ابر رحمت
فیض کرم
من تصنیف
منشی کرم بخش صاحب قادری رحمتہ ا علیہ
:ملنے کاپتہ
مہر علم دین۔ محمد شفیع
کتب فروش نیا بازار۔
قصور پنجاب
بار اول
مخدومی و مرشدی حضرت سید غلم حضور رح
کے ذخیرہء کتب سے' منشی کرم بخش مرحوم کا
شعری مجموعہ' ۔۔۔۔ ابر رحمت۔۔۔۔ مل ہے۔ اس کی
خصوصیت یہ ہے' کہ یہ اپنے وقت کے صوفی کا
کلم ہے۔ اس کا ابتدائیہ ایسے حضرت کا تحریر
کردہ ہے' جو پنجابی یا اردو کے اہل قلم نہیں ہیں۔
اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ منشی کرم بخش مرحوم
رح کے متعلق بہت سی اور ضروری' معلومات
میسر آئی ہیں۔
بقول محمد نواز خاں' ریٹائر سب انسپکٹر پولیس'
حیدر آباد دکن اسسٹنٹ' ساکن قصور' کوٹ پیراں
ضلع لہور' منشی کرم بخش مرحوم رح نے یکم
مارچ 1934بروز جمعرات کو انتقال کیا' بوقت
انتقال ان کی عمر' 64سال تھی .اس لحاظ سے
ان کا سن پیدائش 1870ٹھہرتا ہے۔ ان کی
اولدوں میں چھے بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔
خوشی محمد ولد نور دین' پتوانوالہ' قصور
کےمطابق ان کے بیٹوں کے نام
خوشی محمد' محمد بوٹا' علی محمد' عاشق محمد'
صادق محمد اور غلم محمد تھے۔
منشی کرم بخش مرحوم رح کوٹ پکا قلعہ کے
رہائشی تھے۔ بقول محمد بخش بساطی فروش
قصور منشی کرم بخش' نور دین پتوانوالہ کے
بھٹہ پر منشی تھے۔ حاجی محمد امین ہیڈ کانسٹیبل
ریلوے اسٹیشن دھوری کی تحریر کے مطابق'
چالیس پچاس روپیہ مشاہرہ پر سارے کنبہ کی
پرورش فرماتے رہے۔ یہ بھی کہ ابر رحمت' ان
کی اٹھارہ برس کی محنت کا ثمرہ ہے۔ حاجی محمد
امین ہیڈ کانسٹیبل ریلوے اسٹیشن دھوری کی یہ
تحریر' 1940- 9-14کی ہے۔ گویا یہ کلم
1916اور 1934تک کا ہے۔ بے شک ان کے
بچے لئق تحسین ہیں' جو انہوں نے منشی کرم
بخش مرحوم رح کے ذخیرہ کو جمع کرنے کا پربند
کیا۔
ا انہیں جزا دے۔
ابتدائی کلمات تحریر کرنے والوں نے' منشی کرم
بخش مرحوم رح کے اچھے کردار رکھنے کی
شہادت دی ہے۔ ان شہادتوں اور کلم کے مطالعہ
سے' یہ امر پوشیدہ نہیں رہتا' کہ مرحوم کھرے
انسان اور مزاجا طبعا صوفی تھے۔ وہ کن کے
مرید تھے اس ذیل میں عنایت ا خاں کا کہنا ہے۔
میں نے ایک دفعہ عرض کی تھی کہ آپ کے
پیشوا صاحب کا اسم گرامی کیا تھا۔ لیکن آپ نے
فرمایا کہ میں فقط ایک ہی ان کا خادم ہوں۔ بتانے
کے متعلق حضور نے منع فرمایا تھا۔
ابر رحمت دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہل حصہ
صفحہ 160تک ہے۔ صفحہ 160حاشیہ میں درج
ہے۔
گیلنی پریس ہسپتال روڑ لہور میں باہتمام منشی
کرم بخش پرنٹر و پبلشر
چھپکر
قصور شہر سے شائع ہوئی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہل حصہ صفحہ160
تک کی کتابت اور اشاعت وغیرہ کا بندوبست
منشی کرم بخش مرحوم نے خود کیا۔ باقی کا اہتمام
ان کی اولد نے کیا۔ گویا یہ کام 1934تک ہو
چکا تھا۔
...........
ابتدائیہ کی تحریروں کے کچھ اقتباس پیش ہیں۔
آپ اکثر پچیدہ مسائل پر بحث کرتے اور سیاسی
معاملت پر تبادلہءخیالت کرتے رہتے۔ ہمیشہ
خیالت کا نتیجہ خدا کے سپرد کر دیتے کہ انسان
کو قدرت کے قانون میں دخل نہیں۔ تاہم فعل مختار
کے پورے پورے حامی تھے۔ جہاں تک میرے
علم میں ہے۔ مالکان کو ملزمت کے سلسلہ میں
کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں دیا۔
بندہ فدا حسین سچدیو
جنرل سیکرٹری
انجمن انصار المسلمین
قصور
ص :ب
اٹھارہ برس کی محنت شاقہ کے بعد چمنستان
نبوت سے گلہائے عقیدت چن چن کر ایک بیش بہا
گلدستہ پنجابی اشعار میں ترتیب دے کر ۔۔۔۔۔ ابر
رحمت ۔۔۔۔۔ نام رکھا۔لیکن اتنی فرصت نہ ملی۔ کہ
جیتے جی ۔۔۔ ابر رحمت ۔۔۔ اشاعت پذیر ہوکر باران
رحمت بن سکے۔
ساری عمر ایک بھٹہ پر منشی رہے۔ چالیس
پچاس روپیہ مشاہرہ پر سارے کنبہ کی پرورش
فرماتے رہے۔
حاجی محمد امین
ہیڈ کانسٹیبل ریلوے اسٹیشن
دھوری
14-9 1940
ص :ج ۔ د
انتقال یکم مارچ 1934بروز جمعرات عمر بوقت
وصال 64سال
اولدیں
چھے لڑکے ایک لڑکی
بندہ محمد نواز خاں
ریٹائر سب انسپکٹر پولیس حیدر آباد دکن اسسٹنٹ
ساکن قصور
کوٹ پیراں ضلع لہور
گویا
1870
تا
1934
ص2:
لڑکوں کے نام
خوشی محمد' محمد بوٹا' علی محمد' عاشق محمد'
صادق محمد' غلم محمد
نے ورقا ورقا اکٹھا کرکے کتابی صورت میں تیار
کیا۔
تابعدار خوشی محمد ولد نور دین پتوانوالہ۔ قصور
ص3 :
منشی کرم بخش نور دین پتوانوالہ کے بھٹہ پر
منشی تھے۔
محمد بخش بساطی فروش
قصور
حکیم پیر محمد قصور نواں بازار باشندہ جالندھری
شعبان 1356ھج 21
مولوی امام دین ساکن قصور نواں بازار بقلم خود
نے ابتدائی کلمات تحریر کیے ہیں۔
..........
ابر رحمت
فیض کرم
من تصنیف
منشی کرم بخش صاحب قادری رحمتہ ا علیہ
ملنے کاپتہ :مہر علم دین۔ محمد شفیع کتب فروش
نیا بازار۔ قصور پنجاب
بار اول
در مطبع گیلنی الیکٹرک پریس ہسپال لہور باہتمام
بابو ضمیر احمد خاں پرنٹر زیور طبع یافت
پہل حصہ صفحہ 160تک ہے۔ صفحہ 160حاشیہ
میں درج ہے۔
گیلنی پریس ہسپتال روڑ لہور میں باہتمام منشی
کرم بخش پرنٹر و پبلشر چھپکر قصور شہر سے
شائع ہوئی۔
کتاب کا دوسرا حصہ ص 160سے شروع ہوتا
ہے۔
پیشانی پر دوسرا حصہ درج ہے
..........
اس شعری مجموعے کے حواشی' اس کتاب کے
کاتب نے تحریر کیے ہیں' جس سے یہ کھلتا ہے'
کہ اگلے وقتوں کے کابت' محض مکھی مارنے
والے یا نقل بامطابق اصل نقل کندگان ہی نہ تھے'
عالم فاضل بھی ہوا کرتے تھے۔ گویا خوش
نویسی' تعلیم کا حصہ تھی۔ مجھے ٹھیک سے یاد
ہے' کہ خوش خطی کے الگ سے نمبر مل کرتے
تھے۔
مجھے یاد پڑتا ہے' کہ پرانی منڈی کے سامنے
والے بازار میں' تھوڑا سا آگے جا کر' پھولوں
والے چوک سے کافی پیچھے دائیں جانب' ایک
دوکان کی بالئی منزل پر' محمد حسین شاہ مشتاق
المعروف شاہ جی بچوں کو پڑھاتے تھے' ساتھ ہی
رسالہ۔۔۔۔۔ کیفر کردار۔۔۔۔۔۔۔ نکال کرتے تھے۔ دبلے
پتلے' قد کے پورے پورے تھے۔ عمر رسیدہ
تھے۔ ان کا گھر کوٹ حلیم خاں میں تھا۔ اب چوں
کہ نقشے ہی بدل گیے ہیں' لہذا پہچان نہ پاؤں گا۔
ممکن ہے' ان کے پوتے یا ان اولد آج بھی وہاں
موجود ہو۔
حواشی میں معنی وغیرہ درج نہیں کیے گیے' بل
کہ علمی مباحث کیے گیے ہیں۔ یہ حواشی' پون
صدی سے زیادہ عمر رکھتے ہیں۔ گویا یہ پون
صدی سے پہلے کی اردو ہے' اس لیے اس کا
مطالعہ دل چسپی سے خالی نہیں۔ ان کے مطالعہ
سے کم از کم' نو امور سامنے آتے ہیں۔
1-
رموز میں صرف تین یعنی سکتہ' سوالیہ اور
فجائیہ استعمال میں آتے تھے۔ اور کے بعد سکتہ
کا استعمال رواج میں تھا۔ رموز کے رواج میں نہ
ہونے کی وجہ سے' تحریر میں بےاعتدالی تھی۔
یہ چیز میں نے بہت ساری مکتوبی اورقلمی
تحریروں میں دیکھی ہے۔
لفظ مل کر لکھے گیے ہیں۔ 2-
الپ پران کا استعمال ترجیع میں تھا 3-
کچھ مکتوبی صورتیں بھی الگ سے تھیں۔ 4-
مثل خواہ کی جگہ خواہے لکھتے تھے۔ اسی طرح
کھانا کو کھانہ' مقام کی جگہ مکام' کہے کی جگہ
کھے وغیرہ لکھنا مستعمل تھا۔
بہت سی جگہوں پر تخاطبہ انداز اختیار کرتے 5-
ہیں۔
حواشی میں لکھی گئی اس تحریر پر ناصحانہ 6--
چلن غالب ہے۔ مولویوں کو نشانہ بناتے بناتے
خود مولوی بن جاتے ہیں۔
اس عہد کے مولوی پیر صاحبان کی حالت زار 7-
سامنے آ جاتی ہے۔
بہت سے سماجی رویے اور اطوار کھل گیے 8-
ہیں۔
کچھ تاریخی حقائق بھی کھلتے ہیں۔ 9-
مجموعی طور پر ان حواشی کا مطالعہ' لسانیاتی
اعتبار سے خالی از دل چسپی نہیں اور اس تحریر
کالسانیاتی تجزیہ' بےشک ادبی خدمت کے مترادف
ہو گا۔
...........
حافظ شیرانی اور کئی ایک دوسرے محقیقن کا
خیال رہا ہے' کہ اردو کا ماخذ پنجابی ہے۔ یہ
نظریہ درست نہیں۔ پنجابی ایک علقائی زبان تھی
اور ہے۔ اس کے برعکس اردو برصغیر کی زبان
ہونے کے ساتھ' بیرونی ولئتوں میں بھی مستعمل
تھی۔ یہ الگ سے موضوع ہے اور اسے ہندی'
بغدای اور یونانی تہذیبوں کے تناظر میں دیکھا جا
سکتا ہے۔ ہاں یہ درست ہے' کہ زبانیں ایک
دوسرے سے اثر لیتی آئی ہیں۔ اگر اس نے اثر
لیے' تو اثر مرتب بھی کیے۔ ابر رحمت میں بھی
اردو اور پنجابی کا اشتراک موجود ہے۔
..........
بہت سے اردو لفظ ابر رحمت میں استعمال کیے
گیے ہیں۔ مثل
اول جان اسلم تے قائم ہونا فطرت جان اسلم
انسان پیارے ص129
بعض مصرعے پنجابی کم اردو زیادہ ہیں۔ مثل
باقی طفل ہے عام جہان دلبر مشکل عشق والی
دلبر کار پیارے
کرم ہو غلم مسکین عاجز تیرا ہے آقا بخشنہار
پیارے
ص316
اک ظالم ظلم عظیم میاں کرے نال جو شرک کریم
میاں نہیں پاسی رحم رحیم میاں ایہو غصہ ہے
سرکار
دنیا کیسی دیکھی یار
ص 268
کر اپنا آپ اعتبار میاں توں اپنا آپ ہیں یار میاں
خود دشمن خود دلدار میاں
ص324
قبلے باطنی دی طرف رخ کرنا نگاہ باطن حضوری
شمار پیارے
ص320
اک مست الست مستان میاں
ص272
بندہ عاجز عذر نہ کائی کر فضل جناب الہی
ص392
اپنا اٹھا نہ سکے ضامن بنے لوکائیدا
ص152
اردو مصادر اور سابقے لحقے ابر رحمت ہی کیا
اور بہت سی پنجابی شعر و نثر میں پڑھنے کو
ملتے ہیں۔ مثل
چارے لفظ نماز نیاز عاجز تحفہ عاجزی باہجہ
درکار ناہیں
سبہ چھوڑنا عدم نوں عدم بھائی سچی بات جے
ہووے بدکار ناہیں
بےخیالی نماز ہووے خیال والی نہ پڑھن جیہی
مندی کار ناہیں
ص215
اردو محاورے اس تصنیف میں پڑھنے کو ملتے
ہیں۔ رائی بھر فرق نہ ہونا کا پنجابی استعمال
ملحظہ ہو
تدوں فرق نہ رہندا رائی دا ص151
آئینہ بنانا :رب آئینہ محمد بنایا میاں
سلم سنانا :دے شان سلم سنایا میاں
سلم سنانا سلم بلنا
کرناٹک' کاٹھیاواڑ' دکن اور کئی دوسرے علقوں
میں آج بھی مستعمل ہے
اسم اور صفت کا' ایک ساتھ استعمال ملحظہ
فرمائیں۔
غصے قہر قہار تے رحم غالب کر رحم رحیم وسار
ناہیں ص198
اس مصرعے میں صرف دو لفظ تے اور وسار
پنجابی کے لفظ ہیں
دونوں زبانوں کی تلمیحات تقریبا ایک سی ہیں۔
مثل
نمرود فرعون کر ضد اپنی کافر ہو کے رب کہا
گئے
منصور ہو مست الست عاشق اناالحق دا نام سنا
گئے
ل تقنطوامن الرحمتہ ا رب سچے فرمایا
خوشیاں کر کر پاک محمد سجدہ شکر بجایا
ابر رحمت میں' منشی کرم بخش مرحوم کا اردو
کلم بھی' شامل کر دیا گیا ہے۔ اس پر پنچابی زبان
کے اثرات موجود ہیں۔ انہوں نے' اپنے اس کلم
کے حوالہ سے اردو کو نئے مرکبات دیے ہیں۔
گویا انہوں نے ایک ساتھ' دو زبانوں کی خدمت
کی ہے۔
ہیچ نگاہ' باغ مظہر' شان سوایا' سیس نوایا'
بازیچہ نیکاں' حال بیحال' روح گلزار' پیر صقل'
وصل کا جام' فقیری کے قدم
ان کی تشبیہات بھی ادبی حسن و چاشنی لیے ہیں۔
دو ایک مثالیں ملحظہ ہوں۔
تھے مثل موتی کےدانت میاں
.......
رخسار تھے سرخ انار میاں
استعارتی زبان' اپنی اصل میں شاعری کا کمال
ہوتی ہے۔ باطور نمونہ ایک استعارہ ملحظہ ہو۔
مرشد وہ کرتا ہے عینک عطاء
ابر رحمت کے عنوانات پانچ طرح کے ہیں۔
اردو
پنجابی
عربی
فارسی
مخلوط
عنوانات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے' کہ منشی
صاحب مرحوم ان چاروں زبانوں سے قرابت
رکھتے تھے۔ بعض عنوان پنجابی نما فارسی ہیں۔
..................
اردو کلم
آغاز
بسم ا الرحمن الرحیم
ہوا وحدت کی مخزن سوں اول اسرار بسم ا
جو ہے ساری کتابوں میں سرے سردار بسم ا
پیشانی باغ مظہر ہو عجب شان مکان پر
ہوا احدت کی گلشن سوں اول گلزار بسم ا
پسارا اک نقطے کا ہوا معمور روتن سوں
ہوا یک رنگ ہو ہو ہو فمن نقطہ و بسم ا
کیا جب حکم مردوں کو جو اس نے کم بازنی کا
اناالحق کی خوشحالی سے اٹھے دم مار بسم ا
ولی سب پیر اور پیراں ملئک جن اور حوراں
جھلک محبوب کے خط کا ہوا سنگار بسم ا
ص2
عنوان پنجابی کلم اردو
۔۔۔۔۔۔۔
چھڈ ظلم نہ موت وسار میاں
ہو عاقبت تھیں شرمسار میاں چھڈ ظلم نہ موت
وسار میاں
گیا اک دن گورستان بھائی ڈٹھی اک کھوپری انسان
بھائی دیکھ حالت ہوئی حیران بھائی
سن حال زبان گفتار میاں
کبھی ہم بھی تھے انسان بھائی تھے زندہ وچ
جہان بھائی گودمائی کے نازان بھائی
تے صد ہا دوست یار میاں
کبھی والد جان نثار بھائی تھی بھائیونکی بہار
بھائی کبھی فوجوں میں سردار بھائی
تھا مجلس میں اعتبار میاں
کبھی گھوڑوں پہ اسوار بھائی تھے ملتے محرم راز
بھائی کبھی لکھوں مددگار بھائی
لکھاں ملنے کا انتظار میاں
کبھی کرتے ناز وادا بھائی کبھی سوئے پلنگ
بچہا بھائی گھر والے جان نثار بھائی
لئی عیش میں عمر گزار میاں
کبھی محلوں کے سردار بھائی کبھی پھرتے وچہ
بازار بھائی کبھی مکتب بیٹھے یار بھائی
تھے باغوں کے سنگار میاں
کبھی چلتی تھی زبان بھائی دل میں تھا دل میں یہ
گمان بھائی نہ چھوڑیں گے جہان بھائی
کیتا آخر موت لچار میاں
کبھی عجب لباس سنوار بھائی جا بیٹھے وچہ احباب
بھائی سب کہتے عزت دار بھائی
کل دنیا سے ہشیار میاں
تھے مثل موتی کےدانت میاں اور چشم آہو کی
جان میاں نہ حمد وثنا زبان میاں
تھے بخشش کے انتظار میاں
تھی قوت بےبہا بھائی تھا رستم ہیچ نگاہ بھائی
لی ہم نے موت بھل بھائی
تھے چلتے پاؤں بھار میاں
کبھی نوشو تھے برات بھائی تھی دنیا کل جہات
بھائی آخر موت کئے سب مات بھائی
ہے لقمھ اجل سنسار میاں
کبھی نوری چہرہ دیکھ بھائی سب صفتاں کر دے دیکھ
بھائی ہے خوب چہرے پہ ریکھ بھائی
رخسار تھے سرخ انار میاں
کل نعمت جو جہان بھائی تھی آتی دستر خوان
بھائی نہ محشر دا دیہان بھائی
تھے سجدہ سے بیزار میاں
جب ہوئی بند زبان بھائی نہ ہوں نہ ہاں پچہان
بھائی نہ اکھیں وہ زبان بھائی
مل خاک گئے خاکسار میاں
جب آئےاس سنسار بھائی پھر ہوئی سب وچار
بھائی سب جھوٹا تھا گھر بار بھائی
کر منت وقت گزار میاں
اس جگ کا یہ دستور بھائی ہو نیک عمل منظور
بھائی تن بدیوں کا ہو چور میاں
نہ منت ہو درکار میاں
کرم اک نصیحت مان بھائی نہ کر عمل کا مان
بھائی یہاں ٹوٹ جائے سب تان بھائی
جا اچھے عمل گزار میاں
تو دیکھ ہماراحال بھائی ہے ہویا حال بیحال
بھائی بدعمل کیتا نڈھال بھائی
تو خوب سمجہا سنسار میاں
کرے کلمہ بیڑا پار میاں ہو اس سے روح گلزار
میاں سب کفر ہو جا فرار میاں
تو دے کچہ نام غفار میاں
یاد رکھ خدا ہمیش کرم دل غیراں نہ دکھا کرم
دے تجہ کو رب پناہ کرم
وہ سب کا بخشنہار میاں
ہو محشر سے شرمسار میاں چھڈ ظلم نہ موت
وسار میاں
ص122
غزل
حمد ربانی کہو زبانی میم کا اعلی پایا ہے
صفت ثنا محمد سرور دو جگ شان سوایا ہے
کن فیکون کہا جب رب نے میم کا نور ہویدا ہوا
میم کی برکت سے رب نے ارض وسما بنایا ہے
اس میم کو دریتیم کیا کونین کا رہبر یہ ہی بنا
بوبکر و عمر عثمان و علی پر میم کا پر تو آیا ہے
برکت میم کی ظاہر ہوئی آئے شیر خدا جگ میں
طاقت ہمت نے جسکی سب کفر کا سیس نوایا ہے
محی الدین محبوب سبحانی شہر جیلں کا والی جو
قادر رب نے قادر کرکے عالی قدر بنایا ہے
تھی ڈالی یہ گلشن کی بو اس میں تھی سب
بھیدونکی
سب میم کی اس میں برکت تھی جس جگ کا شاہ
بنایا ہے
مہدی کو بھی میم محمد مول کرکے مہر دیا
یہ مخفی را ربانہ ہے جو خاصوں میں سمایا ہے
یہ مردہ دل کیا خبر رکھے کہ زندہ کی ہے شان کیا
طالب ا والے کو سب طالب دید سمایا ہے
دل مردہ کو بغل دبا کر بندیخانے بند ہوئے
سیر چمن کی کرتا ہے جسدل میں رب بسایا ہے
عقل فکر سب چکر کھائے دنیا اس بھنور میں
قدرت کا یہ ہے بازیچہ نیکاں رب بچایا ہے
طاقت بخش کریم کرم کو صفت محمد دل سے ہو
دنیا دین کا جسکی خاطر رب نے بوٹا لیا ہے
تعریف مرشد
پانی سے پانی نیارا بنا
خودی چھوڑ کر ہم میں سب آ مل
عقل اور علم تیرے کس کام کا
نہ بندہ بناں جب تک تلک کا
جب آدم کو مول نے پیدا کیا
تو صدقہ کرم اپنے فرما دیا
خواہش ہو جس چیز کی وہ کہو
ہے وہ چیز کیا جو یہاں پر نہ ہو
تو خواہش کو اپنی ذرا کر ادا
کروں بخشش عالی میں تیرا خدا
ہوا سن کے آدم یہ دل میں حیران
لگا سوچنے پھر نہ چلے زبان
تو آدم نے جبریل سے یہ کہا
کیا مانگوں مول سے مجہکو بتا
تو فرمایا جبریل نے یہ کہ عقل
یہ ساری ہے بھیدونکی کنجی اصل
کری عقل مول نے اس دم عطا
وسیلہ ہوا جب کہ جبریل آ
وابتغوا الیہ الوسیلتہ قرآن میں
وصیلہ کی حاجت ہے ہر آن میں
مرشد کی صورت تو حقی ہے جان
کفر توڑ کر وہ ملوے رحمان
مرشد ہی کنجی ہے اسرار کی
طالب کے دل کی خبر جس نے لی
جو مرشد ہے کامل وہ حق کا ہے نور
دل کے اندھیرے کو کرتا ہے دور
مرشد وہ کرتا ہے عینک عطاء
آنکھوں سے مول نہیں ہوتا جدا
وہی نظر آتا ہے چاروں طرف
مرشد سے ہووے یہہ حاصل حرف
مرشد پہنچاتا ہے عرش بریں
جو ہیں طالب مول اہل یقین
مرشد دکھاتا ہے چودہ طبق
مرشد کرے صاف روح کی اٹک
مول ارض و فلک میں سماتا نہیں
مگر دل سے طالب کے جاتا نہیں
یہ طالب کا چھوٹا سا جو ہے وجود
ہے کل کائنات اس میں ہر دم موجود
رب کی سناتا ہے مرشد ندا
سنا کر تو طالب یہ دل سے سدا
خیالت باطل کو جڑ سے اکھاڑ
کرے وہ منور قلب کی بہار
دکھا دیتا ہے اصل رب کا نشان
تو طالب پھر ہوتا ہے سیدھا روان
نفس مار کر پھر وہ زندہ کرے
ہو زندہ نہ عادت درندہ کرے
مرشد کے کہنے کی تکلیف جو
جڑا اس کی دیدار ا کا ہو
تو فرمان مرشد کو دل سےاٹھا
یہ فرمان کر دے گا تم کو جل
مرشد کے کہنے پہ جو چل گئے
دو جگ کے دکھ ان کے سب کٹ گئے
نہ مرشد کی مانی جنہوں نے کبھی
پڑے غضب میں ایکدن وہ سبھی
کرے صقلی گر کی طرح پیر صقل
برسوں کی منزل کرے پل میں حل
کامل دکھاتا ہے ہر جا خدا
نہ ہو حق سے طالب کبھی پھر جدا
اندھے کو اندھا اگر مل گیا
تو اندھے سے اندھے نے پھر کیا لیا
مول نہ دیکھا تو رول پڑا
رولے میں دونوں کا دل ہی جل
کرم گر ہو خواہش خضر سنگ کی
نصیحت وہ رکھ یاد مرشد جو کی
ص 291تا 293
نکتہ
اسم ا جسم ا ا حاضر جان لے
بات ا ذات ا ذات حاضر مان لے
معنی ا ا حاضر کر یقین اور مان لے
گر نظر آتا نہیں تو دیکھتا ہی جان لے
کنہ مول مت نکالو مت کرو یہ جستجو
یہ عقل تجھکو نہ بخشی دیکھ لے ا کو تو
دان دینا نام لینا یہ وصل کا جام ہے
جو ملے مول سے نعمت کرم سب انعام ہے
ص274
ا والے کو فقیری دو قدم
ہیں فقیری کے قدم دراصل دو
خوف اور امید بن ا کا ہو
غیر عورت اور دولت کو نہ چھو
یہ قدم پہل حقیقی جان تو
دوزخ اور جنت کو دل سے دے اٹھا
قدم طالب کا کرم یہ دوسرا
ص375
عنوانات
نوٹ
ایک ہی عنوان' جو ایک سے زیادہ مرتبہ آئے
ہیں' انہیں صرف ایک بار درج کیا گیا ہے۔
عاجزی جناب باری تعالی ص2
در صفت رسول اکرم صلی ا علیہ وسلم ص2
در بیان ذکر ابلیس ص3
در بیان حضرت آدم عیلہ السلم ص4
در مناقبت چہار یار رسول مقبول رسول صلی ا
علیہ وسلم ص4
در صفت جناب حضرت امام حسن حسین رحمتہ ا
علیہ ص5
در صفت روح ص6
دربیان طلب اشیائے دنیا ص7
یالیھا الرسول باغ ما انزل عیک ص7
مناقب پیران پیر رض ص8
شکریہ ماں باپ
الجنتہ تحت اقدام امھاتکم ص9
تعریف حضرت رہنما یعنی پیشوا صاحب ص10
دربیان بھید مولی ص11
در بیان دعاء ص11
در بیان نمودن و برائے شامت نفس ص12
در بیان علم ص13
در بیان شریعت۔ طریقت۔ حقیقت۔ معرفت ص14
کافی 15
در بیان علم حقیقت ص16
مقابلہ حکمت ص17
در بیان معراج شریف ص18
در بیان چالکی نفس ص20
در بیان حرص ص22
در بیان ناشکری ص22
در بیان درجہ اخلق ص23
در بیان صفت ڈیرہ دار ص24
صفت فقر ص25
در بیان تعظیم قبرستان و طریقہ ختم ص26
در بیان بعد مرگ ص 27
در بیان دوزخ ص28
در بیان عشق ص29
در بیان شیر فروش ص31
عرش شیر فروش ص31
جواب فقیر ص32
حال شیر فروش ص 32
دوبارہ فقیر کا دوکان پر آنا ص32
ہفت اقسام نفس ص33
ہر چہ باشم دست ما در درست تو ص36
خیالت تصوف ص 38
در بیان نقش فروشاں
ول تشترو بایتی ثمنا قلیل ص41
در بیان علم نجوم ص 42
علم کیمیا ص43
جھوٹی ہاں سے ہاں ملنی ص46
انصاف منصف ص48
دردمند فقیر ص49
صحبت مرداں ترا صالح کند ص51
نیکی دی بریائی ص53
کرت گھن یعنی احسان فراموش ص53
قدرتی انصاف ص56
نیک دے نیک خیال ص58
پنج بنا اسلم ص60
حکایت ص61
دنیا کا صابر بادشاہ ص64
نصیحت راہبر ص66
خواب دنیا ص68
روح کو فنا نہیں بت کو بقا نہیں ص69
ہدایت نامہ مرداں ص70
کرامت شاہ عبد القادر جیلنی ص73
مسلہ نکاح ص79
وچہ وراثت چوتھا حصہ بیٹیاں دے پڑپائیں ص84
باہجہوں فضل نہینچھٹکارائی ص86
دوبارہ گور ص92
مینوں رکھ لے اجدی رات وے 93
مینوں کالی آ گئی رات وے ص93
میری نوری ہو گئی رات وے ص93
میتے فضل کیتا سو آپ وے ص 94
ھدی اللمتقین الذین یومنون ص96
ایمان ہے تو جہان ہے ص 98
کرامت میراں محی الدین رحمتہ علیہ ص99
صفت دولت ص101
بیان عشق مجازی ص103
بیان عشق حقیقی ص110
نتیجہ حب صادق ا جل شانہ112
اقرار باللسان ص115
چھڈ ظلم نہ موت وسار میاں ص122
ایہہ مال مولی دا سا رائی ص123
اندزہ عمر ص124
دربیان عشق شوق سلطانی ص124
اشرف الخلوقات انسان ص126
ان النسان کان جھول ص127
دربیان الہام مہربان رحمان ص129
صفت اوصاف نیک مرداں ص132
جواب فقیر صاحب ص133
جواب بادشاہ ص133
دعا کرنا فقیر صاحب ص133
فرمان فقیر صاحب ص133
صفت فقیر در زبان بادشاہ ص134
جواب فقیر ص134
دربیان بخوف بےغیرت ص137
سوال بادشاہ ص138
جواب شاہزادہ ص138
داستان شاہزادہ ص139
مقابلہ امر ربی و نفس امارہ ص141
تنبیہ نفس ص142
نماز پنچگانہ ص144
حکایت حضرت بایزید بسطانی ص145
دربیان طلب عقل آدم علیہ السلم ص146
کافی ص146
قاضی اور فقیر کی دربار نبی میں حاضری ص
149
حکمت الہی ص159
دوسرا حصہ
معجزہ حضرت عیسی علیہ السلم ص161
اصلی طریقہ دعا بدرگاہ باری تعالی ص163
عاجزی دا پھل ص166
حکایت
واتبعوا الیہ الوسیلتہ ص169
رمز حقیقی ص171
بسم ا الرحمن الرحیم ص174
دعا بدرگاہ احم الراحمین ص229
اعظم درجات ص230
بندہ بننے کا طریقہ ص 238
دنیا دے جھگڑے ص239
عاجز دی پکار ص243
قدرت کے پسارے ص244
ل تتحرک ذرتہ ال باذن ا ص245
سو ہتھ رسہ سرے تے گنڈھ ص247
فقیر کے اوصاف ص249
بیمار بادشاہ کی حکایت ص250
عرض حکیم کی باشاہ کے حضور میں گزارنی ص
250
حکیم کی دوا کا بادشاہ کو فائدہ نہ کرنا اور بادشاہ
کا حکیم کو سولی کی دھمکی دینا ص251
حکیم کا وطن چھوڑنا جنگل میں فقیر کا ملنا حکیم
کا عاجزی کرنا اور فقیر تدبیر بتانا ص251
فرمان فقیر باحکیم ص252
حکیم کا وطن جا کر حاضر دربار ہونا اور شہر
کے فقیروں کی دعوت کرنا ص252
فقیر کو دوبارہ دھمکی دینا ص252
حکیم کا پھر وطن چھوڑ کر فقیر کے پاس جانا
اور فقیر سے جوٹھا ٹکڑا لے کر آنا ص252
فقیر کا جوٹھا ٹکڑا بادشاہ کو کھلنا اور بادشاہ کا
صحتیاب ہونا ص254
آسمان سے گرا کھجور میں پھنسنا ص254
امیروں اور وزیروں کا دل ہی دل میں غصہ کھانا
ص255
فقیر کی بادشاہ کے ساتھ ہمکلمی ص256
فقیر کی داستان ص256
مقولہ شاعر ص257
عرض شیطان روز محشر ص262
نسخہ برائے گناہ ص264
ظاہر ظلم باطن میں صفائی ص265
دنیا کیسی دیکھی یار ص266
مذہب دی لڑائی ص270
حکایت سوداگر ص273
چپ کرکے وقت لنگھا میاں ص275
عاشق خونپرست ص275
سکھ سجدے باہجھ کس پایائی ص278
صاحب جو چاہے کر دا ای ص279
مول کریم کی کرم نوازی ص280
دربیان تکبر و ہنکار ص283
سجدے دی برکت ص284
عمر دا قصہ ص 286ص
کل شئی یرجع الی اصلہ ص288
تعریف مرشد ص291
ہر حال میں رب کو یاد رکھ ص292
ال ان اولیاء ا ل خوف علیھم ولہم یحزنون ص
294
مفرقات ص300
پند سود مند ص322
حاکم کی تابعداری ص326
شکریہ باری تعالی ص327
مقولہ ص332
پند ص334
احسان الہی ص 336
عرض دست بستہ ایاز ص338
موت سے پہلے مرنا ص350
فرض انسانی ص360
مناجات ص262
پنج بنا اسلم ص373
نکتہ ص374
ا والے کو فقیری دو قدم ص375
خواب کی قسمیں ص375
بر زبان تسبح در دل گاؤ خر ایں چنیں تسبح کے
درد اثر ص377
مسلم کی قیمت ص381
توبہ ص383
دیگر ص386
ا کی یاد سے اطمنان قلب ہو گا ص389
در بیان السلم علیکم و رحمتہ ا ص391
محبت مائی صاحب ص393
اشرف المخلوقات ص395
پابندی شریعت ص399
کامن ص400ت
تعریف شہر قصور ص403
حقیقت ص408
قطعہ تاریخ کتاب ابر رحمت
از قلم صداقت رقم جناب منشی محمد علی صاحب
ارم نوارد قصور
ص414
حواشی
بھایا ندانت گوشت کھاون حدیثاں نبی بھلیاں نی
کسی بھائی کی چغلی یا غیبت کرنا اس بھائی کے
گوشت کھانے کے برابر ہے۔
ص22
ایسے عقل نے مار حیران کیتے جہڑے دادا بی
پوچھان جانی
بی بمعنی بیج
پیدا ہودندا اوپر اسلم بندہ ایہ خاص حدیث فرمان
سائیں
کل مولود یولد علی فطرتہ فابواہ یھودایہ
اریمجسانہ ادینصرایہ شاہ جی کاتب
ص24
ترک دنیا حرام نوں چھڈ دینا نئیں کار نوں چھڈ
کے جاوناں او
ترک دنیا۔ دنیا کو چھوڑ کر جنگل میں جا رہنے کا
نام ترک دنیا نہیں۔ بلکہ دنیا والوں میں رہ کر خدا
کی منع کی ہوئی باتوں سے بچنے کا نام ترک دنیا
ہے اور ایسے ہی لوگوں کو تارک الدنیا کہتے
ہیں۔
جدوں کجہ نہ رہے تا کجہ بنسی ایہہ ئیں دا لفظ
گواوناں او
مثال دانہ کی کہ اپنی ہستی کو مٹا کر خاک میں مل
جاتا ہے تو پھر اس کی گلزار بنتی ہے۔
عفیونی یا عباد ا الصالحین نبی پاک دیوچہ دسے
لفظی تو یہ ہے کہ اے ا کے بندو مجھے معاف
کر دو۔ اور محاورہ کے یوں معنی ہیں کہ ا
اپنے بندوں کفیل مجھے معاف کر دے۔ وا اعلم
ص26
لکہہ بریایاں عیباں کولوں ایہہ نماز ہٹاوے
ان الصلوتہ تنھی عن الفحشاء والمنکر یعنی نماز
حقیقت میں تمام برے کاموں اور فحش کاموں سے
بچاتی ہے۔
اہلس پانمازی تائیں در تھیں دور ہٹاوے
سستی' کاہلی
ص37
بدعا ماں باپ دی ساڑن اپنا مال
والدین کی دعائیں اور بدعائیں بعض اوقات عجیب
ہی قسم کی ہوتی ہیں یہی کہ تیری کمائی کو آگ
لگے۔
اس کے دو معنی ہیں
تیری شادی پر آتشبازی چلے یا تو کیمیاگر ہو
وغیرہ
اور بعض وقت یہ کہ بیٹا تیرا لنگر جاری رہے'
یعنی یہ کہ روئی کی دوکان کھولی جائے۔ اور
بعض اوقات یہ کہ بیٹا تیرے لکہاں دے لیکھے۔
مراد یہ کہ تو کسی نہ کسی سکول میں حساب
سکھانے پر ملزم ہو جائے۔ یا بہت بڑی دوکان یا
بینک میں اکاؤنٹ کلرک یعنے حساب کرنیوال۔
تنخواہ خوا بنے۔ دس ہزار ماہوار ہی ہو مگر
حساب میں لکھ اور کروڑ ضرور ہو
ص44
یا سونے دا روح رکھدے بعضے اپنے پاس
مراد ہل ہے جس سے ہر اک دہات سونے کی
طرح سرخ ہو کر سونا معلوم ہوتی ہے۔
ص45
فیر اسمانوں ککڑ بولے صبح صادق دے ویلے
سبحان الملک القدوس والی گونج پیے وچہ بیلے
کہتے ہیں صبح صادق کے وقت آسمان پر ایک
مرغ بولتا ہے جس کی یہ آواز ہوتی ہے ۔ پھر
زمین کے مرغ بولتے ہیں۔
ص65
جیکر یاد کریں توں مینوں شاہ رگ تھیں میں
نیڑے
نحن اقرب الیہ من حبل الورید
..........
میں نے ایک دفعہ عرض کی تھی کہ آپ کے
پیشوا صاحب کا اسم گرامی کیا تھا۔ لیکن آپ نے
فرمایا کہ میں فقط ایک ہی ان کا خادم ہوں۔ بتانے
کے متعلق حضور نے منع فرمایا تھا۔
عنایت ا خاں
ص66
روز قیامت امت تیری جنت اندر کھڑ ساں
سرکار مدینہ فخر موجودات سرور انبیا سردار
انس و جن جناب محمد صلی ا علیہ و آلہ و
اصحابہ و بارک وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ
میری امت ضللت اور گمراہی کی طرف نہیں
جائے گی۔ حدیث مبارک۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ
ضللتہ اور گمراہی کیا ہے۔ ضللتہ۔ ذلیل رسوا۔
خوار ہونے کو کہا جاتا ہے۔ اور گمراہی یا گم راہ
اسے کہتے ہیں جو رستہ بھول جائے۔ اصلی رستہ
چھوڑ کر جسپر اسے چلنا ضروری ہے کسی
دوسرے بےمقصد اور لیعنی رستے پر گامزن ہو
جائے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ فخر موجودات علیہ تحیتہ
واتسلیم نے جو رستہ بتایا وہ کونسا ہے۔ صاف
ظاہر ہے کہ فرمان باری تعالی اور سنت نبی کریم
صلی ا علیہ وسلم۔ اب چونکہ نبی کریم صلی ا
علیہ وسلم سوائے حکم باری تعالی ایک کلمہ بھی
نہیں فرماتے تھے
۔۔۔قرآنمجید۔۔۔
اس لئے ا کا فرمان اور آقائے مدینہ کا ارشاد
ایک ہے۔ مثال کے طور سن لیجیئے من
یتبعوالرسول فقد اطاع ا یعنی جس نے رسول
صلی ا علیہ وسلم کی اطاعت کی اسی نے ا کی
اطاعت بھی کر لی یعنی تاکیدی حکم ہے
۔۔۔۔۔قرآنمجید ۔۔۔۔۔۔
اب نبی کریم صلی ا علیہ وسلم کا ارشاد
ملحظہ فرمائیے۔ الفرق بین العبد المومن والکافر
الصلوتہ یعنی ایماندار اور کافر کے درمیان صرف
نماز کا ہی فرق ہے اور نماز کونسی جس کو نبی
کریم نے پڑھا۔ اصحابہ کرام نے پڑھا جناب حسن
و حسین رضی ا تعالی عنہم نے پڑھا۔آئمہ کرام
نے پڑھا۔ اولیائے کرام نے پڑھا بزرگون نے پڑھا
اور وہ نماز جس کے متعلق باری اسمہ صاف طور
پر فرما دیا ورکعوا مع الراکعین۔ نہ وہ نماز جس
کو آجکل کے اولیاءالشیطان نے دل کی نماز ۔۔۔۔
خود ساختہ۔ بنت بدرا بہانہ بسیار۔۔۔۔ بنا رکھا ہے۔
اور اسی نماز کے متعلق آقائے عرب و عجم کا
دوسرا فرمان سن لیجیئے من ترک الصوتہ
متعمدافقد کفر یعنی جان بوجھ کر نماز ترک کر دیا
وقت کو ضائع کر دیا رکوع کرنے سے سجدہ
کرنے سے گریز کر ڈالی بس وہ کافر ہو گیا۔
اب ذرا غور فرمائے کہ جو آدمی یہ خدا کی
فرمائی ہوئی اور محمد کریم علیہ الصلوتہ والسلم
کی بتلئی ہوئی نماز نہیں پڑھے گا وہ آپ کی امت
سے ہو سکتا ہے۔ اور جو آدمی فرمان مصطفے
صلی ا علیہ وسلم سے عمدا کوتاہی کرے گا یا
احکام باری تعالی کو پس پشت ڈال دے گا وہ امت
محمدیہ علی صاحبہاد اتسلیم سے ہو جائے گا
صاف ظاہر ہے کہ فرمانبرداری کرنے سے امتی
ہو سکتا ہے ورنہ ہرگز نہیں۔
تو جان لو کہ جس مرد نے یا جس عورت نے نبی
کی فرمابرداری کا بیڑا اٹھا لیا وہی امتی ہوا اور
اسی کے متعلق روز محشر کو شفا ہو گی۔
دوسرے کی نہیں۔ میاں جب تم نے نبی کا کہا نہ
مانا تو نبی صلعم کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ
تمہاری سفارش کریں اور تمہارے غم میں آنسو
بہائیں اور پیشانی مبارکہ کیچڑ میں ترفرمائیں۔ اگر
تم نبی کی امت بننا چاہتے ہو تو نبی کریم صلعم
کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کر دو۔ پس
جنت آپ کی اور آپ جنت کے۔
ص78
چوتھا حصہ بیٹیاں تائیں صاحب نے فرمایا
باخدا عالم ربانی شروع سے لے کر آجتک اس
مسلے پر زور دے رہے ہیں۔ کہ جس طرح مرد
کی اپنی کمائی اورسابقہ ورثہ اس کے لڑکوں کا
حق ہے اسی طرح اس کی جائیداد میں لڑکیوں کا
حق بھی شامل ہے۔ گو مانا کہ لڑکی یعنی عورتیں
کمزور مخلوق اور ناقص العقل ہوتی ہے لیکن یہ
بھی یاد ہے کہ کمزور اور ناقص عضو کو انسان
اپنے بدن سے کبھی الگ نہیں کرتا۔ اور جس طرح
انسان کی غذا اور خوراک سے دوسرے طاقتور
اعضا کو خون یا طاقت پہنچتی ہے اسی طرح اس
کمزور عضو کو بھی اس خون یا طاقت سے
ضروری حصہ ملتا ہے۔ خواہے طاقتور سے کم
حصہ ہی کیوں نہ ملے۔۔۔۔۔ یہ خدائی قانون
ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بالکل اسی طرح باپ کی کمائی اس کی
اولد کے لئے طاقت اور خون ہے اور اس میں
بالکل اسی طرح صنف نازک یعنی لڑکیاں بھی اسی
طرح حقدار ہیں جس طرح کے لڑکے۔ ا تعالی
پناہ دے آج کل ایک طبقہ نے شاید لڑکیوں سے ڈر
کر قانون بنوا لیا ہے کہ ہم شریعت کو نہیں مانتے
یعنی اس کے پابند نہیں بلکہ ہم تو محض رواج
کے پابند ہیں۔۔۔۔۔ لو اور سنو! لڑکیوں کو حصہ
دینے کی خاطر شریعت بھی چھوڑ دی ۔۔۔۔۔۔ معلوم
نہیں ان کا حشر میں کیا ٹکانا ہو گا۔
بعض لوگ شریعت کو مانتے ہوئے بھی لڑکیوں
کو حصہ دینے سے گریز کرتے ہیں اور عالموں
کی زبان سے بچنے کی خاطر یہ بہانہ بنا لیتے
ہیں کہ ہم نے اس کے حصہ سے اسے زیور بنا
دیا بھینس یا گائے خرید دی کپڑے بنا دئے مکان
بنا دیا اور جہیز میں دے دیا۔ میاں عقل کے کان
کھولو لڑکی کے حصہ سے اس کیلئے زیور بنانا
یا کپڑے وغیرہ بنانا یہ کس نے سکھایا۔۔۔۔۔ شیطان
کا سبق دیا ہوا معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اگر تم نے اپنی
جائیداد سے لڑکی کا حصہ نکال کر اس کی شادی
میں لگا دیا تو تم نے اپنی طرف سے کیا کیا۔ یہ
کام تو لڑکی خود بھی کر سکتی تھی کہ اپنا حصہ
لے کر اپنی شادی خود کر لے۔ یاد رکھو یہ جہیز
وغیرہ کا دیا ہوا مال اس کے حصہ کا مال ہرگز
شمار نہیں ہو سکتا یہ بوجھ ابھی تک تمہاری
گردن پر ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ شادی کر چکنے
کے بعد یا اس سے پہلے لڑکی کا حصہ نکال کر
اس کے حوالے کر دو۔ پھر خالص اپنے مال اور
جائیداد سے لڑکی کو رخصت کرو۔ اگر حقیقت کو
دیکھا جائے تو شادی سے پہلے لڑکی کا حق جدا
کر دینا چاہئے۔ کیونکہ ایسا نہ کرنے سے لڑکی کا
اپنا حصہ بھی اس کے معاملت میں صرف ہو
جائیگا اور تم پورا حق نہ دے سکو گے جس سے
آپ کی گردن پر ایک بار عظیم رہے گا۔ فاعنبرو ایا
اولی الابصار
ص85
بعد سلموں اوسنوں میر دئیں پیغام
............
میرا شوہ دریا دے تائیں جا سلم سناؤ
............
جو لوگ خدا کے حکموں سے گردن نہیں پھرتے
خدا انکا نگہبان رہتا ہے۔ اور ان کی زبان سے
نکلی ہوئی بات کو ضرور پورا کرتا ہے۔
ص97
صفت دولت
اے زر تو خدا نہیں و لیکن بخدا ستار وعیوبی
و قاضی الحاجاتی
یعنی اے زر ۔۔۔۔دولت ۔۔۔۔۔ تو خدا نہیں لیکن خدا کی
قسم تو وہ چیز ہے کہ میرے عیبوں پر پر ڈالنے
والی ہے اور میری ضروریات اور مشکلت میں
تو ہی کام آتی ہے۔
کہتے ہیں حیضرت فاروق رضی ا تعالی عنہ
فرمایا کرتے تھے۔ کہ یہ دولت انسان کو یا تو
بالکل خدا کے نزدیک کر دیتی ہے یا خدا سے بہت
دور لے جاتی ہے۔ یعنی اگر دولت کو جس طرح کہ
باری تعالی کا حکم ہے کہ لن تنالو البرحتی تنفقوا
جو کجہ تمہارے پاس ہے ا کی راہ میں خرچ
کرو اور غریبوں۔ مسکینوں۔ بیکسوں۔ لوارثوں پر
۔۔۔۔۔ دولت سے ۔۔۔۔۔۔ احسان کرو تو تم ا کے
نزدیک ہو جاؤ گے۔
ان ا یحب المحسنین ا تعالی احسان کرنے
والوں سے محبت کرتا ہے۔ اور اگر تم نے اس
دولت کو ا کی مرضی کے برعکس کیا اور اس
کو فضول خرچیوں میں اڑا ڈال تو ان ا ل یحب
المسرفین فضول خرچ کرنے والوں سے ا تعالی
ہرگز محبت نہیں کرتا تو معلوم ہوا کہ واقعی یا تو
دولت ایک سیڑھی ہے کہ اس کے ذریعے آدمی
خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ اور یا یہ ایک آگ ہے کہ
اپنی کشش سے اپنے مقام دوزخ تک لے جاتی
ہے۔ فاعتبروایا اولی البصار
ص101
کہے چار دیہاڑے ایہہ موج والے اگا ویکھیا نہیں
کسے جا میاں
ایسے خیالت والے لوگوں سے ا تعالی پناہ دے۔
یہ لوگ دراصل خدا کے احکام کو جھٹلنے والے
رسول کے فرمان سے روگردانی کرنے والے قرآن
اور حدیث کو نہ ماننے والے اور بالکل درست
معنوں میں اخوان الشیاطین ۔۔۔ شیطان کےبھائی
ہوتے ہیں۔
ہم ا کے بندے ہیں نبی کریم صلی ا علیہ وسلم
کی امت ہیں۔ ا تعالی نے محض ہماری بھل اور
رہنمائی کے لیے قرآن مجید کو اتارا اور فرمایا
ذالک الکتاب ل ریب فیہ یعنی اس کتاب میں کوئی
ایسی چیز نہیں جس پر شک کیا جائے والذین
یومنوں باالغیب ایماندار ہیں جنہوں نے میری
بتائی ہوئی باتوں کو بغیر دیکھے اور سوچے
تسلیم کر لیا۔اولئک ھم المفلحون وہی لوگ ہیں جن
کو ہم فلح و بہبودی اور نجات دے دیں گے۔
ا باری عزاسمہ کا فرمان ہے فاتقوالنار التی
وقودھا الناس والحجارتہ اعدت للکفرین ڈرو اس
دوزخ کی آگ سے جس میں آدمی اور پتھر ڈالے
جائیں گے اور یہ کافروں کے لئے تیار کی گئی
ہے۔ بعض آدمی جنھوں نے ا کے اور فرمان
رسول سے منہ موڑا۔ پتھر وہ جن کی لوگوں نے
پوجا کی۔ یہی کافر کا لفظ اس حدیث میں موجود
ہے من ترک الصوتہ متعمدا فقد کفر یعنی جس
جان بوجھ کر نماز ترک ڈالی وہ کافر ہو گیا۔۔۔۔۔اور
کافر کا مقام دوزخ ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور رسول کا فرمان
بھی خدا کا فرمان ہے۔ پہلے کہیں لکھا جا چکا
ہے کہ من یتبعوالرسول فقد اطاع ا۔ یعنی جس کو
ا کی تابعداری کرنی منظور ہے وہ پہلے رسول
ا صلی ا علیہ وسلم کی تابعداری کرے۔ کیا نبی
نے معراج کے دن دوزخ و بہشت نہیں دیکھا اور
ہم کو اس کی جزا و سزا سے آگاہ نہیں فرمایا۔
پس جان اس قسم کے کلمے کہنے والے لوگ کافر
اور دوزخ کا بالن ہیں۔ ان سے بچو یا انہیں بچاؤ۔
ص104۔