The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2017-02-13 11:41:16

minsanay (1)

minsanay (1)

1

‫‪2‬‬

‫پ نچ اختص ریے‬

‫مقصود حسنی‬
‫ابوزر برقی کت خ نہ‬

‫فروری ‪٧‬‬

‫‪3‬‬

‫فہرست‬

‫منس نہ‬ ‫میں مولوی بنوں گ‬
‫لوک نہ‬ ‫ایس کیوں ہے‬
‫لوک نہ‬ ‫یہ اچھ ہی ہوا‬
‫منس نہ‬ ‫وہی پرانا چاا‬
‫منس نہ‬ ‫سدھر ج ؤ‬

‫‪4‬‬

‫میں مولوی بنوں گ‬

‫منس نہ‬

‫میں نے تنویر کے مستقبل کے بڑے سنہرے خوا دیکھ رکھے‬
‫تھے۔ ًمیں اسے بہت بڑا آدمی بن ن چ ہت تھ ۔ اس نے میٹرک میں‬

‫اچھے نمبر ح صل کرکے دل خوش کر دی ۔ اسے کھیل کود سے‬
‫ک کت سے زی دہ دلچسپی تھی۔ ج کبھی اسکول گی است د‬
‫اس کی ت یمی ح لت کی ت ریف کرتے۔ ان کے منہ سے اپنے‬
‫بیٹے کی ت ریف سن کر دل خوشی سے ب ب ہو ج ت ۔ منہ‬
‫سے اس کے اچھے مستقبل کے لیے بےاختی ر ڈھیر س ری‬
‫دع ئیں نکل ج تیں۔‬

‫ایف اے میں بھی ت یمی م م ہ میں اچھ رہ ۔ تھرڈ ایئر میں آی‬
‫تو اس نے چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھ لی۔ نم ز روزے ک بھی‬
‫پ بند ہو گی ۔ یہ دیکھ کر اور بھی خوشی ہوئی کہ چ و ت ی میں‬
‫بہتر ک رگزاری کے س تھ س تھ نیک راہ پر بھی چل نکا ہے‬
‫ورنہ آج کے م حول میں بےراہروی ہی لڑکی لڑکوں ک وتیرہ بن‬

‫گی ہے۔ یہ بےراہروی انہیں بدتمیز بھی بن رہی ہے۔ بڑے‬
‫چھوٹے ک کوئی پ س لح ظ ہی نہیں رہ ۔ تھرڈ ایئر تو خیر سے‬
‫گزر گئی اور اس نے اچھے نمبر بھی ح صل کیے۔ فورتھ ائیر ہ‬
‫س کے لیے قی مت ث بت ہوئی۔ اس نے داڑھی بڑھ دی اور ایک‬

‫‪5‬‬

‫دن ک لج کی پڑھ ئی چھوڑنے ک اعان کر دی ۔ اس ک یہ اعان‬
‫میرے دل و دم پر اٹی ب بن کر گرا۔ مجھے پریش نی کے س تھ‬

‫س تھ حیرانی بھی ہوئی کہ آخر اسے اچ نک یہ کی ہو گی ہے۔‬
‫اس نے یہ فیص ہ کیوں کی ہے کہ میں دینی مدرسے میں داخل‬
‫ہو کر مستند مولوی بنوں گ ۔ کہ ں ک لج کی پڑھ ئی کہ ں مولوی‬

‫بننے ک اعان‘ عج مخمصے میں پڑ گی ۔‬

‫میں دو تین دن اس کے پیچھے پڑا رہ کہ آخر اس نے مولوی‬
‫بننے ک کیوں ارادہ کی ہے۔ کچھ بت ت ہی نہ تھ ۔ چوتھے دن اس‬

‫نے بڑے غصے اور اکت ئے ہوئے لہجے میں کہ کہ میں ک ر‬
‫کے فتوے ج ری کرنے کے لیے مستند مولوی بنن چ ہت ہوں۔‬

‫ک ر کے فتوے۔۔۔ کس پر۔۔۔۔ مگر کیوں۔‬

‫میں پہا ک ر ک فتوی آپ کے خاف ج ری کروں گ ۔‬

‫یہ سن کر میرے طور پہوں گئے۔ میرے خاف ی نی ب پ کے‬
‫خاف۔ میں اس ک کھا اعان سن کر د بہ خود رہ گی ۔‬

‫پھر میں نے پوچھ ‪ :‬می ں آخر ت نے مجھ میں کون سی ایسی‬
‫ک ریہ ب ت دیکھ لی ہے۔‬

‫کہنے لگ ‪ :‬میری م ں آپ کی خ لہ زاد ہے آپ انہیں خو خو‬
‫ج نتے تھے کہ بڑی بوار ہے تو ش دی کیوں کی۔ کی اور لڑکی ں‬

‫مر گئی تھیں۔ آپ دونوں نے لڑ لڑ کر ہ س ک جین حرا کر‬
‫دی ہے۔ غ طی آپ کی ہے کہ آپ اسے بولنے ک موقع دیتے ہیں۔‬

‫‪6‬‬

‫اییسی ب ت کیوں کرتے ہیں کہ وہ س را س را دن اور پھر رات‬
‫گئے تک بولتی رہے۔‬

‫اس کی اس ب ت نے مجھے پریش ن کر دی ۔ میں نے فیض ں کو‬
‫ب وای اور کہ بیٹے کے ارادے سنے ہیں ن ۔‬

‫ہ ں میں نے س کچھ سن لی ہے۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہ ہے۔‬
‫ایسی ب ت کیوں کرتے ہیں جس سے مجھے غصہ آئے اور میں‬

‫بولنے لگوں۔‬

‫چ و میں کسی دوسری جگہ تب دلہ کروا لیت ہوں لہذا ت ک لج کی‬
‫پڑھ ئی ج ری رکھو۔‬

‫ہ ں ہ ں اچھ فیص ہ ہے کہ پھر ہم رے س تھ ڈٹ کر بول بوارا‬
‫کرتی رہے۔ وہ ت خ اور طنز آمیز لہجے میں بوا‬

‫م ں آپ فکر نہ کرو آپ بھی میرے فتوے کی زد میں آؤ گی۔‬
‫خ وند کی اتنی بےعزتی اسا میں ج ئز نہیں۔‬

‫بیٹے کی یہ ب ت سن کر وہ ہک بک رہ گئی۔ اسے امید نہ تھی کہ‬
‫تنویر ایسی ب ت کرے۔ پھر ہ دونوں می ں بیوی کی نظریں م یں۔‬

‫ہ دونوں کی آنکھوں میں دکھ اور پریش نی کے ب دل تیر رہے‬
‫تھے۔ ہ اسے بہت بڑا آدمی بن نے کے خوا دیکھ رہے تھے‬
‫کہ بیٹ کچھ ک کچھ سوچ رہ تھ ۔ پھر ہ دونوں کے منہ سے‬

‫بےاختی ر نکل گی ۔ بیٹ ت ک لج کی پڑھ ئی نہ چھوڑو ہ آگے‬

‫‪7‬‬

‫سے نہیں لڑیں گے بل کہ م مات ب ت چیت سے طے کر لی‬
‫کریں گے۔‬

‫تنویر م ن ہی نہیں رہ تھ ۔ اس ک اصرار تھ کہ وہ مولوی ہی‬
‫بنے گ ۔ وہ کہے ج رہ تھ کہ آپ وعدہ پر پورا نہیں اترو گے۔‬

‫ک فی دیر تکرار و اصرار ک س س ہ ج ری رہ ۔ تنویر کو آخر‬
‫ہم رے تکرار اصرار کے س منے ہتھی ر ڈالن ہی پڑے اور وہ‬
‫ک لج کی کت لے کر بیٹھ گی اور ہ چپ چ پ اس کے کمرے‬

‫سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چ ے گیے۔‬

‫‪8‬‬

‫ایس کیوں ہے‬

‫لوک نہ‬

‫میں عقیدت‘ پی ر‘ محبت اور کچھ موسمی سوغ ت کی پنڈ اٹھ ئے‬
‫پیر ص ح کے در دولت پر ح ضر ہوا۔ دروازے پر دستک دی۔‬
‫اندر سے ان کی بےغ ص ح دروازے پر آئیں۔ میں نے انہیں‬
‫اپن ت رف کراتے ہوئے بت ی کہ میں ان ک م ننے واا خ د ہوں‬
‫اور یہ سوغ ت ب طور نذرانہ لے کر ح ضر ہوا ہوں۔ بےغ‬

‫ص ح نے سوغ ت کی پنڈ لے لی اور کہ ‪ :‬تمہ را ج ی پیر ادھر‬
‫ادھر ہی کہیں دھکے کھ ت پھرت ہو گ ۔ ج ؤ ج کر تاش لو۔‬

‫اس کے انداز اور رویے پر مجھے حیرت اور پریش نی ہوئی۔‬
‫اس کے خ وند کو ایک زم نہ م نت تھ لیکن یہ ان کے لیے رائی‬

‫بھر دل میں عزت نہ رکھتی تھی۔ اس ک لہجہ انتہ ئی ذلت آمیز‬
‫طنز میں م وف تھ ۔ بڑا ہی حیران کن تجربہ تھ ۔ سوغ ت ح صل‬
‫کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہ کی۔ پ نی دھ نی ایک طرف اس ک‬
‫اپنے خ وند کے ب رے انداز قط ی افسوس ن ک تھ ۔ کی کہت ‘ وہ‬
‫میری عزت کی ج تھی۔ میں چپ چ پ وہ ں سے افسوسیہ سوچ‬

‫لے کر چل دی ۔‬

‫سوچوں میں غ ط ں میں یوں ہی ایک طرف کو چل دی ۔ ابھی‬
‫تھوڑی ہی دور گی ہوں گ کہ حضرت پیر ص ح آتے دکھ ئی‬

‫‪9‬‬

‫دیے۔ وہ ببر شیر پر سوار تھے۔ شیر کو لگ ڈالی ہوئی تھی ببر‬
‫شیر بڑی ت ب داری سے ان کے حک کی ت میل میں قد اٹھ رہ‬

‫تھ ۔ انہوں نے میری طرف دیکھ اور مسکرائے۔ فرم نے لگے‪:‬‬
‫بیٹ شیر کو لگ ڈالن آس ن ک ہے مگر گھروالی کو ت بع رکھن‬

‫ممکن نہیں۔ دیکھو سیدن نوح ع یہ السا کتنے بڑے انس ن‬
‫تھے لیکن بیگ انہیں نہیں پہچ نتی تھی ت ہی تو ن فرم ن تھی۔‬
‫سقراط کو لے لو من رد اور ن ی شخص تھ ۔ س ری دنی عزت‬

‫کرتی تھی لیکن گھروالی اسے نہیں پہچ نتی تھی‘ ت ہی تو‬
‫گست خ تھی۔‬

‫یہ بھی ی د رکھو! پیٹ نواز ح ظ مرات ج ن لیں تو زندگی نکھر‬
‫نہ ج ئے۔ بیٹ دل میں مال نہ اؤ۔ جو ت نے دیکھ وہ اس کی‬
‫کرنی ہے برداشت ہ کے احس ن سے میرا ف ل ہے۔‬

‫میں درحقیقت اپنی گھر والی کی شک یت لے کر گی تھ اور چ ہت‬
‫تھ کہ وہ دع فرم ئیں ت کہ اس ک منہ بند ہو ج ئے۔ واپسی پر‬

‫سوچت سوچت آ رہ تھ کہ ہ تو م مولی لوگ ہیں‘ پیر ص ح‬
‫سے بڑے لوگ ان بیبیوں کے س منے بےبس ہیں۔ میں سوچ رہ‬
‫تھ کہ ایس کیوں ہے۔ پھر خی ل گزرا کہ ان بیبیوں کے س منے‬

‫رات تنہ ئی میں ف ل مخصوص انج دینے کے دوران کمل‬
‫م رنے واا شخص ہوت ہے اور وہ اسی تن ظر میں صبح انج‬
‫پ نے والے امور کو دیکھتی ہیں اور وہ س انہیں خودس ختہ س‬

‫‪10‬‬

‫محسوس ہوت ہے ح اں کہ وہ ہر اچھ ہ کی رض کے لیے‬
‫انج دے رہے ہوتے ہیں۔‬

‫ممکن ہے یہ سوچ غ ط اور بےبنی د ہو لیکن کہیں ن کہیں اور‬
‫کسی سطح پر اس امر ک عمل دخل ضرور ہوت ہے۔‬

‫‪11‬‬

‫یہ اچھ ہی ہوا‬

‫لوک نہ‬

‫عاقے کے مولوی ص ح دھنیے دک ن دار سے ادھ ر سودا لی‬
‫کرتے تھے۔ چوں کہ مولوی ص ح تھے اس لیے وہ بڑی‬

‫برداشت اور لح ظ مروت سے ادھ ر سودا دیت رہ ۔ ادھ ر کی رق‬
‫ک فی ہو گئی اور م م ہ دھنیے کی بس ت و برداشت سے ب ہر ہو‬

‫گی تو اس نے ادھ ر سودا دینے سے ص ف انک ر کر دی ۔‬

‫مولوی ص ح نے کہ ‪ :‬اگر ت نے سودا نہ دی تو یہ تمہ رے‬
‫لیے اچھ نہ ہو گ ۔‬

‫دھنیے نے کہ ‪ :‬ٹھیک ہے جو ہو گ دیکھ ج ئے گ ۔‬

‫مولوی ص ح نے اس کی ج ن طنز آمیز غصے سے دیکھ ۔‬
‫دھنیے کے چہرے پر کسی قس کی فکرمندی ی مال نہ تھ ۔ گوی‬

‫یہ ہی ت ثر تھ کہ جو ہو گ دیکھ ج ئے گ ۔ مولوی ص ح کو‬
‫تین قول پورے کرن چ ہیے تھے لیکن انہوں نے دوسری ب ر‬

‫کچھ کہنے ی وارننگ کو مذید زوردار اور سخت بن نے کی‬
‫زحمت ہی نہ اٹھ ئی اور پیر پٹکتے ہوئے وہ ں سے روانہ ہو‬
‫گئے۔ ج تے ہیں تو ج ئیں دھین بڑبڑای اور اس نے ان کی ج ن‬

‫سرسری نظر سے بھی نہ دیکھ ۔‬

‫‪12‬‬

‫مولوی ص ح نے مسجد میں آ کر سپیکر کھوا اور دکھ بھری‬
‫آواز میں اعان کی ۔‬

‫حضرات ایک ضروری اعان سنیے۔ بڑے دکھ اور افسوس کی‬
‫ب ت ہے کہ دھنی دک ن دار وہ بی ہو گی ہے لہذا اس سے کسی‬
‫قس کی سودا نہ خریدا ج ئے اور نہ کسی قس ک لین دین ی بول‬
‫چ ل رکھ ج ئے جو اس سے سودا خریدے گ ی کسی قس ک لین‬
‫دین کرے گ ی بول چ ل رکھے گ سیدھ جہن کی بھڑکتی آگ‬

‫میں ج ئے گ ۔‬

‫لوگوں نے دھنیے سے ہر قس کی خریداری بول چ ل اور لین‬
‫دین بند کر دی ۔ اس کے ب د دھنی س را دن ہ تھ پہ ہ تھ دھرے‬
‫بیٹھ بدنصیبی کی مکھی ں م رت رہت ۔ کوئی اس کی دک ن کے‬

‫نزدیک سے بھی نہ گزرت ۔‬

‫کچھ دن تو اس نے برداشت سے ک لی ج ب ئیک ٹ میں کسی‬
‫قس کی لچک پیدا نہ ہوئی تو وہ مولوی ص ح کے در دولت پر‬
‫ح ضر ہوا اور ہتھی ر ڈالتے ہوئے کہنے لگ ‪ :‬مولوی ص ح آپ‬

‫جتن جی چ ہے سودا لے لیں لیکن یہ کٹھور پ بندی اٹھ لیں۔‬

‫مولوی ص ح اس کی دک ن پر گئے اور اچھ خ ص سودا لی ۔‬
‫سودا گھر پر چھوڑ کر مسجد میں ج کر اعان کی ۔ حضرات آپ‬
‫کے لیے خوشی کی یہ ہے ب ت کہ دھنی دک ن دار ت ئ ہو گی ہے‬

‫ا اسی سے سودا خرید کی کریں کہیں اور سے سودا نہ‬

‫‪13‬‬

‫خریدیں ۔ اپن قریبی دک ن دار چھوڑ کر کسی اور سے سودا‬
‫خریدنے سے پ پ لگت ہے۔ دھنیے نے ایشور ک شکریہ ادا کی‬
‫اور چھری پہ ے سے تیز کر دی۔ اپنی اصل میں ب لوسطہ دھنیے‬
‫کے لیے یہ اچھ ہی ہوا کہ اس کے من فع کی شرح میں ہرچند‬

‫اض فہ ہی ہوا۔‬

‫‪14‬‬

‫وہی پرانا چاا‬

‫منس نہ‬

‫بیٹی کو رخصتی کے وقت یہ سختی سے ہداہت کی ج نی چ ہیے‬
‫کہ وہ میکہ کی کوئی من ی ب ت سسرال میں ی سسرال کی کوئی‬

‫من ی ب ت میکہ میں شیئر نہ کرے۔ اس ع ت بد کے سب غ ط‬
‫فہمی ں جن لیتی ہیں جو ب د میں ت خیوں ک سب بن ج تی ہیں۔‬
‫ہنستی مسکراتی زندگی پریش نیوں میں بدل ج تی ہے۔ بدقسمتی‬
‫سے گھر کے گھر اس بیم ری کے ب عث تب ہ ہو ج تے ہیں۔ یہ‬
‫ہی لوتی ں ب د میں کورٹ کچہری والوں کی کھٹی ک ذری ہ بن‬

‫ج تی ہیں۔ ڈاکٹر ہوں کہ یہ کورٹ کچہری والے‘ ہنستے‬
‫مسکراتے چ تے پھرتے لوگ انہیں بھ ے نہں لگتے۔‬

‫حنیف گربت کی چکی میں پس رہ تھ ۔ س را دن مشقت میں کٹ‬
‫ج ت ۔ رات می ں بیوی کی ای نی چخ چخ میں گزر ج تی۔ دونوں‬
‫می ں بیوی کو پچھ وں میں چھوٹی چھوٹی ب ت شیئر کرنے کی‬

‫ع دت بد اح تھی۔ پچھ ے کوئی م لی مدد تو نہ کرتے ہ ں‬
‫دونوں می ں بیوی میں غ ط فہمی ں پیدا کرنے والے سب ضرور‬

‫پڑھ تے رہتے تھے۔ یہ تھے کہ اس ع دت سے ب ز ہی نہیں آ‬
‫رہے تھے۔ پچھ وں کے پڑھ ئے گئے اسب کی وجہ سے ان‬
‫کے درمی ن ن رتوں میں ہرچند اض فہ ہی ہوت چا ج رہ تھ ۔‬

‫‪15‬‬

‫انہوں نے کبھی سر جوڑ کر ح ات سے لڑنے کی مش ورت کی‬
‫ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی ح اں کہ ایسے ح ات میں سر‬

‫جوڑ کر مش ورت بہت ضروری ہوتی ہے۔‬

‫خدا م و حنیف کی کس طرح درک لگ گئی کہ اس کی بیرون‬
‫م ک میں سرک ری نوکری لگ گئی۔ پھر کی تھ ‘ نوٹ آن شروع‬
‫ہو گئے۔ جہ ں بھوک بھنگڑے ڈالتی تھی وہ ں رج کے نق رے‬

‫بجن شروع ہو گئے۔ جو بیوی کو رق بھجت اس کی خبریں‬
‫پچھ وں کو بھجوا دیت ۔ ادھر اس کی بیوی میکہ اور ارد گرد میں‬
‫یہ مشہور کرنے بیٹھ گئی جو کم ت ہے اپنے پچھ وں کو بھجوا‬

‫دیت ہے اور ہ اسی طرح گربت کی زندگی گزارتے ہیں۔ ج کہ‬
‫حقیقت یہ تھی کہ جو حنیف بھجوات اس سے اس کے میکہ کی‬

‫بھوک نک نے لگی تھی۔ اس غ طی کے سب دونوں خ ندانوں‬
‫میں اٹ کتے ک بیر چل نکا۔ وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے‬

‫کے بھی روادار نہ رہے۔‬

‫حنیف چھٹی پر آی تو اطراف سے خو لون مرچ مح لحہ لگ کر‬
‫اسے خبریں دی گئیں۔ بج ئے چھٹی کے دن ہنس کھیڈ کر گزارے‬

‫ج تے جنگ جدل کی عم ی کی یتں ط ری رہیں۔ ان کی اس ب ہمی‬
‫بکواس کے سب بچے بڑے ڈسٹر ہوتے۔ ج چھٹی ک ٹ کر‬

‫ج نے لگ تو اس نے عن ئت ں کو گھر سے نک ل دی ۔‬

‫‪16‬‬

‫چند دن تو اس نے بھ ئیوں کے ہ ں گزارے۔ ب ہر سے آئی رق‬
‫سے اس نے پ ئی بھی جمع نہ کی تھی۔ کھ نے والے ک کھا‬

‫سکتے ہیں۔ وہ ں اس کی زندگی عذا ہو گئی۔ بچے کھ نے‬
‫پینے کی چیزوں تک کو ترسنے لگے۔ حنیف نے رق بھجوان‬
‫بند کر دی۔ حنیف کے بڑے بھ ئی نے بچوں کی یہ ح لت دیکھی‬
‫تو بڑا افسردہ ہوا۔ اس نے بچوں کو کچھ کھ نے پینے کی چیزیں‬

‫بھجوان شروع کر دیں۔‬

‫اپنے ہی لوگوں کو یہ برداشت نہ ہوا۔ اس امر کی بڑھ چڑھ کر‬
‫حنیف کو خبریں بیجھن شروع کر دیں۔‬

‫حنیف کو بھ ئی کی اس حرکت پر سخت غصہ آی ۔ اس نے ٹی ی‬
‫فون پر اپنے بڑے بھ ئی کی بڑی بےعزتی کی۔ اس نے کسی‬
‫الزا سے بچنے کے لیے عن ئت ں اور بچوں کو کچھ بیجھن بند‬
‫کر دی ۔ پھر ہون کی تھ ‘ ب پ کی بھری جی ہوتے بچے بھوکوں‬
‫مرنے لگے۔ ہ تو ن فرم ن سے ن فرم ن ک رز بند نہیں کرت‬
‫بل کہ اسے سدھرنے کے مواقع مسیر کرت ہے اگر نہ سمجھے‬

‫تو وہ اپنی ہی کسی کرنی میں پھنس ج ت ہے۔‬

‫حنیف کے دم میں اوق ت سے ب ہر میسر ک فتور آ گی تھ اور‬
‫وہ یہ سوچنے سے ع ری ہو گی تھ کہ رز تو ہ ک دی ہوا‬
‫ہے اور اس کی جی میں پڑا بھی ہ ہی ک ہے۔ وہ تو اپنے‬
‫س نس ک بھی م لک و وارث نہیں۔‬

‫‪17‬‬

‫پت نہیں اس سے کی ہو گی اور وہ نوکری سے نک ل ب ہر کر دی‬
‫گی ۔ جوتے چٹخ ت ہوا واپس لوٹ آی ۔ اس نے عن ئت ں سے‬

‫چھٹک رے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کر دی ۔ جو س تھ ای‬
‫تھ کورٹ کچہری کی نذر ہو گی ۔ دوب رہ سے مشقت کی ج ن‬

‫راغ ہوا۔ اس سے پہ ے کی طرح ک نہیں ہو پ رہ تھ ۔ بڑے‬
‫بھ ئی نے ک فی بھ گ دوڑ کی اور دونوں می ں بیوی کی صاح‬
‫کروا دی۔ ان دنوں دونوں می ں بیوی ایک چھت کے نیچے رہ‬

‫رہے تھے لیکن اتن بڑا جھٹک لگنے کے ب وجود انہیں عقل‬
‫نہیں آئی تھی اور ا بھی ان ک چ ا وہ ہی پران تھ ۔‬

‫‪18‬‬

‫سدھر ج ؤ‬

‫منس نہ‬

‫خوش ح ل زندگی کون گزارن نہیں چ ہت ۔ خوش ح ل زندگی کے‬
‫لیے ہر کوئی کوشش اور محنت کرت ہے۔ اٹھتے بیٹھتے چ تے‬

‫پھرتے سوتے ج تے سوچت اور سو طرح کے منصوبے بن ت‬
‫ہے۔ یہ الگ ب ت ہے کہ اس کی کوشش اور سوچ ک ثمرہ محدود‬

‫رہت ہے اور ان حد دولت اس کے پ س آ نہیں پ تی۔ آنکھ کی‬
‫سیری نہ ہونے کے ب عث پریش نی بےسکونی اور گھر میں‬
‫ب ہمی غ ط فہمیوں کے س ئے خت ہونے ک ن ہی نہیں لیتے۔‬
‫س کچھ میسر ہونے کے ب وجود م یوسی کی فض ط ری رہتی‬
‫ہے۔ قن عت ک آئینہ اندھ ہو ج ت ہے اور شخص اپنی حقیقی‬

‫صورت دیکھنے سے بھی م ذور ہو ج ت ہے۔‬

‫الے کر دین کے شریف اور بھام نس ہونے میں قط ی شبہ‬
‫نہیں کی ج سکت ۔ زبردست مشقتی تھ ۔ وہ میسر پر گزارا کرنے‬

‫واا شخص تھ لیکن اس کے بیوی بچے اس قم ش کے نہ‬
‫تھے۔ وہ دنی کی س ری دولت گرہ کر لینے کی ہوس رکھتے‬
‫تھے۔ اس ک محنت نہ ان کی ہوس کے پ سنگ نہ تھ ۔ ان کی اس‬
‫ہوس کے ب عث گھر میں ہر وقت بےچینی اور بےسکونی کی‬

‫کی یت ط ری رہتی۔‬

‫‪19‬‬

‫وہ اکثر سوچت آخر اس ک جر کی ہے جو اس کے اپنے گھر‬
‫والے اسے سزا دے رہے ہیں۔ ف ر تو نہیں رہت ۔۔۔۔ جوا نہیں‬
‫کھ ت ۔۔۔۔ شرا نہیں پیت ۔۔۔۔ عورتوں کے پیچھے نہیں ج ت ۔۔۔۔ س را‬
‫دن مشقت کرت ہے اور جو میسر آت ہے ان لوگوں پر خرچ کر‬
‫دیت ہے۔ یہ ہیں کہ خوش ہی نہیں ہوتے۔ خدمت تو دور رہی‘ ان‬
‫کے پ س تو اس کے لیے ایک مسکراہٹ تک نہیں۔ ج دیکھو‬
‫گ ے شکوے‘ بول بوارا۔ آخر اس ک جر کی ہے۔ اس نے کی کی‬

‫ہے جس کی یہ لوگ اسے سزا دے رہے ہیں۔‬

‫اس روز اس نے طے کر لی کہ شیداں سے ضرور پوچھے گ‬
‫کہ اس ک جر کی ہے اور وہ کی کرے کہ اس کی زب ن بند ہو‬

‫ج ئے۔‬

‫قدرتی ب ت تھی کہ اس روز ج نے کیوں شیداں ک موڈ خوشگوار‬
‫تھ ۔ اس نے موقع کو غنیمت ج ن اور شیداں سے پوچھ ہی لی‬

‫کہ اس میں کی پرائی اور خرابی ہے کہ وہ ہر وقت ٹکوا لے کر‬
‫اس کے پیچھے پڑی رہتی ہے اور وہ کی کرے جس سے گھر‬

‫میں سکھ اورش نتی کی فض ق ئ ہو۔‬

‫شیداں نے جواب کہ کہ وہ سدھر ج ئے اپنی ان حرکتوں سے‬
‫ب ز آ ج ئے۔‬

‫اس نے کہ یہ ہی تو میں ج نن چ ہت ہوں کہ کن حرکتوں سے‬
‫ب ز آ ج ؤں۔‬

‫‪20‬‬

‫اپنی کم ئی غیروں پر خرچ کرن بند کر دو۔ اپنے بچوں ک ح نہ‬
‫م رو۔‬

‫ت کن غیروں کی ب ت کر رہی ہو جن پر میں اپنی کم ئی ض ئع کر‬
‫رہ ہوں۔‬

‫کہنے لگی بڑے بھولے بنتے ہو۔ س کچھ م ں ف ےکٹن اور اپنی‬
‫کمینی بہن کو کھا رہے ہو۔ ہمیں دیتے ہی کی ہو۔‬

‫وہ ج نت تھ کہ شیداں کو کی پیڑ ہے اور وہ کیوں روا ڈالتی‬
‫ہے۔ وہ م ں کو دیت ہی کی تھ ۔ ہ تے عشرے ب د چند ٹکے اور‬
‫بیوہ بہن اور اس کے بچوں کو عید شبرات پر سستے قس کے‬
‫ک ُپڑے بن دیت تھ اور بس۔ یہ ہی اسے کھٹکتے تھے۔ م ں اور‬

‫بہن ک اس پر ح تھ ۔‬

‫شیداں ج بھی بولتی اس کی م ں کو ف ےکٹن کہتی ج کہ اپنی‬
‫م ں کو ہمیشہ امی ج ن کہتی۔ ج اس کی م ں آتی تو بوتھ‬

‫ٹیڑھ کر لیتی پ نی تک نہ پوچھتی۔ ج اس کی م ں آتی تو امی‬
‫ج ن امی ج ن کرتی اس کے آگے پیچھے ہوتی۔ خو خدمت‬
‫تواضح کرتی۔ یہ ہی نہیں اچھ پک تک ان کے گھر بھجوا کر‬
‫س نس لیتی۔ بچت کرکے اس کی چوری چھپے مٹھی بھی گر‬

‫کرتی رہتی تھی۔ بھ ئی کے بیٹے ک اسکول ک خرچ اٹھ ی ہوا‬
‫تھ ۔ بھ ئی تھ کہ سیدھے منہ سے حضرت ک سا بان پسند‬

‫نہیں کرت تھ ۔‬

‫‪21‬‬

‫اگر کبھی کبھ ر م ں کو پنج دس روپے دے دیت ہے تو اس سے‬
‫کی فر پڑت ہے۔ کون س روز روز دیت ہے۔ رہ گئی بہن اس کو‬
‫کی دیت ہے۔ عید شبرات پر تیسرے درجے کے کپڑے اور بس۔‬
‫وہ کہتی تو پھر اتنی کم ئی کہ ں ج تی ہے۔ اتنی پر اسے بڑا ت ؤ‬
‫آت جیسے اس کے ب پ نے دو مرب ے زمین اس کے ن کر دی‬

‫ہو ی جہیز میں م یں ائی تھی۔‬

‫کم ئی کی تھی وہ ہی دن بھر ک محنت نہ جو وہ ان پر خرچ کر‬
‫دیت تھ ۔‬

‫وہ سوچت رہ کہ دنی کوئی آرا دہ مق نہیں ہے۔ ب ہر دنی اور‬
‫گھر میں اپنے لوگ زمین پر پ ؤں نہیں آنے دیتے۔ کتن بھی کچھ‬

‫کر لو‘ خوش نہیں ہوتے۔ ایک ہ ہی ہے جو م مولی سی‬
‫اچھ ئی پر خوش ہو ج ت ہے۔ اس روز وہ بڑا ہی ڈس ہ رٹ ہوا‬
‫تھ ۔ کچھ بھی کر لے‘ کتنی قسمیں کھ لے‘ گھر میں کوئی یقین‬
‫کرنے واا نہیں تھ ۔ اس کے سوچ کے ح قے گہرے ہوتے چ ے‬

‫گئے۔‬

‫اسے ی د آی شیداں نے کہ تھ کہ سدھر ج ؤ۔ اس نے سوچ یہ‬
‫سدھرن کی ہے۔ ہ کی طرف پھرن ہی تو اپنی حقیقت میں‬

‫سدھرن ہے۔ اس نے پہ ی ب ر ہ کو دل سے پ د کی اور درود‬
‫پ ک پڑھنے لگ ۔ ابھی آدھ بھی نہیں پڑھ پ ی ہو گ کہ گہری اور‬

‫پرسکون نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لی ۔‬

‫‪22‬‬

‫بےشک ہ اور اس کے رسول کے ہ ں ہی سکھ اور چین کی‬
‫دنی آب د ہے۔ اگر موت جو لمبی نیند ہے‘ میسر نہ ہوتی تو دنی‬

‫میں پ گ وں اور وحشیوں کے سوا کے سوا کچھ نہ ہوت ۔‬

23


Click to View FlipBook Version