The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2016-02-23 22:33:11

abar_e_rahmat

abar_e_rahmat

‫ابر رحمت‬

‫فیض کرم‬
‫من تصنیف‬
‫منشی کرم بخش صاحب قادری رحمتہ ا علیہ‬

‫‪:‬ملنے کاپتہ‬
‫مہر علم دین۔ محمد شفیع‬

‫کتب فروش نیا بازار۔‬
‫قصور پنجاب‬
‫بار اول‬

‫مخدومی و مرشدی حضرت سید غلم حضور رح‬
‫کے ذخیرہء کتب سے' منشی کرم بخش مرحوم کا‬
‫شعری مجموعہ' ۔۔۔۔ ابر رحمت۔۔۔۔ مل ہے۔ اس کی‬
‫خصوصیت یہ ہے' کہ یہ اپنے وقت کے صوفی کا‬
‫کلم ہے۔ اس کا ابتدائیہ ایسے حضرت کا تحریر‬
‫کردہ ہے' جو پنجابی یا اردو کے اہل قلم نہیں ہیں۔‬
‫اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ منشی کرم بخش مرحوم‬
‫رح کے متعلق بہت سی اور ضروری' معلومات‬

‫میسر آئی ہیں۔‬

‫بقول محمد نواز خاں' ریٹائر سب انسپکٹر پولیس'‬
‫حیدر آباد دکن اسسٹنٹ' ساکن قصور' کوٹ پیراں‬
‫ضلع لہور' منشی کرم بخش مرحوم رح نے یکم‬
‫مارچ ‪ 1934‬بروز جمعرات کو انتقال کیا' بوقت‬
‫انتقال ان کی عمر' ‪ 64‬سال تھی‪ .‬اس لحاظ سے‬

‫ان کا سن پیدائش ‪ 1870‬ٹھہرتا ہے۔ ان کی‬
‫اولدوں میں چھے بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔‬
‫خوشی محمد ولد نور دین' پتوانوالہ' قصور‬

‫کےمطابق ان کے بیٹوں کے نام‬
‫خوشی محمد' محمد بوٹا' علی محمد' عاشق محمد'‬

‫صادق محمد اور غلم محمد تھے۔‬

‫منشی کرم بخش مرحوم رح کوٹ پکا قلعہ کے‬
‫رہائشی تھے۔ بقول محمد بخش بساطی فروش‬
‫قصور منشی کرم بخش' نور دین پتوانوالہ کے‬
‫بھٹہ پر منشی تھے۔ حاجی محمد امین ہیڈ کانسٹیبل‬
‫ریلوے اسٹیشن دھوری کی تحریر کے مطابق'‬
‫چالیس پچاس روپیہ مشاہرہ پر سارے کنبہ کی‬
‫پرورش فرماتے رہے۔ یہ بھی کہ ابر رحمت' ان‬
‫کی اٹھارہ برس کی محنت کا ثمرہ ہے۔ حاجی محمد‬

‫امین ہیڈ کانسٹیبل ریلوے اسٹیشن دھوری کی یہ‬
‫تحریر' ‪ 1940- 9-14‬کی ہے۔ گویا یہ کلم‬

‫‪ 1916‬اور ‪ 1934‬تک کا ہے۔ بے شک ان کے‬
‫بچے لئق تحسین ہیں' جو انہوں نے منشی کرم‬
‫بخش مرحوم رح کے ذخیرہ کو جمع کرنے کا پربند‬

‫کیا۔‬
‫ا انہیں جزا دے۔‬

‫ابتدائی کلمات تحریر کرنے والوں نے' منشی کرم‬
‫بخش مرحوم رح کے اچھے کردار رکھنے کی‬

‫شہادت دی ہے۔ ان شہادتوں اور کلم کے مطالعہ‬
‫سے' یہ امر پوشیدہ نہیں رہتا' کہ مرحوم کھرے‬
‫انسان اور مزاجا طبعا صوفی تھے۔ وہ کن کے‬
‫مرید تھے اس ذیل میں عنایت ا خاں کا کہنا ہے۔‬

‫میں نے ایک دفعہ عرض کی تھی کہ آپ کے‬
‫پیشوا صاحب کا اسم گرامی کیا تھا۔ لیکن آپ نے‬
‫فرمایا کہ میں فقط ایک ہی ان کا خادم ہوں۔ بتانے‬

‫کے متعلق حضور نے منع فرمایا تھا۔‬

‫ابر رحمت دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہل حصہ‬

‫صفحہ‪ 160‬تک ہے۔ صفحہ‪ 160‬حاشیہ میں درج‬
‫ہے۔‬

‫گیلنی پریس ہسپتال روڑ لہور میں باہتمام منشی‬
‫کرم بخش پرنٹر و پبلشر‬
‫چھپکر‬

‫قصور شہر سے شائع ہوئی۔‬
‫اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہل حصہ صفحہ‪160‬‬

‫تک کی کتابت اور اشاعت وغیرہ کا بندوبست‬
‫منشی کرم بخش مرحوم نے خود کیا۔ باقی کا اہتمام‬

‫ان کی اولد نے کیا۔ گویا یہ کام ‪ 1934‬تک ہو‬
‫چکا تھا۔‬
‫‪...........‬‬

‫ابتدائیہ کی تحریروں کے کچھ اقتباس پیش ہیں۔‬

‫آپ اکثر پچیدہ مسائل پر بحث کرتے اور سیاسی‬
‫معاملت پر تبادلہءخیالت کرتے رہتے۔ ہمیشہ‬
‫خیالت کا نتیجہ خدا کے سپرد کر دیتے کہ انسان‬
‫کو قدرت کے قانون میں دخل نہیں۔ تاہم فعل مختار‬
‫کے پورے پورے حامی تھے۔ جہاں تک میرے‬
‫علم میں ہے۔ مالکان کو ملزمت کے سلسلہ میں‬

‫کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں دیا۔‬

‫بندہ فدا حسین سچدیو‬
‫جنرل سیکرٹری‬

‫انجمن انصار المسلمین‬
‫قصور‬
‫ص‪ :‬ب‬

‫اٹھارہ برس کی محنت شاقہ کے بعد چمنستان‬
‫نبوت سے گلہائے عقیدت چن چن کر ایک بیش بہا‬

‫گلدستہ پنجابی اشعار میں ترتیب دے کر ۔۔۔۔۔ ابر‬
‫رحمت ۔۔۔۔۔ نام رکھا۔لیکن اتنی فرصت نہ ملی۔ کہ‬
‫جیتے جی ۔۔۔ ابر رحمت ۔۔۔ اشاعت پذیر ہوکر باران‬

‫رحمت بن سکے۔‬
‫ساری عمر ایک بھٹہ پر منشی رہے۔ چالیس‬
‫پچاس روپیہ مشاہرہ پر سارے کنبہ کی پرورش‬

‫فرماتے رہے۔‬
‫حاجی محمد امین‬
‫ہیڈ کانسٹیبل ریلوے اسٹیشن‬

‫دھوری‬
‫‪14-9 1940‬‬

‫ص‪ :‬ج ۔ د‬

‫انتقال یکم مارچ ‪ 1934‬بروز جمعرات عمر بوقت‬
‫وصال ‪ 64‬سال‬
‫اولدیں‬

‫چھے لڑکے ایک لڑکی‬
‫بندہ محمد نواز خاں‬
‫ریٹائر سب انسپکٹر پولیس حیدر آباد دکن اسسٹنٹ‬

‫ساکن قصور‬
‫کوٹ پیراں ضلع لہور‬

‫گویا‬
‫‪1870‬‬

‫تا‬
‫‪1934‬‬
‫ص‪2:‬‬
‫لڑکوں کے نام‬
‫خوشی محمد' محمد بوٹا' علی محمد' عاشق محمد'‬
‫صادق محمد' غلم محمد‬
‫نے ورقا ورقا اکٹھا کرکے کتابی صورت میں تیار‬
‫کیا۔‬
‫تابعدار خوشی محمد ولد نور دین پتوانوالہ۔ قصور‬
‫ص‪3 :‬‬
‫منشی کرم بخش نور دین پتوانوالہ کے بھٹہ پر‬

‫منشی تھے۔‬
‫محمد بخش بساطی فروش‬

‫قصور‬
‫حکیم پیر محمد قصور نواں بازار باشندہ جالندھری‬

‫شعبان ‪ 1356‬ھج ‪21‬‬
‫مولوی امام دین ساکن قصور نواں بازار بقلم خود‬

‫نے ابتدائی کلمات تحریر کیے ہیں۔‬
‫‪..........‬‬

‫ابر رحمت‬

‫فیض کرم‬
‫من تصنیف‬
‫منشی کرم بخش صاحب قادری رحمتہ ا علیہ‬
‫ملنے کاپتہ‪ :‬مہر علم دین۔ محمد شفیع کتب فروش‬
‫نیا بازار۔ قصور پنجاب‬

‫بار اول‬
‫در مطبع گیلنی الیکٹرک پریس ہسپال لہور باہتمام‬

‫بابو ضمیر احمد خاں پرنٹر زیور طبع یافت‬

‫پہل حصہ صفحہ‪ 160‬تک ہے۔ صفحہ‪ 160‬حاشیہ‬

‫میں درج ہے۔‬

‫گیلنی پریس ہسپتال روڑ لہور میں باہتمام منشی‬
‫کرم بخش پرنٹر و پبلشر چھپکر قصور شہر سے‬

‫شائع ہوئی۔‬

‫کتاب کا دوسرا حصہ ص ‪ 160‬سے شروع ہوتا‬
‫ہے۔‬

‫پیشانی پر دوسرا حصہ درج ہے‬
‫‪..........‬‬

‫اس شعری مجموعے کے حواشی' اس کتاب کے‬
‫کاتب نے تحریر کیے ہیں' جس سے یہ کھلتا ہے'‬
‫کہ اگلے وقتوں کے کابت' محض مکھی مارنے‬
‫والے یا نقل بامطابق اصل نقل کندگان ہی نہ تھے'‬

‫عالم فاضل بھی ہوا کرتے تھے۔ گویا خوش‬
‫نویسی' تعلیم کا حصہ تھی۔ مجھے ٹھیک سے یاد‬
‫ہے' کہ خوش خطی کے الگ سے نمبر مل کرتے‬

‫تھے۔‬

‫مجھے یاد پڑتا ہے' کہ پرانی منڈی کے سامنے‬

‫والے بازار میں' تھوڑا سا آگے جا کر' پھولوں‬
‫والے چوک سے کافی پیچھے دائیں جانب' ایک‬
‫دوکان کی بالئی منزل پر' محمد حسین شاہ مشتاق‬
‫المعروف شاہ جی بچوں کو پڑھاتے تھے' ساتھ ہی‬
‫رسالہ۔۔۔۔۔ کیفر کردار۔۔۔۔۔۔۔ نکال کرتے تھے۔ دبلے‬
‫پتلے' قد کے پورے پورے تھے۔ عمر رسیدہ‬
‫تھے۔ ان کا گھر کوٹ حلیم خاں میں تھا۔ اب چوں‬
‫کہ نقشے ہی بدل گیے ہیں' لہذا پہچان نہ پاؤں گا۔‬
‫ممکن ہے' ان کے پوتے یا ان اولد آج بھی وہاں‬

‫موجود ہو۔‬

‫حواشی میں معنی وغیرہ درج نہیں کیے گیے' بل‬
‫کہ علمی مباحث کیے گیے ہیں۔ یہ حواشی' پون‬
‫صدی سے زیادہ عمر رکھتے ہیں۔ گویا یہ پون‬
‫صدی سے پہلے کی اردو ہے' اس لیے اس کا‬
‫مطالعہ دل چسپی سے خالی نہیں۔ ان کے مطالعہ‬

‫سے کم از کم' نو امور سامنے آتے ہیں۔‬

‫‪1-‬‬
‫رموز میں صرف تین یعنی سکتہ' سوالیہ اور‬
‫فجائیہ استعمال میں آتے تھے۔ اور کے بعد سکتہ‬

‫کا استعمال رواج میں تھا۔ رموز کے رواج میں نہ‬
‫ہونے کی وجہ سے' تحریر میں بےاعتدالی تھی۔‬

‫یہ چیز میں نے بہت ساری مکتوبی اورقلمی‬
‫تحریروں میں دیکھی ہے۔‬

‫لفظ مل کر لکھے گیے ہیں۔ ‪2-‬‬
‫الپ پران کا استعمال ترجیع میں تھا ‪3-‬‬
‫کچھ مکتوبی صورتیں بھی الگ سے تھیں۔ ‪4-‬‬
‫مثل خواہ کی جگہ خواہے لکھتے تھے۔ اسی طرح‬
‫کھانا کو کھانہ' مقام کی جگہ مکام' کہے کی جگہ‬

‫کھے وغیرہ لکھنا مستعمل تھا۔‬
‫بہت سی جگہوں پر تخاطبہ انداز اختیار کرتے ‪5-‬‬

‫ہیں۔‬
‫حواشی میں لکھی گئی اس تحریر پر ناصحانہ ‪6--‬‬

‫چلن غالب ہے۔ مولویوں کو نشانہ بناتے بناتے‬
‫خود مولوی بن جاتے ہیں۔‬

‫اس عہد کے مولوی پیر صاحبان کی حالت زار ‪7-‬‬
‫سامنے آ جاتی ہے۔‬

‫بہت سے سماجی رویے اور اطوار کھل گیے ‪8-‬‬
‫ہیں۔‬

‫کچھ تاریخی حقائق بھی کھلتے ہیں۔ ‪9-‬‬
‫مجموعی طور پر ان حواشی کا مطالعہ' لسانیاتی‬

‫اعتبار سے خالی از دل چسپی نہیں اور اس تحریر‬
‫کالسانیاتی تجزیہ' بےشک ادبی خدمت کے مترادف‬

‫ہو گا۔‬
‫‪...........‬‬

‫حافظ شیرانی اور کئی ایک دوسرے محقیقن کا‬
‫خیال رہا ہے' کہ اردو کا ماخذ پنجابی ہے۔ یہ‬
‫نظریہ درست نہیں۔ پنجابی ایک علقائی زبان تھی‬
‫اور ہے۔ اس کے برعکس اردو برصغیر کی زبان‬
‫ہونے کے ساتھ' بیرونی ولئتوں میں بھی مستعمل‬
‫تھی۔ یہ الگ سے موضوع ہے اور اسے ہندی'‬
‫بغدای اور یونانی تہذیبوں کے تناظر میں دیکھا جا‬
‫سکتا ہے۔ ہاں یہ درست ہے' کہ زبانیں ایک‬
‫دوسرے سے اثر لیتی آئی ہیں۔ اگر اس نے اثر‬
‫لیے' تو اثر مرتب بھی کیے۔ ابر رحمت میں بھی‬

‫اردو اور پنجابی کا اشتراک موجود ہے۔‬
‫‪..........‬‬

‫بہت سے اردو لفظ ابر رحمت میں استعمال کیے‬
‫گیے ہیں۔ مثل‬

‫اول جان اسلم تے قائم ہونا فطرت جان اسلم‬
‫انسان پیارے ص‪129‬‬

‫بعض مصرعے پنجابی کم اردو زیادہ ہیں۔ مثل‬

‫باقی طفل ہے عام جہان دلبر مشکل عشق والی‬
‫دلبر کار پیارے‬

‫کرم ہو غلم مسکین عاجز تیرا ہے آقا بخشنہار‬
‫پیارے‬
‫ص‪316‬‬

‫اک ظالم ظلم عظیم میاں کرے نال جو شرک کریم‬
‫میاں نہیں پاسی رحم رحیم میاں ایہو غصہ ہے‬

‫سرکار‬
‫دنیا کیسی دیکھی یار‬

‫ص ‪268‬‬

‫کر اپنا آپ اعتبار میاں توں اپنا آپ ہیں یار میاں‬
‫خود دشمن خود دلدار میاں‬
‫ص‪324‬‬

‫قبلے باطنی دی طرف رخ کرنا نگاہ باطن حضوری‬
‫شمار پیارے‬
‫ص‪320‬‬

‫اک مست الست مستان میاں‬
‫ص‪272‬‬

‫بندہ عاجز عذر نہ کائی کر فضل جناب الہی‬
‫ص‪392‬‬

‫اپنا اٹھا نہ سکے ضامن بنے لوکائیدا‬
‫ص‪152‬‬

‫اردو مصادر اور سابقے لحقے ابر رحمت ہی کیا‬
‫اور بہت سی پنجابی شعر و نثر میں پڑھنے کو‬

‫ملتے ہیں۔ مثل‬

‫چارے لفظ نماز نیاز عاجز تحفہ عاجزی باہجہ‬
‫درکار ناہیں‬

‫سبہ چھوڑنا عدم نوں عدم بھائی سچی بات جے‬
‫ہووے بدکار ناہیں‬

‫بےخیالی نماز ہووے خیال والی نہ پڑھن جیہی‬
‫مندی کار ناہیں‬
‫ص‪215‬‬

‫اردو محاورے اس تصنیف میں پڑھنے کو ملتے‬
‫ہیں۔ رائی بھر فرق نہ ہونا کا پنجابی استعمال‬
‫ملحظہ ہو‬
‫تدوں فرق نہ رہندا رائی دا ص‪151‬‬

‫آئینہ بنانا‪ :‬رب آئینہ محمد بنایا میاں‬

‫سلم سنانا‪ :‬دے شان سلم سنایا میاں‬
‫سلم سنانا سلم بلنا‬

‫کرناٹک' کاٹھیاواڑ' دکن اور کئی دوسرے علقوں‬
‫میں آج بھی مستعمل ہے‬

‫اسم اور صفت کا' ایک ساتھ استعمال ملحظہ‬
‫فرمائیں۔‬

‫غصے قہر قہار تے رحم غالب کر رحم رحیم وسار‬
‫ناہیں ص‪198‬‬

‫اس مصرعے میں صرف دو لفظ تے اور وسار‬

‫پنجابی کے لفظ ہیں‬

‫دونوں زبانوں کی تلمیحات تقریبا ایک سی ہیں۔‬
‫مثل‬

‫نمرود فرعون کر ضد اپنی کافر ہو کے رب کہا‬
‫گئے‬

‫منصور ہو مست الست عاشق اناالحق دا نام سنا‬
‫گئے‬

‫ل تقنطوامن الرحمتہ ا رب سچے فرمایا‬
‫خوشیاں کر کر پاک محمد سجدہ شکر بجایا‬

‫ابر رحمت میں' منشی کرم بخش مرحوم کا اردو‬
‫کلم بھی' شامل کر دیا گیا ہے۔ اس پر پنچابی زبان‬
‫کے اثرات موجود ہیں۔ انہوں نے' اپنے اس کلم‬

‫کے حوالہ سے اردو کو نئے مرکبات دیے ہیں۔‬
‫گویا انہوں نے ایک ساتھ' دو زبانوں کی خدمت‬

‫کی ہے۔‬
‫ہیچ نگاہ' باغ مظہر' شان سوایا' سیس نوایا'‬
‫بازیچہ نیکاں' حال بیحال' روح گلزار' پیر صقل'‬

‫وصل کا جام' فقیری کے قدم‬

‫ان کی تشبیہات بھی ادبی حسن و چاشنی لیے ہیں۔‬
‫دو ایک مثالیں ملحظہ ہوں۔‬

‫تھے مثل موتی کےدانت میاں‬
‫‪.......‬‬

‫رخسار تھے سرخ انار میاں‬

‫استعارتی زبان' اپنی اصل میں شاعری کا کمال‬
‫ہوتی ہے۔ باطور نمونہ ایک استعارہ ملحظہ ہو۔‬

‫مرشد وہ کرتا ہے عینک عطاء‬

‫ابر رحمت کے عنوانات پانچ طرح کے ہیں۔‬
‫اردو‬
‫پنجابی‬
‫عربی‬
‫فارسی‬
‫مخلوط‬

‫عنوانات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے' کہ منشی‬
‫صاحب مرحوم ان چاروں زبانوں سے قرابت‬

‫رکھتے تھے۔ بعض عنوان پنجابی نما فارسی ہیں۔‬
‫‪..................‬‬

‫اردو کلم‬

‫آغاز‬

‫بسم ا الرحمن الرحیم‬

‫ہوا وحدت کی مخزن سوں اول اسرار بسم ا‬
‫جو ہے ساری کتابوں میں سرے سردار بسم ا‬

‫پیشانی باغ مظہر ہو عجب شان مکان پر‬
‫ہوا احدت کی گلشن سوں اول گلزار بسم ا‬
‫پسارا اک نقطے کا ہوا معمور روتن سوں‬
‫ہوا یک رنگ ہو ہو ہو فمن نقطہ و بسم ا‬
‫کیا جب حکم مردوں کو جو اس نے کم بازنی کا‬
‫اناالحق کی خوشحالی سے اٹھے دم مار بسم ا‬
‫ولی سب پیر اور پیراں ملئک جن اور حوراں‬
‫جھلک محبوب کے خط کا ہوا سنگار بسم ا‬

‫ص‪2‬‬

‫عنوان پنجابی کلم اردو‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫چھڈ ظلم نہ موت وسار میاں‬

‫ہو عاقبت تھیں شرمسار میاں چھڈ ظلم نہ موت‬
‫وسار میاں‬

‫گیا اک دن گورستان بھائی ڈٹھی اک کھوپری انسان‬
‫بھائی دیکھ حالت ہوئی حیران بھائی‬

‫سن حال زبان گفتار میاں‬
‫کبھی ہم بھی تھے انسان بھائی تھے زندہ وچ‬

‫جہان بھائی گودمائی کے نازان بھائی‬
‫تے صد ہا دوست یار میاں‬

‫کبھی والد جان نثار بھائی تھی بھائیونکی بہار‬
‫بھائی کبھی فوجوں میں سردار بھائی‬
‫تھا مجلس میں اعتبار میاں‬

‫کبھی گھوڑوں پہ اسوار بھائی تھے ملتے محرم راز‬
‫بھائی کبھی لکھوں مددگار بھائی‬

‫لکھاں ملنے کا انتظار میاں‬
‫کبھی کرتے ناز وادا بھائی کبھی سوئے پلنگ‬

‫بچہا بھائی گھر والے جان نثار بھائی‬

‫لئی عیش میں عمر گزار میاں‬

‫کبھی محلوں کے سردار بھائی کبھی پھرتے وچہ‬
‫بازار بھائی کبھی مکتب بیٹھے یار بھائی‬

‫تھے باغوں کے سنگار میاں‬

‫کبھی چلتی تھی زبان بھائی دل میں تھا دل میں یہ‬
‫گمان بھائی نہ چھوڑیں گے جہان بھائی‬

‫کیتا آخر موت لچار میاں‬

‫کبھی عجب لباس سنوار بھائی جا بیٹھے وچہ احباب‬
‫بھائی سب کہتے عزت دار بھائی‬

‫کل دنیا سے ہشیار میاں‬
‫تھے مثل موتی کےدانت میاں اور چشم آہو کی‬

‫جان میاں نہ حمد وثنا زبان میاں‬
‫تھے بخشش کے انتظار میاں‬

‫تھی قوت بےبہا بھائی تھا رستم ہیچ نگاہ بھائی‬
‫لی ہم نے موت بھل بھائی‬
‫تھے چلتے پاؤں بھار میاں‬

‫کبھی نوشو تھے برات بھائی تھی دنیا کل جہات‬
‫بھائی آخر موت کئے سب مات بھائی‬

‫ہے لقمھ اجل سنسار میاں‬

‫کبھی نوری چہرہ دیکھ بھائی سب صفتاں کر دے دیکھ‬
‫بھائی ہے خوب چہرے پہ ریکھ بھائی‬

‫رخسار تھے سرخ انار میاں‬

‫کل نعمت جو جہان بھائی تھی آتی دستر خوان‬
‫بھائی نہ محشر دا دیہان بھائی‬
‫تھے سجدہ سے بیزار میاں‬

‫جب ہوئی بند زبان بھائی نہ ہوں نہ ہاں پچہان‬
‫بھائی نہ اکھیں وہ زبان بھائی‬
‫مل خاک گئے خاکسار میاں‬

‫جب آئےاس سنسار بھائی پھر ہوئی سب وچار‬
‫بھائی سب جھوٹا تھا گھر بار بھائی‬
‫کر منت وقت گزار میاں‬

‫اس جگ کا یہ دستور بھائی ہو نیک عمل منظور‬
‫بھائی تن بدیوں کا ہو چور میاں‬
‫نہ منت ہو درکار میاں‬

‫کرم اک نصیحت مان بھائی نہ کر عمل کا مان‬
‫بھائی یہاں ٹوٹ جائے سب تان بھائی‬
‫جا اچھے عمل گزار میاں‬

‫تو دیکھ ہماراحال بھائی ہے ہویا حال بیحال‬
‫بھائی بدعمل کیتا نڈھال بھائی‬
‫تو خوب سمجہا سنسار میاں‬

‫کرے کلمہ بیڑا پار میاں ہو اس سے روح گلزار‬
‫میاں سب کفر ہو جا فرار میاں‬
‫تو دے کچہ نام غفار میاں‬

‫یاد رکھ خدا ہمیش کرم دل غیراں نہ دکھا کرم‬
‫دے تجہ کو رب پناہ کرم‬
‫وہ سب کا بخشنہار میاں‬

‫ہو محشر سے شرمسار میاں چھڈ ظلم نہ موت‬
‫وسار میاں‬
‫ص‪122‬‬

‫غزل‬

‫حمد ربانی کہو زبانی میم کا اعلی پایا ہے‬
‫صفت ثنا محمد سرور دو جگ شان سوایا ہے‬
‫کن فیکون کہا جب رب نے میم کا نور ہویدا ہوا‬
‫میم کی برکت سے رب نے ارض وسما بنایا ہے‬
‫اس میم کو دریتیم کیا کونین کا رہبر یہ ہی بنا‬
‫بوبکر و عمر عثمان و علی پر میم کا پر تو آیا ہے‬
‫برکت میم کی ظاہر ہوئی آئے شیر خدا جگ میں‬
‫طاقت ہمت نے جسکی سب کفر کا سیس نوایا ہے‬
‫محی الدین محبوب سبحانی شہر جیلں کا والی جو‬
‫قادر رب نے قادر کرکے عالی قدر بنایا ہے‬
‫تھی ڈالی یہ گلشن کی بو اس میں تھی سب‬

‫بھیدونکی‬
‫سب میم کی اس میں برکت تھی جس جگ کا شاہ‬

‫بنایا ہے‬
‫مہدی کو بھی میم محمد مول کرکے مہر دیا‬
‫یہ مخفی را ربانہ ہے جو خاصوں میں سمایا ہے‬
‫یہ مردہ دل کیا خبر رکھے کہ زندہ کی ہے شان کیا‬
‫طالب ا والے کو سب طالب دید سمایا ہے‬
‫دل مردہ کو بغل دبا کر بندیخانے بند ہوئے‬
‫سیر چمن کی کرتا ہے جسدل میں رب بسایا ہے‬
‫عقل فکر سب چکر کھائے دنیا اس بھنور میں‬
‫قدرت کا یہ ہے بازیچہ نیکاں رب بچایا ہے‬
‫طاقت بخش کریم کرم کو صفت محمد دل سے ہو‬
‫دنیا دین کا جسکی خاطر رب نے بوٹا لیا ہے‬

‫تعریف مرشد‬

‫پانی سے پانی نیارا بنا‬
‫خودی چھوڑ کر ہم میں سب آ مل‬

‫عقل اور علم تیرے کس کام کا‬
‫نہ بندہ بناں جب تک تلک کا‬

‫جب آدم کو مول نے پیدا کیا‬
‫تو صدقہ کرم اپنے فرما دیا‬

‫خواہش ہو جس چیز کی وہ کہو‬
‫ہے وہ چیز کیا جو یہاں پر نہ ہو‬

‫تو خواہش کو اپنی ذرا کر ادا‬
‫کروں بخشش عالی میں تیرا خدا‬

‫ہوا سن کے آدم یہ دل میں حیران‬
‫لگا سوچنے پھر نہ چلے زبان‬

‫تو آدم نے جبریل سے یہ کہا‬
‫کیا مانگوں مول سے مجہکو بتا‬
‫تو فرمایا جبریل نے یہ کہ عقل‬
‫یہ ساری ہے بھیدونکی کنجی اصل‬
‫کری عقل مول نے اس دم عطا‬
‫وسیلہ ہوا جب کہ جبریل آ‬
‫وابتغوا الیہ الوسیلتہ قرآن میں‬
‫وصیلہ کی حاجت ہے ہر آن میں‬
‫مرشد کی صورت تو حقی ہے جان‬
‫کفر توڑ کر وہ ملوے رحمان‬
‫مرشد ہی کنجی ہے اسرار کی‬
‫طالب کے دل کی خبر جس نے لی‬

‫جو مرشد ہے کامل وہ حق کا ہے نور‬

‫دل کے اندھیرے کو کرتا ہے دور‬
‫مرشد وہ کرتا ہے عینک عطاء‬
‫آنکھوں سے مول نہیں ہوتا جدا‬
‫وہی نظر آتا ہے چاروں طرف‬
‫مرشد سے ہووے یہہ حاصل حرف‬
‫مرشد پہنچاتا ہے عرش بریں‬

‫جو ہیں طالب مول اہل یقین‬
‫مرشد دکھاتا ہے چودہ طبق‬
‫مرشد کرے صاف روح کی اٹک‬
‫مول ارض و فلک میں سماتا نہیں‬
‫مگر دل سے طالب کے جاتا نہیں‬
‫یہ طالب کا چھوٹا سا جو ہے وجود‬
‫ہے کل کائنات اس میں ہر دم موجود‬
‫رب کی سناتا ہے مرشد ندا‬
‫سنا کر تو طالب یہ دل سے سدا‬
‫خیالت باطل کو جڑ سے اکھاڑ‬
‫کرے وہ منور قلب کی بہار‬
‫دکھا دیتا ہے اصل رب کا نشان‬
‫تو طالب پھر ہوتا ہے سیدھا روان‬
‫نفس مار کر پھر وہ زندہ کرے‬
‫ہو زندہ نہ عادت درندہ کرے‬

‫مرشد کے کہنے کی تکلیف جو‬
‫جڑا اس کی دیدار ا کا ہو‬

‫تو فرمان مرشد کو دل سےاٹھا‬
‫یہ فرمان کر دے گا تم کو جل‬
‫مرشد کے کہنے پہ جو چل گئے‬
‫دو جگ کے دکھ ان کے سب کٹ گئے‬
‫نہ مرشد کی مانی جنہوں نے کبھی‬
‫پڑے غضب میں ایکدن وہ سبھی‬
‫کرے صقلی گر کی طرح پیر صقل‬
‫برسوں کی منزل کرے پل میں حل‬

‫کامل دکھاتا ہے ہر جا خدا‬
‫نہ ہو حق سے طالب کبھی پھر جدا‬

‫اندھے کو اندھا اگر مل گیا‬
‫تو اندھے سے اندھے نے پھر کیا لیا‬

‫مول نہ دیکھا تو رول پڑا‬
‫رولے میں دونوں کا دل ہی جل‬
‫کرم گر ہو خواہش خضر سنگ کی‬
‫نصیحت وہ رکھ یاد مرشد جو کی‬

‫ص‪ 291‬تا ‪293‬‬

‫نکتہ‬

‫اسم ا جسم ا ا حاضر جان لے‬
‫بات ا ذات ا ذات حاضر مان لے‬
‫معنی ا ا حاضر کر یقین اور مان لے‬
‫گر نظر آتا نہیں تو دیکھتا ہی جان لے‬
‫کنہ مول مت نکالو مت کرو یہ جستجو‬
‫یہ عقل تجھکو نہ بخشی دیکھ لے ا کو تو‬
‫دان دینا نام لینا یہ وصل کا جام ہے‬
‫جو ملے مول سے نعمت کرم سب انعام ہے‬

‫ص‪274‬‬

‫ا والے کو فقیری دو قدم‬

‫ہیں فقیری کے قدم دراصل دو‬
‫خوف اور امید بن ا کا ہو‬
‫غیر عورت اور دولت کو نہ چھو‬
‫یہ قدم پہل حقیقی جان تو‬
‫دوزخ اور جنت کو دل سے دے اٹھا‬
‫قدم طالب کا کرم یہ دوسرا‬

‫ص‪375‬‬

‫عنوانات‬

‫نوٹ‬
‫ایک ہی عنوان' جو ایک سے زیادہ مرتبہ آئے‬

‫ہیں' انہیں صرف ایک بار درج کیا گیا ہے۔‬

‫عاجزی جناب باری تعالی ص‪2‬‬
‫در صفت رسول اکرم صلی ا علیہ وسلم ص‪2‬‬

‫در بیان ذکر ابلیس ص‪3‬‬
‫در بیان حضرت آدم عیلہ السلم ص‪4‬‬
‫در مناقبت چہار یار رسول مقبول رسول صلی ا‬

‫علیہ وسلم ص‪4‬‬
‫در صفت جناب حضرت امام حسن حسین رحمتہ ا‬

‫علیہ ص‪5‬‬
‫در صفت روح ص‪6‬‬
‫دربیان طلب اشیائے دنیا ص‪7‬‬
‫یالیھا الرسول باغ ما انزل عیک ص‪7‬‬

‫مناقب پیران پیر رض ص‪8‬‬
‫شکریہ ماں باپ‬

‫الجنتہ تحت اقدام امھاتکم ص‪9‬‬
‫تعریف حضرت رہنما یعنی پیشوا صاحب ص‪10‬‬

‫دربیان بھید مولی ص‪11‬‬
‫در بیان دعاء ص‪11‬‬

‫در بیان نمودن و برائے شامت نفس ص‪12‬‬
‫در بیان علم ص‪13‬‬

‫در بیان شریعت۔ طریقت۔ حقیقت۔ معرفت ص‪14‬‬
‫کافی ‪15‬‬

‫در بیان علم حقیقت ص‪16‬‬
‫مقابلہ حکمت ص‪17‬‬

‫در بیان معراج شریف ص‪18‬‬
‫در بیان چالکی نفس ص‪20‬‬

‫در بیان حرص ص‪22‬‬
‫در بیان ناشکری ص‪22‬‬
‫در بیان درجہ اخلق ص‪23‬‬
‫در بیان صفت ڈیرہ دار ص‪24‬‬

‫صفت فقر ص‪25‬‬
‫در بیان تعظیم قبرستان و طریقہ ختم ص‪26‬‬

‫در بیان بعد مرگ ص ‪27‬‬

‫در بیان دوزخ ص‪28‬‬
‫در بیان عشق ص‪29‬‬
‫در بیان شیر فروش ص‪31‬‬
‫عرش شیر فروش ص‪31‬‬
‫جواب فقیر ص‪32‬‬
‫حال شیر فروش ص ‪32‬‬
‫دوبارہ فقیر کا دوکان پر آنا ص‪32‬‬
‫ہفت اقسام نفس ص‪33‬‬
‫ہر چہ باشم دست ما در درست تو ص‪36‬‬
‫خیالت تصوف ص ‪38‬‬
‫در بیان نقش فروشاں‬
‫ول تشترو بایتی ثمنا قلیل ص‪41‬‬
‫در بیان علم نجوم ص ‪42‬‬

‫علم کیمیا ص‪43‬‬
‫جھوٹی ہاں سے ہاں ملنی ص‪46‬‬

‫انصاف منصف ص‪48‬‬
‫دردمند فقیر ص‪49‬‬
‫صحبت مرداں ترا صالح کند ص‪51‬‬
‫نیکی دی بریائی ص‪53‬‬
‫کرت گھن یعنی احسان فراموش ص‪53‬‬
‫قدرتی انصاف ص‪56‬‬

‫نیک دے نیک خیال ص‪58‬‬
‫پنج بنا اسلم ص‪60‬‬
‫حکایت ص‪61‬‬

‫دنیا کا صابر بادشاہ ص‪64‬‬
‫نصیحت راہبر ص‪66‬‬
‫خواب دنیا ص‪68‬‬

‫روح کو فنا نہیں بت کو بقا نہیں ص‪69‬‬
‫ہدایت نامہ مرداں ص‪70‬‬

‫کرامت شاہ عبد القادر جیلنی ص‪73‬‬
‫مسلہ نکاح ص‪79‬‬

‫وچہ وراثت چوتھا حصہ بیٹیاں دے پڑپائیں ص‪84‬‬
‫باہجہوں فضل نہینچھٹکارائی ص‪86‬‬
‫دوبارہ گور ص‪92‬‬
‫مینوں رکھ لے اجدی رات وے ‪93‬‬
‫مینوں کالی آ گئی رات وے ص‪93‬‬
‫میری نوری ہو گئی رات وے ص‪93‬‬
‫میتے فضل کیتا سو آپ وے ص ‪94‬‬
‫ھدی اللمتقین الذین یومنون ص‪96‬‬
‫ایمان ہے تو جہان ہے ص ‪98‬‬

‫کرامت میراں محی الدین رحمتہ علیہ ص‪99‬‬
‫صفت دولت ص‪101‬‬

‫بیان عشق مجازی ص‪103‬‬
‫بیان عشق حقیقی ص‪110‬‬
‫نتیجہ حب صادق ا جل شانہ‪112‬‬

‫اقرار باللسان ص‪115‬‬
‫چھڈ ظلم نہ موت وسار میاں ص‪122‬‬
‫ایہہ مال مولی دا سا رائی ص‪123‬‬

‫اندزہ عمر ص‪124‬‬
‫دربیان عشق شوق سلطانی ص‪124‬‬

‫اشرف الخلوقات انسان ص‪126‬‬
‫ان النسان کان جھول ص‪127‬‬
‫دربیان الہام مہربان رحمان ص‪129‬‬
‫صفت اوصاف نیک مرداں ص‪132‬‬

‫جواب فقیر صاحب ص‪133‬‬
‫جواب بادشاہ ص‪133‬‬

‫دعا کرنا فقیر صاحب ص‪133‬‬
‫فرمان فقیر صاحب ص‪133‬‬
‫صفت فقیر در زبان بادشاہ ص‪134‬‬

‫جواب فقیر ص‪134‬‬
‫دربیان بخوف بےغیرت ص‪137‬‬

‫سوال بادشاہ ص‪138‬‬
‫جواب شاہزادہ ص‪138‬‬

‫داستان شاہزادہ ص‪139‬‬
‫مقابلہ امر ربی و نفس امارہ ص‪141‬‬

‫تنبیہ نفس ص‪142‬‬
‫نماز پنچگانہ ص‪144‬‬
‫حکایت حضرت بایزید بسطانی ص‪145‬‬
‫دربیان طلب عقل آدم علیہ السلم ص‪146‬‬

‫کافی ص‪146‬‬
‫قاضی اور فقیر کی دربار نبی میں حاضری ص‬

‫‪149‬‬
‫حکمت الہی ص‪159‬‬

‫دوسرا حصہ‬

‫معجزہ حضرت عیسی علیہ السلم ص‪161‬‬
‫اصلی طریقہ دعا بدرگاہ باری تعالی ص‪163‬‬

‫عاجزی دا پھل ص‪166‬‬
‫حکایت‬

‫واتبعوا الیہ الوسیلتہ ص‪169‬‬
‫رمز حقیقی ص‪171‬‬

‫بسم ا الرحمن الرحیم ص‪174‬‬
‫دعا بدرگاہ احم الراحمین ص‪229‬‬

‫اعظم درجات ص‪230‬‬
‫بندہ بننے کا طریقہ ص ‪238‬‬
‫دنیا دے جھگڑے ص‪239‬‬

‫عاجز دی پکار ص‪243‬‬
‫قدرت کے پسارے ص‪244‬‬
‫ل تتحرک ذرتہ ال باذن ا ص‪245‬‬
‫سو ہتھ رسہ سرے تے گنڈھ ص‪247‬‬
‫فقیر کے اوصاف ص‪249‬‬
‫بیمار بادشاہ کی حکایت ص‪250‬‬
‫عرض حکیم کی باشاہ کے حضور میں گزارنی ص‬

‫‪250‬‬
‫حکیم کی دوا کا بادشاہ کو فائدہ نہ کرنا اور بادشاہ‬

‫کا حکیم کو سولی کی دھمکی دینا ص‪251‬‬
‫حکیم کا وطن چھوڑنا جنگل میں فقیر کا ملنا حکیم‬

‫کا عاجزی کرنا اور فقیر تدبیر بتانا ص‪251‬‬
‫فرمان فقیر باحکیم ص‪252‬‬

‫حکیم کا وطن جا کر حاضر دربار ہونا اور شہر‬
‫کے فقیروں کی دعوت کرنا ص‪252‬‬
‫فقیر کو دوبارہ دھمکی دینا ص‪252‬‬

‫حکیم کا پھر وطن چھوڑ کر فقیر کے پاس جانا‬
‫اور فقیر سے جوٹھا ٹکڑا لے کر آنا ص‪252‬‬

‫فقیر کا جوٹھا ٹکڑا بادشاہ کو کھلنا اور بادشاہ کا‬
‫صحتیاب ہونا ص‪254‬‬

‫آسمان سے گرا کھجور میں پھنسنا ص‪254‬‬
‫امیروں اور وزیروں کا دل ہی دل میں غصہ کھانا‬

‫ص‪255‬‬
‫فقیر کی بادشاہ کے ساتھ ہمکلمی ص‪256‬‬

‫فقیر کی داستان ص‪256‬‬
‫مقولہ شاعر ص‪257‬‬

‫عرض شیطان روز محشر ص‪262‬‬
‫نسخہ برائے گناہ ص‪264‬‬

‫ظاہر ظلم باطن میں صفائی ص‪265‬‬
‫دنیا کیسی دیکھی یار ص‪266‬‬
‫مذہب دی لڑائی ص‪270‬‬
‫حکایت سوداگر ص‪273‬‬

‫چپ کرکے وقت لنگھا میاں ص‪275‬‬
‫عاشق خونپرست ص‪275‬‬

‫سکھ سجدے باہجھ کس پایائی ص‪278‬‬
‫صاحب جو چاہے کر دا ای ص‪279‬‬
‫مول کریم کی کرم نوازی ص‪280‬‬
‫دربیان تکبر و ہنکار ص‪283‬‬
‫سجدے دی برکت ص‪284‬‬

‫عمر دا قصہ ص‪ 286‬ص‬
‫کل شئی یرجع الی اصلہ ص‪288‬‬

‫تعریف مرشد ص‪291‬‬
‫ہر حال میں رب کو یاد رکھ ص‪292‬‬
‫ال ان اولیاء ا ل خوف علیھم ولہم یحزنون ص‬

‫‪294‬‬
‫مفرقات ص‪300‬‬
‫پند سود مند ص‪322‬‬
‫حاکم کی تابعداری ص‪326‬‬
‫شکریہ باری تعالی ص‪327‬‬
‫مقولہ ص‪332‬‬

‫پند ص‪334‬‬
‫احسان الہی ص ‪336‬‬
‫عرض دست بستہ ایاز ص‪338‬‬
‫موت سے پہلے مرنا ص‪350‬‬
‫فرض انسانی ص‪360‬‬

‫مناجات ص‪262‬‬
‫پنج بنا اسلم ص‪373‬‬

‫نکتہ ص‪374‬‬
‫ا والے کو فقیری دو قدم ص‪375‬‬

‫خواب کی قسمیں ص‪375‬‬

‫بر زبان تسبح در دل گاؤ خر ایں چنیں تسبح کے‬
‫درد اثر ص‪377‬‬

‫مسلم کی قیمت ص‪381‬‬
‫توبہ ص‪383‬‬
‫دیگر ص‪386‬‬

‫ا کی یاد سے اطمنان قلب ہو گا ص‪389‬‬
‫در بیان السلم علیکم و رحمتہ ا ص‪391‬‬

‫محبت مائی صاحب ص‪393‬‬
‫اشرف المخلوقات ص‪395‬‬
‫پابندی شریعت ص‪399‬‬

‫کامن ص‪400‬ت‬
‫تعریف شہر قصور ص‪403‬‬

‫حقیقت ص‪408‬‬
‫قطعہ تاریخ کتاب ابر رحمت‬
‫از قلم صداقت رقم جناب منشی محمد علی صاحب‬

‫ارم نوارد قصور‬
‫ص‪414‬‬

‫حواشی‬

‫بھایا ندانت گوشت کھاون حدیثاں نبی بھلیاں نی‬

‫کسی بھائی کی چغلی یا غیبت کرنا اس بھائی کے‬
‫گوشت کھانے کے برابر ہے۔‬
‫ص‪22‬‬

‫ایسے عقل نے مار حیران کیتے جہڑے دادا بی‬
‫پوچھان جانی‬
‫بی بمعنی بیج‬

‫پیدا ہودندا اوپر اسلم بندہ ایہ خاص حدیث فرمان‬
‫سائیں‬

‫کل مولود یولد علی فطرتہ فابواہ یھودایہ‬
‫اریمجسانہ ادینصرایہ شاہ جی کاتب‬
‫ص‪24‬‬

‫ترک دنیا حرام نوں چھڈ دینا نئیں کار نوں چھڈ‬
‫کے جاوناں او‬

‫ترک دنیا۔ دنیا کو چھوڑ کر جنگل میں جا رہنے کا‬
‫نام ترک دنیا نہیں۔ بلکہ دنیا والوں میں رہ کر خدا‬
‫کی منع کی ہوئی باتوں سے بچنے کا نام ترک دنیا‬
‫ہے اور ایسے ہی لوگوں کو تارک الدنیا کہتے‬

‫ہیں۔‬

‫جدوں کجہ نہ رہے تا کجہ بنسی ایہہ ئیں دا لفظ‬
‫گواوناں او‬

‫مثال دانہ کی کہ اپنی ہستی کو مٹا کر خاک میں مل‬
‫جاتا ہے تو پھر اس کی گلزار بنتی ہے۔‬

‫عفیونی یا عباد ا الصالحین نبی پاک دیوچہ دسے‬
‫لفظی تو یہ ہے کہ اے ا کے بندو مجھے معاف‬

‫کر دو۔ اور محاورہ کے یوں معنی ہیں کہ ا‬
‫اپنے بندوں کفیل مجھے معاف کر دے۔ وا اعلم‬

‫ص‪26‬‬

‫لکہہ بریایاں عیباں کولوں ایہہ نماز ہٹاوے‬
‫ان الصلوتہ تنھی عن الفحشاء والمنکر یعنی نماز‬
‫حقیقت میں تمام برے کاموں اور فحش کاموں سے‬

‫بچاتی ہے۔‬

‫اہلس پانمازی تائیں در تھیں دور ہٹاوے‬
‫سستی' کاہلی‬
‫ص‪37‬‬

‫بدعا ماں باپ دی ساڑن اپنا مال‬

‫والدین کی دعائیں اور بدعائیں بعض اوقات عجیب‬
‫ہی قسم کی ہوتی ہیں یہی کہ تیری کمائی کو آگ‬

‫لگے۔‬
‫اس کے دو معنی ہیں‬
‫تیری شادی پر آتشبازی چلے یا تو کیمیاگر ہو‬

‫وغیرہ‬
‫اور بعض وقت یہ کہ بیٹا تیرا لنگر جاری رہے'‬
‫یعنی یہ کہ روئی کی دوکان کھولی جائے۔ اور‬
‫بعض اوقات یہ کہ بیٹا تیرے لکہاں دے لیکھے۔‬
‫مراد یہ کہ تو کسی نہ کسی سکول میں حساب‬
‫سکھانے پر ملزم ہو جائے۔ یا بہت بڑی دوکان یا‬
‫بینک میں اکاؤنٹ کلرک یعنے حساب کرنیوال۔‬
‫تنخواہ خوا بنے۔ دس ہزار ماہوار ہی ہو مگر‬

‫حساب میں لکھ اور کروڑ ضرور ہو‬
‫ص‪44‬‬

‫یا سونے دا روح رکھدے بعضے اپنے پاس‬
‫مراد ہل ہے جس سے ہر اک دہات سونے کی‬

‫طرح سرخ ہو کر سونا معلوم ہوتی ہے۔‬
‫ص‪45‬‬

‫فیر اسمانوں ککڑ بولے صبح صادق دے ویلے‬
‫سبحان الملک القدوس والی گونج پیے وچہ بیلے‬
‫کہتے ہیں صبح صادق کے وقت آسمان پر ایک‬
‫مرغ بولتا ہے جس کی یہ آواز ہوتی ہے ۔ پھر‬

‫زمین کے مرغ بولتے ہیں۔‬
‫ص‪65‬‬

‫جیکر یاد کریں توں مینوں شاہ رگ تھیں میں‬
‫نیڑے‬

‫نحن اقرب الیہ من حبل الورید‬
‫‪..........‬‬

‫میں نے ایک دفعہ عرض کی تھی کہ آپ کے‬
‫پیشوا صاحب کا اسم گرامی کیا تھا۔ لیکن آپ نے‬
‫فرمایا کہ میں فقط ایک ہی ان کا خادم ہوں۔ بتانے‬

‫کے متعلق حضور نے منع فرمایا تھا۔‬
‫عنایت ا خاں‬
‫ص‪66‬‬

‫روز قیامت امت تیری جنت اندر کھڑ ساں‬
‫سرکار مدینہ فخر موجودات سرور انبیا سردار‬
‫انس و جن جناب محمد صلی ا علیہ و آلہ و‬

‫اصحابہ و بارک وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ‬
‫میری امت ضللت اور گمراہی کی طرف نہیں‬
‫جائے گی۔ حدیث مبارک۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ‬
‫ضللتہ اور گمراہی کیا ہے۔ ضللتہ۔ ذلیل رسوا۔‬
‫خوار ہونے کو کہا جاتا ہے۔ اور گمراہی یا گم راہ‬
‫اسے کہتے ہیں جو رستہ بھول جائے۔ اصلی رستہ‬
‫چھوڑ کر جسپر اسے چلنا ضروری ہے کسی‬
‫دوسرے بےمقصد اور لیعنی رستے پر گامزن ہو‬

‫جائے۔‬
‫اب دیکھنا یہ ہے کہ فخر موجودات علیہ تحیتہ‬
‫واتسلیم نے جو رستہ بتایا وہ کونسا ہے۔ صاف‬
‫ظاہر ہے کہ فرمان باری تعالی اور سنت نبی کریم‬
‫صلی ا علیہ وسلم۔ اب چونکہ نبی کریم صلی ا‬
‫علیہ وسلم سوائے حکم باری تعالی ایک کلمہ بھی‬

‫نہیں فرماتے تھے‬
‫۔۔۔قرآنمجید۔۔۔‬

‫اس لئے ا کا فرمان اور آقائے مدینہ کا ارشاد‬
‫ایک ہے۔ مثال کے طور سن لیجیئے من‬

‫یتبعوالرسول فقد اطاع ا یعنی جس نے رسول‬
‫صلی ا علیہ وسلم کی اطاعت کی اسی نے ا کی‬

‫اطاعت بھی کر لی یعنی تاکیدی حکم ہے‬
‫۔۔۔۔۔قرآنمجید ۔۔۔۔۔۔‬

‫اب نبی کریم صلی ا علیہ وسلم کا ارشاد‬
‫ملحظہ فرمائیے۔ الفرق بین العبد المومن والکافر‬
‫الصلوتہ یعنی ایماندار اور کافر کے درمیان صرف‬
‫نماز کا ہی فرق ہے اور نماز کونسی جس کو نبی‬
‫کریم نے پڑھا۔ اصحابہ کرام نے پڑھا جناب حسن‬
‫و حسین رضی ا تعالی عنہم نے پڑھا۔آئمہ کرام‬
‫نے پڑھا۔ اولیائے کرام نے پڑھا بزرگون نے پڑھا‬
‫اور وہ نماز جس کے متعلق باری اسمہ صاف طور‬
‫پر فرما دیا ورکعوا مع الراکعین۔ نہ وہ نماز جس‬
‫کو آجکل کے اولیاءالشیطان نے دل کی نماز ۔۔۔۔‬
‫خود ساختہ۔ بنت بدرا بہانہ بسیار۔۔۔۔ بنا رکھا ہے۔‬
‫اور اسی نماز کے متعلق آقائے عرب و عجم کا‬

‫دوسرا فرمان سن لیجیئے من ترک الصوتہ‬
‫متعمدافقد کفر یعنی جان بوجھ کر نماز ترک کر دیا‬

‫وقت کو ضائع کر دیا رکوع کرنے سے سجدہ‬
‫کرنے سے گریز کر ڈالی بس وہ کافر ہو گیا۔‬

‫اب ذرا غور فرمائے کہ جو آدمی یہ خدا کی‬
‫فرمائی ہوئی اور محمد کریم علیہ الصلوتہ والسلم‬

‫کی بتلئی ہوئی نماز نہیں پڑھے گا وہ آپ کی امت‬
‫سے ہو سکتا ہے۔ اور جو آدمی فرمان مصطفے‬
‫صلی ا علیہ وسلم سے عمدا کوتاہی کرے گا یا‬
‫احکام باری تعالی کو پس پشت ڈال دے گا وہ امت‬
‫محمدیہ علی صاحبہاد اتسلیم سے ہو جائے گا‬
‫صاف ظاہر ہے کہ فرمانبرداری کرنے سے امتی‬

‫ہو سکتا ہے ورنہ ہرگز نہیں۔‬

‫تو جان لو کہ جس مرد نے یا جس عورت نے نبی‬
‫کی فرمابرداری کا بیڑا اٹھا لیا وہی امتی ہوا اور‬

‫اسی کے متعلق روز محشر کو شفا ہو گی۔‬
‫دوسرے کی نہیں۔ میاں جب تم نے نبی کا کہا نہ‬

‫مانا تو نبی صلعم کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ‬
‫تمہاری سفارش کریں اور تمہارے غم میں آنسو‬
‫بہائیں اور پیشانی مبارکہ کیچڑ میں ترفرمائیں۔ اگر‬
‫تم نبی کی امت بننا چاہتے ہو تو نبی کریم صلعم‬
‫کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کر دو۔ پس‬

‫جنت آپ کی اور آپ جنت کے۔‬
‫ص‪78‬‬

‫چوتھا حصہ بیٹیاں تائیں صاحب نے فرمایا‬

‫باخدا عالم ربانی شروع سے لے کر آجتک اس‬
‫مسلے پر زور دے رہے ہیں۔ کہ جس طرح مرد‬
‫کی اپنی کمائی اورسابقہ ورثہ اس کے لڑکوں کا‬
‫حق ہے اسی طرح اس کی جائیداد میں لڑکیوں کا‬
‫حق بھی شامل ہے۔ گو مانا کہ لڑکی یعنی عورتیں‬
‫کمزور مخلوق اور ناقص العقل ہوتی ہے لیکن یہ‬
‫بھی یاد ہے کہ کمزور اور ناقص عضو کو انسان‬
‫اپنے بدن سے کبھی الگ نہیں کرتا۔ اور جس طرح‬
‫انسان کی غذا اور خوراک سے دوسرے طاقتور‬
‫اعضا کو خون یا طاقت پہنچتی ہے اسی طرح اس‬
‫کمزور عضو کو بھی اس خون یا طاقت سے‬
‫ضروری حصہ ملتا ہے۔ خواہے طاقتور سے کم‬

‫حصہ ہی کیوں نہ ملے۔۔۔۔۔ یہ خدائی قانون‬
‫ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بالکل اسی طرح باپ کی کمائی اس کی‬
‫اولد کے لئے طاقت اور خون ہے اور اس میں‬
‫بالکل اسی طرح صنف نازک یعنی لڑکیاں بھی اسی‬
‫طرح حقدار ہیں جس طرح کے لڑکے۔ ا تعالی‬
‫پناہ دے آج کل ایک طبقہ نے شاید لڑکیوں سے ڈر‬
‫کر قانون بنوا لیا ہے کہ ہم شریعت کو نہیں مانتے‬
‫یعنی اس کے پابند نہیں بلکہ ہم تو محض رواج‬
‫کے پابند ہیں۔۔۔۔۔ لو اور سنو! لڑکیوں کو حصہ‬

‫دینے کی خاطر شریعت بھی چھوڑ دی ۔۔۔۔۔۔ معلوم‬
‫نہیں ان کا حشر میں کیا ٹکانا ہو گا۔‬

‫بعض لوگ شریعت کو مانتے ہوئے بھی لڑکیوں‬
‫کو حصہ دینے سے گریز کرتے ہیں اور عالموں‬
‫کی زبان سے بچنے کی خاطر یہ بہانہ بنا لیتے‬
‫ہیں کہ ہم نے اس کے حصہ سے اسے زیور بنا‬
‫دیا بھینس یا گائے خرید دی کپڑے بنا دئے مکان‬
‫بنا دیا اور جہیز میں دے دیا۔ میاں عقل کے کان‬
‫کھولو لڑکی کے حصہ سے اس کیلئے زیور بنانا‬
‫یا کپڑے وغیرہ بنانا یہ کس نے سکھایا۔۔۔۔۔ شیطان‬
‫کا سبق دیا ہوا معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اگر تم نے اپنی‬
‫جائیداد سے لڑکی کا حصہ نکال کر اس کی شادی‬
‫میں لگا دیا تو تم نے اپنی طرف سے کیا کیا۔ یہ‬
‫کام تو لڑکی خود بھی کر سکتی تھی کہ اپنا حصہ‬
‫لے کر اپنی شادی خود کر لے۔ یاد رکھو یہ جہیز‬
‫وغیرہ کا دیا ہوا مال اس کے حصہ کا مال ہرگز‬
‫شمار نہیں ہو سکتا یہ بوجھ ابھی تک تمہاری‬
‫گردن پر ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ شادی کر چکنے‬
‫کے بعد یا اس سے پہلے لڑکی کا حصہ نکال کر‬
‫اس کے حوالے کر دو۔ پھر خالص اپنے مال اور‬

‫جائیداد سے لڑکی کو رخصت کرو۔ اگر حقیقت کو‬
‫دیکھا جائے تو شادی سے پہلے لڑکی کا حق جدا‬
‫کر دینا چاہئے۔ کیونکہ ایسا نہ کرنے سے لڑکی کا‬

‫اپنا حصہ بھی اس کے معاملت میں صرف ہو‬
‫جائیگا اور تم پورا حق نہ دے سکو گے جس سے‬
‫آپ کی گردن پر ایک بار عظیم رہے گا۔ فاعنبرو ایا‬

‫اولی الابصار‬
‫ص‪85‬‬

‫بعد سلموں اوسنوں میر دئیں پیغام‬
‫‪............‬‬

‫میرا شوہ دریا دے تائیں جا سلم سناؤ‬
‫‪............‬‬

‫جو لوگ خدا کے حکموں سے گردن نہیں پھرتے‬
‫خدا انکا نگہبان رہتا ہے۔ اور ان کی زبان سے‬

‫نکلی ہوئی بات کو ضرور پورا کرتا ہے۔‬
‫ص‪97‬‬

‫صفت دولت‬
‫اے زر تو خدا نہیں و لیکن بخدا ستار وعیوبی‬

‫و قاضی الحاجاتی‬

‫یعنی اے زر ۔۔۔۔دولت ۔۔۔۔۔ تو خدا نہیں لیکن خدا کی‬
‫قسم تو وہ چیز ہے کہ میرے عیبوں پر پر ڈالنے‬
‫والی ہے اور میری ضروریات اور مشکلت میں‬

‫تو ہی کام آتی ہے۔‬

‫کہتے ہیں حیضرت فاروق رضی ا تعالی عنہ‬
‫فرمایا کرتے تھے۔ کہ یہ دولت انسان کو یا تو‬
‫بالکل خدا کے نزدیک کر دیتی ہے یا خدا سے بہت‬
‫دور لے جاتی ہے۔ یعنی اگر دولت کو جس طرح کہ‬
‫باری تعالی کا حکم ہے کہ لن تنالو البرحتی تنفقوا‬
‫جو کجہ تمہارے پاس ہے ا کی راہ میں خرچ‬
‫کرو اور غریبوں۔ مسکینوں۔ بیکسوں۔ لوارثوں پر‬
‫۔۔۔۔۔ دولت سے ۔۔۔۔۔۔ احسان کرو تو تم ا کے‬

‫نزدیک ہو جاؤ گے۔‬
‫ان ا یحب المحسنین ا تعالی احسان کرنے‬
‫والوں سے محبت کرتا ہے۔ اور اگر تم نے اس‬
‫دولت کو ا کی مرضی کے برعکس کیا اور اس‬
‫کو فضول خرچیوں میں اڑا ڈال تو ان ا ل یحب‬
‫المسرفین فضول خرچ کرنے والوں سے ا تعالی‬
‫ہرگز محبت نہیں کرتا تو معلوم ہوا کہ واقعی یا تو‬
‫دولت ایک سیڑھی ہے کہ اس کے ذریعے آدمی‬

‫خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ اور یا یہ ایک آگ ہے کہ‬
‫اپنی کشش سے اپنے مقام دوزخ تک لے جاتی‬

‫ہے۔ فاعتبروایا اولی البصار‬
‫ص‪101‬‬

‫کہے چار دیہاڑے ایہہ موج والے اگا ویکھیا نہیں‬
‫کسے جا میاں‬

‫ایسے خیالت والے لوگوں سے ا تعالی پناہ دے۔‬
‫یہ لوگ دراصل خدا کے احکام کو جھٹلنے والے‬
‫رسول کے فرمان سے روگردانی کرنے والے قرآن‬
‫اور حدیث کو نہ ماننے والے اور بالکل درست‬
‫معنوں میں اخوان الشیاطین ۔۔۔ شیطان کےبھائی‬

‫ہوتے ہیں۔‬
‫ہم ا کے بندے ہیں نبی کریم صلی ا علیہ وسلم‬
‫کی امت ہیں۔ ا تعالی نے محض ہماری بھل اور‬
‫رہنمائی کے لیے قرآن مجید کو اتارا اور فرمایا‬
‫ذالک الکتاب ل ریب فیہ یعنی اس کتاب میں کوئی‬

‫ایسی چیز نہیں جس پر شک کیا جائے والذین‬
‫یومنوں باالغیب ایماندار ہیں جنہوں نے میری‬
‫بتائی ہوئی باتوں کو بغیر دیکھے اور سوچے‬
‫تسلیم کر لیا۔اولئک ھم المفلحون وہی لوگ ہیں جن‬

‫کو ہم فلح و بہبودی اور نجات دے دیں گے۔‬
‫ا باری عزاسمہ کا فرمان ہے فاتقوالنار التی‬
‫وقودھا الناس والحجارتہ اعدت للکفرین ڈرو اس‬
‫دوزخ کی آگ سے جس میں آدمی اور پتھر ڈالے‬
‫جائیں گے اور یہ کافروں کے لئے تیار کی گئی‬
‫ہے۔ بعض آدمی جنھوں نے ا کے اور فرمان‬
‫رسول سے منہ موڑا۔ پتھر وہ جن کی لوگوں نے‬
‫پوجا کی۔ یہی کافر کا لفظ اس حدیث میں موجود‬
‫ہے من ترک الصوتہ متعمدا فقد کفر یعنی جس‬
‫جان بوجھ کر نماز ترک ڈالی وہ کافر ہو گیا۔۔۔۔۔اور‬
‫کافر کا مقام دوزخ ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور رسول کا فرمان‬
‫بھی خدا کا فرمان ہے۔ پہلے کہیں لکھا جا چکا‬
‫ہے کہ من یتبعوالرسول فقد اطاع ا۔ یعنی جس کو‬
‫ا کی تابعداری کرنی منظور ہے وہ پہلے رسول‬
‫ا صلی ا علیہ وسلم کی تابعداری کرے۔ کیا نبی‬
‫نے معراج کے دن دوزخ و بہشت نہیں دیکھا اور‬
‫ہم کو اس کی جزا و سزا سے آگاہ نہیں فرمایا۔‬
‫پس جان اس قسم کے کلمے کہنے والے لوگ کافر‬
‫اور دوزخ کا بالن ہیں۔ ان سے بچو یا انہیں بچاؤ۔‬

‫ص‪104‬۔‬


Click to View FlipBook Version