The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2015-11-21 08:51:08

3_2015_11_13_16_02_40_921

3_2015_11_13_16_02_40_921

‫مندرجات‬

‫ڈاکٹر ممصود حسنی بطور مترجم‬
‫ڈاکٹر ممصود حسنی بطور ماہر لسانیات‬
‫ممصود حسنی اور برصؽیر کا مضافاتی اور مؽربی‬

‫ادب‬
‫فرہنگ ؼالب ایک نادر مخطوطہ‬
‫ممصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ‬
‫ڈاکٹر ممصود حسنی بطور ایک اسلامی مفکر اور‬

‫اسکالر‬
‫ممصود حسنی اور سائینسی ادب‬
‫ممصود حسنی کے تنمیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی‬

‫مطالعہ‬
‫ممصود حسنی کی مزاح نگاری‘ ایک اجمالی جائزہ‬
‫مزید ٹاپکز جن پر اعلی سطح کی ڈگری کا کام ہو‬

‫سکتا ہے‬

‫ڈاکٹر ممصود حسنی بطور مترجم‬

‫از پروفیسر یونس حسن‬

‫ڈاکٹر ممصود حسنی ایک نامور محمك‘ نماد اور ماہر‬
‫لسانیات ہونے کے ساتھ ایک کامیاب مترجم بھی ہیں۔‬
‫انہوں نے جن فن پاروں کا ترجمہ کیا ہے ان پر طبع‬

‫زاد ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ ان کے تراجم سادگی‬
‫سلاست اور رونی کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ایک کامیاب‬
‫مترجم کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اصل کے‬
‫مفاہیم کو خوب ہضم کرکے ترجمے کا فریضہ انجام‬
‫دے تا کہ ترجمہ اصل کے لریب تر ہو۔ موصوؾ کے‬
‫تراجم کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اصل کی‬
‫تفہیم پر دسترس حاصل کرنے کے بعد ہی یہ کام کیا‬

‫ہے۔‬

‫ان کے تراجم روایت سے ہٹ کر ہیں۔ یہاں تک کہ‬
‫متعلمہ فن پارے کی ہیئت سے بھی تجاوز کیا ہے۔ اس‬

‫کی مثال رباعیات کا سہ مصرعی ترجمہ ہے جسے‬

‫برصؽیر کے نامور علما نے پسند کیا اور حسنی‬
‫صاحب کو اس کام پر داد بھی دی۔ ان کے تراجم میں‬
‫ایک ندرت اور چاشنی پائی جاتی ہے۔ ان کے تراجم کو‬
‫جہاں ایک نئی جہت عطا ہوئی ہے وہاں الفاظ پر ان‬

‫کی ؼیر معمولی گرفت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔‬

‫حسنی صاحب کے تراجم کے مطالعہ سے یہ بھی کھلتا‬
‫ہے کہ مترجم لفظ کے نئے نئے استعمالات سے آگاہ‬
‫ہے۔ ڈاکٹر ابو سعید نورالدین نے ان تراجم پر بات‬

‫‪:‬کرتے ہوئے درست کہا تھا‬

‫والعی تعجب ہوتا ہے۔ آپ نے رباعیات کا اردو ترجمہ‬
‫چہار مصرعی کی بجائے سہ مصرعی میں اتنی‬
‫کامیابی کے ساتھ کیسے کیا۔ یہ آپ کا کمال ہے۔‬

‫ترجمے کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ مترجم کی اس میں‬
‫مکمل دلچسپی ہو ورنہ اس کی ساری محنت اکارت‬

‫چلی جائے گی۔ حسنی صاحب نے ترجمے کا کام پوری‬
‫دلچسپی اور بھرپور کمٹ منٹ کے ساتھ کیا ہے۔ یہی‬
‫وجہ ہے کہ ان کے تراجم اصل کی بھرپور نمائندگی‬
‫کرتے ہیں۔ ان کے رباعیات خیام کے تراجم کے حوالہ‬

‫‪:‬سے پروفیسر کلیم ضیا نے کہا تھا‬

‫سہ مصرعی ترجمے ماشاءالله بہت عمدہ ہیں۔ ہر‬
‫مصرعہ رواں ہے۔ ابتددائی دونوں مصرعے پڑھ پڑھ‬
‫لینے کے بعد مفہوم اس ولت تک واضح اور مکمل‬

‫نہیں ہو سکتا جب تک کہ مصرع سوئم پڑھ نہ لیا‬
‫جائے۔ یہی خوبی رباعی میں بھی ہے کہ چوتھا مصرع‬

‫‪:‬لفل کا کام کرتا ہے۔‬

‫ان کے تراجم کا یہی کمال نہیں کہ وہ اصل کے مطابك‬
‫ہیں بلکہ ان میں جازبیت اور حسن آفرینی کو بھی‬
‫شامل کیا گیا ہے۔ بڑھتے جائیں طبیعت بوجھل نہیں‬
‫ہوتی۔ ان کے تراجم میں پایا جانے والا فطری بہاؤ‬
‫لاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ شاید اسی بنیاد‬
‫‪:‬پر ڈاکٹر عبدالموی ضیاء نے کہا تھا‬

‫حسنی صاحب ماہر تیراک اور ؼوطہ خور ہیں ان کے‬
‫سہ مصرعوں میں اثرآفرینی ہے‘ روانی ہے‘ حسن‬
‫بیان ہے‘ تازہ کاری اور طرحداری ہے۔ لاری کو مفہوم‬
‫سمجھنے میں کوئی دلت محسوس نہیں ہوتی بلکہ‬

‫لطؾ آتا ہے۔‬

‫گویا ان کا مخصوص اسلوب تکلم اور طرز ادا ترجمے‬
‫کو کہیں بھی خشک اور بےمزہ نہیں ہونے دیتا بلکہ‬
‫اس کی اسلوبی اور معنوی سطح برلرار رہتی ہے۔‬
‫انہوں نے عمر خیام کی چوراسی رباعیات کا اردو‬
‫ترجمہ کیا۔ یہی نہیں اپنی کتاب۔۔۔۔۔ شعریات خیام۔۔۔۔۔ میں‬
‫خیام کی سوانح کے ساتھ ساتھ چار ابواب میں ان کا‬

‫تنمیدی و لسانی جائزہ بھی پیش کیا۔‬

‫پچاس ترکی نظموں کا اردو ترجمہ کیا اس ترجمے کو‬
‫ڈاکٹر نوریہ بلیک لونیہ یونیورسٹی نے پسند کیا۔‬
‫یہ ترجمہ ۔۔۔۔۔ستارے بنتی آنکھیں۔۔۔۔۔ کے نام سے‬
‫کتابی شکل میں پیش کیا گیا۔‬

‫انہوں نے فینگ سیو فینگ کے کلام پر تنمیدی گفتگو‬
‫کی۔ ان کا یہ تنمیدی مضمون۔۔۔۔۔ فینگ سیو فینگ‬

‫جذبوں کا شاعر۔۔۔۔۔۔ کے عنوان سے روزنامہ نوائے‬
‫ولت لاہور کی اشاعت اپریل ‪ ١٩٨٨ ‘٧‬میں شائع ہوا۔‬

‫اس کی نظموں کے ترجمے بھی پیش کیے۔‬

‫اس کے علاوہ معروؾ انگریزی شاعر ولیم بلیک اور‬

‫ہنری لانگ فیلو کی نظموں کا بھی اردو ترجمہ کیا۔ ان‬
‫کے یہ تراجم تجدید نو میں شائع ہوئے۔‬

‫لراتہ العین طاہرہ کی ؼزلوں کا پنجابی اور انگریزی‬
‫آزاد ترجمہ کیا۔‬

‫سو کے لریب ؼالب کے اشعار کا پنجابی ترجمہ کیا۔ ان‬
‫کے یہ تراجم انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔‬

‫ڈاکٹر ممصود حسنی بطور ماہر لسانیات‬

‫پرفیسر یونس حسن‬

‫ڈاکٹر ممصود حسنی ایک منفرد اور نامور ماہر‬
‫لسانیات ہیں۔ ان کے درجنوں ممالے رسائل و جرائد‬
‫اور انٹر نیٹ کی مختلؾ ویب سائٹس پر پڑھنے کو‬
‫ملتے ہیں۔ ؼیر مطبوعہ ممالات دیکھنے کا مجھے‬
‫اتفاق ہوا ہے۔ ان ممالات پر سرسری نظر ڈالنے سے‬
‫بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ لسانیات میں ؼیر‬

‫معمولی لدرت رکھتے ہیں۔ ان ممالات میں موضوعات‬
‫کا تنوع اور رنگا رنگی ملتی ہے۔ رالم اپنے بےلاگ‬
‫مطالعے اور جائزے سے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ‬
‫یہ ممالات لسانیات کے باب میں ایک اہم اضافہ ہیں۔‬
‫ان ممالات میں زبان کے جو موضوعات زیر بحث لائے‬
‫گئے ہیں ان میں آوازوں کا نظام بڑی خصوصیت کا‬
‫حامل ہے۔ زبانوں میں آوازیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت‬
‫رکھتی ہیں۔ الفاظ کی تشکیل میں آوازیں کلیدی کردار‬
‫کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے لفظیات‘‬
‫صوتیات‘ معنویات‘ ہیت‘ ساخت‘ گرائمر اور بناوٹ کو‬
‫بھی موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے لفظوں کی سماجیات‬

‫اور نفسیات پر بھی للم اٹھایا ہے۔‬

‫ڈاکٹر صاحب نے ساختیات اور پس ساختیات پر بھی‬
‫نمایاں کام کیا ہے۔ انہوں باباجی بلھے شاہ صاحب کا‬
‫لسانی مطالعہ کیا ہے جسے ڈاکٹر محمد امین نے کسی‬
‫شاعر کے کلام کا پہلا ساختیاتی مطالعہ لرار دیا ہے۔‬
‫مرزا ؼالب کی لفظیات کےساختیاتی مطالعہ کے ساتھ‬
‫ساتھ ساختیات پر بھی تین ممالے تحریر کیے ہیں۔‬
‫ان کےاس کام سے کئی لسانی اور ساختیاتی جہتیں‬

‫سامنے آتی ہیں۔‬

‫مزید براں ان کے دستیاب ممالات میں زبانوں کے‬
‫وجود میں‘ آنے ترلی کرنے یا بعض الفظ کے متروک‬
‫ہو جانے کے حوالہ سے بھی بہت سا مواد میسر آتا‬
‫ہے۔ اردو زبان کے وہ عاشك ہیں اس لیے وہ کسی‬
‫ممام پر اسے نظرانداز نہیں ہوتی۔ اردو پر گفتگو کے‬
‫دوران اس کی موجودہ صرتحال پر بھی گفتگو کرتے‬

‫ہیں۔‬
‫عربی فارسی اور انگریزی کےاردو پر اثرات کو بھی‬
‫اپنی تحمیك کا حصہ بنایا ہے۔ تمابلی مطالعے کے‬

‫دوران اردو سے مثالیں ضرور پیش کرتے ہیں۔‬

‫انہوں نے جاپانی کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی‬
‫ہے۔ اس کا کچھ حصہ ترجمہ ہو کر اردو نیٹ جاپان پر‬

‫لسطوں میں شائع ہو چکا ہے۔‬

‫ڈاکٹر ممصود حسنی نے اردو کی ذاتی آوازیں اور‬
‫بدیسی آوازوں کے دخول پر بھی گفتگو کی ہے۔ مہاجر‬

‫زبانوں کے الفاظ کا ممامی زبانوں میں دخول اور‬
‫اشکالی اور ان کی معنوی تبدیلی پر بھی گفتگو کی‬
‫ہے۔ وہ بھاری آوازوں کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔‬

‫ؼالب پر ان کے لسانی کام کو دیکھتے ہوئے علامہ‬
‫البال اوپن یونیورسٹی نےمحمد لطیؾ لیکچرار اردو‬
‫پاکپتن کو ایم فل اردو کا ممالہ بعنوان ممصود حسنی‬

‫اور ؼالب شناسی تفویض کیا ہے۔‬

‫ان کے کچھ ممالات کی فہرست درج کر رہا ہوں۔‬
‫مجھے یمین ہے کہ یہ تفصیل لسانیات سے شؽؾ‬
‫رکھنے والوں کے لیے خصوصی دل چسپی کا موجب‬

‫بنے گی۔‬

‫اردو مضامین کی فہرست دستیاب‬

‫اردو ہے جس کا نام ‪١-‬‬
‫لفظ ہند کی کہانی ‪٢-‬‬

‫ہندوی تاریخ اور حمائك کے آئینہ میں ‪٣-‬‬
‫ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود ‪٤-‬‬

‫اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ‪٥-‬‬
‫اردو کی چار آوازوں سے متعلك گفتگو ‪٦-‬‬

‫اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ ‪٧-‬‬
‫اردو میں رسم الخط کا مسلہ ‪٨-‬‬

‫انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات ‪٩-‬‬
‫سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں ‪١٠-‬‬
‫اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک ‪١١-‬‬

‫اردو سائنسی علوم کا اظہار ‪١٢-‬‬
‫لومی ترلی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے ‪١٣-‬‬

‫اردو‘ حدود اور اصلاحی کوششیں ‪١٤-‬‬
‫لدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ‪١٥-‬‬
‫بلھے شاہ کی زبان کا لسانی مطالعہ ‪١٦-‬‬
‫شاہی کی شاعری کا لسانی مطالعہ ‪١٧-‬‬

‫خواجہ درد کے محاورے ‪١٨-‬‬
‫سوامی رام تیرتھ کی اردو شاعری کا لسانی ‪١٩-‬‬

‫مطالعہ‬
‫الفاظ اور ان کا استعمال ‪٢٠-‬‬
‫آوازوں کی ترکیب و تشکیل کے عناصر ‪٢١-‬‬
‫الفاظ کی ترکیب‘ استعمال اور ان کی تفہیم کا ‪٢٢-‬‬

‫مسلہ‬
‫زبانوں کی مشترک آوازیں ‪٢٣-‬‬
‫پاکستان کی زبانوں کی پانچ مخصوص آوازیں ‪٢٤-‬‬
‫عربی زبان کی بنیادی آوازیں ‪٢٥-‬‬
‫عربی کی علامتی آوازیں ‪٢٦-‬‬
‫دوسری بدیسی آوازیں اور عربی کا تبادلی نظام ‪٢٧-‬‬

‫پ کی متبادل عربی آوازیں ‪٢٨-‬‬
‫گ کی متبادل عربی آوازیں ‪٢٩-‬‬
‫چ کی متبادل عربی آوازیں ‪٣٠-‬‬
‫مہاجر اور عربی کی متبادل آوازیں ‪٣١-‬‬
‫بھاری آوازیں اور عربی کے لسانی مسائل ‪٣٢-‬‬
‫چند انگریزی اور عربی کے مترادفات ‪٣٣-‬‬
‫پنجابی اور عربی کا لسانی رشتہ ‪٣٤-‬‬
‫چند انگریزی اور عربی مشترک آوازیں ‪٣٥-‬‬
‫انٹرنیٹ پر عربی میں اظہار خیال کا مسلہ ‪٣٦-‬‬
‫عربی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ‪٣٧-‬‬
‫عربی اور عہد جدید کے لسانی تماضے ‪٣٨-‬‬
‫فارسی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ‪٣٩-‬‬
‫پشتو کی چار مخصوص آوازیں ‪٤٠-‬‬
‫آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی ‪٤١-‬‬
‫انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ‪٤٢-‬‬
‫انگریزی اور اس کے حدود ‪٤٣-‬‬

‫انگریزی آج اور آتا کل ‪٤٤-‬‬
‫تبدیلیاں زبانوں کے لیے وٹامنز کا درجہ رکھتی ‪٤٥-‬‬

‫ہیں‬
‫زبانیں ضرورت اور حالات کی ایجاد ہیں ‪٤٦-‬‬
‫معاون عناصر کے پیش نظر مزید حروؾ کی ‪٤٧-‬‬

‫تشکیل‬
‫برصؽیر میں بدیسیوں کی آمد اور ان کے زبانوں ‪٤٨-‬‬

‫پر اثرات‬
‫کچھ دیسی زبانوں میں آوازوں کا تبادل ‪٤٩-‬‬

‫جاپانی میں مخاطب کرنا ‪٥٠-‬‬
‫جاپانی اور برصؽیر کی لسانی ممثالتیں ‪٥١-‬‬
‫اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ ‪٥٢-‬‬
‫لسانیات کے متعلك کچھ سوال و جواب ‪٥٣-‬‬

‫انگریزی مضامین کی دستیاب فہرست‬

‫‪1- Urdu has a strong expressing‬‬
‫‪power and a sounds system‬‬

‫‪2- Word is to silence instrument of‬‬
‫‪expression‬‬

‫‪3- This is the endless truth‬‬
‫‪4- The words will not remain the‬‬

‫‪same style‬‬
‫‪5- Language experts can produce‬‬

‫‪new letters‬‬

6- Sound sheen is very commen in
the world languages

7- Native speakers are not feel
problem

8- Languages are by the man and for
the man

9- The language is a strong element
of pride for the people

10- Why to learn Urdu under any
language of the world

11- Word is nothing without a
sentence

12- No language remain in one state
13- Expression is much important
one than designates that correct or
wrong writing
14- Student must be has left
liberations in order to express his
ideas

15- Six qualifications are required for
a language

17- Sevevn Senses importence in the
life of a language

18- Whats bad or wrong with it?!
19- No language remains in one state
20. The common compound souds of

language
21- The identitical sounds used in

Urdu
22- Some compound sounds in Urdu

23- Compound sounds in Urdu (2)
24- The idiomatic association of urdu

and english
25- The exchange of sounds in some

vernacular languages
26- The effects of persian on modern

sindhi
27- The similar rules of making

plurals in indigious and
foreign languages

28- The common compounds of
indigious and foreign

languages
29- The trend of droping or adding

sounds
30- The languages are in fact the

result of sounds
31- Urdu and Japanese sound’s

similirties
32- Other languages have a natural

link with Japanese’s
sounds

33- Man does not live in his own land
34- A person is related to the whole

universe
35- Where ever a person
36- Linguistic set up is provided by

poetry
37- How to resolve problems of

native and second language
38- A student must be instigated to

do something himself
39- Languages never die till its two

speakers
40- A language and society don’t

delovp in days
41- Poet can not keep himself aloof

from the universe
42- The words not remain in the same

style
43- Hindustani can be suggested as

man's comunicational language
44- Nothing new has been added in

the alphabets
45- A language teacher can makea lot

for the human society
46- A language teacher would have to

be aware
47- Hiden sounds of alphabet are not

in the books
48- The children are large importence
and sensative resource of the sounds
49- The search of new sounds is not

dificult matter

‫‪50- The strange thought makes an‬‬
‫‪odinary to special one‬‬

‫‪51- For the relevation of expression‬‬
‫‪man collects the words from the‬‬
‫‪different caltivations‬‬

‫‪52- Eevery language sound has has‬‬
‫‪then two prononciations‬‬

‫‪53- Language and living beings‬‬

‫ممصود حسنی اور برصؽیر کا مضافاتی اور مؽربی‬
‫ادب‬

‫محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔ لصور‬

‫پروفیسر ممصود حسنی اردو کے جدید ولدیم شعری و‬
‫نثری ادب کے مطالعہ تک محدود نہیں ہیں۔ انہوں نے‬
‫برصؽیر سے باہر بھی دیکھا ہے۔ ان کے ہاں اس ذیل‬
‫کے مختلؾ ذائمے نظر آتے ہیں۔ وہ ان تمام عوامل کا‬
‫بھی جائزہ لیتے ہیں جو اس کے بنیادی فکر اور زبان‬

‫سے تعلك رکھتے ہیں۔ اس مطالعے کی پانچ صورتیں‬
‫دیکھنے کو ملتی ہیں‬
‫انفرادی ‪١-‬‬
‫مجموعی ‪٢-‬‬
‫تمابلی ‪٣-‬‬
‫رجحانی ‪٣-‬‬

‫تشریحی اور وضاحتی ‪٥-‬‬
‫اردو ادب سے متعلك ان کی خدمات نمایاں اور مختلؾ‬

‫گوشوں پر پھیلی ہوئی ہیں جنھیں اردوادب کے‬
‫نامورمحمك سند پذیرائی عطا کر چکے ہیں۔‬

‫برصؽیر سے باہر کے ادب کے مطلعہ کی دو صورتیں‬
‫ہیں‬

‫ایشیائی شعر وادب‬
‫مؽربی شعر وادب‬

‫ڈیوڈ کوگلٹی نوؾ نمائندہ روسی شاعر ہے۔ اس کی‬
‫شاعری کے مطلعہ کا باباجی ممصود حسنی کے ہاں‬

‫حاصل مطلعہ کچھ یہ ہے‬
‫ڈیوڈ شر کے ممابل خیر کی حمایت کا لائل ہے۔ اس‬

‫کے نزدیک خیر کی حمایت ہی‬
‫حمیمی زندگی ہے۔ خیر کی حمایت کرنے والے بظاہر‬

‫لمبی عمر نہیں پاتے۔ دار ورسن ان کا ممدر ہوتا ہے‬
‫لیکن خیر کی حمایت میں گزرے لحمے ہی تو ابدیت‬

‫سے ہم کنار ہوتے ہیں۔‬
‫شعریات شرق وؼرب ص‪٢٢٧‬‬

‫روس میں ترلی پسندی کے نام سے اٹھنے والی‬
‫تحریک کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس ذیل میں‬
‫ایک بھرپور ممالہ۔۔۔۔۔۔ترلی پسند تحریک۔۔۔۔۔۔ ان کی‬

‫کتاب تحریکات اردو ادب میں شامل ہے۔‬

‫فینگ سیو فینگ چینی زبان کا خوش فکر شاعر ہے۔‬
‫باباجی ممصود حسنی نے ناصرؾ اس کی شاعری کا‬
‫تنمیدی مطالعہ پیش کیا ہے بلکہ اس کی کچھ نظموں‬
‫کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ فینگ سیو فینگ کی شاعری‬

‫کے متعلك ان کا کہنا ہے‬
‫فینگ سیو فینگ کی شاعری کرب ناک لمحوں کی‬
‫عکاس ہے۔ اس کے کلام میں جہاں لہو لہو سسکیاں‬
‫ہیں تو وہاں امید کے بےشمار دیپ بھی جلتے نظرآتے‬

‫ہیں۔‬
‫روزنامہ نوائے ولت لاہور ‪ -٧‬اپریل ‪١٩٨٨‬‬

‫بطور نمونہ ایک نظم کا ترجمہ ملاحظہ ہو‬

‫بد لسمتی‬

‫شاعر‪ :‬فینگ سیو فینگ‬
‫مترجم‪ :‬ممصود حسنی‬

‫میں بد لسمتی پہ اک نظم لکھنے کو تھا‬
‫مری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے‬
‫کاؼذ بھر گیا‬
‫اور میں نے للم نیچے رکھ دیا‬
‫کیا اشکوں سے تر کاؼذ‬
‫لوگوں کو دکھا سکتا تھا؟‬
‫وہ سمجھ پاتے‬
‫یہی تو بد لسمتی ہے‬

‫زائی زی لیو چینی مصور تھا۔ باباجی ممصود حسنی‬
‫کواس کی مصوری نے متاثر کیا۔ انہوں نے اس‬

‫کےتصویری ورک کو لدر کی نظر سے دیکھا اوراسے‬
‫خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا اس کی مصوری سے‬
‫متعلك مضمون رزنامہ مشرق لاہور میں شائع ہوا۔‬

‫چین سے باباجی کی فکری لربت کااندازہ ان کے‬
‫مضمون۔۔۔۔۔چین دوستی علالہ میں مثبت کردار ادا کر‬

‫سکتی ہے۔۔۔۔۔ سے لگایا جا سکتا ہے۔‬
‫یہ مضمون روزنامہ مشرق لاہور ‪ ٩‬اپریل ‪ ١٩٨٨‬کی‬

‫اشاعت میں شامل ہے۔‬

‫صادق ہدایت فارسی کا ناول نگار تھا۔ اس کے ناول۔۔۔۔‬
‫بوؾ کور۔۔۔۔۔ کا مطالعہ پیش کیا۔ ان کا یہ مضمون‬
‫ماہنامہ تفاخر لاہور کے مارچ ‪ ١٩٩١‬کے شمارے‬
‫مینشائع ہوا۔‬

‫فارسی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔۔ تین الساط‬
‫میں اردو نیٹ جاپان پر شائع ہوا۔‬

‫عمر خیام فارسی کے شعری ادب میں نمایاں ممام‬
‫رکھتا ہے۔ باباجی نے اس پر بھرپور لسم کا کام کیا‬

‫ہے۔ یہ کام چھے حصوں پر مشتمل ہے‬
‫عمر خیام سوانح و شخصیت اوراس کا عہد ‪١-‬‬
‫رباعیات خیام کا تنمیدی و تشریحی مطالعہ ‪٢-‬‬

‫رباعیات خیام کے شعری محاسن ‪٣-‬‬
‫عمر خیام کے نظریات واعتمادات ‪٤-‬‬

‫عمر خیام کا فلسفہءوجود ‪٥-‬‬
‫سہ مصرعی اردو ترجمہ رباعیات خیام ‪٦-‬‬

‫ان کے اس ترجمے کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی نامور‬
‫اہل للم نے اپنی رائے کا اظہار کیا‪ -‬مثلا‬
‫ڈاکٹر عبدالموی ضیا کینیڈا‬
‫ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی‬
‫ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی‬

‫ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘ ڈھاکہ‘ بنگلہ دیش‬
‫ڈاکٹراسلم ثالب‘ مالیر کوٹلہ‘ بھارت‬
‫ڈاکٹر اختر علی‬
‫ڈاکٹر وفا راشدی‬
‫ڈاکٹر صابر آفالی‬
‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمنی‬
‫پروفیسر کلیم ضیا‘ بمبئی‘ انڈیا‬
‫پرفیسر رب نواز مائل‬
‫پروفیسراکرام ہوشیار پوری‬
‫پروفیسرامجد علی شاکر‬
‫پروفیسر حسین سحر‬
‫پروفیسر عطاالرحمن‬
‫ڈاکٹر رشید امجد‬

‫ڈاکٹر محمد امین‬
‫علی دیپک لزلباش‬
‫سید نذیر حسین فاضل‬
‫بطور نمونہ ایک رباعی کا ترجمہ ملاحظہ ہو‬

‫وہ زندگی‘ کیا خوب زندگی ہو گی‬
‫مری مٹی سے تعمیر ہو کر‬

‫جام‘ جب مےکدے سے طلوع ہو گا‬

‫بوعلی للندر کا اسی دھرتی سے تعلك تھا۔ باباجی نے‬
‫ان کی مثنوی کا عہد سلاطین کے حوالہ سے مطالعہ‬
‫کیا۔ ان کایہ ممالہ پیام آشنا میں شائع ہوا جو بعد ازاں‬
‫بابا جی کی کتاب ۔۔۔۔۔شعریات شرق وؼرب۔۔۔۔۔۔کا حصہ‬

‫بنا۔‬

‫البال اور علامہ رازی کی فکر۔ کا تمابلی مطالعہ۔۔۔۔۔۔یہ‬
‫ممالہ بابا جی کی محنت وکاوش کا جیتا جاگتا ثبوت‬

‫ہے۔‬
‫یہ ممالہ اردو انجمن اور کئی دوسرے فورمز پر‬

‫موجود ہے۔‬

‫ان کا ایک ممالہ۔۔۔۔۔عربی کے پاکستانی زبانوں پر‬
‫اثرات۔۔۔بڑا شاندار ممالہ ہے اور یہ‬
‫‪www.scribd.com‬‬
‫پر موجود ہے۔‬

‫انہوں نے جاپانی آوازوں کے نظام پر تفصیلی ممالہ‬
‫تحریر کیا۔ اس ممالے کا کچھ حصہ اردو میں بھی‬

‫منتمل کیا۔ اصل ممالہ‬
‫‪www.scribd.com‬‬

‫پر موجود ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تین لسطوں میں‬
‫اردو نیٹ جاپان پر شائع ہوا۔ اس ممالے کی نگرانی‬
‫وؼیرہ پروفیسر ڈاکٹر ماسا آکی اوکا نے کی۔ اس‬
‫ممالے کا اصل کمال یہ ہے کہ جاپانی آوازوں کے ساتھ‬
‫برصؽیر کی آوازوں کے اشتراک کو بھی واضح کیا گیا‬
‫ہے۔ ہر جاپانی آواز کے ساتھ اردو کی آوازوں کا‬
‫موازناتی اوراشتراکی مطالعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔‬

‫مطلعہ کی پیاس انہیں دور مؽرب میں بھی لے گئی۔‬
‫باباجی نے اپنے مطالعہ میں آنے والے اہل للم کی‬

‫فکر کو اپنی آراء کے ساتھ اردو دان طبمے کے‬

‫سامنے بھی پیش کیا۔ اس حوالہ سے باباجی کو کسی‬
‫ایک کرے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں‬

‫نےمؽرب کا مطالعہ ارسطو سے شروع کیا۔۔۔۔ شاعری‬
‫پر ایک عام اور بالموازنہ نظر۔۔۔۔۔ ممالہ ان کی کتاب‬

‫اصول اور جائزے میں شامل ہے۔‬

‫مؽرب کے مطالعہ کے حوالہ سے ان کے درج ذیل‬
‫مضامین لابل ذکر ہیں‬

‫ایلیٹ اور ادب میں روایت کی اہمیت۔۔۔۔۔۔مسودہ‬
‫شیلے کا نظریہءشعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشمولہ شعریات‬

‫شرق وؼرب‬
‫جان کیٹس کا شعور شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات‬

‫شرق وؼرب‬
‫شارل بودلیئر کا شعری شعور۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق‬

‫وؼرب‬
‫شارل بودلیئر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات‬

‫شرق وؼرب‬
‫ژاں پال سارتر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔مشمولہ شعریات‬

‫شرق وؼرب‬
‫کروچے اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات‬

‫شرق وؼرب‬

‫ورڈزورتھ اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات‬
‫شرق و ؼرب‬

‫مؽربی اہل سخن پر بات کرتے ہوئے اردو شعرا کے‬
‫حوالے بھی درج کرتے ہیں۔ اکثر موازناتی صورت پیدا‬
‫ہو جاتی ہے۔ یہ امر بھی ؼالب رہتا ہے کہ اردو شعر‬

‫و ادب مؽرب کے شعر ادب سے زیادہ جان دار اور‬
‫زندگی کے دکھ سکھ کو واضح کرنے میں کامیاب ہے۔‬

‫باباجی ممصود حسنی مؽربی شعر و ادب کا جائزہ لیتے‬
‫ہوئے صرؾ شخصی محاکمے تک محدود نہیں رہتے۔‬
‫وہ مجموعی مطالعہ بھی پیش کرتے ہیں۔ اس ذیل میں‬

‫ان کے یہ ممالے لابل توجہ ہیں‬
‫مؽرب میں تنمید شعر‪------‬مشمولہ شعریات شرق ‪١-‬‬

‫و ؼرب‬
‫ناوریجین شاعری کے فکری و سماجی ‪٢-‬‬
‫زاویے‪------‬مشمولہ شعریات شرق و ؼرب‬
‫شاعری اور مؽرب کے معروؾ نالدین۔۔۔۔۔۔۔۔مسودہ ‪٣-‬‬
‫البال اور مؽربی مفکرین‪---------‬مسودہ ‪٤-‬‬
‫اکبر اور مؽربی تہذیب۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق لاہور ‪٢٦-٢٥‬‬

‫جولائی ‪١٩٩١‬‬
‫اکبر البال اور مؽربی زاویے۔۔۔۔۔ہفت روزہ فروغ‬

‫حیدرآباد ‪ ١٦‬جوائی ‪١٩٩١‬‬
‫شیلے اور زاہدہ صدیمی کی نظمیں۔۔۔۔ ماہنامہ تحریریں‬

‫لاہور دسمبر ‪١٩٩٣‬‬
‫انگریزی اور اردو کا محاورتی اشتراک ۔۔۔۔۔سہ ماہی‬

‫لوح ادب حیدرآباد اپریل تا جون ‪٢٠٠٤‬‬
‫جرمن شاعری کے فکری زاویے ‪٥-‬‬
‫باباجی کی یہ کتاب ‪ ١٩٩٣‬میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب‬

‫سات حصوں پر مشتمل ہے۔‬
‫اس کی تفصیل کچھہ یہ ہے‬
‫ا‪ -‬جرمن شاعری اور فلسفہء جنگ‬
‫ب‪ -‬جرمن شاعری اور تصور انسان‬
‫ج‪ -‬جرمن شاعری کا نظریہء محبت‬
‫د۔ جرمن شاعری کا نظریہءزندگی‬
‫ھ‪ -‬جرمن شاعری اور فلسفہءفنا‬
‫و۔ جرمن شاعری اور امن کی خواہش‬
‫ظ‪ -‬جرمن شاعری اور انسانی الدار‬
‫جرمن لوم کے حوالہ سے ان کا ایک مضمون بعنوان‬
‫جرمن ایک خودشناس لوم‘ کے نام سے روزنامہ‬
‫مشرق لاہور کی اشاعت ‪ ٥‬مئی ‪ ١٩٨٨‬میں شائع ہوا۔‬
‫اس سے اندازہ ہوتا کہ وہ جرمن لوم کو فکری اعتبار‬
‫سے کس لدر اپنے لریب محسوس کرتے تھے۔‬

‫اس کے علاوہ بابا جی ممصود حسنی نے مؽربی ادب‬
‫میں اٹھنے والی معروؾ تحریکوں کو بھی نظرانداز‬
‫نہیں کیا۔ اس حوالہ سے ان کی کتاب تحریکات اردو‬
‫ادب میں حسب ذیل ممالے موجود ہیں۔ یہ کتاب ‪١٩٩٧‬‬

‫میں شائع ہوئی۔‬
‫شعور کی رو اور اردو فیکشن‬
‫فطرت نگاری اور اردو فیکشن‬
‫علامتی تحریک اور اردو شاعری‬

‫امیجزم اور اردو شاعری‬
‫ڈاڈا ازم اور اردو شاعری‬
‫سریلزم اور اردو شاعری‬
‫نئی دنیا اور رومانی تحریک‬
‫وجودیت ایک فلسفہ ایک تحریک‬

‫ساختیات کے حوالہ سے باباجی نے بہت کام کیا ہے۔‬
‫دو ممالے ان کے پی ایچ ڈی کے ممالہ میں موجود ہیں‬
‫جب کہ ایک ممالہ ان کی کتاب۔۔۔۔۔زبان ؼالب کا لسانی و‬
‫ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں موجود ہے۔ ممالہ پی ایچ ڈی‬

‫اور‬
‫کتاب۔۔۔۔۔زبان ؼالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔‬

‫میں نشانیات ؼالب کا ساختیاتی مطالعہ بھی پیش کیا‬
‫گیا ہے۔‬

‫حضرت بلھے شاہ لصوری کا اردو کلام علیحدہ کرتے‬
‫ہوئےانہوں نے حضرت بلھے شاہ لصوری کی زبان کا‬

‫لسانی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کے اس مطالعے کو‬
‫ڈاکٹر محمد امین نے کسی شاعر کا بالاعدہ پہلا ساختیاتی‬

‫مطالعہ لرار دیا ہے۔‬
‫اردو شعر‪ -‬فکری و لسانی رویے ‪ ١٩٩٧‬ص ‪١١٥‬‬

‫باباجی ممصود حسنی کی کتاب اردو میں نئی نظم‬
‫مؽربی شاعری کے تناظر میں للم بند ہوئی۔ اس میں‬
‫ایک طرح سے مؽربی نظم اور اردو نظم کا تمابلی‬
‫مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی یہ کتاب مئی ‪١٩٩٣‬‬

‫میں شائع ہوئی۔‬

‫منیرالدین احمد ایک اردو افسانہ نگار ہیں۔ ان کے‬
‫افسانوں کی زبان اردو ہے لیکن مواد یہاں کی‬

‫معاشرت سے متعلك نہیں ہے۔ کردار ماحول مکالمے‬
‫نمطہءنظر وؼیرہ لطعی الگ تر ہیں۔ اس ضمن میں‬
‫باباجی نے منیر کا حوالہ بھی کوڈ کیا ہے جو کتاب‬

‫کے پیش لفظ میں موجود ہے۔ منیر کا کہنا ہے‪ :‬اردو‬
‫میں لکھے جانے والے یہ جرمن افسانے ہیں جو‬

‫جرمن روایت کے تحت لکھے گئے ہیں۔ گویا سب کچھ‬
‫جرمن ہے۔ منیرالدین احمد کے افسانوں سے متعلك‬
‫باباجی کی کتاب۔۔۔۔منیرالدین احمد کے افسانے‪ -‬تنمیدی‬
‫جائزہ ‪١٩٩٥‬میں شائع ہوئی۔ ابتدا میں منیرالدین احمد‬
‫کے دس نمائندہ افسانوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔‬

‫اس کے بعد تین عنوان لائم کئےگئے ہیں‬
‫منیر کے چند افسانوی کردار‬

‫منیر کے افسانوں میں ثمافتی عکاسی‬
‫منیر اپنے افسانوں میں‬

‫منیرالدین احمد کےافسانوں کا مطالعہ گویا جرمن‬
‫افسانوں کا مطالعہ ہے۔‬

‫باباجی کی ان کاوش ہا کے متعلك معروؾ اسکالر‬
‫ڈاکٹر سعادت سعید کا کہنا ہے‪ :‬ممصود حسنی نے‬
‫معاصر مؽرب کے نظریاتی تنمیدی جوہروں سے گہری‬
‫شناسائی رکھنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس پس منظر‬
‫میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ادب شناسی کے حوالے‬
‫سے مشرق و مؽرب کی تفریك کو کار عبث جانتے‬
‫ہیں۔ نئی مؽربی تنمید کے پس پشت جو عوامل کار‬

‫فرما ہیں ان کا بھی انھیں بخوبی اندازہ ہے۔ یوں انہوں‬
‫نے پوسٹ کلونیل یا مابعد نوآبادیاتی تنمید کے‬

‫میکانکی رویوں سے نسبت رکھنے سے زیادہ اپنے‬
‫مشرلی علم بیان کی سحر انگیریوں پر توجہ دی ہے۔‬
‫اس تناظر میں ممصود حسنی کی تاثراتی اور اظہاری‬
‫تنمید کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جس میں ان‬
‫کے شعری و ادبی ذوق کے عکسی مظاہرے موجود‬

‫ہیں۔ اردو نیٹ جاپان‘ ‪ ٧‬جنوری ‪٢٠١٤‬‬

‫ان کے اس نوعیت کے مطلعے سےمتعلك بہت سے‬
‫اہل للم نے للم اٹھایا۔ چند ایک اندراج کر رہا ہونعلی‬

‫دیپک لزلباش‬
‫آشا پربھات‬
‫ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری‬
‫ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‬
‫ادیب سہیل‬
‫پروفیسرامجد علی شاکر‬
‫ڈاکٹر بیدل حیدری‬
‫پروفیسر رب نواز مائل‬
‫پروفیسر حفیظ صدیمی‬
‫ڈاکٹر سعادت سعید‬

‫شاہد حنائی‬
‫ڈاکٹر صابرآفالی‬
‫ڈاکٹر صادق جنجوعہ‬

‫ڈاکٹر لاسم دہلوی‘ دہلی‬
‫پروفیسر نیامت علی‬
‫ڈاکٹر مظفر عباس‬

‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمن‬
‫ندیم شعیب‬

‫ڈاکٹر وفا راشدی‬
‫ڈاکٹر ولار احمد رضوی‬
‫پروفیسر یونس حسن‬

‫درج بالا تفصیلات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں‬
‫کہ باباجی ممصود حسنی اپنی تحمیمی اور تنمیدی‬
‫بصیرت کے سبب ہمہ ولت مختلؾ ادبی کروں کے‬

‫نمائندہ حرؾ کار ہیں۔ ہر کرے میں ان کی ایک شناخت‬
‫وجود پذیر ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں انہیں ادب کی دنیا‬
‫کا لیجنڈ لرار دینا‘ کسی بھی حوالہ سے ؼلط نہ ہو گا۔‬
‫آتے کل کو ان کی ادبی شناخت کے لیے مروجہ اور‬

‫مستعمل پیمانوں سے انحراؾ کرنا پڑے گا۔‬

‫فرہنگ ؼالب ایک نادر مخطوطہ‬

‫از پروفیسر یونس حسن‬

‫ڈاکٹر ممصود حسنی عصر حاضر کے ایک نامور ؼالب‬
‫شناس ہیں۔ ؼالب کی لسانیات پر ان کی متعدد کتابیں‬
‫چھپ چکی ہیں۔ جناب لطیؾ اشعر ان پر اس حوالہ‬
‫سے ایم فل سطح کا تحمیمی ممالہ بھی رلم کر رہے‬
‫ہیں۔ ڈاکٹر ممصود حسنی نے لفظیات ؼالب کے تہذیبی‘‬
‫تمدنی‘ اصطلاحی‘ ساختیاتی اور لسانیاتی پہلووں پر‬
‫نہایت جامع اور ولع کام کیا ہے۔ ان کا کام اپنی نوعیت‬

‫کا منفرد اور جداگانہ کام ہے۔ ابھی تک ؼالب کی‬
‫لسانیات پر تحمیمی کام دیکھنے میں نہیں آیا۔ ان کے‬
‫کام کی انفرادیت اس حوالے سے بھی ہے کہ آج تک‬
‫ؼالب کی تشریحات کے حوالہ سے ہی کام ہوا ہے‬
‫جبکہ ؼالب کی لسانیات پر ابھی تک کسی نے کام نہیں‬

‫کیا۔‬

‫لسانیات ؼالب پر ان کا ایک نادر مخطوطہ۔۔۔۔فرہنگ‬
‫ؼالب۔۔۔۔ بھی ہے۔ یہ مخطوطہ فرہنگ سے زیادہ لؽات‬
‫ؼالب ہے۔ اس مخطوطے کے حوالہ سے لفظات ؼالب‬
‫کی تفہیم میں شارح کو کئی نئے گوشے ملتے ہیں اور‬
‫وہ تفہیم میں زیادہ آسانی محسوس کر سکتا ہے۔ ؼالب‬
‫کے ہاں الفظ کا استعمال روایت سے لطعی ہٹ کر ہوا‬
‫ہے۔ روایتی اور مستعمل مفاہیم میں اشعار ؼالب کی‬
‫تفہیم ممکن ہی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ لؽات بھی‬
‫عجب ڈھنگ سے ترتیب دی ہے۔ لفظ کو عہد ؼالب‬

‫سے پہلے‘ عہد ؼالب اور عہد ؼالب کے بعد تک‬
‫دیکھا ہے۔ ان کے نزدیک ؼالب شاعر فردا ہے۔ لفظ‬
‫کے مفاہیم اردو اصناؾ شعر میں بھی تلاش کیے گیے‬
‫ہیں۔ یہاں تک کہ جدید صنؾ شعر ہائیکو اور فلمی‬
‫شاعری کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ امکانی معنی‬

‫بھی درج کر دیے گیے ہیں۔‬

‫اس مخطوطے کے مطالعہ سے ڈاکٹر ممصود حسنی‬
‫کی لفظوں کے باب میں گہری کھوج اور تلاش کا پتا‬
‫جلتا ہے۔ اس تلاش کے سفر میں ان کی ریاضت‘ مؽز‬
‫ماری‘ لگن اور سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے‬
‫لفظ کی تفہیم کے لیے‘ اردو کی تمام شعری اصناؾ کو‬

‫کھنگال ڈالا ہے۔ ایک ایک لفظ کے درجنوں اسناد کے‬
‫ساتھ معنی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ماضی سے تادم‬

‫تحریر شعرا کے کلام سے استفادہ کیا گیا ہے۔ گویا لفظ‬
‫کے مفاہیم کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔‬

‫اس نادر مخطوطے کا سرسری جائزہ بھی اس جانب‬
‫توجہ مبذول کراتا ہے کہ ؼالب کو محض سطعی انداز‬

‫سے نہ دیکھیں۔ اس کے کلام کی تفہیم سرسری‬
‫مطالعے سے ہاتھ آنے کی نہیں۔ اسے سمجھنے کے‬
‫لیے سنجیدہ ؼوروفکر کرنا پڑتا ہے۔ پروفیسر حسنی‬
‫کی یہ کاوش فکر و تلاش اسی امر کی عملی دلیل ہے۔‬
‫انہوں ؼالب کے لاری کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے‬
‫لیے اپنی سی جو کوششیں کی ہیں وہ بلاشبہ لایك‬

‫تحسین ہیں۔‬

‫ماضی میں ؼالب پر بڑا کام ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ‬
‫کہ وہ آج بھی ادبی حلموں میں تشریح طلب مصرعے‬
‫کا درجہ رکھتا ہے۔ تشنگی کی کیفیت میں ہرچند اضافہ‬
‫ہی ہوا ہے۔ اس صورت حال کے تحت بڑے وثوق سے‬
‫کہا جا سکتا ہے کہ ؼالب مستمبل لریب و بعید میں‬

‫اپنی ضرورت اور اہمیت نہیں کھوئے گا یا اس پر‬

‫ہونے والے کام کو حتمی لرار نہیں دے دیا جائے گا۔‬
‫جہاں تفہیم ؼالب کی ضرورت بالی رہے گی وہاں ڈاکٹر‬

‫ممصود حسنی کی فرہنگ ؼالب کو بنیادی ماخذ کا‬
‫درجہ بھی حاصل رہے گا۔ اسے تفہیم ؼالب کی ذیل‬
‫میں نظر انداز کرنے سے ادھورہ پن محسوس کیا جاتا‬

‫رہے گا۔‬

‫اس مخطوطے کی اشاعت کی جانب توجہ دینا ؼالب‬
‫فہمی کے لیے ازبس ضروری محسوس ہوتا ہے۔ جب‬

‫تک یہ مخطوطہ چھپ کر منظر عام پر نہیں آ جاتا‬
‫ؼالب شناسی تشنگی کا شکار رہے گی۔ لوگوں تک‬
‫اس میں موجود گوشوں کا پہنچنا ؼالب شناسی کا‬
‫تماضا ہے کیونکہ جب تک یہ نادر مخطوطہ چھپ کر‬
‫سامنے نہیں آ جاتا اس کی اہمیت اور ضرورت کا‬
‫اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ یہ بھی کہ ؼالب کے حوالہ‬
‫سے پروفیسر حسنی کی لسانی بصیرت کا اندازہ نہیں‬
‫ہو سکے گا۔ وہ گویا لسانیات ؼالب پر کام کرنے والوں‬
‫میں نمش اول کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ لؽت آ سے‬
‫شروع ہو کر لفظ یگانہ کی معنوی تفہیم تک جاتی ہے۔‬

‫ممصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ‬

‫محبوب عالم ‪--‬۔۔ لصور‬

‫پروفیسر ممصود حسنی ملکی اور بین الاالوامی سطح‬
‫پر اپنی الگ سے شناخت رکھتے ہیں۔ تخلیمی میدان‬
‫میں ان کی شخصیت کثیرالجہتی ہے۔ یہ ہی صورت‬
‫تحمیك و تنمید کے میدان کی ہے۔ نثر ہی نہیں‘ شاعری‬
‫کے میدان میں بھی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں‬
‫نے طالب علمی کے ابتدائی دنوں میں ہی شعر کہنا‬
‫شروع کر دیے۔ ان کی ‪ ١٩٦٥‬کی شاعری دستیاب‬
‫ہوئی ہے۔ اس ولت وہ جماعت ہشتم کے طالب علم‬
‫تھے۔ بطور نمونہ ابتدائی دور کے چند شعر ملاحظہ‬

‫‪:‬کریں‬

‫پھوٹا ناسور بن کرزخم جگر‬
‫سزا ملی مجھے گناہ کئے بؽیر‬

‫‪٢٥‬مئی ‪١٩٦٥‬‬

‫آس کے دیپ جلانے نکلو‬
‫جاگ کر اب جگانے نکلو‬

‫‪٢٩‬اپریل ‪١٩٦٦‬‬

‫زخم کھا کر جو زخم کھانے کی رکھے ہوش‬
‫انداز اس کے تڑپنے پھڑکنے کا ذرا دیکھ‬

‫‪٣‬فروری ‪١٩٦٧‬‬

‫ہر صدؾ کی لسمت میں گوہر کہاں‬
‫ہزار پرند میں‘ اک شہباز ہوتا ہے‬

‫‪٢٧‬جون ‪١٩٦٨‬‬

‫عریاں پڑی ہے لاش حیا بے گور وکفن‬
‫لوگ لیتے ہیں گل‘ گلستاں رہے نہ رہے‬

‫‪٢٥‬اکتوبر ‪١٩٦٩‬‬

‫مولاں کو ہو گی جنت سے محبت زاہد‬
‫بار ہا گزریں گے دشت پرخار سے ہم‬

‫‪٥‬مارچ ‪١٩٧٠‬‬
‫‪١٩٧٠‬میں لکھی گئی یہ نظم بھی بطور نمونہ ملاحظہ‬

‫‪:‬ہو‬

‫مجھے اب‬

‫میں اپنی تلاش میں تھا‬
‫گلاب سے انگارے نکلے‬
‫خوشبو سے شرارے اٹھے‬

‫‘میرا چہرا‬
‫کوئی لے گیا‬
‫چوڑیاں مجھے دے گیا‬
‫چوڑیوں کی کھنک میں‬
‫مجھے اب‬
‫بےچہرہ جیون‬

‫جینا ہے‬

‫اس نمونہء کلام سے ان کے فکری اور تخلیمی سفر کا‬
‫اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے ہاں مجازی عشك و‬
‫محبت شجر منوعہ سے لگتے ہیں۔ پروفیسر ممصود‬
‫حسنی کے والد سید ؼلام حضور پنجابی صوفی شاعر‬

‫تھے۔ ان کے دادا سید علی احمد پنجابی اردو اور‬
‫فارسی کے شاعر تھے۔ یہ سلسلہ اس سے پیچھے‬
‫تک جاتا ہے۔ پروفیسر موصوؾ کے پاس اپنے دادا کا‬
‫کلام مخطوطوں کی شکل میں موجود ہے۔ گویا یہ‬
‫شوق انہیں وراثت میں ملا ہے۔ وہ اردو کے علاوہ‬

‫انگریزی پنجابی اور پوٹھوہاری میں بھی کہتے رہے‬
‫ہیں۔‬

‫ان کے کلام میں ردعملی کی سی صورت ہر سطح پر‬
‫ؼالب رہتی ہے۔ چلتے چلتے ناصحانہ اور صوفیانہ ٹچ‬

‫ضرور دے جاتے ہیں۔ ان کے کلام میں سیکڑوں‬
‫مؽربی مشرلی اسلامی اور ہندی تلمیحات پڑھنے کو‬
‫ملتی ہیں۔ ہر تلمیح کا بڑا برمحل استعمال ہوا ہے۔ یہ‬
‫تلمیحات بین الاالومی تناطر میں استعمال ہوئی ہیں۔‬
‫پروفیسر علی حسن چوہان ان کی مؽربی تلمیحات پر‬

‫بھرپور تحمیمی ممالہ بھی تحریر کر چکے ہیں۔‬
‫‪١٩٩٣‬میں ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے بہ عنوان۔۔۔۔۔۔‬
‫ممصود حسنی کی شاعری‘ تنمیدی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ شائع‬
‫کی۔ ممصود حسنی کی شاعری پر مشتمل تین کتب‬

‫منصہءشہود پر آ چکی ہیں۔‬
‫سپنے اگلے پہر کے نثری ہائیکو‬
‫اوٹ سے نثری نظمیں یہ مجموعہ دو بار شائع ہوا۔‬
‫سورج کو روک لو نثری ؼزلیں‬
‫کاجل ابھی پھیلا نہیں اشاعت کے مراحل میں ہے۔‬
‫اس کے علاوہ بھی ان کا کلام رسائل میں شائع ہوتا‬
‫رہا ہے۔ ان کا بہت سارا کلام انٹرنیٹ کی مختلؾ ویب‬

‫سائیٹس پر پڑھنے کو ملتا ہے۔ آمنہ رانی ان کی‬
‫نظموں کو ڈازائین کر رہی ہیں۔ جو ان کی شاعری کی‬
‫پذیرائی میں خوب صورت اضافہ لرار دیا جا سکتا ہے۔‬

‫ممصود حسنی کی شاعری کے مختلؾ زبانوں میں‬
‫تراجم بھی ہوئے۔‬

‫پروفیسر امجد علی شاکر نے۔۔۔۔۔۔ اوٹ سے۔۔۔۔۔۔۔ کی‬
‫نظموں کو پنجابی روپ دیا۔‬

‫بلدیو مرزا نے ان کے ہائیکو کا انگریزی میں ترجمہ‬
‫کیا‘ جو سکائی لارک میں شائع ہوا۔‬

‫نصرالله صابر مرحوم نے ان کے ہائیکو کا پنجابی میں‬
‫ترجمہ کیا۔‬

‫مہر کاچیلوی مرحوم نے ان کے ہائیکو کا سندھی میں‬
‫ترجمہ کیا۔‬

‫ڈاکٹر اسلم ثالب مالیر کوٹلہ‘ بھارت نے ان کے ہائیکو‬
‫کا گرمکھی میں ترجمہ کیا۔‬

‫عالمی رنگ ادب کراچی نے پورا مجموعہ ۔۔۔۔۔۔۔ سپنے‬
‫اگلے پہر کے۔۔۔۔۔۔۔ کو شاعر علی شاعر کے مضمون‬

‫کے ساتھ شائع کیا۔‬
‫پروفیسر نیامت علی نے ان کی انگریزی شاعری پر‬

‫ایم فل سطح کا ممالہ تحریر کیا۔‬

‫اردو ادب کے جن نالدین نے ان کی شاعری کو خراج‬
‫تحسین پیش کیا‘ اس کی میسر تفصیل کچھ یوں ہے‬

‫ڈاکٹر آؼا سہیل‬
‫آفتاب احمد مشك ایم فل اردو‬

‫ڈاکٹر ابو سعید نور الدین‬
‫احمد ریاض نسیم‬
‫ڈاکٹر اسلم ثالب‬
‫اسلم طاہر‬

‫ڈاکٹر احمد رفیع ندیم‬
‫احمد ندیم لاسمی‬
‫ڈاکٹر اختر شمار‬
‫ڈاکٹر اسعد گیلانی‬
‫اسماعیل اعجاز‬
‫اشرؾ پال‬
‫اطہر ناسک‬
‫اکبر کاظمی‬

‫پروفیسر اکرام ہوشیار پوری‬
‫ایاز لیصر‬

‫ڈاکٹر بیدل حیدری‬
‫پروفیسر تاج پیامی‬

‫تنویر عباسی‬
‫جمشید مسرور‬
‫ڈاکٹر ہومیو ریاض انجم‬
‫خواجہ ؼضنفر ندیم‬
‫ڈاکٹر فرمان فتح پوری‬
‫ڈاکٹر صابر آفالی‬
‫ڈاکٹر صادق جنجوعہ‬
‫صفدر حسین برق‬
‫ضیؽم رضوی‬
‫طفیل ابن گل‬
‫ڈاکٹر ظہور احمد چودھری‬
‫عباس تابش‬
‫ڈاکٹر عبدالله لاضی‬
‫علی اکبر گیلانی‬
‫پروفیسر علی حسن چوہان‬
‫ڈاکٹر عطاالرحمن‬
‫فیصل فارانی‬

‫کفیل احمد‬
‫ڈاکٹر گوہر نوشاہی‬
‫ڈاکٹر مبارک احمد‬

‫محبوب عالم‬

‫مشیر کاظمی‬
‫ڈاکٹر محمد امین‬
‫پرفیسر محمد رضا مدنی‬
‫مہر افروز کاٹھیاواڑی‬
‫مہر کاچیلوی‬
‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‬
‫پروفیسر نیامت علی‬

‫ندیم شعیب‬
‫ڈاکٹر وزیر آؼا‬
‫ڈاکٹر وفا راشدی‬
‫ڈاکٹر ولار احمد رضوی‬

‫وی بی جی‬
‫یوسؾ عالمگیرین‬
‫پروفیسر یونس حسن‬
‫ان نالدین نے متوازن انداز میں حسنی کی شاعری پر‬
‫اظہار خیال کیا ہے۔ ان حضرات گرامی کےعلاوہ محمد‬
‫اسلم طاہر نے ممصود حسنی کی شخضیت ادبی خدمات‬
‫کے عنوان سے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے‬
‫ایم فل کا مملہ تحریر کیا جس میں ان کی شاعری کے‬
‫متعلك باب موجود ہے۔ رالم کے ایم فل کے ممالہ۔۔۔۔۔۔‬
‫لصور کی علمی و ادبی روایت۔۔۔۔۔۔ میں حسنی کی‬

‫شاعری پر رائے موجود ہے۔ ۔‬

‫‪:‬ان کی شاعری پر چند اہل للم کی آراء ملاحظہ ہوں‬
‫جناب محترم ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب‬

‫آپ کا یہ کلام پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ‬
‫جینویں کسی نے آکر دستک دینڑ کے بجائے ُکسھن‬
‫ماریا ‪،‬وجا جا کے ٹھا کرکے بڑا ای سواد آیا ‪ ،‬کیا ای‬
‫بات ہے ہماری طرؾ سے ایس سوہنی تے من موہنی‬
‫تحریر سے فیض یاب فرمانڑ کے واسطے چوہلیاں پرھ‬

‫پرھ داد پیش ہےگی‬
‫تواڈا چاہنے والا ‪1‬‬

‫اسماعیل اعجاز‬

‫‪:‬ڈاکٹر بیدل حیدری کا کہنا ہے‬
‫ممصود حسنی کی نثری ؼزلیں موضوع کے اعتبار‬
‫سے کتنی اچھوتی ہیں‘ لہجے کی کاٹ اور طنز کی‬
‫گہرائی کا کیا معیار ہے‘ لاری کیا محسوس کرتا ہے‘‬
‫استعارے اور علامتیں کتنے خوب صورت انداز میں‬
‫آئی ہیں۔ مستمبل میں اتنی فرصت کسے ہو گی کہ‬
‫فرسودہ طویل ؼزلوں اور نظموں کو پڑھے۔ اگلی‬
‫صدی تو ممصود حسنی جیسے مختصر اور پراثر شعر‬

‫گو کی صدی ہے۔‬

‫‪........................‬‬
‫ڈاکٹر عطاءالرحمن بھی اسی مجموعے پر یوں رلم‬

‫‪:‬طراز ہیں‬
‫ان کی سبھی نظمیں خوب صورت ہیں جن کے بھنور‬

‫میں کھو کر انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے‬
‫بےخبر ہو جاتا ہے لیکن لتل‘ ہم کب آزاد ہیں‘ آسمان‬
‫نکھر گیا ہے‘ میں نے دیکھا۔۔۔۔ خوب ترین نظمیں ہیں‬

‫جن میں انسانی درندگی‘فرعونیت‘ ظلم و جبر‘‬
‫استبدادیت‘ بےبسی و بچارگی‘ آہیں اور سسکیاں‬
‫ؼرض اک آتش فشاں پنہاں ہے جو اگر پھٹتا ہے تو‬
‫اس کا لاوا راہ میں مزاحم ہر شے کو جلا کر خاکستر‬

‫کر ڈالتا ہے۔‬

‫‪.............................‬‬
‫ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔۔۔۔اوٹ سے۔۔۔۔ پراپنی رائے کچھ‬

‫‪:‬یوں دیتے ہیں‬
‫یوں تو اس مجموعے کی ساری نظمیں خوب نہیں‘‬
‫خوب تر ہیں لیکن ۔۔۔۔ وہ لفظ کہاں اور کدھر ہے‘‬
‫سورج دوزخی ہو گیا تھا‘ فیکٹری کا دھواں‘ ہم کب‬
‫آزاد ہیں‘ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ کاش یہ نظمیں‬
‫باشعور لارئین تک پہنچیں اور ان میں دہکتے ہوئے‬

‫خواب شرمندہءتعبیر ہوں۔‬

‫‪.............................‬‬
‫واہ‪ ...‬ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ہمارے معاشرے کے اس‬

‫نوحے کو بہت عمدگی سے بیان کیا ہے‬
‫باپ کی بے حسی اور‬
‫جنسی تسکین کا بین‬

‫بہت کم الفاظ میں آپ نے اشارہ دیا ہے کہ لصور‬
‫صرؾ معاشرے یا اربا ِب اختیار کا نہیں ہے بلکہ اس‬
‫جرم میں وہ لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جو اپنے‬

‫وسائل کو دیکھے بنأ ہی اپنی نفسانی خواہشات کا‬
‫گھوڑا سرپٹ سرپٹ دوڑائے چلے جاتے ہیں اور ساتھ‬
‫میں اپنی (مذہبی) جاہلیت کی وجہ سے بچوں کی ایک‬

‫لطار کھڑی کر دیتے ہیں‪2 -‬‬
‫فیصل فارانی‬

‫‪.................................‬‬
‫جناب ممصود حسنی صاحب سلام مسنون‬
‫واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ آپ نے چہرہ‬
‫کو گرد سے صاؾ کرنے کو کہا ہے مگر حمیمت یہ‬
‫ہے کہ ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو‬
‫صاؾ کرنے کی نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی‬

‫ضرورت ہے کہ جس سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ‬
‫ہمارا اصلی اور بے مثالی چہرہ سامنے ائے۔ ‪3‬‬

‫طالب دعا‬
‫کفیل احمد‬
‫‪......................................‬‬

‫ُمحترم جناب ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب! اسلام علیکم‬

‫آپ کی نظموں پر آج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے اِنھیں‬
‫بُہت ہی ِفکر انگیز اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں‬
‫بُہت پسند آئی ہے۔ اگرچہ ہم آپ کے ِعلم کے ُممابلے‬
‫میں شائید اِسے اُن معنوں تک سمجھ نہ پائے ہوں۔‬
‫جہاں تک ہم سمجھے ہیں آپ ِاس میں ِانسان سے‬
‫ُمخا ِطب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اِنسان صرؾ لُدرت‬
‫کی عطا کی ہوئی چیزوں سے ُکچھ حاصل کرتا ہے۔‬
‫اگر اِس سے سب ُکچھ چھین لیا جائے تو ِانسان کے‬
‫اپنے پاس ُکچھ بھی نہیں‪ ،‬فمط مٹی کا ڈھیر ہے۔ اِنسان‬
‫کو لُدرت کی تراشی چیزیں بُہت ُکچھ دیتی ہیں‪ ،‬لیکن‬

‫اِنسان ِان مخلولات کو ُکچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ‬

‫جبرائیل والی بات ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی‬
‫کم ِعلمی پر نادم ہیں۔‬

‫اگر ہم سمجھنے میں ُکلی یا ُجزوی طور پر ؼلط ہوں‬
‫تو مہربانی فرما کر ِاس ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے‬

‫گا۔ ہمارا ِعلم و ادراک فمط اِتنا ہی ہے‪ِ ،‬جس پر ہم‬
‫مجبور ہیں اور شرمسار بھی۔ ‪4‬‬
‫طال ِب دُعا‬

‫وی بی جی‬

‫درج بالا آرء کے تناظر میں برملا کہا جا سکتا ہے کہ‬
‫پروفیسر ممصود حسنی کی شاعری ناصرؾ اپنا الگ‬
‫سے ممام رکھتی ہے بلکہ اپنے عہد کے سماجی‘‬
‫معاشی اور سیاسی حالات کی منہ بولتی گواہی کا درجہ‬
‫رکھتی ہے۔ صوفی مزاج ہونے کے سبب ایک مثالی‬
‫معاشرت کی ہر موڑ پر خواہش نمایاں نظر آتی ہے۔‬

‫‪..................................................‬‬
‫‪......................................‬‬
‫‪1.‬‬

‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/i‬‬


Click to View FlipBook Version