The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2016-02-27 13:05:51

s-sarmast_2

s-sarmast_2

‫حضرت سائیں سچل سر مست‬
‫کے پنجابی کلام کا‬

‫اردو کے تناظر میں مطالعہ‬

‫برصغیر کے عظیم ہفت زبان شاعر' عبد الوہاب‬
‫المعروف سچل سرمست ‪ 1739‬میں' خیر پور کے‬
‫گاؤں درازا میں پیدا ہوئے۔ سچل' سچے یا سچ بولنے‬
‫والے کو کہا جاتا ہے' جب کہ سرمست' مستی اور‬
‫جذب کی حالت والے کو کہا جاتا ہے۔ وہ علمی ادبی‬
‫اور تصوف کی دنیا میں' اپنے للمی اور اختیاری نام‬
‫سچل سرمست سے ہی معروف ہیں۔ لڑکپن میں ہی' ان‬
‫کے والد انتمال کر گیے۔ دیکھ بھال کا فریضہ' ان کے‬
‫چچا نے انجام دیا' جو بعد میں ان کے روحانی پیشوا‬
‫ٹھہرے۔ ان کی شادی' ان کی کزن سے ہوئی' جو‬

‫صرف دو سال ساتھ نبھا کر الله کو پیاری ہو گیئں۔ اس‬
‫کے بعد انہوں نے شادی نہ کی۔‬

‫بچپن میں' انہیں حضرت شاہ عبد الطیف بھٹائی اور‬
‫کئی دوسرے صوفی شعرا سے' ملنے کا اتفاق ہوا۔‬
‫انہوں نے پہلی نظر میں' حضرت سچل سرمست کو‬
‫پہچان لیا اور کہا' یہ لڑکا اپنا کام مکمل کرے گا۔ آتے‬
‫ولتوں میں یہ کہا سچ ثابت ہوا۔ حضرت سچل سرمست'‬
‫اپنے گاؤں سے کبھی کہیں نہیں گیے' لیکن ان کا‬
‫سچائی اور روحانیت کا پیغام' خوش بو کی طرح' جگہ‬
‫جگہ پہنچا اور اپنے خوش گوار اثرات چھوڑتا رہا۔‬

‫حضرت سچل سرمست نے' بڑی سادہ زندگی گزاری۔‬
‫سادہ عادات کے مالک تھے۔ کبھی پرآسائش بستر پر‬
‫استراحت نہیں فرمائی۔ خوراک بھی' عام سی لیتے‬

‫تھے۔ پرتکلف غذا' ان کے لئے کوئی معنویت نہ‬
‫رکھتی تھی۔ غذا میں سوپ اور دہی پسند فرماتے‬
‫تھے۔ وہ موسیمی کے دلدادہ تھے۔ یہ ہی وجہ ہے' کہ‬
‫ان کے کلام پر موسیمیت کا عنصر غالب ہے۔ انہوں‬
‫نے ‪ 14‬رمضان المبارک ‪ 1829‬میں' نوے برس کی‬

‫عمر میں انتمال فرمایا۔‬

‫وہ سات زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ ان کا کلام‬
‫اردو' بلوچی' پنجابی' سرائیکی' سندھی' عربی اور‬
‫فارسی میں ملتا ہے۔ ان کا کلام' تصوف کے عناصر‬
‫سے لبریز ہے۔ اس تحریر میں ان کے پنجابی کلام کو'‬
‫اردو کے لسانیاتی تناظر میں دیکھنے کی ناچیز سی‬

‫سعی کی گئی ہے۔ ان کے کلام میں' چاشنی اور‬
‫شگفتگی کے ساتھ ساتھ شیفتگی' ورافتگی اور والہانہ‬

‫پایا جاتا ہے۔ عشك خدا کے ساتھ ساتھ' مرشد سے‬
‫محبت عروج پر نظر آتی ہے۔ ان کا کلام روح کو تازگی‬

‫اور روحانی حظ سے سرفراز کرتا ہے۔‬

‫حضرت سچل سرمست کے پنجابی کا اردو کے تناظر‬
‫میں‬

‫لسانیاتی مطالعہ‬

‫ان کے ہاں' بہت سے ایسے الفاظ استعمال میں آئے‬
‫ہیں' جو اردو میں اسی تلفظ اور معنوں کے ساتھ'‬

‫استعمال ہوتے آرہے ہیں۔ مثلا‬

‫مونہہ وچ دو مہتاب نی روشن' یا وت نور کٹوریاں‬
‫خونی خون کرینداں سچل' تاں بھی سدا سگوریاں‬

‫‪.........‬‬
‫حاکم سخت' حکومت والیاں' سائیں آپ سنواریاں‬

‫‪........‬‬
‫سوہنا یار خراماں آیا' ناز غرور غماز کنوں‬

‫‪........‬‬
‫ویکھ عشاق بھی ولت اوہیں دم' سر دی چاون طمع‬

‫ان کی پنجابی شاعری کے بہت سے مصرعے' اردو‬
‫کے لریب ہیں۔ معمولی سی تبدیلی سے' وہ اردو کے‬

‫ذخیرہءشعر میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔ باطور‬
‫نمونہ یہ مصرعے ملاحظہ ہوں۔‬

‫میں طالب زہد نہ تموی دا' ہک منگاں محبت مستی‬
‫‪........‬‬

‫لعل لباں یالوت رمانی' عالی منصب والے‬
‫‪........‬‬

‫استمبال تے ماضی کیا ہے' حال ڈس دل خستاں نوں‬

‫مہاجر الفاظ کا اشتراک ہی نہیں' خالص اردو کے الفاظ‬

‫بھی' ان کی پنجابی شاعری میں' پڑھنے کو ملتے ہیں۔‬
‫مثلا‬

‫استمبال بھی چھوڑ ماضی کوں' سچل منگ سرمستی‬
‫عشك دی آیت پڑھی عاشماں' حسن والے ابیاض کنوں‬

‫موتی مول مرصع ناہیں' سو چٹسالی دے نمطے‬
‫حاکم سخت' حکومت والیاں' سائیں آپ سنواریاں‬

‫مترادف اور ہم معنی لفظوں کا استعمال ملاحظہ ہو۔ یہ‬
‫لفظ' اردو کے لیے' غیرمانوس نہیں ہیں۔‬

‫لا نفی دا کلمہ سانوں' مرشدی آپ پڑھایا‬
‫‪........‬‬

‫صورت نال ستارے چمکن' رنگ کریندے مکھ دے‬

‫انہوں نے' پنجابی کو نئے مرکبات دیے ہیں اور یہ‬
‫مرکبات' اردو والوں کے لیے بھی' غیرمانوس یا نالابل‬

‫فہم نہیں ہیں۔ مثلا‬

‫جھلک جھلک رخسار' یاد گزشتاں' خام خیال' تیر‬
‫بارانی' میر امیراں' نور تجلی' خوش خورشیدی'‬

‫صحیح صحیفہ' رنگ ربوبی‬

‫لوافی میں' اردو میں استعمال ہونے والے الفاظ‬
‫ملاحظہ ہوں۔‬

‫انگن اساڈے آویں پیارا' نہ تاں مراں مشتاق‬
‫اندر توں ہیں' باہر توں ہیں' سپہریں ہر پوشاک‬
‫سچو ہے تیڈے ڈیکھن کیتے' اکھاں کوں اشتیاق‬

‫‪........‬‬

‫موتی مونہہ اگوں شرمندے' ہیرے تھئے حیرانی‬
‫جھلک جھلک رخسار سوہنے دا' پرتو نور نشانی‬

‫سچل ویکھ تجلا تنھں دا' ہوئی دل دیوانی‬

‫‪........‬‬
‫مارن ڈنگ نسنگ بلائیں' درد منداں کوں دم دم‬
‫چشماں لتل کریندیاں عاشك' پئیپنبیاں دی رم جم‬
‫سچل سو سکندر جیئے' بانہاں بدھے جم جم‬

‫‪........‬‬
‫ڈٹھا میں رخسار سوہنے دا' خوش خورشیدی خوبی‬

‫اکھاں لاتل تھون لہاری' مشعل مونہہ محبوبی‬
‫عشالاں کوں آ کرے اسیری' عشك والی اسلوبی‬

‫نہ مخلوق اکھیجے سچل' سارا رنگ ربوبی‬

‫صنعت تضاد میں استعمال ہونے والے الفاظ' اردو میں‬
‫مستعمل ہیں۔ مثلا‬

‫اندر توں ہیں' باہر توں ہیں' سپہریں ہر پوشاک‬
‫‪.........‬‬

‫سچل اوہ بادشاہ گدا تے میر امیراں موہن‬

‫تکرار لفظی میں بھی' اردو اور پنجابی کے مشترک‬
‫مستعل الفاظ سے' کام لیتے ہیں۔ مثلا‬

‫لطرے لطرے آب عرق دے' یار دے مونہہ تے سوہن‬
‫‪.........‬‬

‫غیر دے خام خیال کنوں ہن' ہادی سانوں توبہ توبہ‬

‫آوازیں گرانا اور بڑھانا زبانوں میں عام سی بات ہے۔‬
‫یہ چلن پنجابی میں بھی ملتا ہے۔‬

‫مانگ سے منگ‪ :‬استمبال بھی چھوڑ ماضی کوں' سچل‬
‫منگ سرمستی‬

‫چند تشبیہات ملاحظہ ہوں۔ اردو سے فطری مماثلت‬
‫موجود ہے۔‬

‫مژگاں تیر بارانی' کردیاں ابرو کیش کمانی‬

‫مژگاں تیر بارانی' کریں ابرو کیش کمانی‬
‫‪........‬‬

‫حسن دی نور تجلی سچل' لعل یالوتی رخ تے‬

‫حسن کی نور تجلی سچل' لعل یالوتی رخ پر‬
‫‪........‬‬

‫مژگاں گزہن زور محب دیاں' ابرو کج کمانے‬

‫مژگاں گزہن زور محب دیاں' ابرو چھپا کمانے‬

‫اردو اور پنجابی کی مشترک اصطلاحات ملاحظہ‬
‫ملاحظہ ہوں۔‬

‫زاہد' عابد' ملاں' لاضی کر دے یاد گزشتاں نوں‬
‫‪.........‬‬

‫جمع الجمع کا بطور جمع استعمال دیکھیے۔‬
‫اسم اسما‬

‫اسما اسامی‬
‫‪........‬‬

‫عاشك عشاق‬
‫عشاق عشالاں‬

‫‪........‬‬
‫عاشك عشاق 'عاشماں'‬
‫عشك دی آیت پڑھی عاشماں' حسن والے ابیاض کنوں‬

‫عاشك عشاق‬
‫ویکھ عشاق بھی ولت اوہیں دم' سر دی چاون طمع‬

‫عشاق عشالاں‬
‫عشالاں کوں آ کرے اسیری' عشك والی اسلوبی‬

‫پنجابی کی تلمیحات اردو والوں کے لیے نئی نہیں۔ مثلا‬

‫سچل سو سکندر جیئے' بانہاں بدھے جم جم‬
‫‪........‬‬

‫مونہہ محبوب دا صحیح صحیفہ' کردے دور نواباں‬

‫متعلك الفاظ کا استعمال اردو کے عمومی چلن سے‬
‫مخلتف نہیں۔ مثلا‬

‫خوش ہوون خونریزی کولوں' چال ستم دی چلدے‬

‫چال' ستم' خونریزی‬
‫‪........‬‬

‫صورت نال ستارے چمکن' رنگ کریندے مکھ دے‬

‫صورت ‪ :‬رنگ‬
‫ستارے ‪ :‬چمکن‬
‫‪...................‬‬

‫حضرت سچل سرمست کا کچھ پنجابی کلام‬




















Click to View FlipBook Version