The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.
Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by , 2016-05-15 13:59:29

articles

articles

‫فہرست‬

‫دو لومی نظریہ اور اسلامی ونڈو‬
‫اپنے لدموں پر کھڑا ہونا پڑے گا‬
‫ہنر اور تجربے سے استفادہ ترلی کا وسیلہ ثابت ہو سکتا‬

‫ہے‬
‫یہ ظم کس کی گردن پر رکھا جائے گا؟‬

‫کیسی آزادی کہاں ہے آزادی؟‬
‫انسان کیڑے مکوڑے نہیں‬
‫زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں‬
‫من کا چوہا اور کل کلیان‬

‫دو لومی نظریہ اور اسلامی ونڈو‬

‫کمپیوٹر سے وابستہ لوگ اس امر سے خوب آگاہ ہوں گے‬
‫کہ جب سسٹم میں وائرس داخل ہو جاتا ہے تو وہ کمپیوٹر‬
‫کی مت مار دیتا ہے۔اچھا خاصا چلتا چلتا کمپیوٹر آسیب زدہ‬

‫ہو کر رہ جاتا ہے۔ بعض وائرس کمپیوٹر کی ؼیر طبعی‬
‫موت کا سبب بن جاتے ہیں۔ کچھ اسے موت کے گھاٹ نہیں‬
‫اتارتے لیکن دائمی فالج کا موجب بن جاتے ہیں۔ اچھا خاصا‬
‫مواد کھا پی جاتے ہیں۔ مواد کو دسویں جماعت کا ریاضی‬
‫بنا دیتے ہیں۔ دسویں جماعت کے ریاضی میں الجبرا بھی‬
‫شامل ہے اور یہ الجبرا جبر کے تمام رویوں اور رجحانات‬

‫پر استوار ہوتا ہے۔ ہنستا مسکراتا کھیلتا کودتا کمپیوٹر‬
‫نامراد وائرس کے باعت سکتے میں آ جاتاہے۔ گویا وائرس‬
‫کی بن بالائی مہمانی کچھ بھی گل کھلا سکتی ہے۔ یا یوں‬
‫کہہ وہ کچھ ہو سکتا ہے جس کا خواب بھی نہیں دیکھا گیا‬

‫ہوتا۔‬

‫وائرس مرتا نہیں مارتا ہےاور ہر حالت میں اپنی اصولی‬
‫عمر دبدبے اور پورے بھار سے پوری کرتا ہے۔ کوئی دوا‬
‫دارو ٹیکہ اس کا بال بیکا نہیں کر پاتا ہاں متاثرہ کی لوت‬
‫مدافعت میں اضافہ کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ‬

‫اس امر سے آگاہ نہیں ہیں کہ انٹی وائرس‘ وائرس کو‬
‫مارنےکے لیے فیڈ نہیں کیے جاتے۔ یہ وائرس سے پاک‬

‫سسٹم میں اس لیے فیڈ کیے جاتے ہیں کہ سسٹم میں‬

‫وائرس داخل نہ ہونے پائے۔ گویا انٹی وائرس کا اول تا آخر‬
‫ممصد یہ ہوتا ہے کہ وائرس کو سسٹم سے دور رکھا‬
‫جائے۔ دوسرا یہ سسٹم کی لوت مدافعت کی حفاظت کرتا‬

‫ہے۔ اس کی مثل ویکسین کی سی ہوتی ہے۔ عمومی زبان‬
‫میں اسے حفاظتی ٹیکے کا نام بھی دیا جاتا ہے۔‬

‫انٹی وائرس یا ویکسین‘ وائرس کے دخول سے پہلے کی‬
‫چیزیں ہیں۔ مختصر مختصر یوں کہہ لیں انٹی واءرس یا‬
‫ویکسین دراصل سسٹم کی حفاظت سے متعلك چیزیں ہیں۔‬
‫انھیں خطرے سے بچاؤ کا عمل کہا جا سکتا ہے۔ جیسے‬
‫مچھر سے بچنے کے لیے مچھر دانی کا استعمال کیا‬
‫جائے۔ ڈینگی سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کی‬
‫جائیں۔ ڈینگی حملے کی صورت میں فوری موت والع نہیں‬
‫ہوتی تو مدافعتی نظام کی طرؾ توجہ دی جائے۔ کسی‬
‫دوائی وؼیرہ سے وائرس نہیں مرے گا۔ متاثرہ کو پانی کی‬
‫بھرتی رکھیں۔ سیب کا خود جوس نکال کر پلائیں۔شہتوت‬

‫کے پتوں کو پانی میں ابال کر ٹھنڈا کرکے پلائیں۔‬

‫برصؽیر عرصہ دراز سے خارجی وائرس کی زد میں ہے۔‬

‫سکندر سے پہلے یہ یہاں سے بچے پکڑ کر لے جاتے اور‬
‫ان کی لربانی دیوتاؤں کے حضور نذ کر دیتے تھے۔ اس‬
‫سے پہلے یا بعد کے وائرس بڑے خطرناک تھے۔ کیا کچھ‬
‫کرتے تھے زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں۔ بہرطور یہ تو‬

‫طے ہے کہ وائرس سسٹم کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔‬

‫حفاظتی عمل اور مدافعتی لوت کے کامل صحت مند ہوتے‬
‫ہوئے جسم یعنی سسٹم کے اندر سے کوئی میر جعفر پیدا‬

‫ہو جاتا ہے جو داخلے کا رستہ بتا کر ہنستے بستے‬
‫کھیلتے کودتے نظام کو مٹی میں ملا دیتا ہے۔ اس کی مت‬
‫ماری جاتی ہے اور وہ یہ نہیں سمجھ پاتا کہ وہ اسی سسٹم‬
‫کا حصہ ہے۔ ہوتا تو وہ بھی وائرس ہے اس کے کام بھی‬
‫وائرسوں والے ہوتے ہیں لیکن ممامی سسٹم اسے اس کے‬
‫کاموں سمیت لبول چکا ہوتا ہے۔ گویا سسٹم اس وائرس کی‬
‫منفی فطرت کے باوجود اس سسٹم کا حصہ نہ ہوتے ہوئے‬

‫بھی سسٹم اسے اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ اس کے باعث‬
‫سسٹم میں سو طرح کی خرابیاں آتی رہتی ہیں لیکن سسٹم‬
‫کا مدافعتی نظام چلتا رہتا ہے۔ حالانکہ اس کا سسٹم میں‬

‫رہنا کسی بھی حوالہ سے ٹھیک نہیں ہوتا۔‬

‫کیا کیا جائے وائرس داخلی ہو یا خارجی‘ اس کا اس کی‬
‫طبعی عمر سے پہلے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ سسٹم کو اس‬

‫کی طبعی عمر تک برداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔ بس‬
‫کرنے کا کام یہ ہے کہ سسٹم کے مدافعتی نظام کو ڈولنے‬

‫نہ دیا جائے۔‬

‫چٹی چمڑی والا وائرس تو کل پرسوں سے تعلك رکھتا ہے‬
‫اور ہم اس کی تباہ کاری کے باعث بیمار جیون جی رہے‬
‫ہیں۔ اس وائرس نے کمال ہوشیاری سے تمسیم کے بہت‬
‫سارے دروازے کھول دئیے۔ کبھی زبان کو تمسیم کرکے‬
‫باہمی نفرتوں کو سسٹم کا حصہ بنایا۔ ‪ ١٩٠٥‬میں دو لومی‬
‫نظریے کوداخلی وائرس کے ذریعے عام کیا اور پھر اس‬
‫تماشے سے خوب لابھ اٹھایا۔ یہ کون سا ایسا نیا نظریہ‬
‫تھا۔ یہ نظریہ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ لوگوں نے اصل‬
‫مطب نہ سمجھا۔ لوگ یہ سمجھتے رہے کہ الگ مملکت‬
‫میں اپنے نظریاتی نظام کے تحت اصولی لانونی اورآئینی‬
‫زندگی بسر کریں گے۔ داخلی وائرس نے اس ذیل میں مٹھی‬
‫بند رکھی تاہم اس ذیل میں کوئی لرارداد بھی منظور نہ کی‬

‫اور ناہی کوئی لرارداد پیش ہوئی۔‬

‫اس سسٹم کو کبھی بھی اسلامی ونڈو نہیں دی گئی۔‬
‫جمہوریت کے حوالہ سے اسلامی ونڈو کرنے کی ضرورت‬

‫تھی۔ داخلی وائرس جو سسٹم پر ڈومینٹ رہا ہے اسے‬
‫اسلامی ونڈو کس طرح خوش آسکتی تھی یا خوش آسکتی‬
‫ہے۔ وائرس سسٹم کے لیے بہتری سوچے یہ کیسے اور‬

‫کیونکر ممکن ہے۔‬

‫ایک صاحب مرؼے کے ساتھ روٹی کھا رہے تھےیعنی‬
‫ایک لممہ خود لیتے دوسرا لممہ اپنے مرؼے کو پھینک‬
‫رہے تھے گو کہ وہ سائز اور حجم میں چھوٹا ہوتا تھا۔‬
‫کسی نے پوچھا میاں یہ کیا ر رہے ہو بولے ہم خاندانی‬
‫لوگ ہیں ہمیشہ مرؼے کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں۔ چٹی‬
‫چمڑی والا وائرس بڑا خاندانی ہے مرؼے کے ساتھ روٹی‬
‫کھاتا ہے۔ جو لوگ مرغ باز ہیں وہ اپنے مرؼے کی صحت‬

‫توانائی اور جوانی کا خیال رکھتے ہیں۔‬

‫سٹم کے ہر پرزے پر یہ واضع کرنے کی اشد ضرورت ہے‬
‫کہ وائرس دسترخوان اور شہوت کے حوالہ سے کبھی‬
‫کسی نظریے کا لائل نہیں رہا۔ مرؼا زمین پر رہتے ہوئے‬

‫خارجی وائرس کے لیے محترم اور معتبر رہتا ہے۔ وہ اس‬
‫کا جٹھکا اس ولت کرتا ہے جب مرؼا میدان کا نہیں رہتا۔‬
‫میدان کا مرؼا خاندانی لوگوں کے ساتھ ہی ناشتہ پانی کرتا‬

‫آیا ہے۔‬

‫رونا سکول کے گرنے کا نہیں اصل رونا تو ماسٹر کے بچ‬
‫جانے کا ہے۔ ماسٹر مائنڈ وائرس سے پہلے داخلی وائرس‬

‫کو نکال باہر کرنے کے لیے بڑا ہی موثر سافٹ وائر‬
‫دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ آتی نسلوں کو اس سے‬
‫بچانے کے لیے سماجیات کے ڈاکٹر لدیر سر جوڑ کر‬
‫سوچیں اور اس نوع کے سوفٹ وئر دریافت کرنے کی‬
‫کوشش کریں۔ ہاں اس کی کسی کو ہوا تک لگنے نہ دیں‬
‫سسٹم جب داخلی وائرس سے اور اچانک دھماکہ کردیں۔‬
‫آزاد ہو گیا تو خارجی وائرس سے بچنے کے لیے‘ ایک‬
‫کیا‘ ایک سو ایک انٹی وائرس دریافت ہو جائیں گے۔‬

‫اکتوبر ‪ ٢٠١٢‬کی بہترین ماہانہ تحریر کا بیج حاصل کرنے‬
‫والی تحریر‬

‫‪http://www.friendskorner.com/forum/showt‬‬
‫‪hread.php/295225-%D8%AF%D9%88-%D9%82‬‬
‫‪%D9%88%D9%85%DB%8C-%D9%86%D8%B8%‬‬
‫‪D8%B1%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D9%88%D‬‬
‫‪8%B1-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9‬‬
‫‪%85%DB%8C-%D9%88%D9%86%DA%88%D9%‬‬

‫‪88‬‬

‫اپنے لدموں پر کھڑا ہونا پڑے گا‬

‫کمزور طبمے ہمیشہ سے ورکنگ بیز سے بھی کمتر حیثیت‬
‫کے حامل رہے ہیں۔ شہد وہ مہیا کرتے ہیں لیکن لیڈر‬
‫پھنڈر بیز اور کوئین پھنڈر بی کا موجو لگا رہتا ہے۔‬

‫مصلحین اور انبیاء کرام توازن پیدا کرنے کے لیے سرتوڑ‬
‫کوششیں کرتے رہے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں‬

‫زیادہ تر کمزور طبمے ہی ان کے حامی ہوئے جبکہ لیڈر‬
‫پھنڈر بیز اور کوئین پھنڈر بی نے ان کی مخالفت کی۔ ان‬
‫کی جانیں تک لے لیں۔ مصلیحین اور انبیاء کرام کے پاس‬
‫کوئی فوج نہیں تھی اور ناہی انھوں نے حملہ میں کبھی‬

‫پہل کی۔‬

‫سمراط کوئی کون سا فوجیں ساتھ لیے پھرتا تھا۔ گلیوں‬
‫میں ننگے پاؤں چلتا پھرتا راستی کی باتیں کرتا تھا۔ لیڈر‬
‫پھنڈر بیز اور کوئین پھنڈر بی کا مسلہ یہ تھا کہ شہد دے‬
‫کر جوتے صاؾ کرنے والے ہاتھ سے نکلتے تھے۔ انہیں‬
‫اپنا ٹہر ٹپا ختم ہوتا نظر آتا تھا۔ راستی کیا ہے یا اس کی‬
‫افادیت سے نیل کنٹھ کو کوئی ؼرض نہیں ہوتی۔ وہ خوب‬

‫خوب جانتے تھے کہ وہ پھنڈر ہیں اور ان کا ٹہکا‬
‫مصلیحین اور انبیاء کرام کھوہ کھاتے ڈال رہے ہیں گویا وہ‬

‫آسمان سے زمین پر آ جائیں گے۔ ان کی اصلیت کا بالی‬
‫ماندہ کو بھی علم ہو جائے گا۔ اس ذیل میں وہ آخری حد‬
‫تک گیے ہیں۔ بےشمار بےگناہوں کے سر تن سے جدا‬
‫ہوتے رہے ہو رہے ہیں اور خدا معلوم یہ سلسلہ کب تک‬

‫جاری رہے گا۔‬

‫یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ رستہ موت کی طرؾ جاتا ہے۔‬
‫مخلصین مصلحین اور انبیاء اس راہ پر چلتے آئے ہیں زہر‬
‫ہو کہ صلیب یا پھر آگ اپنی معنویت میں صفر سے زیادہ‬
‫اہمیت کی حامل نہیں رہی۔ ہاں البتہ پانچوں انگلیاں برابر‬
‫نہیں ہوتیں جس دن یہ برابر ہو گئیں اس روز لیامت برپا‬
‫ہو جائے گی۔ لیڈر بیز میں کچھ شہد اگلتی ہیں۔ وہ بہکاوے‬
‫میں نہیں آتیں اور ناہی خط پھاڑنے کا جرم کرتی ہیں۔ الله‬
‫انہیں عزت اور شان سے نوازتا ہے۔ لیڈر پھنڈر بیز کے گن‬
‫گانے والا مورکھ بھی انہیں نظر انداز نہیں کر پاتا۔ الله اس‬
‫نوع کی لیڈر بیز کو امرتا سے سرفراز فرماتا ہے۔ گویا دنیا‬

‫اور آخرت کی سرفرازی ان کے حصہ میں آتی ہے۔‬

‫ہمارے ہاں بہت سووں میں سے یہ سرفرازی ؼلام بلور‬
‫کے ممدر کا حصہ بنی۔ اب سردار سلیم حیدر وزیر مملکت‬
‫کے نصیب میں یہ ٹرافی آئی ہے۔ انہوں نے کوئین پھنڈر‬
‫بی کا پتلا جلانے اور نعرہ بازی کے جرم کی پاداش میں‬
‫پارٹی کی طرؾ سے تادیبی کاروائی کی خبر سنائی گئی‬
‫ہے۔ سردار سلیم حیدر نے بھی موت سے نظریں ملاتے‬
‫ہوئے اپنے مولؾ اور کئے کو درست لرار دیا ہے۔ موت‬

‫آلا کریم (آپ کی خدمت میں ان حد درود و سلام) کی حرمت‬
‫کے سامنے کیا معنویت رکھتی ہے۔ان کی محبت میں ایسی‬
‫لاکھوں زندگیاں لربان کرنا بےبدل اعزاز سے کسی طرح‬
‫کم نہیں۔ بےشک الله کے پاس راستی کا رستہ اختیار کرنے‬
‫والوں کے لیے بڑا ہی اجر ہے۔ انٹرنیٹ پر نام نہاد فورم‬

‫لیڈر پھنڈر بیز کے گماشتے موجود ہیں جو دکھلاوا تو‬
‫کرتے ہیں لیکن کوئین پھنڈر بی کی شان میں ایک کلمہ‬
‫برداشت نہیں کرتے۔ ہاں البتہ منہ زبانی جان لربان کرنے‬

‫کی بڑکیں مارتے ہیں۔‬

‫ایک شخص اپنا نام صادق مسیح بتاتا ہے لیکن کام حضرت‬
‫عیسی مسیح کی محترم تعلیمات کے برعکس کرتا ہے اور‬
‫عیسائی ہونے کا دعوی بندھتا ہے۔ اسے عیسائی مان لیں‬
‫مگر کیوں اور کس بنیاد پر۔ ایک شخص اپنا نام نور محمد‬
‫بتاتا ہے لیکن کھڑا محمد (آپ کی خدمت میں ان حد درود و‬
‫سلام) دشمنوں کی صؾ میں ہوتا ہے اس کو کیوں اور کس‬

‫بنیاد پر مسلمان تسلیم کر لیا جائے۔ ایمان کے لیے تین‬
‫شرائط ہیں زبان سے الرار کرنا دل سے تسلیم کرنا اور اس‬
‫کےمطابك عمل کرنا۔ آلا کریم کا پیرو کار الله کے سوا کسی‬

‫کو الله نہیں مان سکتا۔ یہی اس کے محمدن ھونے کی نشانی‬
‫ہوتی ہے۔ مسلمان ہونے کے لیے یہ پہلی اورآخری شرط‬

‫ہے۔‬

‫لیڈر پھنڈر بیز اور معاون لیڈر پھنڈر بیز زبان سے دعوے‬
‫باندھتے ہیں لیکن ان کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ وہ‬
‫جو کچھ کرتے ہیں کوئین پھنڈر بی کے لیے کرتے ہیں ان‬
‫کا ہر کرنا کوئین پھنڈر بی کی شرع کے عین مطابك ہوتا‬

‫ہے۔ جو عمل‘ کہے کے مطابك کرتے ہیں ان کے لیے‬
‫تادیبی کاروائی کا دفتر کھل جاتا ہے۔‬

‫کوئین پھنڈر بی کی گماشتہ اور معاون گماشتہ لوتوں کے‬
‫سامنے سینہ تان کر ؼلام بلور اور سردار سلیم حیدر‬

‫کھڑے ہو گئے ہیں۔ وہ ناصرؾ اپنے کیے کا اعتراؾ کرتے‬
‫ہیں بلکہ لائم اور اس کہے اور کیے کے لیے ہر لربانی‬
‫دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے اس پختہ ایمانی کردار کی‬
‫تحسین کرنا اور ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونا حك‬
‫پرست طبموں کا فرض عین ٹھہرتا ہے۔ اگر اس مولع پر‬
‫صاحب ایمان مگر کمزور طبموں نے پیٹھ دکھائی تو یاد‬

‫رکھیں اب آسمان سے موسی کلیم الله اترنے کے نہیں۔ آج‬
‫لوگوں کو اپنے لدموں پربہر صورت کھڑا ہونا پڑے گا۔ اس‬
‫معرکہ حك و باطل میں کوئین پھنڈر بی سے نجات صاصل‬
‫کرنے کا مولع ہے۔ بصورت دیگر کوئین پھنڈر بی اور اس‬
‫کی معاون پھنڈر بیز ان کا گوشت کیا ہڈیاں بھی چبا جائیں‬

‫گی جبکہ آتی نسل کا حشر آج سے بدتر ہو گا۔‬

‫ہنر اور تجربے سے استفادہ ترلی کا وسیلہ ثابت ہو سکتا‬
‫ہے‬

‫کسی بھی شعبے کی مارکیٹ میں جا کر دیکھیں بہت سے‬
‫ایسے لوگ ملیں گے جو کم پڑھے یا سرے سے کبھی‬
‫اسکول ہی نہیں گئے ہوتے‘ لکھنے پڑھنے کے ہنر سے‬
‫بہرہ ور ہوتے ہیں۔ بات چیت کرنے میں بھی کچھ کم نہیں‬
‫ہوتے لیکن انھیں ان پڑھ ہی سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان‬
‫کے پاس کسی یونیورسٹی کا جاری کردہ گیڈر پروانہ نہیں‬
‫ہوتا۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں اس گیڈر پروانے پر اس‬

‫امر کی تصدیك لازم ہوتی ہے کہ وہ انگریزی میں پاس ہے۔‬
‫بہت سے ایسے ان پڑھ بھی دیکھنے کو ملیں گے جو‬

‫میٹرک کے تمام مضامین میں کامیاب ہوں گے لیکن ماسی‬
‫مصیبتے کو سر کرنے میں ناکام ہو گئے ہوں گے۔‬

‫ان رجسٹرڈ ان پڑھ حضرات کے پاس کوئی ناکوئی اور‬
‫کسی ناکسی فیلڈ میں کمال کا ہنر ہوتا ہے اور یہ کوئی‬
‫زبانی کلامی کی بات نہیں میں نے پوری دیانت داری سے‬
‫اس کا سروے کیا ہے۔ وہ اپنی فیلڈ سے متعلك وہ وہ‬
‫باریکیاں جانتے ہیں کہ عمل دھنگ رہ جاتی ہے۔ ان کی بد‬
‫لسمتی یہ ہوتی ہے کہ وہ بلاسند اور ماسی مصیبتے کے‬

‫اشیرباد سے محروم ہوتے ہیں۔‬

‫ایسے لوگوں کو کیوں اور کس بنیاد پر ؼیر فائدہ مند لرار‬
‫دیا جائے یا ڈگری ہولڈرز سے کم تر سمجھا جائے یا انہیں‬
‫ان کے ہنر اور تجربے کی بنیاد پرتنخواہ نہ دی جائے۔ اس‬
‫لسم کا سوتیلا رویہ ناصرؾ ان کے ہنر اور تجربے سے‬
‫انحراؾ کے مترادؾ ہے بل کہ ان کے ہنر اور تجربے سے‬

‫پورا پورا فائدہ نہ اٹھانے والی بات ہے۔‬

‫ہمارے ہاں تجربے کے تسلیم کرنے کو محدود کر دیا گیا‬
‫ہے اور یہ رویہ کسی طرح درست اور مناسب نہیں۔ تاہم یہ‬
‫طے ہو جاتا ہے کہ تجربہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ تجربے کے‬
‫تسلیم کی یہ صورت لطعی نامناسب اور ادھوری ہے اور یہ‬

‫ترلی کی راہ میں بہت بڑی چٹان ہے۔ تجربے کو تسلیم‬
‫کرنے کی چند صورتیں درج کر رہا ہوں‪:‬‬

‫‪١‬۔ سرکاری ملازمین کو سالانہ انکریمنٹ لگتی ہے کیوں‘‬
‫یہ ایک سال کے تجربے کو تسلیم کرنا ہے۔‬

‫‪٢‬۔ ایک اسکیل سے اگلے اسکیل میں ترلی ملازم کے‬
‫تجربے کو لبول کرنا ہے۔‬

‫‪٣‬۔ کسی بڑی پوسٹ پر سلیکشن کے لیے تعلیم کے ساتھ‬
‫تجربہ پہلی شرط ہوتی ہے۔‬

‫‪٤‬۔ شعبہ تعلیم میں چناؤ کے لیے تعلیمی سند تجربہ اور‬
‫پبلیکیشنز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پبلیکیشنز کیا ہے اس‬

‫شخص کا تجربہ اور کھوج ہی تو ہے۔‬

‫‪٥‬۔ بڑا عام سا ممولہ ہے “نواں نو دن پرانا سو دن“ کیا‬

‫اس ممولے کا یہ مطلب نہیں بنتا کہ پرانا تجربہ کار اور‬
‫ولت کے بہت سے موسموں سے گزر چکا ہوتا ہے۔‬

‫‪٧‬۔ دنیا کے بہت سے منظور شدہ تعلیمی ادارے لائؾ ورک‬
‫ریسرچ وؼیرہ سے متعلك تجربے کے کریڈیسز دیتے ہیں۔‬
‫‪٧‬۔ ہمارے ہا کسی تعلیمی ادارے میں داخلے کے لیے حفظ‘‬

‫این سی سی‘ ٹیچر سنز‘ پسر سابمہ یا موجودہ فوجی‘‬
‫سکاؤٹ وؼیرہ کا داخلے میں فائدہ دیا جاتا ہے۔‬

‫‪٨‬۔ کسی ملازمت کے حصول کے لیے ملٹری مین ہونے کا‬
‫فائدہ دیا جاتا ہے۔‬

‫درج بالا چند ایک معروضات کے حوالہ سے میں نے‬
‫تجربے کی اہمیت کو واضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ نان‬
‫ڈگری ہولڈر کے تجربے اور ہنر سے معمول ترین فائدہ‬
‫اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس طرح لومی ترلی کا ایک اور ذریعہ‬

‫تلاشا جا سکتا ہے۔‬

‫یہ اصول کسی طرح درست اور فائدہ مند نہیں کہ انگریزی‬
‫میں فیل تو ان پڑھ پاس ہو گیا تو تعلیم یافتہ۔ ہر کوئی باہر‬

‫سفیر بن کر نہیں جاتا اس نے یہاں ہی زندگی کے دن‬
‫پورے کرنا ہوتے ہیں۔ اس کا واسطہ ممامی لوگوں ہی سے‬

‫رہتا ہے۔ معاملے کو تین طرح سے لینا پڑے گا‬

‫‪١‬۔ انگریزی میں ناکام مگر دوسرے مضامین میں پاس‬
‫ہونے والے کو بھی پاس سمجھائے۔‬

‫‪٢‬۔ بہت پہلے انگریزی میں ناکام ہو گئے تھے اور اب کسی‬
‫ناکسی میدان میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی مہارت اور‬
‫تجربے کی جانچ کے بعد بورڈ یونیورسٹی کی اسناد جاری‬
‫کر دی جائیں۔ یہ گیڈر پروانہ انہیں محض چند سال فائدہ‬
‫دے گا لیکن‬

‫ا۔ ان کا ہنر بہتر طور پر استعمال میں آ سکے گا جو بہت‬
‫سے آتے سالوں تک اپنے جوہر دیکھتا رہے گا۔‬

‫ب۔ ان کے ہنر سے متعلك تحریر صدیوں تک کام آتی رہے‬
‫گی۔‬

‫ج۔ ہاں البتہ ان اسناد کے اجرا کا ایک معیار بنایا جا سکتا‬
‫ہے۔ مثلا‬

‫میٹرک کے لیے متعلمہ ہنر کا دو سالہ تجربہ ‪ +‬دو ہزار‬
‫الفاظ کی ان کی اپنی زبان میں تحریر‬

‫انٹرمیڈیٹ کے لیے میٹرک‘ متعلمہ ہنر کا چار سالہ تجربہ ‪+‬‬
‫پانچ ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر‬

‫بی اے کے لیے میٹرک‪ +‬انٹرمیڈیٹ متعلمہ ہنر کا چھے‬
‫سالہ تجربہ ‪ +‬سات ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان‬

‫میں تحریر‬

‫ماسٹرز کے لیے میٹرک‪ +‬انٹرمیڈیٹ‪ +‬بی اے متعلمہ ہنر کا‬
‫آٹھ سالہ تجربہ ‪ +‬دس ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان‬

‫میں تحریر‬

‫ایم فل کے لیے میٹرک‪ +‬انٹرمیڈیٹ‪ +‬بی اے‪ +‬ماسٹرز‬
‫متعلمہ ہنر کا دس سالہ تجرہ ‪ +‬پندرہ ہزار الفاظ پر مبنی ان‬

‫کی اپنی زبان میں تحریر اور تین پبلیکیشز‬

‫ڈاکٹریٹ کے لیے میٹرک‪ +‬انٹرمیڈیٹ‪ +‬بی اے‪ +‬ماسٹرز‪+‬‬
‫ایم فل متعلمہ ہنر کا بارہ سالہ تجربہ ‪ +‬بیس ہزار الفاظ پر‬

‫مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر اور پانچ پبلیکیشز‬

‫پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے میٹرک‪ +‬انٹرمیڈیٹ‪ +‬بی اے‪+‬‬

‫ماسٹرز‪ +‬ایم فل ‪ +‬ڈاکٹریٹ متعلمہ ہنر کا پندرہ سالہ تجربہ‬
‫‪ +‬تیس ہزار الفاظ پر مبنی ان کی اپنی زبان میں تحریر اور‬

‫سات پبلیکیشز‬
‫انگریز کی روحانی اولاد لکیر کے فمیروں اور ہنر دشمن‬
‫لوگوں کو یہ تحریر خوش نہیں آئے گی لیکن اہل دانش ان‬
‫معروضات کی افادیت کو ضرور تسلیم کریں گے اور ملک‬
‫میں بےولار پڑی ہنر مندی اور تجربے سے استفادے کا‬
‫اہل التدار کو مشورہ دیں گے۔ اس طرح ملکی ہنر اور‬
‫تجربہ کاؼذ پر آ سکے گا اور یہ تردد آتی نسلوں کے کام‬

‫آسکے گا۔‬

‫یہ ظم کس کی گردن پر رکھا جائے گا؟‬

‫کل بیؽم گھر پر نہیں تھیں‘ اس لیے حجامت کے لیے حجام‬
‫کے پاس جانا پڑا۔ پھٹھ‘ تنور‘ حجامت گاہ‘ ہوٹل وؼیرہ‬

‫ایسی جگہ ہیں‘ جہاں سیاسی سماجی معاشی ثمافتی ؼرض‬
‫ہر موضوع سے متعلك باتیں اور خبریں سننے کو ملتی‬

‫ہیں۔ جگت بازی بھی اپنے کمال کو چھوتی نظر آتی ہے۔‬
‫حکیموں کے نسخے اور ان کے اثرات کے متعلك آگہی کے‬

‫بند در کھلتے چلے جاتے ہیں۔‬

‫بجلی نہ ہونے اور لیامت کی گرمی کے باوجود حجامت گاہ‬
‫میں چھے سات لوگ موجود تھے۔ میرے سوا کوئی‬

‫حجامت بنوانے والا نہ تھا۔ پان سات منٹ بعد ان میں سے‬
‫کوئی ایک یاد دلا دیتا کہ گرمی بہت ہے۔ ان میں سے ایک‬
‫نے خبر سنائی کہ بجلی کے دفتر میں ایک بڑے افسر نے‬
‫حکم دے رکھا ہے کہ سحری افطاری اور ہر نماز کے ولت‬

‫بجی بند کرنی ہے۔ ورکروں نے احتجاج کیا تو اس نے‬
‫جوابا کہا جو یہ نہیں کر سکتا وہ نوکری چھوڑے اور گھر‬
‫کی راہ لے۔ عزت بچانے کے لیے انھیں افسر کے انتہائی‬

‫ہتک آمیز کلمات ہضم کرنا پڑے۔‬

‫مجھے یہ خبر ہر حوالہ سے افواہ لگی۔ عملی صورتحال پر‬
‫ؼور کیا تو اس خبر میں کوئی کھوٹ نظر نہ آئی۔ اگر‬

‫تاریخی حوالہ سے دیکھا جائے تو بھی اس میں جھوٹ کی‬
‫آمیزش نظر نہیں آتی۔ انگریز اپنے ساتھ ؼدار لے کر نہیں‬

‫آیا تھا۔ جعفر اور صادق یہاں ہی سے تعاق رکھتے ہیں۔‬
‫دیس بھگت‘ بھگت سنگھ آزاد (بھگوان اس کی آتما کو‬
‫شناتی اور سورگ میں جگہ دے) کے ڈیتھ ورنٹ پر یہاں‬

‫ہی کے ابن ابئی نے دستخط ثبت کیے تھے۔‬

‫ان راکششوں کا کوئی دین مذہب نہیں ہوتا۔ یہ جاہ ومال کے‬
‫لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر مال کی جھلک دکھا کر‬
‫کوئی ان سے ان کی ماں بھی مانگ لے تو دے دیں گے۔‬
‫ساری عمر ابا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا مانگنے والا‬
‫انسان سا ہی ہے‘ کیا بگاڑ لے گا۔ ابے کا کیا ہے چند ٹکے‬

‫خرچ کرکے اے ون عورت لا دیں گے۔ ابا خوش محلہ‬
‫خوش اور والفیت میں بھی ہر چند اضافہ ہی گا۔‬

‫میری سوچ کے دائرے پھیلتے گیے اور یہ خبر جو پہلے‬
‫افواہ لگی تھی بعد میں اس میں کسی ناکسی سطع پر‬

‫سچائی محسوس ہونے لگی۔ سحری اور افطاری اورہر نماز‬
‫کے مولع پر بڑی بالاعدگی سے بجلی جاتی ہے۔‬

‫رہ گیا یہ اعلان کہا کہ ان مولعوں پر بجلی نہیں جائے گی‬
‫کے کیا مفاہیم تھے۔ اردو سے متعلك لوگ اردو مصادر کے‬

‫استعمالات سے آگاہ نہیں ہیں۔ اس اعلان یا دعوی میں‬
‫مصدر جانا کا استعمال ہوا ہے۔ یہاں صرؾ تین استعمال‬

‫پیش کر رہا ہوں‬

‫وہ کام سے گیا۔‬
‫وہ جان سے گیا۔‬
‫کہنے کے باوجود حامد اسکول نہیں گیا۔‬

‫اعلان کے مطابك مصدر جانا آنا کے لیے استعمال ہوا ہے۔‬
‫یعنی ان مولعوں پر بجلی آئے گی۔ یہاں مراد یہ ہے کہ‬

‫بجلی گھروں میں نہیں جائے گی۔ اس حوالہ سے کون کہتا‬
‫ہے وعدہ خلافی ہوئی ہے۔‬

‫وہاں موجود لوگوں میں ایک نے کہا خلیفہ یار (ہمارے ہاں‬
‫نائی کے لیے لفظ خلیفہ مستعمل ہے) میرا دل ڈوبتا ہے۔‬
‫خلیفے نے کہا یہ فیض تم نے کہاں سے پایا ہے؟ اس نے‬

‫جوابا کہا میں پہلے دو صبح دو دوپہر اور دو روٹیاں شام‬
‫کو کھا تا تھا اور اب آدھی روٹی صبح اور آدھی روٹی شام‬
‫کو کھاتا ہوں۔ بچوں کا ماموں انھیں لے گیا تھا چار پانچ‬
‫دن بعد ہی چھوڑ گیا۔کوئی بھلا کب تک کسی کو کھلاتا ہے۔‬
‫زلؾ کدے کے بالکل سامنے حاجی آٹے والے کی دوکان‬
‫ہے۔ اس نے بتایا بڑا مندا ٹھنڈا ہے۔ سارا دن آدھ سے دو‬
‫کلو سے زیادہ کے گاہک ایک آدھ ہی آتا ہے۔ جب دو کی‬

‫بجائے آدھی روٹی کونڈی میں رگڑی سبز مرچوں کے‬
‫ساتھ میسر آئے گی تو دل ڈوبنے کے فیض پر حیرانی ہونا‬
‫بذات خود حیرانی کی بات ہے۔ سوچتا ہوں یہ بھوک پیاس‬
‫روزہ داروں اور نمازیوں پر پسینے کی برسات کا ظلم اور‬

‫جبر کس کی گردن پر رکھا جائے گا؟‬

‫کیسی آزادی کہاں ہے آزادی؟‬

‫اس امر کا متعدد باراظہار کر چکا ہوں کہ برصؽیر دنیا کا‬
‫بہترین خطہء ارض ہے۔ یہاں کے وسنیک بڑے ہی محنتی‬

‫اور ذہین ہیں۔ میدان کار زار میں بھی نالابل یمین کارنامے‬
‫انجام دیتے آئے ہیں۔ سکندر دنیا فتح کرنے چلا تھا لیکن‬
‫راجہ پورس سے پالا پڑا تو اسے نانی یاد آ گئی۔ ٹیپو کا نام‬

‫لے کر انگریز مائیں اپنے بچوں کو ڈراتی تھیں۔‬

‫اہل للم بھی بلا کے ذہین اور بے باک رہے ہیں۔ شاعر‬
‫علامتوں اشاروں میں تلخ حمیمتوں کو کاؼذ کے بدن پر‬
‫اتراتے آئے ہیں۔ پیٹو مورخ نے اورنگ زیب جو برصؽیر‬
‫کو جہنم میں دھکیلنے کا موڈھی ہے‘ نبی کے لریب پنچا‬
‫دیا ہے۔ رحمان بابا صاحب نے واضع الفاظ میں اس کی‬
‫کرتوتوں کی للعی کھول کر رکھ دی ہے۔ بہادر شاہ ظفر‬
‫نےبڑے ہی رومانوی الفاظ میں اپنے عہد کے کرب کو بیان‬
‫کر دیا ہے۔ ذرا یہ شعرملاحظہ فرمائیں کتنا کرب پوشیدہ‬

‫ہے۔‬

‫چشم لاتل تھی میری دشمن ہمیشہ‘ لیکن‬

‫جیسی اب ہو گئی لاتل کبھی ایسی تو نہ تھی‬

‫ذہانت کی پذیرائی تو بڑی دور کی بات‘ ان کی ذہانت کو‬
‫کبھی تسلیم تک نہیں کیا گیا بلکہ ذہانت کی تذلیل ہی کی‬

‫گئی ہے۔ ہنر مندوں کے ہاتھ کاٹے گئے ہیں۔ بعض تو جان‬
‫سے بھی گئے ہیں۔ اس کے برعکس کرسی لریب گماشتوں‬

‫اور کنمریب جھولی چکوں کو نوازا گیا ہے۔ یہی جھولی‬
‫چک اپنی عیاری کے بل پر کرسی پر شب خون مارتے آئے‬

‫ہیں۔‬

‫تاریخ کا مطالعہ کر دیکھیں ؼداروں اور دھرتی کے نمک‬
‫حراموں کے سبب بیرونی طالع آزماؤں کے سبب یہ دھرتی‬

‫ؼیروں کی ؼلام رہی ہے۔ ؼیروں نے اس کےوسائل‬
‫سےموجیں کی ہیں خوب پچرے اڑائے ہیں اوراڑا رہے‬
‫ہیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ یہ ؼدار‬
‫اور دھرتی کے نمک حرام لوگوں کی ذہانت کا اسی طرح‬
‫لیمہ کرتے رہیں گے۔ اس ذیل میں خدا کے خوؾ کی بات‬

‫کرنا حمالت سے کم نہیں۔‬

‫خدا‘ خدا کا خوؾ کھائیں؟‬

‫بادشاہ لوگوں کا شروع سے یہی طور اور وتیرا رہا ہے۔‬
‫دور کیا جانا ہے آج کے خدا نما بادشاہوں کو ہی دیکھ لیں‬
‫کیا کر رہے ہیں۔ شخص ان کے لیے کیڑے مکوڑے سے‬
‫زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کی بھوک پیاس سے انہیں‬

‫کوئی ؼرض نہیں۔ انھیں تو باتوں اور جھوٹے دعوں کے‬
‫عوض جنتی اور مفتی کھانا مل رہا ہے۔ ان کی دلال افسر‬
‫شاہی تو گلچرے اڑا رہی ہے۔ لوگ اندھیروں میں ہیں تو وہ‬

‫کیا کریں ان کے ہاں تو چانن ہے۔‬

‫چودہ اگست ہر سال آتا ہے۔ سرکاری اور نجی سطع پر‬
‫جشن منائے جاتے ہیں۔ سرکاری چھٹی بھی ہوتی ہے۔ میں‬
‫یہاں کے ذہین لوگوں کی بات کر رہا تھا اس دن کے حوالہ‬
‫سے میں اس ذہین و فطین شخص کو سلام کرتا ہوں جس‬

‫نے یہ نعرہ ایجاد کیا‬

‫‪ -----‬جشن آزادی مبارک ہو‪------‬‬

‫جشن آزادی کی مبارک ہے آزادی کی نہیں۔ نعرہ نے کمال‬
‫کا ہاتھ دکھا یا ہے۔ وہ جانتا تھا ہم آزاد نہیں‘ آزادی کا‬
‫سہانا خواب دیکھ رہے ہیں۔ خواب دیکھنے اور خوش‬
‫فہمی میں مبتلا رہنے پر کوئی پابندی تو نہیں ورنہ لوم‬
‫خادم اور حکومتی گماشتوں کی ؼلام ہے۔ یہ خادم اور‬
‫حکومتی گماشتے امریکہ کے پیٹھوں کے ؼلام ہیں۔‬

‫کیسی آزادی کہاں ہے آزادی؟‬

‫جو لوگ منصؾ کے درپے ہو جاتے ہیں‘ اسے نیچا‬
‫دکھانے اور اپنا دلال بنانے پر اتر آتے ہیں انھیں الله ہی‬

‫اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ وہ صم بکم عم فاھم لا‬
‫یرجعون کے درجے پر فائز ہو جاتے ہیں۔ لوم کے حصہ‬
‫میں فمط جشن آیا ہے سو وہ دھوم سے منا رہی ہے۔ الله‬
‫ناکرے آتے سالوں میں بھی صرؾ جشن پر ہی اکتفا کرے۔‬

‫میں نے اپنے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ ملک کا آئین‬
‫معطل یا چیلنج ہو چکا ہے۔ میری اس تحریر کو کسی ایک‬

‫نے بھی چیلنج نہیں کیا۔ اس نام نہاد جشن آزادی کی‬
‫کرتوت یہ ہے کہ ملک چیلنج یا معطل آئین کے حوالہ سے‬
‫چل رہا ہے۔عوام آخر کس لانون اور آئین کے تحت جشن‬

‫منا رہے ہیں۔ یہ جشن بھی ؼیر آئینی ہے۔ عوام کو تو‬
‫جھوٹ موٹھ کی خوشی منانے کا بھی حك حاصل نہیں۔‬

‫سال رواں کے اس روائیتی جشن کے مولع پر مجھے محمد‬
‫نعیم صفدر انصاری ایم پی اے لصور کا ایک موبائل میسج‬

‫ملا‬

‫۔۔۔۔۔۔۔ زنجیریں ؼلامی کی‘ دن آتا ہے آزادی کا آزادی نہیں‬
‫آتی ۔ چودہ اگست ہپی انڈیپنڈنس ڈے‬

‫محمد نعیم صفدر انصاری نوجوان سیاست دان ہے۔ اس کا‬
‫موبائل میسج میرے مندرجہ بالا مولؾ کا زندہ اور جیتا‬
‫جاگتا ثبوت ہے۔ ایک ایوان کے ممبر کے موبائل کے منہ‬
‫سے نکلی یہ بات اس امر کا واضع ثبوت ہے کہ ملک اور‬
‫لوم کا درد رکھنے والے نوجوان بھی اس ؼلام اور ؼبن‬
‫اور کرپشن آلودہ فضا میں گھٹن محسوس کرتے ہیں۔‬

‫محمد نعیم صفدر انصاری ایوان کلچر کا نمائندہ ہےگویا یہ ون‬
‫مین گھٹن نہیں ہے پورے ایوان کی گھٹن ہے۔یہ تو مثل‬
‫ایسی ہے کہ بہو کو کہا جائے بیٹا سب کچھ تمہارا ہے‬
‫لیکن کسی چیز کو ہاتھ مت لگانا۔ یہ کیسی نمائندگی اور‬
‫علالائی سربراہی ہے کہ لیا سب کچھ جایے لیکن دیا‬
‫اندھیرا جایے اور پھر بھی مورخ سے کہا جایے لکھو‬
‫بادشاہ بڑا دیالو کرپالو اور دیس بھگت تھا۔‬

‫بہر طور مجھے خوشی ہوئی کہ ہمارے ایوانوں میں محمد‬

‫نعیم صفدر انصاری جیسے نمائندے موجود ہیں جو اس امر‬
‫کا شعور رکھتے ہیں کہ پاکستانی لوم کے ہاتھ صرؾ جشن‬

‫آزادی لگا ہے‘ آزادی ابھی کوسوں دور ہے۔ پرانی نسل‬
‫دیسی گھی کھاتی تھی اس کے جسم میں وافر خون تھا۔‬
‫دیسی گھی تو دور کی بات اس کے پاس تو سوکھی روٹی‬
‫بھی نہیں۔ خون کہاں سے آئے گا۔ آزادی خون مانگتی ہے‬
‫اس لیے پیٹ بھرنے تک جشن آزادی کی مبارک باد پر ہی‬

‫گزارا کرنا کافی رہے گا۔‬

‫انسان کیڑے مکوڑے نہیں‬

‫انسان کسی حادثے والعے معاملے فکری اور نظریاتی‬
‫اختلاؾ وؼیرہ کے حوالہ سے جذباتی ہو جاتا ہے اور یہ‬
‫کوئی ؼیر فطری بات نہیں۔ ناگہانی صورت ہو تو ردعمل‬

‫میں کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ عمومی حالات میں سوچ‬
‫سمجھ سے کام لیتا ہے۔ جذباتی حالت میں بھی سوچتا‬
‫ہےلیکن سوچ کی سطع عمومی حالت سے مختلؾ ہوتی‬

‫ہے۔ دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ شخص کا معاملے‬
‫سے تعلك اور واسطہ کس سطع کا ہے۔‬

‫جذبات کو انسان سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر انسان‬
‫جذبات سے عاری ہو گیا تو اس میں اور مشین میں کوئی‬
‫فرق نہیں رہ جائے گا۔ تاہم مکمل طور پر جذبات کی انگلی‬

‫پکڑنا درست نہیں۔‬

‫آج اخبار میں اوباما اور ہلیری کے بیان کی سہ سرخی‬
‫پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ دونوں کے بیانات ایک دوسرے سے‬
‫اٹوٹ رشتہ رکھتے ہیں۔ اوباما کا کہنا ہے امریکی شہریوں‬
‫کو نمصان پہنچانے والوں کا پیچھا کریں گے جبکہ ہلیری‬
‫کا کہنا ہے کہ پرتشدد مظاہروں کا کوئی جواز نہیں بنتا۔‬
‫اصل ضرورت یہ تھی کہ کہا جاتا اسلامی دنیا تحمل اور‬
‫برداشت سے کام لے ہم اس والعے کا سختی سے نوٹس‬

‫لیں گے۔ چاہے یہ محض بیان ہوتا۔ لوگ سمجھتے کہ‬
‫امریکی لیادت انسان دوست اور جمہوریت پسند ہے۔ اس‬
‫کے معنی یہ بنتے ہیں کہ ہم جو بھی چاہیں کریں یا کہیں‬
‫اس کے ردعمل میں کسی کو کچھ کرنے یا کہنے کا حك‬

‫حاصل نہیں۔ ہلیری کے مطابك یہ کوئی بات ہی نہیں جو‬
‫مرضی کہا یا کیا جائے۔ دونوں کے بیانوں میں کرختگی‬

‫اوروں کے دکھ سکھ نظریات سے کوئی تعلك نہیں۔‬

‫ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں‬
‫کس لدر جذباتی ہیں۔ اس کے برعکس دوسروں کے جذبات‬
‫کا ان دل میں رائی بھر احساس اور احترام نہیں۔ وہ ان کے‬
‫ہاتھ اور زبان سے مریں یا جیئیں یہ ان کی سردردی نہیں۔‬

‫گویا یہ سارے کیڑے مکوڑے ہیں اور ان کے نزدیک کوئی‬
‫حیثیث نہیں رکھتے۔ اوباما یا ہلیری کی بڑی دور کی بات‬
‫ہے اسلامی دنیا پر چھوڑے گیےخنزیر پر اسلامی دنیا‬
‫گرفت کرنے کا حك نہیں رکھتی۔ اس خنزیر پر جو گرفت‬
‫کرنے کی کوشش کرئے گا اس کا پیچھا کیا جائے گا۔ انسان‬
‫دوست امریکہ اپنوں کے لیے کتنا جذباتی ہے اوباما کے‬
‫بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ کھلا جذباتی بیان ہے‬
‫لیکن چمچے اس کی سو طرح سے تشریح و تفہیم کریں‬
‫گے حالانکہ ان دونوں کے بیانات میں رائی بھر ابہام نہیں۔‬

‫میری تحریر “فیصلے کا ولت آ گیا ہے“ کو جذباتی تحریر‬
‫کا نام دیا گیا ہے۔ میں نے اس تحریر کو پورے ہوش و‬
‫حواس سے للم بند کیا ہے۔ میں عمر کے جس حصہ میں‬

‫ہوں وہاں ہوش مندی کو زیادہ دخل ہوتا ہے تاہم ؼلطی کے‬
‫امکان کو رد نہیں کر سکتا۔ میں نے معاملے کا تجزیہ دلائل‬
‫سے کیا ہے۔ کیا یہ سچی باتیں نہیں ہیں۔ احتجاج حك تھا‬
‫کیا گیا ۔ اس کا کیا اثر ہوا اوباما اور ہلیری کے بیانات سے‬

‫بخوبی لگایا جا سکتا ہے گویا یہ احتجاج ان کے لیے‬
‫معنویت سے تہی ہے۔ اوباما کے بیان سے تو یہ واضح‬

‫ہوتا ہے کہ اسلامی برادری کے مجرم کو نمصان‬
‫دینےوالے پر بھی گرفت ہو گی۔ یعنی اس کیا ؼلط نہیں۔‬

‫میں جانتا تھا کہ اس لسم کی باتیں معنویت نہیں رکھتیں۔‬
‫میں نے اسی تناظر میں تجاویز پیش کی تھیں۔ ولت حالات‬
‫معاملات نے واضح کر دیا ہے کہ یہ باتوں سے سمجھنے‬
‫والی جنسں کب ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایے ان سے لین‬
‫دین رکھنا انتہائی خسارے کا سودا نہیں ۔ جرم کرنے والا‬
‫جرم کرانے والا جرم کی صلاح دینے والا مجرم کی مدد‬
‫کرنے والا مجرم کی ہاں میں ہاں ملانے والے بذات خود‬

‫مجرم نہیں ہیں۔ اوباما اور ہلیری بذت خود مجرم ہیں ان پر‬
‫بھی‘ وہی تعزیر بنتی ہے جو فلم بنانے‘کردار ادا کرنےاور‬

‫فلم کا مواد تخلیك کرنے والے پر بنتی ہے۔‬

‫نفرت کو جبر سے ایک حد تک دبایا جا سکتا ہے جب‬
‫معاملہ حد تجاوز کر جاتا ہے تو سونامی بن جاتا ہے۔‬
‫سونامی کی راہ میں دیوار رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ امریکہ‬
‫آج طالت کے نشہ میں سرشار ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ‬
‫چونٹیاں اور کیڑے مکوڑے ہمارا کیا بگاڑ لیں گے۔ آمر آج‬
‫سے پہلے بھی یہی سوچتے آئے ہیں ان کی اس سوچ نے‬
‫ان کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ طالت لگام میں رہے تو ہی‬
‫کامیاب رہتی ہے۔ مست ہاتھی مول میں کتنے کا کیوں نہ‬
‫رہا ہو موت کا لممہ بنتا ہے۔ امریکی دانشور اہل سیاست‬
‫اور بااثر طبمے اس مدے پر سنجیدگی سے ؼور کریں اور‬
‫گورا ہاؤس مکینوں کو مشورہ دیں کہ وہ حد تجاوز نہ‬
‫کریں۔ انسانوں کو کیڑا مکوڑا سمجھنے کی بجائے انسان‬

‫سمجھیں اس میں ان کی اور دوسروں بھلائی ہے۔‬

‫زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں‬

‫وزیر برلیات کے اعلان کے باوجود مختلؾ شہروں میں‬
‫لوڈ شیڈنگ‬

‫یہ خبر میری اس تحریر کے بعد شائع ہوئی جس میں‘ میں‬
‫نے کہا تھا کہ کہنا اور کرنا دو الگ چیزیں ہیں۔ اس تحریر‬
‫کے باوجود اس خبر کا شائع ہونا اس امر کی طرؾ اشارہ‬
‫ہے کہ خبر نویس اس حمیمت سے بےخبر ہے یا پھر وہ‬
‫پرتھوی پر بسیرا نہیں رکھتا اور سہانے خوابوں کے دیس‬
‫کا الامتی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس تک میری ناچیز‬
‫تحریر رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہو۔ یا پھر میں‬
‫اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ جو بھی‬
‫ہے صحیح نہیں ہے۔ دوبارہ سے کوشش کرتا ہوں شائد اب‬

‫کہ سمجھانے میں کامیاب ہو جاؤں۔‬

‫کہنا اور کرنا اپنی حیثیت میں دو الگ چیزیں ہیں۔ ان کے‬
‫مابین لامحدود فاصلے ہیں۔ بذات خود بجلی دیکھنے میں‬
‫ایک ہو کر بھی ایک نہیں۔ متعلمہ پوائنٹ تک پہنچنے کے‬

‫لیے دو تاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک ٹھنڈی تار‬
‫دوسری گرم تار۔ دونوں تاروں کےالگ الگ رہنے میں ہی‬
‫عافیت اور سلامتی ہوتی ہے۔ ہر سوئچ میں ان دونوں کے‬
‫لیے الگ الگ پوائنٹ ہوتے ہیں۔ اگر یہ دونوں تاریں باہمی‬
‫اختلاط کر لیں تو بہت بڑا کھڑاک ہو سکتا ہے۔ اس ٹھاہ‬
‫کے نتیجہ میں جان بلکہ جانیں جا سکتی ہیں۔ بالکل اسی‬
‫طرح کہنا اور کرنا گلے مل جائیں تو مالی نمصان وٹ پر‬
‫ہوتا ہے۔ نمصان جانی ہو یا مالی‘ نمصان ہی ہوتا ہے اور‬
‫نمصان کی کسی بھی سطع پر حمایت نہیں کی جا سکتی۔‬

‫سکول کالج یہاں تک کہ یونیورسٹی میں کتابی تعلیم دی‬
‫جاتی ہے۔ کامیاب طالب علم کو متعلمہ علم کی سند یا ڈگری‬
‫دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ڈگری ہولڈر اس‬
‫علم کی کامل جانکاری حاصل کر چکا ہے۔ اس سند یا ڈگری‬
‫کے باوجود ڈگری یافتہ عملی طور پر صفر ہوتا ہے۔ اس‬

‫کے برعکس عملی تجربہ رکھنے والا ڈگری یافتہ سے‬
‫کرنے میں کمال کے درجے پر فائز ہوتا ہے حالانکہ ڈگری‬
‫یافتہ کرنے سے متعلك باتیں بار بار پڑھ بلکہ توتے سے‬
‫بڑھ کر رٹ چکا ہوتا ہے۔ دونوں کے نام الگ سے ہوتے‬

‫ہیں۔‬

‫کہنے کو تھیوری جب کہ کرنے کو پریکٹیکل کا نام دیا جاتا‬
‫ہے اور یہ ایک دوسرے سے لطعی طور الگ ہیں۔ یہ‬
‫درست سہی پڑھے کو عملی آزمایا جاتا ہے۔ گویا پڑھنا‬

‫پہلے اور آزمانا بعد میں ہے۔ میں کہتا ہوں کرنا پہلے ہے‬
‫اور کہنا یا آزمانا بعد میں ہے۔ ہمارے ہاں ایک ان پڑھ‬
‫آدمی بڑے کمال کے کام انجام دے رہا ہے۔ نہیں یمین آتا‬
‫تو بلال گنج میں جا کر دیکھ لیں۔ شکاگو یونیورسٹی کا‬

‫ایک سائنس کا پروفیسر وہ کام نہیں کر سکتا جو کام بلال‬
‫گنج کا ان پڑھ خرادیا دے انجام سکتا ہے۔ اسے کہیں یہ‬
‫ہے ایؾ سولہ ذرا اس سے بہتر بنا دو‘ بنا دے گا۔ ڈالرز‬
‫میں ملنے والے سوفٹ ویئر یہاں بازار سے ان کی سی ڈی‬
‫بیس رویے میں مل جاتی ہے۔ ہے نا کرنا اور کہنا ایک‬

‫دوسرے سے الگ تر؟‬

‫جو کرتے ہیں وہ بولتے نہیں۔ جو بولتے ہیں وہ کرتے‬
‫نہیں۔ اس طرح دوہرا یعنی کرنا اور کہنا بوجھ بن کر سر پر‬
‫آ جاتا ہے۔ کوئی بھی دوہرا بوجھ اٹھا نہیں سکتا۔ کیا‘ بملم‬

‫خود بولتا ہے کہ میں ہوں کیا ہوا۔ ؼالبا یہ شعر بھیکا کا‬
‫‪:‬ہے‬

‫بھیکا بات ہے کہن کی کہن سنن میں ناں‬

‫جو جانے سو کہے نہ کہے سو جانے ناں‬

‫کہہ کر کیا تو کیا کیا۔ کیا وہی اچھا ہے جو کہا نہ جائے۔‬
‫کرکے کہنا تو احسان جتانے والی بات ہے۔ احسان جتانا‬
‫سے بڑھ کر توہین آمیز بات ہی نہیں۔ ہمارے لیڈر اتنے بھی‬
‫گئے گزرے نہیں ہیں جو احسان جتائیں۔ اسی بنیاد پر ہی‬
‫وہ صرؾ کہتے ہیں‘ کرتے نہیں۔ وہ خوب خوب جانتے ہیں‬
‫کہ کرنے کے لیے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان‬
‫کے نزدیک کیے کی خبر دوسرے ہاتھ تک کو نہیں ہونی‬
‫چاہیے۔ جو وہ کرتے ہیں لوگوں کو خبر تک نہیں ہو پاتی۔‬
‫جب لوگوں کو خبر ہوتی ہے ولت بہت آگے نکل گیا ہوتا‬

‫ہے۔‬

‫کوئی بےبابائی کام کسی بڑی سفارش کے ساتھ جہاں کہیں‬
‫نازل ہوتا ہے اس کی زبانی کلامی سہی‘ پذیرائی تو ہوتی‬
‫ہے۔ اس کے ہونے کی یمین دہانی بھی کرائی جاتی ہے۔‬

‫امید بلکہ یمین کے چراغ بھی جلائے جاتے ہیں۔ بعض‬
‫اولات لڈو بھی بانٹے جاتے ہیں۔ بےبابائی ہونے کی پاداش‬
‫میں وہ کام نہیں ہو پاتا۔ اس ممام پر ناراض ہونا یا مایوس‬

‫ہونا نہیں بنتا کیونکہ کرنا اور کہنا دو الگ باتیں ہیں۔‬

‫ایم این ایز یا ایم پی ایز یا منسٹرز لوگوں کی درخواستوں‬
‫پر سفارشی کلمات لکھتے ہیں۔ یہاں وہ دونوں فریموں کی‬

‫درخواستوں پر سفارشی کلمات ایک ہی طرح سے ثبت‬
‫کرتے ہیں۔ وہ تو دیالو اور کرپالو مخلوق ہوتے ہیں۔ وہ‬
‫کسی کو کیسے مایوس کر سکتے ہیں۔ اس حوالہ سے‬
‫کسی کا کام ہو یا نہ ہو اس سے انھیں کوئی مطلب نہیں‬
‫ہوتا کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ سفارش اور کام کا‬
‫انجام پانا دو الگ سے باتیں ہیں۔ سفارش اور کام کا ہونا‬
‫اختلاط پذیر نہیں ہونے والے ۔ ان کی الگ الگ اہمیت‬

‫حیثیت اور ضرورت ہے۔‬

‫ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد اپنی اپنی روٹی پکاتے ہیں۔‬
‫وہ سگے بھائی ہوتے ہیں۔ روٹی سالن ایک رنگ روپ‬

‫رکھتا ہے۔ ساتھ نبھانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہوتا ہے۔ سگا‬

‫ہونا یا وعدے میں بندھے ہونا یا روٹی کا رنگ روپ ایک‬
‫ہونا اپنی جگہ لیکن نبھانا دو الگ باتیں ہیں۔ انھیں ایک‬
‫دوسرے سے نتھی نہیں کیا جا سکتا اور ناہی کیا جانا‬

‫حمیمت سے تعلك رکھتا ہے۔‬

‫پنجاب جو سب سے بڑا صوبہ ہے کی منشی شاہی سب‬
‫سے زیادہ شریؾ‘ تحمل مزاج‘ بردبار اور زیرو رفتار ہے‬
‫نہ یہ کچھ کہتی نہ کرتی ہے۔ یہ ہونے کے ہر کام کی راہ‬
‫میں دیوار بن جاتی ہے۔ چونکہ للم‪ ،‬اٹکل اور داؤ و پیچ‬
‫اس کی زنبیل میں پناہ گزیں ہوتے ہیں اس لیے ہوتے بھی‬
‫نہیں ہوتے۔ اس کی تحمل مزاجی اور زیرو رفتاری ہی وہ‬
‫بڑا کارنامہ ہے کہ ہم روزاول سے بھی بہت لدم پیچھے‬
‫کھڑے بھوک پیاس اور موت کی ہولی بڑی بےبسی اور‬
‫بےکسی سے دیکھ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے دیکھنا ہمارا‬

‫ممصد حیات ہے۔‬

‫وزیر عوامی لوگ ہوتے ہیں اس لیے عوام کی بہبود ان‬
‫کے پیش نظر رہتی ہے۔ وہ نہیں چاہتے لوڈ شیڈنگ ختم‬
‫کرکے بجلی کے بل لوگوں کی جیب سے تجاوز کر جائیں‬

‫اور پھرلوگ لوڈ شیڈنگ کرنے کے لیے سڑکوں پر آ کر‬
‫ذلت و خواری کا منہ دیکھیں۔ وہ بجلی کے بل اور‬
‫لوڈشیڈنگ کی جدائی کو عوامی بہبود کے برعکس‬
‫سمجھتے ہیں۔‬

‫مفروضوں میں زندگی کرنے کا عہد ہے۔ عین ممکن ہے یہ‬
‫اخباری خبر ہاوسز سے متعلك ہو جہاں اتفالا کسی فنی‬

‫خرابی کے سبب بجلی دو چار لمحوں کے لیے کبھی کبھار‬
‫چلی جاتی ہے۔ بڑے لوگوں کے بڑے کام۔ وہ مخاطب‬

‫چھوٹے لوگوں سے ہوتے ہیں لیکن وعدے بڑے لوگوں‬
‫کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں۔ بلند سطع پر کیفیت مختلؾ‬
‫ہوتی ہے۔ اس لیے وہاں ٹھنڈی اور تتی تاروں کا رولا بالی‬
‫نہیں رہتا۔ وہاں کرنا اور ہونا دو نہیں رہتے۔ سچی درویشی‬

‫یہی ہے کہ میں تو میں مدؼم ہو کر میں بن جاتی ہے‬
‫اورپھر زندگی میں میں کے سوا کچھ نہیں رہتی۔‬

‫من کا چوہا اور کل کلیان‬

‫اصولی سی اور صدیوں کے تجربے پر محیط بات ہے کہ‬
‫ؼیرت لوموں کو تاج پہناتی ہے۔ بے ؼیرتی روڑا کوڑا بھی‬

‫رہنے نہیں دیتی۔ روڑا کوڑا اس لیے معتبر ہے کہ تلاش‬
‫کرنے والوں کو اس میں بھی رزق مل جاتا ہے۔ جب بھی‬
‫معاملات گھر کی دہلیز سے باہر لدم رکھتے ہیں تولیر کا‬
‫جنازہ نکل جاتا ہے۔ سارا کا سارا بھرم خاک میں مل کر‬
‫خاک ہو جاتا ہے۔ جس کو کوئی حیثیت نہیں دی گئی ہوتی‬
‫وہ بھی انگلی اٹھاتا ہے۔ نمبردار بن جاتا ہے۔ جس کے‬
‫اپنے دامن میں سو چھید ہوتے ہیں اسے بھی باتیں بنانے‬
‫کا ڈھنگ آ جاتا ہے۔ یہ لصور باتیں بنانے یا انگلی اٹھانے‬
‫والوں کا نہیں ہوتا بلکہ مولع دینے والوں کا ہوتا ہے۔‬

‫یہ حمیمیت بھی روز روشن کی طرح واضح اور عیاں رہی‬
‫ہے کہ طالت کے سامنے اونچے شملے والے سر بھی خم‬
‫رہے ہیں۔ گویا طالت اور ؼیرت کا سنگم ہوتا ہے تو ہی‬
‫بات بنتی ہے۔ کمزور صحیح بھی ؼلط ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس‬
‫کی ہر صفائی اور اعلی پائے کی دلیل بھی اسے سچا لرار‬
‫نہیں دیتی۔ بھیڑیے کا بہانہ اسے چیرنے پھاڑنے کے لیے‬

‫کافی ہوتا ہے۔ انسان چونکہ اشرؾ المخلولات ہے اس لیے‬
‫اس کے بہانے اور دلائل بھی کمال کے ہوتے ہیں۔ انسان‬
‫کی یہ بھی صفت ہے کہ وہ اپنی ؼلطی تسلیم نہیں کرتا‬
‫بلکہ اپنی ؼلطی اوروں کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ ایسی‬
‫صفائی سے رکھتا ہے کہ پورا زمانہ اسے تسلیم کرنے‬

‫میں دیر نہیں کرتا۔‬

‫امریکہ کی عمارت گری اس میں کوئی کھوٹ نہیں۔ سوال‬
‫پیدا ہوتا ہے کہ یہ عمارت گرانے پورا افؽانستان امریکہ پر‬
‫چڑھ دوڑا تھا۔ اس میں بچے بوڑھے عورتیں لاؼر بیمار‬

‫وؼیرہ‘ بھی شامل تھے؟‬

‫جواب یمینا نفی میں ہو گا۔ تو پھر ان سب کو بندوق نہیں‬
‫توپ کے منہ پر کیوں رکھ دیا گیا؟‬

‫ان کا جرم تو بتایا جائے۔‬

‫لوگوں کو تو مذکرات اور سفارتی حوالہ سے مسائل کا حل‬

‫تلاشنے کے مشورے اور خود گولے سے مسائل حل کرنے‬
‫کوشش کو کیا نام دیا جائے۔‬

‫ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے بلی کتے سے کتا‬
‫بھڑیے سے بھیڑیا چیتے سے چیتا شیر سے شیر ہاتھی‬
‫سے ہاتھی مرد سے مرد عورت سےاورعورت چوہے سے‬
‫ڈرتی ہے۔ ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس‬
‫اپنے مولؾ کی دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں‬
‫چھت پر بیھٹا کوئی کام کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواں دھار‬

‫شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔ میں پوری پھرتی سے‬
‫نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا کہ صندوق میں‬
‫چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے ڈرتا‘ پی‬
‫گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چلا گیا کہ تم نے مجھے بلی یا‬
‫کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا‬

‫صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔‬

‫چوہا کمزور ہے لیکن ڈر کی علامت ہے۔ ڈر اپنی اصل میں‬
‫انتہائی کمزور چیز ہے۔ کمزوری سے ڈرنا‘ زنانہ خصلت‬
‫ہے۔ امریکہ اپنی اصل میں انتہائی کمزور ہے۔ کیا کمزوری‬

‫نہیں ہے کہ اس کی گرفت میں بچے بوڑھے عورتیں لاؼر‬
‫بیمار بھی آ گئے۔ گھروں کے گھر برباد کر دینے کے بعد‬
‫بھی اس کا چوہا ابھی زندہ ہے۔ چوہا اس سے مرے گا‬
‫بھی نہیں۔ بشمار اسرائیلی بچے مروا دینے کے بعد بھی‬
‫فرعون کے من کا چوہا مرا نہیں حالاں کہ وہ انہیں بازو بنا‬

‫سکتا تھا۔‬

‫ہم اپنے ساتھ نہیں ہیں کسی اور کا خاک ساتھ دیں گے۔ یہ‬
‫بڑی بڑی باتیں کرنے والے ایک جونیئر کلرک کی مار نہیں‬
‫ہیں منشی تو بہت بڑا افسر ہوتا ہے۔ہمارا شمار ان لوگوں‬
‫میں ہوتا ہے جو چور کو کہتے ہیں سوئے ہوئے ہیں اور‬
‫گھر والوں کو کہتے ہیں چور آ رہا ہے۔اس نام نہاد ترلی‬
‫کے دور میں ہم سچ کہہ نہیں سکتے سچ سن نہیں سکتے۔‬

‫یہ ہماری سیاسی سماجی یا پھر التصادی مجبوری ہے۔‬

‫ہمیں اپنے معاملات پر ہی گرفت نہیں کسی دوسرے کی کیا‬
‫مدد کریں۔ صاؾ کہہ نہیں سکتے بھائی ہم پر نہ رہنا‘ جب‬
‫بھی مشکل ولت پڑا ہمیں دشمن کی صؾ میں سینہ تانے‬
‫کھڑا پاؤ گے۔ ہم ابراہیم لنکن کی نبوت اور ڈالر کے حسن‬

‫پر یمین رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہماری عمل اور ؼیرت پیٹ‬
‫میں بسیرا رکھتی ہے۔ ہم ازلوں سے بھوک کا شکار ہیں۔‬

‫اصل مجنوں کوئی اور ہے ہم تو چوری کھانے والے‬
‫مجنوں ہیں۔ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ کہا گیا بجلی‬
‫نہیں جائے گی جبکہ بجلی گئی ہوئی ہے۔ گیس کا بل سو‬

‫ڈیڑھ سو آتا تھا اور گیس سارا دن رہتی تھی۔ آج گیس‬
‫صرؾ دکھائی دیتی ہے اور بل پیو کا پیو آتا ہے۔ بجلی‬
‫جانے سے پہلے کچھ لوگ بیٹھے ہویے تھے کہ فلاں گھر‬
‫کے گیس کا بل سات ہزار روپیے آیا ہے اور گھر کے کل‬
‫افراد چند ایک ہیں۔ لگتا ہے کہ دوزخ کو اس گھر سے‬

‫پائپ جاتا ہے۔‬

‫ہم وہ لوگ ہیں جو الیکشنوں کے موسم میں لنگر خانے‬
‫کھول دیتے ہیں۔ کٹوں بکروں اور مرؼوں کی شامت آ جاتی‬

‫ہے۔ لوگ دھر سمجھ کر بے دریػ کھاتے ہیں۔ لوگ‬
‫سمجھتے ہیں امیدوار پلے سے کھلا رہا ہے اور اس کے‬

‫بعد پیٹ بھر کر اگلے الیکشنوں میں ہی مل پائے گا۔‬

‫بات کا پہلا حصہ درست نہیں۔ الیکشن وہی لڑتا ہے جس‬

‫کی ہک میں زور ہوتا ہے۔ جس کی ہک میں زور ہوتا ہے‬
‫وہ پلے سے کیوں کھلانے لگا ۔ چوری کے ڈنگر ہی‬

‫چھری تلے آتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ان لنگر خانوں میں‬
‫مردار گوشت دیگ نہیں چڑھتا۔‬




Click to View FlipBook Version