151
سورج ڈو رہ ہے
میں جو بھی ہوں
چ ند اور سورج کی کرنوں پر
میرا بھی تو ح ہے
دھرتی ک ہر موس
خدا ک ہر گھر
میرا بھی تو ہے
قرآن ہو کہ گیت
رام ئن ک ہر قص
گرنتھ ک ہر نقط
میرا بھی تو ہے
تقسی ک در
ج بھی کھ ت ہے
لاٹ کے دفتر ک منشی
152
ب رود ک م لک
پرچی ک م نگت
عط کے بوہے
بند کر دیت ہے
را اور عیسی کے بول
ن چوں کی پھرتی
بے لب سی میں رل کر
بے گھر بےدر ہوئے ہیں
دفتری ملاں کےمنہ میں
کھیر ک چمچہ ہے
پنڈت اور ف در
ہ ں ن ں کے پل پر بیٹھے
توتے کو ف ختتہ کہتے ہیں
دادگر کے در پر س ئل
پ نی ب وت ہے
153
مدرسے ک م شٹر
کمتر سے بھی کمتر
ک لج ک منشی
جیون دان ہوا کو ترسے
ق ک دھنی
غلاموں کے س پیتے
برچھوں کی زد میں ہے
س اچھ ک ت ک
سر م تھے پر رکھنے والے
گورا ہ س کے چمچے کڑچھے
ط قت کی بی ی میں
کربل کربل کرتے یہ کیڑے
ہ نیمن اور اجمل ک منہ چڑاتے ہیں
مس ئل کی روڑی پر بیٹھ
میں گونگ بہرا بے بس زخمی
154
ن نک سے بدھ
لچھمن سے ویر تلاشوں
مدنی کری کی راہ دیکھوں
ع ی ع ی پک روں کہ
سورج ڈو رہ ہے
155
اپیل
ن رت کی توپوں کے دہ نوں پر
دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو
ان کی آنکھوں کی م صومیت
م صومیت کی آغوش میں پ تے خوا
خوا صبح کی ت بیر ہوت ہے
خوا مر گیے تو
آت کل مر ج ئے گ
اور یہ بھی کہ
ممت قتل ہو ج ئے گی
'خو ج ن لو
ن رت کے تو
پہ ڑ بھی متحمل نہیں ہوتے
کل کیوں کر ہو گ
156
میں ت سے پھر کہت ہوں
ن رت کی توپوں کے دہ نوں پر
دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو
م ہ ن مہ سوشل ورکر لاہور' جنوری-فروری 1992
157
اس روز بھی
اس روز بھی
اک قتل ہوا
اف میں لہو اتر گی
ہ ت میں خنجر لے کر
وہ شہر بھر پھرت رہ
ہر دیکھت
اسے دیکھت رہ
سسکی ں گواہ کیوں بنیں
لہو بھی تو
بول رہ تھ
158
گنگ الٹ بہنے لگی ہے
من کی دیواروں پر
یہ خون کے چھینٹے کیسے ہیں
مردہ جسموں کی بو
س نسوں میں
کس نے بھر دی ہے
برف سے جذبوں پر
ہ تھ کی پوروں کے نقش
کہ ں سے اترے ہیں
روح کی زل یں
کیوں بکھری بکھری ہیں
تمہ رے ج نے کے ب د
حی ت کے س منظر
کیوں ٹھہر گیے ہیں
159
ت س نہ آنے کے خدشے
بل کھ تے س نپوں کے
مسکن بن ج تے ہیں
فرزانہ ہوں کہ دیوانہ
میں ک ج نت ہوں
ہں
تمہ رے ج نے سے پہ ے
یہ س کچھ نہ تھ
تمہ رے ج نے کے ب د
گنگ الٹ بہنے لگی ہے
160
یقینی سی ب ت ہے
یقینی سی ب ت ہے
تمہیں کیوں یقین نہیں آت
کربلا کی ب زگشت
پہ ڑوں میں کھو گئی ہے
سہ گنوں نے
سی ہ لب س پہن لی ہے
ان کے مردوں کے لہو میں
یزید کی عط ں ک قرض
اتر چک ہے
ہ ں مگر ج
پہ ڑوں کو زب ن مل ج ئے گی
یقینی سی ب ت ہے
ب زگشت کے ہ زب ن
161
مجبور زندگی کو
آزادی کو
ل سڑک دیکھ سکیں گے
م ہ ن مہ سوشل ورکر لاہور' م رح۔اپریل 1992
162
پ کوں پر شبن
کسی کی آنکھ میں سم ئی ظ مت ش
کسی کی آنکھ میں تسکین ک ج دو
گ یوں کے ہونٹوں پر سجی عید مب رک
...........
ش ہجر ہ س ر ہوئے
تری آنکھوں کے مست پی لے
پی س میں ڈوبے ب دلوں کے
...........
بھوک ج بھی ست تی ہے
دریچے اخلاص کے س
بہرے ہو ج تے ہیں
............
163
ش کے ہ تھوں میں پتھر
صبح کی آنکھ میں خنجر
بچہ مرا پوچھے ہے آج ک موس
...............
مچھرے کی پ کوں پر شبن
تڑپ بےآ م ہی کی
ی یہ ج تی آنکھوں ک دھواں
..........
1995
164
چودہ اگست
.................
چودہ اگست اک دن ہے
جو شر اج لت ہے
اف میں لہو اچھ لت ہے
اس دن خوش بو اگتی ہے
نکہت نکھرتی ہے
بگڑی سنورتی ہے
جذبے لہو گ تے ہیں
ان حد صدمے سن تے ہیں
خوا غ ت چراتے ہیں
م یوسی کے دھبے مٹ تے ہیں
فردوس کی ہوا لاتے ہیں
چودہ اگست اک دن ہے
165
کر گزرنے کی ی د دلات ہے
برف لہو گرم ت ہے
شہیدوں ک یہ سندیسہ لات ہے
اٹھو ج گو صبح ہوئی ہے
صدی ں نہ جو کر سکیں
ہم را لہو وہ کر گی
اس زمین کی ت م نگ سنورو
خون پسینے سے اس کو نکھ رو
آتی نس وں تک یہ زندہ رہے
ان کے مقدر میں ت بندہ رہے
166
ک نچ دریچوں میں
جیون کے
ک نچ دریچوں میں
دیکھوں تو
ارم نوں کے موس جھ سیں
ن دیکھوں تو
ک لا پتھر ٹھہروں
167
شہد سمندر
ترے شبدوں میں
شہد سمندر
ترے ہونٹوں میں
تخ ی کی ابجد
تری آنکھوں میں
کئ عرش سجے
ترے پیروں میں
جیون ریکھ
تری س نسوں میں
آج اور کل
تری کھوج ک پل
صدیوں پر بھ ری
ترے م ن کے عشرے
168
ج پیں پل دو پل
ترے سوچ کے آنگن میں
کن کے بھید چھپے
تو چھو لے تو
مٹی سون اگ ے
پتھر پ رس ٹھہرے
تری ایڑ کے اندر
احس س کے س ت سمندر
ترا دامن
فرشتوں ک مسکن
تو وہ برگد
چرا کر س یہ جس ک
آک ش اترائے
میں اپنے بخت پر ن زاں ہوں
تو مری م ں کہلائے
169
ترے سینے میں
مری پی س کےدیپ ج یں
م ں کے دل کی دھک دھک
خ د کے گیت سن ئے
170
وقت کیس عذا لای ہے
وقت کیس عذا لای ہے
ت ک لائ محبت ہو
آئینے میں اپنی شکل تو دیکھو
ق صد یہی جوا لای ہے
گوی خط میں عت لای ہے
جو سر کے بل چ ے تھے
ن ک ٹھہرے
پت جھڑ گلا لای ہے
ذلیخ ک عش سچ سہی
وہ برہنہ پ ک چ ی تھی
پہیہ عمودی چ ل چلا ہے
زندہ قبر میں اتر گی ہے
آنکھ دیکھتی نہیں
171
ک ن سنتے نہیں
وقت کیس انقلا لای ہے
ب رش قرض دار ب دلوں کی
ب دل بین ئی کو ترسیں
زخمی زخمی
ہر سہ گن کی کلائی
بیوہ سولہ سنگ ر سے ہے
وقت کیس انقلا لای ہے
وقت کیس عذا لای ہے
172
ت ہی کہو
اس شہر میں
وہ تت ی ں اڑ نہیں سکتیں
جن کے پروں پر
امیر شہر
اپنی مہر ثبت نہیں کرت
دری ان کشتیوں کو
کیسے چ نے دے
جن پر اس ک جھنڈا نہیں ہوت
وہ مسودے
کر ک شک بھرتے ہیں
جن میں
ح ک شہر ک
ذکر خیر نہیں ہوت
173
بڑی پگڑوں والے
اپن ن اس میں
لکھوا آئے ہیں
انہیں س نس لینے کی
کھ ی اج زت ہے
ت ہی کہو
ایکسل کے بغیر
بھلا کوئی گھڑی چ تی ہے
مقصود حسنی
اوٹ سے ص ‘
174
آزاد کر
غر سے امن س یقہ اترا
مرے آنگن کی روشنی
بےوق ر ھوئی
گردا میں کھڑا است رہ
بول رہ تھ
پتھر کو رقص دو
س موس دبوچ لو
ج خوش بو کی ردا اوڑھ کر
زیست ک صحی ہ اترا
اک ک ن بردار
بڑا ہی پروق ر
ت وار کی دھ ر پر
کہے ج رہ تھ
175
آنکھ کے س رے جگنو
آزاد کر دو
آزاد کر دو
م ہ ن مہ نوائے ہٹھ ن‘ لاہور ستمبر ٥
176
بج ی
بج ی ہوں میں بج ی ہوں
پ کست ن کی تت ی ہوں
آدھ گھنٹہ آتی ہوں
نو نو گھنٹے ج تی ہوں
اوپر پنکھ سوت ہے
نیچے ک ک روت ہے
بندے کی ج ن ج تی ہے
میں اسے رولاتی ہوں
تڑپ تی ہوں
بج ی میں نرالی ہوں
بڑے نخرے والی ہوں
ہیپی لوڈشیڈنگ ڈے
مو بتی جلا کر جیو
177
گھر میں پ نی نہیں تو
پسینے میں نہ کر جیو
178
179
مین ر زیست
180
181
182
183
184