The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-01-25 05:05:29

r-f-fani-motala

r-f-fani-motala

‫‪1‬‬

‫رفیق سندیلوں کی نظم نگاری‬
‫کا‬

‫فکری و فنی جائزہ‬

‫مقصود حسنی‬

‫ابوزر برقی کتب خانہ‬
‫جنوری ‪٢٠١٧‬‬

‫‪1‬‬

‫‪2‬‬

‫رفیق سندیلوں کی نظم نگاری کا فکری جائزہ‬

‫مورخیں کے حرف شاہوں کی کشیدہ کاری اور حاشیہ برداری‬
‫سے جڑے رہتے ہیں۔ شاہوں کا اترن اور ان کی پھینکی ہڈی‬
‫انہیں ہمیشہ خوش آئی ہے۔ پاپی پیٹ کی سیری کے لیے وہ دن‬
‫کو رات اور رات کو دن کہتے آئے ہیں۔ گلیوں میں بھوک پیاس‬
‫کا عریاں رقص ان کی بےدید آنکھیں کبھی دیکھ نہیں پاہیں۔ شاہ‬
‫کی جئے جئے کار کی مستی میں وہ ضمیر کی آواز کبھی سن‬
‫نہیں پائے۔ بستیوں پر مختلف روپوں میں شاہ کا قہر و غضب‬
‫اور بےبس لوگوں کے زخم انہیں کبھی دکھ ہی نہیں پائے۔ انہوں‬
‫نے طاقت کے غضب کو ہمیشہ انصاف اور معاشی معاشرتی‬
‫توازن کا قابل تحسین کارنامہ قرار دیا۔ معاشی و معاشرتی تنزل‬

‫کو ترقی کا نام دیا۔‬

‫قصیدہ کاروں نے شاہ اور شاہ والوں کو زمینی مخلوق نہ رہنے‬
‫دیا۔ گویا غلط ان سے سرزد ہوتا ہی نہ تھا۔ وہ جو کرتے تھے‬
‫حق اور سچ کرتے تھے۔ بڑے دیالو کرپالو اور رحم دل ہوا‬
‫رہتی تھی۔ ذات کرتے تھے۔ انہیں رعایا کی بہبود کی چنتا لگی‬
‫کے لیے شاہی خزانے سے مطلق خرچ نہ کرتے تھے بل گزر‬
‫اوقات ٹوہیاں سی کر کھاتے اور پہنتے تھے۔ غلطی تو ان سے‬
‫ہوتی ہی نہ تھی۔ یا یوں کہہ لیں زیادتی اور غلطی تو ان کی‬

‫‪2‬‬

‫‪3‬‬

‫سرشت میں داخل نہ تھی۔ کسی سے سرزد ہونے والی غلطی یا‬
‫زیادتی برداشت نہ کرتے تھے۔ ہاں اگر رعایا شاہ سے زیادتی‬
‫کرتی تو وہ وہاں فراخ دلی کا مظہرہ کرتے۔ درگزر اور برداشت‬

‫میں شاید ہی کوئی ان کے تول کا ہو گا۔‬

‫آتے وقتوں میں شاہ ہی نہیں یہ چوری خور مورخ اور قصیدہ‬
‫کار لوگوں کے ہیرو ٹھہرے۔ انہیں دیوتاؤں کا اوتار سمجھا‬

‫جانے لگا۔ ان پر عزت و احترام کے دروازے کھول دیے گیے۔‬
‫ذہنی اور جذباتی وابستگی ان کے حصہ میں آئی۔ ان کے خلاف‬
‫کچھ کہنے والا مجرم قرار پایا۔ موت اور جیل اس کا مقدر بنے۔‬
‫مثلا بہت پہلے کی بات نہیں‘ ہٹلر کو گورا بہادر نے سفاک ظالم‬
‫اور سنگدل قرار دیا اور وہ آج تک سنگدل ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔‬

‫ہم برصغیر والے بھی اسے اسی لقب سے ملقوب کرتے ہیں۔‬
‫کوئی یہ نہیں بتاتا۔‬

‫گورا بہادر نے پہلی جنگ عظم میں دنیا اور جرمن کی کیا حالت‬
‫بنائی اس کا کبھی ناکبھی ردعمل تو سامنے آنا ہی تھا۔‬

‫برصغیر میں وہ یا اس کی فوج کبھی نہیں آئی۔‬

‫دونوں بڑی جنگوں میں ان حد بےگناہوں کا خون بہا۔‬

‫‪١٨٥٧‬‬

‫میں گورا بہادر نے برصغیر میں خون کے دریا بہا دیے۔‬

‫‪3‬‬

‫‪4‬‬

‫بخت خان انگری فوج کا صوبےدار تھا نکالے جانے کے ردعمل‬
‫میں اس نے اس جنگ کا آغاز کیا۔‬

‫جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد روپوش ہو گیا۔‬

‫‪1- https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%AE%D8%AA_%D8%AE%D8%A7%D9%86‬‬

‫لوگ تو لوگ ان کشیدہ کاروں کے ہاں ہنر مند‘ دست کار اور‬
‫ذہین و فطین لوگ دور تک نظر نہیں آتے۔ کسی سے پوچھو تاج‬

‫محل کس نے بنایا تو کہے گا شاہ جہان نے۔ وہ بادشاہ تھا‘‬
‫مستری نہیں تھا۔ یہ ہی صورت سوم ناتھ کے مندر کی ہے۔‬
‫محمود غزنوی نے سترہ حملے کیے‘ ایک کا ٰیک طرفہ حال ملتا‬

‫ہے باقی سولہ کے متعلق کوئی نہیں جانتا۔ آخر ان چوری‬
‫خوروں کو لوگ کیوں نظر نہیں آتے۔ حالیہ تاریخ بھی سابقہ کی‬

‫طرز پر لکھی یا لکھوائی جا رہی ہے‬

‫ادب اپنی اصل میں انسانی تاریخ ہے۔ ادب کے پاس اپنے عہد‬
‫کے شخص اور اس سے متعلق معاملات کی شہادتیں موجود‬
‫ہوتی ہیں۔ وہ جو اور جیسا کو پیش کرتا ہے۔ ہاں البتہ ناگواری‬
‫سے بچنے کے لیے شاعر اور ادیب مختلف حربے اطوار اختیار‬

‫کرتے ہیں۔ باطور ثبوت کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں‪:‬‬

‫مجنوں کا کوئی کیا حال پوچھے‬

‫ہر گھر صحرا کا نقشہ ہے‬

‫‪4‬‬

‫‪5‬‬

‫رحمان بابا‬

‫چشم قاتل تھی مری دشمن ہمیشہ لیکن‬
‫جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی اسی تو نہ تھی‬

‫ظفر‬
‫نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حقائ ٰتیں نہ شکائتیں‬
‫ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے‬

‫فیض‬
‫تم اٹھائے پھرتے ہو دستار فضلت‬

‫لوگ رہتے ہیں یہاں سر بریدہ‬
‫مقصود حسنی‬

‫یہ شعر ‪ ١٩٦٩‬یا ‪ ١٩٧٠‬سے علاقہ رکھتا ہے۔ اس شعر سے‬
‫عصری قوت کی اجارہ داری کے حوالہ سے بہت کچھ سمجھنے‬
‫کو ملتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ لوگوں کی‬

‫اس معاشرت میں کیا حیثیت و اوقات تھی۔‬
‫رفیق سندیلوی جدید اردو نظم کے نامور شاعر ہیں۔ انہوں نے‬
‫اول تا آخر زندگی کو ہی رقم کیا ہے۔ ان کے ہاں عصری زندگی‬

‫‪5‬‬

‫‪6‬‬

‫کے حساس ترین پہلو پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ہاں البتہ انہوں نے‬
‫زندگی اور اس کے اور اس سے متعلق معاملات کو اوروں سے‬

‫ہٹ کر بیان کیا۔ ان کا یہ الگ سے اسلوب بھی دل حساس کے‬
‫تاروں کو بڑے سلیقہ سے چھڑتا ہے۔ بہ ظاہر وہ کچھ اور کہہ‬

‫رہے ہوتے ہیں لیکن اس کچھ اور ٰمیں کچھ اور ہی ہوتا ہے۔‬
‫غور و فکر کے بعد جب اصل بات کھلتی ہے تو قاری یہ کہے‬
‫بغیر نہیں رہ سکتا کہ رفیق سندیلوی اور قسم کے شاعر ہیں۔‬

‫زندگی کے حساس معاملات کے اظہار کے لیے عموما داستانی‬
‫انداز اختیار کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی فوق الفطرت اور‬

‫عجیب سی کہانی کہہ رہے ہیں۔ حالاں کہ وہ فوق الفطرت اور‬
‫عجیب سی کہانی رواں زندگی سے متعلق ہوتی ہے۔ ان کا‬

‫یہ علامتی استعاراتی اور خلائی طور ساخت شکنی کی دعوت‬
‫دے رہا ہوتا ہے۔ قرآت میں آنے والی ساخت کو رد کرنے کے‬
‫بعد ہی حقیقی مفاہیم کا دروازہ کھلتا ہے۔ اس عجیب سے لباس‬
‫میں زندگی کا سمندر رواں دواں نظر آنے لگتا ہے۔ اپنی اصل‬
‫میں یہ ہی کسی شاعر کے حقیقی شاعر ہونے کی دلیل ہوتا ہے۔‬
‫قاری بھی وہ ہی کامیاب قاری ہے جو پردوں میں پوشیدہ بھید‬

‫کھوج نکالنے کا گر جانتا ہو۔‬

‫اگرچہ ان مشکل گزار مقامات پر سے گزر کر حقائق تک رسائی‬
‫عام کام نہیں لیکن شعر ادب سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے‬

‫‪6‬‬

‫‪7‬‬

‫یہ دماغ سوزی لطف کا ذریعہ ہے۔ دوسری جانب شاعری کا بھی‬
‫یہ ہی حقیقی وصف ہے۔ مثلا‬

‫سورج کو روک لو‬
‫شہر عشق کو جانے والا‬
‫کوئی سر سلامت نہیں رہا‬
‫احمقانہ سی بات ہے۔ غورکرنے پر معلوم پڑتا ہے کہ مغرب میں‬
‫امریکہ ہے اور امریکہ کی دوستی موت کو ماسی کہنے کے‬
‫مترادف ہے۔ دوسرا سورج جو روشنی کا سب سے بڑا اور‬
‫مضبوط ذریعہ ہے مغرب میں جا کر بےنور ہو جاتا ہے۔‬
‫رفیق سندیلوی کے ہاں آفاقی اور آغاز سے چلے آتے اصولوں‬
‫کو نہایت خوب صورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ دنیا کے کسی‬
‫کونے میں چلے جائیں ان کا اطلاق اسی طور سے ملے گا۔ دکھ‬
‫درد تکلیف اور غم کی حالت میں آدمی کو کھانا پینا بھی بھول‬
‫جاتا ہے۔ بل کہ بھوک مر جاتی ہے۔ سامنے سونے کے نوالے‬
‫بھی پڑے ہوں ان کو دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ یہ حقیقت‬
‫ہر دور اور ہر جگہ سے تعلق رکھتی ہے۔ رفیق سندیلوی کے‬
‫ہاں اس حقیقت کی عکاسی ملاحظہ فرمائیں‪:‬‬

‫‪7‬‬

‫‪8‬‬

‫سوگ میں کھایا نہیں جاتا‬
‫غذا توہین ہے غم کی‬

‫نظم‪ :‬یہ ماتم کی ش ِب سوئم‬

‫ایسے میں لوگ متاثرہ کو کچھ کھلانے پلانے کا چارہ کرتے ہیں‬
‫تا کہ اس کی انرجی بحال رہے۔ متاثرہ کو وہ چیزیں اور لوگوں‬
‫کی یہ حرکت اچھی نہیں لگتی۔ من مانے گا تو ہی کھانے کی‬
‫چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھے گا ورنہ وہ کچھ بھی نہ کھا پی‬
‫سکے گا۔ اس امر کی رفیق سندیلوی نے کچھ یوں عکاسی کی‬
‫ہے‪:‬‬

‫یہ کیا کھانے سجا کر لائے ہو تم َطشتری میں‬
‫‪………..‬‬

‫مجھ ایسے سوگ واروں سے تمہیں ملنا نہیں آیا‬
‫اُٹھا لو یہ ُمزین طشتری‬

‫مشروب کا کوزہ ہٹا لو میرے آگے سے‬
‫نظم‪ :‬یہ ماتم کی ش ِب سوئم‬

‫‪8‬‬

‫‪9‬‬

‫سب کچھ میسر ہوتے کھایا پیا نہیں جا سکتا‪:‬‬

‫ابھی کچھ تھوڑا سا گیہوں مرے گھر میں پڑا ہے‬
‫اور چوکی پر رکھی کچی صراحی میں‬
‫ابھی سوکھا نہیں‬
‫چشمے کا نتھرا شہد سا پانی‬
‫نظم‪ :‬یہ ماتم کی ش ِب سوئم‬

‫زندگی کے عمومی چلن کی عکاسی دیکھیے‪:‬‬

‫ایڑی میں کانٹا چبھے‬
‫تو بدن تلملاتا ہے‬

‫دل ضبط کرتا ہے روتا ہے‬
‫جو برگ ٹہنی سے گرتا ہے‬

‫‪........‬‬
‫وہ زرد ہوتا ہے‬

‫‪9‬‬

‫‪10‬‬

‫چکی کے پاٹوں میں دانے تو پستے ہیں‬
‫‪........‬‬

‫پانی سے نکلے تو مچھلی تڑپتی ہے‬
‫‪........‬‬

‫طائر قفس میں‬
‫گرفتار ہوں تو پھڑکتے ہیں‬

‫‪........‬‬
‫بادل سے بادل ملیں تو کڑکتے ہیں‬

‫بجلی چمکتی ہے‬
‫برسات ہوتی ہے‬

‫‪........‬‬
‫نظم‪ :‬درد ہوتا ہے‬

‫سب کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ دکھ درد کی کیفیات اس سے قطعی‬
‫مختلف نہیں ہوتیں۔ یہ کیفیات محسوس سے تعلق رکھتی ہیں اور‬

‫احساس کے زندہ ہونے پر دال ہیں۔ دکھ دینے والے پر واضح‬

‫‪10‬‬

‫‪11‬‬

‫کرتی ہیں کہ دکھ اور تکلیف میں جسم و جان پر کیا گزرتی ہے۔‬
‫مطمع نظر کو واضح کرنے کے لیے انہیں دلیل و وکالت کا نام‬

‫دیا جا سکتا ہے۔‬

‫جب کسی کو بےگناہ مصلوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو‬
‫اس رویے کے خلاف نفرت میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور اس کی‬
‫شکتیوں میں ہرچند اضافہ ہوتا ہے نتیجہ کار اس کی جانب سے‬
‫شدید مزاحمت سامنے آتی ہے۔ وہ آخری سانسوں تک لڑتا ہے۔‬
‫اس کی یہ مزاحمت وقت کے اوراق پر شہادت کے طور پر رقم‬
‫ہو جاتی ہے۔ اس ذیل میں جناب حسین ابن علی کی مثال سامنے‬
‫رکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے ظالم کے سامنے جھکنا گوارہ‬
‫نہیں کیا۔ جھکنا گویا یہ مان لینے کے مترادف ہوتا ہے کہ فریق‬
‫ثانی حق پر ہے۔ فتح علی ٹیپو اکیلا رہ گیا تھا۔ زندگی بچانے کے‬
‫لیے اسے جھک جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ آخری‬
‫دم تک لڑا اور اس کی یہ لڑائی سچائی کو شکتی دان کرتی ہے۔‬
‫رفیق سندیلوی کے ہاں اس آفاقی سچائی کا اظہار ملاحظہ ہو‪:‬‬

‫مری بے گناہی کی تصدیق کرکے‬

‫اگر تم نے مجھ کو صلیبوں پہ کھینچا‬

‫تو میں آخری سانس تک تم سے لڑتا رہوں گا‬

‫‪11‬‬

‫‪12‬‬

‫نظم‪ :‬انتباہ‬

‫رفیق سندیلوی نے عصری قوت کے رویے اور اطوار کو کمال‬
‫خوبی سے لفظؤں کا بانا عطا کیا ہے۔ یہ بانا اسے اس عہد کے‬
‫حق گو شعرا میں داخل کر دیتا ہے۔ عصری قوت کے اس رویے‬
‫کے سبب زندگی پر کیا بیت رہی ہے اس کی عکاسی بھی خوب‬
‫کی گئی ہے۔ لفظوں کی نشت وبرخواست احوال کو کھولنے میں‬

‫اپنا کام دیکھا رہی ہے۔ یہ لائینیں ملاحظہ ہوں‪:‬‬

‫روپوش معمار کے حکم پر‬
‫ایک لاشکل نقشے پہ اٹھتی ہوئی‬

‫اوپر اٹھتی ہوئی‬
‫گول دیوار کے‬

‫خشت در خشت چکر میں محصور ہے‬
‫نظم‪ :‬خواب مزدور ہے‬

‫نظم کی یہ لائنیں بہ یک وقت چار امور کو واضح کر رہی ہیں‪:‬‬

‫‪12‬‬

‫‪13‬‬

‫کیا اور کس نوعیت کا کام ہو رہا ہے۔ ‪١-‬‬
‫یہ کام روپوش قوت انجام دے رہی ہے۔ ‪٢-‬‬
‫لوگوں کی مرضی اور منشا اس میں داخل نہیں اور نہ ہی ان ‪٣-‬‬

‫کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔‬
‫مقامی اقتداری قوت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں وہ ‪٤-‬‬
‫محض ایک کٹھپتلی اور خاموش تماشائی سے زیادہ حیثیت نہیں‬

‫رکھتی۔‬
‫تنہائی کی صورت میں کیا حالت ہوتی ہے اور ذات پر کیا گزرتی‬

‫ہے اس کی عکاسی ملاحظہ ہو‪:‬‬

‫تنہا ذات کے مندر میں‬
‫سن کر بھجن اندھیرے کے‬
‫دھاڑیں مار کے روتے ہو‬
‫اپنے حسن کے سونے کو‬

‫بھربھری مٹی کہتے ہو‬
‫تم بھی جاناں کیسے ہو‬
‫نظم‪ :‬تم بھی جاناں کیسے ہو‬

‫‪13‬‬

‫‪14‬‬

‫۔تنہائی کی یہ کیفیت کسی ایک شخص تک محدود نہیں۔ لوگوں‬
‫میں شخصی خصوصیات پر گفتگو ہوتی ہے لیکن جب کوئی‬
‫دیکھنے والا نہ ہو گا سونا بھی سونا نہیں مٹی ہے۔ رفیق‬
‫سندیلوی نے اس آفاقی سچائی کو بڑے خوب صورت انداز میں‬

‫بیان کیا ہے۔‬
‫مقتدرہ قوت کا فرض ہے کہ وہ ریاست میں بسنے والوں کی‬
‫فلاح و بہبود کے لیے اپنی سی کوشش کرتی رہے۔ جب اسے‬
‫اپنی ذات سے فرصت نہ ہو گی یا اس سے منہ پھر لے تو ترقی‬
‫کا خواب شرمندہءتعبیر نہ ہو گا۔ ایسی صورت میں بےسری اور‬
‫بےراہروی کی راہیں دراز ہو جائیں گی۔ جو کچھ ہو گا گزرتے‬
‫حالات کے مطابق ہو گا۔ رفیق سندیلوی نے بااختیار اقتداری قوت‬

‫کی اس بےحسی کو بڑے موثر انداز میں بیان کیا ہے۔‬

‫عجب ملاح ہے‬
‫ُسوراخ سے بے فکر‬

‫اسن مار کے‬
‫کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے‬

‫‪………..‬‬

‫‪14‬‬

‫‪15‬‬

‫کتنے ٹاپو راہ میں ائے‬

‫مگر ملاح‬

‫خشکی کی طرف کھنچتا نہیں‬

‫نظم‪ :‬عجب پانی ہے‬

‫نظم‪ :‬عجب پانی ہے‬

‫طاقت حواس پر میں کا تخت بچھا دیتی ہے۔ مزید کی ہوس حیات‬
‫کے تقاضوں کو زبح کر دیتی ہے۔ تاریخ اٹھا دیکھیے طاقت نے‬
‫کتنا اور کس قدر لہو بہایا۔ کتنے سر کاٹے کتنی بستیاں خاک و‬
‫خون میں ملا دیں۔ کتنے بچے یتیم کیے۔ کتنی عورتوں کے سر‬
‫سے کس بےدردی سے دوپٹا چھینا۔ پھل دیتے باغوں اور اناج‬

‫دیتی فصلوں کو نیست و نابود کر دیا۔ آبادیاں ویرانوں اور‬
‫کھنڈروں میں تبدیل کر دیں۔ لوگ انہیں فاتحین کا نام دیتے آ‬
‫رہے ہیں۔ ان کے کارناموں کو پرتحسین نظروں سے دیکھتے‬
‫ہیں۔ ان کا نام فخر سے لیتے ہیں۔ طاقت اپنی اصل میں قصابی‬
‫فطرت کی مالک ہوتی ہے۔ اسے زندگی سے کم گوشت اور کھال‬
‫سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ رفیق سندیلوی اپنی نظم ابھی وقت‬
‫ہے لوٹ جاؤ میں اس کڑوی حقیقت کو وارننگ اور آگہی کے‬

‫انداز میں بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں‪:‬‬

‫‪15‬‬

‫‪16‬‬

‫سنو توسن برق رفتار پر کاٹھیاں کسنے والو‬
‫یہ پھر کون سے معرکے کا ارادہ‬

‫تمہاری نسوں میں یہ کس خواب فاتح کا پھر باب وحشت کھلا‬
‫ہے‬

‫فصیلوں پہ اک پرچم خوں چکاں گاڑ دینے کی نیت‬
‫کئی لاکھ مفتوح جسموں کو پھر حالت سینہ کوبی میں روتے‬

‫ہوئے دیکھنے کی تمنا‬
‫یہ کس آب دیوانگی سے بدن کا سبو بھر رہے ہو‬
‫سنو تم بڑی بد نما رات کی دھند میں فیصلہ کر رہے ہو‬

‫ن ًظم‪ :‬ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ‬

‫رفیق سندیلوی نے طاقت کے اس چلن کو ناپسدیدہ انداز میں لیا‬
‫ہے اور سے باز رہنے کی تبیہ کی ہے اور اس کے انجام کو‬
‫بھی واضح کیا ہے۔‬
‫شخص زندگی کی وی آئی پی آکائی ہے۔ زندگی کی روانی اسی‬

‫سے عبارت ہے۔ اگر یہ خوش حال آسودہ اور پرسکون ہے تو‬

‫‪16‬‬

‫‪17‬‬

‫زندگی کی جملہ آسائشیں میسر رہتی ہیں۔ اس کی بدحالی جرائم‬
‫کے دروازے کھول دیتی ہے۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ سب‬

‫کچھ ہوتے برصغیر کا شخص کبھی بھی آسودہ حال اور‬
‫پرسکون نہیں رہا اس کے برعکس اس کی محنت پر ترکیب و‬

‫تشکیل پانے والے شاہ اور اس کے ادارے کبھی بدحال نہیں‬
‫رہے۔ ان کے منہ م ٰیں ہمیشہ چوپڑی رہی ہے۔ وہ عیش و‬

‫عشرت کی گزارتے آئے ہیں۔ عملی طور پر انہیں یہاں کے عوام‬
‫کی فکر لاحق نہیں ہوئی ہاں زبانی کلامی انہوں نے عوام کے‬
‫لیے بہت کوشش کی ہے اور ان کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا‬
‫نہیں رکھی۔ اہل دانش کی پذیرائی کی بجائے انہیں مصلوب کیا‬
‫جاتا رہا ہے۔ حق اور سچ کی کہنے والوں کی گردنیں اڑتی آئی‬
‫ہیں۔ شاہ اور اس کے ادارے ظلم وستم کے طوفان توڑ کر بھی‬
‫ہل پر نہائے تاریخ کے اوراق پر نظر آتے ہیں۔ جمہوریت کے‬
‫لباس میں بھی وہ بدمعاش اور بدقماش عوام کی گردنوں پر‬
‫سوار ہوئے ہیں۔ یہاں ایسا کوئی لمحہ نہیں آیا جو عوام کی‬
‫آسودگی خوش حالی اور سکون کا رہا ہوں۔‬

‫شاہ اپنا قبلہ درست کرنے کی زحمت نہیں اٹھاتے بل کہ انہوں‬
‫نے عوام کا قبلہ درست کرنے کی اوٹ میں اپنے دشمنوں کو دار‬
‫پر لٹکایا ہے۔ انصاف کے قیام کے حوالہ سے بھی اپنے کھیسے‬

‫بھرے ہیں۔‬

‫‪17‬‬

‫‪18‬‬

‫بیرونی عناصر کی فتح و نصرت یہاں کی دھرتی کے دلالوں کے‬
‫سر رہی ہے۔ انہوں نے دھرتی اور اس کے لوگوں سے غداری‬
‫کرکے عیش کی گزاری ہے۔ انعام و اکرام ہی نہیں بڑے بڑے لقب‬
‫بھی وصولتے رہے ہیں۔ عبوری حاکمیت بھی ان کے ہاتھ آتی‬

‫رہی ہے۔‬

‫ان کی اس بدمعاشی اور بدعنوانی کے زیر اثر جرائم نے جنم لیا‬
‫ہے۔ چوری ہیرا پھیری ملاوٹ جھوٹ دغابازی وغیرہ یہاں کی‬
‫معاشرت کا جزلازم رہے ہیں۔ شاہ اور شاہ والے کھوہ سے‬
‫بوکے ضرور نکالتے آئے ہیں لیکن کھوہ سے کتا کبھی نہیں‬

‫نکالا۔ اگر کھوہ سے کتا نکال دیتے تو زندگی کچھ اور ہی ہوتی۔‬
‫لیکن کتے کو نکالتا کون اور کس طرح نکالتا۔ کتا ہی تو یہاں‬

‫کے جملہ کاروبار کا مالک و وارث رہا ہے۔ پانی نکالنا درحقیقت‬
‫کتے کے سانسوں کو آسودہ کرنا تھا۔ ان کے سانسوں کی‬
‫آسودگی ہی تو جرائم کی آسودگی تھی۔‬

‫شخص کی حالت زار دیکھ کر ایک حساس شاعر کا کلیجہ منہ کو‬
‫آ جاتا ہے حالاں کہ وہ بھی ان ہی کیفیات سے گزر رہا ہوتا ہے۔‬
‫وہ اپنا دکھ بھول کر ان دکھی انسانوں کے دل کی دھڑکن بن جاتا‬

‫ہے۔ وہ انہیں اپنی ذات میں محسوس کرتا ہے۔ ان کا دکھ درد‬
‫اس کا اپنا دکھ درد بن جاتا ہے۔ ایسے میں وہ دکھ درد اور‬

‫بےبسی کی آواز بن کر اپنے عہد کی شناخت بن جاتا ہے۔‬

‫‪18‬‬

‫‪19‬‬

‫رفیق سندیلوی کی نظموں میں بھی کچھ ایسی ہی صورت دکھائی‬
‫دیتی ہے۔ وہ شخص کے دکھ درد کے اظہار کے لیے مختلف‬
‫چلن اختیار کرتا ہے۔ کبھی استعاراتی طور اختیار کرتا ہے تو‬
‫کبھی تمثالی چلن کا سہارا لیتا ہے۔ اس کے ہر چلن میں ایک‬

‫کرب ایک بےبسی اور بےچارگی کی صورت صاف نظر آتی ہے۔‬
‫اس کا اس ذیل میں ہر چلن دل و دماغ پر اپنے گہرے اثرات‬

‫مرتب کرتا ہے۔ اس ضمن میں رفیق سندیلوی کا استعاراتی انداز‬
‫ملاحظہ فرمائیں‪:‬‬

‫َطعام گاہوں کی‬
‫بچی کچھی ِغذاپہ پَل رہا تھا‬

‫نَم زدہ شگافوں‬
‫گھن لگے درازوں میں‬

‫چھپا ہوا‬
‫‪...............‬‬
‫جو شروع ِدن سے‬
‫َموت اور زندگی‬

‫‪19‬‬

‫‪20‬‬

‫صفائی اور گندگی‬
‫نکاسی ٔوجود‬
‫خیروشر‬

‫روانی و جمود کے معاملات میں گ ِھرا ہوا تھا‬
‫نظم‪ :‬لال بیگ‬

‫یہ لال بیگ کیا ہے ایک کم زور بےبس اور گربت سے مارے‬
‫شخص کا استعارہ ہے۔ کم زور شخص کی زندگی اس سے‬
‫مختلف نہیں ہوتی۔‬

‫رفیق سدیلوی کی نظم ۔۔۔۔۔۔ مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے ۔۔۔۔۔‬
‫میں مگرمچھ کون اور کیا ہے۔ برے حالات ہیں یا شاہ اور شاہ‬

‫والوں کا منہ بولتا استعارہ ہے۔ کم زور طبقے روز اول سے روز‬
‫آخر تک اس مگر مچھ کے منہ میں زندگی کرتے ہیں۔ ان کا‬

‫کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ذرا یہ لائنیں ملاحظہ فرمائیں کم زور‬
‫اور مجبور و بےکس طبقے کا جینا کھل کر سامنے آ جائے گا۔‬

‫‪20‬‬

‫‪21‬‬

‫اِک جنی ِن ناتواں ہوں‬
‫جس گھڑی رکھی گئی بنیاد میری‬

‫اُس گھڑی سے‬
‫تیرگی کے پیٹ میں ہوں‬
‫نظم‪ :‬مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہواہے‬

‫محنت کش طبقے کی حالت زار کو اجاگر کرنے کے لیے رفیق‬
‫سندیلوی نے ایک تندور والے کا انتخاب کیا ہے جو بہت سووں‬

‫کا پیٹ بھر کر اپنی بھوک مٹانے کا بندوبست کرتا ہے۔ بھوک‬
‫مٹانے کے لیے دہکتی آگ کے منہ میں بیٹھ کر کٹھور مشقت‬
‫کاٹتا ہے۔ وہ پھر بھی اس پر مطمن ہے اور اس کے منہ میں گلہ‬
‫کے شبد نہیں ہیں۔ ان سطور کو دیکھیے ایک محنت کش کی‬
‫مشقت اور حوصلہ مندی سامنے آ جائے گی۔ یہ بھی کہ محنت‬

‫کش کی جہنم ناک زندگی کا احوال بھی کھل جائے گا۔‬

‫ابھی میرا تندور نیچے سے اُوپر تلک تَپ رہا ہے‬
‫طباقوں میں دو بوری گوندھا ہوا‬

‫‪21‬‬

‫‪22‬‬

‫نرم آٹا پڑا ہے‬
‫جسے روٹیوں میں مجھے ڈھالنا ہے‬
‫اَزل سے مجھے اس جہنم سے روٹی ِملی ہے‬

‫مدور کناروں سے‬
‫اُٹھتی ہوئی بھاپ میں زندگی ہے‬

‫سُنو‪ ،‬یہ جہنم نہیں ہے‬
‫نظم‪ :‬تندور والا‬

‫مقتدرہ طبقے ہوں کہ مذہبی مین یا جعلی پیر صاحبان‬
‫انسانی تقسیم میں برابر کے شریک رہے ہیں ہر ایک کا مقصد‬
‫زیادہ سے زیادہ دھن اکھٹا کرنا رہا ہے۔ ان کی اس سازش کے‬
‫باعث انسان تقسیم در تقسیم ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی اصل‬
‫شناخت ہی گم ہو گئی ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک خطے طبقے یا‬
‫مذہب سے ًمخصوص نہیں رہا بل کہ اس کی جڑیں پوری انسانی‬
‫برادری میں پھیلی ہوئی ہیں۔ برصغیر ہی کو لے لیں‘ گورا ساب‬
‫بہادر نے اس کے لیے کتنے حربے اختیار کیے ہیں۔ صدیوں‬
‫سے ایک ساتھ رہنے والے ایک دوسرے سے کوسوں دور ہو‬
‫گئے ہیں۔ بات یہاں تک ہی نہیں رہی وہ ایک دوسرے کے خون‬

‫‪22‬‬

‫‪23‬‬

‫کے پیاسے ہو گئے ہی۔ ایک دوسرے سے جینے کا حق چھین‬
‫رہے ہیں۔ وہ اس ضمن میں تمام انسانی تقاضوں کو پش پشت‬
‫ڈال چکے ہیں۔ طبقاتی عصبیت کے ناگ چار سو رقص کرتے‬

‫نظر اتے ہیں۔‬

‫رفیق سندیلوی نے تقسیم کی اس لعنت کو بڑے فن کارانہ انداز‬
‫میں بیان کیا ہے جو اساس و احساس کی نازک تاروں کو انتہائی‬

‫سلیقہ سے چھڑتا ہے۔ اس کاز کے لیے اس نے حقائی طور‬
‫اختیار کی ہے۔ شاعر اپنے علاقے کے شخص اس شخص کی‬

‫زمین اور اس سے متعلق معاملات کو آتے کل کو ماضی کی‬
‫شہادت پیش کرتا ہے۔ اس کا کام آگہی میسر کرنا ہوتا ہے۔‬

‫مستقبل کے لیے آگہی کے دروازے کھولنا ہی اس کا کرتوے‬
‫ہے۔ اگر وہ اس ذیل کسی رو رعایت یا ڈندی مار رویہ اختیار‬
‫کرتا ہے تو بہت بڑی زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اگر ماضی کا‬
‫ادب ماضی کے شخص اور اس کے معاملات کو کھولتا نہیں تو‬
‫وہ محض یاوہ گوئی ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ اس کے شبدوں کی‬
‫بددیانتی کے تحت مستقبل اپنے ماضی کے احوال سے آگاہ نہیں‬
‫ہوتا۔ ماضی کے غلط تجربوں کو استعمال میں لا کر اپنی اور آتی‬
‫نسلوں کی لٹیا دبو کر رکھ دیتا ہے۔ ماضی کی درست ترسیل‬
‫مستقبل کے بڑے کام کی چیز ہوتی ہے۔ رفیق سندیلوی کا یہ‬
‫کمال ہے کہ اس نے گزرتے آج اور گزرے کل کی دیانت داری‬

‫‪23‬‬

‫‪24‬‬

‫سے عکاسی کی ہے۔ اس کی نظم برادہ اڑ رہا ہے کی یہ لائنیں‬
‫ملاحظہ ہوں‪:‬‬

‫المختصر خوابوں کی دنیا ایک تھی‬
‫اک دوسرے کا حاضر و غائب تھے‬

‫ہم جڑواں تھے‬
‫اعضا و عناصر میں دوئی ناپید تھی‬

‫سینے سے سینہ‬
‫دل سے دل‬

‫!ماتھے سے ماتھا منسلک تھا‬
‫…………‬
‫کیا بتاؤں‬

‫وقت نے جب تختۂ آہن پہ رکھ کر‬
‫تیز رو آرا چلایا تھا‬

‫ہمیں ٹکڑوں میں کاٹا تھا‬
‫اسی دن سے برادہ اڑ رہا ہے‬

‫‪24‬‬

‫‪25‬‬

‫پیڑ کے سوکھے تنے سے‬
‫چھت کی کڑیوں سے‬

‫کتابوں اور خوابوں سے‬
‫برادہ اڑ رہا ہے‬

‫!!میرا حاضر میرے غائب سے جدا ہے‬
‫نظم‪ :‬برادہ اڑ رہا ہے‬

‫گزرے کل اور گزرتے آج کی اس سے موثر انداز میں کتھا پیش‬
‫نہیں کی جا سکتی۔ اس بیان میں انسانی درد بھی ہے اور انسانی‬

‫خلوص بھی۔ ہر لفظ شاعر کی گداز قلبی کو واضح کر رہا ہے۔‬
‫دکھ اور تاسف ہی ان سطور کا حاصل ہے۔ دوبارہ سے قرآت‬

‫فرمائیں میرے کہے میں صداقت نظر آئے گی۔‬

‫رفیق سندیلوی بڑا حساس اور باریک بین شاعر ہے۔ شخص ہے‬
‫دکھ سے کبھی اس کا سینہ پھٹ جاتا ہے اور قلب و درد کاغذ‬

‫کی زمین پر اتر آتے ہیں اور وہ فکر و نظر کی ساری روشنائی‬
‫اس میں آمیزش کر جاتے ہیں۔ میرے کہے کی گواہی اس کی نظم‬

‫‪25‬‬

‫‪26‬‬

‫۔۔۔۔۔ یہ کیسی گھڑی ہے ۔۔۔۔ میں موجود ہے۔ ہر لفظ اس عہد کی‬
‫زندہ تصویر ہے۔ اس نظم میں آج کے ہوتے کو بغیر کسی ابہام‬
‫کے بیان کر رہا ہے۔ شاید ہی کوئی لفظوں کا مصور اس نوع کی‬
‫تصویر بنا سکے گا۔ اس نظم میں اس نے پہلے کائنات کی جانب‬
‫مراجعت کی ہے اور سب کچھ اکٹھا کرکے ذات کی طرف پلٹ آیا‬
‫ہے۔ اس کے حساس وجود نے اس انبار کو چبایا ہے اس کے‬
‫بعد ہی یہ نظم تشکیل پائی ہے۔ ذرا یہ لائنیں ملاحظہ فرمائیں‪:‬‬

‫مرے دہر کا طاق تہذیب جس پر‬
‫مقدس صحیفہ نہیں اک ریاکار مشعل دھری ہے‬
‫ہر اک شیشۂ پاک باز و صفا کی سماوی رگوں میں‬

‫کسی عکس فاجر کی مٹی بھری ہے‬
‫منزہ درختوں کے پاک اور شیریں پھلوں میں‬

‫کوئی نوک تیغ نجاست گڑی ہے‬
‫خدایا ترے نیک بندوں پر افتاد کیسی پڑی ہے‬

‫یہ کیسی گھڑی ہے‬
‫نظم‪ :‬یہ کیسی گھڑی ہے‬

‫‪26‬‬

‫‪27‬‬

‫عمومی اصول و ترکیب و تشکیل حیات کی ذیل میں اس کی نطم‬
‫۔۔۔۔ مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں ۔۔۔۔ خصوصی مطالعہ کا تقاضا‬
‫کرتی ہے۔ اس نظم کی ہر لائین حیرت کے دروازے پر دستک‬
‫دیتی نظر آتی ہے۔ جس طرح زندگی کی گرہیں بڑی پچیدہ ہیں‬
‫اس طرح اس نطم کے لفظوں کی گرہیں عام یا سرسری قرآت‬
‫سے حقیقی مفاہیم تک رسائی ممکن نہیں۔ اس نظم میں زندگی‬
‫کو جس طور سے لیا گیا ہے یہ زندگی اصلی اور ہو بہو کی‬
‫مصوری ہے۔ ان سطور کو قرآت میں لائیں زندگی کو سمجھنے‬
‫اور جاننے کے حوالہ سے بڑی معاونت میسر آئے گی اور اس‬
‫کی پچیدگی کا حوالہ بھی سامنے آ سکے گا۔‬

‫لہو کی کونیات میں‬
‫صفات اور ذات میں‬
‫عجب طرح کے بھید ہیں‬
‫یقین و ظن کی چھلنیوں میں‬
‫سو طرح کے چھید ہیں‬
‫نظم‪ :‬مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں‬

‫‪27‬‬

‫‪28‬‬

‫رفیق سندیلوی عصری زندگی اور اس کی مصروفیت کی بڑے‬
‫خوب صورت انداز میں عکاسی کرتے ہیں۔ عصری زندگی سے‬
‫تعلق رکھتا شخص ذات کے حصار میں مقید ہے کدھر کیا ہو رہا‬
‫ہے اس سے وہ لاتعلق ہو گیا۔ ان کی نظم ۔۔۔۔ ٹیلے سے قبرستان‬
‫تک ۔۔۔۔ ملاحظہ کریں کہ زندگی بےچارگی اور شخصی بےحسی‬

‫کی گرفت میں ہے۔ اس نظم میں اس نے لفظی مصوری کے‬
‫سارے حربے اختیار کرکے شاہکار شعر پارہ اردو ادب کو دیا‬

‫ہے۔‬

‫میتوں کے زرد چہروں پر جمی تھی‬
‫موٹے بھدے چاند کی مریل نکھٹو روشنی‬
‫ایک ماتم تھا کہ جس میں منہمک اشجار تھے‬
‫صحن تھے خاموش سکتے میں در و دیوار تھے‬
‫ایک کالی رات تھی جو شہر میں آباد تھی‬
‫اپنی اپنی موت ہی ہر ذی نفس کو یاد تھی‬
‫راستہ بے ہوش تھا ٹیلے سے قبرستان تک‬
‫گورکن نوحہ کناں تھے‪ ،‬زندگی نرغے میں تھی‬

‫‪28‬‬

‫‪29‬‬

‫الوؤں کے غول اڑتے تھے دریچوں کی طرف‬
‫شہر سے باہر سمندر گونجنے میں محو تھا‬
‫نظم‪ :‬ٹیلے سے قبرستان تک‬

‫رفیق سندیلوی کی نظم ۔۔۔۔۔ ماتھوں پہ سینگ ۔۔۔۔۔ عصری حیات‬
‫پر گزرتے حوادث انسانی پشمانی اور حالات کی گھٹن کی ایک‬
‫کامیاب تصویر ہے۔ اسے پڑھ کر آتا کل گزرے کل کی خوف آلود‬
‫زندگی کو جان سکے گا اور گزرے کل کی بےبسی و بےچارگی‬
‫کو پہچان سکے گا۔ نظم پڑھیں میری کہی ہوئی بات کی تصدیق‬

‫ہو جائے گی۔‬

‫وہ طلسم تھا جو تمام بستی پہ قہر تھا‬
‫کوئی زہر تھا جو رگوں میں سب کی اتر گیا‬

‫تو بکھر گیا وہ جو بوریوں میں اناج تھا‬
‫کوئی ڈاکو لوٹ کے لے گیا جو دلہن کا قیمتی داج تھا‬
‫وہ سماج تھا کہ سبھی کے دل میں یتیم ہونے کا خوف تھا‬

‫کوئی ضعف تھا کہ جو آنگنوں میں مقیم تھا‬

‫‪29‬‬

‫‪30‬‬

‫وہ رجیم تھا کہ تمام بستی پہ آگ تھا‬

‫کوئی راگ تھا جو سماعتوں پہ عذاب تھا‬

‫وہ عتاب تھا کہ سبھی کے ماتھوں پہ سینگ تھے‬

‫نظم‪ :‬ماتھوں پہ سینگ‬

‫رفیق سندیلوی صورت احوال رقم کرنے کے ساتھ ساتھ ناصحانہ‬
‫انداز بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے وہ تمثالی چلن‬
‫اپناتے ہیں۔ ان کے اس چلن میں کسی ناکسی سطع پر کوئی‬

‫ناکوئی عصری رویے کی نشاندہی ہو رہی ہوتی ہے ہے تاہم اس‬
‫پر اؤل تا آخر ناصحانہ طور کا غلبہ رہتا ہے۔‬

‫رفیق سندیلوی کی نظم ۔۔۔۔ اسی آگ میں ۔۔۔۔۔ فکری اعتبار سے‬
‫تو ہے ہی کمال کی لیکن زبان و بیان کے حوالہ سے بھی اپنا‬
‫جواب نہیں رکھتی۔ لفظ بڑے جوش و خروش سے ادھر ادھر‬
‫سے لاتعلق ہو کر اپنے کاز کی طرف بڑھے چلے جاتے ہیں۔‬
‫رفیق سندیلوی نے اپنی اس نظم میں شخص کو ایک درس دیا‬
‫ہے۔ ان کے مطابق کاز کی حصولی کے لیے مشقت کی آگ میں‬
‫جلنا پڑتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ اس مشقت کی آگ میں بھی‬
‫سرخروئی کا لطف پنہاں ہوتا ہے۔ بلا مشقت کی آگ میں جلے‬

‫سرخروئی حاصل نہیں ہو سکتی۔‬

‫‪30‬‬

‫‪31‬‬

‫نظم کے چند ٹکڑے باطور نمونہ ملاخظہ فرمائیں‪:‬‬

‫اسی آگ میں‬
‫مجھے جھونک دو‬
‫وہی آگ جس نے بلایا تھا‬

‫‪.......‬‬
‫دم شعلگی‬
‫ہمیں جو مسرت رقص تھی‬
‫تمہیں کیا خبر‬
‫اگر آگ تم کو عزیز تھی‬
‫تو یہ جسم کون سی چیز تھی‬
‫جسے تم کبھی نہ جلا سکے‬
‫!وہ جو راز تھا پس شعلگی نہیں پا سکے‬

‫‪.......‬‬
‫کسی اور طرز کی آگ میں‬
‫مرا جسم جلنے کی آرزو میں اسیر تھا‬

‫‪31‬‬

‫‪32‬‬

‫مگر ان دنوں میں نہ جل سکا‬
‫میں نہ جون اپنی بدل سکا‬
‫مگر اب وہ آگ‬
‫کہ جس میں تم نے پناہ لی‬
‫جہاں تم جلے‬

‫جہاں تم عجیب سی لذتوں سے گلے ملے‬
‫اسی آگ میں مجھے جھونک دو‬
‫نظم‪ :‬اسی آگ میں‬

‫‪32‬‬

‫‪33‬‬

‫رفیق سندیلوی کی نظمیں جن سے استفادہ کیا گیا‬

‫یہ ماتم کی ش ِب سوئم‬
‫درد ہوتا ہے‬
‫انتباہ‬

‫خواب مزدور ہے‬
‫تم بھی جاناں کیسے ہو‬

‫عجب پانی ہے‬
‫ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ‬

‫لال بیگ‬
‫مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہواہے‬

‫تندور والا‬
‫برادہ اڑ رہا ہے‬
‫یہ کیسی گھڑی ہے‬
‫مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں‬

‫اسی آگ میں‬

‫‪33‬‬

‫‪34‬‬

‫ٹیلے سے قبرستان تک‬
‫ماتھوں پہ سینگ‬

‫‪34‬‬

‫‪35‬‬

‫رفیق سندیلوی کی نظم نگاری کا فنی جائزہ‬

‫جدید اردو نظم ایک عرصہ تک‘ اردو کے شعری ادب کی‘‬
‫متنازعہ صنف شعر رہی ہے لیکن اپنی شان دار کار گزاری کے‬
‫تحت‘ آتے وقت نے ناصرف اسے تسلیم کیا‘ بل کہ اسے پذیرائی‬
‫بھی بخشی۔ اس صنف شعر کے شعرا نے‘ بڑی دیانت داری سے‬

‫اپنی بہترین صلاحیتوں سے‘ اس کی آبیاری کی ہے۔ اب جدید‬
‫نظم اردو ادب کا بہترین سرمایہ ہے اور انسانی زندگی اور اس‬

‫کے معاملات کی نمائندہ ہے۔‬

‫رفیق سندیلوی‘ جدید اردو نظم کے اہم ترین شعرا میں ہیں۔‬
‫انہوں نے ناصرف اردو کے شعری ادب کو نئی زبان عطا کی‬
‫ہے‘ بل کہ عصری حیات کو بڑے کامیاب اور شفاف انداز میں‘‬
‫بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری آتے وقتوں میں‘ اپنے گزرے کل‬
‫کی‘ دو ٹوک اور سچی تاریخی شہادت ہو گی۔ آتا کل اپنے گزرے‬
‫کل کو‘ ان کی شاعری کے حوالہ سے جان اور پہچان سکے گا۔‬
‫اپنی اصل میں‘ ان کی شاعری شاہوں کی کشیدہ کاری نہیں بل کہ‬
‫اکثریتی طبقے کی مظلومیت کا نوحہ اور بدترین گزرتے حالات‬
‫کی بےباک کتھا ہے۔ اگر ان کی شاعری شاہوں کا قصیدہ ہوتا تو‬
‫بھولے سے بھی میرے قلم سے‘ ان کے یا ان کی شاعری کے‬

‫لیے‘ ایک لفظ بھی نہ نکلتا۔‬

‫‪35‬‬

‫‪36‬‬

‫ان کی شاعری مظومیت کی شاعری ہے۔ وہ انسان کے دکھ‘ درد‬
‫اور وڈیرہ شاہی کے ظلم و ستم کو‘ قریب اور بڑی باریکی سے‬

‫ملاحظہ کرتے ہیں‘ تب ہی تو اردو ادب کو نئی زبان‘ نیا طور‬
‫اور نیا اسلوب دے پائے ہیں۔ ان کی شاعری ماہرین لسانیات کے‬

‫لیے نایاب اور ان مول تحفہ ہے۔ ان کے الفاظ اور ان کی‬
‫معنویت‘ تادیر صاحبان قلم کے لیے حوالہ رہیں گے۔‬

‫پیش نظر سطور میں رفیق سندیلوی کی نظم کا‘ اطوری و‬
‫لسانیاتی تجزیہ کرنے کی ناچیز سی کوشش کی گئی ہے‘ شاید‬

‫اہل فکر اور اہل ذوق کو یہ تجزیہ خوش آئے اور اس کے‬
‫مطالعاتی اطوار ان کے لیے کام کی چیز نکلیں۔‬

‫رفیق سندیلوی نے قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مختلف‬
‫انداز و اطوار اختیار کیے ہیں۔ یہ فطری اور متعلقہ نظم کی‬
‫ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں۔ چند اک مثالیں باطور نمونہ‬
‫ملاحظہ فرمائیں۔‬

‫آپ بیتی کا انداز‬

‫جتنا زاد سفر میرے ہم راہ تھا‬

‫‪36‬‬

‫‪37‬‬

‫میں نے سب رکھ دیا‬
‫اب میں آزاد تھا‬

‫اور طلسمیں پڑاؤ کا ہر اسم بھی یاد تھا‬
‫میں نے دیکھا‬

‫مرے چار جانب جھکا تھا‬
‫نظم‪ :‬مگر وہ نہ آیا‬

‫ابد کا اک جڑاؤ تاج میرے سر پہ رکھا تھا‬
‫بڑا پر ہول رستہ تھا‬

‫کوئی برق شباہت آرزو بردار میری آگ میں تھی‬
‫نظم‪ :‬بڑا پر ہول رستہ تھا‬

‫بیانیہ طور‬

‫چھوٹا بڑا کرنے کے چکر میں‬
‫بندھی رہتی ہیں نظریں‬

‫‪37‬‬

‫‪38‬‬

‫ایک قبہ دار منظر میں‬
‫ازل سے جانتی ہیں‬
‫بلبلہ سی‬

‫پتلیوں کی سرد محرابیں‬
‫نظم‪ :‬گنبد نما شفاف شیشہ‬

‫لہو کی کونیات میں‬
‫صفات اور ذات میں‬
‫عجب طرح کے بھید ہیں‬
‫یقین و ظن کی چھلنیوں میں‬
‫نظم‪ :‬مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں‬

‫تلخ نوائی‬

‫گل خواب کی پتیاں‬
‫دھوپ کی گرم راحت میں گم تھیں‬

‫‪38‬‬

‫‪39‬‬

‫مرے جسم پر‬
‫نرم بارش کی بوندیں بھی گھوڑے کا سم تھیں‬

‫نظم‪ :‬مگر وہ نہ آیا‬

‫جس گھڑی رکھی گئی بنیاد میری‬
‫اُس گھڑی سے‬

‫تیرگی کے پیٹ میں ہوں‬
‫خون کی ترسیل‬
‫ان َول سے غذا‬
‫جاری ہے‬

‫کچی انکھ کے اگے تَنی‬
‫َموہُوم سی ج ِھلی ہٹا کر‬
‫نظم‪ :‬مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے‬

‫‪39‬‬

‫‪40‬‬

‫استدائیہ طور‬

‫میری وحشت کے بکھرے ہوئے‬
‫سنگ ریزوں کو چن‬

‫اے چراغوں کی لو کی طرح‬
‫جھلملاتی ہوئی نیند‪ ،‬سن‬
‫میرا ادھڑا ہوا جسم بن‬

‫نظم‪ :‬جھلملاتی ہوئی نیند سن‬

‫میرا کاندھا تھپک‬
‫آ مجھے تاج روئیدگی سے سجا‬

‫اک تسلسل میں لا‬
‫نظم‪ :‬جھلملاتی ہوئی نیند سن‬

‫‪40‬‬

‫‪41‬‬

‫حقائی انداز‬

‫پڑاؤ کے لیے کتنے جزیرے درمیاں آئے‬
‫زمیں مڑ مڑ کے آئی اور اک اک کرکے ساتوں آسماں آئے‬

‫مسلسل چل رہا تھا میں‬
‫ہوا میں ڈھل رہا تھا میں‬
‫نظم‪ :‬بڑا پر ہول رستہ تھا‬

‫جمالیاتی انداز‬

‫ایک زنجیر‬
‫کسی پھول کسی شبد‬

‫کسی طائر کی‬
‫ایک زنجیر کسی رنگ کسی برق‬

‫کسی پانی کی‬
‫زلف و رخسار‬

‫‪41‬‬

‫‪42‬‬

‫لب و چشم کی پیشانی کی‬
‫نظم‪ :‬جاؤ اب روتے رہو‬

‫رپورٹنگ اطوار‬

‫چراغ تحرک کف سست پر بے نشاں ہو رہا ہے‬
‫مرے دہر کا طاق تہذیب جس پر‬

‫مقدس صحیفہ نہیں اک ریاکار مشعل دھری ہے‬
‫ہر اک شیشۂ پاک باز و صفا کی سماوی رگوں میں‬

‫کسی عکس فاجر کی مٹی بھری ہے‬
‫منزہ درختوں کے پاک اور شیریں پھلوں میں‬

‫کوئی نوک تیغ نجاست گڑی ہے‬
‫نظم‪ :‬یہ کیسی گھڑی ہے‬

‫عزیزوں نے‬
‫بچوں نے‬

‫‪42‬‬

‫‪43‬‬

‫تالی بجائی‬
‫مبارک مبارک ہوئی‬

‫کیک کا ایک ٹکڑا‬
‫مرے منہ میں ٹھونسا گیا‬

‫نعل کی شکل کا‬
‫نظم‪ :‬کہیں تم ابد تو نہیں ہو‬

‫اسجاببہ انداز‬

‫عجب ملاح ہے‬
‫سُوراخ سے بے فکر‬

‫اسن مار کے‬
‫کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے‬

‫نظم‪ :‬عجب پانی ہے‬

‫‪43‬‬

‫‪44‬‬

‫مخاطبیہ انداز‬

‫پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا‬
‫اے ہوا‬

‫تو جانتی ہے‬
‫راز سارا‬

‫دو الگ طرزوں کی مٹی‬
‫ایک برتن میں ملا کر‬
‫!!گوندھنے کا‬
‫نظم‪ :‬یہ سجیلی مورتی‬

‫حقائی انداز‬

‫پڑاؤ کے لیے کتنے جزیرے درمیاں آئے‬
‫زمیں مڑ مڑ کے آئی اور اک اک کرکے ساتوں آسماں آئے‬

‫مسلسل چل رہا تھا میں‬

‫‪44‬‬

‫‪45‬‬

‫ہوا میں ڈھل رہا تھا میں‬
‫نظم‪ :‬بڑا پر ہول رستہ تھا‬

‫استفامیہ انداز‬

‫پھر آنکھ کیسے کھل گئی‬
‫بدن سے یہ لحاف کا پہاڑ کیسے ہٹ گیا‬
‫خبر نہیں کہ ہڈیوں کے جوڑ کس طرح کھلے‬
‫دہن فراخ ہو کے پیچھے کیسے کھنچ گیا‬

‫نکیلے دانت کس طرح نکل پڑے‬
‫نگاہیں کیسے شعلہ رو ہوئیں‬

‫نہ جانے کیسے دست و پا کی انگلیاں مڑی‬
‫کمر لچک سی کھا کے کیسے پھیلتی گئی‬
‫یہ جلد کیسے سخت کھال میں ڈھلی‬
‫یہ گپھے دار دم کہاں سے آ گئی‬
‫وجود کے کچھار میں‬

‫‪45‬‬

‫‪46‬‬

‫دہاڑتا ہوا‬
‫زقند بھر کے میں کہاں چلا گیا‬
‫نظم‪ :‬مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں‬

‫سنو کثرت خاک میں بسنے والو‬
‫سنو توسن برق رفتار پر کاٹھیاں کسنے والو‬

‫یہ پھر کون سے معرکے کا ارادہ‬
‫تمہاری نسوں میں یہ کس خواب فاتح کا پھر باب وحشت کھلا‬

‫ہے‬
‫فصیلوں پہ اک پرچم خوں چکاں گاڑ دینے کی نیت‬
‫کئی لاکھ مفتوح جسموں کو پھر حالت سینہ کوبی میں روتے‬

‫ہوئے دیکھنے کی تمنا‬
‫یہ کس آب دیوانگی سے بدن کا سبو بھر رہے ہو‬

‫نظم‪ :‬ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ‬

‫‪46‬‬

‫‪47‬‬

‫امیدیہ انداز‬

‫پتلیوں کی سرد محرابیں‬
‫جب اس گنبد نما‬

‫شفاف شیشے سے گزر کر‬
‫ایک مرکز پر‬

‫شعاعیں جمع ہوں گی‬
‫سامنے جو چیز ہوگی‬

‫!!جل اٹھے گی‬
‫نظم‪ :‬گنبد نما شفاف شیشہ‬

‫تاریخی انداز‬

‫نڈر پیادہ تھے‬
‫اور بزدل‬

‫اصیل گھوڑوں پہ بیٹھ کر‬

‫‪47‬‬

‫‪48‬‬

‫جنگ لڑ رہے تھے‬
‫گناہ گاروں نے سر سے پا تک‬

‫بدن کو براق چادروں سے‬
‫ڈھکا ہوا تھا‬

‫ولی کی ننگی کمر چھپانے کو‬
‫کوئی کپڑا نہیں بچا تھا‬

‫عجیب ما فوق سلسلہ تھا‬
‫نظم‪ :‬عجیب ما فوق سلسلہ تھا‬

‫علامتی انداز‬

‫کیا بتاؤں‬
‫وقت نے جب تختۂ آہن پہ رکھ کر‬

‫تیز رو آرا چلایا تھا‬
‫ہمیں ٹکڑوں میں کاٹا تھا‬
‫اسی دن سے برادہ اڑ رہا ہے‬

‫‪48‬‬

‫‪49‬‬

‫پیڑ کے سوکھے تنے سے‬
‫چھت کی کڑیوں سے‬

‫کتابوں اور خوابوں سے‬
‫برادہ اڑ رہا ہے‬

‫نظم‪ :‬برادہ اڑ رہا ہے‬

‫ماورائی انداز‬

‫اک اڑن طشتری بن گئی سائباں‬
‫میں جہاں تھا وہاں تھا کہاں آسماں‬
‫ایک شعلہ تھا بس میرے ہونٹوں سے لف‬

‫میں گیا اس طرف‬
‫جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی‬

‫جس طرف نیند تھی‬
‫جس طرف رات تھی‬
‫چار جانب بچھی تھی بساط عدم‬

‫‪49‬‬

‫‪50‬‬

‫درمیاں جس کے‬
‫تنہا مری ذات تھی‬
‫نظم‪ :‬ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی‬

‫رفیق سندیلوی کو منظر کشی میں مہارت حاصل ہے۔ ان کے‬
‫ترتیب دیئے مناظر دل و دماغ پر اپنے گہرے نقوش چھوڑتے‬
‫ہیں اور اپنے قاری کو ایک نئی دنیا سے متعارف کراتے ہیں۔‬

‫مثلا‬

‫ابر سوار سہانی شام‬
‫اور سبز قبا میں ایک پری کا جسم‬
‫سرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے‬

‫پھولوں جیسے اسم‬
‫رنگ برنگ طلسم‬

‫جھیل کی تہہ میں ڈوبتے چاند کا عکس‬
‫ڈھول کی وحشی تال پہ ہوتا‬

‫‪50‬‬


Click to View FlipBook Version