محمك اور نماد ہیں' جن کے للم سے' تصوؾ نکلتا
ہے۔ تصوؾ ان کی مرکزی حس کے درجے پر فائز
ہے۔ اس کا مختلؾ حوالوں سے' ان کی کاوش ہا فکر
میں اظہار ملتا رہتا ہے۔ بعض اولات اور بعض جگہوں
پر' یوں محسوس ہوتا ہے کہ تصوؾ اور پروفیسر
ساحر' دو الگ سے وجود نہیں ہیں۔ تصوؾ سے ؼیر
متعلك مواد کی پش کش کی رگوں میں بھی' کسی
ناکسی سطح پر' تصوؾ موجود ہوتا ہے۔ جملوں میں
تصوؾ کی اصطلاحات موجود ہوتی ہیں۔ ان کے
استعمال میں' کہیں دنستگی کا عنصر نظر نہیں آتا۔
کہیں ان کا لہجہ صوفیانہ ہوتا ہے۔ تصوؾ ان کے
باطن کا لوازمہ بن چکا ہے اور یہ اپنے اظہار کا از
خود رستہ تلاش لیتا ہے۔ ہر سہ طرح کی مثالیں
ملاحظہ فرمائیں
تذبذب سے اثبات یمین تک کا سفراپنی ذات کے نہاں '
'خانوں میں' مرالبے کی تپسیا سے ممکن ہے۔
1
انکار حدییث سے الرار حدیث تک کا سفر دراصل گمان
سے یمین تک کا سفر ہے
2
ایک طرؾ عمل جستجو کا لبادہ اوڑھ کر تشکیک اور
گمان کے فکری تلازموں میں اظہار کی راہ پاتی ہے'
تو دوسری طرؾ عشك :حضور و اضطراب کی
معنوی جمالیات کا استعارہ بن جاتا ہے۔
3
خودکلامی۔۔۔۔۔۔۔۔ وحدتہ الوجودی صدالت فکروخیال:
اعتبارات و ممکنات کے تعینات کا اشاریہ بن کر صد ہا
سوالات کی اساس بن جاتی ہے۔
4
اصطلاحات تصوؾ
عرفان' معرفت' نفی' اثبات' سلسلہ' صوفی' وجدان'
مکاشفہ' یمین ' مرالبے' عشك' حضور' وحدتہ الوجود
وؼیرہ وؼیرہ
معاملہ یہاں تک ہی محدود نہیں' صوفیا کرام کے
اسمائے گرامی' ان کے سلسلوں اور متعلك امرجہ کا
ذکر بھی میسر آتا ہے۔
علامہ محمد حسیں آزاد کی علمیت اور اہلیت پر شبہ کرنا
زیادتی کے مترادؾ ہو گا لیکن ان کے افسانوی اسلوب
تکلم نے ۔۔۔۔۔ آب حیات۔۔۔۔۔ ایسی شاندار کاوش فکر
کے' کئی معاملات کو ؼیرصحت مند بنا دیا ہے۔ اس پر
میں بڑی تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ آب حیات کے
حوالہ سے وہ' ایک بڑے انشا پرداز کے طور پر
سامنے آئے ہیں۔ بعض والعات' ایک خوب صورت
افسانے کا درجہ رکھتے ہیں اور لطؾ دیتے ہیں۔ کہیں
خشکی اور بےلطفی کی صورت' پیدا نہیں ہوتی۔ ہاں
دو جمع دو چھے کی ابہامی صورت ضرور جنم لے
لیتی ہے۔
پروفیسر ساحر کے ہاں بھی' رومانوی اور افسانوی
طور اظہار ملتا ہے' جو کیؾ اور ایک لسم کی مٹھاس
فراہم کرتا ہے۔ اس طور میں' سکون اور آسودگی
پنہاں ہوتی ہے۔ لمحہ بھر کو بھر سہی' تلخیوں سے
چھٹکارہ میسر آ جاتا ہے۔ بعض اولات تادیر' وہ جملہ
ذہن میں سیر سپاٹے کرتا ہے۔ اصل مزے کی بات یہ
کہ وہ جملہ' ؼیر متعلك نہیں ہوتا۔ تفہیم کسی ابہام کا
شکار نہیں ہوتی۔ بات صاؾ اور واضح رہتی ہے۔ لاری
کے سوچ اور فکر پر بھاری نہیں پڑتی۔ باطورنمونہ یہ
مثالیں ملاحظہ ہوں۔
جب عرفان ذات کی معنوی بصیرت لمحوں کے امکانی'
تجربے سے اظہار کی راہ پاتی ہے تو بےنام مسافتوں
کی لذت آشنائی جذباتی تموج کے پس منظر سے چہرہ
نمائی کا احساس دلا دیتی ہے۔ اس طرح جب لہجے کی
بلند آہنگی مدھر سروں کی لے سے حظ اٹھاتی ہے تو
ماحول کے سکوت میں ارتعاش کا عنصر زندگی کا
'وجود نامہ ترتیب دے دیتا ہے۔
5
چمنستان حدیث کے آنگن سے پھوٹنے والا یہ فن اپنی
دینی روایت اور اس کی فکری تہذیب کا اشاریہ ہے۔
اس فن نے اسلامی تہذیب اور اس کے تمدن کی گرہ
کشائی میں بنیادی کردار ادا کیا۔
6
تاریخ کے سمندر میں اٹھتی موجیں گہر ہائے آب دار '
کی خبر لاتی رہیں۔
7
شخص کی نفسیات کو سمجھنا' بڑا ہی مشکل کام ہے۔
اس کے کیے یا بولے اور لکھے کا' اس کے دل و
دماغ یا باطن سے تعلك ہو' ضروری نہیں' ہاں البتہ
کسی سطح پر' اس کے کیے یا بولے اور لکھے کی
موہوم اور ؼیرواضح سی' پرچھائی موجود ہو سکتی
ہے۔ پرچھائی یا اس ؼیر واضح دھبے کی مدد سے'
کسی نتیجہ تک پہنچنا' امکان سے باہر ہوتا ہے۔ ہر
لفظ اور اس کا استعمال' انسان کی نفسیات سے جڑا
ہوتا ہے۔ لفظ کی نفسیات کے پاریکھ بہت کم ملتے
ہیں۔ لفظ کا' اس کے کلچر اور نفسیات کے مطابك
استعمال نہ ہونا' خرابی کے دروازے کھولتا ہے۔ لفظ
اور ٹریسز کا' انسانی زندگی میں بڑا عمل دخل ہوتا
ہے۔ جب کہا جاتا ہے
'جو بولو' سوچ سمجھ کر بولو '
تو اس کا مطلب یہ ہی ہوتا ہے' کہ لفظ کو اس کے
کلچر اور نفسیات کے مطابك' استعمال کرو۔ لفظ جب
بھی' اپنی مجوزہ نفسات اور کلچر کی حدود کی خلاؾ
ورزی کرتا ہے' زندگی سے آسانی اور سکون چھین
لیتا ہے' بل کہ زندگی میں ناصرؾ کجی پیدا ہو جاتی
ہے' تلخی کا بھی عمل دخل ہو جاتا ہے۔
پروفیسر ساحر' لفظ اور اس سے متعلك فکر کی
نفسیات سے' خوب خوب آگاہ ہیں۔ ان کے جملوں کا
نحوی نظام' ان کی باہمی ہم آہنگی سے تشکیل پاتا
ہے۔ اکثر یوں لگتا ہے' تعلیمی کیریئر میں' نفسیات ان
کا مضمون رہا ہے' تب ہی تو تحمیمی و تنمیدی
تحریروں میں' نفسیات سے متعلك اصطلاحات' جملے
کی ضرورت بن کر وارد ہوتی ہیں۔
خواب کی تجسیم کا یہ فکری پہلو رعنائی خیال کی اس
ہمہ گیری کا مرہون منت ہے جو حمیمت کے معنوی
دائرے کو وسعت سے آشنا کر دیتی ہے۔ جب اس عمل
کی کارفرمائی گمان کو یمین کا روپ عطا کرتی ہے تو
زندگی کی الدار صدالت کا علامتی نشان بن کر وجود
کی معنوی فضا کو پردہءاحساس کے شعوری رنگوں
میں بکھیر دیتی ہیں۔
8
خواب اور خیال کے استعاراتی تناظر میں خاک کی
فکری جمالیت اپنی تہذیبی معنویت میں فکر وخیال کے
جو دریچے وا کرتی ہے ان کا تعلك مابعدالطبیعیاتی
شعور سے وابستہ ہے اور زندگی کے مادی
اورخارجی رویوں کے ساتھ بھی۔
9
بہت سی' نفسیات کی مخصوص اصطلاحات کا' بڑی
روانی سے استعمال ہوا ہے۔ مثلا
خود کلامی' شعور' رویہ' خواب' تذبذب' تشکیک'
انتشار' ہم کلامی' فطرت' گمان
ادراک
وؼیرہ وؼیرہ
نظم ہو کہ نثر' الگ سے اپنی ایک تنظیم' ترتیب اور
لسانیاتی ڈسپلن رکھتے ہیں۔ نثر کا ایک نحوی نظام
ہوتا ہے جب کہ نظم عروض' آہنگ یا کم از کم اہنگ
کی حامل ہوتی ہے۔ کسی ناکسی سطح پر اس میں
ؼنائیت کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ یہ بات' الگ سے
اہمیت رکھتی ہے کہ ہمارے مذہبی علما کرام' نثر کو
بھی گانے پر ملکہ رکھتے ہیں' تاہم دیگر عمومی و
خصوصی سطحوں پر' یہ طور مستعمل نہیں۔ دونوں
میں زندگی اور زندگی کے معاملات سے متعلك' بات
کی جاتی ہے لیکن زبان' اسلوب' انداز' لب و لہجہ اور
بیان میں فرق موجود رہتا ہے .نثر میں شاعری یا
شاعری میں نثر ممکن نہیں۔ مثلا یہ ہائیکو ملاحظہ
فرمائیں
دیکھ کے چاند مرے آنگن کا
جانے کیوں پھیکا پڑ جائے
چنچل روپ بہاروں کا
دیکھ کے چاند مرے آنگن کا جانے کیوں پھیکا پڑ
جائے چنچل روپ بہاروں کا
لاکھ کوشش کر دیکھیں' اسے نثر کے انداز میں نہیں
پڑھ سکیں گے۔ نثر کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ یہ نثر کی
زبان ہی نہیں۔
شاعری نثر سے' الگ شعری لوازمات کی حامل ہوتی
ہے۔ رمز و ایمائیت' علامتیں تشبیہات' استعارے'
صنعتیں وؼیرہ اس کا خاصہ ہوتی ہیں۔ نثر' شعری
زبان اور شعری لوازمات کی' متحمل نہیں ہوتی۔
داستان' ناول یا افسانے کی زبان' رومانوی ہو سکتی
ہے' شعری نہیں۔ تنمید و تحمیك میں یہ بھی ممکن
نہیں۔ اس سے ابہامی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ابہام'
تحمیك و تنمید میں ممکن نہیں۔ یہ گویا آپسی ضدین
میں داخل ہیں۔
پروفیسر ساحر کی نثر میں بھی شعری رنگ وحسن'
لوچ' ملائمیت' چاشنی اور نازکی کے عناصر موجود
ہوتے ہیں۔ ان کا یہ طور لاری پر تھکن یا اکتاہٹ کی
کیفیت طاری نہیں ہونے دیتا۔ مثلا ان کی نثر سے یہ
ٹکڑے پڑھیے اور لطؾ لیجیے۔
انسان
گھر کی چار دیواری سے
خوشبو کی طرح
باہر آ جاتا ہے
اور
ان رستوں پر چل نکلتا ہے
جو کبھی اسے
حیرت و تحیر کے
طلسم کدوں میں بھٹکاتے
اور کبھی
علم و آگہی کے
لالہ زاروں میں لے جاتے ہیں
10
اس نثری ٹکڑے کی سرحدیں' اسلوب وآہنگ کے
حوالہ سے' شعر کی دنیا سے لریب تر ہیں۔
اب ذرا یہ جملہ ملاحظہ ہو
تاریخ کے سینے میں اٹھتی موجیں گہر ہائے آب دار
کی خبر لاتی رہیں۔
11
تاریخ کے سینے میں
اٹھتی موجیں
گہر ہائے آب دار کی
خبر لاتی ہیں۔
یہ سطور شعری مزاج سے بہرہ ور ہیں۔ آہنگ اور
شعری اسلوب کی کسی سطح پر کمی محسوس نہیں
ہوتی۔دوسری طرؾ کہیں ابہامی صورت پیدا نہیں ہو
رہی۔
اس ذیل میں' ایک اور نمونہ ملاحظہ ہو۔
دعا سے پھوٹی ہوئی شاعری خاک کی تعبیر کا سراپا
اوڑھ کر خواب اور خیال کے آفاق پر جلوہ گر ہونے
لگی اور ذات کا منظرنامہ انکسار وجود میں ڈھلنے
لگا۔
12
دعا سے
پھوٹی ہوئی شاعری
خاک کی تعبیر کا
سراپا اوڑھ کر
خواب اور خیال کے آفاق پر
جلوہ گر ہونے لگی
اور
ذات کا منظرنامہ
انکسار وجود میں
ڈھلنے لگا
ہر صنؾ ادب کی اپنی زبان اور اپنا اسلوب ہوتا ہے۔ یہ
اپنی زبان اور اپنے اسلوب میں ہی بھلی لگتی ہیں۔
لسانی واسلوبی کثافت' ناصرؾ لطؾ کو ؼارت کرکے
رکھ دیتی بل کہ تفہیمی ابہام کے رستے بھی کھل
جاتے ہیں۔ افسانوی اسلوب تکلم' خصوصا تحمیك و
تنمید کے وارے کی چیز نہیں ہے۔ یہ صاؾ صاؾ انداز
و بیان کی متماضی رہتی ہیں۔ اس سے کھردراپن
ضرور آ جاتا ہے' لیکن تفہیمی ابہام کا دروازہ نہیں
کھلتا۔ دو جمع دو چار ہی رہتے ہیں' چھے کسی
صورت میں نہیں بنتے۔ چھے کا شبہ' اس تحریر کو
تحمیك و تنمید کے کھاتے پر چڑھنے نہیں دیتا۔
پروفیسر ساحر کی رنگین نویسی بھی' تحمیمی و
تنمیدی امور کی انجام دہی میں' ناکام نہیں ہے۔ ؼالبا
اردو ادب کا یہ پہلا تجربہ ہے' جو تحمیمی و تنمیدی
اسلوب سے ہٹ کر' کچھ لکھا گیا ہے اور کسی بھی
سطح پر' ابہامی کیفت پیدا نہیں ہوتی۔ دو اور دو چار
ہی رہتے ہیں۔ باطور نمونہ فمط یہ دو جملے ملاحظہ
ہوں
تخلیك کا فکری پس منطر :عشك اور سرمستی کے
جذباتی رویوں سے ہم آہنگ ہو کر' فراق اور ہجر کے
تلازماتی آفاق کو اس طرح وسعت آشنا کرتا ہے کہ
موسموں کے بدلتے منظرنامے شاعر کی باطنی کیفیات
سے طلوع ہوتے ہیں۔
13
جب صدیوں کے سفر سے لوٹے' تو ان کا دامن رنگا
رنگ پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔ مختلؾ رنگوں اور
خوشبوؤں کے پھول۔۔۔۔۔۔ انھوں نے ان پھولوں کو اس
طرح گل سرسبد میں پرویا کہ نہان کے رنگ ماند پڑے
اور نہ خوشبو۔
14
فلسفانہ طور اظہار' بال کی کھال اتارنے کے مترادؾ
ہوتا ہے۔ اس میں ؼالب کا کہا' مثل رہتا ہے۔
ہوئی مدت کہ مر گیا ؼالب پر یاد آتا ہے
ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
شاید ہی کوئی شاعر رہا ہو گا' جس کے کلام کی اتنی
شرحیں ہوئی ہوں گی' جتنی ؼالب کے کلام کی ہوئی
ہیں۔ ان کا چند سو اشعار پر مشتمل دیوان' آج تک'
بڑے بڑے جید اہل فکر کی' تشریح کی گرفت میں نہیں
آ سکا۔ ذرا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
15
دیکھنے میں' بالکل عام سے لفظ استعمال میں آئے
ہیں لیکن ان میں کہا گیا' سادہ اور عام سا نہیں ہے۔
گویا فلسفیانہ اظہار' سوچ کے دائروں کو' لامحدود
کروں کی جانب' مراجعت پر مجبور کر دیتا ہے اور یہ
ہی ' کمال فکروفن ہے۔
پروفیسر ساحر کے ہاں' شیرہ میں ملفوؾ' فلسفانہ
طرز اظہار بھی' پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہ طور' لاری کو
ؼور و فکر کی وادیوں میں' لے جاتا ہے۔ ان وادیوں
میں گھومتے پھرتے' لاری پر معنویت کے نئے نئے
صحیفے اترتے ہیں۔ مثلا یہ جملے ملاحظہ ہوں۔
مشرلی اور مؽربی تہذیبوں کے باہمی ٹکراؤ
اور۔۔۔۔کسی حد تک۔۔۔۔۔مکالماتی اسلب نے زندگی کو
ایک نیا رنگ ڈھنگ عطا کیا۔ اس اسلوب کی فکری
اور جمالیاتی تہذیب محض ادب آشنائی سے ممکن
نہیں رہی' جب تک کہ ادب اور اس کے تناظر میں
موجودہ روایت اور تصور حمیمت کی وہ کلی تفہیم
ممکن نہ ہو جائے' جو ادب کو فکری اور تہذیبی
بنیادوں پر استوار کرتی ہے۔
16
ہر لفظ کا اپنا کلچر ہوتا ہے۔ اگر اس لفظ کا' اس کے
مجوزہ کلچر کے مطابك استعمال ہو رہا ہو' تو
اسے کمال ہنر کا نام دیا جائے گا۔
تفہیم میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔
تحریر و تمریر کے حسن میں ہر چند اضافہ ہوتا ہے۔
لاری یا سامع کی لطؾ انگیزی اور دل چسپی بڑھتی
ہے۔
لرآت یا مطالعہ کے دوران ابہام یا الجھاؤ پیدا نہیں
ہوتا۔
لاری یا سامع کسی نوع کی اکتاہٹ یا عدم توجہگی کا
شکار نہیں ہوتا۔
لفظ کا اصطلاحی اور مجازی استعمال بھی' مرکزے
سے دوری اختیار نہیں کرتا۔
پروفیسر ساحر' لفظ اور اس کے کلچر سے خوب آگاہ
ہیں۔ وہ جانتے ہیں' کون سا لفظ کہاں اور کس مولع
پر' استعمال ہونا چاہیے۔ لفظوں کی سماجیات سے
آگہی' جہاں تحریر کو رعنائی بخشتی ہے' وہاں اس کی
معنویت میں بھی اضافے کا سبب بنتی ہے۔ معاملہ
صاؾ ہو جاتا ہے اور کچھ بھی' درپردہ نہیں رہ پاتا۔
اس حوالہ سے دو ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں' جو ان
کی ثمافتی علمیت کی عکاسی کرتی ہیں۔
انسانی زندگی۔۔۔۔۔۔تہذیب اور ثمافت کے فکری
اورجمالیاتی آہنگ سے جڑی ہوتی ہے۔ زندگی کی کلی
معنویت کا احساس تہذیبی معنویت کے جمالیاتی
رنگوں سے پھوٹتا اور برگ و بار لاتا ہے' کیوں کہ
زندگی اؤر تہذیب میں ایک ایسی فکری اور اساسی
روح کارفرما ہوتی ہے' جس کا ادراک ہر دو کی تفہیم
کے بؽیر ممکن نہیں ہوتا۔
17
لفظ تہذیب کی اوٹ سے جب جلوہ نما ہوتا ہے' تو اس
کی معنوی اپیل وسعت آشنائی کی دلیل بن جاتی ہے۔
لفظ کی تہذیب کے باطن میں سفر آشنائی اور اس کی
مسلسل گردش کا راز اس کی معنوی ہمہ گیریت سے
وابستہ ہوتا ہے۔
18
پروفیسر عبدالعزیز ساحر پی ایچ ڈی کی تحمیك اور
تنمید کے یہ سات رنگ' اردو نثر کے انداز تحریر میں'
اپنی لگ سے شناخت رکھتے ہیں۔ آتا ولت' جہاں ان
کے تحمیمی ورک کو لدر کی نگاہ سے دیکھے گا'
وہاں ان کے ان سات رنگوں کے' حسن وجمال اور ان
کی نشت و برخواست کو نظرانداز نہیں کر سکے گا۔
.......................................
حوالہ جات
افتخار عارؾ :شخصیت اور فن ص 1 57
ڈاکٹر ؼلام جیلانی برق کے خطوط ص 2 35
افتخار عارؾ :شخصیت اور فن ص 3 89
افتخار عارؾ :شخصیت اور فن ص 4 89
جمیل الدین عالی کی نثر نگاری ص 5 6
تحمیمی مجلہ تعبیر 6
'شمارہ 1 :جنوری تا جون '2015شعبہءاردو
علامہ البال اوپن یونی ورسٹی' اسلام آباد
ڈاکٹر جمیل جالبی :شصیت اور فن ص 7 55
جمیل الین عالی کی نثر نگاری ص 8 8
افتخار عارؾ :شخصیت اور فن ص 9
جمیل الین عالی کی نثر نگاری ص 10 35
ڈاکٹر جمیل جالبی :شصیت اور فن ص 11 55
جمیل الین عالی کی نثر نگاری ص 12 62
بارہ ماھیہءنجم ص 13 12
ڈاکٹر جمیل جالبی :شصیت اور فن ص 14 49
شعر کی تشریح کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں 15
ؼالب کا ایک شعر
بروز :جولائی 09:19:35 ,2013 ,17صبح
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic
7983.0
جمیل الین عالی کی نثر نگاری ص16 24
ڈاکٹر جمیل جالبی :شخصیت اور فن ص 17 32
ڈاکٹر جمیل جالبی :شخصیت اور فن ص 18 69
کتابیں
بارہ ماھیہءنجم
ڈاکٹر ؼلام جیلانی برق کے خطوط
ڈاکٹر جمیل جالبی :شخصیت اور فن
جمیل الین عالی کی نثر نگاری
افتخار عارؾ :شخصیت اور فن
تحمیمی مجلہ تعبیر
'شمارہ 1 :جنوری تا جون '2015شعبہءاردو
علامہ البال اوپن یونی ورسٹی' اسلام آباد
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=6
8420
اختر شمار کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔ایک لسانیاتی جائزہ
بروز :ستمبر 01:53:17 ,2014 ,25صبح
یہ بات باور کر لینی چاہیے‘ کہ شخص زبان کے لیے
نہیں‘ زبان شخص کے لیے ہوتی ہے۔ جب شخص زبان
کا پابند ہو جاتا ہے‘ خیال اور جذبے کے اظہار کے
رستے میں‘ دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ کسی ناکسی
سطح پر‘ زبان کے اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری
ہو جاتی ہے‘ لیکن خیال اور جذبہ‘ اپنی اصلیت برلرار
نہیں رکھ پاتے۔ یعنی جو کہنا ہوتا ہے وہ پس پشت پڑ
جاتا ہے۔ جو کہنا تھا یا جو کہنے کی ضرورت تھی‘
کہا نہ جا سکا‘ تو سب لاحاصل اور لایعنی ٹھہرے گا۔
دوسری بڑی بات یہ ہے‘ کہ لفظ اپنی ذات میں‘ تفہیمی
استحکام نہیں رکھتا۔ جو لوگ لفظ کے تفہیمی استحکام
کے لائل ہیں‘ ہر لدم پر‘ ٹھوکر کھاتے ہیں۔ لؽت کچھ
ہوتے ہوئے بھی‘ کچھ بھی نہیں۔ اس پر اعتماد‘ گمراہ
کرتا ہے۔ اس موضوع پر‘ بڑی تفصیل سے بات کر
چکا ہوں۔ نیٹ پر موجود میری کتاب
The language problem
میں مضمون موجود ہے۔ لفظ اپنے متن میں ہی‘
معنویت سے ہم کنار ہوتا ہے۔ استعمال کنندہ کے
جذبے اور خیال کو‘ لفظ نے ہر حال اور ہر صورت
میں فالو کرنا ہوتا ہے۔
تیسری بات یہ کہ لفظ کی زبان کو سمجھے بؽیر‘ تفہیم
کے امور طے نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں کا عمومی طور
یہ ہی رہا ہے‘ کہ ہم لفظ کی بولی سمجھے بؽیر‘
تشریح کی طرؾ بڑھتے ہیں۔ کلام ؼالب ہو‘ کہ کلام
البال‘ بازار میں تشریحات کا انبار لگا ہوا ہے۔ ہر کسی
نے‘ لفظ کی بولی سمجھے بؽیر‘ تھوڑا نہیں‘ بہت کچھ
لکھ دیا ہے۔ یہ معاملہ کسی المیے سے بہرطور کم
نہیں۔
گلی کا کوئی عام شخص ہو‘ یا صاحب سخن‘ اپنا الگ
سے اسلوب رکھتا ہے۔ دونوں کے ہاں طرحداری
موجود ہوتی ہے۔ یہ نادانستہ طور ہوتا ہے۔ مکالمے
میں تفہیم کی ذیل میں‘ باڈی لنگوئج اپنا کردار ادا کرتی
ہے۔ پس دیوار‘ کہی گئی بات‘ جب کانوں میں پڑتی
ہے‘ تو سماعی آلہ متحرک ہوتا ہے‘ ابہام کی صورت
پیدا ہو سکتی ہے۔
پس دیوار ایک شخص کہتا ہے‘ آج میں اسے جان
سے مار دوں گا۔
سننے والا‘ اس بات کو اپنی ذات پر محمول کر سکتا
ہے۔ بات گرہ میں تو بندھے گی ہی‘ اس پر طرہ یہ کہ
اس ذیل میں‘ کوئی بھی منفی ردعمل سامنے آ سکتا
ہے۔ گویا کسی بھی سطح پر‘ سماعی آلے اپنی
کارگزاری میں صفر ہو سکتے ہیں۔ حالاں کہ اس نے‘
روزانہ دودھ پی جانے والی بلی کے بارے میں‘ کہا
ہوتا ہے۔ بصارتی آلے کی صورت بھی‘ اس سے مماثل
ہو سکتی ہے یا ہوتی ہے۔ جو دیکھا گیا ہو‘ ضروری
نہیں وہ اسی طرح سے ہو‘ جیسے دیکھا گیا ہوتا ہے۔
کاؼذ پر موجود لفظوں کی تفہیم‘ اور بھی مشکل ہوتی
ہے۔ لکھی گئی بات کے لہجے کا تعین‘ خود سے کرنا
پڑتا ہے۔ اس لیے‘ اہل سخن کے کہے کی تفہیم‘ لفظوں
کی بولی سمجھے بؽیر‘ ممکن ہی نہیں۔ اہل سخن
عمؤم سے نہیں ہوتے‘ اس لیے ان کے کہے کو‘
سرسری نہیں لیا جا سکتا اور ناہی ان کا کہا‘ عموم کا
کہا ہوتا ہے۔ انہیں سمجھنے کے لیے‘ پہلے ان کی
زبان سے آگہی ضروری ہے۔ ان کے کہے کا اصل
کمال یہ ہوتا ہے‘ کہ ان کے لفظوں کو جس رخ اور
جس پہلو سے دیکھو گے‘ تہ در تہ مفاہیم‘ ملتے چلے
جائیں گے۔ اگرچہ لمحہءتخلیك تک رسائی ممکن نہیں‘
پھر بھی‘ ؼور و فکر کے نتیجہ میں بہت کچھ ہاتھ لگ
سکتا ہے۔
کسی بڑی بات کو کہنے کے لیے‘ وہ لفظوں کو نیا
انداز اور نیا سلیمہ دیتے ہیں۔ لفظ اس طور سے‘ اور
ان معنوں میں‘ کبھی استعمال ہی نہیں کیا گیا ہوتا۔ گویا
وہ لفظوں کو رواج اور لؽت سے ہٹ کر‘ اور اپنی
مرضی کے معنی عطا کرتے ہیں۔ کپڑا ایک سا ہی ہوتا
ہے‘ لیکن درزی کی ہنرمندی اسے اور ہی پہب دے
دیتی ہے۔ وہ پہب‘ بصارتی آلات پر مثبت اثرات مرتب
کر سکتی ہے۔ ہر نئے کے لیے‘ استعمال کا سلیمہ بھی
نیا‘ اور الگ سے ہوتا ہے۔ نئے کے لیے مرکبات بھی
نئے وجود پکڑیں گے۔
سبھی اہل سخن‘ اپنے اپنے حوالہ سے‘ اردو زبان کے
لیے‘ بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اردو زبان کو
بساط بھر‘ کچھ دیا ہی ہے۔ باہمی رنجش ہو‘ کہ ادبی
چپملس‘ کسی معاملے کا رد عمل ہو‘ کہ ذات کا کرب
زبان کو کچھ ناکچھ ملا ضرور ہے۔ التداری ہواوں کے
مسافروں سے بھی‘ زبان مایوس نہیں ہوئی‘ ہاں‘ ان
کی ؼلط اور التداری شہادت نے‘ آتے کل کے لیے‘
مخمصے ضرور چھوڑے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ ان کے
کہے کے حوالہ سے‘ تمسیم کا دروازہ ضرور کھلا ہے۔
التدار سے دور محروم لوگوں نے‘ اپنے وسیب کے
معاملات کو نگاہ میں رکھا ہے۔ سماجی اور التداری
بےانصافیوں کو‘ لفظوں میں ملفوؾ کرکے پیش کیا
ہے۔ جو بھی سہی‘ زبان کی خدمت ضرور ہوئی ہے۔
سچی گواہیوں کی شاعری کی زبان کو‘ سٹریٹ نے
لبولیت کی سند عطا کی ہے۔
عہد لریب کے تین چار لوگ محرومی‘ تلخی‘ بؽاوت‘
جدت طرازی اور محبتوں کی مٹھاس کے حوالہ سے
شاید فراموش نہ کیے جا سکیں گے۔ کونے کھدرے
میں سہی‘ ان کا نام ضرور بالی رہے گا۔ علامہ بیدل
حیدری‘ عصر جدید کی بڑی توانا آواز ہے۔ ان کے ہاں‘
زندگی اپنے ان گنت رنگوں کے ساتھ رلصاں نظر آتی
ہے۔ وہ نظم اور ؼزل کے‘ پختہ کار شاعر تھے۔ بڑے
بڑوں کا للم‘ ان کے للم کے‘ لدم لیتا نظر آتا ہے۔
اختر حسین جعفری‘ کلاسیکل زبان کو جدید طور سے‘
آشنا کرنے میں‘ اپنا جواب نہیں رکھتے۔ شکیب جلالی
کی فکر اپنی جگہ‘ ظالم دہائی کی زبان استعمال کرتا
ہے۔ مبارک احمد اور انیس ناگی نے نثری نظم کی
زبان کو الگ سے سلیمہ عطا کیا۔ تبسم کاشمیری نے‘
زندگی کو شہد میں ملفوؾ کرنے کی سعی کی جب کہ
سعادت سعید‘ ہمیشہ جدت طرازی کے گھوڑے پر
سوار رہے۔
ان سب کی زبان کا مطالعہ کریں‘ تو یہ کہے بؽیر بن نہ
پائے گی‘ کہ ان اہل سخن نے اردو کو نیا اور انسانی
زندگی سے میل کھاتا‘ سلیمہ عطا کیا۔ یہ سب برگد ہیں‘
اور ان کی شاخوں کا شمار‘ مجھ ناچیز طالب علم کے
لیے ممکن ہی نہیں۔
عصر رواں میں‘ علامہ بیدل حیدری کے پائے کا‘ شاید
ہی کوئی خوش فکر اور خوش زبان شاعر نظر آئے۔
اس برگد کی ایک شاخ پر‘ میری نظر پڑی ہے۔ اس
کے کلام کی خوش بو‘ نفیس طبع کے لوگوں کو
مسرور کرتی ہے‘ اور کہیں گدگداتی ہے۔ اس کی زبان
اور فکر کا سلیمہ ہی الگ سے‘ اور ہٹ کر ہے۔ اس کا
کلام پڑھ کر‘ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے‘ کہ وہ
اردو زبان کی لدرت اور لچک پذیری سے‘ خوب خوب
آگاہ ہے۔ اس نے اپنا الگ سے‘ لسانیاتی اسلوب
تشکیل دیا ہے۔ شعری زبان میں‘ اس کا اپنا الگ سے
لہجہ ہے۔ اس کا یہ اسلوب اور لہجہ‘ لاری کی توجہ
حاصل کرنے میں کمال رکھتا ہے۔ بات کرنے کے لیے‘
اس نے کئی طور اور انداز اختیار کیے ہیں۔
اب میں اس شاخ کی‘ شعری زبان کا مختصر مختصر‘
اور ناچیز سا مطالعہ پیش کرتا ہوں۔ اس مطالعہ سے‘
اس کی زبان دانی کے لد و کاٹھ کا‘ کسی حد تک سہی‘
اندازہ ضرور ہو جائے گا۔
طنز‘ حیرت اور سماجی حمیمت میں ملفوؾ ذرا یہ
سوالیہ انداز ملاحظہ ہو۔
مانگے گا کوئی بھیک ترے شہر میں کیسے
پہلو میں ہر اک شخص کے جب کاسے بندھے ہیں
جہاں اس شعر میں سوال ہے‘ وہاں شاعر کسی سے
مخاطب بھی ہے۔ دکھنے میں یہ شعر جتنا سادہ ہے‘
تفہیم میں اتنا طرحدار بھی ہے۔ اس شعر میں لفظ ترے
نے‘ اسے بڑا بلیػ بنا دیا ہے۔ اسی لماش کا‘ ایک اور
سلگتا ہوا شعر ملاحظہ ہو
کچھ تو بتاؤ کیا کیا راکھ ہوا ہے اور
اور وہ لوگ جو آگ لگانے آئے تھے
کچھ تو بتاؤ
کیا کیا راکھ ہوا ہے
اور
پہلے مصرعے کا اور اتنا سادہ نہیں‘ جتنا نظر آ رہا
ہے۔ یہ سوالیہ ہے‘ کچھ تو بتاؤ کیا کیا راکھ ہوا ہے۔۔۔۔
الگ سے سوال ہے۔ دوسرے مصرعے میں‘ اس کی
نوعیت بالکل مختلؾ ہے ۔ بات بھی پہلے مصرعے
سے الگ تر ہے۔ اسے اس طور سے دیکھیں
اور وہ لوگ
جو آگ لگانے آئے تھے
شاعر خود کلامی سے بھی کام لیتا ہے۔
کیمرا رکھ کے سامنے خود ہی
اپنی تصویر اس کے ساتھ اتار
اب تخاطب میں لیپٹا‘ استداعیہ انداز ملاحظہ ہو
کر عطا مجھ کو صبر کا مفہوم
پیاس میری لب فرات اتار
تلمیح نے فکر کو اور جاندار بنا دیا ہے۔
فکر کی پرواز اور رفتار کے مطابك‘ رنگ ہاتھ لگتے
ہیں۔ ان رنگوں کا استعمال‘ بالکل الگ سے ہنر ہے۔
تصاویر وہ ہی من بھاتی ہیں‘ جو ناصرؾ خوب صورت
ہوں‘ باتیں بھی کرتی ہوں۔ بےجان اور سکوت کا
شکار تصاویر‘ لمحہ بھر کو سامنے آتی ہیں‘ اور پھر
دل و دماغ سے یکسر محو ہو جاتی ہیں۔ جاگتی بولتی
اور باتیں کرتی اور بناتی تصاویر‘ تادیر دل و دماغ میں
رلص کرتی ہیں۔ نہیں یمین آتا تو دو منٹ نکالیے‘ اور
ان تصاویر کو دیکھیے۔ سرسری نظر‘ ممکن ہے‘
تادیر آپ کو مسرور رکھے۔
تعویز محبت
ممکن ہے اسے کھینچ کے لےآئیں ہوائیں
تعویز محبت سبھی اشار سے باندھو
ٹمٹماتی لو
ٹمٹماتی لو ترا چہرا نظر کے رو بہ رو
مرتے مرتے دیکھتا ہوں زندگانی کی طرؾ
ہر لفظ ایک دوسرے سے پیوست ہے‘ اور ایک
مخصوص ایمیج تشکیل دے رہا ہے‘ یہ چشم تصور
سے دیکھنے سے تعلك رکھتا معاملہ ہے۔
آنکھوں کی چمک‘ نگاہوں میں ارادہ
اس بار ان آنکھوں کی چمک میں ہے کوئی دل
اس بار نگاہوں میں ارادہ سا کوئی ہے
یاد کی دھوپ
یاد کی دھوپ میں لرزتا ہے
ایک سایہ کہیں ردا سا
مستعمل محاوروں کا استعمال‘ کمال کا حسن رکھتا ہے۔
یہ ہی نہیں جدت طرازی کا خوب صورت نمونہ ہوتا
ہے۔ باطور ذائمہ دو تین محاوروں کا استعمال ملاحظہ
ہو
دل میں اس کو تلاش کر لیکن
پہلے شیشے میں کائنات اتار
کبھی اٹھے گا بھی پردہ دل سے
کبھی نکلے گی یہ دنیا دل سے
!بینائی کا خمیازہ نہ پڑ جائے بھگتنا
ہر خواب نہ یوں حسن طرحدار سے باندھو
یہ کس طرح کے بھلا ہم اسیر ظلمت ہیں
کہ روشنی کی ملالات بھی نہیں آتی
صنعت تکرار لفظی‘ شاعر بکثرت استعمال کرتا ہے
اور اس کے لیے‘ اس نے کئی انداز اختیار کیے ہیں۔
اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں
سوچتے سوچتے جب سوچ ادھر جاتی ہے
روشنی روشنی ہر سمت بکھر جاتی ہے
رفتہ رفتہ ہی دل تجھ کو بھولے گا
جاتے جاتے ہی یہ رؼبت جاتی ہے
دل کی آنکھوں سے اگر دیکھو تو‘ دیکھو ہر سو
ان نظاروں سے الگ ایک نظارہ آباد
میں رہوں یا نہ رہوں یار رہے بالی‘ اور
یار کے ساتھ رہے یار کا لصبہ آباد
دیکھنا اب ہے مسافر کی طرح ہر منظر
میلے میں رہ کے بھی میلے سے الگ رہنا ہے
ہم صوت لفظوں کا استعمال‘ شاعر کی زبان پر لدرت کا
منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ صنعت ؼنا کے حوالہ سے‘ بڑی
اہمیت رکھتی ہے۔ مثلا یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں
ہم نے کبھی نہ چیز اٹھائی پڑی ہوئی
لدموں میں تھی اگرچہ خدائی پڑی ہوئی
اٹھیں تو لدم کیسے میں جاؤں تو کہاں جاؤں
ہے آگ مرے آگے تودریا مرے پیچھے
دشت کی پیاس بجھے گی اک روز
کبھی گزرے گا وہ دریا دل سے
روح بھی جھوم اٹھی تھی اس پل
رات گزرا جو وہ تارا دل سے
صنعت تضاد‘ جہاں تمابلی صورت پیدا کرتی ہے‘ وہاں
شناخت کا‘ بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ اس سے عناصر
کی اہمیت‘ اور حمیمی لدر کا بھی‘ اندازہ ہوتا ہے۔ اس
صنعت کا استعمال‘ بڑی ہنرمندی سے ہوا ہے۔ مثلا
روشنی اور تیرگی میں اک دیا دیوار ہے
اور اس کی راہ میں دیکھو ہوا دیوار ہے
میری صدا پر وہ لریب تو آئے گا
لیکن زیر دام نہیں آنے والا
جاگتے جاگتے ہے نیند بھی پوری کرنی
بھیڑ میں رہ کے بھی چپکے سے الگ رہنا
بچھڑا ہے کون کس سے کوئی جانتا نہیں
ہم تم سے کیا ملے‘ ہے دہائی پڑی ہوئی
متعلمات کا استعمال‘ جہاں وضاحت پیدا کرتا‘ وہاں
مفاہیم کے دائرے‘ پھیلانے کا بھی سبب بنتا ہے۔ اس
ضمن میں چند نمونہ کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
ساون کی جھڑیاں بھی نوچتی رہتی تھیں
تیرے بن برسات پہ ؼصہ آتا تھا
میں ایک اشک ندامت تھا اپنی پلکوں پر
کسی نگاہ میں آیا تو آئنہ ٹھہرا
اک لہر مجھے اور طرؾ کھینچ رہی ہے
جو ؼرق کیے جائے‘ کنارا سا کوئی ہے
کنارے کا ؼرق کرنا‘ لطعی متضاد معنی رکھتا ہے۔ اہل
سخن کا کمال یہ ہی ہوتا ہے‘ کہ وہ لفظ کو اپنی مرضی
کے مفاہیم‘ عطا کرتے ہیں۔
تشبیہ شعر کی جان ہوتی ہے۔ اس کا برمحل اور
پرسلیمہ استعمال‘ شعر میں ممناطیسیت بھر دیتا ہے۔
زیر مطالعہ شاعر کی چند تشبیہات دیکھیں۔ کیا طور
اور انداز پایا ہے۔
وہ ایک سانس کہ دھڑکن کے ساتھ رک سی گئی
وہ ایک پل کہ بھڑکتا ہوا دیا ٹھہرا
رات گزرا یہ کس گلی سے میں
کیا اندھیرا تھا وہ ضیا کا سا
تیرتے آئیں نظر جس میں ستاروں کے دیے
میری آنکھوں کے کنارے ہے وہ دریا آباد
یہ تشبیہ‘ استعارے کا اترن لیے ہوئے ہے۔
لگے ہاتھوں‘ ان کے دو تین مرکبات بھی ملاحظہ فرما
:لیں
عکس یمین
پڑا ہے شیشہءدل پر تمہارا عکس یمین
ملے ہیں پہلے کہیں ہم‘ گمان پڑتا ہے
حرؾ تسکیں
حرؾ تسکیں‘ ترا شفا کا سا
دل پہ جادو ہوا دوا کا سا
سچ کا دیپک
سچ کا دیپک مانگ رہا ہے آخری سانس
جان بچا لوں میں تو محبت جاتی ہے
اہل سخن کے کہے کا‘ ایک کمال یہ بھی ہوتا ہے‘ کہ
جس زاویہ سے بھی دیکھو‘ یا اشکالی اور استعمالی
تبدیلیاں کر لو‘ مفاہیم کا جہاں آباد ہوتا ہے۔ باطور
ثبوت یہ مثالیں پیش ہیں۔
کیا لوگ ہیں‘ ہم لذت دنیا سے بندھے ہیں
پانی کے لیے پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
کیا لوگ ہیں
ہم لذت دنیا سے بندھے ہیں
پانی کے لیے
پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
اب اس شعر کو یوں پڑھیے
کیا لوگ ہیں ہم
پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
پانی کے لیے
لذت دنیا سے بندھے ہیں
اب یوں پڑھیے
کیا لوگ ہیں ہم‘ پانی کے لیے
پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
یہ استعارے کہاں لے جاتے ہیں‘ ذرا ؼور فرمائیں۔
انہیں تلمیحی حوالہ سے بھی‘ لے سکتے ہیں۔
پانی‘ پیاس‘ صحرا
ہم صوت الفاظ
سے‘ کے
انہیں باطور محاورہ لے سکتے ہیں۔
لذت دنیا سے بندھنا
پیاس کے صحرا سے بندھنا
پیار ہی پیار میں وہ آگ بگولا ہو جائے
بات ہی بات میں تلوار پہ آ جاتا ہے
پیار ہی پیار میں
وہ آگ بگولا ہو جائے
بات ہی بات میں
تلوار پہ آ جاتا ہے
اب یوں پڑھیے
بات ہی بات میں
وہ آگ بگولا ہو جائے
پیار ہی پیار میں
تلوار پہ آ جاتا ہے
تلوار پہ آنا‘ نیا محاورہ ترکیب پایا ہے۔
وہ ایک پل کہ ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا
نظر نظر میں شعاعوں کا لافلہ ٹھہرا
وہ ایک پل کہ
ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا
نظر نظر میں
شعاعوں کا لافلہ ٹھہرا
اب یوں پڑھیے
نظر نظر میں‘ ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا
وہ ایک پل کہ شعاعوں کا لافلہ ٹھہرا
نظر نظر میں
ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا
وہ ایک پل کہ
شعاعوں کا لافلہ ٹھہرا
ترے رو بہ رو شعاعوں کا لافلہ ٹھہرا
وہ ایک پل کہ ترے رو بہ رو آ ٹھہرا
شاعر کا واسطہ‘ جہاں سخن سناشوں سے ہوتا ہے‘
وہاں وسیب کے ہر طبمہ کے لوگوں سے بھی‘ تعلك
اور رشتہ ہوتا ہے۔ وہ ان ہی کے دکھ درد کاؼذ پر
منتمل کر رہا ہوتا ہے۔ ان سے اٹوٹ رشتہ ہونے کے
باعث عوامی روزہ مرہ اور عوامی تکیہءکلام‘ اس کی
شعری زبان کا حصہ بن جاتا ہے۔ زیر گفت گو شاعر
نے‘ اس میں بہت کم تصرؾ سے کام لیا ہے۔
پہلے پہل
پہلے پہل ہر بات پہ ؼصہ آتا تھا
اور مجھے حالات پہ ؼصہ آتا تھا
بات ہی بات میں
پیار ہی پیار میں وہ آگ بگولا ہو جائے
بات ہی بات میں تلوار پہ آ جاتا ہے
ویسے بھی
ویسے بھی کچھ خون میں گرمی تھی اس ولت
ویسے بھی ہر بات پہ ؼصہ آتا تھا
اس کا دیا
اس کا دیا بہت ہے
اس کا دیا بہت ہے مگر کیا کروں شمار
ہر شے ہے میرے پاس پرائی پڑی ہوئی
ؼزل میں شاعر تخلص آخر میں استعمال کرتا ہے۔
اختر شمار کی ؼزل پر میں نے گفت گو کی ہے۔ اس
گفت گو کا اختتام ممطعے پر کیا ہے۔ سماج کی یہ ریتا
رہی ہے‘ اگر کوئی برا کرئے‘ تو اس کے پیر اور
استاد کو پنتے ہیں۔ اچھا کرنے کی صورت میں‘ استاد
پس پشت چلا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کروں گا۔ علامہ
بیدل حیدری نے‘ اختر شمار کو شعری ہنر سکھانے
میں‘ بلاشبہ کسر نہیں چھوڑی۔ یہ اپنی جگہ اٹل حمیمت
ہے‘ کہ اختر شمار سے ہنر سیکھنے والے‘ لگن کے
پکے بھی کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
=http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic
9212.0
محمد امین کی شاعری ۔۔۔۔۔۔۔ عصری حیات کی ہم سفر
بروز :اکتوبر 08:57:12 ,2014 ,05صبح «
یہ بات سچ ہے‘ اور آفالی حمیمت کے درجے پر فائز
ہے‘ کہ کرسی لریب اہل للم‘ ہر دور میں‘ ناصرؾ
آسودہ حال رہے ہیں‘ بلکہ کم زور طبموں کے مجرم
بھی رہے ہیں‘ کیوں کہ سچ کا ممدر‘ ان کے ہاں‘ ؼلام
گردش بھی نہیں رہ پاتا۔ چوں کہ شاہ کے کارناموں
کو آسمانوں پر پہنچا دیا گیا ہوتا ہے‘ اس لیے آتے
ولتوں میں‘ شاہ ہی‘ سلام و پرنام کے مستحك ٹھہرتے
ہیں۔ جن کے باپ دادا‘ ان شاہوں کی استحصالی تیػ کا
نشانہ رہے ہیں‘ وہ بھی ان گماشتہ شبدوں کے اسیر
ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی جذباتی وابستگی‘
استحصالیوں کے ساتھ رہتی ہے۔ بدلسمتی دیکھیے‘
کرسی دور لوگ‘ اپنے عہد میں محرومی کا شکار
رہتے ہیں۔ مرنے کے بعد‘ ان کا اثاثہ ردی میں بک
جاتا ہے۔ کسی کو یاد تک نہیں ہوتا‘ کہ کوئی اپنے عہد
کا پکا‘ کھرا اور سچا شہادتی بھی تھا۔
بائیں آنکھ کے نظر انداز اہل للم نے‘ کسی بھی زبان
کو‘ مختلؾ حوالوں سے‘ نوازا ہوتا ہے۔ ان کے تین
:حوالے‘ بڑی نمایاں حیثیت کے حامل ہوتے ہیں
انہوں نے اپنے عہد کی سماجی اور سیاسی ١-
ناہمواریوں کو‘ فوکس کیا ہوتا ہے۔
کسی ناکسی سطح پر‘ آفالی سچائیوں کی عکاسی ٢-
کی ہوتی ہے۔
آفالی اور سماجی و سیاسی زبان سے‘ اس زبان ٣-
کے دامن کو مالا مال کیا ہوتا ہے۔
للم والا‘ ان تین حوالوں سے‘ اپنے اور آتے عہد کو
نواز رہا ہوتا ہے۔ اس کی بےتولیری‘ ظلم اور زیادتی
نہیں‘ تو اور کیا ہے۔ گولی مارو حکومتی سطح کے
ایواڑوں اور تمؽوں کو‘ انہیں پیٹ بھر روٹی تو ملنی
چاہیے۔ معاؾ کیجیے‘ میں کہیں بھول رہا ہوں‘ شعر
کچھ اسی طرح سے تھا۔
اسپ تازی شدہ مجروح بر زیر پلان
طوق زرین ہمہ در گردن خر میبینم
صدیوں پرانا یہ شعر‘ آج کے نام نہاد ترلی یافتہ دور
پر بھی‘ فٹ آ رہا ہے۔ یار ان لوگوں کی لدر کرو۔ شاہ
کو چھوڑو‘ اس سے خیر کی تولع نہ کرو۔ احسان
کرئے گا‘ تو واپسی میں ضمیر وایمان‘ کباڑ خانے میں
بھی نہ رکھنے دے گا۔ لوم کو انہیں زندگی کا جھومر
بنانا چاہیے۔ انصاؾ کا یہ ہی تماضا ہے۔ ان کی تولیر
کو‘ جو لومیں بالائے طاق رکھتی ہیں‘ ؼلطی کرتی
ہیں۔ ایسے لوگ‘ کب روز روز پیدا ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد امین‘ بنیادی طور پر فلسفہ کے استاد ہیں‘
لیکن شعروسخن سے بھی رشتہ رکھتے ہیں۔ انہیں
اردو ہائی کو کا امام کہا جاتا ہے۔ انہوں نے جاپانی
سے اردو میں ہائی کو ترجمہ کیے‘ خود بھی لکھے۔
وہ صرؾ اسی صنؾ تک ہی محدود نہیں رہے‘ ؼزل
اور نظم بھی ان کی فکر سے‘ مالا مال ہوئی ہے۔ ان
کے ہائی کو ہوں‘ یا نظم‘ ؼزل کا پرپیچ میدان ہو‘ ان
کی شاعری عصری حوالوں سے جڑی رہتی ہے۔
سیاسی اور سماجی معاملات کو‘ بڑی خوبی سے‘ بیان
کر دیتے ہیں۔ ممامی سچائیاں ہی ان کے للم پر‘ نہیں
چڑھیں آفالی سچائیاں بھی بیان کرتے چلے جاتے۔ ان
کے کہنے کی زبان‘ انتہائی سادہ اور عام فیہم ہوتی
ہے۔ ان کی یہ سادہ زبان‘ درحمیمت سماجیات کی زبان
ہے۔ ان کا مخاطب‘ اعلی طبمے کا شخص نہیں ہوتا۔
عوامی روزہ مرہ بڑے سلیمے سے باندھتے ہیں۔
اس ذیل میں ان کے کلام میں سے‘ چند مثالیں باطور
:نمونہ ملاحظہ ہوں
ہمارے شہر کی اب کیفیت کیا ہے بتائیں کیا
کسی کا گھر نہیں ملتا کسی کا سر نہیں ملتا
ہمارے جمح کا صیؽہ ہے‘ جو اس امر کا ؼماز ہے‘ کہ
مجموعی بات کی گئی ہے۔ لفظ شہر مخصوص علالے
کو ظاہر کرتا ہے۔ جب کہ شاعر‘ کسی مخصوص
علالے کا شخص نہیں ہوتا۔ ہمارے شہر کہہ کر‘
مجموعی وسیب مراد لیا گیا ہے۔ لفظ کیفیت صورت
حال کے لیے ہے۔ اب‘ اس امر کی طرؾ واضح اشارہ
ہے کہ بات کا تعلك ماضی سے متعلك نہیں‘ شاعر کے
عہد سے ہے۔ پہلے مصرعے میں ہی دو سوالیے
مختلؾ نوعیت کے ہیں۔
کیفیت کیا :موجود صورت حال
کیا بتائیں :گھمبیرتا کا اظہار ہے۔
دوسرا مصرعہ واضح کر رہا ہے‘ کہ لالانونیت اور
بےاصولی کا پہرا ہے۔ ظالموں‘ ڈاکووں‘ لاتلوں لبضہ
گروپوں وؼیرہ پر کوئی گرفت نہیں‘ انہیں کھلی چھٹی
دے دی گئی ہے۔ اس حساب سے لانون نافذ کرنے
:والے ادارے
مجرموں کے سامنے بےبس ہیں۔
کیوں
لانون نافذ کرنے والے‘ مجرموں سے کم زور ہیں۔
مجرم ریاست کے بڑوں کے اپنے بندے ہیں۔
لانون نافذ کرنے والے بک چکے ہیں۔
ظالموں کے ساتھی ہو گیے ہیں۔
یا یہ سب‘ ریاست کے وڈیرے کر رہے ہیں۔ گھر اور
سر‘ کا نہ ملنا کوئی معمولی معاملہ یا معمولی حادثہ
نہیں‘ جسے یوں ہی نظرانداز کر دیا جائے۔
اس شعر کے تناظر میں‘ یہ شعر ملاحظہ ہو۔
روشنی کس طرح چڑھ گئی دار پر
اک تحیر ہے ماتم کناں شہر میں
کس طرح
لیامت خیز سوالیہ ہے۔ روشنی کے اپنے یا اس سے
متعلك سب مر گیے ہیں یا موجود ہی نہیں ہیں۔ ہر دو
صورتیں خوؾ ناک ہیں۔
کیا اب اطراؾ میں اندھیرا ہو گا۔
آواز اٹھانے والا یا روشنی کی سعی کرنے والا کوئی
بھی نہ ہو گا۔
اندھیر راج‘ کم زور طبموں یا انسانیت کا ممدر ٹھہرے
گا۔
اندھیرے کے باسی‘ آتے ولتوں میں روشنی نام کی
چیز کو ہی‘ بھول جائیں گے۔
تمیز و امتیاز‘ جو زندگی کا لازمہ اور ترلی کا زینہ
ہے‘ بالی نہ رہے گی۔
کس طرح‘ کی تفہیم تک رسائی کی سعی کریں۔ ہر
سانس دمے کے مرض میں مبتلا ہو جائے گا۔
دوسرے مصرعے میں ردعمل بھی پیش کیا ہے۔
تحیر ہے :حیرت کے دامن میں پشیمان اور دردآلودہ
چپ ہوتی ہے۔ درد سے لبریز چپ بڑی خطرناک ہوتی