طلا
پیش ک ر
م صود حسنی
فری ابوزر برقی کت خ نہ
اگس
کی صرف تحریری طلا واقع ہوتی ہے؟
موضوع :طلا
سوال پوچھنے والے ک ن :سونی خ ن
م :راولپنڈی
سوال نمبر 4265
السلا ع یک م تی ص ح ! میرا ن سونی ہے اور میں طلا
کے مت ایک مسئ ہ پوچھن چ ہتی ہوں۔ میرے شوہر نے 5
س ل پہ ے مجھے ایک طلا دی لیکن پھر ص حہو گئی اور ہ
لوگ اکٹھے رہن شروع ہوگئے۔ پھر 4س ل کے ب د ہم را جھگڑا
ہوا تو انہوں نے ایک اور طلا دی اور کہ کہ میرے گھر سے
نکل ج ‘ میرا تمہ را کوئی رشتہ نہیںہے۔ اس کے ب د ہم را
جھگڑا ہوا تو کہنے لگے میری طرف سے ت ف ر ہو ،کہ نی
خت ہوئی ،ج نکل ج میرے گھر سے۔ م تی ص ح میں نے
یہ ں 3م تی ص حب ن سے اس ب رے میں دی ف کی ہے تو س
نے طلا کے واقع ہونے ک فتوی دی ،مگر میرے میکے اور
سسرال والے یہ فتویم ننے کے لیے تی ر نہیں ہیں۔ وہ کہتے
ہیں کہ غصے میں طلا نہیںہوتی اور یہ بھی کہ طلا ج تک
لکھ کر نہ دی ج ئے نہیں ہوتی۔ م تی ص ح میں بہ پریش ن
ہوں‘ ایک س ل سے اسی اذی سے گزر رہی ہوں۔ میرا شوہر
مجھ سے ازدواجی ت بھی ق ئ کرت ہے اسے روکنے کی
کوشش کروںتو برا بھلا کہت ہے۔
براہ مہرب نی راہنم ئی فرم دیں۔ شکریہ
جوا
شدید غصے میں ج انس ن اپنے ہوش و حواس کھو دیت ہے
اور اسے اپنے عمل‘ اس کے نت ئج ک ادراک نہیں رہت تو ق نون،
ع ل اور شری اس ب پر مت ہیں کہ اس وق انس ن پر
احک لاگو نہیں ہوتے۔ اگر آپ کے شوہر نے بھی ایسی ہی
کی ی میں طلا دی تھی تو واقع نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس
اگر غصہ شدید نہیں تھ اور آپ کے شوہر ہوش و حواس
میںتھے تو طلا واقع ہوچکی ہے۔ طلا دیتے وق ان کی کی
کی ی تھی؟ اس ک فیص ہ آپ کے شوہر نے کرن ہے اور اسی
کے مط ب طلا کے واقع ہونے ی نہ ہونے ک حک ہوگ ۔
طلا زب نی دی ج ئے ی لکھ کر‘ ہر دو صور میں واقع ہوج تی
ہے۔ اگر ب ئ ہوش و حواس شوہر نے زب نی طلا دی ہے تو
واقع ہوچکی ہے۔
واللہ و رسولہ اع ب لصوا ۔
م تی :محمد شبیر ق دری
ت ریخ اش ع 04-07-2017 :
http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4265/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%B5%D8%B1%D9%8
1-%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%D8%B1%DB%8C-%D8%B7%D9%84%D8%A7%D9%82-%D9%88%
D8%A7%D9%82%D8%B9-%DB%81%D9%88%D8%AA%DB%8C-%DB%81%DB%92/
کی ایک وق میںدی گئی تین طلا واقع ہوتی ہیں؟
موضوع :طلا
سوال پوچھنے والے ک ن :محمد فیض ن
م :نم و
سوال نمبر 4225
شوہر نے جھگڑے کے دوران بیوی کو تین طلا دیں ،اس نے
ایک ہی س نس میں کہ تجھے میری طرف سے تین طلا ،کی یہ
طلا واقع ہو گئی؟
جوا
آپ نے سوال میں ن مکمل صورتح ل بی ن کی ،جھگڑے کی
نوعی اور شوہر کی کی ی کے ب رے میں واضح نہیں کی اس
لیے ہ حتمی فیص ہ کرنے سے ق صر ہیں۔ ت ہ اگر شوہر نے
جھگڑے کے دوران شدید غصے کی ح ل میں طلا دی ہے،
ب د میں اسے احس س ہوا کہ جو کچھ وہ کہہ بیٹھ ہے‘ نہیں کہن
چ ہت تھ تو طلا واقع نہیں ہوئی۔ وہ بطور می ں بیوی کے ایک
دوسرے کے س تھ رہ سکتے ہیں۔ اس کی مزید وض ح کے
لیے ملاحظہ کیجیے :کی شدید غصے میں دی گئی طلا واقع
ہوتی ہے؟
اس کے برعکس اگر غصے کی شد ایسی نہیں تھی ،شوہر کے
ہوش و حواس ق ئ تھے ،جھگڑے کے ب د بھی اس نے طلا
کے فیص ے کو درس ہی کہ تو طلا واقع ہو گئی ہے۔ اگر اس
نے تین دی ہیں تو تین ہی واقع ہوئی ہیں۔
واللہ و رسولہ اع ب لصوا ۔
م تی :محمد شبیر ق دری
ت ریخ اش ع 29-05-2017 :
http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4225/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9
%88%D9%82%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA%E2%80%8C-%D8%AF%DB%8C-%DA%AF%D8%A6%DB%8C-%D
8%AA%DB%8C%D9%86-%D8%B7%D9%84%D8%A7%D9%82-%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%B9-%DB%81%D9%8
8%D8%AA%DB%8C-%DB%81%DB%8C%DA%BA/
ایک مح ل کی تین طلا
السلا ع یک ،
اہ ی ن بز ،جیس کہ پہ ے عرض کی ج چک ہے کہ تین طلا
کے مسئ ے میں ن چیز پہ ے بھی ت صیل بی ن کر چک ہے۔ وہی
موضوع ڈھونڈ کر پیش کر رھ ہوں دوب رہ دیکھ لیں۔
ی د رکھیں کہ تین طلاقیں خواہ ایک ہی مح ل میں ہوں واقع ہو
ج تی ہیں۔ ا یہ عور اس مرد پر حرا ہے ،اس حرا کو حلال
ک فتوی دینے والے بھی لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور مرد تو
حرا میں مبتلا ہو ہی گی ۔ جہ ں تک حلالہ کی ب ہے تو حلالہ
کرنے اور کروانے والے دونوں پر رسول اللہ ص ی اللہ ع یہ
وس نے ل ن کہی ہے۔ اس ب کو ایسے سمجھیں کہ ایک
آدمی کے تین مک ن ہوں اور وہ غصے میں کسی دوسرے کے
ن لگ دے۔ پھر اول تو وہ یہ نہیں کہ سکت کہ میرے پ س
اختی ر تو تین مک نوں ک تھ لیکن ایک مح ل میں ایک ہی لگ
سکت ہے ،م و نہیں طلا کے م م ے میں یہ منط کہ ں چ ی
ج تی ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر ب د میں رشو دے کر ی نی حلالے
کی طرح حرا ک کرکے مک ن اپنے ہی ن رہنے دے ی یہ کہ
ک غذ پھ ڑ کے ثبو غ ئ کر دے تو یہی کہ ج ئے گ کہ حرا
ک کی ۔ پس حلالہ کرنے والے حرا ک کرتے ہیں لیکن اس
سے ایک مح ل کی تین ط قوں کے ب د حرا کو حلال نہیں کی ج
سکت ۔
اللہ ت لی س کو ع ل اور سمجھ دے اور رسول اللہ ص ی اللہ
ع یہ وس اور صح بہ رضی اللہ عنھ حصوص خ ء ارب ہ
رضی اللہ عنھ کے رستے پر چ نے کی توفی عط فرم ئے۔
مع السلا ،
ہم یوں رشید۔
مھت قدر
[email protected]
Date: 2013-05-11 19:51 GMT+03:00
}Subject: Re: {23224
جدہ میں سیمین ر -طلا آس ن اور خ ع مشکل کیوں؟ اس ک
حل کی ہے؟
وع یک السلا و رحمہ جزاک اللہ خیر جن ہم یوں ص ح اپ
نے حوالوں کے س تھ ب واضح فرم دی ،جیس کہ پہ ے
عرض کر چک ہوں یہ میرا مسئ ہ نہیں ع م ک میدان ہے اپ نے
ت صیلا درج فرم کر ع م سے مزید تح ی کو اس ن فرم دی ۔
ویسے ایک ب عمومی طور پر اہل سن یہ کہتے ہیں کہ بھ ئی
ت گولی ں تو تین چلاو او گنو ایک کی کرشمہ ہے ایک گولی
کے بج ئے تین دا دیں اور کہتے ہو کہ ایک ہی لگی ۔ جزاک
اللہ خیر
مہت قدر
Mahtab Qadr
میں جہ ں بھی رہوں س ر میں ہوں
میرا اص ی وطن مدینہ ہے
2013/5/11 Humayun Rasheed
><[email protected]
السلا ع یک
مخ ص ص ح نے ٹھیک فرم ی کہ اس میں دو مکتبہ فکر ہیں۔
اہل سن والجم ع کے نزدیک ایک ہی مج س کی تین طلا
سے تین واقع ہو ج تی ہیں اور اہل تشیع کے ھ ں ایک ہی ہوتی
ہے۔ ع م ء نے اس فر کی تصریح کی ہے‘ یہ ں ایک حوالہ
پیش ہے۔ مشہور ع ل اور ف یہ شمس الأئم محمد بن أحمد
ھ) نے اپنی کت المبسوط میں اس کی السرخسي (وف
تصریح کی ہے؛
وھذہ المس ل مخت ف فیھ بینن وبین الشی ع فص ین ( أحدھم
) ۔۔۔ ( والث ني ) أنه إذا ط ھ ثلاث جم ی ع ثلاث عندن والزیدی
من الشی ی ولون ت ع واحدة والإم می ی ولون لا ی ع شيء
ویزعمون أنه قول ع ي كر اللہ وجھه۔ ب الرد ع من ق ل إذا
ط لغیر السن لا ی ع۔
اور اس مسئ ے (ی نی طلا دینے کے طری ے) میں ہم رے اور
شی ہ کے درمی ن اختلاف ہے (پہلا اختلاف) ۔۔۔ (دوسرا) یہ کہ
اگر ایک ہی ل ظ ی جم ے میں تین طلاقیں دے دیں تو ہم رے
ھ ں تو تین ہی ہوئیں‘ اور زیدی شی ہ کے ھ ں ایک ہی ہوئی اور
ام میہ (اثن عشری) کے ھ ں طلا ہی نہیں ہوئی (ش ئد اس لئے
کہ گن ہ ک ک کی اور گن ہ پر کوئی شرعی حک مرت نہیں ہوت
واللہ اع ) اور گم ن کرتے ہیں کہ یہ ع ی کر اللہ وجہہ ک کہن
ہے۔
میرا م صد کسی مس کی بحث کو شروع کرن نہیں ہے۔ میں
سمجھت ہوں کہ ایسی ب یہ ں کرنی ہی نہیں چ ہئے‘ لیکن ج
کسی نے ب کر دی تو اسے واضح کرن ضروری ہے کیونکہ
التب س ہو رھ ہے۔ امید ہے کہ حضرا آئندہ ایسی ب نہیں
کریں گے جس میں ت صیل ہو۔ یہ فور ف ہی بحث کی ئے نہیں
بن ‘ اس لئے اہل سن والجم ع کے مخت ف ادوار میں دئیے
گئے فت وی میں سے چند پیش خدم ہیں ت کہ کسی کو شک اور
شبہ نہ رہے‘ ب قی ت صیل کسی ع ل کے پ س ج کر پوچھی ج
سکتی ہے۔ میں ب ر ب ر اہل سن والجم ع ک ن اس لئے لے
رھ ہوں کہ حرا حلال ک مسئ ہ ہے کسی کو دھوکہ نہ ہو کہ
کس ب رے میں ب کر رھ ہوں۔
ام بخ ری رحمہ اللہ کے شیخ أبو بكر عبد الرزا الصن ني‘
ھ‘ نے اپنی مصنف میں ب ب ندھ ہے “ب المط ولاد
ثلاث “ اور صح بہ رضی اللہ عنھ اجم ین (جو کہ سن اور حلال
حرا کو ہ سے زی دہ ج ننے والے تھے) کے فت وی ذکر کئے۔
عن م مر عن الأعمش عن إبراھی عن ع م ق ل ج ء رجل إل
ابن مس ود ف ل إني ط امرأتي تس وتس ین وإني س ل ف یل
لي قد ب ن مني ف ل ابن مس ود ل د أحبوا أن ی رقوا بین وبینھ
ق ل فم ت ول رحم اللہ فظن أنه سیرخص له ف ل ثلاث تبینھ
من وس ئرھ عدوان۔ عن م مر عن الزھر عن س ل عن ابن
عمر ق ل من ط امرأته ثلاث ط وعص ربه۔ عن م مر ق ل
أخبرني ابن ط وس عن أبیه ق ل ك ن ابن عب س إذا سئل عن رجل
یط امرأته ثلاث ق ل لو ات ی اللہ ج ل ل مخرج ،ولا یزیدہ ع
ذل ۔ عن م مر عن أیو عن مج ھد ق ل سئل ابن عب س عن رجل
ط امرأته عدد النجو ق ل إنم یك یه من ذل رأس الجوزاء۔ عن
ابن جریج ق ل أخبرني عبد الحمید بن رافع عن عط ء ب د وف ته أن
رجلا ق ل لابن عب س رجل ط امرأته مئ ف ل ابن عب س ی خذ
من ذل ثلاث ویدع سب وتس ین۔ عن ابن جریج ق ل ق ل مج ھد
عن ابن عب س ق ل ق ل له رجل ی أب عب س ط امرأتي ثلاث
ف ل ابن عب س ی أب عب س یط أحدك فیستحم ،ث ی ول ی أب
عب س عصی رب وف رق امرأت ۔ عن الثور عن عمرو بن مرة
عن س ید بن جبیر ق ل ج ء ابن عب س رجل ف ل ط امرأتي
أل ،ف ل ابن عب س ثلاث تحرمھ ع ی وب یتھ ع ی وزرا اتخذ
آی اللہ ھزوا۔
ع مہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابن مس ود رضی اللہ عنہ کے
پ س آی اور کہ میں نے اپنی بیوی کو نن نوے طلاقیں دے دی
ہیں‘ میں نے (لوگوں سے) پوچھ تو کہتے ہیں کہ وہ ع یحدہ ہو
گئی‘ ابن مس ود نے کہ کہ لوگ یہ ب پسند کرتے ہیں کہ ت
میں اور اس میں ع یحدگی ہو ج ئے‘ (اس آدمی نے) کہ آپ پر
اللہ رح کرے آپ کی کہتے ہیں؟ پس اس نے گم ن کی کہ ش ئد
ابن مس ود کوئی آس نی ک راستہ نک لیں گے (مثلا یہی کہ ایک
مج س میں دی گئی س ری ایک ہیں) پس کہ (ابن مس ود نے)
تین سے وہ ع یحدہ ہو گئی ب قی تو ت نے دشمنی کی ہے (اللہ
کے حک سے کہ تمہیں تین سے زی دہ ک اختی ر ہی نہیں تھ اور
ف ئدہ بھی نہیں تھ )۔ ابن عمر رضی اللہ کے بیٹے اپنے والد سے
روای کرتے ہیں کہ جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو
طلا ہو گئی لیکن اس نے اپنے ر کی ن فرم نی کی (کیونکہ
ایک دینی چ ہئے تھی)۔ ط س کہتے ہیں کہ میرے والد نے بت ی
کہ ج ابن عب س سے پوچھ ج ت کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین
طلاقیں دے دیں تو کہتے اگر ت وی اختی ر کرت تو اللہ رستہ بھی
دکھ دیت (کیونکہ ایک طلا کے ب د رجوع ہو سکت ہے تین
کے ب د نہیں‘ بس خود رستہ بند کی )‘ اور اس سے زائد کچھ نہ
کہتے۔ مج ھد کہتے ہیں کہ ابن عب س سے ایک آدمی کے ب رے
میں پوچھ گی کہ اس نے اپنی بیوی کو ست روں کی ت داد کے
برابر طلاقیں دے دیں‘ تو ابن عب س نے جوا دی اسے تو جوزا
ک سر ہی ک فی تھ (ی نی ست روں کے ایک خ ص جھرمٹ کے
سرے پر موجود تین ست رے)۔ عط ء کہتے ہیں کہ ابن عب س
سے پوچھ گی کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے
دیں‘ تو کہنے لگے تین تو اس کی ہیں ب قی ست نوے کو چھوڑ
دے۔ مج ھد کہتے ہیں کہ ابن عب س رضی اللہ عنہ نے بی ن کی
کہ ایک آدمی آی اور کہنے لگ اے ابو عب س میں نے اپنی بیوی
کو تین طلاقیں دے دی ہیں‘ پس کہ ابن عب س نے (خود کلامی
کرتے ہوئے) اے ابو عب س ایک آدمی طلا کی حم ق کرت ہے
پھر کہت ہے اے ابو عب س‘ (پھر آدمی کی طرف جوا دی ) تو
نے اپنے ر کی ن فرم نی کی اور تیری بیوی تجھ سے ع یحدہ
ہو گئی۔ س ید بی ن کرتے ہیں کہ ایک آدمی ابن عب س کے پ س
آی اور کہ میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے دی ہیں‘ کہ
ابن عب س نے کہ وہ تو تین سے ہی تجھ پر حرا ہو گئی ب قی ت
پر بھ ر ہیں (کیونکہ) تو نے اللہ کی ب ک مذا اڑای (ی نی
زی دہ سے زی دہ تو تین تھیں ت نے ہزار کیوں دیں)۔
پس م و ہوا کہ لوگ ایک ہی ب ر طلا دے کر آتے اور فتوی
لیتے تو انہیں یہی کہ ج ت کہ تین سے ک ہو گی ۔ اگر ایک مح ل
کی شرط ہوتی تو ضرور کہتے کہ بھئی پریش ن کیوں ہو ایک ہی
مح ل میں دی ہے تو ایک ہی ہوئی رجوع کر لو۔
ھ‘ کسی أبو الولید محمد بن أحمد بن رشد الم لکی‘ ولاد
ت رف کے محت ج نہیں‘ خلاف کے ق ضی ال ض ة تھے اہل سن
والجم ع کے تم مس لک پر اپنے دور کے س سے بڑے
ع ل تھے‘ اور آج بھی اگر ت بل مذاھ پر ب ہوتی ہے تو ان
کی ب کو م ن ج ت ہے۔ اپنی کت “بدای المجتھد“ جو کہ
صرف اس لئے لکھی کہ ف ہ ء کے اختلاف کو ذکر کریں‘ ص ف
لکھتے ہیں؛
جمھور ف ھ ء الأمص ر ع أن الطلا ب ظ الثلاث حكمه حك
الط الث لث ۔ الب الأول في م رف الطلا الب ئن والرج ي۔
تم شہروں کے ف ہ ء ک کہن ہے کہ ایک ل ظ میں دی گئی تین
طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں۔
ھ‘ جو کہ موف الدین ابن قدام الم دسي الحنب ي‘ ولاد
ف ہ حنب ی میں سند م نے ج تے ہیں۔ اپنی کت “المغني “ جو کہ
انہوں نے ف ہ ء کے مس لک بی ن کرنے اور ت بل کی ئے لکھی‘
میں فرم تے ہیں؛
وإن ط ثلاث بك م واحدة وقع الثلاث وحرم ع یه حت تنكح
زوج غیرہ ولا فر بین قبل الدخول وب دہ رو ذل عن ابن
عب س وأبي ھریرة وابن عمر وعبد اللہ بن عمرو وابن مس ود
وأنس وھو قول أكثر أھل ال من الت ب ین والأئم ب دھ ۔ فصل
ط ثلاث بك م واحدة۔
اگر ایک ہی ک مہ سے تین طلاقیں دے دیں تو تین واقع ہو گئیں
اور عور اس پر حرا ہو گئی یہ ں تک کہ کسی اور سے نک ح
کر لے (اور وہ شوہر بھی فو ہو ج ئے ی طلا دے دے) اور
فر نہیں ہے کہ طلا رخصتی سے پہ ے دی ی ب د۔ یہی روای
کی گی ہے ابن عب س‘ ابو ھریرہ‘ ابن عمر‘ ابن عمرو‘ ابن
مس ود اور انس رضی اللہ عنھ سے‘ اور یہی کہن ہے اکثر
ت ب ین اور آئمہ ک ۔
ھ‘ اپنی ع ي بن س یم ن المرداو الدمش ي الحنب ي‘ ولاد
کت “الإنص ف“ میں جو کہ ف ہ ء کے اختلاف لکھنے کی ئے
تحریر کی گئی فرم تے ہیں؛
وإن ط ھ ثلاث مجموع قبل رج واحدة ط ثلاث وإن ل
ینوھ ع الصحیح من المذھ نص ع یه مرارا وع یه الأصح
بل الأئم الأرب وأصح بھ في الجم ۔ ب سن الطلا وبدعته۔
اور اگر تین طلاقیں دے دیں اکٹھی پہ ی سے رجوع کئے بغیر تو
تین ہی ہو گئیں اگرچہ نی نہ کی ہو‘ یہی ہم رے مس ک (حنب ی)
ک صحیح ترین قول ہے‘ اور اس پر دلیل کئی ب ر گزر چکی‘ اور
اسی پر ق ئ ہیں اصح ب کہ چ روں آئمہ ب لجم ہ۔
ھ‘ جو کہ کسی ت رف جلال الدین السیوطي الش ف ی‘ ولاد
کے محت ج نہیں “الح و ل ت و “ میں ایک مسئ ے میں
فرم تے ہیں؛
مس ل :رجل ط امرأته واحدة ث خرج من عندھ ف یه شخص
ف ل م ف بزوجت ؟ ق ل ط تھ سب ین فھل ی ع ع یه الثلاث؟
الجوا :ن ی ع ع یه الثلاث م اخذة ب قرارہ۔ كت الصدا -ب
الطلا -مس ئل مت رق ۔
مسئ ہ؛ آدمی نے اپنی بیوی کو ایک طلا دی پھر گھر سے نکلا
اور رستے میں ایک آدمی ملا‘ پوچھ اپنی بیوی سے کی کی ؟
اس نے کہ ستر طلاقیں دے دیں‘ پس کی تین طلاقیں ہو گئیں؟
جوا ؛ جی ھ ں اس پر تین ہو گئیں اس کے اپنے اقرار کی وجہ
سے۔
زین الدین أبو الس دا منصور بن یونس البھوتي المصری‘
ھ‘ زی دہ پرانے نہیں ہیں‘ اپنی کت “كش ف ولاد
ال ن ع“ میں فرم تے ہیں؛
وإن ط ھ ) أ ط رجل زوجته ( ثلاث بك م ) حرم نص (
ووق ویروى ذل عن عمر وع ي وابن مس ود وابن عب س وابن
عمر۔ ب سن الطلا وبدعته۔
اور اگر اسے طلا دی) ی نی آدمی نے اپنی بیوی کو طلا دی (
(تین ایک ہی ک مے سے) تو عور حرا ہو گئی واضح دلیل کی
وجہ سے‘ اور یہی مروی ہے عمر‘ ع ی‘ ابن مس ود‘ ابن عب س
اور ابن عمر سے۔
اوپر مذکور حوالے ج ن بوجھ کر مخت ف مکتبہ ھ ئے فکر سے
لئے گئے حن ی‘ حنب ی‘ م لکی اور ش ف ی ت کہ کوئی یہ نہ کہے
کہ کسی ایک مس ک ک کہن ہے۔
اور اجم ع کسے کہیں گے جبکہ ب ہمی سیکڑوں اختلاف کے
ب وجود تم لوگ اس مسئ ے میں ایک ہی ب کر رہے ہیں۔
جہ ں تک ل ظی استدلال کی ب ہے تو بڑی عجی ب کی
موصوف نے کہ تین کو ایک م ن لی ج ئے‘ گوی ایک مح ل میں
دئیے گئے تین روپے ایک ہو گئے‘ ایک محل میں م رے گئے
تین جوتے ایک ہو گئے‘ سبح ن اللہ۔
جہ ں تک قرآن اور حدیث سے استدلال ک ت ہے کہ اہل سن
والجم ع اور شی ہ میں اختلاف کیوں‘ ی ب ض اوق اہل سن
والجم ع کے ہی کسی ع ل نے جمہور ام کے خلاف غ طی
سے فتوی دی ‘ تو اس کی ئے کسی ع ل کے پ س ج کر ت صیل
سے ب کرنی چ ہئے۔ یہ جگہ اس ک کی ئے موزوں نہیں ہے‘
بس اتن ج ن لیں کہ اگر آپ ک ت اہل سن والجم ع سے ہے
تو ایک ہی مج س کی تین طلاقیں تین ہی ہوں گی‘ بیوی آپ پر
حرا ہو گئی‘ حلالہ کرن حرا ہے‘ پہ ے ہوش میں رہن تھ ۔
ب قی مس لک کے لوگ اپنے اعتم د کے دانشوروں سے پوچھ کر
عمل کریں۔
مع السلا
ہم یوں رشید۔
2013/5/11 Syed Raheem
><[email protected]
ب اختلاف کی بھی ہے اور استدلال کی بھی اور یہ مسئ ہ ی نی
تین طلا ک ایک شم ر کرن کوئی ایس مسئ ہ نہیں ہے کہ چند
برسوں پہ ے وجود میں آی ب کہ یہ س س ہ صح بہ کے دور تک
دراز ہیں اور فری ین کی اپنے اپنے دلائل ہیں مندرجہ ذیل لنک
دیکھئے س ودی عر کی اسلامی تح ی ی ادارے نے اس پر
ک فی مدلل بحث کی ہے اور فری ین کے استدلال اور جوا
استدلال ک اح طہ کی ہے ملاحظہ ہو مج ۃ البحوث الاسلامیۃ
ال دد الث لث (یہ بحث عربی میں ہے اور اس ک کچھ حصہ دار
ال و دیوبند سے اردو میں نشر ہوا ہے
http://www.alifta.net/Fatawa/FatawaChapters.aspx?View=Tree&NodeI
D=498&PageNo=1&BookID=2
سید رحی عمری
From: [email protected]
[mailto:[email protected]
On Behalf Of aapka Mukhlis
Sent: 10 May 2013 21:33
To: [email protected]
جدہ میں سیمین ر -طلا آس ن }Subject: Re: {23186
اور خ ع مشکل کیوں؟ اسک حل کی ہے؟
عورتوں کے مزاج کی وجہ سے خ ع ک طری ہ مشکل رکھ گی
ہے
کیونکہ عورتیں بہ جذب تی ہوتی ہیں
بہ ج د بے انتہ غصے میں آج تی ہیں
اسی وجہ سے جہن میں عورتوں کی ت داد زی دہ ہوگی کہ
اگر شوہر ہمیشہ اس کی خواہش پوری کرت رہے
لیکن اگر ایک ب ر نہ کرے تو عور یہ کہتی ہے کہ میں نے
تجھ سے کبھی خوشی نہیں پ ئی
اگر خ ع بھی اس طرح آس ن ہوتی تو نصف سے زی دہ ش دی ں
ٹوٹ چکی ہوتیں
رہی طلا کی ب
تو وہ بھی اتنی آس ن نہیں ہے
لیکن اس میں ف ہی اختلاف پ ی ج ت ہے
ایک مکت فکرایک ہی مج س میں تین ب ر طلا کہ دینے کو
تین حتمی طلا م نت ہے
ایک مکت فکر کے مط ب شرعی طور پر بھی اور زب ن کے
اصولوں کے مط ب بھی اور منط ی طور پر یہ ایک ہی طلا
ن فذ ہوتی ہے
چ ہے ایک مج س میں کتنی ب ر بھی کہ ج ئے
کہ تین ب ر کہنے کے ب وجود بھی عم ی طور پر تو ایک ہی ب ر
چھوڑا ہے۔
From: Tanwir Phool [email protected]
To: [email protected]
Sent: Friday, May 10, 2013 12:46 AM
Subject: Re: {23160}
طلا آس ن اور خ ع مشکل کیوں؟ اسک حل- جدہ میں سیمین ر
کی ہے؟
Humayun Sb
YahaaN naam nihaad aa'lim ki baat ho rahi
hai jo foran talaaq naafiz honay kaa fatwaa
de deta hai , phir paisay le kar Halaalaa karta
hai. Keya aap aiesoN ko durust samajhtay
haiN?Wassalam.
2013/5/9
Humayun Rasheed
><[email protected]
پھول ض ح ،ب یہ ہے کہ ج فورمز پہ مسئ ہ بی ن کرنے کی
بج ئے ع م ء اور ف ہ ء کو برا بھلا کہ ج ئے گ تو یہی نتیجه
نک ے گ کہ نہ طلا کی شن ع م و ہو گی نہ حلالے کی
حرم .اور یہ اللہ ک عذا ہے کہ لوگ برے ک موں میں پڑ
ج ئیں اور سمجھ نے والوں کو بھی برا بھلا کہتے رہیں.
.مع السلا .ہم یوں
"On May 9, 2013 11:03 PM, "Tanwir Phool
<[email protected]> wrote:
محتر ع ی ف کی ص ح
السلا ع یک و رحم اللہ و برک تہ
یہ ہم رے ف ہ ک کرشمہ ہے کہ طلا ک عمل آس ن
نظر آت ہے ورنہ سورہ طلا اور سورہ ب رہ میں
ت صیل موجود ہے شرط یہ ہے کہ ہ اندھی ت ید سے
گریز کریں طلا کو آس ن بن نے کے ب د اس ک حل
نک لنے کے لئے حلالہ ک جو طری ہ اپن ی ج ت ہے
وہ ن ج ئز ہے کیونکہ حضور ص ی اللہ ع یہ و آلہ وس
نے حلالہ کرنے اور کروانے والے پر ل ن فرم ئی ہے
2013/5/9
>aleem khan <[email protected]
السلا ع یک
مس م ن م شرے میں آج طلا جتنی آس ن ہوگئی ہے خ ع اتنی
ہی مشکل ہوگئی ہے ۔ اگرچہ اسلا نے عور کو مرد کے برابر
ح و دیئے ہیں لیکن اسلامی ق نون کی پدر ش ہی ت بیر نے آج
عور کو بغ و پر مجبور کردی ہے۔ صحیح اسلامی ت یم ،
مس پرسنل لا اور ہندوست نی دستور کی روشنی میں ایک اہ
گ تگو میں شرک کی درخواس ہے۔
Seminar Organized by SocioReforms
Society
Why Talaq easy and Khula impossible in
?Muslim Society
?What is the solution
Speakers: Advocate Osman Shaheed,
Prosecutor General AP High Court and
Aleem Khan Falaki
Friday, 10th May, 2pm Imdtly after Friday
prayer
At: Shadaab Hall, Azizia, Jeddah
Ladies are most welcome as the issues to
be discussed are mostly concerned with the
the women. Ladies are requested to avoid
bringing the children below 10 years.
Zubair H Shaikh
7/23/14
Translate message to English
،وع یک السلا و رحمتہ اللہ و برک تہ
اللہ،اس بحث میں تم محترمین نے اخلاص ک مظ ہرہ کی ہے
اس خ کس ر کے ع و مط ل ہ میں ایک-ت لی جزائے خیر دے
عرصہ یہ موضوع رہ کیونکہ ایک ج ن پہچ ن کے ص ح اور
انکے اہل و عی ل اس مسئ ہ میں یوں الجھے کہ کبھی نکل نہ
سکے ،اور یہی نہیں کہ دونوں می ں بیوی کی دنی اور آخر دا
پر لگ گئی ب کہ اولاد اور عزیز و اق ر بھی تک یف کے دور
سے گزرتے رہے ،پھر دین سے اور بھی دور ہوتے چ ے
گئے......مسئ ہ اس لئے بھی پیچیدہ ہوگی تھ کہ شوہر و بیوی
دو مخت ف مس ک اور مکت فکر کے م ننے والے تھے ،خ وند
سنی اور زوجہ ک ت اہل تشیع سے تھ -دور جدید میں
جسطرح م شرہ تغیر اور ترقی پذیر ہورہ ہے اور جس رفت ر
اور ت داد کے س تھ ام کی ایک اچھی خ صی ت داد مخت ف
مم لک میں اس قس کے ازدواجی بندھن میں بندھ رہی ہے،
انہیں میں یہ می ں اور بیوی بھی شم ر ہوتے تھے .....ایسے
طب ہ میں زی دہ تر ت ی ی فتہ حضرا ہوتے ہیں جو دین کو
جم ہ اور عیدین تک محدود رکھتے ہیں اور صرف طلا کی
صور میں انہیں دین اور ع م ئے دین اور م تی ن کرا ی د آتے
ہیں ..لیکن دین چونکہ ایسے کسی بھی حضرا کو دین سے
ع نہیں کرت اس لئے مسئ ہ ک حل تو دین کے حوالے سے ہی
انہیں م ن چ ہیے ،خ صکر جبکہ انہیں یہ حل م کی قوانین اور
نظ سے م نے کے امک ن نہیں ہوتے ،ی وہ خود ایسی کو ئی
توقع نہیں کرتے ،ی ان میں انک م د نظر نہیں آت .....خیر جو
بھی ہو ،اس تیز رفت ر اور تغیر پذیر م شرے کو اگر مست بل
کے وسیع پس منظر میں دیکھیں تو ایسے م ملا ک اوسط
بہ زی دہ ہونے کے امک ن نظرآتے ہیں جہ ں نک ح مس کی
اتح د ک ب عث نظر آئیگ اور طلا مس کی تص د ک ب عث بن
ج ئیگی......اور چونکہ بنی دی ایم ن اور ام ک اجم لی اعت د و
اتح د اس ک ت ضہ کرت ہے کہ اس حل کو تلاش کرنے پر
ضروری بحث و مب حثہ ہوں اور چو طرفہ ع م ئے کرا اور
م تی ن کرا تک یہ مس ئل پہنچنے ،پھر چ ہے جس کسی بھی
ذرائع سے پہنچے.....ورنہ ایسے مسئ وں میں الجھے ہوئے
حضرا کو نک ح اور ش دی کی مسرتوں میں اور تہذی جدیدہ
کی آنکھیں خیرہ کر دینے والی روشنیوں میں تین کی ایک
طلا ک بھی گم ن نہیں ہوت .یہی کثیر ت داد اس مسئ ہ ک من س
حل نہ م نے پر مست بل قری میں دین و ام کو مخت ف فتنوں
میں مبتلا کرنے ک ب عث بھی بنے گی -ام مس مہ کی بے حد
ق یل ت داد چونکہ ت وی کے م ی ر پر پوری اترتی ہے اور اول تو
ان میں ایسے مسئ ے در پیش ہونے کے امک ن بہ ک ہوتے
ہیں لیکن اگر مسئ ہ در پیش ہو بھی ج ت ہے تو ان کے لئے دین
ک ہر ایک حل ق بل قبول ہوت ہے ،لیکن اول الذکر حضرا کی
کثیر ت داد کے لئے بہرح ل حل تو درک ر ہے ....اس خ کس ر
ط ل ع نے اسی وجہ سے پچھ ی بحث میں ،جو " ثن خوان
مشر ".....عنوان کے تح کی گئی تھی ،اپنی ح یر تجویز
پیش کی تھی ،جو ہو سکت ہے بحث کے مرکزی ن طہ نظر سے
ہٹ کر کی گئی ہو لیکن اس تجویز سے کچھ اور ی بہتر حل
س منے نظر آ سکتے ہیں -واللہ ھو ع ل ب لصوا ...ب قی
..ع م ئے دین بہتر سمجھ سکتے ہیں
خ کس ر
زبیر
sabirrahbar10
7/24/14
طلا لغ میں چھوڑ دینے اور جدائی اختی ر کرنے کو کہتے
ہیں اصطلاح شرع میں مرد ک عور کو مخصوص ال ظ کے
ذری ہ قید نک ح سے رہ کر دین ہے۔
طلا دینے ک ح شوہر کو ح صل ہے ،وہ اپنے ح میں ب
اختی ر ہے کہ م ول اسب کی بن پر اپن اختی ر است م ل کرے
اور اپنی منکوحہ سے دس بردار ہو ج ئے ،لیکن اسلا طلا
کو ن پسند فرم ت ہے ،نبی کری ﷺ ک ارش د گرامی ہے۔
)ابغض الحلال ال اللہ الطلا ’’ (.
اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں س سے ن پسندیدہ چیز طلا
ہے۔
اسی م ہو کی ایک دوسری حدیث میں رسول کری ﷺ نے
:ارش د فرم ی
)م احل اللہ شیئ ابغض الیه من الطلا ’’ (‘‘.
اللہ نے جو چیزیں حلال کی ہیں ان میں س سے ن پسندیدہ اس
کے نزدیک طلا ہے۔
:ایک اور ارش د نبوی ہے
)تزوجو ولا تط ِّ وا ف ن اللہ لا یح الذواقین والذواق ’’۳( ‘‘.
ش دی ں کرو اور طلا نہ دو اس لیے کہ اللہ ت لی مزہ چکھنے
والوں اور مزہ چکھنے والیوں کو محبو نہیں رکھت ۔
اگر نک ح اور طلا ک م صد صرف اتن ہے کہ خواہش ن س نی
کی تکمیل ہو تو اسلا ہرگز ایسے نک ح کی حوص ہ افزائی نہیں
کرت ،پھر می ں بیوی کے درمی ن علاحدگی طلا کے ذری ہ ہو ی
خ ع کے ذری ہ دونوں صورتیں اللہ کے نزدیک ن پسندیدہ اور
مبغوض ہیں۔
:رسول ک ئن ﷺ نے عورتوں کے س س ہ میں ارش د فرم ی
ایم امراة سئ زوجھ طلاق في غیر م ب س فحرا ع یھ ’’
)رائح الجن (‘‘.
جو عور بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلا ط کرے
تو اس پر جن کی خوشبو حرا ہے۔
اس ارش د رسول کی روشنی میں پت چلا کہ بغیر کسی وجہ
شرعی کے طلا دین اور عور ک طلا ط کرن اللہ کی
ن راضگی ک سب ہے۔ اسلا نے مرد کو طلا دینے کی ازادی
دی ہے ،مگر اس شرط کے س تھ کہ طلا کے علاوہ اور کوئی
چ رہ ک ر نہ ہو۔ اس س س ے میں قران مجید نے یہ ت ی دی ہے
کہ اگر بیوی پسند نہ ہو تو جہ ں تک ممکن ہو اس کے س تھ نب ہ
:کی کوشش کی ج ئے۔ ر کری ک ارش د ہے
وع شروھن ب لم روف ف ن كرھتموھن ف س ان تكرھوا شیئ و ’’
)یج ل اللہ فیه خیرا كثیرا(.
اور ان سے اچھ برت و کرو ،پھر اگر وہ تمھیں پسند نہ ائیں تو
قری ہے کہ کوئی چیز تمھیں ن پسند ہو اور اللہ اس میں بہ
)بھلائی رکھے۔(کنز الایم ن
مذکورہ ای سے یہ سب ملا کہ اگر بیوی بد خ ہو ی قبول
صور نہ ہو تو طلا دینے میں ج دی نہیں کرنی چ ہیے ،ممکن
ہے کہ خ ل ک ئن اسی بیوی سے لائ اور نیک اولاد بخشے
جو دنی اور ع بی کی بھلائی ک سب بنے۔
شوہر پر لاز ہے کہ وہ بیوی کی اصلاح کے لیے کوئی م تدل
راہ اختی ر کرے اور اس کے س تھ محب و ال سے پیش ائے،
اصلاح کی تم تر کوششوں کے ب وجود کوئی موثر صور نظر
نہ ائے تو شوہر کو یہ ح ح صل ہے کہ اپنی منکوحہ کو طلا
دے دے ،لیکن ایک ہی س تھ تینوں طلا نہ دے کہ ایک س تھ
تین طلا دینے والے پر رسول اللہ ﷺ غض ن ک ہوتے ہیں۔
:حدیث شریف میں ہے
عن محمود بن لبید ق ل اخبر رسول اللہ ص اللہ ع یه وس ’’ .
عن رجل ط امراته ث ث تط ی جمی ف غضب ن ث ق ل
ای بكت اللہ عز وجل وان بین اظھرك حت ق رجل ف ل ی
)رسول اللہ الا اقت ه(‘‘.
محمود ابن لبید سے مروی ،وہ فرم تے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ
کو خبر دی گئی کہ ایک ادمی نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین
طلاقیں دے دیں ،تو اپ غض ن ک ہو کر کھڑے ہو گئے ،پھر
ارش د فرم ی کی اللہ کی کت کے س تھ کھیل کی ج رہ ہے ،ج
کہ میں تمہ رے درمی ن موجود ہوں ،یہ ں تک کہ ایک شخص
نے اٹھ کر عرض کی ،ی رسول اللہ کی میں اسے قتل نہ کر دوں؟
اس حدیث سے ث ب ہوا کہ ایک س تھ تین طلاقیں دین شری
کے خلاف ہے اور شری کی اس خلاف ورزی کی وجہ سے اللہ
اور اس کے رسول کی ن راضگی کے س تھ بس اوق بہ س ری
دنی وی دشواریوں اور رسوائیوں ک س من بھی کرن پڑت ہے ،اگر
ہ اسلا کے بت ئے ہوئے ق نون پر عمل کریں تو اللہ و رسول کی
گرف اور دنی وی رسوائیوں سے بچ سکتے ہیں۔
:طلا کی قسمیں
ا ہ ذیل کی سطروں میں طلا کے ت سے کچھ بنی دی
:اور ضروری ت صیلا پیش کرتے ہیں
طلا جس طرح بھی دی ج ئے واقع ہو ج ئے گی ،مگر اسلامی
ق نون اس ب کی اج ز دیت ہے کہ یہ ت ری اور جدائی بھی
بہتر طری ے سے ہو۔ طلا دینے کی ب ض صورتیں پسندیدہ اور
ب ض ن پسندیدہ ہیں۔ اس لح ظ سے ف ہ ے اسلا نے طلا کی
تین قسمیں بی ن فرم ئی ہیں -طلا احسن ،طلا حسن ،طلا
بدعی۔
:طلا احسن
جن ای میں عور م ہ واری سے پ ک ہو اور اس سے
م رب (ہ بستری) بھی نہ کی گئی ہو ،ان ای میں صرف ایک
طلا دی ج ئے۔ اس میں دوران عد مرد کو رجوع ک ح رہت
ہے اور عد گزرنے کے ب د عور ب ئنہ ہو ج تی ہے۔ ی نی
اپنے شوہر سے مکمل طور پر علاحدہ ہو ج تی ہے ،ا وہ جس
سے چ ہے نک ح کرے اور اگر اسی شوہر سے دوب رہ نک ح کرن
چ ہے تو فری ین کی رض مندی سے دوب رہ بغیر حلالہ کے نک ح
ہو سکت ہے۔
:طلا حسن
جن ای میں عور پ ک ہو اور م رب بھی نہ کی ہو ،ان ای
میں ایک طلا دی ج ئے ،اور ایک م ہواری گزر ج ئے تو بغیر
م رب کے دوسری طلا دی ج ئے ،اور دوسری م ہواری گزر
ج ئے تو بغیر م رب کیے تیسری طلا دی ج ئے ،اس کے ب د
ج تیسری م ہ واری گزر ج ئے گی تو عور مغ ظہ ہو ج ئے
گی ،اور ا حلالہ کے بغیر اس سے دوب رہ ع د نہیں ہو سکت ۔
:طلا بدعی
اس کی تین صورتیں ہیں ( ) ایک مج س میں تین طلا یک
ب رگی دی ج ئے خواہ ایک ک مہ سے مثلا ت کو تین طلاقیں دیں۔
ی چند ک م سے مثلا کہے ت کو طلا دی ،ت کو طلا دی ،ت
کو طلا دی۔ ( ) عور کی م ہ واری کے ای میں اس کو ایک
طلا دی ج ئے ،اس طلا سے رجوع کرن واج ہے۔ ( )۳جن
ای میں عور سے م رب کی ہو ان ای میں عور کو ایک
طلا دی ج ئے ،طلا بدعی کسی بھی صور میں ہو اس ک
دینے والا گنہگ ر ہوت ہے۔
:صریح اور کن یہ
جن ال ظ سے طلا واقع ہوتی ہے وہ دو طرح کے ہیں۔ صریح
اور کن یہ۔
:صریح
وہ ال ظ ہیں جس سے طلا مراد ہون ظ ہر ہو ،چ ہے وہ
کسی زب ن کے ال ظ ہوں اور اس ل ظ کو سنتے ہی ذہن فورا
طلا کی طرف ج ئے۔ عرف میں اس ک اور کوئی م نی نہ
سمجھ ج ئے ،مثلا شوہر نے بیوی سے کہ :میں نے تجھے
طلا دی ،تجھے طلا دی ،تو مط ہ ہے ،تو ط ل ہے ،میں
تجھے طلا دیت ہوں ،اے مط ہ ،میں نے تجھے چھوڑا۔
وغیرہ۔
اگر طلا کے ال ظ بگ ڑ کر کہے ،جیسے طلا ،تلا ،طلاک،
تلاک ،تلاکھ ،تلاکھ ،تلاخ ،تلاخ ،تلا ،طلا ،ب کہ توت ے کی
زب ن سے تلا ،یہ س صریح کے ال ظ ہیں۔ ان س ال ظ ک
حک یہ ہے کہ طلا واقع ہو ج ئے گی ،اگرچہ کچھ نی نہ کی
ہو۔ یہ ال ظ ہنسی مذا میں کہے ،ی سنجیدگی سے غصے اور
نشے کی ح ل میں کہے ی ع ح ل میں۔ ان ال ظ سے ایک ی
دو مرتبہ طلا دی تو طلا رج ی ہوگی ،ی نی مرد عد کے
اندر بیوی کو بغیر نک ح لوٹ سکت ہے۔ اس عمل کو شری کی
اصطلاح میں ”رج “ کہتے ہیں ،اور عد گزر ج نے کے ب د
رج نہیں کر سکت ۔ ہ ں ب ہمی رض مندی سے دوب رہ بغیر
حلالہ نک ح ہوسکت ہے۔ اگر تین دف ہ دے دی تو بیوی طلا
دینے والے پر مکمل طور پر حرا ہو ج ئے گی۔ اس صور میں
بغیر حلالہ اس کے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔
:کن یہ
ایسے ال ظ جو طلا ہی کے لیے خ ص نہ ہوں ،ب کہ طلا کے
علاوہ اور م نوں میں بھی است م ل ہوتے ہوں ،مثلا اظہ ر غض
،ن ر ،بیزاری اور ڈانٹ پھٹک ر کے لیے ،جیسے ،ج ،نکل،
چل ،روانہ ہو ،اٹھ ،کھڑی ہو ،پردہ کر ،دوپٹہ اوڑھ ،ن ڈال،
ہٹ ،سرک ،جگہ چھوڑ ،گھر خ لی کر ،دور ہو ،چل دور ،وغیرہ۔
ان ال ظ سے اس شرط پر طلا پڑے گی ج کہ شوہر نے طلا
کی نی کی ہو۔ ی قرینے اور ح لا بت ئیں کہ یہ ں طلا ہی مراد
ہوگی۔ مثلا شوہر طلا کی دھمکی دے رہ تھ ،ی عور طلا
ط کر رہی تھی ،اسی دوران شوہر نے یہ ال ظ ادا کیے ،تو
ایسی صور میں طلا پڑ ج ئے گی ،چ ہے اس نے طلا کی
نی کی ہو ی نہ کی ہو۔ اور واضح رہے کہ کن یہ کے ال ظ سے
جو طلا واقع ہوتی ہے وہ ب ئن ہوتی ہے ،ایک ہو ی دو ،اس
میں شوہر کو رجوع ک ح نہیں۔
صریح اور کن یہ کے ال ظ سے جو طلا واقع ہوتی ہے ،ان کی
حک اور نتیجہ کے اعتب ر سے تین قسمیں ہیں ،رج ی ،ب ئن،
مغ ظہ۔
:طلا رج ی
جس سے عور فی الح ل نک ح سے نہیں نک تی ،عد کے
اندر اگر شوہر رج کر لے تو وہ بدستور اس کی زوجہ رہے
گی ،ہ ں عد گزر ج ئے اور رج نہ کرے تو اس وق نک ح
سے نکل ج ئے گی ،پھر بھی ب ہمی رض مندی سے دونوں اپس
میں نک ح کر سکتے ہیں۔
:طلا ب ئن
جس سے عور فورا نک ح سے نکل ج تی ہے ،ہ ں اپسی
رض مندی سے عد کے اندر ی ب د عد دونوں اپس میں نک ح
کر سکتے ہیں۔
:طلا مغ ظہ
جس سے عور فورا نک ح سے نکل ج تی ہے ،اس صور
میں دونوں ک اپس میں نک ح کبھی نہیں ہو سکت ج تک کہ
حلالہ نہ ہو۔ طلا مغ ظہ تین طلاقوں سے ہوتی ہے ،تینوں ایک
س تھ دی ہو ی برسوں کے ف ص ے سے۔
:عد
شوہر سے جدائی کے ب د عورتوں کے لیے شری نے کچھ
مخصوص ای مت ین کیے ہیں کہ ان ای میں عور کسی
دوسرے مرد سے نک ح نہ کرے ،اسی ک ن عد ہے۔ عد ک
م صد یہ ہے کہ شوہر کی جدائی سے بیوی غ و افسوس کرے،
اور اس ب سے اطمین ن بھی ح صل کر لے کہ ا س ب ہ شوہر
سے رح میں م دہ تولید نہیں ہے۔ یہ مخصوص ای (عد )
گزارنے کے ب د ج عور دوسری ش دی کرے گی تو بچہ کی
نسب اختلاط ک شبہہ نہیں ہوگ کہ یہ بچہ کس ک ہے ،س ب ہ
شوہر ک ی موجودشوہر ک ۔
:عد کی مد
مط ہ مدخولہ (جو شوہر سے صحب کر چکی ہو ،جسے
م ہواری اتی ہو) کہ عد تین حیض ہے۔ مط ہ ح م ہ کی عد
وضع حمل ہے۔ مط ہ ائسہ (پچ س ی اس سے زائد عمر والی
عور کہ جسے حیض ان بند ہو ج ت ہے) کی عد تین م ہ ،اور
غیر مدخولہ (جس نے ابھی شوہر سے صحب نہ کی ہو) کی
عد کچھ نہیں۔( ) مو کی عد غیر ح م ہ کے لیے چ ر
مہینے دس دن ہے۔( ) اور ح م ہ کے لیے وضع حمل ہے۔ بچہ
کے اعض ظ ہر ہو چکے ہوں اور اس ط ہو گی تو عد خت نہ
ہوئی۔
شرط ان ض ع ھذہ ال دة ان یكون م وض قد استب ن خ ه ف ن ’’
ل یستبن خ ه راس ب ن اس ط ع او مضغ ل تن ض ال دة‘‘.
)(
:طلا دینــــــے ک اسلامی طری ہ
طلا دین یوں تو بہ مذمو ف ل ہے۔لیکن اگر طلا دین
ضروری ہو کہ اس کے بغیر کوئی چ رہ نہیں تو اس ک طری ہ یہ
ہے کہ دو حیضوں کے درمی ن پ کی کے ای میں ایک طلا
رج ی دے بشرطے کہ ان ای میں بیوی سے م رب نہ کی ہو۔
اس شکل میں اگر شوہر بیوی کو دوب رہ نک ح میں لان چ ہے تو
رج کر لے ،ی نی عد کے اندر بیوی سے کہے کہ میں نے
تجھے نک ح میں واپس لے لی ،ی ت سے رج کی ی میں نے
تجھ کو روک لی ،ی یہ کہے کہ میں نے اپنی زوجہ سے رج
کی ،یہ س رج کے ال ظ ہیں۔
شوہر نے عد کے اندر رج نہیں کی اور عد کے ای گزر
گئے تو اس صور میں بغیر حلالہ کے نک ح ہو سکت ہے۔
دوسری طلا دینے کے لیے دوسرے طہر (پ کی کے ای ) ک
انتظ ر کرے اور اس میں بھی صرف ایک ہی طلا دے،
بشرطے کہ اس میں بھی مج م نہ کی ہو۔ ان ای میں دونوں
کو خو اچھی طرح سوچنے سمجھنے ک موقع مل ج ئے گ ،
اور اگر ب بنتی ہوئی دکھ ئی دے تو عد کے اندر رج اور
ب د عد بغیر حلالہ نک ح بھی ہو سکت ہے اور دونوں بدستور
می ں بیوی کی حیثی سے رہ سکتے ہیں۔ اس مہ میں بھی
اگر رویہ میں تبدی ی نہیں ائی اور فیص ہ چھوڑنے ہی ک رہ تو
تیسرے طہر میں طلا دے کر بیوی سے ہمیشہ کے لیے الگ
ہو ج ئے۔ اور احسن طری ہ یہ ہے کہ تیسری طلا نہ دے ب کہ
دو ہی پر اکت کرے اور عد گزر ج نے دے ۔ ا دونوں علاحدہ
ہو ج ئیں گے اور ہر ایک جس سے چ ہے نک ح کر سکت ہے ،
اس ک ف ئدہ یہ ہوگ کہ کبھی یہ زوجین پھر نک ح کرن چ ہیں تو
بغیر حلالہ کے نک ح کر سکتے ہیں ،اور تیسری دف ہ ہونے کے
ب د بغیر حلالہ کے ان دونوں کو اکٹھ ہون حرا ہے۔
:اللہ تب رک و ت لی ک ارش د گرامی ہے
واذا ط ت ال ِّنس ء فب غن اج ھن ف مسكوھن بم روف او س ِّرحوھن ’’
)بم روف(.
اور ج ت عورتوں کو طلا دو اور ان کی می د (مد ) الگے
(پوری ہو ج ئے) تو اس وق تک ی بھلائی کے س تھ روک لو ی
)نکوئی کے س تھ چھوڑ دو۔(کنز الایم ن
:ایک دوسری جگہ ارش د فرم ت ہے
)الطلا مرت ۪ن ف مس بم روف او تسریح ب حس نؕ (.
یہ طلا (رج ی) دو ب ر تک ہے ،پھر بھلائی کے س تھ روک لین
)ہے ،ی نکوئی کے س تھ چھوڑ دین ہے۔(کنز الایم ن
:اور فرم ت ہے
ف ن ط ھ فلا تحل له من ب د حت تنكح زوج غیرہؕ ف ن ط ھ
)فلا جن ح ع یھم ان یتراج (.
پھر اگر تیسری طلا اسے دی تو ا وہ عور اسے حلال نہ
ہوگی ج تک دوسرے خ وند کے پ س نہ رہے ،پھر وہ دوسرا
اگر اسے طلا دے دے تو ان دونوں پر گن ہ نہیں کہ پھر اپس
)میں مل ج ئیں۔ (کنز الایم ن
قران کری کی ت ی تو یہ ہے کہ ن خوشگوار ح لا میں طلا
کے بغیر کوئی چ رہ ک ر نہ ہو تو طلا دی ج ئے ،وہ بھی
یکب رگی تینوں نہیں ب کہ تین مرتبہ میں ،جیس کہ ذکر ہوا۔ لیکن
اج ہم رے اس م شرے میں جو طلا دینے کی رفت ر ہے وہ
ایک جدا گ نہ نوعی کی ح مل ہے۔ کھ نے میں نمک ک ہو گی ی
زی دہ ہو گی ،ن دانستہ طور پر شوہر کے مزاج کے خلاف کوئی
ب ہو گئی ،حک کی بج اوری میں کچھ دیر ہو گئی ،غرض کہ
چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر تیور بدل ج تے ہیں ،اور غصہ ک
اظہ ر طلا کے ذری ہ کی ج ت ہے۔ ایک اور دو طلا پر صبر
نہیں ہوت تو تین ی اس سے بھی تج وز کر ج تے ہیں ،اس کے
ب د افسوس کرتے ہیں اور م تی ن کرا کے پ س ج کر طرح
طرح کے حی ے بہ نے سے فتوی لین چ ہتے ہیں کہ میں نے
ایسے ایسے کہ تھ ،اگر گنج ئش ہو تو بت ئی ج ئے ،ایسے ہی
طلا دینے والوں پر اللہ اور اس کے رسول کی ل ن ہے۔
:رج ک بہترین طری ہ
رج ک طری ہ یہ ہے کہ کسی ل ظ سے رج کرے اور
رج پر دو ع دل شخصوں کو گواہ کرے اور عور کو بھی
اس کی خبر کر دے ت کہ عد کے ب د کسی اور سے نک ح نہ کر
لے ،اور اگر کر لی تو ت ری کر دی ج ئے ،چ ہے دخول (ہ
بستری) بھی کر چک ہو۔ اس لیے کہ یہ نک ح نہ ہوا ،اور اگر
قول (ل ظ) سے رج کی مگر گواہ نہ کی ،ی گواہ بھی کی مگر
عور کو خبر نہ دی تو مکروہ خلاف سن ہے ،مگر رج ہو
ج ئے گی۔ اور اگر ف ل سے رج کی (جیسے اس سے وطی
کی ،شہو کے س تھ بوسہ لی ،ی اس کی شر گ ہ کی طرف نظر
کی) تو رج ہو گئی ،مگر مکروہ ہے۔ چ ہیے کہ پھر گواہوں
کے س منے رج کے ال ظ کہے۔ (جوہرہ ،بہ ر شری ،ق نون
)شری
:یک ب رگی تین طلا دینے کے ن ص ن
اسلا نے شوہرکو طلا دینے ک اختی ر دی ہے ،لیکن اس ک
ہرگز یہ مط نہینکہ شری کے بت ئے ہوئے ق نون کے خلاف
اپن اختی ر است م ل کر کے اللہ اور اس کے رسول کے عت کو
دعو دی ج ئے۔اح دیث کریمہ میں نبی کری ﷺنے یکب رگی
تین طلا دینے والوں پر ن راضگی اور غصہ ک اظہ ر کی ہے،
گزشتہ ص حہ میں ایک حدیث حضر محمود بن لبید کی روای
سے گزری کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو یک ب رگی تین
طلاقیں دیں۔ ج رسول اللہ ﷺ کو م و ہوا تو اپ غصہ سے
کھڑے ہو گئے اور فرم ی کہ کت اللہ سے کھیل کی ج رہ ہے،
ج کہ میں تمہ رے درمی ن موجود ہوں۔
:ام عبد الرزا روای کرتے ہیں
عن س ل عن ابن عمر ق ل من ط امراته ث ث ط ِّ وعص ’’
)ربه۳(‘‘.
حضر س ل حضر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بی ن کرتے
ہیں ،جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں ،وہ واقع ہو گئیں
اور طلا دینے والے نے یکب رگی تین طلا دے کر اپنے ر
کی ن فرم نی کی۔
:ام ابو بکر بن ابی شیبہ روای کرتے ہیں
عن واقع ابن سبح ن ق ل سئل عمران بن حصین عن رجل ط ’’
)امراته ثلاث في مج س ق ل اث بر ِّبه وح ِّرم ع یه امراته(‘‘.
واقع بن سبح ن سے مروی کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ
سے ایک ایسے ادمی کے ب رے میں پوچھ گی جس نے اپنی
بیوی کو ایک مج س میں تین طلاقیں دے دیں ،تو انھوں نے
فرم ی کہ اس شخص نے اپنے ر کی ن فرم نی کی اور اس کی
بیوی اس پر حرا ہو گئی۔
:ایک جگہ اور لکھتے ہیں
عن انس ق ل ك ن عمر اذا اتي برجل قد ط امراته ثلاث في ’’
)مج س او ج ه ضرب وفر بینھ (‘‘.
حضر انس سے مروی انھوں نے فرم ی کہ حضر عمر رضی
اللہ عنہ کے پ س ج کوئی ایس ادمی پیش کی ج ت جس نے
اپنی بیوی کو ایک ہی مج س میں تین طلاقیں دی ہوں تو اپ
اسے تک یف دہ م ر م رتے اور زوجین میں ت ری کر دیتے۔
مذکورہ اح دیث سے م و ہوا کہ بیک وق تین طلاقیں دین گن ہ
اور شرعی مص حتوں کے خلاف ہے ،شری اسلامی ک منش تو
یہ ہے کہ زوجین ایک مرتبہ رشتہ ازدواج میں جڑنے کے ب د ت
حی بحسن و خوبی نب ہ کریں ،اور یہ رشتہ توڑنے کی کوشش
نہ کریں۔ ہ ں اگر نب ہ کے س رے راستے بند ہو چکے ہوں ،اور
ایک دوسرے کی زندگی اجیرن ہو تو ایسے موقع پر شری
اسلامیہ جدائی کی اج ز دیتی ہے ت کہ دونوں اپن اپن مست بل
بن ئیں۔ ایسے موقع پر شوہر طلا دے ،لیکن گنج ئش ب قی
رکھے ت کہ ائندہ کے لیے راہ ہموار رہے ،کیوں کہ بس اوق
ادمی تین طلاقیں یک ب رگی دے دیت ہے ،ب د میں پشیم ن ہوت
ہے۔
بیک وق تین طلا دینے کے س س ہ میں جو حدیثیں پیش کی
گئیں ان سے یہ سب ملا کی یکب رگی تینوں طلا واقع کرنے
والا ب رگ ہ خدا و رسول ک مجر ہے ،ایسے شخص پر خدا اور
رسول کی ل ن ہوتی ہے ،اور وہ شخص ن فرم نی ک مرتک
ہوت ہے ،اور دنی کے اندر ایسے شخص کو س سے زی دہ
رسوائی ک س من اس وق کرن پڑت ہے ج جدائی کے ب د پھر
دونوں کی محب عود کر اتی ہے اور دوب رہ بغیر حلالہ نک ح
کرن ممکن نہیں ہوت ۔ اسلامی ق نون یہ ہے کہ ج شوہر طلا
مغ ظہ دے چک ہو تو اس عور سے دوب رہ نک ح نہیں کر
سکت ،ج تک کہ وہ کسی دوسرے سے نک ح نہ کر لے اور وہ
اس سے لطف اندوز ہونے کے ب د طلا نہ دے دے۔
:ر کری ارش د فرم ت ہے
)ف ن ط ھ فلا تحل له من ب د حت تنكح زوج غیر ؕہ (
پھر اگر تیسری ب ر اسے طلا دی تو ا وہ عور اسے حلال
)نہ ہوگی ،ج کہ دوسرے خ وند کے پ س نہ رہے۔(کنز الایم ن
یہ ایک ایسی شرط ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلا
دین چ ہے گ تو پہ ے خو سمجھ لے گ اور اس وق تک طلا
نہیں دے گ ج تک کہ یہ فیص ہ نہ کر لے کہ ا اس عور
کے س تھ ازدواجی رشتہ ب قی نہیں رکھن ہے ،دنی میں اس سے
بڑی رسوائی اور شرمندگی اور کی ہو سکتی ہے کہ مط ہ بیوی
عد گزار کر دوسرے سے نک ح کرے ،اور اس شوہر سے
قرب بھی کرے ،پھر وہ طلا دے دے ت دوب رہ عد گزار کر
شوہر اول اسے اپنے نک ح میں لائے ،اس کو کہتے ہیں تھوک
کر چ ٹن ۔ اگر ع ل سے ک لی ج ئے اور ق نون شری کے
مط ب اپنے نک ح و طلا کے م ملا انج دیے ج ئیں تو اس
طرح کے رسوا کن دن دیکھنے کو نہ م یں۔
:مسئ ہ حلالہ
حلالہ کی صور یہ ہے کہ اگر عور مدخولہ (ی نی شوہر
سے صحب کر چکی ہے) تو طلا کی عد پوری ہونے کے
ب د کسی اور سے نک ح صحیح کرے اور شوہر ث نی اس عور
سے وطی بھی کر لے،ا اس شوہر ث نی کے طلا ی مو کے
ب د عد پوری ہونے پر شوہر اول سے نک ح ہو سکت ہے ،اور
اگر عور مدخولہ نہیں ہے تو پہ ے شوہر کے طلا دینے کے
ب د فورا دوسرے سے نک ح کر سکتی ہے کہ اس کے لیے عد
)نہیں۔(
ب ض لوگ طلا مغ ظہ دینے کے ب د پھر اسی عور کو نک ح
میں لانے کے لیے یہ طری ہ اختی ر کرتے ہیں کہ مط ہ ک نک ح
کسی سے کرا دیتے ہیں ،ندام اور رسوائی سے بچنے کے
لیے ہ بستری سے پہ ے شوہر ث نی کو کسی چیز ک لالچ دے
کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ خ و اگرچہ ہو ،لیکن خ و صحیحہ (ہ
بستری) نہ ہو ،ایس کرنے والوں کو نبی کری ﷺ ک ارش د
:س منے رکھن چ ہیے
عن ع ئش ان رجلا ط امراته ثلاث فتزوج فط فسئل النبي ’’
ص اللہ ع یه وس اتحل للاول ق ل لا حت یذو عسی تھ كم
)ذا الاول(‘‘.
حضر ع ئشہ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ ایک شخص نے
اپنی بیوی کو طلا دی تو اس عور نے دوسرے سے ش دی
کر لی ،پھر اس نے بھی طلا دے دی ،تو نبی کری ﷺ سے
دری ف کی گی کہ کی وہ پہ ے شوہر کے لیے حلال ہو سکتی
ہے؟ حضور نے ارش د فرم ی کہ اس وق تک حلال نہیں ہو
سکتی ج تک کہ دوسرا شوہر پہ ے شوہر کی طرح اس سے
لطف اندوز نہ ہو لے۔
اس حدیث سے ث ب ہوا کہ محض دوسرے شوہر سے نک ح کر
لین ک فی نہیں ب کہ دونوں ک ایک دوسرے سے بہ ذری ہ صحب
لطف اندوز ہون ضروری ہے ،صحب نہ پ ئے ج نے کی صور
میں پہ ے شوہر سے نک ح بھی درس نہ ہوگ ،ب کہ ایس کرن
صریح حرا ک ری ہے۔
اور جو شخص اپنی مط ہ کو صرف اپنے لیے حلال کرنے کی
خ طر دوسرے سے نک ح کرات ہے ،اور دوسرا صرف حلالہ کی
نی سے نک ح کرت ہے تو ایسے افراد پر رسول کری ﷺنے
:ل ن فرم ئی ہے
عن عبد اللہ بن مس ود ق ل ل ن رسول اللہ ص اللہ ع یه وس ’’
)المح ِّل والمح ل له(‘‘.
حضر عبد اللہ ابن مس ود رضی اللہ عنہ سے روای ہے کہ
رسول اللہﷺ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ
کی گی ،دونوں پر ل ن فرم ئی ہے۔
پہلا شوہر اس لیے ل ن ک مستح ہے کہ وہ اس ف ل قبیح ک
سب بن ،اور دوسرا اس لیے کہ اس نے نک ح جدائی کے لیے
کی ،ج کہ نک ح ک م صد یہ ہے کہ می ں بیوی مواف کے
س تھ ت حی رشتہ ازدواج میں منس ک رہیں۔
اگر کسی نے بہ ارادہ حلالہ نک ح صحیح کی تو نک ح توہو ج ئے
گ ،لیکن دونوں شوہر بے حی اور بد تمیز گردانے ج ئیں گے،
اسی لیے ان پر ل ن کی گئی ہے ،حدیث میں ایسے شخص
کو”تیس مست ر“ (کرائے ک س نڈ) کہ گی ہے۔
اسلا میں حلالہ کی مشروعی اس لیے نہیں ہے کہ اس کی اڑ
میں اف ل قبیحہ کو فرو دی ج ئے ،ب کہ یہ شکل تو اس لیے
ہے کہ ج ادمی حلالہ ک تصور کرے تو طلا مغ ظہ جیسی
مذمو حرک سے ب ز رہے۔ ہ ں اگر کسی نے طلا شدہ عور
سے مست لا رکھنے ہی کے لیے نک ح کی ،لیکن کسی وجہ سے
نب ہ نہ ہو سک اور اس نے بھی طلا دے دی تو ا وہ عور
شوہر اول کے لیے حلال ہو ج ئے گی۔ اور اس صور میں کسی
پر ل ن بھی نہ ہوگی۔ یہ شوہر اول کے لیے حلال ہونے کی ایک
شرعی صور ہے۔
:ح ل حیض میں طلا کی مم ن
حیض کی ح ل میں طلا دین حرا ہے ،لیکن اگر کسی نے
ان ای میں طلا دے دی تو واقع ہو ج ئے گی ،اور طلا دینے
والا گنہ گ ر ہوگ ،اس لیے کہ اس نے ف ل حرا ک ارتک کی ،
ان ای میں طلا دینے کی مم ن اس لیے ائی ہے کہ عموم
ان دنوں عورتیں چڑچڑی اور بد مزاج ہوج تی ہیں ،اچھی ب
بھی انھیں بری م و ہوتی ہے ،ان ای میں اگر عور کی طرف
سے کوئی ن زیب حرک ص در ہو ج ئے تو اس پر شوہر کو دل
برداشتہ نہیں ہون چ ہیے کہ یہ اس کی مجبوری ہے ،اور دونوں
ک جسم نی ت بھی ان دنوں ب قی نہیں رہت ۔ ج کہ ان ای کے
علاوہ ب قی دنوں میں دونوں شیر و شکر بن کر رہتے ہیں،
انھیں وجوہ کی بن پر نبی کری ﷺ نے ای حیض میں طلا
دینے سے منع فرم ی ہے۔
مس شریف میں ہے کہ حضر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم
نے اپنی بیوی کو ح ل حیض میں طلا دی ،حضر عمر رضی
اللہ عنہ نے اس ک تذکرہ رسول اللہﷺ سے کی ،اپ نے سن
:کر ن راضگی ک اظہ ر کی اور فرم ی
مرہ ف یراج ھ حت تحیض حیض مست ب سوى حیضتھ التي ’’
ط ھ ف ن بدا له ان یط ِّ ھ ف یط ِّ ہ ط ھرا ِّمن حیضتھ قبل ان
)یمسھ ق ل فذال الطلا ل دة كم امر اللہ( ‘‘.
ابن عمر کو حک دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے یہ ں تک
کہ جس حیض میں اس نے طلا دی ہے اس کے علاوہ ایک
اور حیض گزر ج ئے اس کے ب د طلا دین چ ہے تو دے دے،
لیکن اس شرط کے س تھ کہ وہ اس حیض سے پ ک ہو گئی ہو،
اور اس سے مج م بھی نہ ہوئی ہو کہ یہ اللہ کے حک کے
مط ب طلا ک وق ہے۔
:خ ع
بیوی شوہر کو کچھ م ل و اسب دے کر ی مرد کے ذمہ جو
کچھ ب قی ہے اسے م ف کر کے بدلے میں طلا ح صل کر لے،
اسے شری میں خ ع کہ ج ت ہے ،جس طرح شوہر کو طلا ک
ح دی گی اسی طرح عور کے لیے بھی خ ع کی گنج ئش
رکھی گئی۔
:قران مجید ک ارش د ہے
لا یحل لك ان ت خذوا مم اتیتموھن شیـ الا ان یخ ف الا ی یم
حدود الل ؕہ ف ن خ ت الا ی یم حدود اللہ فلا جن ح ع یھم فیم
افتد بهؕ ت حدود اللہ فلا ت تدوھ و من یت د حدود اللہ ف ولى
)ھ الظ مون( .
تمھیں حلال نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دی ہے اس میں سے
کچھ بھی واپس لو ،مگر ج دونوں کو اندیشہ ہوکہ اللہ کی حدیں
ق ئ نہ رکھیں گے ،پھر اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ وہ دونوں اللہ
کی حدیں ق ئ نہ رکھیں گے ،تو ان پر کچھ گن ہ نہیں ،اس میں
کہ بدلہ دے کر عور چھٹی لے۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں ،ان سے
تج وز نہ کرو ،اور جو اللہ کی حدوں سے تج وز کریں تو وہ
لوگ ظ ل ہیں۔
یہ ای جمی ہ بن عبد اللہ کے ب میں ن زل ہوئی۔ یہ جمی ہ ث ب
بن قیس ابن شم س کے نک ح میں تھیں۔ اور شوہر سے کم ل
ن ر رکھتی تھیں۔ رسول خدا ﷺ کے حضور میں اپنے شوہر
کی شک ی لائیں ،اور کسی طرح ان کے پ س رہنے پر راضی نہ
ہوئیں۔ ت ث ب نے کہ کہ میں نے ان کو ایک ب دی ہے ،اگر یہ
میرے پ س رہن گوارہ نہیں کرتیں ،اور مجھ سے علاحدگی
چ ہتی ہیں تو وہ ب مجھے واپس کریں ،میں ان کو ازاد کر
دوں ،جمی ہ نے اس کو منظور کی ،ث ب نے ب لے لی اور
طلا دے دی۔
مسئ ہ :خ ع طلا ب ئن ہوت ہے۔ مسئ ہ:خ ع میں ل ظ خ ع ک ذکر
ضروری ہے۔ مسئ ہ:اگر جدائی کی ط گ ر عور ہو تو خ ع
میں م دار مہر سے زائد لین مکروہ ہے ،اور اگر عور کی
طرف سے نشوز (ن ر و ن فرم نی) نہ ہو ،مرد ہی علاحدگی
چ ہے تو مرد کو طلا کے عوض م ل لین مط مکروہ
)ہے۔(خزائن ال رف ن
طلا کی طرح خ ع بھی شری میں ن پسندیدہ چیز ہے ،حدیث
شریف میں ہے،جو عور بلا وجہ خ ع ک مط لبہ کرے اس پر
اللہ ،اس کے فرشتے اور تم انس ن کی ل ن ہے۔
جہ ں تک ممکن ہو خواتین اسلا خ ع سے پرہیز کریں ،اور اس
ب پر نظر رکھیں کہ ہو سکت ہے کہ اللہ ت لی نے اسی جوڑے
میں کوئی بھلائی رکھی ہو۔
):م ود (گ شدہ
جس گ شدہ مرد کی مو و زندگی ک ح ل نہ م و ہو وہ
م ود الخبر ہے۔ م ود کی بیوی کے لیے مذہ حن ی میں یہ
حک ہے کہ وہ اپنے شوہر کی عمر نوے ( ) س ل ہونے تک
انتظ ر کرے (جو اس زم نے میں بہ دشوار ہے ،لہذا بہ وجہ
ضرور شدیدہ) م ود کی عور کو حضر سیدن ام م لک
رضی اللہ ت لی عنہ کے مذہ پر عمل کی رخص ہے۔ ان کے
مذہ پر عور ض ع کے س سے بڑے سنی صحیح ال یدہ
ع ل کے حضور فسخ نک ح ک دعوی کرے۔ وہ ع ل اس ک
دعوی سن کر چ ر س ل کی مد م رر کرے ،اگر م ود کی
عور نے کسی ع ل کے پ س اپن دعوی پیش نہ کی اور بطور
خود چ ر س ل انتظ ر کرتی رہی تو یہ عد حس میں شم ر نہ
ہوگ ،ب کہ دعوی کے ب د چ ر س ل کی مد درک ر ہے۔ اس مد
میں اس کے شوہر کی مو و زندگی ک ح ل م و کرنے کی ہر
ممکن کوشش کریں۔ ج یہ مد گزر ج ئے اور اس کے شوہر
کی مو و زندگی کے س س ے میں کچھ م و نہ ہو سکے تو
وہ عور اسی ع ل کے حضور استغ ثہ پیش کرے ،اس وق وہ
ع ل اس کے شوہر پر مو ک حک کرے گ ،پھر عور عد
وف (چ ر مہینے دس دن) گزار کر چ ہے تو کسی سنی صحیح
ال یدہ سے نک ح کر سکتی ہے۔ اس سے پہ ے اس ک نک ح
کسی سے ہرگز ہرگز ج ئز نہیں۔ اور جہ ں س ط ن اسلا و ق ضی
شرع نہ ہوں وہ ں ض ع ک س سے بڑا سنی صحیح ال یدہ ع ل
)ہی اس ک ق ئ م ہے نہ کہ گ وں کے جہلا کی پنچ ی ۔(
:کورٹ کی طلا
شوہر نے طلا نہیں دی ب کہ بیوی ی اس کے میکے والوں نے
موجودہ ہندوست نی کورٹ اور کچہری سے طلا ن مہ ح صل کی
تو ایسی طلا ہرگز ق بل قبول نہ ہوگی کہ طلا دینے ک اختی ر
شوہر کو ح صل ہے نہ کہ کورٹ کے حک کو۔ قران کری ک
:ارش د ہے
)بیدہ ع دة ال ِّنك ح۳(.
شوہر کے ہ تھ میں نک ح کی گرہ ہے۔
کورٹ کی طلا سے عور کو دوسرا نک ح کرن حرا ،سخ
حرا ہے۔ ج تک کہ شوہر خود طلا نہ دے۔
:تین طلا تین ہے نہ کہ ایک
غیر م دین جو خود کو اہل حدیث کہتے ہین ور چ روں ام موں