مندرجات
ڈاکٹر ممصود حسنی بطور مترجم
ڈاکٹر ممصود حسنی بطور ماہر لسانیات
ممصود حسنی اور برصؽیر کا مضافاتی اور مؽربی
ادب
فرہنگ ؼالب ایک نادر مخطوطہ
ممصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ
ڈاکٹر ممصود حسنی بطور ایک اسلامی مفکر اور
اسکالر
ممصود حسنی اور سائینسی ادب
ممصود حسنی کے تنمیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی
مطالعہ
ممصود حسنی کی مزاح نگاری‘ ایک اجمالی جائزہ
مزید ٹاپکز جن پر اعلی سطح کی ڈگری کا کام ہو
سکتا ہے
ڈاکٹر ممصود حسنی بطور مترجم
از پروفیسر یونس حسن
ڈاکٹر ممصود حسنی ایک نامور محمك‘ نماد اور ماہر
لسانیات ہونے کے ساتھ ایک کامیاب مترجم بھی ہیں۔
انہوں نے جن فن پاروں کا ترجمہ کیا ہے ان پر طبع
زاد ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ ان کے تراجم سادگی
سلاست اور رونی کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ایک کامیاب
مترجم کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اصل کے
مفاہیم کو خوب ہضم کرکے ترجمے کا فریضہ انجام
دے تا کہ ترجمہ اصل کے لریب تر ہو۔ موصوؾ کے
تراجم کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اصل کی
تفہیم پر دسترس حاصل کرنے کے بعد ہی یہ کام کیا
ہے۔
ان کے تراجم روایت سے ہٹ کر ہیں۔ یہاں تک کہ
متعلمہ فن پارے کی ہیئت سے بھی تجاوز کیا ہے۔ اس
کی مثال رباعیات کا سہ مصرعی ترجمہ ہے جسے
برصؽیر کے نامور علما نے پسند کیا اور حسنی
صاحب کو اس کام پر داد بھی دی۔ ان کے تراجم میں
ایک ندرت اور چاشنی پائی جاتی ہے۔ ان کے تراجم کو
جہاں ایک نئی جہت عطا ہوئی ہے وہاں الفاظ پر ان
کی ؼیر معمولی گرفت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
حسنی صاحب کے تراجم کے مطالعہ سے یہ بھی کھلتا
ہے کہ مترجم لفظ کے نئے نئے استعمالات سے آگاہ
ہے۔ ڈاکٹر ابو سعید نورالدین نے ان تراجم پر بات
:کرتے ہوئے درست کہا تھا
والعی تعجب ہوتا ہے۔ آپ نے رباعیات کا اردو ترجمہ
چہار مصرعی کی بجائے سہ مصرعی میں اتنی
کامیابی کے ساتھ کیسے کیا۔ یہ آپ کا کمال ہے۔
ترجمے کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ مترجم کی اس میں
مکمل دلچسپی ہو ورنہ اس کی ساری محنت اکارت
چلی جائے گی۔ حسنی صاحب نے ترجمے کا کام پوری
دلچسپی اور بھرپور کمٹ منٹ کے ساتھ کیا ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ ان کے تراجم اصل کی بھرپور نمائندگی
کرتے ہیں۔ ان کے رباعیات خیام کے تراجم کے حوالہ
:سے پروفیسر کلیم ضیا نے کہا تھا
سہ مصرعی ترجمے ماشاءالله بہت عمدہ ہیں۔ ہر
مصرعہ رواں ہے۔ ابتددائی دونوں مصرعے پڑھ پڑھ
لینے کے بعد مفہوم اس ولت تک واضح اور مکمل
نہیں ہو سکتا جب تک کہ مصرع سوئم پڑھ نہ لیا
جائے۔ یہی خوبی رباعی میں بھی ہے کہ چوتھا مصرع
:لفل کا کام کرتا ہے۔
ان کے تراجم کا یہی کمال نہیں کہ وہ اصل کے مطابك
ہیں بلکہ ان میں جازبیت اور حسن آفرینی کو بھی
شامل کیا گیا ہے۔ بڑھتے جائیں طبیعت بوجھل نہیں
ہوتی۔ ان کے تراجم میں پایا جانے والا فطری بہاؤ
لاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ شاید اسی بنیاد
:پر ڈاکٹر عبدالموی ضیاء نے کہا تھا
حسنی صاحب ماہر تیراک اور ؼوطہ خور ہیں ان کے
سہ مصرعوں میں اثرآفرینی ہے‘ روانی ہے‘ حسن
بیان ہے‘ تازہ کاری اور طرحداری ہے۔ لاری کو مفہوم
سمجھنے میں کوئی دلت محسوس نہیں ہوتی بلکہ
لطؾ آتا ہے۔
گویا ان کا مخصوص اسلوب تکلم اور طرز ادا ترجمے
کو کہیں بھی خشک اور بےمزہ نہیں ہونے دیتا بلکہ
اس کی اسلوبی اور معنوی سطح برلرار رہتی ہے۔
انہوں نے عمر خیام کی چوراسی رباعیات کا اردو
ترجمہ کیا۔ یہی نہیں اپنی کتاب۔۔۔۔۔ شعریات خیام۔۔۔۔۔ میں
خیام کی سوانح کے ساتھ ساتھ چار ابواب میں ان کا
تنمیدی و لسانی جائزہ بھی پیش کیا۔
پچاس ترکی نظموں کا اردو ترجمہ کیا اس ترجمے کو
ڈاکٹر نوریہ بلیک لونیہ یونیورسٹی نے پسند کیا۔
یہ ترجمہ ۔۔۔۔۔ستارے بنتی آنکھیں۔۔۔۔۔ کے نام سے
کتابی شکل میں پیش کیا گیا۔
انہوں نے فینگ سیو فینگ کے کلام پر تنمیدی گفتگو
کی۔ ان کا یہ تنمیدی مضمون۔۔۔۔۔ فینگ سیو فینگ
جذبوں کا شاعر۔۔۔۔۔۔ کے عنوان سے روزنامہ نوائے
ولت لاہور کی اشاعت اپریل ١٩٨٨ ‘٧میں شائع ہوا۔
اس کی نظموں کے ترجمے بھی پیش کیے۔
اس کے علاوہ معروؾ انگریزی شاعر ولیم بلیک اور
ہنری لانگ فیلو کی نظموں کا بھی اردو ترجمہ کیا۔ ان
کے یہ تراجم تجدید نو میں شائع ہوئے۔
لراتہ العین طاہرہ کی ؼزلوں کا پنجابی اور انگریزی
آزاد ترجمہ کیا۔
سو کے لریب ؼالب کے اشعار کا پنجابی ترجمہ کیا۔ ان
کے یہ تراجم انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔
ڈاکٹر ممصود حسنی بطور ماہر لسانیات
پرفیسر یونس حسن
ڈاکٹر ممصود حسنی ایک منفرد اور نامور ماہر
لسانیات ہیں۔ ان کے درجنوں ممالے رسائل و جرائد
اور انٹر نیٹ کی مختلؾ ویب سائٹس پر پڑھنے کو
ملتے ہیں۔ ؼیر مطبوعہ ممالات دیکھنے کا مجھے
اتفاق ہوا ہے۔ ان ممالات پر سرسری نظر ڈالنے سے
بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ لسانیات میں ؼیر
معمولی لدرت رکھتے ہیں۔ ان ممالات میں موضوعات
کا تنوع اور رنگا رنگی ملتی ہے۔ رالم اپنے بےلاگ
مطالعے اور جائزے سے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ
یہ ممالات لسانیات کے باب میں ایک اہم اضافہ ہیں۔
ان ممالات میں زبان کے جو موضوعات زیر بحث لائے
گئے ہیں ان میں آوازوں کا نظام بڑی خصوصیت کا
حامل ہے۔ زبانوں میں آوازیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت
رکھتی ہیں۔ الفاظ کی تشکیل میں آوازیں کلیدی کردار
کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے لفظیات‘
صوتیات‘ معنویات‘ ہیت‘ ساخت‘ گرائمر اور بناوٹ کو
بھی موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے لفظوں کی سماجیات
اور نفسیات پر بھی للم اٹھایا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ساختیات اور پس ساختیات پر بھی
نمایاں کام کیا ہے۔ انہوں باباجی بلھے شاہ صاحب کا
لسانی مطالعہ کیا ہے جسے ڈاکٹر محمد امین نے کسی
شاعر کے کلام کا پہلا ساختیاتی مطالعہ لرار دیا ہے۔
مرزا ؼالب کی لفظیات کےساختیاتی مطالعہ کے ساتھ
ساتھ ساختیات پر بھی تین ممالے تحریر کیے ہیں۔
ان کےاس کام سے کئی لسانی اور ساختیاتی جہتیں
سامنے آتی ہیں۔
مزید براں ان کے دستیاب ممالات میں زبانوں کے
وجود میں‘ آنے ترلی کرنے یا بعض الفظ کے متروک
ہو جانے کے حوالہ سے بھی بہت سا مواد میسر آتا
ہے۔ اردو زبان کے وہ عاشك ہیں اس لیے وہ کسی
ممام پر اسے نظرانداز نہیں ہوتی۔ اردو پر گفتگو کے
دوران اس کی موجودہ صرتحال پر بھی گفتگو کرتے
ہیں۔
عربی فارسی اور انگریزی کےاردو پر اثرات کو بھی
اپنی تحمیك کا حصہ بنایا ہے۔ تمابلی مطالعے کے
دوران اردو سے مثالیں ضرور پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے جاپانی کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی
ہے۔ اس کا کچھ حصہ ترجمہ ہو کر اردو نیٹ جاپان پر
لسطوں میں شائع ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر ممصود حسنی نے اردو کی ذاتی آوازیں اور
بدیسی آوازوں کے دخول پر بھی گفتگو کی ہے۔ مہاجر
زبانوں کے الفاظ کا ممامی زبانوں میں دخول اور
اشکالی اور ان کی معنوی تبدیلی پر بھی گفتگو کی
ہے۔ وہ بھاری آوازوں کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔
ؼالب پر ان کے لسانی کام کو دیکھتے ہوئے علامہ
البال اوپن یونیورسٹی نےمحمد لطیؾ لیکچرار اردو
پاکپتن کو ایم فل اردو کا ممالہ بعنوان ممصود حسنی
اور ؼالب شناسی تفویض کیا ہے۔
ان کے کچھ ممالات کی فہرست درج کر رہا ہوں۔
مجھے یمین ہے کہ یہ تفصیل لسانیات سے شؽؾ
رکھنے والوں کے لیے خصوصی دل چسپی کا موجب
بنے گی۔
اردو مضامین کی فہرست دستیاب
اردو ہے جس کا نام ١-
لفظ ہند کی کہانی ٢-
ہندوی تاریخ اور حمائك کے آئینہ میں ٣-
ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود ٤-
اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ٥-
اردو کی چار آوازوں سے متعلك گفتگو ٦-
اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ ٧-
اردو میں رسم الخط کا مسلہ ٨-
انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات ٩-
سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں ١٠-
اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک ١١-
اردو سائنسی علوم کا اظہار ١٢-
لومی ترلی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے ١٣-
اردو‘ حدود اور اصلاحی کوششیں ١٤-
لدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ١٥-
بلھے شاہ کی زبان کا لسانی مطالعہ ١٦-
شاہی کی شاعری کا لسانی مطالعہ ١٧-
خواجہ درد کے محاورے ١٨-
سوامی رام تیرتھ کی اردو شاعری کا لسانی ١٩-
مطالعہ
الفاظ اور ان کا استعمال ٢٠-
آوازوں کی ترکیب و تشکیل کے عناصر ٢١-
الفاظ کی ترکیب‘ استعمال اور ان کی تفہیم کا ٢٢-
مسلہ
زبانوں کی مشترک آوازیں ٢٣-
پاکستان کی زبانوں کی پانچ مخصوص آوازیں ٢٤-
عربی زبان کی بنیادی آوازیں ٢٥-
عربی کی علامتی آوازیں ٢٦-
دوسری بدیسی آوازیں اور عربی کا تبادلی نظام ٢٧-
پ کی متبادل عربی آوازیں ٢٨-
گ کی متبادل عربی آوازیں ٢٩-
چ کی متبادل عربی آوازیں ٣٠-
مہاجر اور عربی کی متبادل آوازیں ٣١-
بھاری آوازیں اور عربی کے لسانی مسائل ٣٢-
چند انگریزی اور عربی کے مترادفات ٣٣-
پنجابی اور عربی کا لسانی رشتہ ٣٤-
چند انگریزی اور عربی مشترک آوازیں ٣٥-
انٹرنیٹ پر عربی میں اظہار خیال کا مسلہ ٣٦-
عربی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ٣٧-
عربی اور عہد جدید کے لسانی تماضے ٣٨-
فارسی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ٣٩-
پشتو کی چار مخصوص آوازیں ٤٠-
آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی ٤١-
انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ٤٢-
انگریزی اور اس کے حدود ٤٣-
انگریزی آج اور آتا کل ٤٤-
تبدیلیاں زبانوں کے لیے وٹامنز کا درجہ رکھتی ٤٥-
ہیں
زبانیں ضرورت اور حالات کی ایجاد ہیں ٤٦-
معاون عناصر کے پیش نظر مزید حروؾ کی ٤٧-
تشکیل
برصؽیر میں بدیسیوں کی آمد اور ان کے زبانوں ٤٨-
پر اثرات
کچھ دیسی زبانوں میں آوازوں کا تبادل ٤٩-
جاپانی میں مخاطب کرنا ٥٠-
جاپانی اور برصؽیر کی لسانی ممثالتیں ٥١-
اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ ٥٢-
لسانیات کے متعلك کچھ سوال و جواب ٥٣-
انگریزی مضامین کی دستیاب فہرست
1- Urdu has a strong expressing
power and a sounds system
2- Word is to silence instrument of
expression
3- This is the endless truth
4- The words will not remain the
same style
5- Language experts can produce
new letters
6- Sound sheen is very commen in
the world languages
7- Native speakers are not feel
problem
8- Languages are by the man and for
the man
9- The language is a strong element
of pride for the people
10- Why to learn Urdu under any
language of the world
11- Word is nothing without a
sentence
12- No language remain in one state
13- Expression is much important
one than designates that correct or
wrong writing
14- Student must be has left
liberations in order to express his
ideas
15- Six qualifications are required for
a language
17- Sevevn Senses importence in the
life of a language
18- Whats bad or wrong with it?!
19- No language remains in one state
20. The common compound souds of
language
21- The identitical sounds used in
Urdu
22- Some compound sounds in Urdu
23- Compound sounds in Urdu (2)
24- The idiomatic association of urdu
and english
25- The exchange of sounds in some
vernacular languages
26- The effects of persian on modern
sindhi
27- The similar rules of making
plurals in indigious and
foreign languages
28- The common compounds of
indigious and foreign
languages
29- The trend of droping or adding
sounds
30- The languages are in fact the
result of sounds
31- Urdu and Japanese sound’s
similirties
32- Other languages have a natural
link with Japanese’s
sounds
33- Man does not live in his own land
34- A person is related to the whole
universe
35- Where ever a person
36- Linguistic set up is provided by
poetry
37- How to resolve problems of
native and second language
38- A student must be instigated to
do something himself
39- Languages never die till its two
speakers
40- A language and society don’t
delovp in days
41- Poet can not keep himself aloof
from the universe
42- The words not remain in the same
style
43- Hindustani can be suggested as
man's comunicational language
44- Nothing new has been added in
the alphabets
45- A language teacher can makea lot
for the human society
46- A language teacher would have to
be aware
47- Hiden sounds of alphabet are not
in the books
48- The children are large importence
and sensative resource of the sounds
49- The search of new sounds is not
dificult matter
50- The strange thought makes an
odinary to special one
51- For the relevation of expression
man collects the words from the
different caltivations
52- Eevery language sound has has
then two prononciations
53- Language and living beings
ممصود حسنی اور برصؽیر کا مضافاتی اور مؽربی
ادب
محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔ لصور
پروفیسر ممصود حسنی اردو کے جدید ولدیم شعری و
نثری ادب کے مطالعہ تک محدود نہیں ہیں۔ انہوں نے
برصؽیر سے باہر بھی دیکھا ہے۔ ان کے ہاں اس ذیل
کے مختلؾ ذائمے نظر آتے ہیں۔ وہ ان تمام عوامل کا
بھی جائزہ لیتے ہیں جو اس کے بنیادی فکر اور زبان
سے تعلك رکھتے ہیں۔ اس مطالعے کی پانچ صورتیں
دیکھنے کو ملتی ہیں
انفرادی ١-
مجموعی ٢-
تمابلی ٣-
رجحانی ٣-
تشریحی اور وضاحتی ٥-
اردو ادب سے متعلك ان کی خدمات نمایاں اور مختلؾ
گوشوں پر پھیلی ہوئی ہیں جنھیں اردوادب کے
نامورمحمك سند پذیرائی عطا کر چکے ہیں۔
برصؽیر سے باہر کے ادب کے مطلعہ کی دو صورتیں
ہیں
ایشیائی شعر وادب
مؽربی شعر وادب
ڈیوڈ کوگلٹی نوؾ نمائندہ روسی شاعر ہے۔ اس کی
شاعری کے مطلعہ کا باباجی ممصود حسنی کے ہاں
حاصل مطلعہ کچھ یہ ہے
ڈیوڈ شر کے ممابل خیر کی حمایت کا لائل ہے۔ اس
کے نزدیک خیر کی حمایت ہی
حمیمی زندگی ہے۔ خیر کی حمایت کرنے والے بظاہر
لمبی عمر نہیں پاتے۔ دار ورسن ان کا ممدر ہوتا ہے
لیکن خیر کی حمایت میں گزرے لحمے ہی تو ابدیت
سے ہم کنار ہوتے ہیں۔
شعریات شرق وؼرب ص٢٢٧
روس میں ترلی پسندی کے نام سے اٹھنے والی
تحریک کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس ذیل میں
ایک بھرپور ممالہ۔۔۔۔۔۔ترلی پسند تحریک۔۔۔۔۔۔ ان کی
کتاب تحریکات اردو ادب میں شامل ہے۔
فینگ سیو فینگ چینی زبان کا خوش فکر شاعر ہے۔
باباجی ممصود حسنی نے ناصرؾ اس کی شاعری کا
تنمیدی مطالعہ پیش کیا ہے بلکہ اس کی کچھ نظموں
کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ فینگ سیو فینگ کی شاعری
کے متعلك ان کا کہنا ہے
فینگ سیو فینگ کی شاعری کرب ناک لمحوں کی
عکاس ہے۔ اس کے کلام میں جہاں لہو لہو سسکیاں
ہیں تو وہاں امید کے بےشمار دیپ بھی جلتے نظرآتے
ہیں۔
روزنامہ نوائے ولت لاہور -٧اپریل ١٩٨٨
بطور نمونہ ایک نظم کا ترجمہ ملاحظہ ہو
بد لسمتی
شاعر :فینگ سیو فینگ
مترجم :ممصود حسنی
میں بد لسمتی پہ اک نظم لکھنے کو تھا
مری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے
کاؼذ بھر گیا
اور میں نے للم نیچے رکھ دیا
کیا اشکوں سے تر کاؼذ
لوگوں کو دکھا سکتا تھا؟
وہ سمجھ پاتے
یہی تو بد لسمتی ہے
زائی زی لیو چینی مصور تھا۔ باباجی ممصود حسنی
کواس کی مصوری نے متاثر کیا۔ انہوں نے اس
کےتصویری ورک کو لدر کی نظر سے دیکھا اوراسے
خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا اس کی مصوری سے
متعلك مضمون رزنامہ مشرق لاہور میں شائع ہوا۔
چین سے باباجی کی فکری لربت کااندازہ ان کے
مضمون۔۔۔۔۔چین دوستی علالہ میں مثبت کردار ادا کر
سکتی ہے۔۔۔۔۔ سے لگایا جا سکتا ہے۔
یہ مضمون روزنامہ مشرق لاہور ٩اپریل ١٩٨٨کی
اشاعت میں شامل ہے۔
صادق ہدایت فارسی کا ناول نگار تھا۔ اس کے ناول۔۔۔۔
بوؾ کور۔۔۔۔۔ کا مطالعہ پیش کیا۔ ان کا یہ مضمون
ماہنامہ تفاخر لاہور کے مارچ ١٩٩١کے شمارے
مینشائع ہوا۔
فارسی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔۔ تین الساط
میں اردو نیٹ جاپان پر شائع ہوا۔
عمر خیام فارسی کے شعری ادب میں نمایاں ممام
رکھتا ہے۔ باباجی نے اس پر بھرپور لسم کا کام کیا
ہے۔ یہ کام چھے حصوں پر مشتمل ہے
عمر خیام سوانح و شخصیت اوراس کا عہد ١-
رباعیات خیام کا تنمیدی و تشریحی مطالعہ ٢-
رباعیات خیام کے شعری محاسن ٣-
عمر خیام کے نظریات واعتمادات ٤-
عمر خیام کا فلسفہءوجود ٥-
سہ مصرعی اردو ترجمہ رباعیات خیام ٦-
ان کے اس ترجمے کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی نامور
اہل للم نے اپنی رائے کا اظہار کیا -مثلا
ڈاکٹر عبدالموی ضیا کینیڈا
ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی
ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘ ڈھاکہ‘ بنگلہ دیش
ڈاکٹراسلم ثالب‘ مالیر کوٹلہ‘ بھارت
ڈاکٹر اختر علی
ڈاکٹر وفا راشدی
ڈاکٹر صابر آفالی
ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمنی
پروفیسر کلیم ضیا‘ بمبئی‘ انڈیا
پرفیسر رب نواز مائل
پروفیسراکرام ہوشیار پوری
پروفیسرامجد علی شاکر
پروفیسر حسین سحر
پروفیسر عطاالرحمن
ڈاکٹر رشید امجد
ڈاکٹر محمد امین
علی دیپک لزلباش
سید نذیر حسین فاضل
بطور نمونہ ایک رباعی کا ترجمہ ملاحظہ ہو
وہ زندگی‘ کیا خوب زندگی ہو گی
مری مٹی سے تعمیر ہو کر
جام‘ جب مےکدے سے طلوع ہو گا
بوعلی للندر کا اسی دھرتی سے تعلك تھا۔ باباجی نے
ان کی مثنوی کا عہد سلاطین کے حوالہ سے مطالعہ
کیا۔ ان کایہ ممالہ پیام آشنا میں شائع ہوا جو بعد ازاں
بابا جی کی کتاب ۔۔۔۔۔شعریات شرق وؼرب۔۔۔۔۔۔کا حصہ
بنا۔
البال اور علامہ رازی کی فکر۔ کا تمابلی مطالعہ۔۔۔۔۔۔یہ
ممالہ بابا جی کی محنت وکاوش کا جیتا جاگتا ثبوت
ہے۔
یہ ممالہ اردو انجمن اور کئی دوسرے فورمز پر
موجود ہے۔
ان کا ایک ممالہ۔۔۔۔۔عربی کے پاکستانی زبانوں پر
اثرات۔۔۔بڑا شاندار ممالہ ہے اور یہ
www.scribd.com
پر موجود ہے۔
انہوں نے جاپانی آوازوں کے نظام پر تفصیلی ممالہ
تحریر کیا۔ اس ممالے کا کچھ حصہ اردو میں بھی
منتمل کیا۔ اصل ممالہ
www.scribd.com
پر موجود ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تین لسطوں میں
اردو نیٹ جاپان پر شائع ہوا۔ اس ممالے کی نگرانی
وؼیرہ پروفیسر ڈاکٹر ماسا آکی اوکا نے کی۔ اس
ممالے کا اصل کمال یہ ہے کہ جاپانی آوازوں کے ساتھ
برصؽیر کی آوازوں کے اشتراک کو بھی واضح کیا گیا
ہے۔ ہر جاپانی آواز کے ساتھ اردو کی آوازوں کا
موازناتی اوراشتراکی مطالعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔
مطلعہ کی پیاس انہیں دور مؽرب میں بھی لے گئی۔
باباجی نے اپنے مطالعہ میں آنے والے اہل للم کی
فکر کو اپنی آراء کے ساتھ اردو دان طبمے کے
سامنے بھی پیش کیا۔ اس حوالہ سے باباجی کو کسی
ایک کرے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں
نےمؽرب کا مطالعہ ارسطو سے شروع کیا۔۔۔۔ شاعری
پر ایک عام اور بالموازنہ نظر۔۔۔۔۔ ممالہ ان کی کتاب
اصول اور جائزے میں شامل ہے۔
مؽرب کے مطالعہ کے حوالہ سے ان کے درج ذیل
مضامین لابل ذکر ہیں
ایلیٹ اور ادب میں روایت کی اہمیت۔۔۔۔۔۔مسودہ
شیلے کا نظریہءشعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشمولہ شعریات
شرق وؼرب
جان کیٹس کا شعور شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات
شرق وؼرب
شارل بودلیئر کا شعری شعور۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق
وؼرب
شارل بودلیئر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات
شرق وؼرب
ژاں پال سارتر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔مشمولہ شعریات
شرق وؼرب
کروچے اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات
شرق وؼرب
ورڈزورتھ اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات
شرق و ؼرب
مؽربی اہل سخن پر بات کرتے ہوئے اردو شعرا کے
حوالے بھی درج کرتے ہیں۔ اکثر موازناتی صورت پیدا
ہو جاتی ہے۔ یہ امر بھی ؼالب رہتا ہے کہ اردو شعر
و ادب مؽرب کے شعر ادب سے زیادہ جان دار اور
زندگی کے دکھ سکھ کو واضح کرنے میں کامیاب ہے۔
باباجی ممصود حسنی مؽربی شعر و ادب کا جائزہ لیتے
ہوئے صرؾ شخصی محاکمے تک محدود نہیں رہتے۔
وہ مجموعی مطالعہ بھی پیش کرتے ہیں۔ اس ذیل میں
ان کے یہ ممالے لابل توجہ ہیں
مؽرب میں تنمید شعر------مشمولہ شعریات شرق ١-
و ؼرب
ناوریجین شاعری کے فکری و سماجی ٢-
زاویے------مشمولہ شعریات شرق و ؼرب
شاعری اور مؽرب کے معروؾ نالدین۔۔۔۔۔۔۔۔مسودہ ٣-
البال اور مؽربی مفکرین---------مسودہ ٤-
اکبر اور مؽربی تہذیب۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق لاہور ٢٦-٢٥
جولائی ١٩٩١
اکبر البال اور مؽربی زاویے۔۔۔۔۔ہفت روزہ فروغ
حیدرآباد ١٦جوائی ١٩٩١
شیلے اور زاہدہ صدیمی کی نظمیں۔۔۔۔ ماہنامہ تحریریں
لاہور دسمبر ١٩٩٣
انگریزی اور اردو کا محاورتی اشتراک ۔۔۔۔۔سہ ماہی
لوح ادب حیدرآباد اپریل تا جون ٢٠٠٤
جرمن شاعری کے فکری زاویے ٥-
باباجی کی یہ کتاب ١٩٩٣میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب
سات حصوں پر مشتمل ہے۔
اس کی تفصیل کچھہ یہ ہے
ا -جرمن شاعری اور فلسفہء جنگ
ب -جرمن شاعری اور تصور انسان
ج -جرمن شاعری کا نظریہء محبت
د۔ جرمن شاعری کا نظریہءزندگی
ھ -جرمن شاعری اور فلسفہءفنا
و۔ جرمن شاعری اور امن کی خواہش
ظ -جرمن شاعری اور انسانی الدار
جرمن لوم کے حوالہ سے ان کا ایک مضمون بعنوان
جرمن ایک خودشناس لوم‘ کے نام سے روزنامہ
مشرق لاہور کی اشاعت ٥مئی ١٩٨٨میں شائع ہوا۔
اس سے اندازہ ہوتا کہ وہ جرمن لوم کو فکری اعتبار
سے کس لدر اپنے لریب محسوس کرتے تھے۔
اس کے علاوہ بابا جی ممصود حسنی نے مؽربی ادب
میں اٹھنے والی معروؾ تحریکوں کو بھی نظرانداز
نہیں کیا۔ اس حوالہ سے ان کی کتاب تحریکات اردو
ادب میں حسب ذیل ممالے موجود ہیں۔ یہ کتاب ١٩٩٧
میں شائع ہوئی۔
شعور کی رو اور اردو فیکشن
فطرت نگاری اور اردو فیکشن
علامتی تحریک اور اردو شاعری
امیجزم اور اردو شاعری
ڈاڈا ازم اور اردو شاعری
سریلزم اور اردو شاعری
نئی دنیا اور رومانی تحریک
وجودیت ایک فلسفہ ایک تحریک
ساختیات کے حوالہ سے باباجی نے بہت کام کیا ہے۔
دو ممالے ان کے پی ایچ ڈی کے ممالہ میں موجود ہیں
جب کہ ایک ممالہ ان کی کتاب۔۔۔۔۔زبان ؼالب کا لسانی و
ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں موجود ہے۔ ممالہ پی ایچ ڈی
اور
کتاب۔۔۔۔۔زبان ؼالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔
میں نشانیات ؼالب کا ساختیاتی مطالعہ بھی پیش کیا
گیا ہے۔
حضرت بلھے شاہ لصوری کا اردو کلام علیحدہ کرتے
ہوئےانہوں نے حضرت بلھے شاہ لصوری کی زبان کا
لسانی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کے اس مطالعے کو
ڈاکٹر محمد امین نے کسی شاعر کا بالاعدہ پہلا ساختیاتی
مطالعہ لرار دیا ہے۔
اردو شعر -فکری و لسانی رویے ١٩٩٧ص ١١٥
باباجی ممصود حسنی کی کتاب اردو میں نئی نظم
مؽربی شاعری کے تناظر میں للم بند ہوئی۔ اس میں
ایک طرح سے مؽربی نظم اور اردو نظم کا تمابلی
مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی یہ کتاب مئی ١٩٩٣
میں شائع ہوئی۔
منیرالدین احمد ایک اردو افسانہ نگار ہیں۔ ان کے
افسانوں کی زبان اردو ہے لیکن مواد یہاں کی
معاشرت سے متعلك نہیں ہے۔ کردار ماحول مکالمے
نمطہءنظر وؼیرہ لطعی الگ تر ہیں۔ اس ضمن میں
باباجی نے منیر کا حوالہ بھی کوڈ کیا ہے جو کتاب
کے پیش لفظ میں موجود ہے۔ منیر کا کہنا ہے :اردو
میں لکھے جانے والے یہ جرمن افسانے ہیں جو
جرمن روایت کے تحت لکھے گئے ہیں۔ گویا سب کچھ
جرمن ہے۔ منیرالدین احمد کے افسانوں سے متعلك
باباجی کی کتاب۔۔۔۔منیرالدین احمد کے افسانے -تنمیدی
جائزہ ١٩٩٥میں شائع ہوئی۔ ابتدا میں منیرالدین احمد
کے دس نمائندہ افسانوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔
اس کے بعد تین عنوان لائم کئےگئے ہیں
منیر کے چند افسانوی کردار
منیر کے افسانوں میں ثمافتی عکاسی
منیر اپنے افسانوں میں
منیرالدین احمد کےافسانوں کا مطالعہ گویا جرمن
افسانوں کا مطالعہ ہے۔
باباجی کی ان کاوش ہا کے متعلك معروؾ اسکالر
ڈاکٹر سعادت سعید کا کہنا ہے :ممصود حسنی نے
معاصر مؽرب کے نظریاتی تنمیدی جوہروں سے گہری
شناسائی رکھنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس پس منظر
میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ادب شناسی کے حوالے
سے مشرق و مؽرب کی تفریك کو کار عبث جانتے
ہیں۔ نئی مؽربی تنمید کے پس پشت جو عوامل کار
فرما ہیں ان کا بھی انھیں بخوبی اندازہ ہے۔ یوں انہوں
نے پوسٹ کلونیل یا مابعد نوآبادیاتی تنمید کے
میکانکی رویوں سے نسبت رکھنے سے زیادہ اپنے
مشرلی علم بیان کی سحر انگیریوں پر توجہ دی ہے۔
اس تناظر میں ممصود حسنی کی تاثراتی اور اظہاری
تنمید کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جس میں ان
کے شعری و ادبی ذوق کے عکسی مظاہرے موجود
ہیں۔ اردو نیٹ جاپان‘ ٧جنوری ٢٠١٤
ان کے اس نوعیت کے مطلعے سےمتعلك بہت سے
اہل للم نے للم اٹھایا۔ چند ایک اندراج کر رہا ہونعلی
دیپک لزلباش
آشا پربھات
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری
ڈاکٹر ابوسعید نورالدین
ادیب سہیل
پروفیسرامجد علی شاکر
ڈاکٹر بیدل حیدری
پروفیسر رب نواز مائل
پروفیسر حفیظ صدیمی
ڈاکٹر سعادت سعید
شاہد حنائی
ڈاکٹر صابرآفالی
ڈاکٹر صادق جنجوعہ
ڈاکٹر لاسم دہلوی‘ دہلی
پروفیسر نیامت علی
ڈاکٹر مظفر عباس
ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمن
ندیم شعیب
ڈاکٹر وفا راشدی
ڈاکٹر ولار احمد رضوی
پروفیسر یونس حسن
درج بالا تفصیلات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں
کہ باباجی ممصود حسنی اپنی تحمیمی اور تنمیدی
بصیرت کے سبب ہمہ ولت مختلؾ ادبی کروں کے
نمائندہ حرؾ کار ہیں۔ ہر کرے میں ان کی ایک شناخت
وجود پذیر ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں انہیں ادب کی دنیا
کا لیجنڈ لرار دینا‘ کسی بھی حوالہ سے ؼلط نہ ہو گا۔
آتے کل کو ان کی ادبی شناخت کے لیے مروجہ اور
مستعمل پیمانوں سے انحراؾ کرنا پڑے گا۔
فرہنگ ؼالب ایک نادر مخطوطہ
از پروفیسر یونس حسن
ڈاکٹر ممصود حسنی عصر حاضر کے ایک نامور ؼالب
شناس ہیں۔ ؼالب کی لسانیات پر ان کی متعدد کتابیں
چھپ چکی ہیں۔ جناب لطیؾ اشعر ان پر اس حوالہ
سے ایم فل سطح کا تحمیمی ممالہ بھی رلم کر رہے
ہیں۔ ڈاکٹر ممصود حسنی نے لفظیات ؼالب کے تہذیبی‘
تمدنی‘ اصطلاحی‘ ساختیاتی اور لسانیاتی پہلووں پر
نہایت جامع اور ولع کام کیا ہے۔ ان کا کام اپنی نوعیت
کا منفرد اور جداگانہ کام ہے۔ ابھی تک ؼالب کی
لسانیات پر تحمیمی کام دیکھنے میں نہیں آیا۔ ان کے
کام کی انفرادیت اس حوالے سے بھی ہے کہ آج تک
ؼالب کی تشریحات کے حوالہ سے ہی کام ہوا ہے
جبکہ ؼالب کی لسانیات پر ابھی تک کسی نے کام نہیں
کیا۔
لسانیات ؼالب پر ان کا ایک نادر مخطوطہ۔۔۔۔فرہنگ
ؼالب۔۔۔۔ بھی ہے۔ یہ مخطوطہ فرہنگ سے زیادہ لؽات
ؼالب ہے۔ اس مخطوطے کے حوالہ سے لفظات ؼالب
کی تفہیم میں شارح کو کئی نئے گوشے ملتے ہیں اور
وہ تفہیم میں زیادہ آسانی محسوس کر سکتا ہے۔ ؼالب
کے ہاں الفظ کا استعمال روایت سے لطعی ہٹ کر ہوا
ہے۔ روایتی اور مستعمل مفاہیم میں اشعار ؼالب کی
تفہیم ممکن ہی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ لؽات بھی
عجب ڈھنگ سے ترتیب دی ہے۔ لفظ کو عہد ؼالب
سے پہلے‘ عہد ؼالب اور عہد ؼالب کے بعد تک
دیکھا ہے۔ ان کے نزدیک ؼالب شاعر فردا ہے۔ لفظ
کے مفاہیم اردو اصناؾ شعر میں بھی تلاش کیے گیے
ہیں۔ یہاں تک کہ جدید صنؾ شعر ہائیکو اور فلمی
شاعری کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ امکانی معنی
بھی درج کر دیے گیے ہیں۔
اس مخطوطے کے مطالعہ سے ڈاکٹر ممصود حسنی
کی لفظوں کے باب میں گہری کھوج اور تلاش کا پتا
جلتا ہے۔ اس تلاش کے سفر میں ان کی ریاضت‘ مؽز
ماری‘ لگن اور سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے
لفظ کی تفہیم کے لیے‘ اردو کی تمام شعری اصناؾ کو
کھنگال ڈالا ہے۔ ایک ایک لفظ کے درجنوں اسناد کے
ساتھ معنی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ماضی سے تادم
تحریر شعرا کے کلام سے استفادہ کیا گیا ہے۔ گویا لفظ
کے مفاہیم کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔
اس نادر مخطوطے کا سرسری جائزہ بھی اس جانب
توجہ مبذول کراتا ہے کہ ؼالب کو محض سطعی انداز
سے نہ دیکھیں۔ اس کے کلام کی تفہیم سرسری
مطالعے سے ہاتھ آنے کی نہیں۔ اسے سمجھنے کے
لیے سنجیدہ ؼوروفکر کرنا پڑتا ہے۔ پروفیسر حسنی
کی یہ کاوش فکر و تلاش اسی امر کی عملی دلیل ہے۔
انہوں ؼالب کے لاری کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے
لیے اپنی سی جو کوششیں کی ہیں وہ بلاشبہ لایك
تحسین ہیں۔
ماضی میں ؼالب پر بڑا کام ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ
کہ وہ آج بھی ادبی حلموں میں تشریح طلب مصرعے
کا درجہ رکھتا ہے۔ تشنگی کی کیفیت میں ہرچند اضافہ
ہی ہوا ہے۔ اس صورت حال کے تحت بڑے وثوق سے
کہا جا سکتا ہے کہ ؼالب مستمبل لریب و بعید میں
اپنی ضرورت اور اہمیت نہیں کھوئے گا یا اس پر
ہونے والے کام کو حتمی لرار نہیں دے دیا جائے گا۔
جہاں تفہیم ؼالب کی ضرورت بالی رہے گی وہاں ڈاکٹر
ممصود حسنی کی فرہنگ ؼالب کو بنیادی ماخذ کا
درجہ بھی حاصل رہے گا۔ اسے تفہیم ؼالب کی ذیل
میں نظر انداز کرنے سے ادھورہ پن محسوس کیا جاتا
رہے گا۔
اس مخطوطے کی اشاعت کی جانب توجہ دینا ؼالب
فہمی کے لیے ازبس ضروری محسوس ہوتا ہے۔ جب
تک یہ مخطوطہ چھپ کر منظر عام پر نہیں آ جاتا
ؼالب شناسی تشنگی کا شکار رہے گی۔ لوگوں تک
اس میں موجود گوشوں کا پہنچنا ؼالب شناسی کا
تماضا ہے کیونکہ جب تک یہ نادر مخطوطہ چھپ کر
سامنے نہیں آ جاتا اس کی اہمیت اور ضرورت کا
اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ یہ بھی کہ ؼالب کے حوالہ
سے پروفیسر حسنی کی لسانی بصیرت کا اندازہ نہیں
ہو سکے گا۔ وہ گویا لسانیات ؼالب پر کام کرنے والوں
میں نمش اول کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ لؽت آ سے
شروع ہو کر لفظ یگانہ کی معنوی تفہیم تک جاتی ہے۔
ممصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ
محبوب عالم --۔۔ لصور
پروفیسر ممصود حسنی ملکی اور بین الاالوامی سطح
پر اپنی الگ سے شناخت رکھتے ہیں۔ تخلیمی میدان
میں ان کی شخصیت کثیرالجہتی ہے۔ یہ ہی صورت
تحمیك و تنمید کے میدان کی ہے۔ نثر ہی نہیں‘ شاعری
کے میدان میں بھی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں
نے طالب علمی کے ابتدائی دنوں میں ہی شعر کہنا
شروع کر دیے۔ ان کی ١٩٦٥کی شاعری دستیاب
ہوئی ہے۔ اس ولت وہ جماعت ہشتم کے طالب علم
تھے۔ بطور نمونہ ابتدائی دور کے چند شعر ملاحظہ
:کریں
پھوٹا ناسور بن کرزخم جگر
سزا ملی مجھے گناہ کئے بؽیر
٢٥مئی ١٩٦٥
آس کے دیپ جلانے نکلو
جاگ کر اب جگانے نکلو
٢٩اپریل ١٩٦٦
زخم کھا کر جو زخم کھانے کی رکھے ہوش
انداز اس کے تڑپنے پھڑکنے کا ذرا دیکھ
٣فروری ١٩٦٧
ہر صدؾ کی لسمت میں گوہر کہاں
ہزار پرند میں‘ اک شہباز ہوتا ہے
٢٧جون ١٩٦٨
عریاں پڑی ہے لاش حیا بے گور وکفن
لوگ لیتے ہیں گل‘ گلستاں رہے نہ رہے
٢٥اکتوبر ١٩٦٩
مولاں کو ہو گی جنت سے محبت زاہد
بار ہا گزریں گے دشت پرخار سے ہم
٥مارچ ١٩٧٠
١٩٧٠میں لکھی گئی یہ نظم بھی بطور نمونہ ملاحظہ
:ہو
مجھے اب
میں اپنی تلاش میں تھا
گلاب سے انگارے نکلے
خوشبو سے شرارے اٹھے
‘میرا چہرا
کوئی لے گیا
چوڑیاں مجھے دے گیا
چوڑیوں کی کھنک میں
مجھے اب
بےچہرہ جیون
جینا ہے
اس نمونہء کلام سے ان کے فکری اور تخلیمی سفر کا
اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے ہاں مجازی عشك و
محبت شجر منوعہ سے لگتے ہیں۔ پروفیسر ممصود
حسنی کے والد سید ؼلام حضور پنجابی صوفی شاعر
تھے۔ ان کے دادا سید علی احمد پنجابی اردو اور
فارسی کے شاعر تھے۔ یہ سلسلہ اس سے پیچھے
تک جاتا ہے۔ پروفیسر موصوؾ کے پاس اپنے دادا کا
کلام مخطوطوں کی شکل میں موجود ہے۔ گویا یہ
شوق انہیں وراثت میں ملا ہے۔ وہ اردو کے علاوہ
انگریزی پنجابی اور پوٹھوہاری میں بھی کہتے رہے
ہیں۔
ان کے کلام میں ردعملی کی سی صورت ہر سطح پر
ؼالب رہتی ہے۔ چلتے چلتے ناصحانہ اور صوفیانہ ٹچ
ضرور دے جاتے ہیں۔ ان کے کلام میں سیکڑوں
مؽربی مشرلی اسلامی اور ہندی تلمیحات پڑھنے کو
ملتی ہیں۔ ہر تلمیح کا بڑا برمحل استعمال ہوا ہے۔ یہ
تلمیحات بین الاالومی تناطر میں استعمال ہوئی ہیں۔
پروفیسر علی حسن چوہان ان کی مؽربی تلمیحات پر
بھرپور تحمیمی ممالہ بھی تحریر کر چکے ہیں۔
١٩٩٣میں ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے بہ عنوان۔۔۔۔۔۔
ممصود حسنی کی شاعری‘ تنمیدی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ شائع
کی۔ ممصود حسنی کی شاعری پر مشتمل تین کتب
منصہءشہود پر آ چکی ہیں۔
سپنے اگلے پہر کے نثری ہائیکو
اوٹ سے نثری نظمیں یہ مجموعہ دو بار شائع ہوا۔
سورج کو روک لو نثری ؼزلیں
کاجل ابھی پھیلا نہیں اشاعت کے مراحل میں ہے۔
اس کے علاوہ بھی ان کا کلام رسائل میں شائع ہوتا
رہا ہے۔ ان کا بہت سارا کلام انٹرنیٹ کی مختلؾ ویب
سائیٹس پر پڑھنے کو ملتا ہے۔ آمنہ رانی ان کی
نظموں کو ڈازائین کر رہی ہیں۔ جو ان کی شاعری کی
پذیرائی میں خوب صورت اضافہ لرار دیا جا سکتا ہے۔
ممصود حسنی کی شاعری کے مختلؾ زبانوں میں
تراجم بھی ہوئے۔
پروفیسر امجد علی شاکر نے۔۔۔۔۔۔ اوٹ سے۔۔۔۔۔۔۔ کی
نظموں کو پنجابی روپ دیا۔
بلدیو مرزا نے ان کے ہائیکو کا انگریزی میں ترجمہ
کیا‘ جو سکائی لارک میں شائع ہوا۔
نصرالله صابر مرحوم نے ان کے ہائیکو کا پنجابی میں
ترجمہ کیا۔
مہر کاچیلوی مرحوم نے ان کے ہائیکو کا سندھی میں
ترجمہ کیا۔
ڈاکٹر اسلم ثالب مالیر کوٹلہ‘ بھارت نے ان کے ہائیکو
کا گرمکھی میں ترجمہ کیا۔
عالمی رنگ ادب کراچی نے پورا مجموعہ ۔۔۔۔۔۔۔ سپنے
اگلے پہر کے۔۔۔۔۔۔۔ کو شاعر علی شاعر کے مضمون
کے ساتھ شائع کیا۔
پروفیسر نیامت علی نے ان کی انگریزی شاعری پر
ایم فل سطح کا ممالہ تحریر کیا۔
اردو ادب کے جن نالدین نے ان کی شاعری کو خراج
تحسین پیش کیا‘ اس کی میسر تفصیل کچھ یوں ہے
ڈاکٹر آؼا سہیل
آفتاب احمد مشك ایم فل اردو
ڈاکٹر ابو سعید نور الدین
احمد ریاض نسیم
ڈاکٹر اسلم ثالب
اسلم طاہر
ڈاکٹر احمد رفیع ندیم
احمد ندیم لاسمی
ڈاکٹر اختر شمار
ڈاکٹر اسعد گیلانی
اسماعیل اعجاز
اشرؾ پال
اطہر ناسک
اکبر کاظمی
پروفیسر اکرام ہوشیار پوری
ایاز لیصر
ڈاکٹر بیدل حیدری
پروفیسر تاج پیامی
تنویر عباسی
جمشید مسرور
ڈاکٹر ہومیو ریاض انجم
خواجہ ؼضنفر ندیم
ڈاکٹر فرمان فتح پوری
ڈاکٹر صابر آفالی
ڈاکٹر صادق جنجوعہ
صفدر حسین برق
ضیؽم رضوی
طفیل ابن گل
ڈاکٹر ظہور احمد چودھری
عباس تابش
ڈاکٹر عبدالله لاضی
علی اکبر گیلانی
پروفیسر علی حسن چوہان
ڈاکٹر عطاالرحمن
فیصل فارانی
کفیل احمد
ڈاکٹر گوہر نوشاہی
ڈاکٹر مبارک احمد
محبوب عالم
مشیر کاظمی
ڈاکٹر محمد امین
پرفیسر محمد رضا مدنی
مہر افروز کاٹھیاواڑی
مہر کاچیلوی
ڈاکٹر منیرالدین احمد
پروفیسر نیامت علی
ندیم شعیب
ڈاکٹر وزیر آؼا
ڈاکٹر وفا راشدی
ڈاکٹر ولار احمد رضوی
وی بی جی
یوسؾ عالمگیرین
پروفیسر یونس حسن
ان نالدین نے متوازن انداز میں حسنی کی شاعری پر
اظہار خیال کیا ہے۔ ان حضرات گرامی کےعلاوہ محمد
اسلم طاہر نے ممصود حسنی کی شخضیت ادبی خدمات
کے عنوان سے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے
ایم فل کا مملہ تحریر کیا جس میں ان کی شاعری کے
متعلك باب موجود ہے۔ رالم کے ایم فل کے ممالہ۔۔۔۔۔۔
لصور کی علمی و ادبی روایت۔۔۔۔۔۔ میں حسنی کی
شاعری پر رائے موجود ہے۔ ۔
:ان کی شاعری پر چند اہل للم کی آراء ملاحظہ ہوں
جناب محترم ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب
آپ کا یہ کلام پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ
جینویں کسی نے آکر دستک دینڑ کے بجائے ُکسھن
ماریا ،وجا جا کے ٹھا کرکے بڑا ای سواد آیا ،کیا ای
بات ہے ہماری طرؾ سے ایس سوہنی تے من موہنی
تحریر سے فیض یاب فرمانڑ کے واسطے چوہلیاں پرھ
پرھ داد پیش ہےگی
تواڈا چاہنے والا 1
اسماعیل اعجاز
:ڈاکٹر بیدل حیدری کا کہنا ہے
ممصود حسنی کی نثری ؼزلیں موضوع کے اعتبار
سے کتنی اچھوتی ہیں‘ لہجے کی کاٹ اور طنز کی
گہرائی کا کیا معیار ہے‘ لاری کیا محسوس کرتا ہے‘
استعارے اور علامتیں کتنے خوب صورت انداز میں
آئی ہیں۔ مستمبل میں اتنی فرصت کسے ہو گی کہ
فرسودہ طویل ؼزلوں اور نظموں کو پڑھے۔ اگلی
صدی تو ممصود حسنی جیسے مختصر اور پراثر شعر
گو کی صدی ہے۔
........................
ڈاکٹر عطاءالرحمن بھی اسی مجموعے پر یوں رلم
:طراز ہیں
ان کی سبھی نظمیں خوب صورت ہیں جن کے بھنور
میں کھو کر انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے
بےخبر ہو جاتا ہے لیکن لتل‘ ہم کب آزاد ہیں‘ آسمان
نکھر گیا ہے‘ میں نے دیکھا۔۔۔۔ خوب ترین نظمیں ہیں
جن میں انسانی درندگی‘فرعونیت‘ ظلم و جبر‘
استبدادیت‘ بےبسی و بچارگی‘ آہیں اور سسکیاں
ؼرض اک آتش فشاں پنہاں ہے جو اگر پھٹتا ہے تو
اس کا لاوا راہ میں مزاحم ہر شے کو جلا کر خاکستر
کر ڈالتا ہے۔
.............................
ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔۔۔۔اوٹ سے۔۔۔۔ پراپنی رائے کچھ
:یوں دیتے ہیں
یوں تو اس مجموعے کی ساری نظمیں خوب نہیں‘
خوب تر ہیں لیکن ۔۔۔۔ وہ لفظ کہاں اور کدھر ہے‘
سورج دوزخی ہو گیا تھا‘ فیکٹری کا دھواں‘ ہم کب
آزاد ہیں‘ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ کاش یہ نظمیں
باشعور لارئین تک پہنچیں اور ان میں دہکتے ہوئے
خواب شرمندہءتعبیر ہوں۔
.............................
واہ ...ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ہمارے معاشرے کے اس
نوحے کو بہت عمدگی سے بیان کیا ہے
باپ کی بے حسی اور
جنسی تسکین کا بین
بہت کم الفاظ میں آپ نے اشارہ دیا ہے کہ لصور
صرؾ معاشرے یا اربا ِب اختیار کا نہیں ہے بلکہ اس
جرم میں وہ لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جو اپنے
وسائل کو دیکھے بنأ ہی اپنی نفسانی خواہشات کا
گھوڑا سرپٹ سرپٹ دوڑائے چلے جاتے ہیں اور ساتھ
میں اپنی (مذہبی) جاہلیت کی وجہ سے بچوں کی ایک
لطار کھڑی کر دیتے ہیں2 -
فیصل فارانی
.................................
جناب ممصود حسنی صاحب سلام مسنون
واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ آپ نے چہرہ
کو گرد سے صاؾ کرنے کو کہا ہے مگر حمیمت یہ
ہے کہ ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو
صاؾ کرنے کی نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی
ضرورت ہے کہ جس سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ
ہمارا اصلی اور بے مثالی چہرہ سامنے ائے۔ 3
طالب دعا
کفیل احمد
......................................
ُمحترم جناب ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب! اسلام علیکم
آپ کی نظموں پر آج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے اِنھیں
بُہت ہی ِفکر انگیز اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں
بُہت پسند آئی ہے۔ اگرچہ ہم آپ کے ِعلم کے ُممابلے
میں شائید اِسے اُن معنوں تک سمجھ نہ پائے ہوں۔
جہاں تک ہم سمجھے ہیں آپ ِاس میں ِانسان سے
ُمخا ِطب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اِنسان صرؾ لُدرت
کی عطا کی ہوئی چیزوں سے ُکچھ حاصل کرتا ہے۔
اگر اِس سے سب ُکچھ چھین لیا جائے تو ِانسان کے
اپنے پاس ُکچھ بھی نہیں ،فمط مٹی کا ڈھیر ہے۔ اِنسان
کو لُدرت کی تراشی چیزیں بُہت ُکچھ دیتی ہیں ،لیکن
اِنسان ِان مخلولات کو ُکچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ
جبرائیل والی بات ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی
کم ِعلمی پر نادم ہیں۔
اگر ہم سمجھنے میں ُکلی یا ُجزوی طور پر ؼلط ہوں
تو مہربانی فرما کر ِاس ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے
گا۔ ہمارا ِعلم و ادراک فمط اِتنا ہی ہےِ ،جس پر ہم
مجبور ہیں اور شرمسار بھی۔ 4
طال ِب دُعا
وی بی جی
درج بالا آرء کے تناظر میں برملا کہا جا سکتا ہے کہ
پروفیسر ممصود حسنی کی شاعری ناصرؾ اپنا الگ
سے ممام رکھتی ہے بلکہ اپنے عہد کے سماجی‘
معاشی اور سیاسی حالات کی منہ بولتی گواہی کا درجہ
رکھتی ہے۔ صوفی مزاج ہونے کے سبب ایک مثالی
معاشرت کی ہر موڑ پر خواہش نمایاں نظر آتی ہے۔
..................................................
......................................
1.
http://www.bazm.urduanjuman.com/i