The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2016-01-04 22:49:27

01

01

‫خوش بو اور لمس کی لذت‬

‫انسان' مٹی سے تخلیق ہونے والا پہلا متحرک بت ہے۔ اس‬
‫بت کو' غور و فکر اور تخلیق و اختراع کی' بےشمار‬

‫شکتیوں سے سرفراز کیا گیا۔ انسان اپنی ان شکتیوں کو'‬
‫منفی اور مثبت' گویا دونوں حوالوں سے' استعمال کرتا آ‬
‫رہا ہے۔ بت تراشی اور بت پرستی' روز اول سے اس کا‬

‫محبوب مشغلہ رہا ہے۔ اس ذیل میں اس کے پانچوں‬
‫حواس' خواہش سے ہوس کی حد تک' متحرک رہے ہیں۔‬
‫غالب نے بڑی خوب صورتی سے' بصارتی حظ کو واضح‬

‫کیا ہے۔‬

‫گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے‬
‫رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے‬

‫کھانے کی رنگت' خوش بو اور پیش کش اپنی جگہ' اس‬
‫کے ہونے کا احساس نہال کر دیتا ہے۔ ذائقہ اور سیری کا‬
‫نمبر' تو بعد میں لگتا ہے۔ گویا بتوں سے تعلق واسطے‬
‫کو' کسی طور پر انسانی زندگی سے خارج نہیں کیا جا‬
‫سکتا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں 'انسان اور بت'‬

‫چولی دامن کا رشتہ رکھتے ہیں۔‬

‫معاملہ اگر بت تراشی برائے مثبت استعمال اور بہ قدر‬
‫ضرورت رہے' تو گڑبڑی کا دروازہ نہیں کھلتا' لیکن جب‬

‫ہوس اور مزید کا پرندہ پر پھیلاتا اور چھینا جھپٹی کی‬
‫لامحدود کی پرواز پر نکل کھڑا ہوتا ہے' تو انسانی اور‬
‫فطری ضابطے دم توڑ کر' پرستی کی راہوں پر چل نکلتے‬
‫ہیں۔ گڑبڑی یہاں سے شروع ہو کر' روز اول ملی انسانی‬
‫عظمت' غارت کر دیتی ہے۔ اس طرح انسانی عظمت' نہ‬
‫تیتر رہتی ہے' نہ بٹیر۔ اس قماش سے متعلق' دکھنے میں‬
‫انسان لیکن باطنی سطح پر ڈنگر بھی نہیں رہ پاتا۔ لوگ‬
‫اس کے باطنی ہبل سے' خوف زدہ رہتے ہیں۔ مذہبی‬
‫واجبات کی باقاعدہ ادائیگی اور پابندی کے باوجود' وہ‬

‫خوف کی علامت بنا رہتا ہے۔‬

‫جو بھی سہی' پیکر تراشی بڑا زبردست اور متاثر کرنے‬
‫والا فن ہے۔ آزر کے تراشے گیے بتوں میں' جلال و کمال‬
‫کی شکتی رہی ہو گی' جو انسان سا اکڑ خان اور میں کا‬
‫پتلا' ان کے سامنے سرنگوں ہو جاتا تھا۔ الله کے بنائے‬
‫متحرک اور باعلم پتلے کے سامنے' باازن خالق جھکنے‬
‫کی بات' سمجھ میں آتی ہے' لیکن غیر متحرک پتلے کے‬
‫سامنے سجدہ ریزی' اس امر کی غماز ہے' کہ اس میں‬

‫کوئی بات تو ضرور رہی ہو گی۔ عادتا اور روجا کسی‬
‫معاملے کا چلے آنا' محدود کے دائرے سے باہر نہیں آتا۔‬

‫یہ معاملہ تو یونان سے ہند' یا ہند سے یونان تک' ایک ہی‬
‫یا ایک سی سطح پر دکھتا ہے۔‬

‫فاخرانہ لباس میں' پورے پہار کے ساتھ تاج شاہی پہنے'‬
‫تخت اقتدار پر بیٹھا متحرک بت' باطنی سطح پر ناہی سہی'‬

‫ظاہری طور پر جان کی امان پانے والے یا مطلب بر کو‬
‫کورنش قسم کی چیز بجا لانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس کا‬

‫یہ فعل' غیر فطری سا نہیں ہو گا۔ تخت اقتدار پر بیٹھا‬
‫شخص رعب و جلال کا حامل ہوتا ہےاور غصہ اکڑ توڑ‬
‫ہوتا ہے۔ نہیں یقین آتا' تو پنجاب کی مہا منشی گاہ میں‬
‫چلے جائیں' اس کہے کا عملی نظارہ کر لیں' میرے کہے‬
‫پر یقین آنے لگے گا کہ بت کی وجاہت متاثر کرتی ہے۔ اس‬
‫طرح اس کا جمال یا کوئی ادا جوگ سی مشکل گزار راہوں‬

‫پر چلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔‬

‫پیکر تراشی کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثلا‬
‫سماعتی پیکر' آواز کی سمت و نوعیت پر انحصار کرتے‬

‫ہیں۔‬
‫بصارتی پیکر' جو اور جیسا دکھائی دینے سے تعلق کرتے‬

‫ہیں تاہم دیکھنے کا زاویہ بھی اثر انداز ہوتا ہے۔‬
‫خوابی پیکر' زیادہ تر لاشعور سے متعلق ہوتے ہیں۔‬
‫بعض اوقات' کوئی خواہش متشکل ہو کر سامنے آ جاتی‬

‫ہے۔‬

‫شخصی امور کا انشراع بھی' تجسیم اختیار کر سکتا ہے۔‬
‫الله کے خصوصی احسان کے تحت کوئی انکشاف یا اشارہ‬

‫خوابی پیکر اختیار کر سکتا ہے۔‬

‫بصیرتی پیکر سوچ' سمجھ' تجربہ' مطالعہ وغیرہ کے زیر‬
‫اثر تشکیل پاتے ہیں۔‬

‫الہامی' کشفی اور وجدانی پیکر ان سب سے جدا تر ہیں۔ ان‬
‫میں الوہیت کی تجلی کارفرما ہوتی ہے۔ یہ ہر کسی کے‬

‫حصہ میں نہیں آتے۔ یہ صاحب جذب و سلوک کے قرطاس‬
‫دل پر باصورت امر ربی' ترکیب و تشیل پاتے ہیں۔‬

‫چھٹی حس ہنگامی نوعیت کے محرکات پر ایمیج تشکیل‬
‫دیتی ہے‬

‫پیکر پہلے فکری گوشوں میں جنم لیتے ہیں۔ جب واضح‬
‫اور پختگی اختیار کرتے ہیں تو اس کے بعد محاکاتکر‬
‫اسے مادی شکل دیتا ہے۔ شاعر شاعری میں' جب کہ‬
‫فیکشن رائٹر انہیں اپنی نثر میں تشکیل دیتا ہے۔ ہو بہو‬
‫تصاویر آنکھوں کے سامنے گھوم گھوم جاتی ہیں۔ بہادر‬

‫شاہ ظفر کا یہ شعر دیکھیے۔‬

‫چشم قاتل تھی مری دشمن ہمیشہ لیکن‬
‫جیسی اب ہو گئی قاتل' کبھی ایسی تو نہ تھی‬

‫اس شعر کے پس منظر سے آگاہ شخص' لرز لرز جاتا ہے‬
‫اور اس سے بہادر شاہ ظفر کی ذہنی اور قلبی کیفیات کا‬

‫باخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔‬

‫میر صاحب کا یہ شعر عرف عام میں ہے۔‬

‫نازکی اس کے لب کی کیا کہیے‬
‫پنکھڑی اک گلاب سی ہے‬

‫استاد گرامی غالب کا یہ شعر دیکھیں۔‬
‫مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے‬

‫جوش قدح سے بزم' چراغاں کیے ہوئے‬

‫ہر سہ اشعار' مختلف نوعیت کےایمج تشکیل دے رہے ہیں۔‬

‫پروفیسر صوفی عبدالعزیز ساحر پی ایچ ڈی' صرف نثار‬
‫اور انشاپرداز ہی نہیں ہیں' خوش فکر شاعر بھی ہیں۔ ان‬
‫کی شاعری میں ناصرف گزرے کل بل کہ عصر رواں کا‬
‫شخص' چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں' باطور‬
‫واقع نگار بھی سامنے آتے ہیں۔ بڑی نفاست' ہنرمندی اور‬

‫کمال کے سلیقے سے' مختلف نوعیت کے پیکر بھی‬
‫تراشتے چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح منظرکشی کا کام بھی‬
‫کیے چلے جاتے ہیں۔ قاری ان مناظر اور تجسیمات کے‬

‫سحر میں کھو کر' اپنے موجود سے یکسر بےخبر ہو جاتا‬
‫ہے۔‬

‫اس ذیل میں' ان کی طویل نظم ۔۔۔۔۔۔۔ طاق ابد پہ رکھے‬
‫ہوئے چراغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے چند پیکر پیش کر رہا ہوں۔ آزر‬
‫جلال میں ڈوبی ضلالت' تشکیل دیتا تھا' جب کی صوفی‬
‫ساحر کے ہاں تشکیل پانے والے ایمیج میں' عجز و‬
‫انکسار اور روحانیت کے چراغ جلتے نظر آتے ہیں۔ میں‬
‫انہیں' ان کی اس نظم کے لسانی وفکری رویے کے حوالہ‬

‫سے' اس عہد کا ضد آزر و آزری سجھتا ہوں۔‬

‫کائنات ضدین پر استوار ہے۔ زندگی میں ان کے متوازی‬
‫چلنے کی' ان گنت مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ بت تراشی‬

‫اوربت پرستی کے ساتھ ساتھ' بت شکنی اور خدا پرستی‬
‫بھی ملتی ہے۔ آج کے بت پرست عہد میں' صوفی ساحر‬
‫نے الگ سے رستہ تلاشلا ہے۔ آزر ضلالت کے مقابل'‬
‫سچائی کے پیکر تراشے ہیں۔۔ یہ روشنی کے امین پیکر‬
‫ظلمت اسیر زندگی کو' حق سچ کی بصیرت سے منور کر‬
‫رہے ہیں اور ضدین کے فلسفے پر اس کے ہونے کی مہر‬
‫ثبت کر رہے ہیں۔ صوفی ساحر کے پیکر' جسم و جاں میں‬
‫اویسی و سلمانی نغمے چھیڑ کر' کیف ومستی کی فضاؤں‬
‫میں' خوش بو بکھیر دیتے ہیں گویا من کے خشک اور‬

‫بنجر صحرا میں' پریم گنگا بہنے لگتی ہے۔‬

‫صوفی ساحر کے قلم سے نکلے چند ایمیج ملاحظہ‬
‫فرمائیں۔‬

‫بصارتی‪ :‬بدن کی خانقاہ‬
‫بصیرتی‪ :‬ریاضات کے موسم‬
‫ان دونوں کے باہمی ملاپ اور قربت سے‬

‫نفسیاتی‬

‫شخصی‪ :‬انا کے زاویے‬
‫انا کے زاویے‬

‫فنا سے دوچار ہو سکتے ہیں اور نئی سمت کی جانب بڑھ‬
‫سکتے ہیں۔ میں کے ہوتے' تبدیلی کے امکانات مفقود کی‬

‫وادی سے' نکل نہیں پاتے۔ جوں ہی یہ دم توڑتے ہیں'‬
‫شخصی رجحانات نئی سمت کی جانب بڑھ سکتے ہیں‪ .‬ان‬

‫کی منزل‬

‫کشفی‪ :‬نئی تشکیل‬

‫ٹھہرتی ہے اور یہ سب اوج آدمیت پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی‬
‫میں ناہیں سبھ توں کا ہدف اس کے بغیر ہاتھ آ ہی نہیں‬
‫سکتا اور‬

‫الہامی‪ :‬صحیفے اتر کر‬

‫ہونے کو ہونا' قرار دیتے ہیں۔ اس ذیل میں ذرا یہ لائین‬
‫ملاحظہ فرمائیں‬
‫جہاں موسم'‬

‫وجود ذات کا اثبات کرتے ہیں‬

‫اور پھر'‬
‫کثرت کے پردوں میں بس اک منظر ابھرتا ہے‬

‫اپنی اصل میں وہ منظر' حقیقت کا منظر ہے' جسے فنا‬
‫نہیں اور یہ حقیقت زمان و مکان کی حدود و قیود سے باہر‬

‫کی ہے۔‬

‫مدینہ ایسی بستی ہے کہ‬
‫جس کے سامنے سارے زمانے‬

‫ہاتھ باندھے سرنگوں ہیں‬

‫کیوں سرنگوں ہیں‬

‫بصارتی‪:‬‬
‫مدینہ‬

‫بصیرتی‪:‬‬
‫مدینہ اک حقیقت ہے‬
‫مدینہ نورونکہت کا خزینہ ہے‬
‫مدینہ رحمتہ اللعالمینی کی علامت ہے‬
‫مدینہ روشنی اور چاندنی کا استعارہ ہے‬

‫اس حقیقت کی عملی صورت کچھ یوں ہے۔‬

‫آسماں کے اس طرف آباد بستی کے مکین‬
‫اس شہر اور اس شہر والے کی‬
‫زیارت کرنے آتے ہیں‬
‫ابد آباد تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا‬

‫مزید یہ کہ‬

‫وہ جو کچھ ہو محبت کی زبانی ہو‬
‫مدینے کی فضا اس کو سدا آباد رکھتی ہے‬

‫ہمیشہ شاد رکھتی ہے‬

‫بلھے شاہ قصوری کے ہاں تو کی زبانی اس حقیقت کو‬
‫یوں واضح کیا گیا ہے۔‬

‫بلھے شوہ!‬

‫اسیں مرنا نئیں گور پیا کوئی ہور‬

‫‪-2-‬‬

‫حق اور سچ سے متعلق آگہی' ادب اور احترام کے کوچہ‬
‫میں لے آتی ہے۔ احترام مزید کے دروازے کھول دیتا ہے۔‬
‫یہ مزید' آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سکون کا سبب بنتا‬
‫ہے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون' جسم و جاں میں‬
‫عقیدت کے گلاب کاشت کرتا ہے۔ ٹھنڈک' سکون اور خوش‬
‫بو پریم کے پودے کا بیج' اس کے دل میں بو دیتے ہیں۔‬
‫جو آگہی سے' اپنا رزق پاتا رہتا ہے۔ بلوغت' پھر بڑھاپے‬
‫کی طرف بڑھنے لگتا تو اس کی جڑیں' دل کے پتال میں‬
‫پہنچ کر' اپنے ہونے پ'ر امرتا کی مہر ثبت کر دیتی ہیں۔‬
‫اہل نظر اور اہل ظرف اس شجر آگہی سے' استفادہ کرتے‬

‫ہیں اور اسے عشق کا نام دیتے ہیں۔‬

‫یہ عشق ہی' اہل فنا کی نماز ہے۔ عشق اپنی اصل میں' نشہ‬
‫ہے۔ اس نشے سے الگ تر' کوئی نشہ اہل عشق کے لیے‬
‫حرام ہے۔ اہل سلوک کی عقیدت احترام یا ادب کے سبب ۔۔۔۔۔‬
‫میں ہوں۔۔۔۔۔ کا شک تک گزرنا' اس میں روا نہیں۔ اہل فنا کا‬
‫ہر کرنا' الله کے حکم کے تابع ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی یا اپنے‬
‫گمان کو درمیان میں لاتا ہے' تو نماز عشق غارت ہو جاتی‬
‫ہے یا نماز کی طرف' بڑھا ہی نہیں گیا ہوتا۔ اسے کچی مٹی‬

‫کے ظرف کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ کسی نوع کے نشہ‬
‫میں ہونے کی صورت میں' نیت نماز ممکن ہی نہیں۔ نشے‬

‫کی حالت میں' جائے نماز کی طرف رخ کرنا بھی واجب‬
‫نہیں۔ نشے کی حالت میں نماز دوئی کا شکار رہتی ہے۔‬
‫دوئی شرک ہے اور دوئی سے بڑھ کر کوئی جرم نہیں۔‬

‫عاشق کا ظاہر' ممکن ہے متاثر نہ کرے' لیکن اس کے‬
‫باطن سے نکلی خوش بو' سرحدوں میں نہیں رہتی۔ آفاق‬
‫کی جملہ وسعتوں کا دامن کم پڑ جاتا ہے۔ خوش بو اپنے‬

‫کرے میں رہتے ہوئے' سفر کرتی چلی جاتی ہے اور‬
‫مخلوق خداوندی' اس سے اپنے موجود ظرف کے مطابق'‬
‫استفادہ کرتی چلی جاتی ہے۔ اس خوش بو کو کوئی من‬

‫میں' تو کوئی آنکھ میں سماتا چلا جاتا ہے۔‬

‫حق اور حق کے سوا کچھ نہیں' کی خوش بو' مدینے سے‬
‫چلی' تو نجف تک کے علاقوں کو معطر کرتی چلی گئی۔‬
‫اس سفر کا منظر کیا رہا ہو گا' اس کا تصور بھی عرش‬
‫بریں کی سیر سے' کسی طرح کم نہیں۔ اس میں کوئی بات‬

‫تھی' تب ہی تو صوفی ساحر بے اختیار کہہ اٹھا۔‬

‫مدینے سے نجف آنے کا منظر‬
‫ایک منظر تھا‬
‫'وہ منظر‬

‫آسمان کی آنکھ نے محفوظ کر رکھا ہے‬

‫بات یہاں تک ہی محدود نہیں‪:‬‬

‫اور اب تک اسی منظر کو‬
‫دامن میں سمو لینے پہ نازاں ہے‬

‫غور فرمائیں صوفی ساحر کیا کہہ رہے ہیں‬

‫بصیرت اور بصارت جو کہ چشم فلک میں‬
‫اب تلک باقی ہے‬

‫وہ ایسے مناظر کی بقا کے رنگ اور خوش بو سے‬
‫زندہ ہے‬

‫ہر چیز' زمان ومکان کی قید میں ہے۔ لفظ مناظر استعمال‬
‫کیا گیا ہے' جو مرکزے میں رہتے' خوش بو کی مرکزے‬
‫سے باہر کی مہاجرتوں کو' واضح کرتا ہے۔ یہ امر بلاشبہ‬
‫خوش بو کو لمحوں اور جگہوں کی گرفت سے باہر کا قرار‬

‫دیتا ہے۔‬

‫صوفی ساحر نے خوش بو' اس سفر کے طور کو' فقط چند‬
‫لفظوں میں بیان کرکے' اپنے سوچ کی فصاحت و بلاغت‬

‫کا' قابل تحسین ثبوت فراہم کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں‪:‬‬

‫وہ منظر ایسا منظر تھا‬
‫کہ اس جیسا کوئی منظر‬
‫ازل کے روز سے لے کر‬
‫فلک کی چشم آثار نے‬

‫اب تک نہیں دیکھا‬

‫بےشک' بےشک' بےشک نہیں دیکھا ہو گا۔‬
‫کیوں‬

‫صوفی ساحر نے اس کا جواب بھی پیش کیا ہے۔‬

‫علی مشکل کشا‬
‫اس شہر خوش آثار کی مٹی میں‬

‫خوش بو بو رہے تھے‬
‫تاابد یہ سارے زمانے‬
‫اس کی خوش بو سے مہک اٹھیں‬

‫صیغہ یہ کا استعمال ہوا ہے' وہ کی بات' اس کے بعد کی‬
‫ہے۔ ہر وہ جو یہ کی حدود سے باہر ہوگیا' وہ اس کو‬
‫محسوس کرتا ہو گا۔ مٹی میں' مٹی ہوا یا میں ناہیں سبھ‬
‫توں کے مقام پر کھڑا ہو گیا۔ یہ بلال سے سرمد تک'‬
‫باقاعدہ ایک سلسلہ ہے۔ علاوہ ازیں وہ کے احوال بھی اس‬

‫نظم میں موجود ہیں۔‬

‫خوش بو کا ربط' مدینے سے اور مدینے سے نجف سے‬
‫کبھی تمام نہیں ہوا۔ وہ‬

‫مدینے آتی جاتی ہے‬

‫خوش بو کا جہاں کوئی وطن نہیں' وہاں تمیز و امتیاز سے‬
‫بھی بلاتر ہوتی ہے۔ بیمار اور غلازمت سے ماری ذہنیتیں'‬
‫اس کے ہونے کی جانکاری سے' معذور رہتی ہیں۔ ابولعب‬
‫اور سیدنا حمزہ' ایک ہی دھرتی سے متعلق تھے۔ ابولعب‬
‫کی کفری نزلے میں غرق قوت شامہ نے' اس خوش بو‬
‫کے ذائقے کو محسوس تک نہ کیا' جب کہ سیدنا حمزہ کی‬
‫قوت شامہ نے' محسوس بھی کیا اور اسے ہضم بھی کیا۔‬

‫سیدنا بلال کے فکری اور قلبی ہاضمے ہی کو لے لیں'‬
‫خلیفہءوقت تعارف کے دوران' سیدنا کا سابقہ استعمال میں‬
‫لاتے ہیں اور یہ کوئی ایسا معمولی اعزاز نہ تھا۔ اپنی اصل‬

‫میں' یہ اس خوش بو کا تعارف تھا' جسے باظرف ہی‬
‫محسوس کر سکتے ہیں۔‬

‫مدینے سے نجف آنے والی خوش بو کا سفر' محدود نہ‬
‫رہا۔ اس نے نجف سے بصرے کا رخ کیا۔ وہاں علی مشکل‬

‫کشا' یہاں حسن بصری کے دل آنگن کا گہنہ بنی۔‬

‫اپنی سرشت میں یہ خوش بو' سیمابی عناصر رکھتی تھی'‬
‫تب ہی تو یہاں محبت کے ابدی چراغ جلا کر' اجمیر کا رخ‬
‫اختیار کیا۔ اس ذیل میں' سرچشمہءخوش بو کے اس ارشاد‬
‫گرامی کو' نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں ہند سے'‬
‫ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ اس دھرتی نے' جہاں آپ کی لائق عزت‬
‫و احترام آل اولاد کو پناہ دینے کا شرف حاصل کیا' وہاں‬

‫مقامیوں کی روحیوں کو بھی معطر کیا۔ یہاں آ کر'‬
‫خواجہءاجمیر کے حجرے میں مراقب ہو گئی۔ تاہم‬

‫وہ خوش بو‬
‫موسموں کے ان گنت رنگوں میں‬

‫گھل مل کر‬
‫کرامت کا لبادہ اوڑھ کر‬

‫بیٹھی ہوئی تھی‬
‫اور زمانے‬
‫ہاتھ باندھے‬

‫اس کے آگے دھیان موسم میں گم تھے‬

‫خوش بو کی یہ گیتا‬

‫نئے اسلوب میں ڈھل کر‬
‫ابد کے طاق پر رکھے دیے کو‬

‫آگہی کے نور سے‬

‫ایسا بڑھاوا دے رہی تھی‬
‫جو‬

‫خیال و خواب اور اس کی طلسماتی فضا کا‬
‫استعارہ تھے‬

‫خواجہءاجمیر نے اس خوش بو کی گرہ کشائی کچھ یوں‬
‫کی۔‬

‫شاہ است حسین پادشاہ است حسین‬
‫دین است حسین دین پناہ است حسین‬

‫سر داد نہ داد دست در دست یزید‬
‫حقا کہ بنائے لا الہ است حسین‬

‫یہ کلام اس امر کی تصدیق کر رہا ہے کہ۔۔۔۔۔ میں ناہیں سبھ‬
‫توں ۔۔۔۔۔۔ کا نشہ' جان سے گزر جاتا ہے اور ۔۔۔۔۔ میں ناہیں‬
‫سبھ توں ۔۔۔۔۔۔ کے کلمے پر' امرتا کی مہر ثبت کر دیتا ہے۔‬
‫دوسرا خوش بو اور بدبو کا' کسی حوالہ سے اور زمان‬
‫مکان کے کسی موڑ پر' سنگم ممکن ہی نہیں۔ ابراہیم ہو کہ‬
‫سقراط' حسین ہو کہ منصور میں' میں ہوتے تو جان ایسی‬

‫پیاری چیز کی' پرواہ ضرور کرتے۔ ابن مریم آگہی کا‬
‫سمندر تھے' میں میں ہوتے تو صلیب تک آنے کی نوبت‬
‫ہی نہ آتی۔ الله نے ابراہیم اور ابن مریم کو بچا لیا' اس سے‬

‫بالکل الگ بات ہے۔‬

‫امیر خسرو نے اس خوش بو کے ایک شیڈ کی یوں‬
‫نقشاکشی کی ہے۔‬

‫ابتدائیہ‬
‫نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم‬
‫بہرسو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم‬

‫انتہائیہ‬
‫خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو‬
‫محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم‬

‫مدینے سے چلی خوش بو کے لوگ' یوں ہی گرویدہ نہیں‬
‫ہوئے۔ اس لامکانی خوش بو میں' کوئی بات تو ہے۔ ابراہیم‬

‫الله کے خلیل تھے' نبوت گرہ میں تھی۔ حسین امام اور‬
‫خوش بو کے نواسے تھے۔ سرمد و منصور کیا تھے' جو‬
‫مدینے سے چلی خوش بو پر جان سے بھی بالاتر ہو گیے۔‬
‫صاف سی بات ہے' میں کے دائرہ ہی میں نہ رہے تھے۔‬
‫انہیں الله کے احسان سے' مدینے سے آئی خوش بو نے'‬

‫میں سے مکتی دلا دی تھی۔‬

‫اس خوش کی راہ میں' ان گنت غلاظتیں آئیں۔ ان کا نام و‬
‫نشان مٹ گیا۔ کچھ اب بھی' برے ناموں سے یاد کی جاتی‬

‫ہیں۔ خوش بو اپنی اصل ہیئت و اثرپذیری کے ساتھ باقی‬
‫رہی۔ وہ تو' باقی رہنے کے لیے ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ‬
‫اجمیر کو مہکاتی ہوئی' دلی بڑھ گئی۔ قطب الدین کے سینہ‬

‫میں اقامت پذیر ہوئی۔‬
‫قطب الدین اس خوش بو کے فیض سے' محبت کی علامت‬

‫بنے۔‬

‫دہلی کی رونق اس سے قائم تھی‬

‫بےشک'‬

‫وہ دل کا استعارہ تھا‬
‫کہانی کے مناظر‬

‫جو کہ دل کے استعارے کی زمین میں‬
‫یا کہ دل کا استعارہ‬

‫اس کہانی کے مناظر اوڑھ کر‬
‫چپ چاپ بیٹھا تھا‬

‫خوش بو کو' محو سفر رہنا تھا اور وہ محو سفر رہی۔ دہلی‬
‫سے ہانسی اور اجودھن کی طرف گئی۔‬

‫یہاں اس نے‬

‫حسن معنی کی ردائیں اوڑھیں۔‬

‫قطب الدین عموم میں کب رہے تھے۔ تب ہی تو‬

‫زمانہ ہاتھ باندھے‬
‫اس کے چہرے کی زیارت میں مگن تھا‬

‫بات یہاں تک محدود نہ تھی۔ نظام الدین ہاں نظام الدین‬

‫اس کی چاکری میں ایستادہ تھے‬

‫نظام الدین اس خوش بو کی برکت سے‬

‫دہلی میں محبت کی علامت تھے‬

‫وہ ایسا صاحب دل تھا‬
‫کہ اس کے دل میں‬
‫دہلی شہر کے سارے مکیں آباد تھے‬
‫ایسے کہ جیسے پھول کے آنگن میں‬
‫خوش بو رقص کرتی تھے‬

‫یہ ہی نہیں حضرت نظام الدین ۔۔۔۔۔۔'‬

‫حسن اور خسرو شریں بیاں کا مرشد کامل‬

‫دہلی مدینے سے آئی خوش بو کے حوالہ سے' کوئی عام‬
‫نگر نہ تھا۔ یہاں نصیرالدین بھی' اس خوش بو کی برکت‬

‫تقسیم کر رہے تھے۔ وہ ہی نصرالدین‬

‫اس کی خوش کلامی کے سبھی موسم‬
‫ابد آثار تھے اپنے تناظر میں‬
‫کمال الدین علامہ بھی‬

‫اس کی ریزہ چینی میں بہت خوش تھے‬

‫اس خوش بو نے' گجرات کا بھی رخ کیا اور حضرت سراج‬
‫الدین کے ہاں اپنا ڈیرہ ڈالا۔ اور‬

‫صدیوں تلک کچے سے حجرے کے کسی گوشے میں‬
‫وہ چلہ کشی میں محو رہتی تھی‬

‫گجرات سے پھر مدینے اور وہاں کتنے ہی برسوں تک‬
‫طواف شہر خوش آثار میں رقصاں رہی‬
‫کہ پھر فرمان اس کے کوچ کا آیا‬
‫کہ اب جاؤ جہاں آباد دہلی میں رہو‬
‫خلق خدا کے دکھ سمٹو تم‬

‫جہاں آباد میں' مدینے کی خوش بو نے' شہ کلیم الله کے‬
‫سینے کو مہکایا۔ جہاں آباد کے عام و خاص نے' اس کی‬
‫روح خیز توانائی سے بسات بھر' استفادہ کیا۔ یہاں تک کہ‬

‫شہ دہلی بھی اس خوش بو میں رقصاں رہا‬

‫وجے پورمیں ضیاءالدین اور بریلی میں خواجہ نیاز احمد‬
‫اس کی سحرکاری سے استفادہ کرتے رہے۔ پنجاب آئی' تو‬

‫یہاں بھی دھیان و گیان کے سلسلے چل نکلے۔ مہاراں‬
‫میں' خواجہ نور محمد کے باطن باصفا کو شگفتگی سے‬
‫سرفراز کیا۔ یہ دیس عموم میں نہ رہا۔ مہاراں وہ نگر ہے‬

‫جہاں‬

‫'چاند‬
‫راتوں میں اداسی اور خاموشی کی بکل مار کر آتا ہے‬

‫اور اس کے گلی کوچوں میں‬
‫خوش بو اپنے دامن میں سمو کر‬

‫رقص کرتا ہے‬
‫دھمالیں ڈالتا ہے‬
‫اور کبھی انوار کے ہالے بناتا ہے‬

‫کبھی وہ‬
‫خواجہ نور محمد کے حریم ناز میں‬

‫دھونی رماتا ہے‬

‫عجب حسن ادارت سے‬
‫قدم بوسی کی خوش بو‬
‫اپنے دامن میں سمو لیتا ہے‬
‫اور پھر موسموں کو دان کرتا ہے‬

‫تونسہ' بےشک بڑا ہی کمال نگر ہے۔ خوش بو بھلا اسے‬
‫کیسے نظرانداز کر سکتی تھی۔ یہاں‬

‫اجمیر' دہلی اور اجودھن کے سبھی موسم‬
‫خیال و خواب کے رنگوں کی تجسیمی فضا میں‬

‫ڈھل گئے ہیں‬
‫اور وہ خوش آثار بستی ہے‬
‫کہ جس کے سب گلی کوچے‬
‫مہاراں شہر کی مہکار کی‬
‫ایسی علامت بن گئے ہیں‬
‫جو کہ اپنی اک کہانی لکھ رہی ہے‬

‫تونسہ کو' خوش بو کے پاریکھ' حضرت شاہ سلیمان کی‬
‫میزبانی کا شرف حاصل ہے اور یہ کوئی معمولی اعزاز نہ‬

‫تھا۔ حضرت شاہ سلیمان کے قدم لینے کی برکت سے‬
‫تونسہ کو‬

‫ثریا تک رسائی ملی‬

‫تونسہ وہ خطہء کمال ہے‬
‫جہاں طاق ابد بر خواجگان چشت نے‬

‫اپنا چراغ جاوداں روشن کیا‬
‫یہ چراغ جاوداں صدیوں سے‬
‫اک ایسی کہانی لکھ رہا ہے‬
‫اب جسے وہ جاودانی لکھ رہا ہے‬

‫نور کی خوش بو سے‬
‫احساس کے رنگوں کے موسم میں‬

‫خوش کے انتخاب میں گولڑہ بھی تھا۔ گولڑہ معمولی جگہ‬
‫نہ رہی۔ گولڑہ‬

‫محبت کی علامت ہے'‬
‫وہ خوش بو کا نگر ہے‬
‫اور خواب و خیال کے موسم‬
‫اسی شہر محبت کی ہواؤں سے معطر ہیں‬
‫اور اس شہر میں محبت رقص کرتی ہے‬

‫گستاخ اکھیاں‬ ‫کتھے مہرعلی کتھے تیری ثنا‬

‫کتھے جا لڑیاں نے‬

‫یہ یوں ہی نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔ سفر کرتی اور وراثت میں ملی‬

‫خوش بو نے' اثرات تو مرتب کرنا ہی تھے۔ یہ نسلوں کے‬
‫امین اثرات' ماضی سے حال اور حال سے آتے کل کو' ترکہ‬
‫میں مل رہے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ سلسلہ' تاابد جاری رہنے کے لیے‬

‫ہے۔۔۔۔۔۔ ہاں جی یہ معاملہ ازل سے ابد تک کا ہے۔‬

‫عشق کی خوش بو کا سفر' تاابد جاری رہنا ہے۔ رکنا'‬
‫سستانا یا محض خانہ پری' اس کے مذہب میں نہیں۔ ان‬
‫میں سے کوئی عنصر' کہیں نظر آئے' تو اسے عشق کا نام‬
‫نہیں دیا جا سکتا۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا علاقہ رہا ہو‬
‫گا' جہاں یہ نہ گئی ہو گی' نصیبے والوں نے' اس خوش بو‬
‫سے' اپنا کھیسہ بھر لیا۔ بدنصیب اپنی کم ظرفی کے سبب'‬

‫محروم رہے۔‬

‫قدرت کا احسان دیکھیئے کہ یہ خوش بو' صوفی ساحر کی‬
‫روح میں حلول کر گئی' تا کہ دنیا بھر کے' آگہی کے‬

‫مشتاق' سچائی کے قدم کے ساتھ قدم ملائیں اور آگہی کے‬
‫حق سچ کا سونا چاندی نکال کر' آتی نسلوں کوہ بےکراں‬
‫کو ورثہ میں پیش کر سکیں۔ یہ سب' گزرتے آج کی بڑی‬
‫معتبر شہادت ہو گی۔ قدرت چناؤ میں غلطی نہیں کرتی۔‬

‫صوفی ساحر' تول میں بےانصافی نہیں کر سکتا۔ قدرت‬
‫بھی کرنے نہیں دے گی۔ الله اپنے بندوں سے' کام لینا خوب‬

‫جانتا ہے۔ پھر صوفی ساحر تو' مدینے کی خوش بو کا‬

‫متوالا ہے۔ صوفی ساحر کے توسط سے' خوش بو کا سفر‬
‫جاری رہے گا۔ یہ آتی نسلوں تک کا سفر ہے' اسے ہر حال‬
‫میں جاری رہنا ہے۔۔۔۔۔۔ ہاں ہر حال میں' ہر نگر' ہر ڈگر اور‬
‫ہر پگ سے' اسے گزرنا ہے۔ ہر نگر' ہر ڈگر اور ہر پگ'‬

‫اس کی حدود میں آتی ہے۔‬

‫صوفی ساحر کے سینے میں' آباد مدینے کی خوش بو کو‬
‫محسوس کرنے والے' بلند نصیب اور اس سے استفادہ‬

‫کرنے والے' آتے کل کے امین ہیں۔‬

‫الله اکبر‬
‫آج اور اب ہی نہیں' ان کا خوش بو سے رشتہ' بچپن سے‬

‫چلا آتا ہے۔‬

‫خوش بو نے‬
‫روتے ہوئے بچے کے سر پر ہاتھ رکھا تھا‬

‫عجب حسن محبت سے‬
‫وہ بچہ آج بھی‬

‫اس لمس کو محسوس کرتا ہے‬

‫آج بھی ‪ .........‬اپنی تفہیمی حقیقت میں' خوش بو کے‬
‫سفر کے تسلسل کی علامت ہے۔‬

‫‪-3-‬‬

‫امرجاتی تعارف‬

‫مدینہ‬

‫مدینہ ایک حقیقت ہے‬
‫مدینہ نور و نکہت کا خزینہ ہے‬
‫مدینہ رحمتہ للعالمینی کی علامت ہے‬
‫مدینہ روشنی اور چاندنی کا استعارہ ہے‬
‫مدینہ آسماں ہے ایسی دھرتی کا‬

‫جسے دنیا ازل سے‬
‫آسمان کا نام دیتی آ رہی ہے‬

‫‪.........‬‬
‫مدینہ ایسی بستی ہے‬
‫کہ جس کے سامنے سارے زمانے‬
‫ہاتھ باندھے سرنگوں ہیں‬
‫اس دیار نور کے آگے‬

‫یہ ساتوں آسماں‬

‫اپنی غلامی کے مقر ہیں‬
‫اس شہر تمنا کا طواف جاوداں‬

‫ان کا مقدر ہے‬
‫یہ فصیل وقت سے آگے نکل کر‬

‫واژگوں کی صورت بنا کر‬
‫اب سلامی دے رہے ہیں‬

‫‪.......................‬‬

‫مدینہ ایسی بستی ہے‬
‫جہاں خوش بو' صبا اور روشنی‬

‫رک رک کے چلتی ہے‬
‫عجب حسن عقیدت سے‬
‫جہاں خوش بو' خواب و خیال کے رنگوں کی‬
‫تجسیمی ردائیں اوڑھ لیتی ہے‬

‫ہوا خاموشی سے‬
‫اس شہر کے گلی کوچوں میں پھرتی ہے‬

‫زیارت کرنے آتی ہے‬
‫زمیں ہو' آسماں ہو' ہوا ہو' یا کہانی ہو‬

‫کہانی کی طلسماتی فضا ہو'‬
‫یا سفر ہو' یا سفر کے موسموں کی خوش گمانی ہو‬

‫وہ خوش بو ہو کہ خوش بو کی کہانی ہو‬
‫وہ جو کچھ ہو محبت کی زبانی ہو‬

‫مدینے کی فضا اس کو سدا آباد رکھتی ہے‬
‫ہمیشہ شاد رکھتی ہے‬
‫‪.............‬‬

‫تشبیہات‬

‫مدینہ'‬
‫آسماں ہے ایسی دھرتی کا جسے دنیا ازل سے آسمان کا‬

‫نام دیتی آ رہی ہے‬
‫ساتوں آسماں واژگوں کی صورت بنا کر اب سلامی دے‬

‫رہے ہیں‬
‫جہاں خوش بو' خواب و خیال کے رنگوں کی تجسیمی‬

‫ردائیں اوڑھ لیتی ہے‬
‫‪.................‬‬

‫طاقت کے حضور'کم زور چشم فلک و زمانہ نے سر نگوں‬
‫ہوتے دیکھے ہیں۔ اس میں قلبی ہاں' ضروری نہیں ہوتی۔‬

‫محبت' قلبی ہاں کی متقاضی رہتی ہے۔ اس میں زور‬
‫زبردستی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ مدینے کی خوش بو'‬
‫محبت سے منسلک ہے۔ یہ انسلاک ہی اسے دائمیت سے‬

‫سرفراز کرتا ہے‬
‫اور پھر‬

‫جس کے سامنے سارے زمانے ہاتھ باندھے سرنگوں ہیں‬

‫‪.................‬‬

‫تخصیص‬

‫سبز گنبد مکین‬
‫دیار نور‬

‫رحمتہ للعالمینی کی علامت‬
‫شہر تمنا‬

‫نور و نکہت‬

‫مدینہ سے متعلقات کے حوالہ سے مرکبات ملاحظہ ہوں‪:‬‬

‫تجسیمی ردائیں‬
‫چاندنی کا استعارہ‬

‫حسن عقیدت‬
‫خواب و خیال کے رنگ‬

‫ساتوں آسماں‬
‫صبا اور روشنی‬
‫طلسماتی فضا‬
‫طواف جاوداں‬

‫فصیل وقت‬
‫محبت کی زبانی‬
‫موسموں کی خوش گمانی‬

‫‪..............‬‬

‫‪4‬‬

‫نجف ہو کہ بصرہ یا کوئی اور جگہ' مدینے سے آئی خوش‬
‫بو کے سبب' معتبر اور محترم بن جاتی ہے۔ اس کے بہت‬

‫سے تخصیصی حوالے' وجود میں آ جاتے ہیں۔ صوفی‬
‫اس کی صورت ملاحظہ ہو‪: .........‬ساحر کے ہاں‬

‫نجف‬

‫شہر محبت‬

‫تخصیص‬

‫علی مشکل کشا‬
‫اس شہر خوش آثار کی مٹی میں‬

‫خوش بو بو رہے تھے‬

‫اجمیر‬

‫زمانے ہاتھ باندھے اس کے آگے‬
‫دھیان کے موسم میں گم تھے‬
‫تخصیص‬
‫خواجہءاجمیر‬
‫دہلی‬

‫تخصیص‬
‫قطب الدین‬

‫فریدالدین کے مرشد کا حجرہ‬
‫احمد جام‬
‫نظام الدین‬
‫نصیرالدین‬
‫کمال الدین‬
‫ضیاءالدین‬

‫خواجہ نور محمد مہاروی‬
‫خواجہ نیاز احمد‬
‫قمرالدین منت‬
‫نظام الملک‬

‫اجودھن‬

‫تعارف‬

‫اک چھوٹی سی بستی‬
‫پھیلاؤ میں اس کے زمانے آ گئے ہیں‬

‫وہ بستی اب محبت کی علامت ہے‬

‫تخصیص‬
‫فریدالدین‬
‫گلی کوچوں میں خوش بو رقص کرتی پھر رہی تھی‬
‫زمانہ ہاتھ باندھے اس کے چہرے کی زیارت میں مگن تھا‬
‫گجرات‬

‫تخصیص‬
‫سراج الدین‬
‫جہاں آباد‬

‫تخصیص‬

‫شہ کلیم الله‬
‫محبت کی خوش بو‬
‫شہ دہلی بھی اس خوش بو میں قصاں تھا‬

‫مہاراں‬

‫خواجہ نور محمد مہاروی‬

‫تخصیص‬

‫یہ وہ بستی ہے‬
‫جہاں‬

‫نور کی برسات ہوتی تھی‬
‫ہوتی ہے‬

‫علم کی سوغات بنتی ہے‬
‫جس کو آسماں جھک کے‬

‫سلامی دینے آتا ہے‬
‫تونسہ‬

‫غوث زماں شاہ سلیماں‬
‫تخصیص‬

‫جہاں اجمیر' دہلی اور اجودھن کے سبھی موسم‬
‫خواب و خیال کے رنگوں کی تجسیمی فضا میں ڈھل گئے‬

‫ہیں‬
‫گولڑہ‬






Click to View FlipBook Version