The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2015-12-07 10:17:52

2_2015_12_07_16_09_05_425

2_2015_12_07_16_09_05_425

‫مندرجات‬

‫میرے ابا۔۔۔۔۔۔ ایک مطالعیاتی جائزہ‬
‫اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ‬

‫جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر‬
‫اردو ہائیکو ایک مختصر جائزہ‬

‫ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی تحمیمی وتنمیدی زبان کے‬
‫سات رنگ‬

‫اختر شمار کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔ایک لسانیاتی جائزہ‬

‫محمد امین کی شاعری ۔۔۔۔۔۔۔ عصری حیات کی ہم سفر‬

‫میرے ابا۔۔۔۔۔۔ ایک مطالعاتی جائزہ‬

‫بروز‪ :‬نومبر ‪ 08:58:10 ,2015 ,18‬شام‬

‫خاکہ' سوانح عمری کی نسبت' مختصر ہوتا ہے لیکن‬
‫اس میں' زیادہ سے زیادہ اس شخص' اس کے کنبہ‬
‫اور اس کے سماج سے راہ و رسم کے حوالہ سے'‬
‫معلومات فراہم کی گئی ہوتی ہیں۔ خاکہ کے دور نزدیک‬
‫کے جانو لکھاری ہونے کے سبب تین طور دیکھنے‬

‫کو ملتے ہیں۔‬
‫لکھنے والے کے ذاتی تعلك کے حوالہ سے معاملات‬

‫ولتی' اتفافیہ یا حادثاتی امور و اطوار‬
‫سنے سنائے یعنی باالوسطہ چلن کی سرگزشت‬

‫اول الذکر' بہت لریب کی صورت ہے' لیکن اس کا تعلك‬
‫دہلیز کے اس پار سے ہے' اس لیے یہ یک طرفہ‬

‫ہوتی ہیں کیوں کہ اس شخص کے' دہلیز کے اندر اور‬
‫دہلیز پار کے اطوار' مختلؾ اور اکثر برعکس ہوتے‬
‫ہیں۔ اس حوالہ سے' ان پر درست یا مکمل کی مہر'‬

‫ثبت نہیں کی جا سکتی۔‬

‫دوسری ولتی ہوتی ہے اور شخص کے' عمومی اطوار‬
‫سے لگا نہیں رکھتی۔ اس لیے' اسے پیمانہ ٹھہرا کر'‬

‫کوئی نتیجہ اخذ کرنا' درست نہیں ہوتا ہے۔‬

‫تیسری صورت لمحاتی ہوتی ہے‪ .‬اسے بھی' شخصی‬
‫فطرت یا اس کی فطرت ثانیہ کا درجہ نہیں دیا سکتا‬
‫اور ناہی' اس کے حوالہ سے' شخصیت کا مجموعی‬

‫احاطہ کیا جا سکتا ہے۔‬

‫اگر کوئی دہلیز کے اندر کا لکھتا ہے' تو اس کی ذاتی‬
‫محبت یا نفرت کا جذبہ ؼالب رہتا ہے' ہاں اگر اس کے‬
‫اندرونی و بیرونی احوال کو للم بند کر دیا جاتا ہے' تو‬
‫یہ دوطرفہ ہونے کے سبب' زیادہ معلومات افروز ہوتا‬

‫ہے' جس کے باعث' اس شخص کی شخصیت کو‬
‫جاننے اور پہچاننے میں' مدد ملتی ہے۔ ساتھ ساتھ‬
‫لکھنے والے اور دہلیز کے اندر کے بعض لوگوں کا'‬
‫تعارؾ اور ان کی شخصیت کے' مضبوط اور کم زور‬

‫پہلو بھی' سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔‬

‫ہر لکھنے والے کا' اپنا اسلوب ہوتا ہے لیکن خاکہ‬

‫نگاری میں' متعلك اور رسمی متعلك کا عنصر' اسلوب‬
‫پر اثر انداز ہوتا ہے بل کہ ؼالب رہتا ہے۔ متعلك میں'‬
‫محبت یا نفرت کے زیر اثر' اسلوب ترکیب پاتا ہے۔ اس‬

‫ذیل میں' ؼیرجانب داری کی ہر سعی' کسی ناکسی‬
‫سطح پر' ضرور مجروع ہوتی ہے اور یہ امر' بہرطور‬

‫بس کا نہیں ہوتا۔‬

‫اچھے خاکے کی' سب بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ لاری‬
‫کو' متاثر بھی کرے اور اس میں یہ خواہش پیدا ہو یا‬

‫‪:‬زور پکڑے‬
‫'کاش کہ یہ خوبی میرے کردار کا حصہ بن جائے '‬

‫اگر وہ خاکہ' لاری کے سوچ میں' کسی بھی سطح پر'‬
‫بدلاؤ کا سبب بنتا ہے' تو سمجھیے لکھنے والے کی‬
‫محنت' کارگر ثابت ہوئی۔ اسی طرح' کسی معاملہ سے‬
‫نفرت جنم لیتی ہے' تب بھی تحریر کو' کامیاب تحریر‬

‫لرار دیا جائے گا۔‬

‫عزیزہ مہر افروز کا تحریر کردہ خاکہ۔۔۔۔۔۔۔ میرے ابا‬
‫۔۔۔۔۔۔ نظر سے گزرا اور پھر' گزرتا ہی گیا۔ بلامبالؽہ‬
‫کہوں گا' کہ یہ کمال کی تحریر ہے۔ انہوں نے خان‬

‫صاحب مرحوم کی شخصیت کا' جس انداز سےاحاطہ‬
‫کیا ہے' وہ بلاشبہ داد کی مستحك ہیں۔ اس خاکہ کو‬

‫پڑھ کر' میرے دل میں دو خواہشوں نے جنم لیا‬
‫الله' اس سوچ اور فکر کی بیٹی سے' ہر کسی کو‬

‫‪.‬نوازے‬
‫کاش خان صاحب مرحوم سے اطوار' ہر کسی میں پیدا‬

‫جائیں۔‬

‫گھر کے ڈسپلن میں' ہر کسی کو ایسا ہی ہونا چاہیے'‬
‫‪.‬تاہم چیخ و پکار سے زیادہ' گھرکی جان دار ہو‬

‫اپنے بچوں کو' اپنے لریب رکھے' ان کے جائز امور‬
‫و معاملات سے' آگاہی رکھے اور بہتری میں براہ‬
‫راست ملوث رہے۔‬

‫علم حاصل کرئے اور اس کی تمسیم میں' بخل سے کام‬
‫نہ لے۔‬

‫اپنے بچوں کو' گفت گو یا کہانی کے انداز میں' اچھی‬
‫باتیں بتائے۔‬

‫بچوں کی تعلیم کے معاملہ میں' ؼربت کو بہانہ یا جواز‬
‫نہ بنائے‪ .‬ان کی تعلیم کے لیے' ہر لسم کی لربانی‬
‫سے کام لے۔‬

‫اس خاکے سے یہ امور بھی وضاحت کے ساتھ‬
‫سامنے آتے ہیں کہ‬

‫بزرگوں اور اہل علم کے معاملے میں' آدمی کو کیسا‬
‫‪.‬ہونا چاہیے‬

‫ذات تک محدود سوچ' تھوڑدل بناتی ہے۔‬
‫اوروں کے لیے سیری اور اپنے لیے' بھوک بچانا ہی‬

‫معراج انسایت ہے۔‬
‫آدمی کو' بلا کسی تمیز و امتیاز' لوگوں کی مدد کرتے‬

‫رہنا چاہیے۔‬
‫ہم دردانہ رویہ' انسانوں میں اعتبار کا سبب بنتا ہے۔‬

‫صاحب تموی کبھی خسارے میں نہیں رہتے۔‬
‫شخص پر' جملہ مخلولات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے‬
‫اور یہ ہی چیز' اسے اشرؾ المخولات ٹھہراتی ہے۔‬

‫خاکہ' خان صاحب مرحوم کی زندگی کے احوال و‬
‫اطوار کھولنے کے ساتھ ساتھ' ان کے عہد کے‬

‫اشارے فراہم کرتا ہے۔ مثلا‬
‫مٹی کا تیل بھی راشن میں ملتا۔ صرؾ چھوٹی سی "‬

‫"ایک بتی جلتی رہتی‬

‫اسی طرح' ان کی سیاسی ہمدردیاں بھی ؼیرواضح‬

‫نہیں رہتیں۔‬

‫ان کی' سادات وشیوخ سے محبت و عمیدت' ہر لسم‬
‫کے شبے سے بالا رہتی ہے۔ ہاں البتہ' اس ذیل میں یہ‬

‫پیرہ خصوصی توجہ چاہتا ہے۔‬
‫ابّا بہت محنتی۔ اور عاجز مزاج تھے۔ صبح گھر اور "‬
‫آنگن میں جھاڑو لگانا خود پر لازم کر رک ّھا تھا۔ ا ّماں‬

‫چونکہ اعل ٰی گھر سے تھیں۔ اسلئے کبھی ا ّماں کو‬
‫جھاڑو لگانے نہیں دیا ۔ نہ گھر کا بیت الخلاء اور‬
‫موریاں صاؾ کرنے دیں۔ کہتے' میں پٹھان ہوں اور‬

‫"تمہاری ا ّماں شیخ اور سید گھرانے سے ہے۔‬

‫گھر گرہستی میں' بیٹی مہر افروز کی اماں کی کم‬
‫زور شخصیت کو سامنے لاتا ہے۔ جو بھی سہی' وہ‬

‫خان صاحب مرحوم بیوی تھیں۔‬

‫خاکے کا مطالعہ کرتے' بیٹی مہر افروز کی اپنی‬
‫شخصیت اور ان کی زندگی کے احوال بھی سامنے‬

‫آتے ہیں‬

‫خاکے کی زبان سادہ' رواں' عام فہم اور بےتکلؾ ہے۔‬

‫مطالعہ کے دوران' کسی موڑ پر' ابہامی صورت پیدا‬
‫نہیں ہوتی۔ ہر چند معلومات' لطؾ اور عصری شہادتیں‬
‫میسر آتی ہیں۔ اکتاہٹ کی' کہیں صورت پیدا نہیں ہوتی۔‬

‫کہیں کہیں ممامی مہاورے کا استمال ہوا ہے' جو‬
‫لسانیاتی حظ کا سبب بنتا ہے۔‬

‫بیٹی مہر افروز کی یہ تحریر' مجھے بہت ہی اچھی‬
‫لگی ہے۔ الله ان کے للم کو' مزید توانائی اور روانی‬

‫سے سرفراز فرمائے۔‬

‫=‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic‬‬
‫‪10065.0‬‬

‫اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ‬
‫) آئینہ خانہ کے تناظر میں (‬

‫بروز‪ :‬ستمبر ‪ 10:43:09 ,2014 ,06‬صبح‬

‫ہر اچھے تخلیك کار کا کمال یہ ہی ہوتا ہے کہ اسے‬
‫جس رخ سے بھی دیکھو اس کے ہنر کا کوئی ناکوئی‬

‫کمال دکھائی دے۔ اس تخلیك میں نئی فکر کے کئی‬
‫گوشے پوشیدہ ہوں۔ استعمال کیا گیا مواد‘ ناصرؾ نیا‬

‫ہو بلکہ ہر اگلی نئی تخلیك کے لیے‘ کار آمد ثابت ہو۔‬
‫مواد کی ہئیتی‘ معنوی اور اشکالی تبدیلیوں سے‘‬

‫تخلیك کی دنیا میں‘ آسانیوں کے دروازے کھلتے ہوں۔‬
‫ایسا بالػ فکر تخیلك کار‘ کسی ناکسی حوالہ سے‘‬
‫انسانوں کی دنیا میں یاد رکھا جاتا ہے۔ نہ بھی رکھا‬
‫جائے‘ تو بھی وہ‘ ہر نئے کے باطن میں زندہ رہتا‬
‫ہے۔ مارکونی بڑی حد تک‘ انسان کو بھول گیا ہے‬

‫لیکن وائرلس؛ ٹی وی‘ ریڈار موبائل وؼیرہ کے باطن‬
‫میں‘ فکری حوالہ سے زندہ ہے۔‬

‫دوسری طرؾ‘ یہ بات بھی بڑی معنویت کی حامل ہے‘‬
‫کہ استعمال کنندہ‘ استعمال کے حوالہ سے‘ استعمال‬

‫کے نئے رستے تلاشنے اور نکالنے والا ہو۔ حظ‬
‫اٹھانا‘ اپنی جگہ پر مسلم ہے‘ لیکن اس حظ کو دوچند‬
‫کرنے کے لیے‘ استعمال کی دیگر راہیں کھوجنا‘ اپنی‬
‫جگہ پر اہمیت کی حامل ہیں۔ کوئی استعمال کنندہ اس‬
‫اہلیت سے خالی نہیں ہوتا‘ ہاں اس انداز سے سوچنے‬
‫اور کھوجنے والے‘ بہت کم ہوتے ہیں۔ جو ہوتے ہیں‘‬
‫اپنی اصل میں تخلیمی جوہر کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ‬
‫دوسروں سے‘ لطعی ہٹ کر سوچنے والے ہوتے ہیں۔‬

‫وہ اس تخلیك میں رہ گئی کمی بیشی کی بھی نشان‬

‫دہی کرتے ہیں گویا وہ بہتری کی طرؾ بڑھنے کا‬
‫رستہ بتاتے ہیں۔‬

‫ادبی فن پاروں کی بھی‘ یہ ہی صورت ہوتی ہے۔ میر‬
‫صاحب نے‘ اپنی شاعری میں ناصرؾ‘ اپنے عہد کو‬
‫عیاں کیا ہے‘ بلکہ نئی زبان بھی عطا کی ہے۔ ؼالب‬
‫نے‘ زبان یعنی تخلیمی مادے کو‘ طرح داری سے‬
‫سرفراز کیا ہے۔ لفظوں کے استعمال کے حوالہ سے‘‬
‫نئی معنویت اور نیا نفسیاتی شعور سامنے آیا ہے۔‬
‫البال نے‘ لفظ کو فلسفے اور نظریاتی ممصدیت عطا‬
‫کی ہے۔ ذوق نے‘ محاورہ سے اردو زبان کا دامن بھر‬
‫دیا ہے۔ گویا سچا تخلیك کار نئی فکر و زبان سے‬
‫متعلمہ زبان کو ابلاؼی اور معنوی ثروت عطا کرتا ہے۔‬

‫اختر حسین جعفری کا شمار‘ جدید اردو شعرا میں ہوتا‬
‫ہے۔ انہوں نے اردو زبان کو اپنی جدت طبع کے سبب‘‬

‫حیرت انگیز استعمالی و معنوی تبدیلیوں سے نوازا‬
‫ہے۔ ان کی زبان پڑھتے ہوئے عجب لطؾ اور‬

‫سرشاری سی میسر آتی ہے۔ یہ بات بہرطور پیش نظر‬
‫رہنی چاہیے‘ کہ کسی بھی شعر پارے کی اس ولت تک‬
‫درست تفہیم ممکن ہی نہیں‘ جب تک اس کی زبان کا‬

‫پوری صحت مندی سے مطالعہ نہ کر لیا جائے۔ اختر‬
‫حسین جعفری کی فکر تک رسائی کے لیے‘ ان کی‬
‫زبان کی تفہیم اور فنی باریکیوں کو سمجھنا بہرطور‬

‫ضروری ہے۔‬

‫زبان میں‘ محاورے کو کلیدی حثیت حاصل ہوتی ہے۔‬
‫ہر شاعر کا‘ اس کی شاعری سے مخصوص محاورہ‬
‫اور تکیہءکلام ہوتا ہے‘ جو شعر کی تخلیك کی دنیا‬

‫میں‘ الگ سے پہچان ہوتا ہے۔ گلی میں آ کر نئی‬
‫اشکال و معنویت حاصل کرتا ہے۔ لازم نہیں ہر محاورہ‬
‫گلی میں آئے یا وہ گلی سے اٹھے۔ جو بھی صورت‬

‫رہی ہو‘ وہ محاورہ زبان کا اہم ترین اثاثہ ہوتا ہے۔‬
‫آتے کل کو‘ اس محاورہ کے حوالہ سے‘ گزرے کل کی‬
‫تخلیمی‘ سماجی‘ سیاسی‘ نفسیاتی اور معاشی اطوار کی‬

‫گواہی دستیاب ہوتی ہے۔‬

‫اختر حسین جعفری حسینی لافلے سے متعلك ہیں‘ یہ‬
‫ہی وجہ کہ ان کے محاورہ‘ اور تکیہءکلام میں حریت‬

‫کے عناصر نظر آتے ہیں۔‬
‫ان کے محاورے کی نشت و برخواست میں‘ شدت‬
‫اور اچھوتا پن پایا جاتا ہے۔ بادی النظر میں‘ زبان‬

‫کلاسیکل ہے‘ لیکن زبان کا استعمال اور معنویت‘‬
‫کلاسیکیت سے لگا نہیں رکھتی۔ ان کی ترکیب وترتیب‬
‫اور استعمال کلاسیکیت سے لطعی ہٹ کر ہے۔ ان کے‬
‫چند ایک محاورے‘ جو نظم ۔۔۔۔آئینہ خانہ۔۔۔۔۔ سے لیے‬

‫گیے ہیں‘ ملاحظہ ہوں۔‬

‫حرؾ جگانا جگائیں حرؾ کو خواب سفر سے‬

‫اور پوچھیں‬

‫اٹھائیں فرش سماعت سے لفظ‬ ‫خشت اٹھانا‬

‫لفظ کی خشت‬

‫خود اپنے آپ سرکتی فصیل ذات کی خشت‬

‫خشت سرکنا‬

‫خوشبو کشید کرنا وہ روشنائی‘ وہ خوش بوئے ؼم‬

‫کشید کریں‬

‫سجی ہے کون سی نوک مژہ پہ‬ ‫راکھ سجنا‬

‫ابر کی راکھ‬

‫رحم کے سکے گرنا گریں گے رحم کے سکے کب‬

‫ان حجابوں پر‬

‫صدا کے خشک سمندر کو چھان‬ ‫سمندر چھاننا‬

‫کر دیکھیں‬

‫خود اپنے آپ لدم چھوڑتی زمین فرار‬

‫لدم چھوڑنا‬

‫لدم نہ کھینچ کہ اس راہ پر ہمارے سوا‬

‫لدم کھیچنا‬

‫بدن کی لوح پر اتری تو سطر سطر ہوئی‬

‫لوح پر اترنا‬

‫مکین سونے لگیں تو مکان‬ ‫مکان جاگنا‬

‫جاگتے ہیں‬

‫اختر حسین جعفری کی نظم کے مصرعوں کے پہلے‬
‫لفظ ہوں یا آخری ان سے کچھ ناکچھ ضرور تشکیل‬

‫پاتا ہے۔‬

‫اٹھائیں سماعت سے لفظ لفظ‬ ‫صدا اٹھانا‬

‫کی خشت‬

‫صدا کے خشک سمندر کو چھان کر دیکھیں‬

‫مکین جگانا جگائے رکھتی ہے سب کو حجر وہ‬

‫ہو کہ شجر‬

‫مکین سونے لگیں تو مکان جاگتے ہیں‬

‫لدم نہ کھینچ کہ اس عہد‬ ‫لدم اکھاڑنا‬

‫منحرؾ کی ہوا‬

‫اکھاڑ آئی ہے پہچان کے خیاباں سے‬

‫اٹھائیں سماعت سے لفظ لفظ‬ ‫خشت دیکھنا‬

‫کی خشت‬

‫صدا کے خشک سمندر کو چھان کر دیکھیں‬

‫بدن سے اترے شکن در شکن لباس ہوا‬

‫ہوا رکنا‬

‫لہو کی لہر کسی ساحل یمیں پہ رکے‬

‫اک اور شور لیامت کہ بند لبر کھلے‬

‫آئینہ کھلنا‬

‫اک اور ضرب کہ تمثال دار آئینہ‬

‫ہٹے نگاہ کے شیشے سے عکس‬ ‫پردہ ہٹنا‬

‫کا پردہ‬

‫دکھائی دیتا ہے مفہوم کا نیا چہرہ‬

‫چہرہ دیکھنا‬

‫نمو کی خاک نے پھر ایک بار‬ ‫نمو دینا‬

‫جوڑ دیا‬

‫اب کچھ مرکب ملاحظہ ہوں‬

‫فراق ہجوم سحر‬
‫فراق حسن تمنا میں خود کشی کر لی‬
‫ہجوم رہگزر منتظر ہے کس کے لیے‬

‫سحر ہوئی تو در نیم وا پہ لفل پڑا‬

‫رخ نشیب شکستہ‬

‫رخ ہوا کی اطاعت میں رخ بدلتے ہیں‬
‫نشیب درد میں اتروں تو لتل گاہ کی خاک‬
‫شکستہ خول‘ کھلی بکتریں‘ جلے ہتھیار‬

‫طلسم خواب سی وہ چاندنی شب‬ ‫طلسم محال‬

‫وعدہ‬

‫محال تر سفر شوق جستجو ہے کہ اب‬

‫نمو کی خاک نے پھر ایک بار‬ ‫نمو دونیم‬

‫جوڑ دیا‬

‫دونیم جسم ارادے کی سبز ٹہنی سے‬

‫آواز جگنو‬
‫ہوا کے جھنڈ میں مہتاب گوش بر آواز‬

‫سواد زخم خود افروز سوچتا جگنو‬

‫فرار تفہیم‬

‫خود آپ اپنے لدم چھوڑتی زمین فرار‬
‫وہی نگاہ‘ وہی چاک حرؾ کی تفہیم‬

‫بعض اولات بڑے کمال کی نظمیں تشکیل پا گئی ہیں۔‬
‫مثلا‬

‫چاند راہیں ہیں‬
‫پناہ دیوار کی‬

‫پر نہیں‬
‫سفر‬

‫نشان منزل دکھائے‬
‫لدم‬

‫جہاں افك بنیں‬
‫نظم آئینہ خانہ‬

‫بجھے‬
‫خود مرے ثبوت‬
‫نشان سواد سپیدہء بدن‬
‫خوابیدہ بھی گواہ کروں‬

‫لیکن نہیں‬
‫ظلمت ہوئی گواہ‬
‫نظم آئینہ خانہ‬

‫ہوا رکے پردہ آئے‬
‫درد ابد‬

‫پرواز پر ہے‬
‫نظم آئینہ خانہ‬

‫نہ نہ‬
‫در فصیل ذات ہے‬

‫گلیم فسردہ‬
‫چراغ حریم دار‬
‫بلاد عمر دربدری‬

‫حلیؾ سوال‬
‫بےترتیب نہیں‬
‫نظم آئینہ خانہ‬

‫متعلمات کا استعمال خوب خوب کرتے ہیں‬

‫بؽیر حرؾ بھی نمطہ وجود‬ ‫حرؾ۔۔۔۔۔۔نمطہ‬

‫رکھتا ہے‬

‫ہوا کے ہاتھ کی سب ناتمام‬ ‫ہاتھ۔۔۔۔۔۔تحریریں‬

‫تحریریں‬

‫مکان۔۔۔۔مکی مکین سونے لگیں تو مکان جاگتے‬

‫ہیں‬

‫گرہ بچی ہے یہی رابطوں کے‬ ‫تاگا۔۔۔۔۔گرہ‬

‫تاگے کی‬

‫چراغ جو شب آتش بجاں سے‬ ‫شب۔۔۔۔۔چراغ‬

‫جلتے نہیں‬

‫زبان تشنہ۔۔۔۔آب شور زبان تشنہ نہ رکھ آب شور پر‬

‫کہ مری‬

‫طیور لوٹ کے آئیں گے‬ ‫آشیاں۔۔۔۔طیور‬

‫آشیانوں میں‬

‫تکرار لفظی کلام میں حسن اور شائستگی پیدا کرتی‬
‫ہے۔ اختر حسین جعفری کے ہاں اس کی مختلؾ‬
‫صورتیں ملتی ہیں‬
‫اٹھا رہا ہوں زمیں سے دونیم حرؾ کا چاند‬
‫دکھا رہا ہوں وہ انگشت معجزہ جس پر‬
‫چھپا رہا ہوں تہ سنگ استخوان صدا‬
‫چھپا رہا ہوں وہ ممتل جہاں پہ لفظوں نے‬

‫وہ سن رہا تھا زمیں کا خروش‘ دزد کی چاپ‬
‫وہ گن رہا تھا ستارے‘ شجر‘ تبر کے نشاں‬

‫وہ چن رہا تھا رسن‘ سوختہ سفال چراغ‬

‫اسی کے نام کٹری دوپہر میں جلتے بدن‬
‫اسی کی نذر بجھے حوصلوں کی مزدوری‬
‫اسی کی نذر للم‘ حاشیے‘ سیاق و سباق‬

‫اسی کے نام یہ تعویز نا فرستادہ‬
‫اسی کی نذر فرد رفتہ زمیں باؼات‬
‫اسی کی نذر رکی آب جو‘ تہی دریا‬

‫اک اور شور لیامت کہ بند لبر کھلے‬
‫اک اور ضرب کہ تمثال دار آئینہ‬

‫اک اور ضرب کہ بود ونبود کی تمسیم‬
‫لدم اک اور کہ اس کاخ وکوہ میں روشن ہے‬

‫لدم اک اور کہ آگے وہ معرکہ ہے جہاں‬

‫چراغ ایک سے ہیں‘ آنکھیں ہیں ایک سی جن کی‬

‫مژہ پہ خواب رہائی کی بوند بوند شفك‬
‫بوند بوند‬

‫دن کی لوح پر اتری تو سطر سطر ہوئی‬
‫سطر سطر‬

‫شاخ شاخ اس استخواں پہ پڑیں جس کی شاخ شاخ‬
‫پہ پھول‬

‫کلی کلی پہ پریشان خیال کی تتلی‬
‫کلی کلی‬

‫گلی گلی میں ہراساں پیمبروں کی صدا‬
‫گلی گلی‬

‫پروں سے جن کے افك تا افك دم پرواز‬
‫افك تا افك‬

‫بدن سے اترے شکن در شکن لباس ہوا شکن‬
‫در شکن‬

‫تکرار حروؾ سے فکری کیؾ پیدا کا دیتے ہیں اور‬
‫لاری کو لریب تر کر لیتے ہیں‬

‫نہ اسم ذات مرے کاؼذات سے نکلا‬
‫مکین سونے لگیں تو مکان جاگتے ہیں‬

‫زباں گرفتہ زن پیر اور سگ تشنہ‬
‫گریں گے رحم کے سکے کب ان حجابوں پر‬

‫تکرار حروؾ نے ناصرؾ گائیکی کو کمال دیا ہے‬

‫مطالعہ کو کیؾ آور بنا دیا ہے‬
‫دھنک کے رنگ میں گرد ممات گرتی ہے‬

‫صنعت فوق النمط کا استعمال‬
‫مرے خلاؾ صؾ آرا‘ مرے خلاؾ گواہ‬

‫صنعت تحت النمط کا استعمال‬
‫میں ایک پر کے سہارے عبور کر لوں گا‬

‫ایک صورت یہ بھی ہے‬
‫دھنک کے رنگ میں گرد ممات گرتی ہے‬

‫بانمط اور بےنمط آمیزہ ملاحظہ ہو‬

‫وہی پناہ کا جنگل‘ وہی سگ مامور‬

‫تلمیع اختصار اور بلاؼت میں اضافے کا سبب بنتی‬
‫ہے۔ اس سے امکانی مماثلت بھی سامنے آتی ہے۔‬
‫اختر حسین جعفری کے ہاں اس صنعت کا بڑی خوبی‬
‫اور کمال کی ہنرمندی سےاستعمال ملتا ہے۔ اس ذیل‬

‫میں یہ مثال ملاحظہ ہو۔‬

‫زبان تشنہ نہ رکھ آب شور پر کہ مری‬
‫خمیدہ پشت پر رکھا ہے اب بھی مشکیزہ‬

‫ان کا سوالیہ انداز ان کے لفظوں کو زندگی کے کرخت‬
‫مناظر سے ادھر ادھر ہونے نہیں دیتا۔ مثلا‬
‫کہاں ہے جوہر صورت کہاں زر معنی‬
‫بتا کہ کون سے بازو پہ ہے رسن کا نشان‬
‫سوال عدل تھا یا احتجاج تھا‘ کیا تھا‬
‫یہ کیسے خواب کا پانی ہے کور آنکھوں میں‬
‫خلاؾ کس کے ہے صبح عناد کا دعوے‬

‫سوال معنویت تلاشتے اور ممصدیت کو واضح کرتے‬
‫ہیں۔ یہ اپنے عہد کے جبر اور تشنہءتکمیل آرزوں‘‬
‫خواہشوں اور ضروتوں کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ زندگی‬
‫کے جمود کو بھی سامنے لاتے ہیں۔ سوال درحمیمت‬
‫زندگی کو رستہ دکھاتے ہیں اور سوچوں کے عمل کو‬

‫متحرک رکھتے ہیں۔‬
‫سردست‘ میرے پیش نظر اختر حسین جعفری کی نظم‬
‫آئینہ خانہ ہے اور اسی کے حوالہ سے‘ ان کے کلام‬
‫کی زبان کا مطالعہ پیش کر سکا ہوں۔ میرا اصرار ہے‘‬
‫کہ انہوں نے کلاسیکل زبان میں‘ اپنے آج کو‘ بڑی‬

‫کامیابی سے واضح کیا ہے۔ نئی اور عصری فکر کے‬
‫لیے‘ نئی اور عصری زبان کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔‬
‫اختر حسین جعفری نے ثابت کر دیا ہے‘ کہ زبان کا‬

‫استعمال ہی‘اصل کمال ہنر ہے۔ سب کچھ نیا اور‬
‫عصری ہو‘ لیکن پیش کش سلیمے سے عاری ہو‘ تو‬

‫لطؾ ؼارت ہو جاتا ہے۔‬

‫اختر حسین جعفری کا کلام‘ ہر عہد میں‘ اس امر کی‬
‫دلیل رہے گا‘ زبان کا درست اور برمحل استعمال نئے‬
‫اور پرانے کی تخصیص کو ختم کر دیتا ہے۔ صاحب‬

‫سلیمہ زبان کی انگلی نہیں پکڑتا زبان کو اس کی‬
‫انگلی پکڑ کر چلنا پڑتا ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں‬
‫سے دیکھا ہے مہدی حسن اور پٹھانے خان کے طبلہ‬
‫نواز پسینے میں ڈوب گیے ہیں۔ ہر دو فن کاروں کے‬
‫طبلہ نواز بڑے پھنے خاں تھے لیکن دب کر رہے۔ یہ‬
‫ہی مہدی حسن اور پٹھانے خان کی آواز کا جادو تھا۔‬

‫اختر حسین جعفری کے ہاں بھی لفظوں کی یہ ہی‬
‫حالت ہوتی ہے۔ نئے مفاہیم لیتے‘ انہیں پسینہ آ جاتا‬
‫ہے۔ خدا لگتی تو یہ ہی ہے‘ کہ لفظوں کو اختر حسین‬
‫جعفری کی انگلی پکڑنا پڑتی ہے اور اپنی مرضی‬
‫ومنشا سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ لؽوی اور مستعملی‬

‫مجبوری یکسر دم توڑ دیتی ہے۔‬

‫فرش سماعت‘ مفہوم کا چہرہ‘ سحر کی شاخ‘ برہنہ‬
‫آنکھ‘ ‘نشیب درد‘ لذت لاحاصلی۔۔۔۔۔سسی فس۔۔۔۔۔وؼیرہ‬

‫سے مرکبات کب پڑھنے سننے میں آئے ہیں۔‬
‫لفظ اختر حسین جعفری کے ہاتھ میں کھلونے کی‬
‫حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ انہیں اپنی مرضی کے معنی‬
‫دیتے ہیں اور اپنی مرضی کی فکر ان کے باطن میں‬
‫اتارتے ہیں۔ لاری ان کی زبان سے ناصرؾ لطؾ اندوز‬
‫ہوتا ہے بلکہ اسے ان کی معنویت تک رسائی کے لیے‬
‫رکنا بھی پڑتا ہے۔ اسی حوالہ سے چند مصرعے‬

‫ملاحظہ ہوں‬

‫فلک کی شاخ سے اتریں وہ طائران ابد‬
‫شنید و دید کے کاسہ بدست منظر کب‬
‫طلب کریں گے بہا‘ چشم سیر لوگوں سے‬
‫فمیہ شہر نے دیکھا ہے روئے لاتل میں‬
‫جلی زمین کا چہرہ‘ شکستہ شاخ کا زخم‬
‫اس استعاراتی زبان کے مطالعہ کے لیے‘ بلاشبہ‬
‫گہرے سوچ کی ضرورت‘ ہر لدم پر محسوس ہوتی‬
‫ہے۔ اختر حسین جعفری سے لوگ ہی‘ اہل زبان کی‬

‫صؾ میں کھڑے اچھے لگتے ہیں اور للب ونظر کا‬
‫سرور ٹھہرتے ہیں۔‬

‫جواب‪ :‬اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ‬
‫بروز‪ :‬ستمبر ‪ 06:31:54 ,2014 ,07‬شام‬

‫عزیز مکرم حسنی صاحب‪ :‬سلام علیکم‬
‫میں نے آپ کے اس ممالہ سے لبل اختر حسین جعفری‬
‫صاحب کی کوئی تحریر نہیں دیکھی تھی۔ ظاہر ہے کہ‬

‫امریکہ میں رہ کر بر صؽیر کے حالات سے مکمل‬
‫والفیت ممکن نہیں ہے۔ یہاں نہ رسالے میسر ہیں‪ ،‬نہ‬
‫کتابیں ملتی ہیں اور نہ ہی دور دور تک اصحاب فکر‬
‫ونظر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ جیسے بالػ نظر‬
‫ادبا کی نگارشات سامنے نہ آئیں تو ہماری ادبی زندگی‬
‫مستمل خشک سالی کا شکار رہے۔ آپ کا دلی شکریہ‬
‫کہ ایسے تازہ اور خوش آئند مضامین سے ہم لوگوں‬
‫کے شوق وشعور کی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔ الله آپ‬

‫کو جزائے خیر سے نوازے۔‬
‫آپ کا مضمون نہایت دلچسپ ہے۔ آپ اختصار پسند ہیں‬

‫جو اپنی جگہ بڑی بات ہے لیکن ہم لوگوں کی سیری‬
‫نہیں ہوتی ہے۔ ایک تو اختر صاحب کی کوئی مکمل‬
‫نظم یا تحریر سامنے نہیں ہے اور دوسرے آپ کی‬
‫مختصر نویسی ہمارے لئے ایک احساس تشنگی چھوڑ‬
‫جاتی ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو ایک تجویز سامنے‬
‫رکھوں یعنی یہ کہ آپ اختر صاحب کی ایک دو ؼزلیں‬
‫یا نظمیں عنایت کریں اور پھر ان کے حوالے سے‬
‫اختر صاحب کی اپج اور انفرادیت پر گفتگو کریں۔ یمین‬

‫کیجئے کہ بڑا لطؾ آئے گا اور ہم سب اس سے‬
‫مستفید ہوں گے۔ کام ضرور ولت طلب ہے لیکن‬
‫ضروری بھی ہے۔ امید ہے کہ آپ ؼور فرمائیں گے۔‬
‫آپ کی کتاب شائع ہونے والی تھی۔ معلوم نہیں اس کا‬

‫کیا ہوا۔ از راہ کرم بتائیں۔ شکریہ‬

‫سرور عالم راز‬

‫=‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic‬‬
‫‪9163.0‬‬

‫جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر‬
‫بروز‪ :‬جولائی ‪ 12:16:15 ,2014 ,27‬صبح‬

‫ہر مستعل لفظ کے معنی ہمارے ذہن میں محفوظ ہوتے‬
‫ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم پر کہی ہوئی بات کو سمجھ‬
‫جاتے ہیں۔ کچھ لفظ مانوس نہیں ہوتے لیکن دوسرے‬
‫لفظوں کے سیاق وسباق میں سمجھنا مشکل نہیں ہوتا۔‬
‫لفظ کرسی سنتے ہی ہمارے ذہن میں بیٹھنے والی چیز‬

‫کا تصور گھوم جاتا ہے۔‬
‫کہا جاتا ہے بیٹھیے تو ہم بیٹھ جاتے ہیں۔‬

‫برا‘ اچھا‘ سیاہ‘ خوب صورت وؼیرہ کی تفہیم‘ ہمارے‬
‫ذہن میں موجود ہوتی ہے‘ لیکن کسی شے کا تصور‬
‫ہمارے ذہن میں نہیں ابھرتا۔ یہ تخصیصی یا توصیفی‬
‫لفظ‘ جب کسی اسم کے ساتھ جڑتے ہیں‘ تو اس کی‬

‫ذاتی شناخت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ ایک‬
‫مخصوص ایمیج بھی‘ ان کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے۔‬

‫زبانوں میں‘ اس نوعیت کے مرکبات کا استعمال‬
‫بکثرت ہوتا آیا ہے۔ یہ تخصیص کے ساتھ‘ دل چسپی‬

‫اور توجہ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ان سے‘ ایک‬
‫تصویری خاکہ بھی تشکیل پاتا ہے۔‬

‫ہر زبان کی شاعری میں مرکبات کا استعمال ہوتا آیا‬

‫ہے۔ ان مرکبات کے حوالہ سے مختلؾ نوعیت کے‬
‫ایمیج تشکیل پائے ہیں۔اردو شاعری اس سے تہی‬
‫نہیں۔ اردو شاعری میں بھی مختلؾ طرح کے مرکبات‬
‫نظر آتے ہیں۔ گویا موجود اور خیالی تصاویر کا جہاں‬

‫آباد ہے۔‬

‫جہاں شعری حسن اور اختصار کلام کے ‘مرکبات‬
‫حوالہ سے اپنی افادیت رکھتے ہیں‘ وہاں کسی ناکسی‬

‫ایمیج کو بھی‘ تشکیل دے رہے ہوتے ہیں۔ ان کی‬
‫تمسیم بھی‘ نکرہ اور معرفہ کی سی ہوتی ہے۔ اسمی‬
‫تخصیص کے لیے بھی‘ مرکبات کی وجودی حیثیت‬
‫ناگزیر ہو جاتی ہے۔ نثر میں‘ ان کا استعمال اسلوبی‬
‫اور تفہیمی حوالہ سے‘ شاعری سے لطعی ہٹ کر ہوتا‬
‫ہے۔ فکشن اور انشاء پردازی میں‘ یہ کبھی کبھی‬

‫شاعری کے لریب تر چلے جاتے ہیں اور مختلؾ‬
‫نوعیت کے ایمجز کو تشکیل دیتے ہیں تاہم نثری اور‬
‫شعری مرکبات میں‘ اس کے باوجود فرق رہتا ہے۔‬

‫اردو شاعری میں‘ استاد ؼالب وہ شاعر ہیں‘ جن کا‬
‫دیوان انتہائی مختصر ہو کر بھی‘ محاکات سے بھرا‬
‫پڑا ہے۔ ان کے مرکبات‘ دنیا کا خوب صورت ترین‬

‫عجائب گھر ہے۔ رنگا رنگ‘ عجیب و ؼریب اور ؼور‬
‫وفکر کے حامل‘ تصویری مرکبات پڑھنے کو ملتے‬
‫ہیں۔ کمال کی مصوری کرتا ہے۔ اس ذیل میں‘ ان کے‬
‫ہاں بڑا تنوع ہے۔ ان کے دیوان کی پہلی ؼزل کے تین‬

‫‪:‬مرکب ملاحظہ ہوں‬
‫جذبہءبےاختیار‘ سینہء شمشیر‘ موئے آتش دیدہ۔۔۔۔۔۔‬

‫اب ان مرکبات کو شعر کے تناظر میں ملاحظہ‬
‫‪:‬فرمائیں‬

‫جذبہء بےاختیار شوق دیکھا چاہیے‬
‫سینہء شمشیر سے باہر ہے‘ دم شمشیر کا‬
‫لفظ دم کو سادہ نہ لیجیے گا‘ ذومعنویت اور طرح داری‬
‫میں‘ بڑے اوج پر ہے اور اسی کی تفہیم پر ہی‘ پورے‬

‫شعر کا دارو مدار ہے۔‬
‫بسکہ ہوں ؼالب اسیری میں بھی آتش زیرپا‬

‫موئے آتش دیدہ ہے حلمہ مری زنجیر کا‬
‫بسکہ ہوں ؼالب‬
‫اسیری میں بھی‬
‫آتش زیرپا‬

‫موئے آتش دیدہ ہے‬
‫حلمہ مری زنجیر کا‬
‫اب لرآت کا مزا لیں۔‬

‫مرکب موئے آتش دیدہ کا تصویری حسن‘ کھل کر‬
‫سامنے آ جائے گا۔‬

‫استاد ؼالب کے بعد‘ اردو شاعری میں البال بڑی‬
‫شہرت رکھتا ہے۔ بانگ درا میں اس کا ‪ ١٩٠٨‬تک کا‬
‫کلام ہے۔ اس مجموعے کی چوتھی نظم‘ استاد ؼالب‬
‫سے متعلك ہے۔ اس میں انہیں گوئٹے کا ہم نوا لرار‬

‫دیا ہے۔ نظم کا آخری سے پہلا شعری ملاحظہ‬
‫‪:‬فرمائیں‬

‫لطؾ گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں‬
‫ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں‬

‫اس نظم کے مطالعہ سے‘ واضح ہوتا ہے‘ کہ البال نے‬
‫استاد ؼالب کی زبان اور فکر سے‘ استفادہ کیا۔ البال‬
‫کا مطالعہ مشرق و مؽرب پر محیط تھا۔ البال نے اردو‬
‫شاعری کو نئی زبان دی ہے‘ لیکن اس کے موجود‬
‫کلیات کو‘ تصویر خانہ لرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے‬
‫ہاں تصویری مرکبات پڑھنے کو ملتے ہیں‘ لیکن انہیں‬
‫ؼالب کے پایہ کا‘ لرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی وجہ‘‬
‫شاید کس حد تک‘ ممصدی شاعر رہی ہو۔ بطور نمونہ‬

‫دو مرکب ملاحظہ ہوں۔‬

‫عمابی روح‬
‫عمابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں‬
‫نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں‬
‫نظم‪ :‬ایک نوجوان کے نام‘ مجموعہ بال جبریل‬

‫رہزن ہمت‬
‫رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا‬
‫بحرتھا صحرا میں تو‘ گلشن میں مثل جوئے ہوا‬
‫نظم‪ :‬شمع و شاعر‘ مجموعہ بانگ درا‬

‫فیض نے‘ اپنے مخصوص نظریاتی اور خفیہ لسم کی‬
‫زبان کے حوالہ سے‘ بڑا نام پایا۔ اس کی زبان میں‬
‫حسن اور مٹھاس ہوتی ہے۔ اپنے عہد کے جبر کو‘‬
‫مختلؾ لسم کے طریموں سے‘ واضح کرتا ہے۔ اس کی‬
‫علامیتں اور استعارے‘ درامدہ نہیں ہیں‘ بلکہ اسی‬
‫معاشرت سے اٹھتے ہیں۔ ان حمائك کے باوجود‘ اس‬
‫کے ہاں محاکاتی مرکبات کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ ہاں جو‬
‫محاکاتی مرکبات میسر آتے ہیں‘ وہ اپنا ہونا بڑی‬
‫صراحت سے واضح کرتے ہیں۔ فمط دو مرکب ملاحظہ‬

‫فرمائیں۔‬
‫دوزخی دوپہر‬
‫اب اس مرکب کو مصرعوں کے تنانظر میں دیکھیں‘‬

‫ایک ماحول اور کیفیت کو اجاگر کرنے میں‘ اپنا حك‬
‫ادا کر رہے ہیں۔‬

‫بے زباں درد و ؼیظ و ؼم کی‬
‫اس دوزخی دوپہر کے تازیانے‬

‫آج تن پر دھنک کی صورت‬
‫لوس در لوس بٹ گیے ہیں‬
‫!نظم‪ :‬اے شام مہرباں ہو‬

‫حالات کی ہولناکی کو اس سے بڑھ کر پیش نہیں کیا‬
‫جا سکتا۔‬

‫اسی لماش کا ایک اور مرکب ملاحظہ ہو‬
‫دکھ کی ندیا‬

‫جب دکھ کی ندیا میں ہم نے‬
‫جیون کی ناؤ ڈالی تھی‬

‫تھا کتنا کس بل باہنوں میں‬
‫لہو میں کتنی لالی تھی‬

‫نظم‪ :‬تم ہی کہو کیا کرنا ہے‬

‫مرکب ۔۔۔۔۔۔ جیون کی ناؤ۔۔۔۔۔۔۔ خصوصی اہمیت کا حامل‬
‫ہے۔ پہلا وصفی‘ جب کہ دوسرا تشبیہی ہے۔ دونوں‬
‫مرکب‘ ایک مخصوص ایمیج پیش کر رہے ہیں۔ یہ بھی‬

‫کہ دونوں ایک دوسرے سے انتہائی متعلك ہیں۔‬

‫ن م راشد‘ جدید اردو شاعری میں اپنی الگ سے‬
‫شناخت رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں‘ ذات اور کائنات کے‬
‫معاملات ملتے ہیں۔ ذات سے کائنات‘ یا کائنات سے‬
‫ذات کی طرؾ‘ پھرنے کے رویے‘ بڑی حد تک متوازی‬
‫نظر آتے ہیں۔ راشد بھی‘ محاکاتی مرکب تشکیل دیتے‬

‫ہیں‘ لیکن ان کی بہتات نہیں‘ ہاں البتہ‘ ان کی‬
‫اکثرنظمیں‘ دیگر لوازات شعر کے استعمال سے‬
‫تصویر تشکیل دیتی ہیں۔ کہیں واضح ہوتی ہیں‘ کہیں‬
‫دھندلاہٹ کا شکار ہوتی ہیں اور بعض‘ معاملے کے‬
‫پس منظر میں ہوتی ہیں۔ ان کے دو محاکاتی مرکب‬

‫‪:‬بطور ذائمہ ملاحظہ فرمائیں‬
‫روح کے تار‬

‫‪:‬اب اسے‘ مصرعوں کے تناظر میں دیکھیں‬
‫ہوش آیا تو میں دہلیز پہ افتادہ تھا‬

‫خاک آلودہ و افسردہ و ؼمگین و نزار‬
‫پارہ پارہ تھے مری روح کے تار‬
‫نظم‪ :‬گناہ‬

‫‪:‬کیا خوب صورت مرکب ہے آپ بھی لطؾ لیں‬
‫تشنہ سراب‬

‫اب اس مرکب کی معنویت مصرعوں کی ترتیب میں‬
‫‪:‬تلاشیں‬

‫ولت کے پابند ہاتھ‬
‫راہوں کا ؼمگیں جواب‬

‫‘سنتے رہے‬
‫سبزے کے تشنہ سراب‬

‫رات کا دیوانہ خواب‬
‫تکتے رہے‬
‫نظم‪ :‬گزر گاہ‬

‫خدا لگتی تو یہ ہی ہے‘ کہ زندگی اپنے پورے وجود‬
‫سے‘ دکھائی دیتی ہے۔ دیوانہ خواب‘ کمال کا محاکاتی‬
‫مرکب ہے۔ اسے چشم تخیل میں‘ تجسیم دیں‘ زندگی‬
‫واضح ہو جائے گی۔ اس کے استعمال میں‘ کمال کی‬
‫ورفتگی ہے۔ یہ سب ؼور کرنے پر انحصار کرتا ہے۔‬

‫جدید اردو شاعری میں‘ مجید امجد کو نظر انداز نہیں‬
‫کیا جا سکتا۔ ان کے کلام میں‘ اوروں کی نسبت‘ رنگا‬

‫رنگی اور گہما گہمی زیادہ ہے۔ ؼالبا اس کی چار‬
‫‪:‬وجوہ ان کی شخصیت کا حصہ رہیں‬

‫ا۔ وہ اردو‘ انگریزی اور فارسی ادب کا مطالعہ رکھتے‬

‫تھے۔‬
‫ب۔ محروم بچپن اور نامراد جوانی ورثہ میں ملی۔‬
‫ج۔ سنتے بہت تھے‘ لیکن کہتے کچھ بھی نہ تھے۔‬
‫شاعری کو‘ گویا ذات کےانشراع کا ذریعہ بنایا۔ شہرت‬

‫اور ناموری کا عنصر موجود نہ تھا۔‬
‫د۔ ہم درد اور دیانت دار تھے۔‬

‫یہ چاروں عناصر‘ کسی ناکسی صورت میں‘ ان کے‬
‫ہاں نظر آتے رہتے ہیں۔ ان عناصر نے‘ انہیں بڑا‬
‫شاعر بنانے میں‘ نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کے ہاں‬

‫شخصی اور سماجی تصاویر کی کمی نہیں۔ یہ محاکاتی‬
‫مرکبات‘ گوناں انفرادیت کے حامل ہیں۔ نمونہ کے دو‬

‫‪:‬مرکب ملاحظہ ہوں‬
‫کرنوں کے ریزے‬
‫اب اس مرکب کو مصرعوں کے حوالہ سے دیکھیں۔‬
‫کیا کمال کی مصوری ہے۔‬
‫سدا جو ہم کو اپنے مشبک ؼرفوں سے دیکھیں‬
‫جیسے پورب کی دیوار پہ‘ انگوروں کی بیلوں میں‬
‫بڑھتے‘ رکتے‘ ننھے ننھے‘ چمکیلے نمطے‬
‫کرنوں کے ریزے‬
‫چمکیلے نمطے اور پورب کی دیوار کی اہمیت اپنی‬

‫جکہ پر موجود ہے۔‬
‫مجید امجد کے ہاں‘ ایک سے ایک بڑھ کر‘ محاکاتی‬
‫مرکب ملتا ہے۔ ہر مرکب گہری معنویت کا حامل ہوتا‬
‫ہے۔ چشم تصور کہاں سے کہاں‘ لے جاتی ہے۔ ذرا‬

‫‪:‬اس مرکب کو بھی دیکھئے‬
‫لمبی دھوپ‬

‫اس مرکب کو ان دو مصرعوں کے تحت ملاحظہ‬
‫‪:‬فرمائیں‬

‫لمبی دھوپ کے ڈھلنے پر اب‘ مدتوں بعد ایک دن یہ‬
‫آیا ہے‬

‫دن جو ایسے دنوں کی یاد دلاتا ہے جو سدا ہمارے‬
‫ساتھ ہیں‬

‫ہمارے ساتھ ہیں‘ میں بلا کی معنویت پوشیدہ ہے۔‬

‫اردو شعر کی دنیا میں‘ ان گنت فکری‘ لسانی اور‬
‫اسلوبی رنگ ملتے ہیں۔ اہل شعر نے‘ بلاشبہ شعر کو‬

‫نئے نئے لباس سے آراستہ کیا ہے۔ نئے نئے‬
‫محاورات دئے ہیں۔ دنیا کی دیگر زبانوں کی شاعری‘‬
‫میر اور ؼالب نہیں دیکھا سکتی۔ میر زبان اور ؼالب‬
‫نے اردو کو اپنی فلک بوس فکر سے‘ مالا مال کیا۔‬
‫بدلسمتی یہ رہی ہے‘ یہاں ‘اپنا آدمی‘ کے حوالہ سے‘‬

‫اہل سخن کو پرموٹ کیا گیا ہے۔ اسی طرح کرسی لریب‬
‫کے لوگوں کو بھی‘ زمین سے اٹھا کر آسمان پر بیٹھا‬
‫دیا گیا ہے۔ معتوب تو جہنم رسید کیے گیے ہیں۔ ان کا‬

‫کلام ردی چڑھا ہے۔‬

‫اب میں تین ایسے اہل سخن کا ذکر کرنے جا رہا ہوں‘‬
‫جن میں سے‘ دو نظر انداز ہوئے ہیں اور ایک کرسی‬

‫کی دائیں آنکھ پر رہا ہے۔‬

‫علامہ بیدل حیدری کی زبان صاؾ شفاؾ اور الجھاؤ‬
‫سے پاک ہے۔ ان کا انداز اور لہجہ‘ بڑا جان دار ہے۔‬
‫وہ زندگی کے ان گنت نشیب و فراز سے گزرے۔ یہ ہی‬
‫وجہ ہے‘ کہ ان کا اسلوب عصری حیات کے معاملات‬

‫کو‘ بڑی خوبی سے‘ اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔‬
‫مضامین کی رنگا رنگی‘ انہیں منفرد بنانے میں‘ اپنا‬
‫کردار ادا کرتی ہے۔ وہ زندگی کے عمك میں‘ ؼوطہ‬
‫زن ہوتے ہیں۔ یہ بات مبالؽے سے باہر ہے‘ کہ ؼالب‬
‫کے بعد‘ اردو شاعری کو اتنا بڑا شاعر‘ دستیاب ہوا‬
‫ہے۔ زندگی نے عسرت دی‘ لیکن اس نے اپنے گلاب‬
‫سے لفظوں سے‘ زندگی کو سرفراز کیا۔ فمط دو تین‬
‫محاکاتی مرکبات ملاحظہ فرمائیں۔ ان کے حوالہ سے‘‬

‫یہ جاننے میں‘ ہرگز دشواری نہ ہو گی کہ وہ فکری‬
‫اور لسانی حوالہ سے‘ کس ممام پر فائز تھے۔‬
‫چادر مہتاب‬
‫اب اس مرکب کو مصرعوں میں دیکھیں۔‬
‫کملی بھی اس کی چادر مہتاب کا ؼرور‬
‫اور زلؾ مشکبار کا حلمہ بھی روشنی‬
‫نظم‪ :‬روشنی‬

‫مہتاب کا ؼرور۔۔۔۔۔۔۔ بھی اہل سخن کی خصوصی توجہ‬
‫کا طالب ہے۔‬
‫سحر کے پاؤں‬

‫اب اسے مصرعوں کے تناظر میں ملاحظہ فرمائیں۔‬
‫فضائے امن و محبت کی آرزو ہے اگر‬
‫تو آفتاب افك سے اچھالنا ہو گا‬
‫سحر کے پاؤں سے کانٹا نکالنا ہو گا‬
‫نظم‪ :‬لصہ پارینہ‬
‫سورج کی جوانی‬

‫اس مرکب کو مصروں کی دنیا میں ملاحظہ فرمائیں‬
‫مخلوق خدا کا وہ پسینے میں نہانا‬
‫یاد آ گیا سورج کی جوانی کا زمانہ‬
‫نظم‪ :‬گرمیوں کی پہلی بارش‬

‫اختر حسین جعفری‘ معتوب اہل سخن میں سے تھے‘‬
‫تب ہی تو‘ نظر انداز ہوئے‘ اور پاریکھوں کے للم پر‬
‫نہ آ سکے۔ سچی اور خدا لگتی بات تو یہ ہے‘ کہ وہ‬

‫عصر جدید کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ان کی فکر‬
‫عصری حوالوں کی عکاس ہے‘ لیکن زبان کا معاملہ‬
‫مختلؾ ہے۔ ان کی زبان کلاسیکل ہے‘ لیکن اس کا‬
‫استعمال کلاسیکل نہیں۔ انداز اور اسلوب‘ کلاسیکیت‬
‫سے میل نہیں کھاتا۔ زبان کی تفہیم کلاسیکل پیمانوں‬
‫کے حوالہ سے‘ ممکن ہی نہیں۔ یہ صورت حال کس‬
‫جدید شاعر میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ گویا وہ نئی‬

‫شعری زبان کے موجد ہیں۔ ان کے لفظوں کو‘‬
‫سمجھنے کے لیے‘ عصری حیات کا شعور میسر ہونا‬
‫ضروری ہے۔ عصری حیات کے شعور کے بؽیر‘ ان کا‬

‫کلام سمجھا نہیں جا سکتا۔‬
‫لفظ کی تفیم کے بارے میں ان کا مولؾ ہے۔‬

‫کہاں ہے جوہر صورت کہاں زر معنی‬
‫جگائیں حرؾ کو خواب سفر سے اور پوچھیں‬
‫کہاں وہ لصر ہے جس کے کھلے دریچے سے‬

‫دکھائی دیتا ہے مفہوم کا نیا چہرا‬
‫ایک دوسری جگہ کہتے ہیں‬

‫بتائے کون کہ کاؼذ کی سطح خالی پر‬

‫بؽیر حرؾ بھی نمطہ وجود رکھتا ہے‬
‫اب ان کے چند اک محاکاتی مرکبات ملاحظہ فرمائیں‬

‫فرش سماعت‬
‫اب اس مرکب کو مصرعوں کے تناظر میں ملاحظہ‬

‫فرمائیں۔‬
‫اٹھائیں فرش سماعت سے لفظ لفظ کی خشت‬
‫صدا کے خشک سمندر کو چھان کر دیکھیں‬

‫برہنہ آنکھ‬
‫اب اس مرکب کو مصرعوں کے تناظر میں ملاحظہ‬

‫فرمائیں۔‬
‫ملے فراغ کبھی جو خمار حاصل سے‬
‫برہنہ آنکھ سے وہ نشہء سفر دیکھوں‬
‫تین مرکباب اور دیکھ لیں لطؾ آئے گا۔‬

‫بینیوں کے طلسم‬
‫طلب کی ہوا‬

‫گریز کے پھول‬
‫مصرعے دیکھیے‬
‫سر نگاہ وہی پیش بینیوں کے طلسم‬
‫وہی طلب کی ہوا‘ وہی گریز کے پھول‬
‫کمال ہے‘ ؼالب کا لہجہ‘ ؼالب کا سا انداز اور تفہیم‬
‫کے ضمن میں وہ ہی دشواری۔‬

‫ممصود حسنی بھی نظرانداز اہل سخن میں سے ہیں۔‬
‫ان کی یہ نظم دیکھیے ایک ہی نظم میں سات محاکاتی‬

‫مرکبات پڑھنے کو ملتے ہیں۔‬
‫ممتا‬

‫ممتا جب سے‬
‫صحرا میں کھوئی ہے‬
‫خون میں سوئی ہے‬
‫کشکول میں بوئی ہے‬

‫سفید پرندہ‬
‫خون میں ڈوبا‬
‫خنجر دیواروں پر‬
‫چاند کی شیشھ کرنوں سے‬
‫شبنم لطرے پی کر‬
‫سورج جسموں کی‬
‫شہلا آنکھوں میں‬
‫اساس کے موسم سی کر‬
‫کھنڈر ہونٹوں پر‬
‫سچ کی موت کا لصہ‬
‫حسین کے جیون کی گیتا‬
‫وفا کے اشکوں سے‬

‫لکھ کر‬
‫برس ہوئے‬
‫مکت ہوا‬

‫خنجر دیواریں‘ شیشھ کرنیں‘ سورج جسم‘ شہلا‬
‫آنکھیں‘ اساس کے موسم‘ کھنڈر ہونٹ‘ جیون کی گیتا‬

‫درج بالا معروضات کے تناظر میں‘ یہ کہنا کسی طرح‬
‫ؼلط نہ ہو گا‘ کہ جدید شاعری کا مطالعہ‘ فکری‬

‫اسلوبی اور لسانی حوالہ سے‘ ؼیر مفید نہیں رہے گا۔‬
‫اسی طرح معتوب اور نظر انداز شعرا کو تحمیمی‬
‫ورثے میں داخل کرنا‘ زبان کو ثروت دینے کے‬
‫مترادؾ ہو گا۔ نئے نئے محاورے دستیاب ہوں گے۔‬

‫استعارے‘ علامتیں‘ تشبیہات وؼیرہ ہاتھ لگیں گی۔ یہ‬
‫تردد اور توجہ‘ اردو زبان پر بہت بڑی نیکی ہو گی۔‬

‫=‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic‬‬
‫‪9105.0‬‬

‫اردو ہائیکو ایک مختصر جائزہ‬

‫ہا یئکو میں بنیادی چیز اس کا نظریہ تخلیك ہے جبکہ‬
‫ہیئت ثانوی معاملہ ٹھہرتا ہے۔ نظریہ تخلیك میں تین‬

‫باتیں آتی ہیں‬
‫‪١‬۔ کسی چیز‘ خصوصا فطری اور لدرتی عناصر پر‬
‫پہلی نظر پڑنے سے پیدا ہونے والا انسانی تاثر۔‬
‫‪٢‬۔ اس تاثر کو اسی طرح کاؼذ للم کے حوالے کر دینا۔‬
‫‪٣‬۔ پیدا ہونے والے تاثر میں کی لسم کی آلودگی کو‬

‫شجر ممنوعہ سمجھنا۔‬
‫ہمارے ہاں اردو میں جناب پروفیسر محمد امین(پی ایچ‬
‫ڈی) نےاس جاپانی صنؾ سخن کو متعارؾ کرایا۔ اس‬
‫صنؾ شعر کے تین مصرعے لرار پائے۔ اس ذیل میں‬

‫چند مثالیں ملاحظہ ہوں‬

‫یہ سفر ہے لیام ہے کیا ہے‬
‫یہ مسافت کہ طے ہوئی نہ کبھی‬
‫زندگی کیا ہے‘ رتجگوں کا سفر‬

‫)محمد امین(‬

‫صبر لکھا گیا لہو سے ترے‬
‫تشنگی سو رہی تھی خیموں میں‬

‫ساتھ اس کے فرات بہتا تھا‬
‫)اختر شمار(‬

‫مجھ کو اتنی سی روشنی دے دے‬
‫دل کے کمرے میں بیٹھ کر پل بھر‬

‫اپنے حالات زندگی پڑھ سکوں‬
‫)حیدر گردیزی(‬

‫بعد ازاں اس کے اوازن پر مباحث کا سلسلہ چل نکلا۔‬
‫اس میں ارکان ‪ ٥-٧-٥‬کی پابندی لازم ٹھہری۔‬
‫میں ‪١٩٨٦‬‬

‫ممصود حسنی کے نثری ہائیکو کا مجموعہ سپنے‬
‫اگلے پہر کے شاءع ہو گیا۔ یمینا یہ بہت بڑا باؼیانہ‬
‫الدام تھا۔ خیال تھا کہ یہ مجموعہ اچھی خاصی لے دے‬
‫کا شکار ہو گا۔ خدشات کے برعکس اسے پذیرائ‬
‫حاصل ہوئ۔ اس کے مختلؾ زبانوں میں تراجم ہوئے۔‬
‫نثری ہائیکو کے پیش کرنے کا ممصد پہلے تاثر کو‬
‫برلرار رکھنا تھا۔ نثری کلام میں آہنگ کو بنیادی حثیت‬
‫حاصل ہوتی ہے۔ آہنگ درحمیت توازن کا نام ہے۔ بطور‬

‫نمونہ کچھ ہائیکو ملاحظہ فرماءیں‬

‫کالا کوا‬
‫کالی راتوں میں‬
‫مہمان ہوااجالوں کا‬

‫آؤ زہد و تما‬
‫تملید عصر میں‬
‫پامیلا کے نام کر دیں‬

‫جیون کے پچھلے پہر‬
‫اگلے پہر کے سپنے‬
‫سونے نہیں دیتے اکثر‬

‫پروفیسر صابر آفالی (پی ایچ ڈی) کا کہنا تھا کہ ہائیکو‬
‫نثری نہیں ہیں۔ ان کے ہر مصرعے میں وزن موجود‬
‫ہے اور تینوں مصرعوں کے اوازن الگ الگ ہیں۔‬
‫بات ذرا آگے بڑی تو پہیلے اور تیسرے مصرعے کو‬
‫ہم لافیہ لرار دے دیا گیا۔ اس ضمن میں یہ نعتیہ ہائیکو‬

‫ملاحظہ ہو‬

‫نام ادب سے لے‬
‫سارے اجالے پھیلے ہیں‬

‫اسم محمد سے‬

‫اصل معاملہ یہ ہے کہ مہاجراپنے دیس کی سماجی‬
‫معاشی عمرانی اورنفسیاتی روایات ساتھ لاتا ہے لیکن‬
‫مہاجر ولایت میں یہ سب نہیں چلتا اسے مہاجر ولایت‬
‫کے اطوار اور اصول اپنانا پڑیں گے ورنہ وہ اول تا‬
‫آخر مہاجر ہی رہے گا۔ یہاں اس بات کو بھی بھولنا‬

‫نہیں چاہیے کہ یہ اردو ہائیکو کا ابتدائی دور تھا۔‬
‫انسان کی طرح یا انسان کے ساتھ ساتھ اصناؾ سخن‬
‫میں بھی تؽیرات آتے رہتے ہیں۔ ؼزل کو دیکھ اسے‬
‫کون ایرانی تسلیم کرے گا۔ اردو ؼزل میں ایرانی مزاج‬

‫کا ایک حوالہ بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا۔‬

‫ہائیکو آج پردیسی نہیں۔ اس کا رنگ ڈھنگ جاپانی‬
‫نہیں رہا۔ یہ اردو مزاج سے کلی طور پر ہم آہنگ ہے۔‬
‫اس کی روح میں اردو مزاج رچ بس گیا ہے لہذا اب‬
‫اسے اردو صنؾ ادب ہی کہا جانا مناسب لگتا ہے۔ ہاں‬
‫یہ تاریخی حمیمت رہے گی کہ ہاءیکو جاپان سے درامد‬
‫ہوئ ہے اور اس کا موڈھی پروفیسر محمد امین(پی ایچ‬
‫ڈی) ہے۔ زندگی اور اس کے متعلمات کو ہر حال میں‬
‫چلتے رہنا ہےمیرے یا کسی اور کے کہنے یا کوشش‬

‫سےیہ رک نہیں سکتے۔‬

‫چند جاپانی ہائیکوز درج کر رہا ہوں اوپر درج کئے‬
‫گئے اردو ہائیکوز سے موازنہ کر لیں‘ دونوں کے‬

‫مزاج میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا‬

‫برؾ‬
‫جو ہم دونوں نے دیکھی تھی‬

‫کیا اس سال بھی گرے گی‬

‫باشو‬

‫تنہائی بھی‬
‫مسرت ہے‬
‫شام خزاں‬

‫ہوسابوسان‬

‫کتنی حسین ہے‬
‫دروزے کے سوراخ سے‬

‫کہکشاں‬

‫کوباشی اسا‬

‫برسات‬
‫گھر کا رستہ سیلابی ہے‬
‫اور مینڈک وہاں تیر رہے ہیں‬

‫ماساؤکاشی کی‬
‫زرد پھولوں کی خوشبو‬
‫مترجم ڈاکٹر محمد امین‬
‫وکٹری بک بینک لاہور‘ ‪١٩٩٢‬‬

‫آج کی اردو ہائیکو اردو ؼزل کے مزاج سے بہت لریب‬
‫ہو کر بھی اپنی الگ سے پہچان اور رنگ ڈھنگ‬
‫رکھتی ہے۔ ہاءیکو نے خوش دلی سے اردو مزاج‬

‫اپنایا ہے۔ اپنے اس سبھاؤ کے سبب آتے ولتوں میں‬
‫اردو ہائیکواپنا جائز ممام حاصل کر لے گی اور اسے‬
‫وافر تعداد میں شاعر اور لاری میسر آ جاءیں گے۔‬

‫‪http://www.friendskorner.com/forum/showthread.php/‬‬
‫اردو‪-‬ہایکو‪-‬ایک‪-‬مختصر‪-‬جاءزہ‪295782-‬‬

‫ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی تحمیمی وتنمیدی زبان کے‬
‫سات رنگ‬

‫شخصیت کی مرکزی حس' جو کسی والعے' حادثے'‬
‫معاملے یا کسی اور وجہ سے' ترکیب پا گئی ہوتی ہے'‬

‫شخص کے معاملات میں ناچاہتے ہوئے بھی' دخیل‬
‫رہتی ہے۔ وہ رجحان یا تحریک نہیں ہوتی' بل کہ اسے‬

‫مجموعی رویے کا درجہ حاصل ہو گیا ہوتا ہے۔ یہ‬
‫حس' ہنرمندی میں بھی' کارفرما رہتی ہے۔ اسی کے‬
‫زیر اثر اسلوب ترکیب پاتا ہے۔ اس اسلوب کے حوالہ‬
‫سے' اس شخص کی شخصیت سامنے آ جاتی ہے۔‬
‫اسلوب اپنی اصل میں' اس شخص کی پرچھائی کے‬
‫درجے پر فائز ہوتا ہے۔ اس کی تخلیك اور ہنرمندی کا‬
‫تحمیمی مطالعہ کے دورانیہ میں اسلوب کی جہتوں کو'‬
‫کسی بھی سطح پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا باصوت‬
‫دیگر درست نتائج تک رسائی امکانات سے باہر رہتی‬

‫ہے۔‬

‫پروفیسر عبدالعزیز ساحر پی ایچ ڈی' اردو کے ایسے‬


Click to View FlipBook Version