151
میرا سر بریدہ جس
محتس کے پ س ج ءے کیسے
فرض ک قرض نبھ ءے کیسے
عہد آج ک
دولت عزیز رکھت ہے
اپنی آنکھوں کے عوض
دے سکت ہوں میں
خضر کی چ پ
جو مری ضرورت نہیں
مجھے اک خوا لکھن ہے
آنکھوں میں مہت لکھن ہے
152
بردان
ت آرہے ہو
اس خبر کے
میں صدقے میں واری
میرا دل تمہ را
میری ج ن تمہ ری
دل کی ک ی ں
میرے شو کے
کھ تے گلا س رے
روح کی قوس قزاح کے رنگ
میری س نسوں کے رب و چنگ
تیرے قدموں میں بکھرنے کو
دہ یز پر بیٹھی بے قرار آنکھیں
ترے قدموں پر
اشکوں کے مروارید
153
نچھ ور کرنے کو
ترے منہ کے
الہ می شبدوں کے ج دو
میری سم عتوں پر
عش کے گرنتھ کی تکمیل میں
تیرے آنے کے رستوں کو
برہم کی کرپ ک بردان سمجھیں
154
چ ہت کے کنول
میں نے ش ید پ پ کی
اس کو اپنی سوچوں میں بس ی
دل سنگھ سن پر بیٹھ ی
اس کے ہونٹوں کی تھرکت کو
محبت ک صحی ہ سمجھ
آنکھ کے اک اش رے پر
اپنی منش کے رنگین پنے
کل کے حسین سپنے
تی گ کے قدموں میں رکھے
کہ اس کی ان کو تسکین پہنچے
بشری چہرے پر
گلابوں کی رنگت رقص ں رہے
مسک نوں کی شرارت رہے
آ حیواں ڈھونڈنے نکلا
155
ہونٹوں کی جنبش کو
کن ک راز سمجھ
آک ش کے اس پ ر بیٹھ
ا یہ سوچے ہوں
سیڑھی کیچھنے ک
اس نے کیوں پن کی
گلا جوڑے میں ہو
ضروری تو نہیں
قبریں بھی تو
گلابوں کی راہ دیکھتی ہیں
چ ندی ب لوں پر
گیندا ک اٹھت ہے
جھریوں کے خوا
گھر کے نہ گھ ٹ کے رہتے ہیں
آک ش کے اس پ ر بیٹھ
ا یہ سوچے ہوں
156
چ ہت کے کنول
جیون کی راہوں میں
اعتب ر کیوں نہیں رکھتے
157
در وا کر دو
در وا کر دو
پنچھی ش کو لوٹ آتے ہیں
ب غی جذبے
س گر سے نہ ٹکرا ج ئیں
ان پڑھ ہیں
جگ کی ریت سے بے بہرہ ہیں
در وا کر دو
لوٹ آئیں گے
اپن گھر اپن ہوت ہے
ش کو ب ہر رہن ٹھیک نہیں
ق نون کے رکھوالے
چوراہے پر
ٹکٹکی لے کر بیٹھے ہیں
ص ی پر لٹک دو
158
م تی ک فتوی ہے
اپنوں کے ہ تھوں میں
ٹکوے ہیں برچھے ہیں
در وا کر دو
سورج ڈو رہ ہے
لوٹ آئیں گے
پنچھی ش کو لوٹ آتے ہیں
159
بت
وقت وقت کی ب ت ہے
سہ رے ڈھونڈتے تھے مجھ کو
سہ را ڈھونڈ رہ ہوں میں
160
ج بھی
آسم ن سے
ج بھی
من و س وی اترت ہے
زمین زرد پڑ ج تی ہے
کہ بےمحنت ک ثمرہ
حرکت کے در بند کر دیت ہے
سجدہ سے منحرف مخ و کے قہقے
اس س کی دھڑکنیں
چھین لیتے ہیں
آسم ن سے
ج بھی
من و س وی اترت ہے
161
آج یہ کھلا
جیون کی رگوں سے
س ری شبن نچوڑ کر
کل تک اترات رہ
آج مگر یہ کھلا
وہ س
ترے عر جبین کے
اک قطرے کے پ سنک نہ تھ
162
س ج نتے ہیں
کچھ کہنے کی اچھ ہو تو
اپنے نیتر کے در بند کر دو
بص رت کے کت دریچوں میں
کہرا بن دو
کہن سنن ت پر رکھ
ک یوں سےکومل جذبوں پر
کی گزرے گی
پگ ے دل کی بستی
تذبذ کے تند بھوک سے
کیونکر اور کیسے
بچ پ ئے گی
163
سج سنور کر
تمہ رے آنے کی آش
دن بھر
مجھ کو زندہ رکھتی ہے
سرج کے س تھ
میں بھی مر ج ت ہوں
غر لہو اگ ت ہے
ط وع کے س تھ
ی س کی لحد سے
آس مجھے اٹھ لاتی ہے
میری آنکھیں
میری پ کیں
جیون راہوں میں
سج سنور کر
بیٹھ ج تی ہیں
164
سورج کرنوں سے
شبن کھیچنے چلا تھ
کہ اس کی حدت نے
زیست کے ہونٹوں پہ
پی س رکھ دی
جیون ک ن
خون جکر پی کر
ہستی کی ن تم آرزوں پر
مسکرای
آد سٹپٹ ی
حی ت ک س ر
موت کی دہ یز ت ک لے آی
سوچ ک اک دیپ جلا
زیست مرتیو کے در کی
درب ن کیوں بنی ہے
گ جر سی ک تب دل سہی
165
سی تو نہیں ہے
پیٹ سول کے سب عن صر
اس کے پوست کی روح میں ہیں
جن سے مرتی ت ک
برس ت کے موس کی
آنکھ مچولی کے
ان دیکھے کھیل
ہ کیوں کھ تے ہیں؟
166
بھر بھس ہوئے
ب رش کے ہر موس میں
زیست
ہری لی کی دع م نگے
پی س کے دامن میں
پن ہ کی آہیں
جبر کی بج یوں کے ڈر سے
بے بس بےکس جیون کے
آنچل میں
سہمی سہمی آنکھوں کے
بھر بھس ہوئے
167
رہنے دو
قبر ک در وا ہوا
بولا
قی مت ہو گئی ہے؟
ب ہر کرخت اندھیرے تھے
اج لوں میں
سرخی ڈو گئی تھی
نہیں
مجھے یہیں رہنے دو
168
آج کو عظی کر دو
کل
ارضی خداؤں ک منکر
خوف ب ری سے لبریز
پی نبی ک نقی تھ
آج کو
عظی کر دو
کہ آج‘ کل سے
ک نہیں
169
نظر
جمشید خبر کے لیے
پی لے میں دیکھت تھ
ٹوٹ ج ت تو وہ بےبصر ہوت
ح جت نے ڈبو دی اس کو
ورنہ خبر تو
مرد ح کی نظر میں ہوتی ہے
170
خدا پر ایم ن
خدا پر ایم ن نہ رہے تو
بچ نے نہیں آتے
آسم ن سے اب بیل
171
صبح ہی سے
وہ آگ
عزازئیل کی جو سرشت میں تھی
اس آگ کو نمرود نے ہوا دی
اس آگ ک ایندھن
ق رون نے پھر خرید کی
اس آگ کو فرعون پی گی
اس آگ کو حر نے اگل دی
یزید مگر نگل گی
اس آگ کو
میر ج ر نے سجدہ کی
میر ق س نے مش ل ہوس روشن کی
اس آگ کے ش ے
پھر ب ند ہیں
مخ و ارضی
172
ڈر سے سہ گئ ہے
ابر ب راں کی راہ دیکھ رہی ہے
کوئی ب دل ک ٹکڑا نہیں
صبح ہی سے تو
آسم ن نکھر گی ہے
173 شرینی
Life Poetries شہد کی مکھی سے پوچھ
ک یوں ک رس ت چوستی ہو کیوں
بولی
تیرے طرز تک کی
شرینی کے لیے
174
فرات ک دامن
س گر پی کر بھی
ہر قطرہ پی س سمنر
پ کوں ک س ون
ج نے ک برسے گ
فرات ک دامن
ش ے لے کر بھ گ ہے
س حل کس سے شکتی م نگے
مٹھی بند کر لو
پ کوں کے اس کن رے پر
راتوں کے سپنے
سورج کی آنکھوں میں بھی
بھیک کے ککرے
ک لی زل وں کے مندر
175
مسکن ہیں ک لی ج والوں کے
ج نے سے پہ ے
آنکھوں میں دھواں بھر لو
چ ند ک چہرا
راون کی شکتی لے کر
عیسی کے خون سے
اوب م ہی ر
لکھ رہ ہے
176
اس سے پہ ے
اس سے پہ ے
کہ عمر ک ت را ٹوٹے
مرے جیون ک
ہر ج ت بجھت پل
مجھ کو واپس کر دو
جو دن خوشییوں میں گزرا
تقدیر نہیں
مرے عش کی تپسی ک اترن تھ
مرے بولوں کی تڑپت
مرے گیتوں کی پیڑا
مرزے کی کوئی ہیک نہیں
مرے اشکوں ک شرینتر تھ
کے ط نے مینے اپنوں
177
سن سن کر
غیروں کے بھی ک ن پکے
میں اس کو لوکن کی
کیوں ک لی ریت سمجھوں
یہ تو سچ ک پریوجن تھ
اس سے پہ ے
کہ عمر ک ت را ٹوٹے
مرے جیون ک
ہر ج ت بجھت پل
مجھ کو واپس کر دو
ہر ان ہونی ک پرورتن کھولو
اس سے پہ ے
کہ عمر ک ت را ٹوٹے
مرے جیون ک
ہر ج ت بجھت پل
178
مجھ کو واپس کر دو
س ید پرندہ
ممت ج سے
صحرا میں کھوئی ہے
کشکول میں بوئی ہے
خون میں سوئی ہے
س ید پرندہ خون میں ڈوب
خنجر دیوارں پر
چ ند کی شیشہ کرنوں سے
شبن قطرے پی کر
سورج جسموں کی شہلا آنکھوں میں
اس س کے موس سی کر
ہونٹوں کے کھنڈر پر
179
سچ کی موت ک قصہ
حسین کے جیون کی گیت
وف اشکوں سے لکھ کر
برس ہوئے مکت ہوا
180
یہ کس کی س زش ہے
ج گو
ک ک لہو‘ لہو ہوا ہے
ج نو
دانستہ ہوا ہے کہ سہو ہوا ہے
کس کی یہ س زش ہے
ب بل کے روبرو
قتل رنگ و بو ہوا ہے
ق تل کی آستین دیکھ لو
ہواوں سے گواہی لے لو
یہ ں ہی جھگڑا
من و تو ہوا ہے
وہ جین کی جین ہے
جو جین ڈر کر جین ہے
مے گرتی ہے کہ
181
ت ر سبو ہوا ہے
ج گو
ک ک لہو‘ لہو ہوا ہے
182
ابھی ب قی ہے
محبت کی ہے؟
دم ک بخ ر؟
کوئی میٹھ جذبہ
ق بی رشتہ
کسی کے اپن ہونے ک احس س
شہوت ک بڑھت ہوا سیلا
زندگی ک بدلت رویہ ی انداز
بےشم ر سوال
جن ک جوا
ابھی تک ب قی ہے
183
چ ند ا دری میں نہیں اترے گ
جذبے لہو جیتے ہیں
م ش کے زنداں میں
مچھروں کی بہت ت ہے
سہ گنوں کے کنگن
بک گئے ہیں
پرندوں نے اڑن چھوڑ دی
کہ فض میں ت بک ری ہے
پج ری سی ست کے قیدی ہیں
ت واریں زہر بجھی ہیں
مح فظ سونے کی میخیں گنت ہے
چھوٹی مچھ ی ں ف قہ سے ہیں
کہ بڑی مچھ یوں کی دمیں بھی
شک ری آنکھ رکھتی ہیں
دری کی س نسیں اکھڑ گئی ہیں
184
صبح ہو کہ ش
جنگی بیڑے گشت کرتے ہیں
چ ند دھویں کی آغوش میں ہے
ا وہ
دری میں نہیں اترے گ
تنہ ئی بنی آد کی ہمرک ہے
کہ اس ک ہمزاد بھی
تپتی دھوپ میں
کک
کھو گی ہے
185
ذات کے قیدی
قصور تو خیر دونوں ک تھ
اس نے گ لی ں بکیں
اس نے خنجر چلای
سزا دونوں کو م ی
وہ ج ن سے گی
یہ جہ ن سے گی
اس کے بچے یتی ہوئے
اس کے بچے گ ی ں رولے
اس کی م ں بین ئی سے گئی
اس کی م ں کے آنسو تھمتے نہیں
اس ک ب پ کچری چڑھ
اس ک ب پ بستر لگ
دونوں کنبے ک سہء گدائی لیے
گھر گھر کی دہ یز چڑھے
186
بے کسی کی تصویر بنے
بے توقیر ہوئے
ضبط ک فقدان
برب دی کی انتہ بن
سم ج کے سکون پر پتھر لگ
قصور تو خیر دونوں ک تھ
جیو اور جینے دو کے اصول پر
جی سکتے تھے
اپنے لیے جین کی جین
دھرتی ک ہر ذرہ
تزین کی آش ر کھت ہے
ذات کے قیدی
مردوں سے بدتر
سسی فس ک جین جیتے ہیں
187
ج ت مجھ کو سوچو گے
تری زل وں کی ش
صبح بہ روں کے پر ک ٹے
تری آنکھوں کے
مست پی لوں ک اک قطرہ
آس کی مرتیو ک سر ک ٹے
ج نے ان ج نے کی اک انگڑائی
ن رت کے ایوانوں میں
ان کے ن ہونے ترے ہونے ک
قرط س ال ت پر
امروں پر اپنی امرت لکھ دے
ا ج سے
میں تجھ کو سوچے ہوں
مری بص رت کے در وا ہوئے ہیں
اپنی سوچ ک اک ذرہ
188
گر کوہ پر رکھ دوں
دیوانہ ہو
مجنوں کی راہ پکڑے
مری سوچ کی حدت سے
صحراؤں ک صحرا اپنی پگ بدلے
تری مسک نوں کی ب رش
شور زمینوں کو
برہم کے بردان سے بڑھ کر
میں تجھ کو سوچے ہوں
کہ سوچن جیون ہے
کھوجن جیون ہے
ج ت مجھ کو سوچو گے
ت پر کن ک راز وا ہو گ
وہ ہی ہر ج ہو گ
ت کہتے پھرو گے
One into many
189
But many are not one
Nothing more but one
When we divide one
Face unjust and hardship
I and you are not two but one
One is fact
Fact is one
190
س سے کہہ دو
گذشتہ کے گلا و کنول
م تول ایم ن کی لاش پر
سج کر
لبوں پرزیست ک نوحہ
پریت ک گریہ بس کر
وعدہ کی ش
اپنی عظمت میں
فرشتوں کے س سجدے
آج ہی مص و کر دو
س سے کہہ دو
ہ کونگے ہیں بہرے ہیں
ک کوسی ک مرض ط ری ہے
اگ وں ک کی
اپنے ن لھواتے ہیں
191
مورخ ہتھ بدھ خ د ہے
کل ہ پر ن ز کرے گ
کہ ہ رفتہ پر ن زاں ہیں
192
ب لوں میں بکھری چ ندی
ب لوں میں بکھری چ ندی
روح کی ک ق تل ہے
مرتی ہو کہ جیون
آس ہو کہ ی س
اک کوکھ کی سنت نیں ہیں
اک محور کے قیدی
ب لوں میں بکھری چ ندی
روح کی ک ق تل ہے
ج دل دری میں
ڈول عش ک ڈالو گے
ارت ش تو ہو گ
من مندر ک ہر جذبہ
ہیر ک داس تو ہو گ
ب لوں میں بکھری چ ندی
193
روح کی ک ق تل ہے
ہر رت کے پھل پھول نی رے
چ ندنی راتوں میں
دور امرجہ کے کھ ی نوں میں
سیرابی دیتے ہیں
ل گنگ کے پی س بھج تے ہیں
ب لوں میں بکھری چ ندی
روح کی ک ق تل ہے
من مستی
آنکھوں ک ک جل
دھڑکن دل کی
زل وں کی ظ مت
ک قیدی ہیں
ب لوں میں بکھری چ ندی
روح کی ک ق تل ہے
آتش گ ہیں برکھ رتوں میں
194
ج تی تھیں ج تی ہیں
ج تی ہوں گی
ب لوں میں بکھری چ ندی
روح کی ک ق تل ہے
195
ش ہ کی لاٹھی
ان رک ی کے
دیواروں میں چننے ک موس
ج بھی آت ہے
آس کے موس مر ج تے ہیں
ہر ج تے ہیں
چ ند سورج
آک ش اور دھرتی
زیست کے س رنگ
پھیکے پڑ ج تے ہیں
کل کی م نگ سج نے کو
عش پھر بھی زندہ رہت ہے
ہر دکھ سہت ہے
یہ کھیل ش ہ‘ زادوں ک ہے
ش ہ زاہزادے ک مرتے ہیں
196
ش ہ کی لاٹھی
ان ر ک ی کے سر پر
منڈلاتی رہتی ہے
کمزور عضو کے سر پر
س موس
بھ ری رہتے ہیں
197
برسر عدالت
شبن
گھ س ک مکوڑا پں گی
ب دل
پرندوں نے پروں میں چھپ لیے
آنسو
مگر پ کوں پر تھے ہی ک
امن
اس روز شہر میں کرفیو تھ
روشنی
ب رود نگل گی
امید
دم ک خ ل نہیں تو اور کی ہے
ق تل برسر عدالت
انص ف ک ط ل تھ
198
کہ چڑیوں کی چونچیں
مقتول ک پیٹ
روٹی خور ہو گی تھ
اسے گیس کی شک یت رہتی تھی
ایسے میں
قتل ن گزیر ہو گی تھ
مقتول کی ش ہ خرچی ک عوض نہ
بیوہ اور اس کے بچوں کی
برسر ع
نیلامی سے دلوای ج ئے
کہ انص ف ک بول ب لا ہو
199
م ں‘ م ں ہوتی ہے
م ں‘ م ں ہوتی ہے
س بقے لاحقے
ترے مرے منہ ک چسک
م ں ک کڑوا لہجہ
خ د ک میوہ
اس ک غصہ
پری ک س گر
اس کے چرنوں میں
سورگ ک جھرن
م ں‘ م ں ہوتی ہے
اس کی آنکھوں میں
دو ع ل کے سکھ
اس ک س یہ
بھگوان کی کرپ
200
رحم ن کی دی
اس ک رشتہ
مترادف سے ع جز
م ں‘ م ں ہوتی ہے
م ءیں کیوں مر ج تی ہیں
من آنگن سون کر ج تی ہیں
کہنے کو
م ں وہ بھی ہے
پی ر وہ بھی کرتی ہے
غرض ک ہ تھ
میرے ہ تھ دی
اس کی محبت
مشروط محبت
غرض کی ب ندی
ط ک امرت
شرط کی ڈور کٹ ج نے پر