51
!نیم برہنہ رقص
کیسے کیسے منظر دیکھے
نظم :غار میں بیٹھا شخص
شب ارتقا اور صبح حریرا کا تازہ عمل رائیگاں ہو رہا ہے
چراغ تحرک کف سست پر بے نشاں ہو رہا ہے
مرے دہر کا طاق تہذیب جس پر
مقدس صحیفہ نہیں اک ریاکار مشعل دھری ہے
نظم :یہ کیسی گھڑی ہے
آپ بیتی کے انداز میں منظر کشی ملاحظہ ہو:
کیا بتاؤں
وقت نے جب تختۂ آہن پہ رکھ کر
تیز رو آرا چلایا تھا
ہمیں ٹکڑوں میں کاٹا تھا
51
52
اسی دن سے برادہ اڑ رہا ہے
پیڑ کے سوکھے تنے سے
چھت کی کڑیوں سے
کتابوں اور خوابوں سے
برادہ اڑ رہا ہے
نظم :برادہ اڑ رہا ہے
اس اقتباس کے مطالعہ کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رفیق
سندیلوی ایک اچھے منظوم کہانی کار بھی ہیں۔
رفیق سندیلوی کی نظموں کے کردار انسان اور انسانی زندگی
کے نہایت کامیاب نمائندہ ہیں۔ ان کی نقل و حرکت سے زندگی کا
کرب اور استحصالی قوتوں کی بدمعاشیوں کو واضح کرتا ہے۔
اس ذیل میں وہ علامتی اور استعارتی زبان کو تصرف میں لاتے
ہیں۔ ان کا یہ لسانیاتی طور قاری کے سوچ کو متحرک کر دیتا
ہے۔ باطور نمومہ دو کرداروں کی کارگزاری ان کی اپنی زبان
میں ملاحظہ فرمائیں:
52
53
عجب ملاح ہے
سُوراخ سے بے فکر
اسن مار کے
کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنے ٹاپو راہ میں ائے
مگر ملاح
خشکی کی طرف کھنچتا نہیں
نظم:عجب پانی ہے
مگر مچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے
اِک جنی ِن ناتواں ہوں
جس گھڑی رکھی گئی بنیاد میری
اُس گھڑی سے
تیرگی کے پیٹ میں ہوں
53
54
اُگلنے کے کسی وعدے نے
صدیوں سے
مجھے جکڑا ہوا ہے
مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہواہے
نظم :مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے
اس کے مطالعہ کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رفیق سندیلوی
ایک اچھے منظوم کہانی کار بھی ہیں۔
رفیق سندیلوی کی نظموں کے کردار انسان اور انسانی زندگی
کے نہایت کامیاب نمائندہ ہیں۔ ان کی نقل و حرکت سے زندگی کا
کرب اور استحصالی قوتوں کی بدمعاشیوں کو واضح کرتا ہے۔
اس ذیل میں وہ علامتی اور استعارتی زبان کو تصرف میں لاتے
ہیں۔ ان کا یہ لسانیاتی طور قاری کے سوچ کو متحرک کر دیتا
ہے۔ باطور نمومہ دو کرداروں کی کارگزاری ان کی اپنی زبان
میں ملاحظہ فرمائیں:
رفیق سندیلوی کی نظمیں غنا اور موسیقیت سے عاری نہیں ہیں۔
وہ آہنگ کی حصولی کے لیے مختلف شعری اطوار اختیار
کرتے ہیں۔ اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں:
54
55
قوافی کا استعمال
اک معلق خلا میں کہیں ناگہاں
مہرباں فرش پر پاؤں میرا پڑا
میں نے دیکھا کھلا ہے مرے سامنے
زر نگار و منقش بہت ہی بڑا
ایک در خواب کا
مہرباں فرش کے
مرمریں پتھروں سے ہویدا ہوا
نظم :مہرباں فرش پر
آ مجھے تاج روئیدگی سے سجا
اک تسلسل میں لا
شب کے اک تار پر
چھیڑ دے کوئی دھن
اے چراغوں کی لو کی طرح
55
56
جھلملاتی ہوئی نیند ،سن
!!میرا ادھڑا ہوا جسم بن
نظم :جھلملاتی ہوئی نیند سن
درزی سے کپڑے ایک جیسے سل کے آتے
ایک سے جوتے پہنتے
بوندا باندی میں اکٹھے ہی نہاتے
ہم جدھر جاتے ہمیشہ ساتھ جاتے
رات جب ڈھلتی
تو سنتے تھے کہانی
نظم :برادہ اڑ رہا ہے
میں پرندہ بنا
میری پرواز کے دائرے نے جنا
ایک سایہ گھنا
کشف ہونے لگا
56
57
میں ہرے پانیوں میں
بدن کا ستارہ ڈبونے لگا
اور اک لاتعین سبک نیند سونے لگا
……
میں گیا اس طرف
جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
جس طرف نیند تھی
جس طرف رات تھی
چار جانب بچھی تھی بساط عدم
درمیاں جس کے
تنہا مری ذات تھی
نظم :ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی
ہم صوت الفاظ کا استعمال
میں جہاں تھا وہاں تھا کہاں آسماں
نظم :ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی
57
58
کس کی انگلی کا تھا
اور جو کھولی گئی تھی مرے قلب پر
کون سی تھی بات
نظم :ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی
تکرار لفظی
میں گیا اس طرف
جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
جس طرف نیند تھی
جس طرف رات تھی
نظم :ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی
ِدھیرے ِدھیرے اُس کے
نظم :لال بیگ
58
59
رہتے رہتے تنگ اگیا تھا
نظم :لال بیگ
جیسے ڈوبتی،اَب ڈوبتی ہے
نظم :جیسے ڈوبتی،اَب ڈوبتی ہے
تکرار حرفی
کف چشم پر میں نے اس کے لیے
نظم :مگر وہ نہ آیا
…….
خلا میں اڑنے والی پست مٹی کے سیہ ذرے
پہاڑ اور آئنے سائے گرے پیڑوں کے پتے
نظم :بڑا پر ہول رستہ تھا
پانیوں کی طرح میرے سائے بہے تھے
نظم :مگر وہ نہ آیا
59
60
ردیف کا استعمال
کس درد کی پرچھائیں تھی
جو مظہر و شے سے نکلنا چاہتی تھی
دھند جو دیوار کے دونوں طرف تھی
نظم :برادہ اڑ رہا ہے
المختصر خوابوں کی دنیا ایک تھی
اک دوسرے کا حاضر و غائب تھے
ہم جڑواں تھے
اعضا و عناصر میں دوئی ناپید تھی
نظم :برادہ اڑ رہا ہے
پیڑ کے سوکھے تنے سے
چھت کی کڑیوں سے
کتابوں اور خوابوں سے
60
61
نظم :برادہ اڑ رہا ہے
شعری آہنگ کے حصول کے لیے انہوں نے مختلف شعری
صنعتوں کا استعمال بھی کیا ہے۔ مثلا
صنعت فوق النقط کا استعمال
اوس کا قطرہ
مصفا حوض کے مانند
نظم :بڑا پر ہول رستہ تھا
ہزاروں سال سے
اک غم زدہ عورت
مرے وعدے کی رسی
نظم :سواری اونٹ کی ہے
61
62
غذاؤں کی لذت میں سرشار ہوں
درد ہوتا ہے
صنعت تحت النقط کا استعمال
َسرپھری لہروں کے جھولے میں
ابھی اوجھل ہے
نظم :عجب پانی ہے
جو بھیس بدلیں
کوئی روپ دھاریں
نظم :درد ہوتا ہے
پھولوں جیسے اسم
نظم :غار میں بیٹھا شخص
دکھ سے لبالب بلبلاہٹ
62
63
نظم :سواری اونٹ کی ہے
صنعت بےنقط کا استعمال
سوکھے ہوئے سارے گملوں کو
نظم :درد ہوتا ہے
بند مجھ پر ہوئے سارے در
سارے گھر
نظم :ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی
متعلقات کا استعمال
زبان بے زبانی
نظم :وہی مخدوش حالت
63
64
ایڑی میں کانٹا چبھے
تو بدن تلملاتا ہے
دل ضبط کرتا ہے روتا ہے
جو برگ ٹہنی سے گرتا ہے
وہ زرد ہوتا ہے
نظم :درد ہوتا ہے
بادل سے بادل ملیں تو کڑکتے ہیں
بجلی چمکتی ہے
برسات ہوتی ہے
جو ہجر کی رات ہوتی ہے
نظم :درد ہوتا ہے
منزہ درختوں کے پاک اور شیریں پھلوں میں
نظم :یہ کیسی گھڑی ہے
64
65
صعنت تضاد کا استعمال
اب تمہارے مرے مابین
کسی دید کا
نادید کا اسرار نہیں
نظم :بیج اندر ہے
جاؤ اب روتے رہو
وسط نا وسط کا مرحلہ
نظم :بیج اندر ہے
َموت اور زندگی
…..
صفائی اور گندگی
نکاسی ٔوجود
خیروشر
65
66
روانی و جمود کے معاملات میں گ ِھرا ہواتھا
نظم :لال بیگ
جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
نظم :ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی
رات دن بسرام کرتی تھیں
نظم :برادہ اڑ رہا ہے
جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
نظم :ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی
سرحد امکاں سے لا امکاں تلک
نظم :سواری اونٹ کی ہے
66
67
رفیق سندیلوی نے اپنی نظم میں انگریزی الفاظ کا کمال خوبی
سے استعمال کیا ہے۔ مثلا
غیر مرئی نالیوں سے
مین ہول تک
نظم :لال بیگ
……
سُست وتیز
ساری لائنوں میں گھومتا تھا
نظم :لال بیگ
اور پولیتھین کے مردہ لفافوں کو چباتا
نظم :وہی مخدوش حالت
نلکی آکسیجن کی لگی ہے
گوشۂ لب رال سے لتھڑا ہے
67
68
نظم :برادہ اڑ رہا ہے
رفیق سندیلوی ہندی کلچر سے متعلق الفاظ کا استعمال بڑی
مہارت سے کرتے ہیں۔ معنویت کا ایک الگ سے جہان آنکھوں
کے سامنے گھوم گھوم جاتا ہے۔ مثلا
میرا دل کھو گیا
اپنی ٹک ٹک میں
بہتا رہا وقت
!کتنا سمے ہو گیا
نظم :سمے ہو گیا
کڑیوں کے رخنوں میں
ہمارے ساتھ چڑیاں
رات دن بسرام کرتی تھیں
نظم :برادہ اڑ رہا ہے
68
69
سُوراخ سے بے فکر
اسن مار کے
کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے
نظم :عجب پانی ہے
میں اکیلا عزا دار
کتنے یگوں سے
اٹھائے ہوئے
جسم کا تعزیہ
مجھے اپنا جلوہ دکھا میرا دل کھو گیا
اپنی ٹک ٹک میں
بہتا رہا وقت
!کتنا سمے ہو گیا
نظم :سمے ہو گیا
69
70
کڑیوں کے رخنوں میں
ہمارے ساتھ چڑیاں
رات دن بسرام کرتی تھیں
نظم :برادہ اڑ رہا ہے
ُسوراخ سے بے فکر
اسن مار کے
کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے
نظم :عجب پانی ہے
میں اکیلا عزا دار
کتنے یگوں سے
اٹھائے ہوئے
جسم کا تعزیہ
نظم :مجھے اپنا جلوہ دکھا
70
71
رفیق سندیلوی کے ہاں محاورات اور افعال مجہول کا برجستہ
استعمال ہوا ہے۔ ان کے استعمال سے ان کے کلام کو شگفتگی‘
سلاست‘ برجستگی شعری و لسانیاتی توانائی میسر آئی ہے۔ مثلا
افتاد پڑنا
خدایا ترے نیک بندوں پر افتاد کیسی پڑی ہے
نظم :یہ کیسی گھڑی ہے
بنیاد رکھنا
جس گھڑی رکھی گئی بنیاد میری
مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے
فیصلہ کرنا
سنو تم بڑی بد نما رات کی دھند میں فیصلہ کر رہے ہو
انجام دینا
سنو عجلت فکر میں کوئی بھی کام انجام پاتا نہیں
ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ
تماشا کرنا
71
72
یہ فسوں کار تماشا کیا ہے
جاؤ اب روتے رہو
مس کرنا
یوں ہوا چہرے کو مس کر کے گزرتی تھی
صدا گونجنا
اس لن ترانی کے گنبد میں
میری صدا گونجتی ہی رہے گی
نظم :مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں
ہموار کرنا
تو پھر میں نے اس کے لیے دھند ہموار کی
نظم :مگر وہ نہ آیا
قسم کھانا
اے ہوا
پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا
72
73
نظم :یہ سجیلی مورتی
رفیق سندیلوی نے اردو نظم کو بڑے شان دار اور جان دار
مختلف نوعیت کے شعری مرکبات سے نوازا ہے۔ چند ایک
مرکب ملاحظہ فرمائیں:
جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
چار جانب بچھی تھی بساط عدم
میری پرواز کے دائرے نے جنا
میں ہرے پانیوں میں
بدن کا ستارہ ڈبونے لگا
اور اک لاتعین سبک نیند سونے لگا
....
ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی
کیچ کی اُ َمس میں
73
74
دونوں وقت ِمل رہے تھے
ہال ٔہ نفَس میں
ِدھیرے ِدھیرے اُس کے
نظم :لال بیگ
َسرپھری لہروں کے جھولے میں
نظم :عجب پانی ہے
وقت کی تھالی میں
نظم :یہ سجیلی مورتی
اور پولیتھین کے مردہ لفافوں کو چباتا
نظم :وہی مخدوش حالت
مرے شب نما جسم پر
.....
74
75
اور حصار رفاقت میں
نظم :مگر وہ نہ آیا
وجود کے کچھار میں
……………
بدن سے یہ لحاف کا پہاڑ کیسے ہٹ گیا
……….
بے صدا سی جست بھر کے
نظم :مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں
دکھ سے لبالب بلبلاہٹ
کانٹوں بھری کھاٹ میں
پیاس کے جام پیتا ہوں
نظم :خواب مزدور ہے
آ مجھے تاج روئیدگی سے سجا
75
76
جھلملاتی ہوئی نیند ،سن
!!میرا ادھڑا ہوا جسم بن
......
جھلملاتی ہوئی نیند سن
نادید کا اسرار نہیں
جاؤ اب روتے رہو
وسط نا وسط کا مرحلہ
نظم :بیج اندر ہے
گزر گاہوں کے سب نامعتبر پتھر
خلا میں اڑنے والی پست مٹی کے سیہ ذرے
نظم :بڑا پر ہول رستہ تھا
تشبیہ شعری حسن کا اہم ترین لوازمہ ہے اوراس شعری حسن
کا تصرف کلام میں فصاحت و بلاغت کا ذریعہ بنتا ہے۔ رفیق
76
77
سندیل ٰوی نے اس شعری کمال کو کمال خوبی سے برتا ہے۔
باطور نمونہ چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
فربہ پاؤں جیسے اک گرھستن کے
نظم :یہ سجیلی مورتی
اک ستارہ سی بارش نے لب رکھ دیا
نظم :مگر وہ نہ آیا
اسے جو بھی پہنے گا
بالکل ستارہ لگے گا
ستارے کے مانند چمکے گا
نظم :مجھے اپنا جلوہ دکھا
سرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے
پھولوں جیسے اسم
نظم :غار میں بیٹھا شخص
77
78
اوس کا قطرہ
مصفا حوض کے مانند
نظم :گنبد نما شفاف شیشہ
پانیوں کی طرح میرے سائے بہے تھے
نظم :مگر وہ نہ آیا
تلمیح بڑی بات کے اختصار کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ رفیق
سندہیلوی نے اس شعری حربے سے معنویت کے دریا بہا دیے
ہیں۔ مثلا
ہم اپنی وحشت میں
جو بھیس بدلیں
کوئی روپ دھاریں
سمندر بلوئیں یا دیوار چاٹیں
نظم :درد ہوتا ہے
78
79
کیا میں تجھے دیکھ پاؤں گا
اس لن ترانی کے گنبد میں
میری صدا گونجتی ہی رہے گی
نظم :مجھے اپنا جلوہ دکھا
رفیق سندہلوی کے ہاں مختلف نوعیت کی اصطلاحات کا استعمال
کلام میں گہری معنویت کا سبب بنتا ہے۔ چند ایک اصطلاحات کا
استعمال باطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:۔۔۔۔
میں اکیلا عزا دار
کتنے یگوں سے
اٹھائے ہوئے
جسم کا تعزیہ
نظم :کہیں تم ابد تو نہیں ہو
کونین کے
اپنے قطبین کے
79
80
پیچ و خم میں
وجود و عدم میں
......
کیسے اشارہ کیا
میں نے کیسے بہ یک وقت
اپنی فنا اور بقا سے کنارہ کیا
نظم :بیج اندر ہے
وضو کرکے سجدہ کیا ہے
نظم :درد ہوتا ہے
مجھے اپنا جلوہ دکھا
وقت کے کس خلا میں
مظاہر کی کس کہکشاں میں
زمانے کے کس دب اکبر میں
نظم :مجھے اپنا جلوہ دکھا
80
81
درج بالا معروضات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے
کہ جدید اردو نظم کا نقاد اور ماہر لسانیات مطالعہ اور کام کے
دوران رفیق سندیلوی کی نظم کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کر
سکے گا۔ رفیق سندیلوی کی یہ شعری تخلیقات اردو زبان کی
لسانیاتی ثروت کا سبب بنی ہیں اور ان کے حوالہ سے لفظوں
کی تفہیم کے نئے در وا ہوئے ہیں۔ ان کی کاوش ہا اردو ادب
کے دامن میں اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ عصری حیات کی
معتبر شہادت کا فریضہ انجام دیتی رہیں گی۔
81
82
جن نظموں سے استفادہ کیا گیا
نظم :عجب پانی ہے
نظم :غار میں بیٹھا شخص
نظم :یہ کیسی گھڑی ہے
نظم :برادہ اڑ رہا ہے
نظم :مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے
نظم :مہرباں فرش پر
نظم :جھلملاتی ہوئی نیند سن
نظم :ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی
نظم :لال بیگ
نظم :مگر وہ نہ آیا
نظم :بڑا پر ہول رستہ تھا
نظم :سواری اونٹ کی ہے
نظم :درد ہوتا ہے
نظم :وہی مخدوش حالت
82
83
نظم :بیج اندر ہے
نظم :سمے ہو گیا
نظم :مجھے اپنا جلوہ دکھا
نظم :مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں
نظم :یہ سجیلی مورتی
نظم :خواب مزدور ہے
نظم :گنبد نما شفاف شیشہ
نظم :کہیں تم ابد تو نہیں ہو
برقی کتاب جس سے مواد حاصل کیا گیا
مقصود حسنی پیش کار‘ رفیق سندیلوی کی کچھ نمائندہ نظمیں‘
ابوزر برقی کتب خانہ‘ جنوری ٢٠١٧
Links book:
-1 http://pubhtml5.com/oqek/trbl/ 2- http://mobissue.com/qhcu/bpsr
83
84
رفیق سندیلوں کی نظم نگاری
کا
فکری و فنی جائزہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جنوری ٢٠١٧
84