The words you are searching are inside this book. To get more targeted content, please make full-text search by clicking here.

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

Discover the best professional documents and content resources in AnyFlip Document Base.
Search
Published by پنجاب اکھر, 2017-06-28 06:55:13

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

‫‪1‬‬

‫زب ن غ ل ک فکری‘ لس نی تی و انضب تی مط ل‬
‫مقصود حسنی‬

‫‪2‬‬

‫مندرج ت‬

‫ش ر غ ل اور میری خی ل آرائی‬
‫غ ل ک عصری ط قت کے ب رے اظہ ر خی ل‬

‫غ ل اور جنت کی خوش خی لی‬
‫غ ل ک ایک ش ر‬

‫غ ل ‘ شخص ک ش عر‬
‫غ ل کی ف رسی میں اردو ش عری‬
‫غ ل کے من ظر ک فکری و ن سی تی مط ل‬
‫غ ل کے امرج سے مت ال ظ کی تہذیبی حیثیت‬
‫غ ل کے کرداروں ک ن سی تی مط ل‬
‫غ ل تراج کے اردو ک لس نی ج ئزہ‬
‫اصطلاح ت غ ل کے اصطلاحی م ہی‬
‫غ ل کے ہ ں مہ جر اور مہ جر نم ال ظ کے است م ل ک س یق‬
‫غ ل کے ہ ں بدیسی ال ظ کو اردو انے کے چند اصول‬
‫غ ل کے ’’ال‘‘ سے ترکی پ نے والے ال ظ ک ت ہیمی مط ل‬

‫‪3‬‬

‫است دغ ل کے چند س بقے اور لاحقے‬
‫غ ل کے مرکب ت اور ان کی ادبی حیثیت‬

‫غ ل ایک عظی مح ک تکر‬
‫پروفیسر سوامی را تیرتھ کی غ ل طرازی‬

‫‪4‬‬

‫ش ر غ ل اور میری خی ل آرائی‬

‫کسی م م ے ی مس ے کے واضح ن ہونے کی صورت میں‬
‫تذبذ کی کی یت تک یف دہ ہوتی ہے اور کسی غ ط اقدا کو ب ید‬
‫از قی س قرار نہیں دی ج سکت ۔ ایسی ح لت میں ردعمل‘ جوابی‬

‫ک روائ‘ بچ ؤ ی تدبیر کے حوال سے غ ط بھی ہو سکت ہے‬
‫لیکن ی قط ی اور ضروری نہیں۔ ج م م واضح ہو تو تذبذ‬
‫کی ح لت ی کی یت پیدا ہون مجبوری اور جبر کے کھ تے میں آ‬
‫ج ت ہے۔ جبر اور مجبوری کے ک درست نہیں ہوتے۔ اس میں‬

‫خ وص رجح ن لگ ؤ کمٹمنٹ اور ذہنی ت داری نہیں ہوتی۔‬
‫ب ک ب طنی سطع پر ن رت پنہ ں ہوتی ہے۔ پریشر ی مجبوری‬
‫خت ہونے پر ردعمل سخت نوعیت ک ہوت ہے اور ن رت صدیوں‬
‫تک چ تی ہے۔ پہ ی نسل ک ب طن س بق پر برقرار رہت ہے پہ ی‬
‫نسل کے خت ہو ج نے کی صورت میں دوسری نسل پکی پکی‬
‫اختی ری کی ہو کر رہ ج تی ہے۔ ہندوست ن میں اس کی سیکڑوں‬
‫مث لیں مل ج ءیں گی۔ انگریز ج ہندوست ن میں وارد ہوا ج ن کی‬
‫سلامتی کے لیے بہت سے لوگوں نے عیس ئ مذہ اخت ر کر لی ۔‬
‫چرچ نے بھی بھرپور کردار ادا کی ۔ ی اختی ری م م کئ نس وں‬
‫تک چلا۔ آج ان کی نس یں دل و ج ن سے اختی ری کی ہو گئ ہیں۔‬

‫کسی مذہ نظری طور ی ک چر کے غ ط ی سہی ہونے سے‬
‫میرے موضوع ک سرے سے کوئ لین دین نہیں کیونک ی‬

‫‪5‬‬

‫م م انگریز تک محدود نہیں ی م م تو پہ ے سے ب ک‬
‫ہمیش سے ہوت چلا آ رہ ہے۔ میں یہ ں تذبذ کی ک رفرم ئ کو‬

‫واضح کرن چ ہت ہوں۔‬

‫تذبذ کے سب بے چینی اور پیدا ہوتی ہے۔ گھٹن ذہ نت اور‬
‫گزاری کی دشمن ہے۔ غ ل ک ی ش ر اسی ب ت کو واضع کرت‬

‫‪:‬ہے‬

‫ایم ں مجھے روکے ہے‘جو کھینچے ہے مجھے ک ر‬

‫ک ب مرے پیچھے ہے‘ ک یس ‘ مرے آگے‬

‫دل اور ضمیر کی آواز۔‬ ‫ایم ں مجھے روکے ہے‬

‫جو کھینچے ہے مجھے ک ر چبر اور عصری صوت ح ل‘‬
‫عصری صورت کو دل دم اور ضمیر ک ر سمجھ رہ ییں۔‬

‫ک ب ‪ :‬م ضی اور نظری تی ورث ۔‬

‫ک یس ‘ مرے آگے عصری جبر کے حوال سے موجودہ پوزیشن‬

‫موجودہ پوزیشن‬

‫گوی‬

‫ن ج ئے م ندن ن پ ئے رفتن‬

‫آخر کریں تو کی کریں۔ انگریز کے تس ط کے ب د یہی صورت‬
‫ح ل تھی۔‬

‫‪6‬‬

‫آج بھی برصغیر میں ن ہنس ن بٹیر کثرت سے دستی ہیں۔ ی‬
‫میری خی ل آرائی ہے ہو سکت ہے غ ل کے کہنے ک مط اور‬

‫مقصد کوئی اور رہ ہو۔‬

‫‪7‬‬

‫ش ر غ ل اور میری خی ل آرائی‬

‫کسی م م ے ی مس ے کے واضح ن ہونے کی صورت میں‬
‫تذبذ کی کی یت تک یف دہ ہوتی ہے اور کسی غ ط اقدا کو ب ید‬
‫از قی س قرار نہیں دی ج سکت ۔ ایسی ح لت میں ردعمل‘ جوابی‬

‫ک روائ‘ بچ ؤ ی تدبیر کے حوال سے غ ط بھی ہو سکت ہے‬
‫لیکن ی قط ی اور ضروری نہیں۔ ج م م واضح ہو تو تذبذ‬
‫کی ح لت ی کی یت پیدا ہون مجبوری اور جبر کے کھ تے میں آ‬
‫ج ت ہے۔ جبر اور مجبوری کے ک درست نہیں ہوتے۔ اس میں‬

‫خ وص رجح ن لگ ؤ کمٹمنٹ اور ذہنی ت داری نہیں ہوتی۔‬
‫ب ک ب طنی سطع پر ن رت پنہ ں ہوتی ہے۔ پریشر ی مجبوری‬
‫خت ہونے پر ردعمل سخت نوعیت ک ہوت ہے اور ن رت صدیوں‬
‫تک چ تی ہے۔ پہ ی نسل ک ب طن س بق پر برقرار رہت ہے پہ ی‬
‫نسل کے خت ہو ج نے کی صورت میں دوسری نسل پکی پکی‬
‫اختی ری کی ہو کر رہ ج تی ہے۔ ہندوست ن میں اس کی سیکڑوں‬
‫مث لیں مل ج ءیں گی۔ انگریز ج ہندوست ن میں وارد ہوا ج ن کی‬
‫سلامتی کے لیے بہت سے لوگوں نے عیس ئ مذہ اخت ر کر لی ۔‬
‫چرچ نے بھی بھرپور کردار ادا کی ۔ ی اختی ری م م کئ نس وں‬
‫تک چلا۔ آج ان کی نس یں دل و ج ن سے اختی ری کی ہو گئ ہیں۔‬

‫کسی مذہ نظری طور ی ک چر کے غ ط ی سہی ہونے سے‬
‫میرے موضوع ک سرے سے کوئ لین دین نہیں کیونک ی‬

‫‪8‬‬

‫م م انگریز تک محدود نہیں ی م م تو پہ ے سے ب ک‬
‫ہمیش سے ہوت چلا آ رہ ہے۔ میں یہ ں تذبذ کی ک رفرم ئ کو‬

‫واضح کرن چ ہت ہوں۔‬

‫تذبذ کے سب بے چینی اور پیدا ہوتی ہے۔ گھٹن ذہ نت اور‬
‫گزاری کی دشمن ہے۔ غ ل ک ی ش ر اسی ب ت کو واضع کرت‬

‫‪:‬ہے‬

‫ایم ں مجھے روکے ہے‘جو کھینچے ہے مجھے ک ر‬

‫ک ب مرے پیچھے ہے‘ ک یس ‘ مرے آگے‬

‫دل اور ضمیر کی آواز۔‬ ‫ایم ں مجھے روکے ہے‬

‫جو کھینچے ہے مجھے ک ر جبر اور عصری صوت ح ل‘‬
‫عصری صورت کو دل دم اور ضمیر ک ر سمجھ رہ ییں۔‬

‫ک ب ‪ :‬م ضی اور نظری تی ورث ۔‬

‫ک یس ‘ مرے آگے عصری جبر کے حوال سے موجودہ پوزیشن‬

‫موجودہ پوزیشن‬

‫گوی‬

‫ن ج ئے م ندن ن پ ئے رفتن‬

‫‪9‬‬

‫آخر کریں تو کی کریں۔ انگریز کے تس ط کے ب د یہی صورت‬
‫ح ل تھی۔‬

‫آج بھی برصغیر میں ن ہنس ن بٹیر کثرت سے دستی ہیں۔ ی‬
‫میری خی ل آرائی ہے ہو سکت ہے غ ل کے کہنے ک مط اور‬

‫مقصد کوئی اور رہ ہو۔‬

‫‪10‬‬

‫عزیز مکر حسنی ص ح ‪ :‬سلا مسنون‬
‫غ ل کے کلا پر آپ کی خی ل آرائی دیکھی جو دلچسپ ہے۔‬
‫م و نہیں ک غری غ ل کے کلا پر طرح طرح کی خی ل‬
‫آرائی ں کیوں کی گئی ہیں۔ ایسی خی ل آرائی ں کسی اور کے کلا‬

‫پر نہیں ہوئی ہیں۔ میرے پ س غ ل کے مخت ف اش ر کی‬
‫تشریح خمسوں کی شکل میں موجود ہے ۔پڑھنے سے ت‬
‫رکھتی ہے اور ش ید یہ ں بھی پیش کی ج چکی ہے۔ آپ کے‬
‫خی لات دلچسپ ہیں لیکن حقیقت سے ان ک کتن ت ہے؟ واللہ‬

‫اع ۔‬

‫سرور ع ل راز‬

‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7998.0‬‬

‫‪11‬‬

‫غ ل ک عصری ط قت کے ب رے اظہ ر خی ل‬

‫ط قت اپنی ذات میں اٹل اور حرف آخر ہوتی ہے۔ وہ کسی کے‬
‫س منے جوابدہ نہیں ہوتی۔ اس کے کہے اور کیے کو آءین ک‬
‫درج ح صل ہوت ۔ اس کی ع مداری میں آنے والی ہر شے اور ہر‬
‫ذی ن س اس ک ت بع اور اس کے حضور جوا دہ ہوت ہے۔ کسی‬
‫کو اس کے کہے اور کیے پر ل کش ئ کی اج زت نہیں۔ اس کے‬
‫ظ وست پر جءے جءے ک ر کرنے والی زب نیں ہی سلامت رہتی‬
‫ہیں۔ تنی گردنیں کٹ کر اس کے جوتوں کی ٹھوکر میں ہوتی ہیں۔‬

‫م فی درگزر صبر کی دولت سے وہ محرو ہوتی ہے۔‬

‫اللہ کی غیر ت بع ط قت کے مت خوش کن ک مے اس عہد کی‬
‫جی حضؤری کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ انہیں محض افس نوی‬
‫ادد سے زی دہ کچھ نہیں کہ ج سکت ۔ بے سری بے مہ ری اور‬
‫غیرت بع ط قت ک سوچ اپنی ذات سے ب ہر نہیں نک ت ۔ وہ اوروں‬

‫کے لیے نہیں سوچتی اور دوسرے اس کے اہداف اور‬
‫ترجی ح ت میں نہیں ہوتے۔ ان کی حیثیت لیبر بیز سے زی دہ‬
‫نہیں ہوتی ان کی زندگی اور موت اسی کے لیے ہوتی ہے۔ یہی‬
‫وج ہے ک اللہ کی غیر ت بع ط قت ق ء ب ذات نہیں ہوتی۔ نس وں‬

‫کے ب د سہی زوال ک شک ر ہو ج تی ہے۔‬

‫‪12‬‬

‫ش عر کے پ س علامتیں است رے اش رے اور کن ءیے ہوتے‬
‫ہیں۔ وہ ان کے سہ رے اپنے عہد کے م ملات ک اظہ ر کر دیت‬
‫ہے۔ غزل ک ش عر محبو ک ن لے کر ط قت کے رویے طور‬

‫اور وتیرے ک کھل کر اظہ ر کر دیت ہے۔ اس کے پ س ی بڑا‬
‫ک رگر اور زبردست ہھتی ر ہے۔ اگر کسی عہد کی اص ی اور‬

‫حقیقی صورت دیکھن ہو تو ش عری ک پوری توج سے مط ل‬
‫کی ج ءے۔ دودھ ک دودھ پ نی س منے آ ج ءے گ ۔ ش عر کے‬

‫مت کہ ج ت ہے ک وہ مب لغ کرت ہے لیکن اس ک مب لغ‬
‫مورخ سے ٹن ٹء ک ہوت ہے۔ غ ل دنی ءے ش ر واد میں‬
‫اپن الگ سے مق رکھتے ہیں۔ ان کی غزل میں سو سے زی دہ‬
‫ش ر اس عہد کی ت ریخ ک درج رکھتے ہیں۔ ظ ر کی ش عری‬
‫گذشت کی ش عری ہے لیکن غ ل کی ش عری ب ل سے ب ریک‬
‫اور ت وار سے تیز دھ ر کی ش عری ہے۔ ی بھی ک اسے ب ت‬

‫کرنے ک ڈھنگ اور س یق آت ہے۔‬

‫ط قت کے ب رے میں نے جو عرض کی اس کی سند میں غ ل ک‬
‫‪:‬ی ش ر ملاحظ ہو‬

‫ب ت پر واں زب ن کٹتی ہے وہ کہیں اور سن کرے کوئ‬
‫واں وہ اور کوئ ق بل توج ہیں۔ اس سے اگلا ش ر دیکھیں کس‬

‫‪13‬‬

‫‪:‬طرح پ نترا بدلا ہے‬

‫کچھ ن سمجھے خدا کرے‬ ‫بک رہ ہوں جنوں میں کی کچھ‬
‫کوئ‬

‫غ ل دانست س کچھ کہ گیے ہیں اور ا لیپ پوچی کرنے کے‬
‫س تھ ی بھی ث بت کرن چ ہتے ہیں ک وہ یہی کچھ کہن چ ہتے‬
‫ہیں۔ اس ذیل میں جنوں کی قب اوڑھ رہے ہیں۔ وہ پورے ہوش‬
‫میں ہیں اور جو لکھ رہے ہیں پوری ذم داری سے لکھ رہے‬
‫ہیں۔ پوری غزل کو دیکھ لیں اس عہد کی سچی تصویر ہے۔‬

‫لوگوں کی ح لت زار کے تحت کئ رنگ اختی ر کرتے ہیں۔ کبھی‬
‫ن صح بنتے تو ہیں کبھی مولوی تو کہیں مورخ۔ ترغی اور‬
‫بغ وت جوابی ک روائ کی ت قین بھی م تی ہے۔ حضور کری کی‬
‫حدیث کو کوڈ کرتے ہیں۔‬

‫پہلا ش ر اور آخری ش ر ق ری کی خصوصی توج چ ہت ہے۔‬
‫شک و شب کی کسی سطع پر گنج ءش ہی نہیں رہتی۔‬

‫ابن مری ہوا کرے کوئ میرے دکھ کی دوا کرے کوئ‬

‫مرض نہیں‘ دکھ۔ دونوں میں زمین آسم ن ک فر ہے۔۔ ا‬
‫‪:‬آخری ش ر ملاحظ ہو‬

‫ج توقع‘ اٹھ گئ غ ل کیوں کسی ک گ کرے کوئ‬

‫‪14‬‬

‫دیسی ط قت کی موت ک کھلا اعلان ہے۔ اس میں مجموعی آپسی‬
‫ح لات اور ت ق ت ک تذکرہ بھی ہے۔ اس عہد کے مجموعی‬

‫رویے اور طور وانداز کی بھی نش ندہی م تی ہے۔ غیر متوازن‬
‫منتشر اور ذات تک محدود شخصی چ ن کو اس سے بڑھ کر‬

‫کھ ے انداز میں واضع نہیں کی ج سکت ۔ غزل ک ہر ش ر عد‬
‫آسودگی اور بےسکونی کی تصویر ہے ورن غ ل کوئ مص ح‬
‫اور عم ی پیر ی صوفی ن تھے۔ تصوف کے اش ر مل ج نے کی‬

‫وج سے انہیں خواج درد کی طرح ک صوفی قرار نہیں دی‬
‫سکت ۔ میرے خی ل میں اس غزل کے چوتھے ش ر اور مجموعی‬

‫تشریح یہی بنتی ہے ت ہ میرا خی ل حرف آخر ک درج نہیں‬
‫رکھت ۔‬

‫‪15‬‬

‫غ ل اور جنت کی خوش خی لی‬

‫غ ل آزاد خی ل تھے ی حقیقیت ہر شک سے ب لاتر ہے۔ ہر فرق‬
‫ہر مس ک اور ہر مذہ سے مت لوگ ان کے ح ق ءاحب میں‬

‫داخل تھے۔ کسی قس کی ت ری وامتی ز کے بغیر پیش آتے‬
‫تھے۔ ی س اپنی جگ ان کی مس م نی پر شک کرن بہت بڑی‬

‫زی دتی ہو گی۔ گنہگ ر ہون اور مذہ ی مذہ کے کسی حص‬
‫سے انحراف‘ دو الگ ب تیں ہیں۔‬

‫‪:‬اپنے کہے کی سند میں کچھ ب تیں عرض کرت ہوں‬

‫۔ غ ل نجف اور حرمین ج نے کی شدت سے خواہش رکھتے‬
‫تھے۔ اس امر ک اظہ ر مختف جگہوں پر م ت ہے۔ سند میں غ ل‬

‫‪:‬ک ی ش ر ملاحظ فرم ءیں‬
‫مقطع س س ءشو نہیں ہے ی شہر‬
‫عز سیر نجف و طوف حر ہے ہ کو‬

‫۔ بہ در ش ہ ظ ر نے ج حج کرنے ک قصد کی تو غ ل نے‬

‫‪16‬‬

‫‪:‬بھی س تھ ج نے کی خواہش کی۔ سند میں ی ش ر ملاحظ ہو‬
‫غ ل ! اگر اس س ر میں مجھے س تھ لے چ یں‬
‫حج ک ثوا نذر کروں گ حضور کی‬

‫۔ ان کی پوری زندگی میں ایس کوئ واق نہیں م ت جس سے‬
‫اسلا سے انحراف واضح ہوت ہو۔ ان کی زب ن سے نکلا کوئ‬
‫ل ظ بھی ریک رذ میں نہیں م ت جس سے اسلا سے پھرنے ی‬
‫اس ذیل میں انحراف ک پہ و س منے آت ہو۔‬

‫ل ظ ج کسی دوسری زب ن میں مہ جرت اختی ر کرتے ہیں تو وہ‬
‫اپنی اصل زب ن ک ک چر وغیرہ برقرار نہیں رکھ پ تے۔ ل ظ حور‬
‫عربی ہے‘ ی عربی میں جمع ہے اور جنت کی عورت کے لیے‬

‫است م ل کی ج ت ہے۔ اردو میں ی واحد استغم ل ہوت ہے اور اس‬
‫سے مراد خوبصورت عورت لی ج تی ہے۔ ایک ہی کی ہزاروں‬

‫ل ظ دوسری زب نوں میں ج کر م ہی است م ل ت ظ ہیءت وغیرہ‬
‫کھو دیتے ہیں۔ وٹران و سپٹران کس انگریزی کے ل ظ ہیں۔ ل ظ‬

‫ہند کے عربی ف رسی اور اردو م ہی قط ی الگ سے ہیں۔‬
‫ہونس و کس عربی ک ہے۔ فرم یے عینک کس زب ن ک ل ظ ہے۔‬

‫ی عین اور نک سے ترکی پ ی ہے۔ ق ی کوئ ل ظ ہی نہیں‬

‫‪17‬‬

‫لیکن مست مل ہے۔ ت ب دار کو غ ط سمجھ ج ت ہے۔ اپنی حقیقت‬
‫میں غ ط نہیں۔ میں اس ذیل میں کئ مث لیں دے سکت ہوں۔‬

‫قرآن مجید ک ہر ل ظ‘ اس پر ایم ن رکھنے والوں کے لیے ہر‬
‫‪:‬شک سے ب لا ہے تو پھر غ ل کس طرح کہتے ہیں‬

‫ہ کو م و ہے جنت کی حقیت لیکن‬
‫دل کے خوش رکھنے کو غ ل ی خی ل اچھ ہے‬

‫قرآن میں جنت کے حوال سے جو بھی کہ گی ہے‘ واضح کہ‬
‫گی ہے۔ کسی سطع پر ابہ پیدا نہیں ہوت ۔ ج ابہ نہیں تو‬
‫غ ل اس طرح کی ب تیں کیوں کرتے ہیں۔ غ ل کی مس م نی‬
‫مشکوک نہیں۔ آدھی مس م نی بھی اس طرح کی ب تیں نہیں‬
‫کرتی۔‬

‫ک ہے‬ ‫ی قرآن مجید والی جنت مراد نہیں۔ ی ش ر غ لب‬

‫اور ی دور ش ہ ع ل ٹ نی ک ہے۔ ش ہ ع ل ث نی ش عر تھ اور‬

‫آفت تخ ص کرت تھ ۔ اس عہد کے ش را‘ خود آفت کے ہ ں‬

‫‪18‬‬

‫ل ظ جنت کئ م نوں میں ب ندھ گی ہے۔ غ ل کے ہ ں ان‬
‫‪:‬م روض ت کے تن ظر میں ل ظ جنت کے م نوں دری فت کر لیں‬

‫۔ ی شدید افرات ری ک دور تھ ۔ اندرونی بیرونی قوتیں‬
‫برسرپیک ر تھیں۔ اس کے س تھ ہی اصلاح احوال کے داعی بھی‬

‫کوش ں تھے۔‬
‫لوگ امید کر رہے تھے ک ی خط پھر سے امن و سکون ک‬
‫گہوارہ بن ج ءے گ ۔ ل ظ جنت امن و سکون کے لیے است م ل‬

‫ہوت آی ہے۔‬

‫۔ مغربی تہذی اور مغر والوں کو بھی سکون اور ترقی ک‬
‫منبع سمجھ گی ہے اور ی خوش فہی آج بھی موجود ہے۔‬

‫۔برصغیر بلاشب جتت نظیر خط ارض ہے۔ وس ءل قدرت‘ مین‬
‫پ ور‘ ذہ نت‘ محنت‘ کوشش‘ موسموں وغیرہ کے حوال سے‬
‫کوئ خط اس کے جوڑ ک نہیں۔ پوری دنی کو غ سبزی ت یہ ں‬
‫سے فراہ ہوتی تھیں اور آج بھی صورت مخت ف نہیں۔ اس دور‬
‫کے ح لات میں اسے جنت نظیر کہن خوش طب ی سے زی دہ ب ت‬

‫ن تھی۔‬

‫‪19‬‬

‫۔ اہل صوف کے ہ ں جنت کے م نی الگ سے ہیں۔ ح لات سے‬
‫تنگ ہو کر لوگ دنی تی گنے پر مجبور ہو گءے تھے۔ گوی‬
‫تصوف کی آغوش ہی ب قی رہ گئ تھی۔‬

‫درج ب لا م روض ت کی روشنی میں اندازہ لگ ی ج سکت ہے ک‬
‫غ ل اپنے اس ش ر میں کس جنت کو خوش خی لی ک ن دے‬

‫رہے ہیں۔غ ل کے ش ر کی یہی شرح بنتی ہے‘ مجھے قط‬
‫اصرار نہیں۔ ہ ں ی ممکن ہے ک ان توجہح ت کی روشنی میں‬

‫غ ل کی فکر تک رس ئ کی کوئ راہ نکل آءے۔‬

‫‪20‬‬

‫غ ل ک ایک ش ر‬

‫غ ل کی ‘ کسی بھی ش عر کے کسی بھی ش ر کی تشریع کرن‬
‫‪:‬آس ن ک نہیں۔ اس کی بنی دی کچھ وجوہ ہیں‬

‫ش ر تشریع کی چیز نہیں اس ک ت محسوس سے ہے۔‬

‫ش عر ک مجموعی مزاج م حول اور طرز حی ت ج نتے ہوءے‬
‫بھی لمح تخ ی ک اندازہ کرن ممکن نہیں۔‬

‫ش رح ش عر کے ح لات وغیرہ ک پ بند نہیں۔ دانست ی ن دانست‬
‫اپنے ح لات کی نم ءندگی کر ج ت ہے۔‬

‫ایک ہی عہد کی زب ن ت ہییمی حوال سے ایک نہیں ہوتی۔‬

‫ل ظ ج مد شے نہیں ہیں اس لیے ان کے سکے بند م ہی ک‬
‫ت ین ممکن ہی نہیں۔‬

‫‪21‬‬

‫امرج کے حوال سے ل ظوں ک ک چر بدلت رہت ۔‬

‫ہر ک چر بےشم ر منی ک چرز سے استوار ہوت ہے۔‬

‫ل ظ است م ل کرنے والے کی انگ ی پکڑت ہے۔‬

‫جذب پ زنجیر نہیں ہو سکت ۔ اسی لیے ش عری میں علاامتوں‬
‫است روں اش روں کن ءوں ک بکثرت است م ل م ت ہے۔‬

‫ہر ک چر کی مخصوصی ت اس ک چر کے تن ظر میں تبدیل ہوتی‬
‫ہیں۔ مہ جر روایت کو وہ ں کی مخصوصی ت کی پیروی کرن پڑتی‬

‫ہے بصورت دیگر اسے رخصت ہون پڑت ہے۔‬

‫غرض ایسی بہت سی چیزیں جن کے حوال سے کسی ش ر کی‬
‫پکی پیڈی تشریع کوئ آس ن اور س دہ ک نہیں۔ میں یہ ں ظ ر‬

‫‪:‬کے دو س دہ سے ش ر پیش کرت ہوں‬

‫‪22‬‬

‫ب ت کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو ن تھی‬
‫جیسی ا ہے تری مح ل کبھی ایسی تو ن تھی‬

‫چش ق تل مری دشمن تھی ہمیش لیکن‬
‫جیسی ا ہو گئ ق تل کبھی ایسی تو ن تھی‬

‫ل ظ ادھر ادھر ہو گیے ہوں تو بوڑھ سمجھ کر م ف فرم دیں۔‬
‫بڑے ہی روم ن پرور ش ر ہیں۔ جس ع ش ک محبو من پھیر‬

‫گی ہو بلاشب اس کے دل ودم کی نم ءندگی کرتے ہیں۔‬

‫کے سی سی ح لات کے تن ظر میں دیکھیں تو م ہی‬
‫کچھ کے کچھ ہو ج ءیں گے۔ م تمد خ ص اور رابط ءک ر کے‬
‫رویے کے حوال سے دیکھیں' م ہی یکسر بدل ج ءیں گے۔‬

‫مرزا غ ل ک وجود تو اس عہد میں نظر آت ہے لیکن فکری‬

‫حوال سے فردا کے شخص تھے۔ ایٹ ب تو کل پرسوں ایج د ہوا‬

‫میں دے دی تھ ۔ علام‬ ‫غ ل نے اس ک نظری غ لب‬

‫ح لی ن صرف ص ح ع ودانش ہیں‘ غ ل کے قریی بھی تھے۔‬

‫غ ل فہمی کی ب ق ءدہ روایت بھی ان ہی سے شروع ہوئ۔ اس‬

‫‪23‬‬

‫حقیقت کے ب وجود ی دگ ر غ ل کو ت ہیمی حوال سے حرف‬
‫آخر نہیں قرار دی سکت ۔ ان ح لات کے تن ظر میں مجھ بےچ رے‬

‫سے غ ل فہمی کی توقع ن دانی اور محض ن دانی ہو گی۔ ت ہ‬
‫اپن خی ل عرض کرنے کی جس رت کر رہ ہوں۔‬

‫موت ک ایک دن م ین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‬

‫س دہ بی نی کے حوال سے لاجوا ش ر ہے۔ ایس کوئ ل ظ‬
‫موجود نہیں جس کے لیے لغت ک سہ را لاز ٹھہرت ہو۔ لیکن‬

‫اس ش ر کی ت ہی اتنی س دہ اور آس ن نہیں۔‬
‫س دہ بی نی رہی ہو ی مشکل پسندی‘ بنی دی چیز خی ل ہے ت ہ‬
‫س دہ اورع فیہ اس و ہر کسی کو خوش آت ہے۔ غ ل جیس‬
‫ب ند فکر ہر دو صورتوں میں م مولی ب ت کر ہی نہیں سکت ۔ وہ‬
‫ج بھی اور جو بھی کہے گ اوروں سے ہٹ کر کہے گ ۔ ی‬

‫اس کی فکری مجبوری ہوتی ہے۔‬

‫اس ش ر ک کی ورڈ م ین ہے۔ ج تک اس ل ظ کی ت ہی واضح‬
‫نہیں ہو ج تی ش ر کی شرح ممکن نہیں۔ ی بھی ک اس ل ظ کے‬
‫فکری ک چر تک رس ئ ایک ازلی حقیقت سے وابست ہے۔ نیند ن‬

‫‪24‬‬

‫آنے کی کئ وج ہو سکتی ہیں مثلا ڈر خوف خدش تذبذ غ‬
‫غص ن گہ نی صورت پیش آنے ک احتم ل وغیرہ۔ بلا شب موت ک‬

‫ایک دن مقرر ہے لیکن اس ت ین سے انس ن آگ ہی نہیں رکھت‬
‫اس عد آگہی کی بکل میں ڈر خوف خدش تذبذ غ غص‬

‫ن گہ نی صورت پوشیدہ ہیں۔ اہل فکر کے لیے عد آگہی سے بڑھ‬
‫کر کوئ عذا نہیں۔ حضرت ع ی سے ایک واق منسو ہے ک‬

‫وہ اس دن سکون کی نیند سوءے جس دن آپ کری نے انہیں‬
‫اپنے بستر پر سونے ک حک دی اور فرم ی صبح کو ام نتیں‬
‫لوگوں کو واپس کر دین ۔ ی ت ین‘ حتمی اور یقینی ب ت تھی ک‬

‫وہ زندہ اور سلامت اٹھیں گے۔‬

‫یہ ں ایس ت ین ہے جس کی انس ن آگہی نہیں رکھت ۔ انس ن نہیں‬

‫ج نت ک وہ صبح کو اٹھے گ ک نہیں۔ اس طرح پینڈنگ ک ہو‬

‫بھی سکیں گے ک رہ ج ءیں گے۔ رہ ج نے کی صورت وہ ک‬

‫کوئ کیوں کرے گ ۔ ب ض خ یی ک ہوتے ہیں انہیں صرف‬

‫مت ق ہی انج دے سکت ہے۔ سو گیے اور صبح اٹھن نصی ن‬

‫ہوا تو وہ ک تو لازمی اور یقینی رہ ج ءیں گے۔ نیند ن آنے کی‬

‫بنی دی وج عد آگہی ہے۔ میرے ع میں ی ب ت تھی ک میں‬

‫کو ریٹ ءر ہو ج ؤں گ اس لیے میں نے جم‬ ‫مئ‬

‫امور کی انج دہی میں غ ت اور کسی قس کی کوت ہی سے ک‬

‫نہیں لی ۔ میں ج نت تھ اس ت ریخ کے ب د غیر مت ہو ج ؤں گ ۔‬

‫‪25‬‬

‫غ ل کے اس ش ر میں حضرت ع ی کے کہے کی ب ذگشت‬
‫واضح طور پر سن ئ دیتی ہے۔ احب پر واضح رہے ی ت ہی‬
‫میں نے اپنی فراست کے مط ب کی ہے عین ممکن ہے اس کے‬
‫کہے کے پیچھے کوئ اور ب ت رہی ہو اس لیے اسے آخری‬

‫ت ہی ک درج نہیں دی ج سکت ۔‬

‫عزیز مکر حسنی ص ح سلا مسنون‬

‫کی خو لکھ ہے آپ نے! ش ر فہمی بج ئے خود ایک فن اور‬
‫ع ہے۔ جیس ک آپ نے اس کے مخت ف پہ وئوں ک ذکر کر کے‬

‫اس کی مشکلات کی ج ن اش رہ کی ہے ویس ہی ق ری مرزا‬
‫غ ل کے کلا کو پ ت ہے۔ یہی وج ہے ک غ ل کے کلا کی‬
‫جتنی شرحیں ا تک لکھی ج چکی ہیں اور برابر لکھی ج رہی‬

‫ہیں کسی اور ش عر کی نہیں لکھی گئیں۔ ان ک کلا ت در ت‬
‫زندگی ‪ ،‬ک ئن ت ‪ ،‬ف س ‪ ،‬تصوف ‪ ،‬عش و محبت ‪ ،‬دنی وغیرہ‬
‫کی حقیقت کھول کھول کر اور ب ض اوق ت رمز وکن ی میں اس‬
‫طرح بی ن کرت ہے ک ق ری کو ی خ ش لگ ج تی ہے ک آخر‬
‫اس ش ر ک مط کی ہے؟ ہم رے شہر کے نزدیک ایک شہر‬
‫میں غ ل کو سمجھنے کی خ طر چند اہل دل ہر م ہ مل بیٹھتے‬

‫‪26‬‬

‫ہیں اور اپنے اپنے طور پر اظہ ر خی ل کرتے ہیں۔ جیس ک آپ‬
‫نے فرم ی ہے کسی کی تشریح حتمی نہیں ہوتی لیکن اس طرح‬

‫کے تب دل خی ل سے سوچ کی نئی راہیں تو ضرور کھ تی ہیں‬
‫اور ی بہت اہ اور نیک ک ہے۔ آپ کی تحریر بہت دلکش اور‬
‫فکر انگیز ہے۔ مجھ کو یقین ہے ک دوست اس کو پڑھ کر غ ل‬
‫کے کلا سے مست ید ہوں گے اور اس کی ہم جہت شخصیت‬

‫اور کلا سے بہرو ور بھی ہوں گے ۔شکری ۔‬

‫سرور ع ل راز‬

‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7983.0‬‬

‫‪27‬‬

‫غ ل ‘ شخص ک ش عر‬

‫میرص ح ک ت اگ ے زم نے سے تھ ۔ غ ل ‘ میر ص ح کی‬
‫شخصی اور ش ری حیٹیت کو تس ی کرتے ہیں لیکن ان کے کہے‬

‫کو اگ ے زم نے ک کہ قرار دے کر ق بل تق ی د نہیں سمجھتے۔‬
‫غ ل ک کہ غ ط نہیں‘ کیوں ک غ ل ‘ شخص ک ش عر ہے۔‬
‫غ ل تک آتے آتے فکری سم جی اور ش ری ش ور میں زمین‬
‫آسم ن ک فر آ گی تھ ۔ غ ل کےدور میں مشر و مغر ایک‬

‫ہو گیے تھے۔ اس کے غرو وط وع کے زاویے اور انداز‬
‫واطوار ہی بدل گیے تھے۔ سورج غرو ہون ہی بھول گی تھ ۔‬
‫غ ل اور راق کے درمی ن ایک صدی سے زی دہ ک عرص ح ءل‬
‫ہو گی ہے۔آج ح لات اس کے دور سے قط ی مخت ف ہیں۔ سورج‬
‫نے مشر سے ط وع ہون اپنی توہین سمجھ لی ہے۔ غ ل کے‬
‫دور میں مغر چوں ک یہ ں اق مت رکھت تھ اس لیے کچھ ن‬

‫کچھ روشنی بخش رہ تھ ۔ ا یہ ں اس کے سی ہ اور گندمی‬
‫نم ءدے وقت کی ڈور پر ہ تھ رکھے ہوءے ہیں اس لیے جگنو‬
‫بھی ج پ ن کے مض ف ت میں ج بسے ہیں اور ان کے واپسی کے‬
‫ارادے قط ی مشکوک ہو گیے ہیں۔ اس لیے غ ل کےعہد ک کہ‬
‫ہم رے لیے بےک ر اور لای نی ہو گی ہے۔ ہ زندگی کے اصول‬

‫مرت کرتے وقت غ ل کے عہد کو پیم ن نہیں بن سکتے۔‬

‫‪28‬‬

‫غ ل کے عہد میں زندگی سے مت اصطلاح ت کی ت ہی اس‬
‫عہد سے مخصوص تھی۔ مثلا کسی شخص کو ج ن سے م ر‬
‫دینے والا ق تل ج ک ج ن سے ہ تھ دھونے والا مقتول کہلات‬

‫تھ اور ی دونوں اصطلاح ت برصغیر کے ہر گوشے میں ایک‬
‫سے م نی رکھتی تھیں۔ ش عری میں مقتول ع ش ج ک‬

‫محبو ق تل کے لق سے م قو ہوت تھ ‘ لیکن ی دونوں‬
‫اصطلاح ت اپنے م نی بدل چکی ہیں۔ دونوں کے نظری تی ح قوں‬

‫میں ن بھی الگ الگ ہیں۔ آج کسی بھی اصطلاح کو کسی‬
‫مخصوص م حول‘ مخصوص ح لات اور مخصوص علاق کے‬
‫حوال سے م نی دیے ج تے ہیں اور ی بھی ک ل ظ اپنے م نی‬
‫ترک کر رہے ہیں۔ ل و لہج طبق تی ہو رہ ہے۔ ہر پرانی ب ت‘‬
‫اصول اور م م اپنی حیثیت اور م نویت تبدیل کر رہ ہے۔ ب ض‬
‫بے ک ر محض ہو گیے ہیں۔ ی کوئ نئ ب ت نہیں ایس ہوت آی‬
‫ہے اور ہوت رہے گ ۔ آج جو بھی پرانی ب توں اور اصولوں کے‬
‫مط ب زنگی کرنے پر مصر ہے‘ بنی د پرست ک ن پ ت ہے۔ ہر‬
‫بنی د پرست‘ دہشت گرد اچھوت اور امن دشمن سمجھ ج ت ہے۔‬

‫وہ جوتے کی نوک پر رہت ہے۔‬

‫میر ص ح اپنے عہد کے نم ءندہ ہیں۔ ان کے کلا میں‘ ان ک‬

‫‪29‬‬

‫عہد بولت ہے اس لیے میر ص ح کے کلا کے مط ل کے‬
‫لیے‘ جہ ں ان کے ذاتی ح لات سے آگہی ضروری ہے‘ وہ ں ان‬

‫کے عہد ک مط ل بھی لاز قرار پ ت تھ ۔ است د غ ل کے ہ ں‬
‫بھی ان کے عہد کی عک سی م تی ہے۔ ت ہ است د غ ل اور میر‬

‫ص ح میں بنی دی فر ی ہے ک است د غ ل محمد تغ کی‬
‫طرح اپنے عہد سے ب ہر کے بھی شخص ہیں۔ انھوں نے دو چ ر‬
‫صدی ں پہ ے جن لے لی ۔ اس حوال سے ان کے کلا کو آج کے‬

‫تن ظر میں دیکھ لی ج ءے‘ تو غ ط ن ہو گ ۔ اٹ ب تو بڑی ب د‬
‫کی ایج د ہے‘ اسٹی انجن بھی ب د میں ایج د ہوا‘ غ ل اس ک‬
‫آیڈی ک فی پہ ے دے چکے تھے۔ کوئ ب ت مس سل چ تی رہے‘‬
‫تو وہ فطرت ث نی بن ج تی ہے۔ شخصی کی ‘ اس ک اطلا‬

‫سوس ءٹی پر بھی ہوت ہے۔ است د غ ل نے اس ن سی تی مس ے‬
‫ک اظہ ر تو بہت پہ ے کر دی تھ ۔ اگر ہ است د غ ل کی کسی کہی‬
‫کو‘ آج کے حوال سے لیتے ہیں‘ تو ی ایسی غ ط ب ت ن ہو گی۔‬

‫است د غ ل شخص کے ش عر ہیں۔ شخص صرف دلی ہی میں‬
‫نہیں اق مت رکھت ۔ اس لیے‘ غ ل کو مک نی ش عر بھی نہیں کہ‬

‫ی سمجھ ج سکت ۔ غ ل نے کبھی سر ف پ سڈنی ک ن بھی‬
‫نہیں سن ہوگ ۔ ولی ورڑز ورتھ ک یہ ں شہرہ بڑی ب د کی ب ت‬

‫ہے۔ شی ی اور گوءٹے‘ اس وقت ک تھے۔ ج ن کیٹس کی‬
‫غ ل کے فرشتوں کو ‘‪ a fine excess‬م روف اصطلاح‬

‫‪30‬‬

‫بھی م و نہیں ہو گی‘ زرا غ ل کی زب ن کو بڑے کینوس پر‬
‫رکھ کر غور کریں‘ تو ی لوگ اس کے قری کے لوگ ہیں۔‬

‫امریک کے ہنری لانگ فی و اور ایم ی ڈکنسن اس کےمزاج کے‬
‫لوگ نہیں ہیں‘ لیکن ب ض چیزوں ک اشترا ق بل حیرت ہے۔‬
‫ش رل بودلیءر اور غ ل کئ م لات میں‘ ہ مزاج محسوس‬
‫ہوتے ہیں۔اسی طرح میں غور کر رہ تھ اوشو اور فینگ سیو‬
‫فینگ بھی فکری قربت کے ح مل ہیں۔‬

‫اقب ل‘ غ ل کے ب د ک ش عر ہے۔ شکوہ اس کی م روف نظ‬
‫ہے۔غ ل نے اس ک کہ دو مصرعوں میں کہ دی تھ ۔ لگت ہے‘‬

‫ی نظ ان کے اس ش ر کی خوبصورت تشریح ہے۔ غور‬
‫فرم ءیں گے تو عظی صوفی ش عر ش ہ حسین لاہوری کے کہے‬

‫کی ب زگشت است د غ ل کے ہ ں سن ئ دے گی۔‬

‫کہنے ک مقصد ی ہے ک است د غ ل کے کلا ک مط ل ‘‬
‫مخصوص زم نی و مک نی حوال سے کرن ‘ ک ر گر ث بت نہیں ہو‬
‫سکت ۔ کوئ جہ ں بھی ہے‘ اسے اپنے حوال سے دیکھے‘ غ ل‬

‫م یوس نہیں کرے گ ۔ است د غ ل ک مط ل ‘ گوی شخص ک‬
‫مط ل ہے۔ شخص بھی ایس ‘ جو مخصوص زم ن و مک ن ک‬
‫پندی نہیں۔ است د غ ل شر و غر کے ش عر ہونے کے س تھ‬

‫‪31‬‬

‫س تھ صرف گزرے کل کے ش عر نہیں ہیں‘ وہ گزرتے آج کے‬
‫ش عر بھی ہیں۔‬

‫زندگی ہر حواال سے سنجیدہ ہی نہیں پچیدہ عمل بھی ہے۔ اس‬
‫کی ایک کروٹ سوچ کو کہیں ک کہیں لا کھڑا کرتی ہے۔ یہی‬

‫نہیں‘ ہر لمح کروٹ لین ‘ زندگی ک چ ن اور وتیرہ ہے۔ ایسے‬
‫میں مستقل نوعیت کی ب ت کرن ‘ حیرت کدے میں لے ج تی ہے۔‬
‫زندگی کے کسی ایک حوالے اور ایک رویے سے آگہی کے لیے‬

‫صدی ں درک ر ہوتی ہیں۔ غ ل کے لیے ی س بچوں ک کھیل‬
‫ہے۔ دونوں جہ ں لے کر مذید کی توقع‘ انس نی ن سی ت ک‬

‫خصوصی پہ و ہے۔ ی بھی ک ‘ ی ٹھہراؤ کے عمل پر گہری‬
‫چوٹ کے مترادف ہے۔ است د غ ل کے ق ری پر لاز آت ہے‘ ک‬

‫وہ اس کی زب ن کو آف قی کینوس پر رکھ کر‘ م ہی دری فت‬
‫کرے‘ ورن غ ل ک کہ ‘ ہ تھ سے پھسل پھسل ج ءے گ ۔‬

‫‪32‬‬

‫غ ل کی ف رسی میں اردو ش عری‬

‫غ ل کے عہد میں ف رسی ک پت ک ٹ ج چک تھ اور وہ ایک‬
‫غیر موثر طبقے میں اپنی زندگی کی آخری س نسیں گن رہی تھی۔‬

‫غ ل اس حقیقت کو پوری طرح محسوس کر رہے تھے۔ انہیں‬
‫ف رسی سے بے پن ہ ال ت تھی۔ انہیں اس امر ک احس س ہو گی‬
‫تھ ک آنے والا وقت ف رسی کو بھول ج ئے گ ۔ یہی وج ہے ک‬

‫اسے اردو دان طبقے میں زندہ رکھنے کے لئے اپنی اردو‬
‫ش عری میں مخت ف حربے اور طریقے است م ل کرتے ہیں۔‬
‫گزرے کل کی اردو میں ف رسی اس لئے زندہ ہے ک وہ ف رسی‬
‫ک دور تھ ۔ غ ل کی اردو ش عری میں ف رسی اس لئے زندہ ہے‬
‫ک لوگوں میں کچھ ف رسی ک ذو ب قی رہے۔ ان کے ہ ں ‪،‬جو‬

‫‪:‬حربے است م ل ہوئے ہیں ان میں سے کچھ ی ہیں‬
‫الف۔ ف رسی اش ر میں اردو کے ال ظ ش مل کر دیتے ہیں۔‬

‫۔ بہت سے مصرعے ف رسی میں ہوتے ہیں۔‬
‫ج۔ ال ظ ف رسی ہوتے ہیں ‪،‬اس و تک اردو ہوت ہے۔‬
‫د۔ ال ظ اردو ہوتے ہیں لیکن بندش ف رسی ہوتی ہے۔‬
‫ھ۔ ف رسی کے مخصوص ال ظ اردو میں ف رسی م ہی کے س تھ‬

‫لے آئے ہیں۔‬

‫‪33‬‬

‫و۔ ف رسی مرک توصی ی مخصوص‪ ،‬بول‪ ،‬مخصوص اس ف عل‬
‫اور مص در مخت ف طریقوں سے اردو میں نظ کر دیتے ہیں۔‬

‫درج ب لا م روض ت کی سند میں غ ل کی اردو ش عری میں سے‬
‫‪:‬چند مث لیں بطور نمون پیش کر رہ ہوں‬

‫ک ت افسردگی کو عیش بے ت بی حرا‬

‫ورن دنداں در دل افشر دن بن ئے خندہ ہے‬

‫پورا ش ر ف رسی میں ہے۔ صرف ’’کو‘‘ اور ’’ہے‘‘کو بدلنے‬
‫ضرورت ہے۔‬

‫ک ت افسردگی را عیش بے ت بی حرا‬

‫ورن دندان دردل افشردن بن ئے خندہ ہست‬

‫ش رکی بنی دی خصوصیت اس ک مضمون ہے۔ی مضمون کسی‬
‫مخصوص ک چر تک محدود نہیں۔ سچ ئی یہی ہے ک بے ت بی‬

‫میں حرکت بڑھ ج تی ہے اور سوچ جمود ک شک ر نہیں ہوت‬
‫جبک افسردگی حرکت کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ مثل مشہور‬
‫ہے دکھ کے ب د سکھ میسر آت ہے۔ ش ر کے بیشتر ال ظ اردو‬

‫میں رواج ع رکھتے ہیں۔ افسردگی‪ ،‬عیش‪ ،‬بے ت بی‪ ،‬ورن‬
‫‪،‬دل‪ ،‬خندہ‪ ،‬دندان۔ غ ل اس حقیقت کو کیش کروا رہے ہیں۔ ی‬
‫ف رسی ش ربھی بلا تر دد اردو کے کھ تے میں ڈال رہے ہیں۔‬

‫ی طوف ن گ ہ جوش اضطرا ش تنہ ئی‬

‫‪34‬‬

‫ش ع آفت صبح محشر ت ر بستر ہے‬
‫ل ظ ’’ہے‘‘ کی جگ ’’ہست ‘‘رکھ دیں ش ر ف رسی میں ہو ج ئے‬
‫گ ۔ دوسری طرف ی ب ت بھی درست ہے ک ش ر کے تم ال ظ‬

‫اردو میں بکثرت است م ل ہوتے ہیں۔‬
‫شم ر سج مرغو بت مشکل پسند آی‬

‫تم ش ئے بیک کف بر دن پسند آی‬
‫آی ‘‘ کی جگ ’’آمد ‘‘رکھ دیں پورا ش ر ف رسی میں ہو ج ئے ’’‬

‫گ ۔ شم ر‪ ،‬مرغو ‪ ،‬مشکل‪ ،‬پسنداور دل اردو کے لئے اجنبی‬
‫نہیں ہیں۔‬

‫غنچ ت شگ تن ہ ئے برگ ع فیت م و‬
‫ب وجود دل جم ی خوا گل پریش ن ہے‬
‫ش ر میں ’’ہے‘‘ کے سوا تم ال ظ ف رسی ہیں ت ہ اس وبی‬

‫اعتب ر سے ش ر ف رسی نہیں۔‬
‫ن لائی شوخی اندیش ت رنج نو میدی‬

‫کف افسوس م ن عہد تجدید تمن ہے‬
‫ن لائی‪ ،‬م ن اور ہے کے سوا تم ال ظ ف رسی کے ہیں۔ ’’ت‬

‫ن لان ‘‘ م روف اردو مح ورہ ہے۔‬
‫ش خم ر شو س قی رستخیز اندازہ تھ‬

‫‪35‬‬

‫ت محیط ب دہ صورت خ ن خمی زہ تھ‬
‫ش ر میں ’’تھ ‘‘ کے سوا کوئی ل ظ اردو ک نہیں۔ ت ہ ش ر کے‬

‫تم ال ظ اردو کے لئے اجنبی نہیں ہیں۔‬
‫درس عنوان تم ش ب تغ فل خوش تر‬

‫ہے نگ رشت شیرازہ مثرگ ں مجھ سے‬

‫ش ر ک پہلا مصرع ف رسی میں ہے جبک دوسرے مصرعے میں‬
‫’’ہے‘‘ او ر ’’مجھ سے ‘‘غیر ف رسی ال ظ ہیں۔ ت ہ ش ر کے‬
‫جم ف رسی ال ظ اردو میں بکثرت است م ل ہوتے ہیں۔‬
‫بروئے شش جہت در آئین ب ز ہے‬
‫ی ں امتی ز ن قص و ک مل نہیں رہ‬
‫ش ر ک پہلا مصرع اس وبی اور طرز ادا کے حوال سے اردو‬
‫سے مت نہیں ہے۔‬
‫تھی نو آموز فن ہمت دشوار پسند‬
‫سخت مشکل ہے ی ک بھی آس ں نکلا‬
‫ش ر ک پہلا مصرع مکمل ف رسی میں ہے جبک مصرعے کے‬
‫تم ال ظ اردو میں بکثرت است م ل ہوتے ہیں۔ نواور آموز‬

‫دونوں‪ ،‬بطور س بق اور لاحق اردو میں مست مل چ ے آتے ہیں۔‬

‫‪36‬‬

‫بوئے گل ن ل دل دود چرا مح ل جو تری بز سے نکلا سو‬
‫پریش ں نکلا‬

‫ش ر ک پہلا مصرع ف رسی ہے۔‬
‫ہم ن امیدی ہم بدگم نی میں‬
‫دل ہوں فری وف خوردگ ں ک‬

‫پہلا مصرع بطرز ادا ‪،‬ف رسی ہے جبک دوسرے مصرع میں‬
‫’’فری وف خوردگ ں‘‘ ف رسی کے ال ظ ہیں۔‬
‫ہے شکستن سے بھی دل نو مید ی ر‬

‫ا ت ک آبگین کوہ پر عرض گر اں ج نی کرے‬
‫پہ ے مصرعے ک ف رسی آمیز اردو اس و ہے جبک دوسرے‬
‫مصرعے میں ’’پر‘‘ اور کرے کے سوا تم ال ظ ف رسی ہیں‬

‫ت ہ اس و تک ف رسی نہیں ۔‬
‫ک نہیں ن زش ہمت ئی چش خوب ں‬
‫تیرا بیم ر برا کی ہے گر اچھ ن ہوا‬
‫پہ ے مصرعے میں ’’ک نہیں‘‘ کے سوا تم ال ظ ف رسی ہیں۔‬

‫دل آش تگ ں خ ل گنج دہن کے‬
‫سویدا میں سیر عد دیکھتے ہیں‬




























Click to View FlipBook Version