ndex.php?topic=7988.0
2.http://www.bazm.urduanjuman.com
/index.php?topic=8504.0
3.http://www.bazm.urduanjuman.com
/index.php?topic=9121.0
4.
http://www.bazm.urduanjuman.com/i
ndex.php?topic=8506.0
ڈاکٹر ممصود حسنی بطور ایک اسلامی مفکر اور
اسکالر
مرتبہ :پروفیسر یونس حسن
ڈاکٹر ممصود حسنی بلاشبہ ایک ہمہ جہت شخصیت
کے مالک ہیں۔ وہ مختلؾ ادبی سائنسی سماجی
صحافتی وؼیرہ فیلڈز میں اپنے للم کا جوہر دکھلاتے
چلے آ رہے ہیں۔ ان کے دوجنوں ممالے مختلؾ رسائل
و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ بیس سے زائد کتب
بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ یہ اس امر کی دلیل ہے
کہ ان کا تخلیمی اور تحمیمی سفر نت نئی منزلوں کی
جانب رواں دواں رہا ہے۔ ان کے اس سفر میں ہر
سطح پر تنوع اور رنگا رنگی کی صورت نطر آتی ہے۔
ڈاکٹر اختر شمار انہیں ادبی جن کہتے ہیں۔ رالم نے
حال ہی میں ان کے اسلام سے متعلك کچھ مضامین کا
سراغ لگایا ہے۔ یہ مختلؾ اخبارات میں شائع ہو چکے
ہیں۔ یہ کل کتنے ہوں گے ٹھیک سے کہہ نہیں سکتا
تاہم ستر کا میں کھوج لگا سکا۔
ان مضامین کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے
کہ ڈاکٹر صاحب کا اسلام کے بارے مطالعہ سرسری
اور عام نوعیت کا نہیں۔ انہوں نے اپنے مضامین میں
انسان اور عصر حاضر کے مسائل کو موضوع گفتگو
بنایا ہے۔ ان کے موضوعات ان کی گہری تلاش اور
سنجیدہ ؼور و فکر کا مظہر ہیں۔ وہ روایت سے ہٹ
کر کفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے فلسیفانہ موشلافیوں
کو چھوڑ کر نہایت سادہ اور دلنشین انداز میں اپنی
بات لاری تک پہنچائی ہے۔ اسلام کا موڈریٹ اور
روشن چہرا دکھایا ہے۔ انہوں نے ہر لسم کے تعصبات
تنگ نظری اور رجعت پسندی کی نفی کرتے ہوئے
حمیمت اور انسانیت سے محبت کے پہلو کو اجاگر کیا
ہے۔
ان کے نزدیک ہر انسان لابل لدر ہے اور اسے معاشی
سماجی عزت اور انصاؾ مہیا ہونا چاہیے۔ اسلام کے
گوناں گوں موضوعات اور پہلووں پر لکھے ہوئے
مضامین میں رواداری ایثار اور لربانی کا پیؽام ملتا
ہے۔ ان کے نزدیک انسان کو دوسرے کے لیے
آسانیاں پیدا کرنے کیے تخلیك کیا گیا ہے۔ اسے ان کی
مشکلات مصائب اور المیوں کے تدارک کے لیے اپنا
اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ان کے نزدیک اختلاؾ رائے
پرداشت کرنے کا مادہ پیدا کرنا چاہیے۔ دلیل سے بات
کرنے کی طرح ڈالنا ہی آج کی ضرورت ہے۔
اسلام کے گونا گوں موضوعات پر ڈاکٹر ممصود حسنی
کے مضامین اور کالم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ
وہ صرؾ اردو ادب کی یگانہء روزگار شخصیت نہیں
ہیں بلکہ اسلامی امور کے بھی ایک اہم اسکالر ہیں۔
ان کی شخصیت کا یہ شیڈ اور زاویہ شاید ان کے بہت
سے پڑھنے والوں پر وا نہ ہوا ہو گا۔ رالم نے بصد
کوشش ستر مضامین کا کھوج لگایا ہے۔ ہو سکتا ہے
میری یہ کوشش کسی کے کام کی نکلے۔ ان مضامین
کے تناظر میں ان کی اسلامی سوچ کی ندرت اوراپج
انہیں سمجھنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان کا
یہ اسلوب روانی دلکشی اور مخصوص رعنائی رکھتا
ہے۔ ذیل میں ان کے مضامین کی فہرست لارئین کی
نذر کی جاتی ہے۔
تعبیر شریعت‘ لومی اسمبلی اور مخصوص ١-
صلاحیتیں روزنامہ مشرق لاہور ٢٠دسمبر ١٩٨٦
شریعت عین دین نہیں‘ جزو دین ہے روزنامہ ٢-
مشرق لاہور ٥جنوری ١٩٨٧
اسلام کا نظریہء لومیت اور جی ایم سید کا مولؾ ٣-
روزنامہ مشرق لاہور ١٥فروری ١٩٨٧
ؼیر اسلامی لوتیں اور وفاق اسلام کی ضرورت ٤-
روزنامہ مشرق لاہور ٢٩اپریل ١٩٨٧
ؼیر اسلامی لوانین اور وفاق اسلام روزنامہ ٥-
مشرق لاہور ٢٨اپریل ١٩٨٧
اسلام ایک مکمل ضابطہءحیات روزنامہ وفاق ٦-
لاہور ٧جنوری ١٩٨٨
اسلام مسائل و معاملات کے حل کے لیے اجتہاد ٧-
کے در وا کرتا ہے
روزنامہ مشرق لاہور ٧جنوری ١٩٨٨
اسلام سیاست اور جمہوریت روز نامہ جنگ لاہور ٨-
٢٦-جنوری ١٩٨٨٨
اسلام میں سپر پاور کا تصور روزنامہ مشرق ٩-
لاہور ٥فروری ١٩٨٨
پاکستان اور ؼلبہءاسلام دو الساط ہفت روزہ ١٠-
الاصلاح لاہور ١٩ ‘١٢فروری ١٩٨٨
مسلمانوں کی نجات اسلام میں ہے ہفت روزہ ١١-
الاصلاح لاہور ٢٢فروری ١٩٨٨
انسان کی ذمہ داری خیر و نیکی کی طرؾ بلانا ١٢-
اور برائی سے منع کرنا ہے
روزنامہ مشرق لاہور ٢٢فروری ١٩٨٨
خداوند عالم‘ انسان دوست حلمے اور انسانی ١٣-
خون روزنامہ مشرق لاہور ٧مارچ ١٩٨٨
اسلامی دنیا اور لران و سننت روزنامہ مشرق ١٤-
لاہور ٢٦مارچ ١٩٨٨
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے ١٥-
چنگیزی روزنامہ مشرق لاہور ٢٩مارچ ١٩٨٨
ربط ملت میں علمائے امت کا کردار ہفت روزہ ١٦-
الاصلاح لاہور ١٥اپریل ١٩٨٨
ؼلبہءاسلام کے لیے متحد اور یک جا ہونے کی ١٧-
ضرورت روزنامہ مشرق لاہور ٣٠اپریل ١٩٨٨
اسلام کا پارلیمانی نظام رائے پر استوار ہوتا ہے ١٨-
روزنامہ مشرق لاہور ٧مئی ١٩٨٨
نفاذ اسلام اور عصری جمہوریت کے حیلے ١٩-
روزنامہ نوائے ولت لاہور ١٤مئی ١٩٨٨
اسلام انسان اور تماضے ہفت روزہ الاصح لاہور ٢٠-
٢٧مئی ١٩٨٨
بنگلہ دیش میں اسلام یا سیکولرازم روزنامہ ٢١-
مشرق لاہور ١جون ١٩٨٨
بنگلہ دیش میں اسلام۔۔۔۔۔اسلامی تاریخ کی ٢٢-
درخشاں مثال روزنامہ مشرق لاہور ٢٠جون ١٩٨٨
اسلام کا نظریہءلومیت اور اسلامی دنیا روزنامہ ٢٣-
امروز لاہور ٢٠جون ١٩٨٨
اسلام کا نظریہءلومیت روزنامہ مشرق لاہور ٢٤- ١٥
جولائی ١٩٨٨
ہماری نجات اتحاد اور لہو سے مشروط ہے ٢٥-
روزنامہ مشرق لاہور ٣٠اگست ١٩٨٨
اسلام اور کفر کا اتحاد ممکن نہیں روزنامہ وفاق ٢٦-
لاہور ٣٠اگست ١٩٨٨
انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے روزنامہ امروز ٢٧-
لاہور ٣٠اگست ١٩٨٨
جمہوریت اشتراکیت اور اسلام روزنامہ مشرق ٢٨-
لاہور ٣٠اگست ١٩٨٨
حضور کا پیؽام ہے برائی کو طالت سے روک دو ٢٩-
روزنامہ مشرق لاہور ٣١اگست ١٩٨٨
امت مسلمہ رنگ و نسل‘ علالہ زبان اور نظریات ٣٠-
کے حصار میں ممید ہے
روزنامہ مشرق لاہور ٣١اگست ١٩٨٨
آزاد مملکت میں اسلامی نمطہءنظر اور آزادی ٣١-
روزنامہ وفاق لاہور ٥ستمبر ١٩٨٨
اسلامی دنیا سے ایک سوال روز نامہ وفاق ٣٢-
لاہور ٥ستمبر ١٩٨٨
پاکستان میں نفاذاسلام کا عمل روزنامہ وفاق ٣٣-
لاہور ٢اکتوبر ١٩٨٨
اسلام میں عورت کا ممام روزنامہ وفاق لاہور ٣٤-
٢٥اکتوبر ١٩٨٨
انسانی فلاح اسلام کےبؽیر ممکن نہیں روزنامہ ٣٥-
وفاق لاہور ٢٨اکتوبر ١٩٨٨
اسلام کی پیروی کا دعوی تو ہے مگر! روزنامہ ٣٦-
آفتاب لاہور ٢٨اکتوبر ١٩٨٨
پاکستان میں نفاذ اسلام کیوں نہیں ہو سکا ٣٧-
روزنامہ وفاق لاہور ٣١اکتوبر ١٩٨٨
نفاذ اسلام میں تاخیر کیوں روزنامہ آفتاب لاہور ٣٨-
٨نومبر ١٩٨٨
اسلامی دنیا کے للعہ میں داڑاڑیں کیوں ہفت ٣٩-
روزہ جہاں نما لاہور ١٠نومبر ١٩٨٨
اعتدال اور توازن کا رستہ عین اسلام ہے ٤٠-
روزنامہ مشرق لاہور ٢٠نومبر ١٩٨٨
اسلام کا نظام سیاست و حکومت روزنامہ مشرق ٤١-
لاہور ٢٢نومبر ١٩٨٨
شناخت‘ اسلامائزیشن کا پہلا زینہ روزنامہ ٤٢-
مشرق لاہور ٣٠نومبر ١٩٨٨
اسلام کے داعی طبمے کی شکست کیوں روزنامہ ٤٣-
مساوات لاہور ٥دسمبر ١٩٨٨
کیا اسلام ایک لدیم مذہب ہے روزنامہ وفاق ٤٤-
لاہور ١٠جنوری ١٩٨٩
ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ روزنامہ وفاق لاہور ٤٥-
٢فروری ١٩٨٩
اسلام اور عصری جمہوریت چار الساط روزنامہ ٤٦-
وفاق لاہور
فروری‘ ٣مارچ‘ ٢٨اگست ١٩٨٩
اہل اسلام کے لیے لمحہءفکریہ روز نامہ وفاق ٤٧-
لاہور ٨مارچ ١٩٨٩
اسلام دوست حلموں کے لیے لمحہءفکریہ ٤٨-
روزنامہ وفاق لاہور ١٩مارچ ١٩٨٩
ؼیر اسلامی دنیا کے خلاؾ جہاد کرنے کی ٤٩-
ضرورت روزنامہ وفاق لاہور ١٩مارچ ١٩٨٩
اسلامی دنیا‘ ذلت و خواری کیوں روزنامہ وفاق ٥٠-
لاہور ٢٢مئی ١٩٨٩
امور حرامین میں اسلامی دنیا کا کردار ماہنامہ ٥١-
وحدت اسلامی اسلام آباد محرم ١٣١١ھ
حج کی اہمیت عظمت اور فضیلت روزنامہ وفاق ٥٢-
لاہور جولائی ١٩٨٩
اسلامی مملکت میں سربراہ مملکت کی حیثیت ٥٣-
روزنامہ وفاق لاہور ٦جولائی ١٩٨٩
نفاذ اسلام کی کوششیں روز نامہ وفاق لاہور ٥٤- ٣
اگست ١٩٨٩
اسلام عصر جدید کے تماضے پورا کرتا ہے ٥٥-
روزنامہ مشرق لاہور ٤اگست ١٩٨٩
اسلام اور عصری ے جمہوریت چار الساط روزنامہ
وفاق لاہور
فروری‘ ٣مارچ‘ ٢٨اگست ١٩٨٩
مسلم دنیا کی نادانی جوہرلسم کی ارزانی ہفت ٥٦-
روزہ جہاں نما لاہور ١٧ستمبر ١٩٨٩
اسلام میں جہاد کی ضرورت و اہمیت روزنامہ ٥٧-
وفاق لاہور ٣٠ستمبر ١٩٨٩
ورلہ بن نوفل کا لبول روزنامہ وفاق لاہور ٥٨- ١٥
اکتوبر ١٩٨٩
اسلام میں جرم و سزا کا تصور روزنامہ مشرق ٥٩-
لاہور ١٥اکتوبر ١٩٨٩
پاکستان اسلامی اصولوں کے مطابك زندگی ٦٠-
گزارنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا
روزنامہ مشرق لاہور ١٥اکتوبر ١٩٩٠
ہم اسلام کے ماننے والے ہیں پیروکار نہیں اردو ٦١-
نیٹ جاپان
ہم مسلمان کیوں ہیں اردو نیٹ جاپان ٦٢-
مذہب اور حموق العباد کی اہمیت اردو نیٹ جاپان ٦٣-
آلا کریم کی آمد ورڈز ولیج ڈاٹ کام ٦٤-
الله انسان کی ؼلامی پسند نہیں کرتا فورم ٦٥-
پاکستان ڈاٹ کام
مسلمان کون ہے سکربڈ ڈاٹ کام ٦٦-
سکھ ازم یا ایک صوفی سلسلہ اردو نیٹ جاپان ٦٧-
شرک ایک مہلک اور خطرناک بیماری ٦٨-
www.dirale.com
اسلامی سزائیں اور اسلامی و ؼیراسلامی انسان ٦٩-
اردو نیٹ جاپان
پہلا آدم کون تھا سکربڈ ڈاٹ کام ٧٠-
ممصود حسنی اور سائینسی ادب
لاضی جرار حسنی
شعر ادب سے متعلك‘ کسی شخص کا‘ مختلؾ سائینسز
پر للم اٹھانا‘ ہر کسی کو عجیب محسوس ہو گا‘ اور
اس پر‘ حیرت بھی ہوگی۔ پروفیسر ممصود حسنی کے
للم سے‘ یہ بھی بچ نہیں پائے۔ انہوں نے نفسیات
سمیت‘ دیگر سائینسز سے متعلك امور پر بھی لکھا
ہے۔
آج شمسی توانائی کی پروڈکٹس مارکیٹ میں آ گئی
ہیں۔ انہوں نے تو ١٩٨٨میں‘ اس کے تصرؾ کا
مشورہ دیا تھا‘ اور اس موضوع پر سیر حاصل گفت
گو بھی کی تھی۔ آج وہ خود بھی اس سے استفادہ کر
رہے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے‘ ایک بلب بھی نہ لگانے والا
شخص‘ خرابی کی صورت میں‘ خود ہی درستی کے
لیے میدان میں اترتا ہے۔ اس ولت تھیوری کا شخص
پریکٹیکل ہو جاتا ہے۔
یہ ہی نہیں‘ کینسر ایسے مہلک مرض سے متؽلك‘ ان
کا لمبا چوزا‘ کئی حصوں پر مشتمل ممالہ‘ سکربڈ ڈاٹ
کام پر موجود ہے۔ اس ممالے کے کچھ حصے‘ دو
لسطوں میں‘ اردو خط میں‘ اردو نیٹ جاپان پر‘ پڑھنے
کو مل جاتے ہیں۔ ان کا ایک مضمون‘ جو ڈینگی سے
متعلك ہے‘ اردو نیٹ جاپان پر جلوہ افروز ہے۔
سرور عالم راز صاحب ایسے عالم فاضل شخص نے‘
انہیں ایسے ہی‘ ہر فن مولا لرار نہیں دیا تھا۔ ان کے
ایسے مضامین میں بھی‘ ادبی چاشنی موجود ہوتی
ہے۔ اس لیے سائینسز سے متعلك‘ ان کی تحریروں
کو‘ سائینسی ادب کا نام دیا جا سکتا ہے۔ دستیاب چند
مضامین کی فہرست درج ہے۔ کوشش کرنے سے‘
ممکن ہے‘ اور مضامین بھی مل جائیں۔
مردہ اجسام کے خلیے اپنی افادیت نہیں کھوتے ١-
روزنامہ مشرق لاہور ١٨مئی ١٩٨٧
اعصابی تناؤ اور اس کا تدارک ٢-
رورنامہ امروز ٩مئی ١٩٨٨
احساس کمتری ایک خطرناک عارضہ ٣-
رورنامہ امروز لاہور یکم اگست ١٩٨٨
شمسی تواتانئی کو تصرؾ میں لانے کی تدبیر ٤-
ہونی چاہیے رورنامہ امروز لاہور ١٨ستمبر ١٩٨٨
عالم برزخ میں بھی حرکت موجود ہے ٥-
ہفت روزہ جہاں نما لاہور ٨مارچ ١٩٨٩
انسان تخلیك کائنات کے لیے پیداکیا گیا ہے ٦-
روزنامہ مشرق لاہور ٢اپریل ١٩٨٩
ممکنات حیات اور انسان کی ذمہ داری ٧-
روزنامہ وفاق لاہور ٧اپریل ١٩٨٩
علامہ المشرلی کا نظرہءکائنات ٨-
ہفت روزہ الاصلاح لاہور ٥مئی ١٩٨٩
کیا انسان کو زندہ رکھا جا سکتا ہے ٩-
روزنامہ امروز لاہور ٦اپریل ١٩٩٠
١٠-
کینسر حفاظتی تدبیر اور معالجہ
مکمل
ممالہ سکربڈ ڈاٹ کام دو لسطوں میں کچھ ترجمہ اردو
نیٹ جاپان
اردو نیٹ جاپان ١١-
ڈینگی حفاظتی تدبیر اور معالجہ
محترم ممصود حسنی صاحب ،سلام۔
آپ کے مضامین اکثر نظر سے گذرتے رہتے ہیں۔ ولت
کی دستیابی کے مطابك ان پر کبھی سرسری تو کبھی
دلیك نگاہ ڈالنے کا مولع ملتا رہتا ہے۔ البتہ ہر
مضمون پر اپنی دستخط لگانا یا ان پر تبصرہ وؼیرہ
لکھنا ممکن نہیں ہوتا سو خاموش مسافر کی طرح گذر
جاتا ہوں۔ آج مہلت ملی ہے تو سوچا کہ آپ کا اس
مضمون اور اس کے توسل سے بالی تخلیمات پر
شکریہ کہتا چلوں۔ سو برا ِہ کرم وصول کیجیے۔
محترمی سرور صاحب نے اگر آپ کو "آل را ٔونڈر"
لرار دیا ہے تو یمیناً اس میں کچھ سچائی بھی ہوگی۔
کچھ ایسا ہی آپ کے مضامین سے بھی جھلکتا ہے،
جس سے میں اور دیگر احباب مستفیض ہوتے رہتے
ہیں۔ آپ کے یہاں عنایت کردہ کئی مضامین کے
مصنفین آپ کی مدح سرائی کرتے اور آپ کی ہنرمندی
کے گیت گاتے نظر آتے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ آپ کا
انجمن سے وابستہ ہونا اور ہمارے درمیان اپنی
نگارشات کو پیش کرنا ہمارے لیے باع ِث افتخار ہے۔
ہاں ،احباب کی تخلیمات پر آپ کے تبصرہ جات میری
نظر سے کم ہی گذرے ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ سے
نیاز حاصل ہوتا رہے گا اور بہت کچھ سیکھنے کو
ملے گا۔
احمر
عامر عباس
مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :سلام مسنون
آپ کی ادبی و علمی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اہل اردو نے کبھی بھی اپ
جیسی ہستیوں کی کما حمہ لدر نہیں کی۔ البتہ اس عالم
فانی سے گزر جانے کے بعد رسالوں کے خاص نمبر
ضرور شائع کئے ہیں۔ ؼالب ہی شاید ایک ایسے
شخص ہوئے ہیں جن کی عزت اور لدر ان کی زندگی
میں ہی کی جانے لگی تھی۔ الله آپ کو طویل عمر عطا
فرمائے تاکہ یہ چشمہ علم وادب اسی طرح جاری رہے
اور ہم جیسے لوگ مستفید ہوتے رہیں۔
زیر نظر مختصر مضمون میں "انسان تخلیك کائنات
کے لئے پیدا کیا گیا ہے" دیکھا تو والد مرحوم
حضرت راز چاندپوری کا ایک شعر بے اختیار یاد آگیا۔
سوچا کہ آپ کو بھی سنا دوں۔ میں مرحوم کے اس
خیالات سے سو فیصد متفك ہوں اور میرا خیال ہے کہ
:ہر صاحب علم ونظر متفك ہو گا۔شعر یہ ہے
تصویر جہاں میں رنگ بھرنا
!تخلیك جہاں سے کم نہیں ہے
بالی راوی سب چین بولتا ہے۔
سرور عالم راز
http://www.bazm.urduanjuman.com/i
ndex.php?topic=9198.0
ممصود حسنی کے تنمیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی
مطالعہ
محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لصور
تخلیك‘ تنمید اور تحمیك انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔
کچھ لوگ ان سے زیادہ لربت اختیار کرتے ہیں اور
اپنی کاوششوں کو کاؼذ پر منتمل کر دیتے ہیں یا انہیں
عملی جامہ پہنا دیتے ہیں۔ ان کے برعکس کچھ لوگ
ان صلاحیتوں کا بہت ہی کم استعمال کرتے ہیں تاہم ان
سے کچھ نہ کچھ نادانستہ طور پر ہوتا رہتا ہے۔ جس
طرح سائنسی ایجادات زندگی میں آسودگی یا عدم تحفظ
کا سبب بنتی ہیں‘ بالکل اسی طرح ادبی تخلیمات بھی
انسانی زندگی پر اپنے اثرات چھوڑتی ہیں۔ انسانی
رویوں‘ رجحانات اور ترجیحات میں تبدیلی لاتی ہیں۔
تخلیك ادب کے لیے جہاں ایک فکر انگیز احساس اور
شعور کی ضرورت ہوتی ہے وہاں اس ادب کی جانچ
اور پرکھ کے لیے اس سے لریب تر تنمیدی شعور
بھی ہونا چاہیے۔ ادبی سرمائے کی صحیح تفہیم کے
لیے تنمیدی شعور کا معمول ہونا ضروری ہے۔ تنمید
اپنی اصل میں مطالعہ کا سلیمہ سکھاتی ہے۔
پروفیسر ممصود حسنی نے اپنی تمام عمر ادب کی
خدمت کرتے گزاری ہے۔ انہوں نےتمریبا ہر صنؾ ادب
پر عمابی نظر رکھی ہے۔ تنمید بھی ان کا میدان عشك
رہا ہے۔ شرق و ؼرب کے اہل للم کی کاوشوں کو
جانچا اور پرکھا ہے۔ ان کی نہ صرؾ ادبی حیثیت و
اہمیت کا تعین کیا ہے بلکہ اس کے ممکنہ سماجی
اثرات کا بھی اندازہ پیش کیا ہے۔ یہ بھی کہ وہ کس
سماجی رویے یا رجحان کا نتیجہ ہیں‘ کا بھی ذکر کیا
ہے۔ ادبی کاوشوں پر ان کا اظہار خیال کسی سطح پر
نظر انداز نہ کیا جا سکے گا۔
باباجی ممصود حسنی کسی ادبی گروپ یا گروہ سے
منسلک نہیں رہے۔ وہ کسی انسلاک کے لائل بھی نہیں
ہیں۔ انہوں نے جس تخلیك پر بھی اظہار خیال کیا ہے
اپنا بندہ ہے‘ سے ہٹ کر کیا ہے۔ انہوں نے وہی لکھا
ہے جو نظرآیا ہے یا جو انہوں نے محسوس کیا ہے۔
وہ ان تخلیمات کے سماجی معاشی اور نظریاتی
حوالوں کو بھی دوران مطالعہ نظر میں رکھتے ہیں۔
وہ ان عوامل تک اپروچ کی کوشش کرتے ہیں جو
وجہءتخلیك بنے ہوتے ہیں۔
تاریخ سے بھی باباجی شؽؾ رکھتے ہیں‘ اس لیے وہ
یہ بھی دیکھتے ہیں کہ زیر مطالعہ کاوش ادبی تاریخ
کے کس ممام و مرتبے پر کھڑی ہے۔ مطالعہ کے
دوران تمابلی صورت کو بھی زیر بحث لاتے ہیں۔ ادبی
تخلیك کے فکری‘ فنی اور لسانی متوازن احاطہ باباجی
کے تنمیدی رویوں کا امتیازی پہلو ہے اور انہیں
دوسرے نمادوں سے ممتاز کرتا ہے۔
باباجی ممصود حسنی کی نظر فن پارے کے تخلیمی
تحرک پر مرتکز رہتی ہے۔ وہ اس کھوج میں رہتے
ہیں کہ کون کون سے عوامل تھے‘ جو اس کاوش کی
تخلیك کا سبب بنے۔ وہ اس امر کو بھی نظر انداز نہیں
کرتے کہ اس تخلیك کے اضافے سے ادب کا چہرا
کیسا دکھائی دے گا۔ لسانیات چونکہ ان کی پسند کا
میدان ہے‘ اس لیے وہ اس تخلیك کو لسانی حوالہ
سے ضرور پرکھتے ہیں اور اس کی لسانی خوبیوں
وؼیرہ پر گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک کوئی جملہ
چاہے کسی جاہل کے منہ ہی سے کیوں نہ نکلا ہو‘
لسانی حوالہ سے بےکار نہیں۔ اس میں کچھ نہ کچھ
نیا ضرور ہوتا ہے۔ کوئی اصطلاح میسرآ سکتی ہے
جو پہلے استعمال میں نہیں آئی ہوتی۔ اس کا ممامی
اور نیا تلفظ سامنے آ سکتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ
وہ اس تخلیك کے لسانی پہلو پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔
ادب کی تنمیدی روایت میں جہاں انہوں نے انفرادی
طور پر ادیبوں کی تخلیمات کو موضوع بنایا ہے وہاں
تحمیمی اور تنمیدی کتب پر بھی احسن انداز میں گفتگو
کی ہے۔ نفاست اور رکھ رکھاؤ کو ان کے مضامین کا
طرہءامتیاز لرار دینا ؼلط نہ ہو گا۔ میں نے بصد
کوشش ان کے پچاس سے زائد مطبوعہ و ؼیر
مطبوعہ مضامین کو تلاش کیا ہے۔ ممکن ہے ادبی
تحیمیك کرنے والوں کے لیے کام کے ثابت ہوں۔ ان
مضامین پر تحمیمی کام کرنے کی ضرورت کو بھی
نظرانداز نہیں کیا جا سکےگا۔
ماہنامہ تفاخر ١- بوؾ کور۔۔۔ایک جائزہ
لاہور مارچ ١٩٩١
اکبر البال اور مؽربی زاویے ہفت روزہ فروغ ٢-
حیدرآباد ١٦جولائی ١٩٩١
اکبر اور تہذیب مؽرب۔۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق لاہور ٣-
٢٥جولائی ١٩٩١
نذیر احمد کے کرداروں کا تاریخی شعور ماہنامہ ٤-
صریر کراچی مئی ١٩٩٢
کرشن چندر کی کردار نگاری ماہنامہ تحریریں ٥-
لاہور جون۔جولائی ١٩٩٢
اسلوب‘ تنمیدی جائزہ سہ ماہی صحیفہ لاہور ٦-
جولائی تا ستمبر ١٩٩٢
پطرس بخاری کے لہمہوں کی سرگزشت ماہنامہ ٧-
تجدید نو لاہور اپریل ١٩٩٣
شیلے اور زاہدہ صدیمی کی نظمیں ماہنامہ ٨-
تحریریں لاہور دسمبر ١٩٩٣
شوکت الہ آبادی کی نعتیہ شاعری ماہنامہ الاانسان ٩-
کراچی دسمبر ١٩٩٣
میرے بزرگ میرے ہم عصر‘ ایک جائزہ ماہنامہ ١٠-
اردو ادب اسلام آباد اپریل۔جون ١٩٩٦
یا عبدالبہا‘ تشریحی مطالعہ ماہنامہ نفحات لاہور ١١-
جولائی ١٩٩٦
ڈاکٹر محمد امین کی ہائیکو نگاری ماہنامہ ادب ١٢-
لطیؾ لاہور اکتوبر ١٩٩٦
بیدل حیدری اردو ؼزل کی توانا آواز مشمولہ ١٣-
شعریات شرق و ؼرب ١٩٩٦
کثرت نظارہ۔۔۔ایک منفرد سفرنامہ پندرہ روزہ ١٤-
ہزارہ ٹائمز ایبٹ آباد یکم جولائی ١٩٩٧
داستان وفا۔۔۔۔ایک مطالعہ ماہنامہ اردو ادب اسلام ١٥-
آباد نومبر۔ دسمبر ١٩٩٧
شاہی کی کی شاعری کا تحمیمی و تنمیدی مطالعہ ١٦-
مشمولہ کتاب اردو شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے
١٩٩٧
ڈاکٹر بیدل حیدری کی اردو ؼزل مشمولہ کتاب ١٧-
اردو شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے ١٩٩٧
پروفیسر مائل کی اردو نظم مشمولہ کتاب اردو ١٨-
شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے ١٩٩٧
علامہ مشرلی اور تسخیر کائنات کی فلاسفی ہفت ١٩-
روزہ الاصلاح لاہور ٥تا ١٨مئی ١٩٩٨
ڈاکٹر منیر احمد کے افسانے اور مؽربی طرز ٢٠-
حیات ماہنامہ ادب لطیؾ لاہور جنوری ١٩٩٩
ڈاکٹر منیر احمد کا ایک متحر کردار ماہنامہ لاہور ٢١-
دسمبر ١٩٩٩
حفیظ صدیمی کے دس نعتعہ اشعار ماہنامہ ٢٢-
تحریریں لاہور جولائی ١٩٩٩
رئیس امروہوی کی لطعہ نگاری ماہنامہ نوائے ٢٣-
پٹھان لاہور جون ٢٠٠٢
ڈاکٹر وفا راشدی شخصیت اور ادبی خدمات ٢٤-
ماہنامہ نوائے پٹھان لاہور جون ٢٠٠٢
ڈاکٹر معین الرحمن۔۔۔ ایک ہمہ جہت شخصیت۔۔ ٢٥-
مشمولہ نذر معین مرتب محمد سعید ٢٠٠٣
لبلہ سید صاحب کے چند اردو نواز جملے ٢٦-
نوائے پٹھان لاہور جولائی ٢٠٠٤
مہر کاچیلوی کے افسانے۔۔۔۔۔تنمدی مطالعہ سہ ٢٧-
ماہی لوح ادب حیدرآباد اپریل تا ستمبر ٢٠٠٤
اردو شاعری کا ایک خوش فکر شاعر ماہنامہ ٢٨-
رشحات لاہور جولائی ٢٠٠٥
عابد انصاری احساس کا شاعر ماہنامہ ٢٩-
رشحات لاہور مارچ ٢٠٠٦
پروفیسر مائل کی ؼزل کی فکر اور زبان ماہنامہ ٣٠-
رشحات لاہور اگست ٢٠٠٦
دل ہے عشمی تاج کا ایک نمش منفرد کتابی ٣١-
سلسلہ پہچان نمبر٢٤
جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر ہماری ویب ٣٢-
ڈاٹ کام
اردو میں منظوم سیرت نگاری اردو نیٹ جاپان ٣٣-
اختر شمار کی اختر شماری کتابت شدہ مسودہ ٣٤-
سرسید اور ڈیپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری ٣٥-
کتابت شدہ مسودہ
سرسید اردو۔ معروضی حالات کے نظریے اساس ٣٦-
کتابت شدہ مسودہ
اردو داستان۔۔ تحمیمی و تنمیدی مطالعہ کتابت ٣٧-
شدہ مسودہ
تاریخ اردو۔۔۔ایک جائزہ کتابت شدہ مسودہ ٣٨-
اکبر الہ آبادی تحمیمی وتنمدی مطالعہ کتابت شدہ ٣٩-
مسودہ
سروراور فسانہءعجائب ایک جائزہ کتابت شدہ ٤٠-
مسودہ
کرشن چندرایک تعارؾ کتابت شدہ مسودہ ٤١-
صادق ہدایت کاایک کردار۔ کتابت شدہ مسودہ ٤٢-
اختر شمار کی شاعری کے فکری زاویے ٤٣-
کتابت شدہ مسودہ
دیوان ؼاب کے متن مسلہ کتابت شدہ مسودہ ٤٤-
سرسید تحریک اور اکبر کی ناگزیریت کتابت ٤٥-
شدہ مسودہ
ڈاکٹر سعادت سعید کے ناوریجین شاعری سے ٤٦-
اردو تراجم کتابت شدہ مسودہ
سوامی رام تیرتھ کی شاعری کا لسانی مطاعہ ٤٧-
مسودہ
اور شمع جلتی رہے گی روزنامہ مشرق لاہور ٤٨-
١٨ستمبر ١٩٨٨
دو علما کی موت پر لکھا گیا ایک تاثراتی ٤٩-
مضمون جو اسلوبی اعتبار سے بڑا جاندار ہے۔
پیاسا ساگر۔۔۔ گلوکار مکیش کی موت پر لکھا گیا ٥٠-
مضون ہفت روزہ اجالا لاہور میں شائع ہوا
کرشن چندر‘ منفرد ادیب۔۔۔ کرشن چندر کی موت ٥١-
پر لکھا گیا۔ ہفت روزہ ممتاز لاہور ١٨مئی ١٩٧٧
ڈاکٹر گوہر نوشاہی الادب گوگڈن جوبلی نمبر ٥٢-
١٩٩٧ادبی مجلہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج لصور
علامہ طالب جوہری کی مرثیہ نگاری پروفیسر ٥٣-
محمد رضا‘ شعبہءاردو گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز
لاہور
میجک ان ریسرچ اور میری چند معروضات ٥٤
اردوانجمن ڈاٹ کام
ممصود حسنی کی مزاح نگاری‘ ایک اجمالی جائزہ
محبوب عالم۔۔۔۔۔۔۔۔لصور
پروفیسر ممصود حسنی ادبی دنیا میں ایک منفرد نام و
ممام رکھتے ہیں۔ وہ یک فنے نہیں ہیں بلکہ مختلؾ
اصناؾ ادب میں کمال رکھنا ان کا طرہءامتیاز ہے۔ طنز
و مزاح بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں رہا۔ اکثر
مزاح نگار تحریر کے عنوان سے ہی عیاں ہو جاتا ہے
کہ اس تحریر میں مزاح کا مواد کس نوعیت کا رہا ہو
گا۔ باباجی ممصود حسنی کے ہاں یہ چیز شاز ہی ملتی
ہے۔ عنوان سے لطعی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ تحریر
میں کس موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہو گا۔
ان کے ہاں مزاح بھی سنجیدہ اطوار لیے ہوئے ہے۔
گویا لاری حیرانی میں حظ اٹھاتا ہے۔ وہ ورطہءحیرت
میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ مصنؾ نے طنز کا شائبہ بھی
ہونے نہیں دیا‘ پھر گدگدا بھی دیا ہے۔ سنجیدگی سے
بات کرتے کرتے لطیفہ کرنے کا فن انہیں خوب آتا
ہے۔ روزمرہ یا پھر شائستہ سا ایس ایم ایس کا
استعمال بخوبی جانتے ہیں۔ بات سے بات نکالنے کے
فن پر انہیں بلاشبہ ملکہ حاصل ہے۔ کسی عوامی
محاورے یا مرکب سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ
محاورے یا مرکب‘ کسی نہ کسی سماجی رویے کے
عکاس ہوتے ہیں۔
لفظ‘ پروفیسر ممصود حسنی کے ہاتھوں میں دیدہ
زیب کھلونوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ لفظوں کو
مختلؾ تناظر میں استعمال کرکے نئے مفاہیم دریافت
کرتے ہیں۔ لفظوں کے استعمال کی یہ صورت ؼالب
کے بعد کسی کے ہاں پڑھنے کو ملتی ہے۔ وہ ؼالب
کے معنوی شاگرد بھی ہیں۔ ان کے مزاح میں زندگی
متحرک نظرآتی ہے۔ وہ اپنے اردگرد کو بڑے ؼور
سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ وہ متحرک زندگی کو
اپنے فکری ردعمل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کے
اسلوب سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ کب اور
کس ولت طنز کا کوئی تیر چھوڑ دیں گے۔
معاشرتی خرابیاں ان کا موضوع گفتگو رہتی ہیں۔ وہ
اپنے مزاج کے ہاتھوں مجبور نظر آتے ہیں۔ دفتر
شاہی بھی ان کے طنز سے باہر نہیں رہی۔ پروفیسر
ممصود حسنی کسی بھی موضوع پر للم کو جنبش
دیتے ولت حالات و والعات کا ایسا نمشہ کھنچتے ہیں
کہ معاملے کے جملہ پہلو آنکھوں کے سامنے
گھومنے لگتے ہیں۔ ان کی کسی تحریر کو پڑھتے
ولت لاری کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ پڑھ رہا
ہے یا دیکھ رہا ہے۔
باباجی ممصود حسنی زندگی کے خانگی حالات و
والعات کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ دہلیز کے
اندر کے موضوعات پر گفتگو کرکے شخص کی
خانگی حیثیت اور کارگزاری پر بھی بہت کچھ کہہ
جاتے ہیں۔ اس انداز سے کہہ جاتے ہیں کہ لاری کو
ہر ممکن لطؾ میسر آتا ہے۔ خانگی حالات و والعات
بیان کرتے ولت وہ صیؽہ متکلم استعمال کرتے ہیں
حالانکہ ایسے مزاح کا ان کی ذات سے دور دور تک
تعلك نہیں ہوتا۔ بعض تحریریں فرضی ناموں کے ساتھ
بیان کرکے اپنے فن کو کمال درجہ تک لے جاتے ہیں۔
باباجی ممصود حسنی کی مزاح نگاری کو روایتی لرار
نہیں دیا جا سکتا۔ انھوں نے روایت سےبؽاوت کرکے
نیا طرز اظہار دریافت کیا ہے۔ مزاح اور سنجیدگی دو
الگ سے طرز اظہار ہیں۔ سنجیدگی سے مزاح کا اظہار
متضاد عمل ہے لیکن یہ ان کے ہاں ملتا ہے۔ اس لیے
یہ بات دعوعے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ
سنجیدگی میں مزاح لکھتے ولت نئی زبان بھی
متعارؾ کرواتے ہیں۔
اس مختصر سے جائزے سے یہ بات اخذ کی جا سکتی
ہے کہ باباجی ممصود حسنی کی مزاح نگاری اردو
ادب میں انفرادیت کی حامل ہے جو اب تک اردو کے
کسی دوسرے مزاح نگار کے حصہ میں نہیں آ سکی
کیونکہ روایت کی پاسداری کرنے والے انفرادیت کے
دعوی دار نہیں ہو سکتے۔
ان کی مزاح نگاری کے چند نمونے ملاحظہ ہوں
ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے‘ بلی کتے
سے‘ کتا بھڑیے سے‘ بھیڑیا چیتے سے‘ چیتا شیر
سے‘ شیر ہاتھی سے‘ ہاتھی مرد سے‘ مرد عورت
سےاورعورت چوہے سے ڈرتی ہے۔ ڈر کی ابتدا اور
انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس اپنے مولؾ کی دلیل میں
میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں چھت پر بیھٹا تاڑا
تاڑی کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواندھار شور ہوا پھر
مجھے پکارا گیا۔ میں پوری پھرتی سے نیچے بھاگ
کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا کہ صندوق میں چوہا
گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے ڈرتا‘ پی
گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چلا گیا کہ تم نے مجھے بلی
یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ
چوہا صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔
ؼیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم
ہم بڑے مذہبی لوگ ہیں کسی سکھ کی سیاسی شریعت
تسلیم نہیں کر سکتے۔ راجا رنجیت سنگھ اول تا آخر
ممامی ؼیر مسلم تھا اس لیے اس کا کہا کس طرح
درست ہو سکتا ہے۔ راجا رنجیت سنگھ اگر گورا ہوتا
تو اس کی سیاسی شریعت کا ممام بڑا بلند ہوتا۔ گورا
دیس سے آئی ہر چیز ہمیں خوش آتی ہے۔
علم عمل اور حبیبی اداروں کا لیام
استاد کی باتوں کا برا نہ مانئیے گا۔ میں بھی اوروں
کی طرح ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔ اور کیا کروں مجھے
محسن کش اور پاکستان دشمن کہلانے کا کوئی شوق
نہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی کرنے کی باتیں ہیں کہ کتے
کے منہ سے نکلی سانپ کے منہ میں آ گئی۔ سانپ
سے خلاصی ہونے کے ساتھ ہی چھپکلی کے منہ میں
چلی گئی۔
ہم زندہ لوم ہیں
دو میاں بیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےؼصے
میں آ کر اپنی زوجہ ماجدہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ
مولوی صاحب کی کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے
کی دیگ اور دو سو نان ڈال دیے۔ نئی شادی پر اٹھنے
والے خرچے سے یہ کہیں کم تھا۔ میاں نے مولوی
صاحب کے ڈالے گیے اصولی خرچے میں عافیت
سمجھی۔ رات کو میاں بیوی چولہے کے لریب بیٹھے
ہوئے تھے۔ بیوی نے اپنی فراست جتاتے ہوئے کہا
"اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔"
بات میں سچائی اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود
تھی۔ میاں نےدوبارہ بھڑک کر کہا
"توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سی"
مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان
کچھ ہی پہلے‘ اندر سے آواز سنائی دی‘ حضرت
بےؼم صاحب حیدر امام سے کہہ رہی تھیں‘ بیٹا اپنے
ابو سے پیسے لے کر بابے فجے سے ؼلہ لے آؤ۔
عید لریب آ رہی ہے‘ کچھ تو جمع ہوں گے‘ عید پر
کپڑے خرید لائیں گے۔ بڑا سادا اور عام فیہم جملہ ہے‘
لیکن اس کے مفاہیم سے میں ہی آگاہ ہوں۔ یہ عید پر
کپڑے لانے کے حوالہ سے بڑا بلیػ اور طرح دار طنز
ہے۔ طنز اور مزاح میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔
طنز لڑائی کے دروازے کھولتا ہے جب کہ مزاح کے
بطن سے لہمہے جنم لیتے ہیں۔ جب دونوں کا آمیزہ
پیش کیا جائے تو زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے
اور ایسی جعلی مسکراہٹ سے صبر بھلا‘ دوسرا بات
گرہ میں بندھ جاتی ہے۔
لاٹھی والے کی بھینس
ان کی ایک مزاح پر مشتمل کتاب بیگمی تجربہ ١٩٩٣
میں شائع ہوئی جو اس سے پہلے نمد و نمد کے نام
سے منظر عام پر جلوہ گر ہوئی۔ اس کتاب کو اہل ذوق
نے پسند کیا۔ چند آراء ملاحظہ ہوں
آج ہمارا معاشرہ جس فتنہ و فساد اور پرآشوب دور
سے گزر رہا ہے جس کو بدلسمتی سے تہذیب و ترلی
سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی شدت کو کم کرنے کے
لیے سنجیدہ رویہ اختیار کرنے سے زیادہ لطیؾ طنز
و مزاح کے نشتر چبھونا موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
مصنؾ موصوؾ نے اس حمیمت کو بخوبی سمجھ لیا
ہے اور معاشرے کے ان زخموں سے فاسد مادہ کو
طنزومزاح کے نشروں سے نکالنے کی کوشش کی
ہے۔
ثناءالحك صدیمی
ماہنامہ الانسان کراچی مئی ١٩٩٤صفحہ نمبر ٣٢
ممصود صاحب بڑے ذہین معاملہ شناس مدبر اور نئی
سوچ کے مالک ہیں۔ بڑی بات یہ کہ آپ سچے اور
منفرد انداز کے بادشاہ ہیں۔ میں تو کہوں گا کہ میں
نے ساٹھ ہزار کتب کا مطالعہ کیا ہے ان میں ایسی
معیاری کتب کوئی ایک درجن ہوں گی۔ اس کتاب نے
مجھے بڑا متاثر کیا ہے۔ میں اسے سندھ کے شاہ جو
رسالو کی طرح اپنے سفر میں بھی ساتھ رکھوں گا
اور بار بار پڑھوں گا۔
مہر کاچیلوی
بیگمی تجربہ پر اظہار خیال‘ ہفت روزہ عورت میرپور
خاص سندھ ١٨نومبر ١٩٩٣
ان کی زبان میں لطافت ہے‘ ظرافت ہے‘ سحر آفرینی
ہے۔ انھوں نے جس ہنرمندی سے باتوں سے باتیں
نکالی ہیں‘ وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ انھوں نے مزاحیہ
طرز سے پژمردہ دلوں میں زندگی اور زندہ دلی کی
روح پھونک دی ہے۔ خشک ہونٹوں پر پھول نچھاور
کیے ہیں۔
ڈاکٹر وفا راشدی
سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ٢٠٠٥
بیگمی تجربہ پر اظہار خیال
بیگمی تجربہ میں کل ٣١مضمون شامل تھے جن کی
تفصیل درج خدمت ہے
بچوں کی بددعائیں نہ لیں 1
عمل بڑی یا بھینس 2
بیمار ہونا منع ہے 3
حاتم میرے آنگن میں 4
کاؼذی لصے اور طالت کا سرچشمہ 5
شادی+معاشمہ:جمہوری عمل 6
مجبور شرک 7
ترلی‘ ہجرین اور عصری تماضے 8
دمدار ستارہ اور علامتی اظہار 9
ویڈیو ادارے اور لومی فریضہ 10
چھلکے بکریاں اور میمیں 11
پہلا ہلا اور برداشت کی خو 12
بیگمی تجربہ اور پت جھڑ 13
انسانی ترلی میں جوں کا کردار 14
اصلاح نفس اور برامدے کی موت 15
سنہری اصول اور دھندے کی اہمیت 16
بش شریعت اور سکی نمبرداری 17
نیل کنٹھ‘ شیر اور محکمہ ماہی پروری 18
بہتی گنگا اور نمد و نمد 19
ملاوٹ اور کھپ کھپاؤ 20
سپاہ گری سے گداگری تک 21
یار لوگ اور منہگائی میمو 22
سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے 23
ہدایت نامہ خاوند 24
ہدایت نامہ بیوی 25
ادھورا کون 26
محنت کے نمصانات 27
محاورے کا سفر 28
کتےاور عصری تماضے 29
جواز 30
ظلم 31
مزاح سے متعلك ان کے بہت سے مضمون انٹرنیٹ کی
مختلؾ ویب سائٹس پر پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان
کے ان مضامین کو سراہا گیا ہے۔ اس ذیل میں صرؾ
اردو انجمن سے متعلك چند اہل للم کی آراء ملاحظہ
ہوں
آپ کا یہ نہایت دلچسپ انشائیہ پڑھا اور بہت محظوظ و
مستفید ہوا۔ جب اس کے اصول کا خود پر اطلاق کیا تو
اتنے نام اور خطاب نظر آئے کہ اگر ان کا اعلان کر
دوں تو دنیا اور عالبت دونوں میں خوار ہوں۔ سو
خاموشی سے سر جھکا کر یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ۔
انشا ئیہ بہت مزیدار ہے شاید اس لئے کہ حمیمت پر
مبنی ہے۔ اس آئنیہ میں سب اپنی صورت دیکھ سکتے
ہیں۔
اکتوبر 10:43:43 ,2013 ,20شام
مشتری ہوشیار باش
سرور عالم راز
آپ کے انشائیے پر لطؾ ہوتے ہیں۔ خصوصا اس لئے
بھی کہ آپ ان میں اپنی طرؾ کی یا پنجابی کی معروؾ
عوامی اصطلاحات (میں تو انہیں یہی سمجھتا ہوں۔ ہو
سکتا ہوں کہ ؼلطی پر ہوں) استعمال کرتے ہیں جن کا
مطلب سر کھجانے کے بعد آدھا پونا سمجھ میں آ ہی
جاتی ہے جیسے ادھ گھر والی یا کھرک۔ یا ایم بی بی
ایس۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کھرک جیسا با
مزہ مرض ابھی تک جدید سائنس نے ایجاد نہیں کیا
ہے۔ والله بعض اولات تو جی چاہتا ہے کہ یہ مشؽلہ
جاری رہے اور تا لیامت جاری رہے۔ اس سے یہ فائدہ
بھی ہے کہ صور کی آواز کو پس پشت ڈال کر ہم
:کھرک اندازی :میں مشؽول رہیں گے۔ الله الله خیر سلا۔
میری ناچیز بدعا
اگست 09:00:12 ,2013 ,14صبح
سرور عالم راز
مجھے علم نہیں ہے کہ محترمہ زھرا کون ہیں ،لرین
لیاس یہی ہے کہ انکا تعلك بزم سے ہوسکتا ہے۔
ملالات کی روداد میں گھریلو ماحول کی عکاسی بہت
عمدگی سے کی گی ہے ،اور یہ وہ کہانی ہے جو گھر
گھر کی ہے۔ اہل خانہ پر گھبراہٹ کا عالم اور اندیشہ
ہاے دور دراز ،گھر کے سربراہ کی والعی جان پر بن
آتی ہے۔ ایک لطیؾ تحریر جس سے لطؾ اندوز ہونے
کا حك ہر لاری کو ہے
خلش
آپ کا انشائیہ حسب معمول نہایت دلچسپ اور شگفتہ
تھا۔ پڑھ کر لطؾ آ گیا۔ اس زندگی کی بھاگ دوڑ اور
گھما گھمی میں چند لمحات ہنسنے کے مل جائیں تو
الله کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ہاں یہ پڑھ کرانتہائی حیرت
ہوئی کہ زہرا صاحبہ برلعہ میں آئین! یا میرا چشمہ ہی
خراب ہو گیا ہے؟ ایک نہایت پر لطؾ اور دل پذیر
تحریر کے لئے داد لبول کیجئے۔
لصہ زہرا بٹیا سے ملالات کا
نومبر 03:25:04 ,2013 ,03صبح
سرور عالم راز
جیسے جیسے آپ کی تحریر پڑھتا گیا ہنسی کا ضبط
کرنا ناگزیر ہوتا چلا گیا اور آخر میں میری حالت
پاکستان میں کسی زمانے میں جی ٹی روڈ پر چلنے
والی اس کھچاڑا جی ٹی ایس
) گورننمٹ ٹرانسپورٹ سروس(
کی طرح ہوگئی جو رک جانے کے بعد بھی ہلتی رہتی
تھی ،بڑی دیر تک لطؾ اندوز ہونے کے بعد سوچا
اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار کر ہی دیا جائے
وہ کہتے ہیں ناں کہ جس سے پیار ہوجائے تو اس کا
اظہار کر دو کہ مبادا دیر نہ ہو جائے
تو جناب ڈاکٹر صاحب میری جانب سے ڈھیروں داد آپ
کے للم کے کمال کی نذر کہ جس سے چہروں پر
مسکراہٹیں بکھر جائیں
لاٹھی والے کی بھینس
جولائی 09:45:29 ,2013 ,12شام
اسماعیل اعجاز
اردو نیٹ جاپان‘ اردو انجمن‘ ہماری ویب‘ فرینڈز
کارنر‘ پیؽام ڈاٹ کام‘ فورم پاکستان اور فری ڈم یونی
ورسٹی سے‘ میں نے ٦٩مضامین تلاش کیے ہیں۔ ان
کی تفصیل درج ذیل ہے
بھگوان ساز کمی کمین کیوں ہو جاتاہے 1
ؼیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم 2
عوامی نمائیندے مسائل' اور بیورو کریسی 3
علم عمل اور حبیبی اداروں کا لیام 4
امریکہ کی پاگلوں سے جنگ چھڑنے والی ہے 5
لوڈ شیڈنگ کی برکات 6
ہم زندہ لوم ہیں 7
طہارتی عمل اور مرؼی نواز وڈیرہ 8
رولا رپا توازن کا ضامن ہے 9
آدم خور چوہے اور بڈھا مکاؤ مہم 10
پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر 11
سیاست دان اپنی عینک کا نمبر بدلیں 12
لانون ضابطے اور نورا گیم 13
خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر 14
خدا بچاؤ مہم اور طلاق کا آپشن 15
ؼیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم 16
جرم کو لانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں 17
ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو دوسیریاں 18
لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت 19
اس عذاب کا ذکر لرآن میں موجود نہیں 20
بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ 21
عوام شاہ کے ڈراموں کی زد میں رہے ہیں 22
دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو 23
رشوت کو طلاق ہو سکتی ہے 24
عوام بھوک اور گڑ کی پیسی 25
رمضان میں رحمتوں پر نظر رہنی چاہیے 26
جمہوریت سے عوام کو خطرہ ہے 27
سیری تک جشن آزادی مبارک ہو 28
دو لومی نظریہ اور اسلامی ونڈو 29
گھر بیٹھے حج کے ایک رکن کا ثواب کمائیں 30
مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان 31
لاٹھی والے کی بھینس 32
دمہ گذیدہ دفتر شاہی اور بیمار بابا 33
انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ 34
ؼیرملکی بداطواری دفتری اخلالیات اور برفی کی چاٹ
35
حمیمت اور چوہے کی عصری اہمیت زندگی 36
تعلیم میر منشی ہاؤس اور میری ناچیز لاصری 37
محاورہ پیٹ سے ہونا کے حمیمی معنی 38
آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں 39
دیگی ذائمہ اور مہر افروز کی نکتہ آفرینی 40
ایجوکیشن‘ کوالیفیکیشن اور عسکری ضابطے 41
وہ دن ضرور آئے گا 42
صیؽہ ہم اور ؼالب نوازی 43
پروؾ ریڈنگ‘ ادارے اور ناصر زیدی 44
ناصر زیدی اور شعر ؼالب کا جدید شعری لباس 45
لصہ زہرا بٹیا سے ملالات کا 46
مشتری ہوشیآر باش 47
مدن اور آلو ٹماٹر کا جال 48
احباب اور ادارے آگاہ رہیں 49
کھائی پکائی اور معیار کا تعین 50
بابا بولتا ہے 51
بابا چھیڑتا ہے 52
لاوارثا بابا اور تھا 53
فتوی درکار ہے 54
ڈینگی‘ ڈینگی کی زد میں 55
حضرت ڈینگی شریؾ اور نفاذ اسلام 56
یہ بلائیں صدلہ کو کھا جاتی ہیں 57
اب دیکھنا یہ ہے 58
سورج مؽرب سے نکلتا ہے 59
یک پہیہ گاڑی منزل پر پہنچ پائے گی 60
حجامت بےسر کو سر میں لاتی ہے 61
انھی پئے گئی اے 62
امیری میں بھی شاہی طعام پیدا کر 63
وہ دن کب آئے گا 64
آزادی تک‘ جشن آزادی مبارک 65
رشتے خواب اور گندگی کی روڑیاں 66
پنجریانی اور گناہ گار آنکھوں کے خواب 67
میری ناچیز بدعا 68
طالت اور ٹیڑھے مگر خوبصورت ہاتھ 69
انسان کی تلاش 70
معاشی ڈنگر اور کاؼذ کے لاوارث پرزے 71
صبح ضرور ہو گی 72
لیامت ابھی تک ٹلی ہوئی ہے 73
وہ دن گیے جب بن دیے بھلا ہوتا تھا 74
عین ممکن ہے 75
کھائی بھلی کہ مائی 76
دفتر شاہی میں کالے گورے کی تمسیم کا مسلہ 77
درج بالا مختصر تفصیلات سے بخوبی اندازہ لگایا جا
سکتا ہے کہ باباجی ممصود حسنی اس صنؾ ادب میں