The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2015-11-18 22:24:00

MAIRE-ABBA_2015_11_19_04_06_40_244

MAIRE-ABBA_2015_11_19_04_06_40_244

‫میرے ابا۔۔۔۔۔۔ ایک مطالعاتی جائزہ‬

‫ممصود حسنی‬

‫خاکہ' سوانح عمری کی نسبت' مختصر ہوتا ہے لیکن‬
‫اس میں' زیادہ سے زیادہ اس شخص' اس کے کنبہ‬
‫اور اس کے سماج سے راہ و رسم کے حوالہ سے'‬
‫معلومات فراہم کی گئی ہوتی ہیں۔ خاکہ کے دور نزدیک‬
‫کے جانو لکھاری ہونے کے سبب تین طور دیکھنے‬

‫کو ملتے ہیں۔‬
‫لکھنے والے کے ذاتی تعلك کے حوالہ سے معاملات‬

‫ولتی' اتفافیہ یا حادثاتی امور و اطوار‬
‫سنے سنائے یعنی باالوسطہ چلن کی سرگزشت‬

‫اول الذکر' بہت لریب کی صورت ہے' لیکن اس کا تعلك‬
‫دہلیز کے اس پار سے ہے' اس لیے یہ یک طرفہ‬

‫ہوتی ہیں کیوں کہ اس شخص کے' دہلیز کے اندر اور‬
‫دہلیز پار کے اطوار' مختلف اور اکثر برعکس ہوتے‬
‫ہیں۔ اس حوالہ سے' ان پر درست یا مکمل کی مہر'‬

‫ثبت نہیں کی جا سکتی۔‬

‫دوسری ولتی ہوتی ہے اور شخص کے' عمومی اطوار‬
‫سے لگا نہیں رکھتی۔ اس لیے' اسے پیمانہ ٹھہرا کر'‬

‫کوئی نتیجہ اخذ کرنا' درست نہیں ہوتا ہے۔‬

‫تیسری صورت لمحاتی ہوتی ہے‪ .‬اسے بھی' شخصی‬
‫فطرت یا اس کی فطرت ثانیہ کا درجہ نہیں دیا سکتا‬
‫اور ناہی' اس کے حوالہ سے' شخصیت کا مجموعی‬

‫احاطہ کیا جا سکتا ہے۔‬

‫اگر کوئی دہلیز کے اندر کا لکھتا ہے' تو اس کی ذاتی‬
‫محبت یا نفرت کا جذبہ غالب رہتا ہے' ہاں اگر اس کے‬
‫اندرونی و بیرونی احوال کو للم بند کر دیا جاتا ہے' تو‬
‫یہ دوطرفہ ہونے کے سبب' زیادہ معلومات افروز ہوتا‬

‫ہے' جس کے باعث' اس شخص کی شخصیت کو‬
‫جاننے اور پہچاننے میں' مدد ملتی ہے۔ ساتھ ساتھ‬
‫لکھنے والے اور دہلیز کے اندر کے بعض لوگوں کا'‬
‫تعارف اور ان کی شخصیت کے' مضبوط اور کم زور‬

‫پہلو بھی' سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔‬

‫ہر لکھنے والے کا' اپنا اسلوب ہوتا ہے لیکن خاکہ‬

‫نگاری میں' متعلك اور رسمی متعلك کا عنصر' اسلوب‬
‫پر اثر انداز ہوتا ہے بل کہ غالب رہتا ہے۔ متعلك میں'‬
‫محبت یا نفرت کے زیر اثر' اسلوب ترکیب پاتا ہے۔ اس‬

‫ذیل میں' غیرجانب داری کی ہر سعی' کسی ناکسی‬
‫سطح پر' ضرور مجروع ہوتی ہے اور یہ امر' بہرطور‬

‫بس کا نہیں ہوتا۔‬

‫اچھے خاکے کی' سب بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ لاری‬
‫کو' متاثر بھی کرے اور اس میں یہ خواہش پیدا ہو یا‬

‫‪:‬زور پکڑے‬
‫'کاش کہ یہ خوبی میرے کردار کا حصہ بن جائے '‬

‫اگر وہ خاکہ' لاری کے سوچ میں' کسی بھی سطح پر'‬
‫بدلاؤ کا سبب بنتا ہے' تو سمجھیے لکھنے والے کی‬
‫محنت' کارگر ثابت ہوئی۔ اسی طرح' کسی معاملہ سے‬
‫نفرت جنم لیتی ہے' تب بھی تحریر کو' کامیاب تحریر‬

‫لرار دیا جائے گا۔‬

‫عزیزہ مہر افروز کا تحریر کردہ خاکہ۔۔۔۔۔۔۔ میرے ابا‬
‫۔۔۔۔۔۔ نظر سے گزرا اور پھر' گزرتا ہی گیا۔ بلامبالغہ‬
‫کہوں گا' کہ یہ کمال کی تحریر ہے۔ انہوں نے خان‬

‫صاحب مرحوم کی شخصیت کا' جس انداز سےاحاطہ‬
‫کیا ہے' وہ بلاشبہ داد کی مستحك ہیں۔ اس خاکہ کو‬

‫پڑھ کر' میرے دل میں دو خواہشوں نے جنم لیا‬
‫الله' اس سوچ اور فکر کی بیٹی سے' ہر کسی کو‬

‫‪.‬نوازے‬
‫کاش خان صاحب مرحوم سے اطوار' ہر کسی میں پیدا‬

‫جائیں۔‬

‫گھر کے ڈسپلن میں' ہر کسی کو ایسا ہی ہونا چاہیے'‬
‫‪.‬تاہم چیخ و پکار سے زیادہ' گھرکی جان دار ہو‬

‫اپنے بچوں کو' اپنے لریب رکھے' ان کے جائز امور‬
‫و معاملات سے' آگاہی رکھے اور بہتری میں براہ‬
‫راست ملوث رہے۔‬

‫علم حاصل کرئے اور اس کی تمسیم میں' بخل سے کام‬
‫نہ لے۔‬

‫اپنے بچوں کو' گفت گو یا کہانی کے انداز میں' اچھی‬
‫باتیں بتائے۔‬

‫بچوں کی تعلیم کے معاملہ میں' غربت کو بہانہ یا جواز‬
‫نہ بنائے‪ .‬ان کی تعلیم کے لیے' ہر لسم کی لربانی‬
‫سے کام لے۔‬

‫اس خاکے سے یہ امور بھی وضاحت کے ساتھ‬
‫سامنے آتے ہیں کہ‬

‫بزرگوں اور اہل علم کے معاملے میں' آدمی کو کیسا‬
‫‪.‬ہونا چاہیے‬

‫ذات تک محدود سوچ' تھوڑدل بناتی ہے۔‬
‫اوروں کے لیے سیری اور اپنے لیے' بھوک بچانا ہی‬

‫معراج انسایت ہے۔‬
‫آدمی کو' بلا کسی تمیز و امتیاز' لوگوں کی مدد کرتے‬

‫رہنا چاہیے۔‬
‫ہم دردانہ رویہ' انسانوں میں اعتبار کا سبب بنتا ہے۔‬

‫صاحب تموی کبھی خسارے میں نہیں رہتے۔‬
‫شخص پر' جملہ مخلولات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے‬
‫اور یہ ہی چیز' اسے اشرف المخولات ٹھہراتی ہے۔‬

‫خاکہ' خان صاحب مرحوم کی زندگی کے احوال و‬
‫اطوار کھولنے کے ساتھ ساتھ' ان کے عہد کے‬

‫اشارے فراہم کرتا ہے۔ مثلا‬
‫مٹی کا تیل بھی راشن میں ملتا۔ صرف چھوٹی سی "‬

‫"ایک بتی جلتی رہتی‬

‫اسی طرح' ان کی سیاسی ہمدردیاں بھی غیرواضح‬

‫نہیں رہتیں۔‬

‫ان کی' سادات وشیوخ سے محبت و عمیدت' ہر لسم‬
‫کے شبے سے بالا رہتی ہے۔ ہاں البتہ' اس ذیل میں یہ‬

‫پیرہ خصوصی توجہ چاہتا ہے۔‬
‫ابّا بہت محنتی۔ اور عاجز مزاج تھے۔ صبح گھر اور "‬
‫آنگن میں جھاڑو لگانا خود پر لازم کر رک ّھا تھا۔ ا ّماں‬

‫چونکہ اعل ٰی گھر سے تھیں۔ اسلئے کبھی ا ّماں کو‬
‫جھاڑو لگانے نہیں دیا ۔ نہ گھر کا بیت الخلاء اور‬
‫موریاں صاف کرنے دیں۔ کہتے' میں پٹھان ہوں اور‬

‫"تمہاری ا ّماں شیخ اور سید گھرانے سے ہے۔‬

‫گھر گرہستی میں' بیٹی مہر افروز کی اماں کی کم‬
‫زور شخصیت کو سامنے لاتا ہے۔ جو بھی سہی' وہ‬

‫خان صاحب مرحوم بیوی تھیں۔‬

‫خاکے کا مطالعہ کرتے' بیٹی مہر افروز کی اپنی‬
‫شخصیت اور ان کی زندگی کے احوال بھی سامنے‬

‫آتے ہیں‬

‫خاکے کی زبان سادہ' رواں' عام فہم اور بےتکلف ہے۔‬

‫مطالعہ کے دوران' کسی موڑ پر' ابہامی صورت پیدا‬
‫نہیں ہوتی۔ ہر چند معلومات' لطف اور عصری شہادتیں‬
‫میسر آتی ہیں۔ اکتاہٹ کی' کہیں صورت پیدا نہیں ہوتی۔‬

‫کہیں کہیں ممامی مہاورے کا استمال ہوا ہے' جو‬
‫لسانیاتی حظ کا سبب بنتا ہے۔‬

‫بیٹی مہر افروز کی یہ تحریر' مجھے بہت ہی اچھی‬
‫لگی ہے۔ الله ان کے للم کو' مزید توانائی اور روانی‬

‫سے سرفراز فرمائے۔‬

‫میر ے ابّا‬

‫خا کہ‬

‫مہرافروز‬

‫دھارواڑ ۔ کرناٹک‬

‫موبائل ‪09008953881 :‬‬

‫‪[email protected]‬‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫باپ سائبان ہوتا ہے۔ اسکی حمیمت اُس سے پوچھیں‬
‫جو یہ سائبان کھوچکے ہیں۔ ہمیں تو یہ سائیبان‬

‫کھوئے ہوئے تمریباً ‪22‬سال پورے ہو رہے ہیں۔ اور‬
‫زندگی کی جلتی دھوپ کی تپش ہمیشہ یہ یاد دلاتی ہے‬

‫کہ والد کی دعائیں ہوتیں تو شایدیہ گرمی کی حدّت‬
‫اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔‬

‫گھر میں میرے بچپن کی لگی بہت سی تصاویر دیکھ‬
‫کر ہمیشہ حیرانی ہوتی کہ ابّا نے اتنی تصاویرکیوں‬
‫نکلوائیں ہونگی۔تب ا ّمی کہتی وہ’’تجھ سے بہت پیار‬
‫کرتے تھے‘‘۔مگر میں نے اپنے ہوش میں کبھی ابّا کو‬
‫ُمربی اور محبت والا نہیں پایا۔ ہمیشہ اُنکی ڈانٹ ڈپٹ‬
‫اور غ ّصہ ہی دیکھا وہ بہت سخت والد تھے۔ایسے‬
‫کیوں بیٹھا۔’’یہ کیوں کیا‘‘ وہ کہاں رکھا‘‘۔’’یہ آج‘‘ اس‬
‫جگہ سے کھسکا کیوں ہے‘‘ کس نے میری الماری کو‬
‫ہاتھ لگایا‘‘۔ یہ ابّاکے ہمیشہ سے سوال اور گرج ہوتی‬
‫جب کبھی وہ گھر میں داخل ہوتے ‪..‬اُنکے مزاج میں‬
‫بہت زیادہ دُرستگی تھی۔ گھر کی ہر چیز صاف ستھری‬
‫۔ اپنی جگہ موجود اور درست ہونی چاہئے تھی۔ اگر نہ‬

‫ہوتی تو پھر آسمان سر پر اُٹھالیا جاتا۔ اور ہمیں جلدی‬
‫جلدی سب کو ٹھیک ٹھاک جگہ پر رکھنا ہوتا۔ ابّا کا‬
‫غ ّصہ اور خوف ہر جگہ اور ہمیشہ طاری رہتا۔ اور دل‬
‫میں گھبراہٹ لگی رہتی آج کچھ غلطی نہ ہوجائے اور‬
‫ڈانٹ ڈپٹ حت ٰی کہ بڑی غلطی پر مار بھی کھانی نہ‬

‫پڑجائے۔‬

‫پٹھان تھے۔ خوددار طبعیت اور بہت زیادہ غ ّصے‬
‫والے۔‬

‫ہماری صبح تہجدّ سے ہوتی۔ جیسے وہ اُٹھتے آوازیں‬
‫لگانا شروع کردیتے۔ یہ تم اُٹھو‪ ،‬تم اُٹھو۔ کچھ سستی‬

‫ہوتی یا طبعیت خراب ہوتی تو ’’شروع ہو جاتے۔‬
‫ُمردوں کی طرح سونا االله کو پسند نہیں۔ رزق کے‬
‫فرشتے رزق واپس لے جاتے ہیں۔ اُٹھو۔ اور ہم سب‬
‫کو بادل ناخواستہ اُٹھنا پڑتا۔ اُنکی وہ تربیت آج بھی‬
‫زندگی کا ح ّصہ ہے۔ صبح سویرے آنکھ کھل جاتی ہے۔‬
‫زیادہ دیر سوجائیں تو ابّاکی آواز بے ساختہ کانوں میں‬
‫گونجتی ہے۔ ’’سورج نکلنے کے بعد کا سونا ُمردوں‬
‫کاسونا ہے‘‘۔اور میں گھبرا کر اُٹھ بیٹھتی ہوں ہمارا ہر‬
‫چیز کا ولت ممرر تھا۔ نماز کے بعد فوراً تلاوت لرآن‬
‫کرتے باآواز بلند لرات اتنی عمدہ تھی کہ دل میں اُتر‬

‫جاتی آج بھی لران پڑھتے ولت اُنکا تلفظ اور آواز‬
‫کانوں میں گونجتی ہے۔ اور دل بے ساختہ چاہتا ہے‬

‫کوئی باآواز بلند گھر میں ایسی لرآت کرے۔‬

‫ہم چاروں بہن بھائی سات سال کے اندر لرآن سیکھ‬
‫گئے ۔کیونکہ سکھانے والے خود ابّا تھے۔‬

‫آج اُردوہم سب کو جو بھی کچھ آتی ہے وہ صرف اور‬
‫صرف ابّا کی وجہ سے ہے ا ّمی مرہٹی میڈیم کی پڑھی‬
‫تھیں۔ ا ّمی کو بھی اُردو ابّا نے ہی سکھائی۔ اُنکی اپنی‬

‫زبان میں’’ مجھے بچہ دو دو ماہ میں طوطا بنادوں‬
‫گا‘‘اوروہ والعی دو ماہ میں بچ ّوں کو اُردو بہ آسانی‬
‫سے پڑھنا اور لکھنا سکھا دیتے ہیں۔ آج ڈانڈیلی میں‬
‫جتنے بھی اُنکے شاگرد ہیں۔ سب کے سب دم بھرتے‬
‫ہیں۔ “آج ہم یہاں پر ہیں تو صرف اور صرف پٹھان‬

‫”جناب کی وجہ سے ہیں۔‬

‫ابّا جن کا طریمۂ تعلیم یہ تھا کہ کھیل کھیل میں الفاظ‬
‫بنانا‪ ،‬جوڑنا‪ ،‬بولنا ‪،‬کہنا‪ ،‬پڑھنا اور پھر زمین پر اُنگلی‬

‫سے لکھنا ‘ہوا میں لکھنا ‪،‬پھر تختی پر لکھنا‬
‫سکھاتے۔ خطاطی کے ماہر تھے ایسی خوبصورت‬

‫تحریر کہ دیکھتے بنتی۔ ابّا اُردو پڑھنا لکھنا نہ‬
‫سکھاتے تو شاید آج جو کچھ ہوں وہ بھی نہ ہوتی۔‬
‫شاعری کرتے آزاد تخلص کرتے اور کمال لکھتے۔ اُن‬
‫کی ڈائرئیوں میں بند اشعار دل کو چھولیتے ہیں۔ مگر‬
‫خود کی تشہیر کبھی نہیں کہ نہ شاعری چھپوا ئی ‪،‬نہ‬
‫مضامین چھپوائے‪ ،‬نہ کہیں بھیجے۔ کمال کی یاداشت‬
‫تھی۔ جانے کس کس کے ممولے تحاریر یاد تھیں۔‬
‫کسی کا ذکر ہوا تو کہا لائبریری سے فلاں کتاب لو اور‬
‫فلاں صفحہ دیکھو۔ وہ بہت اچھے خطیب و ممرر تھے۔‬
‫میں نے انکی پرجوش تماریر کئی مرتبہ سنئی ہیں۔‬
‫عوام کو روتے دیکھا ہے۔ اور جوش میں نعرۂ تکبیر‬
‫کی آوازیں لگاتے بھی سنا ہے۔ آج ہم میں اگر دین‬
‫‪،‬اُردو ادب کی معلومات‪ ,‬اور یاداشت کا مادّہ ہے تو‬

‫صرف اور صرف ابّا کی دین ہے۔ مجھے یاد ہے‬
‫‪1992‬میں شادی کے بعد میں اُردو۔ ایم۔ اے۔ کر رہی‬
‫تھی۔ سب سے بڑی مشکل بنیادی اُردو کی تھی۔ نہ‬
‫فارسی سمجھ میں آئی نہ ثمیل اُردو کے الفاظ اور البال‬
‫تو سر پر سے گذرجاتے۔ بڑی پریشان تھی۔ ابّا نے‬
‫پوچھا کیوں پریشان ہو۔ میں نے اپنی تکلیف بتائی۔‬

‫ارے اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ تم آجاؤ میں‬
‫ُچھٹیوں میں مائیکے چلی گئی۔ ۔ اب روزانہ صبح ہوتی‬

‫تو میری کلاس لگتی۔ ابّا کلا ِم البال برزبانی سناتے پھر‬
‫گھنٹوں تشریح کرتے۔ پندرہ دن میں البال پورے کے‬

‫پورےذہن میں اُتر گئے‪،‬پھر غالب حالی ۔سرسید ۔‬
‫مولانا آزاد۔ جانے کس کس کی باری آئی۔ ابّا تشریح‬
‫کرتے اور میں ضروری نوٹس بناتی۔ اور پھر میں نے‬
‫امتحان دیا۔ حالانکہ ایک دن بھی یونیورسٹی نہیں گئی‬
‫نہ کسی کی کلاس سنی بس امتحان دیدیا۔ اور ماشاء‬
‫االله کامیابی نمایاں تھی ۔ میں نے ایم۔اے کی ڈگری لی‬
‫اور ابّاایسے خوش ہوئے جیسے اُنھوں نے لی ہو۔‬
‫حالانکہ میرے ابّاجی ‪1955‬کے صرف ساتویں پاس‬

‫ہی تھے۔‬

‫مجھے میرا بچپن یاد ہے۔ گرمیوں کے دن بجلی تو‬
‫نہیں تھی شام ہوتے ہی لالٹن جلاتے۔ میرا اور میرے‬
‫چھوٹے بھائی کا کام ہوتا۔ لالٹین کے گولے پونچھتے۔‬
‫مٹی کا تیل ڈالتے اور شام سے ہی چراغ جلا لیتے۔‬
‫دس بجے تک سارے لالٹین بند ہوجاتے۔ مٹی کا تیل‬
‫بھی راشن میں ملتا۔ صرف چھوٹی سی ایک بتی جلتی‬
‫رہتی اور ہم سب صحن میں ابا کے ارد گرد بیٹھ کر‪،‬‬
‫کہانیاں سنتے راجا رانیوں اور پریوں کی نہیں بلکہ‬

‫تمام پیغمبران کی۔ آدم علیہ سے اسلام سے لیکر‬

‫حضور تک سب کی کہانیاں ابا کی زبانی مگر کہانیوں‬
‫کی جو خصوصیت ہوتی وہ ابّا کی بیان بازی تھی۔‬

‫کہانی ایسے سناتے کہ جیسے ہم اُن سب کو ہوتا دیکھ‬
‫رہے ہوں۔ آج جب اپنے ب ّچوں کو‬

‫کہانی سنانے بیٹھوں تو سنانا نہیں آتا۔ بیساختہ آنسو‬
‫آتے ہیں اور ابا یاد آتے ہیں۔‬

‫مجھے یاد ہے‪ ،‬طوفان نوح کا ل ّصہ سناتے ولت ابّا‬
‫نے جو سماں باندھا تھا‪ ،‬وہ اتنا ذہن میں مرصع تھا کہ‬
‫سونامی کی طوفانی لہروں کو دیکھا‪ ،‬تو ڈر نہیں لگا‬

‫کیونکہ اُس سے زیادہ بڑا طوفان میں نے تخیّل کی‬
‫نگاہ سے دیکھ رک ّھا تھا۔‬

‫موس ٰی علیہ السلام کا فرعون کے دربار میں‪،‬‬
‫جادوگروں کے ساتھ جب مذاکرہ سنایا‪ ،‬تو جادوگر‬
‫سامری کا اژدھا ایسا ہماری طرف بڑھ رہا تھا کہ ہم‬

‫سب کی چیخیں نکل گئی تھیں۔‬

‫حضور ابراھیم علیہ السلام کی نمرود کے آگ میں‬
‫پھینکے جانے کا منظر‪ ،‬اب بھی ذہن میں تازہ ہے اور‬

‫حضرت جبرئیل علیہ کے پروں کا لمس‪ ،‬جب اُنھوں‬

‫نے حضرت ابراہیم کو سمٹا تو وہ لمس ابھی کہیں‬
‫تخیل میں بالی ہے۔‬

‫حضور شہنشاہ دو جہاں پر پھینکی جانے والی‬
‫غلاظت‪ ،‬اپنی پیٹھ پر محسوس کی۔ طیف کے پتھروں‬

‫کی وجہ سے حضور کا خون مبارک کا بہنا‪ ،‬اور‬
‫جوتوں میں جم جانا دیکھا۔ حضور کی اونٹ پر مکہ‬
‫سے مدینے کی ہجرت کو آنکھوں سے دیکھا۔ اور‬

‫نہیں لگا کبھی کہ ہم اُس زمانے میں نہیں تھے۔‬

‫ایمان صرف سیکھنے سے نہیں بنتا۔ سننے تخیّل کی‬
‫نگاہ سے دیکھنے اور سنانے سے بنتا ہے ۔ آج ایمان‬
‫کی جو بھی حالت ہے ابا کی وجہ سے ہے۔ بالکل ایسا‬
‫ٹی۔وی۔ پر ‪ HDL‬لگتا ہم اُسی زمانے میں ہیں۔ آج کی‬
‫چلتی منظر نگاری میں وہ مزہ نہیں ہے۔ جو ابّا کے‬

‫اُس بیان میں تھا۔‬

‫آج افسانہ نگار ہوں۔ شاعرہ ہوں ممر ّر ہوں۔ تو صرف‬
‫صرف میرے ابّا کی مرہون منّت ہے۔ اُنکے ناخن بھر‬
‫کاعلم مجھ میں نہیں ہے۔ مگر اُنکی کہی باتیں اب بھی‬
‫یاد ہیں اور وہی یاد مجھ سے لکھواتی ہے اور زبان‬

‫گنگ ہوجاتی ہے۔‬

‫خودداری بہت تھی۔ غربت کا معاملہ پرائمری اسکول‬
‫کے اُستاد تھے۔ کم تنخواہ ہم۔ بھائی بہن چار۔ پھر ایک‬
‫چچا کا لڑکا اور ایک خالہ کی ب ّچی کو بھی گھر میں‬
‫رکھا تھا۔ ایک پھوپی تھیں۔ بیوہ اُن کی آٹھ اولادیں۔ اُن‬
‫کی تعلیم کا انتظام بھی اپنے سر لے رکھا تھا۔ بالاعدہ‬
‫پھوپی کو پیسہ بھیجتے ہر ماہ تاکہ اُنکو تکلیف نہ ہو۔‬

‫ہمارا سارا معاملہ االله پر ڈال رکھتے۔‬

‫توکل کا عجیب عالم تھا۔ کہتے کل کا مت سوچو االله‬
‫دیگا اور االله دوسرے دن انتظام کردیتا۔ اسکول سے‬
‫لوٹنے پر ایک دکان میں حساب کتاب کا کام دیکھتے‬
‫اور رات میں جو بھی وہ دیتے اُس سے سودا سلف‬
‫لاتے اور گھر چل جاتا۔ بچپن تنگ دستی میں گذرا‬
‫کبھی کبھی کپڑوں اور جوتوں کے لئے بھی مشکل‬
‫آتی۔ شاید میں نے ہائی اسکول میں آنے کے بعد چپل‬
‫پہنی ہے ۔ اُس سے پہلے جوتے نہیں دیکھے۔ مگر‬
‫ایک والعہ یاد ضرور ہے۔ شاید چوتھی جماعت میں‬
‫تھی۔ اسکاؤٹ گرلز میں شامل تھی۔ ساری ورزش اور‬
‫سارے آسن کرتی تھی۔ مگر سال کے آخر تک ابّا‬

‫یونیفارم کے پیسے نہیں دے سکے۔ ‪26‬جنوری کو‬
‫میونسپلٹی کے میدان میں ہمارا مظاہرہ تھا۔ ‪25‬جنوری‬
‫کی شام کو آخری ڈرل ہو رہی تھی۔ سکاؤٹ ماسٹر نے‬
‫مجھے باہر نکال دیا کہ کل کا پرچم کوئی اور پکڑے‬

‫گی کیونکہ میرے پاس یونیفارم نہیں تھا۔ اور میں‬
‫روتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی۔ میری وہ تمریر بھی‬

‫منسوخ کر دی گئی جو مجھے میونسپل میدان میں‬
‫کرنا تھی۔ میرے آنسو دیکھ کر بولے چل اور میں چل‬
‫پڑی۔ بازار گئے سب سے اچھا اور مہنگا فراک میرے‬
‫لئے خریدا۔جوتے لئے سفید‪ ،‬سفید ربن اور چوڑیاں‬
‫بھی‪ ,‬پھر گھر آکر ا ّمی سے کہا اسے رات میں نہلانا۔‬

‫صبح میں لے جاؤں گا ۔ صبح مجھے اسکول نہیں‬
‫بھیجا گیا۔ ابّا مجھے لیکر میونسپل گراؤنڈ پہنچے۔‬
‫ہمارے اسکاوٹ گروپ کا مظاہرہ ہوا۔ دوسری لڑکی‬
‫کپتانی کر رہی تھی۔ میں حسرت سے دیکھتی رہی۔ پھر‬
‫تمریر بھی کسی اور نے کی۔ ابّا نے میونسپل آفیسر‬
‫سے خصوصی اجازت لی اور میری بھی تمریر ہوئی‬
‫اُن دنوں میں بہت چھوٹی اور کم لد کی تھی۔ اس لئے‬
‫مجھے ایک میز پر کھڑا کیا گیا تھا اورجب میری‬
‫تمریر ختم ہوئی تو میدان میں تالیوں کی گونج تھی۔ وہ‬
‫لمحہ تھا اور آج ہوں اس کے بعد میرے اندر وہ اسٹیج‬

‫فیر'ڈر' کبھی نہیں آیا۔ اسکی وجہ میرے ابّا تھے۔‬

‫میں نے اپنے ضلع کو' ایس۔ایس۔ایل۔سی۔ میں ٹاپ کیا‬
‫تھا۔ ابّا نے پیڑے منگوائے اور خوب بانٹے۔ ہمارے‬
‫گھر سے کالج جانے والی پہلی لڑکی میں ہی تھی۔‬
‫مجھے پی۔یو۔سی میں داخلہ کے لئے گئے تو میں بہ‬
‫ضد تھی سائنس لونگی۔ ابّا نے کہا کیا کرنا ہے۔ بس‬

‫نہیں‪ ,‬جو آزادی دی ہے وہ کافی ہے۔ میں نے‬
‫پی۔یو۔سی میں بھی ٹاپ کیا تھا۔ اور آج بھی اُس جگہ‬
‫میرے نام کے بورڈس لگے ہیں۔ ابّا بہت خوش تھے۔‬
‫ڈگری کالج گھر سے پانچ کلو میٹر تھی۔ جانا آنا تکلیف‬

‫کا معاملہ تھا۔ کبھی کبھی ابّا سائیکل پر لے جا کر‬
‫چھوڑتے لڑکے میرا مذاق اُڑاتے۔ میں نے پھر چل کر‬

‫جانا شروع کیا۔ مجھے یاد ہے پرنسپل نے کہا تھا۔‬
‫’’ماسٹر لڑکی بڑی ہوگئی ہے۔ اُسے چلنے دیں کب تک‬
‫سائیکل پر لا کر چھوڑیں گے۔‘‘ابّا کو ہم سب کی فکر‬
‫لگی رہتی۔ ہم سب لڑکیوں کو آرٹس کروایا اور لڑکوں‬
‫کو سائینس‪ ,,,‬اس بات کے لئے ہمیشہ مجھے اُن سے‬
‫شکایت رہی۔ ابھی ڈگری کے دوسرے سال میں تھی۔‬

‫نوکری مل گئی۔‬

‫بھائیوں کی پڑھائی کے لئے مجھے نوکری کرنی پڑی۔‬
‫مگر میری شادی بھی بہت جلد کردی گئی اُنکا یہ خیال‬
‫تھا۔ لڑکیوں کی کمائی نہیں لینی ہے۔ میں نے اپنی بالی‬
‫کی پڑھائی سسرال میں پوری کی…‪ .‬ابّا بہت مہمان‬
‫نواز تھے۔ بنا مہمان کے کبھی کھانا نہیں کھایا۔ جب‬

‫بھی دوپہر گھر آتے تو کوئی نہ کوئی نمازی ساتھ‬
‫ہوتا۔ ظہر کے لئے مسجد جاتے تو کسی مسافر کو‬
‫ساتھ لے آتے جو گھر میں ہوتا سامنے رکھ دیا جاتا۔‬
‫کبھی کبھی پچھلوں کو کھانا کم پڑجاتا۔ مگر مہمان کے‬

‫بنا ابّا نے کھانا نہیں کھایا۔‬

‫علماء دین اور ادیبوں کے بہت عمیدت مند تھے۔ جو‬
‫بھی گاؤں میں عالم یا ادیب یا لاری آتا۔ اُسے ہمارے‬
‫ہی گھر میں ٹہرایا جاتا اور ہم پر سختی سے پردہ کا‬
‫حکم لگایا جاتا اور ہم نہ بلند آواز میں بات کرسکتے‬
‫نہ ہنس سکتے نہ مستی کر سکتے۔ اُن دنوں بڑا غ ّصہ‬
‫آتا۔ جانے کہاں کہاں سے لوگوں کو لے آتے ہیں اور‬
‫سنواتے ہیں۔ مگر آج اُن میں سے چار رات کا بیان‬
‫اولیائے کرام کی روضہ مبارکہ دیکھتے ہیں تو لگتا‬
‫ہے۔ االله نے کیسے کیسے بندوں کو ہمارے گھر ابّا‬

‫کے تو ّسط سے ٹہرایاتھا ۔ وہ اولیاء کرام ابّا کے‬

‫ولتوں میں ہمارے گھر مہمان تھے۔ اُن کی دُعائیں‬
‫ہمارے گھر میں ہوتیں۔ اُنکے ہاتھ ہمارے سروں پر‬
‫اور اُن کی دلی دعائیں شاید ہمارے حك میں لبول ہوئی‬
‫ہیں جو آج االله نے ہم سب بھائی بہنوں کواس ممام پر‬

‫رکھا ہے۔‬

‫ابّابہت محنتی۔ اور عاجزمزاج تھے۔ صبح گھر اور‬
‫آنگن میں جھاڑو لگانا خود پر لازم کر رک ّھا تھا۔ ا ّماں‬

‫چونکہ اعل ٰی گھر سے تھیں۔ اسلئے کبھی ا ّماں کو‬
‫جھاڑو لگانے نہیں دیا ۔ نہ گھر کا بیت الخلاء اور‬
‫موریاں صاف کرنے دیں۔ کہتے' میں پٹھان ہوں اور‬
‫تمہاری ا ّماں شیخ اور سید گھرانے سے ہے۔ جیسے‬
‫جیسے ہم بڑے ہوتے گئے ہم نے وہ کام سنبھال لئے۔‬
‫سیدوں اور شیوخ کا بہت احترام کرتے اور بہت عزت‬

‫کرتے۔‬

‫مطالعہ کا بڑا شوق تھا۔ کبھی بھی جس شہر گئے وہاں‬
‫سے کتابیں لے آئے۔ لرآن کے نایاب نسخے اور نادر‬
‫کتب آج ہماری لائبریری کا ح ّصہ ہیں۔ صرف اسلئے کہ‬
‫ابّا کا شوق تھا۔ ‪1952‬سے شایدہفتہ واری’’ انملاب‘‘‬
‫کے تمام پرچوں کو جمع کر رک ّھا تھا۔ اُس میں مولانا‬

‫آزاد کی کتاب ’’ہندوستان نے آزادی حاصل کی‬
‫‪‘‘ India wins freedom‬‬

‫کی پوری کتاب لسط وار آئی تھی۔ اُسے جمع کر رک ّھا‬
‫تھا۔ بعد میں ہندوستان میں‪1977‬کی ایمرجنسی کے‬
‫دوران اُس پر بابندی لگی اور وہ کتاب لید میں رکھی‬

‫گئی۔‪1984‬میں اندراگاندھی کے لتل کے بعد‬
‫راجیوگاندھی کے زمانے میں اُس کتاب کے آخری تیس‬

‫صفحات کو کلکتہ کی لائبریری میں لید رکھ کر بالی‬
‫کی کتاب آزاد کردی گئی۔ مگر وہ پوری کتاب ننگی‬
‫حمیمتوں کے ساتھ آج ابّا کی وجہ سے میرے پاس‬

‫ایک لیمتی اثاثے کی طرح موجود ہے۔‬

‫اورنگ زیب ‪ ،‬ٹیپو سلطان اور البال کے شیدا تھے۔ بار‬
‫بار اُنکی ساری تاریخ بتاتے رہتے۔اور والعات سناتے‬
‫رہتے…‪.‬ساری زندگی جب تک وظیفہ یاب نہ ہوئے‬
‫کبھی کرسی پر نہ بیٹھے بلکہ سارا دن ٹہر کر پڑھا‬
‫تے رہے۔ جس دن وظیفہ ہوا اُس دن بڑے آزردہ تھے‬

‫کہ اب بچوں کو پڑھا نہیں سکوں گا۔‬

‫ابّا کو سرکاری یا غیر سرکاری انعام کبھی نہیں‬

‫ملا۔اُسکے برعکس ناکارہ اساتذہ جو آفسراں کی چمچہ‬
‫گیری کرتے اُنکے انعامات ملتے۔ میں ہمیشہ شکایت‬

‫کرتی یہ لوگ آپکو انعام کیوں نہیں دیتے تو بڑی‬
‫حلیمی سے جواب دیتے یہ لوگ مجھے کیا انعام دیں‬
‫گے بیٹا! میرا انعام مرنے کے بعد دیکھنا۔ اُنکی یہ بات‬
‫مجھے کبھی سمجھ نہ آئی۔ آئی بھی تو اُس دن جس‬

‫دن اُنکا جنازہ اُٹھا۔‬

‫ہم چاروں بہن بھائیوں نے اینگلو اُردو ہائی اسکول‬
‫میں تعلیم حاصل کی تھی۔ جیسے ہی وظیفہ کے پیسے‬
‫آئے۔ اُسولت اینگلو اُردو ہائی اسکول کی عمارت بن‬
‫رہی تھی۔ اُس ولت ہائی اسکول کے لوگ ابّا سے چندہ‬

‫مانگنے آئے تھے۔ ابّا نے کہا پیسہ نہیں دونگا۔جو‬
‫استطاعت ہوگی وہ سامان دلوادونگا۔ ہم چاروں کے نام‬
‫سے ساگوان کے نمش و نگار سے بنے چار دروازے‬

‫اسکول میں لگوائے کہ میرے چار ب ّچوں نے یہاں‬
‫سے علم حاصل کیاہے۔ اُن دروازوں کو دیکھتی ہوں‬

‫تو ابّا بے ساختہ یاد آتے ہیں۔‬

‫مسجد فیصل کی تعمیر کا ولت تھا۔ اُسولت بھی مسجد‬
‫کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر ح ّصہ لیا۔ مسجد کی امانت‬

‫کو بہت سنبھال کر رکھا اور خود مزدوربن کر مسجد‬
‫کی تعمیر میں ح ّصہ لیا۔‬

‫ابّا کو بہت کم عمر مینیعنی ‪35‬سال میں ضیابطیس‬
‫ہوگئی تھی۔ اُنکا غ ّصہ شاید اسی وجہ سے رہا ہو۔‬
‫خوش لباس تھے ۔ سفید کپڑے پٹھانی شلوار سوٹ‬
‫کرتا اور ازار پہنا کرتے۔ پہلے سوٹ پہنتے بھی دیکھا‬
‫ہے۔کھانا سادہ کھاتے۔ چاول بہت پسند تھے۔ چونکہ‬
‫ساحلی علالوں کی پیداوار تھے اس لئے مچھلی بہت‬
‫شوق سے کھاتے۔ گائے کا گوشت پسند نہیں کرتے۔‬
‫بکرا یا پھر مرغی ہفتہ اتوار بن جاتی ورنہ مچھلی کا‬
‫سالن اور چاول مرغوب غذا تھی۔ میٹھا بھی پسند تھا۔‬
‫مگر شوگر کی وجہ میٹھا نہیں کھا پاتے جسکا اُنھیں‬

‫افسوس رہتا۔‬

‫ہم چاروں کی تربیت بڑی سختی سے کی۔ہم جب‬
‫چھوٹے تھے تو ہمارے بال بنانا۔ ناخن کاٹنا ‪,‬لباس‬
‫بدلوانا۔ نہلانا سب کام خود کرتے ۔ ہم بڑے ہوئے تو‬
‫سکھاتے کس طرح رہنا ہے کیا کرنا۔ عبادات کے‬
‫طریمے تسبحیات ۔ ذکر کا معمول ۔ لرآن کی تلاوت‬

‫بچپن سے عادی بنادیا تھا۔ اُنکا ممولہ تھا‬

‫بچ ّوں کو چاہے سونے کا نوالہ کھلاؤ مگر شیر کی ’’‬
‫’’نگاہ رکھو تاکہ تربیت صحیح ہو۔‬

‫تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی سختی نے آج ہم‬
‫چاروں کو اچھا انسان بنایا ہے ورنہ اس پراگندہ‬
‫ماحول میں جانے ہم راستہ بھٹکے کہاں ہوتے۔‬

‫میری سسرال میں کبھی لدم نہیں رکھا۔ خودداری اتنی‬
‫تھی کہ آتے خیریت دریافت کرتے اور بنا کھائے پئے‬

‫نکل جاتے۔‬

‫اچھے ولتوں میں یعنی جب صحت اچھی تھی تو‬
‫چھٹیوں میں کبھی کبھی جنگل میں شکار کے لئے‬
‫چلے جاتے گھر میں دو نالی بڑی رائیفل تھی۔ جو‬
‫اُنکی وفات کے بعد ہم نے پولس کو سرنڈر کردی۔‬
‫جنگلی‪ ،‬بھیسنا‪ ،‬ہرن‪ ،‬بارہ سنگھا ۔ خرگوش کا گوشت‬
‫مہینے دو مہینوں میں ہم نے کھایا ہے۔ اُسولت شکار‬
‫کی مناہی بھی نہیں تھی۔ کبھی کبھی دوستوں کے ساتھ‬
‫ندی کنارے مچھلیاں پکڑنے چلے جاتے اور بڑی بڑی‬
‫مچھلیاں بھی لے آتے۔ ا ّمی مچھلیوں کی صفائی کرتے‬

‫کرتے پریشان ہوجاتیں۔‬

‫لوالی ۔غزلوں اور اردو شاعری کا بڑا شوق تھا۔ اپنی‬
‫سطح پر ب ّچوں کے لئے تماریری ممابلے‪ ،‬نعت خوانی‬
‫‪ ،‬بیت بازی‪ ،‬لرات کے پروگرام کرواتے ۔مشاعرے‬

‫کروانے اور ہر ادبی محفل میں بڑھ چڑھ کر ح ّصہ‬
‫لیتے۔‬

‫مطالعے کا بہت شوق تھا۔ کئی کتابیں پڑھ رکھیں تھیں‬
‫اور نیند آنے تک پڑھتے رہتے۔‬

‫بذلہ سنج تھے۔ ادبی مذا ق کرتے ‪,‬چٹکلے سناتے۔‬
‫اچھا موڈ ہوتا تو کبھی کبھی لہمہ لگاتے ورنہ‬

‫مسکراہٹ اور حلیمی چہرے پر واضح رہتی۔تاریخ اور‬
‫حالات حاضرہ سے باخبر رہتے اور بہت اچھے تجزیہ‬

‫نگار تھے۔ خبریں سنتے… صبح سات بجے ‪ ،‬آٹھ‬
‫بجے نو بجے‪ ،‬گیارہ بجے‪ ،‬دو بجے پانچ بج شام‬
‫ساڑھے سات بجے آٹھ بجے اور رات نوبجے کی‬
‫ریڈیو پر خبریں سننا معمول تھا۔ اور خبروں کا تجزیہ‬
‫بہت گہرائی سے کرتے اور بتاتے کیوں ہوا کیا ہوا اور‬

‫کیا ہونے والا ہے۔‬

‫اُردو ۔ عربی۔ کنڑی زبانوں کے علاوہ کونکنی ‪,‬مرہٹی‬

‫اور سنکسرت پر بھی عبور تھا۔ گہرا مطالعہ اور بات‬
‫دوراندیش اور بصیرت والی کرتے۔ کئی احادیث بر‬
‫مولع و محل سناتے استادوں کے کلام تو تمریباً ازبر‬

‫تھے۔‬

‫آج کے اساتذہ کو دیکھتی ہوں تو افسوس ہوتا ہے۔ کہ‬
‫ایک شعر ڈھنگ سے نہیں پڑھ سکتے۔‬

‫مربی انسان تھے۔ سب سے خلك اور حسن اخلاق سے‬
‫ملتے۔ بغض و عناد نہیں تھا۔ نہ مسلکی اختلاف‬

‫رکھتے۔ ہمیشہ کہتے۔ بیٹا انسان االله کی مخلوق ہیں‬
‫سب سے محبت کرو۔ ہم آدم کی اولاد ہیں۔ االله کے‬
‫بندے ہیں ایک رسول کا کلمہ پڑھنے والے ۔ سب سے‬
‫محبت کرو۔ یہ ہمیشہ سکھایا گیا۔ اور ہم اس پر لائم‬

‫رہے اور ہیں۔‬

‫لوم کا بہت درد تھا۔ اور لوم کے لئے ہمیشہ فکر مند‬
‫رہتے۔ سماجی سرگرمیوں میں بیداری کے کاموں میں‬
‫علمی اور عوامی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے‬
‫پکے کانگریسی تھے۔ اور ہمیشہ الیکشن کے ولت‬

‫گھر گھر جاکر کہتے ووٹ متفك ہوکر ڈالو۔ اپنے‬

‫ووٹوں کا بٹوارہ مت کر لو۔‬

‫اندراگاندھی کی امیرجنسی کے دوران جب مسلمانوں‬
‫پر نسل کشی اور انسداد تخلیك کا عمل تیز ہواتو راتوں‬
‫رات لرآن کی آیات لکھ کر انکی تشریح کرواکر خود‬

‫بھی لکھتے ہم سے بھی لکھواتے اور بانٹتے کہ‬
‫آپریشن کروانا حرام ہے۔ اولاد کا لتل گناہ ہے اس میں‬
‫شامل مت ہو۔ اُس ولت پہلی بار جنتا دل کی حمایت کی۔‬

‫اور کانگریس ہار گئی۔‬

‫‪1984‬‬
‫میں‬

‫اندراگاندھی کے لتل کے دن بہت اُداس تھے‬
‫‪1991‬میں راجیوگاندھی کے لتل کے دن بھی ہراساں‬
‫ہوئے اور کہا اب تشدد پرستوں کی حکومت آنے والی‬
‫۔چھے دسمبر ‪ 1992‬جس دن بابری مسجد گرائی گئی۔‬
‫اور اُنھوں نے ٹی۔ وی پروہ منظر دیکھا تو روئے۔‬
‫بہت روئے اور عصر کے ولت دعا مانگی یاالله ان گنہ‬

‫گار آنکھوں کو ملک کی تنزلی کا تماشہ مت‬
‫دکھا‪,‬اٹھالے۔ پھر بیمار ہوئے۔ دسمبر کا مہینہ سرد گرم‬

‫گذرا۔ جنوری کا مہینہ زرا بہتر ہوئے مگر وہ حوصلہ‬
‫اور اُمنگ نہ تھی جو پہلے اُنکی طبعیت کا خاصہ تھی۔‬
‫پژمردہ رہتے۔ سوئے رہتے۔ تسبیح ہاتھ میں رہتی۔ اور‬
‫ذکر میں مشغول رہتے۔ نماز اور تلاوت کے معمولات‬
‫کبھی ترک نہ ہوئے۔ جب تک ہوش رہا نماز لضا نہیں‬

‫کی۔‬

‫‪25‬جنوری‬
‫کو اُنکی شادی کی بتیسویں سالگرہ تھی۔ میں میکے‬
‫گئی تھی ۔ میں نے مذا ق کیا ابّا آج دیسی مرغ کی‬
‫دعوت ہوکہا۔ آج نہیں کل کریں گے۔ مگر دوسرے دن‬
‫‪26‬جنوری تھی اور مجھے واپس دھارواڑ آنا پڑا۔‬

‫ستائس جنوری کو بخار کی وجہ سے ایڈمٹ کیا گیا۔‬
‫شوگر بھی زیادہ تھی۔ دو دن سلائین پر تھے۔ ڈاکٹر‬

‫نے شوگر کی وجہ انسولین دینی شروع کردی‬
‫مگرشوگرلیول چیک کرنا بھول گئے۔ ‪ 30‬جنوری‬
‫۔’’برین ڈیڈ ڈیوٹو اوور ڈوز انسولین‘‘ ڈاکٹرس کی‬
‫غلطی۔‪ ،‬االله کی مرضی۔ کوما میں چلے گئے۔ پانچ دن‬
‫کو ما کی حالت میں رہے۔ اور ‪ 4‬فروری صبح پانچ‬
‫بجکر بیس منٹ اذان کے ولت آخری سانس لی۔‬

‫جمعرات کا دن تھا۔ دس بجے گھر لایا گیا۔ چار بجے‬
‫جنازہ اُٹھا۔ لبرستان کے لئے۔ اور انکی وہ بات یا‬
‫دآگئی ’’میرا انعام میرے مرنے کے بعد دیکھنا۔ اُن دعا‬
‫کے لئے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کو اور اُن آنسوؤں کو‬
‫”جو میری مغفرت اور وصال کے دن بہیں گے۔‬

‫ڈانڈیلی کی سڑکیں جام تھی۔ لوگوں کاجم غفیر تھا۔ پتہ‬
‫نہیں کہاں کہاں سے لوگ آئے تھے۔ تل بھر پیر‬
‫رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ نہ مسلکی اختلاف تھا۔‬

‫حالانکہ ڈانڈیلی ایک ایسا شہر ہے جہاں پر مسلکی‬
‫اختلاف تھا اوراب بھی بہت زیادہ ہے۔ ہر مسلک اور‬
‫ہر فرلے‪ ،‬یہاں تک کہ ہندو برادران تک نماز جنازہ‬
‫میں شامل تھے۔ ابّا کے بعد جناب کلیم الله خان کتور کا‬
‫ایک جنازہ بھی ویسا ہی دیکھا۔ اور یمین آگیا۔ اصل‬
‫دولت دلوں کا جیتنا ہے سرکاری انعامات نہیں۔ اور ابّا‬

‫ڈانڈیلی کے لوگوں کے دلوں میں بستے تھے۔‬

‫میرے ابّا شاید دنیا میں نہیں ہیں۔ مگر میری ہر سوچ‪،‬‬
‫ہر سانس اور ہر بات میں ابّا کی بات‪ ،‬آواز اور خیال‬

‫اور جذبے گونجتے ہیں۔‬

‫مجھے فخر ہے میں میرے ابّا کی بیٹی ہوں۔ اور اُنکی‬
‫پرچھائی ہوں۔ اُنکی عادت ہوں۔ اُنکی چلتی پھرتی‬

‫تربیت ہوں اور اُنکا دنیا میں چھوڑا گیا سایہ اور ورثہ‬
‫ہوں۔ االله میرے ابّا کو جوار رحمت میں رکھے اور‬
‫اُنکی دعاؤں کا سائیبان ہم پر بنا ئے رکھے۔‬
‫آمین‬
‫––––––––‬
‫پیدائش‪15‬ایپریل‪1926‬‬
‫وفات‪4‬فروری ‪1993‬‬
‫ملازمت‪1941‬ء سمسی۔ ہوناور۔ سے شروعات کی۔‬
‫پانچویں پاس تھے۔‪1964‬‬
‫میں پرایئوئٹ یس یس سی کا امتحان پاس کیا‬
‫‪1957‬پونہ ٹریننگ کالج سے استاذی کی دوسالہ‬
‫تربیت کا کورس کیا تھا‬

‫بھٹکل۔ منکی۔ بنواسی۔ ہلیال ۔ ڈانڈیلی‪ .‬میں ملازمت کی‬
‫اور ڈانڈیلی بنگور نگر ھایر پرایمری اسکول سے‬
‫وظیفہ یاب ہوئے۔‬

‫وظیفہ یابی‪30‬اپریل‪1981‬ء بانگور نگر اُردو‬
‫ھائیرپرائمری اسکول ہیڈ ماسٹر ۔ وظیفہ یابی کے بعد‬

‫بارہ سال زندہ رہے ۔‬
‫‪55‬سال میں وظیفہ یابی ملی۔ وفات کے ولت‪67‬سال‬

‫کے تھے۔‬
‫اولادیں۔ مہرافروز۔ الطاف حسین خان۔ عطیہ خان۔ محمد‬

‫ایاز خان‬
‫سات بھائی دو بہنیں‬
‫دو بیویاں۔ پہلی بیوی دو سال کے اندر فوت ہوگئی۔‬
‫دوسری بیوی۔ زبیدہ بیگم بنت عبدالرح ٰمن ساکن ہلیال‬

‫حیات ہیں۔‬

‫ذاتی جائیداد۔ ایک رہائیشی مکان۔ پانچ ہزار کتب اور‬
‫چند کپڑوں کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا۔‬

‫اُنکا چشمہ للم ۔لاٹھی۔ بستر۔ اوڑھنا۔ جائے نماز اور‬
‫تسبیح میں نے ترکے میں لی ہے۔ دُعا کی صورت‬

‫بالی کچھ نہیں لیا۔‬
‫–––––––‬

‫انجم لدوائی کہتے ہیں‬
‫دن ‪۲۰۱۵/۱۱/۱۵ at ۴۶:۱۱‬‬
‫مہر افروز صاحبہ ۔۔۔خاکہ پڑھ کر آنکھیں بھر آئیں‬
‫۔آپکے ابّا ایک اسکول تھے ‪،‬ایک مدرسہ تھے ایک‬

‫رہنماء کے علا وہ دنیا کے لئے ایک مثال تھے ۔الله‬
‫) تعال ٰی انکے درجات بلند فرمائے (آمین‬

‫آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ نے انکی تر بیت پائی ۔سلا‬
‫مت رہیں‬

‫اعجاز فرخ کہتے ہیں‬
‫شام ‪۲۰۱۵/۱۱/۱۵ at ۲۵:۱‬‬
‫محترمہ مہر افروز۔ بیٹی باپ کیلئے ایک نعمت غیر‬
‫مترلبہ تو ہے ہی۔لیکن آ پ نے جس چاہ سے لکھا‬
‫‪،‬وہ اشکبار کر گیا۔ الله آپکا گھر ٹھنڈے چشموں کے‬

‫کنارے آباد رکھے۔‬

‫یحیی خان کہتے ہیں‬
‫شام ‪۲۰۱۵/۱۱/۱۵ at ۲۷:۱‬‬
‫ایک بیٹی کے احساسات کو بہت ھی عمدہ سلیمہ سے‬
‫آپی آپ ‪ Mehar Afroz‬ضبط تحریر میں لایا ھے‬
‫نے اور آپ نے اس بات کو اور بھی تمویت دے دی کہ‬
‫باپ سے سب سے زیادہ لریب بیٹوں کی بہ نسبت‬
‫بیٹیاں ھوتی ھیں اسی لئے تو زیادہ تر باپ اپنی بیٹیوں‬
‫کو ‘ مما ‘ کہہ کر پکارا کرتے ھیں رھی بات آپکے‬
‫والد محترم کے اچھے اور عظیم انسان ھونے کی تو‬

‫یہ سارے ُگن آپ میں منتمل ھوگئے ھیں ۔۔۔ الله آپکے‬
‫والد محترم کے درجات بلند فرمائے اور آپ سب کو‬

‫صبر جمیل عطا فرمائے آمین ۔‬

‫چراغ ھبلوی کہتے ہیں‬
‫شام ‪۲۰۱۵/۱۱/۱۵ at ۱۶:۱۰‬‬
‫سلام عرض ہنے ‪.‬والعی بڑا عمدہ خاکہ ہنے ‪ .‬خاکہ‬
‫میں جزبات کی عکاسی بے مثال ہنے ‪،،‬الفاظ کی‬
‫روانی لا جواب ہنے ‪،‬اندازبیان بھی دل کو چھو لیتا‬
‫ہنے ‪،،‬اور تھوڑی دیر کے لے عمل ٹھر جاتی ہنے ‪.‬دل‬
‫بھر آتا ہنے ‪.‬الله ہر لڑکی کے نصیب میں آپکے والد‬
‫جیسی شخصیت کا رول ادا کرنے کا مادہ پیدا کرے ‪،‬‬
‫کہ پھر اور ایک مہر افروز جیسی ہو نہار ‪،‬زیرک‬
‫‪،‬محنتی ‪،‬مخلص ‪،‬انسانیت پرست ‪،‬ادب پرست ‪،‬اردو کی‬
‫شیدا ی ‪،‬ایک بہترین معلمہ پیدا ہو ‪،‬تاکہ لوم و ملت کی‬
‫‪،‬خصوصا طلباء و طالبات کی رہنمای کر سکے ‪،،،‬صد‬
‫آفریں ‪،،‬الله آپکے والد محترم کی لبر کو نور سے بحر‬
‫دے ‪،،،‬امین ‪،،،‬ویسے اپکا اثاثہ بڑا جاندار و شاندار‬
‫ہنے ‪،،‬جو تمام مضمون پر بھاری ہنے ‪،،‬یہ جملے بڑا‬
‫اثر چھوڑ گے ہیں …چراغ ھبلوی ‪،،‬دھارواد ‪.‬کرناٹک‬

‫‪،،‬انڈیا ‪،،‬‬

‫عنایت علی خان کہتے ہیں‬
‫دن ‪۲۰۱۵/۱۱/۱۶ at ۳۸:۱‬‬
‫واہ ایک بیٹی نے بہت خوبصورت انداز میں خراج‬
‫عمیدت پیش کیا ھے پڑھتے پڑھتے آنکھ میں آنسو‬
‫آگئے مجھے میرے والد صاحب یاد آگئے‬
‫جو ‪ ۴‬سال پہلے فوت ھو گئے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ‬
‫ولت بہت بڑا مرہم ھے لیکن نہیں اس دکھ اس غم پہ‬

‫کوئی مرہم اثر نہیں کرتا‬
‫مجھ پہ بیت رہی ھے مجھے اس دکھ کا اندازہ ھے‬
‫مجھے تو صرف ‪ ۴‬سال ھوئے ہیں آپکی ہمت کو داد‬
‫دیتا ہوں کہ ‪ ۲۲‬سال سے اس دکھ کو جھیل رہی ہیں ۔‬
‫الله پاک آپکے والد محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب‬

‫فرمائے۔ آمین‬


Click to View FlipBook Version