101
کی کرت کدھر کو ج ت
دل دروازہ کھلا
خدا جو میرے قری تھ
بولا
کتنے عجی ہو ت بھی
کی میں ک فی نہیں
جو ہوس کے اسیروں کے پ س ج تے ہو
میرے پ س آ
ادھر ادھر نہ ج
میری آغوش میں
تمہ رے اشکوں کو پن ہ م ے گی
ہر بوند
رشک ل ل فردوس بریں ہو گی
اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپک
میں نے دیکھ
ش ہ اور ش ہ والوں کی گردن میں
بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی
102
مکر بندہ جن حسنی ص ح :سلا مسنون
آزاد ش عری ع طور پر میرے سر پر سے گزر ج تی ہے۔
ج تک میں اس کے ت نے ب نے س جھ ت ہوں پچھ ے
پڑھے ہوئے مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گ ہو ج تے
ہیں اور میں پھر نظ پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں
گرفت ر ہو ج ت ہوں۔ آپ کی اس نظ کے مط ل ہ میں ایس
صرف ایک ب ر ہوا اور میں ج د ہی منزل مقصود تک پہنچ
گی ۔ یہ ش ید اس لئے ہوا کہ آپ کی نظ پر دلسوزی اور
خ وص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ اپنی آپ بیتی
بی ن کر رہے ہوں۔ نظ پڑھ کر مت ثر ہوا۔ نظ ک پیغ ع
سہی لیکن اہ ضرور ہے۔ ہ اہل دنی بے تح شہ اہل اقتدار
کی ج ن بھ گتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول ج تے
ہیں کہ دینے والا تو کوئی اور ہی ہے۔ اللہ رح کرے۔ ایسے
ہی لکھتے رہئے۔ اللہ آپ کو ہمت اور ط قت عط فرم ئے۔
صلاحیت اور توفی سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ ب قی راوی
س چین بولت ہے۔
سرور ع ل راز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.0
103
سوچ کے گھروندوں میں
ع و فن کے
ک لے سویروں سے
مجھے ڈر لگت ہے
ان کے بطن سے
ہوس کے ن گ جن لیتے ہیں
سچ کی آواز کو
جو ڈس لیتے ہیں
سہ گنوں کی پی سی آتم سے
ہوس کی آگ بجھ تے ہیں
صلاحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو
دھندلا دیتے ہیں
بجھ دیتے ہیں
ح کے ایوانوں میں
اندھیر مچ دیتے ہیں
حقیقتوں ک ہ زاد
اداس ل ظوں کے جنگ وں ک
آس سے
ٹھک نہ پوچھت ہے
ان اور آس کو
104
ج یہ ڈستے ہیں
آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے
ک کوسی' بےہمتی بےاعتن ئی کے شراپ کے س ئے
اب یس کے قد لیتے ہیں
شخص کبھی جیت کبھی مرت ہے
کھ نے کو عذا ٹکڑے
پینے کو تیزا بوندیں م تی ہیں
خود کشی حرا سہی
مگر جین بھی تو جر ٹھہرا ہے
ست روں سے لبریز چھت ک
دور تک ات پت نہیں
ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے
بدلتے موسموں ک تصور
شیخ چ ی ک خوا ٹھہرا ہے
یہ ں اگر کچھ ہے
تو'...........
منہ میں زہر بجھی ت واریں ہیں
پیٹ سوچ ک گھر
ہ ت بھیک ک کٹورا ہوئے ہیں
بچوں کے ک نچ بدن
بھوک سے
کبھی نی ے کبھی پی ے پڑتے ہیں
105
اے صبح بصیرت!
تو ہی لوٹ آ
کہ ن گوں کے پہرے
کر زخموں سے
رست برف لہو
تو نہ دیکھ سکوں گ
سچ کے اج لوں کی حسین تمن
مجھے مرنے نہ دے گی
اور میں
اس بےوضو تمن کے سہ رے
کچھ تو سوچ سکوں گ
سوچ کے گھروندوں میں
زیست کے س رے موس بستے ہیں
ق ضی جرار حسنی
1974
106
سچ کے آنگن میں
ج بھوک ک استر
حرص کی بستی میں ج بست ہے
اوپر کی نیچے‘ نیچے کی اوپر آ ج تی ہے
چھ ج کی تو ب ت بڑی
چھ نی پنچ بن ج تی ہے
بکری ہنس چ ل چ نے لگتی ہے
کوے کے سر پر
سر گرو کی پگڑی سج ج تی ہے
دہق ن بو کر گند
فصل جو کی ک ٹتے ہیں
صبح ک اترن لے کر
ک لی راتیں
سچ کے آنگن میں ج بستی ہیں
‘ ٩٧٤م رچ
107
مکر بندہ حسنی ص ح :سلا ع یک
ایک مدت کے ب د آپ کی خدمت میں ح ضر ہورہ ہوں۔
بہ نہ کوئی نہیں ہے۔ بس زندگی ج جس ک کی مہ ت دے
دے وہی غنیمت ہے۔ انجمن آت رہ ہوں ،ادھر لکھن پڑھن
پھر شروع کردی ہے۔ آپ ح ل میں انجمن میں نظر نہیں
آئے۔ یقین ہے کہ اپنے ارادت مندوں سے خ نہیں ہوئے
ہوں گے۔ آپ کی انجمن کو اور اردو کوبہت ضرورت ہے۔
نثرنگ ری ک فن ا بہت مضمحل ہو گی ہے۔ آپ جیس
لکھتے ہیں ویس لکھنے والے ا خ ل خ ل رہ گئے ہیں۔
سو اگر کوئی گست خی ہو گئی ہو تو ازراہ بندہ نوازی
درگذرکیجئے اور یہ ں آن ج ن برابر ق ئ رکھئے۔ جزاک اللہ
خیرا۔
آج آپ کی تلاش میں اس طرف نکل آی تو یہ آزاد نظ نظر
آئی۔ یقین ج نئے کہ کئی مرتبہ اسے پڑھ اور بہت غور
سے پڑھ ۔ کچھ اللہ ک "ان " ایس مجھ پر ہے کہ آزاد
ش عری بڑی مشکل سے ذہن میں اتر پ تی ہے۔ ش ید یہ اس
تربیت ک اثر ہے جو بچپن سے مجھ کو م تی رہی ہے۔ بہر
کیف میں کوشش تو بہت کرت ہوں لیکن ہ تھ بہت ک آت ہے
اور مشکل سے آت ہے۔ آپ کی نظ مختصر ہے لیکن
میرے لئے جوئے شیر بن کر رہ گئی ہے۔ جس طرح نظ
شروع ہوئی ہے اور جس طرح اختت کو پہنچی ہے وہ
108
ایک الجھن میں ڈال گی ہے۔ اگر آپ نظ کو نثر میں چند
جم وں کے ذری ہ واضح کر دیں تو مجھ پر عن یت ہوگی۔
یہ کوئی مذا ی طنز نہیں ہے ب کہ اظہ ر حقیقت ہے۔
کھ واڑ نہیں ہے ب کہ نظ کی گہرائی تک پہنچنے کی
کوشش ہے۔ امید ہے کہ آپ توجہ فرم ئیں گے۔ شکریہ
سرور ع ل راز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9301.0
109
حی ت کے برزخ میں
تلاش م نویت کے س لمحے
صدی ں ڈک ر گئیں
چیتھڑوں میں م بوس م نویت ک س ر
اس کن رے کو چھو نہ سک
ت سف کے دو آنسو
ک سہءمحرومی ک مقدر نہ بن سکے
کی ہو پ ت کہ ش کشف
دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی
صبح دھی ن
ن ن ن رس کی نذر ہوئی
ش عر ک کہ
بےحواسی ک ہ نوا ہوا
دفتر رفتہ ش ہ کے گیت گ ت رہ
وسیبی حک ئتیں بےوق ر ہوئیں
قرط س فکر پہ نہ چڑھ سکیں
گوی روایت ک جن زہ اٹھ گی
ضمیر بھی چ ندی میں تل گی
مجذو کے خوا میں گرہ پڑی
مکیش کے نغموں سے طب ہ پھسل گی
110
درویش کے حواس بیدار نقطے
ترقی ک ڈر نگل گی
نہ مشر رہ نہ مغر اپن بن
آخر ک تک یتی جیون
حی ت کے برزخ میں
شن خت کے لیے بھٹکت رہے
111
ہر گھر سے
دن کے اج لوں میں
خداہ ئے ک ر س ز و ک ر نواز
پیتے ہیں سچ ک لہو
کہ وہ اج لوں کی بستی میں
زندہ رہیں
شر سے ا تمہیں
کوئی ش بیدار کرن ہو گی
کہ سچ اسے دکھنے ہی نہ پ ئے
تمہیں بھی تو
اس کی کوئی خ ص ضرورت نہیں
ی پھر
آتی نس وں کے لیے ہی سہی
دن کے اج لوں میں
روح حیدر رکھن ہوگی
سسی فس ک جیون
جیون نہیں
سقراط کی مرتیو
مرتیو نہیں
جین ہے تو
112
حسین ک جیون جیو
کہ ج ارتھی اٹھے
خون کے آنسووں میں
راکھ اڑے
خون کے آنسووں میں
ش عر ک ق
روشنی بکھیرے گ
آک ش کی محت ج نہ رہے گی ‘زندگی
ہر گھر سے چ ند ہر گھر سے سورج
ط وع ہو گ
غرو کی ہر پگ پر
کہیں سقراط کہیں منصور
تو کہیں سرمد کھڑا ہو گ
113
کس منہ سے
چ بھرتے ہ ت‘ اٹھ نہیں سکتے
ہونٹوں پر فقیہ عصر نے
چپ رکھ دی ہے
کتن عظی تھ وہ شخص
گ یوں میں
رسولوں کے ل ظ ب نٹت رہ
ان بولتے ل ظوں کو‘ ہ سن نہ سکے
آنکھوں سے‘ چن نہ سکے
ہم رے ک نوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں
آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے
ہ ج نتے ہیں‘ وہ سچ تھ
قول ک پک تھ
مرن تو ہے‘ ہمیں ی د نہ رہ
ہ ج نتے ہیں اس نے جو کی
ہم رے لیے کی
جی تو ہم رے لیے جی
کتن عجی تھ
زندہ لاشوں ک د بھرت رہ
مص و ہوا ہ دیکھتے رہے
114
نیزے چڑھ ہ دیکھتے رہے
مرا جلا راکھ اڑی ہ دیکھتے رہے
اس کے کہے پر دو گ تو چلا ہوت
کس منہ سے ا
اس کی راہ دیکھتے ہیں
ہ خ موش تم ش ئی
مظ ومیت ک فقط ڈھونگ رچ تے ہیں
بے ج ن جیون کے دامن میں
غیرت کہ ں جو رن میں اترے
ی پھر
پس ل اس کی مدح ہی کر سکے
چ و دنی چ ری ہی سہی
آ
اندرون ل دع کریں
ان مول سی مدح کہیں
115
چل' محمد کے در پر چل
اک پل
آک ش اور دھرتی کو
اک دھ گے میں بن کر
رنگ دھنک اچھ لے
دوج پل
جو بھیک تھ پہ ے کل کی
ک سے سے اترا
م تھے کی ریکھ ٹھہرا
کرپ اور دان ک پل
پھن چکر م را
گرت ہے منہ کے بل
س وٹ سے پ ک سہی
پھر بھی
حنطل سے کڑوا
اترن ک پھل
ال ت میں کچھ دے کر
پ نے کی اچھ
ح ت سے ہے چھل
غیرت سے ع ری
116
ح میں ٹپک
وہ قطرہ
سقراط ک زہر
نہ گنگ جل
مہر محبت سے بھرپور
نی ک پ نی
نہ کڑا نہ کھ را
وہ تو ہے
آ زز
اس میں را ک بل
ہر فرزانہ
عہد سے مکتی چ ہے
ہر دیوانہ عہد ک بندی
مر مٹنے کی ب تیں
ٹ لتے رہن
کل ت کل
ج بھی
پل کی بگڑی کل
در ن نک کے
بیٹھ بےکل
وید حکی
ملاں پنڈٹ
117
پیر فقیر
ج تھک ہ ریں
جس ہتھ میں وقت کی نبضیں
چل
محمد کے در پر چل
118
سننے میں آی ہے
سننے میں آی ہے
ہ آگے بڑھ گئے ہیں
ترقی کر گئے ہیں
سرج ا شر سے اٹھت ہے
واشنگٹن کے مندر ک بت
کس محمود نے توڑا ہے
سکندر کے گھوڑوں ک منہ
کس بی س نے موڑا ہے
اس کی گردن ک سری
کس ٹیپو نے توڑا ہے
سو ک بی نس
ا سو ہی چڑھت ہے
پونڈ سٹرلنگ اور ڈالر
روپیے کے دو م تے ہیں
سننے میں آی ہے
ہ آگے بڑھ گئے ہیں
ترقی کر گئے ہیں
'بیوہ کو ٹک م ت ہے
وہ پیٹ بھر کھ تی ہے
119
گری کی بیٹی
بن دہیج
?ا ڈولی چڑھتی ہے
جو جیون دان کرے
دارو کی وہ شیشی
?ا م ت میں م تی ہے
سننے میں آی ہے
ہ آگے بڑھ گئے ہیں
ترقی کر گئے ہیں
موسی اور عیسی
گرجے اور ہیکل سے
?مکت ہوے ہیں
بدھ را بہ
کہ ن نک کے پیرو ہوں
ی پھر
چیراٹ شریف کے ب سی
?اپن جیون جیتے ہیں
سننے میں آی ہے
ہ آگے بڑھ گئے ہیں
ترقی کر گئے ہیں
گوئٹے اور ب لی
ٹیگور تے ج می
120
سیوفنگ اور شی ی
?س کے ٹھہرے ہیں
ملاں پنڈت اور گرجے ک وارث
انس نوں کو انس نوں کے
?ک آنے کی کہت ہے
سننے میں آی ہے
ہ آگے بڑھ گئے ہیں
ترقی کر گئے ہیں
شیر اور بکری
'اک گھ ٹ پر پ نی پیتے ہیں
?اک کچھ میں رہتے ہیں
سیٹھوں کی بستی میں
مل ب نٹ کر
?کھ نے کی چرچ ہے
رشوت ک کھیل
?ن ک ہوا ہے
منصف
?ایم ن قرآن کی کہتت ہے
سننے میں آی ہے
ہ آگے بڑھ گئے ہیں
ترقی کر گئے ہیں
من تن ک وارث
121
تن من ک بھیدی
ج بھی ٹھہرے گ
جیون ک ہر سکھ
قدموں کی ٹھوکر
امبر کے اس پ ر
انس ن ک گھر ہو گ
'پرتھوی کی
اللہ کی ہر تخ ی ک
م م نہیں
موچی درزی ن ئی بھی
وارث ہوگ
'شخص
شخص ک بھ ئی ہوگ
122
دروازہ کھولو
وڈی ئی ک سرط ن
بھیجے کے ریشوں میں
ج بھی گردش کرت ہے
بھوک ک چ را
میتھی میں
کرونڈ س لگت ہے
موڈ کی تکڑی کے پ ڑے
خ لی رہتے ہیں
حرکت کرتے ہونٹ
دنبی سٹی اور امریکن سنڈی سے
بدتر لگتے ہیں
قتل پہ روتی آنکھیں
ق تل کو گ لی بکتی آنکھیں
ن رت برس تی آنکھیں
بدلے کی بھ ون رکھتی آنکھیں
مسور میں کوڑکو لگتی ہیں
ح سچ کے ق تل بولوں پر
جئے جئے ک ر سے ع ری جھیب
ت لی سے خ لی ہ تھ
بیک ر نکمے
123
روڑی ک کچرا لگتے ہیں
انگ ی کے اش رے پر
لرزیں نہ ک نپیں
ڈھیٹوں کی بھ تی
دھرتی نہ چھوڑیں
ایسے پ ں
کنبھ کرن کے وارث لگتے ہیں
دھونس ڈپٹ کے ک لے ک مے
سننے سے ع ری
سم عی آلے
راون غ یل ک چدا لگتے ہیں
پھولوں سے کومل
کہتے سنتے
ممت جذبے
ڈوبتی کشتی ک ہچکولا لگتے ہیں
یثر کی مٹی پہ مر مٹنے والو
ک لے یرق ن
ی پھر
قطر بررید سے پہ ے
کل ن س ک انجکشن
لا الہ ک وٹمن
حبل الوورید میں رکھ دو
124
ک کیری ف ور کے قطرے
لیزر ش عیں
ان کے بھیجے کی
پیپ آلودہ گ ٹی ک تری نہیں ہیں
من مندر ک دروازہ کھولو
آتے کل کی راہ مت دیکھو
آت کل ک اک ل ک گھر ہے
جن محتر ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح
آپ ک یہ کلا پڑھن کے ن ل ہی دم کے بوہے پہ جینویں
کسی نے آکر دستک دینڑ کے بج ئے کسھن م ری ،وج ج
کے ٹھ کرکے بڑا ای سواد آی ،کی ای ب ت ہے ہم ری
طرف سے ایس سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض
ی فرم نڑ کے واسطے چوہ ی ں پرھ پرھ داد پیش ہےگی
تواڈا چ ہنے والا
اسم عیل اعج ز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7988.0
125
ع ری
جبرائیل ادراک
ش ہین پرواز لے گی
سیم بےقراری
گلا خوشبو لے گی
مہت چ ندنی
خورشید حدت لے گی
جو جس کو پسند آی
لے گی
تیرے پ س کی رہ
دو ہ ت‘ خ لی
دو آنکھیں‘ بے نور
راتوں کے خوا
بے رون ‘ بےزار
126
دن کے اج لے
خ موش‘ اداس
ہم لہ‘ مٹی ک ڈھیر
حرکت سے ع ری
تو‘ مٹی ک ڈھیر
حرکت سے ع ری
127
محتر جن ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! اسلا ع یک
اپ کی نظموں پر اج پہ ی ب ر نظر پڑی۔ ہ نے انھیں بہت
ہی فکر انگیز اور ولولہ انگیز پ ی ۔ یہ نظ ہمیں بہت پسند
ائی ہے۔ اگرچہ ہ اپ کے ع کے مق ب ے میں ش ئید اسے
ان م نوں تک سمجھ نہ پ ئے ہوں۔ جہ ں تک ہ سمجھے
ہیں اپ اس میں انس ن سے مخ ط ہیں اور کہہ رہے ہیں
کہ انس ن صرف قدرت کی عط کی ہوئی چیزوں سے کچھ
ح صل کرت ہے۔ اگر اس سے س کچھ چھین لی ج ئے تو
انس ن کے اپنے پ س کچھ بھی نہیں ،فقط مٹی ک ڈھیر ہے۔
انس ن کو قدرت کی تراشی چیزیں بہت کچھ دیتی ہیں ،لیکن
انس ن ان مخ وق ت کو کچھ نہیں دے سکت ۔ البتہ جبرائیل
والی ب ت ہ سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی ک ع می پر
ن د ہیں۔
اگر ہ سمجھنے میں ک ی ی جزوی طور پر غ ط ہوں تو
مہرب نی فرم کر اس ن چیز کی ب ت پر خ نہ ہوئیے گ ۔
ہم را ع و ادراک فقط اتن ہی ہے ،جس پر ہ مجبور ہیں
اور شرمس ر بھی۔
128
ط ل دع
وی بی جی
ع ری: جوا
صبح05:42:51 ,2014 ,07 فروری:بروز
tovajo ke liay ehsan'mand hoon.
Allah aap ko khush rahe
jald hi tafsilun arz karne ki koshesh karoon ga
lane lay janay ka kaam jabreel hi karta hai.
aql-e-kul bhi maroof hai
adami bila aql kaam chala rara hai
natijatun jo ho raha hai samnay hai
maqsood hasni
129
محتر جن ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سلا مسنون
شکر گزار تو ہ ہیں کہ اپ نے ہم ری الجھن دور کی اور
ہمیں اس نظ ک صحیح م نوں میں مزا لینے اور سمجھنے
میں مدد دی۔ اپ کی اس ب ت
aql-e-kul bhi maroof hai
نے ب ت واضح کر دی ہے اور ہم رے ع میں اض فے ک
ب عث بھی کی ۔
شکریہ اور دع ں کے س تھ
خ کس ر
وی بی جی
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8506.0
130
ایندھن
دیکھت اندھ سنت بہرا
سکنے کی منزل سے دور کھڑا
ظ دیکھت ہے
آہیں سنت ہے
بولت نہیں کہت نہیں
جہن ضرور ج ئے گ
131
نوحہ
وہ قیدی نہ تھ
خیر وشر سے بے خبر
م صو
فرشتوں کی طرح
جھوٹے برتنوں کے گرد
انگ ی ں محو رقص تھیں اس کی
ہر برتن کی زب ن پہ
اس کی مرحو م ں ک نوحہ
ب پ کی بےحسی اور
جنسی تسکین ک بین تھ
آنکھوں کی زب ن پہ
اک سوال تھ
‘اس کو زندگی کہتے ہیں
132
یہی زندگی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
محترمی جن حسنی ص ح :آدا عرض
میں ش عر نہیں ہوں بس اد ک شو ضرور ہے مجھ کو۔
اس لئے اگر کوئی غ ط ب ت کہہ ج ئوں تو م ف کر دیجئے
گ ۔ آپ کی نظ "نوحہ" میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایس
محسوس ہوا جیسے اپ ک مط ال ظ کے پیچ و خ میں
کہیں گ ہو گی ۔ کئی مرتبہ نظ پڑھی اور غور کی لیکن ب ت
پوری طرح واضح نہیں ہوئی۔۔ یہ ضرور میری کوت ہی ہے۔
بڑی عن یت ہوگی اگر آپ اپنے خی ل اور طرز بی ن پر کچھ
روشنی ڈآلیں۔ میرا خی ل ہے کہ اس سے کچھ اور دوستوں
ک بھی ف ئدہ ہو گ ۔ شکریہ پیشگی قبول کیجئے۔ آپ کی
وض حت ک انتظ ر رہے گ ۔
خ د :مشیر شمسی
133
محتر سید ص ح
آپ نے توجہ فرم ئی‘ دل و ج ن سے احس ن مند ہوں۔
اللہ آپ کو خوش رکھے۔
آپ کی تحریر بت تی ہے‘ آپ اللہ کے فضل سے آسوددہ ح ل
ہیں۔ آپ کو تیسرے اور چوتھے درجے کے کسی ہوٹل میں
بیٹھ کر‘ چ ءے سے شغل فرم نے ک ات نہیں ہوا۔ آپ
نے کسی بڑے گھر میں‘ کسی م صو بچے کو برتن ص ف
کرتے نہیں دیکھ ۔ اگر یہ آپ نے ملاحظہ فرم ی ہوت ‘ تو
س سمجھ میں آ ج ت ۔
قب ہ میں نے دیکھ ہے اور دیکھت رہت ہوں۔ میں گ ی میں
دس ب رہ برس کے بچوں کی‘ رات گیے‘ گر انڈے کی
آوازیں سنت ہوں۔
اگر جن پر مط واضع نہ ہوا ہو‘ تو چش تصور میں‘
میری بھیگی پ کوں کو دیکھ لیں‘ ممکن ہے‘ مط واضع
ہو ج ئے۔
مقصود حسنی
134
واہ ...ڈاکٹر ص ح ! آپ نے ہم رے م شرے کے اس
نوحے
-کو بہت عمدگی سے بی ن کی ہے
ب پ کی بے حسی اور
جنسی تسکین ک بین
بہت ک ال ظ میں آپ نے اش رہ دی ہے کہ قصور صرف
م شرے ی
ارب اختی ر ک نہیں ہے ب کہ اس جر میں وہ لوگ بھی
برابر کے شریک ہیں جو اپنے وس ئل کو دیکھے بن ہی
اپنی ن س نی خواہش ت ک
گھوڑا سرپٹ سرپٹ دوڑائے چ ے ج تے ہیں اور س تھ میں
اپنی (مذہبی) ج ہ یت کی وجہ سے بچوں کی ایک قط ر
کھڑی
کر دیتے ہیں
فیصل ف رانی
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8504.0
135
صبح ہی سے
وہ آگ
عزازئیل کی جو سرشت میں تھی
اس آگ کو نمرود نے ہوا دی
اس آگ ک ایندھن
ق رون نے پھر خرید کی
اس آگ کو فرعون پی گی
اس آگ کو حر نے اگل دی
یزید مگر نگل گی
اس آگ کو
میر ج ر نے سجدہ کی
میر ق س نے مش ل ہوس روشن کی
اس آگ کے ش ے
پھر ب ند ہیں
136
مخ و ارضی
ڈر سے سہ گئ ہے
ابر ب راں کی راہ دیکھ رہی ہے
کوئی ب دل ک ٹکڑا نہیں
صبح ہی سے تو
آسم ن نکھر گی ہے
1980
137
ج تک
وہ قتل ہو گی
پھر قتل ہوا
ایک ب ر پھر قتل ہوا
اس کے ب د بھی قتل ہوا
وہ مس سل قتل ہوت رہ
ج تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ ج تی
ج تک خواہشوں ک ‘ جن زہ نہیں اٹھ ج
وہ قتل ہوت رہے گ
وہ قتل ہوت رہے گ
138
محترمی ڈاکٹر حسنی ص ح :آدا عرض
آپ کی نثری نظ پڑھی اور مست ید ہوا۔ نثری نظ کی
ضرورت میری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ نثری نظ دراصل
اچھی نثر کو چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تقسی کرنے ک
دوسرا ن ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ مجھ کو آپ کی
یہ نثری نظ اس لئے اچھی لگی کہ اس ک موضوع وقت
کی پک ر ہے۔ جس طرح س ری دنی میں اور خ ص طور
سے دنی ئے اسلا میں :سیٹھوں ،وڈیروں :کے ہ تھوں
عوا ک استحص ل ہو رہ ہے وہ بہت عبرتن ک ہے۔ افسوس
کہ اس ک علاج سمجھ میں نہیں آت ۔ ایک سوال دل میں
اٹھت ہے کہ اس قدر ظ ہو رہ ہے تو وہ ہستی جس کو ہ
:اللہ ،خدا ،بھگوان ،گ ڈ :کہتے ہیں کیوں خ موش ہے؟ اگر
س کچھ اس کے ہ تھ میں ہے تو پھر وہ کچھ کرتی کیوں
نہیں؟ آپ نے بھی اس پر سوچ ہوگ ۔ من س ج نیں تو اس
پر لکھیں۔ شکریہ۔
خد
مشیر شمسی
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8503.0
139
اردو کی پہ ی سنکوئین
آس ست رے
من کی
چھپ کر من میں
دھڑکت پھڑکت پر خوف کے پہرے
آس ست رے س رے کے س رے ی س اف میں
شن نت ہوئے
140
بے انت سمندر
آنکھ میں پ نی
آ کوثر
شبن
گل کے م تھے ک جھومر
جل ‘جل کر
دھرتی کو جیون بخشے
گنگ جل ہو کہ
ز ز کے مست پی لے
دھو ڈالیں ک لک کے دھبے
جل اک قطرہ ہے
جیون بے انت سمندر
141
رات ذرا ڈھل ج نے دو
رات ذرا ڈھل ج نے دو
ج دو پ ٹ ندی کے
مل ج ئیں گے
در وصل کے کھل ج ئیں گے
نیند کے جھونکے
آغوش میں اپنی
بستی کو لے لیں گے
آک ش سے دھند اترے گی
ظ مت اپنی زل وں میں
ج گتے رہن کے آوازوں کو
کس لے گی
ت ہوس سکوں کی
گھر سے ب ہر نک ے گی
142
رات ذرا ڈھل ج نے دو
ت حصہ اپن بٹوا لین
راتوں کے م لک
لوگ بھروسہ کے ہیں
دن کو تو
اج ے چہرے
دھندلا ج تے ہیں
رات ذرا ڈھل ج نے دو
143
سورج ڈو رہ ہے
میں جو بھی ہوں
چ ند اور سورج کی کرنوں پر
میرا بھی تو ح ہے
دھرتی ک ہر موس
خدا ک ہر گھر
میرا بھی تو ہے
قرآن ہو کہ گیت
رام ئن ک ہر قص
گرنتھ ک ہر نقط
میرا بھی تو ہے
تقسی ک در
ج بھی کھ ت ہے
لاٹ کے دفتر ک منشی
144
ب رود ک م لک
پرچی ک م نگت
عط کے بوہے
بند کر دیت ہے
را اور عیسی کے بول
ن چوں کی پھرتی
بے لب سی میں رل کر
بے گھر بےدر ہوئے ہیں
دفتری ملاں کےمنہ میں
کھیر ک چمچہ ہے
پنڈت اور ف در
ہ ں ن ں کے پل پر بیٹھے
توتے کو ف ختتہ کہتے ہیں
دادگر کے در پر س ئل
پ نی ب وت ہے
145
مدرسے ک م شٹر
کمتر سے بھی کمتر
ک لج ک منشی
جیون دان ہوا کو ترسے
ق ک دھنی
غلاموں کے س پیتے
برچھوں کی زد میں ہے
س اچھ ک ت ک
سر م تھے پر رکھنے والے
گورا ہ س کے چمچے کڑچھے
ط قت کی بی ی میں
کربل کربل کرتے یہ کیڑے
ہ نیمن اور اجمل ک منہ چڑاتے ہیں
مس ئل کی روڑی پر بیٹھ
میں گونگ بہرا بے بس زخمی
146
ن نک سے بدھ
لچھمن سے ویر تلاشوں
مدنی کری کی راہ دیکھوں
ع ی ع ی پک روں کہ
سورج ڈو رہ ہے
147
اپیل
ن رت کی توپوں کے دہ نوں پر
دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو
ان کی آنکھوں کی م صومیت
م صومیت کی آغوش میں پ تے خوا
خوا صبح کی ت بیر ہوت ہے
خوا مر گیے تو
آت کل مر ج ئے گ
اور یہ بھی کہ
ممت قتل ہو ج ئے گی
'خو ج ن لو
ن رت کے تو
پہ ڑ بھی متحمل نہیں ہوتے
کل کیوں کر ہو گ
148
میں ت سے پھر کہت ہوں
ن رت کی توپوں کے دہ نوں پر
دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو
م ہ ن مہ سوشل ورکر لاہور' جنوری-فروری 1992
149
ب رود کے موس
کرائے کے ق تل
کی بھکش دیں گے؟
کرن ہم ری کھ ج ہے
ہ موسی کے ک پیرو ہیں
جو آسم ن سے من و س وی اترے گ
اپنی دونی ک گیندا
ہیرے کی جڑت کے گہنوں سے
گربت کی چٹی پر
سوا سج دھج رکھت ہے
میری ک ط ن م ن
150
اکھین کے س رے رنگوں پر
کہرا بن کے چھ ج ت ہے
کوڑ کی برکی ک وش
دیسی نغموں میں
ڈر ک بے ہنگ غوغ
طب ے کی ہر تھ پ
کھ پی ج ت ہے
کرائے کے ق تل
کی بھکش دیں گے؟
ان کی آنکھوں میں تو
ب رود کے موس پ تے ہیں