1
زب ن غ ل ک فکری‘ لس نی تی و انضب تی مط ل
مقصود حسنی
2
مندرج ت
ش ر غ ل اور میری خی ل آرائی
غ ل ک عصری ط قت کے ب رے اظہ ر خی ل
غ ل اور جنت کی خوش خی لی
غ ل ک ایک ش ر
غ ل ‘ شخص ک ش عر
غ ل کی ف رسی میں اردو ش عری
غ ل کے من ظر ک فکری و ن سی تی مط ل
غ ل کے امرج سے مت ال ظ کی تہذیبی حیثیت
غ ل کے کرداروں ک ن سی تی مط ل
غ ل تراج کے اردو ک لس نی ج ئزہ
اصطلاح ت غ ل کے اصطلاحی م ہی
غ ل کے ہ ں مہ جر اور مہ جر نم ال ظ کے است م ل ک س یق
غ ل کے ہ ں بدیسی ال ظ کو اردو انے کے چند اصول
غ ل کے ’’ال‘‘ سے ترکی پ نے والے ال ظ ک ت ہیمی مط ل
3
است دغ ل کے چند س بقے اور لاحقے
غ ل کے مرکب ت اور ان کی ادبی حیثیت
غ ل ایک عظی مح ک تکر
پروفیسر سوامی را تیرتھ کی غ ل طرازی
4
ش ر غ ل اور میری خی ل آرائی
کسی م م ے ی مس ے کے واضح ن ہونے کی صورت میں
تذبذ کی کی یت تک یف دہ ہوتی ہے اور کسی غ ط اقدا کو ب ید
از قی س قرار نہیں دی ج سکت ۔ ایسی ح لت میں ردعمل‘ جوابی
ک روائ‘ بچ ؤ ی تدبیر کے حوال سے غ ط بھی ہو سکت ہے
لیکن ی قط ی اور ضروری نہیں۔ ج م م واضح ہو تو تذبذ
کی ح لت ی کی یت پیدا ہون مجبوری اور جبر کے کھ تے میں آ
ج ت ہے۔ جبر اور مجبوری کے ک درست نہیں ہوتے۔ اس میں
خ وص رجح ن لگ ؤ کمٹمنٹ اور ذہنی ت داری نہیں ہوتی۔
ب ک ب طنی سطع پر ن رت پنہ ں ہوتی ہے۔ پریشر ی مجبوری
خت ہونے پر ردعمل سخت نوعیت ک ہوت ہے اور ن رت صدیوں
تک چ تی ہے۔ پہ ی نسل ک ب طن س بق پر برقرار رہت ہے پہ ی
نسل کے خت ہو ج نے کی صورت میں دوسری نسل پکی پکی
اختی ری کی ہو کر رہ ج تی ہے۔ ہندوست ن میں اس کی سیکڑوں
مث لیں مل ج ءیں گی۔ انگریز ج ہندوست ن میں وارد ہوا ج ن کی
سلامتی کے لیے بہت سے لوگوں نے عیس ئ مذہ اخت ر کر لی ۔
چرچ نے بھی بھرپور کردار ادا کی ۔ ی اختی ری م م کئ نس وں
تک چلا۔ آج ان کی نس یں دل و ج ن سے اختی ری کی ہو گئ ہیں۔
کسی مذہ نظری طور ی ک چر کے غ ط ی سہی ہونے سے
میرے موضوع ک سرے سے کوئ لین دین نہیں کیونک ی
5
م م انگریز تک محدود نہیں ی م م تو پہ ے سے ب ک
ہمیش سے ہوت چلا آ رہ ہے۔ میں یہ ں تذبذ کی ک رفرم ئ کو
واضح کرن چ ہت ہوں۔
تذبذ کے سب بے چینی اور پیدا ہوتی ہے۔ گھٹن ذہ نت اور
گزاری کی دشمن ہے۔ غ ل ک ی ش ر اسی ب ت کو واضع کرت
:ہے
ایم ں مجھے روکے ہے‘جو کھینچے ہے مجھے ک ر
ک ب مرے پیچھے ہے‘ ک یس ‘ مرے آگے
دل اور ضمیر کی آواز۔ ایم ں مجھے روکے ہے
جو کھینچے ہے مجھے ک ر چبر اور عصری صوت ح ل‘
عصری صورت کو دل دم اور ضمیر ک ر سمجھ رہ ییں۔
ک ب :م ضی اور نظری تی ورث ۔
ک یس ‘ مرے آگے عصری جبر کے حوال سے موجودہ پوزیشن
موجودہ پوزیشن
گوی
ن ج ئے م ندن ن پ ئے رفتن
آخر کریں تو کی کریں۔ انگریز کے تس ط کے ب د یہی صورت
ح ل تھی۔
6
آج بھی برصغیر میں ن ہنس ن بٹیر کثرت سے دستی ہیں۔ ی
میری خی ل آرائی ہے ہو سکت ہے غ ل کے کہنے ک مط اور
مقصد کوئی اور رہ ہو۔
7
ش ر غ ل اور میری خی ل آرائی
کسی م م ے ی مس ے کے واضح ن ہونے کی صورت میں
تذبذ کی کی یت تک یف دہ ہوتی ہے اور کسی غ ط اقدا کو ب ید
از قی س قرار نہیں دی ج سکت ۔ ایسی ح لت میں ردعمل‘ جوابی
ک روائ‘ بچ ؤ ی تدبیر کے حوال سے غ ط بھی ہو سکت ہے
لیکن ی قط ی اور ضروری نہیں۔ ج م م واضح ہو تو تذبذ
کی ح لت ی کی یت پیدا ہون مجبوری اور جبر کے کھ تے میں آ
ج ت ہے۔ جبر اور مجبوری کے ک درست نہیں ہوتے۔ اس میں
خ وص رجح ن لگ ؤ کمٹمنٹ اور ذہنی ت داری نہیں ہوتی۔
ب ک ب طنی سطع پر ن رت پنہ ں ہوتی ہے۔ پریشر ی مجبوری
خت ہونے پر ردعمل سخت نوعیت ک ہوت ہے اور ن رت صدیوں
تک چ تی ہے۔ پہ ی نسل ک ب طن س بق پر برقرار رہت ہے پہ ی
نسل کے خت ہو ج نے کی صورت میں دوسری نسل پکی پکی
اختی ری کی ہو کر رہ ج تی ہے۔ ہندوست ن میں اس کی سیکڑوں
مث لیں مل ج ءیں گی۔ انگریز ج ہندوست ن میں وارد ہوا ج ن کی
سلامتی کے لیے بہت سے لوگوں نے عیس ئ مذہ اخت ر کر لی ۔
چرچ نے بھی بھرپور کردار ادا کی ۔ ی اختی ری م م کئ نس وں
تک چلا۔ آج ان کی نس یں دل و ج ن سے اختی ری کی ہو گئ ہیں۔
کسی مذہ نظری طور ی ک چر کے غ ط ی سہی ہونے سے
میرے موضوع ک سرے سے کوئ لین دین نہیں کیونک ی
8
م م انگریز تک محدود نہیں ی م م تو پہ ے سے ب ک
ہمیش سے ہوت چلا آ رہ ہے۔ میں یہ ں تذبذ کی ک رفرم ئ کو
واضح کرن چ ہت ہوں۔
تذبذ کے سب بے چینی اور پیدا ہوتی ہے۔ گھٹن ذہ نت اور
گزاری کی دشمن ہے۔ غ ل ک ی ش ر اسی ب ت کو واضع کرت
:ہے
ایم ں مجھے روکے ہے‘جو کھینچے ہے مجھے ک ر
ک ب مرے پیچھے ہے‘ ک یس ‘ مرے آگے
دل اور ضمیر کی آواز۔ ایم ں مجھے روکے ہے
جو کھینچے ہے مجھے ک ر جبر اور عصری صوت ح ل‘
عصری صورت کو دل دم اور ضمیر ک ر سمجھ رہ ییں۔
ک ب :م ضی اور نظری تی ورث ۔
ک یس ‘ مرے آگے عصری جبر کے حوال سے موجودہ پوزیشن
موجودہ پوزیشن
گوی
ن ج ئے م ندن ن پ ئے رفتن
9
آخر کریں تو کی کریں۔ انگریز کے تس ط کے ب د یہی صورت
ح ل تھی۔
آج بھی برصغیر میں ن ہنس ن بٹیر کثرت سے دستی ہیں۔ ی
میری خی ل آرائی ہے ہو سکت ہے غ ل کے کہنے ک مط اور
مقصد کوئی اور رہ ہو۔
10
عزیز مکر حسنی ص ح :سلا مسنون
غ ل کے کلا پر آپ کی خی ل آرائی دیکھی جو دلچسپ ہے۔
م و نہیں ک غری غ ل کے کلا پر طرح طرح کی خی ل
آرائی ں کیوں کی گئی ہیں۔ ایسی خی ل آرائی ں کسی اور کے کلا
پر نہیں ہوئی ہیں۔ میرے پ س غ ل کے مخت ف اش ر کی
تشریح خمسوں کی شکل میں موجود ہے ۔پڑھنے سے ت
رکھتی ہے اور ش ید یہ ں بھی پیش کی ج چکی ہے۔ آپ کے
خی لات دلچسپ ہیں لیکن حقیقت سے ان ک کتن ت ہے؟ واللہ
اع ۔
سرور ع ل راز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7998.0
11
غ ل ک عصری ط قت کے ب رے اظہ ر خی ل
ط قت اپنی ذات میں اٹل اور حرف آخر ہوتی ہے۔ وہ کسی کے
س منے جوابدہ نہیں ہوتی۔ اس کے کہے اور کیے کو آءین ک
درج ح صل ہوت ۔ اس کی ع مداری میں آنے والی ہر شے اور ہر
ذی ن س اس ک ت بع اور اس کے حضور جوا دہ ہوت ہے۔ کسی
کو اس کے کہے اور کیے پر ل کش ئ کی اج زت نہیں۔ اس کے
ظ وست پر جءے جءے ک ر کرنے والی زب نیں ہی سلامت رہتی
ہیں۔ تنی گردنیں کٹ کر اس کے جوتوں کی ٹھوکر میں ہوتی ہیں۔
م فی درگزر صبر کی دولت سے وہ محرو ہوتی ہے۔
اللہ کی غیر ت بع ط قت کے مت خوش کن ک مے اس عہد کی
جی حضؤری کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ انہیں محض افس نوی
ادد سے زی دہ کچھ نہیں کہ ج سکت ۔ بے سری بے مہ ری اور
غیرت بع ط قت ک سوچ اپنی ذات سے ب ہر نہیں نک ت ۔ وہ اوروں
کے لیے نہیں سوچتی اور دوسرے اس کے اہداف اور
ترجی ح ت میں نہیں ہوتے۔ ان کی حیثیت لیبر بیز سے زی دہ
نہیں ہوتی ان کی زندگی اور موت اسی کے لیے ہوتی ہے۔ یہی
وج ہے ک اللہ کی غیر ت بع ط قت ق ء ب ذات نہیں ہوتی۔ نس وں
کے ب د سہی زوال ک شک ر ہو ج تی ہے۔
12
ش عر کے پ س علامتیں است رے اش رے اور کن ءیے ہوتے
ہیں۔ وہ ان کے سہ رے اپنے عہد کے م ملات ک اظہ ر کر دیت
ہے۔ غزل ک ش عر محبو ک ن لے کر ط قت کے رویے طور
اور وتیرے ک کھل کر اظہ ر کر دیت ہے۔ اس کے پ س ی بڑا
ک رگر اور زبردست ہھتی ر ہے۔ اگر کسی عہد کی اص ی اور
حقیقی صورت دیکھن ہو تو ش عری ک پوری توج سے مط ل
کی ج ءے۔ دودھ ک دودھ پ نی س منے آ ج ءے گ ۔ ش عر کے
مت کہ ج ت ہے ک وہ مب لغ کرت ہے لیکن اس ک مب لغ
مورخ سے ٹن ٹء ک ہوت ہے۔ غ ل دنی ءے ش ر واد میں
اپن الگ سے مق رکھتے ہیں۔ ان کی غزل میں سو سے زی دہ
ش ر اس عہد کی ت ریخ ک درج رکھتے ہیں۔ ظ ر کی ش عری
گذشت کی ش عری ہے لیکن غ ل کی ش عری ب ل سے ب ریک
اور ت وار سے تیز دھ ر کی ش عری ہے۔ ی بھی ک اسے ب ت
کرنے ک ڈھنگ اور س یق آت ہے۔
ط قت کے ب رے میں نے جو عرض کی اس کی سند میں غ ل ک
:ی ش ر ملاحظ ہو
ب ت پر واں زب ن کٹتی ہے وہ کہیں اور سن کرے کوئ
واں وہ اور کوئ ق بل توج ہیں۔ اس سے اگلا ش ر دیکھیں کس
13
:طرح پ نترا بدلا ہے
کچھ ن سمجھے خدا کرے بک رہ ہوں جنوں میں کی کچھ
کوئ
غ ل دانست س کچھ کہ گیے ہیں اور ا لیپ پوچی کرنے کے
س تھ ی بھی ث بت کرن چ ہتے ہیں ک وہ یہی کچھ کہن چ ہتے
ہیں۔ اس ذیل میں جنوں کی قب اوڑھ رہے ہیں۔ وہ پورے ہوش
میں ہیں اور جو لکھ رہے ہیں پوری ذم داری سے لکھ رہے
ہیں۔ پوری غزل کو دیکھ لیں اس عہد کی سچی تصویر ہے۔
لوگوں کی ح لت زار کے تحت کئ رنگ اختی ر کرتے ہیں۔ کبھی
ن صح بنتے تو ہیں کبھی مولوی تو کہیں مورخ۔ ترغی اور
بغ وت جوابی ک روائ کی ت قین بھی م تی ہے۔ حضور کری کی
حدیث کو کوڈ کرتے ہیں۔
پہلا ش ر اور آخری ش ر ق ری کی خصوصی توج چ ہت ہے۔
شک و شب کی کسی سطع پر گنج ءش ہی نہیں رہتی۔
ابن مری ہوا کرے کوئ میرے دکھ کی دوا کرے کوئ
مرض نہیں‘ دکھ۔ دونوں میں زمین آسم ن ک فر ہے۔۔ ا
:آخری ش ر ملاحظ ہو
ج توقع‘ اٹھ گئ غ ل کیوں کسی ک گ کرے کوئ
14
دیسی ط قت کی موت ک کھلا اعلان ہے۔ اس میں مجموعی آپسی
ح لات اور ت ق ت ک تذکرہ بھی ہے۔ اس عہد کے مجموعی
رویے اور طور وانداز کی بھی نش ندہی م تی ہے۔ غیر متوازن
منتشر اور ذات تک محدود شخصی چ ن کو اس سے بڑھ کر
کھ ے انداز میں واضع نہیں کی ج سکت ۔ غزل ک ہر ش ر عد
آسودگی اور بےسکونی کی تصویر ہے ورن غ ل کوئ مص ح
اور عم ی پیر ی صوفی ن تھے۔ تصوف کے اش ر مل ج نے کی
وج سے انہیں خواج درد کی طرح ک صوفی قرار نہیں دی
سکت ۔ میرے خی ل میں اس غزل کے چوتھے ش ر اور مجموعی
تشریح یہی بنتی ہے ت ہ میرا خی ل حرف آخر ک درج نہیں
رکھت ۔
15
غ ل اور جنت کی خوش خی لی
غ ل آزاد خی ل تھے ی حقیقیت ہر شک سے ب لاتر ہے۔ ہر فرق
ہر مس ک اور ہر مذہ سے مت لوگ ان کے ح ق ءاحب میں
داخل تھے۔ کسی قس کی ت ری وامتی ز کے بغیر پیش آتے
تھے۔ ی س اپنی جگ ان کی مس م نی پر شک کرن بہت بڑی
زی دتی ہو گی۔ گنہگ ر ہون اور مذہ ی مذہ کے کسی حص
سے انحراف‘ دو الگ ب تیں ہیں۔
:اپنے کہے کی سند میں کچھ ب تیں عرض کرت ہوں
۔ غ ل نجف اور حرمین ج نے کی شدت سے خواہش رکھتے
تھے۔ اس امر ک اظہ ر مختف جگہوں پر م ت ہے۔ سند میں غ ل
:ک ی ش ر ملاحظ فرم ءیں
مقطع س س ءشو نہیں ہے ی شہر
عز سیر نجف و طوف حر ہے ہ کو
۔ بہ در ش ہ ظ ر نے ج حج کرنے ک قصد کی تو غ ل نے
16
:بھی س تھ ج نے کی خواہش کی۔ سند میں ی ش ر ملاحظ ہو
غ ل ! اگر اس س ر میں مجھے س تھ لے چ یں
حج ک ثوا نذر کروں گ حضور کی
۔ ان کی پوری زندگی میں ایس کوئ واق نہیں م ت جس سے
اسلا سے انحراف واضح ہوت ہو۔ ان کی زب ن سے نکلا کوئ
ل ظ بھی ریک رذ میں نہیں م ت جس سے اسلا سے پھرنے ی
اس ذیل میں انحراف ک پہ و س منے آت ہو۔
ل ظ ج کسی دوسری زب ن میں مہ جرت اختی ر کرتے ہیں تو وہ
اپنی اصل زب ن ک ک چر وغیرہ برقرار نہیں رکھ پ تے۔ ل ظ حور
عربی ہے‘ ی عربی میں جمع ہے اور جنت کی عورت کے لیے
است م ل کی ج ت ہے۔ اردو میں ی واحد استغم ل ہوت ہے اور اس
سے مراد خوبصورت عورت لی ج تی ہے۔ ایک ہی کی ہزاروں
ل ظ دوسری زب نوں میں ج کر م ہی است م ل ت ظ ہیءت وغیرہ
کھو دیتے ہیں۔ وٹران و سپٹران کس انگریزی کے ل ظ ہیں۔ ل ظ
ہند کے عربی ف رسی اور اردو م ہی قط ی الگ سے ہیں۔
ہونس و کس عربی ک ہے۔ فرم یے عینک کس زب ن ک ل ظ ہے۔
ی عین اور نک سے ترکی پ ی ہے۔ ق ی کوئ ل ظ ہی نہیں
17
لیکن مست مل ہے۔ ت ب دار کو غ ط سمجھ ج ت ہے۔ اپنی حقیقت
میں غ ط نہیں۔ میں اس ذیل میں کئ مث لیں دے سکت ہوں۔
قرآن مجید ک ہر ل ظ‘ اس پر ایم ن رکھنے والوں کے لیے ہر
:شک سے ب لا ہے تو پھر غ ل کس طرح کہتے ہیں
ہ کو م و ہے جنت کی حقیت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غ ل ی خی ل اچھ ہے
قرآن میں جنت کے حوال سے جو بھی کہ گی ہے‘ واضح کہ
گی ہے۔ کسی سطع پر ابہ پیدا نہیں ہوت ۔ ج ابہ نہیں تو
غ ل اس طرح کی ب تیں کیوں کرتے ہیں۔ غ ل کی مس م نی
مشکوک نہیں۔ آدھی مس م نی بھی اس طرح کی ب تیں نہیں
کرتی۔
ک ہے ی قرآن مجید والی جنت مراد نہیں۔ ی ش ر غ لب
اور ی دور ش ہ ع ل ٹ نی ک ہے۔ ش ہ ع ل ث نی ش عر تھ اور
آفت تخ ص کرت تھ ۔ اس عہد کے ش را‘ خود آفت کے ہ ں
18
ل ظ جنت کئ م نوں میں ب ندھ گی ہے۔ غ ل کے ہ ں ان
:م روض ت کے تن ظر میں ل ظ جنت کے م نوں دری فت کر لیں
۔ ی شدید افرات ری ک دور تھ ۔ اندرونی بیرونی قوتیں
برسرپیک ر تھیں۔ اس کے س تھ ہی اصلاح احوال کے داعی بھی
کوش ں تھے۔
لوگ امید کر رہے تھے ک ی خط پھر سے امن و سکون ک
گہوارہ بن ج ءے گ ۔ ل ظ جنت امن و سکون کے لیے است م ل
ہوت آی ہے۔
۔ مغربی تہذی اور مغر والوں کو بھی سکون اور ترقی ک
منبع سمجھ گی ہے اور ی خوش فہی آج بھی موجود ہے۔
۔برصغیر بلاشب جتت نظیر خط ارض ہے۔ وس ءل قدرت‘ مین
پ ور‘ ذہ نت‘ محنت‘ کوشش‘ موسموں وغیرہ کے حوال سے
کوئ خط اس کے جوڑ ک نہیں۔ پوری دنی کو غ سبزی ت یہ ں
سے فراہ ہوتی تھیں اور آج بھی صورت مخت ف نہیں۔ اس دور
کے ح لات میں اسے جنت نظیر کہن خوش طب ی سے زی دہ ب ت
ن تھی۔
19
۔ اہل صوف کے ہ ں جنت کے م نی الگ سے ہیں۔ ح لات سے
تنگ ہو کر لوگ دنی تی گنے پر مجبور ہو گءے تھے۔ گوی
تصوف کی آغوش ہی ب قی رہ گئ تھی۔
درج ب لا م روض ت کی روشنی میں اندازہ لگ ی ج سکت ہے ک
غ ل اپنے اس ش ر میں کس جنت کو خوش خی لی ک ن دے
رہے ہیں۔غ ل کے ش ر کی یہی شرح بنتی ہے‘ مجھے قط
اصرار نہیں۔ ہ ں ی ممکن ہے ک ان توجہح ت کی روشنی میں
غ ل کی فکر تک رس ئ کی کوئ راہ نکل آءے۔
20
غ ل ک ایک ش ر
غ ل کی ‘ کسی بھی ش عر کے کسی بھی ش ر کی تشریع کرن
:آس ن ک نہیں۔ اس کی بنی دی کچھ وجوہ ہیں
ش ر تشریع کی چیز نہیں اس ک ت محسوس سے ہے۔
ش عر ک مجموعی مزاج م حول اور طرز حی ت ج نتے ہوءے
بھی لمح تخ ی ک اندازہ کرن ممکن نہیں۔
ش رح ش عر کے ح لات وغیرہ ک پ بند نہیں۔ دانست ی ن دانست
اپنے ح لات کی نم ءندگی کر ج ت ہے۔
ایک ہی عہد کی زب ن ت ہییمی حوال سے ایک نہیں ہوتی۔
ل ظ ج مد شے نہیں ہیں اس لیے ان کے سکے بند م ہی ک
ت ین ممکن ہی نہیں۔
21
امرج کے حوال سے ل ظوں ک ک چر بدلت رہت ۔
ہر ک چر بےشم ر منی ک چرز سے استوار ہوت ہے۔
ل ظ است م ل کرنے والے کی انگ ی پکڑت ہے۔
جذب پ زنجیر نہیں ہو سکت ۔ اسی لیے ش عری میں علاامتوں
است روں اش روں کن ءوں ک بکثرت است م ل م ت ہے۔
ہر ک چر کی مخصوصی ت اس ک چر کے تن ظر میں تبدیل ہوتی
ہیں۔ مہ جر روایت کو وہ ں کی مخصوصی ت کی پیروی کرن پڑتی
ہے بصورت دیگر اسے رخصت ہون پڑت ہے۔
غرض ایسی بہت سی چیزیں جن کے حوال سے کسی ش ر کی
پکی پیڈی تشریع کوئ آس ن اور س دہ ک نہیں۔ میں یہ ں ظ ر
:کے دو س دہ سے ش ر پیش کرت ہوں
22
ب ت کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو ن تھی
جیسی ا ہے تری مح ل کبھی ایسی تو ن تھی
چش ق تل مری دشمن تھی ہمیش لیکن
جیسی ا ہو گئ ق تل کبھی ایسی تو ن تھی
ل ظ ادھر ادھر ہو گیے ہوں تو بوڑھ سمجھ کر م ف فرم دیں۔
بڑے ہی روم ن پرور ش ر ہیں۔ جس ع ش ک محبو من پھیر
گی ہو بلاشب اس کے دل ودم کی نم ءندگی کرتے ہیں۔
کے سی سی ح لات کے تن ظر میں دیکھیں تو م ہی
کچھ کے کچھ ہو ج ءیں گے۔ م تمد خ ص اور رابط ءک ر کے
رویے کے حوال سے دیکھیں' م ہی یکسر بدل ج ءیں گے۔
مرزا غ ل ک وجود تو اس عہد میں نظر آت ہے لیکن فکری
حوال سے فردا کے شخص تھے۔ ایٹ ب تو کل پرسوں ایج د ہوا
میں دے دی تھ ۔ علام غ ل نے اس ک نظری غ لب
ح لی ن صرف ص ح ع ودانش ہیں‘ غ ل کے قریی بھی تھے۔
غ ل فہمی کی ب ق ءدہ روایت بھی ان ہی سے شروع ہوئ۔ اس
23
حقیقت کے ب وجود ی دگ ر غ ل کو ت ہیمی حوال سے حرف
آخر نہیں قرار دی سکت ۔ ان ح لات کے تن ظر میں مجھ بےچ رے
سے غ ل فہمی کی توقع ن دانی اور محض ن دانی ہو گی۔ ت ہ
اپن خی ل عرض کرنے کی جس رت کر رہ ہوں۔
موت ک ایک دن م ین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
س دہ بی نی کے حوال سے لاجوا ش ر ہے۔ ایس کوئ ل ظ
موجود نہیں جس کے لیے لغت ک سہ را لاز ٹھہرت ہو۔ لیکن
اس ش ر کی ت ہی اتنی س دہ اور آس ن نہیں۔
س دہ بی نی رہی ہو ی مشکل پسندی‘ بنی دی چیز خی ل ہے ت ہ
س دہ اورع فیہ اس و ہر کسی کو خوش آت ہے۔ غ ل جیس
ب ند فکر ہر دو صورتوں میں م مولی ب ت کر ہی نہیں سکت ۔ وہ
ج بھی اور جو بھی کہے گ اوروں سے ہٹ کر کہے گ ۔ ی
اس کی فکری مجبوری ہوتی ہے۔
اس ش ر ک کی ورڈ م ین ہے۔ ج تک اس ل ظ کی ت ہی واضح
نہیں ہو ج تی ش ر کی شرح ممکن نہیں۔ ی بھی ک اس ل ظ کے
فکری ک چر تک رس ئ ایک ازلی حقیقت سے وابست ہے۔ نیند ن
24
آنے کی کئ وج ہو سکتی ہیں مثلا ڈر خوف خدش تذبذ غ
غص ن گہ نی صورت پیش آنے ک احتم ل وغیرہ۔ بلا شب موت ک
ایک دن مقرر ہے لیکن اس ت ین سے انس ن آگ ہی نہیں رکھت
اس عد آگہی کی بکل میں ڈر خوف خدش تذبذ غ غص
ن گہ نی صورت پوشیدہ ہیں۔ اہل فکر کے لیے عد آگہی سے بڑھ
کر کوئ عذا نہیں۔ حضرت ع ی سے ایک واق منسو ہے ک
وہ اس دن سکون کی نیند سوءے جس دن آپ کری نے انہیں
اپنے بستر پر سونے ک حک دی اور فرم ی صبح کو ام نتیں
لوگوں کو واپس کر دین ۔ ی ت ین‘ حتمی اور یقینی ب ت تھی ک
وہ زندہ اور سلامت اٹھیں گے۔
یہ ں ایس ت ین ہے جس کی انس ن آگہی نہیں رکھت ۔ انس ن نہیں
ج نت ک وہ صبح کو اٹھے گ ک نہیں۔ اس طرح پینڈنگ ک ہو
بھی سکیں گے ک رہ ج ءیں گے۔ رہ ج نے کی صورت وہ ک
کوئ کیوں کرے گ ۔ ب ض خ یی ک ہوتے ہیں انہیں صرف
مت ق ہی انج دے سکت ہے۔ سو گیے اور صبح اٹھن نصی ن
ہوا تو وہ ک تو لازمی اور یقینی رہ ج ءیں گے۔ نیند ن آنے کی
بنی دی وج عد آگہی ہے۔ میرے ع میں ی ب ت تھی ک میں
کو ریٹ ءر ہو ج ؤں گ اس لیے میں نے جم مئ
امور کی انج دہی میں غ ت اور کسی قس کی کوت ہی سے ک
نہیں لی ۔ میں ج نت تھ اس ت ریخ کے ب د غیر مت ہو ج ؤں گ ۔
25
غ ل کے اس ش ر میں حضرت ع ی کے کہے کی ب ذگشت
واضح طور پر سن ئ دیتی ہے۔ احب پر واضح رہے ی ت ہی
میں نے اپنی فراست کے مط ب کی ہے عین ممکن ہے اس کے
کہے کے پیچھے کوئ اور ب ت رہی ہو اس لیے اسے آخری
ت ہی ک درج نہیں دی ج سکت ۔
عزیز مکر حسنی ص ح سلا مسنون
کی خو لکھ ہے آپ نے! ش ر فہمی بج ئے خود ایک فن اور
ع ہے۔ جیس ک آپ نے اس کے مخت ف پہ وئوں ک ذکر کر کے
اس کی مشکلات کی ج ن اش رہ کی ہے ویس ہی ق ری مرزا
غ ل کے کلا کو پ ت ہے۔ یہی وج ہے ک غ ل کے کلا کی
جتنی شرحیں ا تک لکھی ج چکی ہیں اور برابر لکھی ج رہی
ہیں کسی اور ش عر کی نہیں لکھی گئیں۔ ان ک کلا ت در ت
زندگی ،ک ئن ت ،ف س ،تصوف ،عش و محبت ،دنی وغیرہ
کی حقیقت کھول کھول کر اور ب ض اوق ت رمز وکن ی میں اس
طرح بی ن کرت ہے ک ق ری کو ی خ ش لگ ج تی ہے ک آخر
اس ش ر ک مط کی ہے؟ ہم رے شہر کے نزدیک ایک شہر
میں غ ل کو سمجھنے کی خ طر چند اہل دل ہر م ہ مل بیٹھتے
26
ہیں اور اپنے اپنے طور پر اظہ ر خی ل کرتے ہیں۔ جیس ک آپ
نے فرم ی ہے کسی کی تشریح حتمی نہیں ہوتی لیکن اس طرح
کے تب دل خی ل سے سوچ کی نئی راہیں تو ضرور کھ تی ہیں
اور ی بہت اہ اور نیک ک ہے۔ آپ کی تحریر بہت دلکش اور
فکر انگیز ہے۔ مجھ کو یقین ہے ک دوست اس کو پڑھ کر غ ل
کے کلا سے مست ید ہوں گے اور اس کی ہم جہت شخصیت
اور کلا سے بہرو ور بھی ہوں گے ۔شکری ۔
سرور ع ل راز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7983.0
27
غ ل ‘ شخص ک ش عر
میرص ح ک ت اگ ے زم نے سے تھ ۔ غ ل ‘ میر ص ح کی
شخصی اور ش ری حیٹیت کو تس ی کرتے ہیں لیکن ان کے کہے
کو اگ ے زم نے ک کہ قرار دے کر ق بل تق ی د نہیں سمجھتے۔
غ ل ک کہ غ ط نہیں‘ کیوں ک غ ل ‘ شخص ک ش عر ہے۔
غ ل تک آتے آتے فکری سم جی اور ش ری ش ور میں زمین
آسم ن ک فر آ گی تھ ۔ غ ل کےدور میں مشر و مغر ایک
ہو گیے تھے۔ اس کے غرو وط وع کے زاویے اور انداز
واطوار ہی بدل گیے تھے۔ سورج غرو ہون ہی بھول گی تھ ۔
غ ل اور راق کے درمی ن ایک صدی سے زی دہ ک عرص ح ءل
ہو گی ہے۔آج ح لات اس کے دور سے قط ی مخت ف ہیں۔ سورج
نے مشر سے ط وع ہون اپنی توہین سمجھ لی ہے۔ غ ل کے
دور میں مغر چوں ک یہ ں اق مت رکھت تھ اس لیے کچھ ن
کچھ روشنی بخش رہ تھ ۔ ا یہ ں اس کے سی ہ اور گندمی
نم ءدے وقت کی ڈور پر ہ تھ رکھے ہوءے ہیں اس لیے جگنو
بھی ج پ ن کے مض ف ت میں ج بسے ہیں اور ان کے واپسی کے
ارادے قط ی مشکوک ہو گیے ہیں۔ اس لیے غ ل کےعہد ک کہ
ہم رے لیے بےک ر اور لای نی ہو گی ہے۔ ہ زندگی کے اصول
مرت کرتے وقت غ ل کے عہد کو پیم ن نہیں بن سکتے۔
28
غ ل کے عہد میں زندگی سے مت اصطلاح ت کی ت ہی اس
عہد سے مخصوص تھی۔ مثلا کسی شخص کو ج ن سے م ر
دینے والا ق تل ج ک ج ن سے ہ تھ دھونے والا مقتول کہلات
تھ اور ی دونوں اصطلاح ت برصغیر کے ہر گوشے میں ایک
سے م نی رکھتی تھیں۔ ش عری میں مقتول ع ش ج ک
محبو ق تل کے لق سے م قو ہوت تھ ‘ لیکن ی دونوں
اصطلاح ت اپنے م نی بدل چکی ہیں۔ دونوں کے نظری تی ح قوں
میں ن بھی الگ الگ ہیں۔ آج کسی بھی اصطلاح کو کسی
مخصوص م حول‘ مخصوص ح لات اور مخصوص علاق کے
حوال سے م نی دیے ج تے ہیں اور ی بھی ک ل ظ اپنے م نی
ترک کر رہے ہیں۔ ل و لہج طبق تی ہو رہ ہے۔ ہر پرانی ب ت‘
اصول اور م م اپنی حیثیت اور م نویت تبدیل کر رہ ہے۔ ب ض
بے ک ر محض ہو گیے ہیں۔ ی کوئ نئ ب ت نہیں ایس ہوت آی
ہے اور ہوت رہے گ ۔ آج جو بھی پرانی ب توں اور اصولوں کے
مط ب زنگی کرنے پر مصر ہے‘ بنی د پرست ک ن پ ت ہے۔ ہر
بنی د پرست‘ دہشت گرد اچھوت اور امن دشمن سمجھ ج ت ہے۔
وہ جوتے کی نوک پر رہت ہے۔
میر ص ح اپنے عہد کے نم ءندہ ہیں۔ ان کے کلا میں‘ ان ک
29
عہد بولت ہے اس لیے میر ص ح کے کلا کے مط ل کے
لیے‘ جہ ں ان کے ذاتی ح لات سے آگہی ضروری ہے‘ وہ ں ان
کے عہد ک مط ل بھی لاز قرار پ ت تھ ۔ است د غ ل کے ہ ں
بھی ان کے عہد کی عک سی م تی ہے۔ ت ہ است د غ ل اور میر
ص ح میں بنی دی فر ی ہے ک است د غ ل محمد تغ کی
طرح اپنے عہد سے ب ہر کے بھی شخص ہیں۔ انھوں نے دو چ ر
صدی ں پہ ے جن لے لی ۔ اس حوال سے ان کے کلا کو آج کے
تن ظر میں دیکھ لی ج ءے‘ تو غ ط ن ہو گ ۔ اٹ ب تو بڑی ب د
کی ایج د ہے‘ اسٹی انجن بھی ب د میں ایج د ہوا‘ غ ل اس ک
آیڈی ک فی پہ ے دے چکے تھے۔ کوئ ب ت مس سل چ تی رہے‘
تو وہ فطرت ث نی بن ج تی ہے۔ شخصی کی ‘ اس ک اطلا
سوس ءٹی پر بھی ہوت ہے۔ است د غ ل نے اس ن سی تی مس ے
ک اظہ ر تو بہت پہ ے کر دی تھ ۔ اگر ہ است د غ ل کی کسی کہی
کو‘ آج کے حوال سے لیتے ہیں‘ تو ی ایسی غ ط ب ت ن ہو گی۔
است د غ ل شخص کے ش عر ہیں۔ شخص صرف دلی ہی میں
نہیں اق مت رکھت ۔ اس لیے‘ غ ل کو مک نی ش عر بھی نہیں کہ
ی سمجھ ج سکت ۔ غ ل نے کبھی سر ف پ سڈنی ک ن بھی
نہیں سن ہوگ ۔ ولی ورڑز ورتھ ک یہ ں شہرہ بڑی ب د کی ب ت
ہے۔ شی ی اور گوءٹے‘ اس وقت ک تھے۔ ج ن کیٹس کی
غ ل کے فرشتوں کو ‘ a fine excessم روف اصطلاح
30
بھی م و نہیں ہو گی‘ زرا غ ل کی زب ن کو بڑے کینوس پر
رکھ کر غور کریں‘ تو ی لوگ اس کے قری کے لوگ ہیں۔
امریک کے ہنری لانگ فی و اور ایم ی ڈکنسن اس کےمزاج کے
لوگ نہیں ہیں‘ لیکن ب ض چیزوں ک اشترا ق بل حیرت ہے۔
ش رل بودلیءر اور غ ل کئ م لات میں‘ ہ مزاج محسوس
ہوتے ہیں۔اسی طرح میں غور کر رہ تھ اوشو اور فینگ سیو
فینگ بھی فکری قربت کے ح مل ہیں۔
اقب ل‘ غ ل کے ب د ک ش عر ہے۔ شکوہ اس کی م روف نظ
ہے۔غ ل نے اس ک کہ دو مصرعوں میں کہ دی تھ ۔ لگت ہے‘
ی نظ ان کے اس ش ر کی خوبصورت تشریح ہے۔ غور
فرم ءیں گے تو عظی صوفی ش عر ش ہ حسین لاہوری کے کہے
کی ب زگشت است د غ ل کے ہ ں سن ئ دے گی۔
کہنے ک مقصد ی ہے ک است د غ ل کے کلا ک مط ل ‘
مخصوص زم نی و مک نی حوال سے کرن ‘ ک ر گر ث بت نہیں ہو
سکت ۔ کوئ جہ ں بھی ہے‘ اسے اپنے حوال سے دیکھے‘ غ ل
م یوس نہیں کرے گ ۔ است د غ ل ک مط ل ‘ گوی شخص ک
مط ل ہے۔ شخص بھی ایس ‘ جو مخصوص زم ن و مک ن ک
پندی نہیں۔ است د غ ل شر و غر کے ش عر ہونے کے س تھ
31
س تھ صرف گزرے کل کے ش عر نہیں ہیں‘ وہ گزرتے آج کے
ش عر بھی ہیں۔
زندگی ہر حواال سے سنجیدہ ہی نہیں پچیدہ عمل بھی ہے۔ اس
کی ایک کروٹ سوچ کو کہیں ک کہیں لا کھڑا کرتی ہے۔ یہی
نہیں‘ ہر لمح کروٹ لین ‘ زندگی ک چ ن اور وتیرہ ہے۔ ایسے
میں مستقل نوعیت کی ب ت کرن ‘ حیرت کدے میں لے ج تی ہے۔
زندگی کے کسی ایک حوالے اور ایک رویے سے آگہی کے لیے
صدی ں درک ر ہوتی ہیں۔ غ ل کے لیے ی س بچوں ک کھیل
ہے۔ دونوں جہ ں لے کر مذید کی توقع‘ انس نی ن سی ت ک
خصوصی پہ و ہے۔ ی بھی ک ‘ ی ٹھہراؤ کے عمل پر گہری
چوٹ کے مترادف ہے۔ است د غ ل کے ق ری پر لاز آت ہے‘ ک
وہ اس کی زب ن کو آف قی کینوس پر رکھ کر‘ م ہی دری فت
کرے‘ ورن غ ل ک کہ ‘ ہ تھ سے پھسل پھسل ج ءے گ ۔
32
غ ل کی ف رسی میں اردو ش عری
غ ل کے عہد میں ف رسی ک پت ک ٹ ج چک تھ اور وہ ایک
غیر موثر طبقے میں اپنی زندگی کی آخری س نسیں گن رہی تھی۔
غ ل اس حقیقت کو پوری طرح محسوس کر رہے تھے۔ انہیں
ف رسی سے بے پن ہ ال ت تھی۔ انہیں اس امر ک احس س ہو گی
تھ ک آنے والا وقت ف رسی کو بھول ج ئے گ ۔ یہی وج ہے ک
اسے اردو دان طبقے میں زندہ رکھنے کے لئے اپنی اردو
ش عری میں مخت ف حربے اور طریقے است م ل کرتے ہیں۔
گزرے کل کی اردو میں ف رسی اس لئے زندہ ہے ک وہ ف رسی
ک دور تھ ۔ غ ل کی اردو ش عری میں ف رسی اس لئے زندہ ہے
ک لوگوں میں کچھ ف رسی ک ذو ب قی رہے۔ ان کے ہ ں ،جو
:حربے است م ل ہوئے ہیں ان میں سے کچھ ی ہیں
الف۔ ف رسی اش ر میں اردو کے ال ظ ش مل کر دیتے ہیں۔
۔ بہت سے مصرعے ف رسی میں ہوتے ہیں۔
ج۔ ال ظ ف رسی ہوتے ہیں ،اس و تک اردو ہوت ہے۔
د۔ ال ظ اردو ہوتے ہیں لیکن بندش ف رسی ہوتی ہے۔
ھ۔ ف رسی کے مخصوص ال ظ اردو میں ف رسی م ہی کے س تھ
لے آئے ہیں۔
33
و۔ ف رسی مرک توصی ی مخصوص ،بول ،مخصوص اس ف عل
اور مص در مخت ف طریقوں سے اردو میں نظ کر دیتے ہیں۔
درج ب لا م روض ت کی سند میں غ ل کی اردو ش عری میں سے
:چند مث لیں بطور نمون پیش کر رہ ہوں
ک ت افسردگی کو عیش بے ت بی حرا
ورن دنداں در دل افشر دن بن ئے خندہ ہے
پورا ش ر ف رسی میں ہے۔ صرف ’’کو‘‘ اور ’’ہے‘‘کو بدلنے
ضرورت ہے۔
ک ت افسردگی را عیش بے ت بی حرا
ورن دندان دردل افشردن بن ئے خندہ ہست
ش رکی بنی دی خصوصیت اس ک مضمون ہے۔ی مضمون کسی
مخصوص ک چر تک محدود نہیں۔ سچ ئی یہی ہے ک بے ت بی
میں حرکت بڑھ ج تی ہے اور سوچ جمود ک شک ر نہیں ہوت
جبک افسردگی حرکت کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ مثل مشہور
ہے دکھ کے ب د سکھ میسر آت ہے۔ ش ر کے بیشتر ال ظ اردو
میں رواج ع رکھتے ہیں۔ افسردگی ،عیش ،بے ت بی ،ورن
،دل ،خندہ ،دندان۔ غ ل اس حقیقت کو کیش کروا رہے ہیں۔ ی
ف رسی ش ربھی بلا تر دد اردو کے کھ تے میں ڈال رہے ہیں۔
ی طوف ن گ ہ جوش اضطرا ش تنہ ئی
34
ش ع آفت صبح محشر ت ر بستر ہے
ل ظ ’’ہے‘‘ کی جگ ’’ہست ‘‘رکھ دیں ش ر ف رسی میں ہو ج ئے
گ ۔ دوسری طرف ی ب ت بھی درست ہے ک ش ر کے تم ال ظ
اردو میں بکثرت است م ل ہوتے ہیں۔
شم ر سج مرغو بت مشکل پسند آی
تم ش ئے بیک کف بر دن پسند آی
آی ‘‘ کی جگ ’’آمد ‘‘رکھ دیں پورا ش ر ف رسی میں ہو ج ئے ’’
گ ۔ شم ر ،مرغو ،مشکل ،پسنداور دل اردو کے لئے اجنبی
نہیں ہیں۔
غنچ ت شگ تن ہ ئے برگ ع فیت م و
ب وجود دل جم ی خوا گل پریش ن ہے
ش ر میں ’’ہے‘‘ کے سوا تم ال ظ ف رسی ہیں ت ہ اس وبی
اعتب ر سے ش ر ف رسی نہیں۔
ن لائی شوخی اندیش ت رنج نو میدی
کف افسوس م ن عہد تجدید تمن ہے
ن لائی ،م ن اور ہے کے سوا تم ال ظ ف رسی کے ہیں۔ ’’ت
ن لان ‘‘ م روف اردو مح ورہ ہے۔
ش خم ر شو س قی رستخیز اندازہ تھ
35
ت محیط ب دہ صورت خ ن خمی زہ تھ
ش ر میں ’’تھ ‘‘ کے سوا کوئی ل ظ اردو ک نہیں۔ ت ہ ش ر کے
تم ال ظ اردو کے لئے اجنبی نہیں ہیں۔
درس عنوان تم ش ب تغ فل خوش تر
ہے نگ رشت شیرازہ مثرگ ں مجھ سے
ش ر ک پہلا مصرع ف رسی میں ہے جبک دوسرے مصرعے میں
’’ہے‘‘ او ر ’’مجھ سے ‘‘غیر ف رسی ال ظ ہیں۔ ت ہ ش ر کے
جم ف رسی ال ظ اردو میں بکثرت است م ل ہوتے ہیں۔
بروئے شش جہت در آئین ب ز ہے
ی ں امتی ز ن قص و ک مل نہیں رہ
ش ر ک پہلا مصرع اس وبی اور طرز ادا کے حوال سے اردو
سے مت نہیں ہے۔
تھی نو آموز فن ہمت دشوار پسند
سخت مشکل ہے ی ک بھی آس ں نکلا
ش ر ک پہلا مصرع مکمل ف رسی میں ہے جبک مصرعے کے
تم ال ظ اردو میں بکثرت است م ل ہوتے ہیں۔ نواور آموز
دونوں ،بطور س بق اور لاحق اردو میں مست مل چ ے آتے ہیں۔
36
بوئے گل ن ل دل دود چرا مح ل جو تری بز سے نکلا سو
پریش ں نکلا
ش ر ک پہلا مصرع ف رسی ہے۔
ہم ن امیدی ہم بدگم نی میں
دل ہوں فری وف خوردگ ں ک
پہلا مصرع بطرز ادا ،ف رسی ہے جبک دوسرے مصرع میں
’’فری وف خوردگ ں‘‘ ف رسی کے ال ظ ہیں۔
ہے شکستن سے بھی دل نو مید ی ر
ا ت ک آبگین کوہ پر عرض گر اں ج نی کرے
پہ ے مصرعے ک ف رسی آمیز اردو اس و ہے جبک دوسرے
مصرعے میں ’’پر‘‘ اور کرے کے سوا تم ال ظ ف رسی ہیں
ت ہ اس و تک ف رسی نہیں ۔
ک نہیں ن زش ہمت ئی چش خوب ں
تیرا بیم ر برا کی ہے گر اچھ ن ہوا
پہ ے مصرعے میں ’’ک نہیں‘‘ کے سوا تم ال ظ ف رسی ہیں۔
دل آش تگ ں خ ل گنج دہن کے
سویدا میں سیر عد دیکھتے ہیں