ایندھن
دیکھتا اندھا سنتا بہرا
سکنے کی منزل سے دور کھڑا
ظلم دیکھتا ہے
آہیں سنتا ہے
بولتا نہیں کہتا نہیں
جہنم ضرور جائے گا
نظم :نوحہ' مقصود حسنی
اس صنعت کا' انگریزی شاعری میں بھی ملتا ہے اور
استعمال کا طریقہ اردو سے قطعی مختلف نہیں۔ چند مثالیں
ملاحظہ فرمائیں
And up and down the people go,
The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson
The friends who come, and gape, and
;go
Wish: Matthew Arnold
And by his health, sickness
Night: William Blake
A place where woman never smiled or
wept
I am: John Clare
ہم صوت الفظ کا استعمال' غنا اور آہنگ کی حصولی میں'
بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اردو غزل میں شگفتگی'
شائستگی اور وارفتگی اسی کی مرہون منت ہے۔ نظم کے
شعرا نے بھی اس صنعت کو بلا تکلف استعمال میں رکھا
ہے۔ مثلا
عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔
صبح اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے
نقط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ
سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔
یہ ہی فیصلہ ہوا تھا :مقصود حسنی
مضمون ایک طرف' یہ ہم صوت الفاظ ہی' اس پہرے کو نثر
کا سرمایا رہنے نہیں دیتے۔ انگریزی شاعری میں بھی' یہ
صنعت دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثلا
!Must need read clearer, sure, than he
Bring none of these; but let me be,
Nor bring, to see me cease to live,
!To work or wait elsewhere or here
Wish: Matthew Arnold
Still strong to bear us well.
Manfully, fearlessly,
The day of trial bear,
For gloriously, victoriously,
!Can courage quell despair
Life: Charlotte Bronte
صنعت تکرار لفظی' جہاں آہنگ کے لیے ناگزیر ہے' وہاں
بات میں زور اور وضاحت کا سبب بنتی بھی ہے۔ اردو میں
اس صنعت کا استعمال عام ملتا ہے۔ مثلا
وہ قتل ہو گیا
پھر قتل ہوا
ایک بار پھر قتل ہوا
اس کے بعد بھی قتل ہوا
وہ مسلسل قتل ہوتا رہا
جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی
جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا
وہ قتل ہوتا رہے گا
وہ قتل ہوتا رہے گا
مقصود حسنی:جب تک
اب انگریزی شاعری سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
If you can wait and not be tired by
waiting,
Or, being lied about, don’t deal in lies,
Or, being hated, don’t give way to
hating,
And yet don’t look too good, nor talk too
wise;
..................
If you can dream – and not make dreams
your master;
If: Rudyard Kipling
If you can bear to hear the truth you’ve
spoken
Life: Charlotte Bronte
Four grey walls, and four grey towers,
.........
The knights come riding two and two:
........
The helmet and the helmet-feather
Burned like one burning flame together,
The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson
Then, horn for horn, they stretch an
strive:
Address To A Haggis: Robert Burns
A little while, a little while,
The weary task is put away,
And I can sing and I can smile,
Alike, while I have holiday.
A Little While: Emily Bronte
نوٹ
انگریزی میں غزل نہیں اسی لیے مثالیں نظم سے لی گئی
ہیں۔
اردو کی آوازوں کا نظام اور لارڑ بائرن کی شعری زبان
ہندوی‘ المعروف اردو ہندی استعمال
۔۔۔۔ بولی سمجھی لکھی پڑھی ۔۔۔۔
میں آنے والی‘ دنیا کی دوسری بڑی اور پرانی زبان ہے‘
جب کہ اپنے لسانیاتی نظام کے حوالہ سے‘ دنیا کی سب
سے بڑی زبان ہے۔ لچک پذیری اور الفاظ گھڑنے میں اپنا
جواب نہیں رکھتی۔ انگریز عہد کے سوا‘ اس کی کبھی
سرپرستی نہیں ہوئی۔ انگریز نے بھی‘ فارسی کا پتا کاٹنے
کے لیے‘ اس کی سرپرستی کی۔ اس اکیلی ہی کی نہیں‘
دیگر مقامی زبانوں کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ وقت
گزرنے کے بعد‘ کیلے کے چھلکے کی طرح پرے دے
مارا۔ اس زبان کی یہ بھی خاصیت ہے‘ کہ پورے برصغیر
میں استعمال ہوتی ہے۔
یہ برصغیر کے سماج سے پھوٹی اور سماج ہی میں پلی
بڑھی۔ یہ حد درجہ کی ملن سار ہے۔ پنجابی کے علاوہ‘ تین
رسم الخط کی حامل زبان ہے۔ ماسی مصیبتے‘ اس وقت
دنیا کی چودھرین بنی ہوئی ہے کہ اسے سیکھے اور
جانے بغیر‘ ترقی کرنا ممکن ہی نہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ
بالجبر ہونے والے کام‘ کب منزل کو پہنچے ہیں۔ ہمارا بچہ
انگریز پڑھتا ہوا‘ کر کرا کر بی اے پاس کر لیتا ہے۔ بڑی
ہی چھلانگ لگائے گا‘ تو کسی منشی گاہ میں کلرک بادشاہ
بن جائے گا۔
میں نے آج تک یہاں کے کسی انگریزی پڑھے کو‘ اباما
کی سیٹ پر براجمان نہیں دیکھا‘ ہاں البتہ اباما کے کسی
گماشتے کا چمچہ بن گیا ہو‘ تو یہ الگ بات ہے۔
ماسی مصیبتے سے گہرا رشتہ استوار کیے بغیر‘ ترقی
ممکن نہیں۔
بےشک اس سے بڑھ کر‘ کوئی احمقانہ اور گمراہ کن
بات ہو ہی نہیں سکتی۔ میں نے اپنے اس لسانی مطالعہ
کے لیے زبان وفکر کے مستند شاعر لارڈ بائرن کو لیا
ہے۔ مثالیں اسی کے کلام سے پیش کی گئی ہیں۔ اس
مطالعہ کے دوران‘ کسی نوعیت کی لسانی عصیبت میرے
پیش نظر نہیں۔ وہ ہی لکھا ہے‘ جو میری سمجھ میں آیا
ہے۔ باور رہے‘ اردو میری زبان یا بولی نہیں رہی۔ میں اول
تا آخر پنجابی ہوں‘ اس لیے کسی لسانی عصبیت کا سوال
ہی نہیں اٹھتا۔
اردو زبان کے استعمال کا نظام پانچ قسم کی آوازوں پر
:استوار ہے
الپ پران ہلکی آوازیں
اس میں الف سے ے تک آوازیں شامل ہیں۔
انگریزی میں کچھ آوازیں شامل نہیں ہیں۔ ان کے لیے
مرکب آوازیں استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ یہ مرکب آوازیں
پچیدگی کا سبب بنتی ہیں۔ جیسے شین کے لیے دس یا اس
سے زائد مرکب آوازیں استعمال میں آتی ہیں۔
بعض آوازیں ایک سے زائد آوازیں پیدا کرتی ہیں۔ مثلا سی
کاف کی آواز بھی دیتی ہے۔ ایس سے زیڈ یعنی ز ذ ض ظ
کی آواز بھی حاصل کی جاتی ہے۔
دوہری آواز
Morn came and went--and came, and
brought no day
came
کم میں‘ سی کاف کی آواز دے رہا ہے
Nor age can chill, nor rival steal,
can
کین میں‘ سی کاف کی آواز دے رہا ہے
As once I wept, if I could weep,
once
وانس میں‘ سی سین کی آواز دے رہا ہے
could
کڈ میں‘ سی کاف کی آواز دے رہا ہے
The palaces of crowned kings--the huts,
palaces
پلیسز میں‘ سین کی آواز دے رہا ہے۔
crowned
کراؤڈ میں‘ کاف کی آواز دے رہا ہے۔
...............
ایس سے سین کی آواز حاصل کی جاتی ہے۔ مثلا
Forests were set on fire--but hour by
hour
Forests اورset
میں ایس سین کی آواز دے رہا ہے۔
Wore an unearthly aspect, as by fits
aspect
میں ایس سین کی آواز دے رہا ہے۔
The habitations of all things which dwell,
habitations
things
میں ایس ذ ز ض ظ کی آواز دے رہا ہے
Happy were those who dwelt within the
eye
those
میں ایس ذ ز ض ظ کی آواز دے رہا ہے
To chase the glowing hours with flying
feet.
chase
میں ایس ذ ز ض ظ کی آواز دے رہا ہے
They fell and faded--and the crackling
trunks
crackling trunks
میں کے ک کی آواز کے لیے استعمال ہوا ہے
And a quick desolate cry, licking the
hand
licking
میں کے ک کی آواز کے لیے استعمال ہوا ہے
..............
بعض آوازوں کے لیے ایک مفرد آواز سے کام چلایا جاتا
ہے۔ مثلا ذ ز ض ظ کے لیے زیڈ کی آواز استعمال کی جاتی
ہے جو غیر اردو دان کے لیے پچیدگی کا موجب بنتی ہے۔
مثلا
zulm
کو
ذلم‘ زلم‘ ضلم
zaef
کو
ذعیف زعیف ظعیف
zillat
کو
ضلت ظلت زلت
rozeel
کو
روذیل روضیل روظیل
بھی لکھا جا سکتا ہے تاہم سمجھنے تک معاملہ
صاف رہتا ہے۔ ہاں لکھتے وقت‘ پچیدگی کا رستہ کھلتا
ہے۔
اس مسلے کا تعلق آوازوں کے تبادلی نظام سے نہیں۔ یہ
ایک کمی اور کم زوری کی طرف اشارہ ہے۔ رومن میں
لکھتے وقت‘ اردو پشتو پنجابی عربی فارسی وغیرہ والے‘
زیڈ سے کام چلا لیں گے‘ لیکن لکھتے وقت پچیدگی تو
پیدا ہو گی۔
..............
چ بڑی اہم آواز ہے‘ یہ آواز انگریزی کے حروف ابجد میں
نہیں ہے‘ تاہم اس کے لیے انگریزی میں مرکب سی ایچ
استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا
ch
And form so soft, and charms so rare,
And they did live by watchfires--and the
thrones,
To watch it withering, leaf by leaf,
شروع درمیان یا آخر میں‘ آواز چ دیتا ہے۔
میونخ میں یہ مرکب خ کی آواز دیتا ہے۔
..............
انگریزی میں آواز د موجود نہیں اس کے لیے مرکب ٹی
ایچ استعمال میں آتا ہے۔ مثلا
There is an eye which could not brook
The night that follow'd such a morn
;Than see it pluck'd to-day
And men forgot their passions in the
dread
The flashes fell upon them; some lay
down
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انگریزی والے د کی آواز
نکال سکتے ہیں تاہم د کے لیے یہ مرکب مستقل اور
مستعمل نہیں۔ مخصوص لفظوں تک محدود ہے۔
..............
انگریزی میں آواز شین موجود نہیں۔ اس کے لیے مرکب
ایس ایچ استعمال میں آتا ہے۔ مثلا
The flashes fell upon them; some lay
down
The feeble ashes, and their feeble breath
Ships sailorless lay rotting on the sea,
Blushed at the praise of their own
loveliness.
IS time the heart should be unmoved,
..............
اس کے علاوہ کئی مرکب‘ شین کی آواز کے لیے مستعمل
ہیں‘ جو انگریزوں کے علاوہ انگریزی سے جبری متعلق
لوگوں کے لیے‘ پچیدگی کے دروازے کھولتے ہیں۔ مثلا
And men forgot their passions in the
dread
Of this their desolation; and all hearts
یہ معاملہ شین ش تک ہی محدود نہیں‘ سین کے ساتھ
بھی‘ یہ ہی صورت حال درپیش ہے۔ مثلا
Immediate and inglorious; and the pang
But with a piteous and perpetual moan,
..............
مرکب آواز جی ایچ اردو والے رومن میں غین کی آواز کے
لیے استعمال کرتے ہیں۔ ئی اور ف کی آواز سے اس کا
کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ یہ مرکب آواز انگریزی میں
مستعمل ہے۔ مفرد آواز ف کے لئے اس مرکب کا استعمال
ملاحظہ ہو۔
It is enough for me to prove
کئی الفظ میں‘ اس کی آواز دب بھی جاتی ہے۔ مثلا
HERE be none of Beauty's daughters
..............
انگریزی میں ف کے لیے آواز ایف حروف ابجد میں
موجود ہے۔ اردو میں کسی مفرد آواز کے لیے مرکب آواز
کا استعمال رواج نہیں رکھتا۔ اس ذیل میں اس کا نظام الگ
سے ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے جی ایچ مرکب
استعمال میں آتا ہے۔ اوپر اس کا مع مثال ذکر موجود ہے۔
..............
:دوہری آواز
آ درحیقیقت‘ اردو کی مفرد اور ہلکی آوازوں میں شامل
نہیں۔ انگریزی میں اکثر سنگل اے سے کام چلایا جاتا ہے۔
اہل زبان کے لیے دشواری نہیں بنتی‘ ہاں البتہ غیر
انگریزی طبقے کے لیے تلفظ میں مشکل پیدا ہوتی ہے۔
مثلا
Wore an unearthly aspect, as by fits
..............
علامتی آوازیں
ان میں زیر زبر شد جزم‘ پیش وغیرہ شامل ہیں۔ اہل زبان
کے لیے اس کی مکتوبی صورت لازم نہیں۔ انگریزی میں
واول وغیرہ جب کہ شد کے لیے ڈبل ساؤنڈ یعنی ایک ہی
حرف لکھا جاتا ہے۔
شد اہم اور نمایاں ترین علامتی آواز ہے۔ اس میں ایک لفظ
ایک بار لکھ کر دو بار پڑھنے میں آتا ہے اور اپنی
شناخت برقرار رکھتا ہے۔ اہل زبان بلاعلامت اسے اس کے
تلفظ کے مطابق پڑھ لیتے ہیں۔ مثلا
ذرہ‘ جنت‘ قوت‘ مجسم‘ اول‘ تصوف
انگریزی میں‘ علامتی آوازیں موجود نہیں ہیں اس لیے‘
حرف کو دو مرتبہ رقم کر دیا جاتا ہے۔ دونوں آوازیں‘ اپنا
وجود برقرار رکھتی ہیں۔ مثلا
;Like common earth can rot
com mon
The sun that cheers, the storm that
lowers,
che ers
Uphold thy drooping head;
dro oping
Hissing, but stingless--they were slain
for food.
His sing
Immediate and inglorious; and the pang
Im mediate
And evil dread so ill dissembled,
dis sembled,
..............
غنا کے لیے‘ ایک ہی آواز‘ دو مرتبہ باسلیقہ استعمال
کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ مثلا
تسلسل‘ مسلسل‘ تذبذب
Than thus remember thee!
remember
A moment on that grave to look.
moment
Swung blind and blackening in the
moonless air;
blackening
The habitations of all things which dwell,
habitations
The brows of men by the despairing
light
despairing
..............
اردو میں ایک ہی لفظ میں؛ ایک ہی آواز‘ تین مرتبہ
‘استعمال کرنے کا چلن موجود ہے۔ دو بار مسلسل اور ایک
علامتی آواز شد کی مدد سے حاصل کی جاتی ہے۔ مثلا
مکرر‘ مقرر‘ مخفف‘ تشدد
انگریزی میں یہ طور نہیں ملتا۔ ہاں البتہ‘ ایک لفظ میں
ایک آواز کا تین بار استعمال نظر آتا ہے۔ مثلا
And the eyes of the sleepers waxed
deadly and chill,
اصل لفظ
sle
ہے
مستعمل
sleep
ہے
er
کی بڑھوتی
حالت کی وضاحت کے لیے ہوئی ہے۔
And when they smiled because he
deemed it near,
میں زمانے کی وضاحت کے لیے استعمال ہوا
..............ہے۔
انگریزی میں ایک آواز کو؛ ایک ہی لفظ میں‘ ایک جا‘
استعمال کا چلن موجود ہے‘ لیکن ان کی الگ سے
شناخت‘ موجود نہیں‘ ہاں البتہ آواز میں زور‘ آہنگ اور
غنا میں ہر چند اضافہ ضرور ہو جاتا ہے۔ مثلا
The flower in ripen'd bloom unmatch'd
As stars that shoot along the sky
And men forgot their passions in the
dread
The feeble ashes, and their feeble breath
..............
بھاری آوازیں یعنی مہاپران
یہ خاص برصغیر کی آوازیں ہیں۔ سنسکریت سے حاصل
کی گئی ہیں۔ یہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں‘ لیکن اردو میں
چند ایک مستعمل ہیں۔ یہ آوازیں انگریزی میں نہیں ہیں۔
جہاں کہیں ان کا استعمال ہوا ہے‘ مرکب آواز کی صورت
میں ہوا ہے۔ اس کی جڑ ھ ہے۔ ابتدا میں باقاعدہ آواز کی
جڑت ہو جاتی ہے۔
اردو کی بھاری آواز ت ھ تھ انگریزی میں عام استعمال
کی ہے اور غالبا ادھر ہی سے گئی ہے۔ نمونہ کے چند
الفاظ ملاحظہ ہوں
,Though Earth receiv'd them in her bed
The loveliest things that still remain,
Through dark and dread Eternity
Rayless, and pathless, and the icy earth
All earth was but one thought--and that
was death
bh jh dh rh gh kh ph
مرکبات رومن اردو لکھنے والوں کی ضرورت ہیں۔
..............
غیر مشمولہ آواز
ں
حروف ابجد میں شامل نہیں‘ لیکن اس کا جمع بنانے کے
علاوہ بھی‘ بڑی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی
میں یہ آواز موجود نہیں ہے۔ انگریزی میں‘ ڈبل او این کا
استعمال ملتا ہے لیکن آواز کو گولائی اور دائرہ نہیں میسر
آتا۔ دوسرا این کی آواز ڈبل او میں مدغم نہیں ہوتی۔
..............
مرکب آوازیں
اردو میں بہت سی مرکب آوازیں مستعمل ہیں۔ انگریزی کا
دامن مرکب آوازوں سے تہی نہیں لیکن اردو اس معاملہ
میں بہت فراخ ہے۔ مرکب آوازوں میں‘ سابقے لاحقے
وغیرہ شامل ہیں‘ جو حالت اور صیغے کی تبدیلی کے لیے
لفظ کا حصہ بنا دیے جاتے ہیں۔ اس ذیل میں چند ایک
مثالیں ملاحظہ ہوں۔
کر
پیکر‘ دنکر‘ منافکر‘ ہیکر
The worm, the canker, and the grief
گر
جادوگر‘ کاریگر
Till hunger clung them, or the dropping
dead
ار
ارضی‘ ارکان‘ ارشی
عرشی
With silence and tears.
Like the swell of Summer's ocean.
کن
کارکن‘ کان کن
Were burnt for beacons; cities were
consum'd,
ری
کراری‘ گراری‘ ہتھاری
Of cloudless climes and starry skies;
Where glory decks the hero's bier,
Than thus remember thee!
Returns again to me,
ٹی
پھینٹی‘ بالٹی‘ کانٹی
ہٹی‘ ٹٹی
بتی‘ پتی
درانتی
Through dark and dread Eternity
ور
زیور
طاقت ور
وردان
There flowers or weeds at will may grow,
بی
باادب‘ باوقار‘ باجماعت
بیمار
بےکار‘ بےزار‘ بےوقوف
یائے مصدری اضافے سے
خراب ی خرابی‘ شراب ی شرابی‘ کباب ی کبابی
So I behold them not:
ان
ان تھک‘ ان گنت‘ انجان
عنقریب
Wore an unearthly aspect, as by fits
IS time the heart should be unmoved,
Though by no hand untimely snatch'd,
گھٹن
باطن
سوتن
And shivering scrap'd with their cold
skeleton hands
ئی
سلائی کڑھائی
Shine brightest as they fall from high.
My tears might well be shed,
ایسی؛ بہت سی مرکب آوازیں موجود ہیں‘ یہاں باطور نمونہ
چند آوازیں درج کی گئی ہیں‘ تا کہ دونوں زبانوں کی لسانی
قربت اور اردو کے آوازوں کے نظام کا‘ محدود سہی‘ کسی
حد تک تھوڑا بہت اندازہ ہو سکے۔
اردو اور جان کیٹس کی شعری زبان
Born: October 31, 1795,
Moorgate, City of London, United
Kingdom
Died: February 23, 1821,
Rome, Italy
انسان ایک دوسرے کے قریب آئے یا نہ آئے یا مفاد
پرست عناصر‘ ان میں دوریاں پیدا کیے رکھیں‘ اس کے
باوجود اس کی نفسیات‘ سماجیات اور معاشیات میں قربت
رہتی ہے۔ نظریاتی اور امرجاتی حوالہ سے‘ کوسوں دور
رہ کر بھی‘ ان تینوں کے زیر اثر‘ ایک دوسرے کے قریب
رہتا ہے۔ مزدور سیٹھ کی مجبوری ہے اور سیٹھ مزدور کی
کم زوری ہے۔ دوکان دار گاہک کے ساتھ اور گاہک دوکان
دار کے ساتھ منسلک ہیں۔ دکھ سکھ میں‘ تنہائی کاٹنے کو
دوڑتی ہے۔ اس
وقت دشمن کی سانجھ بھی‘ مداوے کا کام کرتی ہے۔
جب انسان ایک دوسرے سے نفسیات‘ سماجیات اور
معاشیات کے حوالہ سے‘ قربت رکھتے ہیں‘ تو زبانیں کس
طرح ایک دوسرے سے دور رہ سکتی ہیں۔ کسی نہ کسی
سطع پر‘ ان میں لسانیاتی قربت موجود ہوتی ہے۔ اس
ناچیز تحریر میں‘ انگریزی کے رومانوی شاعرجان کیٹس
کی زبان کا‘ اردو کے تناظر میں‘ لسانیاتی مطالعہ کرنے
کی کوشش کی گئی ہے۔ الله کرے‘ میری یہ حقیر کوشش
احباب کے کام کی نکلے۔
مرکب آواز ری‘ اردو میں مستعمل ہے۔ آخر میں رے آنے
والی آواز کے بعد‘ یائے مصدری بڑھا کر‘ لفظ کی مختلف
صورتیں اور حالتیں بنا لی جاتی ہیں۔ مثلا
صفتی :بھاری‘ ساری‘ کاری‘ عاری
فعلی :جاری‘ اتاری‘ ماری
اسمی :آری‘ ہاری‘ کیاری‘ لاری
باور رہنا چاہیے اردو میں اس کا باطور مرکب آواز
استعمال نہیں ہوا۔
باطور سابقہ استعمال ملتا ہے۔ مثلا
ریحان
:اس کی دو صورتیں ہیں
ری حان‘ ریح ان
ریح ان :انس ان‘ شیط ان
ری حان میں باطور صفتی سابقہ ہے۔
انگریزی میں بھی باطور صفتی سابقہ استعمال میں آتا ہے۔
:جان کیٹس کے ہاں اس کا استعمال ملاحظہ ہو
Never have relish in the faery power
تر :اردو میں صفت کی دوسری حالت بیان کرنے کے لیے
باطور لاحقہ استعمال میں آتا ہے۔ مثلا
تر :خوب تر‘ قریب تر‘ عظیم تر
بدتر
انگریزی میں‘ ت کی آواز موجود نہیں اس کی متبادل آواز
ٹ ہے‘ اس لیے تر کی بجائے ٹر استعمال میں آتا ہے۔ ٹر
اردو ہی کی طرح‘ اسی طور سے‘ صفت کی دوسری حالت
واضح کرنے کے لیے‘ باطور لاحقہ استعمال میں آتا ہے۔
:جان کیٹس کے ہاں اس کا استعمال ملاحظہ ہو
Are sweeter; therefore, ye soft pipes,
;play on
ان نہی کا سابقہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سنسکرت سے آیا
ہے۔ جو بھی سہی‘ اردو میں عام استعمال ہوتا ہے۔ جیسے
ان :ان پڑھ‘ ان تھک‘ ان جان‘ ان حد‘ ان گنت وغیرہ
انگریزی میں بھی یہ سابقہ نہی کی تفہیم کے لیے عام
استعمال میں آتا ہے۔ جان کیٹس کے ہاں اس سابقے کا
استعمال ملاحظہ ہو۔
ان-un
Thou still unravish'd bride of quietness,
Heard melodies are sweet, but those
unheard
And, happy melodist, unwearied,
That I might drink, and leave the world
unseen,
Of unreflecting love;--then on the shore
Heard melodies are sweet, but those
unheard
انگریزی لفظ ہائی ہا کے ساتھ ئی لاحقے کی بڑھوتی سے
ترکیب پایا۔ مرکب آواز جی ایچ سے ای کی آواز پیدا کی
گئی ہے۔ یہ انگریزی کا اپنا اسلوب تکلم نہیں۔ بہرطور ہا
کے لیے بالا مترادف ہے جب کہ ئی کا لاحقہ اردو میں بھی
موجود ہے۔ مثلا
ہائی :بالائی
مزید کھائی لائی پائی گائی سلائی
جان کیٹس کے ہاں ہائی کا استعمال ملاحظہ ہو
That leaves a heart high-sorrowful and
cloy'd,
لاحقہ کر فاعل کی ترکیب کے لیے استمال آتا ہے۔ مثلا
کر :دنکر‘ پربھاکر‘ بھیانکر‘ عطاکر‘ جادوکر‘ محاکاتکر
یہ لاحقہ اسی مقصد کے لیے انگریزی میں بھی مستعمل
ہے۔ جان کیٹس کے ہاں اس لاحقے کا استعمال ملاحظہ ہو۔
Bold Lover, never, never canst thou
kiss,
And sometimes like a gleaner thou
dost keep
اس لاحقے کی ترکیب و استعمال کا چلن اردو سے قطعی
مختلف نہیں۔
انسانی موڈ و مزاج سے میل کھاتے طور‘ انداز اور رویے
کے اظہار کے لیے‘ سے کی بڑھوتی کرتے ہیں۔ جیسے
الفت سے شفقت سے‘ غضب سے‘ قہر سے‘ محبت سے
اس کے لیے لاحقہ یہ بھی بڑھاتے ہیں۔ مثلا
شوقیہ‘ مذاقیہ‘ ذوقیہ
اس کے لیے‘ سابقہ بہ بھی استعمال میں آتا ہے۔ جیسے بہ
مشکل بہ قدر بہ حیثیت
انگریزی میں لی لاحقہ پیوست کرتے ہیں۔ اردو لفظ گھڑنے
میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔ جیسے لفظ ٹربلات سننے میں
آیا ہے۔ لی لاحقہ بڑھانے سے یہ لفظ کچھ یوں ترکیب پائیں
گے۔
الفتلی ‘ شفقتلی ‘ غضبلی ‘ قہرلی ‘ محبتلی
اردو سابقہ لی سے تہی نہیں۔
جھولی‘ کھولی‘ سولی‘ شرلی
بریلی‘ حویلی
معروف نحو :اکیلی
اصل نحو :ایکلی
:جان کیٹس کے ہاں لاحقہ لی کا استعمال ملاحظہ ہو
A flowery tale more sweetly than our
rhyme:
اردو میں ور عام استعمال کا لاحقہ ہے۔ مثلا طاقت ور‘ دیدہ
ور -باور
انگریزی میں بھی یہ لاحقہ مستعمل ہے ۔ مثال میں جان
کیٹس کی یہ لائین ملاحظہ ہو۔
Never have relish in the faery power
لفظ کے ساتھ سابقہ اور لاحقہ ایک ساتھ استعمال کا اردو
میں چلن موجود ہے۔ مثلا
ہمنوائی :ہم نوا ئی
بےوفائی :بے وفا ئی
روسیاہی :رو سیاہ ی‘ رو سیا ہی
لامتناہی :لا متناہ ی‘ لا متنا ہی
یہ طور انگریزی میں موجود ہے۔ جان کیٹس کے ہاں یہ
:چلن ملاحظہ فرمائیں
No -yet still steadfast, still
unchangeable,
un change able,
اردو میں تشبیہ‘ حسن شعر میں نمایاں حیثیت کی حامل
ہے۔ کسی شے‘ جگہ‘ شخص اور معاملے کو اجاگر اور
نمایاں کرنے میں‘ بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انگریزی
شاعری میں اس کا اسی غرض اور طور سے استعمال ملتا
likeہے۔ حرف تشبیہ میں کا سا‘ جیسا‘ کی طرح کے لیے
استعمال میں آتا ہے۔ جان کیٹس نے بھی اس حسن شعر
سے‘ باکثرت کام لیا ہے۔ اس ذیل میں چند مثالیں ملاحظہ
فرمائیں۔
Forlorn! the very word is like a bell
Like Nature's patient sleepless Eremite,
Hold like rich garners the full ripen'd
;grain
مرکبات کی تشکیل زبان کی بہت بڑی خدمت ہے۔ اردو شعرا
کے ہاں کئی طرح کے مرکبات ترکیب پائے ہیں۔ انگریزی
شاعری میں یہ چلن عام ملتا ہے۔ جان کیٹس کی شاعری
سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
Not to the sensual ear, but, more
endear'd,
Fair youth, beneath the trees, thou canst
not leave
To what green altar, O mysterious priest,
Or mountain-built with peaceful citadel,
Is emptied of this folk, this pious morn?
O Attic shape! Fair attitude! with brede
Of marble men and maidens
overwrought,
With forest branches and the trodden
weed;
Thou, silent form, dost tease us out of
thought
And haply the Queen-Moon is on her
throne,
Where beauty cannot keep her lustrous
eyes
A flowery tale more sweetly than our
rhyme
And when I feel, fair creature of an hour,
دو ہم مرتبہ لفظوں کو ملا کر لفظ بنانے کا اردو میں عام
رجحان ملتا ہے۔ مثلا
بزدل‘ عینک
انگریزی اس رجحان سے الگ تر نہیں۔ اس میں یہ رجحان
عمومی سطع پر ملتا ہے۔ جان کیٹس کے ہاں اس کی
مثالیں ملاحظہ ہوں۔
And, little town, thy streets for evermore
When I behold, upon the night's starr'd
face,
پہلے ہی
Already with thee! tender is the night,
;And leaden-eyed despairs
The grass, the thicket, and the fruit-tree
;wild
اہل زبان کا کوئی ناکوئی تکیہءکلام ہوتا ہے جو مہارت میں
آ کر روزمرہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اردو میں بھی یہ
صورت حال موجود ہے۔ شخصی اور اجتماعی تکیہءکلام
کی صورتیں موجود ہیں۔ مثلا
گھنٹے سے کہہ رہی ہوں‘ دو منٹ ٹھہر جاؤ۔
یار دو منٹ رکو۔
منٹ مار بجلی جانے کو ہے۔
یہاں ہی تھا دو منٹ پہلے اٹھ کر گیا ہے
آہا مزا آ گیا۔
انگریزی میں یہ دونوں موجود ہیں۔ اس ذیل میں جان
کیٹس کی یہ لائنیں ملاحظہ ہوں۔
One minute past, and Lethe-wards had
sunk:
Ah, happy, happy boughs! that cannot
shed
صنعت لف و نشر اور متعلق الفاظ کا استعمال‘ اردو شاعری
میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے جہاں صوتی حسن
میں اضافہ ہوتا ہے‘ وہاں فکر کو بھی جلا ملتی ہے۔ یہ
صنعت انگریزی شاعری میں بھی پڑھنے کو ملتی ہے۔ جان
کیٹس کی یہ لائنیں ملاحظہ فرمائیں۔
In ancient days by emperor and clown
What little town by river or sea shore,
تکرار لفظی‘ جہاں آہنگ اور موسیقیت کا سبب بنتی ہے‘
وہاں فکری بالیدگی کا بھی موجب بنتی ہے۔ اردو میں‘ اس
صنعت کا عام استعمال ملتا ہے۔ انگریزی میں بھی یہ
صنعت نظر انداز نہیں ہوئی۔ جان کیٹس کی یہ سطور
ملاحظہ ہوں۔
Still, still to hear her tender-taken breath,
"Beauty is truth, truth beauty,--that is all
;For ever piping songs for ever new
Of deities or mortals, or of both,
Away! away! for I will fly to thee,
اردو میں صنعت تضاد حسن شعر کا درجہ رکھتی ہے۔
تقابلی صورت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ‘ ان کی معنویت
بھی نمایاں کرتی ہے۔ انگریزی میں بھی اس صنعت کا
استعمال ملتا ہے۔ جان کیٹس کے ہاں‘ اس کا استعمال بڑا
ہی بےتکلفانہ ہے۔ یہ لائنیں پڑھیے اور لطف لیجیے۔
What men or gods are these? What
?maidens loth
A flowery tale more sweetly than our
rhyme:
ہم صوت لفظوں کا اردو شاعری میں استعمال کمال فن
سمجھا جاتا ہے۔ یہ چلن انگریزی میں بھی موجود ہے۔
جان کیٹس کی یہ لائنیں ملاحظہ ہوں۔
Bold Lover, never, never canst thou
kiss,
A burning forehead, and a parching
tongue.
بعض انگریزی اصطلاحیں‘ اردو میں اردو کے مزاج کے
مطابق مستعمل ہیں۔ مثلا سلکی
اب یہ ہی جان کیٹس کے ہاں ملاحظہ فرمائیں
And all her silken flanks with garlands
?drest
سلکی کوئی نیا طور نہیں ایسے کئی لفظ اردو میں رائج
ہیں۔ مثلا نلکی‘ ہلکی پھلکی
اردو شعرا اپنے اشعار میں‘ قریب قریب معنوں کے الفاظ
استعمال کرکے‘ کلام میں فصاحت و بلاغت پیدا کرتے ہیں۔
انگریزی شاعری کے دامن میں‘ اردو کا یہ طور موجود
ہے۔ اس ذیل میں جان کیٹس کی یہ لائین ملاحظہ ہو۔
Through the sad heart of Ruth, when,
sick for home,
دونوں زبانوں میں جمع بنانے کے لیے قریب قریب کے
لاحقے موجود ہیں۔ مثلا
یں :حوریں‘ کاریں
ین :مورخین‘ مفکرین‘ قارین
جان کیٹس کے ہاں اس طور کی جمع ملاحظہ ہو
Sylvan historian, who canst thus
express
بےشمار انگریزی الفاظ اردو میں مستعمل ہو گیے ہیں۔ مثلا
slow, time, god, pipe, ditties, song,
Lover, kiss, happy, love, green, age,
pains,need, high
pen, hand, chance, high
حسنی صاحب یہ تو اپ نے بڑی محنت کا کام کیا ہے۔ ایسی
مماثلت ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالی ہے کہ سوچنے پر مجبور کر
دیا ہے کہ کیا یہ محض اتفاقات ہی ہو سکتے ہیں۔ شاید
مزید تحقیق لسانیات کے کچھ نئے انکشافات کا باعث ہو
سو اسے جاری رکھنے میں اور دوستوں سے شئیر کرنے
میں کوئی حرج نہیں ۔ ہا ایسا تجویز کرتا ہوں کہ ہر مماثلت
کی مثالیں اگر زیادہ شامل کر دی جائیں اور ساتھ ہی
وضاحت بھی کر دی جائے تو اچھا ہو گا کیونکہ کچھ
مقامات پر بات سمجھنے میں دقت ہوئی
والسلام
ڈاکٹر سہیل ملک
ٹی ایس ایلیٹ اور روایت کی اہمیت
ٹی ایس ایلیٹ کے نزدیک‘ روایت اپنی اصل میں‘ اظہار کا
تسلسل ہے‘ جو ادوار کے انقلابات سے‘ متاثر ہوتی ہے‘
لیکن دم نہیں توڑتی‘ بلکہ اپنی اوریجن سے پیوستہ رہتی
ہے۔ وہ محض ماضی کے تجربات کو‘ روایت کا نام نہیں
دیتا‘ اور اسے درست بھی خیال نہیں کرتا۔ گویا ماضی‘ حال
اور مستقبل روایت ادبی کے مفہوم میں شامل ہیں۔ روایات
ہر قوم اور ہر ملک کی زندگی کے‘ ہر شعبے میں وقت کے
ساتھ ساتھ جلوہ گر ہوتی رہتی ہیں۔ تہذیب اور کلچر‘ ان ہی
کے مجموعے کا نام ہے۔ یہ سب کسی قوم کے جغرافیائی
حالات‘ افتاد طبح‘ فکری رجحانات اور اس پر پڑے ہوئے‘
مختلف قسم کے‘ ذہنی و وجدانی اثرات کے نتیجہ میں
تشکیل پاتی ہیں۔
وراثت کی زمین میں‘ ان کے پودے جڑ پکڑتے ہیں‘ اور
ماحول ان کی آبیاری کرتا رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ‘ یہ
ہی پودے تناور درختوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے‘ کہ ہر قوم کی بڑائی اور برتری‘ روایات پر
انحصار کرتی ہے۔ اس کی ذہنی‘ فکری اور تہذیبی سربلندی