The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2015-12-07 10:17:52

2_2015_12_07_16_09_05_425

2_2015_12_07_16_09_05_425

‫محمك اور نماد ہیں' جن کے للم سے' تصوؾ نکلتا‬
‫ہے۔ تصوؾ ان کی مرکزی حس کے درجے پر فائز‬
‫ہے۔ اس کا مختلؾ حوالوں سے' ان کی کاوش ہا فکر‬
‫میں اظہار ملتا رہتا ہے۔ بعض اولات اور بعض جگہوں‬
‫پر' یوں محسوس ہوتا ہے کہ تصوؾ اور پروفیسر‬
‫ساحر' دو الگ سے وجود نہیں ہیں۔ تصوؾ سے ؼیر‬
‫متعلك مواد کی پش کش کی رگوں میں بھی' کسی‬
‫ناکسی سطح پر' تصوؾ موجود ہوتا ہے۔ جملوں میں‬

‫تصوؾ کی اصطلاحات موجود ہوتی ہیں۔ ان کے‬
‫استعمال میں' کہیں دنستگی کا عنصر نظر نہیں آتا۔‬
‫کہیں ان کا لہجہ صوفیانہ ہوتا ہے۔ تصوؾ ان کے‬
‫باطن کا لوازمہ بن چکا ہے اور یہ اپنے اظہار کا از‬
‫خود رستہ تلاش لیتا ہے۔ ہر سہ طرح کی مثالیں‬

‫ملاحظہ فرمائیں‬

‫تذبذب سے اثبات یمین تک کا سفراپنی ذات کے نہاں '‬
‫'خانوں میں' مرالبے کی تپسیا سے ممکن ہے۔‬

‫‪1‬‬
‫انکار حدییث سے الرار حدیث تک کا سفر دراصل گمان‬

‫سے یمین تک کا سفر ہے‬

‫‪2‬‬

‫ایک طرؾ عمل جستجو کا لبادہ اوڑھ کر تشکیک اور‬
‫گمان کے فکری تلازموں میں اظہار کی راہ پاتی ہے'‬

‫تو دوسری طرؾ عشك‪ :‬حضور و اضطراب کی‬
‫معنوی جمالیات کا استعارہ بن جاتا ہے۔‬

‫‪3‬‬
‫خودکلامی۔۔۔۔۔۔۔۔ وحدتہ الوجودی صدالت فکروخیال‪:‬‬
‫اعتبارات و ممکنات کے تعینات کا اشاریہ بن کر صد ہا‬

‫سوالات کی اساس بن جاتی ہے۔‬

‫‪4‬‬
‫اصطلاحات تصوؾ‬
‫عرفان' معرفت' نفی' اثبات' سلسلہ' صوفی' وجدان'‬
‫مکاشفہ' یمین ' مرالبے' عشك' حضور' وحدتہ الوجود‬

‫وؼیرہ وؼیرہ‬

‫معاملہ یہاں تک ہی محدود نہیں' صوفیا کرام کے‬
‫اسمائے گرامی' ان کے سلسلوں اور متعلك امرجہ کا‬

‫ذکر بھی میسر آتا ہے۔‬

‫علامہ محمد حسیں آزاد کی علمیت اور اہلیت پر شبہ کرنا‬
‫زیادتی کے مترادؾ ہو گا لیکن ان کے افسانوی اسلوب‬

‫تکلم نے ۔۔۔۔۔ آب حیات۔۔۔۔۔ ایسی شاندار کاوش فکر‬

‫کے' کئی معاملات کو ؼیرصحت مند بنا دیا ہے۔ اس پر‬
‫میں بڑی تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ آب حیات کے‬
‫حوالہ سے وہ' ایک بڑے انشا پرداز کے طور پر‬
‫سامنے آئے ہیں۔ بعض والعات' ایک خوب صورت‬

‫افسانے کا درجہ رکھتے ہیں اور لطؾ دیتے ہیں۔ کہیں‬
‫خشکی اور بےلطفی کی صورت' پیدا نہیں ہوتی۔ ہاں‬
‫دو جمع دو چھے کی ابہامی صورت ضرور جنم لے‬

‫لیتی ہے۔‬

‫پروفیسر ساحر کے ہاں بھی' رومانوی اور افسانوی‬
‫طور اظہار ملتا ہے' جو کیؾ اور ایک لسم کی مٹھاس‬

‫فراہم کرتا ہے۔ اس طور میں' سکون اور آسودگی‬
‫پنہاں ہوتی ہے۔ لمحہ بھر کو بھر سہی' تلخیوں سے‬
‫چھٹکارہ میسر آ جاتا ہے۔ بعض اولات تادیر' وہ جملہ‬
‫ذہن میں سیر سپاٹے کرتا ہے۔ اصل مزے کی بات یہ‬
‫کہ وہ جملہ' ؼیر متعلك نہیں ہوتا۔ تفہیم کسی ابہام کا‬
‫شکار نہیں ہوتی۔ بات صاؾ اور واضح رہتی ہے۔ لاری‬
‫کے سوچ اور فکر پر بھاری نہیں پڑتی۔ باطورنمونہ یہ‬

‫مثالیں ملاحظہ ہوں۔‬

‫جب عرفان ذات کی معنوی بصیرت لمحوں کے امکانی'‬

‫تجربے سے اظہار کی راہ پاتی ہے تو بےنام مسافتوں‬
‫کی لذت آشنائی جذباتی تموج کے پس منظر سے چہرہ‬
‫نمائی کا احساس دلا دیتی ہے۔ اس طرح جب لہجے کی‬
‫بلند آہنگی مدھر سروں کی لے سے حظ اٹھاتی ہے تو‬

‫ماحول کے سکوت میں ارتعاش کا عنصر زندگی کا‬
‫'وجود نامہ ترتیب دے دیتا ہے۔‬
‫‪5‬‬

‫چمنستان حدیث کے آنگن سے پھوٹنے والا یہ فن اپنی‬
‫دینی روایت اور اس کی فکری تہذیب کا اشاریہ ہے۔‬
‫اس فن نے اسلامی تہذیب اور اس کے تمدن کی گرہ‬

‫کشائی میں بنیادی کردار ادا کیا۔‬
‫‪6‬‬

‫تاریخ کے سمندر میں اٹھتی موجیں گہر ہائے آب دار '‬
‫کی خبر لاتی رہیں۔‬
‫‪7‬‬

‫شخص کی نفسیات کو سمجھنا' بڑا ہی مشکل کام ہے۔‬
‫اس کے کیے یا بولے اور لکھے کا' اس کے دل و‬
‫دماغ یا باطن سے تعلك ہو' ضروری نہیں' ہاں البتہ‬
‫کسی سطح پر' اس کے کیے یا بولے اور لکھے کی‬

‫موہوم اور ؼیرواضح سی' پرچھائی موجود ہو سکتی‬
‫ہے۔ پرچھائی یا اس ؼیر واضح دھبے کی مدد سے'‬
‫کسی نتیجہ تک پہنچنا' امکان سے باہر ہوتا ہے۔ ہر‬
‫لفظ اور اس کا استعمال' انسان کی نفسیات سے جڑا‬
‫ہوتا ہے۔ لفظ کی نفسیات کے پاریکھ بہت کم ملتے‬
‫ہیں۔ لفظ کا' اس کے کلچر اور نفسیات کے مطابك‬
‫استعمال نہ ہونا' خرابی کے دروازے کھولتا ہے۔ لفظ‬
‫اور ٹریسز کا' انسانی زندگی میں بڑا عمل دخل ہوتا‬

‫ہے۔ جب کہا جاتا ہے‬
‫'جو بولو' سوچ سمجھ کر بولو '‬
‫تو اس کا مطلب یہ ہی ہوتا ہے' کہ لفظ کو اس کے‬
‫کلچر اور نفسیات کے مطابك' استعمال کرو۔ لفظ جب‬
‫بھی' اپنی مجوزہ نفسات اور کلچر کی حدود کی خلاؾ‬
‫ورزی کرتا ہے' زندگی سے آسانی اور سکون چھین‬
‫لیتا ہے' بل کہ زندگی میں ناصرؾ کجی پیدا ہو جاتی‬
‫ہے' تلخی کا بھی عمل دخل ہو جاتا ہے۔‬

‫پروفیسر ساحر' لفظ اور اس سے متعلك فکر کی‬
‫نفسیات سے' خوب خوب آگاہ ہیں۔ ان کے جملوں کا‬
‫نحوی نظام' ان کی باہمی ہم آہنگی سے تشکیل پاتا‬
‫ہے۔ اکثر یوں لگتا ہے' تعلیمی کیریئر میں' نفسیات ان‬

‫کا مضمون رہا ہے' تب ہی تو تحمیمی و تنمیدی‬
‫تحریروں میں' نفسیات سے متعلك اصطلاحات' جملے‬

‫کی ضرورت بن کر وارد ہوتی ہیں۔‬

‫خواب کی تجسیم کا یہ فکری پہلو رعنائی خیال کی اس‬
‫ہمہ گیری کا مرہون منت ہے جو حمیمت کے معنوی‬
‫دائرے کو وسعت سے آشنا کر دیتی ہے۔ جب اس عمل‬

‫کی کارفرمائی گمان کو یمین کا روپ عطا کرتی ہے تو‬
‫زندگی کی الدار صدالت کا علامتی نشان بن کر وجود‬
‫کی معنوی فضا کو پردہءاحساس کے شعوری رنگوں‬

‫میں بکھیر دیتی ہیں۔‬

‫‪8‬‬
‫خواب اور خیال کے استعاراتی تناظر میں خاک کی‬
‫فکری جمالیت اپنی تہذیبی معنویت میں فکر وخیال کے‬
‫جو دریچے وا کرتی ہے ان کا تعلك مابعدالطبیعیاتی‬

‫شعور سے وابستہ ہے اور زندگی کے مادی‬
‫اورخارجی رویوں کے ساتھ بھی۔‬

‫‪9‬‬

‫بہت سی' نفسیات کی مخصوص اصطلاحات کا' بڑی‬
‫روانی سے استعمال ہوا ہے۔ مثلا‬

‫خود کلامی' شعور' رویہ' خواب' تذبذب' تشکیک'‬
‫انتشار' ہم کلامی' فطرت' گمان‬
‫ادراک‬
‫وؼیرہ وؼیرہ‬

‫نظم ہو کہ نثر' الگ سے اپنی ایک تنظیم' ترتیب اور‬
‫لسانیاتی ڈسپلن رکھتے ہیں۔ نثر کا ایک نحوی نظام‬
‫ہوتا ہے جب کہ نظم عروض' آہنگ یا کم از کم اہنگ‬
‫کی حامل ہوتی ہے۔ کسی ناکسی سطح پر اس میں‬
‫ؼنائیت کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ یہ بات' الگ سے‬
‫اہمیت رکھتی ہے کہ ہمارے مذہبی علما کرام' نثر کو‬
‫بھی گانے پر ملکہ رکھتے ہیں' تاہم دیگر عمومی و‬
‫خصوصی سطحوں پر' یہ طور مستعمل نہیں۔ دونوں‬
‫میں زندگی اور زندگی کے معاملات سے متعلك' بات‬
‫کی جاتی ہے لیکن زبان' اسلوب' انداز' لب و لہجہ اور‬
‫بیان میں فرق موجود رہتا ہے‪ .‬نثر میں شاعری یا‬
‫شاعری میں نثر ممکن نہیں۔ مثلا یہ ہائیکو ملاحظہ‬

‫فرمائیں‬

‫دیکھ کے چاند مرے آنگن کا‬

‫جانے کیوں پھیکا پڑ جائے‬
‫چنچل روپ بہاروں کا‬

‫دیکھ کے چاند مرے آنگن کا جانے کیوں پھیکا پڑ‬
‫جائے چنچل روپ بہاروں کا‬

‫لاکھ کوشش کر دیکھیں' اسے نثر کے انداز میں نہیں‬
‫پڑھ سکیں گے۔ نثر کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ یہ نثر کی‬

‫زبان ہی نہیں۔‬

‫شاعری نثر سے' الگ شعری لوازمات کی حامل ہوتی‬
‫ہے۔ رمز و ایمائیت' علامتیں تشبیہات' استعارے'‬
‫صنعتیں وؼیرہ اس کا خاصہ ہوتی ہیں۔ نثر' شعری‬
‫زبان اور شعری لوازمات کی' متحمل نہیں ہوتی۔‬

‫داستان' ناول یا افسانے کی زبان' رومانوی ہو سکتی‬
‫ہے' شعری نہیں۔ تنمید و تحمیك میں یہ بھی ممکن‬
‫نہیں۔ اس سے ابہامی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ابہام'‬
‫تحمیك و تنمید میں ممکن نہیں۔ یہ گویا آپسی ضدین‬

‫میں داخل ہیں۔‬

‫پروفیسر ساحر کی نثر میں بھی شعری رنگ وحسن'‬

‫لوچ' ملائمیت' چاشنی اور نازکی کے عناصر موجود‬
‫ہوتے ہیں۔ ان کا یہ طور لاری پر تھکن یا اکتاہٹ کی‬
‫کیفیت طاری نہیں ہونے دیتا۔ مثلا ان کی نثر سے یہ‬

‫ٹکڑے پڑھیے اور لطؾ لیجیے۔‬

‫انسان‬
‫گھر کی چار دیواری سے‬

‫خوشبو کی طرح‬
‫باہر آ جاتا ہے‬

‫اور‬
‫ان رستوں پر چل نکلتا ہے‬

‫جو کبھی اسے‬
‫حیرت و تحیر کے‬
‫طلسم کدوں میں بھٹکاتے‬

‫اور کبھی‬
‫علم و آگہی کے‬
‫لالہ زاروں میں لے جاتے ہیں‬

‫‪10‬‬
‫اس نثری ٹکڑے کی سرحدیں' اسلوب وآہنگ کے‬

‫حوالہ سے' شعر کی دنیا سے لریب تر ہیں۔‬

‫اب ذرا یہ جملہ ملاحظہ ہو‬
‫تاریخ کے سینے میں اٹھتی موجیں گہر ہائے آب دار‬

‫کی خبر لاتی رہیں۔‬
‫‪11‬‬

‫تاریخ کے سینے میں‬
‫اٹھتی موجیں‬

‫گہر ہائے آب دار کی‬
‫خبر لاتی ہیں۔‬

‫یہ سطور شعری مزاج سے بہرہ ور ہیں۔ آہنگ اور‬
‫شعری اسلوب کی کسی سطح پر کمی محسوس نہیں‬
‫ہوتی۔دوسری طرؾ کہیں ابہامی صورت پیدا نہیں ہو‬

‫رہی۔‬

‫اس ذیل میں' ایک اور نمونہ ملاحظہ ہو۔‬
‫دعا سے پھوٹی ہوئی شاعری خاک کی تعبیر کا سراپا‬
‫اوڑھ کر خواب اور خیال کے آفاق پر جلوہ گر ہونے‬
‫لگی اور ذات کا منظرنامہ انکسار وجود میں ڈھلنے‬

‫لگا۔‬
‫‪12‬‬

‫دعا سے‬
‫پھوٹی ہوئی شاعری‬

‫خاک کی تعبیر کا‬
‫سراپا اوڑھ کر‬
‫خواب اور خیال کے آفاق پر‬
‫جلوہ گر ہونے لگی‬

‫اور‬
‫ذات کا منظرنامہ‬
‫انکسار وجود میں‬

‫ڈھلنے لگا‬

‫ہر صنؾ ادب کی اپنی زبان اور اپنا اسلوب ہوتا ہے۔ یہ‬
‫اپنی زبان اور اپنے اسلوب میں ہی بھلی لگتی ہیں۔‬
‫لسانی واسلوبی کثافت' ناصرؾ لطؾ کو ؼارت کرکے‬
‫رکھ دیتی بل کہ تفہیمی ابہام کے رستے بھی کھل‬
‫جاتے ہیں۔ افسانوی اسلوب تکلم' خصوصا تحمیك و‬

‫تنمید کے وارے کی چیز نہیں ہے۔ یہ صاؾ صاؾ انداز‬
‫و بیان کی متماضی رہتی ہیں۔ اس سے کھردراپن‬
‫ضرور آ جاتا ہے' لیکن تفہیمی ابہام کا دروازہ نہیں‬
‫کھلتا۔ دو جمع دو چار ہی رہتے ہیں' چھے کسی‬

‫صورت میں نہیں بنتے۔ چھے کا شبہ' اس تحریر کو‬
‫تحمیك و تنمید کے کھاتے پر چڑھنے نہیں دیتا۔‬

‫پروفیسر ساحر کی رنگین نویسی بھی' تحمیمی و‬
‫تنمیدی امور کی انجام دہی میں' ناکام نہیں ہے۔ ؼالبا‬
‫اردو ادب کا یہ پہلا تجربہ ہے' جو تحمیمی و تنمیدی‬
‫اسلوب سے ہٹ کر' کچھ لکھا گیا ہے اور کسی بھی‬
‫سطح پر' ابہامی کیفت پیدا نہیں ہوتی۔ دو اور دو چار‬
‫ہی رہتے ہیں۔ باطور نمونہ فمط یہ دو جملے ملاحظہ‬

‫ہوں‬

‫تخلیك کا فکری پس منطر‪ :‬عشك اور سرمستی کے‬
‫جذباتی رویوں سے ہم آہنگ ہو کر' فراق اور ہجر کے‬

‫تلازماتی آفاق کو اس طرح وسعت آشنا کرتا ہے کہ‬
‫موسموں کے بدلتے منظرنامے شاعر کی باطنی کیفیات‬

‫سے طلوع ہوتے ہیں۔‬
‫‪13‬‬

‫جب صدیوں کے سفر سے لوٹے' تو ان کا دامن رنگا‬
‫رنگ پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔ مختلؾ رنگوں اور‬
‫خوشبوؤں کے پھول۔۔۔۔۔۔ انھوں نے ان پھولوں کو اس‬

‫طرح گل سرسبد میں پرویا کہ نہان کے رنگ ماند پڑے‬
‫اور نہ خوشبو۔‬
‫‪14‬‬

‫فلسفانہ طور اظہار' بال کی کھال اتارنے کے مترادؾ‬
‫ہوتا ہے۔ اس میں ؼالب کا کہا' مثل رہتا ہے۔‬
‫ہوئی مدت کہ مر گیا ؼالب پر یاد آتا ہے‬
‫ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا‬

‫شاید ہی کوئی شاعر رہا ہو گا' جس کے کلام کی اتنی‬
‫شرحیں ہوئی ہوں گی' جتنی ؼالب کے کلام کی ہوئی‬
‫ہیں۔ ان کا چند سو اشعار پر مشتمل دیوان' آج تک'‬
‫بڑے بڑے جید اہل فکر کی' تشریح کی گرفت میں نہیں‬

‫آ سکا۔ ذرا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔‬

‫موت کا ایک دن معین ہے‬
‫نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‬

‫‪15‬‬

‫دیکھنے میں' بالکل عام سے لفظ استعمال میں آئے‬
‫ہیں لیکن ان میں کہا گیا' سادہ اور عام سا نہیں ہے۔‬

‫گویا فلسفیانہ اظہار' سوچ کے دائروں کو' لامحدود‬
‫کروں کی جانب' مراجعت پر مجبور کر دیتا ہے اور یہ‬

‫ہی ' کمال فکروفن ہے۔‬

‫پروفیسر ساحر کے ہاں' شیرہ میں ملفوؾ' فلسفانہ‬
‫طرز اظہار بھی' پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہ طور' لاری کو‬
‫ؼور و فکر کی وادیوں میں' لے جاتا ہے۔ ان وادیوں‬
‫میں گھومتے پھرتے' لاری پر معنویت کے نئے نئے‬

‫صحیفے اترتے ہیں۔ مثلا یہ جملے ملاحظہ ہوں۔‬

‫مشرلی اور مؽربی تہذیبوں کے باہمی ٹکراؤ‬
‫اور۔۔۔۔کسی حد تک۔۔۔۔۔مکالماتی اسلب نے زندگی کو‬
‫ایک نیا رنگ ڈھنگ عطا کیا۔ اس اسلوب کی فکری‬
‫اور جمالیاتی تہذیب محض ادب آشنائی سے ممکن‬
‫نہیں رہی' جب تک کہ ادب اور اس کے تناظر میں‬
‫موجودہ روایت اور تصور حمیمت کی وہ کلی تفہیم‬
‫ممکن نہ ہو جائے' جو ادب کو فکری اور تہذیبی‬

‫بنیادوں پر استوار کرتی ہے۔‬
‫‪16‬‬

‫ہر لفظ کا اپنا کلچر ہوتا ہے۔ اگر اس لفظ کا' اس کے‬

‫مجوزہ کلچر کے مطابك استعمال ہو رہا ہو' تو‬

‫اسے کمال ہنر کا نام دیا جائے گا۔‬
‫تفہیم میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔‬
‫تحریر و تمریر کے حسن میں ہر چند اضافہ ہوتا ہے۔‬
‫لاری یا سامع کی لطؾ انگیزی اور دل چسپی بڑھتی‬

‫ہے۔‬
‫لرآت یا مطالعہ کے دوران ابہام یا الجھاؤ پیدا نہیں‬

‫ہوتا۔‬
‫لاری یا سامع کسی نوع کی اکتاہٹ یا عدم توجہگی کا‬

‫شکار نہیں ہوتا۔‬
‫لفظ کا اصطلاحی اور مجازی استعمال بھی' مرکزے‬

‫سے دوری اختیار نہیں کرتا۔‬

‫پروفیسر ساحر' لفظ اور اس کے کلچر سے خوب آگاہ‬
‫ہیں۔ وہ جانتے ہیں' کون سا لفظ کہاں اور کس مولع‬
‫پر' استعمال ہونا چاہیے۔ لفظوں کی سماجیات سے‬
‫آگہی' جہاں تحریر کو رعنائی بخشتی ہے' وہاں اس کی‬
‫معنویت میں بھی اضافے کا سبب بنتی ہے۔ معاملہ‬
‫صاؾ ہو جاتا ہے اور کچھ بھی' درپردہ نہیں رہ پاتا۔‬
‫اس حوالہ سے دو ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں' جو ان‬

‫کی ثمافتی علمیت کی عکاسی کرتی ہیں۔‬

‫انسانی زندگی۔۔۔۔۔۔تہذیب اور ثمافت کے فکری‬
‫اورجمالیاتی آہنگ سے جڑی ہوتی ہے۔ زندگی کی کلی‬

‫معنویت کا احساس تہذیبی معنویت کے جمالیاتی‬
‫رنگوں سے پھوٹتا اور برگ و بار لاتا ہے' کیوں کہ‬
‫زندگی اؤر تہذیب میں ایک ایسی فکری اور اساسی‬
‫روح کارفرما ہوتی ہے' جس کا ادراک ہر دو کی تفہیم‬

‫کے بؽیر ممکن نہیں ہوتا۔‬
‫‪17‬‬

‫لفظ تہذیب کی اوٹ سے جب جلوہ نما ہوتا ہے' تو اس‬
‫کی معنوی اپیل وسعت آشنائی کی دلیل بن جاتی ہے۔‬
‫لفظ کی تہذیب کے باطن میں سفر آشنائی اور اس کی‬
‫مسلسل گردش کا راز اس کی معنوی ہمہ گیریت سے‬

‫وابستہ ہوتا ہے۔‬
‫‪18‬‬

‫پروفیسر عبدالعزیز ساحر پی ایچ ڈی کی تحمیك اور‬
‫تنمید کے یہ سات رنگ' اردو نثر کے انداز تحریر میں'‬
‫اپنی لگ سے شناخت رکھتے ہیں۔ آتا ولت' جہاں ان‬

‫کے تحمیمی ورک کو لدر کی نگاہ سے دیکھے گا'‬
‫وہاں ان کے ان سات رنگوں کے' حسن وجمال اور ان‬
‫کی نشت و برخواست کو نظرانداز نہیں کر سکے گا۔‬

‫‪.......................................‬‬

‫حوالہ جات‬

‫افتخار عارؾ‪ :‬شخصیت اور فن ص ‪1 57‬‬
‫ڈاکٹر ؼلام جیلانی برق کے خطوط ص ‪2 35‬‬
‫افتخار عارؾ‪ :‬شخصیت اور فن ص ‪3 89‬‬
‫افتخار عارؾ‪ :‬شخصیت اور فن ص ‪4 89‬‬

‫جمیل الدین عالی کی نثر نگاری ص ‪5 6‬‬
‫تحمیمی مجلہ تعبیر ‪6‬‬

‫'شمارہ‪ 1 :‬جنوری تا جون ‪ '2015‬شعبہءاردو‬
‫علامہ البال اوپن یونی ورسٹی' اسلام آباد‬

‫ڈاکٹر جمیل جالبی‪ :‬شصیت اور فن ص ‪7 55‬‬
‫جمیل الین عالی کی نثر نگاری ص ‪8 8‬‬
‫افتخار عارؾ‪ :‬شخصیت اور فن ص ‪9‬‬

‫جمیل الین عالی کی نثر نگاری ص ‪10 35‬‬
‫ڈاکٹر جمیل جالبی‪ :‬شصیت اور فن ص ‪11 55‬‬

‫جمیل الین عالی کی نثر نگاری ص ‪12 62‬‬

‫بارہ ماھیہءنجم ص ‪13 12‬‬
‫ڈاکٹر جمیل جالبی‪ :‬شصیت اور فن ص ‪14 49‬‬
‫شعر کی تشریح کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ‪15‬‬

‫ؼالب کا ایک شعر‬
‫بروز‪ :‬جولائی ‪ 09:19:35 ,2013 ,17‬صبح‬

‫=‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic‬‬
‫‪7983.0‬‬

‫جمیل الین عالی کی نثر نگاری ص‪16 24‬‬
‫ڈاکٹر جمیل جالبی‪ :‬شخصیت اور فن ص ‪17 32‬‬
‫ڈاکٹر جمیل جالبی‪ :‬شخصیت اور فن ص ‪18 69‬‬

‫کتابیں‬

‫بارہ ماھیہءنجم‬
‫ڈاکٹر ؼلام جیلانی برق کے خطوط‬
‫ڈاکٹر جمیل جالبی‪ :‬شخصیت اور فن‬

‫جمیل الین عالی کی نثر نگاری‬
‫افتخار عارؾ‪ :‬شخصیت اور فن‬

‫تحمیمی مجلہ تعبیر‬
‫'شمارہ‪ 1 :‬جنوری تا جون ‪ '2015‬شعبہءاردو‬

‫علامہ البال اوپن یونی ورسٹی' اسلام آباد‬

‫‪https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=6‬‬
‫‪8420‬‬

‫اختر شمار کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔ایک لسانیاتی جائزہ‬
‫بروز‪ :‬ستمبر ‪ 01:53:17 ,2014 ,25‬صبح‬

‫یہ بات باور کر لینی چاہیے‘ کہ شخص زبان کے لیے‬
‫نہیں‘ زبان شخص کے لیے ہوتی ہے۔ جب شخص زبان‬

‫کا پابند ہو جاتا ہے‘ خیال اور جذبے کے اظہار کے‬
‫رستے میں‘ دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ کسی ناکسی‬
‫سطح پر‘ زبان کے اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری‬
‫ہو جاتی ہے‘ لیکن خیال اور جذبہ‘ اپنی اصلیت برلرار‬
‫نہیں رکھ پاتے۔ یعنی جو کہنا ہوتا ہے وہ پس پشت پڑ‬
‫جاتا ہے۔ جو کہنا تھا یا جو کہنے کی ضرورت تھی‘‬
‫کہا نہ جا سکا‘ تو سب لاحاصل اور لایعنی ٹھہرے گا۔‬
‫دوسری بڑی بات یہ ہے‘ کہ لفظ اپنی ذات میں‘ تفہیمی‬
‫استحکام نہیں رکھتا۔ جو لوگ لفظ کے تفہیمی استحکام‬
‫کے لائل ہیں‘ ہر لدم پر‘ ٹھوکر کھاتے ہیں۔ لؽت کچھ‬
‫ہوتے ہوئے بھی‘ کچھ بھی نہیں۔ اس پر اعتماد‘ گمراہ‬

‫کرتا ہے۔ اس موضوع پر‘ بڑی تفصیل سے بات کر‬
‫چکا ہوں۔ نیٹ پر موجود میری کتاب‬

‫‪The language problem‬‬
‫میں مضمون موجود ہے۔ لفظ اپنے متن میں ہی‘‬
‫معنویت سے ہم کنار ہوتا ہے۔ استعمال کنندہ کے‬
‫جذبے اور خیال کو‘ لفظ نے ہر حال اور ہر صورت‬

‫میں فالو کرنا ہوتا ہے۔‬
‫تیسری بات یہ کہ لفظ کی زبان کو سمجھے بؽیر‘ تفہیم‬
‫کے امور طے نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں کا عمومی طور‬

‫یہ ہی رہا ہے‘ کہ ہم لفظ کی بولی سمجھے بؽیر‘‬
‫تشریح کی طرؾ بڑھتے ہیں۔ کلام ؼالب ہو‘ کہ کلام‬
‫البال‘ بازار میں تشریحات کا انبار لگا ہوا ہے۔ ہر کسی‬
‫نے‘ لفظ کی بولی سمجھے بؽیر‘ تھوڑا نہیں‘ بہت کچھ‬
‫لکھ دیا ہے۔ یہ معاملہ کسی المیے سے بہرطور کم‬

‫نہیں۔‬
‫گلی کا کوئی عام شخص ہو‘ یا صاحب سخن‘ اپنا الگ‬

‫سے اسلوب رکھتا ہے۔ دونوں کے ہاں طرحداری‬
‫موجود ہوتی ہے۔ یہ نادانستہ طور ہوتا ہے۔ مکالمے‬
‫میں تفہیم کی ذیل میں‘ باڈی لنگوئج اپنا کردار ادا کرتی‬
‫ہے۔ پس دیوار‘ کہی گئی بات‘ جب کانوں میں پڑتی‬
‫ہے‘ تو سماعی آلہ متحرک ہوتا ہے‘ ابہام کی صورت‬

‫پیدا ہو سکتی ہے۔‬
‫پس دیوار ایک شخص کہتا ہے‘ آج میں اسے جان‬

‫سے مار دوں گا۔‬
‫سننے والا‘ اس بات کو اپنی ذات پر محمول کر سکتا‬
‫ہے۔ بات گرہ میں تو بندھے گی ہی‘ اس پر طرہ یہ کہ‬
‫اس ذیل میں‘ کوئی بھی منفی ردعمل سامنے آ سکتا‬

‫ہے۔ گویا کسی بھی سطح پر‘ سماعی آلے اپنی‬
‫کارگزاری میں صفر ہو سکتے ہیں۔ حالاں کہ اس نے‘‬
‫روزانہ دودھ پی جانے والی بلی کے بارے میں‘ کہا‬
‫ہوتا ہے۔ بصارتی آلے کی صورت بھی‘ اس سے مماثل‬
‫ہو سکتی ہے یا ہوتی ہے۔ جو دیکھا گیا ہو‘ ضروری‬
‫نہیں وہ اسی طرح سے ہو‘ جیسے دیکھا گیا ہوتا ہے۔‬
‫کاؼذ پر موجود لفظوں کی تفہیم‘ اور بھی مشکل ہوتی‬
‫ہے۔ لکھی گئی بات کے لہجے کا تعین‘ خود سے کرنا‬
‫پڑتا ہے۔ اس لیے‘ اہل سخن کے کہے کی تفہیم‘ لفظوں‬

‫کی بولی سمجھے بؽیر‘ ممکن ہی نہیں۔ اہل سخن‬
‫عمؤم سے نہیں ہوتے‘ اس لیے ان کے کہے کو‘‬
‫سرسری نہیں لیا جا سکتا اور ناہی ان کا کہا‘ عموم کا‬
‫کہا ہوتا ہے۔ انہیں سمجھنے کے لیے‘ پہلے ان کی‬
‫زبان سے آگہی ضروری ہے۔ ان کے کہے کا اصل‬
‫کمال یہ ہوتا ہے‘ کہ ان کے لفظوں کو جس رخ اور‬

‫جس پہلو سے دیکھو گے‘ تہ در تہ مفاہیم‘ ملتے چلے‬
‫جائیں گے۔ اگرچہ لمحہءتخلیك تک رسائی ممکن نہیں‘‬
‫پھر بھی‘ ؼور و فکر کے نتیجہ میں بہت کچھ ہاتھ لگ‬

‫سکتا ہے۔‬
‫کسی بڑی بات کو کہنے کے لیے‘ وہ لفظوں کو نیا‬
‫انداز اور نیا سلیمہ دیتے ہیں۔ لفظ اس طور سے‘ اور‬
‫ان معنوں میں‘ کبھی استعمال ہی نہیں کیا گیا ہوتا۔ گویا‬
‫وہ لفظوں کو رواج اور لؽت سے ہٹ کر‘ اور اپنی‬
‫مرضی کے معنی عطا کرتے ہیں۔ کپڑا ایک سا ہی ہوتا‬
‫ہے‘ لیکن درزی کی ہنرمندی اسے اور ہی پہب دے‬
‫دیتی ہے۔ وہ پہب‘ بصارتی آلات پر مثبت اثرات مرتب‬
‫کر سکتی ہے۔ ہر نئے کے لیے‘ استعمال کا سلیمہ بھی‬
‫نیا‘ اور الگ سے ہوتا ہے۔ نئے کے لیے مرکبات بھی‬

‫نئے وجود پکڑیں گے۔‬
‫سبھی اہل سخن‘ اپنے اپنے حوالہ سے‘ اردو زبان کے‬
‫لیے‘ بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اردو زبان کو‬
‫بساط بھر‘ کچھ دیا ہی ہے۔ باہمی رنجش ہو‘ کہ ادبی‬
‫چپملس‘ کسی معاملے کا رد عمل ہو‘ کہ ذات کا کرب‬
‫زبان کو کچھ ناکچھ ملا ضرور ہے۔ التداری ہواوں کے‬
‫مسافروں سے بھی‘ زبان مایوس نہیں ہوئی‘ ہاں‘ ان‬

‫کی ؼلط اور التداری شہادت نے‘ آتے کل کے لیے‘‬

‫مخمصے ضرور چھوڑے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ ان کے‬
‫کہے کے حوالہ سے‘ تمسیم کا دروازہ ضرور کھلا ہے۔‬

‫التدار سے دور محروم لوگوں نے‘ اپنے وسیب کے‬
‫معاملات کو نگاہ میں رکھا ہے۔ سماجی اور التداری‬
‫بےانصافیوں کو‘ لفظوں میں ملفوؾ کرکے پیش کیا‬
‫ہے۔ جو بھی سہی‘ زبان کی خدمت ضرور ہوئی ہے۔‬
‫سچی گواہیوں کی شاعری کی زبان کو‘ سٹریٹ نے‬

‫لبولیت کی سند عطا کی ہے۔‬
‫عہد لریب کے تین چار لوگ محرومی‘ تلخی‘ بؽاوت‘‬
‫جدت طرازی اور محبتوں کی مٹھاس کے حوالہ سے‬
‫شاید فراموش نہ کیے جا سکیں گے۔ کونے کھدرے‬
‫میں سہی‘ ان کا نام ضرور بالی رہے گا۔ علامہ بیدل‬
‫حیدری‘ عصر جدید کی بڑی توانا آواز ہے۔ ان کے ہاں‘‬
‫زندگی اپنے ان گنت رنگوں کے ساتھ رلصاں نظر آتی‬
‫ہے۔ وہ نظم اور ؼزل کے‘ پختہ کار شاعر تھے۔ بڑے‬

‫بڑوں کا للم‘ ان کے للم کے‘ لدم لیتا نظر آتا ہے۔‬
‫اختر حسین جعفری‘ کلاسیکل زبان کو جدید طور سے‘‬
‫آشنا کرنے میں‘ اپنا جواب نہیں رکھتے۔ شکیب جلالی‬
‫کی فکر اپنی جگہ‘ ظالم دہائی کی زبان استعمال کرتا‬

‫ہے۔ مبارک احمد اور انیس ناگی نے نثری نظم کی‬
‫زبان کو الگ سے سلیمہ عطا کیا۔ تبسم کاشمیری نے‘‬

‫زندگی کو شہد میں ملفوؾ کرنے کی سعی کی جب کہ‬
‫سعادت سعید‘ ہمیشہ جدت طرازی کے گھوڑے پر‬
‫سوار رہے۔‬

‫ان سب کی زبان کا مطالعہ کریں‘ تو یہ کہے بؽیر بن نہ‬
‫پائے گی‘ کہ ان اہل سخن نے اردو کو نیا اور انسانی‬
‫زندگی سے میل کھاتا‘ سلیمہ عطا کیا۔ یہ سب برگد ہیں‘‬
‫اور ان کی شاخوں کا شمار‘ مجھ ناچیز طالب علم کے‬

‫لیے ممکن ہی نہیں۔‬
‫عصر رواں میں‘ علامہ بیدل حیدری کے پائے کا‘ شاید‬
‫ہی کوئی خوش فکر اور خوش زبان شاعر نظر آئے۔‬

‫اس برگد کی ایک شاخ پر‘ میری نظر پڑی ہے۔ اس‬
‫کے کلام کی خوش بو‘ نفیس طبع کے لوگوں کو‬
‫مسرور کرتی ہے‘ اور کہیں گدگداتی ہے۔ اس کی زبان‬
‫اور فکر کا سلیمہ ہی الگ سے‘ اور ہٹ کر ہے۔ اس کا‬
‫کلام پڑھ کر‘ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے‘ کہ وہ‬
‫اردو زبان کی لدرت اور لچک پذیری سے‘ خوب خوب‬
‫آگاہ ہے۔ اس نے اپنا الگ سے‘ لسانیاتی اسلوب‬
‫تشکیل دیا ہے۔ شعری زبان میں‘ اس کا اپنا الگ سے‬
‫لہجہ ہے۔ اس کا یہ اسلوب اور لہجہ‘ لاری کی توجہ‬
‫حاصل کرنے میں کمال رکھتا ہے۔ بات کرنے کے لیے‘‬

‫اس نے کئی طور اور انداز اختیار کیے ہیں۔‬

‫اب میں اس شاخ کی‘ شعری زبان کا مختصر مختصر‘‬
‫اور ناچیز سا مطالعہ پیش کرتا ہوں۔ اس مطالعہ سے‘‬
‫اس کی زبان دانی کے لد و کاٹھ کا‘ کسی حد تک سہی‘‬

‫اندازہ ضرور ہو جائے گا۔‬
‫طنز‘ حیرت اور سماجی حمیمت میں ملفوؾ ذرا یہ‬

‫سوالیہ انداز ملاحظہ ہو۔‬
‫مانگے گا کوئی بھیک ترے شہر میں کیسے‬
‫پہلو میں ہر اک شخص کے جب کاسے بندھے ہیں‬
‫جہاں اس شعر میں سوال ہے‘ وہاں شاعر کسی سے‬
‫مخاطب بھی ہے۔ دکھنے میں یہ شعر جتنا سادہ ہے‘‬
‫تفہیم میں اتنا طرحدار بھی ہے۔ اس شعر میں لفظ ترے‬
‫نے‘ اسے بڑا بلیػ بنا دیا ہے۔ اسی لماش کا‘ ایک اور‬

‫سلگتا ہوا شعر ملاحظہ ہو‬

‫کچھ تو بتاؤ کیا کیا راکھ ہوا ہے اور‬
‫اور وہ لوگ جو آگ لگانے آئے تھے‬

‫کچھ تو بتاؤ‬
‫کیا کیا راکھ ہوا ہے‬

‫اور‬
‫پہلے مصرعے کا اور اتنا سادہ نہیں‘ جتنا نظر آ رہا‬
‫ہے۔ یہ سوالیہ ہے‘ کچھ تو بتاؤ کیا کیا راکھ ہوا ہے۔۔۔۔‬

‫الگ سے سوال ہے۔ دوسرے مصرعے میں‘ اس کی‬
‫نوعیت بالکل مختلؾ ہے ۔ بات بھی پہلے مصرعے‬

‫سے الگ تر ہے۔ اسے اس طور سے دیکھیں‬
‫اور وہ لوگ‬

‫جو آگ لگانے آئے تھے‬

‫شاعر خود کلامی سے بھی کام لیتا ہے۔‬
‫کیمرا رکھ کے سامنے خود ہی‬
‫اپنی تصویر اس کے ساتھ اتار‬

‫اب تخاطب میں لیپٹا‘ استداعیہ انداز ملاحظہ ہو‬
‫کر عطا مجھ کو صبر کا مفہوم‬
‫پیاس میری لب فرات اتار‬

‫تلمیح نے فکر کو اور جاندار بنا دیا ہے۔‬

‫فکر کی پرواز اور رفتار کے مطابك‘ رنگ ہاتھ لگتے‬
‫ہیں۔ ان رنگوں کا استعمال‘ بالکل الگ سے ہنر ہے۔‬
‫تصاویر وہ ہی من بھاتی ہیں‘ جو ناصرؾ خوب صورت‬
‫ہوں‘ باتیں بھی کرتی ہوں۔ بےجان اور سکوت کا‬
‫شکار تصاویر‘ لمحہ بھر کو سامنے آتی ہیں‘ اور پھر‬
‫دل و دماغ سے یکسر محو ہو جاتی ہیں۔ جاگتی بولتی‬
‫اور باتیں کرتی اور بناتی تصاویر‘ تادیر دل و دماغ میں‬

‫رلص کرتی ہیں۔ نہیں یمین آتا تو دو منٹ نکالیے‘ اور‬
‫ان تصاویر کو دیکھیے۔ سرسری نظر‘ ممکن ہے‘‬
‫تادیر آپ کو مسرور رکھے۔‬

‫تعویز محبت‬
‫ممکن ہے اسے کھینچ کے لےآئیں ہوائیں‬

‫تعویز محبت سبھی اشار سے باندھو‬

‫ٹمٹماتی لو‬
‫ٹمٹماتی لو ترا چہرا نظر کے رو بہ رو‬
‫مرتے مرتے دیکھتا ہوں زندگانی کی طرؾ‬
‫ہر لفظ ایک دوسرے سے پیوست ہے‘ اور ایک‬
‫مخصوص ایمیج تشکیل دے رہا ہے‘ یہ چشم تصور‬
‫سے دیکھنے سے تعلك رکھتا معاملہ ہے۔‬

‫آنکھوں کی چمک‘ نگاہوں میں ارادہ‬
‫اس بار ان آنکھوں کی چمک میں ہے کوئی دل‬

‫اس بار نگاہوں میں ارادہ سا کوئی ہے‬

‫یاد کی دھوپ‬
‫یاد کی دھوپ میں لرزتا ہے‬

‫ایک سایہ کہیں ردا سا‬

‫مستعمل محاوروں کا استعمال‘ کمال کا حسن رکھتا ہے۔‬
‫یہ ہی نہیں جدت طرازی کا خوب صورت نمونہ ہوتا‬
‫ہے۔ باطور ذائمہ دو تین محاوروں کا استعمال ملاحظہ‬
‫ہو‬
‫دل میں اس کو تلاش کر لیکن‬
‫پہلے شیشے میں کائنات اتار‬

‫کبھی اٹھے گا بھی پردہ دل سے‬
‫کبھی نکلے گی یہ دنیا دل سے‬

‫!بینائی کا خمیازہ نہ پڑ جائے بھگتنا‬
‫ہر خواب نہ یوں حسن طرحدار سے باندھو‬

‫یہ کس طرح کے بھلا ہم اسیر ظلمت ہیں‬
‫کہ روشنی کی ملالات بھی نہیں آتی‬

‫صنعت تکرار لفظی‘ شاعر بکثرت استعمال کرتا ہے‬
‫اور اس کے لیے‘ اس نے کئی انداز اختیار کیے ہیں۔‬

‫اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں‬

‫سوچتے سوچتے جب سوچ ادھر جاتی ہے‬
‫روشنی روشنی ہر سمت بکھر جاتی ہے‬

‫رفتہ رفتہ ہی دل تجھ کو بھولے گا‬
‫جاتے جاتے ہی یہ رؼبت جاتی ہے‬

‫دل کی آنکھوں سے اگر دیکھو تو‘ دیکھو ہر سو‬
‫ان نظاروں سے الگ ایک نظارہ آباد‬

‫میں رہوں یا نہ رہوں یار رہے بالی‘ اور‬
‫یار کے ساتھ رہے یار کا لصبہ آباد‬

‫دیکھنا اب ہے مسافر کی طرح ہر منظر‬
‫میلے میں رہ کے بھی میلے سے الگ رہنا ہے‬
‫ہم صوت لفظوں کا استعمال‘ شاعر کی زبان پر لدرت کا‬
‫منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ صنعت ؼنا کے حوالہ سے‘ بڑی‬
‫اہمیت رکھتی ہے۔ مثلا یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں‬

‫ہم نے کبھی نہ چیز اٹھائی پڑی ہوئی‬
‫لدموں میں تھی اگرچہ خدائی پڑی ہوئی‬

‫اٹھیں تو لدم کیسے میں جاؤں تو کہاں جاؤں‬

‫ہے آگ مرے آگے تودریا مرے پیچھے‬

‫دشت کی پیاس بجھے گی اک روز‬
‫کبھی گزرے گا وہ دریا دل سے‬

‫روح بھی جھوم اٹھی تھی اس پل‬
‫رات گزرا جو وہ تارا دل سے‬

‫صنعت تضاد‘ جہاں تمابلی صورت پیدا کرتی ہے‘ وہاں‬
‫شناخت کا‘ بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ اس سے عناصر‬
‫کی اہمیت‘ اور حمیمی لدر کا بھی‘ اندازہ ہوتا ہے۔ اس‬
‫صنعت کا استعمال‘ بڑی ہنرمندی سے ہوا ہے۔ مثلا‬

‫روشنی اور تیرگی میں اک دیا دیوار ہے‬
‫اور اس کی راہ میں دیکھو ہوا دیوار ہے‬

‫میری صدا پر وہ لریب تو آئے گا‬
‫لیکن زیر دام نہیں آنے والا‬

‫جاگتے جاگتے ہے نیند بھی پوری کرنی‬
‫بھیڑ میں رہ کے بھی چپکے سے الگ رہنا‬

‫بچھڑا ہے کون کس سے کوئی جانتا نہیں‬
‫ہم تم سے کیا ملے‘ ہے دہائی پڑی ہوئی‬
‫متعلمات کا استعمال‘ جہاں وضاحت پیدا کرتا‘ وہاں‬
‫مفاہیم کے دائرے‘ پھیلانے کا بھی سبب بنتا ہے۔ اس‬
‫ضمن میں چند نمونہ کے اشعار ملاحظہ ہوں۔‬
‫ساون کی جھڑیاں بھی نوچتی رہتی تھیں‬

‫تیرے بن برسات پہ ؼصہ آتا تھا‬

‫میں ایک اشک ندامت تھا اپنی پلکوں پر‬
‫کسی نگاہ میں آیا تو آئنہ ٹھہرا‬

‫اک لہر مجھے اور طرؾ کھینچ رہی ہے‬
‫جو ؼرق کیے جائے‘ کنارا سا کوئی ہے‬

‫کنارے کا ؼرق کرنا‘ لطعی متضاد معنی رکھتا ہے۔ اہل‬
‫سخن کا کمال یہ ہی ہوتا ہے‘ کہ وہ لفظ کو اپنی مرضی‬

‫کے مفاہیم‘ عطا کرتے ہیں۔‬

‫تشبیہ شعر کی جان ہوتی ہے۔ اس کا برمحل اور‬
‫پرسلیمہ استعمال‘ شعر میں ممناطیسیت بھر دیتا ہے۔‬
‫زیر مطالعہ شاعر کی چند تشبیہات دیکھیں۔ کیا طور‬

‫اور انداز پایا ہے۔‬
‫وہ ایک سانس کہ دھڑکن کے ساتھ رک سی گئی‬

‫وہ ایک پل کہ بھڑکتا ہوا دیا ٹھہرا‬

‫رات گزرا یہ کس گلی سے میں‬
‫کیا اندھیرا تھا وہ ضیا کا سا‬

‫تیرتے آئیں نظر جس میں ستاروں کے دیے‬
‫میری آنکھوں کے کنارے ہے وہ دریا آباد‬
‫یہ تشبیہ‘ استعارے کا اترن لیے ہوئے ہے۔‬
‫لگے ہاتھوں‘ ان کے دو تین مرکبات بھی ملاحظہ فرما‬

‫‪:‬لیں‬

‫عکس یمین‬
‫پڑا ہے شیشہءدل پر تمہارا عکس یمین‬
‫ملے ہیں پہلے کہیں ہم‘ گمان پڑتا ہے‬

‫حرؾ تسکیں‬
‫حرؾ تسکیں‘ ترا شفا کا سا‬

‫دل پہ جادو ہوا دوا کا سا‬

‫سچ کا دیپک‬
‫سچ کا دیپک مانگ رہا ہے آخری سانس‬

‫جان بچا لوں میں تو محبت جاتی ہے‬

‫اہل سخن کے کہے کا‘ ایک کمال یہ بھی ہوتا ہے‘ کہ‬
‫جس زاویہ سے بھی دیکھو‘ یا اشکالی اور استعمالی‬

‫تبدیلیاں کر لو‘ مفاہیم کا جہاں آباد ہوتا ہے۔ باطور‬
‫ثبوت یہ مثالیں پیش ہیں۔‬

‫کیا لوگ ہیں‘ ہم لذت دنیا سے بندھے ہیں‬
‫پانی کے لیے پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں‬

‫کیا لوگ ہیں‬
‫ہم لذت دنیا سے بندھے ہیں‬

‫پانی کے لیے‬
‫پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں‬

‫اب اس شعر کو یوں پڑھیے‬
‫کیا لوگ ہیں ہم‬

‫پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں‬
‫پانی کے لیے‬

‫لذت دنیا سے بندھے ہیں‬
‫اب یوں پڑھیے‬

‫کیا لوگ ہیں ہم‘ پانی کے لیے‬

‫پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں‬
‫یہ استعارے کہاں لے جاتے ہیں‘ ذرا ؼور فرمائیں۔‬

‫انہیں تلمیحی حوالہ سے بھی‘ لے سکتے ہیں۔‬
‫پانی‘ پیاس‘ صحرا‬
‫ہم صوت الفاظ‬
‫سے‘ کے‬

‫انہیں باطور محاورہ لے سکتے ہیں۔‬
‫لذت دنیا سے بندھنا‬

‫پیاس کے صحرا سے بندھنا‬

‫پیار ہی پیار میں وہ آگ بگولا ہو جائے‬
‫بات ہی بات میں تلوار پہ آ جاتا ہے‬
‫پیار ہی پیار میں‬
‫وہ آگ بگولا ہو جائے‬
‫بات ہی بات میں‬
‫تلوار پہ آ جاتا ہے‬
‫اب یوں پڑھیے‬
‫بات ہی بات میں‬
‫وہ آگ بگولا ہو جائے‬
‫پیار ہی پیار میں‬
‫تلوار پہ آ جاتا ہے‬

‫تلوار پہ آنا‘ نیا محاورہ ترکیب پایا ہے۔‬

‫وہ ایک پل کہ ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا‬
‫نظر نظر میں شعاعوں کا لافلہ ٹھہرا‬
‫وہ ایک پل کہ‬
‫ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا‬
‫نظر نظر میں‬
‫شعاعوں کا لافلہ ٹھہرا‬
‫اب یوں پڑھیے‬

‫نظر نظر میں‘ ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا‬
‫وہ ایک پل کہ شعاعوں کا لافلہ ٹھہرا‬
‫نظر نظر میں‬
‫ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا‬
‫وہ ایک پل کہ‬
‫شعاعوں کا لافلہ ٹھہرا‬
‫ترے رو بہ رو شعاعوں کا لافلہ ٹھہرا‬
‫وہ ایک پل کہ ترے رو بہ رو آ ٹھہرا‬

‫شاعر کا واسطہ‘ جہاں سخن سناشوں سے ہوتا ہے‘‬
‫وہاں وسیب کے ہر طبمہ کے لوگوں سے بھی‘ تعلك‬
‫اور رشتہ ہوتا ہے۔ وہ ان ہی کے دکھ درد کاؼذ پر‬
‫منتمل کر رہا ہوتا ہے۔ ان سے اٹوٹ رشتہ ہونے کے‬

‫باعث عوامی روزہ مرہ اور عوامی تکیہءکلام‘ اس کی‬
‫شعری زبان کا حصہ بن جاتا ہے۔ زیر گفت گو شاعر‬

‫نے‘ اس میں بہت کم تصرؾ سے کام لیا ہے۔‬
‫پہلے پہل‬

‫پہلے پہل ہر بات پہ ؼصہ آتا تھا‬
‫اور مجھے حالات پہ ؼصہ آتا تھا‬

‫بات ہی بات میں‬
‫پیار ہی پیار میں وہ آگ بگولا ہو جائے‬

‫بات ہی بات میں تلوار پہ آ جاتا ہے‬
‫ویسے بھی‬

‫ویسے بھی کچھ خون میں گرمی تھی اس ولت‬
‫ویسے بھی ہر بات پہ ؼصہ آتا تھا‬
‫اس کا دیا‬
‫اس کا دیا بہت ہے‬

‫اس کا دیا بہت ہے مگر کیا کروں شمار‬
‫ہر شے ہے میرے پاس پرائی پڑی ہوئی‬
‫ؼزل میں شاعر تخلص آخر میں استعمال کرتا ہے۔‬
‫اختر شمار کی ؼزل پر میں نے گفت گو کی ہے۔ اس‬
‫گفت گو کا اختتام ممطعے پر کیا ہے۔ سماج کی یہ ریتا‬
‫رہی ہے‘ اگر کوئی برا کرئے‘ تو اس کے پیر اور‬
‫استاد کو پنتے ہیں۔ اچھا کرنے کی صورت میں‘ استاد‬

‫پس پشت چلا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کروں گا۔ علامہ‬
‫بیدل حیدری نے‘ اختر شمار کو شعری ہنر سکھانے‬
‫میں‘ بلاشبہ کسر نہیں چھوڑی۔ یہ اپنی جگہ اٹل حمیمت‬
‫ہے‘ کہ اختر شمار سے ہنر سیکھنے والے‘ لگن کے‬

‫پکے بھی کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔‬

‫=‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic‬‬
‫‪9212.0‬‬

‫محمد امین کی شاعری ۔۔۔۔۔۔۔ عصری حیات کی ہم سفر‬
‫بروز‪ :‬اکتوبر ‪ 08:57:12 ,2014 ,05‬صبح «‬

‫یہ بات سچ ہے‘ اور آفالی حمیمت کے درجے پر فائز‬
‫ہے‘ کہ کرسی لریب اہل للم‘ ہر دور میں‘ ناصرؾ‬
‫آسودہ حال رہے ہیں‘ بلکہ کم زور طبموں کے مجرم‬
‫بھی رہے ہیں‘ کیوں کہ سچ کا ممدر‘ ان کے ہاں‘ ؼلام‬
‫گردش بھی نہیں رہ پاتا۔ چوں کہ شاہ کے کارناموں‬
‫کو آسمانوں پر پہنچا دیا گیا ہوتا ہے‘ اس لیے آتے‬
‫ولتوں میں‘ شاہ ہی‘ سلام و پرنام کے مستحك ٹھہرتے‬
‫ہیں۔ جن کے باپ دادا‘ ان شاہوں کی استحصالی تیػ کا‬

‫نشانہ رہے ہیں‘ وہ بھی ان گماشتہ شبدوں کے اسیر‬
‫ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی جذباتی وابستگی‘‬
‫استحصالیوں کے ساتھ رہتی ہے۔ بدلسمتی دیکھیے‘‬
‫کرسی دور لوگ‘ اپنے عہد میں محرومی کا شکار‬
‫رہتے ہیں۔ مرنے کے بعد‘ ان کا اثاثہ ردی میں بک‬
‫جاتا ہے۔ کسی کو یاد تک نہیں ہوتا‘ کہ کوئی اپنے عہد‬

‫کا پکا‘ کھرا اور سچا شہادتی بھی تھا۔‬

‫بائیں آنکھ کے نظر انداز اہل للم نے‘ کسی بھی زبان‬
‫کو‘ مختلؾ حوالوں سے‘ نوازا ہوتا ہے۔ ان کے تین‬

‫‪:‬حوالے‘ بڑی نمایاں حیثیت کے حامل ہوتے ہیں‬
‫انہوں نے اپنے عہد کی سماجی اور سیاسی ‪١-‬‬

‫ناہمواریوں کو‘ فوکس کیا ہوتا ہے۔‬
‫کسی ناکسی سطح پر‘ آفالی سچائیوں کی عکاسی ‪٢-‬‬

‫کی ہوتی ہے۔‬
‫آفالی اور سماجی و سیاسی زبان سے‘ اس زبان ‪٣-‬‬

‫کے دامن کو مالا مال کیا ہوتا ہے۔‬
‫للم والا‘ ان تین حوالوں سے‘ اپنے اور آتے عہد کو‬
‫نواز رہا ہوتا ہے۔ اس کی بےتولیری‘ ظلم اور زیادتی‬
‫نہیں‘ تو اور کیا ہے۔ گولی مارو حکومتی سطح کے‬
‫ایواڑوں اور تمؽوں کو‘ انہیں پیٹ بھر روٹی تو ملنی‬

‫چاہیے۔ معاؾ کیجیے‘ میں کہیں بھول رہا ہوں‘ شعر‬
‫کچھ اسی طرح سے تھا۔‬

‫اسپ تازی شدہ مجروح بر زیر پلان‬
‫طوق زرین ہمہ در گردن خر میبینم‬

‫صدیوں پرانا یہ شعر‘ آج کے نام نہاد ترلی یافتہ دور‬
‫پر بھی‘ فٹ آ رہا ہے۔ یار ان لوگوں کی لدر کرو۔ شاہ‬

‫کو چھوڑو‘ اس سے خیر کی تولع نہ کرو۔ احسان‬
‫کرئے گا‘ تو واپسی میں ضمیر وایمان‘ کباڑ خانے میں‬
‫بھی نہ رکھنے دے گا۔ لوم کو انہیں زندگی کا جھومر‬
‫بنانا چاہیے۔ انصاؾ کا یہ ہی تماضا ہے۔ ان کی تولیر‬

‫کو‘ جو لومیں بالائے طاق رکھتی ہیں‘ ؼلطی کرتی‬
‫ہیں۔ ایسے لوگ‘ کب روز روز پیدا ہوتے ہیں۔‬

‫ڈاکٹر محمد امین‘ بنیادی طور پر فلسفہ کے استاد ہیں‘‬
‫لیکن شعروسخن سے بھی رشتہ رکھتے ہیں۔ انہیں‬
‫اردو ہائی کو کا امام کہا جاتا ہے۔ انہوں نے جاپانی‬
‫سے اردو میں ہائی کو ترجمہ کیے‘ خود بھی لکھے۔‬
‫وہ صرؾ اسی صنؾ تک ہی محدود نہیں رہے‘ ؼزل‬
‫اور نظم بھی ان کی فکر سے‘ مالا مال ہوئی ہے۔ ان‬
‫کے ہائی کو ہوں‘ یا نظم‘ ؼزل کا پرپیچ میدان ہو‘ ان‬

‫کی شاعری عصری حوالوں سے جڑی رہتی ہے۔‬
‫سیاسی اور سماجی معاملات کو‘ بڑی خوبی سے‘ بیان‬
‫کر دیتے ہیں۔ ممامی سچائیاں ہی ان کے للم پر‘ نہیں‬
‫چڑھیں آفالی سچائیاں بھی بیان کرتے چلے جاتے۔ ان‬

‫کے کہنے کی زبان‘ انتہائی سادہ اور عام فیہم ہوتی‬
‫ہے۔ ان کی یہ سادہ زبان‘ درحمیمت سماجیات کی زبان‬
‫ہے۔ ان کا مخاطب‘ اعلی طبمے کا شخص نہیں ہوتا۔‬

‫عوامی روزہ مرہ بڑے سلیمے سے باندھتے ہیں۔‬

‫اس ذیل میں ان کے کلام میں سے‘ چند مثالیں باطور‬
‫‪:‬نمونہ ملاحظہ ہوں‬

‫ہمارے شہر کی اب کیفیت کیا ہے بتائیں کیا‬
‫کسی کا گھر نہیں ملتا کسی کا سر نہیں ملتا‬

‫ہمارے جمح کا صیؽہ ہے‘ جو اس امر کا ؼماز ہے‘ کہ‬
‫مجموعی بات کی گئی ہے۔ لفظ شہر مخصوص علالے‬

‫کو ظاہر کرتا ہے۔ جب کہ شاعر‘ کسی مخصوص‬
‫علالے کا شخص نہیں ہوتا۔ ہمارے شہر کہہ کر‘‬
‫مجموعی وسیب مراد لیا گیا ہے۔ لفظ کیفیت صورت‬
‫حال کے لیے ہے۔ اب‘ اس امر کی طرؾ واضح اشارہ‬
‫ہے کہ بات کا تعلك ماضی سے متعلك نہیں‘ شاعر کے‬

‫عہد سے ہے۔ پہلے مصرعے میں ہی دو سوالیے‬
‫مختلؾ نوعیت کے ہیں۔‬

‫کیفیت کیا‪ :‬موجود صورت حال‬
‫کیا بتائیں‪ :‬گھمبیرتا کا اظہار ہے۔‬
‫دوسرا مصرعہ واضح کر رہا ہے‘ کہ لالانونیت اور‬
‫بےاصولی کا پہرا ہے۔ ظالموں‘ ڈاکووں‘ لاتلوں لبضہ‬
‫گروپوں وؼیرہ پر کوئی گرفت نہیں‘ انہیں کھلی چھٹی‬
‫دے دی گئی ہے۔ اس حساب سے لانون نافذ کرنے‬

‫‪:‬والے ادارے‬
‫مجرموں کے سامنے بےبس ہیں۔‬

‫کیوں‬
‫لانون نافذ کرنے والے‘ مجرموں سے کم زور ہیں۔‬

‫مجرم ریاست کے بڑوں کے اپنے بندے ہیں۔‬
‫لانون نافذ کرنے والے بک چکے ہیں۔‬
‫ظالموں کے ساتھی ہو گیے ہیں۔‬

‫یا یہ سب‘ ریاست کے وڈیرے کر رہے ہیں۔ گھر اور‬
‫سر‘ کا نہ ملنا کوئی معمولی معاملہ یا معمولی حادثہ‬

‫نہیں‘ جسے یوں ہی نظرانداز کر دیا جائے۔‬

‫اس شعر کے تناظر میں‘ یہ شعر ملاحظہ ہو۔‬

‫روشنی کس طرح چڑھ گئی دار پر‬
‫اک تحیر ہے ماتم کناں شہر میں‬

‫کس طرح‬
‫لیامت خیز سوالیہ ہے۔ روشنی کے اپنے یا اس سے‬
‫متعلك سب مر گیے ہیں یا موجود ہی نہیں ہیں۔ ہر دو‬

‫صورتیں خوؾ ناک ہیں۔‬

‫کیا اب اطراؾ میں اندھیرا ہو گا۔‬
‫آواز اٹھانے والا یا روشنی کی سعی کرنے والا کوئی‬

‫بھی نہ ہو گا۔‬
‫اندھیر راج‘ کم زور طبموں یا انسانیت کا ممدر ٹھہرے‬

‫گا۔‬
‫اندھیرے کے باسی‘ آتے ولتوں میں روشنی نام کی‬

‫چیز کو ہی‘ بھول جائیں گے۔‬
‫تمیز و امتیاز‘ جو زندگی کا لازمہ اور ترلی کا زینہ‬

‫ہے‘ بالی نہ رہے گی۔‬
‫کس طرح‘ کی تفہیم تک رسائی کی سعی کریں۔ ہر‬

‫سانس دمے کے مرض میں مبتلا ہو جائے گا۔‬
‫دوسرے مصرعے میں ردعمل بھی پیش کیا ہے۔‬
‫تحیر ہے‪ :‬حیرت کے دامن میں پشیمان اور دردآلودہ‬
‫چپ ہوتی ہے۔ درد سے لبریز چپ بڑی خطرناک ہوتی‬
















Click to View FlipBook Version