میرے ابا۔۔۔۔۔۔ ایک مطالعاتی جائزہ
ممصود حسنی
خاکہ' سوانح عمری کی نسبت' مختصر ہوتا ہے لیکن
اس میں' زیادہ سے زیادہ اس شخص' اس کے کنبہ
اور اس کے سماج سے راہ و رسم کے حوالہ سے'
معلومات فراہم کی گئی ہوتی ہیں۔ خاکہ کے دور نزدیک
کے جانو لکھاری ہونے کے سبب تین طور دیکھنے
کو ملتے ہیں۔
لکھنے والے کے ذاتی تعلك کے حوالہ سے معاملات
ولتی' اتفافیہ یا حادثاتی امور و اطوار
سنے سنائے یعنی باالوسطہ چلن کی سرگزشت
اول الذکر' بہت لریب کی صورت ہے' لیکن اس کا تعلك
دہلیز کے اس پار سے ہے' اس لیے یہ یک طرفہ
ہوتی ہیں کیوں کہ اس شخص کے' دہلیز کے اندر اور
دہلیز پار کے اطوار' مختلف اور اکثر برعکس ہوتے
ہیں۔ اس حوالہ سے' ان پر درست یا مکمل کی مہر'
ثبت نہیں کی جا سکتی۔
دوسری ولتی ہوتی ہے اور شخص کے' عمومی اطوار
سے لگا نہیں رکھتی۔ اس لیے' اسے پیمانہ ٹھہرا کر'
کوئی نتیجہ اخذ کرنا' درست نہیں ہوتا ہے۔
تیسری صورت لمحاتی ہوتی ہے .اسے بھی' شخصی
فطرت یا اس کی فطرت ثانیہ کا درجہ نہیں دیا سکتا
اور ناہی' اس کے حوالہ سے' شخصیت کا مجموعی
احاطہ کیا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی دہلیز کے اندر کا لکھتا ہے' تو اس کی ذاتی
محبت یا نفرت کا جذبہ غالب رہتا ہے' ہاں اگر اس کے
اندرونی و بیرونی احوال کو للم بند کر دیا جاتا ہے' تو
یہ دوطرفہ ہونے کے سبب' زیادہ معلومات افروز ہوتا
ہے' جس کے باعث' اس شخص کی شخصیت کو
جاننے اور پہچاننے میں' مدد ملتی ہے۔ ساتھ ساتھ
لکھنے والے اور دہلیز کے اندر کے بعض لوگوں کا'
تعارف اور ان کی شخصیت کے' مضبوط اور کم زور
پہلو بھی' سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔
ہر لکھنے والے کا' اپنا اسلوب ہوتا ہے لیکن خاکہ
نگاری میں' متعلك اور رسمی متعلك کا عنصر' اسلوب
پر اثر انداز ہوتا ہے بل کہ غالب رہتا ہے۔ متعلك میں'
محبت یا نفرت کے زیر اثر' اسلوب ترکیب پاتا ہے۔ اس
ذیل میں' غیرجانب داری کی ہر سعی' کسی ناکسی
سطح پر' ضرور مجروع ہوتی ہے اور یہ امر' بہرطور
بس کا نہیں ہوتا۔
اچھے خاکے کی' سب بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ لاری
کو' متاثر بھی کرے اور اس میں یہ خواہش پیدا ہو یا
:زور پکڑے
'کاش کہ یہ خوبی میرے کردار کا حصہ بن جائے '
اگر وہ خاکہ' لاری کے سوچ میں' کسی بھی سطح پر'
بدلاؤ کا سبب بنتا ہے' تو سمجھیے لکھنے والے کی
محنت' کارگر ثابت ہوئی۔ اسی طرح' کسی معاملہ سے
نفرت جنم لیتی ہے' تب بھی تحریر کو' کامیاب تحریر
لرار دیا جائے گا۔
عزیزہ مہر افروز کا تحریر کردہ خاکہ۔۔۔۔۔۔۔ میرے ابا
۔۔۔۔۔۔ نظر سے گزرا اور پھر' گزرتا ہی گیا۔ بلامبالغہ
کہوں گا' کہ یہ کمال کی تحریر ہے۔ انہوں نے خان
صاحب مرحوم کی شخصیت کا' جس انداز سےاحاطہ
کیا ہے' وہ بلاشبہ داد کی مستحك ہیں۔ اس خاکہ کو
پڑھ کر' میرے دل میں دو خواہشوں نے جنم لیا
الله' اس سوچ اور فکر کی بیٹی سے' ہر کسی کو
.نوازے
کاش خان صاحب مرحوم سے اطوار' ہر کسی میں پیدا
جائیں۔
گھر کے ڈسپلن میں' ہر کسی کو ایسا ہی ہونا چاہیے'
.تاہم چیخ و پکار سے زیادہ' گھرکی جان دار ہو
اپنے بچوں کو' اپنے لریب رکھے' ان کے جائز امور
و معاملات سے' آگاہی رکھے اور بہتری میں براہ
راست ملوث رہے۔
علم حاصل کرئے اور اس کی تمسیم میں' بخل سے کام
نہ لے۔
اپنے بچوں کو' گفت گو یا کہانی کے انداز میں' اچھی
باتیں بتائے۔
بچوں کی تعلیم کے معاملہ میں' غربت کو بہانہ یا جواز
نہ بنائے .ان کی تعلیم کے لیے' ہر لسم کی لربانی
سے کام لے۔
اس خاکے سے یہ امور بھی وضاحت کے ساتھ
سامنے آتے ہیں کہ
بزرگوں اور اہل علم کے معاملے میں' آدمی کو کیسا
.ہونا چاہیے
ذات تک محدود سوچ' تھوڑدل بناتی ہے۔
اوروں کے لیے سیری اور اپنے لیے' بھوک بچانا ہی
معراج انسایت ہے۔
آدمی کو' بلا کسی تمیز و امتیاز' لوگوں کی مدد کرتے
رہنا چاہیے۔
ہم دردانہ رویہ' انسانوں میں اعتبار کا سبب بنتا ہے۔
صاحب تموی کبھی خسارے میں نہیں رہتے۔
شخص پر' جملہ مخلولات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے
اور یہ ہی چیز' اسے اشرف المخولات ٹھہراتی ہے۔
خاکہ' خان صاحب مرحوم کی زندگی کے احوال و
اطوار کھولنے کے ساتھ ساتھ' ان کے عہد کے
اشارے فراہم کرتا ہے۔ مثلا
مٹی کا تیل بھی راشن میں ملتا۔ صرف چھوٹی سی "
"ایک بتی جلتی رہتی
اسی طرح' ان کی سیاسی ہمدردیاں بھی غیرواضح
نہیں رہتیں۔
ان کی' سادات وشیوخ سے محبت و عمیدت' ہر لسم
کے شبے سے بالا رہتی ہے۔ ہاں البتہ' اس ذیل میں یہ
پیرہ خصوصی توجہ چاہتا ہے۔
ابّا بہت محنتی۔ اور عاجز مزاج تھے۔ صبح گھر اور "
آنگن میں جھاڑو لگانا خود پر لازم کر رک ّھا تھا۔ ا ّماں
چونکہ اعل ٰی گھر سے تھیں۔ اسلئے کبھی ا ّماں کو
جھاڑو لگانے نہیں دیا ۔ نہ گھر کا بیت الخلاء اور
موریاں صاف کرنے دیں۔ کہتے' میں پٹھان ہوں اور
"تمہاری ا ّماں شیخ اور سید گھرانے سے ہے۔
گھر گرہستی میں' بیٹی مہر افروز کی اماں کی کم
زور شخصیت کو سامنے لاتا ہے۔ جو بھی سہی' وہ
خان صاحب مرحوم بیوی تھیں۔
خاکے کا مطالعہ کرتے' بیٹی مہر افروز کی اپنی
شخصیت اور ان کی زندگی کے احوال بھی سامنے
آتے ہیں
خاکے کی زبان سادہ' رواں' عام فہم اور بےتکلف ہے۔
مطالعہ کے دوران' کسی موڑ پر' ابہامی صورت پیدا
نہیں ہوتی۔ ہر چند معلومات' لطف اور عصری شہادتیں
میسر آتی ہیں۔ اکتاہٹ کی' کہیں صورت پیدا نہیں ہوتی۔
کہیں کہیں ممامی مہاورے کا استمال ہوا ہے' جو
لسانیاتی حظ کا سبب بنتا ہے۔
بیٹی مہر افروز کی یہ تحریر' مجھے بہت ہی اچھی
لگی ہے۔ الله ان کے للم کو' مزید توانائی اور روانی
سے سرفراز فرمائے۔
میر ے ابّا
خا کہ
مہرافروز
دھارواڑ ۔ کرناٹک
موبائل 09008953881 :
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔
باپ سائبان ہوتا ہے۔ اسکی حمیمت اُس سے پوچھیں
جو یہ سائبان کھوچکے ہیں۔ ہمیں تو یہ سائیبان
کھوئے ہوئے تمریباً 22سال پورے ہو رہے ہیں۔ اور
زندگی کی جلتی دھوپ کی تپش ہمیشہ یہ یاد دلاتی ہے
کہ والد کی دعائیں ہوتیں تو شایدیہ گرمی کی حدّت
اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔
گھر میں میرے بچپن کی لگی بہت سی تصاویر دیکھ
کر ہمیشہ حیرانی ہوتی کہ ابّا نے اتنی تصاویرکیوں
نکلوائیں ہونگی۔تب ا ّمی کہتی وہ’’تجھ سے بہت پیار
کرتے تھے‘‘۔مگر میں نے اپنے ہوش میں کبھی ابّا کو
ُمربی اور محبت والا نہیں پایا۔ ہمیشہ اُنکی ڈانٹ ڈپٹ
اور غ ّصہ ہی دیکھا وہ بہت سخت والد تھے۔ایسے
کیوں بیٹھا۔’’یہ کیوں کیا‘‘ وہ کہاں رکھا‘‘۔’’یہ آج‘‘ اس
جگہ سے کھسکا کیوں ہے‘‘ کس نے میری الماری کو
ہاتھ لگایا‘‘۔ یہ ابّاکے ہمیشہ سے سوال اور گرج ہوتی
جب کبھی وہ گھر میں داخل ہوتے ..اُنکے مزاج میں
بہت زیادہ دُرستگی تھی۔ گھر کی ہر چیز صاف ستھری
۔ اپنی جگہ موجود اور درست ہونی چاہئے تھی۔ اگر نہ
ہوتی تو پھر آسمان سر پر اُٹھالیا جاتا۔ اور ہمیں جلدی
جلدی سب کو ٹھیک ٹھاک جگہ پر رکھنا ہوتا۔ ابّا کا
غ ّصہ اور خوف ہر جگہ اور ہمیشہ طاری رہتا۔ اور دل
میں گھبراہٹ لگی رہتی آج کچھ غلطی نہ ہوجائے اور
ڈانٹ ڈپٹ حت ٰی کہ بڑی غلطی پر مار بھی کھانی نہ
پڑجائے۔
پٹھان تھے۔ خوددار طبعیت اور بہت زیادہ غ ّصے
والے۔
ہماری صبح تہجدّ سے ہوتی۔ جیسے وہ اُٹھتے آوازیں
لگانا شروع کردیتے۔ یہ تم اُٹھو ،تم اُٹھو۔ کچھ سستی
ہوتی یا طبعیت خراب ہوتی تو ’’شروع ہو جاتے۔
ُمردوں کی طرح سونا االله کو پسند نہیں۔ رزق کے
فرشتے رزق واپس لے جاتے ہیں۔ اُٹھو۔ اور ہم سب
کو بادل ناخواستہ اُٹھنا پڑتا۔ اُنکی وہ تربیت آج بھی
زندگی کا ح ّصہ ہے۔ صبح سویرے آنکھ کھل جاتی ہے۔
زیادہ دیر سوجائیں تو ابّاکی آواز بے ساختہ کانوں میں
گونجتی ہے۔ ’’سورج نکلنے کے بعد کا سونا ُمردوں
کاسونا ہے‘‘۔اور میں گھبرا کر اُٹھ بیٹھتی ہوں ہمارا ہر
چیز کا ولت ممرر تھا۔ نماز کے بعد فوراً تلاوت لرآن
کرتے باآواز بلند لرات اتنی عمدہ تھی کہ دل میں اُتر
جاتی آج بھی لران پڑھتے ولت اُنکا تلفظ اور آواز
کانوں میں گونجتی ہے۔ اور دل بے ساختہ چاہتا ہے
کوئی باآواز بلند گھر میں ایسی لرآت کرے۔
ہم چاروں بہن بھائی سات سال کے اندر لرآن سیکھ
گئے ۔کیونکہ سکھانے والے خود ابّا تھے۔
آج اُردوہم سب کو جو بھی کچھ آتی ہے وہ صرف اور
صرف ابّا کی وجہ سے ہے ا ّمی مرہٹی میڈیم کی پڑھی
تھیں۔ ا ّمی کو بھی اُردو ابّا نے ہی سکھائی۔ اُنکی اپنی
زبان میں’’ مجھے بچہ دو دو ماہ میں طوطا بنادوں
گا‘‘اوروہ والعی دو ماہ میں بچ ّوں کو اُردو بہ آسانی
سے پڑھنا اور لکھنا سکھا دیتے ہیں۔ آج ڈانڈیلی میں
جتنے بھی اُنکے شاگرد ہیں۔ سب کے سب دم بھرتے
ہیں۔ “آج ہم یہاں پر ہیں تو صرف اور صرف پٹھان
”جناب کی وجہ سے ہیں۔
ابّا جن کا طریمۂ تعلیم یہ تھا کہ کھیل کھیل میں الفاظ
بنانا ،جوڑنا ،بولنا ،کہنا ،پڑھنا اور پھر زمین پر اُنگلی
سے لکھنا ‘ہوا میں لکھنا ،پھر تختی پر لکھنا
سکھاتے۔ خطاطی کے ماہر تھے ایسی خوبصورت
تحریر کہ دیکھتے بنتی۔ ابّا اُردو پڑھنا لکھنا نہ
سکھاتے تو شاید آج جو کچھ ہوں وہ بھی نہ ہوتی۔
شاعری کرتے آزاد تخلص کرتے اور کمال لکھتے۔ اُن
کی ڈائرئیوں میں بند اشعار دل کو چھولیتے ہیں۔ مگر
خود کی تشہیر کبھی نہیں کہ نہ شاعری چھپوا ئی ،نہ
مضامین چھپوائے ،نہ کہیں بھیجے۔ کمال کی یاداشت
تھی۔ جانے کس کس کے ممولے تحاریر یاد تھیں۔
کسی کا ذکر ہوا تو کہا لائبریری سے فلاں کتاب لو اور
فلاں صفحہ دیکھو۔ وہ بہت اچھے خطیب و ممرر تھے۔
میں نے انکی پرجوش تماریر کئی مرتبہ سنئی ہیں۔
عوام کو روتے دیکھا ہے۔ اور جوش میں نعرۂ تکبیر
کی آوازیں لگاتے بھی سنا ہے۔ آج ہم میں اگر دین
،اُردو ادب کی معلومات ,اور یاداشت کا مادّہ ہے تو
صرف اور صرف ابّا کی دین ہے۔ مجھے یاد ہے
1992میں شادی کے بعد میں اُردو۔ ایم۔ اے۔ کر رہی
تھی۔ سب سے بڑی مشکل بنیادی اُردو کی تھی۔ نہ
فارسی سمجھ میں آئی نہ ثمیل اُردو کے الفاظ اور البال
تو سر پر سے گذرجاتے۔ بڑی پریشان تھی۔ ابّا نے
پوچھا کیوں پریشان ہو۔ میں نے اپنی تکلیف بتائی۔
ارے اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ تم آجاؤ میں
ُچھٹیوں میں مائیکے چلی گئی۔ ۔ اب روزانہ صبح ہوتی
تو میری کلاس لگتی۔ ابّا کلا ِم البال برزبانی سناتے پھر
گھنٹوں تشریح کرتے۔ پندرہ دن میں البال پورے کے
پورےذہن میں اُتر گئے،پھر غالب حالی ۔سرسید ۔
مولانا آزاد۔ جانے کس کس کی باری آئی۔ ابّا تشریح
کرتے اور میں ضروری نوٹس بناتی۔ اور پھر میں نے
امتحان دیا۔ حالانکہ ایک دن بھی یونیورسٹی نہیں گئی
نہ کسی کی کلاس سنی بس امتحان دیدیا۔ اور ماشاء
االله کامیابی نمایاں تھی ۔ میں نے ایم۔اے کی ڈگری لی
اور ابّاایسے خوش ہوئے جیسے اُنھوں نے لی ہو۔
حالانکہ میرے ابّاجی 1955کے صرف ساتویں پاس
ہی تھے۔
مجھے میرا بچپن یاد ہے۔ گرمیوں کے دن بجلی تو
نہیں تھی شام ہوتے ہی لالٹن جلاتے۔ میرا اور میرے
چھوٹے بھائی کا کام ہوتا۔ لالٹین کے گولے پونچھتے۔
مٹی کا تیل ڈالتے اور شام سے ہی چراغ جلا لیتے۔
دس بجے تک سارے لالٹین بند ہوجاتے۔ مٹی کا تیل
بھی راشن میں ملتا۔ صرف چھوٹی سی ایک بتی جلتی
رہتی اور ہم سب صحن میں ابا کے ارد گرد بیٹھ کر،
کہانیاں سنتے راجا رانیوں اور پریوں کی نہیں بلکہ
تمام پیغمبران کی۔ آدم علیہ سے اسلام سے لیکر
حضور تک سب کی کہانیاں ابا کی زبانی مگر کہانیوں
کی جو خصوصیت ہوتی وہ ابّا کی بیان بازی تھی۔
کہانی ایسے سناتے کہ جیسے ہم اُن سب کو ہوتا دیکھ
رہے ہوں۔ آج جب اپنے ب ّچوں کو
کہانی سنانے بیٹھوں تو سنانا نہیں آتا۔ بیساختہ آنسو
آتے ہیں اور ابا یاد آتے ہیں۔
مجھے یاد ہے ،طوفان نوح کا ل ّصہ سناتے ولت ابّا
نے جو سماں باندھا تھا ،وہ اتنا ذہن میں مرصع تھا کہ
سونامی کی طوفانی لہروں کو دیکھا ،تو ڈر نہیں لگا
کیونکہ اُس سے زیادہ بڑا طوفان میں نے تخیّل کی
نگاہ سے دیکھ رک ّھا تھا۔
موس ٰی علیہ السلام کا فرعون کے دربار میں،
جادوگروں کے ساتھ جب مذاکرہ سنایا ،تو جادوگر
سامری کا اژدھا ایسا ہماری طرف بڑھ رہا تھا کہ ہم
سب کی چیخیں نکل گئی تھیں۔
حضور ابراھیم علیہ السلام کی نمرود کے آگ میں
پھینکے جانے کا منظر ،اب بھی ذہن میں تازہ ہے اور
حضرت جبرئیل علیہ کے پروں کا لمس ،جب اُنھوں
نے حضرت ابراہیم کو سمٹا تو وہ لمس ابھی کہیں
تخیل میں بالی ہے۔
حضور شہنشاہ دو جہاں پر پھینکی جانے والی
غلاظت ،اپنی پیٹھ پر محسوس کی۔ طیف کے پتھروں
کی وجہ سے حضور کا خون مبارک کا بہنا ،اور
جوتوں میں جم جانا دیکھا۔ حضور کی اونٹ پر مکہ
سے مدینے کی ہجرت کو آنکھوں سے دیکھا۔ اور
نہیں لگا کبھی کہ ہم اُس زمانے میں نہیں تھے۔
ایمان صرف سیکھنے سے نہیں بنتا۔ سننے تخیّل کی
نگاہ سے دیکھنے اور سنانے سے بنتا ہے ۔ آج ایمان
کی جو بھی حالت ہے ابا کی وجہ سے ہے۔ بالکل ایسا
ٹی۔وی۔ پر HDLلگتا ہم اُسی زمانے میں ہیں۔ آج کی
چلتی منظر نگاری میں وہ مزہ نہیں ہے۔ جو ابّا کے
اُس بیان میں تھا۔
آج افسانہ نگار ہوں۔ شاعرہ ہوں ممر ّر ہوں۔ تو صرف
صرف میرے ابّا کی مرہون منّت ہے۔ اُنکے ناخن بھر
کاعلم مجھ میں نہیں ہے۔ مگر اُنکی کہی باتیں اب بھی
یاد ہیں اور وہی یاد مجھ سے لکھواتی ہے اور زبان
گنگ ہوجاتی ہے۔
خودداری بہت تھی۔ غربت کا معاملہ پرائمری اسکول
کے اُستاد تھے۔ کم تنخواہ ہم۔ بھائی بہن چار۔ پھر ایک
چچا کا لڑکا اور ایک خالہ کی ب ّچی کو بھی گھر میں
رکھا تھا۔ ایک پھوپی تھیں۔ بیوہ اُن کی آٹھ اولادیں۔ اُن
کی تعلیم کا انتظام بھی اپنے سر لے رکھا تھا۔ بالاعدہ
پھوپی کو پیسہ بھیجتے ہر ماہ تاکہ اُنکو تکلیف نہ ہو۔
ہمارا سارا معاملہ االله پر ڈال رکھتے۔
توکل کا عجیب عالم تھا۔ کہتے کل کا مت سوچو االله
دیگا اور االله دوسرے دن انتظام کردیتا۔ اسکول سے
لوٹنے پر ایک دکان میں حساب کتاب کا کام دیکھتے
اور رات میں جو بھی وہ دیتے اُس سے سودا سلف
لاتے اور گھر چل جاتا۔ بچپن تنگ دستی میں گذرا
کبھی کبھی کپڑوں اور جوتوں کے لئے بھی مشکل
آتی۔ شاید میں نے ہائی اسکول میں آنے کے بعد چپل
پہنی ہے ۔ اُس سے پہلے جوتے نہیں دیکھے۔ مگر
ایک والعہ یاد ضرور ہے۔ شاید چوتھی جماعت میں
تھی۔ اسکاؤٹ گرلز میں شامل تھی۔ ساری ورزش اور
سارے آسن کرتی تھی۔ مگر سال کے آخر تک ابّا
یونیفارم کے پیسے نہیں دے سکے۔ 26جنوری کو
میونسپلٹی کے میدان میں ہمارا مظاہرہ تھا۔ 25جنوری
کی شام کو آخری ڈرل ہو رہی تھی۔ سکاؤٹ ماسٹر نے
مجھے باہر نکال دیا کہ کل کا پرچم کوئی اور پکڑے
گی کیونکہ میرے پاس یونیفارم نہیں تھا۔ اور میں
روتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی۔ میری وہ تمریر بھی
منسوخ کر دی گئی جو مجھے میونسپل میدان میں
کرنا تھی۔ میرے آنسو دیکھ کر بولے چل اور میں چل
پڑی۔ بازار گئے سب سے اچھا اور مہنگا فراک میرے
لئے خریدا۔جوتے لئے سفید ،سفید ربن اور چوڑیاں
بھی ,پھر گھر آکر ا ّمی سے کہا اسے رات میں نہلانا۔
صبح میں لے جاؤں گا ۔ صبح مجھے اسکول نہیں
بھیجا گیا۔ ابّا مجھے لیکر میونسپل گراؤنڈ پہنچے۔
ہمارے اسکاوٹ گروپ کا مظاہرہ ہوا۔ دوسری لڑکی
کپتانی کر رہی تھی۔ میں حسرت سے دیکھتی رہی۔ پھر
تمریر بھی کسی اور نے کی۔ ابّا نے میونسپل آفیسر
سے خصوصی اجازت لی اور میری بھی تمریر ہوئی
اُن دنوں میں بہت چھوٹی اور کم لد کی تھی۔ اس لئے
مجھے ایک میز پر کھڑا کیا گیا تھا اورجب میری
تمریر ختم ہوئی تو میدان میں تالیوں کی گونج تھی۔ وہ
لمحہ تھا اور آج ہوں اس کے بعد میرے اندر وہ اسٹیج
فیر'ڈر' کبھی نہیں آیا۔ اسکی وجہ میرے ابّا تھے۔
میں نے اپنے ضلع کو' ایس۔ایس۔ایل۔سی۔ میں ٹاپ کیا
تھا۔ ابّا نے پیڑے منگوائے اور خوب بانٹے۔ ہمارے
گھر سے کالج جانے والی پہلی لڑکی میں ہی تھی۔
مجھے پی۔یو۔سی میں داخلہ کے لئے گئے تو میں بہ
ضد تھی سائنس لونگی۔ ابّا نے کہا کیا کرنا ہے۔ بس
نہیں ,جو آزادی دی ہے وہ کافی ہے۔ میں نے
پی۔یو۔سی میں بھی ٹاپ کیا تھا۔ اور آج بھی اُس جگہ
میرے نام کے بورڈس لگے ہیں۔ ابّا بہت خوش تھے۔
ڈگری کالج گھر سے پانچ کلو میٹر تھی۔ جانا آنا تکلیف
کا معاملہ تھا۔ کبھی کبھی ابّا سائیکل پر لے جا کر
چھوڑتے لڑکے میرا مذاق اُڑاتے۔ میں نے پھر چل کر
جانا شروع کیا۔ مجھے یاد ہے پرنسپل نے کہا تھا۔
’’ماسٹر لڑکی بڑی ہوگئی ہے۔ اُسے چلنے دیں کب تک
سائیکل پر لا کر چھوڑیں گے۔‘‘ابّا کو ہم سب کی فکر
لگی رہتی۔ ہم سب لڑکیوں کو آرٹس کروایا اور لڑکوں
کو سائینس ,,,اس بات کے لئے ہمیشہ مجھے اُن سے
شکایت رہی۔ ابھی ڈگری کے دوسرے سال میں تھی۔
نوکری مل گئی۔
بھائیوں کی پڑھائی کے لئے مجھے نوکری کرنی پڑی۔
مگر میری شادی بھی بہت جلد کردی گئی اُنکا یہ خیال
تھا۔ لڑکیوں کی کمائی نہیں لینی ہے۔ میں نے اپنی بالی
کی پڑھائی سسرال میں پوری کی… .ابّا بہت مہمان
نواز تھے۔ بنا مہمان کے کبھی کھانا نہیں کھایا۔ جب
بھی دوپہر گھر آتے تو کوئی نہ کوئی نمازی ساتھ
ہوتا۔ ظہر کے لئے مسجد جاتے تو کسی مسافر کو
ساتھ لے آتے جو گھر میں ہوتا سامنے رکھ دیا جاتا۔
کبھی کبھی پچھلوں کو کھانا کم پڑجاتا۔ مگر مہمان کے
بنا ابّا نے کھانا نہیں کھایا۔
علماء دین اور ادیبوں کے بہت عمیدت مند تھے۔ جو
بھی گاؤں میں عالم یا ادیب یا لاری آتا۔ اُسے ہمارے
ہی گھر میں ٹہرایا جاتا اور ہم پر سختی سے پردہ کا
حکم لگایا جاتا اور ہم نہ بلند آواز میں بات کرسکتے
نہ ہنس سکتے نہ مستی کر سکتے۔ اُن دنوں بڑا غ ّصہ
آتا۔ جانے کہاں کہاں سے لوگوں کو لے آتے ہیں اور
سنواتے ہیں۔ مگر آج اُن میں سے چار رات کا بیان
اولیائے کرام کی روضہ مبارکہ دیکھتے ہیں تو لگتا
ہے۔ االله نے کیسے کیسے بندوں کو ہمارے گھر ابّا
کے تو ّسط سے ٹہرایاتھا ۔ وہ اولیاء کرام ابّا کے
ولتوں میں ہمارے گھر مہمان تھے۔ اُن کی دُعائیں
ہمارے گھر میں ہوتیں۔ اُنکے ہاتھ ہمارے سروں پر
اور اُن کی دلی دعائیں شاید ہمارے حك میں لبول ہوئی
ہیں جو آج االله نے ہم سب بھائی بہنوں کواس ممام پر
رکھا ہے۔
ابّابہت محنتی۔ اور عاجزمزاج تھے۔ صبح گھر اور
آنگن میں جھاڑو لگانا خود پر لازم کر رک ّھا تھا۔ ا ّماں
چونکہ اعل ٰی گھر سے تھیں۔ اسلئے کبھی ا ّماں کو
جھاڑو لگانے نہیں دیا ۔ نہ گھر کا بیت الخلاء اور
موریاں صاف کرنے دیں۔ کہتے' میں پٹھان ہوں اور
تمہاری ا ّماں شیخ اور سید گھرانے سے ہے۔ جیسے
جیسے ہم بڑے ہوتے گئے ہم نے وہ کام سنبھال لئے۔
سیدوں اور شیوخ کا بہت احترام کرتے اور بہت عزت
کرتے۔
مطالعہ کا بڑا شوق تھا۔ کبھی بھی جس شہر گئے وہاں
سے کتابیں لے آئے۔ لرآن کے نایاب نسخے اور نادر
کتب آج ہماری لائبریری کا ح ّصہ ہیں۔ صرف اسلئے کہ
ابّا کا شوق تھا۔ 1952سے شایدہفتہ واری’’ انملاب‘‘
کے تمام پرچوں کو جمع کر رک ّھا تھا۔ اُس میں مولانا
آزاد کی کتاب ’’ہندوستان نے آزادی حاصل کی
‘‘ India wins freedom
کی پوری کتاب لسط وار آئی تھی۔ اُسے جمع کر رک ّھا
تھا۔ بعد میں ہندوستان میں1977کی ایمرجنسی کے
دوران اُس پر بابندی لگی اور وہ کتاب لید میں رکھی
گئی۔1984میں اندراگاندھی کے لتل کے بعد
راجیوگاندھی کے زمانے میں اُس کتاب کے آخری تیس
صفحات کو کلکتہ کی لائبریری میں لید رکھ کر بالی
کی کتاب آزاد کردی گئی۔ مگر وہ پوری کتاب ننگی
حمیمتوں کے ساتھ آج ابّا کی وجہ سے میرے پاس
ایک لیمتی اثاثے کی طرح موجود ہے۔
اورنگ زیب ،ٹیپو سلطان اور البال کے شیدا تھے۔ بار
بار اُنکی ساری تاریخ بتاتے رہتے۔اور والعات سناتے
رہتے….ساری زندگی جب تک وظیفہ یاب نہ ہوئے
کبھی کرسی پر نہ بیٹھے بلکہ سارا دن ٹہر کر پڑھا
تے رہے۔ جس دن وظیفہ ہوا اُس دن بڑے آزردہ تھے
کہ اب بچوں کو پڑھا نہیں سکوں گا۔
ابّا کو سرکاری یا غیر سرکاری انعام کبھی نہیں
ملا۔اُسکے برعکس ناکارہ اساتذہ جو آفسراں کی چمچہ
گیری کرتے اُنکے انعامات ملتے۔ میں ہمیشہ شکایت
کرتی یہ لوگ آپکو انعام کیوں نہیں دیتے تو بڑی
حلیمی سے جواب دیتے یہ لوگ مجھے کیا انعام دیں
گے بیٹا! میرا انعام مرنے کے بعد دیکھنا۔ اُنکی یہ بات
مجھے کبھی سمجھ نہ آئی۔ آئی بھی تو اُس دن جس
دن اُنکا جنازہ اُٹھا۔
ہم چاروں بہن بھائیوں نے اینگلو اُردو ہائی اسکول
میں تعلیم حاصل کی تھی۔ جیسے ہی وظیفہ کے پیسے
آئے۔ اُسولت اینگلو اُردو ہائی اسکول کی عمارت بن
رہی تھی۔ اُس ولت ہائی اسکول کے لوگ ابّا سے چندہ
مانگنے آئے تھے۔ ابّا نے کہا پیسہ نہیں دونگا۔جو
استطاعت ہوگی وہ سامان دلوادونگا۔ ہم چاروں کے نام
سے ساگوان کے نمش و نگار سے بنے چار دروازے
اسکول میں لگوائے کہ میرے چار ب ّچوں نے یہاں
سے علم حاصل کیاہے۔ اُن دروازوں کو دیکھتی ہوں
تو ابّا بے ساختہ یاد آتے ہیں۔
مسجد فیصل کی تعمیر کا ولت تھا۔ اُسولت بھی مسجد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر ح ّصہ لیا۔ مسجد کی امانت
کو بہت سنبھال کر رکھا اور خود مزدوربن کر مسجد
کی تعمیر میں ح ّصہ لیا۔
ابّا کو بہت کم عمر مینیعنی 35سال میں ضیابطیس
ہوگئی تھی۔ اُنکا غ ّصہ شاید اسی وجہ سے رہا ہو۔
خوش لباس تھے ۔ سفید کپڑے پٹھانی شلوار سوٹ
کرتا اور ازار پہنا کرتے۔ پہلے سوٹ پہنتے بھی دیکھا
ہے۔کھانا سادہ کھاتے۔ چاول بہت پسند تھے۔ چونکہ
ساحلی علالوں کی پیداوار تھے اس لئے مچھلی بہت
شوق سے کھاتے۔ گائے کا گوشت پسند نہیں کرتے۔
بکرا یا پھر مرغی ہفتہ اتوار بن جاتی ورنہ مچھلی کا
سالن اور چاول مرغوب غذا تھی۔ میٹھا بھی پسند تھا۔
مگر شوگر کی وجہ میٹھا نہیں کھا پاتے جسکا اُنھیں
افسوس رہتا۔
ہم چاروں کی تربیت بڑی سختی سے کی۔ہم جب
چھوٹے تھے تو ہمارے بال بنانا۔ ناخن کاٹنا ,لباس
بدلوانا۔ نہلانا سب کام خود کرتے ۔ ہم بڑے ہوئے تو
سکھاتے کس طرح رہنا ہے کیا کرنا۔ عبادات کے
طریمے تسبحیات ۔ ذکر کا معمول ۔ لرآن کی تلاوت
بچپن سے عادی بنادیا تھا۔ اُنکا ممولہ تھا
بچ ّوں کو چاہے سونے کا نوالہ کھلاؤ مگر شیر کی ’’
’’نگاہ رکھو تاکہ تربیت صحیح ہو۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی سختی نے آج ہم
چاروں کو اچھا انسان بنایا ہے ورنہ اس پراگندہ
ماحول میں جانے ہم راستہ بھٹکے کہاں ہوتے۔
میری سسرال میں کبھی لدم نہیں رکھا۔ خودداری اتنی
تھی کہ آتے خیریت دریافت کرتے اور بنا کھائے پئے
نکل جاتے۔
اچھے ولتوں میں یعنی جب صحت اچھی تھی تو
چھٹیوں میں کبھی کبھی جنگل میں شکار کے لئے
چلے جاتے گھر میں دو نالی بڑی رائیفل تھی۔ جو
اُنکی وفات کے بعد ہم نے پولس کو سرنڈر کردی۔
جنگلی ،بھیسنا ،ہرن ،بارہ سنگھا ۔ خرگوش کا گوشت
مہینے دو مہینوں میں ہم نے کھایا ہے۔ اُسولت شکار
کی مناہی بھی نہیں تھی۔ کبھی کبھی دوستوں کے ساتھ
ندی کنارے مچھلیاں پکڑنے چلے جاتے اور بڑی بڑی
مچھلیاں بھی لے آتے۔ ا ّمی مچھلیوں کی صفائی کرتے
کرتے پریشان ہوجاتیں۔
لوالی ۔غزلوں اور اردو شاعری کا بڑا شوق تھا۔ اپنی
سطح پر ب ّچوں کے لئے تماریری ممابلے ،نعت خوانی
،بیت بازی ،لرات کے پروگرام کرواتے ۔مشاعرے
کروانے اور ہر ادبی محفل میں بڑھ چڑھ کر ح ّصہ
لیتے۔
مطالعے کا بہت شوق تھا۔ کئی کتابیں پڑھ رکھیں تھیں
اور نیند آنے تک پڑھتے رہتے۔
بذلہ سنج تھے۔ ادبی مذا ق کرتے ,چٹکلے سناتے۔
اچھا موڈ ہوتا تو کبھی کبھی لہمہ لگاتے ورنہ
مسکراہٹ اور حلیمی چہرے پر واضح رہتی۔تاریخ اور
حالات حاضرہ سے باخبر رہتے اور بہت اچھے تجزیہ
نگار تھے۔ خبریں سنتے… صبح سات بجے ،آٹھ
بجے نو بجے ،گیارہ بجے ،دو بجے پانچ بج شام
ساڑھے سات بجے آٹھ بجے اور رات نوبجے کی
ریڈیو پر خبریں سننا معمول تھا۔ اور خبروں کا تجزیہ
بہت گہرائی سے کرتے اور بتاتے کیوں ہوا کیا ہوا اور
کیا ہونے والا ہے۔
اُردو ۔ عربی۔ کنڑی زبانوں کے علاوہ کونکنی ,مرہٹی
اور سنکسرت پر بھی عبور تھا۔ گہرا مطالعہ اور بات
دوراندیش اور بصیرت والی کرتے۔ کئی احادیث بر
مولع و محل سناتے استادوں کے کلام تو تمریباً ازبر
تھے۔
آج کے اساتذہ کو دیکھتی ہوں تو افسوس ہوتا ہے۔ کہ
ایک شعر ڈھنگ سے نہیں پڑھ سکتے۔
مربی انسان تھے۔ سب سے خلك اور حسن اخلاق سے
ملتے۔ بغض و عناد نہیں تھا۔ نہ مسلکی اختلاف
رکھتے۔ ہمیشہ کہتے۔ بیٹا انسان االله کی مخلوق ہیں
سب سے محبت کرو۔ ہم آدم کی اولاد ہیں۔ االله کے
بندے ہیں ایک رسول کا کلمہ پڑھنے والے ۔ سب سے
محبت کرو۔ یہ ہمیشہ سکھایا گیا۔ اور ہم اس پر لائم
رہے اور ہیں۔
لوم کا بہت درد تھا۔ اور لوم کے لئے ہمیشہ فکر مند
رہتے۔ سماجی سرگرمیوں میں بیداری کے کاموں میں
علمی اور عوامی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے
پکے کانگریسی تھے۔ اور ہمیشہ الیکشن کے ولت
گھر گھر جاکر کہتے ووٹ متفك ہوکر ڈالو۔ اپنے
ووٹوں کا بٹوارہ مت کر لو۔
اندراگاندھی کی امیرجنسی کے دوران جب مسلمانوں
پر نسل کشی اور انسداد تخلیك کا عمل تیز ہواتو راتوں
رات لرآن کی آیات لکھ کر انکی تشریح کرواکر خود
بھی لکھتے ہم سے بھی لکھواتے اور بانٹتے کہ
آپریشن کروانا حرام ہے۔ اولاد کا لتل گناہ ہے اس میں
شامل مت ہو۔ اُس ولت پہلی بار جنتا دل کی حمایت کی۔
اور کانگریس ہار گئی۔
1984
میں
اندراگاندھی کے لتل کے دن بہت اُداس تھے
1991میں راجیوگاندھی کے لتل کے دن بھی ہراساں
ہوئے اور کہا اب تشدد پرستوں کی حکومت آنے والی
۔چھے دسمبر 1992جس دن بابری مسجد گرائی گئی۔
اور اُنھوں نے ٹی۔ وی پروہ منظر دیکھا تو روئے۔
بہت روئے اور عصر کے ولت دعا مانگی یاالله ان گنہ
گار آنکھوں کو ملک کی تنزلی کا تماشہ مت
دکھا,اٹھالے۔ پھر بیمار ہوئے۔ دسمبر کا مہینہ سرد گرم
گذرا۔ جنوری کا مہینہ زرا بہتر ہوئے مگر وہ حوصلہ
اور اُمنگ نہ تھی جو پہلے اُنکی طبعیت کا خاصہ تھی۔
پژمردہ رہتے۔ سوئے رہتے۔ تسبیح ہاتھ میں رہتی۔ اور
ذکر میں مشغول رہتے۔ نماز اور تلاوت کے معمولات
کبھی ترک نہ ہوئے۔ جب تک ہوش رہا نماز لضا نہیں
کی۔
25جنوری
کو اُنکی شادی کی بتیسویں سالگرہ تھی۔ میں میکے
گئی تھی ۔ میں نے مذا ق کیا ابّا آج دیسی مرغ کی
دعوت ہوکہا۔ آج نہیں کل کریں گے۔ مگر دوسرے دن
26جنوری تھی اور مجھے واپس دھارواڑ آنا پڑا۔
ستائس جنوری کو بخار کی وجہ سے ایڈمٹ کیا گیا۔
شوگر بھی زیادہ تھی۔ دو دن سلائین پر تھے۔ ڈاکٹر
نے شوگر کی وجہ انسولین دینی شروع کردی
مگرشوگرلیول چیک کرنا بھول گئے۔ 30جنوری
۔’’برین ڈیڈ ڈیوٹو اوور ڈوز انسولین‘‘ ڈاکٹرس کی
غلطی۔ ،االله کی مرضی۔ کوما میں چلے گئے۔ پانچ دن
کو ما کی حالت میں رہے۔ اور 4فروری صبح پانچ
بجکر بیس منٹ اذان کے ولت آخری سانس لی۔
جمعرات کا دن تھا۔ دس بجے گھر لایا گیا۔ چار بجے
جنازہ اُٹھا۔ لبرستان کے لئے۔ اور انکی وہ بات یا
دآگئی ’’میرا انعام میرے مرنے کے بعد دیکھنا۔ اُن دعا
کے لئے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کو اور اُن آنسوؤں کو
”جو میری مغفرت اور وصال کے دن بہیں گے۔
ڈانڈیلی کی سڑکیں جام تھی۔ لوگوں کاجم غفیر تھا۔ پتہ
نہیں کہاں کہاں سے لوگ آئے تھے۔ تل بھر پیر
رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ نہ مسلکی اختلاف تھا۔
حالانکہ ڈانڈیلی ایک ایسا شہر ہے جہاں پر مسلکی
اختلاف تھا اوراب بھی بہت زیادہ ہے۔ ہر مسلک اور
ہر فرلے ،یہاں تک کہ ہندو برادران تک نماز جنازہ
میں شامل تھے۔ ابّا کے بعد جناب کلیم الله خان کتور کا
ایک جنازہ بھی ویسا ہی دیکھا۔ اور یمین آگیا۔ اصل
دولت دلوں کا جیتنا ہے سرکاری انعامات نہیں۔ اور ابّا
ڈانڈیلی کے لوگوں کے دلوں میں بستے تھے۔
میرے ابّا شاید دنیا میں نہیں ہیں۔ مگر میری ہر سوچ،
ہر سانس اور ہر بات میں ابّا کی بات ،آواز اور خیال
اور جذبے گونجتے ہیں۔
مجھے فخر ہے میں میرے ابّا کی بیٹی ہوں۔ اور اُنکی
پرچھائی ہوں۔ اُنکی عادت ہوں۔ اُنکی چلتی پھرتی
تربیت ہوں اور اُنکا دنیا میں چھوڑا گیا سایہ اور ورثہ
ہوں۔ االله میرے ابّا کو جوار رحمت میں رکھے اور
اُنکی دعاؤں کا سائیبان ہم پر بنا ئے رکھے۔
آمین
––––––––
پیدائش15ایپریل1926
وفات4فروری 1993
ملازمت1941ء سمسی۔ ہوناور۔ سے شروعات کی۔
پانچویں پاس تھے۔1964
میں پرایئوئٹ یس یس سی کا امتحان پاس کیا
1957پونہ ٹریننگ کالج سے استاذی کی دوسالہ
تربیت کا کورس کیا تھا
بھٹکل۔ منکی۔ بنواسی۔ ہلیال ۔ ڈانڈیلی .میں ملازمت کی
اور ڈانڈیلی بنگور نگر ھایر پرایمری اسکول سے
وظیفہ یاب ہوئے۔
وظیفہ یابی30اپریل1981ء بانگور نگر اُردو
ھائیرپرائمری اسکول ہیڈ ماسٹر ۔ وظیفہ یابی کے بعد
بارہ سال زندہ رہے ۔
55سال میں وظیفہ یابی ملی۔ وفات کے ولت67سال
کے تھے۔
اولادیں۔ مہرافروز۔ الطاف حسین خان۔ عطیہ خان۔ محمد
ایاز خان
سات بھائی دو بہنیں
دو بیویاں۔ پہلی بیوی دو سال کے اندر فوت ہوگئی۔
دوسری بیوی۔ زبیدہ بیگم بنت عبدالرح ٰمن ساکن ہلیال
حیات ہیں۔
ذاتی جائیداد۔ ایک رہائیشی مکان۔ پانچ ہزار کتب اور
چند کپڑوں کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا۔
اُنکا چشمہ للم ۔لاٹھی۔ بستر۔ اوڑھنا۔ جائے نماز اور
تسبیح میں نے ترکے میں لی ہے۔ دُعا کی صورت
بالی کچھ نہیں لیا۔
–––––––
انجم لدوائی کہتے ہیں
دن ۲۰۱۵/۱۱/۱۵ at ۴۶:۱۱
مہر افروز صاحبہ ۔۔۔خاکہ پڑھ کر آنکھیں بھر آئیں
۔آپکے ابّا ایک اسکول تھے ،ایک مدرسہ تھے ایک
رہنماء کے علا وہ دنیا کے لئے ایک مثال تھے ۔الله
) تعال ٰی انکے درجات بلند فرمائے (آمین
آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ نے انکی تر بیت پائی ۔سلا
مت رہیں
اعجاز فرخ کہتے ہیں
شام ۲۰۱۵/۱۱/۱۵ at ۲۵:۱
محترمہ مہر افروز۔ بیٹی باپ کیلئے ایک نعمت غیر
مترلبہ تو ہے ہی۔لیکن آ پ نے جس چاہ سے لکھا
،وہ اشکبار کر گیا۔ الله آپکا گھر ٹھنڈے چشموں کے
کنارے آباد رکھے۔
یحیی خان کہتے ہیں
شام ۲۰۱۵/۱۱/۱۵ at ۲۷:۱
ایک بیٹی کے احساسات کو بہت ھی عمدہ سلیمہ سے
آپی آپ Mehar Afrozضبط تحریر میں لایا ھے
نے اور آپ نے اس بات کو اور بھی تمویت دے دی کہ
باپ سے سب سے زیادہ لریب بیٹوں کی بہ نسبت
بیٹیاں ھوتی ھیں اسی لئے تو زیادہ تر باپ اپنی بیٹیوں
کو ‘ مما ‘ کہہ کر پکارا کرتے ھیں رھی بات آپکے
والد محترم کے اچھے اور عظیم انسان ھونے کی تو
یہ سارے ُگن آپ میں منتمل ھوگئے ھیں ۔۔۔ الله آپکے
والد محترم کے درجات بلند فرمائے اور آپ سب کو
صبر جمیل عطا فرمائے آمین ۔
چراغ ھبلوی کہتے ہیں
شام ۲۰۱۵/۱۱/۱۵ at ۱۶:۱۰
سلام عرض ہنے .والعی بڑا عمدہ خاکہ ہنے .خاکہ
میں جزبات کی عکاسی بے مثال ہنے ،،الفاظ کی
روانی لا جواب ہنے ،اندازبیان بھی دل کو چھو لیتا
ہنے ،،اور تھوڑی دیر کے لے عمل ٹھر جاتی ہنے .دل
بھر آتا ہنے .الله ہر لڑکی کے نصیب میں آپکے والد
جیسی شخصیت کا رول ادا کرنے کا مادہ پیدا کرے ،
کہ پھر اور ایک مہر افروز جیسی ہو نہار ،زیرک
،محنتی ،مخلص ،انسانیت پرست ،ادب پرست ،اردو کی
شیدا ی ،ایک بہترین معلمہ پیدا ہو ،تاکہ لوم و ملت کی
،خصوصا طلباء و طالبات کی رہنمای کر سکے ،،،صد
آفریں ،،الله آپکے والد محترم کی لبر کو نور سے بحر
دے ،،،امین ،،،ویسے اپکا اثاثہ بڑا جاندار و شاندار
ہنے ،،جو تمام مضمون پر بھاری ہنے ،،یہ جملے بڑا
اثر چھوڑ گے ہیں …چراغ ھبلوی ،،دھارواد .کرناٹک
،،انڈیا ،،
عنایت علی خان کہتے ہیں
دن ۲۰۱۵/۱۱/۱۶ at ۳۸:۱
واہ ایک بیٹی نے بہت خوبصورت انداز میں خراج
عمیدت پیش کیا ھے پڑھتے پڑھتے آنکھ میں آنسو
آگئے مجھے میرے والد صاحب یاد آگئے
جو ۴سال پہلے فوت ھو گئے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ
ولت بہت بڑا مرہم ھے لیکن نہیں اس دکھ اس غم پہ
کوئی مرہم اثر نہیں کرتا
مجھ پہ بیت رہی ھے مجھے اس دکھ کا اندازہ ھے
مجھے تو صرف ۴سال ھوئے ہیں آپکی ہمت کو داد
دیتا ہوں کہ ۲۲سال سے اس دکھ کو جھیل رہی ہیں ۔
الله پاک آپکے والد محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب
فرمائے۔ آمین