101
پ کوں پر ش
پ کوں پر گزری ش
ی د ک نشتر
ہر صبح راہ ک پتھر
سورج بین ئی ک منبع
آنکھیں کھو بیٹھ
ہر آش زخمی زخمی
ہر نغمہ
عزائی ی اسرافی ی
خون میں بھیگ آنچل
گنگ ک
ہر رستہ چپ ک قیدی
دری کن رے منہ دیکھے ہیں
بے آ ندی میں
گلا کی ک شیں
102
پ نی پ نی
ہونٹ
س نپوں کے گھر
پ کوں کی ش
ہر ش پر بھ ری ہے
ڈرت ہے اس سے
حشر ک منظر
103
آج بھی
بہت سے گ ہوئے
بہت سے مر گیے
کچھ پس ست کیے
کچھ عد م نویت کی ص ی چڑھے
ہ ں‘ ش ہ نواز
ت ریخ کی لوح پر زندہ رہے
وہ ہی وقتوں کے ہیرو ٹھہرے
جن پر ملاں کی مہر ثبت ہوئی
انہیں کون جھٹلائے
سچ ک آئینہ دکھ ئے
‘جھوٹ
م نویت کے س تھ زندہ رہ
سکھ ک س نس لیت رہ
احس س بن
104
عزت کی دلیل ہوا
م بدءتوقیر میں پڑا
یہ صدیوں ک ورثہ
ط میں رکھ کر
‘کوئی کیوں
اس ل ظ کو تلاشے
جو م شی روایت نہیں
سم جی حک یت نہیں
بےسر وادی م ش ہو کہ
ش ہ کے صن کدے
شہوت کی عشرت گ ہوں
گنج ن آب د صحراؤں میں
اس ک کی ک
سچ کے شبدوں کی خ طر
ف قہ کی کربلا سے گزر کر
ح کے ہم لہ کی چوٹی
105
کوئی کیوں منزل بن ئے
سپیدی لہو
‘ک کبھی
کسی سرمد کی ہ س ر رہی ہے
حم دی کے فتوے نے
راکھ گنگ کے حوالے نہ کی
ش ہ نواز حرف اور نقطے
مظ وموں کی شری ت ہے
‘آج بھی
لوح فہ و احس س کے ایوان پر
ان کی سچ ئی ک ع لہرات ہے
11-7-1978
106
کس منہ سے
چ بھرتے ہ ت‘ اٹھ نہیں سکتے
ہونٹوں پر فقیہ عصر نے
چپ رکھ دی ہے
کتن عظی تھ وہ شخص
گ یوں میں
رسولوں کے ل ظ ب نٹت رہ
ان بولتے ل ظوں کو‘ ہ سن نہ سکے
آنکھوں سے‘ چن نہ سکے
ہم رے ک نوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں
آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے
ہ ج نتے ہیں‘ وہ سچ تھ
قول ک پک تھ
مرن تو ہے‘ ہمیں ی د نہ رہ
ہ ج نتے ہیں اس نے جو کی
107
ہم رے لیے کی
جی تو ہم رے لیے جی
کتن عجی تھ
زندہ لاشوں ک د بھرت رہ
سوئے صلیب چلا
نیزے چڑھ ہ دیکھتے رہے
مرا جلا راکھ اڑی ہ دیکھتے رہے
اس کے کہے پر دو گ تو چلا ہوت
کس منہ سے ا
اس کی راہ دیکھتے ہیں
ہ خ موش تم ش ئی
مظ ومیت ک فقط ڈھونگ رچ تے ہیں
بے ج ن جیون کے دامن میں
غیرت کہ ں جو رن میں اترے
ی پھر
پس ل اس کی مدح ہی کر سکے
108
چ و دنی چ ری ہی سہی
آؤ
اندرون ل دع کریں
ان مول سی مدح کہیں
109
وقت کیس انقلا لای ہے
وقت کیس عذا لای ہے
ت ک لائ محبت ہو
آئینے میں اپنی شکل تو دیکھو
ق صد یہی جوا لای ہے
گوی خط میں عت لای ہے
جو سر کے بل چ ے تھے
ن ک ٹھہرے
پت جھڑ گلا لای ہے
ذلیخ ک عش سچ سہی
وہ برہنہ پ ک چ ی تھی
پہیہ عمودی چ ل چلا ہے
زندہ قبر میں اتر گی ہے
آنکھ دیکھتی نہیں
ک ن سنتے نہیں
110
وقت کیس انقلا لای ہے
ب رش قرض دار ب دلوں کی
ب دل بین ئی کو ترسیں
زخمی زخمی
ہر سہ گن کی کلائی
بیوہ سولہ سنگ ر سے ہے
وقت کیس انقلا لای ہے
وقت کیس عذا لای ہے
111
سورج ڈو رہ ہے
میں جو بھی ہوں
چ ند اور سورج کی کرنوں پر
میرا بھی تو ح ہے
دھرتی ک ہر موس
خدا ک ہر گھر
میرا بھی تو ہے
قرآن ہو کہ گیت
رام ئن ک ہر قص
گرنتھ ک ہر نقط
میرا بھی تو ہے
تقسی ک در
ج بھی کھ ت ہے
لاٹ کے دفتر ک منشی
ب رود ک م لک
112
پرچی ک م نگت
عط کے بوہے
بند کر دیت ہے
را اور عیسی کے بول
ن چوں کی پھرتی
بے لب سی میں رل کر
بے گھر بےدر ہوءے ہیں
دفتری ملاں کےمنہ میں
کھیر ک چمچہ ہے
پنڈت اور ف در
ہ ں ن ں کے پل پر بیٹٹھے
توتے کو ف ختتہ کہتے ہیں
دادگر کے در پر س ءل
پ نی ب وت ہے
مدرسے ک م شٹر
کمتر سے بھی کمتر
113
ک لج ک منشی
جیون دان ہوا کو ترسے
ق ک دھنی
غلاموں کے س پیتے
برچھوں کی زد میں ہے
س اچھ ک ت ک
سر م تھے پر رکھنے والے
گورا ہ ؤس کے چمچے کڑچھے
ط قت کی بی ی میں
کربل کربل کرتے یہ کیڑے
ہ نیمن اور اجمل ک منہ چڑاتے ہیں
مس ئل کی روڑی پر بیٹھ
میں گونگ بہرا بے بس زخمی
ن نک سے بدھ
لچھمن سے ویر تلاشوں
مدنی کری کی راہ دیکھوں
114
ع ی ع ی پک روں کہ
سورج ڈو رہ ہے
115
بن م نگے
نیچے ہ تھ کی جنت
دل والوں کو ک خوش آتی ہے
ت نے کیوں سوچ لی
میں کوت ہ کوس سہی
وہ تو
تو کی بستی بست ہے
چترک ر کوئی غیر نہیں
کوئی دور نہیں
وہ ج نت ہے کہ
کی ان ک ہے
بن م نگے
ان کو مل ج ئے گ
116
سسے
کوہ نور ک ہیرا لے گیے تھے وہ
ک بہ بھی لے ج ئیں کے ا
رک نہ ج ئیں کہیں
شرا وشب کے
خوشگوار س س ے
غیر م تبر
عرش پر فرشتے
آد کے حضور
سجدہ ریز رہے
زمین پر آد
غیر م تبر ٹھہرا
117
یقینی سی ب ت ہے
یقینی سی ب ت ہے
تمہیں کیوں یقین نہیں آت
کربلا کی ب زگشت
پہ ڑوں میں کھو گئی ہے
سہ گنوں نے
سی ہ لب س پہن لی ہے
ان کے مردوں کے لہو میں
یزید کی عط ؤں ک قرض
اتر چک ہے
ہ ں مگر ج
پہ ڑوں کو زب ن مل ج ئے گی
یقینی سی ب ت ہے
ب زگشت کے ہ زب ن
مجبور زندگی کو
118
آزادی کو
ل سڑک دیکھ سکیں گے
م ہ ن مہ سوشل ورکر لاہور' م رح۔اپریل 1992
119
فقیروں کی بستی میں
فقیروں کی بستی میں
کچھ ووٹ کے شخص ہیں
کچھ نوٹ کے شخص ہیں
کچھ ربوٹ سے شخص ہیں
اندر لوک سے
پروانہ جس کےن آت ہے
وہی ک سہءسوال پرموٹ ہوت ہے
فقیروں کی بستی میں
اسلا کی بوت یں
اندر لوک کی ہوتی ہیں
شرا ی لوک سےآتی ہے
لیبل گورا ہ ؤس میں لگت ہے
اسمب ی کے اکھ ڑے میں
رقص ابیس ہوت ہے
120
گری گ یوں میں
مقدر سوت ہے
بھوک ج گتی ہے
لوگ پی س پیتے ہیں
فقیروں کی بستی میں
کون جیت ہے کون مرت ہے
ک ت ریخ ک ور بنت ہے
سچ کےجو سپنےبنت ہے
نیزےپرتم ہوت ہے
فقیروں کی بستی میں
جسموں کےچیتھڑے اڑتےہیں
انس ن نیلا ہوت ہے
یہ س برسرع ہوت ہے
لوگ پی س پیتے ہیں
فقیروں کی بستی میں
مقدر سوت ہے
121
بھوک ج گتی ہے
لوگ پی س پیتے ہیں
فقیروں کی بستی میں
122
آؤ کوئی رشتہ استوار کریں
میں تری آنکھوں میں رہت ہوں
ت مری دھڑکنوں میں بستے ہو
مرے سپنوں میں ترا بسیرا ہے
تری سوچوں میں مرا ڈیرا ہے
بچھڑیں تو م نے ک بہ نہ تلاشیں
لمس سے کوسوں دور رہے
اک دوجے کی س نسوں میں
رچ بس سے گئے ہیں
ج دو ٹونے کو
میں نے ک کبھی م ن ہے
ترے ج دو گر ہونے پر
مجھ کو یقین ہونے لگ ہے
تری آنکھوں میں
آش ؤں کی کہکش ئیں ہیں
123
ترے ہونٹوں سے
افسرائیں گیت چرائیں
مری نظمیں
ترے قہقہوں سے شکتی م نگیں
مرے تری ذات سے
ترے مری ذات سے
لاکھوں ان ج نے
بےن رشتوں ک رشتہ ہے
ہ اپنے سہی
مگر ہ اک دوجے کے کی ہیں؟
آؤ کوئی رشتہ استوارر کریں
کہ تکمیل ذات‘ تکمیل ہستی ہے
124
پ گل پن
آنچ دریچوں میں
دیکھوں تو
خواہش کے س موس ج تے ہیں
ن دیکھوں تو
احس س سے ع ری
اوراب یس ک پیرو ٹھہروں
ج نے کے موس میں
آنے کی سوچیں تو
گنگ الٹی بہتی ہے
دن کو
چ ند اور ت روں ک سپن
پ گل پن ہی تو ہے
من کے پ گل پن کو
وید حکی کی ج نیں
125
جو ج نے
عش کی دنی ک ک ب سی ہے
126
دل کی بستی
کچھ کہنے کی اچھ ہو تو
اپنے نیتر کے در بند کر دو
بص رت کے کت دریچوں میں
کہرا بن دو
کہن سنن ت پر رکھ
ک یوں سےکومل جذبوں پر
کی گزرے گی
پگ ے دل کی بستی
تذبذ کے تند بھوک سے
کیونکر اور کیسے
بچ پ ئے گی
127
بے چہرا جیون
ش آنکھوں میں
ت روں ک جنگل
پی س کن رے
ہراس میں ڈوبے
کنگ کے دامن میں
ضد ک ک جل
سورج کے ن فہ میں
شک ک دھواں
ش دا اج لے
تدبر کے ق تل
گھر کے م لک چ ندی لوگ
غربت رشتے
آگ کی پ ئل
تت ی رنگوں میں
128
بے چہرا جیون
گھ ئل گھ ئل
عش آنکھوں کے
پتھر خوابوں میں
آس کے گونگے بہرے بدل
خون چراغوں میں
حسنی نے آئنہ رکھ
صبح ہوئی
ش کی س ئل
جون1978
129
سرا ک جنگل
ترے کوچے کی بہ روں کے موس
آس ک مسکن
مضطر روحوں ک گ شن ٹھرے
سوچت ہوں
مری وف کے مروارید
ترے دامن سے کیوں بچھڑے
کیوں راکھ ہوئے
کیوں خ ک ہوئے
ترے وعدوں کے سیپ
دکھ کی کتھ کیوں کہتے ہیں
پھر کوئی جیون بستی سے کہت ہے
ایس تو ہوت ہے
ایس تو ہون ہے
یہ دنی سرا ک جنگل
130
جو کل تھ آج کہ ں
کل بےکل تھ بےکل رہے گ
جیون بستی کی یہی روایت رہی ہے
یہی دستور رہے گ
131
بن سوچے سمجھے
بن سوچے سمجھے
کہرے کی بھ ش
مکڑی کے مدھر گییتوں پر
مر مٹن
سچل دل والوں کے من کی
ریت رہی ہے
132
س رے گن
اندھے کو
بین ئی مل بھی ج ئے تو
کی ح صل
من کی ریکھ ؤں کو
وہ پڑھ نہ پ ئے گ
تخ ی کے س رے گن
ہر آنکھ میں ہوں
ضروری تو نہیں
133
تقدیر ہستی
تیرے دیکھے سے
میری روح میں مس م نی اتری
تری یکت ئی
خدا کی یکت ئی پر
حجت ٹھہری
تیری آنکھوں میں
خ د و سورگ کے نظ رے س رے
تقدیر ہستی
تیرے قدموں کی خ ک میں
خ ک ہوتی ہے
134
آج یہ کھلا
جیون کی رگوں سے
س ری شبن نچوڑ کر
کل تک اترات رہ
آج مگر یہ کھلا
وہ س
ترے عر جبین کے
اک قطرے کے پ سنک نہ تھ
135
اب یس ک ہمس یہ
ترے در پر
مرنے ک مزا چھوڑ کر
خ د کی تمن
جس روسی ہ کوہو گی
اب یس ک ہمس یہ رہ ہو گ
136
ثمر
سورگ کے دیو
عرش کے فرشتے س رے
مسجد ومحرا
ک یس ء و مندر س رے
دیر وحر
اہل صوف کے
میکدے س رے
کہکش ؤں کے س س ے
زیست کے واسطے س رے
نمو کی شبن طرازی ں
بہ روں کی زمزمہ پردازی ں
حضور کے عش کی
مسک نوں ک ثمر ہیں
137
کھیل
میر وغ ل پر
سخن کے
جو صحی ے اترے
تیری اداؤں میں
دفتر رز بن کر
آنکھ مچولی ک کھیل
کھی ے ہیں
138
برس ہوئے
جس مٹی سےاٹھ
اس مٹی ک رشتہ
برس ہوئے
اپنے ہونٹوں پر
چپ کی مہر ثبت کیے
بوذر کی شکتی
ڈھونڈ رہ تھ
139
ک رفص حت
ہ ت میں ش خ گل
منہ میں
ق ش مصری کی
کھیسے میں
ت ری ک ب
امیر شہر مصروف ہے
ک رفص حت میں
140
سی ست
ح لات ک رون وہ روت رہ
غزل میں لکھت رہ
کرسی وہ چڑھ بیٹھ
سوچ کی سولی میں لثک
141
ک نچ دریچوں میں
جیون کے
ک نچ دریچوں میں
دیکھوں تو
ارم نوں کے موس جھ سیں
ن دیکھوں تو
ک لا پتھر ٹھہروں
142
قرآن راج
چپ ہو کہ مجھ میں ت بولتے ہو
ہے دل کے بربط پرانگ ی تیری
چپ ہو کہ میرا دل تیرا مسکن ہے
گھر کے ب سی
اپنی مرضی کے م لک ہوتے ہیں
چپ ہو کہ میرے ش ور کی ہر کھڑکی میں
تیرا چہرا ہے
کھڑکی بند کرتے ہیں تو د گھٹت ہے
کھڑکی کھولے رکھن
اندر کی ب توں کو ب ہر لان ہے
ب ہر کے س رے موس
راون بستی کے منظر ہیں
چپ ہو کہ س رے موس تیرے ہیں
آنکھ دروازہ کھولو کہ
143
تیرے ہونٹوں کی مستی
اپنی روح کے کورے پنوں پر
آنکھوں سے چن کر رکھ دوں
چپ ہو کہ چپ میں سکھ ہے
چپ کے دامن میں
ہ ں اور ن ں کی لاکھوں گ نٹھیں ہیں
چپ ہو کہ ہر گ نٹھ
برہم کے بردان پر کھ تی ہے
بردان تو قسمت کے کھیسے ک بندی ہے
قسمت اچھی ہوتی تو
راکھشش جیون پر اس
قرآن راج نہ ہوت ؟
144
پہلا حوالہ
ٹپ ٹپ ٹپ
یہ بے ہنگ شور نہیں
آواز
م نویت میں زندہ رہتی ہے
م نویت
کت حی ت ک پہلا حوالہ ہے
ط
خون کے ہر ذرے میں
خوابوں کے
بے نوا دریچوں میں
س نس کی ہر آہٹ پر
ہجرت پر م ءل رہتی ہے
145
کلا زیر عت ہے
مرے دور کے سچ نے
طلا م نگ لی ہے
زب ن دراز ہے
دو اور دو کو
چھے نہیں کہت
اخلاص کی چڑی
اپنے گھونس ے کے
تنکے لے گئی ہے
کہ کلا
زیر عت ہے
146
غربی ہبل
س گر پی کر بھی
ہر قطرہ پی س سمنر
پ کوں ک س ون
ج نے ک برسے گ
فرات ک دامن
ش ے لے کر بھ گ ہے
س حل کس سے شکتی م نگے
مٹھی بند کر لو
پ کوں کے اس کن رے پر
راتوں کے سپنے
سورج کی آنکھوں میں بھی
بھیک کے ککرے
ک لی زل وں کے مندر
مسکن ہیں ک لی ج والوں کے
147
ج نے سے پہ ے
آنکھوں میں دھواں بھر لو
چ ند ک چہرا
راون کی شکتی لے کر
عیسی کے خون سے
اوب م ہی ر
لکھ رہ ہے
148
واپسی
بش رت ک ج در وا ہوا
میں نے سوچ
پہ ے ابنی قسمت ک ح ل پڑھوں
واں کچھ بھی نہ تھ
جو مرا ہوت
لہو پسینہ
جو مرا تھ
مرے رقیبوں ان کے بچوں
ان کے کتوں اور سؤروں کودرندگی‘ درندوں کی فطرت
حدت بخش رہ تھ
میں نے پھر سوچ
جنگ وں میں ج بسوں
درندوں ک وتیرا اپن لوں
انس ن تھ
149
جنگ وں میں کیسے ج بست
محنت بنی آد ک شیوا
دو فطراتیں
جنگل ک سینہ سم پ ءے گ ؟
کچھ نہیں کو چو کر
میں نے
بش رت ک دروازہ بند کر دی
150
مجھے اک خوا لکھن ہے
مجھے اک خوا لکھن ہے
آنکھوں میں مہت لکھن ہے
لکھ تو دوں
آنکھیں ہی کی
کندھوں سے جدا سر
بل کے ہ ں
گروی پڑا ہے
مرے پرکھوں کی یہ کم ئی
اس کے ہ تھ کیسے آئی
مرے ہ تھوں ک تراش صن
اپنی عی شیوں کے عوض
کچھ ٹکوں میں
کہیں اس کو نہ دے آی ہو
پوچھن تو ہو گ