مقصود حسنی
کی
نو ریشمی تحریریں
مرت :
پروفیسر نی مت ع ی مرتض ئی
ابوزر برقی کت خ نہ
جون
فہرست
پہ ے روز کی طرح
ٹھرکی ب ب
کرنسی ثبوت
ٹیڑھی دیوار
ش ہی ہ تھی
چوتھی شدہ خ تون ک جن زہ
ا صرف
بڑوں ک ظرف بڑا
لط ئف
پہ ے روز کی طرح
موت ایک اٹل ٹھوس اور ن ق بل فرار حقیقت ہے۔ بڑے بڑے پھنے خ ن
لد گئے۔ وہ سمجھتے تھے‘ زندگی کی گ ڑی ان ہی کے د سے چل رہی
ہے۔ وہ نہ رہے تو زندگی ک س را کھیل ٹھپ ہو کر رہ ج ئے گ ۔ بہت
کچھ پ س ہوتے‘ مزید کی ہوس ت مرگ ان کے س تھ س تھ رہی۔ مزید کی
حصولی کے لیے‘ انس نی اور اخلاقی اقدار کو پ ؤں ت ے روندتے رہے۔
وہ یہ بھول گئے کہ ج تے ہوئے س تھ کچھ بھی نہ لے ج سکیں گے۔
یہ ہی نہیں‘ قبر تک اپنے قدموں پر نہ ج سکیں گے۔ گھر والے‘ پی ر و
محبت کے دعوےدار اور جی حضوریے‘ یوں آنکھیں پھیر لیں گے‘
جیسے ان ک اس سے کوئی ت واسطہ ہی نہ رہ ہو۔ ہر کوئی ج دیوں
میں ہو گ ۔ منہ میں ۔۔۔ بڑا افسوس ہوا ۔۔۔ ج کہ من میں اس کے لیے
رائی بھر دل چسپی‘ پی ر محبت‘ ہ دردی‘ دکھ‘ صدمہ ی پھر کسی بھی
سطع ک افسوس نہ ہوگ ۔
جن زے کے س تھ آئے کچھ سوچ رہے ہوں گے‘ ک بخت نے آج ہی
مرن تھ ‘ اس کی وجہ سے فلاں ک نہ ہو سکے ی التوا میں پڑ ج ئے
گ ۔ انہیں ی د تک نہ ہو گ ‘ ایک روز وہ بھی اسی طرف چ رپ ئی پر ڈال
کر قبر کی طرف لای ج ئے گ ۔ اپنے پرائے اسے بےی ر و مددگ ر چھوڑ
کر‘ اس کے افسوس میں پک ئے گئے مص لحے دار پکوان کی طرف
لوٹ ج ئیں گے۔ بوٹیوں پر یوں ٹوٹ پڑیں گے‘ جیسے صدیوں کی
بھوک م دہ میں رکھتے ہؤں۔ لیگ پیس نہ م نے پر‘ روسے بھی ہو
گے۔ ان میں وہ نہیں ہے‘ ان میں سے کسی کو ی د نہ رہے گ ۔ کھ پی
کر‘ گھر والوں کو بڑا ہی افسوس ہوا کہہ کر اپنی اپنی دنی میں کھو
ج ئیں گے۔ وہ محض گزرا کل ہو کر رہ ج ئے گ ۔ وہ سننے میں آی ہے‘
کی بسی ک ب سی ہو ج ئے اور پھر سننے میں آی ہے بھی‘ فن کی
بستی میں ہمیشہ کے لیے گ ہو ج ئے گ ۔
ج تک س نس لیتی رہی‘ گڈو ک بھی یہ ہی طور رہ ۔ وہ سمجھتی تھی
کہ کھیسہ پر ہو تو عی ی خرابی کی طرف کوئی نہیں ج ت ۔ ہر کوئی
ہونے کو سلا بلات ہے۔ یہ ہی نہیں‘ اس کے ہنر اور خوبی ں گنوات
ہے۔ ہر ص ح کھیسہ کے لیے اس کے گھر اور من ک دروازہ ت وقت
ق ئمی کھیسہ کھلا رہت ہے۔
شروع شروع میں اردگرد کے لوگوں نے ب تیں بھی بن ئیں لیکن گڈو کی
دوگز زب ن اور ب حیثیت حضرات سے ہی و ہ ئے ہونے کے سب ‘ کوئی
کسکت تک نہ تھ ۔ یہ ں تک کہ اس ک ذاتی خ وند جیلا بٹیر بھی زب ن نہ
کھولت تھ ۔ وہ ج نت تھ کہ اس کے س تھ گ ی کے کتے سے بھی بڑھ
کر بری ہو گی۔ گڈو نے ان گنت جیبیں ویران کیں۔ کٹی نے کوٹھی ک
روپ دھ ر لی ۔ کچن دیکھنے لائ کر دی ۔ لب س اور سواری کی اپنی ہی
ش ن ہو گئی۔ کسی کو ی د تک نہ رہ کہ گڈو کی کرتی رہی ہے۔ ص ح
ثروت اور بڑے ن موں والے بلاتک ف اور اپن ٹھک نہ سمجھ کر آتے
تھے۔ ا وہ بکری نہیں‘ بکریوں کی میٹ تھی۔
جیلا بٹیر اس کی زندگی میں چودھری ص ح تھ ۔ لوگ اس کو سلا
بلانے میں پہل کرتے تھے۔ وہ جوا میں سر کو محض ہ کی سی
جنبش دیت تھ ۔ گڈو کی اٹھی‘ اس کی گھر میں تو پہ ے بھی عزت نہ
تھی ہ ں ب ہر بڑا وجکرا اور ٹہک تھ ۔ لوگ اسے نہیں اس کے لب س
اور سواری کو سلا بلاتے تھے۔ ا سواری تھی نہ لب س‘ فقیروں
سے بدتر زندگی کر رہ تھ ۔ ص ح اولاد تھ ۔ سوائے چھوٹے لڑکے
کے ہر کوئی اسے جوتے کی نوک پر رکھت تھ ۔ وہ گھر میں ملازموں
کی سی زندگی بسر کر رہ تھ ۔ چھوٹ لڑک جو ابھی کنوارہ تھ ‘ چوری
چھپے اس کی ہ کی پھ کی خدمت کرت تھ ۔ ورنہ دوسرے تو اسے
سودا س ف لانے اور بچوں کو سکول سے لانے لے ج نے والی مشین
سمجھتے تھے۔ شروع شروع میں لوگ اسے جیلا کنجر کہتے تھے ا
اس کی ح لت زار دیکھ کر ترس س کھ نے لگے تھے۔ پھر کبھی
کھ نے کی کوئی چیز ی ایک آدھ سگریٹ بھی دینے لگے۔
اگرچہ یہ کرنی ک بھگت ن تھ لیکن ترس کھ ن بھی ص ح دل کی فطرت
میں داخل ہے۔ میں بھی اکثر سوچت کہ یہ برائی سے کن رہ کش ہو ج ت
تو آج اس کڑی سزا سے بچ ج ت ۔ الگ ہو ج ن اس کے بس میں تھ ۔
اس نے کیوں برائی ک س تھ دی ۔ برائی ک انج برا ہی ٹھہرا ہے۔
گڈو کے آخری دن بھی سسکیوں میں گزرے تھے۔ اس کو کی بیم ری
لاح تھی مرتے د تک تشخیص میں نہ آ سکی تھی۔ بکریوں ک آج
بھی وہ ں آن ج ن لگ رہت ہے۔ ا یہ ک مرحومہ کی بڑی بیٹی بڑی
خوبی سے انج دے رہی ہے۔
مجھے بھی جی ے کی اس ح لت زار پر ترس آت ۔ مجھے م و ہوا کہ
اس ک چھوٹ لڑک ب پ سے ہ دردی ک جذبہ رکھت ہے۔ ایک دن وہ
مجھے اکی ے مل گی ۔ میں نے اسے بلا لی اور ب پ ک خی ل رکھنے کو
کہ ۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ مجھے یقین ہو گی کہ یہ ب پ سے ہ
دردی ہی نہیں‘ محبت بھی رکھت ہے۔ میں نے سوچ کیوں نہ اسے ان
کے م حول کے مط ب ب ت سمجھ نے ک چ رہ کروں۔
میں نے کہ :تمہ را ب پ اکی ے زندگی کر رہ ہے اس کے لیے کچھ
کرو۔
اس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہ :بت ئیے
میں ان کے لیے کی کروں۔ بس میں ہوا تو ضرور کروں گ ۔
میں نے کہ :تمہ را ب پ بوڑھ ہو گی ہے ا وہ کسی ق بل نہیں رہ ۔ ا
تمہیں کچھ کرن پڑے گ ۔
اس نے کہ :یہ ہی تو پوچھ رہ ہوں کی کروں‘ کرن کی ہے۔
کوئی شریف اور اچھی سی لڑکی پھنس ؤ اور ب پ کے س تھ سیٹ کرکے
اس ک نک ح کروا دو۔
یہ سنتے ہی‘ اس ک چہرا لال پیلا ہو گی ۔ اس نے آؤ دیکھ نہ ت ؤ‘
میرے منہ پر بڑا ہی کرارا تھپڑ جڑ دی اور چلا گی ۔ ا ج بھی مجھے
دیکھت ہے‘ گھور کر دیکھت ہے۔ میں تھپڑ تو تقریب بھول گی ہوں‘ ہ ں
یہ سوچ مجھے گھیراؤ کیے رکھتی ہے کہ
اگر یہ اس قم ش ک نہیں تو ان س سے الگ کیوں نہیں ہو ج ت ۔
ممکن ہے اپنی محبوبہ دینے ک مشورہ اسے زہر لگ ہو۔ ایس بھی
ممکن ہے‘ وہ ں رکنے میں اس کی کوئی مجبوری ہو اور یہ ہی صورت
ح ل اس کے ب پ کے س تھ بھی رہی ہو۔ اس ب ت کو کئی م ہ ہو چ ے
ہیں‘ لیکن میں آج تک پہ ے روز کی طرح ص ر پر کھڑا ہوں۔
منس نہ ٹھرکی ب ب
بوڑھے ہو گئے ہیں۔ کوئی ک دھندہ کرتے نہیں‘ ہوت بھی نہیں ۔ سچی
یہ بھی ہے کہ ا کرنے کی طرف طب یت ج تی بھی نہیں۔ چ رپ ئی پر
لیٹ ج ؤ اور وق ے وق ے سے‘ اص ی نق ی ہ ئے ہ ئے کے ن رے لگ ؤ
تو ج ن آس نی سے نک نے کی دع ئیں شروع ہو ج تی ہیں۔ ہ ئے ہ ئے
میں پھرتی آنے کی صورت میں سورتہ یسین کی تلاوت شروع کر دیتے
ہیں کہ جیسے ابھی پھر ہوا۔ اگر بلا ہ ئے ہ ئے گھر دن گزارو تو م ضی
کے نکمےپن کے گ ے شکوے شروع ہو ج تے ہیں۔ کہ ج نے لگت ہے
ہٹ کٹ ہے‘ اسے ہڈحرامی ک مرض لاح ہو گی ہے۔ اس صورت ح ل
سے نج ت کے لیے ہ عمر سنگی گ ؤں کے ب ہر پیپل کے پیڑ کے
نیچے چ رپ ئی ں بچھ لیے ہیں۔ سردیوں میں دھوپ میں بیٹھ کر م ضی
کے قصے دہراتے ہیں۔ مرچ مص لحہ تو خیر لگ ن ہی پڑت ہے ورنہ
ب ت توجہ نہیں پکڑتی۔ ہ ں رائی ک پہ ڑ نہیں بن تے۔ کبھی سی ست
موضوع بن ج تی ہے۔ مہنگ ئی بھی زیر گ تگو آتی رہتی ہے۔ کبھی
لطی ےب زی ک دور شروع ہو ج ت ہے۔ اس طرح دن اچھ ‘ پرلطف اور
مصروف گزر ج ت ہے۔
اس روز لطی وں ک دور چل رہ تھ ۔ س را دن ہنسی خوشی اور چھڑا
چھ ڑی میں گزرا۔ دن بھر ہنستے مسکراتے اور قہقہے لگ تے رہے۔
مسک نوں کے پھول جھولی میں ڈالے‘ لبوں پر دبی ہنسی اور آنکھوں
میں روم نی کی یت اور جوانی کی سی چمک دمک لیے‘ میں اپنی زوجہ
م جدہ کے گھر کی طرف بڑھ رہ تھ ۔ رستے میں نیک ں جو ادھ کھڑ‘
واجبی س بوتھ اور کپ جس رکھتی تھی۔ اسے اچھی بری نظر
دیکھنے کی میں سوچ بھی نہیں سکت تھ ‘ مل گئی۔ میں نے لطی وں کی
شرارت کی آغوش میں رہتے ہوئے‘ اس کی طرف دیکھ ۔ وہ یوں پھٹ
پڑی‘ جیسے میں نے اسے گولی م ر دی ہو۔ اس سے پہ ے ہزار ب ر
مل چکی تھی لیکن خ موشی سی گزر ج تی تھی۔ عورتیں جمع ہو گئیں
اور مجھے طنزیہ اور حیرتیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔ لوگوں نے
عمر ک لح ظ کی ورنہ چھتر تو پڑھ گئے تھے۔ ب ب ٹھرکی کے خط
سے بھی سرفراز کی ۔ گھر پہنچنے سے پہ ے میری روم ن پروری کے
قصے مع لگی لیپٹی گھر کی دہ یز پ ر کر گئے۔ بڑے اونچے درجے ک
خیرمقد ہوا۔ اس سے تو اچھ تھ کہ چھتر ہی پڑ ج تے۔
اس واق ے سے ایک اچھ ضرور ہوا‘ ج بھی گ ی سے گزرت ‘ چنچل
شوخ اور مٹک مٹک کر چ تی بیبی ں‘ مجھے دیکھ کر‘ کبھی دبے اور
کبھی کھل کھلا کر‘ ہنس پڑتیں۔ ا کی تھ ‘ گھر دوزخ میں ج ت ‘ ب ہر
حوروں پریوں کی مسکراہٹوں کے غول میں‘ زندگی کے کرخت مجبور
اور بیم ر لمحے گزارنے لگ ۔ کبھی کسی کی آنکھوں کی شوخی شک
میں ڈال دیتی لیکن میں اپنے آپے میں رہت ۔ میں تو اپنے والی کے ق بل
نہ رہ تھ ‘ کسی بی بی کی لذاتی حس کو کی تسکین دے پ ت ۔ سوچت
ک ش یہ س جوانی میں ہو ج ت ۔ ن تو خیر بڑھ پے میں بھی پیدا کر لی
تھ ۔ ہر چھوٹ بڑا‘ منہ پر مجھے ب ب ٹھرکی کہت اور س تھ میں ب آواز
ب ند قہقہے بھی داغت ۔ دوستوں میں ن پیدا ہو گی ۔ مجھے دیکھتے تو
کہتے‘ اوہ لاڑا آ گی جے۔ ہ ں ان کے چہرے کی بےبس لاچ ر اور خوف
ن ک جھری ں‘ ان کے بڑھ پے کی بےچ رگی اور اولاد کی لاپرواہی کی
چغ ی ضرور کھ رہی ہوتیں۔
کرنسی ثبوت افس نہ
ش ہ‘ اس کے چی ے چمٹے گم شتے اور دفتری اہل ک ر زب نی کلامی
قسموں یہ ں تک کہ لکھتوں پڑتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے
نزدیک ج ل س زی ک عمل شروع سے چلا آت ہے۔ لالچ لوبھ میں آ کر
انس ن ایم ن تک بیچت آی ہے۔ دوسرا چور ی ر ٹھگ کی قسموں پر یقین
کر لین کھ ی حم قت کے مترادف ہے۔ زب نی ک کون یقین کرے‘ رائی
سے پہ ڑ بنت چلا آی ہے۔ وہ پریکٹیکل پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے
نزدیک‘ کرنسی ثبوت ہی ح سچ ک ع بردار ہوت ہے۔ س تھ میں‘
ن یس خوش بو اور پرذائقہ پکوان ح سچ کو جلا بخشت ہے۔ پیٹ میں
کچھ ہو گ تو ہی ح سچ کی کہی ج سکتی ہے۔ خ لی پیٹ جو بھی
فیص ہ ہو گ غ ط ہو گ ۔ غ ط فیص ے سوس ئٹی میں انتش ر اور فس د ک
دروازہ کھولتے ہیں۔
اگرچہ اس سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑت کیوں کہ وہ ہر نئے
آنے والے کے بھی اس کی آمد کے ب د وف دار بن ج تے ہیں۔ جی
حضور جی سرک ر جی جن ک انہوں نے پوری توجہ سے وظی ہ کی
ہوت ہے۔ گیے کی کمی ں‘ کمزوری ں‘ کوت ہی ں اور خ می ں دل کے دفتر
پر رق کی ہوتی ہیں۔ اس کے ب وجود موجود کے م قول ہونے کی
صورت میں‘ نئے کی کچھ زی دہ خوہش نہیں کرتے۔ خدا ج نے نی کیس
ہو اور س تھ آئے چمچے کڑچھے‘ انہیں اس کے نزدیک ج نے دیں ی
نہ ج نے دیں۔ گوی نئے کے س تھ ایڈجسٹ ہونے میں‘ کچھ تو وقت
لگے گ ہی۔
نی آنے کی بج ئے‘ محدود وقت تک سہی‘ موجود پران گرہ سے ج ئے
گ ۔ گرہ ک احس س کہتری انہیں کسی بھی ح لت میں گوارہ نہیں ہوت ۔ رہ
گئی عزت ی وق ر کی ب ت‘ اس ک کی ک ی زی دہ ہوتی رہتی ہے۔ ہ ں
کھیسہ جتن فربہ ہو گ ‘ عزت میں اسی تن س سے اض فہ ہو گ ۔
لاڈو ک اصل ن تو منزہ خ ن تھ لیکن اس کے م ئی ب پ اک وتی ہونے
کے سب ‘ اسے پی ر سے لاڈو کہ کرتے تھے۔ پھر یہ ہی ن عرف میں
آ گی ۔ سسرال میں آ کر بھی‘ یہ ہی ن رواج پ گی ۔ یہ ں تک کہ اس ک
بندہ جیج بھی اسی ن سے پک رنے لگ ۔ لاڈلی ہونے کے ب عث اس کی
ع دتیں ہی نہ بگڑی تھیں‘ مزاج بھی بگڑ گی تھ ۔ سوہنی سونکھی اور
اچھ لب س زی تن کرنے سے اور بھی نکھر نکھر ج تی تھی۔ مح ے
کے گھبرو مر مر ج تے لیکن وہ کسی کو گھ س نہ ڈالتی۔ ج تک م ئی
ب پ کے گھر رہی‘ اس ک کردار یہ س ہونے کے ب وجود ص ف ستھرا
رہ ۔ کوئی اس کے کردار پر انگ ی نہ اٹھ سکت تھ ۔ ہر کوئی اس کے
ب کردار ہونے کی گواہی دیت تھ ۔
سسرال میں میں آ کر کچھ عرصہ سگنوں ک گزار کر اسے اپنے گھر
کی ذمہ داری سمبھ لن ہی تھی۔ کوئی ہنر اور کس اس کے ہ تھ میں نہ
تھ ‘ پکی پک ئی کھ تی تھی۔ ا اسے پک کر کھ ن اور خ وند کو کھلان
تھ ۔ جیج س را دن ک میں ج ن کھپ ت تھ ‘ رات کو گھر کی پکی کھ ن
اس ک ح تھ ۔ لیکن سوائے لاڈ نخرے کچھ ہ تھ نہ لگت ۔ بےچ رہ صبر
شکر کے گھونٹ پی کر رہ ج ت ۔ آتی ب ر ب زار سے کچھ لے آت ۔ مزے
کی ب ت یہ کہ وہ بھی بھوکی رہتی اور اس کے آنے ک انتظ ر کرتی کہ
آتے ہوئے ب زار سے کھ نے کے لیے کچھ لیت آئے گ ۔ یہ س س ہ ک
تک چل سکت تھ ۔ ب زار ک کھ ن وارہ بھی نہیں کھ ت ۔
ابتدا میں ک سے لیٹ ہو ج ت تو رٹ ڈال کر بیٹھ ج تی کہ اتنی دیر
کیوں ہو گئی۔ کہ ں اور کس کے پ س ج تے ہو۔ ضرور ت نے ب ہر کوئی
رکھی ہوئی ہے۔ لاکھ قسمیں کھ ت لیکن کہ ں‘ وہ کسی قیمت پر یقین
کرنے پر تی ر نہ ہوتی۔ اس ک اسے ایک حل مل گی آتے ہوئے کوئی
ن کوئی تح ہ س تھ لے آت ۔ کبھی نقدی دے دیت تو اس کی زب ن کو ت لہ
لگ ج ت ۔ اگر کبھی کوت ہی ی ک زور گرہ آڑے آ ج تی تو وہی کل ک ی ن
شروع ہو ج تی۔ شک کی زد میں آ کر سکون غ رت کر لیت ۔ ا اس کی
سمجھ میں آ گی کہ یہ ش ہ اور ش ہ والوں کے قدموں پر ہے۔ قسموں
وغیرہ کی یہ ں کوئی قدر قیمت نہیں‘ یہ ں تو کرنسی ثبوت ہی ک آ
سکتے ہیں۔ محنت اور حلال کی کم ئی میں‘ اوپر ت ے کرنسی ثبوت
فراہ کرن ممکن ہی نہیں۔ ہ ں ایک ب ت اس کے کریڈٹ میں ج تی تھی
کہ لاڈو م مولی سے کرنسی ثبوت پر بھی راضی ہو ج تی بل کہ بھرپور
خوشی ک اظہ ر کرتی۔
ب زار سے کھ ن لان اور ہر روز ب زاری کھ ن کھ ن ‘ بلا شبہ بڑا کھٹن
گزار ک تھ ۔آخر اس نے اس سے چٹھک رے ک بھی طریقہ سوچ ہی
لی ۔ ک سے آ کر تح ہ ی نقدی لاڈو کی ت ی پر دھرت پھر تھوڑا ریسٹ
کرنے کے ب د کچن میں گھس ج ت ۔ لاڈو کو آواز دیت ۔ کچن ک ک ج نت
تھ ۔ لاڈو کو بھی بڑے پی ر سے س تھ میں مصروف کر لیت ۔ ابتدا میں
اس سے چھوٹے موٹے ک لیت رہ ۔ آہستہ آہستہ لوڈ بڑھ ت گی ۔ ایک
وقت ایس آی کہ لاڈو کچن کے امور سے واقف ہو گئی۔ ب د ازاں تقریب
اس نے کچن کے ک سے ہ تھ کھینچ لی ۔ وہ ہی ک کرنے لگ جو ابتدا
میں لاڈو کی کرتی تھی۔ لاڈو کو یہ محسوس تک نہ ہوا کہ جیج کچن
کے اص ی ک سے دور ہٹ گی ہے۔
ایک دن وہ دونوں کچن میں مصروف تھے کہ جیجے ک پ ؤں اللہ ج نے
قدرتی ی ج ن بوجھ کر پھسلا اور وہ بلاتک ف کچن کے فرش پر آ رہ ۔
ہ ئے ہ ئے کی آوازیں نک لنے لگ ۔ لاڈو اسے سمبھ لا دے کر چ رپ ئی
تک لے آئی۔ اس کی کمر اور ٹ نگیں دب نے لگی۔ پریش نی اس کے
چہرے پر ص ف دکھ ئی دینے لگی۔ اس ک مط یہ تھ کہ وہ اس سے
پی ر بھی کرتی تھی۔ ٹ نگیں دب تے پورا زور لگ رہی تھی۔ جیجے کو
بڑا ای سواد آی ۔ یہ مزا ہی الگ سے تھ ۔ پھر وہ گھبرا کر مح ہ کے
ڈاکٹر کے پ س ج نے لگی۔
اس نے کہ :رہنے دو‘ میرے پ س اتنے ف لتو پیسے نہیں جو ڈاکٹر کی
دواؤں پر خرچ کرت پھروں۔ یہ ں سے ف ر ہو کر ریت گر کرکے ٹکور
کر دین ۔ ان پیسوں سے تمہ را گوٹے کن ری والا دوپٹہ لان ہے۔ کتنی
اچھی اور پی ری لگو گی۔
جیجے کی ب ت سن کر لاڈو ک چہرا خوشی سے سرخ ہو گی ۔ اس نے
دل میں سوچ جیج مجھ سے کتن پی ر کرت ہے۔
لاڈو نے جواب کہ :ہ ئے میں مر ج ں ت سے پیسے اچھے ہیں۔
بہرطور اس نے نہ ج نے دی کیوں کہ وہ اس مزے سے ہ تھ دھون
نہیں چ ہت تھ جیج ش تک ن ز نخرے دکھ ت رہ لیکن اس نے کرنسی
ثبوت لاڈو کی ہتھی ی پر نہ رکھ کہ کہیں پیسوں کے نشہ میں‘ اپن
ج ری کرتوے ہی نہ فراموش کر دے۔
اس نے نے اگلا دن بھی گھر پر گزارا اور لاڈو سے ن زبرداری ں کروات
رہ ۔ ہ ں البتہ اگ ے دن چ رپ ئی سے اٹھ گی اور لاڈو ک کندھ پکڑ کر
غسل خ نے وغیرہ ج ت رہ ۔ اس دورانیہ میں لاڈو نے کچن سمبھ لے
رکھ ۔ ا وہ ٹھیک سے کوکنگ کرنے لگی تھی۔ تھوڑی بہت کمی رہ
ہی ج تی ہے‘ جو آہستہ آہستہ دور ہو ج تی ہے۔ اگ ے دن ک پر ج نے
لگ تو لاڈو نے کہ رہنے دو ک تو ہوتے رہتے ہیں۔ اپنی ج ن ک خی ل
کرو۔ وہ مسکرا کر کہنے لگ بھ ی لوکے ک نہیں کریں گے تو کھ ئیں
گے کہ ں سے۔ ہ ں وہ گوٹے کن ری والا دوپٹہ بھی تو لان ہے۔ پھر وہ
لاٹھی کے سہ رے چ ت ہوا دروازے سے ب ہر نکل گی ۔
وہ ج نت تھ ‘ آج لاڈو خلاف م مول دروازے پر کھڑی بڑے پی ر سے‘
اسے ج ت ہوا دیکھ رہی ہے۔ وہ جوں کی چ ل چل رہ تھ اور پیچھے
مڑ مڑ کر دیکھ رہ تھ ۔ لاڈو واق ی کھڑی تھی۔ کبھی وہ کسی گھر کی
دیوار کی ٹیک لے کر کھڑا ہو ج ت اور پی ر سے ہ تھ ہلات ۔ ا وہ نظر
نہیں آ رہ ۔ اس امر کی بہرطور اس نے تس ی کر لی۔ پھر اس نے لاٹھی
بگو ن ئی کے حم میں رکھی اور تیز قدموں اپنے دھندے کی ج ن
بڑھ گی ۔ ش کو اس نے ب زار سے گوٹے کن ری والا دوپٹہ خریدا۔
واپسی پر بگو ن ئی کے حم سے لاٹھی لی اور گھر میں داخل ہوتے
ہی صبح والی ایکٹنگ دوہرائی۔ لاڈو نے دوڑ کر اسے پکڑا اور آرا
سے چ رپ ئی پر بٹھ دی ایسے جیسے ابھی ابھی چوٹ لگی ہو۔ گوٹے
کن ری والا دوپٹہ لے کر وہ اور بھی خوشی سے پ گل ہو گئی۔ اس نے
ج دی ج دی اس کے ہ تھ دھلائے اور کھ ن جو آج اس نے خود ہی بن ی
تھ ‘ جیجے کے س منے پروس دی ۔
یہ عمل کئی دن چلا۔ آخر ک تک‘ اسے پتہ چل گی کہ جیج یہ س را
ڈرامہ رچ ت رہ ہے۔ پھر کی تھ ‘ جوں ہی وہ اداک ری کرت ہوا گھر میں
داخل ہوا‘ لاڈو نے اس کے ہ تھ سے لاٹھی پکڑ کر زمین پر پٹخ دی۔
قسمت اچھی تھی‘ ورنہ غصہ میں دو چ ر اس کی ٹ نگوں پر بھی جڑ
سکتی تھی۔ اسے م و ہو گی کہ ڈھول ک پول کھل گی ہے۔ وہ مردہ
قدموں چل کر چ رپ ئی پر آ بیٹھ ۔ پھر کی تھ ‘ رانی توپ ک دھ نہ اپنے
شب میں آ گی ۔ جھوٹ تھ ‘ چپ رہنے کے سوا اور کر بھی کی سکت
تھ ۔ اسے اپنی غ طی ک احس س ہو گی کہ وہ لاٹھی حم میں رکھت رہ
ہے۔ حم میں ب ت ک ج ن ‘ پورے علاقہ کی پورے م ک میں آ ج نے
کے مترادف ہے۔
لاڈو نے گرج دار آواز میں کہ :ب ہر ٹھیک ہوتے ہو گھر میں داخل
ہوتے ہی تمہیں بیم ری پڑ ج تی ہے‘ تمہ ری ٹ نگیں دب دب کر میرے
ہ تھ رہ گئے ہیں۔
اس کے پ س اس ک کوئی جوا نہ تھ ‘ پھر بھی اس نے کہ :گرا گھر
میں تھ ی ب ہر۔ ب ہر گرت تو بیم ری ب ہر پڑتی۔
مزید گرجنے کی بج ئے اس ک جوا سن کر لاڈو ک ہ س نکل گی ۔ جوں
ہی لاڈو کے منہ سے یہ پھول پھوارہ پھوٹ اس نے ج دی سے لاڈو کو
گ ے سے لگ لی اور اس کے گ ے میں بڑا ہی خو صورت ارٹی یشل
ہ ر ڈال دی ۔ لاڈو ک بولارا خوشی میں بدل گی ۔ جو بھی سہی‘ اس کے
اس ڈرامے کے نتیجہ میں‘ لاڈو کھ ن پک نے کے س تھ س تھ گھر کے
دوسرے ک بھی انج دینے لگی۔ یہ س ری کرامت اس کرنسی ثبوت
کی تھی‘ جو لاڈو کے گ ے میں پڑا اپنی حیثیت اور اہمیت بڑے دھڑلے
سے جت اور منوا رہ تھ ۔
ٹیڑھی دیوار منس نہ
زمین کے س سے بڑے لمبڑ ک اق متی ایوان بلاشبہ زمین پر اپن ث نی
نہ رکھت تھ ۔ جو کوئی بھی وہ ں قد رکھت ‘ سہم سہم تو پہ ے ہی ہوت
لیکن ایوان کی ش ن و شوکت اور اس کی دیواروں سے ٹپکت ج ہ و
جلال اسے اور بھی سہہ م دیت ۔ ایک طرح سے اس پر لرزہ س ط ری
ہو ج ت ۔ وہ وہ ں کے بڑے گولے تو ایک طرف‘ ج رو کشوں سے
بھی بڑے اد اور تمیز سے ب ت کرت مب دہ کسی ل ظی گست خی کی
شک یت کے بھگت ن میں اپنے م ک کی برب دی ک سب بن ج ئے ی پھر
اپنے م ک کی سی ہی س یدی کی م کیت سے محر ہو کر جہن رسید نہ
ہو ج ئے۔ وہ انہیں بھی کورنش بج لات محت ط قدموں سے آگے بڑھت ۔
یہ ج نتے ہوئے کہ اس کی ت میر میں اس کے اپنے م ک کے مزدور
کی مشقت کی کم ئی بھی ش مل ہے۔ بڑے لمبڑ کے حضور پیش کر دیے
ج نے کے ب د پورے جثے پر اد و احترا ط ری کرتے ہوئے نگ ہ
روبرو رکھت ۔ بہت کچھ کہنے کی آرزوئیں من میں سمیٹ کر لات لیکن
کہہ نہ پ ت ی کہنے ک موقع ہی نہ دی ج ت ۔ ہ ں احک م ت کی بوری اس
کے سر پر رکھ دی ج تی اور دفع دف ن ہونے ک امر ص در کر دی ج ت ۔
یہ وزن جو اس کی بس ت سے ب ہر ہوت لیکن اس کے لبوں پر رح کی
التج کے برعکس بڑے لمبڑ کی دری دلی اور انص ف پروری ک ترانہ
رقص ں ہوت جو اپنے م ک کے کسی گم شتہ ل ظ تراش سے لکھوا کر
لے گی ہوت ۔
ایک روز بڑا لمبڑ اپنے درب ر سے اق متی ایوان میں داخل ہوا تو اسے
ایوان کی دیواروں میں جلالتی کمی سی محسوس ہوئی۔ وہ سوچنے
لگ آج ک یہ م مولی س نقص آتے کل کو اس کی ارضی خدائی کے
زوال کی وجہ بن سکت ہے۔ اس نے پیچھے پیچھے آتے ایک جی
حضوریے سے کہ کہ ہم رے ایوان کی دیواروں میں ہم رے ش ی ن
ش ن رع و دبدبہ موجود نہیں۔ جی حضوری جو کسی غلا م ک ک
ب شندہ تھ ہ ں میں ہ ں نہ ملا کر اپنی بےدوسی ج ن سے کیوں ج ت ۔
اس نے ایک لمحہ بھی ض ئع کیے بغیر کہ کہ جی حضور آپ سولہ
آنے درست فرم رہے ہیں۔ بڑے لمبڑ نے احک م ت نوٹ ک ر سے
مخ ط ہو کر بڑی تمکنت سے ارش د فرم ی کہ محکمہ ت میرات کے
وزیر کو حک ج ری کی ج ئے کہ اس ب نقص عم رت کو مسم ر کرکے
فورا سے پہ ے ہم ری ش ن و شوکت سے میل کھ ت محل ت میر کرنے
ک اہتم کی ج ئے۔ پھر کی تھ ‘ بڑے لمبڑی اداروں کو حک ج ری ہوا
کہ نئی ت میر کے لیے روپے پیسے فراہ کرنے ک انتظ کریں۔ کوت ہی
کی صورت میں مت قہ ادارہ انچ رج اپنی نوکری سے ج ئے گ ۔
چھین جھپٹی کے ب عث دنی جہ ن میں افرات ری کی صورت پیدا ہو گئی۔
وہ اپنے علاقہ کی خوش ح لی ک خواہ ں تھ دوسرا وہ وہ ں کی کسی
قس کی گڑبڑ کے تحت پیدا ہونے والی سردردی مول نہ لین چ ہت تھ ۔
وہ ں کے م ملات حی ت م مول کے مط ب رہے اور ان کی آگہی محض
خبروں تک محدود رہی۔ وہ ں یہ ب ت مشہور کی گئی کہ وہ ں کی
حکومیتں عوا کے س تھ ظ توڑ رہی ہیں۔ گوی ان کے دلوں میں ن رت
ہی پیدا کی گئی۔ انس ن دوستی اور مظ وموں کی مدد کے ن پر بڑے
لمبڑ کی فوجیں اور ہتھی ر ک میں لائے گئے۔ عظی لمبڑداری محل کی
ت میر میں کئی س ل لگ گئے۔ جہ ں محل کی ت میر کے لیے خزانے
جمع کیے گیے وہ ں اداروں کے وڈیروں کی تجوریوں کو بھی کم ل کی
خوش ح لی دستی ہوئی۔ پوری دنی بدح ل اور خون میں نہ گئی اسے
اس سے کی غرض تھی۔ ایک فرد بھی ب قی نہ رہت ‘ اس کی بلا سے۔
اس ک بےمثل اور بےمث ل ت میر ہون پہلا اور آخری ک ز تھ ۔
ج محل ت میر ہوگی تو جیبی و اعض ئی م ذور دنی کے لوگوں کے
امیروں وزیروں کو اپنی وج ہتی دھ ک بٹھ نے کے لیے بلای گی ۔ انہیں
مزید گرہ میں کرنے کے لیے تح ئف لانے کی خریداری کے لیے دل
کھول کر قرضے دیے گیے۔ یہ بھی حک دی گی کہ تح ئف کی
خریدداری اس کے ہ ں کی م رکیٹ سے کی ج ئے۔ اس حک کے نتیجہ
میں وہ ں کے تج رتی عمل کو استحق میسر آی ۔ گوی تج ر حضرات کے
لیے بھی خوش ح لی ک دروازہ کھول کر بہت بڑا پن گرہ میں کی ۔ یہ ہی
نہیں ان کی فیور بھی ح صل کر لی۔
محل کے ہ ل میں یہ لوگ جمع ہوئے۔ محل کے ب کم ل اور لاجوا
ہونے میں کوئی شک ہی نہ تھ ۔ س عش عش کر اٹھے۔ پھر انہیں
محسوس ہوا کہ محل لرز رہ ہے۔ اطراف سے انہوں نے ارواح کی
خوف ن ک چیخ و پک ر سنی۔ وہ ڈر اور خوف سے محل کے ہ ل سے
دوڑ دوڑ کر ب ہر آنے لگے۔ بڑے لمبڑ کی فکر‘ سم عت اور بص رت پر
شیط نی ق ل پڑا ہوا تھ اس لیے وہ کچھ دیکھ اور محسوس نہ کر پ
رہ تھ ۔ وہ یہ ہی سمجھ رہ تھ کہ اس ک ج ہ و جلال اور ش ہی دبدبہ
یہ کمی کمین دنی کے برداشت نہیں کر پ رہے۔ اس کے اور اس کے
جھولی چکوں کے قہقہے ہ ل میں گونج رہے تھے۔ بڑے کو یہ امر ی د
تک نہ رہ کہ نمرود شداد اور فرعون بھی اسی طور کے قہقہے لگ ی
کرتے تھے۔ ایک روز وہ س ان قہقہوں کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے
اور قی مت تک کے لیے عبرتی آث ر و نش ن ت چھوڑ گئے۔
ش ہی ہ تھی لوک نہ
اوئی اوئی لینڈ ک ش ہی ہ تھی جنگل میں گ ہو گی ۔ م کی تلاش ک ر اور
ت تیش ک ر ادارے تلاشتے تلاشتے تھک ہ ر گئے لیکن ہ تھی نہ ڈھونڈا
ج سک ۔ ن چ ر فرانس سے اس ذیل میں مدد لی گئی۔ وہ ں کے اس
ش بہ سے مت ادارے بھی منہ لٹک کر رہ گئے۔ اس کے ب د جرمن‘
اٹ ی اور چین سے مدد ح صل کی گئی لیکن ان کے ہ تھ بھی م یوسی
کے سوا کچھ نہ لگ ۔ بھ رت کے م روف تلاش ک ر پریدی م ن اپنے
س تھیوں سمیت بڑے اعتم د کے س تھ مصروف تلاش رہ لیکن وہ اور
اس س تھی بھی اپنی ن ک می پر سر پکڑ کر رہ گئے۔ دین کے چوھوری
کے ب نٹک ادارے بڑے کروفر سے میدان میں اترے لیکن تلاش کے
حوالہ سے ان کے منہ پر بھی ب رہ بج گئے۔
ن امیدی کے ب دل گہرے ہوتے گئے۔ ان ن زک اور حس س لمحوں میں
پ کست ن کے تلاش ک ر اور ت تیش ک ر ادارے اس م یوس اور اداس
اداس فض میں امید کی کرن بن کر حرکت میں آ گئے۔ س یہ ہی کہہ
رہے تھے دنی کے ترقی ی فتہ ادارے کچھ نہیں کر پ ئے‘ بھلا یہ کی کر
پ ئیں گے۔ ایک گھنٹہ بھی نہ گزر پ ی ہو گ کہ مثبت رزلٹ س منے آ گی ۔
ش ہی درب ر میں جم ہ م کوں کے اع ی عہدےدار تشریف فرم تھے کہ
ش ہی ہ تھی درب ر میں ح ضر کر دی گی ۔ س ہنس پڑے کہ وہ ہ تھی
نہیں گدھ تھ ۔ ان کے ہنستے پر کون ج ت ‘ جسے وہ گدھ قرار دے
:رہے تھے‘ وہ ب آواز ب ند اقرار کیے ج ت تھ
میں ہی گ شدہ ش ہی ہ تھی ہوں۔۔۔۔۔میں ہی گ شدہ ش ہی ہ تھی ہوں۔
اس کی اقراری آواز اور پراعتم د بی ن و لہجے کو جھٹلانے ک کسی
کے پ س جواز ہی ب قی نہ رہ تھ ۔
ک ن پھوسی ک دور شروع ہو گی ۔ ہر کسی نے کہن شروع کر دی کہ
گدھ ہی ش ہی سواری ک ج نور‘ ش ہی ہ تھی قرار پ ی ہو گ ۔ یہ ک ن
پھوسی ب ند آوازوں میں بدل گئی۔ ہر کوئی اسے گ شدہ ش ہی ہ تھی
قرار دے رہ تھ ۔ اوئی اوئی لینڈ کے ش ہ نے ج یہ صورت ح ل
دیکھی تو اس کے انک ر نے بھی ہ ں ک لب دہ اوڑھ لی ۔ ش ہی اعلان
ج ری ہوا کہ یہ ہی ش ہی ہ تھی تھ ۔
مب رک ب د کی صدائیں ب ند ہوئیں۔ بڑی ش ندار دعوت اڑائی گئی۔ ش ہی
ہ تھی کو ہ تھی ب ن کے حوالے کر دی گی ۔ وہ بھی کہے ج رہ تھ ‘ یہ
ہی ش ہی ہ تھی تھ اور میں اسی کی خدمت کی کرت تھ ۔ م کوں م کوں
کے عہدےدار اپنے اپنے وطن ٹر گئے۔
پ کست نی تلاش ک ر اور ت تیش ک روں کو ان و اکرا اور ش ہی میڈلوں
سے نوازا گی ۔ بلا شبہ انہوں نے بڑی محنت‘ لگن اور مشقت سے یہ
فریضہ انج دی تھ ۔ ان و اکرا اور ش ہی میڈلوں کے وہ ج ئز ح
دار تھے۔
چوتھی شدہ خ تون ک جن زہ
اس سے پہ ے رواں ہ تے میں وہ تین شدہ خواتین کے جن زے پڑھ
چک تھ اور مت قین سے رسمی اور ج ی ہی سہی‘ اظہ ر افسوس بھی
کر چک تھ ۔ گزرتے ہ تے میں ہی‘ ہ س ئے کی جوان اور منہ متھے
لگتی شدہ خ تون ک جن زہ اٹھ تو بےاختی ر اس کے آنسو چھ ک پڑے۔
اس نے لاکھ چھپ نے کی کوشش کی لیکن کھوجی آنکھوں سے‘
آنسوؤں کی لک چھپی چھپ نہ سکی۔ پھر کی تھ ‘ ک ن پھوسی ک عمل
ج ری ہو گی ۔ ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کے ک ن
میں‘ اس کے آنسوؤں کی کہ نی پہنچ گئی۔ ک ن دفن ک عمل خت ہوا تو‘
بیبیوں کی گرہ میں کرمے کے آنسو لگ گئے۔ ہر کسی نے اپنی کہ نی
گھڑ لی۔ مرنے والی تو قبریں سم گئی‘ لیکن کرمے کے حوالہ سے وہ
کچھ طے پ گی ‘ جو اس کے فرشتوں تک کو ع نہ تھ ۔
ادیبوں کے افس نے یوں ہی خ مہ و قرط س کی زینت نہیں بنے‘ ان میں
زی دہ نہیں تو‘ ک از ک ف ٹی پرسنٹ خواتین ک حصہ بھی ہے لیکن
تحقیقی و تنقیدی عمل میں‘ کبھی کسی نے ان ک ذکر خیروبد کرنے کی
زحمت نہیں اٹھ ئی۔ بلا شبہ یہ ک ران ن مت کے زمرے میں آت ہے۔
کہ گی کہ مرنے والی سے کرمے کے ن ج ئز ت ق ت تھے۔ دیکھنے
میں کرم کتن شریف تھ لیکن اندر سے پورا نکلا۔ مرنے والی کتن
پردہ کرتی تھی۔ کسی غیرمرد سے نظریں تک نہ ملاتی تھی لیکن من
کی کتنی میسنی نک ی۔
کچھ نے بلاج نے‘ اس کے میکے کے ای بھی آلودہ کر ڈالے۔ ب ت ک
رکتی ہے۔ کرمے کی شدہ خ تون کے ک نوں میں بھی کرمے کی عش
ب زی کے قصے پڑ گئے۔ اگر سچ میں کچھ تھ ‘ تو چپ ک روزہ لاز
تھ کہ مرنے والی ک پردہ رکھ ج ت اور اس ک ک ن میلا نہ ہونے دی
ج ت ۔ آخر س نے جہ ں چھوڑ ج ن ہے۔ کرمے کی بیوی بلا ن غہ‘
کرمے کی بہہ ج بہہ ج پر اتر آئی۔ اس نے لاکھ قسمیں اٹھ ئیں لیکن
وہ اس مقولے کی ق ئل تھی‘ چور ی ر ٹھگ کی قس ک اعتب ر نہیں کی
ج سکت ۔ وہ پہ ے ہی اس کے لیے جہن سے کچھ ک نہ تھی‘ ا تو
اس کے لیے ح ویہ بن گئی۔
ب ہر آت تو محرومہ ک خ وند‘ کھ ج نے والی نظروں سے دیکھت ۔ ایک
دو ب ر تو اس نے بلاوجہ توتکرار سے ک لی ۔ وہ ہر ب ر برداشت سے
ک لیت اور نظریں بچ کر نکل ج ت ۔ اس روز تو اسے پھینٹی چڑھ گئی‘
بہ نہ یہ بن ی گی کہ اپنے گھر ک کوڑا کرکٹ‘ اس کے گھر کے دروازے
کے قری پھینکت ہے۔ بھولی بسری ی دیں پھر سے ت زہ ہو گئیں اور
کرمے کی اندر خ نے کی عش لڑائی‘ پھر سے گ ی ب زار میں آ گئی۔ ہر
دیکھت اس پر ہنست ۔ عمر رسیدہ بیبی ں‘ اسے توے توے کرتیں۔ اس
سے ایک مثبت ب ت یہ ہوئی کہ دو ایک چ لو خواتین نے اسے چ لو
م ل سمجھ کر لائین م رنے کی کوشش کی۔ ایک سے اس کی ڈنگ ٹپ ئی
آڑپھس بھی ہو گئی۔ اس زب نی کلامی ان دیکھے ان ج نے عش کے
حوالہ سے‘ چھپ رست ایس ب ندپ یہ خط بھی اس ک مقدر ٹھہرا ورنہ
علاقہ ک کوئی ایرہ غیرہ بھی اس پر نظر نہ رکھت تھ ۔
وہ اکثر سوچت ‘ یہ لوگ کتنے بےحس اور کہ نی ب ز ہیں۔ کسی نے ان
آنسوؤں کی وجہ ج ننے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی۔ یہ ب ت اپنی جگہ کہ
کوئی پوچھت تو وہ اصل وجہ بت بھی نہیں سکت تھ ۔ اگر اگل دیت تو
بھی پولے‘ روز ک مقدر ٹھہرتے اور اس سے بڑھ کر اس کی بری
ہوتی اور ہر روز ہوتی۔ دوسرا مقدر ک اپن کھیل ہے۔ ہر خواہش پوری
ہو ج ئے‘ ضروری تو نہیں۔ ہ س ئے کی بیوی ک جن زہ اٹھتے سمے‘
اس ک یہ سوچن کہ اوروں کی عورتیں ہر دوسرے‘ قبر کی راہ لیتی
ہیں اور اس والی اس ذیل میں ٹس سے سے مس نہیں ہو رہی۔ اللہ
ج نے وہ یہ خوشی ک دن ک دیکھے گ ۔
جو بھی سہی‘ یہ گھڑت بدن می رائیگ ں تو نہ گئی تھی۔ اپنی کے علاوہ
نیک ں بلاکوشش اس کی نرک حی ت میں خوشیوں ک گہن بن کر اتر آئی
اور اس س بقہ رولے میں اس کی سچ مچ کی چھپی رستمی س منے نہ
آئی تھی۔
ذاتی نہ ا صرف
کی ب ت ہے۔ رات گی رہ بجے یوں محسوس ہوا جیسے یہ مئی
میرا س نس بند ہو رہ ہو۔ میں ج دی سے اٹھ کر صحن میں آ گی لیکن
بج ئے س نس ک س س ہ اپنے روٹین پر آت ‘ ح لت مزید بگڑتی گئی۔
مجھے یوں لگ جیسے میری ج ن نکل رہی ہو۔ رضیہ‘ ی نی میری
بیوی جو چ نے پھرنے سے م ذور سی ہے۔ بڑی پریش نی میں آ گئی۔
وہ ب وجود اپنی سی کوشش کے مجھے سمبھ ل نہیں پ رہی تھی۔ ہ
دونوں کے سوا تقریب گھر میں کوئی نہ تھ ۔ پھر پت نہیں اس میں اتنی
شکتی کہ ں سے آ گئی۔ ہ س یہ کے گھر چ ی گئی۔ ہ س یہ میری سلا
دع میں تھ ۔ اس کے دونوں لڑکے آگئے اور مجھے ایک پرائیویٹ
ہسپت ل لے گئے۔ وہ ج نتے تھے کہ سرک ری ہسپت ل میں لے ج ن کسی
طرح خطرے سے خ لی نہیں۔ وہ ں ڈاکٹر اور عم ہ محض چ ت پھرت
لاشہ ہیں۔ رستہ میں میں بےسدھ ہو گی ۔
موٹر س ئیکل پر لے ج ن بلاشبہ ن ممکن ت میں تھ لیکن وہ مجھے
کسی ن کسی طرح لے ہی گئے۔ ایمرجنسی میں لے ج ی گی ۔ پوری توجہ
دی گئی۔ مکمل چیک اپ کی گی ۔ انہوں نے مجھے مردہ قرار دے دی ۔
انتیس منٹ کے ب د ایک لمب س نس آی ۔ مجھے اسٹیچر پر لٹ کر
برآمدے میں منتقل کر دی گی تھ ۔ ج انہیں بت ی گی کہ لمب س نس آی
ہے تو دوب رہ سے وارڈ میں لا کر بیڈ پر لٹ دی گی اور ڈاکٹری عمل
شروع کر دی گی ۔ س نس اور نبض کی بح لی ہوئی تو فورا سے پہ ے
لاہور لے ج نے کے لیے کہہ دی گی ۔ اللہ کے احس ن سے ٹھیک ہو گی ۔
اس عمل نے مجھے تین تجربوں سے گزرا:
ج ن نک ن کتن مشکل ہے اور یہ عمل انس ن پر کتن دشوار گزار -
ہوت ہے۔
مرنے کے ب د بھی ایک جہ ن ہے جو کہ نی نہیں حقیقت ہے۔ -
موت سے پہ ے مجھے ڈاکٹر ص ح پروفیسر ص ح کہہ کر پک را -
ج رہ تھ ۔ موت کے یقین پر کہ گی ڈیڈ ب ڈی لے ج ؤ‘ لاش لے ج ؤ۔
اتنی بےمکھی و بےرخی۔ عزت زندگی تک تھی۔ کچھ تو موت کے ب د
بھی پروٹوکول دی ہوت ۔ محترمہ دیڈب ڈی ی لاش ص حبہ لے ج ؤ۔ کی یہ
س س نسوں تک تھ ۔ مجھے اپنی حیثیت اور کرتوت ک اندازہ ہو گی ۔
س س نسوں تک ہے اس کے ب د کچھ نہیں۔
ان گنت آئے اور چ ے گئے‘ کوئی ان کے مت ج نت تک نہیں۔ لوگ
تو منہ پھیریں گے ہی اپنے بھی ج دیوں میں ہوتے ہیں۔ کسی کے پ س
اتن وقت کہ ں کہ نہیں اور م قود کے لیے اپن وقت برب د کرت پھرے۔ یہ
دنی ہے یہ اپنے ہیں جو شخص سے زی دہ چھنیوں اور کولیوں کو
محتر رکھتے ہیں۔ اسی روز میں نے چیزوں کو طلا دے دی۔ میں
نے جو تھوڑا بہت موجود ہے ان لوگوں کے ن کر دی ہے۔ یہ ج نیں
اور چیزیں ج نیں۔
ا صرف اس امر کی فکر دامن گیر ہے کہ اللہ کے احس ن ت ک کن
ال ظ اور کیسے شکریہ ادا کروں۔ دوسرا اپنے دانستہ اور ن داستہ
گن ہوں کی م فی کس طرح م نگوں۔ اللہ مجھے ہر دو ک س یقہ سجھ
دے۔ آپ س میرے لیے دع کریں۔
ذاتی نہ بڑوں ک ظرف بڑا
ایک عرصہ اس راز کو میں نے سینے میں دفن رکھ کہ کہیں مجھ
سے کچھ غ ط نہ ہو ج ئے۔ آج اچ نک ذہن میں یہ خی ل کودا کہ نہیں
پگ ے اس ک سینے میں دفن رکھن درست نہیں بل کہ اس کے کہہ
دینے سے میرے آق کری ص ی اللہ ع یہ وس کی حق نیت س منے آئے
گی کہ وہ سچ ہی کہتے ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔
جس ک میں مولا اس ک ع ی مولا۔
فتح خیبر کے موقع پر انہوں نے ام ع ی ع یہ السلا کو بلای تھ اور
وہ تشریف لے آئے۔ ہ ں حیرت اس ب ت پر ہے کہ وہ م مولی نہیں‘
م مولی ترین کے بلانے پر بھی تشریف لے آتے ہیں۔ بلاشبہ بڑوں ک
ظرف بھی بڑا ہوت ہے اور ان کی عط ئیں محدود نہیں ہیں۔
میں ج ہسپت ل سے واپس گھر لای گی تو اپنے حواس میں نہیں تھ ۔
مجھے چ رپ ئی پر لٹ دی گی ۔ میرے پ س رضیہ‘ میری بیوی اور میری
بیٹی ارح پریش ن بیٹھے ہوئے تھیں۔ اللہ کے حضور میری صحت اور
زندگی کے لیے دع ئیں م نگ رہی تھیں۔ انہوں نے بت ی کہ میں لیٹے
لیٹے اٹھ کر چ رپ ئی سے نیچے پ ؤں لٹک کر بیٹھ گی ۔ میں نے انہیں
مخ ط کرکے کہ ڈرن نہیں۔ پھر میں نے تین ب ر کہ :ی ع ی ادرقنی
فی سبیل اللہ اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ اور دروازے کے
دونوں پٹ پوری طرح کھول دیئے۔ ان سے کہ آپ تشریف لے آئے
ہیں۔ پھر دونوں م ں بیٹی نے دروازے سے آتی ہوئی مہک محسوس
کی۔ اس مہک نے پورے کمرے کو م طر کر دی ت ہ اس مہک نے ایک
ہ لے کی صورت میں میرے گرد چکر لگ ی اور جس طرح سے کمرے
میں داخل ہوئی تھی اسی طرح دروازے سے ب ہر نکل گئی۔
ان ک کہن ہے کہ میں آرا سے چ رپ ئی پر لیٹ گی ۔ گہری اور خراٹے
بھری نیند اس طرح سے ط ری ہوئی کہ ہ ئے ہ ئے کی آوازیں یکسر
بند ہو گئیں۔ وہ دیر گئے تک میرے پ س بیٹھی رہیں۔ یوں لگ رہ تھ
کہ میں بیم ر نہیں ہوں۔ ان ک کہن ہے کہ وہ اس مہک کو ت دیر
محسوس کرتی رہیں۔ ان کے نزدیک ایسی مہک انہوں نے زندگی بھر
نہیں محسوس کی۔
لط ئف
اس پرچ ت ے
پریش ن نہ ہوں
اگر آپ کی بیوی کہن نہیں م نتی تو پریش ن نہ ہوں یہ کوئی ایسی ب ت
نہیں۔ آپ کو ی د رکھن ہو گ کہ کسی کی بھی نہیں م نتی۔
س رے شدہ اس پرچ ت ے ایک ہیں۔
مشورہ
ایک ب ب زندگی کی آخری س نسیں لے رہ تھ ۔ اس کے قریبی رشتہ دار
وہ ں افسردہ اور سوگوار بیٹھے اس کے مرنے ک انتظ ر کر رہے
تھے۔ خواتین رونے دھونے اور بین ب زی کے لیے بےچین و بےکل ہو
رہی تھیں۔ ایک ص ص نے مشورہ دی ف ر بیٹھے ہیں ج تک ب ب
مرت نہیں چ و اسے غسل ہی دے دیتے ہیں۔
خ وند
بیم ر خ وند :مجھے ڈنگر ڈاکٹر کے پ س لے چ و۔
بیوی :وہ کیوں؟
بیم ر خ وند :روز صبح مرغے کی طرح اٹھ ج ت ہوں‘ پھر گھوڑے کی
طرح بھ گ بھ گ کر دفتر ج ت ہوں ۔ وہ ں س را دن گدھے کی طرح ک
کرت ہوں۔ گھر آ کر تمہ ری شک ئتیں سن کر بچوں پر کتے کی طرح
بھونکت ہوں۔ بھیڑ کی طرح تمہ رے حضور میں میں کرت ہوں۔ ب ی کی
طرح بچے سمبھ ت ہوں اور ت کھ ن پک تی ہو۔ بکری کی طرح کھ نے
میں س گ پ ت کھ ت ہوں اور رات کو بھینس کے س تھ لیٹ ج ت ہوں۔
مت پڑھو
توت دنی کی ہر زب ن بول سکت ہے۔
اونٹ بغیر کھ ئے پیے س ر کر سکت ہے۔
بندر بہت اچھ نق ل ہے۔
اور
اس سے آگے مت پوچھو
۔
۔
۔
۔
نہ پڑھو
میں کہت ہوں نہ پڑھو
گدھ جس ک سے منع کرو وہی کرت ہے۔
امی ک جوا
میں پی کر نہیں بہکت اسے دیکھ کر بہک ج ت ہوں۔ اتن بت شرا حرا
ہے ی وہ؟
امی ک جوا :شرا حرا ہے اور وہ حرامزادی
محتر جن ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سلا
خو شگوفے ہیں جن ۔ ہ بھی اس ع (ال ) کے س ئے میں ٓاپ کے
س تھ کھڑے ہیں۔ نصیحت تو انہیں ح صل کرنی چ ہیئے جن کے جم ہ
حقو ہنوز غیر مح وظ ہیں۔
اچھ لگ پڑھ کر۔
۔۔۔۔
ایک اور ب ت ق ب ِل ذکر ہے کہ ٓاپ نے طوطے کو ت سے لکھ کر اس کی
چونچ کے نقوش مٹ دیئے ہیں اور اس ک ح یہ بدل س گی ہے۔ یقین
ج نئیے ت سے لکھ ہؤا توت تو ہمیں ہرا بھی نہیں دکھ رہ ۔
وی بی جی
مح مکر حسنی ص ح :سلا مسنون
ہم ری طرف ایک مح ورہ مست مل ہے "ہر فن مولا"۔ ش ید آپ نے بھی
سن ہوگ ۔ سو آپ بھی "ہر فن مولا" ہیں۔ کی نظ ،کی غزل ،کی تحقیقی
مضمون اور کی انش ئیہ اور ا کی ہی لطی ے۔ ہر میدان میں آپ پورے
ہیں۔ سبح ن اللہ۔ دع ہے کہ آپ اور آپ ک ق دونوں اسی طرح چ تے
رہیں اور ہ مست ید ہوتے رہیں۔ آپ کی یہ پھ جھڑی ں خو ہیں۔ "ڈانگر
ڈاکٹر" والے لطی ے ک آخری جم ہ پڑھ کر میں بے اختی ر ہنس پڑا۔ یہ
کہن ب لکل سچ ہے کہ انجمن کی رون آپ جیسے لوگوں سے ہی ق ئ
ہے۔ ب قی راوی س چین بولت ہے۔
سرور ع ل راز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9179.0
ایک لطی ہ ات سے
چ ر دوست ات سے مسجد میں نم ز پڑھنے آ گئے۔ ایک س تھ وضو
کی اور پھر ایک س تھ نم ز پڑھن شروع کی۔ ان میں سے ایک دوست
نم ز پڑھتے ادھر ادھر بھی دیکھے چلا ج رہ تھ ۔ بلاشبہ یہ طور غ ط
تھ ۔
ان میں سے دوسرا بولا :نم ز میں ادھر ادھر نہیں دیکھتے اس سے
نم ز فس ہو ج تی ہے۔
تیسرا بول اٹھ :وہ تو غ ط کر ہی رہ ہے‘ ت بھی غ ط کر رہے ہو۔ کی
ج نتے نہیں ہو کہ نم ز میں نہیں بولتے۔
چوتھ ب ند آواز میں اللہ ک شکر ادا کرنے لگ کہ وہ نہیں بولا وگرنہ
اس کی نم ز بھی فس ہو ج تی۔