The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-03-04 09:38:37

afsanay (1)

afsanay (1)

1

‫‪2‬‬

‫قی مت دیکھیے‬
‫منس نے‘ لوک نے اور شغلانے‬

‫مقصود حسنی‬

‫ابوزر برقی کت خ نہ‬
‫م رچ ‪٧‬‬

‫‪3‬‬

‫فہرست‬
‫سوال یہ نہیں تھ‬

‫جیسے کو تیس‬
‫وہ ج نت تھ‬

‫صرف اور صرف‬
‫کھٹور کھٹن ئی‬
‫حلال کی بوٹی‬

‫نہ ج ئے م ندن نہ پ ئے رفتن‬
‫سنیئر سیٹیزنز‬
‫قی مت دیکھیے‬
‫اللہ م ف کرے‬
‫قد قد پر‬
‫ایسوں میں‬
‫ہ ں البتہ‬

‫چ لیس برس ہونے‬
‫کی تمہیں م و نہیں ب ت تو کوئی بڑی نہ تھی‬

‫‪4‬‬

‫سوال یہ نہیں تھ‬

‫منس نہ‬

‫سوال یہ نہیں تھ کہ چوری کیوں ہوئی سوال یہ تھ چور کو‬
‫چوری کرنے ک موقع کیوں فراہ کی گی ۔ دوسرا گھر میں اگر‬
‫کچھ تھ تو ہی چور کو موقع ملا اور گھر میں چوری ہوئی۔ گھر‬
‫کے م لک کی کوت ہی کے سب نقص امن کی صورت نک ی۔ گھر‬
‫میں گربت اور عسرت ک پہرہ ہوت تو چوری نہ ہوتی۔ یہ بھی کہ‬
‫گری لوگوں میں ص ح حیثیت ک بھلا کی ک ۔ لوگ پھل سے‬

‫بھرے آوارہ اور برسرع پیڑ کی طرف آتے ہیں۔ پھل لگ‬
‫ب م لک پیڑ ہمیشہ سے ب عث عزت و احترا ٹھہرا ہے۔‬

‫خوش ح لی ک تق ض تھ کہ رہ ئش فحش ایریے میں بن ئی ج تی۔‬
‫ص ح حیثیت اور شرےف وہ ں ہی رہ ئش کرتے ہیں۔ وہ ں بنے‬

‫گھروں سے ب ہر کچھ ج ت نہیں بل کہ محت ف حوالوں اور‬
‫ذری وں سے وہ ں ج کر مح وظ ہو ج ت ہے۔ چور اچکے کی‬
‫پھنے خ ں سے پھنے خ ں دہشت گرد بھی وہ ں کی فو ال طرت‬

‫مخ و کو کورنش بج لات ہے۔‬

‫ایک طرح سے چور نے علاقے کے لوگوں پر نیکی ہی کی۔ وہ‬
‫علاقے میں تھوڑا الگ سے لگتے تھے اور لوگوں ک انہیں‬
‫سلا میں پہل کرن سم جی مجبوری تھی۔ ا ایک صف میں‬

‫‪5‬‬

‫کھڑے ہو گئے تھے محمود و ای ز۔ عین ممکن تھ کچھ ہی وقت‬
‫ب د وہ علاقے کی سپر پ ور کے طور پر س منے آتے اور لوگوں‬

‫کی ان اور عزت غیرمح وظ ہو ج تے۔ انتظ میہ اور جم ہ دو‬
‫نمبری لوگ ان کے اشیرواد کے محت ج ہو ج تے۔‬

‫شورےف کی بستی میں گھر نہ بن ن ن شکری کے مترادف تھ ۔‬
‫ن شکری کی سزا تو م ن تھ ۔ ایک طرف اصول کی دھجی ں اڑائی‬

‫گئی تھیں اوپر سے لای نی شور مچ ی ج رہ تھ کہ چوری ہو‬
‫گئی ہے۔ چور ک اس میں آخر کی قصور تھ ۔ یہ ان ک فرض تھ‬

‫کہ گھر کی ح ظت ک خصوصی بندوبست کرتے۔ ت لے اچھے‬
‫خریدتے۔ چوتھے درجے کے کنڈے ت لے کیوں لگ ئے گئے‬
‫تھے۔ اگر اس طرح کے م مولی م مولی ک موں کے لیے پ س‬
‫والے دوڑ بھ گ کریں گے تو ک ر سرک ر کس طرح انج دے‬

‫سکیں گے۔‬

‫کہ ج ت ہے کہ پ س والوں کی تنخواہ م قول ہے ح لاں کہ اس ک‬
‫حقیقت سے دور ک بھی ت واسطہ نہیں۔ یہ محض زب نی کلامی‬

‫کی ب ت ہے۔ ایک شحص پنڈ پیسے بھر کر پ س میں بھرتی ہوت‬
‫ہے۔ اس کے ب وجود اسے شرےف ک جیون میسر نہ ہو تو‬

‫پیسے بھرنے کی ضرورت ہی کی ہے۔ اس قس کے لاپرواہ جو‬
‫اپنے گھروں کی ح ظت نہیں کر سکتے ہی ان کی ج ن بن نے ک‬

‫ذری ہ بنتے ہیں۔‬

‫‪6‬‬

‫پ س والے بڑے ب خبر لوگ ہوتے ہیں۔ اگر وہ خبرگیری میں تیز‬
‫طرار نہ ہوں تو لو کلاس زندگی کریں۔ جہ ز میں مختف ولائتوں‬

‫کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص فرانس ک تھ کہنے‬
‫لگ ہم ری پولیس چوبیس گھنٹے میں چور تلاش کر لیتی ہے۔‬
‫جرمن ک ب شندہ ہنس اور کہنے لگ کہ یہ کون س ک رن مہ ہوا۔‬

‫ہم ری پولیس ب رہ گھنٹوں میں تلاش کر لیتی ہے۔ س بڑے‬
‫حیران ہوئے۔ وہ ں ہم رے علاقے ک ب شندہ بھی تشریف فرم‬
‫تھ ۔ دونوں م کوں کے ب شندوں کی پولیس کی غیر ذمہ دار پر‬

‫ہنس اور کہنے لگ او پ گ و ت ہم را مق ب ہ نہیں کر سکتے‬
‫ہم ری پولیس کو تو چوبیس گھنٹے پہ ے م و ہوت ہے کہ ک‬
‫اور کہ ں چوری ہونے والی ہے۔ اتنی ًمخبری تو کہیں نہیں ہو‬

‫سکتی۔‬

‫خیر چوری تو ہوئی تھی اس لیے اس گھر کے لوگ پکڑ‬
‫لیے گئے کہ آخر لاپرواہی سے ک کیوں لی گی ۔ جن پر‬

‫شک تھ وہ بھی لا کر حوالات میں بند کر دیے گئے۔ اطراف‬
‫کے ہ س یوں پر بھی گرفت کی گئی کہ ہمس یہ م ں پیو ج ی‬

‫ہوت ہے وہ اپنے ہ س ئے کے ب رے میں اتنے لاپرواہ‬
‫کیوں ہو گئے۔ گھر کے بڑے لڑکے پر شک کی گی کہ وہ‬
‫بےشک چوروں سے ملا ہو گ ۔ م لک کو اس لیے کڑی‬
‫سختی میں رکھ گی کہ عین ممکن ہے م ل م ں کے ہ ں‬
‫پنچ آی ہو اور چوری ک ن ٹک رچ رہ ہو۔ ب قول گھر کی‬

‫‪7‬‬

‫بیگ کے کہ اس کے م ئی ب پ بڑے لوبھی ہیں اور انہوں‬
‫نے ہم را کچھ بننے ہی نہیں دی ۔‬

‫تھ نے میں ایک طرف سوگ وار تو دوسری طرف عید ک سم ں‬
‫تھ ۔ س منت سم جت سے ک لے رہے تھے لیکن م تے میں‬
‫ب ت نہ بن رہی تھی۔ بےچ رے ممبر کو ہی زحمت اٹھ ن پڑی اور‬

‫وہ اپنے اور اپنوں کے ک ک ج چھوڑ کر آ گی ۔ تھ نے والوں‬
‫سے مک مک کی اور اس وعدہ پر رہ ئی دلوائی کہ وہ آتے‬
‫الیکشوں میں اسے ووٹ دیں گے۔ بلا شبہ وہ برے وقت میں ان‬

‫کے ک آی تھ ووٹ ک صحیح اور اصولی ح دار تھ ۔‬

‫پچھواڑے کے ہ س ئے گری تھے کچھ نہ جھڑ سکے اس‬
‫لیے چوری کے الزا میں ان کے دونوں بیٹوں کے خلاف ایف‬
‫آئی آر درج کر لی گئی۔ برآمدی بھی ڈال دی گئی۔ برآمدی کے‬
‫س م ن سے مدعی مت نہ تھے۔ خیر ان کے مت ہونے ی نہ‬
‫ہونے سے کی فر پڑت تھ پولیس والے تو مت تھے‘ بس اتن‬
‫ہی ک فی تھ ۔ ا م م ہ کورٹ کچہری میں تھ ۔ پولیس ک جہ ں‬
‫تک فرض تھ اس نے م م ے کو عصری اصولوں کے مط ب‬
‫طے کر دی ۔ ا عدالت ج نے م م ے کے مدعی اور م ز ج نیں۔‬

‫‪8‬‬

‫جیسے کو تیس‬

‫منس نہ‬

‫اکر بڑے حوص ے والا تھ ۔ اسے کوئی کچھ بھی کہہ دیت غصہ‬
‫نہ کرت بس تھوڑا س سنجیدہ ہو ج ت ۔ اس کی یہ سنجیدگی بھی‬
‫لمحوں کی ہوتی۔ تھوڑی ہی دیر ب د ن رمل ہو ج ت ۔ کی ب ت ہے‘‬
‫پہ ڑ جگرے ک م لک تھ ۔ ش ید یہ اسے وراثت میں ملا تھ ۔ اس‬

‫ک ب پ بھی کم ل برداشت اور صبر ک م لک تھ ۔‬

‫زب ن میں لکنت تھی۔ بہت سے حرف بولنے پر اس کی زب ن‬
‫قدرت نہ رکھتی تھی۔ اس کی اس خ می کے سب لوگ اسے اکو‬

‫طوے طوے کہہ کر پک رتے۔ ذرا غصہ نہ کرت ۔ یوں ظ ہر ہوت‬
‫جیسے اس ک ن ہی اکو طوے طوے رہ ہو۔‬

‫ایک دن پت نہیں اسے کی سوجھی کہ عمرے‘ جو ہ س میں‬
‫چنچل اور دھ ئی ک شغ ی تھ ‘ سے کہنے لگ ‪ :‬میری طرح ب تیں‬
‫کرکے دکھ دو میں س کو ق دے ح وائی کی مٹھ ئی کھلاؤں گ ۔‬
‫عمرے نے دو تین ب ر منہ سنورا پھر ہوبہو اسی کی طرح ب تیں‬

‫کرنے لگ ۔ ایس لگت تھ کہ جیسے اس نے حد سے زی دہ اس‬
‫طور سے ب تیں کرنے کی مش کی ہو۔ س حیران رہ گئے اور‬
‫ایک دوسرے ک منہ دیکھنے لگے۔ اکو طوے طوے کو مٹھ ئی‬

‫پڑ گئی۔ اس نے بڑی خوش دلی سے مٹھ ئی کھلائی بھی۔‬

‫‪9‬‬

‫ا ج بھی وہ ہم رے درمی ن بیٹھت ایک دو ب تیں اکو کے طور‬
‫پر ضرور کرت ۔ سمجھ نہ آئی کہ اکو نے یہ شرط کیوں لگ ئی‬
‫تھی۔ ش ید اسے امید ہی نہ تھی کہ وہ اس طور سے ب ت کر‬
‫سکے گ ۔‬

‫اس ب ت کو کئی م ہ گزر گئے۔ اکو کو دیکھتے ہی اکو کی طرح‬
‫ضرور ب ت کرت اور یہ اس کی ع دت سی بن گئی۔ ایک روز‬

‫سکندر نے شرارت سے اسے عمرو توتلا کہہ کر پک را تو وہ‬
‫بھڑک اٹھ اور اس پر بڑا گر ہوا۔ ا کہ اکو خو ہنس ۔ اس ک‬
‫چڑن بڑا ہی پرلطف تھ ۔ اس کے ب د ج بھی ہ میں سے کوئی‬

‫شغل کے موڈ میں ہوت تو اسے عمرو توتلا کہہ دیت ۔ وہ فورا‬
‫سے پہ ے آپے سے ب ہر ہو ج ت ۔ گ ؤں کے لوگوں کو ج اس‬
‫کی چیڑ ک پت چلا تو وہ اسے عمرو توتلا کہہ کر پک رنے لگے‬
‫اور اس کی بدحواسی سے خو لطف اندوز ہوتے۔ پھر کی تھ‬

‫عمرو توتلا اس ک ن پڑ گی ۔ ج وہ چڑت تو اکو کہت اسے‬
‫کہتے ہیں جیسے کو تیس ۔ جو بیجو گے وہ ہی ک ٹو گے۔‬

‫آج دونوں کو دنی چھوڑے کئی س ل بیت گئے ہیں۔ لوگ اکو کو‬
‫اکو طوے طوے کہہ کر بہت ک ی د کرتے ہیں۔ اسے صرف اکو‬
‫ہی کہتے ہیں ج کہ عمرو کو عمرو توتلا کہہ کر ی د کرتے ہیں‬
‫ح لاں کہ وہ سرے سے توتلا نہ تھ ۔ گوی مرنے کے ب د بھی‬

‫جیسے کو تیس لحد میں نہیں اتر سک ۔‬

‫‪10‬‬

‫وہ ج نت تھ‬

‫منس نہ‬

‫فیج ں کے ت ی ابو اسے م نے کے لیے آئے۔ دیکھ بدرا گھر پر‬
‫اکیلا ہی بیٹھ ہوا تھ ۔ ابتدائی سلا دع کے ب د بیٹھ گئے۔‬

‫بیٹھنے کے فورا ب د فیج ں ک دری فت کی کہ کہ ں ہے۔ اس نے‬
‫ذرا ت خ لہجے میں کہ اسے دورہ پڑ گی تھ اور ٹیکہ لگوانے‬
‫گئی ہے۔ یہ سن کر فورا اٹھ گئے اور چل دیے۔ اس کے روکنے‬

‫کے ب وجود نہ رکے۔‬

‫انہوں نے گھر سے ب ہر آ کر اس کے بڑے بھ ئی جو گر اور‬
‫ت خ مزاج ک تھ کو فون کی اور بت ی کہ اس کی بہن کو دورہ پڑ‬

‫گی ہے اور وہ ہسپت ل میں ہے اور تمہ را بہنوئی آرا سکون‬
‫سے گھر بیٹھ ہوا ہے اور اسے بیوی کی رائی بھر چنت نہیں۔‬
‫اس نے ک سے چھٹی لی اور گھر کی راہ لی۔ گھر آ کر م ں پر‬
‫خو گرج برس کہ اس کی پی ری بہن ک کس لاپرواہ سے رشتہ‬
‫کر دی تھ ۔ م ں نے خ وند کو ب وای وہ بھی ک چھوڑ کر گھر آ‬

‫گی ۔‬

‫اچھ خ ص شور مچ ۔ پورے مح ہ میں یہ ب ت مشہور ہو گئی کہ‬
‫فیج ں کو دورہ پڑ گی ہے اور اس ک خ وند بڑی لاپرواہی سے‬

‫گھر پر آرا کر رہ ہے۔ یہ ب ت از خود مشہور ہو گئی کہ فیج ں‬

‫‪11‬‬

‫کے خ وند نے اسے کچھ کر دی ہے اور وہ ہسپت ل میں آخری‬
‫دموں پر ہے۔ ایک ص ح ہ دردی میں آ کر فیج ں کے قتل کی‬

‫س زش کی اطلاع قریبی تھ نے میں بھی کر آئے۔‬

‫گھر ک س را لا لشکر بدرے کے گھر آ پہنچ اور اس کی کچھ‬
‫سنے بغیر ہی اس پر جوتوں سمیت چڑھ دوڑا۔ وہ ان کی لغوی ت‬

‫بڑے تحمل سے سنت رہ ۔ اس ک س لا نہ لہ تو ب ر ب ر اسے‬
‫م رنے کے لیے اس کی طرف آت ۔ وہ تو بھلا ہو م موں ش ک‬
‫جو اسے روک لیت ۔ اس ک موقف یہ تھ کہ اگر کوئی سٹ پیٹ آ‬
‫گئی تو کیس برابر ہو ج ئے گ اور بدرا کڑی سزا سے بچ ج ئے‬

‫گ۔‬

‫ابھی یہ رگڑا جھگڑا چل ہی رہ تھ کہ پولیس آ گئی انہوں نے آؤ‬
‫دیکھ نہ ت ؤ بدرے کی خو ٹھک ئی کر دی۔ ان سے ایک پولیس‬

‫‪:‬والا کہنے لگ‬

‫کنجر کہیں ک ۔ بیوی کو قتل کر رہ تھ ۔‬

‫ل ظ کنجر پر وہ بھڑک اٹھ اور کہنے لگ ‪ :‬میں کنجر نہیں‬
‫بےغیرت ہوں۔‬

‫اس کی گرج دار آواز اور اس کے ال ظ سن کر س سکتے میں‬
‫آ گئے کہ یہ کی کہہ رہ ہے۔ کسی نے یہ کھوجنے کی ضرورت‬
‫ہی محسوس نہ کی تھی کہ وہ دورے ی شدید زخمی ح لت میں‬

‫ہسپت ل اپنے پ ؤں پر کیسے چ ی گئی۔‬

‫‪12‬‬

‫پولیس اسے پکڑ کر لے ج رہی تھی اور ابھی گھر کے دروازے‬
‫سے ب ہر بھی نہ نکل پ ئی تھی کہ فیج ں چنگی بھی گھر میں‬

‫داخل ہوئی۔ اس پر خم ر کی سی کی یت ط ری تھی۔ وہ ں موجود‬
‫لوگوں نے اس کی خم ری کی یت نوٹ کی۔ جوں اس نے گھر‬

‫میں اتنے س رے لوگ اور پولیس دیکھی تو جنسی آسودگی کے‬
‫خم ر سے ب ہر آ گئی۔ فیج ں کو ٹھیک ٹھ ک دیکھ کر س حیران‬

‫رہ گئے۔ اس ک بڑا بھ ئی غصے سے بولا کہ ں گئی تھی۔ ادھر‬
‫ہی تھی ادھر ہی تھی۔ وہ گھبرا گئی۔ پولیس نے اس کے بھ ئی‬

‫کو پرے دھک دی اور فیج ں سے پوچھنے لگے کہ بی بی ت‬
‫کہ ں گئی تھیں۔ اس نے کوئی جوا نہ دی ۔ دریں اثن فیج ں ک‬
‫ب پ پولیس والے کی طرف بڑھ اور اس کی مٹھی میں کچھ لگ‬

‫دی ۔ پولیس والے خ موشی سے گھر سے ب ہر نکل گئے۔‬

‫سی ن آدمی تھ پولیس کے چ ے ج نے کے ب د بولا۔ ہمیں اطلاع‬
‫کی تصدی کر لینی چ ہیے تھی اور ہ دوڑے آئے۔ ان کے گھر‬
‫ک مس ہ تھ ۔ می ں بیوی میں جھگڑا ہو ہی ج ت ہے یہ کون سی‬

‫بڑی ب ت ہے۔‬

‫فیج ں ک خ وند منہ کھولنے کو ہی تھ کہ اسے خی ل گزرا کہ وہ‬
‫تو بیم ر شم ر رہت ہے اس ک کی پت ہے۔ غ طی پر تو فیج ں ہے‬
‫اور وہ اپنی عزت ک خی ل نہیں کر رہی۔ اگر اس نے بھری مج س‬

‫میں فیج ں کی کرتوتوں کو نشر کر دی تو اس ک اک وت بیٹ جو‬
‫ہ سٹل میں داخل تھ مرتے د تک یہ ط نہ سنت رہے گ کہ اس‬

‫‪13‬‬

‫کہ م ں ایک ف حشہ عورت ہے۔ یہ ط نہ سن کر وہ کس طرح‬
‫پرسکون زندگی گزار سکے گ ۔ چ و کوئی ب ت نہیں وہ عورت کی‬

‫کم ئی تو نہیں کھ رہ ۔ اپنی کرنی خود بھگتے گی۔ وہ دلا نہیں‬
‫بےغیرت ہے اور اسے اس بےغیرتی کی آگ میں چند اور‬

‫س نسوں ج ن پڑے گ ۔ اگر س تھ بھیج دیت تو چند م زز بیچ میں‬
‫پڑ کر ص ح ص ئی کرا دیتے ی عرصہ دراز تک کچہری کی خ ک‬

‫چھ نن پڑتی۔ ہوت کی ‘ کچھ بھی نہیں۔ وہ خو ج نت تھ کہ اس‬
‫اندھر نگری میں کچھ بھی نہ ہو سکے گ ۔ یہ ں ح سچ آنچ میں‬

‫ج ت ہے اور دغ فری کو کوئی آنچ نہیں۔‬

‫‪14‬‬

‫صرف اور صرف‬
‫لوک نہ‬

‫ایک خوش مدی نے ب دش ہ سے کہ ‪ :‬حضور آپ کی کی ب ت ہے۔‬
‫آپ س نہ کوئی ہوا ہے اور نہ کبھی کوئی ہوگ ۔ آپ کی بڑی لمبی‬

‫عمر ہے اور آپ ت دیر سلامت رہیں گے۔ ج کوئی نہیں ہو گ‬
‫ت بھی آپ کی ب دش ہت ق ئ ہو گی۔ دری کی منہ زور لہریں بھی‬
‫آپ کے حک کی ت بع ہیں اور ت بع رہیں گی۔ وہ بھی آپ کے حک‬

‫کے بغیر حرکت میں نہیں آتیں۔‬
‫خوش آمدی کے کہے نے ب دش ہ کی روح کو سکون دی اور دل‬
‫تر وت زہ کر دی ۔ اس نے بہت سی اشرفی ں اس کی آغوش میں‬

‫ڈال دیں۔‬
‫ب دش ہ نے پ س کھڑے گم شتے سے کہ ۔ رم ی کو ب واؤ۔‬
‫اس نے فورا سے پہ ے ای چی کو حک دی کہ رم ی کو ش ہی‬

‫درب ر میں ح ضر کی ج ئے۔‬
‫وہ تیر کی طرح اڑت ہوا رم ی کو بلانے چلا گی ۔ دریں اثن ب دش ہ‬
‫نے جی حضوریے سے کہ کہ ہم را تخت فوری طور پر دری کے‬

‫کن رے لگوای ج ئے۔ جی حضوریہ ب دش ہ کے حک کی ت میل‬
‫میں جٹ گی ۔‬

‫‪15‬‬

‫رم ی آ گی ۔ ب دش ہ نے کہ کہ ہم رے اس ک رندے نے کہ ہے کہ‬
‫ہ ت دیر جیئں گے۔ ج کچھ بھی نہیں ہو گ اس وقت بھی ہم ری‬

‫ب دش ہت ق ئ ہو گی۔ بت ؤ اس ک کہن کہ ں تک درست ہے۔‬

‫رم ی تھوڑی دیر تک حس کت لگ ت رہ ۔ وہ ج نت تھ کہ‬
‫ب دش ہ سچ اور ح کی سننے کے ع دی نہیں ہوتے۔ ح سچ کی‬

‫کہنے والے ہمیشہ ج ن سے گیے ہیں۔ اگر اس نے بھی آج ح‬
‫سچ کی کہی تو ج ن سے ج ئے گ ۔ خوش مدی ان و اکرا لے‬
‫کر گی ہے اور وہ اپنے قدموں واپس گھر نہ ج سکے گ ۔ پھر‬
‫اس نے ج ی خوش خبری لبریز خوشی کے س تھ اس خبر کی‬
‫تصدی کر دی۔ یہ ہی نہیں اس نے پ ن س ت جم ے اپنے پ س‬

‫سے بھی جڑ دیئے۔‬

‫رم ی کی ب توں نے ب دش ہ کو خوش کر دی ہ ں البتہ خوش آمدی‬
‫پر ن راض ہوا کہ اس نے س ری ب تیں کیوں نہیں بت ئیں۔‬

‫اسی دوران حک ش ہی کی ت میل میں ب دش ہ ک تخت دری کن رے‬
‫آراستہ کر دی گی ۔ ب دش ہ چی وں‘ چمٹوں‘ گم شتوں‘ خوش‬

‫آمدیوں وغیرہ کے س تھ دری کن رے لگے تخت پر آ بیٹھ ۔ سرد‬
‫اور روم ن خیز ہوا نے اسے بہت لطف دی ۔ ب دش ہ نے م حول‬
‫اور فض کی ت ریف کی اور آئندہ سے دری کن رے تخت آراستہ‬
‫کرنے ک حک دی ۔ کسی کو اصل حقیقت کہنے کی جرآت نہ ہوئی۔‬

‫‪16‬‬

‫ب دش ہ خوش آمدیوں کی خوش آمد سننے میں مگن تھ کہ دری‬
‫کی ایک منہ زور لہر آئی س کچھ بہ کر لے گئی۔ ب دش ہ کی‬

‫ٹ نگیں اوپر اور سر نیچے ہو گی ۔ ب دش ہ ک تخت بہت ہوا ج نے‬
‫کہ ں چلا گی اور وہ خود بہت ہوا اپنی س طنت کی حدوں بہت دور‬

‫نکل گی ۔ دیکھ وہ ں ویرانیوں کے سوا کچھ بھی نہ تھ ۔ کسے‬
‫حک ج ری کرت کہ اسے اس کے قدموں پر کرے۔ ہ ں اللہ کے‬
‫حک کی ت میل میں موت ک فرشتہ اس کے س منے کھڑا مسکرا‬
‫رہ تھ اور چند لمحوں کی مہ ت دینے کے لیے بھی تی ر نہ تھ ۔‬

‫رم ی سی ن تھ ت ہی تو خبر کی تصدی اور اپنے جھوٹ ک‬
‫ان لے کر چپکے سے درب ر سے کھسک گی تھ ۔‬

‫دری کی ایک لہر نے ث بت کر دی کچھ ب قی رہنے کے لیے نہیں‬
‫ہے۔ بق صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات کے لیے ہے۔‬

‫‪17‬‬

‫کھٹور کھٹن ئی‬
‫لوک نہ‬

‫کی عج طور ہے ک کرنے والے ی م ننے والے پر مزید بوجھ‬
‫ڈالا ج ت ہے ج کہ نکمے ک چور ی نہ م ننے والے کو دفع‬
‫کرو کے کھ تے میں رکھ ج ت ہے۔‬
‫ایک شخص ک لی م ت ک م نت تھ ج کہ اس ک بڑا بھ ئی ک لی‬
‫م ت کو نہیں م نت تھ ۔ ایک دن ک لی م ت نے اسے کہ ‪ :‬اپنے‬

‫بڑے بھ ئی سے کہو مجھے م نے اور میری بھگتی کرے اگر نہ‬
‫م ن تو میں تمہ ری ٹ نگ توڑ دوں گی۔‬

‫اس نے اپنے بڑے بھ ئی سے کہ کہ ک لی م ت کو م ن لے ورنہ‬
‫وہ میری ٹ نگ توڑ گی۔‬

‫اس نے بھ ئی کو ک لی م ت کی وارننگ سے مط ع کی اور ک لی‬
‫م ت کو م ننے کی استدع بھی کی۔‬

‫بڑے بھ ئی نے اسے م ننے سے ص ف انک ر کر دی ۔ حک کی‬
‫ت میل نہ ہونے کے سب ک لی م ت نے اس کی ٹ نگ توڑ دی۔‬
‫اس نے بھ ئی سے کہ دیکھو ک لی م ت نے میری ٹ نگ توڑ دی‬

‫ہے۔ اگر آپ ک لی م ت کو م ن لیتے تو وہ میری ٹ نگ تو نہ‬
‫توڑتی۔‬

‫‪18‬‬

‫بڑے بھ ئی نے کہ یہ ات قیہ ہو گی ہے اور اس میں ک لی م ت ک‬
‫کوئی عمل دکل نہیں۔ بےچ رہ چپ ہو گی ۔‬

‫اگ ی مرتبہ ک لی م ت اسے پھر م ی اور کہنے لگی بھ ئی کو ق ئل‬
‫کرو اگر وہ ق ئل نہ ہوا تو میں تمہ را ب زو توڑ دوں گی۔‬

‫چھوٹے بھ ئی نے پھر سے بڑے بھ ئی کو ک لی م ت کی وارننگ‬
‫سے آگ ہ کی ۔ اس نے بڑی منتیں بھی کیں ہر طرح سے ق ئل‬

‫کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پھر بھی نہ م ن ۔ ک لی م ت نے اس‬
‫ک ب زر توڑ دی ۔ چھوٹے بھ ئی نے بڑے بھ ئی کو آگ ہ کی اور‬
‫کہ آپ کے نہ م ننے سے میں ٹ نگ اور ب زو سے محرو ہو‬
‫گی ۔ اس نے اس م م ے کو محض ات ق ت سے ت بیر کی ۔‬

‫ک لی م ت اسے تیسری ب ر پھر م ی اور کہنے لگی دیکھو ت نے‬
‫میرے کہے ک پ لن نہیں کی ۔ ا میں تیسرا موقع دیتی ہوں اگر‬
‫ا بھی نہ م ن تو تمہ ی گردن توڑ دوں گی۔‬

‫ا کہ تو اس نے منت سم جت کی حد کر دی لیکن بڑے بھ ئی‬
‫کے ک ن پر جوں تک نہ رینگی۔ وہ بڑا پریش ن ہوا‘ کی ہو سکت‬

‫تھ ۔ دوسری طرف ک لی م ت بھی مجبور تھی اگر وہ گردن نہ‬
‫توڑتی تو اپنے کہے میں جھوٹی پڑتی۔ اس پر ب ور ہو ج ت کہ‬
‫بڑا بھ ئی ٹھیک کہت تھ کہ ہر مرتبہ کی ہونی محض ات ق ت میں‬
‫تھ ۔ اپنے بھگت کی گردن توڑن ک لی م ت کی مجبوری تھی لہذا‬

‫اس نے اس کی گردن توڑ دی۔‬

‫‪19‬‬

‫بڑا بھ ئی افسوس کرنے والوں کے س تھ بیٹھ ہوا تھ اور کہہ‬
‫رہ تھ کہ چھوٹ ت نگے سے گرنے کی وجہ سے ٹ نگ سے‬
‫محرو ہو گی تو اس نے اسے ک لی م ت ک ک رن مہ قرار دے دی ۔‬
‫دیوار سے گرا تو اسے بھی اس نے ک لی م ت کی ک روائی میں‬
‫ش مل کر دی ا ج کہ چھت سے گر کر گردن تڑوا بیٹھ ۔ جیتے‬
‫جی اسے بھی ک لی م ت کے کھ تے میں ڈال رہ تھ ۔ اگر میں‬
‫اسے ک لی م ت کی ک روائی م ن بھی لوں تو اس ک مط یہ ہو‬
‫گ کہ ک لی م ت اپنے بھگتوں کی رکھش سے زی دہ ان کی مرتیو‬
‫ک ک رن بنتی ہے۔ اسے م ن کر میں کیوں مرتی کو گ ے لگ ؤں۔‬
‫پت نہیں مجھ سے کون س الٹ سیدھ ک کرواتی۔ اچھ ہی ہوا‬
‫جو میں نے اس کو نہ م ن ورنہ میں بھی کسی کھٹور کھٹن ئی‬

‫کی گرفت میں آ چک ہوت ۔‬

‫‪20‬‬

‫حلال کی بوٹی‬
‫لوک نہ‬

‫ایک ب ب جی کی سرک ر میں بہت سے لوگ ح ضر تھے۔ ب ب جی‬
‫انہیں اچھ ئی اور خیر ک درس دے رہے تھے۔ پھر اچ نک ان کی‬
‫آواز ب ند ہو گئی۔ وہ فرم رہے تھے محنت اور مشقت کی کھ ؤ۔‬

‫تمہ را جس خیر و برکت سے لبریز ہو ج ئے گ ۔ حرا اور‬
‫دوسرے کی کم ئی ک چرای ی ہتھی ی ایک لقمہ تمہیں شیط ن کی‬

‫بستی میں لے ج ئے گ ۔ وہ دیر تک رز حلال اور رز حرا‬
‫کے فر کو واضح کرتے رہے پھر اچ نک خ موش ہو گئے اور‬

‫پھر دیر تک خ موش رہے۔‬
‫ہوا یہ تھ کہ ایک شخص آی تھ ن صرف درگ ہ میں پیش کر‬

‫گی بل کہ ج تے ہوئے ب ب جی کی سرک ر میں بیٹھے ہوئے‬
‫لوگوں کے جوتے بھی اٹھ کر لے گی ۔‬

‫ان میں سے ایک نے کہ ‪ :‬سرک ر آپ نے اسے کیوں نہیں گرفت‬
‫میں لی ۔‬

‫ب ب جی نے جواب کہ ‪ :‬میں نے اس ک تین کوس پیچھ کی تھ ۔‬
‫دوسرے نے پوچھ ‪ :‬پھر سرک ر آپ نے اسے پکڑا کیوں نہیں‬
‫انہوں نے جواب کہ ‪ :‬اس کے جس میں کوئی حلال کی بوٹی لگی‬

‫‪21‬‬

‫ہوتی تو ہی پکڑت ۔‬
‫ایک اور جو من ف تھ بولا‪ :‬اگر آپ کہیں تو میں اس کو پکڑ‬

‫لاؤں۔‬
‫ب ب جی نے اسے گہری نظر سے دیکھ اور پوچھ ‪ :‬پکڑ لاؤ‬

‫گے۔‬
‫کہنے لگ ‪ :‬نہیں سرک ر‘ یہ میرے بس ک روگ نہیں۔‬
‫دنی میں رہتے ہوئے دیکھ گی ہے کہ جن کے جس سراپ حرا‬
‫سے پھ ے پھولے ہوں کبھی گرفت میں نہیں آئے۔ گرفت کے‬
‫ٹھیکے دار اپنے لقمے کی حرص میں ان کے قری سے بھی‬

‫نہیں گزرتے۔‬
‫ہ ں البتہ ح اور سچ کے بندے گرفت سے کبھی ب ہر نہیں رہے۔‬

‫‪22‬‬

‫نہ ج ئے م ندن نہ پ ئے رفتن‬

‫منس نہ‬

‫کسی کے م م ے میں یوں ہی ٹ نگ اڑان بلا ط مشورہ دین ی‬
‫ذاتی م ملات میں دخل اندازی مجھے اچھی نہیں لگتی۔ ہ ں کسی‬
‫برائی سے روکن مجھے کبھی برا نہیں لگ ۔ کوئی غصہ کرت ہے‬

‫تو کرت رہے‘ میں نےکبھی اس کی پرواہ نہیں کی۔ اچھ ئی کے‬
‫زمرے میں‘ میں کسی کمپروم ئز ک ق ئل نہیں۔ برائی کو ہر ح ل‬

‫میں برائی ہی کہ ج ن چ ہیے۔ برائی کی ت ئید ی خ موشی بہت‬
‫بڑے سم جی نقص ن ک موج ہو سکتی ہے۔‬

‫میں کسی کے کی اپنی اولاد کے ذاتی گھری و م ملات میں دخل‬
‫اندازی ک ق ئل نہیں۔ ہ ں البتہ مشورہ ط کرنے کی صورت میں‬

‫بڑی دی نت داری سے دو ٹوک اور بلا لگی لپٹی اپنی رائے ک‬
‫اظہ ر کر دیت ہوں۔ یہ پہلا موقع تھ کہ میں نے ڈرتے ڈرتے اور‬
‫جھجکتے ہوئے اس سے پوچھ ہی لی کہ وہ گھر میں صرف دو‬
‫لوگ رہتے ہیں تو پھر اتن گوشت کیوں لے کر ج تے ہو۔ مہم ن‬
‫بھی کوئی خ ص آتے ج تے نہیں دیکھے۔ میری سن کر وہ کھل‬

‫کھلا کر ہنس پڑا اور کہنے لگ ۔ میری بیگ صرف گوشت کھ ن‬
‫پسند کرتی ہے۔ گوشت کی مخت ف نوعیت کی ڈیشیں بن نے میں‬
‫مہ رت رکھتی ہے۔ وہ سبزی سے چڑتی ہے لیکن میں گوشت‬

‫‪23‬‬

‫پسند نہیں کرت ۔ لیگ پیس تو اس کی من بھ تی کھ ج ہے۔ رات‬
‫کو آخر سون بھی ہوت ہے۔‬

‫ابے لیگ پیس اور رات کو سون بھی ہوت ہے کوئی میل کھ تی‬
‫ب ت نہیں۔ ب لکل بےسری سی کہہ گئے ہو‬

‫جن بےسری نہیں حقیقت اور میل کھ تی ہوئی ب ت کی ہے۔‬

‫وہ کیسے‘ میں سجھ نہیں‬

‫جن مر کی ٹ نگیں نہیں لا کر دوں گ تو ہو سکت ہے کہ رات‬
‫کو اس ک موڈ بن ج ئے اور اٹھ کر میری ایک ی زی دہ ضرورت‬

‫کی صورت میں دونوں ہڑپ ج ئے اور مجھے صبح اٹھ کر پت‬
‫چ ے۔ ایک ٹ نگوں سے ج ؤں اوپر سے یہ م ن سنوں‘ ت جی‬
‫کے بڑے پکے ہو‘ یہ الگ ب ت ہے کہ میری کوئی جی ہی نہیں‬

‫جی تو اسی کی ہے۔‬

‫میں اس کی ب ت پر ہنس بھی اور مجھے اس کی کم ل کی مب لغہ‬
‫آرائی نے لطف بھی دی ‪،‬‬

‫اس نے بت ی کہ اس کی زوجہ سرک ر نے فقط چ ر شو پ لے‬
‫ہیں۔ کھ ن ‘ لڑن ‘ سون اور چوتھ ڈیش ڈیش ڈیش۔ ان چ روں میں‬

‫سے کسی ایک پر کمپروم ئز نہیں ہو سکت ۔ لڑائی میں‬
‫چ ردیواری میں مق ل آواز کی ق ئل نہیں۔‬

‫‪24‬‬

‫اس کی آواز صور اسرافیل سے مم ثل ہوتی ہے۔ گھر کے در و‬
‫دیوار پر لرزہ ط ری ہوج ت ہے۔ ل ظوں کے پھوٹتے انگ رے‬

‫میرے وجود اور روح کو چھ نی کر رہے ہوتے ہیں ج کہ مح ہ‬
‫ل ظوں کی ادائیگی اس و اور نشت و برخواست سے لظف اندوز‬
‫ہو رہ ہوت ہے۔ وہ ان لمح ت میں غ ط اور صحیح کو ایک آنکھ‬
‫سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اس کے منہ سے نک تے زہر آلود ل ظ‘‬

‫ل ظ ک ح ویہ کے دہکتے انگ رے زی دہ ہوتے ہیں جو ان اور‬
‫ہونے کی حسوں کو تنور کی راکھ میں بدل رہے ہوتے ہیں۔ ان‬

‫خوف ن ک لمحوں میں ک نوں میں ش ئیں ش ئیں ہوتی ہے اور‬
‫آنکھوں میں اندھیرا چھ رہ ہوت ہے۔ اپنی خیر من تے کوئی بچ‬

‫بچ کے لیے راہ میں نہیں آت ۔‬

‫دسمبر کی ق ی بن دینے والی سردی میں پنکھ فل اسپیڈ پر چلا‬
‫کر استراحت فرم تی ہے۔ سوچت ہوں جہن میں گئی تو جہن کی‬
‫آگ ک اس پر کی اثر انداز ہو سکے گی ہ ں البتہ اس میں تیزی‬
‫ضرور آ ج ئے گی۔ بےچ رے جہنمیوں پر مزید قی مت توڑے گی۔‬

‫ایک مرتبہ غ طی سے میں سگریٹ ایش ٹرے کی بج ئے نیچے‬
‫پھینک بیٹھ ۔ یہ ننگے پ ؤں تھی اس ک پ ؤں سگریٹ پر آ گی ۔‬
‫یوں پٹ پٹ پئی جیسے تنور میں گر گئی ہو۔ میرے س تھ جو ہوا‬
‫اس کو چھوڑیے مجھ پر یہ انکش ف ضرور ہوا کہ آگ‘ آگ کو‬

‫بھی جلاتی ہے اور ک زور آگ ازیت ک شک ر ہوتی ہے۔‬

‫‪25‬‬

‫پھر خی ل گزرا اگر خدا نخواستہ جنت میں داخل ہو گئی تو وہ ں‬
‫ک م حول حبسی ہو ج ئے گ ۔ اس ب ت کو چھوڑیے میرا کی بنے‬
‫گ ۔ ہر وقت میری بہتر حوروں کو اسٹینڈ ٹو رکھے گی۔ میری ہر‬

‫چھوٹی موٹی غ طی پر ی غ ر ک ک شن ج ری کرتی رہے گی۔‬

‫میں اٹھن چ ہت تھ کہ یہ حضرت چل سو چل ہو گئے تھے۔ ان‬
‫کی را کہ نی خت ہونے ک ن نہیں لے رہی تھی۔ میری کی یت نہ‬

‫ج ئے م ندن نہ پ ئے رفتن کی سی تھی۔ اٹھت ہوں تو بد اخلاقی‬
‫بیٹھ رہت ہوں تو دم میں سوراخ ہو رہے تھے۔ پہ ے تو میں‬

‫مداخ ت کو غیراخلاقی ک سمجھت تھ لیکن ا م و ہوا کہ‬
‫مداخ ت وقت اور دم کے زی ں سے زی دہ چیز نہیں۔ میں نے‬
‫دل ہی دل میں توبہ کی کہ اس کے ب د ایسی غ طی نہیں کروں‬

‫گ ۔ دو حرفی ب ت کو انہوں نے شیط ن کی آنت بن دی ۔‬

‫‪26‬‬

‫سنیئر سیٹیزنز‬

‫لوک نہ‬

‫لڑکی والوں نے کہ کہ ب رات کے س تھ کوئی بوڑھ نہیں آن‬
‫چ ہیے۔ بڑی عج اور بےتکی ڈیم نڈ تھی۔ ایک طرح سے یہ‬
‫بزرگوں کو مسترد کر دینے کے مترادف تھ ۔ آخر بڑے بزرگوں‬
‫کو کس طرح نظرانداز کی ج ئے۔ گھر کے س لوگ مل کر بیٹھ‬
‫گیے اور سوچنے لگے کہ یہ کیوں کہ گی ہے اور اس ک کی حل‬
‫نک لا ج ئے۔ ہر کسی نے یہ ہی مشورہ دی ج ئے کہ رشتہ ہی‬
‫چھوڑ دی ج ئے لیکن گ مے کے اب ک موقف تھ کہ ہ اپنی منگ‬
‫کسی قیمت پر نہیں چھوڑیں گے۔ آخر طے یہ پ ی کہ بڑے اب جو‬
‫بیم ر تھے اور چل پھر نہیں سکتے تھے سے مشورہ لی ج ئے۔‬

‫بڑے اب اپنے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے۔ دو تین لوگ ان کے‬
‫پ س گئے اور س را م جرا انہیں کہہ سن ی گی ۔ انہوں نے کچھ دیر‬

‫کے لیے سوچ پھر کہنے لگے کہ ڈیم نڈ م ن لو اور مجھے‬
‫کسی ن کسی طرح چھپ کر س تھ لے ج ؤ۔ س نے کہ چ و تھیک‬

‫ہے۔‬

‫ان کے کہے پر س نے آمین کہ اور پھر جنج تی ر ہونے لگی۔‬
‫بڑے اب کو ایک صندو میں چھپ لی گی اور ہنسی خوشی‬

‫واجے واج تے ہوئے دلہن کے گھر کی راہ لی گئی۔ بڑے اب کو‬

‫‪27‬‬

‫صندو ہی میں ہر چیز مہی کر دی گئی۔ جنج میں ش مل چند ایک‬
‫کے سوا کوئی نہیں ج نت تھ کہ بڑے اب س تھ کر لیے گئے ہیں‬

‫کیوں کہ ب ت نکل سکتی تھی۔‬

‫نک ح وغیرہ کی رس سے ف ر ہوئے اور روٹی کھ نے سے‬
‫پہ ے کڑی والوں نے کہ ہر ج نجی کے لیے ایک دیگ ک اہتم‬
‫کی گی ہے اور وہ اسے کھ ن ہی ہو گی اگر نہ کھ ئی تو کڑی‬
‫نہیں ٹوریں گے۔ یہ سنن تھ کہ س کو ہتھڑے پڑ گئے۔ ایک‬
‫شخص کے لیے ایک دیگ ک کھ ن ممکن ہی نہ تھ ۔ ب ت بڑے اب‬
‫تک لائی گئی۔ انہوں نے کچھ دیر کے لیے سوچ پھر کہنے لگے‬
‫ٹھیک ہے منظور کر لو اور کہہ دو کہ ایک وقت میں ایک دیگ‬
‫پک کر کھ ن دسترخوان پر پروسیں۔ اس طرح ایک ایک دیگ‬

‫پک تے ج ئیں۔‬

‫کڑی والوں سے کہ گی کہ ٹھیک ہے ہر ج نجی ایک ہی دیگ‬
‫کھ ئے گ ت ہ ایک وقت میں ایک پک ئی اور پروسی ج ئے۔ کڑی‬
‫والوں نے ان کی ب ت م ن لی اور ک شروع ہو گی ۔ وہ ایک ایک‬
‫دیگ پک تے گئے یہ کھ تے گیے۔ اس عمل سے کڑی والوں کی‬

‫شرط پوری کر دی گئی۔ ہر ج نجی بآس نی ایک دیگ کھ گی ۔‬

‫س حیرت میں ڈو گئے کہ یہ کی ہو گی ہے۔ کڑی ک بڑا بھ ئی‬
‫کہنے لگ ت لوگ ضرور اپنے س تھ کوئی ب ب لائے ہو ورنہ‬
‫ہم ری شرط پوری ہو ہی نہیں سکتی تھی۔‬

‫‪28‬‬

‫اس ب ت نے ث بت کر دی کہ ب بے چوں کہ تجربہ ک ر ہوتے ہیں‬
‫اس لیے اوکڑ ک حل نک ل ہی لیتے ہیں۔ اس روز سے ہر دو‬
‫علاقوں میں ب بوں کی قدر کی ج نے لگی۔‬

‫ک ش س رے علاقوں میں سنیئر سیٹیزنز کو خصوصی نظر سے‬
‫دیکھ ج ئے۔ بڑھ پے کے سب وہ اس ک ح بھی رکھتے ہیں۔‬

‫‪29‬‬

‫قی مت دیکھیے‬

‫منس نہ‬

‫مردود رد سے ہے۔ رد کی گئی چیز پسند میں نہیں آنی چ ہیے۔‬
‫سچ ئی اور نی ؤ کی تو یہ ہی ہے لیکن عمل سے سوائے‬

‫محدودے چند اس سے کن رہ کش نہیں ہوئے۔ منہ زب نی رد پر‬
‫ل نت کرنے اور پن ہ م نگنے والے ہی اسی کی آغوش میں‬

‫آسودگی محسوس کرتے چ ے آئے ہیں‘ ج کہ اس سے کوسوں‬
‫دور بسنے والے گنتی کے چند ان زب نی کلامی کی پن ہ م گنے‬

‫والوں کے ہ تھوں درد اور کر کی ص ی پر مص و ہوتے آئے‬
‫ہیں۔‬

‫من ی ک ردعمل م و ہوتے‘ اس کے موڈھی کے دیکھ ئے گئے‬
‫حسن و جم ل کی گرہ میں بڑے بڑے یودھ بندھ گئے ہیں اور‬
‫انہیں نت ئج کی کبھی پرواہ نہیں رہی۔ اس کے نتیجہ میں ہوئی‬
‫برب دی سے اگلا شک ر عبرت نہیں لیت ۔ عج حقیقت ہے کہ‬
‫برب دی کے نش ن ت کو دیکھ کر بھی اس راہ کو تی گن مشکل‬
‫ترین عمل رہ ہے۔‬

‫برائی ی خرابی کو زب ن سے برا ی خرا کہن ہی ک فی نہیں ہوت‬
‫ج تک اسے عمل میں داخل نہیں کی ج ت ۔ بلا اجتن وہ برائی‬
‫ی خرابی نہیں کہلا سکتی۔ ہر مرتشی رشوت کے خلاف لمب چوڑا‬

‫‪30‬‬

‫لیکچر دیت نظر ائے گ لیکن اس کی رشوت کے بغیر آنکھ کی‬
‫قبض نہیں ٹوٹتی۔‬

‫شب نہ کی م ں پس کوئ ہ اور پسے کچے چ ول رات سوتے وقت‬
‫کھ تی اور اس کے ب د چ ئے پیتی تھی۔ خیر دن کو بھی کبھی‬
‫کبھی ان اشی کو کھ کر لطف اندوز ہوتی تھی۔ یہ ع دت بد اس‬
‫کے لیے ع دت بد نہ تھی۔ شدید علالت ک شک ر ہوئی۔ سسک‬

‫سسک کر د دی ۔ اس کی عبرت ن ک موت ک منظر دیکھ کر لوگ‬
‫ک نپ ک نپ گئے اور توبہ توبہ کر اٹھے۔‬

‫وہ روکنے پر بھی نہ رکی تھی۔ ب ریک نظر کی خبر گیری کے‬
‫ب وجود کوئی ن کوئی چور رستہ نک ل ہی لیتی۔ اسے م و تھ یہ‬

‫شغل اسے رفتہ رفتہ موت کی ج ن لے ج رہ ہے اس کے‬
‫ب وجود اس نے اس ع ت بد سے ہ تھ نہ کھنچ بل کہ روکنے‬
‫والوں کو وہ اپن دشمن سمجھتی تھی ح لاں کہ وہ ہی اس کی‬
‫ج ن کے سجن تھے۔ ہسپت ل کے خرچے اور لے ج نے کی‬
‫ص وبت اپنی جگہ وہ چ ہتے تھے کہ شب نہ کی م ں ج ن سے نہ‬
‫ج ئے اور آسودہ زندگی بسر کرے۔ دوا دارو میں م مولی نوعیت‬

‫کے تس ہل پر بھی وہ بھڑک اٹھتی۔‬

‫اس کی کر ن ک موت کو دیکھ کر ہر کسی ک ک نوں کو ہ تھ‬
‫لگ ن بنت ہے۔ قی مت دیکھیے اس کی بہو کے س منے اس کی‬

‫موت ہوئی وہ بھی اس ع ت بد ک شک ر ہو گئی۔ ان دنوں‬

‫‪31‬‬

‫ش خ نؤں کی خ ک چھ ن رہی ہے۔ ادوی ت کی ک کریں گی ج‬
‫کہ وہ اس ص ی پر لٹک رہنے میں آسودگی محسوس کرتی ہے۔‬

‫گھر والے پہرہ دیتے ہیں لیکن کڑی نگرانی میں بھی روزانہ‬
‫کسی ن کسی طرح داؤ لگ ہی لیتی ہے۔ دیکھو ک موت کو پی ری‬

‫ہوتی ہے۔‬

‫‪32‬‬

‫اللہ م ف کرے‬

‫منس نہ‬

‫آدمی دکھ میں لاکھ کوشش کرئے‘ ہنسن تو دور کی ب ت‘ اص ی‬
‫اور خ لص مسکراہٹ سے بھی آوازار ہو ج ت ہے۔ خوشی ی‬

‫کسی ہنسی کی ب ت میں اس کے چہرے کی مسکراہٹ ج ی اور‬
‫زبردستی کی ہوتی ہے۔ یہ کی یت کسی م س اور ن دار سے‬

‫مخصوص نہیں‘ بڑے بڑے ن ڈو خ ں بھی دکھ درد اور بیم ری‘‬
‫اگرچہ وہ خود سم جی بیم ری ہی کیوں نہ ہوں‘ میں اص ی‬
‫مسکراہٹ دیکھ نہیں پ تے۔ مزے کی ب ت یہ کہ ان کے ہ ں‬

‫طواف کرنے والے‘ ان کے اپنے ی ان کے کسی کن قری کے‬
‫س منے بھی مسکرانے کی زحمت نہیں اٹھ تے۔ وہ بھی یوں منہ‬

‫بسورتے نظر آتے ہیں جیسے دکھ کی بھٹی میں پڑے س گ‬
‫ہوں۔ گھر پر بھی ص ح کے دکھ ک تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔‬

‫نک واحد ایس بندہ دیکھ ہے جو دکھ درد تک یف اور بیم ری‬
‫سے ب لا تر ہو کر ہنست ہے اور مسکرات بھی ہے۔ کوئی اندازہ‬
‫نہیں کر پ ت کہ ان لمحوں میں وہ کسی دکھ درد ی مصیبت میں‬
‫ہے۔ کہیں سے م و پڑت کہ وہ فلاں پریش نی میں گرفت ر ہے۔‬
‫ج دیکھو ہنست مسکرات نظر آت ہے۔ اس کی اس ادا کے سب‬
‫س اس قری رہتے ہیں۔ کچھ بھی ہو ج ئے عمومی لوگوں کی‬

‫‪33‬‬

‫طرح م نند سگ بھونکت ی ٹونکت نہیں۔ بھونکن ٹوکن ی چپ‬
‫اختی ر کرن اس کے ک غذوں میں نہیں۔‬

‫اس روز پت نہیں اسے کی ہوا تھ کہ خ موشی کی بکل سے نکل‬
‫ہی نہیں رہ تھ ۔ لاکھ پوچھ کریدا اس کی چپ ک کوئی سرا ہ تھ‬
‫نہ لگ ۔ اس کی ہوں ہ ں بھی کسی کی گرہ میں نہ پڑ رہی تھی۔‬
‫س را دن اسی ح لت میں گزر گی ۔ ش کو پت چلا گ ؤں کی مسجد‬
‫کے می ں ص ح نے بلای تھ اور اسے کچھ کہ تھ ۔ ش نی عید‬

‫نم ز بھی پڑھنے نہیں ج ت تھ ۔ اس دن عش ء کی نم ز پڑھنے‬
‫چلا گی ۔ ہ جولی ڈیرے پر بیٹھے ش نی ک انتظ ر کر رہے تھے۔‬

‫وہ نکے کی چپ ک راز ج نن چ ہتے تھے۔‬

‫ش نی ج مسجد سے لوٹ تو س اس کی ج ن لپکے۔ اس نے‬
‫بت ی کہ نکے کو مولوی ص ح نے بلای تھ اور اسے بت ی کہ‬
‫وہ بہت بڑے گن ہ ک مرتک ہوا ہے۔ فوری طور پر توبہ کرئے‬
‫اور اپنے کیے ک ک رہ ادا کرے۔ یہ ب ت تو چ تے چ تے ہوئی‬
‫تھی۔ ج ش نی بیٹھ تو س نے پوچھ آخر نکے سے ہوا کی‬
‫جس کی وجہ سے گن ہ گ ر ٹھہرا۔ اس نے بت ی کہ اس سے ہوا‬
‫تو برا ہے۔ کسی ک مذا اڑان واق ی درست تو نہیں۔ ہ ہنسی‬
‫ہنسی میں ایک دوسرے ک مذا اڑاتے رہتے ہیں ہمیں اس سے‬

‫پرہیز رکھن چ ہیے۔‬

‫‪34‬‬

‫او ی ر آخر ہوا کی جو اس کی بوکی گر گئی۔ کچھ پت بھی تو‬
‫چ ے۔ بکی نے الجھے الجھے لہجے میں کہ‬

‫نکے کی بیوی بین نے می ں ص ح سے شک یت لگ ئی تھی کہ‬
‫نک اٹھتے بیٹھتے اس ک مج کھ اڑات ہے۔ می ں ص ح نے اس‬

‫کے اس گن ہ پر حد لگ دی۔‬

‫کی مذا اڑات تھ ۔ شبو نے پوچھ‬

‫اس کی بیوی ک تکیہ کلا تھ اللہ م ف کرے۔ اس روز ج اس‬
‫کے منہ سے اللہ م ف کرے نکلا تو وہ دوڑا دوڑا اس کے پ س‬
‫گی اور مذاقیہ انداز میں پوچھنے لگ کہ کی کر بیٹھی ہو جو اللہ‬

‫سے م فی ں م نگ رہی ہو۔ پہ ے تو اس نے خود خو بول‬
‫بولارا کی اس کے ب د می ں ص ح سے شک یت کر دی۔‬

‫توبہ ت ئ کرتے رہن چ ہیے اس سے گن ہ ک ہوتے ہیں۔ نکے‬
‫نے واق ی گن ہ کی جو توبہ ت ئ ہوتے بندے کی راہ میں آ گی ۔‬

‫عمرے نے لقمہ دی‬

‫ک فی دیر تک س دوست اس مدے پر گ ت گو کرتے رہے اور‬
‫اس نتیجے پر پہنچے کہ نکے نے بہت بڑا گن ہ کی ہے۔ اسے‬

‫ک رہ ادا کرن چ ہیے۔‬

‫وہ دن ج ئے اور آج ک آئے‘ لوگ ہنسی مذا کی روایت سے‬
‫دست بردار ہو گیے ہیں۔ ہنست مسکرات نک چپ کے ب دلوں میں‬

‫‪35‬‬

‫کہیں کھو گی ہے۔ اس کے ب د کسی نے اس کے منہ پر کبھی‬
‫شوخی کے گلا کھ تے ہوئے نہیں دیکھے۔‬

‫‪36‬‬

‫قد قد پر‬

‫منس نہ‬

‫وہ بڑا ہی ش طر اور چ ل ب ز ہے۔ لذت کی راہیں بت ت ہے۔ لذت‬
‫کے ذائقوں سے آگ ہ کرت ہے۔ یہ ہی نہیں استوار کرنے میں‬
‫بھی م ونت کرت ہے۔ بدبخت ج بھی کڑا وقت آن پڑت ہے‘‬
‫م ونت تو دور کی ب ت‘ اکثر ڈھونڈے سے نظر نہیں آت ۔ اس‬
‫وقت تک اسے کوئی دوسرا شک ر مل چک ہوت ہے۔ کسی بڑے‬
‫ٹ سک کی توقع میں شک ر کی کٹھن گزار راہوں میں اس کے‬
‫گندے انڈے بچے دوڑے چ ے آتے ہیں۔ مضرو ج ن لڑات ہے‬

‫لیکن کسی موڑ پر اس کی چل نہیں پ تی۔‬

‫اس نے کرایہ پر مک ن ح صل کرن تھ ۔ م لک مک ن کے س منے‬
‫بڑا شریف اور مسکین بن کر آی ۔ اس کی شرافت اسے بھ گئی‬
‫اور اس نے اسے کرایہ پر اپنے مک ن ک ب لائی حصہ دے دی ۔‬

‫ج کرائے کے مک ن کی گ ی میں داخل ہوت ن صرف نظریں‬
‫نیچی کرکے گزرت بل کہ سر پر پرن بھی رکھ لیت ۔ مسجد میں‬
‫ب جم عت صبح کی نم ز ادا کرت ۔ ہر کسی سے مسکرا کر اور‬
‫عجز و مسکینی کے س تھ م ت ۔ اس کی شرافت میں م وف اداؤں‬
‫کے س ق ئل ہی نہیں گھ ئل بھی ہو گئے اور اسے علاقے کے‬

‫شریف وسنیکوں میں شم ر کرنے لگے۔‬

‫‪37‬‬

‫اس روز وہ گھر پر اکیلا ہی تھ ۔ اس کی بیوی کہیں گئی ہوئی‬
‫تھی۔ م لک مک ن کی آٹھ نو س ل کی بچی اپنے کرایہ دار کے‬
‫بچوں کے س تھ کھی نے کے لیے آ گئی۔ اس نے شرافت ک ج ی‬
‫لب دہ وہ پرے پھینک اور ن صرف اسے اپنی ہوس ک نش نہ بن ی‬
‫بل کہ اس کی ج ن بھی لے لی۔ پھر موقع پ کر اسے ب ہر پھینک‬
‫آی ۔ لمح تی لذت کے لیے اس نے ن صرف زن کی بل کہ قتل ایس‬

‫جر بھی کی ۔‬

‫بڑوں سے اس ک بیر کم ن تو سمجھ میں آت ہے لیکن بچوں کے‬
‫س تھ دشمنی سمجھ سے ب لاتر ہے۔ انس ن تو انس ن ج نور کے‬
‫بچے بھی پی رے لگتے ہیں۔ بچوں کے س تھ زی دتی ہون ی ان‬
‫کی اس طرح سے ج ن ج ن ‘ افسوس ن ک ہی نہیں شر ن ک ف ل‬
‫بھی ہے۔ پر کی کریں وہ انس ن کے بچوں کے س تھ بھی روز‬
‫اول کی دشمنی کم ت ہے۔ اس کے لیے انس ن کو ہی مہرہ بن ت‬
‫ہے‘ چ ہے وہ بچہ ہو ی بڑا۔ وہ ان لمحوں میں انس ن کی رگ‬
‫میں اپنے مق صد لذت کے روپ میں ات ر دیت ہے۔‬

‫علاقے میں اس سے پہ ے بھی اس قس ک واق ہ ہو چک تھ اور‬
‫لے دے کرکے م م ہ رفع دفع ہو چک تھ ۔ لوگ اکثر سوچتے کہ‬
‫ق تل کون ہے زن کرکے م صو بچی کو کو م ر کر پھینک دینے‬
‫والا ی اس کے م ئی ب پ جنہوں نے سکوں کے عوض اسے زن‬

‫اور قتل م ف کر دی ۔‬

‫‪38‬‬

‫خیر وہ تو اس کے بڑے ک ک تھ اسی لیے قد قد پر اس کی‬
‫مدد کرت رہ اور مواقع دستی کرنے میں اپنے حربے است م ل‬

‫کرت رہ ۔ اس کے گندے انڈے بچے متحرک رہے۔ اس کے‬
‫برعکس یہ کچھ زی دہ ک ک نہ تھ دوسرا اس سے بڑھ کر‬

‫مردود تلاش لی ہو گ ورنہ اس کی ج ن نہ ج نے دیت ۔‬

‫‪39‬‬

‫ایسوں میں‬

‫منس نہ‬

‫یہ کوئی نئی ب ت نہیں بل کہ ہمیشہ سے چ ی آتی ہے کہ مجر‬
‫ہل پر نہ ئے اور ص ف ستھرے لوگ مجر ٹھہرے ہیں۔ آتے‬
‫وقتوں میں ہر اچھ مجرموں کے ن کر دی گی ہے اور ہر برا‬
‫اچھوں ک مقدر بن دی گی ہے۔ یہ کبھی دانستہ کہ اپن بندہ ہے‘‬
‫کبھی سنی سن ئی کے زیر اثر‘ کبھی م م ے کی ظ ہری صورت‬
‫دیکھ کر ت ہیمی کجی بھی برعکس سمجھنے اور ج ننے ک سب‬
‫بنتی رہی ہے۔ اس طرح سچ اور حقیقت کھل نہیں پ تے۔ خونی‬
‫ت بھی اکثر سچ ئی کو پس پردہ کر دیت ہے۔ دیکھتے اور‬

‫ج نتے ہوئے بھی غ ط‘ غ ط نہیں لگت ۔‬

‫ہ س بہن بھ ئی اور والد ص ح چھوٹی ک پہ عین غین سے‬
‫رشتہ نہیں کرن چ ہتے تھے۔ اب کی گھر میں حیثیت اور وق ت‬

‫تھی لیکن وہ بڑے بیٹے کے داؤ میں آ ج تے تھے۔ اس کی‬
‫دونوں بیوی ں بےنک حی بلا کی چ ل ب ز اور ش طر تھیں۔ چھوٹی‬

‫بیوی‘ جو ک فٹین عرف رکھتی تھی‘ چ ل ب زی میں شیط ن کی‬
‫بھی ن نی تھی۔ چھوٹی کے رشتے ک رگڑا جھگڑا چل رہ تھ ۔ پہ‬

‫عین غین کے اپنے‘ رشتہ کے لیے آئے ہوئے تھے۔ گھر کے‬
‫س لوگ جمع تھے‪ ،‬ان کی مہم ن داری کی ج رہی تھی لیکن‬

‫‪40‬‬

‫رشتہ دینے کے حوالہ سے‘ ان کی جھولی میں ن ں ہی ڈالی ج‬
‫رہی تھی۔ ک فٹین نے کچھ دینے سے بچ ؤ کے لیے‘ ہم رے بڑے‬

‫بھ ئی کو مشورہ دی کہ ت ج کر ہ ں کر دو‘ پھر گھر آنے کی‬
‫کرو۔‬

‫وہ طوف ن اور اندھی کی طرح آی اور رشتے کی ہ ں کرکے چ ت‬
‫بن ۔ اس طرح اس نے فس د ک رستہ کھول دی ۔ ش ید چھوٹی ک‬

‫دانہ پ نی ہی ادھر تھ اس لیے رگڑے جھگڑے کے ب وجود رشتہ‬
‫ہو گی ۔ ہ س کو اس رشتے کے ہو ج نے ک سخت دکھ ہوا‬
‫لیکن کی ہو سکت تھ کہ تیر کم ن سے نکل چک تھ ۔‬

‫چھوٹی وہ ں خوش اور سکھی تھی اس لیے ہ نے اس رشتے‬
‫کو قبول کر لی ت ہ پہ عین غین ہم ری نظر میں دو نمبری ہی‬

‫رہ ۔ ہ نے اس پہ و پر کبھی غور نہیں کی عورت مرد کو درستی‬
‫کی ج ن لا سکتی ہے۔ یہ رز حلال پر پ ی رز حرا کو گ ے‬
‫لگ رہی تھی یہ ہی نہیں پہ عین غین کی م ون اور مددگ ر بھی‬
‫بن گئی تھی۔‬

‫ہ میں سے کسی نے غور ہی نہ کی کہ عورت مرد کو غ ط سے‬
‫درست اور درست سے غ ط کی طرف لے ج نے میں بڑا توان‬
‫کردار ادا کر سکتی ہے۔ چوں کہ بہن تھی ہمیں کبھی اس میں‬
‫غ طی ی خرابی نظر نہ آئی۔‬

‫اس نے پہ عین غین کے گھر ج تے ہی اس کی مرحو بیوی‬

‫‪41‬‬

‫کے بچوں کو بڑے حی وں حربوں اور چ ل ب زی سے گھر سے‬
‫چ ت کی ۔ ان کی ت ی اور تربیت کی ج ن توجہ نہ دی۔ بےشک‬
‫ان م صوموں پر یہ حد درجہ کی زی دتی تھی۔ ہ میں سے کسی‬
‫کو یہ زی دتی نظر نہ آئی اور ہ چھوٹی کو م صو اور ہ درد‬

‫عورت سمجھتے رہے۔‬

‫میں کوئی سیٹھ تو نہیں لیکن س ید پوش ضرور ہوں۔ میری‬
‫ازدواجی زندگی خوشگوار نہ تھی۔ جسے وہ ب ریکی سے نوٹ‬
‫کر رہی تھی۔ اس نے میرے لیے اپنے ہ تھ ک رشتہ تلاش ۔ میرے‬
‫شدید انک ر پر بھی اس نے انہیں ہ ں کر دی۔ اس کی ہ ں کے‬
‫ب وجود میں اڑا رہ تو کہنے لگی میں زب ن دے چکی ہوں کی ت‬
‫پوری برادری میں میرا ن ک کٹواؤ گے۔ کی کرت مجھے سولی‬

‫چڑھن پڑا۔‬

‫پہ بی ک فٹین تک نے کہہ دی افسوس چپس کی کھرلی کے س تھ‬
‫چھوٹی نے بھینس ب ندھ دی ہے۔ سچی ب ت ہے‘ اس نے‬

‫افسوس اور ہ دردی ک اظہ ر بھی کی ۔ میں اسے پہ عین غین‬
‫کی س زش سمجھت رہ لیکن یہ نہ سمجھ سک کہ اس کی تہ میں‬

‫میری ہی بہن ک ہ تھ ہے۔‬

‫یہ تو ایک واق ہ ہے اس طرح کے بیسیوں واق ے دیکھنے اور‬
‫سننے کو م ے۔ میں پہ عین غین ہی کو قصور وار سمجھت رہ‬
‫اور کبھی یہ غور نہ کی کہ س را قصور اس ک نہیں۔ حلال پر پ ی‬

‫‪42‬‬

‫اسے کسی ن کسی طرح راہ راست پر لا سکتی تھی لیکن وہ اس‬
‫کے گھر ج کر خود شیط ن کی ن نی بن گئی تھی۔ یہ تو پہ بی‬
‫ک فٹین سے بھی دونمبری میں کئی قد آگے نکل چکی تھی۔‬
‫پہ بی ک فٹین کردار کی اچھی نہ تھی ج کہ یہ رز حرا کے‬
‫درآمد میں اپنے خ وند کی ب نہہ بی ی تھی۔ اسے روکنے کی‬
‫بج ئے لانے پر مجبور کرتی تھی۔‬

‫مجھے افسوس ہے کہ میں ایک عرصہ گزر ج نے کے ب د‬
‫حقیقت سے آگ ہ ہوا۔ پہ عین غین کے غ ط ہونے میں کوئی‬
‫شک نہیں لیکن اس کے سراپ غ ط ہونے میں خود میری اپنی‬
‫بہن ک ہ تھ تھ ۔ اگر وہ غ ط کی الف بے سے سدھ ر کی کوشش‬

‫کرتی تو کتن اچھ ہوت لیکن وہ اسے یے تک لے کر گئی۔‬

‫یہ تو فقط ایک مث ل ہے ورنہ ایسی کئی مث لیں ہوں گی جن میں‬
‫پت ی کی حرکت پر نظر رہتی ہے اس ک حرکت کنندہ نظر میں‬

‫نہیں آ پ ت ۔ زم نہ اور پھر وقت کی انگ ی حرکت کنندہ پر ہی اٹھی‬
‫رہتی ہے۔ م م ے ک محرک س منے نہیں آ پ ت ۔ بس اوق ت وہ‬
‫بڑے سچ پتر کے طور پر بھی وقت اور زم نے کی کت میں‬
‫مندرج ہو ج ت ہے۔ اس کے لیے محبت اور عزت و احترا کے‬
‫جذبے دلوں کو مسخر کیے رکھتے ہیں۔ ج کہ حقیقت تو یہ‬
‫ہوتی ہے کہ وہ انس نی ن رت کے بھی ق بل نہیں ہوت ۔ اس ک‬
‫زب ن پر ن آن بھی زب ن کو پ ید کرنے کے مترادف ہوت ہے۔‬
‫چھوٹی ک ایسوں میں شم ر کرن بہرطور کسی طرح غ ط نہیں۔‬

‫‪43‬‬

‫ہ ں البتہ‬

‫شغلانہ‬

‫ہ دوستوں میں کوئی مولوی ش مل نہیں۔ بڑھ پے کے ہ عمر‬
‫دوستوں میں بچوں کے دکھ سکھ ی اپنی بیم ری موضوع گ ت‬
‫گو رہتی ہے ج کہ جوانی میں شغل ٹھٹھہ اور لڑکیآں موضوع‬
‫کلا بنتی ہیں۔ یہ بھی کہ ضروری نہیں ہر وقت سنجیدہ ب تیں ہی‬
‫کی ج ئیں۔ ہنسی مذا میں واہی ت قس کی ب ت بھی ہو سکتی‬

‫ہے بل کہ ہوتی ہی رہتی ہے۔‬

‫یہ ات تھ کہ ہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ہم ری مسجد کے‬
‫مولوی ص ح ک ادھر سے گزر ہوا۔ پوچھ کی ہو رہ ہے۔ کچھ‬
‫نہیں جن ‘ بس یوں ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ بھی بیٹھ گئے۔ پھر‬

‫کی تھ س کو چپ سی لگ گئی۔ آخر مولوی ص ح نے ہی‬
‫سکوت توڑا اور کہنے لگے یوں ہی بےک ر میں وقت نہ ض ئع‬
‫کی کرو۔ کچھ ن کچھ ک کرتے رہ کرو۔ بےک روں پر شیط ن ج د‬
‫گرفت کرت ہے۔ ک ک ج کرو گے تو مصروف رہو گے اور غ ط‬

‫س ط نہیں سوچو گے۔‬

‫ان کی ب ت سولہ آنے درست تھی لہذا س نے ان کی ب ت پر‬
‫تصدی کی مہر ثبت کر دی اور آئندہ سے بےک ر نہ بیٹھنے ک‬

‫وعدہ کی ۔‬

‫‪44‬‬

‫عیدا ہ میں تھوڑا چنچل شرارتی اور گل ب تی ہے۔ کہنے لگ ‪:‬‬
‫مولوی ص ح ‘ مولوی حضرات ح وہ کیوں پسند کرتے ہیں۔‬

‫جواب مولوی ص ح کہنے لگے‪ :‬آج کل مولوی ک ح وہ کھ تے‬
‫ہیں۔ یہ پرانے وقتوں کے مولوی ص حب ن کی خوراک تھی۔‬

‫بکرو نے کہ ‪ :‬ہ ں جی آپ ک کہن درست ہے۔ آج کل تو مولوی‬
‫ص حب ن آوارہ ککڑ پسند کرتے ہیں۔‬

‫یہ کھ ی گست خی تھی۔ س ڈر گئے کہ کل جم ہ شریف ہے‬
‫سمجھو یہ جم ہ ان پر ہی لگے گ ۔ خلاف توقع مولوی ص ح‬
‫بھی شغل میں آ گئے اور فرم نے لگے‪ :‬ہ ں ت درست کہتے ہو‬

‫لیکن ب نگیں بھی تو مولوی ہی دیتے ہیں۔‬

‫س نے کہ جی ہ ں جی ہ ں آپ ک کہن درست ہے۔‬

‫عبدو نے دوب رہ سے گرہ لگ ئی‘ گ ے میں چکن ئی ہو تو ہی‬
‫خوش الح نی ممکن ہو سکے گی۔‬

‫مولوی ص ح نے کچھ نہ کہ بل کہ ہنس دیے اور اٹھ کر چ ے‬
‫گئے ہ ں البتہ ہ دوستوں پر یہ ضرور کھول گیے کہ مولوی‬
‫ص حب ن بھی حس ظرافت رکھتے ہیں۔‬

‫‪45‬‬

‫چ لیس برس ہونے‬

‫منس نہ‬

‫ب ب جی کھ ن تن ول فرم رہے تھے کہ ان کی دو ڈھ ئی س ل کی‬
‫بچی ب ر ب ر آ کر ن صرف ڈسٹر کر دیتی بل کہ اپنے مٹی م ے‬
‫ہ تھ چپ توں کو لگ تی۔ وہ مسکرا دیتے اور کھ ن ج ری رکھتے۔‬
‫مج ل ہے جو ان کے م تھے پر س وٹ پڑتی۔ ان کی بیگ اسے‬
‫اٹھ کر لے ج تی اور وہ دوب رہ سے آ ج تی۔ ایک ب ر انہوں نے‬

‫ڈانٹ اور ایک ہ کی سی چپت بھی رکھ دی۔ ب ب ص ح خ‬
‫ہوئے کہ بھئی م صو ہے اسے کی پت ۔‬

‫بڑے ن ز نخرے سے اس کی پرورش ہوئی۔ دینی ت ی کے‬
‫س تھ مدرسے کی ت ی سے بھی اسے اراستہ کی گی ‪ ،‬دھو سے‬

‫اس کی ش دی کی۔ اپنی بس ت سے بڑھ کر جہیز میں س م ن دی ۔‬
‫دع ؤں کے س یہ میں اس کی رخصتی کی۔ اللہ کے احس ن مند‬
‫ہوئے کہ اس نے انہیں اس فرض سے سرخرو کی ۔‬

‫اپنے دونوں بچوں کے س تھ نصرت عرف نشو م ئی ب پ کے ہ ں‬
‫آئی ہوئی تھی۔ اپنی م ں سے ب تیں کرنے کے س تھ س تھ اپنے‬
‫دونوں بچوں کو ک ٹ ک ٹ کر آ کھلا رہی تھی۔ ب ب جی چ رپ ئی‬
‫پر لیٹے ہوئے تھے۔ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنی بیٹی نشو سے‬
‫کہنے لگے‪ :‬ایک آ ک ٹ کر مجھے بھی دین ۔‬

‫‪46‬‬

‫ٹوکری میں آ ک فی پڑے ہوئے تھے۔ آ ک ٹ کر دینے کی بج ئے‬
‫کہنے لگی‪ :‬منڈی آرڈر بھجوای ہوا ہے۔‬

‫ب ب جی مسکرائے اور کہنے لگے‪ :‬بیٹ اولاد ہر رشتے یہ ں تک‬
‫کہ م ں ب پ سے بھی بڑھ کر پی ری ہوتی ہے۔ جن کی بیٹی ں بی ہ‬

‫کر لان ان سے اچھ اور پی ر بھرا س وک کرن ۔ انہیں بھی اپنی‬
‫بچی ں اسے طرح پی ری ہوں گی جس طرح تمہیں اپنے بیٹوں‬

‫سے پی ر ہے۔‬

‫اس ب ت کو چ لیس برس ہونے کے قری ہیں۔ اس وقت تو ب ب‬
‫جی کی ب ت سمجھ میں نہ آ سکی تھی ا ج کہ دونوں کی‬

‫بیوی ں آ چکی ہے۔ ان میں ایک سگی بھتجی ہے۔ اس نے ان ک‬
‫جین حرا کی ہوا ہے۔ ج ان کے خ وند ان کے پ س بیٹھتے ہیں‬

‫ی اپنی بیویوں کے لیے کوئی چیز لاتے ہیں تو فورا شور مچ‬
‫دیتی ہے۔‬

‫ہ ئے میں مر گئی میرا دل بیٹھ رہ ہے۔ ہ ئے میرا س نس رک‬
‫گی ۔‬

‫وہ اسی طرح اپنے کمرے میں قد رکھنے سے پہ ے ہی اس‬
‫چیز سمیت م ں کے حضور ح ضر ہو ج تے ہیں۔ وہ چیز ان کی‬

‫بیویوں کے نصی میں نہ ہوتی ح لاں کہ وہ اپنی بیویوں کے‬
‫لیے لائے ہوتے۔ اس کی بیٹی ں سسرال میں ک اس کے پ س‬

‫‪47‬‬

‫بچوں سمیت زی دہ رہتیں۔ وہ ہی چیزیں وہ اور ان کے بچے‬
‫ڈک رتے۔‬

‫چھوٹ اپنی بیوی‘ جو نشو کی بھتجی بھی تھی ک تھوڑا بہت‬
‫خی ل رکھت تھ ۔ وہ بھی اسے نہ بھ ی ۔ اس نے اپنی دونوں‬

‫بیٹیوں سے صلاح مشورہ کرکے ڈی وری سے پہ ے ہی اس پر‬
‫الزا رکھ دی اور اسے چ ت کی ۔ وہ سچی تھی کہ بچے کی‬

‫پیدائش کے ب د اس کے بیٹے نے ک ی طور پر بیوی اور بچے ک‬
‫ہو رہن تھ ۔ ص ف ظ ہر ہے‘ دوسرے رشتے ایک طرف‘ اولاد‬

‫م ں ب پ سے بھی پی ری ہوتی ہے۔ اسے بھ ئی کی عزت اور اس‬
‫کے اپنے بیٹے کے گھر کے برب د ہونے ک رائی بھر ملال نہ‬

‫تھ ۔ اس سے بڑھ کر کھیڈ اس نے اپنے خ وند کی مرحو بیوی‬
‫کے بچوں کو گھر بدر کرنے کے لیے رچ ئی تھی۔‬

‫آج چ نے پھرنے سے م ذور ہے لیکن اس نے اپن چ لا نہیں‬
‫بدلا۔ اللہ کی اللہ ہی ج نت ہے کہ اس نے شیط ن کو اتنی لمبی‬
‫عمر اور کھ ی چھوٹ کیوں دے رکھی ہے۔ خود ل نت کی جیت‬
‫ہے اوروں کی زندگی کو بھی ل نتی بن کر دنی میں شر اور فس د‬
‫کو ع کر دیت ہے۔ بڑے بزرگوں ک کہ محض قصہ کہ نی ہو کر‬

‫رہ ج ت ہے۔‬

‫‪48‬‬

‫کی تمہیں م و نہیں‬

‫شغلانہ‬

‫ش کو ک ک ج سے فراغت کے ب د دونوں دوست قریبی پ رک‬
‫میں چ ے ج تے۔ چہل قدمی کے س تھ س تھ ت ڑا ت ڑی ک شغل‬
‫بھی ج ری و س ری رہت ۔‬

‫علاقے کی یہ واحد ت ریح گ ہ تھی جہ ں ش کو شورےف اور‬
‫عمو بھی گھر والوں کے س تھ ت زہ اور ص ف ش ف ہوا خوری‬

‫کے لیے چ ے آتے تھے۔ ہوا خوری کے س تھ س تھ پہونڈی ک‬
‫عمل بھی زور و شور سے ج ری رہت ۔ یہ م م ہ یک طرفہ نہ‬

‫تھ ۔ صنف ن زک ادائیں اور صنف غیر ن زک مردانہ جواہر ک‬
‫مظ ہرہ کرتے۔ مسک نوں اور اش روں کی زب ن میں بہت کچھ کہ‬

‫سن ج ت ۔‬

‫کچھ جوان اور جواننی ں ک آن ہی ت ڑا ت ڑی کے لیے ہوت تھ لہذا‬
‫ان کے م م ے کو ان س سے الگ رکھ ج سکت ہے۔ ایک آدھ‬

‫اڑپھس بھی ہو رہتی۔ پہ ے سے پھسوں کی انجوائےمنٹ‬
‫دوسروں سے قط ی الگ تر ہوتی۔‬

‫بوڑھے اپنی بیم ری ک رون روتے۔ دواؤں اور ٹسٹوں پر گ ت‬
‫گو کرتے۔‬

‫‪49‬‬

‫جگہ جگہ بیبیوں کے چغ یوں اور بخ یوں پر مشتمل مش ہرے ہو‬
‫رہے ہوتے۔ آنسو اور بےم نی و ب م نی ج ی اور نی اص ی‬
‫ل ظوں کے رونے دیکھنے کو م تے۔‬

‫ایک دن ان دونوں میں سے ایک دوست ک دوست بھی چہل‬
‫قدمی کے لیے س تھ آی ہوا تھ ۔ وہ دونوں حس روٹین چہل‬
‫قدمی کے س تھ س تھ ت نک جھ نکی میں مصروف تھے۔ وہ جوان‬
‫حوروں کے حسن سے لطف اندوز ہو رہے تھے لیکن یہ مہم ن‬
‫دوست بوڑھی اور آدھ کھڑھ بیبیوں ک حدود ارب ہ ن پ رہے‬

‫تھے۔‬

‫حمید نے توقیر سے م جرہ پوچھ کہ تمہ را دوست بھی عجی‬
‫ہے۔ حسن کی شہزادیوں کو چھوڑ کر پرانی بوسیدہ اور بوریوں‬

‫کو ہی کیوں اتنی دل چسپی اور پی ر سے دیکھ رہ ہے۔ وہ‬
‫کھ کھلا کر ہنس پڑا اور کہنے لگ ‪ :‬کی تمہیں م و نہیں کہ یہ‬
‫کب ڑہ ہے۔ کب ڑ میں جو جوہروگوہر اسے نظر آتے ہیں ہمیں نظر‬

‫نہیں آتے۔‬

‫حمید نے اپنے دوست تنویر سے کہ ی ر کسی دن اس کے پ س‬
‫ج کر اس فی ڈ ک بھی ن لج ح صل کرتے ہیں۔ وہ پھر ہنس اور‬
‫کہنے لگ ‪ :‬چھوڑو اپنی اپنی فی ڈ ہے ہر کسی کو اپنی ہی فی ڈ‬

‫سے وابستہ رہن چ ہیے۔ یہ ہی درست اور بہتر ہوت ہے۔‬

‫‪50‬‬

‫ب ت تو کوئی بڑی نہ تھی‬

‫منس نہ‬

‫میری کی ‘ ہر کسی کی آنکھیں بین ئی موجود ہونے کی صورت‬
‫میں لوگوں کو اور زندگی کے بےشم ر من ظر دیکھتی ہیں۔ خو‬
‫صورت من ظر اور زن نہ و مردانہ چہرے طب یت پر اچھے ت ثرات‬
‫چھوڑتے ہیں۔ زن نہ چہرے اور من س جثے قدرے بہتر ی ل ٹ‬
‫کرانے والے ہوں تو کی ہی ب ت ہے۔ طب یت بلاتک ف اور خواہ‬

‫مخواہ م ئل و ق ئل اور مچل مچل ج تی ہے۔ یہ ہی نہیں اکثر‬
‫اوق ت ان میں حوروں اور پریوں کے ج وے نم ی ں ہو ج تے‬
‫ہیں۔ مط بری کے ب د کچھ ی د نہیں رہت کہ وہ کون تھیں۔‬
‫ی دداشت کے م م ہ میں ش ید ان ک بھی یہ ہی ح ل رہ ہو گ ۔‬

‫یہ ہی آنکھیں طب یت اور مزاج سے میل نہ کھ تے من ظر کو‬
‫خرا اور بےک ر قرار دے دیتی ہیں۔ اس طرح بوڑھے آدھ‬
‫کھڑے بےڈھبے ی بےل ٹے چہروں پر ن پسندیدگی کی مہر ثبت‬

‫کر دیتی ہیں۔‬

‫انس ن کی آنکھیں س کو اور س کچھ دیکھتی اور دیکھ سکتی‬
‫ہیں لیکن یہ کتنی عجی حقیقت ہے خود کو نہیں دیکھ سکتیں۔‬

‫جس چہرے پر آویزاں ہوتی ہیں اس کو دیکھنے سے ع ری‬
‫ہوتی ہیں۔ اپنی ہی پشت کو دیکھنے سے م ذور رہتی ہیں۔ جس‬


Click to View FlipBook Version