1
پروفیسر سید مقصود حسنی
بحیثیت
غ ل شن س
ڈاکٹر غلا شبیر ران
ابوزر برقی کت خ نہ
جون ٧
2
پروفیسر سید مقصود حسنی بحیثیت غ ل شن س
پروفیسر سید مقصود حسنی ک شم ر ع لمی شہرت کے
ح مل م یہ ن ز پ کست نی ادیبوں اور دانشوروں میں ہوت ہے۔
ع و اد سے ان کی والہ نہ وابستگی ان ک بہت بڑا
اعزاز و امتی ز ہے۔ ان کی ع می ،ادبی ،تحقیقی اور تنقیدی
ک مرانیوں ک ایک ع ل معترف ہے۔ انھوں نے نہ یت محنت
سے اپنی ق ب یت ک لوہ منوای ہے۔ ان کی ادبی فع لیت ان
کے کردار کی پختگی کی رہین منت ہے ،وہ حریت فکر کے
ع بردار جری نق د کی حیثیت سے ب ند مق رکھتے ہیں۔
ان کی تحریروں میں زندگی کے ب رے میں جو مثبت انداز
فکر ،حقیقی معنویت اور مقصدیت ج وہ گر ہے ا س کے
پس پردہ جو عوامل ک ر فرم ہیں ان میں حریت فکر کو
ک یدی اہمیت ح صل ہے۔
اردو اد میں غ ل کو نہ یت اہ مق ح صل ہے۔ غ ل نے
اردو اد کی ثروت میں جو اض فہ کی وہ ت ریخ اد ک اہ
واقعہ ہے۔ نثر ہو ی نظ ،غ ل نے اپنی جدت فکر اور اندا ِز
بی ن کے تنوع اور ان رادیت سے قطرے میں دج ہ اور جزو
میں کل دکھ کر جریدۂ ع ل پر اپنے دوا کو ثبت کر دی ۔
3
غ ل کو ایک ایسے پل سے بھی تعبیر کی ج ت ہے جس
کے افک ر نے عہد قدی اور عہد جدید کو مربوط کر دی ۔
پروفیسر مقصود حسنی نے غ ل کے مط لعہ پر خصوصی
توجہ دی ہے۔ غ ل کی ش عری کی ت ہی کے لیے اتنی ہی
ب ند پروازی درک ر ہے جس قدر غ ل کے ہ ں تخ یقی سطح
پر موجود ہے۔ پروفیسر مقصود حسنی نے غ ل شن سی پر
جو خصوصی توجہ دی ہے وہ لائ صد رشک و تحسین
ہے۔ غ ل ک مط لعہ ان کے ن س کی لا شعوری قوتوں
سے ہ آہنگ ہو گی ہے اوروہ انھیں شعور سے مربوط و
مزیں کر کے غ ل کی ش عری میں آنے والے ا ل ظ اور
گنجینہ مع نی کے ط س کی گرہ کش ئی میں ایک عمر
صرف کر چکے ہیں۔ گزشتہ تین عشروں سے ق و روح
کی گہرائیوں میں غ ل کے فکری سرم ئے کو سموئے
ہوئے اس کے دھنک رنگ ج ووں سے ق رئین کو مسحور
کرنے میں مصروف ہیں۔
پروفیسر سید مقصود حسنی کی تحقیقی ک مرانیوں اور
تنقیدی فتوح ت ک س س ہ بہت طویل ہے۔ ان کی و قیع کت
کی تعداد بیس سے زائد ہے۔ ان کت کی زبردست پذیرائی
ہوئی۔ اد کے سنجیدہ ق رئین نے ہمیشہ ان کی تص نیف کو
4
شرف قبولیت بخش ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی نے
غ ل کی ش عری ک جو اختص صی مط لعہ کی ہے اس میں
غ ل کے زب ن وبی ن اور ال ظ کے انتخ پر خصوصی
توجہ دی ہے۔ غ ل نے ل ظ کو ک یدی اہمیت دی ہے۔ ایس
محسوس ہوت ہے کہ غ ل نے ج ل ظ کو گنجنیہ مع نی ک
ط س کہ تو اس نے لا شعوری طور پر خود کو ل ظ کے
سپرد کر دی اور ال ظ نے تخ ی سے مواص ت کے ذریعے
ج ید بیض ک معجزہ دکھ ی تو زندگی کے من رد پہ و
س منے آتے چ ے گئے ایک ممت ز غ ل شن س کی حیثیت
سے پروفیسر مقصود حسنی نے غ ل کی تخ یقی فع لیتوں
کو غ ل کی شخصیت کے تن ظر میں دیکھنے کی ک می
کوشش کی ہے۔ غ ل کو اپنی زندگی میں جن ح لات ک
س من رہ ان کے براہ راست اثرات اس کے تخ یقی عمل پر
بھی مرت ہوئے۔ روح میں اتر ج نے والی اثر آفرینی غ ل
کی ش عری ک امتی زی وصف ہے۔
پروفیسر سید مقصود حسنی نے اپنے تجزی تی مض مین
میں جہ ں غ ل کے من رد اس و پر بحث کی ہے وہ ں یہ
ث بت کرنے میں بھی ک می رہے ہیں کہ یہ اس و اپنے
گون گوں مح سن کی بدولت ایک مث لی اس و بھی ہے۔
5
انھون نے غ ل کے من رد اور مث لی اس و کے ب رے
میں مد لل گ تگو کی ہے۔ غ ل کی شخصیت اور ان رادیت
سے متع انھوں نے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کی
ہے کہ ق ری نہ صرف خوشی اور مسرت کے جذب ت سے
سرش ر ہوت ہے ب کہ وہ غ ل کی عظمت فکر ک دل سے
ق ئل ہو ج ت ہے۔ تخ یقی اعتب ر سے عظی شخصی ت کے
کم لات ک تجزیہ کرنے کے لئے یقین ً عظمت فکر ک ح مل
ہون ضروری ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کو اللہ تع لی
نے ان تم خوبیوں سے متمتع کی ہے ۔وہ ال ظ اور اظہ ر
بی ن سے متع تم
امور پر گہری نظر رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ تخ ی
ک ر کے فن پ روں میں ج وہ گر وجدان کی لہر کے محرک ت
ک کھوج لگ نے میں بھی ک می ہو ج تے ہیں۔ یہ امر لائ
تحسین ہے کہ وہ غ ل کی ش عری میں ک ر فرم تخ یقی
عمل کی حقیقی کی ی ت کو سمجھنے میں ک می رہے ہیں۔
خ رجی اور داخ ی عوامل کے س تھ س تھ ال ظ اور انداز
بی ن کی جو صورت ح ل س منے آئی ہے پروفیسر مقصود
حسنی نے اس کے فنی اور جم لی تی عن صر پر سیر ح صل
بحث کی ہے۔ غ ل نے اپنی تخ یق ت کے ذریعے دراصل
6
ایک مع شرتی اور سم جی عمل کو مہمیز کی ۔ پروفیسر سید
مقصود حسنی نے اس ج ن توجہ دلاتے ہوئے ث بت کی کہ
غ ل نے ادراک کی فقید المث ل توان ئیوں کے معجز نم
اثرات سے ہم ری زندگی کے ع واقع ت کو جنھیں ہ
ب لعمو لائ اعتن نہیں سمجھتے۔ ہم رے شعور ک حصہ بن
کر اپنی ان رادیت کو ث بت کر دی ۔ اس عمل کے اعج ز سے
ق ری کے جذب ت احس س ت اور فکر و نظر کی تہذی اور
تزکیہ کی راہ ہموار ہوتی چ ی گئی اور یہ س کچھ عصری
آگہی ک ثمر ہے۔ مقصود حسنی نے غ ل کی ت ہی کے
:س س ے میں لکھ ہے
غ ل نے اپنے تجرب ت مش ہدات اور احس س ت کو موثر ’
بن نے اور ق ری کی پوری توجہ ح صل کرنے کے لئے بڑی
ش ندار تصویریں تخ ی کی ہیں جس تجربے ی احس س کی
تصویر بن ت ہے ق ری کی روح میں اتر کر سوال بن ج تی
ہے اور پھر ق ری کے سوچ کے دروازے بند نہیں ہونے
‘‘ دیتی۔
پروفیسر سید مقصود حسنی نے جس ج ن اش رہ کی ہے
وہ بلا شبہ حقیقی انداز فکر کو س منے لانے کی ک می
کوشش ہے۔ اذہ ن کی تطہیر و تنویر کے س س ے میں یہ
7
عمل بہت اف دیت ک ح مل ہے۔ غ ل نے اس عہد کے
مع شرے میں زبوں ح لی پر گرفت کی اور زندگی کی حقیقی
معنویت کو اج گر کرنے کے لئے درخش ں اقدار اور ت بندہ
روای ت کی پ سداری کو مطمع نظر ٹھہرای ۔ وہ یہ ب ت اچھی
طرح ج نتے تھے کہ اگر مع شرے سے اقدار و خی ل کی
پ کیزگی عنق ہو ج ئے تو تہذیبی انحط ط کو روکن ن ممکن
ہو ج ت ہے۔ غ ل نے تخ ی اد کو ایک روح نی تجربے
ک روپ عط کر دی ۔ غ ل نے زندگی کے نشی و فراز کو
جس انداز میں دیکھ اور ح لات واقع ت کے بدلتے ہوئے
تیور بعینہ اپنی ش عری میں ل ظی مرقع نگ ری کے ذریعے
سمو دیے۔ اس لح ظ سے دیکھ ج ئے تو غ ل کی ش عری
نہ صرف اس کے عہد کی ب کہ آنے والے دور کی ایک
دھندلی سی تصویر بھی پیش کر تی ہے۔
پروفیسر سید مقصود حسنی نے غ ل کی ش عری میں
موجود عصری آگہی اور لس نی عوامل ک عمی مط لعہ کی
ہے۔ انھوں نے اس ج ن اش رہ کی ہے کہ غ ل کے عہد
میں زندگی کی اقدار ع لیہ کو استبدادی قوتوں کی غ صب نہ
دستبرد کے ب عث شدیدضعف مگر تہذیبی قوت بڑی حد تک
برقرار تھی۔
8
غ ل نے اپنی تخ یقی فع لیت کے اعج ز سے تہذیبی قوت
کی بق اور استحک کے لئے مقدورد بھر کوشش کیں۔ اس
ک واضح ثبوت غ ل کی ش عری ک خ ص آہنگ ہے۔ جسے
اپنے خ ص طرز بی ن کی بدولت ہر عہد میں سند ک درجہ
ح صل رہے گ ۔ پروفیسر سید مقصود حسنی نے اسی طرز
بی ن کو اپنی تحقیق ت ک مرکز و محور بن رکھ ہے۔ انھیں
اس ب ت ک پختہ یقین ہے کہ غ ل کی فکری منہ ج ہر دور
میں لائ تق ید رہے گی کیونکہ غ ل نے اپنے افک ر کی
ضی پ شیوں سے اذہ ن کی توسیع کی ،وہ درخش ں مث ل
ق ئ کی جس سے اردو اد ن آشن تھ ۔ غ ل کی تخ یقی
فع لیت کی بدولت اردو ش عری کے فکری اث ثے میں نہ
صرف گراں قدر اض فہ ہوا ب کہ تخ ی فن کے نئے اف
تک رس ئی ممکن ہوئی اس تم عمل ک انحص ر غ ل کی
ل ظی ت پر ہے۔ ل ظ کی اہمیت ہر دور میں مس مہ رہی ہے۔
برٹش میوزی میں پتھر کی ایک سل موجود ہے جومصر
کے قدی ترین کھنڈرات سے دستی ہوئی اس کی قدامت ک
انداز اس امر سے لگ ی ج سکت ہے کہ یہ حضرت عیسے
سے کئی ہزار س ل پہ ے کی ہے ۔ اس سل پر جو تحریر
:ہے اس ک م ہو حس ذیل ہے
9
‘‘ ل ظ کی قوت نے تم دیوت ؤں کو پیدا کی ۔’’
تخ ی اد میں ل ظ کو یقین ًک یدی اور اس سی اہمیت ح صل
ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی نے غ ل کی ش عری
میں ل ظ کی اہمیت ک مط لعہ کی ہے۔ وہ غ ل کی ش عری
قرار ) (Aestheticsمیں ل ظ کو اد کی جم لی تے
دیتے ہیں اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ایک ب ند پ یہ
تخ ی ک ر ج پرورش لوح و ق کی خ طر م ئل بہ تخ ی
ہوت ہے تو وہ ل ظوں کی صورت میں اپنی روح ک عطر
کشید کرکے ،ص حہء قرط س کو خی لات کے گل ہ ئے
رنگ رنگ سے سج دیت ہے۔ اس تخ یقی عمل میں اسے
جو ہ ت خواں طے کرن پڑتے ہیں ،پروفیسر سید مقصود
حسنی نے ان ک تجزیہ نہ یت خوش اس وبی سے پیش کی
:ہے
حسن کی ج وہ آرائی ع ش کی مشکل کو آس ن کر دیتی ’’’
ہے۔ اس نظریے کو غ ل نے بڑی خوبصورت تصویری
‘‘ شکل دی ہے۔
غ ل کی ل ظی مرقع نگ ری نے پروفیسر سید مقصود
حسنی کو بہت مت ثر کی ہے۔ غ ل نے تراکی ت میح ت،
مح ورات اور ال ظ استعم ل کئے ان ک ت صی ی مط لعہ زیر
10
نظر تحقی کت میں موجودہے۔ غ ل کی امیجری اور
تمثیل نگ ری پر بھی ف ضل پروفیسر نے بھر پور توجہ دی
ہے۔ ان ک تجزی تی انداز تم حق ئ کو منظر ع پر لات ہے
غ ل کو من ظر سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ من ظر سے
تع ہون ایک فطری امر ہے۔ بعض اوق ت ایس بھی ہوت
ہے کہ من ظر کی اثر آفرینی سے استعداد ک ر کو مہمیز
کرنے میں مدد م تی ہے۔ چونکہ اد پ رے ک براہ راست
تع تخ ی ک ر کی شخصیت سے ہوت ہے۔ اس لئے تخ ی
ک ر کی پسند ،ن پسند ،ترجیح ت ،دلچسپی ں ،جذب ت اور
احس س ت یہ وہ تم عوامل ہیں جو قطر ے کو گہر بننے
کے مراحل میں در پیش ہوتے ہیں۔ غ ل کی ل ظی مرقع
نگ ری میں احس س کی شدت ک کرشمہ دامن دل کھینچت
ہے۔ اس ب رے میں پروفیسر سید مقصود حسنی نے لکھ
:ہے
من ظر ہمیشہ سے اپنی حیثیت میں معتبر رہے ہیں اور یہ ’’
انس نی موڈ پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور مرت کرتے ہیں۔
موڈ کے مت ثر ہونے پر لاشعوری طور پر رویے میں
‘‘تبدی ی آ ج تی ہے۔
اس لح ظ سے دیکھ ج ئے تو یہ حقیقت س منے آ گئی ہے
11
کہ ایک طرف توغ ل کو اپنی داخ ی کی ی ت کو ال ظ ک
ج مہ پہن نے میں ت مل تو نہیں دوسری طرف خ رجی مظ ہر
اور من ظر بھی اس کی تخ یقی فع لیت پر اثر انداز ہوتے
ہیں۔ گوی غ ل نے جب ی کی ی ت کو اس طرح پیش کی ہے
کہ ن سی توان ئی ایک من رد انداز میں صورت پذیر ہوتی
ہے۔ مثلاً
سبزہ و گل کو دیکھنے کے لئے
چش نرگس کو دی ہے بین ئی
غ ل نے علامت ،نش ن اور اش رہ ک جس مہ رت سے
استعم ل کی ہے کہ ق ری اس کے سحر میں کھو ج ت ہے۔
پروفیسر سید مقصود حسنی نے ان تم ال ظ کی فہرست
اس کت میں ش مل کر دی ہے جو کسی پہ ے سے مع و
شدہ امر کی توضیع کے لئے استعم ل کیے گئے ہیں۔ ان
کی ہے۔ اسی طرح )( signتم ال ظ کی حیثیت نش ن
کے ب رے میں کوئی ابہ )( symbolانھوں نے علامت
پیدا نہیں ہونے دی ۔ غ ل کی ش عری میں علامت کو ایک
ایسے ن سی تی کل کی حیثیت سے دیکھن چ ہیے جس کے
اعج ز سے لا شعور کی قوتوں کو متشکل ہونے میں مدد
م تی ہے یہ امر مس مہ ہے کہ علامت ک استعم ل غیر
12
واضح مبہ اور ن مع و امور کے لئے ہوت ہے۔
اجتم عی لا شعور کو علامت ک م خذ قرار دی ج ت ہے۔
غ ل کی ش عری میں علامت کے ب رے میں کوئی شعوری
ک وش پیش نظر نہیں آتی۔ ایس محسوس ہوت ہے کہ الہ می
ی وجدانی کی ی ت سے سرش ر ہو کر ،یہ لا شعور سے جن
لے رہی ہیں۔ تبھی تو غ ل نے صریر خ مہ کو نوائے
سروش قرار دی تھ ۔
پروفیسر سید مقصود حسنی نے کلا غ ل کے استحس ئی
مط لعہ سے یہ واضح کی ہے کہ سم جی اور مع شرتی
ح لات کے تحت جب ی کی ی ت کے اظہ ر کے لئے
ن سی توان ئی ک روبہ عمل لای ج ن فطری امر ہے۔ یہ ایک
خ ص طرز فغ ں ہے۔ غ ل کی طرز ادا ک امتی زی وصف یہ
ہے کہ جب ی توان ئی اور ن سی توان ئی
کے امتزاج سے ایک من رد انداز میں در ِد دل ک اظہ ر
کرت ہے۔ مثلاً
ابن مری ہوا کرے کوئی مرے دردکی دوا کرے کوئی
ا س میں کوئی اش رہ ہے جو مع و کے لئے استعم ل ہوا
ہے۔ ا علامت کی مث ل دیکھیں۔
13
رو میں ہے رخش عمر کہ ں دیکھئے تھمے
نے ہ تھ ب گ پر ہے نہ پ ہے رک میں
یہ ں رخش عمر بطور علامت آی ہے۔ ظ ہر ہے رخش
سکندر کے گھوڑے ک ن تھ ۔ جس کی بر رفت ری ک ایک
ع ل معترف تھ ۔ غ ل نے زندگی کی بر رفت ریوں کے
لئے رخش کی علامت استعم ل کرکے شعر کی اثر آفرینی
کو چ ر چ ند لگ دئیے ہیں۔
پروفیسر سید مقصود حسنی نے غ ل کی ش عری میں
عربی ،ف رسی ،ترکی ،ہندی ،سرائیکی اور متعدد زب نوں
کے مشترک ال ظ کی فہرست مرت کی ہے اس طرح
لس نی حوالے سے نہ صرف مط لعہ اہمیت اختی ر کر گی
ہے ب کہ اس کی بدولت غ ل کی تخ یقی فع لیت اور فکری
منہ ج ک بھی پت چ ت ہے۔ ال ظ ک انتخ غ ل کی تح یل
ن سی بے حد ممدو مع ون ث بت ہوت ہے۔ غ ل ؔ نے ج
اپنی ش عری کو نوائے سروش کہ تو یہ ب ت سمجھ میں
آتی ہے کہ تخ ی فن کے لمحوں میں وہ جن مراحل سے
گزرے ان ک تع لا شعور سے رہ ۔ اس میں شعوری
ک وشو ں ک دخل نہیں ۔
14
پروفیسر سید مقصود حسنی نے غ ل کی ل ظی ت کے تحقیقی
مط لعہ کے دوران میں یہ ث بت کر دی ہے کہ غ ل نے جو
پرایہ اظہ ر بت ی وہ اس کی ب طنی کی ی ت ک مظہر ہے۔ غ ل کے
ال ظ کو اس کی ن سی کی ی ت کی ک ید کی حیثیت ح صل ہے۔ میں
دی نت داری سے محسوس کرت ہوں کہ غ ل پراتنی گہرائی
اورو سعت نظر سے کی ج نے والا ک اس سے پہ ے میری نظر
سے نہیں گزرا۔
کت یقین ًپذیرائی ح صل کرے گی۔ ان ش ء اللہ
پروفیسر سید مقصود حسنی کی خدمت میں ہدیہ تبریک
پیش کرتے ہوئے میں فکر و نظر اور ال ظ کے اس پ رکھ
کی خدمت میں صب اکبر آب دی کے ایک مرثیے ک بند پیش
:کرکے اج زت چ ہت ہوں
ل ظ تھے اپنے کھ ونے ،ل ظ اپنے مشغ ے
زندگی ل ظوں میں گزری ،ان کے س ئے میں پ ے
ہر قد پر س منے ال ظ کے تھے مرح ے ل ظ
ہر ج ن ہمیں انگ ی پکڑ کر لے چ ے
گردشیں کرتی رہی ل ظوں پہ س ری زندگی
ہ نے ل ظوں کے مک نوں میں گزاری زندگی
15
پروفیسر سید مقصود حسنی
بحیثیت غ ل شن س
ڈاکٹر غلا شبیر ران
ابوزر برقی کت خ نہ
جون ٧