انگریزی اور اس کے لسانیاتی دائرے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون 6102
مندرجات
انگریزی آج اور آتا کل
انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ہے
ہندوی کے انگریزی پر لسانیاتی اثرات
اردو کی آوازوں کا نظام اور لارڑ بائرن کی شعری زبان
اردو اور جان کیٹس کی شعری زبان
ٹی ایس ایلیٹ اور روایت کی اہمیت
انگریزی آج اور آتا کل
اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی اس وقت دنیا کی
حاکم زبان ہے اور یہ فخر وافتخار انگریزی تک ہی محدود
نہیں دنیا کی ہر حاکم زبان اس مرتبے پر فائز رہی ہے۔
چونکہ حاکم زبان کا بول چال کا حلقہ پہلے سے وسیع ہو
گیا ہوتا ہے اس لیے اس کا دامن پہلے کی نسبت دراز ہو
جاتا ہے۔ اسے ایسے مخصوص لوگ‘ جن کی کہ وہ زبان
نہیں ہوتی اپنی حاکم سے وفاداری ظاہر کرنے کے لیے
حاکم زبان کی خوبیوں کےبلندوبالا محل اسار دیتے ہیں اور
اس کے صلے میں حاکم کی خالص دیسی گھی سے بنی
جوٹھی چوری میسر آ جاتی ہے۔ جب حاکم زبان رابطے کی
زبان ٹھہر جاتی ہے تو اسے جہاں فخر دستیاب ہوتا ہے تو
وہاں محکوم کی ضرورت حالات آلات نطق اور معاون آلات
نطق کے مطابق ڈھلنا بھی پڑتا ہے بصورت دیگر رابطے
بحال نہیں ہو پاتے۔ یہ حاکم زبان کی مجبوری اور محکوم
کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنا مزاج تلفظ استعمال اور
معنوں میں تبدیلی اور ردوبدل کا شکار ہو۔ ان امور کے
حوالہ سے کچھ باتیں بطور خاص وقوع میں آتی ہیں۔
١۔حاکم زبان بھی متاثر ہوتی ہے۔
٢۔ لسانی اور اظہاری سلیقے صیغے اور طورواطوار میں
تبدیلی آتی ہے۔
٣۔ مقامی اسلوب اور لب ولہجہ اختیار کرنے پر مجبور ہو
جاتی ہے۔
٤۔ نحوی سیٹ اپ میں تبدیلی آتی ہے۔
الفاظ کے مفاہیم بدل جاتے ہیں۔
٥۔ نئے مرکبات تشکیل پاتے ہیں۔
۔ زبان کی نفسیات اور کلچر جو اس کے الفاظ سے
مخصوص ہوتا ہے یکسر بدل جاتا ہے
اس کے برعکس اگر وہ محکوم کی نہیں بنتی تواپنا سکہ
جما نہیں پاتی۔ جس کے نتیجہ میں خون ریزی ختم نہیں ہو
پاتی۔ غلط فہمی کی دیواریں بلند سے بلند ہوتی چلی جاتی
ہیں۔ آج دنیا میں قتل وغارت کا بازار گرم ہے۔ اس کی کئ
وجوہات میں ایک وجہ انگریزی بھی ہے۔ ایک عرصہ گزر
جانے کے باوجود انگریزی لوگوں کے دلوں میں مقام نہیں
بنا سکی۔ لوگ آج بھی اسےاجنبی سمجھتے ہیں اور اس
جبری تعلیم کو ریاستی جبر تصور کرتے ہیں۔ اس زبان کے
لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ عربی اور فارسی کا ایک
عرصہ تک طوطی نہیں طوطا بولتا رہا۔ اسے کبھی ریاستی
جبر نہیں سمجھا گیا حالانکہ وہ بھی ریاستی جبر ہی تھا۔
ہر آنے والے کو جانا ہی ہوتا ہے۔ کوئی قائم بالذات نہیں۔
یہ شرف صرف اور صرف الله کی ذات گرامی کو حاصل
ہے۔ اس حوالہ سے ہر آنے والے کا سکہ اور زبان چلتی
ہے۔
کوئی بھی سر پھرا اچانک تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے۔
حاکم قوت کسی بھی وقت ملکی حالات کے حوالہ سے زوال
کا شکار ہو سکتی ہے۔
قدرتی آفت یا آفات اسے گرفت میں لے سکتی ہے۔ جو لوگ
یہ سمجھتے ہیں کہ آج کیا‘ آتے وقتوں میں
انگریزی کرہ ارض کی زبان ہو گی سخت فہمی میں مبتلا
ہیں۔انگریزی کے خلاف دلوں میں نفرتیں بڑھ رہی ہیں اور
ایک روز انگریزی کیا امریکہ بھی ان نفرتوں کے سیلاب
میں بہہ جائے گا۔ ۔یہاں یہ سوچنا یا کہنا کہ عوام تو محض
کیڑے مکوڑے ہیں‘ کیا کر لیں گے۔ بھولنا نہیں چاہیے
ایک چونٹی ہاتھی کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔
انگریزی کا لسانی نظام انتہائی کمزور ہے۔ خیال کے اظہار
کے حوالہ سے ناقص ہےاور آج کی انسانی پستی میں
انگریزی کے کردار کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہو
گی۔
انگریزی کا کھردرا اور اکھرا لہجہ اور اڑیل مزاج و رجحان
انسانی ترقی کی راہ میں دیوار چین سے کم نہیں۔ آج انسان
ترقی نہیں کر رہا مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ انگریزی
دوسروں کے آلات نطق اور معاون آلات نطق کا ساتھ دینے
سے قاصر و عاجز ہے۔ یہ غیر انگریزوں کے حالات
ماحول موسوں شخصی رجحانات معاشی اور معاشرتی
.ضرورتوں وغیرہ کا ساتھ نہیں دے سکتی۔
انگریزی لوگوں کی ترقی کی راہ میں کوہ ہمالیہ سے سے
بڑھ کر روکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ لوگوں کی ساری توانائی
اسے سیکھنے میں صرف ہو رہی ہے اس طرح وہ مزید
کچھ نہیں کر پا رہے۔ عوامی تاثر یہی ہے کہ یہ مفاد پرست
عناصر کی گورا نوازی اور چمچہ گیری کے نتیجہ میں
لوگوں کے لیے گل گلاواں بنی ہوئی ہے۔
ہندوی(ہندی+اردو) اس وقت دنیا کی واحد زبان ہے جو کرہ
ارض کی زبان بننے کے جوہر رکھتی ہے۔ یہ کوئی نئی
زبان نہیں ہے۔ یہ ہزاروں سال کاسفر طے کر چکی ہے۔
اس وقت اس کے تین رسم الخط ہیں۔
اردو
دیو ناگری
رومن
پنجابی کے سوا دنیا کی کوئی زبان نہیں جس کے اس وقت
تین رسم الخط مستعمل ہوں اور ان میں باقاءدہ لڑیچر
موجود ہو۔
یہ تینوں اس کے اپنے نہیں ہیں۔ اس کے ذاتی رسم الخط
کو تلاشنے کی ضرورت ہے۔ اس کڑوی حقیقت کے باوجود
یہ تینوں اجنبی نہیں ہیں اور اس زبان کے ہی سمجھے
جاتے ہیں۔ انگریزی سرکاری سرپرستی حاصل ہونے کے
باوجود اپناپن حاصل نہیں کر سکی۔ میں بڑے وثوق سے
کہتا ہوں کہ انگریزی ٩فیصد سے زیادہ آگے نہیں بڑھ
پائی۔ اس کے برعکس ہندوی دنیا کی دوسری بڑی بولی
اور سمجھی جانے والی زبان ہے جبکہ لسانی حوالہ سے
.دنیا کی سب سے بڑی اور مظبوط زبان ہے۔
جب انگریزی دنیا کی حاکم زبان نہیں تھی انگریزی
اصطلاحات رائج تھیں یا سائنس اور ٹیکنالوجی کے متعلق
!اصطلاحات موجود ہی نہیں تھیں؟
کیا انگریزی اصطلاحات اس کی ذاتی ہیں یا مانگے تانگے
کی ہیں؟
کیا وہ اپنے اصل تلفظ کے ساتھ مستعمل ہیں؟
اس زبان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں تمام علوم
سے متعلق کتابیں موجود ہیں۔ اس سے زیادہ کوئ بودہ
دلیل ہو ہی نہیں سکتی۔ چینی جاپانی فرانسیسی جرمن یا
پھر ہندوی کے پاس کچھ نہیں۔ ہندسنتان میں اشیاء کی
مرمت کا کام انگریزی کتابیں پڑھ کر کیا جاتا ہے؟ یا پھر
گوروں کو بلایا جاتا ہے؟
کرہ ارض کی زبان بننے کی صلاحیت صرف اور صرف
ہندوی میں موجود ہے۔ اس میں لفظ گھڑنے نئے دینے
اشکالی تبدیلی نئے استعمالات تلاشنے کی صلاحیت
دوسری زبانوں سے کہیں زیادہ موجود ہے۔
جس زبان کو وساءل اور توجہ دو گے ترقی کرے گی۔
ہندوی کبھی بھی توجہ کا مرکز نہیں بنی۔ اسے اس کے
چاہنے والوں نےاپنا خون جگر پلایا ہے۔ ان کے خلوص
اور محبت کے سبب یہ ناصرف زندہ ہے بلکہ ترقی کی راہ
پر گامزن ہے۔
انگریزی کے حوالہ سے ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ
انگریزی کے باعث تجارت کو وسعت ملی ہے۔ کیا احمقانہ
دلیل ہے۔ انگریزی سے پہلے تجارت کا کام نہیں ہوتا تھا؟
تجارت کا تعلق ضرورت سے ہے اورضرورت کو رستہ
تلاشنا خوب خوب آتا ہے۔
ہندوی سے متعلق لوگوں کی تعداد دنیا کی دوسری بڑی
آبادی ہے اس لیے ان سے رابطہ پوری دنیا کی مجبوری
ہے۔ رابطہ نہیں کریں گے تو بھوکے مر جائیں۔ موجودہ
مختصر لباس بھی خواب ہو جائے گا۔ پھل صرف پڑھنے
سننے کی چیز ہو جائیں گے۔ کم مزدوری میں زیادہ کام
کرنے والا مزدور کہاں سے لائیں گے۔ یونیورسٹیوں میں
دماغ نچوڑ کر محض ایک گیڈر پروانے پر خوش ہو جانے
والے کدھر سے آئیں گے؟
کہا جاتا ہے کہ ہم اپنا اصل انگریزی میں ہی تلاش سکتے
ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کا اپنا لسانی نظام ہے۔ زبانیں اپنے
لوگوں کے حوالہ سے آگے بڑھتی ہیں۔ اگر اثر قبول کرتی
ہیں تو اثرانداز بھی ہوتی ہیں۔ ہندوی کی اپنی تاریخ ہے۔ ہر
ہندسنتانی اپنا اصل اسی میں تلاش سکتا ہے۔ بڑے وثوق
سے کہا جا سکتا ہے انگریزی کسی زبان کا ماخذ نہیں۔
انگریزی دوسری زبانوں کی طرح محض اظہار کا ایک
ذریعہ ہے۔ اس میں بھی دوسری زبانوں کے سیکڑوں الفاظ
موجود ہیں۔بہت سارے سبابقے لاحقے درامدہ ہیں۔ اگر یہ
نکال لیے جائیں تو اس کے ذخیرہ الفاظ میں آٹھ دس فیصد
سے زیادہ کچھ نہ رہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ہندوی میں ادب کے سوا ہے کیا۔ زبانیں
ادب کے سہارے زندہ ہیں۔ زبانوں سے ادب نکال دیں تو
وہ کھوکھلی ہو جائیں گی۔ ادب
الفا ظ میسر کرتا ہے۔
زندگی کے تجربے ریکارڑ میں لاتا ہے۔
قوموں کی حقیقی تاریخ مہیا کرتا ہے۔
سماجی رویوں کی نشاندہی اور ان کی ترکیب و تشکیل کا
فریضہ سر انجام دیتا ہے۔
اس کے بغیر انسانی زندگی کی حیثیت مشین سے زیادہ
نہیں رہ پاتی۔
اظہار کو سلیقہ عطا کرتا ہے۔
اظہار میں وسعت لاتا ہے۔
قوموں کا تشخص اسی کے حوالہ سے واضع ہوتا ہے۔
سماج کی بقا میں ادب کلیدی حثیت کا حامل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اردو جو اپنی اصل میں ہندوی کا ایک خط
ہے کے اشاعتے ادارے تحریروں کی حوصلہ افزائ نہیں
کرتے۔ اشاعتی ادارے خدمت سے زیادہ مال پانی پر یقین
رکھتے ہیں۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے ان اداروں کی حیثیت
بارہ فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ انٹرنیٹ پر ہندوی کے
تینوں خطوں میں بہت سارا مواد ہے۔ آتے دنوں میں
اشاعتی ادارے پی ٹی سی ایل کا سا درجہ حاصل کر لیں
کے۔
مزے کی بات یہ کہ انگریزی کی حمایت کرنے والے رومن
ہندوی یا اردو رسم الخط کا سہارا لیتے ہیں۔
انگریزی کے متعلق جو دلائل دیے جاتے ہیں ان سے قطعا
واضع نہیں ہوتا کہ انگریزی آتے کل کی زبان ہو گی۔ ہاں
شدید دباؤ اور کچھاؤ کی حالت میں ہندوی کا دامن وسیع تر
ہوتا جائے گا۔
انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ہے
ہم جس عہد سے گزر رہے ہیں‘ وہ انگریز اور اس کی
زبان انگریزی کا ہے۔ انگریز کے‘ چیلوں چمٹوں اور
گماشتوں نے‘ یہ تاثر عام کر رکھا ہے کہ انگریزی زبان
کے بغیر‘ تر قی کا دروازہ کھل ہی نہیں سکتا۔ نتیجہ کار
بچے کی دنیا میں آنے کی غلطی کے ساتھ ہی‘ انگریزی
کی گرفت میں آ جاتے ہیں اور انگریزی کی تعلیم کا سلسلہ
شروع ہو جاتا ہے۔۔ اس طرح وہ انگریزی کی تعلیم حاصل
کرنے‘ میں زندگی گزار دیتا ہے لیکن دیگر مضامین میں‘
واجبی سا بھی نہیں رہ پاتا۔
تقریبا ١٥٥٤سے‘ برصغیر انگریزی گزیدہ ہے اور یہاں
کے باسی‘ جو بڑے زبردست یودھا‘ جفاکش‘ محنتی اور
ہنرمند ہیں اپنوں کے بنائے گئے اس قلعلے کو‘ سر نہیں
کر سکے۔ اب ایک ہی صورت نظر آتی ہے‘ کہ جوں ہی
بچہ پیدا ہو‘ اسے امریکہ کے کسی نرسری ہاؤس میں
بجھوا دیا جائے‘ تا کہ وہ وہاں ناصرف انگریزی سیکھ
سکے‘ بلکہ اس کلچر سے بھی‘ آگہی حاصل کر سکے۔
موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے‘ لگتا ہے‘ آتے
برسوں میں
١۔ بھوک کے سبب بچوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جائے
گا۔
٢۔ لوگ بھوک پیاس‘ اندھیرے‘ ریاستی جبر وغیرہ سے
تنگ آ کر‘ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
٣۔ گریب اور کمزور کے بچے‘ تعلیم حاصل کرنے کا خواب
دیکھنا بند کر دیں گے۔
٤۔ چوری‘ ڈاکے‘ مار دھاڑ اور ہیرا پھیری سے وابستہ
لوگ‘ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر سکیں گے۔
عملی سطع پر‘ دیکھ لیں دس سال پڑھنے اور سارے
مضامین میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود‘ انگریزی
میں فیل ہو جانے کے سبب‘ طالب علم صفر پر آ جاتا ہے۔
نقل پر گرفت کی صورت میں‘ بچہ ان پڑھ رہ جاتا ہے۔
انگریزی کے پرچے کے دن‘ امتحانی سنٹر جمعہ بازار کا
سا سماع پیش کرتے ہیں۔ آگے پیچھے یہ تناسب‘ دس
فیصد سے زیادہ نہیں رہ پاتا۔ پانی کے ہزار بوکے نکال
لینے سے‘ پانی پاک نہیں ہو جاتا‘ جب تک کھوہ سے کتا
نکال باہر نہیں کیا جاتا۔ انگریز چلا گیا‘ ہم سمجھ بیٹھے کہ
ہم آزاد ہو گیے ہیں‘ جب کہ حقیقت اس کے قطعی برعکس
ہے۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ انگریز نہیں رہا‘ اب اس
کے گماشتے روپ اور نعرے بدل بدل کر‘ عوام کا جینا
حرام کر رہے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو انگریزی پڑھنے میں‘ عمر
کا اچھا خاصا وقت برباد کر دیتے ہیں‘ انھیں انگریزی آ
جاتی ہے؟! سارا کام تو گائیڈوں کے سہارے چل رہا ہے۔
ایسے میں‘ انگریزی کیسے آئے گی۔
سدا بادشاہی الله کی‘ برصغر میں بھانت بھانت کے لوگ
آئے۔ ان کی زبان کے متعلق بھی‘ اسی قسم کی باتیں کی
جاتی تھیں‘ ترقی تو نہیں ہوئی۔ یہاں کا شخص جہاں تھا‘
وہیں کھڑا ہے۔ گولے اور گماشتے عین سے عیش کر
رہے ہیں۔ ان کے کردار پر انگلی رکھنے والے‘ پولے
کھاتے ہیں۔ پھر بھی اپنی زبان کو لگام نہیں دیتے‘ تو جان
سے جاتے ہیں۔
زبان کا انسانی ترقی سے‘ کوئی تعلق واسطہ نہیں‘ ترقی
انسانی ذہانت پر انحصار کرتی ہے۔ ذہانت زبان کو‘ ترقی
سے ہمکنار کرتی ہے۔ بیجھے میں کچھ ہو گا تو ہی‘ بولا
یا لکھا جائے گا۔
انگریزی جسے یہاں کی ماسی بنا رکھا ہے‘ اس کی محض
دو ایک بنیادی خامیوں کا تذکرہ کرتا ہوں
١۔ ابتدائی آوازیں اظہار کے حوالہ سے ناکافی ہیں۔
٢۔ نہایت اہم آوازیں چ اور ش اس میں موجود نہیں ہیں۔
٣۔ مرکب آوازوں کا نظام کمزور دہرا ناقصں اور پچیدہ ہے۔
اب ضمن نمبر ٣کے حوالہ سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں
ش کے لیے‘ دس یا دس سے زیادہ مرکب استعمال ہوتے
ہیں‘ جب کہ دوسری جگہ ان کی آواز کچھ اور ہوتی ہے۔
جیسے
ti
actionایکشن
mentionمنشن
essentialاسنشیل
admitionاڈمیشن
وغیرہ
si
asiaایشیا
malaysiaملیشیا
tesionٹنشن
pensionپنشن
وغیرہ
sh
shiftشفٹ
sheetشیٹ
shirtشرٹ
shipشپ
وغیرہ
ci
socialسوشل
specialاسپیشل
ce
croceکروشے
ch
Fitcheنٹشے فٹشے
یہ جرمن لفظ ہیں لیکن انگریزی میں مستعمل ہیں۔
ssi
missionمشن
permissionپرمشن
اڈمشنadmission
ssu
ایشوissue
اشورassure
پریشرpressure
su
شوگرsuger
شؤرsure
انشورنسinsurance
sch
schizophrenia شیزفرنا
tu چchay/chu)
picture (pikchar) پیکچر
nature (naichar) نیچر
mixture (mixchar) مکسچر
actual (akchal) ایکچل
punctual (punkchual) پنکچل
habitual (habichual) ہبچل
torture (torcher) ٹورچر
attitude (aitichud) ایٹیچود
culture (kachar) کلچر
vertual (virchual) ورچول
fortunate (forchunate) فورچونیٹ
future (fuchar) فیوچرہر
ہر جگہ اس مرکب آواز کی یہ صورت برقرار نہیں رہتی۔
ch
کو چ کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔ مثلا
chest چسٹcheat چیٹchit چٹ
ch
کو خ کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
munichمیونخ
یہ جرمن لفظ ہے لیکن انگریزی میں مستعمل ہے۔
اس مرکب سے ش کی آواز کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ مثلا
cliche nietzoche, Fitche, charade
chکو ک کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسے
کیمیکل chemical
سکولschool
کیمسٹ chemist
باور رہنا چاہیے‘ کہ اسی طرح مفرد آوزوں کے لیے‘
مرکب لیٹرز سے کام چلایا جاتا ہے۔ یہ بھی کہ یہ مرکبات‘
کسی ایک آواز کے لیے مخصوص نہیں ہیں‘ مختلف
جگہوں پر‘ مختلف آوازیں دیتے ہیں۔ اس سے‘ پچیدگیاں
پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہی نہیں اظہاری عمل میں بھی‘ روکاوٹ
پیدا ہوتی ہے۔ مفاہیم اور تلفظ میں ابہام کی صورتیں بڑھتی
ہیں۔ غرض کہ انگریزی کا ساؤنڈ سسٹم بنیادی طور پر
انتہائی ناقص ہے۔ ایسی زبان‘ جس کا ساؤنڈ سسٹم ناکارہ
یا خرابیوں کا شکار ہو‘ اسے دنیا کی بہترین زبان قرار دینا
اور ترقی کا ذریعہ قرار دینا‘ دماغی خلل اور حد سے بڑی
ٹی سی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ہندوی کے انگریزی پر لسانیاتی اثرات
مختلف علاقوں کے لوگوں کی زبان' میں حیرت انگیز
لسانیاتی مماثلتوں کا پایا جانا' اتفاقیہ نہیں ہو سکتا۔ اس
کے پس منظر میں' کسی سطع پر کوئی ناکوئی واقعہ'
معاملہ' حادثہ' بات یا کچھ ناکچھ ضرور وقوع میں آیا ہوتا
ہے' چاہے اس کی حیثیت معمولی ہی کیوں نہ رہی ہو' اس
کا اثر ضرور مرتب ہوا ہوتا ہے۔
ایک دیسی یا بدیسی شخص' بازار میں کچھ خریدنے' کسی
سے ملنے یا کسی اور کام سے آتا ہے۔ وہ اپنے اس
ٹھہراؤ کے مختصر دورانیے میں' کوئی اصطلاح' کوئی
ضرب المثل' کوئی محاورہ یا کوئی لفظ چھوڑ جاتا ہے۔ اس
کا بولا' ایک شخص استعمال میں لاتا ہے' پھر دوسرا' ان
کی دیکھا دیکھی میں وہ مہارت میں آ جاتا ہے۔ اب یہ لازم
نہیں کہ وہ اصل تلفظ' اصل معنوں یا پھر اصل استعمال کے
مطابق' استعمال میں آ جائے۔ وہ اپنی اصل سے کہیں دور'
بل کہ بہت دور جا سکتا ہے۔ معنوی اعتبار سے اصل سے
برعکس استعمال میں آ سکتا ہے۔ کئی معنی اور استعمال
سامنے آ سکتے ہیں اور پھر اس کے غیر ہونے کا گمان
تک نہیں گزرتا۔
یونانیوں کا سیاسی' علمی' ادبی اور ثقافتی حوالہ سے' دنیا
بھر میں ٹہکا تھا۔ آتے وقتوں کی عظیم سیاسی' عسکری
اور مکار قوت' برطانیہ ان کی دسترس سے باہر نہ تھی۔
اسی طرح برصغیر بھی یونانیوں کے زیر اثر رہا۔ یونان کا
لٹیرا اعظم' برصغیر پر بھی حملہ ہوا۔ یہاں پٹ گیا۔ زخمی
ہوا اور یہاں سے دم دبا کر بھاگ گیا۔ ایک یونانی قبیلہ
یہاں رک گیا۔ کیلاش میں ان کا پڑاؤ ٹھہرا۔ یہ یونانی کئی
ولائیتوں پر حکومت کرتے رہے۔ اس یونانی عسکری
قبیلے کی نسل' آج بھی' یہاں بہت ساری اپنی یونانی
روایات کے ساتھ موجود ہے۔
رومن برٹن :بریطانیہ' بریٹن' برطانیہ۔ آئی لینڈ کا علاقہ تھا'
جو کہ رومن ایمپائر کی حکومت میں تھا۔ برصغیر رومن
شہنشاہت سے باہر نہ تھا۔ برصغیر میں ان کے ہونے کے
بہت سے اثار انٹرنیٹ پر تلاشے جا سکتے ہیں۔ انگریزی
کا رسم الخط آج بھی رومن ہے۔ اس رسم الخط میں لکھی
اردو کو رومن اردو کا نام دیا جاتا ہے۔
برطانیہ والے 0581سے بہت پہلے' برصغیر میں وارد ہو
گیے تھے' تاہم 0581سے 0491تک برصغیر ان کا رہا۔
محسن آزادی ہٹلر کی عنایت اور مہربانی سے' برطانیہ کے
ہاتھ' پاؤں اور کمر کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور سونے کی
چڑیا' اس کی دسترس میں نہ رہی۔ اس کے بعد امریکہ کی
گڈی چڑھی اور آج تک چڑھی ہوئی ہے۔ گویا دونوں
یونیوں کے زیر تسلط تھے' اس کے بعد رومیوں کے رہے۔
اس کے بعد برصغیر پر برطانیہ کا کھرا کھوٹا سکا چلا اور
اب حضرت امریکہ بہادر کی خداوندی کا دور دورہ ہے۔
اسم کی ترکیب کے لیے' انگریزی یں لاحقہ موجود نہیں۔
یہ خالص برصغیر سے متعلق ہے۔ مثلا دیوارکا' پریمیکا'
انومیکا' کامولیکا وغیرہ گویا امریکا' برصغیر کا لفظ ہے۔
مثلا امبڑیکا .اگر کسی شخص کا نام ہے' تو اس کا برصغیر
سے کوئی ناکوئی رشتہ' ضرور رہا ہو گا۔ امریکہ میں بھی
انگریزی زبان استعمال میں آتی ہے۔
صاف ظاہر ہے' ان علاقوں کے لوگ یہاں آئے۔ ان علاقوں
سے' جس حوالہ سے بھی سہی' یہاں سے لوگ گیے۔
مزے کی بات یہ کہ آج بھی لاکھوں کی تعداد میں مغرب
کے مختلف علاقوں میں برصغیر کے لوگ' عارضی اور
مستقل اقامت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا کہ برصغیر والے ہی
متاثر ہوئے' سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا۔ حاکم ہو کہ
محکوم' ایک ولایت میں اقامت رکھنے کے سبب' ایک
دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہندوی' جوآل ہند کی زبان
ہے' نے دنیا کی تمام زبانوں کو' لسانی' فکری اور اسلوبی
حوالہ سے متاثر کیا .اسی طرح یہ بھی اپنی بےپناہ لچک
پذیری کے باعث' ان سے متاثر ہوئی۔ مختلف زبانوں کے
الفاظ' اس کے ذخیرہءاستعمال میں داخل ہیں۔
متاثر کرنے کی' کئی صورتیں اور سطحیں ہوسکتی ہیں۔
1
کلچر زیادہ تر خواتین کے زیر اثر رہا ہے۔
زیورات' لباس' بناؤ سنگار کے اطوار' ناز و نخرہ وغیرہ
کے چلن' ایک دوسرے کے اختیار کرتی ہیں۔
نشت و برخواست کے اصول اختیار کرتی ہیں۔
گفت گو میں' ایک دوسرے کی طرز اختیار کرتی ہیں۔
گھر میں سامان کی درآمد اور اس کے رکھنے اور سجانے
کے طور' اپناتی ہیں۔
کچن اور اس سے متعلقہ امور میں' نقالی کرتی ہیں۔
اشیائے اور اطوار پکوان اپناتی ہیں۔
فقط یہ امور ہی انجام نہیں پاتے' بل کہ ان کے حوالہ سے
اسما' صفات' سابقے' لاحقے' اسلوب بھی اس گھر میں
منتقل ہوتے ہیں۔
2
کم زوروں کی ہنرمندی اور ہنرمندوں پر ڈاکے پڑتے ہیں
ان کے وسائل قدرت پر قبضہ جمایا جاتا ہے
ان کے علمی و ادبی ورثے کو غارت کرنے کے ساتھ اس
کی بڑی بےدردی سے لوٹ مار کی جاتی ہے۔
ان تینوں امور کے حوالہ سے ان کی زبان میں بہت کچھ
بدیسی داخل ہو جاتا ہے۔
3
اس کے علاوہ معاشرتوں کے انسلاک سے
بہت سے معاشرتی اطوار
انسانی رویے
رسم و رواج
مذہبی اور نظریاتی اصول
سیاسی' معاشی اور ارضیاتی طور طریقے اور خصوصی و
عمومی چلن
ایک دوسرے کے ہاں منتقل ہوتے ہیں اور صدیوں کا سفر
کرتے ہیں۔ آتے وقتوں میں کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں'
لیکن باقی رہتے ہیں۔ بعض کی' ہزاروں سال بعد بھی'
بازگشت باقی رہتی ہے۔ یہ امور زبان سے بالا بالا نہیں
ہوتے۔ ان سب کا زبان سے اٹوٹ رشتہ استوار ہوتا ہے۔
اشیائے خوردنی اور اشیائے استعمال مثلا کپڑے' برتن
وغیرہ
اشیائے حرب اور حربی ضوابط
طرز تعمیر وغیرہ
قبریں بنانے کے انداز
کا تبادلہ ہوتا ہے' ان کے حوالہ سے زبان کو بہت کچھ
میسر آتا ہے۔ میں نے یہاں' محض گنتی کے دو چار
اموردرج کیے ہیں' ورنہ ایسی بیسیوں چیزیں ہیں' جو
وقوع میں آتی ہیں اور ان کا زبانوں پر اثر مرتب ہوتا ہے۔
اس ذیل میں' قرتہ العین حیدر کی تحریروں کا مطالعہ مفید
رہے گا۔ انگریزی بھی' برصغیر کی زبان ہندوی سے' متاثر
ہوتی آئی ہے جس کے لیے' ان کی شاعری کا مطالعہ کیا
جا سکتا ہے۔
بعض اردو اور انگریزی کی ضمیروں میں' صوتی مماثلت
موجود ہے۔ مثلا
Of fortune’s favoured sons, not me.
نظم: Wish
شاعر: Matthew Arnold
To die: and the quick leaf tore me
me
کے لیے اردو میں مجھے مستعمل ہے۔ پوٹھوہار میں
ضمیر می آج بھی بول چال میں ہے۔
........
My feeble faith still clings to Thee,
نظم: My God! O Let Me Call Thee Mine!
شاعر: Anne Bronte
my
انگریزی میں عام استعمال کی ضمیر اردو میں اس ضمیر
کے میرا مستعمل ہے۔
........
you can keep your head when all
about you
: Ifنظم
: Rudyard Kiplingشاعر
اردو میں تو عام بول چال میں موجود ہے۔
........
بہت سے الفاظ آوازوں کے تبادل یا کسی اور صورت میں
انگریزی میں مستعمل ہیں۔ مثلا
اردو میں دن انگریزی میں ڈان
moreمور
mاور الف کی آواز میم یعنی
mمیں بدلی ہے۔
کو حشوی قرار دیا جا سکتا ہے۔
Once more before my dying eyes
Wish: Matthew Arnold
ودوا اپنی اص میں ود اور وا کا مرکب ہے۔ بےوا مستعمل
صورت بیوہ۔
بے نہی کا سابقہ ہے
بہت سے لفظ اس طور سے لکھے جاتے ہیں۔ مثلا
بیچارہ بجائے بےچارہ
بیدل بجائے بےدل
بیہوش بجائے بےہوش
بیکار بجائے بےکار
بیوہ بےوا بمعنی جس کا ور نہ رہا ہو ر کی آواز گر گئی
ہے .ودوا بےوا کے لیے بولا جاتا ہے۔
انگریزی میں وڈو۔ وڈ او
widow
وڈ آؤٹ اس کے' یعنی ور' او ۔ ور
...............
کئی ایک لفظ انگریزی کی صوتیات کے پیش نظر' معمولی
سی تبدیلی کے ساتھ' انگریزی میں داخل ہو گئے ہیں۔
no
انگریزی میں نفی کے لیے استعمال ہوتا ہے اردو میں نہ
جب کہ انگریزی میں نو
نو' باطور نہی کا سابقہ
نوسر نوٹنکی
نو .سر .باز
باطور سابقہ نا ناکافی نازیبا ناچیز
نہ باطور سابقہ نہ جاؤ' نہ چھیڑو' نہ کرو' نہ مارو
ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے
آنکھوں سے‘ چن نہ سکے
کس منہ سے :مقصود حسنی
نہ کڑا نہ کھارا
مقصود حسنی:چل' محمد کے در پر چل
I have no wit, no words, no tears;
A Better Resurrection: Christina
Rossetti
No motion has she now, no force;
A Slumber Did My Spirit Seal: William
Wordsworth
Thou hast no reason why ! Thou canst
have none ;
Human Life: Samuel Taylor Coleridge
............
رشتوں کے حوالہ سے بھی انگریزی میں کچھ الفاظ داخل
ہوئے ہیں۔ مثلا
پنجابی میں بھرا
فارسی میں برادر
اردو میں بھی برادر مستعمل ہے
انگریزی میں
brother
اصل لفظ برا۔ بھرا ہی ہے جب کہ در باطور لاحقہ داخل ہوا
ہے۔ ایک پہلے ہے تب ہی دوسرا برا یا بھرا ہے۔ دونوں کا
برابر کا رشتہ ہے۔ انگریزی میں واؤ الف کا تبادل ہے۔ یہ
رویہ طور میواتی اور راجھستانی میں موجود ہے۔ برا سے
برو بامعنی بھائی۔
در کا لاحقہ
father, mother
میں بھی موجود ہے
در' باطور سابقہ اور لاحقہ اردو میں بھی رواج رکھتا ہے.
مثلا
درگزر' درحقیقت' درکنار
چادر چا در
His brother doctor of the soul,
Wish: Matthew Arnold
فارسی میں' ماں کے لیے مادر مستعمل ہے۔ اردو میں مادر
پدر آزاد عام بول چال میں ہے۔ اصل لفظ ما ہی ہے۔ ں
حشوی ہے .یہ ہی صورت فارسی کے ساتھ ہے۔ انگریزی
میں
mother
بولتے ہیں۔ اس میں اصل لفظ مو ہی ہے' فارسی کی طرح
در الحاقی یعنی خارجی ہے۔
ہر برتن کی زبان پہ
اس کی مرحوم ماں کا نوحہ
باپ کی بےحسی اور
جنسی تسکین کا بین تھا
نوحہ :مقصود حسنی
............
مرکبات حسن شعر میں داخل ہیں۔ یہ شخصی اور مجموعی
رویوں کے عکاس اور شاعر کی اختراعی فکر کےغماز
ہوتے ہیں۔ یہ ہی نہیں' زبان کی وسعت بیانی کی بھی
گواہی دیتے ہیں۔ اردو اس ذیل میں کمال کی شکتی رکھتی
ہے۔ انگریزی میں بھی مرکبات ملتے ہیں۔ اس ذیل میں
اردو کے پائے کے مرکبات کی حامل ناسہی' لیکن اس کا
دامن اس کمال زبان سے تہی نہیں۔ اردو اور انگریزی سے
چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
موسم گل ابھی محو کلام تھا کہ
..........
پریت پرندہ
..........
اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا
.........
پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا
......
یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے
من کے موسم دبوچ لیتا ہے
مقصود حسنی:حیرت تو یہ ہے
greedy heirs, ceremonious air, hideous
show, poor sinner, undiscovered
mystery, death’s winnowing wings,
dying eyes, dew of morn, generous sun,
silent moves, ruddy eyes, tears of gold,
clouds of gloom, golden wings,
trembling soul, make dreams, worth of
distance, Shadows of the world, golden
Galaxy, happy hours, sun in flight,
Wish: Matthew Arnold
From bands of greedy heirs be free;
The ceremonious air of gloom –
All which makes death a hideous show!
پوشیدہ نمائش
Of the poor sinner bound for death,
مفلس گناہ گار بےچارہ گناہ گار
That undiscovered mystery
Which one who feels death’s winnowing
wings
Once more before my dying eyes
ڈوبتی آنکھیں
Bathed in the sacred dew of morn
تاسف کی بوندیں
But lit for all its generous sun,
Where lambs have nibbled, silent moves
They look in every thoughtless nest,
فکر سے عاری گھروندا
Seeking to drive their thirst away,
ہانکتی پیاس
And there the lion’s ruddy eyes
مغرور نگاہیں
Shall flow with tears of gold,
Night: William Blake
Sometimes there are clouds of gloom
Still buoyant are her
Life: Charlotte Bronte
My trembling soul would fain be Thine
لرزتی روح
My God! O Let Me Call Thee Mine!
Anne Bronte
If you can dream – and not make dreams
your master;
خواب بننا
With sixty seconds’ worth of distance
run -
If: Rudyard Kipling
Shadows of the world appear.
Hung in the golden Galaxy.
The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson
Now stand you on the top of happy
hours,
مسرور لمحے
But wherefore do not you a mightier way
Shakespeare
And then, O what a glorious sight
Address To A Haggis: Robert Burns
Wild men who caught and sang the sun
in flight,
مرکبات تحریر کے اختصاری معاملے میں' حد درجہ معاون
ہوتے ہیں' بعینہ تشبیہات ناصرف اسم کو نمایاں کرتی ہیں'
بل کہ اسم کی کائنات میں مماثلتیں بھی تلاشتی ہیں۔ یہ ہی
نہیں' اختصاری عمل میں بھی' اپنے حصہ کا کردار ادا
کرتی ہیں۔ میر کا یہ معروف ترین شعر ملاحظہ ہو۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب سی ہے
اس سے ناصرف لبوں کی نازکی سامنے آئی ہے' بل کہ
چند لفظوں میں کئی صفحات پر محیط کام سمیٹ دیا گیا
ہے۔ تشبیہات کے معاملہ میں' انگریزی اردو کے قریب تر
ہے۔ ماضی بعید اورانگریز کے برصغیری عہد میں' اس
زبان نے انگریزی کو متاثر کیا ہو گا۔ اردو اور انگریزی
سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
سلوٹ سے پاک سہی
پھر بھی
حنطل سے کڑوا
اترن کا پھل
مقصود حسنی:چل' محمد کے در پر چل
ساون رت میں
آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے
مقصود حسنی:مت پوچھو
My life is like a faded leaf
My life is like a frozen thing,
My life is like a broken bowl,
Can make you live yourself in eyes of
men.
But wherefore do not you a mightier way
Shakespeare
........
A Better Resurrection: Christina
Rossetti
Blind eyes could blaze like meteors and
be gay,
........
Do Not Go Gentle Into That Good Night
Dylan Thomas
The moon like a flower
Night: William Blake
........
And Joy shall overtake us as a flood,
On Time: Milton
........
Blind eyes could blaze like meteors and
be gay,
Do Not Go Gentle Into That Good Night
Dylan Thomas
........
Made snow of all the blossoms; at my
feet
Like silver moons the pale narcissi lay
Holy Week At Genoa: Oscar Wilde
........
Shall shine like the gold
Night: William Blake
........
Hops like a frog before me.
Brooding Grief: D.H.Lawrence
حسن واختصار' موازنہ' تاریخ اور علوم سے راوبط کی ذیل
میں تلمیح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اردو شاعری میں اس
کا عام' برمحل اور بلاتکلف استعمال ملتا ہے۔ مثلا
سنا ہے
یوسف کی قیمت
سوت کی اک انٹی لگی تھی
عصر حاضر کا مرد آزاد
دھویں کے عوض
ضمیر اپنا بیچ دیتا ہے
نظم :سنا ہے' مقصود حسنی
وہ آگ
عزازئیل کی جو سرشت میں تھی
اس آگ کو نمرود نے ہوا دی
اس آگ کا ایندھن
قارون نے پھر خرید کیا
اس آگ کو فرعون پی گیا
اس آگ کو حر نے اگل دیا
یزید مگر نگل گیا
مقصود حسنی:صبح ہی سے
انگریزی میں باکثرت ناسہی' اس سے کام ضرور لیا گیا
ہے۔ مثلا
To feel the universe my home;
Wish: Matthew Arnold
In heaven’s high bower,
The angels, most heedful,
Night: William Blake
And flamed upon the brazen greaves
Of bold Sir Lancelot.
The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson
Shall I compare thee to a summer’s day?
So are you to my thoughts
That God Forbid
That time of year
Against My Love: Shakespeare
Cast in the fire the perish’d thing;
Melt and remould it, till it be
A royal cup for Him, my King:
O Jesus, drink of me
A Better Resurrection: Christina
Rossetti
‘Jesus the son of Mary has been slain,
Holy Week At Genoa: Oscar Wilde
I long for scenes where man hath never
trod
A place where woman never smiled or
wept
there to abide with my creator God,
خالق
I am: John Clare
If even a soul like Milton’s can know
death ;
Human Life: Samuel Taylor Coleridge
Biting my truant pen, beating myself for
spite:
"Fool," said my Muse to me, "look in thy
"heart, and write.
Loving in truth: Phlip Sidney
ضدین پر کائنات استوار ہے۔ یہ شناخت کا کلیدی وسیلہ
ہیں۔ اردو شاعری میں' صنعت تضاد کا استعمال ملتا ہے۔
خوبی کی بات یہ کہ ضدین ایک دوسرے سے متعلق ہوتی
ہیں۔ مثلا
وہ قیدی نہ تھا
خیر وشر سے بے خبر
معصوم
فرشتوں کی طرح
نظم :نوحہ' مقصود حسنی