201
م ں کے چہرے پر
س س ک چہرا لگ ج ت ہے
202
ان دیکھے کھیل
سورج کرنوں سے
شبن کھیچنے چلا تھ
کہ اس کی حدت نے
زیست کے ہونٹوں پہ
پی س رکھ دی
جیون ک ن
خون جکر پی کر
ہستی کی ن تم آرزوں پر
مسکرای
آد سٹپٹ ی
حی ت ک س ر
موت کی دہ یز ت ک لے آی
سوچ ک اک دیپ جلا
زیست مرتیو کے در کی
203
درب ن کیوں بنی ہے
گ جر سی ک تب دل سہی
سی تو نہیں ہے
پیٹ سول کے سب عن صر
اس کے پوست کی روح میں ہیں
جن سے مرتی ت ک
برس ت کے موس کی
آنکھ مچولی کے
ان دیکھے کھیل
ہ کیوں کھ تے ہیں؟
204
کس حوالہ سے
ظ جبر ست
اکھ ڑ پچھ ڑ
توڑ پھوڑ
ق تل سے راہ و رس
تخ ی و تزءین
زندگی
کس حوالہ سے
تیری پہچ ن کروں؟
205
لہو ک تقدس
ک ی ں اور گلا و کنول بھی
پیر مغر کی ٹھوکر میں ہیں
میرے دور ک ٹیپو
غیرت کے لہو ک تقدس
بھوک کے آءینہ میں
دیکھت ہے
206
ک نچ دریچوں میں
جیون کے
ک نچ دریچوں میں
دیکھوں تو
ارم نوں کے موس جھ سیں
ن دیکھوں تو
ک لا پتھر ٹھہروں
207
پہرے
کوئی غلا پیدا نہیں ہوت
م ش ط قت توازن
سم ج کی رت کے س تھ بدلتے ہیں
بھوک بڑھتی ہے تو
دودھ خشک ہو ج ت ہے
خواہش احتج ج ضرورت
زنجیر لیے کھڑے ہوتے ہیں
بھوک کے ہوکے
سوچ کے دائرے
پھیل ج تے ہیں
وس یل سکڑ ج تے ہیں
بغ وت پر کھولے تو
سوچ پر پہرے لگ ج تے ہیں
کوئ غلا پیدا نہیں ہوت
208
م ش ط قت توازن
سم ج کی رت کے س تھ بدلتے ہیں
209
بنی د پرست
چ ندنی
سردی ک دیو کھ گی
بےنور آنکھوں کے سپنے
کون دیکھت ہے
شو کیس ک حسن
حن بندی کے ک لای ہوت ہے
بیوہ سے کہہ دو
چوڑی ں توڑ دے
ہ کنوارپن کے گ ہک ہیں
سچ ئی کی زب ن پر
آگ رکھ دو
بنی د پرست ہے
گری کی لڑکی
ڈولی چڑھے کیونکر
210
گربت کے کینسر میں مبتلا ہے
صدی ں بیت گئی ہیں
ج سے میں نے ت کو سوچ ہے
میں میں‘ میں ک رہ ہے
گنگ جل ک ہر قطرہ
گیت کے بولوں
گرنتھ کے شبدوں
فرید کے ش وکوں
پھول کے گ لوں کو چھوتی شبن
س گر کے اندر
سیپ کی بند مٹھی میں موتی
رتجگوں کی سوچوں
دع کو اٹھتے ہ تھوں
211
س ون رتوں کی ہڑ برس تی آنکھوں
آگ میں ڈوبی س نسوں ک
ح صل ت ہو
رمز مجھ پر کھل گئ ہے
میرے سوچ کی
س ری شکتی ک د خ ت ہو
ج سے میں نے ت کو سوچ ہے
میں میں‘ میں ک ہے
میں کو س ر کیے
صدی ں بیت گئ ہیں
212
ک جل ابھی پھیلا نہیں
تیری آنکھ ک ک جل ابھی پھیلا نہیں
تیرے بولوں کی ک ی ں جوان ہیں
طلائی چوڑے کی کھنک
ک کل سے جدا ہے
تیری دنی میں کوئی اور تھ
میں کیسے م ن لوں
تو وہی ہے
جس نے میرے سوچ کے
دروازے پر
دستک دی تھی
سوچن یہ ہے
کس کردہ جر کی سزا
سقراط ک زہر ہے
میرے سوچ پر
213
خوف ک پہرا ہے
روبرو راون ک چہرا ہے
مجھ کو سوچنے کیوں نہیں دیتے
ذات کے ذروں کو
کھوجنے کیوں نہیں دیتے
بند کواڑوں کے پیچھے
سوچنے کی آرزو بیٹھی ہے
جو جینے نہیں دیتی مرنے نہیں دیتی
214
پ کوں پر ش
پ کوں پر گزری ش
ی د ک نشتر
ہر صبح راہ ک پتھر
سورج بین ئ ک منبع
آنکھیں کھو بیٹھ
ہر آش زخمی زخمی
ہر نغمہ
عزائی ی اسرافی ی
خون میں بھیگ آنچل
گنگ ک
ہر رستہ چپ ک قیدی
دری کن رے منہ دیکھے ہیں
بے آ ندی میں
گلا کی ک شیں
215
پ نی پ نی
ہونٹ
س نپوں کے گھر
پ کوں کی ش
ہر ش پر بھ ری ہے
ڈرت ہے اس سے
حشر ک منظر
216
اک پل
اک پل
آک ش اور دھرتی کو
اک دوجے میں بن کر
رنگ دھنک اچھ لے
دوج پل
جو بھیک تھ پہ ے کل کی
ک سے سے اترا
اترات اٹھلات
م تھے کی ریکھ ٹھہرا
کرپ اور دان ک پل
پھن چکر م را
س وٹ سے پ ک سہی
پھر بھی
حنطل سے کڑوا
217
اترن ک پل
ال ت میں کچھ دے کر
پ نے کی اچھ
ح ت سے چھل
ہر فرزانہ
عہد سے مکتی چ ہے
ہر دیوانہ
عہد ک قیدی
مر مٹنے کی ب تیں
ٹ لتے رہن
کل ت کل
ج بھی
پل کی بگڑی کل
در ن نک کے بیٹھ بےکل
218
جیون سپن
آنکھ سمندر میں تھ
جیون سپن
کہ کل تک تھ وہ اپن
ج سے اس گھر میں
چ ندی اتری ہے
میرے من کی ہر رت
پت جھڑ ٹھری ہے
ب رش صحرا کو چھو لے تو
وہ سون اگ ے
مری آنکھ کے قطرے نے
جنت خوابوں کو
ی لوک میں بدلا ہے
کیسے چھو لوں
تری مسک نوں میں
طنز کی پیڑا
219
پیڑا تو سہہ لوں
پیڑا میں ہو جو اپن پن
آس دریچوں میں
تری ن رت ک
ب شک ن گ جو بیٹھ ہے
ہونٹوں پر مہر صبر کی
جیب پر
حنطل بولوں کی سڑکن
ی د کے موس میں
خوشبو کی پری ں
ی د کی ش موں ک
ج بھنگڑا ڈالیں گی
آنکھ ہر ج ئے گی
آس مر ج ئے گی
آنکھ سمندر میں تھ
جیون سپن
220
جینے کو تو س جیتے ہیں
جینے کو تو س جیتے ہیں
ہر س یہ زخمی
جنگل کے پنچھی
چپ کے قیدی
بربط کے نغمے
ڈر کے ش ے پیتے ہیں
کرنے کے جذبے
روٹی کے بندی
دری ک پ نی
بھیگی ب ی
حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں
جو خشکی کی کن من کو
ب رش سمجھے
منہ کھولے
221
س آبی بھ گے
دوڑے
کچھ کٹ مرے
کچھ تھک گرے
جو چ تے گئے
خوابوں کی بستی بستے ہیں
جینے کو تو س جیتے ہیں
222
اس سے کہہ دو
اس سے کہہ دو
دو چ ر ست اور ڈھ ئے
یتیمی ک دکھ سہتے
بچوں کے ن لے
ٹوٹے گجروں کی گریہ زاری
ج تے دوپٹوں کے آنسو
عرش کے ابھی
اس پر ہیں
اس سے کہہ دو
زنداں کی دیواروں ک مس لہ بدلے
بےگنہی کی حرمت میں
امیر شہر کی لکھتوں ک
نوحہ کہتی ہیں
اس سے کہہ دو
223
ان کی پ کوں کے قطرے
صدیوں بے توقیر رہے
پھر بھی ہونٹوں پر
جبر کی بھ میں ج تے
سہمے سہمے سے بول
مسیح بن سکتے ہیں
اس سے کہہ دو
کڑا پہرا ا ہٹ دے
زنجیریں کسی ط میں رکھ دے
بھ گ نک نے کی سوچوں سے
قیدی ڈرتے ہیں
آزاد فض ؤں
بےقید ہواؤں پر
سم ج کی ریت رواجوں
وڈیروں کے کرخت مزاجوں کے
پہروں پرپہرے ہیں
224
آءین کے پنے
تنکوں سے کمتر
رعیت کے ح میں
ک کچھ کہتے ہیں
س دفتر
ط قت کی خوشنودی میں
آنکھوں پر پٹی ب ندھے
ک نوں میں انگ ی ٹھونسے
اپنی خیر من تے ہیں
جورو کےموتر کی بو نے
سکندر سے مردوں سے
ظ کی پرج کے خوا چھین لیے ہیں
دن کے مکھڑے پر
راتوں کی ک لک لکھ دی ہے
اس سے کہہ دو
دو چ ر ست اور ڈھ ئے
225
ابوزر برقی کت خ نہ