغیرہ سے مت ہے۔
مزے ب ت یہ کہ مقدمہ قی فی نہیں' جو کہ گی ہے' دلیل اور سند کے
س تھ کہ گی ہے۔ متن کو ثق لت سے بچ نے کے لیے' حواشی ک اہتم
کی گی ۔ یہ ت داد میں تیس اور چھے سے زی دہ ص ح ت پر مشتمل
ہیں۔حواشی سمیت مقدمہ انتیس سے زی دہ ص ح ت لیے ہوئے ہے۔
کت ک اصل متن ص ϯϳ:ت ص ϵϵ:ج ت ہے۔ کت کی ضخ مت ϭϰϭ
ص ح ت ہے۔ ص ϭϬϬسے ϭϯϭتک متن کے مت حواشی ہیں۔
ص ϭϯϮ:ت ص ϭϰϭ:پر اش رہ اور کت بی ت ہیں۔
خدا لگتی تو یہ ہے' زیر مط ل ہ ک اپنی نوعیت ک ' پروق ر اور پر
:س یقہ ک ہے۔ حواشی کی ہیں' م وم ت ک بہت دری ہیں۔ ان میں
.اشخ ص اور اشخ ص کے مت م وم ت فراہ کی گئی ہیں 1-
امرجہ اور ان کی متن سے مت اشخ ص کی نسبت ی ت واضع 2-
کی گی ہے۔
کئی امور کے مت وض حتی نوٹ ہیں۔ 3-
ب ض م ملات کی تشریح کی گئی ہے۔ 4-
ب ض کت کی طرف اش رے ہیں۔ 5-
بہت سی ع می و ادبی م وم ت درج کی گئی ہیں۔ 6-
کچھ ک رگزاریوں ک تذکرہءخیر کی گی ہے۔ 7-
163
ب ض اش ر کے ش را کے ن درج کیے گیے ہیں۔ 8-
ہم رے ہ ں ف رسی تقریب خت سی ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر عبد ال زیز س حر ک
کم ل یہ ہے' کہ انہوں نے متن کی ترتی ' مقدمہ اور حوشی کے
ذری ے' اردو سے مت لوگوں کے لیے بھی' اس ک مط ہ بڑی حد
تک آس ن بن دی ہے۔ اگر ترجمہ بھی س تھ میں پیش کر دی گی ہوت ' تو
مزید بہہ ج بہہ ہو ج تی۔ تدوینی ک کرنے والوں کو چ ہیے' کہ وہ ک
کرنے سے پہ ے' اس ک وش کو ایک نظر ضرور دیکھ لیں' ب کہ اسے
نمونہ بن نے میں ع ر نہ سمجھیں۔ اس سے ان کے ک کو وق ر اور
ثروت میسر آئے گی۔ ڈاکٹر عبد ال زیز س حر اس ب س یقہ اور پر مشقت
ک ر گزاری کے لیے' ڈھیر س ری داد کے مسح ہیں۔ اللہ انہیں برکت
دے اور اس نیک ک ک بہتر اجر عط فرم ئے۔
164
شریف س جد کی غزلوں کے ردیف
سیم بی فکر کے ح مل لوگ‘ قرار سے دور رہتے ہیں۔ ہر لمحہ نئی
سوچ اور نئے انداز و اطوار‘ ان کی زندگی ک لازمہ و لوازمہ رہت ہے۔
زندگی کے بدلتے موس ‘ ان کے سوچ سمندر میں کنکر پتھر تنکے
پھینکتے رہتے ہیں۔ یہ م م ہ ٹھہر ٹھہر کر نہیں‘ تس سل کے س تھ
ج ری رہت ہے۔ یہ بےقرار اور بےچین سے لوگ ہی‘ زندگی کو کچھ
نی اور الگ سے دیتے ہیں۔ اس میں ان کی دانستگی ک عنصر‘ ش مل
نہیں ہوت ۔ یہ خودک ر عمل‘ ان کے اندر ج ری رہت ہے۔ یہ لوگ زندگی
اور اس کے م ملات کو‘ نئی ت ہی ہی نہیں‘ نئی ہئیتیں بھی عط
کرتے ہیں۔ رائج کو نی اس و ‘ نی حسن اور نئی ترتی سے سرفراز
کرتے۔ یہ لوگ‘ ج د سمجھ میں آ ج نے کے نہیں ہوتے۔ خدا م و ‘ ک
اور کس طور کی کروٹ لے لیں۔
شریف س جد ص ح سے میرا کبھی زب نی ی ق می رابطہ نہیں رہ ۔ ان
ک مجموعہءکلا ۔۔۔۔ چ ند کسے دیکھت رہ ۔۔۔۔۔ پروفیسر لطیف اش ر کے
حوالہ سے ہ تھ لگ ہے۔ دیکھ ‘ پھر پڑھ اور لطف لی ۔ کلا بت ت ہے‘
کہ شریف س جد سیم بی اطوار کے شخص ہیں۔ ب ت کے لیے کئی طرح
کے رنگ اور ڈھنگ‘ اختی ر کرتے ہیں۔ بی نیہ‘ طنزیہ‘ مخ طبیہ‘
مک لم تی اور خود کلامی ک انداز اختی ر کرکے‘ بڑے س یقہ اور پک
:س منہ کر ب ت کرتے ہیں۔ اس ذیل میں‘ فقط یہ دو ش ر ملاحظہ ہوں
کہ اپنوں سے بھی بدظن بہت ہیں
165
کہ لنک ہے یہ راون بہت ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخصت اے عظمت جنوں کہ یہ ں
عقل م ی ر خیر وشر ٹھہری
انہوں نے غزل میں ہئتی تجربے بھی کیے ہیں۔ یہ م م ہ بڑا دل چسپ
ہے۔ مجموعہ کے ص - :پر آزاد مک لم تی غزل ہے۔ یہ غزل
ان کی جدت طرازی ک منہ بولت ثبوت ہے۔ اس غزل ک صرف ایک ش ر
ملاحظہ ہو۔
کہ روتی ہوئی شک یں ہمیں اچھی نہیں لگتیں
کہ ہے کس قدر مشکل جہ ں میں آئینہ ہون
انہوں نے اپنے اس مجوعہ کلا میں‘ ردیف کےاست م ل کے مخت ف
نوعیت کے تجربے کیے ہیں۔ ان تجربوں نے‘ ان کے کلا میں الگ
سے وق ر اور وج ہت پیدا کر دی ہے۔ اس کے س تھ غن ئیت اور
م نویت میں ہرچند اض فہ ہوا ہے۔ مثلا
ش ر ک ردیف حرف تشبیہ ہے۔ اس ک پہلا مصرعہ بھی حرف تشبیہ
ہے۔ گوی ش ر کے دونوں مصرعوں ک اختت حرف تشبیہ پر ہوت ہے۔
میری مجبوری وں ہیں پہ ی سی
وہ ہے ب اختی ر پہ ے س
166
دونوں مصرعے حروف ج ر پر خت ہوتے ہیں۔ دوسرے مصرعے میں
ب طور ردیف است م ل ہوا ہوت ہے۔
کسی کی زلف ہے ش نے کسی کے
کسی کی ہے ہوا موس کسی ک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ست روں میں چمک ہے شوخیوں کی
ش میں رنگ بکھرا ہے حی ک
حروف زم نی ب طور ردیف استم ل کرتے ہیں تو ش ر ک پہلا مصرعہ
بھی اسی قم ش ک ہوت ہے۔ مثلا
کسی کی ت نے سنی سرگذشت ہی ک تھی
و گرنہ ہ تو ہر اک داست ں میں رہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک س نس ترا ن ہی پک رت ہے
ہم رے دل میں بھلا غیر ک سم تے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ہمدرد س حل پر کھڑے تھے
طلاط میں س ینہ ڈوبت تھ
167
ردیف کی ہی کوئی ح لت‘ ش ر کے پہ ے مصرعے میں ہوتی ہے۔ اس
سے‘ ب ت حرکت میں محسوس ہوتی ہے۔ جمود ی سکتہ ط ری نہیں
ہوت ۔ مثلا
میں نے جو کچھ کہ غ ط ٹھہرا
اس کی ہر ب ت م تبر ٹھہری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے لہجے کی کھنک اچھی لگی
اپن س نس اکھڑا ہوا اچھ لگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوز ال ت ک مزہ بھی اچھ
سوزن غ کی خ ش بھی اچھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوخی ں اس کی بہت اچھی لگیں
اپن دل ڈرت ہوا اچھ لگ
ش ر ک آخری ل ظ ردیف ک ہ صوت اور ہ ق فیہ ہوت ہے۔
ہ دی گمرہ ں اسے کہیے
غ نصیبوں ک چ رہگر لکھیے
168
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی جو سیر چمن کو ج ن تو رک کے چ ن ٹھٹھک کے رکن
کبھی درختوں پہ ن لکھ کر دلوں کی دھژکن تلاش کرن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری ب تیں کوئی جھٹلا نہ پ ئے
تمھ را ن ہی سوگند ہو ج ئے
............
کس پہ تکیہ کروں امید وف کس سے کروں
پھول کو ڈستی ہوئی ب د بہ ری دیکھوں
:دونوں مصرعوں کے ردیف اور ق فیہ ہ ق فیہ ہوتے ہیں
ن سنتے ہی ترا سرخی سی رخ پر پھی ن
وہ تری تصویر کو س سے چھپ کر دیکھن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتن دشوار ہے دین میں تم ش بنن
کس قدر سہل ہے مصروف تم ش ہون
169
:ش ر کے دونوں مصرعے ہ ردیف ہوتے ہیں
درد کی شدت پی ر کی شدت ظ ہر کرتی ہے
دل میں پھ نس چھبوئے رہن اچھ لگت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملا ک ہ تھ اور کلاشنکوف عج منظر ہے
کی سنگ ہے خیر اور شر ک اچھ لگت ہے
:ہ ق فیہ اور ہ ردیف کی یہ مث ل ملاحظ ہو
ہر ایک ب ت کی وہ تو دلیل م نگتے ہیں
اور ہ ہیں کہ سحرالبی ن میں رہتے ہیں
شریف س جد کی غزلوں میں‘ ردیف کےاستم ل کی رنگ رنگی لس نی
اعتب ر سے‘ بڑی م نویت کی ح مل ہے۔ اس سے ان کے کلا میں
چ شنی اور شگ تگی میں اض فہ ہوا ہے۔ ان کے یہ ہئیتی تجربےآتے
وقتوں میں اردو غزل گو ش را کے لیے نمونہ بنے رہیں گے۔ گوی
انہوں نے‘ صدیوں کے بند دروازوں کو‘ کھول دی ہے۔ اگر اسی طور
سے‘ غزل میں تجربے ہوتے رہے‘ تو یہ اردو کی غزلیہ ش عری کے
ح میں‘ بہت ہی اچھ ہو گ اور آتے وقتوں میں‘ ش را کو اس کی
تنگ دامنی ک ‘ گ ہ نہیں رہے گ ۔
170
محتر جن ڈاکٹر ص ح
ب د التحی ت الطیبہ
بہت عمدہ تجزئیہ کی آپ نے ،داد ح ضر ہے اور کت جیسے ہی م ی
انش اللہ مط ل ہ ہو گ
ش د رہئے اور آب د رہئے
خ کس ر
اظہر
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9362.0
171
ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی تدوینی ک وش ب رہ م ھیہء نج ک ت رفی
ج ئزہ
جہ ں ح لات‘ ضروری ت‘ ح ج ت‘ ترجیح ت‘ موقع اور صورت ح ل
انس نی مزاج اور رویے میں تبدی ی لاتے ہیں وہ ں بدلت وقت اور بدلتے
موس بھی‘ ن دانستہ طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے ب عث‘ جذب ت
میں ارت ش پیدا ہوت رہت ہے۔ ہ چل سی مچ ج تی ہے۔ آدمی ج ن بھی
نہیں پ ت کہ وہ کیوں خوش‘ م یوس ی افسردہ ہے۔ موس کی ہ کی سی
تبدی ی بھی اس کے موڈ کو مت ثر کرتی ہے۔ یہ کوئی اختی ری عمل نہیں
ہوت ۔ کسی م م ے میں م وث ہونے کی صورت میں‘ اس کی شدت میں
اور بھی اض فہ ہوت ہے۔ ب ض ن گہ نی جذب تی صورتیں بھی‘ اثر انداز
ہوتی ہیں۔ ہزار طرح کے ات ر چڑھ آتے ہیں۔ یہ ات ر چڑھ اپنی ہیت
میں‘ دری ئی مدوجذر سے مم ثل ہوتے ہیں۔ مروجہ اصن ف ش ر‘ انس ن
کے جذب ت کو اپنے ق ل میں جگہ دیتے آئے ہیں‘ لیکن رت کی تبدی ی
ک ‘ ان سے اندازہ نہیں ہو پ ت ۔
برصغیر کی زب نوں‘ خصوص پنج بی میں صنف ب رہ م ہ مست مل رہی
ہے۔ اردو میں بھی یہ صنف سخن نظر انداز نہیں ہوئی۔ کئی ایک ش را
نے‘ اس صنف ش ر میں طبع آزم ئی کی ہے۔ ان میں سے ایک م تبر
ن ح جی محمد نج الدین ہے۔ آپ تیرویں صدی کے اردو اور ف رسی
کے‘ خوش سخن ش عر اور نثر نگ ر ہیں۔ آپ بنی دی طور پر صوفی
ہیں اور تصوف میں‘ لائ عزت مق ومرتبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے
172
اس صنف ش ر میں طبع آزم ئی کی ہے۔
م ہ بہ م ہ شخص کی داخ ی کی ی ت ک بی ن‘ اتن آس ن ک نہیں‘ اس کے
لیے نہ یت ب ریک بینی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرا اس ک ت
محسوس سے ہوت ہے۔ ج تک اس ک اطلا ذات پر نہیں کی ج ت
درست سے اظہ ر ممکن نہیں ہوت ۔ اس تخ ی ک ہر ش ر ذاتی محسوس
سے ت رکھت ہے۔ ح جی محمد نج الدین کی ک وش فکر ۔۔۔۔۔۔ ب رہ
م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔ میں جہ ں شخصی جذب ت کی عک سی م تی ہے‘ وہ ں
عمومی صورت ح ل کو بھی اظہ ر میں لای گی ہے۔ یوں محسوس ہوت
ہے جیسے وہ اپنی ق بی کی ی ت ک اظہ ر کررہے ہیں۔
اس تخ ی کی س سے بڑی خوبی یہ ہے‘ کہ کہیں مصنوعی پن ک
احس س نہیں ہوت ۔ خ رجی اور داخ ی احوال کے اظہ ر کے لیے فوٹو
گرافی کی تکنیک اختی ر کی گی ہے‘ جس سے ش عر کی عہدی مروج
اردو زب ن پر قدرت ک احس س ہوت ہے۔ انہوں نے‘ اس تخ ی میں
ثمثی ی انداز بھی اختی ر کی ہے۔ خو صورت تشبیہ ت ک استم ل کرتے
ہیں۔ دل موہ لینے والے مرکب ت بھی تشکیل پ ئے ہیں۔ مثلا
رین ڈراونی‘ برہ اگن‘ رخ زرد
م ہ بہ م ہ جذب ت کی عک سی کے ذیل میں ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:سے چند ایک مث لیں ب طور ذائقہ ملاحظ ہوں
س ون
س ون م س سو رنگ میں گھر گھر بسی امنگ میں پ پن اس م س
173 میں روتی رہی نسنگ
نج دین پیو ک رنی م ن ہوا اس م س میں دھرتی اور اک ش
نسدن رہے اداس
مجھ برہن
ایک بچھوا بھ دروں
نہ ج نوں ک ہوے بھ دروں رین ڈراونی گھر ن ہیں دلدار
ا تک ا لٹے نہ آدھین پر کر کرو کرت ر
س تھی بن ا کس نجم جوبن بس نہیں دوجی نس اندھی ر
برہ اگن سے میں پیو ک تین طرح کے م ر
آسوج
نجم رت آسوج نے جگ میں کی ظہور
سی‘ برہن ک دکھ دور
جگ میں جیو آپن پی ہن ہے درک ر
پھرے وے پردیسی ی ر
ک تک
ک تی میں‘ چھ تی ج ی‘ ک تی لکھی نہ یو
طرح میں سمجھ ؤں جیو
نجم ک تک م س میں س سیتل سنس ر
ج وں جیوں دھند کے انگ ر
منگسر
174 یہ منگسر م س کی رت سرد آئی
بوائی
لگی پھٹن مرے دل کی
کروں ا کی فکر اپن یہ دکھ اوپر مرے دکھ اور آی
خدای
تر ے دھن غ ستی رخ
یہ آتش ہجر سے برہن پوہ
اری پردیس پیو کو بھ گی سجن یہ پوہ رت ات سرد ہینگی
کسے یہ درد دل اپن زرد ہینگی
کہ ہوری ر رہے لوگ اور سبھی سنس ر میں سردی پڑی ہے
کوئی پچک ری ں بھر بھر جری ہے
م گھ
سکھی! یہ م ہ مہینہ آ گی ہے
ہے
کہو :ا کی کروں! کس پ س ج ؤں
سن ؤں
پھ گن
عج پھ گن کی یہ رت مست آئی
لوگ ئی
کوئی رنگ گھول کر پیت پہ ڈالے
کے م رے
175
چیت
نہیں یہ م نس ہے لائ سجن کی خو رت یہ چیت آئی
جدائی
عج اس م نس کی رت ہے سورنگی کی س نے لب س رنگ
برنگی
کہ جن نے دیکھ ‘ اسی ک دل زمیں نے سبز رنگ اپن بن ی
لبھ ی
بیس کھ
ب ل بن یہ برہنی رت آئی بیس کھ کی‘ س جن نہ مجھ پ س
در در پھرے ہراس
دے دے دھیرج لوگو رے مت م نیو م شوق ں کی ب ت
کھوس کر دل ع ش لے ج ت
جیٹھ
مرے دکھ کی دوا اب گ نہ سکھی یہ جیٹھ رت جگ بیچ آئی
پ ئی
گئی جس عش میں یہ نہ آئے ا ت ک وے ی ر ج نی
زندگ نی
م ہ آس ڑ
دو جگ میں مشہور ہے س ڈ تمھ را ن جو مل ج ں تجھ م نس میں
176
مجھ دکھی کے ش
ن گ ڈسے کو ڈر نہیں جو مل نج پی کے م ن ک نسدن ہے مشت
ج ۔ ئے۔ تری
ڈاکٹر عبدال ز س حر نے‘ ح جی محمد نج الدین کی اس ی دگ راور ق بل
قدر تصنیف پر ک کی ہے۔ ان ک ک ‘ کئی حوالوں سے لائ تحسین
ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔کے آغ ز میں انتس کے ب د تونسہ
مقدسہ کے لیے ایک نظ ‘ کےعنوان سے نظ پیش کی ہے۔ یہ نظ ان
کی تونسہ شریف سے دلی عقیدت‘ محبت اور وابستگی ک منہ بولت
:ثبوت ہے۔ ب طور ذائقہ صرف تین لائیں ملاحظہ ہوں
یہ تونسہ ہے
ابد کے ط پر رکھے دیے کی لو مس سل بڑھ رہی ہے
!اور زم نہ دیکھت ج ت ہے حیرانی کے موس میں
کت کے مقدمے میں‘ بڑے ک کی م وم ت فراہ کی گئی ہیں۔ مقدمہ
دس حصوں میں تقسی کی گی ہے۔
پہ ے حصہ میں اس صنف ش ر کے موضوع پر گ تگو کی گئی ہے۔
اپنے موقف کی تصدی و وض حت کے لیے شمی احمد اور ڈاکٹر
نورالحسن ہ شمی کے حوالے‘ درج کیے گیے ہیں۔
دوسرے حصہ میں‘ اردو میں اس صنف ش ر کی روایت‘ حیثیت
ونوعیت اور ہو نے والے ک پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
177
تیسرے حصہ میں ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے مواد کو زیر بحث
لای گی ہے۔
چوتھ حصہ‘ ح جی محمد نج الدین کی حی ت اور ان کی اردو اور
ف رسی میں تصنی ت سے مت ہے اور یہ تیس کے قری ہیں۔
پ نچواں حصہ میں‘ اس کت کی تین اش عت ہ اوران کی خوبیوں اور
خ میوں کے ب رے میں گ تگو کی گئی ہے۔
کے دو م خذ ۔۔۔۔۔ ٥ھ اور چھٹ حصہ موجودہ اش عت
۔۔۔۔۔۔ کی نوعیت و ت رف سے مت ہے۔
س تویں حصہ ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے متنی ت رف سے مت
ہے۔
آٹھواں حصہ میں‘ املا کی صورت ح ل کے س تھ س تھ‘ دیگر لس نی
امور پر بھی گ تگو کی گئی ہے۔ اس ذیل میں‘ م نوی ت کے حس س
پہ ووں کو نظرانداز نہیں کی گی ۔
نویں حصہ میں‘ موجودہ پیش کش میں مدنظر رکھے گیے ب رہ امور
درج کیے گیے ہیں۔
دسویں ی نی اختت می حصہ میں‘ ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر مق می
غیر مق می زب نوں کے مرتبہ اثرات ک ج ئزہ پیش کی گی ہے۔
درج ب لا دس حصوں کے ت رف ک مقصد یہ ہے‘ کہ ق ری ڈاکٹر
عبدال زیز س حر کی س یقہ ش ری ک اندازہ لگ سکے۔ کوئی بھی
178
ب س یقہ پیش کش‘ جہ ں پیش ک ر کے ہنر اور س یقہ ش ری کو واضح
کرتی ہے‘ وہ ں تصیف کی حیثیت اور قدروقیمت ک بھی ت ین کرتی ہے۔
مقدمہ کے مط ل ہ کے ب د‘ یہ حقیقت واضح ہو ج تی ہے‘ کہ ڈاکٹر
عبدال زیز س حر کھرے‘ ب س یقہ اور محنتی متن ش س ہیں۔ عج ت اور
ٹوٹل پورا کرنے کی ع ت بد سے‘ کوسوں دور ہیں۔
متن ص حہ سے شروع ہوت ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل
٥اش ر پر مشتمل ہے۔۔ حواشی ب طور فٹ نوٹ دیے گیے ہیں۔
حواشی‘ اس ش ری تصیف کے حوالہ سے‘ بڑے ہی ک کے ہیں۔ ان
کے حوالہ سے ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی محنت اور وس ت نظری ک
:ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔ حواشی میں
غیر مست مل‘ قدی ‘ غیرواضع‘ متروک اور کسی دوسری زب ن کے
ال ظ کے م ہی درج کیے گیے ہیں۔
ف رسی زب ن میں کہے گیے اش ر ک ترجمہ دی گی ہے۔
ش عر کسی دوسرے ش عر ک مصرع لگ ت ہے‘ تو اس کی نش ن دہی
کر دی گئی ہے۔ ش عرک ن وغیرہ درج کر دی گی ہے۔
تق ب ی صورتیں بھی پڑھنے کو م تی ہیں۔
فنی کجیوں کی نش ن دہی واضح ال ظ میں کی گئی ہے۔
تشریحی صورتیں م تی ہیں۔
جم ہ ابہ کی وض حت کردی گئی ہے۔
ل ظوں کی ہیئتی صورتوں کو واضح کی ۔گی ہے۔
179
متنی‘ لس نی‘ فنی‘ سم جی‘ تہواری‘ رسو وغیرہ سے مت امور کی‘
وض حتیں درج کر دی گئی ہیں۔
کت میں‘ اش ریہ اور کت بی ت ک اہتم کی گی ہے۔ آخر میں‘ پہ ی تین
اش عتوں کے‘ سرور کے عکس ش مل کیے گیے ہیں۔ ان تینوں میں
ایک دیون گری خط میں ہے۔ جس پہ و سے بھی‘ اس ک کو دیکھتے
ہیں‘ بہترین تدوینی س یقہ محسوس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدال زیز س حر
اس خو صورت اور ک می پیش کش کے لیے مب رک ب د کے مستح
ٹھہرتے ہیں۔
ڈاکٹر منیر کے افس نے اور مغربی طرز حی ت
https://imgur.com/account/favorites/UjAzS
180
نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ
مخدومی و مرشدی حضرت سید غلا حضور ش ہ الم روف بہ ب ب جی
شکراللہ کے ذخیرہءکت سے' ایک کت .......نم ز مترج منظو ۔۔۔۔۔۔۔۔
بزب ن پنج بی' دستی ہوئی ہے۔ اس کے مولف مولوی محمد فیروز
الدین ڈسکوی' منشی ف ضل' مدرس ای بی ہ ئی سکول' سی لکوٹ ہیں۔
انہیں اس کت کی ت لیف ک اعزاز' رائے ص ح منشی گلا سنگھ اینڈ
سنز' ت جران کت ' لاہور نے دی ۔ اس کت ک سن اش عت 1907ہے
اور یہ ہی س ل' مخدومی و مرشدی حضرت ب ب جی شکراللہ ک سن
پیدائش ہے۔ یہ کت بلاشبہ' حضرت سید ع ی احمد ش ہ کے کت خ نے
کی' ب قی ت میں سے ہے۔ اس ک واضح ثبوت یہ ہے کہ کت کے
ص حہ نمبر 17پر' ان کے ہ تھ ک لکھ ہوا ایک ش ر موجود ہے۔
ہ زی دہ تر ش عری ی پھر مخصوص اصن ف نثر کو' اد ک ن دیتے
ہیں اور انہیں ہی' زب ن کی ترقی ک ذری ہ خی ل کرتے ہیں۔ اس قس کی
ہر سوچ' حقیقت سے کوئی علاقہ نہیں۔ ہر اظہ ر' اس ک ت کسی بھی
ش بہ سے مت ہو' زب ن کی نشوونم اور اس کی ابلاغی قوتوں کو'
ترقی دینے ک ذری ہ اور سب بنت ہے۔ مروجہ ادبی اصن ف ش ر ونثر
کو اٹھ کر دیکھ لیجیے' ش ید ہی' زندگی ک کوئی ش بہ نظرانداز ہوا ہو
گ ۔ یہ ں تک کہ س ئنس اور حکمت کے امور بھی' نظر آئیں گے۔
ری ضی اور شم ی ت جیسے ش بے' اس کی دسترس سے ب ہر نہیں
رہے۔ ج ایسی صورت ہے' تو زب ن کی ابلاغی اور لس نی ترقی کے
181
حوالہ سے' دیگر ع و و فنون کی ک وش ہ کو' کیوں صرف نظر کی
ج ئے۔
ع و اسلامی سے مت ' اردو میں بہت کچھ لکھ گی ہے۔ دیگر
زب نوں سے بھی' اسلامی ع و کی کت کے تراج ہوئے ہیں۔ اس
حوالہ سے' اردو میں بہت سی مخت ف ش بوں سے مت ' اصطلاح ت
داخل ہو کر رواج ع بنی ہیں۔ ان گنت ت میح ت' اردو ش رواد ک گہن
بنی ہیں۔ ب ت یہ ں تک ہی محدود نہیں رہی' بہت سے عربی ال ظ' اردو
کے ذخیرہءال ظ میں داخل ہو کر' اردو کی ابلاغی ثروت ک ذری ہ بنے
ہیں۔ بچوں کے لیے' لات داد اسلامی لڑیچر ک شت ہوا ہے۔ غیر مس
بھی' اس ذیل میں نظرانداز نہیں کیے ج سکتے۔ ان ک مذہبی اث ثہ بھی'
اس زب ن ک زیور بن ہے۔ گوی ان مس عی کو' لس نی حوالہ سے
نظرانداز نہیں کی ج ن چ ہیے۔ م ہرین لس نی ت کو' صرف اور صرف
اردو اصن ف ش رونثر کو ہی' لس نی تی مط ل ہ میں نہیں رکھن چ ہیے۔
س ش بوں سے مت کت ک ' اس ذیل میں' پیش نظر رہن از بس
ضروری ہے۔
زیر تجزیہ کت میں نم ز کے علاوہ' منظو پنج بی میں' مخت ف مس ئل
بھی بی ن کیے گیے ہیں۔ نم ز سے م ق ت' پہ ے عربی میں' ب د ازاں
اردو میں ترجمہ کی گی ہے' اس کے ب د پنج بی میں منظو ترجمہ کی
گی ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر' کئی تراج ہیں' خدا لگتی ب ت تو یہ
ہی ہے' س دہ اور ع فہ ہونے کے س تھ س تھ' ترچمہ اور مح ورہ
182
کے اعتب ر سے' یہ ترجمہ اپنی ہی نوعیت ک ہے۔ بریکٹوں میں کچھ
نہیں لکھ گی ۔ اس لح ظ سے بھی' یہ ترجمہ خو تر ہے۔ لس نی اعتب ر
سے' اس کی فص حت اور بلاغت ک اقرار نہ کرن ' سراسر زی دتی کے
مترادف ہو گ ۔ میں اس ذیل میں مزید کچھ عرض کرنے کی بج ئے'
ترجمہ پیش کرنے کی س دت ح صل کرت ہوں۔
اللہ بہت بڑا ہے
اے اللہ تیری ذات پ ک ہے خوبیوں والی اور تیرا ن مب رک ہے
اور تیری ش ن اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی م بود نہیں
میں مردود شیط ن سے خدا کی پن ہ لیت ہوں
خدائے رحمن و رحی کے ن سےشروع
س خوبی ں اللہ کو جو س رے جہ ن ک ر ہے
بڑا مہرب ن نہ یت رح والا
انص ف کے دن ک م لک
183
ہ تیری عب دت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد م نگتے ہیں
ہ کو سیدھی راہ دکھ
ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپن فضل کی
ان کی نہیں جن پر غض ہوا
اور نہ گمراہوں کی
ایس ہی ہو
تو کہہ وہ اللہ ایک ہے
اللہ بےنی ز ہے
نہ کسی کو جن نہ کسی سے جن گی
اور نہ کوئی اس ک ہمسر ہے
اللہ س سے بڑا ہے
میرا عظمت والا ر قدوس ہے
ہے جو اس کی خوبی بی ن کرے......
اے اللہ تجھے ہی س خوبی ں ہیں
184
میرا ع لی ش ن ر قدوس ہے
س زب نی بدنی اور م لی عب دتیں اللہ ہی کے لیے ہیں
اے اللہ کے نبی تجھپہ سلا اور خدا کی رحمت اور اسکی برک ت ن زل
ہوں
ہ پراور خدا کے نیک بخت بندوں پر سلا
.....میں اقرار کرت ہوں کہ اللہ کے سوا
اور میں اقرار کرت ہوں کہ محمد اسک بندہ اور رسول ہے
اے اللہ حضرت محمد اور حضرت محمد کی آل پر رحمت ن زل فرم
جیس کہ تو نے حضرت ابراہی اور ان کی آل پر رحمت ن زل کی
یقین تو خوبیوں والا بزرگی والا ہے
اے اللہ مجھے نم زوں ک ق ئ کرنے والا بن دے
اولاد کو بھی اور خدای میری دع منظور فرم .....
اے اللہ اور میرے م ں ب پ اور س مومنوں کو بخشدے ج قی مت ق ئ
ہو
اے اللہ ہم را دنی میں بھی بھلا کر اورآخرت میں بھی بھلا اور
185
ہ کو عذا دوزخ سے نج ت دے
ت پر سلا اور اللہ کی رحمت
میں ب طور تبرک کت کے مت ص ح ت کی عکسی نقول بھی پیش
کر رہ ہوں۔ دو جگہ نقطے لگ ئے گیے ہیں' وہ ں سے ص حہ پھٹ ہوا
ہے۔ میں نے اپنی طرف سے' ایک ل ظ ک ی زی دہ نہیں کی ۔ ٹ ئپ بھی
اسی خط کے مط ب کی ہے۔