The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2016-07-01 10:53:26

mazmein_2016_07_01_15_46_27_026

mazmein_2016_07_01_15_46_27_026

‫کو‘ اسی پیمانے سے ناپا جا سکتا ہے۔ وہ تہذیب اور کلچر‬
‫کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ ادب‘ انسانی زندگی کا اہم ترین شعبہ‬
‫ہے‘ اور وہ کسی قوم کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ زمانے کے‬

‫ساتھ ساتھ اس کا خمیر اٹھتا رہتا ہے۔‬

‫ایلیٹ کے نزدیک‘ ہر ملک اور قوم کا‘ ادب ایک خاص قسم‬
‫کی‘ آب وہوا اور مخصوص طرح کے ماحول میں‘ آنکھ‬
‫کھولتا اور پرورش پاتا ہے۔ اس لیے جو روایات‘ ادب میں‬
‫تشکیل پاتی ہیں‘ ان سب کا ان روایات سے‘ ہم آہنگ ہونا‬

‫فطری سی بات ہے۔ کوئی ادب‘ زندہ روایات کے بغیر‘ زندہ‬
‫نہیں رہ سکتا۔ بڑے سے بڑا ترقی پسند‘ اس بات کا معترف‬

‫ہے کہ ہر زمانے کی تہذیب کو‘ گزشتہ دور کا سہارا لینا‬
‫پڑتا ہے۔ ماضی کا رنگ‘ چاہے کتنا ہلکا ہو‘ حال اور‬
‫مستقبل میں ضرور ملے گا۔ سماجی زندگی اور تہذیب و‬

‫تمدن‘ ماضی سے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں‘ لیکن اس‬
‫کا مطلب یہ نہیں‘ کہ ماضی کو اپنا آئیڈیل سمجھ لیا جائے۔‬
‫اگر سمجھ لیا جائے گا‘ تو یہ روایت پسندی نہیں روایت‬

‫پرستی ہو گی۔‬

‫ایلیٹ کا موقف ہے‘ کہ جدت‘ تکرار سے بہتر ہے۔ یہ‬
‫ورثہ میں نہیں ملتی‘ بلکہ تسلسل میں چلی آتی ہے۔ روایت‬
‫کی ذیل میں‘ اس نے چند خطرات سے‘ آگاہ کیا ہے۔ بعض‬
‫اوقات ہم زندگی بخش اور غیرصحت مند روایات میں‘ تمیز‬
‫نہ کرتے ہوئے‘ کسی غیر صحت مند روایت سے چپکے‬
‫رہتے ہیں۔ اس سے غلط اور صحیح گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔‬

‫اس کے نزدیک‘ روایت پرستی‘ سطحی تقلید اور اندھی‬
‫نقالی‘ مضر اور خطرناک ہیں۔ تجربہ بھی‘ روایت کے بطن‬

‫سے جنم لیتا ہے۔ نئے پن میں‘ پرانا پن یا نئے پن کے‬
‫ساتھ پرانا پن بھی ضروری ہے۔‬

‫روایت‘ ادب کی نشوونما اور ترقی میں‘ اپنا کردار ادا کرتی‬
‫ہے۔ ادب بدلتے حالات کی رفتار کے ساتھ‘ ارتقا اور ترقی‬
‫کے راستے پر گامزن رہتا ہے۔ روایات اسے رستہ دکھاتی‬
‫ہیں۔ ادب کو تجربات کی نئی دنیا سے روشناس کرانا بھی‘‬
‫روایات کے پیش نظر ہوتا ہے۔ وہ اس کے لیے‘ زمین تیار‬
‫کرتی رہتی ہیں‘ اور جانچنے کا معیار بھی دریافت کرتی‬
‫ہیں۔ روایت کے بغیر تنقیدی معیارات‘ تشکیل نہیں پاتے۔‬

‫ایلیٹ کے نزدیک‘ روایات‘ ادب اور عوام کے درمیان‘‬
‫رابطے کا ذریعہ بھی ہیں۔ ان ہی کے سبب‘ عوام ادب کو‬
‫اپنا قومی سرمایہ سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ‘ روایت کے‬

‫مفہوم کو محدود کر لیتے ہیں۔ وہ غلط تحریکوں کے‬
‫محرک ہوتے ہیں‘ اور خود کو‘ جدت پسند قرار دیتے ہیں۔‬
‫وہ سارے ادب سے‘ ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن اس کے‬
‫معنی یہ نہیں‘ کہ تجربات نہ کیے جائیں۔ تجربہ‘ ادب کی‬

‫جان اور تاریخ ہوتا ہے۔‬

‫روایات اور تجربات‘ ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہیں۔‬
‫تجربات کے لیے‘ کسی زمین کا ہونا ضروری ہے۔ یہ زمین‬

‫روایت فراہم کرتی ہے۔ ادب اور فن میں‘ جہاں دوسری‬
‫روایت کی طرح پڑتی ہے‘ وہاں تجربے کا بھی پتا چلتا ہے۔‬

‫ایک بڑا شاعر‘ روایت پرست بھی ہوتا ہے‘ اور تجرباتی‬
‫بھی۔ اس کے بزرگوں نے‘ جو دریافتیں کی ہوتی ہیں‘ وہ‬
‫انہیں نظرانداز نہیں کر سکتا‘ بصورت دیگر‘ اس کی آواز‘‬
‫محض صدائے بازگشت ہو کر رہ جائے گی‘ اور وہ اپنے‬

‫بزرگوں کے پائے تک‘ نہیں پہنچ پائے گا۔‬

‫تاریخی روایات کے حصول کے لیے‘ ایلیٹ نے‘ شاعر کے‬
‫تاریخی شعور کو‘ اہم قرار دیا ہے۔ جو پچیس سال کی عمر‬
‫کے بعد بھی‘ شاعر رہنا چاہتا ہے‘ اس کے لیے تاریخی‬

‫شعور ناگزیر ہے۔ یہ تاریخی شعور‘ ادب کی لازمانی کا‬
‫شعور بھی ہے‘ اور اس کے زمانی ہونے کا ثبوت بھی۔‬

‫زمانی اور لازمانی ہونے کا شعور‘ شاعر کو روایت کا‬
‫شاعر بناتا ہے‘ اور اسی سے‘ اس کے زمانی مقام کا‘‬
‫تعین ہوتا ہے۔ ایلیٹ کے نزدیک‘ لافانیت کو سمجھنے کے‬
‫لیے‘ روایت کا شعور‘ شرط لازم ہے۔ تاہم وہ روایت کے‬
‫شعرا کے کلام کو‘ نقالی نہیں سمجھتا۔ یہ شعور شعرا کو‘‬
‫مجبور کرتا ہے‘ کہ وہ لکھتے وقت اپنے عہد ہی کو‘ پیش‬
‫نظر نہ رکھیں‘ بلکہ گزشتہ سے آج تک کے ادب کو‘ اور‬
‫اپنے ملک کے سارے ادب کو‘ اپنا ہم عصر تصور کریں۔‬

‫ایلیٹ ادب اور زندگی‘ دونوں میں معیارات کے نفوذ اور‬
‫غیر شخصی و غیرذاتی‘ میلانات و رجحانات کا قائل ہے۔‬
‫اسی لیے وہ‘ احساس رفتہ اور احساس روایت کو ضروری‬
‫سمجھتا ہے۔اس کی نظر میں‘ تمام ادبی فن پارے ایک‬

‫سلسلہ میں‘ تنظیم و ترتیب پاتے ہیں۔ اس کے خیال میں‘‬
‫روایت کے یہ معنی نہیں ہیں‘ کہ ادب کو محض چند‬

‫تعصبات سے پاک رکھا جائے۔ تعصبات روایت کے تشکیلی‬
‫عمل کے دوران‘ وجود پکڑتے ہیں۔‬

‫ایلیٹ کے روایت سے متعلق خیالات کا‘ لب لباب کچھ یوں‬
‫‪:‬ٹھہرے گا‬

‫روایت لکیر کےفقیر ہونے کا نام نہیں۔ ‪١-‬‬

‫روایت کے حصول کے لیے‘ محنت و کاوش سے‘ کام ‪٢-‬‬
‫لینا پڑتا ہے۔‬

‫تاریخی شعور کا مطلب یہ ہے‘ کہ شاعر کو احساس ‪٣-‬‬
‫ہو‘ کہ ماضی صرف ماضی ہی نہیں‘ بلکہ اس کے اعلی‬
‫اور آفاقی عناصر‘ ایک زندہ شے کی طرح‘ نشوونما پاتے‬

‫ہوئے‘ حال میں پہنچ گیے ہوتے ہیں۔‬

‫شاعری کی ادبی حیثیت کا اندازہ‘ کسی شاعر کی‘ دیگر ‪٤-‬‬
‫شعرا کے کلام ہی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کی مجرد‬
‫طور پر‘ قدروقیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا‘ کیوں کہ‬
‫وہ پورے ادبی نظام کا‘ حصہ ہوتا ہے۔‬

‫ہر نیا فن پارہ‘ اپنے نئے پن سے تمام فن پاروں کی ‪٥-‬‬
‫قدروقیمت کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی روشنی میں گزشتہ‬

‫کے فن پاروں کا‘ پھر سے جائزہ لینا پڑتا ہے۔‬

‫ایمان دارانہ تنقید‘ شاعر پر نہیں‘ شاعری پر ہونی ‪٦-‬‬
‫چاہیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے‘ کہ کسی ایک نظم کا‬

‫تعلق‘ دوسری نظموں سے ہوتا ہے۔‬

‫نظم صرف ایک مفہوم ہی نہیں‘ اپنا زندہ وجود رکھتی ‪٥-‬‬
‫ہے۔ اس کے مختلف حصوں سے‘ جو ترکیب بنتی ہے‘ وہ‬
‫واضح حالات کی فہرست سے مختلف ہوتی ہے۔ وہ احساس‬
‫یا جذبہ یا عرفان جو نظم سے حاصل ہوتا ہے‘ وہ شاعر‬

‫کے ذہن میں ہوتا ہے۔‬

‫اس مضمون کی تیاری میں خصوصا درج ذیل کتب شکریے‬
‫‪:‬کے ساتھ پیش نظر رہیں‬

‫مغرب کے تنقیدی اصول پروفیسر سجاد باقر رضوی‬
‫مطبع عالیہ ‪١٩٦٦‬‬

‫ارسطو سے ایلیٹ تک ڈاکٹر جمیل جالبی نیشنل‬
‫فاؤنڈیشن ‪١٩٥٥‬‬

‫انگریزی اور اس کے لسانیاتی دائرے‬

‫مقصود حسنی‬
‫ابوزر برقی کتب خانہ‬

‫جون ‪6102‬‬


Click to View FlipBook Version