مندرجات
میرے ابا۔۔۔۔۔۔ ایک مطالعیاتی جائزہ
اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ
جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر
اردو ہائیکو ایک مختصر جائزہ
ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی تحمیمی وتنمیدی زبان کے
سات رنگ
اختر شمار کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔ایک لسانیاتی جائزہ
محمد امین کی شاعری ۔۔۔۔۔۔۔ عصری حیات کی ہم سفر
میرے ابا۔۔۔۔۔۔ ایک مطالعاتی جائزہ
بروز :نومبر 08:58:10 ,2015 ,18شام
خاکہ' سوانح عمری کی نسبت' مختصر ہوتا ہے لیکن
اس میں' زیادہ سے زیادہ اس شخص' اس کے کنبہ
اور اس کے سماج سے راہ و رسم کے حوالہ سے'
معلومات فراہم کی گئی ہوتی ہیں۔ خاکہ کے دور نزدیک
کے جانو لکھاری ہونے کے سبب تین طور دیکھنے
کو ملتے ہیں۔
لکھنے والے کے ذاتی تعلك کے حوالہ سے معاملات
ولتی' اتفافیہ یا حادثاتی امور و اطوار
سنے سنائے یعنی باالوسطہ چلن کی سرگزشت
اول الذکر' بہت لریب کی صورت ہے' لیکن اس کا تعلك
دہلیز کے اس پار سے ہے' اس لیے یہ یک طرفہ
ہوتی ہیں کیوں کہ اس شخص کے' دہلیز کے اندر اور
دہلیز پار کے اطوار' مختلؾ اور اکثر برعکس ہوتے
ہیں۔ اس حوالہ سے' ان پر درست یا مکمل کی مہر'
ثبت نہیں کی جا سکتی۔
دوسری ولتی ہوتی ہے اور شخص کے' عمومی اطوار
سے لگا نہیں رکھتی۔ اس لیے' اسے پیمانہ ٹھہرا کر'
کوئی نتیجہ اخذ کرنا' درست نہیں ہوتا ہے۔
تیسری صورت لمحاتی ہوتی ہے .اسے بھی' شخصی
فطرت یا اس کی فطرت ثانیہ کا درجہ نہیں دیا سکتا
اور ناہی' اس کے حوالہ سے' شخصیت کا مجموعی
احاطہ کیا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی دہلیز کے اندر کا لکھتا ہے' تو اس کی ذاتی
محبت یا نفرت کا جذبہ ؼالب رہتا ہے' ہاں اگر اس کے
اندرونی و بیرونی احوال کو للم بند کر دیا جاتا ہے' تو
یہ دوطرفہ ہونے کے سبب' زیادہ معلومات افروز ہوتا
ہے' جس کے باعث' اس شخص کی شخصیت کو
جاننے اور پہچاننے میں' مدد ملتی ہے۔ ساتھ ساتھ
لکھنے والے اور دہلیز کے اندر کے بعض لوگوں کا'
تعارؾ اور ان کی شخصیت کے' مضبوط اور کم زور
پہلو بھی' سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔
ہر لکھنے والے کا' اپنا اسلوب ہوتا ہے لیکن خاکہ
نگاری میں' متعلك اور رسمی متعلك کا عنصر' اسلوب
پر اثر انداز ہوتا ہے بل کہ ؼالب رہتا ہے۔ متعلك میں'
محبت یا نفرت کے زیر اثر' اسلوب ترکیب پاتا ہے۔ اس
ذیل میں' ؼیرجانب داری کی ہر سعی' کسی ناکسی
سطح پر' ضرور مجروع ہوتی ہے اور یہ امر' بہرطور
بس کا نہیں ہوتا۔
اچھے خاکے کی' سب بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ لاری
کو' متاثر بھی کرے اور اس میں یہ خواہش پیدا ہو یا
:زور پکڑے
'کاش کہ یہ خوبی میرے کردار کا حصہ بن جائے '
اگر وہ خاکہ' لاری کے سوچ میں' کسی بھی سطح پر'
بدلاؤ کا سبب بنتا ہے' تو سمجھیے لکھنے والے کی
محنت' کارگر ثابت ہوئی۔ اسی طرح' کسی معاملہ سے
نفرت جنم لیتی ہے' تب بھی تحریر کو' کامیاب تحریر
لرار دیا جائے گا۔
عزیزہ مہر افروز کا تحریر کردہ خاکہ۔۔۔۔۔۔۔ میرے ابا
۔۔۔۔۔۔ نظر سے گزرا اور پھر' گزرتا ہی گیا۔ بلامبالؽہ
کہوں گا' کہ یہ کمال کی تحریر ہے۔ انہوں نے خان
صاحب مرحوم کی شخصیت کا' جس انداز سےاحاطہ
کیا ہے' وہ بلاشبہ داد کی مستحك ہیں۔ اس خاکہ کو
پڑھ کر' میرے دل میں دو خواہشوں نے جنم لیا
الله' اس سوچ اور فکر کی بیٹی سے' ہر کسی کو
.نوازے
کاش خان صاحب مرحوم سے اطوار' ہر کسی میں پیدا
جائیں۔
گھر کے ڈسپلن میں' ہر کسی کو ایسا ہی ہونا چاہیے'
.تاہم چیخ و پکار سے زیادہ' گھرکی جان دار ہو
اپنے بچوں کو' اپنے لریب رکھے' ان کے جائز امور
و معاملات سے' آگاہی رکھے اور بہتری میں براہ
راست ملوث رہے۔
علم حاصل کرئے اور اس کی تمسیم میں' بخل سے کام
نہ لے۔
اپنے بچوں کو' گفت گو یا کہانی کے انداز میں' اچھی
باتیں بتائے۔
بچوں کی تعلیم کے معاملہ میں' ؼربت کو بہانہ یا جواز
نہ بنائے .ان کی تعلیم کے لیے' ہر لسم کی لربانی
سے کام لے۔
اس خاکے سے یہ امور بھی وضاحت کے ساتھ
سامنے آتے ہیں کہ
بزرگوں اور اہل علم کے معاملے میں' آدمی کو کیسا
.ہونا چاہیے
ذات تک محدود سوچ' تھوڑدل بناتی ہے۔
اوروں کے لیے سیری اور اپنے لیے' بھوک بچانا ہی
معراج انسایت ہے۔
آدمی کو' بلا کسی تمیز و امتیاز' لوگوں کی مدد کرتے
رہنا چاہیے۔
ہم دردانہ رویہ' انسانوں میں اعتبار کا سبب بنتا ہے۔
صاحب تموی کبھی خسارے میں نہیں رہتے۔
شخص پر' جملہ مخلولات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے
اور یہ ہی چیز' اسے اشرؾ المخولات ٹھہراتی ہے۔
خاکہ' خان صاحب مرحوم کی زندگی کے احوال و
اطوار کھولنے کے ساتھ ساتھ' ان کے عہد کے
اشارے فراہم کرتا ہے۔ مثلا
مٹی کا تیل بھی راشن میں ملتا۔ صرؾ چھوٹی سی "
"ایک بتی جلتی رہتی
اسی طرح' ان کی سیاسی ہمدردیاں بھی ؼیرواضح
نہیں رہتیں۔
ان کی' سادات وشیوخ سے محبت و عمیدت' ہر لسم
کے شبے سے بالا رہتی ہے۔ ہاں البتہ' اس ذیل میں یہ
پیرہ خصوصی توجہ چاہتا ہے۔
ابّا بہت محنتی۔ اور عاجز مزاج تھے۔ صبح گھر اور "
آنگن میں جھاڑو لگانا خود پر لازم کر رک ّھا تھا۔ ا ّماں
چونکہ اعل ٰی گھر سے تھیں۔ اسلئے کبھی ا ّماں کو
جھاڑو لگانے نہیں دیا ۔ نہ گھر کا بیت الخلاء اور
موریاں صاؾ کرنے دیں۔ کہتے' میں پٹھان ہوں اور
"تمہاری ا ّماں شیخ اور سید گھرانے سے ہے۔
گھر گرہستی میں' بیٹی مہر افروز کی اماں کی کم
زور شخصیت کو سامنے لاتا ہے۔ جو بھی سہی' وہ
خان صاحب مرحوم بیوی تھیں۔
خاکے کا مطالعہ کرتے' بیٹی مہر افروز کی اپنی
شخصیت اور ان کی زندگی کے احوال بھی سامنے
آتے ہیں
خاکے کی زبان سادہ' رواں' عام فہم اور بےتکلؾ ہے۔
مطالعہ کے دوران' کسی موڑ پر' ابہامی صورت پیدا
نہیں ہوتی۔ ہر چند معلومات' لطؾ اور عصری شہادتیں
میسر آتی ہیں۔ اکتاہٹ کی' کہیں صورت پیدا نہیں ہوتی۔
کہیں کہیں ممامی مہاورے کا استمال ہوا ہے' جو
لسانیاتی حظ کا سبب بنتا ہے۔
بیٹی مہر افروز کی یہ تحریر' مجھے بہت ہی اچھی
لگی ہے۔ الله ان کے للم کو' مزید توانائی اور روانی
سے سرفراز فرمائے۔
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic
10065.0
اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ
) آئینہ خانہ کے تناظر میں (
بروز :ستمبر 10:43:09 ,2014 ,06صبح
ہر اچھے تخلیك کار کا کمال یہ ہی ہوتا ہے کہ اسے
جس رخ سے بھی دیکھو اس کے ہنر کا کوئی ناکوئی
کمال دکھائی دے۔ اس تخلیك میں نئی فکر کے کئی
گوشے پوشیدہ ہوں۔ استعمال کیا گیا مواد‘ ناصرؾ نیا
ہو بلکہ ہر اگلی نئی تخلیك کے لیے‘ کار آمد ثابت ہو۔
مواد کی ہئیتی‘ معنوی اور اشکالی تبدیلیوں سے‘
تخلیك کی دنیا میں‘ آسانیوں کے دروازے کھلتے ہوں۔
ایسا بالػ فکر تخیلك کار‘ کسی ناکسی حوالہ سے‘
انسانوں کی دنیا میں یاد رکھا جاتا ہے۔ نہ بھی رکھا
جائے‘ تو بھی وہ‘ ہر نئے کے باطن میں زندہ رہتا
ہے۔ مارکونی بڑی حد تک‘ انسان کو بھول گیا ہے
لیکن وائرلس؛ ٹی وی‘ ریڈار موبائل وؼیرہ کے باطن
میں‘ فکری حوالہ سے زندہ ہے۔
دوسری طرؾ‘ یہ بات بھی بڑی معنویت کی حامل ہے‘
کہ استعمال کنندہ‘ استعمال کے حوالہ سے‘ استعمال
کے نئے رستے تلاشنے اور نکالنے والا ہو۔ حظ
اٹھانا‘ اپنی جگہ پر مسلم ہے‘ لیکن اس حظ کو دوچند
کرنے کے لیے‘ استعمال کی دیگر راہیں کھوجنا‘ اپنی
جگہ پر اہمیت کی حامل ہیں۔ کوئی استعمال کنندہ اس
اہلیت سے خالی نہیں ہوتا‘ ہاں اس انداز سے سوچنے
اور کھوجنے والے‘ بہت کم ہوتے ہیں۔ جو ہوتے ہیں‘
اپنی اصل میں تخلیمی جوہر کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ
دوسروں سے‘ لطعی ہٹ کر سوچنے والے ہوتے ہیں۔
وہ اس تخلیك میں رہ گئی کمی بیشی کی بھی نشان
دہی کرتے ہیں گویا وہ بہتری کی طرؾ بڑھنے کا
رستہ بتاتے ہیں۔
ادبی فن پاروں کی بھی‘ یہ ہی صورت ہوتی ہے۔ میر
صاحب نے‘ اپنی شاعری میں ناصرؾ‘ اپنے عہد کو
عیاں کیا ہے‘ بلکہ نئی زبان بھی عطا کی ہے۔ ؼالب
نے‘ زبان یعنی تخلیمی مادے کو‘ طرح داری سے
سرفراز کیا ہے۔ لفظوں کے استعمال کے حوالہ سے‘
نئی معنویت اور نیا نفسیاتی شعور سامنے آیا ہے۔
البال نے‘ لفظ کو فلسفے اور نظریاتی ممصدیت عطا
کی ہے۔ ذوق نے‘ محاورہ سے اردو زبان کا دامن بھر
دیا ہے۔ گویا سچا تخلیك کار نئی فکر و زبان سے
متعلمہ زبان کو ابلاؼی اور معنوی ثروت عطا کرتا ہے۔
اختر حسین جعفری کا شمار‘ جدید اردو شعرا میں ہوتا
ہے۔ انہوں نے اردو زبان کو اپنی جدت طبع کے سبب‘
حیرت انگیز استعمالی و معنوی تبدیلیوں سے نوازا
ہے۔ ان کی زبان پڑھتے ہوئے عجب لطؾ اور
سرشاری سی میسر آتی ہے۔ یہ بات بہرطور پیش نظر
رہنی چاہیے‘ کہ کسی بھی شعر پارے کی اس ولت تک
درست تفہیم ممکن ہی نہیں‘ جب تک اس کی زبان کا
پوری صحت مندی سے مطالعہ نہ کر لیا جائے۔ اختر
حسین جعفری کی فکر تک رسائی کے لیے‘ ان کی
زبان کی تفہیم اور فنی باریکیوں کو سمجھنا بہرطور
ضروری ہے۔
زبان میں‘ محاورے کو کلیدی حثیت حاصل ہوتی ہے۔
ہر شاعر کا‘ اس کی شاعری سے مخصوص محاورہ
اور تکیہءکلام ہوتا ہے‘ جو شعر کی تخلیك کی دنیا
میں‘ الگ سے پہچان ہوتا ہے۔ گلی میں آ کر نئی
اشکال و معنویت حاصل کرتا ہے۔ لازم نہیں ہر محاورہ
گلی میں آئے یا وہ گلی سے اٹھے۔ جو بھی صورت
رہی ہو‘ وہ محاورہ زبان کا اہم ترین اثاثہ ہوتا ہے۔
آتے کل کو‘ اس محاورہ کے حوالہ سے‘ گزرے کل کی
تخلیمی‘ سماجی‘ سیاسی‘ نفسیاتی اور معاشی اطوار کی
گواہی دستیاب ہوتی ہے۔
اختر حسین جعفری حسینی لافلے سے متعلك ہیں‘ یہ
ہی وجہ کہ ان کے محاورہ‘ اور تکیہءکلام میں حریت
کے عناصر نظر آتے ہیں۔
ان کے محاورے کی نشت و برخواست میں‘ شدت
اور اچھوتا پن پایا جاتا ہے۔ بادی النظر میں‘ زبان
کلاسیکل ہے‘ لیکن زبان کا استعمال اور معنویت‘
کلاسیکیت سے لگا نہیں رکھتی۔ ان کی ترکیب وترتیب
اور استعمال کلاسیکیت سے لطعی ہٹ کر ہے۔ ان کے
چند ایک محاورے‘ جو نظم ۔۔۔۔آئینہ خانہ۔۔۔۔۔ سے لیے
گیے ہیں‘ ملاحظہ ہوں۔
حرؾ جگانا جگائیں حرؾ کو خواب سفر سے
اور پوچھیں
اٹھائیں فرش سماعت سے لفظ خشت اٹھانا
لفظ کی خشت
خود اپنے آپ سرکتی فصیل ذات کی خشت
خشت سرکنا
خوشبو کشید کرنا وہ روشنائی‘ وہ خوش بوئے ؼم
کشید کریں
سجی ہے کون سی نوک مژہ پہ راکھ سجنا
ابر کی راکھ
رحم کے سکے گرنا گریں گے رحم کے سکے کب
ان حجابوں پر
صدا کے خشک سمندر کو چھان سمندر چھاننا
کر دیکھیں
خود اپنے آپ لدم چھوڑتی زمین فرار
لدم چھوڑنا
لدم نہ کھینچ کہ اس راہ پر ہمارے سوا
لدم کھیچنا
بدن کی لوح پر اتری تو سطر سطر ہوئی
لوح پر اترنا
مکین سونے لگیں تو مکان مکان جاگنا
جاگتے ہیں
اختر حسین جعفری کی نظم کے مصرعوں کے پہلے
لفظ ہوں یا آخری ان سے کچھ ناکچھ ضرور تشکیل
پاتا ہے۔
اٹھائیں سماعت سے لفظ لفظ صدا اٹھانا
کی خشت
صدا کے خشک سمندر کو چھان کر دیکھیں
مکین جگانا جگائے رکھتی ہے سب کو حجر وہ
ہو کہ شجر
مکین سونے لگیں تو مکان جاگتے ہیں
لدم نہ کھینچ کہ اس عہد لدم اکھاڑنا
منحرؾ کی ہوا
اکھاڑ آئی ہے پہچان کے خیاباں سے
اٹھائیں سماعت سے لفظ لفظ خشت دیکھنا
کی خشت
صدا کے خشک سمندر کو چھان کر دیکھیں
بدن سے اترے شکن در شکن لباس ہوا
ہوا رکنا
لہو کی لہر کسی ساحل یمیں پہ رکے
اک اور شور لیامت کہ بند لبر کھلے
آئینہ کھلنا
اک اور ضرب کہ تمثال دار آئینہ
ہٹے نگاہ کے شیشے سے عکس پردہ ہٹنا
کا پردہ
دکھائی دیتا ہے مفہوم کا نیا چہرہ
چہرہ دیکھنا
نمو کی خاک نے پھر ایک بار نمو دینا
جوڑ دیا
اب کچھ مرکب ملاحظہ ہوں
فراق ہجوم سحر
فراق حسن تمنا میں خود کشی کر لی
ہجوم رہگزر منتظر ہے کس کے لیے
سحر ہوئی تو در نیم وا پہ لفل پڑا
رخ نشیب شکستہ
رخ ہوا کی اطاعت میں رخ بدلتے ہیں
نشیب درد میں اتروں تو لتل گاہ کی خاک
شکستہ خول‘ کھلی بکتریں‘ جلے ہتھیار
طلسم خواب سی وہ چاندنی شب طلسم محال
وعدہ
محال تر سفر شوق جستجو ہے کہ اب
نمو کی خاک نے پھر ایک بار نمو دونیم
جوڑ دیا
دونیم جسم ارادے کی سبز ٹہنی سے
آواز جگنو
ہوا کے جھنڈ میں مہتاب گوش بر آواز
سواد زخم خود افروز سوچتا جگنو
فرار تفہیم
خود آپ اپنے لدم چھوڑتی زمین فرار
وہی نگاہ‘ وہی چاک حرؾ کی تفہیم
بعض اولات بڑے کمال کی نظمیں تشکیل پا گئی ہیں۔
مثلا
چاند راہیں ہیں
پناہ دیوار کی
پر نہیں
سفر
نشان منزل دکھائے
لدم
جہاں افك بنیں
نظم آئینہ خانہ
بجھے
خود مرے ثبوت
نشان سواد سپیدہء بدن
خوابیدہ بھی گواہ کروں
لیکن نہیں
ظلمت ہوئی گواہ
نظم آئینہ خانہ
ہوا رکے پردہ آئے
درد ابد
پرواز پر ہے
نظم آئینہ خانہ
نہ نہ
در فصیل ذات ہے
گلیم فسردہ
چراغ حریم دار
بلاد عمر دربدری
حلیؾ سوال
بےترتیب نہیں
نظم آئینہ خانہ
متعلمات کا استعمال خوب خوب کرتے ہیں
بؽیر حرؾ بھی نمطہ وجود حرؾ۔۔۔۔۔۔نمطہ
رکھتا ہے
ہوا کے ہاتھ کی سب ناتمام ہاتھ۔۔۔۔۔۔تحریریں
تحریریں
مکان۔۔۔۔مکی مکین سونے لگیں تو مکان جاگتے
ہیں
گرہ بچی ہے یہی رابطوں کے تاگا۔۔۔۔۔گرہ
تاگے کی
چراغ جو شب آتش بجاں سے شب۔۔۔۔۔چراغ
جلتے نہیں
زبان تشنہ۔۔۔۔آب شور زبان تشنہ نہ رکھ آب شور پر
کہ مری
طیور لوٹ کے آئیں گے آشیاں۔۔۔۔طیور
آشیانوں میں
تکرار لفظی کلام میں حسن اور شائستگی پیدا کرتی
ہے۔ اختر حسین جعفری کے ہاں اس کی مختلؾ
صورتیں ملتی ہیں
اٹھا رہا ہوں زمیں سے دونیم حرؾ کا چاند
دکھا رہا ہوں وہ انگشت معجزہ جس پر
چھپا رہا ہوں تہ سنگ استخوان صدا
چھپا رہا ہوں وہ ممتل جہاں پہ لفظوں نے
وہ سن رہا تھا زمیں کا خروش‘ دزد کی چاپ
وہ گن رہا تھا ستارے‘ شجر‘ تبر کے نشاں
وہ چن رہا تھا رسن‘ سوختہ سفال چراغ
اسی کے نام کٹری دوپہر میں جلتے بدن
اسی کی نذر بجھے حوصلوں کی مزدوری
اسی کی نذر للم‘ حاشیے‘ سیاق و سباق
اسی کے نام یہ تعویز نا فرستادہ
اسی کی نذر فرد رفتہ زمیں باؼات
اسی کی نذر رکی آب جو‘ تہی دریا
اک اور شور لیامت کہ بند لبر کھلے
اک اور ضرب کہ تمثال دار آئینہ
اک اور ضرب کہ بود ونبود کی تمسیم
لدم اک اور کہ اس کاخ وکوہ میں روشن ہے
لدم اک اور کہ آگے وہ معرکہ ہے جہاں
چراغ ایک سے ہیں‘ آنکھیں ہیں ایک سی جن کی
مژہ پہ خواب رہائی کی بوند بوند شفك
بوند بوند
دن کی لوح پر اتری تو سطر سطر ہوئی
سطر سطر
شاخ شاخ اس استخواں پہ پڑیں جس کی شاخ شاخ
پہ پھول
کلی کلی پہ پریشان خیال کی تتلی
کلی کلی
گلی گلی میں ہراساں پیمبروں کی صدا
گلی گلی
پروں سے جن کے افك تا افك دم پرواز
افك تا افك
بدن سے اترے شکن در شکن لباس ہوا شکن
در شکن
تکرار حروؾ سے فکری کیؾ پیدا کا دیتے ہیں اور
لاری کو لریب تر کر لیتے ہیں
نہ اسم ذات مرے کاؼذات سے نکلا
مکین سونے لگیں تو مکان جاگتے ہیں
زباں گرفتہ زن پیر اور سگ تشنہ
گریں گے رحم کے سکے کب ان حجابوں پر
تکرار حروؾ نے ناصرؾ گائیکی کو کمال دیا ہے
مطالعہ کو کیؾ آور بنا دیا ہے
دھنک کے رنگ میں گرد ممات گرتی ہے
صنعت فوق النمط کا استعمال
مرے خلاؾ صؾ آرا‘ مرے خلاؾ گواہ
صنعت تحت النمط کا استعمال
میں ایک پر کے سہارے عبور کر لوں گا
ایک صورت یہ بھی ہے
دھنک کے رنگ میں گرد ممات گرتی ہے
بانمط اور بےنمط آمیزہ ملاحظہ ہو
وہی پناہ کا جنگل‘ وہی سگ مامور
تلمیع اختصار اور بلاؼت میں اضافے کا سبب بنتی
ہے۔ اس سے امکانی مماثلت بھی سامنے آتی ہے۔
اختر حسین جعفری کے ہاں اس صنعت کا بڑی خوبی
اور کمال کی ہنرمندی سےاستعمال ملتا ہے۔ اس ذیل
میں یہ مثال ملاحظہ ہو۔
زبان تشنہ نہ رکھ آب شور پر کہ مری
خمیدہ پشت پر رکھا ہے اب بھی مشکیزہ
ان کا سوالیہ انداز ان کے لفظوں کو زندگی کے کرخت
مناظر سے ادھر ادھر ہونے نہیں دیتا۔ مثلا
کہاں ہے جوہر صورت کہاں زر معنی
بتا کہ کون سے بازو پہ ہے رسن کا نشان
سوال عدل تھا یا احتجاج تھا‘ کیا تھا
یہ کیسے خواب کا پانی ہے کور آنکھوں میں
خلاؾ کس کے ہے صبح عناد کا دعوے
سوال معنویت تلاشتے اور ممصدیت کو واضح کرتے
ہیں۔ یہ اپنے عہد کے جبر اور تشنہءتکمیل آرزوں‘
خواہشوں اور ضروتوں کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ زندگی
کے جمود کو بھی سامنے لاتے ہیں۔ سوال درحمیمت
زندگی کو رستہ دکھاتے ہیں اور سوچوں کے عمل کو
متحرک رکھتے ہیں۔
سردست‘ میرے پیش نظر اختر حسین جعفری کی نظم
آئینہ خانہ ہے اور اسی کے حوالہ سے‘ ان کے کلام
کی زبان کا مطالعہ پیش کر سکا ہوں۔ میرا اصرار ہے‘
کہ انہوں نے کلاسیکل زبان میں‘ اپنے آج کو‘ بڑی
کامیابی سے واضح کیا ہے۔ نئی اور عصری فکر کے
لیے‘ نئی اور عصری زبان کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
اختر حسین جعفری نے ثابت کر دیا ہے‘ کہ زبان کا
استعمال ہی‘اصل کمال ہنر ہے۔ سب کچھ نیا اور
عصری ہو‘ لیکن پیش کش سلیمے سے عاری ہو‘ تو
لطؾ ؼارت ہو جاتا ہے۔
اختر حسین جعفری کا کلام‘ ہر عہد میں‘ اس امر کی
دلیل رہے گا‘ زبان کا درست اور برمحل استعمال نئے
اور پرانے کی تخصیص کو ختم کر دیتا ہے۔ صاحب
سلیمہ زبان کی انگلی نہیں پکڑتا زبان کو اس کی
انگلی پکڑ کر چلنا پڑتا ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں
سے دیکھا ہے مہدی حسن اور پٹھانے خان کے طبلہ
نواز پسینے میں ڈوب گیے ہیں۔ ہر دو فن کاروں کے
طبلہ نواز بڑے پھنے خاں تھے لیکن دب کر رہے۔ یہ
ہی مہدی حسن اور پٹھانے خان کی آواز کا جادو تھا۔
اختر حسین جعفری کے ہاں بھی لفظوں کی یہ ہی
حالت ہوتی ہے۔ نئے مفاہیم لیتے‘ انہیں پسینہ آ جاتا
ہے۔ خدا لگتی تو یہ ہی ہے‘ کہ لفظوں کو اختر حسین
جعفری کی انگلی پکڑنا پڑتی ہے اور اپنی مرضی
ومنشا سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ لؽوی اور مستعملی
مجبوری یکسر دم توڑ دیتی ہے۔
فرش سماعت‘ مفہوم کا چہرہ‘ سحر کی شاخ‘ برہنہ
آنکھ‘ ‘نشیب درد‘ لذت لاحاصلی۔۔۔۔۔سسی فس۔۔۔۔۔وؼیرہ
سے مرکبات کب پڑھنے سننے میں آئے ہیں۔
لفظ اختر حسین جعفری کے ہاتھ میں کھلونے کی
حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ انہیں اپنی مرضی کے معنی
دیتے ہیں اور اپنی مرضی کی فکر ان کے باطن میں
اتارتے ہیں۔ لاری ان کی زبان سے ناصرؾ لطؾ اندوز
ہوتا ہے بلکہ اسے ان کی معنویت تک رسائی کے لیے
رکنا بھی پڑتا ہے۔ اسی حوالہ سے چند مصرعے
ملاحظہ ہوں
فلک کی شاخ سے اتریں وہ طائران ابد
شنید و دید کے کاسہ بدست منظر کب
طلب کریں گے بہا‘ چشم سیر لوگوں سے
فمیہ شہر نے دیکھا ہے روئے لاتل میں
جلی زمین کا چہرہ‘ شکستہ شاخ کا زخم
اس استعاراتی زبان کے مطالعہ کے لیے‘ بلاشبہ
گہرے سوچ کی ضرورت‘ ہر لدم پر محسوس ہوتی
ہے۔ اختر حسین جعفری سے لوگ ہی‘ اہل زبان کی
صؾ میں کھڑے اچھے لگتے ہیں اور للب ونظر کا
سرور ٹھہرتے ہیں۔
جواب :اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ
بروز :ستمبر 06:31:54 ,2014 ,07شام
عزیز مکرم حسنی صاحب :سلام علیکم
میں نے آپ کے اس ممالہ سے لبل اختر حسین جعفری
صاحب کی کوئی تحریر نہیں دیکھی تھی۔ ظاہر ہے کہ
امریکہ میں رہ کر بر صؽیر کے حالات سے مکمل
والفیت ممکن نہیں ہے۔ یہاں نہ رسالے میسر ہیں ،نہ
کتابیں ملتی ہیں اور نہ ہی دور دور تک اصحاب فکر
ونظر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ جیسے بالػ نظر
ادبا کی نگارشات سامنے نہ آئیں تو ہماری ادبی زندگی
مستمل خشک سالی کا شکار رہے۔ آپ کا دلی شکریہ
کہ ایسے تازہ اور خوش آئند مضامین سے ہم لوگوں
کے شوق وشعور کی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔ الله آپ
کو جزائے خیر سے نوازے۔
آپ کا مضمون نہایت دلچسپ ہے۔ آپ اختصار پسند ہیں
جو اپنی جگہ بڑی بات ہے لیکن ہم لوگوں کی سیری
نہیں ہوتی ہے۔ ایک تو اختر صاحب کی کوئی مکمل
نظم یا تحریر سامنے نہیں ہے اور دوسرے آپ کی
مختصر نویسی ہمارے لئے ایک احساس تشنگی چھوڑ
جاتی ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو ایک تجویز سامنے
رکھوں یعنی یہ کہ آپ اختر صاحب کی ایک دو ؼزلیں
یا نظمیں عنایت کریں اور پھر ان کے حوالے سے
اختر صاحب کی اپج اور انفرادیت پر گفتگو کریں۔ یمین
کیجئے کہ بڑا لطؾ آئے گا اور ہم سب اس سے
مستفید ہوں گے۔ کام ضرور ولت طلب ہے لیکن
ضروری بھی ہے۔ امید ہے کہ آپ ؼور فرمائیں گے۔
آپ کی کتاب شائع ہونے والی تھی۔ معلوم نہیں اس کا
کیا ہوا۔ از راہ کرم بتائیں۔ شکریہ
سرور عالم راز
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic
9163.0
جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر
بروز :جولائی 12:16:15 ,2014 ,27صبح
ہر مستعل لفظ کے معنی ہمارے ذہن میں محفوظ ہوتے
ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم پر کہی ہوئی بات کو سمجھ
جاتے ہیں۔ کچھ لفظ مانوس نہیں ہوتے لیکن دوسرے
لفظوں کے سیاق وسباق میں سمجھنا مشکل نہیں ہوتا۔
لفظ کرسی سنتے ہی ہمارے ذہن میں بیٹھنے والی چیز
کا تصور گھوم جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے بیٹھیے تو ہم بیٹھ جاتے ہیں۔
برا‘ اچھا‘ سیاہ‘ خوب صورت وؼیرہ کی تفہیم‘ ہمارے
ذہن میں موجود ہوتی ہے‘ لیکن کسی شے کا تصور
ہمارے ذہن میں نہیں ابھرتا۔ یہ تخصیصی یا توصیفی
لفظ‘ جب کسی اسم کے ساتھ جڑتے ہیں‘ تو اس کی
ذاتی شناخت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ ایک
مخصوص ایمیج بھی‘ ان کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے۔
زبانوں میں‘ اس نوعیت کے مرکبات کا استعمال
بکثرت ہوتا آیا ہے۔ یہ تخصیص کے ساتھ‘ دل چسپی
اور توجہ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ان سے‘ ایک
تصویری خاکہ بھی تشکیل پاتا ہے۔
ہر زبان کی شاعری میں مرکبات کا استعمال ہوتا آیا
ہے۔ ان مرکبات کے حوالہ سے مختلؾ نوعیت کے
ایمیج تشکیل پائے ہیں۔اردو شاعری اس سے تہی
نہیں۔ اردو شاعری میں بھی مختلؾ طرح کے مرکبات
نظر آتے ہیں۔ گویا موجود اور خیالی تصاویر کا جہاں
آباد ہے۔
جہاں شعری حسن اور اختصار کلام کے ‘مرکبات
حوالہ سے اپنی افادیت رکھتے ہیں‘ وہاں کسی ناکسی
ایمیج کو بھی‘ تشکیل دے رہے ہوتے ہیں۔ ان کی
تمسیم بھی‘ نکرہ اور معرفہ کی سی ہوتی ہے۔ اسمی
تخصیص کے لیے بھی‘ مرکبات کی وجودی حیثیت
ناگزیر ہو جاتی ہے۔ نثر میں‘ ان کا استعمال اسلوبی
اور تفہیمی حوالہ سے‘ شاعری سے لطعی ہٹ کر ہوتا
ہے۔ فکشن اور انشاء پردازی میں‘ یہ کبھی کبھی
شاعری کے لریب تر چلے جاتے ہیں اور مختلؾ
نوعیت کے ایمجز کو تشکیل دیتے ہیں تاہم نثری اور
شعری مرکبات میں‘ اس کے باوجود فرق رہتا ہے۔
اردو شاعری میں‘ استاد ؼالب وہ شاعر ہیں‘ جن کا
دیوان انتہائی مختصر ہو کر بھی‘ محاکات سے بھرا
پڑا ہے۔ ان کے مرکبات‘ دنیا کا خوب صورت ترین
عجائب گھر ہے۔ رنگا رنگ‘ عجیب و ؼریب اور ؼور
وفکر کے حامل‘ تصویری مرکبات پڑھنے کو ملتے
ہیں۔ کمال کی مصوری کرتا ہے۔ اس ذیل میں‘ ان کے
ہاں بڑا تنوع ہے۔ ان کے دیوان کی پہلی ؼزل کے تین
:مرکب ملاحظہ ہوں
جذبہءبےاختیار‘ سینہء شمشیر‘ موئے آتش دیدہ۔۔۔۔۔۔
اب ان مرکبات کو شعر کے تناظر میں ملاحظہ
:فرمائیں
جذبہء بےاختیار شوق دیکھا چاہیے
سینہء شمشیر سے باہر ہے‘ دم شمشیر کا
لفظ دم کو سادہ نہ لیجیے گا‘ ذومعنویت اور طرح داری
میں‘ بڑے اوج پر ہے اور اسی کی تفہیم پر ہی‘ پورے
شعر کا دارو مدار ہے۔
بسکہ ہوں ؼالب اسیری میں بھی آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے حلمہ مری زنجیر کا
بسکہ ہوں ؼالب
اسیری میں بھی
آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے
حلمہ مری زنجیر کا
اب لرآت کا مزا لیں۔
مرکب موئے آتش دیدہ کا تصویری حسن‘ کھل کر
سامنے آ جائے گا۔
استاد ؼالب کے بعد‘ اردو شاعری میں البال بڑی
شہرت رکھتا ہے۔ بانگ درا میں اس کا ١٩٠٨تک کا
کلام ہے۔ اس مجموعے کی چوتھی نظم‘ استاد ؼالب
سے متعلك ہے۔ اس میں انہیں گوئٹے کا ہم نوا لرار
دیا ہے۔ نظم کا آخری سے پہلا شعری ملاحظہ
:فرمائیں
لطؾ گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
اس نظم کے مطالعہ سے‘ واضح ہوتا ہے‘ کہ البال نے
استاد ؼالب کی زبان اور فکر سے‘ استفادہ کیا۔ البال
کا مطالعہ مشرق و مؽرب پر محیط تھا۔ البال نے اردو
شاعری کو نئی زبان دی ہے‘ لیکن اس کے موجود
کلیات کو‘ تصویر خانہ لرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے
ہاں تصویری مرکبات پڑھنے کو ملتے ہیں‘ لیکن انہیں
ؼالب کے پایہ کا‘ لرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی وجہ‘
شاید کس حد تک‘ ممصدی شاعر رہی ہو۔ بطور نمونہ
دو مرکب ملاحظہ ہوں۔
عمابی روح
عمابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نظم :ایک نوجوان کے نام‘ مجموعہ بال جبریل
رہزن ہمت
رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا
بحرتھا صحرا میں تو‘ گلشن میں مثل جوئے ہوا
نظم :شمع و شاعر‘ مجموعہ بانگ درا
فیض نے‘ اپنے مخصوص نظریاتی اور خفیہ لسم کی
زبان کے حوالہ سے‘ بڑا نام پایا۔ اس کی زبان میں
حسن اور مٹھاس ہوتی ہے۔ اپنے عہد کے جبر کو‘
مختلؾ لسم کے طریموں سے‘ واضح کرتا ہے۔ اس کی
علامیتں اور استعارے‘ درامدہ نہیں ہیں‘ بلکہ اسی
معاشرت سے اٹھتے ہیں۔ ان حمائك کے باوجود‘ اس
کے ہاں محاکاتی مرکبات کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ ہاں جو
محاکاتی مرکبات میسر آتے ہیں‘ وہ اپنا ہونا بڑی
صراحت سے واضح کرتے ہیں۔ فمط دو مرکب ملاحظہ
فرمائیں۔
دوزخی دوپہر
اب اس مرکب کو مصرعوں کے تنانظر میں دیکھیں‘
ایک ماحول اور کیفیت کو اجاگر کرنے میں‘ اپنا حك
ادا کر رہے ہیں۔
بے زباں درد و ؼیظ و ؼم کی
اس دوزخی دوپہر کے تازیانے
آج تن پر دھنک کی صورت
لوس در لوس بٹ گیے ہیں
!نظم :اے شام مہرباں ہو
حالات کی ہولناکی کو اس سے بڑھ کر پیش نہیں کیا
جا سکتا۔
اسی لماش کا ایک اور مرکب ملاحظہ ہو
دکھ کی ندیا
جب دکھ کی ندیا میں ہم نے
جیون کی ناؤ ڈالی تھی
تھا کتنا کس بل باہنوں میں
لہو میں کتنی لالی تھی
نظم :تم ہی کہو کیا کرنا ہے
مرکب ۔۔۔۔۔۔ جیون کی ناؤ۔۔۔۔۔۔۔ خصوصی اہمیت کا حامل
ہے۔ پہلا وصفی‘ جب کہ دوسرا تشبیہی ہے۔ دونوں
مرکب‘ ایک مخصوص ایمیج پیش کر رہے ہیں۔ یہ بھی
کہ دونوں ایک دوسرے سے انتہائی متعلك ہیں۔
ن م راشد‘ جدید اردو شاعری میں اپنی الگ سے
شناخت رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں‘ ذات اور کائنات کے
معاملات ملتے ہیں۔ ذات سے کائنات‘ یا کائنات سے
ذات کی طرؾ‘ پھرنے کے رویے‘ بڑی حد تک متوازی
نظر آتے ہیں۔ راشد بھی‘ محاکاتی مرکب تشکیل دیتے
ہیں‘ لیکن ان کی بہتات نہیں‘ ہاں البتہ‘ ان کی
اکثرنظمیں‘ دیگر لوازات شعر کے استعمال سے
تصویر تشکیل دیتی ہیں۔ کہیں واضح ہوتی ہیں‘ کہیں
دھندلاہٹ کا شکار ہوتی ہیں اور بعض‘ معاملے کے
پس منظر میں ہوتی ہیں۔ ان کے دو محاکاتی مرکب
:بطور ذائمہ ملاحظہ فرمائیں
روح کے تار
:اب اسے‘ مصرعوں کے تناظر میں دیکھیں
ہوش آیا تو میں دہلیز پہ افتادہ تھا
خاک آلودہ و افسردہ و ؼمگین و نزار
پارہ پارہ تھے مری روح کے تار
نظم :گناہ
:کیا خوب صورت مرکب ہے آپ بھی لطؾ لیں
تشنہ سراب
اب اس مرکب کی معنویت مصرعوں کی ترتیب میں
:تلاشیں
ولت کے پابند ہاتھ
راہوں کا ؼمگیں جواب
‘سنتے رہے
سبزے کے تشنہ سراب
رات کا دیوانہ خواب
تکتے رہے
نظم :گزر گاہ
خدا لگتی تو یہ ہی ہے‘ کہ زندگی اپنے پورے وجود
سے‘ دکھائی دیتی ہے۔ دیوانہ خواب‘ کمال کا محاکاتی
مرکب ہے۔ اسے چشم تخیل میں‘ تجسیم دیں‘ زندگی
واضح ہو جائے گی۔ اس کے استعمال میں‘ کمال کی
ورفتگی ہے۔ یہ سب ؼور کرنے پر انحصار کرتا ہے۔
جدید اردو شاعری میں‘ مجید امجد کو نظر انداز نہیں
کیا جا سکتا۔ ان کے کلام میں‘ اوروں کی نسبت‘ رنگا
رنگی اور گہما گہمی زیادہ ہے۔ ؼالبا اس کی چار
:وجوہ ان کی شخصیت کا حصہ رہیں
ا۔ وہ اردو‘ انگریزی اور فارسی ادب کا مطالعہ رکھتے
تھے۔
ب۔ محروم بچپن اور نامراد جوانی ورثہ میں ملی۔
ج۔ سنتے بہت تھے‘ لیکن کہتے کچھ بھی نہ تھے۔
شاعری کو‘ گویا ذات کےانشراع کا ذریعہ بنایا۔ شہرت
اور ناموری کا عنصر موجود نہ تھا۔
د۔ ہم درد اور دیانت دار تھے۔
یہ چاروں عناصر‘ کسی ناکسی صورت میں‘ ان کے
ہاں نظر آتے رہتے ہیں۔ ان عناصر نے‘ انہیں بڑا
شاعر بنانے میں‘ نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کے ہاں
شخصی اور سماجی تصاویر کی کمی نہیں۔ یہ محاکاتی
مرکبات‘ گوناں انفرادیت کے حامل ہیں۔ نمونہ کے دو
:مرکب ملاحظہ ہوں
کرنوں کے ریزے
اب اس مرکب کو مصرعوں کے حوالہ سے دیکھیں۔
کیا کمال کی مصوری ہے۔
سدا جو ہم کو اپنے مشبک ؼرفوں سے دیکھیں
جیسے پورب کی دیوار پہ‘ انگوروں کی بیلوں میں
بڑھتے‘ رکتے‘ ننھے ننھے‘ چمکیلے نمطے
کرنوں کے ریزے
چمکیلے نمطے اور پورب کی دیوار کی اہمیت اپنی
جکہ پر موجود ہے۔
مجید امجد کے ہاں‘ ایک سے ایک بڑھ کر‘ محاکاتی
مرکب ملتا ہے۔ ہر مرکب گہری معنویت کا حامل ہوتا
ہے۔ چشم تصور کہاں سے کہاں‘ لے جاتی ہے۔ ذرا
:اس مرکب کو بھی دیکھئے
لمبی دھوپ
اس مرکب کو ان دو مصرعوں کے تحت ملاحظہ
:فرمائیں
لمبی دھوپ کے ڈھلنے پر اب‘ مدتوں بعد ایک دن یہ
آیا ہے
دن جو ایسے دنوں کی یاد دلاتا ہے جو سدا ہمارے
ساتھ ہیں
ہمارے ساتھ ہیں‘ میں بلا کی معنویت پوشیدہ ہے۔
اردو شعر کی دنیا میں‘ ان گنت فکری‘ لسانی اور
اسلوبی رنگ ملتے ہیں۔ اہل شعر نے‘ بلاشبہ شعر کو
نئے نئے لباس سے آراستہ کیا ہے۔ نئے نئے
محاورات دئے ہیں۔ دنیا کی دیگر زبانوں کی شاعری‘
میر اور ؼالب نہیں دیکھا سکتی۔ میر زبان اور ؼالب
نے اردو کو اپنی فلک بوس فکر سے‘ مالا مال کیا۔
بدلسمتی یہ رہی ہے‘ یہاں ‘اپنا آدمی‘ کے حوالہ سے‘
اہل سخن کو پرموٹ کیا گیا ہے۔ اسی طرح کرسی لریب
کے لوگوں کو بھی‘ زمین سے اٹھا کر آسمان پر بیٹھا
دیا گیا ہے۔ معتوب تو جہنم رسید کیے گیے ہیں۔ ان کا
کلام ردی چڑھا ہے۔
اب میں تین ایسے اہل سخن کا ذکر کرنے جا رہا ہوں‘
جن میں سے‘ دو نظر انداز ہوئے ہیں اور ایک کرسی
کی دائیں آنکھ پر رہا ہے۔
علامہ بیدل حیدری کی زبان صاؾ شفاؾ اور الجھاؤ
سے پاک ہے۔ ان کا انداز اور لہجہ‘ بڑا جان دار ہے۔
وہ زندگی کے ان گنت نشیب و فراز سے گزرے۔ یہ ہی
وجہ ہے‘ کہ ان کا اسلوب عصری حیات کے معاملات
کو‘ بڑی خوبی سے‘ اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
مضامین کی رنگا رنگی‘ انہیں منفرد بنانے میں‘ اپنا
کردار ادا کرتی ہے۔ وہ زندگی کے عمك میں‘ ؼوطہ
زن ہوتے ہیں۔ یہ بات مبالؽے سے باہر ہے‘ کہ ؼالب
کے بعد‘ اردو شاعری کو اتنا بڑا شاعر‘ دستیاب ہوا
ہے۔ زندگی نے عسرت دی‘ لیکن اس نے اپنے گلاب
سے لفظوں سے‘ زندگی کو سرفراز کیا۔ فمط دو تین
محاکاتی مرکبات ملاحظہ فرمائیں۔ ان کے حوالہ سے‘
یہ جاننے میں‘ ہرگز دشواری نہ ہو گی کہ وہ فکری
اور لسانی حوالہ سے‘ کس ممام پر فائز تھے۔
چادر مہتاب
اب اس مرکب کو مصرعوں میں دیکھیں۔
کملی بھی اس کی چادر مہتاب کا ؼرور
اور زلؾ مشکبار کا حلمہ بھی روشنی
نظم :روشنی
مہتاب کا ؼرور۔۔۔۔۔۔۔ بھی اہل سخن کی خصوصی توجہ
کا طالب ہے۔
سحر کے پاؤں
اب اسے مصرعوں کے تناظر میں ملاحظہ فرمائیں۔
فضائے امن و محبت کی آرزو ہے اگر
تو آفتاب افك سے اچھالنا ہو گا
سحر کے پاؤں سے کانٹا نکالنا ہو گا
نظم :لصہ پارینہ
سورج کی جوانی
اس مرکب کو مصروں کی دنیا میں ملاحظہ فرمائیں
مخلوق خدا کا وہ پسینے میں نہانا
یاد آ گیا سورج کی جوانی کا زمانہ
نظم :گرمیوں کی پہلی بارش
اختر حسین جعفری‘ معتوب اہل سخن میں سے تھے‘
تب ہی تو‘ نظر انداز ہوئے‘ اور پاریکھوں کے للم پر
نہ آ سکے۔ سچی اور خدا لگتی بات تو یہ ہے‘ کہ وہ
عصر جدید کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ان کی فکر
عصری حوالوں کی عکاس ہے‘ لیکن زبان کا معاملہ
مختلؾ ہے۔ ان کی زبان کلاسیکل ہے‘ لیکن اس کا
استعمال کلاسیکل نہیں۔ انداز اور اسلوب‘ کلاسیکیت
سے میل نہیں کھاتا۔ زبان کی تفہیم کلاسیکل پیمانوں
کے حوالہ سے‘ ممکن ہی نہیں۔ یہ صورت حال کس
جدید شاعر میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ گویا وہ نئی
شعری زبان کے موجد ہیں۔ ان کے لفظوں کو‘
سمجھنے کے لیے‘ عصری حیات کا شعور میسر ہونا
ضروری ہے۔ عصری حیات کے شعور کے بؽیر‘ ان کا
کلام سمجھا نہیں جا سکتا۔
لفظ کی تفیم کے بارے میں ان کا مولؾ ہے۔
کہاں ہے جوہر صورت کہاں زر معنی
جگائیں حرؾ کو خواب سفر سے اور پوچھیں
کہاں وہ لصر ہے جس کے کھلے دریچے سے
دکھائی دیتا ہے مفہوم کا نیا چہرا
ایک دوسری جگہ کہتے ہیں
بتائے کون کہ کاؼذ کی سطح خالی پر
بؽیر حرؾ بھی نمطہ وجود رکھتا ہے
اب ان کے چند اک محاکاتی مرکبات ملاحظہ فرمائیں
فرش سماعت
اب اس مرکب کو مصرعوں کے تناظر میں ملاحظہ
فرمائیں۔
اٹھائیں فرش سماعت سے لفظ لفظ کی خشت
صدا کے خشک سمندر کو چھان کر دیکھیں
برہنہ آنکھ
اب اس مرکب کو مصرعوں کے تناظر میں ملاحظہ
فرمائیں۔
ملے فراغ کبھی جو خمار حاصل سے
برہنہ آنکھ سے وہ نشہء سفر دیکھوں
تین مرکباب اور دیکھ لیں لطؾ آئے گا۔
بینیوں کے طلسم
طلب کی ہوا
گریز کے پھول
مصرعے دیکھیے
سر نگاہ وہی پیش بینیوں کے طلسم
وہی طلب کی ہوا‘ وہی گریز کے پھول
کمال ہے‘ ؼالب کا لہجہ‘ ؼالب کا سا انداز اور تفہیم
کے ضمن میں وہ ہی دشواری۔
ممصود حسنی بھی نظرانداز اہل سخن میں سے ہیں۔
ان کی یہ نظم دیکھیے ایک ہی نظم میں سات محاکاتی
مرکبات پڑھنے کو ملتے ہیں۔
ممتا
ممتا جب سے
صحرا میں کھوئی ہے
خون میں سوئی ہے
کشکول میں بوئی ہے
سفید پرندہ
خون میں ڈوبا
خنجر دیواروں پر
چاند کی شیشھ کرنوں سے
شبنم لطرے پی کر
سورج جسموں کی
شہلا آنکھوں میں
اساس کے موسم سی کر
کھنڈر ہونٹوں پر
سچ کی موت کا لصہ
حسین کے جیون کی گیتا
وفا کے اشکوں سے
لکھ کر
برس ہوئے
مکت ہوا
خنجر دیواریں‘ شیشھ کرنیں‘ سورج جسم‘ شہلا
آنکھیں‘ اساس کے موسم‘ کھنڈر ہونٹ‘ جیون کی گیتا
درج بالا معروضات کے تناظر میں‘ یہ کہنا کسی طرح
ؼلط نہ ہو گا‘ کہ جدید شاعری کا مطالعہ‘ فکری
اسلوبی اور لسانی حوالہ سے‘ ؼیر مفید نہیں رہے گا۔
اسی طرح معتوب اور نظر انداز شعرا کو تحمیمی
ورثے میں داخل کرنا‘ زبان کو ثروت دینے کے
مترادؾ ہو گا۔ نئے نئے محاورے دستیاب ہوں گے۔
استعارے‘ علامتیں‘ تشبیہات وؼیرہ ہاتھ لگیں گی۔ یہ
تردد اور توجہ‘ اردو زبان پر بہت بڑی نیکی ہو گی۔
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic
9105.0
اردو ہائیکو ایک مختصر جائزہ
ہا یئکو میں بنیادی چیز اس کا نظریہ تخلیك ہے جبکہ
ہیئت ثانوی معاملہ ٹھہرتا ہے۔ نظریہ تخلیك میں تین
باتیں آتی ہیں
١۔ کسی چیز‘ خصوصا فطری اور لدرتی عناصر پر
پہلی نظر پڑنے سے پیدا ہونے والا انسانی تاثر۔
٢۔ اس تاثر کو اسی طرح کاؼذ للم کے حوالے کر دینا۔
٣۔ پیدا ہونے والے تاثر میں کی لسم کی آلودگی کو
شجر ممنوعہ سمجھنا۔
ہمارے ہاں اردو میں جناب پروفیسر محمد امین(پی ایچ
ڈی) نےاس جاپانی صنؾ سخن کو متعارؾ کرایا۔ اس
صنؾ شعر کے تین مصرعے لرار پائے۔ اس ذیل میں
چند مثالیں ملاحظہ ہوں
یہ سفر ہے لیام ہے کیا ہے
یہ مسافت کہ طے ہوئی نہ کبھی
زندگی کیا ہے‘ رتجگوں کا سفر
)محمد امین(
صبر لکھا گیا لہو سے ترے
تشنگی سو رہی تھی خیموں میں
ساتھ اس کے فرات بہتا تھا
)اختر شمار(
مجھ کو اتنی سی روشنی دے دے
دل کے کمرے میں بیٹھ کر پل بھر
اپنے حالات زندگی پڑھ سکوں
)حیدر گردیزی(
بعد ازاں اس کے اوازن پر مباحث کا سلسلہ چل نکلا۔
اس میں ارکان ٥-٧-٥کی پابندی لازم ٹھہری۔
میں ١٩٨٦
ممصود حسنی کے نثری ہائیکو کا مجموعہ سپنے
اگلے پہر کے شاءع ہو گیا۔ یمینا یہ بہت بڑا باؼیانہ
الدام تھا۔ خیال تھا کہ یہ مجموعہ اچھی خاصی لے دے
کا شکار ہو گا۔ خدشات کے برعکس اسے پذیرائ
حاصل ہوئ۔ اس کے مختلؾ زبانوں میں تراجم ہوئے۔
نثری ہائیکو کے پیش کرنے کا ممصد پہلے تاثر کو
برلرار رکھنا تھا۔ نثری کلام میں آہنگ کو بنیادی حثیت
حاصل ہوتی ہے۔ آہنگ درحمیت توازن کا نام ہے۔ بطور
نمونہ کچھ ہائیکو ملاحظہ فرماءیں
کالا کوا
کالی راتوں میں
مہمان ہوااجالوں کا
آؤ زہد و تما
تملید عصر میں
پامیلا کے نام کر دیں
جیون کے پچھلے پہر
اگلے پہر کے سپنے
سونے نہیں دیتے اکثر
پروفیسر صابر آفالی (پی ایچ ڈی) کا کہنا تھا کہ ہائیکو
نثری نہیں ہیں۔ ان کے ہر مصرعے میں وزن موجود
ہے اور تینوں مصرعوں کے اوازن الگ الگ ہیں۔
بات ذرا آگے بڑی تو پہیلے اور تیسرے مصرعے کو
ہم لافیہ لرار دے دیا گیا۔ اس ضمن میں یہ نعتیہ ہائیکو
ملاحظہ ہو
نام ادب سے لے
سارے اجالے پھیلے ہیں
اسم محمد سے
اصل معاملہ یہ ہے کہ مہاجراپنے دیس کی سماجی
معاشی عمرانی اورنفسیاتی روایات ساتھ لاتا ہے لیکن
مہاجر ولایت میں یہ سب نہیں چلتا اسے مہاجر ولایت
کے اطوار اور اصول اپنانا پڑیں گے ورنہ وہ اول تا
آخر مہاجر ہی رہے گا۔ یہاں اس بات کو بھی بھولنا
نہیں چاہیے کہ یہ اردو ہائیکو کا ابتدائی دور تھا۔
انسان کی طرح یا انسان کے ساتھ ساتھ اصناؾ سخن
میں بھی تؽیرات آتے رہتے ہیں۔ ؼزل کو دیکھ اسے
کون ایرانی تسلیم کرے گا۔ اردو ؼزل میں ایرانی مزاج
کا ایک حوالہ بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا۔
ہائیکو آج پردیسی نہیں۔ اس کا رنگ ڈھنگ جاپانی
نہیں رہا۔ یہ اردو مزاج سے کلی طور پر ہم آہنگ ہے۔
اس کی روح میں اردو مزاج رچ بس گیا ہے لہذا اب
اسے اردو صنؾ ادب ہی کہا جانا مناسب لگتا ہے۔ ہاں
یہ تاریخی حمیمت رہے گی کہ ہاءیکو جاپان سے درامد
ہوئ ہے اور اس کا موڈھی پروفیسر محمد امین(پی ایچ
ڈی) ہے۔ زندگی اور اس کے متعلمات کو ہر حال میں
چلتے رہنا ہےمیرے یا کسی اور کے کہنے یا کوشش
سےیہ رک نہیں سکتے۔
چند جاپانی ہائیکوز درج کر رہا ہوں اوپر درج کئے
گئے اردو ہائیکوز سے موازنہ کر لیں‘ دونوں کے
مزاج میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا
برؾ
جو ہم دونوں نے دیکھی تھی
کیا اس سال بھی گرے گی
باشو
تنہائی بھی
مسرت ہے
شام خزاں
ہوسابوسان
کتنی حسین ہے
دروزے کے سوراخ سے
کہکشاں
کوباشی اسا
برسات
گھر کا رستہ سیلابی ہے
اور مینڈک وہاں تیر رہے ہیں
ماساؤکاشی کی
زرد پھولوں کی خوشبو
مترجم ڈاکٹر محمد امین
وکٹری بک بینک لاہور‘ ١٩٩٢
آج کی اردو ہائیکو اردو ؼزل کے مزاج سے بہت لریب
ہو کر بھی اپنی الگ سے پہچان اور رنگ ڈھنگ
رکھتی ہے۔ ہاءیکو نے خوش دلی سے اردو مزاج
اپنایا ہے۔ اپنے اس سبھاؤ کے سبب آتے ولتوں میں
اردو ہائیکواپنا جائز ممام حاصل کر لے گی اور اسے
وافر تعداد میں شاعر اور لاری میسر آ جاءیں گے۔
http://www.friendskorner.com/forum/showthread.php/
اردو-ہایکو-ایک-مختصر-جاءزہ295782-
ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی تحمیمی وتنمیدی زبان کے
سات رنگ
شخصیت کی مرکزی حس' جو کسی والعے' حادثے'
معاملے یا کسی اور وجہ سے' ترکیب پا گئی ہوتی ہے'
شخص کے معاملات میں ناچاہتے ہوئے بھی' دخیل
رہتی ہے۔ وہ رجحان یا تحریک نہیں ہوتی' بل کہ اسے
مجموعی رویے کا درجہ حاصل ہو گیا ہوتا ہے۔ یہ
حس' ہنرمندی میں بھی' کارفرما رہتی ہے۔ اسی کے
زیر اثر اسلوب ترکیب پاتا ہے۔ اس اسلوب کے حوالہ
سے' اس شخص کی شخصیت سامنے آ جاتی ہے۔
اسلوب اپنی اصل میں' اس شخص کی پرچھائی کے
درجے پر فائز ہوتا ہے۔ اس کی تخلیك اور ہنرمندی کا
تحمیمی مطالعہ کے دورانیہ میں اسلوب کی جہتوں کو'
کسی بھی سطح پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا باصوت
دیگر درست نتائج تک رسائی امکانات سے باہر رہتی
ہے۔
پروفیسر عبدالعزیز ساحر پی ایچ ڈی' اردو کے ایسے