The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-01-25 05:05:29

r-f-fani-motala

r-f-fani-motala

‫‪51‬‬

‫!نیم برہنہ رقص‬
‫کیسے کیسے منظر دیکھے‬
‫نظم‪ :‬غار میں بیٹھا شخص‬

‫شب ارتقا اور صبح حریرا کا تازہ عمل رائیگاں ہو رہا ہے‬
‫چراغ تحرک کف سست پر بے نشاں ہو رہا ہے‬
‫مرے دہر کا طاق تہذیب جس پر‬
‫مقدس صحیفہ نہیں اک ریاکار مشعل دھری ہے‬
‫نظم‪ :‬یہ کیسی گھڑی ہے‬

‫آپ بیتی کے انداز میں منظر کشی ملاحظہ ہو‪:‬‬

‫کیا بتاؤں‬
‫وقت نے جب تختۂ آہن پہ رکھ کر‬

‫تیز رو آرا چلایا تھا‬
‫ہمیں ٹکڑوں میں کاٹا تھا‬

‫‪51‬‬

‫‪52‬‬

‫اسی دن سے برادہ اڑ رہا ہے‬
‫پیڑ کے سوکھے تنے سے‬
‫چھت کی کڑیوں سے‬
‫کتابوں اور خوابوں سے‬
‫برادہ اڑ رہا ہے‬
‫نظم‪ :‬برادہ اڑ رہا ہے‬

‫اس اقتباس کے مطالعہ کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رفیق‬
‫سندیلوی ایک اچھے منظوم کہانی کار بھی ہیں۔‬

‫رفیق سندیلوی کی نظموں کے کردار انسان اور انسانی زندگی‬
‫کے نہایت کامیاب نمائندہ ہیں۔ ان کی نقل و حرکت سے زندگی کا‬

‫کرب اور استحصالی قوتوں کی بدمعاشیوں کو واضح کرتا ہے۔‬
‫اس ذیل میں وہ علامتی اور استعارتی زبان کو تصرف میں لاتے‬

‫ہیں۔ ان کا یہ لسانیاتی طور قاری کے سوچ کو متحرک کر دیتا‬
‫ہے۔ باطور نمومہ دو کرداروں کی کارگزاری ان کی اپنی زبان‬

‫میں ملاحظہ فرمائیں‪:‬‬

‫‪52‬‬

‫‪53‬‬

‫عجب ملاح ہے‬
‫سُوراخ سے بے فکر‬

‫اسن مار کے‬
‫کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کتنے ٹاپو راہ میں ائے‬

‫مگر ملاح‬
‫خشکی کی طرف کھنچتا نہیں‬

‫نظم‪:‬عجب پانی ہے‬

‫مگر مچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے‬
‫اِک جنی ِن ناتواں ہوں‬

‫جس گھڑی رکھی گئی بنیاد میری‬
‫اُس گھڑی سے‬

‫تیرگی کے پیٹ میں ہوں‬

‫‪53‬‬

‫‪54‬‬

‫اُگلنے کے کسی وعدے نے‬
‫صدیوں سے‬

‫مجھے جکڑا ہوا ہے‬
‫مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہواہے‬
‫نظم‪ :‬مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے‬

‫اس کے مطالعہ کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رفیق سندیلوی‬
‫ایک اچھے منظوم کہانی کار بھی ہیں۔‬

‫رفیق سندیلوی کی نظموں کے کردار انسان اور انسانی زندگی‬
‫کے نہایت کامیاب نمائندہ ہیں۔ ان کی نقل و حرکت سے زندگی کا‬

‫کرب اور استحصالی قوتوں کی بدمعاشیوں کو واضح کرتا ہے۔‬
‫اس ذیل میں وہ علامتی اور استعارتی زبان کو تصرف میں لاتے‬

‫ہیں۔ ان کا یہ لسانیاتی طور قاری کے سوچ کو متحرک کر دیتا‬
‫ہے۔ باطور نمومہ دو کرداروں کی کارگزاری ان کی اپنی زبان‬

‫میں ملاحظہ فرمائیں‪:‬‬
‫رفیق سندیلوی کی نظمیں غنا اور موسیقیت سے عاری نہیں ہیں۔‬

‫وہ آہنگ کی حصولی کے لیے مختلف شعری اطوار اختیار‬
‫کرتے ہیں۔ اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں‪:‬‬

‫‪54‬‬

‫‪55‬‬

‫قوافی کا استعمال‬

‫اک معلق خلا میں کہیں ناگہاں‬
‫مہرباں فرش پر پاؤں میرا پڑا‬
‫میں نے دیکھا کھلا ہے مرے سامنے‬
‫زر نگار و منقش بہت ہی بڑا‬

‫ایک در خواب کا‬
‫مہرباں فرش کے‬
‫مرمریں پتھروں سے ہویدا ہوا‬
‫نظم‪ :‬مہرباں فرش پر‬

‫آ مجھے تاج روئیدگی سے سجا‬
‫اک تسلسل میں لا‬
‫شب کے اک تار پر‬

‫چھیڑ دے کوئی دھن‬
‫اے چراغوں کی لو کی طرح‬

‫‪55‬‬

‫‪56‬‬

‫جھلملاتی ہوئی نیند‪ ،‬سن‬
‫!!میرا ادھڑا ہوا جسم بن‬
‫نظم‪ :‬جھلملاتی ہوئی نیند سن‬

‫درزی سے کپڑے ایک جیسے سل کے آتے‬
‫ایک سے جوتے پہنتے‬

‫بوندا باندی میں اکٹھے ہی نہاتے‬
‫ہم جدھر جاتے ہمیشہ ساتھ جاتے‬

‫رات جب ڈھلتی‬
‫تو سنتے تھے کہانی‬
‫نظم‪ :‬برادہ اڑ رہا ہے‬

‫میں پرندہ بنا‬
‫میری پرواز کے دائرے نے جنا‬

‫ایک سایہ گھنا‬
‫کشف ہونے لگا‬

‫‪56‬‬

‫‪57‬‬

‫میں ہرے پانیوں میں‬
‫بدن کا ستارہ ڈبونے لگا‬
‫اور اک لاتعین سبک نیند سونے لگا‬

‫……‬
‫میں گیا اس طرف‬
‫جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی‬
‫جس طرف نیند تھی‬
‫جس طرف رات تھی‬
‫چار جانب بچھی تھی بساط عدم‬
‫درمیاں جس کے‬
‫تنہا مری ذات تھی‬
‫نظم‪ :‬ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی‬
‫ہم صوت الفاظ کا استعمال‬

‫میں جہاں تھا وہاں تھا کہاں آسماں‬
‫نظم‪ :‬ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی‬

‫‪57‬‬

‫‪58‬‬

‫کس کی انگلی کا تھا‬
‫اور جو کھولی گئی تھی مرے قلب پر‬

‫کون سی تھی بات‬
‫نظم‪ :‬ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی‬

‫تکرار لفظی‬

‫میں گیا اس طرف‬
‫جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی‬

‫جس طرف نیند تھی‬
‫جس طرف رات تھی‬
‫نظم‪ :‬ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی‬

‫ِدھیرے ِدھیرے اُس کے‬
‫نظم‪ :‬لال بیگ‬

‫‪58‬‬

‫‪59‬‬

‫رہتے رہتے تنگ اگیا تھا‬
‫نظم‪ :‬لال بیگ‬

‫جیسے ڈوبتی‪،‬اَب ڈوبتی ہے‬
‫نظم‪ :‬جیسے ڈوبتی‪،‬اَب ڈوبتی ہے‬

‫تکرار حرفی‬

‫کف چشم پر میں نے اس کے لیے‬
‫نظم‪ :‬مگر وہ نہ آیا‬
‫‪…….‬‬

‫خلا میں اڑنے والی پست مٹی کے سیہ ذرے‬
‫پہاڑ اور آئنے سائے گرے پیڑوں کے پتے‬
‫نظم‪ :‬بڑا پر ہول رستہ تھا‬

‫پانیوں کی طرح میرے سائے بہے تھے‬
‫نظم‪ :‬مگر وہ نہ آیا‬

‫‪59‬‬

‫‪60‬‬

‫ردیف کا استعمال‬

‫کس درد کی پرچھائیں تھی‬
‫جو مظہر و شے سے نکلنا چاہتی تھی‬

‫دھند جو دیوار کے دونوں طرف تھی‬
‫نظم‪ :‬برادہ اڑ رہا ہے‬

‫المختصر خوابوں کی دنیا ایک تھی‬
‫اک دوسرے کا حاضر و غائب تھے‬

‫ہم جڑواں تھے‬
‫اعضا و عناصر میں دوئی ناپید تھی‬

‫نظم‪ :‬برادہ اڑ رہا ہے‬

‫پیڑ کے سوکھے تنے سے‬
‫چھت کی کڑیوں سے‬

‫کتابوں اور خوابوں سے‬

‫‪60‬‬

‫‪61‬‬

‫نظم‪ :‬برادہ اڑ رہا ہے‬

‫شعری آہنگ کے حصول کے لیے انہوں نے مختلف شعری‬
‫صنعتوں کا استعمال بھی کیا ہے۔ مثلا‬

‫صنعت فوق النقط کا استعمال‬

‫اوس کا قطرہ‬
‫مصفا حوض کے مانند‬
‫نظم‪ :‬بڑا پر ہول رستہ تھا‬

‫ہزاروں سال سے‬
‫اک غم زدہ عورت‬
‫مرے وعدے کی رسی‬
‫نظم‪ :‬سواری اونٹ کی ہے‬

‫‪61‬‬

‫‪62‬‬

‫غذاؤں کی لذت میں سرشار ہوں‬
‫درد ہوتا ہے‬

‫صنعت تحت النقط کا استعمال‬

‫َسرپھری لہروں کے جھولے میں‬
‫ابھی اوجھل ہے‬

‫نظم‪ :‬عجب پانی ہے‬

‫جو بھیس بدلیں‬
‫کوئی روپ دھاریں‬
‫نظم‪ :‬درد ہوتا ہے‬
‫پھولوں جیسے اسم‬
‫نظم‪ :‬غار میں بیٹھا شخص‬

‫دکھ سے لبالب بلبلاہٹ‬

‫‪62‬‬

‫‪63‬‬

‫نظم‪ :‬سواری اونٹ کی ہے‬

‫صنعت بےنقط کا استعمال‬

‫سوکھے ہوئے سارے گملوں کو‬
‫نظم‪ :‬درد ہوتا ہے‬

‫بند مجھ پر ہوئے سارے در‬
‫سارے گھر‬

‫نظم‪ :‬ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی‬

‫متعلقات کا استعمال‬

‫زبان بے زبانی‬
‫نظم‪ :‬وہی مخدوش حالت‬

‫‪63‬‬

‫‪64‬‬

‫ایڑی میں کانٹا چبھے‬
‫تو بدن تلملاتا ہے‬

‫دل ضبط کرتا ہے روتا ہے‬
‫جو برگ ٹہنی سے گرتا ہے‬

‫وہ زرد ہوتا ہے‬
‫نظم‪ :‬درد ہوتا ہے‬

‫بادل سے بادل ملیں تو کڑکتے ہیں‬
‫بجلی چمکتی ہے‬
‫برسات ہوتی ہے‬

‫جو ہجر کی رات ہوتی ہے‬
‫نظم‪ :‬درد ہوتا ہے‬

‫منزہ درختوں کے پاک اور شیریں پھلوں میں‬
‫نظم‪ :‬یہ کیسی گھڑی ہے‬

‫‪64‬‬

‫‪65‬‬

‫صعنت تضاد کا استعمال‬

‫اب تمہارے مرے مابین‬
‫کسی دید کا‬

‫نادید کا اسرار نہیں‬
‫نظم‪ :‬بیج اندر ہے‬

‫جاؤ اب روتے رہو‬
‫وسط نا وسط کا مرحلہ‬

‫نظم‪ :‬بیج اندر ہے‬

‫َموت اور زندگی‬
‫‪…..‬‬

‫صفائی اور گندگی‬
‫نکاسی ٔوجود‬
‫خیروشر‬

‫‪65‬‬

‫‪66‬‬

‫روانی و جمود کے معاملات میں گ ِھرا ہواتھا‬
‫نظم‪ :‬لال بیگ‬

‫جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی‬
‫نظم‪ :‬ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی‬

‫رات دن بسرام کرتی تھیں‬
‫نظم‪ :‬برادہ اڑ رہا ہے‬

‫جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی‬
‫نظم‪ :‬ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی‬

‫سرحد امکاں سے لا امکاں تلک‬
‫نظم‪ :‬سواری اونٹ کی ہے‬

‫‪66‬‬

‫‪67‬‬

‫رفیق سندیلوی نے اپنی نظم میں انگریزی الفاظ کا کمال خوبی‬
‫سے استعمال کیا ہے۔ مثلا‬

‫غیر مرئی نالیوں سے‬
‫مین ہول تک‬

‫نظم‪ :‬لال بیگ‬
‫……‬

‫سُست وتیز‬
‫ساری لائنوں میں گھومتا تھا‬

‫نظم‪ :‬لال بیگ‬

‫اور پولیتھین کے مردہ لفافوں کو چباتا‬
‫نظم‪ :‬وہی مخدوش حالت‬

‫نلکی آکسیجن کی لگی ہے‬
‫گوشۂ لب رال سے لتھڑا ہے‬

‫‪67‬‬

‫‪68‬‬

‫نظم‪ :‬برادہ اڑ رہا ہے‬

‫رفیق سندیلوی ہندی کلچر سے متعلق الفاظ کا استعمال بڑی‬
‫مہارت سے کرتے ہیں۔ معنویت کا ایک الگ سے جہان آنکھوں‬

‫کے سامنے گھوم گھوم جاتا ہے۔ مثلا‬
‫میرا دل کھو گیا‬

‫اپنی ٹک ٹک میں‬
‫بہتا رہا وقت‬

‫!کتنا سمے ہو گیا‬
‫نظم‪ :‬سمے ہو گیا‬

‫کڑیوں کے رخنوں میں‬
‫ہمارے ساتھ چڑیاں‬

‫رات دن بسرام کرتی تھیں‬
‫نظم‪ :‬برادہ اڑ رہا ہے‬

‫‪68‬‬

‫‪69‬‬

‫سُوراخ سے بے فکر‬
‫اسن مار کے‬

‫کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے‬
‫نظم‪ :‬عجب پانی ہے‬

‫میں اکیلا عزا دار‬
‫کتنے یگوں سے‬

‫اٹھائے ہوئے‬
‫جسم کا تعزیہ‬
‫مجھے اپنا جلوہ دکھا میرا دل کھو گیا‬

‫اپنی ٹک ٹک میں‬
‫بہتا رہا وقت‬

‫!کتنا سمے ہو گیا‬
‫نظم‪ :‬سمے ہو گیا‬

‫‪69‬‬

‫‪70‬‬

‫کڑیوں کے رخنوں میں‬
‫ہمارے ساتھ چڑیاں‬

‫رات دن بسرام کرتی تھیں‬
‫نظم‪ :‬برادہ اڑ رہا ہے‬

‫ُسوراخ سے بے فکر‬
‫اسن مار کے‬

‫کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے‬
‫نظم‪ :‬عجب پانی ہے‬

‫میں اکیلا عزا دار‬
‫کتنے یگوں سے‬

‫اٹھائے ہوئے‬
‫جسم کا تعزیہ‬
‫نظم‪ :‬مجھے اپنا جلوہ دکھا‬

‫‪70‬‬

‫‪71‬‬

‫رفیق سندیلوی کے ہاں محاورات اور افعال مجہول کا برجستہ‬
‫استعمال ہوا ہے۔ ان کے استعمال سے ان کے کلام کو شگفتگی‘‬
‫سلاست‘ برجستگی شعری و لسانیاتی توانائی میسر آئی ہے۔ مثلا‬

‫افتاد پڑنا‬
‫خدایا ترے نیک بندوں پر افتاد کیسی پڑی ہے‬

‫نظم‪ :‬یہ کیسی گھڑی ہے‬
‫بنیاد رکھنا‬

‫جس گھڑی رکھی گئی بنیاد میری‬
‫مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے‬

‫فیصلہ کرنا‬
‫سنو تم بڑی بد نما رات کی دھند میں فیصلہ کر رہے ہو‬

‫انجام دینا‬
‫سنو عجلت فکر میں کوئی بھی کام انجام پاتا نہیں‬

‫ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ‬
‫تماشا کرنا‬

‫‪71‬‬

‫‪72‬‬

‫یہ فسوں کار تماشا کیا ہے‬
‫جاؤ اب روتے رہو‬
‫مس کرنا‬

‫یوں ہوا چہرے کو مس کر کے گزرتی تھی‬
‫صدا گونجنا‬

‫اس لن ترانی کے گنبد میں‬
‫میری صدا گونجتی ہی رہے گی‬
‫نظم‪ :‬مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں‬

‫ہموار کرنا‬
‫تو پھر میں نے اس کے لیے دھند ہموار کی‬

‫نظم‪ :‬مگر وہ نہ آیا‬

‫قسم کھانا‬
‫اے ہوا‬

‫پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا‬

‫‪72‬‬

‫‪73‬‬

‫نظم‪ :‬یہ سجیلی مورتی‬

‫رفیق سندیلوی نے اردو نظم کو بڑے شان دار اور جان دار‬
‫مختلف نوعیت کے شعری مرکبات سے نوازا ہے۔ چند ایک‬

‫مرکب ملاحظہ فرمائیں‪:‬‬

‫جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی‬
‫چار جانب بچھی تھی بساط عدم‬

‫میری پرواز کے دائرے نے جنا‬
‫میں ہرے پانیوں میں‬

‫بدن کا ستارہ ڈبونے لگا‬
‫اور اک لاتعین سبک نیند سونے لگا‬

‫‪....‬‬
‫ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی‬

‫کیچ کی اُ َمس میں‬

‫‪73‬‬

‫‪74‬‬

‫دونوں وقت ِمل رہے تھے‬
‫ہال ٔہ نفَس میں‬

‫ِدھیرے ِدھیرے اُس کے‬
‫نظم‪ :‬لال بیگ‬

‫َسرپھری لہروں کے جھولے میں‬
‫نظم‪ :‬عجب پانی ہے‬

‫وقت کی تھالی میں‬
‫نظم‪ :‬یہ سجیلی مورتی‬

‫اور پولیتھین کے مردہ لفافوں کو چباتا‬
‫نظم‪ :‬وہی مخدوش حالت‬

‫مرے شب نما جسم پر‬
‫‪.....‬‬

‫‪74‬‬

‫‪75‬‬

‫اور حصار رفاقت میں‬
‫نظم‪ :‬مگر وہ نہ آیا‬

‫وجود کے کچھار میں‬
‫……………‬

‫بدن سے یہ لحاف کا پہاڑ کیسے ہٹ گیا‬
‫‪……….‬‬

‫بے صدا سی جست بھر کے‬
‫نظم‪ :‬مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں‬

‫دکھ سے لبالب بلبلاہٹ‬
‫کانٹوں بھری کھاٹ میں‬
‫پیاس کے جام پیتا ہوں‬
‫نظم‪ :‬خواب مزدور ہے‬

‫آ مجھے تاج روئیدگی سے سجا‬

‫‪75‬‬

‫‪76‬‬

‫جھلملاتی ہوئی نیند‪ ،‬سن‬
‫!!میرا ادھڑا ہوا جسم بن‬

‫‪......‬‬
‫جھلملاتی ہوئی نیند سن‬

‫نادید کا اسرار نہیں‬
‫جاؤ اب روتے رہو‬

‫وسط نا وسط کا مرحلہ‬
‫نظم‪ :‬بیج اندر ہے‬

‫گزر گاہوں کے سب نامعتبر پتھر‬
‫خلا میں اڑنے والی پست مٹی کے سیہ ذرے‬

‫نظم‪ :‬بڑا پر ہول رستہ تھا‬

‫تشبیہ شعری حسن کا اہم ترین لوازمہ ہے اوراس شعری حسن‬
‫کا تصرف کلام میں فصاحت و بلاغت کا ذریعہ بنتا ہے۔ رفیق‬

‫‪76‬‬

‫‪77‬‬

‫سندیل ٰوی نے اس شعری کمال کو کمال خوبی سے برتا ہے۔‬
‫باطور نمونہ چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں‪:‬‬
‫فربہ پاؤں جیسے اک گرھستن کے‬
‫نظم‪ :‬یہ سجیلی مورتی‬
‫اک ستارہ سی بارش نے لب رکھ دیا‬
‫نظم‪ :‬مگر وہ نہ آیا‬

‫اسے جو بھی پہنے گا‬
‫بالکل ستارہ لگے گا‬

‫ستارے کے مانند چمکے گا‬
‫نظم‪ :‬مجھے اپنا جلوہ دکھا‬

‫سرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے‬
‫پھولوں جیسے اسم‬

‫نظم‪ :‬غار میں بیٹھا شخص‬

‫‪77‬‬

‫‪78‬‬

‫اوس کا قطرہ‬
‫مصفا حوض کے مانند‬
‫نظم‪ :‬گنبد نما شفاف شیشہ‬

‫پانیوں کی طرح میرے سائے بہے تھے‬
‫نظم‪ :‬مگر وہ نہ آیا‬

‫تلمیح بڑی بات کے اختصار کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ رفیق‬
‫سندہیلوی نے اس شعری حربے سے معنویت کے دریا بہا دیے‬

‫ہیں۔ مثلا‬

‫ہم اپنی وحشت میں‬
‫جو بھیس بدلیں‬

‫کوئی روپ دھاریں‬
‫سمندر بلوئیں یا دیوار چاٹیں‬

‫نظم‪ :‬درد ہوتا ہے‬

‫‪78‬‬

‫‪79‬‬

‫کیا میں تجھے دیکھ پاؤں گا‬
‫اس لن ترانی کے گنبد میں‬

‫میری صدا گونجتی ہی رہے گی‬
‫نظم‪ :‬مجھے اپنا جلوہ دکھا‬

‫رفیق سندہلوی کے ہاں مختلف نوعیت کی اصطلاحات کا استعمال‬
‫کلام میں گہری معنویت کا سبب بنتا ہے۔ چند ایک اصطلاحات کا‬

‫استعمال باطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں‪:‬۔۔۔۔‬
‫میں اکیلا عزا دار‬
‫کتنے یگوں سے‬
‫اٹھائے ہوئے‬
‫جسم کا تعزیہ‬

‫نظم‪ :‬کہیں تم ابد تو نہیں ہو‬
‫کونین کے‬

‫اپنے قطبین کے‬

‫‪79‬‬

‫‪80‬‬

‫پیچ و خم میں‬
‫وجود و عدم میں‬

‫‪......‬‬
‫کیسے اشارہ کیا‬
‫میں نے کیسے بہ یک وقت‬
‫اپنی فنا اور بقا سے کنارہ کیا‬
‫نظم‪ :‬بیج اندر ہے‬

‫وضو کرکے سجدہ کیا ہے‬
‫نظم‪ :‬درد ہوتا ہے‬

‫مجھے اپنا جلوہ دکھا‬
‫وقت کے کس خلا میں‬
‫مظاہر کی کس کہکشاں میں‬
‫زمانے کے کس دب اکبر میں‬
‫نظم‪ :‬مجھے اپنا جلوہ دکھا‬

‫‪80‬‬

‫‪81‬‬

‫درج بالا معروضات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے‬
‫کہ جدید اردو نظم کا نقاد اور ماہر لسانیات مطالعہ اور کام کے‬
‫دوران رفیق سندیلوی کی نظم کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کر‬
‫سکے گا۔ رفیق سندیلوی کی یہ شعری تخلیقات اردو زبان کی‬
‫لسانیاتی ثروت کا سبب بنی ہیں اور ان کے حوالہ سے لفظوں‬
‫کی تفہیم کے نئے در وا ہوئے ہیں۔ ان کی کاوش ہا اردو ادب‬
‫کے دامن میں اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ عصری حیات کی‬

‫معتبر شہادت کا فریضہ انجام دیتی رہیں گی۔‬

‫‪81‬‬

‫‪82‬‬

‫جن نظموں سے استفادہ کیا گیا‬

‫نظم‪ :‬عجب پانی ہے‬
‫نظم‪ :‬غار میں بیٹھا شخص‬

‫نظم‪ :‬یہ کیسی گھڑی ہے‬
‫نظم‪ :‬برادہ اڑ رہا ہے‬

‫نظم‪ :‬مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے‬
‫نظم‪ :‬مہرباں فرش پر‬

‫نظم‪ :‬جھلملاتی ہوئی نیند سن‬
‫نظم‪ :‬ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی‬

‫نظم‪ :‬لال بیگ‬
‫نظم‪ :‬مگر وہ نہ آیا‬
‫نظم‪ :‬بڑا پر ہول رستہ تھا‬
‫نظم‪ :‬سواری اونٹ کی ہے‬
‫نظم‪ :‬درد ہوتا ہے‬
‫نظم‪ :‬وہی مخدوش حالت‬

‫‪82‬‬

‫‪83‬‬

‫نظم‪ :‬بیج اندر ہے‬
‫نظم‪ :‬سمے ہو گیا‬
‫نظم‪ :‬مجھے اپنا جلوہ دکھا‬
‫نظم‪ :‬مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں‬
‫نظم‪ :‬یہ سجیلی مورتی‬
‫نظم‪ :‬خواب مزدور ہے‬
‫نظم‪ :‬گنبد نما شفاف شیشہ‬
‫نظم‪ :‬کہیں تم ابد تو نہیں ہو‬
‫برقی کتاب جس سے مواد حاصل کیا گیا‬
‫مقصود حسنی پیش کار‘ رفیق سندیلوی کی کچھ نمائندہ نظمیں‘‬
‫ابوزر برقی کتب خانہ‘ جنوری ‪٢٠١٧‬‬
‫‪Links book:‬‬
‫‪-1 http://pubhtml5.com/oqek/trbl/ 2- http://mobissue.com/qhcu/bpsr‬‬

‫‪83‬‬

‫‪84‬‬

‫رفیق سندیلوں کی نظم نگاری‬
‫کا‬

‫فکری و فنی جائزہ‬

‫مقصود حسنی‬

‫ابوزر برقی کتب خانہ‬
‫جنوری ‪٢٠١٧‬‬

‫‪84‬‬


Click to View FlipBook Version